نو جوانوں کے لئے اصول عقائدکے پچاس سبق

نو جوانوں کے لئے اصول عقائدکے پچاس سبق0%

نو جوانوں کے لئے اصول عقائدکے پچاس سبق مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب

نو جوانوں کے لئے اصول عقائدکے پچاس سبق

مؤلف: آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی
زمرہ جات:

مشاہدے: 22325
ڈاؤنلوڈ: 3063

تبصرے:

نو جوانوں کے لئے اصول عقائدکے پچاس سبق
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 68 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 22325 / ڈاؤنلوڈ: 3063
سائز سائز سائز
نو جوانوں کے لئے اصول عقائدکے پچاس سبق

نو جوانوں کے لئے اصول عقائدکے پچاس سبق

مؤلف:
اردو

تیسرا سبق: آفات و بلیّات کا فلسفہ( ۱)

قدیم زمانہ سے آج تک ایک ناآگاہ گروہ نے عدل الہٰی پر نکتہ چینی کی ہے اور ایسے مسائل پیش کئے ہیں جو ان کے اعتقاد کے مطابق عدل الہٰی سے ساز گار نہیں ہیں، یہاں تک کہ بعض اوقات نہ صرف ان مسائل کو عدل الہٰی کی نفی کی دلیل بلکہ انھیں وجود خدا کے انکار کی دلیل سمجھے ہیں!

من جملہ ان کے ناگوار حوادث کا وجود ،جیسے طو فان ،زلزلہ اور دوسرے عام مصائب ۔

اسی طرح وہ فرق جو مختلف انسانوں میں پایا جاتا ہے۔

اس کے علاوہ انسان ،نباتات اور دوسری مخلوقات کو پیش آنے والی مصیبتیں اور آفتیں۔

یہ بحث،کبھی مادہ پرستوں کے مقابلہ میں معرفت خدا کی بحث میں پیش کی جاتی ہے اور کبھی عدل الہٰی کی بحث میں،ہم اسے اس بحث میں پیش کرتے ہیں۔

یہ جاننے کے لئے کہ،دقیق تجزیہ کے نتیجہ میں یہ تصور کس حدتک غلط ہے ،اس موضوع پر ایک مفصل بحث اور مندرجہ ذیل مطالب کی د قیق کی تحقیق ضرورت ہے:

۱ ۔محدود معلومات اورحالات کے زیر اثر فیصلے

عام طور پرہم اپنے فیصلوں اور مصادیق کی تشخیص میں مختلف اشیاء کے اپنے ساتھ رابطہ پر تکیہ کرتے ہیں ۔مثلاًہم کہتے ہیں فلاں چیز دور ہے یانزدیک یعنی ہماری نسبت۔

یافلاں شخص طاقتور ہے یا کمزور،یعنی ہماری روحی یا جسمی حالت کی نسبت اس کی حالت ایسی ہے ۔خیر وشر اور مصیبت وبلا کے بارے میں بھی لوگوں کے فیصلے اکثر اسی طرح کے ہوتے ہیں ۔

مثلاًاگر کسی علاقہ میں وسیع پیمانے پر بارش برسے ،ہمیں اس سے سرو کار نہیں ہے کہ اس بارش کے مجموعی اثرات کیسے تھے ،ہم صرف اپنی زندگی،گھر اورکھیت یازیادہ سے زیادہ اپنے شہر کی حد تک نظر ڈالتے ہیں ،اگر اس کا مثبت اثر تھا تو کہتے ہیں یہ نعمت الہٰی تھی ،اگر منفی تھا تو اسے ”بلا“کہتے ہیں۔

جب ایک پرانی اور فرسودہ عمارت کو نئے سرے سے تعمیر کرنے کے لئے گراتے ہیں اور ہم پر وہاں سے گزرتے ہوئے اس کے گرد وغبار پڑتے ہیں تو کہتے ہیں :کیسا برا حادثہ ہے،اگر چہ آئندہ وہاں پرہسپتال ہی کیوں نہ تعمیر ہو اور دوسرے لوگ اس سے مستفید ہوں اور بارش کی مثال میں اگرچہ مجموعی طور پر علاقہ کے لئے مثبت اثرات ظاہر ہوں۔

ہم سطحی اور عام طور پر سانپ کے ڈسنے کو ایک مصیبت اور شر سمجھتے ہیں ۔ہم اس سے غافل ہیں کہ یہی ڈسنا اور زہر اس حیوان کے لئے دفاع کا ایک موثر وسیلہ ہے اور ہم اس سے بے خبر ہیں کہ گاہے اسی زہر سے حیات بخش دوائی بنائی جاتی ہے جو ہزاروں انسانوں کو موت سے نجات دیتی ہے۔

اس لئے اگر ہم مغالطہ سے بچناچاہیں تو ہمیں اپنی محدود معلو مات پر نظر ڈالنی چاہئے اور فیصلہ کرتے وقت صرف اشیاء کے اپنے ساتھ روابط کو مد نظر نہیں رکھنا چاہئے بلکہ ہمیں تمام جہتوں کو مد نظر رکھ کر فیصلہ کرناچاہئے۔

بنیادی طور پر دنیا کے حوادث زنجیر کی کڑیوں کے مانند آپس میں ملے ہوئے ہیں: آج،ہمارے شہر میں آنے والاطوفان اور سیلاب لانے والی بارش کا برسنا اس طولانی سلسلہ کی ایک کڑی ہے جو دوسرے حوادث کے ساتھ مکمل طور پر مربوط ہے اسی طرح یہ ماضی میں رو نما ہوئے اور مستقبل میں رونما ہونے والے حوادث سے جڑے ہوئے ہیں۔

نتیجہ کے طور پر حوادث کے ایک چھوٹے حصہ پر انگلی رکھ کر اس کے بارے میں فیصلہ کر نا منطق اورعقل کے مطابق نہیں ہے۔

قابل انکار چیزصرف مطلق شر کی خلقت ہے۔لیکن اگرکوئی چیز کسی جہت سے خیر اور کسی جہت سے شر ہو اور اس کا خیر غلبہ رکھتا ہو تو کوئی مشکل نہیں ہے ۔ایک آپریشن کچھ جہات سے تکلیف دہ اور زیادہ تر جہات سے مفید ہے ،اس لئے نسبتاً خیر ہے۔

پھر مزید وضا حت کے لئے زلزلہ کی مثال پر غور کیا جاسکتا ہے:صحیح ہے کہ ایک جگہ پر زلزلہ ویرانی اورتباہی لاتا ہے ۔لیکن اگر ہم دوسرے مسائل سے اس کے سلسلہ وار روابط کو مد نظر رکھیں تو ممکن ہے ہمارا فیصلہ بدل جائے ۔

اس سلسلہ میں سائنسدانوں کے مختلف نظریات ہیں کہ زلزلہ زمین کی اندرونی گرمی اوربھاپ سے مربوط ہے یا چاند کی قوت جاذبہ سے مربوط ہے جو زمین کی خشک و جامد سطح کو اپنی طرف کھینچتا ہے اور کبھی اسے توڑ دیتا ہے ،یا دونوں چیزوں سے مربوط ہے؟

لیکن مذکورہ عوامل میں سے جوبھی ہو،اس کے آثار کو مد نظر رکھناچاہئے ۔یعنی ہمیں جاننا چاہئے کہ زمین کی اندرونی گرمی ،زمین کے اندر موجود تیل کے ذخائر اور کوئلے کی کانوں اور دوسری چیزوں کی تولیدپرکیا اثر ڈالتی ہے؟!اس لئے یہ نسبتاً خیر ہے۔

اس کے علاوہ سمندروں کے مدوجزر،سمندروں کے پانی اور اس میں موجود جانوروں کی حفاظت اور کبھی خشک سواحل کی آبیاری میں کتنے موثر ہیں!یہ بھی نسبتاً خیر ہے۔

یہاں پر ہم سمجھتے ہیں کہ ہماری سطحی فیصلے اور محدود معلو مات ہیں جنھوں نے عالم خلقت کے ان امور کوتاریک کی صورت میں پیش کیا ہے ۔ہم جس قدر حوادث کے آپسی روابط اور پیوند کے بارے میں زیادہ غور کریں گے اس مطلب کی اہمیت کے بارے میں اتناہی زیادہ آگاہ ہوں گے۔

قرآن مجید فر ماتا ہے:

( وما اویتم من العلم إلاّ قلیلاً ) ( سورہ اسراء/ ۸۵)

”اور تمھیں بہت تھوڑا ساعلم دیا گیا ہے۔“

لہذا اس تھوڑے سے علم و دانش کے ذریعہ فیصلہ کر نے میں جلدی نہیں کرنی چاہئے۔

۲ ۔ناخوشگوار اور انتباہ کر نے والے حوادث

ہم نے ایسے افراد کو دیکھا ہے کہ جب وہ کسی نعمت میں غرق ہوتے ہیں تو”خود خواہی اور غرور“سے دو چار ہوتے ہیں اور اس حالت میں بہت سے اہم انسانی مسائل اور اپنے فرائض کو بھول ڈالتے ہیں ۔

اور ہم سب نے یہ بھی دیکھا ہے کہ زندگی کے مکمل آرام وآسائش کی حالت میں انسان کس طرح”خواب غفلت “میں پڑ جا تا ہے کہ اگر انسان کی یہ حالت جاری رہی تو وہ بد بختی سے دو چار ہو جاتا ہے ۔

بیشک زندگی کے بعض ناخوشگوار حوادث انسان کو غرور وتکبر اور غفلت کی نیند سے بیدار کر نے کے لئے ہیں۔

آپ نے یقینا سنا ہو گا کہ با تجربہ اور ماہر ڈرائیور صاف و ہموار اور پیچ و خم اور موڑوں سے خالی سڑ کوں کے بارے میں اعتراض کرتے ہیں اور اس قسم کی سڑ کوں کو خطر ناک جانتے ہیں ،کیونکہ سڑکوں کا ہموار و یکسان ہو نا ڈرائیور کے لئے خواب آور ہو نے کا سبب بنتا ہے اور وہ خطرہ سے دوچار ہوسکتا ہے۔

حتی کہ بعض ملکوں میں مشاہدہ کیا گیا ہے کہ اس قسم کی سڑکوں پر مصنوعی نشیب و فراز ( speed breaker ) سپیڈبریکراور موڑ بنائے جاتے ہیں تاکہ اس قسم کے خطرات کو روکا جاسکے ۔

انسان کی زندگی کا راستہ بھی ایسا ہی ہے ۔اگر زندگی میں نشیب و فرازاور مشکلات نہ ہوں اور اگر کبھی کبھار ناگوار حوادث پیش نہ آئیں تو انسان کے لئے خدا، اپنے سر انجام اور اپنی ذمہ داریوں سے غفلت برتنا یقینی بن جاتا ہے ۔ہم ہر گز یہ نہیں کہتے کہ انسان خود اپنے لئے ناخوشگوار حوادث ایجاد کرے اور مصیبتوں کی طرف بڑھے، کیونکہ انسان کی زندگی میں یہ امورہمیشہ سے تھے اور رہیں گے ،بلکہ ہم یہ کہتے ہیں کہ اسے توجہ کر نی چاہئے کہ ان حوادث میں سے بعض کا فلسفہ یہ ہے کہ انسان کے غرور وغفلت کے لئے رکاوٹ بنیں کیو نکہ یہ چیزیں اس کی سعادت وخوشبختی کی دشمن ہیں ۔ہم پھر کہتے ہیں کہ یہ فلسفہ بعض ناخوشگوار حوادث سے متعلق ہے،نہ کہ تمام حوادث سے متعلق۔باقی حصہ کے بارے میں انشا اللہ بعد میں بحث کریں گے۔

اس سلسلہ میں ہماری عظیم آسمانی کتاب قرآن مجید میں یوں ارشاد ہوتا ہے:

( فاخذنٰهم بالباسآء والضرّآء لعلّهم یتضرّعون)

( سورہ انعام/ ۴۲)

”اس کے بعد انھیں سختی اور تکلیف میں مبتلا کیا کہ شاید ہم سے گڑ گڑائیں۔“

غور کیجئے اور جواب دیجئے

۱ ۔کن لوگوں نے آفات ومصائب کے مسئلہ کو عقائد میں شامل کیا ہے؟

۲ ۔آفات ومصائب کے کچھ نمو نے بیان کیجئے ،کیا آپ اپنی زندگی میں کبھی ان سے دوچار ہوئے ہیں؟

۳ ۔نسبتی اور ہمہ جہت فیصلہ اور ”شر مطلق“ و ”خیر مطلق“ کیا ہے؟

۴ ۔کیاطوفان اور زلزلے یقینا نقصان دہ ہیں؟

۵ ۔ناخوشگوارحوادث انسان کی زندگی میں کونسے مثبت نفسیاتی اثرات ڈال سکتے ہیں؟

چوتھا سبق:آفات و بلیّات کا فلسفہ( ۲)

ہم نے کہا کہ انسانی زندگی میں رو نما ہو نے والے ناخوشگوار حوادث،آفات،مشکلات اور ناکامیوں پر اعتراض کر نے والوں نے ان چیزوں کوعدل الہٰی سے انکار کر نے کا بہانہ قرار دیا ہے بلکہ بعض اوقات اسی بہانہ سے پرور دگار کے وجود کے بھی منکر بن گئے ہیں!

گزشتہ بحث میں ہم نے ان حوادث کے ایک حصہ پر بحث و تحقیق کی اور اس کے دو فلسفوں کی وضاحت کی ۔یہاں پر ہم اسی بحث کو جاری رکھتے ہیں ۔

۳ ۔انسان مشکلات میں پرورش پاتا ہے

ہم پھر یہ بات کہتے ہیں کہ ہمیں اپنے ہاتھوں اپنے لئے مشکلات اور حوادث ایجاد نہیں کر نے چاہئے ۔لیکن اس کے باوجود بہت سے مواقع پر سخت اور نا خوشگوار حوادث اور مشکلات ہمارے ارادہ کو تقویت بخشنے کا سبب بنتے ہیں،جس طرح لوہا بھٹی میں ڈال کر گرم کیا جاتا ہے اور وہ سرد و گرم جھیل کر پائدار ہو جاتا ہے ،اسی طرح ہم بھی حوادث کی بھٹی میں سرد و گرم زمانہ جھیل کر پختہ اور قوی بن جاتے ہیں۔

جنگ ایک بری چیز ہے،لیکن کبھی ایک سخت اور طولانی جنگ ایک ملت کی استعداد کو وسعت بخشتی ہے ،اختلافات کو اتحاد و یکجہتی میں تبدیل کرتی ہے اور پسماند گیوں کی تیزی کے ساتھ تلافی کر تی ہے۔

ایک معروف مغربی مورّخ کہتا ہے :”پوری تاریخ میں دنیا کے کسی بھی گوشے میں ہر نمایاں تہذیب کا ظہور،ایک ملک پر کسی بیرونی بڑی طاقت کے حملہ کے بعد رونما ہو تا ہے اور یہی بیرونی حملہ اس ملک کی سوئی ہوئی قوتوں کو بیدار کر کے انھیں منسجم و متحد کر دیتا ہے“

لیکن زندگی کے تلخ حوادث کے مقابلہ میں ہر فرد اور ہر معا شرہ کا رد عمل یکساں نہیں ہو تا ہے ۔بعض لوگ ان حوادث کے مقا بلہ میں یاس و نا امیدی اور ضعف وبد ظنی کے شکار ہو جاتے ہیں اور منفی نتیجہ حاصل کرتے ہیں۔لیکن جن لوگوں کے پاس مناسب وسائل موجود ہو تے ہیں ،وہ ان حوادث کے مقابلہ میں جوش وجذبہ سے حرکت میں آجاتے ہیں اور اپنی کمزوریوں کی تیزی کے ساتھ اصلاح کرتے ہیں۔

چونکہ ایسے مواقع پر اکثر لوگ سطحی فیصلہ کر تے ہیں اورصرف مشکلات اور سختیوں کو دیکھتے ہیںاس لئے وہ ان کے مثبت اور تعمیری آثار کو نہیں دیکھ پاتے۔

ہم یہ دعویٰ نہیں کرتے ہیں کہ انسان کی زندگی کے تمام تلخ حوادث کے ایسے ہی اثرات ہوتے ہیں ،لیکن کم از کم ان میں سے بعض ایسے ہی ہیں۔

اگر آپ دنیا کے غیر معمولی انسانوں کی زندگی کا مطالعہ کریں گے تو معلوم ہو جائے گا تقریباً وہ سب مشکلات اور سختیوں میں پلے ہیں ،ایسے بہت کم لوگ پائے جاتے ہیں ،جو عیش وعشرت میں پلے ہوں اور غیر معمولی شخصیت بن کر شہرت پائے ہوں۔فوج کے کمانڈر وہ بنتے ہیںجوسخت اور طولانی میدان کار زار میں اپنے جوہر دکھاتے ہیں ۔عظیم اقتصاددان وہ ہو تے ہیں جو بحران زدہ اقتصادی بازاروں میں گرفتار رہے ہیں ۔

بڑے اور قدرتمند سیاست دان وہ ہوتے ہیں جو اپنی سیاسی تحریک میں مشکلات سے مقابلہ کرتے ہیں اور سختیاں جھیلتے ہیں ۔

مختصر یہ کہ انسان مشکلات اور سختیوں کی آغوش میں پرورش پاتا ہے۔

ہم قرآن مجید میں یوں پڑھتے ہیں:

( فعسیٰ ان تکرهوا شیئاً ویجعل اللّٰه فیه خیرا کثیراًً)

( سورہ نساء/ ۱۹)

”ہو سکتا ہے کہ تم کسی چیز کو ناپسند کرتے ہو اور خدا اسی میں خیر کثیر قرار دے۔“

۴ ۔ مشکلات خدا کی طرف پلٹنے کا سبب ہیں

ہم نے گزشتہ بحثوں میں پڑھا کہ ہمارے وجود کے ہر ایک حصہ کا ایک مقصد ہے۔آنکھ ایک مقصد کے لئے ہے ،کان ایک دوسرے مقصد کے لئے ،دل،دماغ اور اعصاب میں سے ہرایک کسی نہ کسی مقصد کے لئے پیدا کئے گئے ہیں ،یہاں تک کہ ہماری انگلیوں کی لکیروں میں بھی ایک فلسفہ مضمر ہے۔

اس بنا پر کیسے ممکن ہے کہ ہمارا پورا وجود مقصد اور فلسفہ کے بغیر ہو؟

ہمیںگزشتہ بحثوں میں معلوم ہوا کہ یہ مقصد،انسان کے تمام جہتوں میں تکامل حاصل کر نے کے علاوہ کوئی اور چیز نہیںہے۔

اس تکامل تک پہنچنے کے لئے یقینا،تعلیم وتر بیت کے ایک ایسے عمیق نظام کی ضرورت ہے جو انسان کے پورے وجود پر حاوی ہے ۔اسی لئے خداوند متعال نے انسان کو پاک توحیدی فطرت عطا کر نے کے علاوہ عظیم انبیاء کو آسمانی کتابوں کے ساتھ بھیجا تاکہ اس راہ میں انسان کی رہبری کی ذمہ داری نبھائیں ۔

اس کے ساتھ اس مقصد کی تکمیل کے لئے ضروری ہے کہ کبھی کبھی انسان کو اس کے گناہوں اور خطاؤں کا رد عمل دکھا یا جائے اور خدا کی نافر مانی کے نتیجہ میں وہ اپنی زندگی میں مشکلات سے دو چار ہو تاکہ اپنے برے اعمال کے نتائج سے آگاہ ہو کر خدا کی طرف پلٹ آئے ۔ایسے ہی مواقع پر بعض بلائیں اور نا خوشگوار حوادث رحمت و نعمت الہٰی ہو تے ہیں۔

جیساکہ قرآن مجید یاددہانی کرتا ہے:

( ظهر الفساد فی لبرّ والبحر بما کسبت ایدی النّاس لیذیقهم بعض الّذی عملوا لعلّهم یرجعون)

( سورہ روم/ ۴۱)

”لوگوں کے ہاتھوں کی کمائی کی بناپر فساد خشکی اور تری ہر جگہ غالب آگیا ہے تا کہ خدا ان کے کچھ اعمال کا مزہ چکھادے تو شاید یہ لوگ پلٹ کر راستے پر آجائیں ۔“

مذکورہ بیان کے پیش نظر درد ناک حوادث کو”شر“ کامصداق جاننا، انھیں ”بلائیں“کہنا،اور انھیں عدل الہٰی کے خلاف سمجھنا عقل و منطق کے خلاف ہے،کیو نکہ جتنا ہم اس مسئلہ میں عمیق تر غور کریں گے زیادہ سے زیادہ اس کے اسرار و رموز سے آگاہ ہوں گے۔

غور کیجئے اور جواب دیجئے

۱ ۔ہماری خلقت کا مقصد کیا ہے؟اس مقصد تک کیسے پہنچا جاسکتا ہے؟

۲ ۔انسان مشکلات کا مقابلہ کر کے کیسے سیسہ پلائی ہوئی دیوار کے مانند قوی بن سکتا ہے؟

۳ ۔کیا آپ نے ایسے افراد کو دیکھا ہے یا تاریخ میں پڑھا ہے جو مشکلات اور سختیوں سے مقابلہ کر نے کے نتیجہ میں عظیم مرتبہ پر فائز ہو چکے ہوں؟ ان کے حالات زندگی بیان کیجئے۔

۴ ۔ہمارے گناہوں کے رد عمل کے بارے میں قرآن مجید کیا فر ماتا ہے؟

۵ ۔تلخ اور نا خوشگوار حوادث سے کون لوگ مثبت نتیجہ حاصل کرتے ہیں اور کون لوگ منفی نتیجہ اخذ کرتے ہیں؟

پانچواں سبق;آفات و بلیّات کا فلسفہ ( ۳)

چونکہ خدا کی معرفت اور توحید کے مباحث کا مطالعہ کر نے والوں کے لئے ناخوشگوار آفات و حوادث کی مشکل ایک قابل غور مشکل ہے،اس لئے ہم آفات و حوادث کے بارے میں مزید فلسفوں کو بیان کر نا ضروری سمجھتے ہیں ،لہذا اس بحث کو آگے بڑھا تے ہیں ۔

۵ ۔مشکلات اور نشیب وفراز زندگی کو روح بخشتے ہیں

شاید بعض افراد کے لئے اس مسئلہ کا ادراک مشکل ہو گا کہ اگر خدا کی نعمتوں کا سلسلہ جاری اور یکساں ہو تو وہ اپنی اہمیت کھو دیتی ہیں۔

آج ثابت ہو چکا ہے کہ اگرایک جسم کوایک کمرہ کے بیچ میں رکھا جائے اور اسپر ہر طرف سے یکساں اور تیز روشنی ڈالی جائے اور خود جسم اور کمرہ بھی مکمل طور پر شفاف اور گول ہوں،تواس جسم کو ہر گز دیکھا نہیں جا سکتا ہے۔ کیونکہ ہمیشہ جب روشنی کے کنارے سائے قرار پاتے ہیں تو وہ جسم کے ابعاد کو مشخص کر تے ہیں اور اسے اپنے اطراف سے جدا کرتے ہیں اور ہم اسے دیکھ سکتے ہیں۔

زند گی کی نعمتوں کی قدر و قیمت بھی مشکلات کے پرُ رنگ اور کم رنگ سایوں کے بغیر قابل مشاہدہ نہیں ہے ۔اگر کوئی شخص زندگی بھر کبھی بیمار نہ ہو تو وہ ہر گز صحت و سلا متی کے مزہ کا احساس نہیں کر سکتا ہے ۔اس کے بر عکس اگر وہ ایک رات کو شدید بخار اور سر درد میں مبتلا ہو جا ئے اور صبح ہو نے پر وہ اس بخار اور سر درد سے نجات پا جائے تو صحت و سلامتی کا مزہ اس کے ذائقہ کو اس قدرشیرین کر تا ہے کہ جب کبھی اسے اس بحرانی اور المناک رات کی یاد آتی ہے تو اسے معلوم ہو تا ہے کہ اس کے پاس صحت وسلامتی نام کا کون ساقیمتی گوہر ہے۔

یکساںزندگی۔حتی خوشحال ترین زندگی۔بالکل تھکا دینے والی،بے روح اور مہلک زندگی ہو تی ہے ۔اکثر مشاہدہ کیا گیا ہے کہ بعض افراد خوشحال اور ہر قس کے رنج والم سے خالی زندگی سے اس قدر تھک چکے ہیں کہ خود کشی کر نے پر مجبور ہو گئے ہیں یا ہمیشہ اپنی زندگی کے بارے میں گلہ شکوے کرتے ہیں۔

آپ کسی باذوق معمار کو پیدا نہیں کر سکتے ہیں ،جو ایک بڑے ہال کی دیواروں کو ایک زندان کی دیواروں کے مانند صاف اور یکساں تعمیر کرے،بلکہ وہ اس ہال کی دیواروں کو اتار چڑھاؤاور پیچ و خم کے ساتھ تعمیر کرکے پُر کشش بنا دیتا ہے ۔

یہ عالم طبیعت کیوں اس قدر خوبصورت ہے؟

پہاڑوں پر موجود جنگلوں کے مناظر اور چھوٹے بڑے درختوں کے بیچ میں سے مار پیچ کے مانندگزرنے والی نہریں کیوں اس قدرخوبصورت اور دل آویز ہوتی ہیں؟!

اس کی ایک واضح وجہ ان کا یکساں نہ ہو نا ہے۔

”روشنی“اور”تاریکی“،اورشب وروز کی آمد ورفت کا نظام ،جس کا ذکر قرآن مجید نے مختلف آیات میں کیا ہے،اس کا ایک اہم مقصد انسانوں کی یکساں زندگی کو ختم کر نا ہے ،کیو نکہ اگر سورج آسمان کے ایک کو نے سے یکساں اور مسلسل طور پر کرئہ زمین پر اپنی روشنی پھیلاتا اور نہ اپنی حالت میں تبدیلی لاتا اور نہ اس کی جگہ رات کا پردہ پڑتا،تو دوسرے مشکلات کے علاوہ ،تھوڑی ہی مدت میں سب انسان تھک جاتے۔

اس وجہ سے ماننا چاہئے کہ کم از کم زندگی کے بعض ناخوشگوار حوادث اور مشکلات میں یہ فلسفہ ہے کہ یہ بقیہ زندگی کو روح بخشتے ہیں اسے شرین اور قابل برداشت بناتے ہیں،نعمتوں کی قدر وقیمت کو واضح کر دیتے ہیں اور انسانوں کے لئے یہ ممکن بناتے ہیں کہ موجودہ نعمتوں سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھائیں۔

۶ ۔خود ساختہ مشکلات

ایک اور نکتہ،جس کی طرف ہم اس بحث کے اختتام پر اشارہ کر نا ضروری سمجھتے ہیں ،یہ ہے کہ بہت سے لوگ ناخوشگوار حوادث اور مصائب کے عوامل کا محاسبہ کر نے میں بعض اوقات مغالطہ کا شکار ہو جاتے ہیں اور ظالم انسانوں کے ذریعہ وجود میں آئے ظلم کو خلقت کے نظام کی نا انصافی جانتے ہیں اور انسان کے کام کی بد نظمی کو خلقت کی بد نظمی شمار کرتے ہیں۔

مثلاًکبھی اعتراض کرتے ہیں کہ مصیبت زدہ پر ہی کیوں مصیبتیں ٹوٹ پڑ تی

ہیں ؟!زلزلوں میں کیوں شہروں میں نقصا نات کم ہوتے ہیں اور گاؤں میں زیادہ قربانیاں رو نما ہو تی ہیں اور بہت سے لوگ ملبے میں پھنسے رہ جاتے ہیں ،یہ کونسا انصاف ہے؟اگر کوئی مصیبت قسمت میں طے ہو تو کیوں یکساں نہیں آتی؟

درد ناک حادثات سے کیوں اکثر مستضعفین (کمزرولوگ)دو چار ہو تے ہیں؟اور وبائی بیماروں کے کیوں یہی لوگ زیادہ تر شکار ہو تے ہیں؟

جبکہ حقیقت میں ان میں سے کوئی بھی چیز خلقت کے نظام اور خدا کی خلقت اور عدالت سے مربوط نہیں ہے،بلکہ یہ خود انسانوں کے ایک دوسرے پر ظلم واستعمار کا نتیجہ ہو تا ہے۔

اگر گاؤں والے شہر نشینوں کے ظلم کی وجہ سے فقر و محرومیت سے دو چار نہ ہو تے اور اپنے لئے مضبوط مکانات تعمیر کر سکتے تو وہ زلزلہ میں زیادہ نقصا نات سے کیوں دوچار ہو تے اور دوسرے کم؟

لیکن جب ان کے گھر معمولی مٹی،پتھر اور لکڑی کے بنے ہوں اور ان میں چونا اورسمینٹ کا نام تک نہ ہو اور ہوا کے ایک جھونکے یا معمولی زلزلہ سے زمین بوس ہو جائیں تو انھیں اس سے بہتر حالت کی توقع نہیں کر نی چاہئے ،لیکن اس کا خدا کے کام سے کیا ربط ہے؟

ہمیں اس شاعر کے مانند اعتراض نہیں کر نا چاہئے ،جس نے کہا ہے:

”یکے را دادہ ای صد نازو نعمت“

ایک کو سو نعمتیں عطا کی ہیں اور دوسرے کو خاک ذلت پر بٹھا دیا ہے،

ایک کومحل کو عطا کئے ہیں اور دوسرے کو جھونپڑی!

حقیقت میں یہ اعتراض معاشرہ کے غیر عادلانہ اور غلط نظام پر کئے جانے چاہئے ۔ہمیں ان اجتماعی نا انصافیوں کا خاتمہ کرنا چاہئے فقر و پسماند گی سے مقابلہ کر نا چاہئے اور مستضعفین کو ان کے حقوق دینے چاہئے تاکہ معاشرہ میںاس قسم کے حالات پیدا نہ ہو نے پائیں۔

اگر معاشرہ کے تمام لوگوں کو مناسب غذا ،صحت اور طبی خدمات ملیں تو وہ عام بیماریوں کے مقابلہ میں مقاومت پیدا کریں گے۔

لیکن جب ایک معاشرہ کاغلط اجتماعی نظام اور اس پر حاکم استکبارایک شخص کے لئے اس قدر وسائل فراہم کرے کہ اس کے پالتو کتے اور بلی کے لئے بھی مخصوص ڈاکٹر معین ہو اور اس کے مقا بلہ میں دوسرے کے ایک نوزاد بچے کے لئے بھی صحت وسلامتی کے ابتدائی وسائل مہیا نہ ہوں تو اس قسم کے ناخوشگوار حالات زیادہ رو نما ہوتے ہیں۔

ایسے حالات میں ہمیں خدا کے کام پر اعتراض کر نے کے بجائے خود اپنے ہی کام پر اعتراض کر نا چاہئے۔

ہمیں ظالم سے کہنا چاہئے کہ ظلم نہ کرے ۔

ہمیں مظلوم سے کہنا چاہئے کہ ظلم برداشت نہ کرے!

ہمیں کو شش کر نی چاہئے کہ معاشرے کے ہر فرد کو کم از کم صحت و صفائی ،علاج و معالجہ ،کھانے پینے،رہائشی ،ثقافتی اور تعلیم وتر بیت کے ابتدائی ضروریات سے بہرہ مند ہو نا چاہئے ۔

مختصر یہ کہ ہمیں اپنے گناہوں کو خلقت کے نظام کی گردن پر نہیں ڈالنا چاہئے۔

خدا وند متعال نے ہم پر کب ایسی زندگی مسلط کی ہے؟اور کہاں پر اس قسم کے نظام کی تعریف کی ہے؟

اس نے ہمیں آزاد خلق کیا ہے ،کیونکہ آزادی ہمارے تکامل اور ارتقا اورتر قی کا راز ہے۔

لیکن ہم اپنی آزادی کا ناجائز فائدہ اٹھا تے ہیں اور دوسروں پر ظلم وستم کرتے ہیں اوریہی ظلم وستم معاشرہ کی بد حالی کی صورت میں رونما ہوتا ہے۔

افسوس کہ بہت سے لوگ اس غلط فہمی کا شکار ہوئے ہیں ،یہاں تک کہ معروف ومشہور شعراء کے اشعار میں بھی اس کے نمونے ملتے ہیں۔

قرآن مجید ایک مختصر اور بامعنی جملہ میں فر ماتا ہے:

( إن اللّٰه لا یظلم النّاس شیئاً ولکن النّاس انفسهم یظلمون ) ( سورہ یونس/ ۴۴)

”اللہ انسا نوں پر ذرہ برابر ظلم نہیں کرتا ہے بلکہ انسان خود ہی اپنے اوپر ظلم کیا کرتے ہیں۔“

اب ہم آفات وبلیّات کے فلسفہ کی بحث کو ختم کرتے ہیں ۔اگر چہ یہ ایک طولانی موضوع ہے لیکن ہم اسی مختصر بحث پر اکتفا کرتے ہیں۔

غور کیجئے اور جواب دیجئے

۱ ۔ آفات وبلیّات کے فلسفہ کی بحث کو ہم نے کیوں تین اسباق میں بیان کیا؟

۲ ۔زندگی کے یکساں ہو نے میں کون سے برُے اثرات ہیں؟کیا آپ نے کسی کو دیکھا ہے جو اپنی عیش وعشرت کی زندگی سے بیزار ہو؟

۳ ۔کائنات میں نور وظلمت کے نظام کے فلسفہ کے بارے میں آپ کیا جانتے ہیں؟

۴ ۔کیا معاشرے میں موجود تمام مصیبتیں خلقت کے نظام سے مربوط ہیں یا ان کے ہم بھی ذمہ دار ہیں؟

۵ ۔کیا معاشرے کی مصیبتوں کو ختم کر نے کے لئے کوئی صحیح طریقہ موجود ہے؟مستضعفین کے بارے میں ہماری کیا ذمہ داری ہے؟

چھٹا سبق : جبر و اختیارکا مسئلہ

پرور دگار عالم کی عدالت سے مربوط مسائل میں سے ایک مسئلہ ”جبر و اختیار“کا مسئلہ ہے۔کیونکہ عقیدئہ جبر کے قائل لوگوں کے نزدیک انسان کو اپنے اعمال،رفتار اور گفتار پر کسی قسم کا اختیار نہیں ہے اور اس کے اعضاء کی حرکات ایک مشین کے پرزوں کے مانند ہیں۔

اس کے بعد یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ عقیدہ عدال الہٰی سے کیا مناسبت رکھتا ہے؟شاید اسی وجہ سے اشاعرہ نے ،جن کے بارے میں ہم نے گزشتہ سبق میں ذکر کیا اور وہ حسن وقبح عقلی کے منکر ہیں،جبر کو قبول کر کے عدل الہٰی سے انکار کیا ہے ۔کیونکہ جبر کو قبول کر نے کی صورت میں ”عدالت“ کا کوئی مفہوم باقی نہیں رہ جاتا ہے۔

اس بحث کو واضح کر نے کے لئے چند موضوعات کی دقیق وضاحت کر نا ضروری ہے:

۱ ۔جبر کے عقیدہ کا سرچشمہ

ہرشخص اپنے وجود کی گہرائیوں میں احساس کر تا ہے کہ وہ اپنے ارادہ میںآزاد ہے،مثال کے طورپر فلاں دوست کی وہ مالی مدد کرے یا نہ کرے یا یہ کہ پیاس کی حالت میں اگر اس کے سامنے پانی رکھا جائے تو وہ اسے پئے یا نہ پئے۔اگر کسی نے اس کے خلاف کوئی ظلم کیا ہو تو وہ اسے بخش دے یا نہ بخشے۔

یا یہ کہ ہر شخص بڑھاپے یا بیماری کی وجہ سے کانپنے والے ہاتھ اور اپنے ارادہ سے حرکت کر نے والے ہاتھ کے در میان فرق کرسکتا ہے۔

آزادی ارادہ کا مسئلہ انسان کا ایک عام احساس ہو نے کے باوجود کیوں انسانوں کا ایک گروہ جبر کا عقیدہ رکھتاہے؟!

اس کے مختلف اسباب ہیں کہ ہم ان میں سے ایک اہم سبب کو یہاں پر بیان کرتے ہیں اور وہ یہ ہے کہ انسان مشاہدہ کر تا ہے کہ ماحول افراد پر اثر ڈالتا ہے ،تربیت بھی ایک دوسری علت ہے اسی طرح پروپیگنڈے،ذرائع ابلاغ اور سماجی ماحول بھی بلا شبہ انسان کی فکرو روح پر اثر انداز ہوتے ہیں۔کبھی اقتصادی حالات بھی انسان میں تبدیلیاں ایجاد کر نے کا سبب بنتے ہیں ۔وراثت کے سبب ہو نے سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا ہے۔

یہ تمام عوامل اس کا سبب بنتے ہیں کہ انسان یہ خیال کرے کہ ہم با اختیار نہیں ہیں بلکہ ہمیں داخلی اور خارجی ذاتی عوامل اکھٹے ہو کر مجبور کرتے ہیں کہ ہم کچھ ارادے اور فیصلے کریں،اگر یہ عوامل نہ ہو تے تو ہم سے بہت سے کام سرزد نہیں ہوتے۔یہ ایسے امور ہیں، جنھیںماحول کے جبر ،اقتصادی حالات کے جبر ،تعلیم وتربیت کے جبر اور وراثت کے جبر سے تعبیر کیا جاسکتا ہے۔ان عوامل میں سے ”مکتب جبر“فلاسفہ کی زیادہ توجہ کا مرکز بنا ہے۔

۲ ۔جبریوں کی غلط فہمی کی اصل وجہ

لیکن جو لوگ ایسا خیال کرتے ہیں وہ ایک بنیادی بات سے غافل ہیں اور وہ یہ ہے کہ بحث”محر کات و عوامل“اور ”علت ناقصہ“کے بارے میں نہیں ہے بلکہ بحث”علت تامّہ“میں ہے۔دوسرے الفاظ میں :کوئی شخص انسان کی فکر اور اس کے عمل میں ماحول،تہذیب وتمدن اور اقتصادی اسباب کے اثر انداز ہو نے سے انکار نہیں کر سکتا ہے۔اصل بحث اس میں ہے کہ ان تمام اسباب کے باوجود فیصلہ کا اختیار ہم ہی کو ہے۔

کیونکہ ہم واضح طور پر محسوس کرتے ہیں کہ سابقہ شہنشاہی نظام جیسے ایک غلط اور طاغوتی نظام میں بھی گمراہ ہو نے کے مواقع فراہم تھے ،لیکن ہم اس کے لئے مجبور نہیں تھے۔ ہمارے لئے اسی نظام اور ماحول میں بھی ممکن تھا کہ ہم رشوت لینے سے پر ہیز کریں، فحاشی کے مراکز کی طرف رخ نہ کریں اور آزادروی سے پرہیز کریں۔

لہذا ان مواقع کو”علت تامّہ“سے جدا کر نا ضروری ہے۔یہی وجہ ہے کہ بہت سے افراد غیر مہذب گھرانوں اور برے ماحول میں پرورش پانے یا نامناسب وراثت کے مالک ہو نے کے باوجود اپنے لئے صحیح راہ کا انتخاب کرتے ہیں،یہاں تک کہ بعض اوقات یہی افراد اس قسم کے ماحول اور نظام کے خلاف انقلاب برپا کر کے اسے بدل دیتے ہیں، ورنہ اگر یہ ضروری ہوتا کہ تمام انسان ماحول،تہذیب و تمدن اور پروپیگنڈے کے تابع ہوں تو دنیا میں کبھی کوئی انقلاب برپا نہیں ہو سکتا اور تمام افراد ماحول کے سامنے ہتھیار ڈال کر جدید ماحول پیدا کر نے سے قاصر رہتے۔

اس سے معلوم ہو تا ہے کہ تمام مذکورہ عوامل میں سے کوئی ایک بھی ”تقدیر ساز“نہیں ہے بلکہ یہ اسباب صرف مواقع فراہم کرتے ہیں اور انسان کی تقدیر کو صرف اس کا ارادہ اور عزم بناتا ہے۔

یہ ایساہی ہے کہ ہم ایک انتہائی گرم موسم میں خدا کی اطاعت کرتے ہوئے روزے رکھنے کا عزم کریں جبکہ ہمارے وجود کے تمام ذرات پانی کی خواہش کرتے ہیں لیکن ہم خدا کی اطاعت میں ان کی پروا نہیں کرتے جبکہ ممکن ہے کوئی دوسرا شخص حکم خدا کے باوجود اس خواہش کو قبول کر کے روزہ نہ رکھے۔

نتیجہ کے طور پر ان تمام ”اسباب وعوامل“کے باوجود انسان کے پاس عزم وارادہ جیسی ایک چیز ہے جس سے وہ اپنا مقدر بنا سکتا ہے۔

۳ ۔مکتب جبر کے سماجی اور سیاسی اسباب

حقیقت یہ ہے کہ ابتداسے ہی ”جبر واختیار“کے مسئلہ کے بارے میں کثرت سے غلط فائدہ اٹھایا گیا ہے۔انسان کے ارادہ کی آزادی کی ”نفی“اور جبر کے عقید کی تقویت کے لئے کچھ خاص عوامل کا ایک سلسلہ بھی موثر کردار ادا کرتا رہا ہے۔ان میں سے بعض حسب ذیل ہیں:

الف:سیاسی عوامل

بہت سے جابر وستمگر حکام محروم اور مستضعف لوگوں کے انقلابی جذبہ کو خاموش کر نے اور اپنی غیر قانو نی اور مطلق العنان حکومت کو باقی رکھنے کے لئے ہمیشہ اس فکر کا سہارا لیتے رہے ہیں کہ ہم خود کوئی اختیار نہیں رکھتے،تقدیر کا ہاتھ اور تاریخ کا جبر ہماری قسمت کا فیصلہ کر نے والا ہے۔اگر کوئی امیر ہے اور کوئی غریب تو یہ قضا وقدر کے حکم یا تاریخ کے جبر کے سبب سے ہے!

واضح ہے کہ اس قسم کا طرز فکر کس حد تک لوگوں کے افکار کو بے حس کر سکتا ہے اور جابر حکام کی استعماری اور آمرانہ سیاست کی مدد کرسکتا ہے؟حالانکہ عقلی اور شرعی طور پر ہماری ”تقدیر“ خود ہمارے ہاتھوں میں ہے اور ”جبر“کے معنی میں قضا وقدر کا بالکل وجود نہیں ہے ۔الہٰی قضا وقدر کی تعیین ہماری حرکات ،خواہشات ،ارادہ،ایمان،جستجو اور کوشش کے مطابق ہوتی ہے۔

ب۔نفسیاتی عوامل

جوکاہل اور سست افراد اپنی زندگی میں اکثر نا کام رہتے ہیں وہ ہر گز اس بات کو قبول نہیں کرتے ہیں کہ ان کی سستی اور خطائیں ان کی شکست کا سبب بنی ہیں۔لہذا اپنے آپ کو بری الذمہ قراردینے کے لئے ”مکتب جبر“کا سہارا لیتے ہیںاور اپنی ناکامی کو اپنی اجباری قسمت کے سر پر ڈالتے ہیں تاکہ اس طرح جھوٹا اور ظاہری سکون پیدا کر سکیں ۔وہ کہتے ہیں :کیا کریں ہماری قسمت کی چادر تو روز اول سے ہی ایسی سیاہ بنیُ گئی ہے جسے زمزم یا حوض کوثر کا پانی بھی سفید نہیں کر سکتا ۔ہم با استعداد بھی ہیں اور ہم نے کوشش بھی کی ہے لیکن افسوس ہماری قسمت نے ہمارا ساتھ نہیں دیا!

ج۔سماجی عوامل:

بعض لوگ چاہتے ہیں کہ وہ آزادی کے ساتھ ہو اوہوس کی راہوں پر چلتے رہیںاور اپنی حیوانی خواہشات کے مطابق ہر گناہ کے مرتکب ہوتے رہیں اس کے باوجود خیال کرتے ہیں کہ وہ گناہ کار نہیں ہیں اور سماج میں بھی اس قسم کا تاثر قائم کر نے کی کوشش کرتے ہیں کہ وہ بے گناہ ہیں۔

اس لئے وہ”عقیدہ جبر“کا سہارا لے کر اپنی ہوس رانی کی جھوٹی توجیہ کرتے ہوئے کہتے ہیں :ہمیں اپنے کاموں میں کسی قسم کا اختیار نہیں ہے!

لیکن بخوبی جانتے ہیں کہ یہ سب جھوٹ ہے ،حتی اس قسم کی باتیں کرنے والے بھی جانتے ہیں کہ ان کے یہ عذر بے بنیاد ہیں۔لیکن عارضی لذتیں اور ناپائیدار منافع انھیں حقیقت کا کھلم کھلا بیان کر نے کی اجازت نہیں دیتے ۔

لہذا ضروری ہے کہ سماج کو اس جبری طرز فکر سے اور قسمت و تقدیر کو جبر کا نتیجہ قرار دینے کے عقیدہ سے بچانے کے لئے کوشش کی جائے۔کیونکہ اس قسم کا عقید ہ

سا مراجی طاقتوں کاآلہ کار اور جھوٹی ناکامیوں کے لئے مختلف بہانوں کا وسیلہ اور سما ج میں آلودگی بڑھانے کا بہت بڑا سبب بنتا ہے۔

غور کیجئے اور جواب دیجئے

۱ ۔”جبر“اور”اختیار“کے نظریہ میں کیا فرق ہے؟

۲ ۔جبر کا عقیدہ رکھنے والے افراد کس دلیل پر زیادہ بھروسہ کرتے ہیں؟

۳ ۔ماحول،تہذیب وتمدن اور وراثت کے اثرات کا جواب کیا ہے؟

۴ ۔ان سیاسی ،نفسیاتی اور سماجی عوامل کی وضاحت کیجئے جن کی جھوٹی توجیہ کے لئے عقیدئہ جبر کا سہارا لیا جاتا ہے۔

۵ ۔ان عوامل کا مقابلہ کر نے کے لئے ہمیں کیا کر نا چاہئے؟