نو جوانوں کے لئے اصول عقائدکے پچاس سبق

نو جوانوں کے لئے اصول عقائدکے پچاس سبق11%

نو جوانوں کے لئے اصول عقائدکے پچاس سبق مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب

نو جوانوں کے لئے اصول عقائدکے پچاس سبق
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 68 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 25171 / ڈاؤنلوڈ: 5266
سائز سائز سائز
نو جوانوں کے لئے اصول عقائدکے پچاس سبق

نو جوانوں کے لئے اصول عقائدکے پچاس سبق

مؤلف:
اردو

ساتواں سبق : ارادہ و اختیارکی آزادی پر واضح ترین دلیل

۱ ۔انسان کا ضمیر جبر کی نفی کرتا ہے

اگر چہ الہٰی فلاسفہ اور علماء نے انسان کے ارادہ میں آزاد ہونے کے سلسلہ میں گوناگوں دلائل پیش کئے ہیں ،مگر ہم اختصار کے پیش نظر ان دلائل میں سے ایک واضح ترین دلیل کو پیش کرتے ہیںاور یہ دلیل ”انسان کا ضمیر“ہے۔

ہم ہر چیز کا انکار کر سکتے ہیں ،لیکن اس بات کا انکار نہیں کرسکتے ہیں کہ ہر معاشرے میں ۔چاہے وہ خدا پرستوں کا معاشرہ ہو یا مادہ پرستوں کا،مشرقی ہو یا مغربی، قدیم ہو یا جدید،امیر ہو یا غریب ،ترقی یافتہ ہو یا پسماندہ،معاشرے میں موجود ہر قسم کے افراد اس بات پر متفق ہیں کہ ۔ایک ایسے”قانون“کا ہو نا ضروری ہے کہ جو معاشرے پر حاکم ہو اور لوگ اس قانون کی پیروی میں اپنی”ذمہ داری“پوری کریں اور اس قانون کی خلاف ورزی کر نے والے کو”سزا“دی جائے۔

مختصر یہ کہ”قانون“کی حاکمیت،عوام کی طرف سے قانون کا احترام اور اس کی”ذمہ داری“اوراس قانون کی خلاف ورزی کر نے والوں کو اس کی”سزا“جیسے مسائل پردنیا کے تمام عقلاء کا اتفاق ہے ،البتہ صرف وحشی اور غیر مہذب اقوام ان تینوں باتوں کو قبول نہیں کرتے۔

یہ مسئلہ،جسے ہم”تمام دنیا کے افرادکے ضمیر“کے نام سے تعبیر کرتے ہیں، انسان کے اپنے ارادہ میں آزاد ہو نے پر واضح ترین دلیل ہے۔

یہ کیسے یقین کیا جاسکتا ہے کہ انسان اپنے ارادہ وعمل میں مجبور ہو اور کسی قسم کا اختیار نہ رکھتا ہو لیکن قوانین کا احترام اور ذمہ داری اس کے لئے ضروری ہو اورقوانین کی خلاف ورزی کر نے پر اس سے باز پرس بھی ضروری ہو کہ اس نے ایسا کیوں کیا؟اور ایسا کیوں نہیں کیا؟

اور خلاف ورزی ثابت ہو نے پر کبھی اس کو جیل کی سزا اورکبھی سزائے موت کا بھی سامنا کر نا پڑے۔

اس کی مثال ایسی ہی ہے کہ ہم پہاڑوں سے پھسل کر سڑک پر گر نے والے پتھروں ،جو مسافروں کی ہلاکت کا سبب بن جاتے ہیں ،کو عدالت میں لاکر ان کے خلاف مقدمہ چلائیں۔

یہ صحیح ہے کہ بظاہر ایک انسان اور پتھر کے ٹکڑے کے در میان بہت فرق ہے۔لیکن اگر ہم انسان کو اپنے ارادہ میں آزاد نہ جانیں تو یہ فرق بالکل ختم ہو جاتا ہے ،جس کے نتیجہ میں انسان اور پتھردونوںجبری عوامل کے تابع ہو جائیں گے۔پتھر قانون جاذبہ کے تحت سڑک کے بیچ میں آگرتا ہے اور انسان جبری عوامل کی وجہ سے مجرم،قاتل اور سرکش بن جاتا ہے ۔عقیدئہ جبر کے قائل افراد کے مطابق ان دونوں کے در میان کسی بھی قسم کا فرق نہیں ہے اور چونکہ کسی نے اپنے ارادہ سے کام انجام نہیں دیا ہے ،لہذا ایک کو عدالت کی کچہری میں کھڑا کر نا اور دوسرے کو چھوڑ دینا کیسے صحیح ہو گا؟!

ہم ایک دورا ہے پر کھڑے ہیں :یا تمام افراد کے عمومی ضمیر کو غلط اور خطا قراردیں اور تمام قوانین ،عدالتوں،مجرمین کو دی جانے والی سزاؤں کو بیہودہ،بلکہ ظالمانہ کام قرار دیں یاپھر ”عقیدہ جبر“ کا انکار کریں۔

بیشک دوسری ہی بات قابل ترجیح ہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ فلسفی عقیدہ وتفکر کے لحاظ سے عقیدئہ جبر کا دم بھرنے والے افراد بھی جب عملی زندگی میں قدم رکھتے ہیں تو وہ عملی طور پر ”آزادی ارادہ“ کے عقیدہ پر عمل کرتے ہیں!

کیونکہ اگر کوئی شخص ان کے حقوق کو پامال کرے یا ان کو تکلیف پہنچائے تو اس کو سزا کا مستحق سمجھتے ہیں اور عدالت میںجاکر اس کے خلاف شکایت کرتے ہیں اور کبھی اتنا چیختے چلّاتے ہیں کہ جب تک اس کو سزا نہ مل جائے،چین سے نہیں بیٹھتے۔

پس اگر انسان اپنے ارادہ میں آزاد نہیں ہے تو یہ سرزنش،شکایت اورشور وغوغا اور داد و فریاد کس لئے کرتا ہے؟!

بہر حال دنیا کے عقلا کا عمومی ضمیر اس بات پر زندہ دلیل ہے کہ ”ارادہ کی آزدی“کی حقیقت کا اقرار تمام انسان اپنے دل کی گہرائیوں سے کرتے ہیں اور ہمیشہ اس کے حامی اور طرفدار رہے ہیں اور اپنی زندگی کا ایک دن بھی اس عقیدہ کے بغیر نہیں گزار سکتے ہیں اور اپنی اجتماعی اور انفرادی زندگی کو اس کے بغیر نہیں چلاسکتے ہیں۔

عظیم اسلامی فلاسفر،”خواجہ نصیرالدین طوسی “جبر واختیار کی بحث کے دوران ایک مختصر اور جامع عبارت میں فر ماتے ہیں :

والضر ورة فاضیة باستناد افعالنا الینا “(تحریر العقائد ،بحث جبرو اختیار)

”ہمارا ضمیراس بات کا متقاضی ہے کہ ہمارے تمام اعمال خود ہم سے مربوط ہیں۔“

۲ ۔”جبر“کی منطق کا مذہب کی منطق سے تضاد

مذکورہ گفتگو کا تعلق اس بات سے تھا کہ جبر کا عقیدہ دنیا کے عقلاء کے عمومی ضمیر سے تضاد رکھتا ہے خواہ یہ عقلاء کسی مذہب کے ماننے والے ہوں یا لا مذہب۔

لیکن ہم مذہبی طرز فکر کے لحاظ سے بھی ایسے قطعی اور یقینی دلائل رکھتے ہیں جو عقیدئہ جبر کے باطل ہو نے پر دلالت کرتے ہیں ۔کیونکہ مذہبی عقائد ہرگز جبر کے عقیدہ کے موافق نہیں ہیں کیونکہ عقیدئہ جبر کو قبول کر نے کی صور ت میں مذہبی اصول وقوانین بھی مخدوش ہو جائیں گے ۔اس لئے کہ ہم گزشتہ بحث میں واضح طور پر ثابت کئے گئے عدل الہٰی کو جبر کے عقیدہ کی روشنی میں ثابت نہیں کرسکتے ہیں ۔یہ کیسے ممکن ہے کہ خداوند متعال کسی کو برا کام انجام دینے پر مجبور کر کے اور پھر اس کو ایسا کام انجام دینے کے جرم میں سزا دے اور بازپرس کرے کہ کیوں یہ کام انجام دیا؟یہ کسی بھی منطق و عقل کے مطابق نہیں ہے!

لہذا جبر کے عقیدہ کو قبول کر نے کی صورت مین ثواب وعقاب اورجنت و جہنّم بے معنی ہو کر رہ جائیں گے۔

اس کے علاوہ قرآن مجید کی آیات میں نامہ اعمال،سوال و جواب،الہٰی حساب،بد کاروں کی مذمت اور صالحین کی ستائش میں ذکر ہو ئے مفاہیم بھی بے معنی ہو جائیں گے۔کیونکہ اس عقیدہ کی بنیاد پر نیک اور بد کار افراد کے ارادہ واختیار میں کچھ نہیں ہے۔

اس کے علاوہ ہم مذہب میں سب سے پہلے انسان کی ”تکلیف اور ذمہ داری“سے مواجہ ہوتے ہیں ۔لیکن اگر انسان مجبور ہو تو کیا پھر اس ”تکلیف اور ذمہ داری“کا کوئی مطلب اور مفہوم ہے؟!

کیا ہم رعشہ کے مرض میں مبتلا کسی مریض کو یہ کہہ سکتے ہیں کہ اپنے ہاتھ کی تھر تھراہٹ کو روک لے یا کسی ترائی میں پھسلنے والے شخص کو کہہ سکتے ہیں کہ رک جائے؟

یہی وجہ ہے کہ امیرالمؤمنین حضرت علی علیہ السلام ایک مشہور روایت میں مکتب جبر کو بت پرستوں اور شیطان کی جماعت کامکتب قرار دیتے ہوئے فر ماتے ہیں:

”تلک مقاله اخوان عبدة الاوثان وحضماء الرحمان وحزب الشیطان “ (اصول کافی ج ۱ ،ص ۱۱۹ باب جبر والقدر)

”یہ بت پرستوں کے بھائیوں ،خدا کے دشمنوں اور شیطان کے گروہ کی باتیں ہیں۔“

غور کیجئے اور جواب دیجئے

۱ ۔جبر کے بطلان کی واضح ترین دلیل کیا ہے؟

۲ ۔ارادہ کی آزادی کے سلسہ میں دنیا کے لوگوں کے ضمیر کی وضاحت کیجئے۔

۳ ۔کیا جبر کا عقیدہ رکھنے والے عملی طور پر بھی ”جبر“کے مطابق عمل کرتے ہیں؟

۴ ۔کیا”جبر کا عقیدہ“عدل الہٰی کے موافق ہے؟اگر نہیں تو کیوں؟

۵ ۔ارادہ کی آزادی ہر قسم کی ذمہ داریوں کو قبول کر نے کی بنیاد کس طرح ہے؟

آٹھواں سبق:”امر بین الامرین“(یاوسطی مکتب)کیا ہے؟

۱ ۔”جبر“کے مقابلہ میں ”عقیدئہ تفویض“

افراط پر مبنی”عقیدئہ جبر“کے مقابلہ میں ”تفویض“کے نام سے ایک دوسرا مکتب موجود ہے۔یہ مکتب ”تفریط“پر مبنی ہے۔

عقیدئہ تفویض کے معتقد افراد کا کہنا ہے :خدا وند متعال نے ہمیں پیدا کر نے کے بعد تمام کام ہمارے سپرد کر دیئے ہیں اور اب خدا کا ہمارے اعمال وافعال سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔لہذا ہم اپنے اعمال کے قلمرو میں مکمل اور مستقل طور پر آزاداور حاکم ہیں!

بیشک،یہ عقیدہ بھی ”عقیدئہ توحید“کے بالکل موافق نہیں ہے ،کیونکہ ”توحید“نے ہمیں اس بات کی تعلیم دی ہے کہ تمام کا ئنات خدا کی ملکیت ہے اور کوئی چیز اس کی دسترس سے خارج نہیں ہے،حتی کہ ہمارے اعمال ہمارے ارادہ کی آزادی کے باوجود اس کی دسترس اور قدرت سے ہرگز باہر نہیں ہوسکتے ورنہ شرک لازم آئے گا۔

واضح تر عبارت میں:ہم دوخداؤں کے قائل نہیں ہو سکتے ہیں کہ ان میں سے ایک بڑا خدا ہو جس نے کائنات کو پیدا کیا ہے اور دوسرا چھوٹا خدا یعنی ”انسان“جو اپنے تمام اعمال وافعال میں اس قدر آزاداور با اختیار ہے کہ خدا وند متعال بھی اس کے اعمال و افعال پر اثر انداز نہیں ہو سکتا!

یہ واضح شرک ہے اور دو یا چند خداؤں کی پرستش ہے ۔حق بات یہ ہے کہ ہم انسان کو آزاد اور با اختیار بھی تسلیم کریں اور خدا وند متعال کو اس پر اور اس کے اعمال پر حاکم بھی مانیں۔

۲ ۔در میانی مکتب

باریک نکتہ یہی ہے کہ ہم یہ خیال نہ کریں کہ ان مذکورہ دو باتوں کے در میان تضاد موجود ہے ۔اس امر میں گہری فکر کی ضرورت ہے کہ ہمیں خدا وند متعال کی ”عدالت“کو بھی مکمل طور پر قبول کر نا چاہئے ،اس کے بندوں کے لئے ”آزادی“اور”ذمہ داری“ کا بھی قائل ہو نا چاہئے ،اس کے علاوہ پوری کائنات پر اس کی حاکمیت اور توحید کابھی قائل ہو نا چاہئے اور یہ وہی چیز ہے جسے”امربین الامرین “سے تعبیر کیاگیا ہے۔(یعنی وہ عقیدہ جو افراط وتفریط کے در میان واقع ہوا ہے)

چونکہ یہ بحث ذرا پیچیدہ اور دقیق ہے،لہذا ہم اس کو ایک مثال سے واضح کرتے ہیں۔

فرض کیجئے آپ بجلی سے چلنے والی ایک ریل گاڑی میں سفر کر رہے ہیں اور اس ٹرین کے ڈرائیور بھی آپ ہی ہیں ۔ٹرین کے پورے راستہ پر بجلی کا ایک قوی تارکھینچا گیا ہے اور ٹرین کی چھت پر لگا ہوا ایک مخصوص دائرہ (کڑا)بجلی کے اس تار سے ملا ہوا ہے اور حر کت کر رہا ہے اور لمحہ بہ لمحہ بجلی کو ایک قوی مر کز سے ٹرین کے انجن میں اس طرح منتقل کر رہا ہے کہ اگر ایک لمحہ کے لئے بھی اس قوی مرکز سے ٹرین تک بجلی نہ پہنچے تو ٹرین فوراً رک جائے گی۔

اس ٹرین کے ڈرائیورکی حیثیت سے بیشک آپ آزاد ہیں کہ راستے میں جہاں پر بھی چاہیں ٹرین کو روک سکتے ہیں ،اسے آہستہ یا تیز چلا سکتے ہیں لیکن اس تمام آزادی کے باوجود بجلی کے مرکز یعنی بجلی گھر میں بیٹھا ہوا شخص جب چاہے بجلی کو منقطع کر کے آپ کی ٹرین کو روک سکتا ہے ۔کیونکہ آپ کی ٹرین کی حر کت بجلی کی مر ہون منت ہے اور اس کی چابی مرکز برق میں بیٹھے ہوئے شخص کے ہاتھ میں ہے۔

اس مثال میں غور کر نے کے بعد واضح ہو جاتا ہے کہ ٹرین کا ڈرائیور تمام تر آزادی ،اختیار اور ذمہ داری کے باوجود کسی اور کے کنٹرول میں ہے اور یہ دونوں امر ایک دوسرے کے منافی نہیں ہیں۔

دوسری مثال:

فرض کیجئے کو ئی شخص کسی بیماری یا حادثہ کی وجہ سے اپنے ہاتھوں کے اعصاب سے محروم ہو جاتا ہے اور اپنے ہاتھوں کو حرکت دینے پر قادر نہیں ہو تا ہے۔اگر اس کے اعصاب کو ایک خفیف اور ملایم برقی رو سے ارتباط دیا جائے تو اس کے اعصاب گرم ہو کر دوبارہ حرکت میں آسکتے ہیں ۔اب یہ شخص اسی ہاتھ سے کوئی بھی کام انجام دے سکتا ہے۔مثلاً اگر یہ شخص اسی ہاتھ سے کہ جس سے برقی روکا اتصال ہے کسی پر ظلم کرے ،کسی کے چہرے پر طمانچہ مارے یا کسی بے گناہ کے سینے میں چھرا گھونپ دے تووہ اپنی اس حر کت پر یقینا جواب دہ ہو گا ۔کیونکہ اس نے اپنی قدرت اور اختیار سے اس کام کو انجام دیا ہے۔اور قادر ومختار شخص اپنے اعمال کا خود ذمہ دار ہو تا ہے ۔

لیکن اس کے باوجود اس انسان کے ہاتھ میں برقی رو داخل کر نے والا شخص بھی اس پر حاکمیت رکھتا ہے اور یہ انسان اپنی تمام آزادی و اختیار کے باوجود اس کے قبضئہ قدرت میں ہے۔

اب ہم اصلی مطلب کی طرف پلٹتے ہیں:

خدا وند متعال نے ہمیں ہمت اور طاقت عطا کی ہے ،ہمیں عقل وہوش اور جسمانی طاقت سے نوازا ہے ۔یہ تمام وسائل ہمیں لمحہ بہ لمحہ خدا وند متعال کی طرف سے عطا ہو رہے ہیں اگر ایک لمحہ کے لئے بھی خداوند متعال کا لطف وکرم ہم پر رک جائے اور اس سے ہمارا رابطہ منقطع ہو جائے تو ہم نابود ہو کر رہ جائیں گے۔

اگر ہم کوئی کام انجام دیتے ہیں تو یہ اسی کی طرف سے عطا کردہ قوت کے نتیجہ میں ہے جو لمحہ بہ لمحہ جاری ہے حتی کہ ہماری آزادی اور اختیار بھی اسی کی طرف سے عطا کی ہوئی نعمت ہے اور وہ چاہتا ہے کہ ہم آزاد ہوں اور اس کی عظیم نعمتوں کے سایہ میں کمال کی منزل تک پہنچنے کا راستہ طے کریں۔

پس ہم اختیار اور ارادہ کی آزادی کے باوجود اس کے قبضہ قدرت میں ہیں اوراس کی بار گاہ میں سر جھکائے ہو ئے ہیں اور اس کی حاکمیت کے قلمرو سے باہر نہیں ہو سکتے ۔ہم تمام تر قدرت اور توانائی کے باوجود اسی کے مرہون منت ہیں اور اس کے بغیر کچھ بھی نہیں ہیں۔”الامر بین الامرین “کا یہی معنی و مفہوم ہے ،کیو نکہ ہم نے کسی بھی موجود کو اس کے مثل قرار نہیں دیا ہے کہ شرک لازم آئے اور نہ ہی خدا کے بندوں کو ان کے اعمال میں مجبور جا نتے ہیں کہ ظلم لازم آئے ۔(غور فر مائیے!)۔

ہم نے یہ درس مکتب اہل بیت علیہم السلام سے حاصل کیا ہے،کیو نکہ ان حضرات سے سوال کیا جاتا تھا کہ کیا جبر و تفویض کے در میان کوئی تیسرا راستہ بھی ہے؟ تو وہ فر ماتے تھے :

”ہاں ،تیسرا راستہ بھی موجود ہے جو زمین و آسمان کے در میان فاصلہ سے وسیع تر ہے۔“(اصول کافی:ج ۱ ،ص ۱۲۱باب الجبروالقدر والامر بین الامرین)

۳ ۔قرآن مجید اور جبرو اختیار کا مسئلہ

قرآن مجید انسان کے ارادہ میں آزادی کے مسئلہ کو واضح طور پر ثابت کرتا ہے اور اس سلسلہ میں قرآن مجید میں سینکڑوں آیات ذکر ہوئی ہیں۔

الف۔وہ تمام آیات جن میں امر ونہی ،ذمہ داریوں اوراصول وقوانین کا ذکر کیا گیا ہے ،اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ انسان اپنے ارادہ و اختیار میں آزاد ہے، کیونکہ اگر انسا ن آزاد نہ ہو تو اس کو بعض کاموں کا حکم دینا اور بعض کاموں سے روکنا لغو و بیہودہ شمار ہو گا۔

ب۔بد کاروں کی مذمت اور نیک لوگوں کی ستائش میں بیان شدہ آیات انسان کے خود مختار ہو نے پر دلالت کرتی ہیں ۔کیونکہ ”جبر“کی صورت میں مذمت اور مدح و ستائش بے معنی ہو گی ۔

ج۔جن تمام آیات میں قیامت سے متعلق سوال ،اور اس دن کے فیصلے کا دن ہو نے اور پھر اس کے نتیجہ میں جزاو سزا اور جنت و جہنم کا ذکر ہوا ہے ،وہ انسان کے با اختیار ہو نے پر دلا لت کر تی ہیں ۔کیونکہ جبر کی صورت میں ان آیات کا کوئی مفہوم نہیں ہو گا اور سوال و جواب،روز قیا مت کی عدالت میں پیشی اور بد کاروں کو سزا ملنا ”ظلم محض“شمار ہو گا۔

د۔انسان کو اس کے ا عمال کا مرہوں منت قرار دینے والی آیات،جیسے:

( کل نفس بما کسبت رهینة ) ( سورہ مدثر/ ۳۸)

”ہر نفس اپنے اعمال میں گرفتار ہے“

( کلّ اُمری ءٍ بما کسبت رهین ) (سورہ طور/ ۲۱)

”ہرشخص اپنے اعمال کا گر وی ہے ۔“

یہ آیات واضح طور پر انسان کے صاحب اختیار ہونے کو ثابت کرتی ہیں ۔

ھ۔( إنا هدینا السّبیل إمّا شاکراًوامّا کفوراً )

( سورہ دہر/ ۳)

”یقینا ہم نے اسے راستہ کی ہدایت دیدی ہے چاہے وہ شکر گزار ہو جائے یا کفران نعمت کر نے والا ہوجائے“

مذکورہ آیت بھی ہمارے اس مدعا کو ثابت کرتی ہے

قرآن مجید میں بعض ایسی تعبیرات وارد ہو ئی ہیں جو”امر بین الامرین “کے عقیدہ پر دلالت کرتی ہیں ۔لیکن بعض ناآگاہ لوگوں نے غلط فہمی سے ان آیات کو عقیدہ جبر کے حق میں ثابت کر نے کی کوشش کی ہے،مثلاً:

( وما تشاء ون إلاّان یشاء اللّٰه ) (سورہ دہر/ ۳۰)

”اور تم لوگ تو صرف وہی چاہتے ہو جو پرور دگار چاہتا ہے۔“

واضح ہے کہ مذکورہ آیت اور اس جیسی دوسری آیات انسان سے اختیار کو سلب کر نا نہیں چاہتی ہیں بلکہ اس حقیقت کو ثابت کرنا چاہتی ہیں کہ تم تمام اختیارات اور آزادی کے باوجود خدا وند متعال کے قبضہ قدرت میں ہو۔

غور کیجئے اور جواب دیجئے

۱ ۔”تفویض“سے کیا مراد ہے؟اور اس عقیدہ میں کونسا عیب ہے؟

۲ ۔”امربین الامرین “کے عقیدہ کی تعلیم ہم نے ائمہ اہل بیت (ع)سے حاصل کی ہے ،اس مطلب کی مثال کے ساتھ وضاحت کیجئے۔

۳ ۔”جبر“و”اختیار“ کے مسئلہ کے بارے میں قرآن مجید کی آیات کیا کہتی ہیں؟

۴ ۔اگر ہم جبر کے عقیدہ کو صحیح جان لیں تو پھر قیا مت کے دن،جنت و جہنّم اور سوال و جواب کے عقیدہ پر کیا اثر پڑے گا؟

۵ ۔کیا( وما تشا ء ون الاّ ان یشاء اللّٰه ) اور اس جیسی دوسری آیات ”جبر“پر دلالت کرتی ہیں؟

نواں سبق :ہدایت وگمراہی خدا کے ہاتھ میں ہے

۱ ۔ہدایت و گمراہی کی اقسام:

ایک مسا فر ایڈرس ہاتھ میں لئے ہو ئے آپ کے پاس آتا ہے اور آپ سے راہنمائی کا تقاضا کرتا ہے ۔آپ کے پاس اسے مقصد تک پہنچانے کے لئے دو راستے ہیں:

ایک یہ کہ اس کے ساتھ جاکر کمال نیکی اور حسن سلوک کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسے منزل مقصود تک پہنچادیں اور خدا حافظ کہہ کر واپس آجائیں۔

دوسرا یہ کہ ہاتھ کے اشارہ اور مختلف نشانیوں کے ذریعہ اسے مطلوبہ جگہ کی طرف راہنمائی کریں۔

بیشک آپ نے دونوں صورتوں میں منزل مقصود تک پہنچنے کے لئے اس کی راہنمائی کی ہے ۔لیکن ان دونوں طریقوں میں ایک واضح فرق ہے۔دوسرا طریقہ صرف راستہ دکھاناہے جبکہ پہلاطریقہ”مطلوبہ مقصد تک پہنچانا“ہے ۔قرآن مجید اور اسلامی روایات میں ”ہدایت“مذکورہ دونوں معنوں میں استعمال ہوئی ہے۔

ایک اور اعتبار سے کبھی ہدایت صرف ”تشریعی “صورت کی حامل ہوتی ہے یعنی قوانین اور دستورار کے طریقہ سے واقع ہوتی ہے اور کبھی”تکوینی“صورت کی حامل ہو تی ہے ،یعنی خلقت کے نظام کی راہوں سے ہدایت کی جا تی ہے ،جیسے ایک مکمل انسان بننے کے لئے نطفہ کی مختلف مراحل میں ہدایت۔یہ دونوں معانی بھی قرآن مجید اور روایات میں ذکر ہوئے ہیں ۔ہدایت کی اقسام واضح ہو نے کے بعد ہم اصل مطلب کی طرف پلٹتے ہیں۔(ہدایت کے مقابلہ میں گمراہی بھی اسی طرح ہے)۔

ہم بہت سی آیات میں پڑھتے ہیں کہ ہدایت اور گمراہی خدا کا کام ہے۔بیشک ”راستہ دکھانے“کا تعلق خدا سے ہے ،کیونکہ اس نے انبیاء کو بھیجا ہے اور آسمانی کتا بیں نازل کی ہیں تاکہ انسان کی راہنمائی کریں۔

لیکن جبری طور پر ”مقصد تک پہنچانا“یقیناارادہ و اختیار کی آزادی کے خلاف ہے۔ چونکہ خدا وند متعال نے منزل مقصود تک پہنچا نے کی تمام قوتیں ہمارے اختیار میں دے رکھی ہیںاور ہمیں توفیق بخشنے والا وہی ہے ،لہذا ہدایت کے یہ معنی بھی خداوند متعال کی طرف سے ہیں،یعنی خدا وند متعال نے تمام عوامل اور مقدمات کو انسان کے اختیار میں قرار دیا ہے تا کہ وہ منزل مقصود تک پہنچ جائے۔

۲ ۔ایک اہم سوال

یہاں ایک اہم سوال یہ ہے کہ ہم قرآن مجید کی بہت سی آیات میں پڑھتے ہیں: ”خدا وند متعال جسے چاہے ہدایت کرتا ہے اور جسے چاہے گمراہ کر تا ہے:جیسے یہ آیت:

( فیضلّ اللّٰه من یشاء ویهدی من یشاء وهو العزیز الحکیم ) (سورہ ابراھیم/ ۴)

”خدا جس کو چاہتا ہے گمراہی میں چھوڑ دیتا ہے اور جس کو چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے اور وہ صاحب عزت بھی ہے اور صاحب حکمت بھی۔“(۱)

بعض افراد قرآن مجید کی دیگر آیات اور خود آیتوں کی ایک دوسرے کی تفسیر کو مد نظر رکھے بغیر ،اس قسم کی آیات کا مشاہدہ کر کے اعتراض کی زبان کھولتے ہیں اور سوال کرتے ہیں :یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ خدا جسے چاہے ہدایت کرے اور جسے چاہے گمراہ کرے؟پس ہمارا کیا قصور ہے؟!

اہم بات یہ ہے کہ قرآن مجید کی تفسیر کے وقت ہمیشہ دوسری آیات کے ساتھ ان کے رابطہ کو مد نظر رکھنا چاہئے تا کہ ہم ان کے اصلی اور حقیقی مفہوم سے آشنا ہو جائیں۔ہم یہاں پر ہدایت و گمراہی سے مربوط چند دوسری آیات کی نمونہ کے طور پر وضاحت کرتے ہیں تاکہ انھیں مذ کورہ آیت کے ساتھ ملا کر آ پ خود ضروری اور اصلی مطلب کو حاصل کر سکیں :

سورئہ ابراھیم کی آیت نمبر ۲۷ میں آیا ہے:

( ویضلّ اللّٰه لظّلمین)

”خدا وند متعال ظالمین کو گمراہی میں چھوڑ دیتا ہے ۔“

ہم سورہ غافر کی آیت نمبر ۳۴ میں پڑھتے ہیں :

( کذلک یضلّ اللّه من هو مسرف مرتاب)

”خدا زیادتی کر نے والے اور شکی مزاج انسانوں کو گمراہی میں چھوڑ دیتا ہے“

سورئہ عنکبوت کی آیت نمبر ۶۹ میں ہے:

( والّذین جاهدوا فینا لنهد ینّهم سبلنا)

”اور جن لوگوں نے ہمارے حق میں جہاد کیا ہے ہم انھیں اپنے راستوں کی ہدایت کریں گے“

جیسا کہ ہم مشاہدہ کر رہے ہیں کہ خدا وند متعال کی مشیت اور اس کا ارادہ بلاوجہ نہیں ہے ،نہ وہ کسی کو بلا وجہ ہدایت کی تو فیق عطا کر تا ہے اور نہ کسی سے بلا وجہ سلب توفیق کر تا ہے۔

جو لوگ خدا کی راہ میں جہاد کرتے ہین ،جنگ کی مشکلات کو برداشت کرتے ہیں ،اپنی نفسانی خواہشات کا مقابلہ کرتے ہیں ،خدا کے دشمنوں کے خلاف ثابت قدمی کا ثبوت دیتے ہیں ،خدا وند متعال نے انھیں ہدایت کر نے کا وعدہ دیا ہے اور یہ وعدہ عین عدالت ہے۔

لیکن جو لوگ ظلم وستم کی بنیاد ڈالتے ہیں اور لوگوں کے دلوں میں زیادتی ،شک وشبہہ اور وسواس ایجاد کر نے کی کوشش کرتے ہیں ،خدائے متعال ان سے ہدایت کی تو فیق کو چھین لیتا ہے اور ان اعمال کے نتیجہ میں ان کا دل تاریک اور سیاہ ہو جاتا ہے جس کی وجہ سے وہ سعادت کی منزل تک پہنچنے سے محروم ہو جاتے ہیں ۔خدا کی طرف سے گمراہ کر دینے کے معنی یہی ہیں کہ خداوند متعال ہمارے اعمال کے نتیجہ کو ہمارے اختیار میں دے دیتا ہے اور یہ بھی عین عدالت ہے (توجہ فر مائیں!)

۳ ۔کیا خدا کا ازلی علم گناہ کی علت ہے؟!

آخری مطلب جو جبر واختیار کی بحث میں بیان کر ناضروری ہے ،وہ جبری عقیدہ کے قائل بعض لوگوں کا ”خدا کے ازلی علم“کے عنوان سے پیش کیا جانے والا بہانہ ہے۔

وہ کہتے ہیں:کیا خدا وند متعال جانتاتھا کہ فلاں شخص فلاں وقت کسی کو قتل کرنے یاشراب پینے کے جرم کا مرتکب ہو گا؟ اگر آپ کہیں خدا نہیں جانتاتھا ،تو آپ خدا کے علم کا انکار کرتے ہیں ،اور اگر کہیں کہ وہ جانتا تھا تواس شخص کووہ کام ضرور انجام دینا چاہئے ورنہ خدا کا علم واقع کے خلاف ہو گا ۔

لہذا خداوند متعال کے علم کو سچ ثابت کر نے کے لئے گناہ گاروں کومجبوراًمرتکب گناہ ہو نا چاہئے اور اطاعت کرنے والوں کو مجبوراً اس کی اطاعت کرنی چاہئے۔

لیکن ایسے افراد اپنے گناہوں اور خطاؤں پر پردہ ڈالنے کے لئے یہ بہانہ تراشیاں کرتے ہیں ۔حقیقت میں وہ ایک نکتہ سے غافل ہیں کہ ہم کہتے ہیں خداوند متعا ل ازل سے ہی جانتاتھا کہ ہم اپنے ارادہ واختیار سے اطاعت یاگناہ انجام دیتے ہیں،یعنی ہمارا اختیار وارادہ بھی خدا کے علم میں ہے۔پس اگر مجبور ہو جائیں توخدا کا علم جہل میں تبدیل ہو جائے گا ۔(توجہ فر مائیں)

اس بات کی مزید وضاحت کے لئے ہم چند مثالیں پیش کرتے ہیں:

فرض کیجئے ایک معلم جانتا ہے کہ فلاں شاگرد اپنی سستی اور کاہلی کی وجہ سے فیل ہو جائے گا ۔اس کا یہ علم سو فیصد صحیح ہے کیونکہ یہ اس کے کئی برسوں کے تجربوں پر مبنی ہے۔

کیا فیل ہو نے کی صورت میں وہ شاگرد اپنے معلم کا گریبان پکڑ کر کہہ سکتا ہے کہ آپ کی پیشین گوئی اور علم نے مجھے فیل ہونے پر مجبور کیا؟!

اس سے بھی بہتر مثال یہ کہ فرض کریں ایک نیک اور بے خطا انسان ایک برے حادثہ کے وقوع سے پہلے اس کے بارے میں آگاہ ہو جاتا ہے اور کسی مصلحت کی بناء پر اس معاملہ میں مداخلت نہیں کرتا ہے ،کیا اس نیک اور بے گناہ انسان کاعلم مجرم کی ذمہ داری کو سلب کرے گا اور اسے جرم کا مرتکب ہو نے پر مجبور کرے گا ؟!(دقت فر مائیں)

یا فرض کریں کہ ایک ایسی جدید مشین ایجاد ہو جو آئندہ رونما ہو نے والے حادثہ کے بارے میں چند گھنٹے پہلے ہمیں خبر دے ۔ہمیں یہ مشین دقیق اطلاع دیتی ہے کہ فلاں شخص اپنے مکمل اختیار و ارادہ سے فلاں وقت فلاں کام انجام دے گا ۔کیا یہ پیشین گوئی کسی کے لئے جبر و زبر دستی کا سبب بن سکتی ہے ؟!

مختصر یہ کہ علم خدا ہرگز کسی کو کسی کام پر مجبور نہیں کرتا ہے۔

__________________

غور کیجئے اور جواب دیجئے

۱ ۔ہدایت کی اقسام بیان کر کے ان کی وضاحت کیجئے ۔

۲ ۔ قرآن مجید کی آیات سے ایک ایسی آیت بیان کیجئے جس میں ہدایت وگمراہی کو خدا کی طرف نسبت دی گئی ہو۔

۳ ۔خدا کی ہدایت اور خدا کی گمراہی سے کیا مراد ہے؟

۴ ۔ خداوند متعال کے”ازلی علم “ سے کیا مراد ہے ؟

۵ ۔ کیا خدا کا ازلی علم ہمارے اختیار اور ذمہ داریوں کو سب کر دیتا ہے؟ اس سلسلہ میں ایک مثال کے ساتھ وضاحت کیجئے ۔

____________________

۱- اس آیہ شریفہ کا ترجمہ اگر یوں کیا جائے تو مذکورہ اشکال دور ہو جائے گا :”خدا اسے گمراہی میں چھوڑ دیتا ہے جو(گمراہی)چاہتا ہے اور اسے ہدایت دیتا ہے جو”ہدایت“چاہتا ہے ۔توجہ فر مائیے۔

پانچواں سبق: ایک سچاواقعہ

ہم نے بیان کیا کہ زبان سے خدا کا انکار کر نے والے بھی اپنی روح کی گہرائیوں میں خدا کے وجود کا ایماب رکھتے ہیں۔

بیشک کامیاں بیاں ۔خاص کر کم ظرف لوگوں کے لئے۔غرور پیدا کرتی ہیں اور یہی غرور ،فراموشی کا سبب بنتا ہے ،یہاں تک کہ کبھی انسان اپنی فطرت کو بھی بھول جاتا ہے ۔لیکن جب حوادث کے طوفان اس کی زندگی کو تہس نہس کر کے رکھ دیتے ہیں اور مشکلات کی تندو تیز آندھیاں ہر طرف سے اس پر حملے کرتی ہیں ،تو اس کی آنکھوں کے سامنے سے غرور و تکبر کے پردے ہٹ جاتے ہیں اور توحید و معرفت خدا کی فطرت نمایاں ہو جاتی ہے۔

تاریخ بشر اس قسم کے افراد کے بہت سے نمو نے پیش کرتی ہے ،مندرجہ ذیل واقعہ ان میں سے ایک ہے:

ایک شخص اپنے زمانے کا مقتدر اور قوی وزیر تھا ،اکثر عہدوں کو اپنے قبضہ میں لے چکا تھا ،کوئی اس کی مخالفت کی جرئت نہیں کرتا تھا ۔ایک دن یہ وزیر ایک ایسی مجلس میں داخل ہوا جہاں پر دینی علماء بیٹھے تھے ۔اس نے ان سے مخاطب ہو کر کہا تم لوگ کب تک کہتے رہو گے کہ کائنات میں کوئی خدا ہے ،میں اس کی نفی میں ہزار دلیلیں پیش کرسکتا ہوں۔

اس نے اس جملہ کو ایک خاص غرور وتکبر کے ساتھ ادا کیا ۔مجلس میں موجود علماء چونکہ جانتے تھے کہ وہ اہل منطق واستلال نہیں ہے اور اقتدار نے اسے اس قدر مغرور کر دیا ہے کہ کوئی حق بات اس پر اثر انداز نہیں ہو سکتی ہے،اس لئے انہوں نے بے اعتنائی کے ساتھ ایک با معنی اور حقارت آمیز خاموشی اختیار کی۔

یہ واقعہ گزر گیا ،ایک مدت کے بعد وزیر پر الزام لگا یا گیا اور وقت کی حکومت نے اسے گرفتار کر کے جیل بھیجدیا۔

ان علماء میں سے ایک عالم جو اس دن اس مجلس میں موجود تھا ،اس نے سوچا کہ اس شخص کی بیداری کا وقت آگیا ہے ،اب جبکہ اس کا غرور ٹھنڈا ہو چکا ہے اور خود پرستی کے پر دے اس کی آنکھوں سے ہٹ گئے ہیں اور حق کو قبول کر نے کی حس اس میں پیدا ہو گئی ہے اگر اب اس سے رابطہ قائم کیا جائے اور اس کی نصیحت کی جائے تو سود مند ہو گی ۔اس عالم دین نے اس شخص سے ملاقات کی اجازت حاصل کی اور اس سے ملاقات کر نے کے لئے جیل گیا ۔جوں ہی وہ اس شخص کے نزدیک پہنچا تو لوہے کی سلاخوں کے پیچھے اسے ایک کمرہ میں اکیلا پایا ۔وہ ٹہلتے اور سوچتے ہو ئے کچھ اشعار گنگنا رہا تھا ،عالم دین نے غور سے سنا تو دیکھا وہ یہ معروف اشعار پڑھ رہا تھا:

ما ہمہ شیران ولی شیر علم حملہ مان از باد باشد دم بدم!

حملہ مان پیدا وناپیداست باد جان فدای آن کہ ناپیداست باد!

یعنی ہماری مثال ان شیروں کے مانند ہے جو جھنڈوں پر نقش کئے جاتے ہیں،جب ہوا چلتی ہے تو وہ حر کت میں آتے ہیں گویا وہ حملہ کرتے ہیں لیکن حقیقت میں وہ کچھ نہیں ہیں بلکہ یہ ہوا کا چلنا ہے جو اسے قدرت بخشتا ہے ،ہم بھی جس قدر طاقتور ہو جائیں یہ طاقت ہماری اپنی نہیں ہے ۔جس خدا نے ہمیں یہ طاقت دی ہے،وہ جب چاہے ہم سے واپس لے لے۔

مذکورہ عالم دین نے دیکھا کہ ان حالات میں نہ صرف یہ خدا کا منکر نہیں ہے بلکہ ایک شدید خداشناس بن گیا ہے ۔اس سے حال واحوال پوچھنے کے بعد کہا:یاد ہے ایک دن تم نے کہاتھا :خدا کی نفی میں ہزار دلائل پیش کر سکتا ہوں میںاس و قت اس لئے آیاہوں کہ تمھارے ہزار دلائل کا ایک جواب دوں :خدا وند متعال وہ ہے جس نے تم سے اس عظیم اقتدار کو اس آسانی کے ساتھ چھین لیا، اس نے اپناسر نیچا کر لیا اور شر مندہ ہو گیا اور کو ئی جواب نہیں دیا کیو نکہ اس نے اپنی غلطی کا اعتراف کر لیا تھا اور وہ اپنی روح کے اندر خدا کے نور کا مشاہدہ کر رہا تھا۔

قرآن مجید فرعون کے بارے میں فر ماتا ہے:

( حتیّٰ إذاادرکه الغرق قال آمنت انّٰه لا إلٰه إلّاالّذی آمنت به بنوا إسرائیل ) (سورئہ یونس/ ۹۰)

”یہاں تک کہ غر قابی نے اسے (فرعون کو)پکڑ لیا تو اس نے آوازدی کہ میں اس خدائے وحدہ لاشریک پر ایمان لے آیا ہوں جس پر بنی اسرائیل ایمان لائے ہیں“

غور کیجئے اور جواب دیجئے

۱ ۔مذکورہ سچے واقعہ کو چند سطروں میں بیان کیجئے ۔

۲ ۔بنی اسرائیل کو کیوں بنی اسرائیل کہتے ہیں؟

۳ ۔فرعون کو ن تھا ،کہاں زندگی بسر کرتا تھا اور اس کا دعویٰ کیا تھا؟

چھٹا سبق: خدا کی معرفت کا دوسرا راستہ

ب۔بیرونی راستہ

ہم جس دنیا میں زندگی بسر کر رہے ہیں،اس پر ایک سرسری نظر ڈالنے سے اس حقیقت تک پہنچتے ہیں کہ کائنات درہم برہم نہیں ہے بلکہ تمام موجودات ایک معیّن راہ پر

گا مزن ہیں اور کائنات کا نظم ایک بڑی فوج کے مانند ہے جو مختلف اور منظم یونٹوں میں تقسیم ہو کر ایک معین مقصد کی طرف بڑھ رہا ہے ۔

مندر جہ ذیل نکات اس سلسلہ میں ہر شبہہ کو دور کرسکتے ہیں:

۱ ۔ہر زندہ مخلوق کے وجود میں آنے اور باقی رہنے کے لئے ضروری ہے کچھ خاص قوا نین اور حالات ایک دوسرے سے جڑُے ہوئے پائے جائیں ۔مثلاً ایک درخت کے وجود میں آنے کے لئے:زمین،مناسب آب وہوا اور ایک معیّن دھوپ اور گر می کی ضرورت ہو تی ہے تا کہ بیج کو ڈالا جائے اور وہ اچھی طرح سے غذا حاصل کرے ،تنفس کرے ،سبز ہو جائے اور نشو ونما پائے ۔

ان حالات کے بغیر اس کی نشو ونما ممکن نہیں ہے ،ان حالات کو منتخب کر نے اور ان مقد مات کو فراہم کر نے کے لئے عقل اور علم ودانش کی ضرورت ہے۔

۲ ۔ہر مخلوق کا اپنا ایک خاص اثر ہو تا ہے ،پانی اور آگ میں سے ہر ایک کا اپنا خاص اثر ہے ،جو ان سے کبھی جدا نہیں ہو تا ہے بلکہ ہمیشہ ایک ثابت اور پائدار قانون کی پیروی کر تا ہے ۔

۳ ۔زندہ مخلوقات کے تمام اعضاء آپس میں ایک دوسرے کا تعاون کر تے ہیں مثال کے طور پر یہی انسان کا بدن جو بذات خود ایک عالم ہے ،عمل کے وقت اس کے تمام اعضاء شعوری اور لا شعوری طور پر ایک خاص ہماہنگی سے کام کرتے ہیں ۔مثال کے طور پر اگر کسی خطرہ سے دوچار ہو جائے تو تمام اعضاء دفاع کے لئے متحد ہو جاتے ہیں ۔یہ نزدیک رابطہ اور تعاون،کائنات کے نظم کی ایک اور علامت ہے ۔

۴ ۔کائنات پر ایک نظر ڈالنے سے واضح ہو جاتا ہے کہ نہ صرف ایک زندہ مخلوق کے اعضاء وجسم بلکہ کائنات کی تمام مخلوقات بھی آپس میں ایک خاص ہماہنگی رکھتی ہیں۔ مثلاً زندہ مخلوقات کی نشو ونماکے لئے سورج چمکتا ہے ،بادل برستا ہے ،ہوا چلتی ہے ،زمین اور زمین کے منابع اس کی مدد کرتے ہیں ۔یہ کائنات میں ایک معین نظام کے وجود کی نشانیاں ہیں ۔

”نظم وضبط“اور ”عقل“کا رابطہ

یہ حقیقت ہر انسان کے ضمیر پر واضح ہے کہ جہاں کہیں بھی نظم پایا جاتا ہو وہ”عقل،فکر،نقشہ اور مقصد“کی دلیل ہے۔

کیونکہ انسان جہاں کہیں بھی ایک ثابت نظم وضبط اور قوانین کا مشاہدہ کرے وہ جانتا ہے کہ اس کے ساتھ ہی علم وقدرت کے ایک مبدا کی بھی تلاش اور جستجو کر نی چاہئے اور اپنے ضمیر کے اس ادراک میں کسی استدلال کی ضرورت کا احساس بھی نہیں کرتا ہے۔وہ اچھی طرح سے جانتا ہے کہ ایک اندھا اوران پڑھ شخص ہر گز ایک ٹائپ مشین سے ایک اچھا مضمون یاایک اجتماعی و تنقیدی مقالہ نہیں لکھ سکتا ہے ،اور ایک دوسال کا بچہ کاغذ پر نامنظم صورت میں قلم چلاکر ہر گز ایک اچھی اور گراں قیمت نقا شی نہیں کرسکتا ہے۔ بلکہ اگر ہم ایک اچھا مضمون یا گراں قیمت مقالہ دیکھتے ہیں تو جانتے ہیں کہ ایک تعلیم یافتہ اور عقل و شعور والے کسی شخص نے اسے لکھا ہے ،یااگر کسی نمائش گاہ میں نقاشی کا ایک اچھا نمو نہ دیکھتے ہیں تو اس بات میں شک وشبہہ نہیں کرتے ہیں کہ اسے ایک ہنر مند نقاش نے بنایا ہے ،اگر چہ ہم نے کبھی اس ہنر مند نقاش کو نہ دیکھا ہو۔

اس لئے جہاں کہیں بھی نظم وضبط پا یا جائے اس کے ساتھ عقل و ہوش ضرور ہو گا اور یہ نظم جس قدر بڑا،دقیق تر اور دلچسپ ہو گا ،جس علم و عقل نے اسے خلق کیا ہے وہ بھی اسی قدر بڑا ہو گا ۔

بعض اوقات اس بات کو ثابت کر نے کے لئے کہ ہر منظم چیز کے لئے عقل ودانش کے سر چشمہ کی ضرورت ہے ،ریاضیات عالی میں ذکر شدہ ”احتمالات کے حساب“سے مدد لی جاتی ہے اور اس طریقہ سے ثابت کرتے ہیں کہ مثلاًایک ان پڑھ شخص اگر ٹائپ مشین کے ذریعہ اتفاقی طور پر مشین کے بٹن دبا نے سے ایک مقالہ یا چند اشعار کو لکھنا چاہے تو”احتمالات کے حساب “کے مطابق اس میں اربوں سال لگ جائیں گے کہ حتی کرئہ زمین کی پوری عمر بھی اس کے لئے کافی نہیں ہوگی ۔(اس کی مزید وضاحت کے لئے کتاب”آفرید گار جہان“یا کتاب ”در جستجو خدا“کا مطالعہ فر مائیں)قرآن مجید فر ماتا ہے:

( سنریهم آیٰتنا فی الاٰفاق وفی انفسهم حتّیٰ یتبیّن لهم انّه الحقّ او لم یکف بربّک انّه علیٰ کل شیءٍ شهید ) (سورہ فصلت/ ۵۳)

”ہم عنقریب اپنی نشانیوں کو تمام اطراف عالم میں اور خود ان کے نفس کے اندر دکھلائیں گے تا کہ ان پر یہ بات واضح ہو جائے کہ وہ برحق ہے اور کیا تمھارے پرور دگار کے لئے یہ بات کافی نہیں ہے۔کہ وہ ہرشے کا گواہ اور سب کا دیکھنے والا ہے۔“

غور کیجئے اور جواب دیجئے

۱ ۔صنعتی کار خانوں کی چند مثالیں(سبق میں بیان کی گئی مثال کے علاوہ )پیش کیجئے ،جن کے مشاہدہ سے خالق کائنات کے وجود کا علم حاصل ہو جائے۔

۲ ۔”آفاق“اور ”انفس“میں کیا فرق ہے؟آفاق اور انفس میں خدا کی نشانیوں کی چند مثالیں بیان کیجئے۔

ساتواں سبق:نظام خلقت کے چند نمونے

پوری کائنات میں ”نظم“،”مقصد“اور”نقشہ“کو واضح طور پر مشاہدہ کیا جاسکتا ہے ۔اب توجہ فر ما یئے کہ ہم ان کے چند نمونوں کو بیان کرتے ہیں:

ہم نے یہاں پر آپ کے لئے چند چھوٹے بڑے نمونے اکٹھا کئے ہیں۔

خوشبختی سے آج طبیعی علوم میں ترقی کے نتیجہ میں عالم طبیعت میں انسان،حیوان،پودوں،خلیوں اور ایٹم کی حیرت انگیز عمارت کی باریک بینیوں اور ستاروں کے حیرت انگیز نظام نے ہم پر معرفت خدا کے دروازے کھول دئے ہیں۔اس لئے جر ات کے ساتھ کہا جاسکتا ہے کہ طبیعی علوم کی تمام کتابیں تو حید اور معرفت خدا کی کتابیں ہیں ،جو ہمیں عظمت پروردگار کا درس دیتی ہیں،کیونکہ یہ کتابیں کائنات کی مخلوقات کے دلکش نظام سے پردہ اٹھاتی ہیں اور بتاتی ہیں کہ خالق کائنات کس قدر عالم وقادر ہے۔

ملک بدن کی حکمرانی کا مرکز

ہماری کھوپڑی کے اندر خاکی رنگ کا ایک مادہ ہے ،جسے ہم مغز کہتے ہیں ۔یہ مغزہمارے بدن کے اہم ترین اور دقیق ترین حصہ کو تشکیل دیتا ہے ،کیو نکہ اس کاکام بدن کے تمام قوا کو فر مان جاری کرنا اور ہمارے جسم کے تمام اعضاء کو کنٹرول کرنا ہے۔اس عظیم مرکز کی اہمیت کو بیان کر نے کے لئے مناسب ہے پہلے آپ کے لئے یہ خبر بیان کریں:

جرائد میں یہ خبر نقل کی گئی تھی کہ ایک شیرازی طالب علم کو خوزستان میں ایک ٹریفک حادثہ کے نتیجہ میں مغز پر چوٹ لگ گئی تھی ،بظاہروہ سالم نظر آتا تھا ۔لیکن تعجب کی بات یہ ہے کہ وہ اپنی تمام یاد داشتیں کھو بیٹھا تھا۔اس کا دماغ بخوبی کام کر تا تھا ۔مطالب کو سمجھتا تھا،لیکن اگر اپنے ماں یا باپ کو دیکھتا تو انھیں نہیں پہچانتا تھا۔جب اس سے کہتے تھے کہ یہ تمھاری ماں ہے ،وہ تعجب کرتا تھا ۔اسے اپنے گھر شیراز لے جایا گیا اور اس کی دستکاری۔۔جو اس کے کمرہ کی دیوار پر نصب تھی ۔۔اسے دکھائی گئی تو وہ تعجب سے ان پر نگاہ کر نے کے بعد کہتاتھا کہ میں انھیں پہلی بار دیکھ رہا ہوں۔

معلوم ہوا کہ اس مغزی چوٹ کے نتیجہ میں اس کے دماغ کی خلیوں کا ایک حصہ، جو حقیقت میں فکر اور حافظہ کے مخزن کے در میان رابطہ کے تار کا رول ادا کرتا ہے ،بیکار ہوا ہے اور جیسے بجلی کا فیوزاڑ جانے کے نتیجہ میں بجلی منقطع ہو کر تاریکی پھیل جاتی ہے ،اسی طرح اس کی سابقہ یادوں کا ایک بڑا حصہ فرا موشی کی تاریکی میں ڈوب گیا ہے۔

شاید اس کے مغز کا بیکار شدہ حصہ ایک پن کی نوک سے زیادہ نہیں ہوگا ،لیکن اس نے اس کی زندگی پر کس قدر اثر ڈالا ہے !اس سے معلوم ہو تا ہے کہ ہمارے مغز کا سسٹم کس قدر پیچیدہ ہے اور اہم ہے۔

مغز و اعصاب کا سلسلہ دواہم حصوں سے تشکیل پاتا ہے :

۱ ۔ارادی اعصاب :ہمارے بدن کے تمام اختیاری حرکات،جیسے:راہ چلنے دیکھنے ،باتیں کر نے و....کا سرچشمہ اعصاب کا یہی حصہ ہے ۔

۲ ۔غیر ارادی اعصاب:اعصاب کا یہ حصہ ،دل کی دھڑکن،معدہ وغیرہ جیسے اعضاء کا کنٹرول کرتا ہے۔مغز کے اس حصہ کا ایک ذرہ بیکار ہو نے کے نتیجہ میں ممکن ہے انسان کا قلب یاکوئی دوسرا عضو مختل ہو کر رہ جائے۔

دماغ کا ایک عجیب وغریب حصہ:

”مخ“(بھیجا)دماغ کا وہ چھوٹا حصہ ہے جو دماغ کے دوحصوں کے در میان واقع ہے ،مغز کا یہ بالکل چھوٹاحصہ ہوش ،ارادہ اور شعور کا مرکز ہے۔یہ مغز کا ایک اہم ترین حصہ ہے بہت سے جذباتی رد عمل ،جیسے غضب اور ترس وغیرہ اسی سے مربوط ہیں ۔

اگر کسی جانور کا ”مخ“الگ کر دیا جائے ،لیکن اس کے باقی اعصاب اپنی جگہ پر صحیح وسالم ہوں تو وہ جانور زندہ رہتا ہے لیکن فہم وشعور کو بالکل ہی کھو دیتا ہے۔ایک کبو تر کا ”مخ“نکالا گیا ۔وہ ایک مدت تک زندہ رہا۔لیکن جب اس کے سامنے دانہ ڈالتے تھے وہ اسے تشخیص نہیں دے سکتا تھا اور بھوکا ہو نے کے باوجود اسے نہیں کھاتا تھا ۔اگر اسے اڑاتے تھے ،تو وہ پرواز ہی کرتا رہتا تھا ،یہاں تک کہ کسی چیز سے ٹکراکرگر جاتا تھا۔

دماغ کا ایک اور حیرت انگیز حصہ،”حافظہ“ ہے۔

کیا آپ نے اس پر غور کیا ہے کہ ہماراقوئہ حافظہ کس قدر حیرت انگیز ہے؟اگر ایک گھنٹہ کے لئے ہم سے حافظ چھین لیا جائے تو ہم کس مصیبت سے دو چار ہو جائیں گے؟!

حافظ کا مرکز ،جو ہماے دماغ کا ایک چھوٹا حصہ ہے ،ہماری پوری عمر کی یادوںکو تمام خصوصیات کے ساتھ ریکارڈکرتا ہے ۔جس شخص نے بھی ہم سے رابطہ قائم کیا ہو،اس کی تمام خصوصیات جیسے،قد،شکل وصورت،رنگ ،لباس،اخلاق اور جذبات کو ریکارڈ کر کے محفوظ رکھتا ہے اور ہر ایک کے لئے ایک الگ فائل تشکیل دیتا ہے۔لہذا جوں ہی ہم اس شخص سے روبرو ہو تے ہیں ،ہماری فکر تمام فائلوں میں سے اس شخص کی فائل کو نکال کر فوری طور پر اس کا مطالعہ کرتی ہے ۔اس کے بعد ہمیں حکم دیتی ہے کہ ہم اس کے مقابلہ میں کون سا رد عمل ظاہر کریں۔

اگر وہ دوست ہے تو اس کا احترام کریں اور اگر دشمن ہے تو اظہار نفرت کریں۔ لیکن یہ تمام کام اس قدر سرعت کے ساتھ انجام پاتے ہیں کہ وقت کے ذراسا بھی فاصلہ کا احساس تک نہیں ہو تا۔

اس مسئلہ پر تعجب اس وقت اور زیادہ ظاہر ہو تا ہے جب ہم اپنے حافظ میں موجود چیزوں کو تصویر کے ذریعہ کاغذپر تر سیم کر نا چاہیں یا انھیں کیسٹ میں ضبط کر نا چاہیں تو ہم بیشک کاغذ اور کیسٹ کی بڑی تعداد کو مصرف میں لاتے ہیں جو ایک انبار کی صورت اختیار کر لیتے ہیں۔عجیب تر یہ ہے کہ ان کیسٹوں اور کاغذات میں سے ایک کو باہر نکالنے کے لئے ہمیں بہت سے مامورین کی مدد کی ضرورت پڑتی ہے ،جبکہ ہمارا حافظہ ان تمام کاموں کو آسانی کے ساتھ فی الفور انجام دیتا ہے۔

بے شعورطبیعت کیسے باشعورچیزوں کی تخلیق کرسکتی ہے؟

انسان دماغ کے عجائبات کے بارے میں بہت سی کتابیں لکھی گئی ہیں،ان میں سے بعض کاکالجوں اور یونیورسٹیوںکی کتابوں میں مشاہدہ کیا جاسکتا ہے۔کیا اس پر باور اور یقین کیا جاسکتا ہے کہ یہ غیر معمولی ،انوکھا،دقیق،پیچیدہ اورپر اسرار دماغ کسی بے شعور طبیعت کی تخلیق ہوگی؟اس سے بڑھ کر کوئی بات تعجب انگیز نہیں ہوسکتی ہے کہ ہم بے عقل طبیعت کو عقل کا خالق جانیں!

قرآن مجید فر ماتا ہے:

( وفی انفسکم افلا تبصرون ) (ذاریات/ ۳۱)

”خود تمھارے اندر بھی (خدا کی عظمت اور قدرت کی بڑی نشانیاں ہیں)کیاتم نہیں دیکھ رہے ہو؟“

غور کیجئے اور جواب دیجئے

۱ ۔کیاآپ انسانی دماغ کے عجائبات کے بارے میں کچھ اور مطالب جانتے ہیں؟

۲ ۔خداوند متعال نے گوناگون حوادث کے مقابلہ میں انسانی دماغ کے تحفظ کے لئے کون سی تد بیریں کی ہیں؟

آٹھواں سبق: ایک چھوٹے سے پرندے میں حیرت انگیزدنیا

چمگادڑ اور اس کی عجیب خلقت

اس درس میں ہم اپنے بدن کے عظیم ملک سے۔۔کہ ہم نے اس کے سات شہروں میں سے ایک گلی کی بھی سیر نہیں کی ہے ۔۔باہر آکر تیزی کے ساتھ ادھر ُادھر گھوم پھر کر مخلوقات کے حیرت انگیز نظام کے چند نمو نے اکٹھا کریں گے:

ہم رات کی تاریکی میں آسمان پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔ہم ظلمت کے پردوں کے در میان ایک غیر معمولی پرندے کو پراسرار سایہ کی صورت میں دیکھتے ہیں جو پوری شجاعت کے ساتھ اپنی غذا حاصل کر نے کے لئے ہر طرف پرواز کر رہاہے۔

یہ پرندہ وہی ”چمگا دڑ“ ہے،جس کی ہر چیز عجیب ہے۔لیکن رات کی تاریکی میں اس کی پرواز عجیب تر ہے۔

اندھیری رات میں چمگا دڑ کا انتہائی سرعت کے ساتھ پروازکرنا اور کسی چیز سے اس کا نہ ٹکرانا اس قدر تعجب انگیز ہے کہ جتنا بھی اس پر غور کیا جائے اس پر اسرار پرندہ کے بارے میں نئے نئے اسرار معلوم ہو تے ہیں۔

یہ پرندہ رات کی تاریکی میں اسی سرعت وشجاعت کے ساتھ پرواز کرتا ہے کہ جیسے ایک تیز اڑنے والا کبوتر دن کے اجالے میں پرواز کر تا ہے ۔یقینا اگر اس پرندہ میں مانع کے بارے میں اطلاع دینے کا کوئی وسیلہ نہ ہو تا تو بڑی احتیاط سے اور آہستہ آہستہ پرواز کر تا۔

اگر اس پرندہ کو ایک تنگ و تاریک اورپرپیچ وخم اور سیاہی سے بھرے ٹنل(سرنگ)میں چھوڑ دیاجائے تووہ تمام پیچ وخم سے گزر جاتا ہے بغیر اس کے کہ ایک بار بھی ٹنل کی دیوار سے ٹکرائے اور ایک ذرہ سیاہی بھی اس کے پروں پر بیٹھے چمگادڑ کی یہ عجیب حالت اس کے وجود میں پائی جانے والی خاصیت کے سبب ہے جو کہ راڈار کی خاصیت کے ماند ہے۔

یہاں پر ہمیں راڈار کے بارے میں تھوڑی سی آگاہی حاصل کر نی چاہئے تا کہ ہمیں اس چھوٹے سے چمگادڑ میں اس راڈار کی حالت معلوم ہو جائے۔

علم فزیکس میں آواز کے سلسلہ میں ماورائے صوت کی امواج کے بارے میں ایک بحث ہے ۔یہ وہی امواج ہیں جن کا وقفہ اور طول اس قدر زیادہ ہے کہ انسان کے کان اسے درک کر نے کی قدرت نہیں رکھتے ہیں ،اسی لئے انھیں ماورائے صوت کہتے ہیں ۔

جب اس قسم کی امواج کو ایک قوی ٹرانسمیٹر کے ذریعہ ایجاد کیا جاتا ہے ،تو یہ امواج ہر طرف پھیلتی ہیں ۔لیکن جوں ہی فضا میں کسی جگہ پر کسی رکاوٹ (دشمن کے جہاز یا کسی اور مانع)سے ٹکراتی ہیں ایک فٹ بال کے دیوار سے ٹکرانے کے مانند واپس پلٹتی ہیں بالکل اسی طرح کہ جب ہم ایک اونچے پہاڑ یا دیوار کے سامنے آوازبلند کرتے ہیں تو اس آواز کی گونج پہاڑ یا دیوار سے ٹکرا کر واپس لوٹتی ہے ۔ان امواج کی باز گشت کی مدت کے مطابق اس مانع کے فاصلہ کا صحیح انداز کیا جاسکتا ہے۔

بہت سے ہوائی جہازوں اور کشتیوں کو راڈرار کے ذریعہ سے ہی ہدایت کی جاتی ہے جہاں کہیں بھی وہ جانا چاہیں ۔اسی طرح دشمن کے ہوائی جہاز اور کشتیوں کو معلوم کر نے کے لئے بھی راڈار سے استفا دہ کیا جاتا ہے۔

سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ اس چھوٹے سے پرندہ میں راڈار کے مانند ایک مشین موجود ہے ۔اس کا ثبوت یوں ملتا ہے کہ اگر چمکادڑ کو ایک بند کمرے میں پرواز کرائیں اور اسی لمحہ ماورائے صوت کی امواج کو سننے کے قابل امواج میں تبدیل کر نے والے ایک مائیکر وفون کو کمرہ میں رکھا جائے تو پورے کمرہ میں ایک نامفہوم گوش خراش آواز پھیل جائے گی اور ہر سیکنڈمیں ۳۰ سے ۶۰ مرتبہ ماورائے صوت کی امواج چمگادڑ سے سنی جائیں گی۔

لیکن سوال یہ پیدا ہو تا ہے کہ چمگادڑ کے کس عضو سے یہ امواج پیدا ہوتی ہیں یعنی اس کا ٹرانسمیٹرکون سا عضو ہے اور مائیکر و فون کون سا عضو ہے؟

اس سوال کے جواب میں سائنسدان کہتے ہیں:یہ امواج چمگادڑکے حلق کی نالی کے قوی پٹھّوں سے پیدا ہوتی ہیں اور اس کی ناک کے سوراخوں سے باہر نکلتی ہیں اور اس کے بڑے کان امواج کو حاصل کر نے میں مائیکروفون کاکام انجام دیتے ہیں۔

اس لئے چمگادڑاندھیری رات کی اپنی سیر و سیاحت کے دوران اپنے کانوں کا مر ہون منت ہے۔”جورین“نامی ایک روسی سائنسدان نے تجربے سے ثابت کیا ہے کہ اگر چمگادڑ کے کان کاٹ دئے جائیںتو وہ تاریکی میں کسی مانع سے ٹکرائے بغیر پرواز نہیں کرسکتا ہے۔جبکہ اگر اس کی آنکھوں کو بالکل ہی نکال دیا جائے تو پھر بھی وہ پوری مہا رت سے پرواز کر سکتا ہے ،یعنی چمگادڑ اپنے کانوں سے دیکھتا ہے،نہ اپنی آنکھوں سے اور یہ ایک عجیب چیز ہے۔(توجہ کیجئے!!)

اب ذرا غور کیجئے کہ اس چھوٹے سے پرندہ کے اس نازک جسم میں ان دو عجیب اور حیرت انگیز مشینوں کو کس نے خلق کیا ہے اور ان سے استفادہ کر نے کے طریقہ کو کس نے اسے سکھایا ہے تاکہ اس اطمینان بخش وسیلہ کے ذریعہ رات کے وقت اپنی پرواز کے دوران بہت سے خطرات سے محفوظ رہ سکے؟واقعاًکس نے سکھایا ہے؟

کیا یہ ممکن ہے کہ ایک بے شعور اور بے عقل طبیعت ایسا کام انجام دے سکے؟اور ایک ایسی مشین کو آسانی کے ساتھ اس پرندہ کے بدن میں قرار دے ،جسے بڑے بڑے سائنسدان کافی رقو مات خرچ کر کے بناتے ہیں؟

شاعر کہتا ہے:

شائستہ ستائش آن آفریدہ گاری اس کارچنین دلاویز نقشی زماء وطینی

وہ خالق جہان ہی تعریف کے ہی لائق جو آب وگل دکش جہاں بنادے

امیرالمؤمنین علی علیہ السلام نے نہج البلاغہ میں چمگادڑ کی خلقت کے بارے میں ایک مفصل خطبہ میں فر مایا ہے:

لاتمتنع من المضی فیه لغسق دجنتهفسبحان الباری لکل شیء علی غیر مثال “(خطبہ / ۱۵۵)

”وہ (چمگادڑ)شدید اندھیرے کی وجہ سے ہر گز اپنی راہ سے پیچھے نہیں ہٹتا ہے پاک ومنزّہ ہے وہ خدا جس نے کسی نمونہ کے بغیر ہر چیز کو خلق کیا ہے“

غور کیجئے اور جواب دیجئے

۱ ۔چمگادڑ کی خلقت کے بارے میں آپ کونسے مزید دلچسپ اطلاعات رکھتے ہیں؟

۲ ۔کیا آپ جانتے ہیں کہ چمگادڑ کے پر ،بچے کی پرورش کا طریقہ اور یہاں تک کہ اس کاسونا دوسرے حیوانات سے متفاوت ہے یعنی یہ مکمل طور پر ایک استثنائی پرندہ ہے

نواں سبق :حشرات اور پھولوں کی دوستی!

موسم بہار میں ایک دن ،جب ہوا رفتہ رفتہ گرم ہو رہی ہو،سرسبز اور خوبصورت باغوں اور کھیتوں کی ایک سیر کیجئے ۔آپ وہاں پر چھوٹے چھوٹے حشرات،شہد کی مکھیاں،طلائی مکھیاں ،تتلیاں اور چھوٹے چھوٹے مچھروں کو گروہوں کی صورت میں مشاہدہ کریں گے جوآہستہ آہستہ کسی قسم کے شور وغل کے بغیر ادھر اُدھردوڑتے پھرتے ہیں،ایک پھول سے اٹھ کر دوسرے پھول کی طرف پرواز کر تے ہیں ایک ٹہنی سے دوسری ٹہنی کی طرف اڑتے ہیں ۔

یہ حشرات اس قدر سر گرم عمل ہیں کہ جیسے کوئی مرموز طاقت ایک منتظم کے مانند انھیں حکم دیتی ہے اور ایک کارخانہ میں وردی پوش مزدوروں کی طرح ان کے پر وبال پھولوں کی زردی سے آغشتہ ہو کر مزدوروں کی شکل وصورت اختیار کر لیتے ہیں اور نہایت تندی اور لگن سے اپنے اپنے کام میں مصروف ہیں۔

حقیقت میں یہ ایک اہم ماموریت اور کام انجام دیتے ہیں ۔ان کی یہ ماموریت اس قدر عظیم ہے کہ پروفیسر رلئون برٹن اس سلسلہ میں کہتا ہے:

”بہت کم لوگ یہ جانتے ہیں کہ حشرات کے وجود کی بغیر ہمارے میوؤں کی ٹوکریاں خالی پڑی رہ جائیں گی“

ہم اس دانشور کے قول کے ساتھ اس جملہ کا اضافہ کرتے ہیں:”برسوں کے بعد ہمارے باغ اور لہلہاتے کھیت اس طراوت اور شادابی مکمل طور پر کھودیں گے ۔“اس لئے حقیقت میں حشرات میوؤں کی پرورش کرنے والے اور پھولوں کے بیج مہیّا کر نے والے ہیں۔

آپ ضرور پوچھیں گے کیوں کر؟اس لئے کہ پودوں کا حساس ترین حیاتی عمل یعنی عمل لقاح ( fertilization )انہی حشرات کے ذریعہ انجام پاتا ہے ۔آپ نے ضرور یہ بات سنی ہوگی کہ بہت سے حیوانوں کے مانند پھولوں میں نر و مادہ پائے جاتے ہیں اور جب تک ان کے در میان ملاپ اور پیوند کا کام انجام نہ پائے ،بیج ،دانہ اور ان کے نتیجہ میں میوہ حاصل نہیں ہو گا ۔

لیکن کیا آپ نے کبھی اس پر غور کیاہے کہ پودوں کے بے حس وحرکت مختلف حصے کس طرح ایک دوسرے کے ساتھ جذب ہوتے ہیں اور نر پھولوں کی خلیہ ،جو مرد کے نطفہ( sperm )کے حکم میں ہے،مادہ پھولوں کی خیلہ سے ،جو مادہ کے نطفہ ( )کے حکم میں ہے، ملتی ہے اور ان کے در میان ازدواج کے مقد مات فراہم ہو تے ہیں؟

یہ کام بہت مواقع پر حشرات کے ذریعہ انجام پاتا ہے اور بعض مواقع پر ہواؤں کے ذریعہ۔

لیکن یہ بات اتنی آسان نہیں ہے جیسا ہم خیال کرتے ہیں۔یہ مبارک اور بابرکت نکاح جو حشرات کی خواستگاری سے انجام پاتا ہے ۔اس کی ایک حیرت انگیز اور طولانی تاریخ ہے۔یہاں پر ہم اس کی ایک جھلک پیش کرتے ہیں:

دوقدیمی اور جگری دوست

علم طبیعت کے سائنسدان مطالعات و تحقیقات کے بعد اس نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ نباتات اور پھول زمین شناسی کے دوسرے دور کے دوسرے حصہ میں وجود میں آئے ہیں۔ تعجب کی بات ہے کہ اسی دوران میں حشرات بھی وجود میں آئے ہیں اور یہ دونوںحوادث و واقعات سے پُرخلقت کی پوری تاریخ میں ہمیشہ دو وفادار اور جگری دوستوں کے مانند زندگی بسر کرتے ہوئے ایک دوسرے کے لازم و ملزم رہے ہیں۔

پھولوں نے اپنے دائمی دوستوں کی محبت کو حاصل کر نے اور ان کے دہن کو شرین کر نے کے لئے ایک بہت ہی لذیز مٹھائی کو اپنے اندر ذخیرہ کیا ہے اور جب حشرات نر پھولوں کی خلیہ کو پیوند اور لقاح کے مقد مات مہیا کر نے کے لئے ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جانے کے لئے زحمت اٹھاتے ہوئے پھولوں کے اندر داخل ہوتے ہیں!تو پھول انھیں اس مٹھائی کو مفت میں پیش کرتے ہیں،یہ مخصوص قند حشرات کے لئے اتنا میٹھا اور لذیز ہو تا ہے کہ انھیں بے اختیار اپنی طرف کھینچ لیتا ہے۔

علم نباتات کے بعض ماہرین کا اعتقاد ہے کہ پھولوں کے خوبصورت رنگ اورخوشبوبھی حشرات کو اپنی طرف کھینچنے میں موثر ہیں ۔شہد کی مکھیوں پر کئے گئے تجربوں سے ثابت ہوا ہے کہ وہ رنگوں کو تشخیص دیتی ہیں اور پھولوں کی خوشبو کو درک کرتی ہیں۔

حقیقت میں یہ پھول ہیں جو خود کو حشرات کے لئے سجاتے ہیں اور خوشبو پھیلاتے ہیں تاکہ بازوق تتلیوں اور نفاست پسند شہد کی مکھیوں کو اپنی طرف کھینچ لیں۔وہ بھی دل کھول کر اس دعوت کو قبول کر کے کام کے مقد مات کو فراہم کرتے ہو ئے ان کی مٹھائی کو تناول کر تے ہیں ۔یہی مٹھائی اور خاص قند ہے جو حشرات کی غذا شمار ہوتی ہے اور جب یہ بہت ڈھیرہو جاتی ہے تو یہی شہد بن جاتا ہے ۔کیو نکہ جب حشرات پھولوں کے پاس آتے ہیں ،تو اس مٹھائی سے تھوڑا سا کھاتے ہیں اور اس کا زیادہ تر حصہ بے تکلّف مہمانوں کی طرح اپنے ساتھ لے جاکر اپنے چھتوں میں ذخیرہ کرتے ہیں۔پھولوں اور حشرات کے در میان دوستی و محبت کا یہ معاہدہ دوطرفہ منافع کی بنیاد پر ہمیشہ تھا اور رہے گا۔

توحید کاایک درس

جب انسان حشرات اور پھولوں کی زندگی میں ان حیرت انگیز نکات کا مطالعہ کرتا ہے ،توغیر شعوری طور پر اپنے آپ سے یہ سوال کرتا ہے:پھولوں اور حشرات کے در میان اس دوستی و محبت کے عہد و پیمان کو کس نے برقرار کیا ہے؟

پھولوں کو یہ مخصوص مٹھاس اور لذیز غذا کس نے دی ہے ؟یہ دلکش اور خوشنما رنگ اور یہ خوشبو پھولوں کو کس نے عطا کی ہے کہ اس طرح حشرات کو اپنی طرف دعوت کرتے ہیں؟

حشرات،تتلیوں ،شہد کی مکھیوں اور بھڑوں کو یہ نازک پاؤں اور خوبصورت اندام کس نے عطا کئے ہیں تاکہ پھولوں کی خلیہ کونقل وانتقال دینے کے لئے مستعد و آمادہ رہیں؟

شہد کی مکھیاں کیوں ایک مدت تک خاص ایک ہی قسم کے پھولوں کی طرف رخ کرتی ہیں اور پھولوں اور حشرات کی خلقت کی تاریخ کیوں ایک ساتھ شروع ہوئی ہے؟

کیا کوئی شخص،جس قدر بھی ہٹ دھرم ہو،باور کر سکتا ہے کہ یہ سب واقعات پہلے سے مرتب ہوئے کسی نقشہ اور منصوبہ کے بغیر انجام پائے ہیں؟اور فطرت کے بے شعور قوانین ان حیرت انگیز مناظر کو خودبخود وجود میں لائے ہیں؟نہیں ،ہر گز نہیں

قرآن مجید فر ماتا ہے:

( واوحیٰ ربّک إلی النّحل ان اتّخذی من الجبال بیوتاًومن الشّجر وممّا یعرشون ثمّ کلی من کلّ الثّمرات فاسلکی سبل ربّک ذللاً ) (سورئہ نحل/ ۶۸،۶۹)

”اور تمھارے پر وردگار نے شہد کی مکھی کو اشارہ دیا کہ پہاڑوں اور درختوں اور گھروں کی بلندیوں میں اپنے گھر بنائے اس کے بعد مختلف پھلوں سے غذا حاصل کرے اور نر می کے ساتھ خدائی راستہ پر چلے۔“

غور کیجئے اور جواب دیجئے

۱ ۔پھولوں کی تہ میں پائی جانے والی مٹھاس اور ان کے رنگ و خوشبو کے کیا فائدے ہیں؟

۲ ۔شہد کی مکھیوں کی زندگی کے عجائبات میں سے آپ کیا جانتے ہیں؟


3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17