نو جوانوں کے لئے اصول عقائدکے پچاس سبق

نو جوانوں کے لئے اصول عقائدکے پچاس سبق11%

نو جوانوں کے لئے اصول عقائدکے پچاس سبق مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب

نو جوانوں کے لئے اصول عقائدکے پچاس سبق
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 68 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 25179 / ڈاؤنلوڈ: 5274
سائز سائز سائز
نو جوانوں کے لئے اصول عقائدکے پچاس سبق

نو جوانوں کے لئے اصول عقائدکے پچاس سبق

مؤلف:
اردو

دسواں سبق:عدل الہٰی اور مسئلہ ”خلود“

ہم جانتے ہیں کہ قرآن مجید نے کفار اور گناہگاروں کے ایک گروہ کے بارے میں واضح طور پر دائمی سزا دینے یعنی دوسرے الفاظ میں ”خلود“کا ذکر کیا ہے۔

سورئہ توبہ کی آیت نمبر ۶۸ میں آیا ہے:

( وعداللهّٰ المنٰفقین والمنٰفقٰت والکفّار نار جهنّم خٰلدین فیها)

”اللہ نے منافق مردوں اور عورتوں سے اور تمام کافروں سے آتش جہنّم کا وعدہ کیا ہے جس میں یہ ہمیشہ رہنے والے ہیں۔“

اسی طرح اس آیت کے ذیل میں باایمان مردوں اور عورتوں کے لئے بہشت کے باغوں کا ہمیشہ کے لئے وعدہ کیا ہے:

( وعداللّٰه المؤمنین والمومنٰت جنّٰت تجری من تحتها الانهار خٰلدین فیها ) ( سو ر ہ توبہ/ ۷۲)

”اللہ نے مومن مردوں اور مومن عورتوں سے ان باغات کا وعدہ کیا ہے جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی ۔یہ ان میں ہمیشہ رہنے والے ہیں ۔“

یہاں پر یہ سوال پیدا ہو تا ہے کہ اس بات کو کیسے قبول کیا جائے کہ ایک انسان جس نے دنیا میں زیادہ سے زیادہ اسی سال یا سو سال زندگی گزاری ہو اور اس سے کوئی گناہ سرزد ہوا ہو ،اسے کروڑوں سال بلکہ ہمیشہ ہمیشہ سزادی جائے؟!

البتہ یہ مطلب نیک اعمال کی جزا کے بارے میں زیادہ اہمیت نہیں رکھتا کیو نکہ خدا کی رحمت کا سمندر وسیع ہے اور جزا جتنی زیادہ ہو خدا کی بے انتہا رحمت اور اس کے فضل و کرم کی علامت ہو گی ۔لیکن برے اعمال اور محدود گناہوں کے نتیجہ میں ہمیشہ کے لئے اس کو کیسے عذاب میں مبتلا رکھا جاسکتا ہے ۔خداوند متعال کی عدالت کے پیش نظر اس کی کیا وجہ بیان کی جاسکتی ہے؟

کیا گناہ اور اس کی سزا کے در میان ایک قسم کا تعادل بر قرارنہیں ہو نا چاہئے؟

جواب:

اس بحث اور سوال کے قطعی حل اور جواب تک پہنچنے کے لئے چند نکات پر دقت کے ساتھ غور وفکر کر نے کی ضرورت ہے:

الف:قیامت کے دن کی سزائیں اس دنیا کی سزاؤں سے ہر گز شباہت نہیں رکھتی ہیں ۔مثلاًاگر کوئی شخص دنیا میں کسی جرم ،جیسے چوری وغیرہ کا مرتکب ہو جائے تو اسے ایک خاص مدت تک جیل میں ڈال دیا جاتاہے،لیکن قیامت کی سزائیں اکثر انسان کے اعمال کے آثار اور اس کے کاموں کی خاصیتوں کے اعتبار سے ہو تی ہیں۔

واضح ترعبارت میں گناہگاروں کی تمام سزائیں ،جن کا سامنا انھیں دوسری دنیا (قیامت)میں کرنا پڑ تا ہے در حقیقت ان کے اپنے کئے گئے گناہوں کا نتیجہ ہے جو ان کے دامن گیر ہو تے ہیں۔

اس سلسلہ میں قرآن مجید میں ایک واضح تعبیر موجود ہے،فر ماتا ہے:

( فالیوم لا تظلم نفس شیئاًولا تجزون إلاّ ماکنتم تعملون ) (سورہ یٰس/ ۵۴)

”پھر آج کے دن کسی نفس پر کسی طرح کا ظلم نہیں کیا جائے گا اور تم کو صرف ویسا ہی بدلہ دیا جائے گا،جیسے اعمال تم کر رہے تھے۔“

ایک آسان مثال سے ہم اس حقیقت کو واضح کرسکتے ہیں:

ایک شخص منشیات یا شراب پینے کا عادی ہے ،جتنا بھی اس سے کہا جاتا ہے کہ یہ زہریلی چیزیں تیرے معدہ کو خراب،تیرے دل کو بیمار اور تیرے اعصاب کو مجروح کردیں گی ،وہ پروا نہیں کر تا ہے ۔چند ہفتے یا چند مہینے ان مہلک چیزوں کی خیالی لذت میں غرق رہتا ہے اور اس کے بعد بتدریج زخم معدہ ،عارضہ قلب اور اعصاب کی بیماریوں میں مبتلا ہو جاتا ہے اور پھر دسیوں سال عمر بھران بیماریوں میں مبتلا ہو کر شب وروزان کے عذاب میں گزارتا ہے ۔کیا یہاں پر یہ اعتراض کیا جاسکتا ہے کہ اس شخص نے تو چند ہفتہ یا چند مہینے سے زیادہ عرصہ منشیات یا شراب کا استعمال نہیں کیا تھا ،دسیوں سال عمر بھر کیوں امراض میں مبتلا ہو گیا؟

اس کے جواب میں فوراً کہا جائے گا یہ اس کے عمل کا نتیجہ واثر ہے !حتی اگر وہ حضرت نوح﷼ کی عمر سے بھی زیادہ یعنی دسیوں ہزار سال بھی عمر پائے اور مسلسل رنج و عذاب میں رہے تب بھی ہم یہی کہیں گے کہ اس نے جان بوجھ کر اور آگاہانہ طورپر اس چیز کو اپنے لئے خریدا ہے۔

قیامت کے دن کی سزائیں زیادہ تر اسی طرح ہیں ،اس لئے عدالت الہٰی پر کسی قسم کا اعتراض باقی نہیں رہتا ہے۔

ب:بعض لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ سزاؤں کی مدت گناہ کی مدت کے برابر ہونی چاہئے ،یہ ایک بڑی غلط فہمی ہے ،کیونکہ گناہ اور اس کی سزا کے در میان زمانہ کے اعتبار سے کوئی ربط نہیں ہے بلکہ سزا کا تعلق اس گناہ کی کیفیت اور نتیجہ سے ہوتا ہے۔

مثلاًممکن ہے کوئی شخص ایک لمحہ میں ایک بے گناہ انسان کو قتل کر ڈالے اور اس دنیا کے بعض قوانین کے مطابق اسے عمر قید کی سزا دی جائے ۔یہاں پر ہم دیکھتے ہیں کہ گناہ انجام دینے کی مدت صرف ایک لمحہ تھی جبکہ سزا کی مدت دسیوں سال (عمر بھر)ہے،اور کوئی شخص اس سزا کو ظالمانہ شمار نہیں کرتا ہے،کیو نکہ یہاں پر منٹ،گھنٹے،مہینے یا سال کی بات نہیں ہے بلکہ گناہ کی کیفیت اور نتیجہ مد نظر رکھا جاتا ہے۔

ج:جہنم میں”خلود“ہمیشگی ،اور دائمی سزائیں ان لوگوں کے لئے ہیں ،جنہوں نے نجات کے تمام راستے اپنے اوپر بند کر لئے ہوں اور جان بوجھ کر فساد،تباہی اور کفر و نفاق میں غرق ہوئے ہوں اور گناہوں نے ان کے سارے وجود کو اپنے لپیٹ میں لے لیا ہو کہ حقیقت میں وہ خود گناہ و کفر کا روپ اختیار کر گئے ہوں۔

قرآن مجید میں یہاں پر ایک خوبصورت تعبیر ہے:

( بلیٰ من کسب سیّئة واحاطت به خطیئته فاولٰئک اصحٰب النّار هم فیها خٰلدون ) (سورہ بقرہ/ ۸۱)

”یقینا جس نے کوئی برائی حاصل کی اور اس کے گناہ نے اسے گھیر لیا،وہ لوگ اہل جہنّم ہیں اور وہیں ہمیشہ رہنے والے ہیں۔“

اس قسم کے افراد خداوند متعال کے ساتھ اپنے رابطہ کو مکمل طور پر منقطع کر لیتے ہیں اور نجات کے تمام راستوں کو اپنے اوپر بند کر لیتے ہیں ۔

ایسے افراد کی مثال اس پرندہ کے مانند ہے جس نے جان بوجھ کر اپنے پروں کوتوڑ کر آگ لگا دی ہو اور وہ مجبور ہے ہمیشہ زمین پر رہے اور آسمان کی بلندیوں پر پرواز کر نے سے محروم رہے ۔

مذکورہ بالا تین نکات اس حقیقت کو واضح کر دیتے ہیں کہ دائمی عذاب کا مسئلہ جوکہ منافقین اور کفار کے اےک خاص گروہ کے لئے مخصوص ہے ہر گز”عدل الہٰی“کے خلاف نہیں ہے بلکہ یہ ان کے برے اعما ل کا نتیجہ ہے اور ان کو پہلے ہی اس بات سے انبیاء الہٰی کے ذریعہ آگاہ کیا جا چکا ہے کہ ان کاموں کا نتیجہ اتنا تلخ اور برا ہے۔

اگر یہ افراد جاہل ہوں اور انبیاء کی دعوت ان تک نہ پہنچی ہو اور جہالت اور نادانی کی وجہ سے ایسے اعما ل کے مرتکب ہوئے ہوں تو وہ یقینا اس قسم کی سزا کے مستحق نہیں ہوں گے ۔

اس بات کا ذکر بھی ضروری ہے کہ قرآن مجید کی آیات اور اسلامی روایتوں سے معلوم ہو تا ہے کہ خدا کی رحمت اس قدر وسیع ہے کہ گناہگاروں کے ایک بڑے گروہ کو بھی بخش دیا جائے گا:

کچھ لوگ شفاعت کے ذریعے

کچھ لوگ معافی کے ذریعے

کچھ لوگ معمولی نیک اعمال کے ذریعہ خدا کے فضل وکرم سے کثیر اجرپا کر بخش دئے جائیں گے۔

اور کچھ لو گ ایک مدت تک جہنم میں اپنے برے اعمال کی سزا بھگتنے اور الہٰی بھٹی سے گزر کر پاک و صاف ہو نے کے بعد رحمت و نعمت الہٰی سے بہرہ مند ہوں گے ۔

صرف ایک گروہ جہنم میں ہمیشہ کے لئے باقی رہ جائے گاجو حق کے خلاف اپنی دشمنی اور ہٹ دھر می ،ظلم وفساد اور بے حد نفاق کی وجہ سے سرتا پا کفر اور بے ایمانی کی گہری تاریکیوں میں ڈوبا ہوا ہے۔

غور کیجئے اور جواب دیجئے

۱ ۔جہنم کی دائمی سزا کو بعض افراد نے کیونکر عدل الہٰی کے خلاف شمار کیا ہے؟

۲ ۔کیا آخرت کی سزائیں اس دنیا کی سزاؤں کے مانند ہیں؟ اگر نہیں تو وہ سزائیں کیسی ہیں؟

۳ ۔کیا عدالت،گناہ کی مدت اور سزا کی مدت برابر ہو نے کا تقاضا کرتی ہے؟

۴ ۔دوزخ کی دائمی سزائیں کن لوگوں کے لئے ہیں؟

۵ ۔عفو الہٰی سے کون لوگ بہرہ مند ہوں گے؟


نبوت کےدس سبق:

پہلا سبق:رہبران الہٰی کی ضرورت

ہمارے علم ودانش کی محدودیت

ممکن ہے بعض لوگ یہ سوچیں کہ کیا اصولی طور پر خدا کی طرف سے لوگوں کی راہنمائی کے لئے انبیاء کا مبعوث ہو نا ضروری ہے؟

کیا ہماری عقل وشعور حقائق کو سمجھنے کے لئے کافی نہیں ہے ؟کیا انسان کی علمی ترقی پوشیدہ اسرار کو کشف کر نے اور تمام حقائق کو واضح کر نے کے لئے کافی اور مددگار نہیں ہے؟

جو چیزیں ممکن ہیں انبیاء ہمارے لئے لے آئیں وہ دو حالتوں سے خارج نہیں ہیں :یاہماری عقل ان کو بخوبی درک کرتی ہے یا درک کر نے سے قاصر ہے۔

پہلی صورت میں ہم انبیاء کو تکلیف دینے کے محتاج نہیں ہیں ۔جبکہ دوسری صورت میں ہمیں عقل و خرد کے خلاف مطالب کو قبول کر نے کی ضرورت ہی نہیں ہے۔

دوسرے الفاظ میں :کیا یہ درست ہے کہ انسان اپنے آپ کو مکمل طور پر کسی دوسرے کے اختیار میں دے دے اور اس کی بات کو کسی چون و چرا کے بغیر قبول کرے ؟کیا انبیاء ہمارے جیسے انسان نہیں ہیں ؟یہ کیسے ممکن ہے کہ ہم اپنے آپ کو اپنے جیسے انسانوں کے اختیار میں دے دیں؟

جواب

چند نکات کی طرف توجہ کر نے سے ان تمام سوالات کے جواب اور انسان کی زندگی کے نظام میں انبیاء کا مرتبہ واضح ہو جائے گا۔

۱ ۔ہمیں جاننا چاہئے کہ ہمارا علم وشعور محدود ہے ۔بشر کو نصیب ہوئی تمام علمی ترقی کے باوجود آج جو کچھ ہم جانتے ہیں وہ ہمارے نہ جاننے کے مقابلہ میں ایک سمندر کے مقابلہ میں ایک قطرہ اور ایک پہاڑ کے مقابلہ ایک تنکے کے مانند ہے ۔یا بعض بڑے دانشوروں کے کہنے کے مطابق جو بھی علوم آج ہمارے اختیار میں ہیں وہ کائنات کی کتاب ہستی کے الف با کے برابر ہیں۔

دوسرے الفاظ میں:ہمارے فیصلہ اور عقلی ادراک کا دائرہ ایک چھوٹے سے علاقہ کے مانند ہے کہ علم ودانش کی شعاعوں نے اسے روشن کیا ہے اور ہم اس کے باہر کی دنیا سے بالکل بے خبر ہیں۔

انبیاء آتے ہیں اور اس وسیع علاقہ کو ہماری ہر ضرورت کی حد تک روشن کرتے ہیں۔حقیقت میں ہماری عقل ایک قوی اور تیز روشنی والے لیمپ کے مانند ہے،لیکن انبیاء اور آسمانی وحی کی مثال تمام عالم کو روشن کر نے والے سورج کے مانند ہے۔کیا ایک قوی اور تیز روشن لیمپ رکھنے والا یہ کہہ سکتا ہے کہ میں سورج کا محتاج نہیں ہوں ؟!

واضح تر عبارت میں:زندگی کے مسائل کو تین گروہوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے :”معقول“،”غیر معقول“ اور”مجہول“۔

انبیاء ہر گز نا معقول بات،یعنی عقل وخرد کے خلاف نہیں کہتے اور اگر ایسی بات کہیں تو وہ انبیاء نہیں ہیں ۔وہ مجہو لات کو سمجھنے اور درک کر نے میں ہماری مدد کرتے ہیں اور یہ بات ہمارے لئے بہت اہمیت رکھتی ہے۔

لہذا وہ افراد جو زمانہ ماضی میں کہتے تھے کہ عقل وخرد کے ہوتے ہوئے ہم انبیاء کے محتاج نہیں ہیں ،(جیسے برہمن جو ہندوستان اور بعض دیگر علاقوں میں رہتے ہیں)یا وہ لوگ جوآج یہ کہتے ہیں کہ ان تمام علمی ترقیوں اور کا میابیوں کے بعد انسان انبیاء اور ان کی تعلیمات کا محتاج نہیں ہے ،تو وہ نہ انسان کے علم ودانش کی وسعت سے باخبر ہیں اور نہ انبیاء کی رسالت کا ادراک رکھتے ہیں ۔

ان لو گوں کی مثال اس بچے کی ہی ہے جوپہلی جماعت میں الف با پڑھنے کے بعد کہے کہ میں سب کچھ جا نتا ہوں اور مجھے معلم و استاد کی ضرورت نہیں ہے، کیا اس کی یہ بات بے بنیاد نہیں ہے؟

انبیاء صرف معلم ہی نہیں ہیں، ان کی رہبری کا مسئلہ ایک مستقل بحث کا حامل ہے کہ بعد میں ہم اس پر تفصیل سے روشنی ڈالیں گے۔

۲ ۔کوئی یہ نہیں کہتا ہے کہ انسان اپنے آپ کو مکمل طور پر اپنے ہی جیسے کسی شخص کے اختیار میں دے دے ۔اصل بات یہ ہے کہ انبیاء۔جیسا کہ ہم بعد میں ثابت کریں گے ۔وحی الہٰی یعنی خداوند متعال کے لا محدودعلم سے رابطہ رکھتے ہیں اور ہمیں چاہئے کہ قطعی دلائل کے ساتھ خداوند متعال سے ان کے رابطہ کو پہچانیں ،صرف اسی صورت میں ہم انبیاء کی باتوں کونہ صرف قبول کریں گے بلکہ ان کی تعلیمات پر دل وجان سے عمل بھی کریں گے ۔

اگر میں ایک ماہر اور ہمدرد طبیعت کے نسخہ پر عمل کروں تو کیا میں نے کو ئی برا کام کیا ہے؟

انبیاء ہمارے عظیم روحانی طبیب ہیں۔

اگر ہم نے اپنے معلم واستاد کے درس کو ،جو ہماری عقل و فکر کے مطابق ہے،کو قبول کریں تو کیا ہم نے غلط کام کیا ہے؟انبیاء بشریت کے سب سے بڑے معلم ہیں۔

بہتر یہ ہے کہ ہم خدا کی طرف سے انبیاء کی بعثت کی ضرورت کے دلائل پر مزید دقت کے ساتھ بحث کریں ۔

ہمارے پاس تین ایسی واضح اور محکم دلیلیں موجود ہیں ،جن سے ثابت ہو تا ہے کہ ہم انبیاء کی راہنمائی کے محتاج ہیں:

۱ ۔تعلیم کے اعتبار سے احتیاج

اگر ہم نور کی ایک خیالی اور افسانوی سواری پر سوار ہو کر تین لاکھ کیلو میٹر (پچاس ہزار فرسخ)فی سیکنڈ کی رفتار سے اس لا محدود کائنات کی سیر کریں تو کسی شک وشبہہ کے بغیر ہمیں حضرت نوح(ع) کی عمر جیسی ہزاروں عمریں در کار ہوں گے تاکہ ہم اس وسیع و عریض کائنات کے صرف ایک گوشے کا نظارہ کرسکیں۔

یہ کائنات اپنی ان تمام حیرت انگیز وسعتوں کے ساتھ یقینا عبث اور فضول نہیں بنائی گئی ہے اور جیسا کہ ہمیں توحید کے اسباق میں معلوم ہوا ہے کہ اس کائنات کا کوئی بھی فائدہ یا نفع خداوند متعال کے لئے نہیں ہے کیونکہ وہ ایک ایسا وجود ہے جو ہر لحاظ سے کامل،بے نیاز ،لامحدوداورہر نقص وعیب سے پاک ہے۔اس نے اس کائنات کو اس لئے نہیں بنایا ہے کہ اپنے کسی نقص کو بر طرف کرے۔

اس لئے ہم یہ نتیجہ لیتے ہیں کہ خداوند متعال کا مقصد یہ ہے کہ دوسروں پر جو دو کرم کرے اور تمام موجودات کو تکا مل تک پہنچا دے ،جیسے سورج جو ہم زمین والوں پر چمکتا ہے حالانکہ وہ ہمارا محتاج نہیں ہے ۔سورج کی یہ روشنی صرف ہمارے فائدے کے لئے ہے ورنہ ہم سورج کے لئے کون سی خدمت انجام دے سکتے ہیں۔

کیا ہمارے لئے رشد و تکامل کی راہ کو طے کرنے اور انسان کامل کے مرحلہ تک پہنچنے کے لئے صرف ہماری معلومات کافی ہیں؟

ہم اس کائنات کے اسرار ورموز میں سے کتنے اسرار کے بارے میں آگاہ ہیں؟ بنیادی طور پر ہماری زندگی کی حقیقت کیا ہے ؟یہ کائنات کب سے وجود میں آئی ہے؟کوئی بھی شخص ان سوالات کے صحیح اور دقیق جوابات نہیں جانتا ۔یہ کائنات کب تک باقی رہے گی ؟اس کا جواب بھی کسی کے پاس نہیں ہے۔

اجتماعی اور اقتصادی زندگی کے لحاظ سے بھی ہر دانشور اپنا ایک خاص نظریہ رکھتا ہے۔

مثلاً ایک گروہ”سر مایہ داری“نظام کا قائل ہے جبکہ دوسرا گروہ ”سوشلزم“اور ”کمیونزم“ کے نظریات کا حامی ہے اور تیسرا گروہ نہ پہلے کو قبول کر تا ہے اور نہ ہی دوسرے کو بلکہ دونوں گروہوں کے نظریات کو نقصان دہ جان کر مسترد کرتا ہے ۔

اسی طرح زندگی کے دیگر مسائل میں بھی دانشوروں کے نظریات میں کافی اختلافات پائے جاتے ہیں۔

انسان حیران وپریشان ہو جاتا ہے کہ ان نظریات میں سے کس نظریہ کو قبول کرے۔؟!

انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ اس بات کا اعتراف کیا جانا چاہئے کہ خلقت کے بنیادی اور حقیقی مقصد یعنی ”انسان کی تمام جہات میں پرورش ،بالید گی اور تکامل“کی منزل تک پہنچنے کے لئے ایسی تعلیمات کی ضرورت ہے جو صحیح اور حقیقی ہوں اور ہر قسم کی خطاؤں سے پاک اور زندگی کے حقائق کے مطابق ہوں ،ایسی تعلیمات جو اس طویل راہ میں اصلی منزل مقصود تک پہنچنے کے لئے انسان کی مددگار ثابت ہوسکیں۔

اور یہ سب کچھ صرف علم خدا یعنی انبیاء کے ذریعہ حاصل ہو نے والی الہٰی وحی سے ہی حاصل ہو سکتا ہے ۔اسی وجہ سے جس خدانے ہمیں اس کو طے کرنے کے لئے پیدا کیا ہے ،ضروری ہے کہ وہ ایسا علم ودانش بھی ہمارے اختیار میں قرار دے ۔

۲ ۔اجتماعی اور اخلاقی مسائل میں رہبری کی احتیاج

ہم جانتے ہیں کہ ہمارے وجود میں” عقل وخرد “کے علاوہ ایک اور قوت بھی موجود ہے کہ جس کا نام ”غرائز اور خواہشات“ ہے :خود پسندی کا غریزہ ،خشم وغضب کا غریزہ ،شہوت کا غریزہ اور اس قسم کے بہت سے دیگر غرائز اور خواہشات۔

بیشک اگر ہم اپنے غرائز کو قابو میں نہ رکھیں تو وہ ہم پر مسلط ہو جائیں گے حتی ہماری عقل وخرد کو بھی اسیر بنالیں گے اور انسان تاریخ کے ظالموں اور جابروں کی طرح ایسے بھیڑیے کی شکل اختیار کرلے گا جو ہر اعتبار سے جنگل کے بھیڑیوں سے بھی زیادہ خطرناک ہوگا۔

ہم اخلاقی تربیت کے لئے ایک تربیت کرنے والے استادکے محتاج ہیں ،ہم ایک”نمونہ“اور ”اسوہ“کے محتاج ہیں تاکہ”محاکات“ کے اصول کے مطابق اس کی گفتار ورفتار پر عمل کرسکیں۔

یہ ضروری ہے کہ ہر لحاظ سے ایک کامل اور تربیت یافتہ انسان اس خطرناک اور نشیب و فراز سے پر راستے میں ہمارا ہاتھ پکڑ لے اور ہمیں غرائز وخواہشات کے طغیان سے بچائے ،اخلاقی فضائل کے اصولوں کو اپنے کردار وعمل سے ہمارے دل وجان میں نقش کردے اور ہماری روح میں شجاعت،شہامت ،انسان دوستی،مروت،عفو وبخشش، وفادری،سچائی ،امانت داری اور پاک دامنی کو پروان چڑھائے۔

معصوم انبیاء کے علاوہ کون ہمارا ایسا مربی اور راہنما بن سکتا ہے؟

اسی دلیل کے پیش نظر ممکن نہیں ہے کہ ہمارا مہر بان اور ہر چیز پر قدرت رکھنے والا خدا ہمیں ایسے راہنماؤں سے محروم رکھے۔(اس بحث کا باقی حصہ آئندہ سبق میں بیان ہو گا)

غور کیجئے اور جواب دیجئے

۱ ۔کیا آپ یہ احساس کرتے ہیں کہ آپ کا علم ودانش جس قدر بھی زیادہ ہو جائے آپ کی جہالت آپ کے علم کے مقابلہ میں بہت زیادہ ہے؟(مثال دیجئے)

۲ ۔کیا آپ اندھی تقلید اور انبیاء کی پیروی کے در میان فرق کی وضاحت کر سکتے ہیں؟

۳ ۔اگر ہم کسی نا معلوم راستے پرراہنما کے بغیر چلیں تو ہمیں کن ممکنہ خطرے کا سامنا پڑ سکتا ہے؟

۴ ۔ہم انبیاء کی رہبری کے کس قدر اور کس لحاظ سے محتاج ہیں وضاحت کیجئے۔

۵ ۔کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ اس سبق میں کونسا مطلب باقی رہا ہے جو آئندہ سبق میں بیان کیا جائے؟

دوسرا سبق: قانون گزاری کے لئے انبیاء کی ضرورت

ہم گزشتہ درس میں”تعلیم“اور” تربیت“کے حوالے سے انبیاء کی ضرورت کے بارے میں جان چکے ہیں ۔اب اجتماعی قوانین اور اس سلسلہ میں انبیا کے اہم رول پر بحث کریںگے۔

ہم جانتے ہیں کہ انسان کی زندگی کی سب سے بڑی خصوصیت جواس کی ترقی کا سبب بنی ہے اور اس کی زندگی کے مختلف پہلوؤں میں مشہود ہے،اس کی وہی پر تلاش اجتماعی زندگی ہے۔

یقینا اگر تمام انسان ایک دوسرے سے الگ تھلگ زندگی بسر کرتے تو تہذیب وتمدن اور فکری لحاظ سے آج وہ سب ”عصر حجر“کے انسان جیسے ہوتے!

جی ہاں!یہ انسان کی اجتماعی تلاش وکوشش ہی ہے،جس نے تہذیب و تمدن کا چراغ جلایا ہے ،یہی اجتماعی تلاش وکوشش ہے جو انسان کی تمام علمی ایجادات اور انکشافات کا سبب بنی ہے۔

مثال کے طور پر اگر ہم چاند تک پہنچنے کے سفر کے مسئلہ پر غورکریں،تو معلوم ہو گا کہ یہ کام صرف ایک یا چند دانشوروں اور سائنسدانوں کی کوششوں کا نتیجہ نہیں ہے ،بلکہ ہزاروں برسوں کے دوران لا کھوں علماء اور دانشوروں کے اجتماعی مطالعات ،انکشافات اور تجربیات کا نتیجہ ہے کہ انسان اس عظمت تک پہنچا ہے ۔

اگر ہمارے زمانہ میں ایک ماہر سرجن ایک مردہ انسان کے قابل استفادہ دل کو نکال کر دوسرے قریب المرگ انسان کے سینہ میں پیوند لگاتا ہے اور اسے قطعی موت سے نجات دلاتا ہے،تو یہ پوری تاریخ کے ہزاروں طبیبوں اور جراحوں کے تجربوں کا نتیجہ ہے جو استادوں کے ذریعہ شاگردوں کو منتقل ہوتا رہا ہے۔

لیکن اس اجتماعی زندگی میں ان تمام فوائد کے باوجود کچھ مشکلات بھی ہیں ،اور ہ مشکلات انسانوں کے ایک دوسرے کے حقوق اور منافع کا آپس میں متصادم ہونا ہے جو کبھی حق تلفی اور جنگ کی صورت اختیار کر لیتی ہیں۔

یہاں پر قوانین ،نظام اور قواعد وضوابط کی ضرورت واضح ہو جاتی ہے ۔قوانین ہماری تین بڑی مشکلات کو حل کرسکتے ہیں :

۱ ۔قانون معاشرے کی نسبت ہر فرد کے اختیارات اور ذمہ داریوں کو اور ہر فرد کی نسبت معاشرے کی ذمہ داریوں اور فرائض کو واضح کرتا ہے،اور قابلیتوں کو بالید گی اور کوششوں کو مربوط کر نے کا سبب بنتا ہے۔

۲ ۔قانون لوگوں کے فریضوں اور ذمہ داریوں کی انجام دہی پر ضروری نگرانی کی راہ ہموار کرتا ہے۔

۳ ۔قانون لوگوں کو ایک دوسرے کے حقوق کو پامال کر نے سے روکتا ہے اور معاشرے کو ہرج و مرج اور مختلف افراداور گرہوں کے در میان تصادم سے بچاتاہے۔ ضرورت پڑنے پر زیادتی کر نے والوں کے لئے مناسب سزائیں معیّن کرتا ہے ۔

بہترین قانون ساز کون ہے؟

اب ہمیں دیکھنا چاہئے کہ انسان کی ضرورت کے مطابق قانون سازی میں مذکورہ تین اصولوں کے ساتھ بہترین قوانین مرتب و منظم کر نے والا کون ہو سکتا ہے؟ تاکہ معاشرے کے افراد اور خود معاشرہ کے اختیارات ،فرائض اور حقوق واضح اور معین ہو جائیںاور لوگوں کے اعمال پر مکمل نگرانی کے علاوہ ظلم و زیادتی کر نے والوں کو بھی روکا جاسکے۔

اس سلسلہ میں ہم یہاں پر ایک واضح مثال پیش کرتے ہیں :

انسانی معاشرہ کو ایک بڑی ٹرین اور حکمراں طبقہ کو اسے چلا نے اور حرکت میں لانے والے انجن سے تشبیہ دی جاسکتی ہے۔

قانون اس ریلوے لائن کی پٹری کے مانند ہے جواس ریل گاڑی کو منزل مقصود تک پہنچنے کے راستہ کو معین کرتی ہے۔

پہاڑوں اور درّوں کے مختلف پیچ وخم سے گزر نے والی ایک اچھی ریلوے لائن کے لئے درج ذیل خصوصیات کا ہو نا ضروری ہے:

۱ ۔جس زمین سے ٹرین کو گزر نا ہے ،اس میں اس کے زیادہ سے زیادہ دباؤ کو برداشت کر نے کی طاقت ہونی چاہئے۔

۲ ۔ریل کی دوپٹریوں کے درمیان کا فاصلہ مکمل طور پر ٹرین کے پہیوں کے موافق اور ھماھنگ ہو ناچاہئے اور اسی طرح ٹنلوں کی دیواریں اور ان کی بلندی ٹرین کی بلندی کے مطابق ہو نی چاہئے۔

۳ ۔نشیب و فراز اتنے گہرے اور اونچے نہ ہوں کہ ٹرین کے بریکوں اور اس کے جاذبہ کی قوت کو برداشت نہ کرسکیں۔

۴ ۔اسی طرح ٹرین کے گزر نے کے راستہ پر پہاڑوں سے پتھروں کے گرنے،سیلاب اور برف کے تودوںکے گرنے کو مکمل طور پر مد نظر رکھنا چاہئے تاکہ ٹرین صحیح وسالم ان رستوں سے گزر کر منزل مقصود تک پہنچ سکے۔اسی طرح اور دوسرے خصوصیات بھی اس زمین میں پائے جانے چاہئیں۔

اس مثال کو بیان کر نے کے بعد ہم پھر انسانی معاشرہ کی بحث کی طرف لوٹتے ہیں۔

انسانوں کے لئے بہتریں قانون بنانے والے قانون ساز کو مندرجہ ذیل خصوصیات کا حامل ہو نا چاہئے:

۱ ۔نوع انسان کو مکمل طور پر پہچانتا ہو اور ان کے تمام غرائز ،خواہشات،جذبات،ضروریات اور مشکلات سے آگاہ ہو۔

۲ ۔انسانوں میں پائی جانے والی تمام صلاحیتوں اورتوانائیوں کو مد نظر رکھے اور ان کو اجاگر کر نے کے لئے قوانین سے استفادہ کرے۔

۳ ۔معاشرے کو ممکنہ طور پر پیش آنے والے ہر قسم کے حوادث اور ان کے رد عمل کے بارے میں قبل از وقت پیش گوئی کرسکے۔

۴ ۔معاشرہ سے اس کے کسی بھی قسم کے منافع مربوط نہ ہوں تاکہ قوا نین وضع کرتے وقت اس کی فکر خود اپنے شخصی یا اپنے رشتہ داروں یا اپنی جماعت کے منافع کی طرف متوجہ نہ رہے۔

۵ ۔ضروری ہے کہ یہ قانون بنانے والا مستقبل میں انسان کو حاصل ہو نے والی ہر قسم کی ترقی یا تنزل سے مکمل طور پر آگاہ ہو۔

۶ ۔یہ قانون ساز ہر قسم کی خطا،غلطی اور فراموشی سے محفوظ ہو ناچاہئے۔

۷ ۔یہ قانون ساز ایسی طاقت کا مالک ہو ناچاہئے کہ معاشرے کے کسی فرد کی طاقت کے مقابلہ میں مرعوب نہ ہو جائے اور کسی سے نہ ڈرے اور اس کے ساتھ ہی نہایت مہر بان اور ہمدرد ہو نا چاہئے۔

یہ شرائط کس میں جمع ہیں؟

کیا انسان بہترین قانون ساز ہو سکتا ہے ؟

کیا آج تک کسی نے مکمل طورپر انسان کو پہچانا ہے؟جبکہ عصر حاضر کے ایک بڑے دانشور نے انسان کے بارے میں ایک مفصل کتاب لکھی ہے اور اس کا نام”انسان، موجود ناشناختہ “(انسان ایک نا شناختہ مخلوق)رکھا ہے ۔

کیا انسان کی ذہنیت ،میلانات ،غرائز اور جذبات کو مکمل طور پر پہچان لیا گیا ہے؟

کیا انسان کی جسمانی اور روحانی ضروریات کو خداوند متعال کے علاوہ کوئی اورشخص جانتا ہے؟

کیا عام انسانوں میں کوئی ایسا شخص پایا جاسکتا ہے جو معاشرے میں خاص ذاتی منافع نہ رکھتا ہو؟

کیا آپ عام انسانوں کے در میان کسی ایسے شخص کو جانتے ہیں جو سہو وخطا سے محفوظ ہو اور معاشرے کے تمام افراد کو در پیش مسائل سے آگاہ ہو؟

لہذا خداوند متعال کی ذات اور خدا سے وحی حاصل کر نے والی ہستی (معصوم) کے علاوہ کوئی بھی شخص مکمل اور بہترین قانون سازنہیں ہو سکتا ہے ہم اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں: جس خدا وند متعال نے انسان کو کمال کے مراحل طے کر نے کے لئے پیدا کیا ہے ،اسے چاہئے کہ اس کی ہدایت کے لئے ایسے افراد کو مامور فر مائے جو تمام الہٰی قوانین کو انسان کے اختیار میں دے دیں۔

یقیناجب لوگ جان لیں گے کہ فلاں قانون ،خدا کا قانون ہے تو وہ اسے زیادہ اعتماد اور اطمینان سے قبول کر کے اس پر عمل کریں گے اور دوسرے الفاظ میں یہ آگاہی ان قوانین کے بہترین نفاذ کی ضمانت فراہم کرے گی۔

توحید و نبوت کے در میان رابطہ

ہم یہاں پر اس مطلب پر تو جہ کر نا ضروری سمجھتے ہیں کہ نظام خلقت بذات خود انبیائے الہٰی اور ان کی رسالت کے وجود پر ایک زندہ گوا ہے ۔

اس مطلب کی وضاحت یہ ہے :اگر ہم کائنات کے حیرت انگیز نظام پر ایک تحقیقی نظر ڈالیں تو ہمیں معلوم ہو گا کہ خدا وند متعال نے اپنی مخلوقات کی کسی بھی ضرورت کو اپنے لطف و کرم سے محروم نہیں رکھا ہے ۔مثلاًاگر اس نے ہمیں دیکھنے کے لئے آنکھیں عطا کی ہیں تو ان کی حفاظت اورروشنی کو مناسب طور پر تنظیم کر نے کے لئے پلکیں اور بھنویں بھی عطا کی ہیں ۔

آنکھوں کے گوشوں میں آنسوؤں کے غدود خلق کئے ہیں تا کہ آنکھوں کو مرطوب رکھیں ،کیونکہ آنکھوں کا خشک ہو نا ان کی نابودی کا سبب بن سکتا ہے۔

آنکھ کے گوشوں میں باریک سوراخ بنائے ہیں تا کہ آنکھوں کا اضافی پانی ان سوراخوں کے ذریعہ ناک میں داخل ہو جائے ۔اگر یہ باریک سوراخ نہ ہو تے تو آنسوؤں کے قطرے مسلسل ہمارے چہرے پر بہتے رہتے!

آنکھ کی پُتلی کو اس قدر حساس بنایا ہے کہ وہ خود بخود تیز یا کم روشنی کے مقابلہ میں تنگ یا گشادہ ہو جاتی ہے ،تا کہ ضرورت کے مطابق آنکھ میں روشنی داخل ہو جائے اور آنکھ کو کسی قسم کا صدمہ نہ پہنچے ۔

آنکھ کے حلقہ کے اطراف میں ایسے مختلف پٹھے بنائے ہیں تا کہ سر اور بدن کو ہلائے بغیر آنکھ کو آسانی کے ساتھ ہر طرف گھما کر مختلف مناظر کو دیکھا جا سکے ۔

وہ خدا جو انسان کی مختلف ضروریات کا اس قدر خیال رکھتا ہے ،کیا یہ ممکن ہے کہ وہ اسے ایک معصوم اور قابل اعتماد رہنما اور رہبر سے محروم رکھے جو وحی الہٰی کے ذریعہ راہنمائی کرتا ہو؟!

مشہور و معروف فلاسفر بو علی سینا اپنے کتاب ”شفا“میں یوں لکھتا ہے:

”انسان کے لئے اپنی بقا کے تحفظ اور کمال حاصل کر نے کی ضرورت کے پیش نظر انبیاء کا مبعوث ہو نا یقینا پلکوں اور بھنوؤں کے بال اُگنے اور پاؤں کے تلوؤں میں خمیدگی جیسی چیزوں سے زیادہ ضروری ہے۔ممکن نہیں ہے کہ خداوند متعال اپنی ازلی عنایت کے تقاضے کی بناپر مذکورہ ضروری چیزوں کو پیدا کرے لیکن ان سے زیادہ ضروری چیز کو پیدا نہ کرے؟“

غور کیجئے اور جواب دیجئے

۱ ۔انسان کی زندگی کی سب سے بڑی خصوصیت کیا ہے؟

۲ ۔انسان قانون کے بغیر زندگی کیوں نہیں گزار سکتا ہے؟

۳ ۔انسانی زندگی میں قانون کی اہمیت کو واضح کر نے کے لئے ایک زندہ مثال بیان کیجئے۔

۴ ۔ایک بہترین قانون ساز کے لئے کن صفات کا ہو نا ضروری ہے؟

۵ ۔انبیاء کا خود انسانوں میں سے ہو نا کیوں ضروری ہے؟

پانچواں سبق: ایک سچاواقعہ

ہم نے بیان کیا کہ زبان سے خدا کا انکار کر نے والے بھی اپنی روح کی گہرائیوں میں خدا کے وجود کا ایماب رکھتے ہیں۔

بیشک کامیاں بیاں ۔خاص کر کم ظرف لوگوں کے لئے۔غرور پیدا کرتی ہیں اور یہی غرور ،فراموشی کا سبب بنتا ہے ،یہاں تک کہ کبھی انسان اپنی فطرت کو بھی بھول جاتا ہے ۔لیکن جب حوادث کے طوفان اس کی زندگی کو تہس نہس کر کے رکھ دیتے ہیں اور مشکلات کی تندو تیز آندھیاں ہر طرف سے اس پر حملے کرتی ہیں ،تو اس کی آنکھوں کے سامنے سے غرور و تکبر کے پردے ہٹ جاتے ہیں اور توحید و معرفت خدا کی فطرت نمایاں ہو جاتی ہے۔

تاریخ بشر اس قسم کے افراد کے بہت سے نمو نے پیش کرتی ہے ،مندرجہ ذیل واقعہ ان میں سے ایک ہے:

ایک شخص اپنے زمانے کا مقتدر اور قوی وزیر تھا ،اکثر عہدوں کو اپنے قبضہ میں لے چکا تھا ،کوئی اس کی مخالفت کی جرئت نہیں کرتا تھا ۔ایک دن یہ وزیر ایک ایسی مجلس میں داخل ہوا جہاں پر دینی علماء بیٹھے تھے ۔اس نے ان سے مخاطب ہو کر کہا تم لوگ کب تک کہتے رہو گے کہ کائنات میں کوئی خدا ہے ،میں اس کی نفی میں ہزار دلیلیں پیش کرسکتا ہوں۔

اس نے اس جملہ کو ایک خاص غرور وتکبر کے ساتھ ادا کیا ۔مجلس میں موجود علماء چونکہ جانتے تھے کہ وہ اہل منطق واستلال نہیں ہے اور اقتدار نے اسے اس قدر مغرور کر دیا ہے کہ کوئی حق بات اس پر اثر انداز نہیں ہو سکتی ہے،اس لئے انہوں نے بے اعتنائی کے ساتھ ایک با معنی اور حقارت آمیز خاموشی اختیار کی۔

یہ واقعہ گزر گیا ،ایک مدت کے بعد وزیر پر الزام لگا یا گیا اور وقت کی حکومت نے اسے گرفتار کر کے جیل بھیجدیا۔

ان علماء میں سے ایک عالم جو اس دن اس مجلس میں موجود تھا ،اس نے سوچا کہ اس شخص کی بیداری کا وقت آگیا ہے ،اب جبکہ اس کا غرور ٹھنڈا ہو چکا ہے اور خود پرستی کے پر دے اس کی آنکھوں سے ہٹ گئے ہیں اور حق کو قبول کر نے کی حس اس میں پیدا ہو گئی ہے اگر اب اس سے رابطہ قائم کیا جائے اور اس کی نصیحت کی جائے تو سود مند ہو گی ۔اس عالم دین نے اس شخص سے ملاقات کی اجازت حاصل کی اور اس سے ملاقات کر نے کے لئے جیل گیا ۔جوں ہی وہ اس شخص کے نزدیک پہنچا تو لوہے کی سلاخوں کے پیچھے اسے ایک کمرہ میں اکیلا پایا ۔وہ ٹہلتے اور سوچتے ہو ئے کچھ اشعار گنگنا رہا تھا ،عالم دین نے غور سے سنا تو دیکھا وہ یہ معروف اشعار پڑھ رہا تھا:

ما ہمہ شیران ولی شیر علم حملہ مان از باد باشد دم بدم!

حملہ مان پیدا وناپیداست باد جان فدای آن کہ ناپیداست باد!

یعنی ہماری مثال ان شیروں کے مانند ہے جو جھنڈوں پر نقش کئے جاتے ہیں،جب ہوا چلتی ہے تو وہ حر کت میں آتے ہیں گویا وہ حملہ کرتے ہیں لیکن حقیقت میں وہ کچھ نہیں ہیں بلکہ یہ ہوا کا چلنا ہے جو اسے قدرت بخشتا ہے ،ہم بھی جس قدر طاقتور ہو جائیں یہ طاقت ہماری اپنی نہیں ہے ۔جس خدا نے ہمیں یہ طاقت دی ہے،وہ جب چاہے ہم سے واپس لے لے۔

مذکورہ عالم دین نے دیکھا کہ ان حالات میں نہ صرف یہ خدا کا منکر نہیں ہے بلکہ ایک شدید خداشناس بن گیا ہے ۔اس سے حال واحوال پوچھنے کے بعد کہا:یاد ہے ایک دن تم نے کہاتھا :خدا کی نفی میں ہزار دلائل پیش کر سکتا ہوں میںاس و قت اس لئے آیاہوں کہ تمھارے ہزار دلائل کا ایک جواب دوں :خدا وند متعال وہ ہے جس نے تم سے اس عظیم اقتدار کو اس آسانی کے ساتھ چھین لیا، اس نے اپناسر نیچا کر لیا اور شر مندہ ہو گیا اور کو ئی جواب نہیں دیا کیو نکہ اس نے اپنی غلطی کا اعتراف کر لیا تھا اور وہ اپنی روح کے اندر خدا کے نور کا مشاہدہ کر رہا تھا۔

قرآن مجید فرعون کے بارے میں فر ماتا ہے:

( حتیّٰ إذاادرکه الغرق قال آمنت انّٰه لا إلٰه إلّاالّذی آمنت به بنوا إسرائیل ) (سورئہ یونس/ ۹۰)

”یہاں تک کہ غر قابی نے اسے (فرعون کو)پکڑ لیا تو اس نے آوازدی کہ میں اس خدائے وحدہ لاشریک پر ایمان لے آیا ہوں جس پر بنی اسرائیل ایمان لائے ہیں“

غور کیجئے اور جواب دیجئے

۱ ۔مذکورہ سچے واقعہ کو چند سطروں میں بیان کیجئے ۔

۲ ۔بنی اسرائیل کو کیوں بنی اسرائیل کہتے ہیں؟

۳ ۔فرعون کو ن تھا ،کہاں زندگی بسر کرتا تھا اور اس کا دعویٰ کیا تھا؟

چھٹا سبق: خدا کی معرفت کا دوسرا راستہ

ب۔بیرونی راستہ

ہم جس دنیا میں زندگی بسر کر رہے ہیں،اس پر ایک سرسری نظر ڈالنے سے اس حقیقت تک پہنچتے ہیں کہ کائنات درہم برہم نہیں ہے بلکہ تمام موجودات ایک معیّن راہ پر

گا مزن ہیں اور کائنات کا نظم ایک بڑی فوج کے مانند ہے جو مختلف اور منظم یونٹوں میں تقسیم ہو کر ایک معین مقصد کی طرف بڑھ رہا ہے ۔

مندر جہ ذیل نکات اس سلسلہ میں ہر شبہہ کو دور کرسکتے ہیں:

۱ ۔ہر زندہ مخلوق کے وجود میں آنے اور باقی رہنے کے لئے ضروری ہے کچھ خاص قوا نین اور حالات ایک دوسرے سے جڑُے ہوئے پائے جائیں ۔مثلاً ایک درخت کے وجود میں آنے کے لئے:زمین،مناسب آب وہوا اور ایک معیّن دھوپ اور گر می کی ضرورت ہو تی ہے تا کہ بیج کو ڈالا جائے اور وہ اچھی طرح سے غذا حاصل کرے ،تنفس کرے ،سبز ہو جائے اور نشو ونما پائے ۔

ان حالات کے بغیر اس کی نشو ونما ممکن نہیں ہے ،ان حالات کو منتخب کر نے اور ان مقد مات کو فراہم کر نے کے لئے عقل اور علم ودانش کی ضرورت ہے۔

۲ ۔ہر مخلوق کا اپنا ایک خاص اثر ہو تا ہے ،پانی اور آگ میں سے ہر ایک کا اپنا خاص اثر ہے ،جو ان سے کبھی جدا نہیں ہو تا ہے بلکہ ہمیشہ ایک ثابت اور پائدار قانون کی پیروی کر تا ہے ۔

۳ ۔زندہ مخلوقات کے تمام اعضاء آپس میں ایک دوسرے کا تعاون کر تے ہیں مثال کے طور پر یہی انسان کا بدن جو بذات خود ایک عالم ہے ،عمل کے وقت اس کے تمام اعضاء شعوری اور لا شعوری طور پر ایک خاص ہماہنگی سے کام کرتے ہیں ۔مثال کے طور پر اگر کسی خطرہ سے دوچار ہو جائے تو تمام اعضاء دفاع کے لئے متحد ہو جاتے ہیں ۔یہ نزدیک رابطہ اور تعاون،کائنات کے نظم کی ایک اور علامت ہے ۔

۴ ۔کائنات پر ایک نظر ڈالنے سے واضح ہو جاتا ہے کہ نہ صرف ایک زندہ مخلوق کے اعضاء وجسم بلکہ کائنات کی تمام مخلوقات بھی آپس میں ایک خاص ہماہنگی رکھتی ہیں۔ مثلاً زندہ مخلوقات کی نشو ونماکے لئے سورج چمکتا ہے ،بادل برستا ہے ،ہوا چلتی ہے ،زمین اور زمین کے منابع اس کی مدد کرتے ہیں ۔یہ کائنات میں ایک معین نظام کے وجود کی نشانیاں ہیں ۔

”نظم وضبط“اور ”عقل“کا رابطہ

یہ حقیقت ہر انسان کے ضمیر پر واضح ہے کہ جہاں کہیں بھی نظم پایا جاتا ہو وہ”عقل،فکر،نقشہ اور مقصد“کی دلیل ہے۔

کیونکہ انسان جہاں کہیں بھی ایک ثابت نظم وضبط اور قوانین کا مشاہدہ کرے وہ جانتا ہے کہ اس کے ساتھ ہی علم وقدرت کے ایک مبدا کی بھی تلاش اور جستجو کر نی چاہئے اور اپنے ضمیر کے اس ادراک میں کسی استدلال کی ضرورت کا احساس بھی نہیں کرتا ہے۔وہ اچھی طرح سے جانتا ہے کہ ایک اندھا اوران پڑھ شخص ہر گز ایک ٹائپ مشین سے ایک اچھا مضمون یاایک اجتماعی و تنقیدی مقالہ نہیں لکھ سکتا ہے ،اور ایک دوسال کا بچہ کاغذ پر نامنظم صورت میں قلم چلاکر ہر گز ایک اچھی اور گراں قیمت نقا شی نہیں کرسکتا ہے۔ بلکہ اگر ہم ایک اچھا مضمون یا گراں قیمت مقالہ دیکھتے ہیں تو جانتے ہیں کہ ایک تعلیم یافتہ اور عقل و شعور والے کسی شخص نے اسے لکھا ہے ،یااگر کسی نمائش گاہ میں نقاشی کا ایک اچھا نمو نہ دیکھتے ہیں تو اس بات میں شک وشبہہ نہیں کرتے ہیں کہ اسے ایک ہنر مند نقاش نے بنایا ہے ،اگر چہ ہم نے کبھی اس ہنر مند نقاش کو نہ دیکھا ہو۔

اس لئے جہاں کہیں بھی نظم وضبط پا یا جائے اس کے ساتھ عقل و ہوش ضرور ہو گا اور یہ نظم جس قدر بڑا،دقیق تر اور دلچسپ ہو گا ،جس علم و عقل نے اسے خلق کیا ہے وہ بھی اسی قدر بڑا ہو گا ۔

بعض اوقات اس بات کو ثابت کر نے کے لئے کہ ہر منظم چیز کے لئے عقل ودانش کے سر چشمہ کی ضرورت ہے ،ریاضیات عالی میں ذکر شدہ ”احتمالات کے حساب“سے مدد لی جاتی ہے اور اس طریقہ سے ثابت کرتے ہیں کہ مثلاًایک ان پڑھ شخص اگر ٹائپ مشین کے ذریعہ اتفاقی طور پر مشین کے بٹن دبا نے سے ایک مقالہ یا چند اشعار کو لکھنا چاہے تو”احتمالات کے حساب “کے مطابق اس میں اربوں سال لگ جائیں گے کہ حتی کرئہ زمین کی پوری عمر بھی اس کے لئے کافی نہیں ہوگی ۔(اس کی مزید وضاحت کے لئے کتاب”آفرید گار جہان“یا کتاب ”در جستجو خدا“کا مطالعہ فر مائیں)قرآن مجید فر ماتا ہے:

( سنریهم آیٰتنا فی الاٰفاق وفی انفسهم حتّیٰ یتبیّن لهم انّه الحقّ او لم یکف بربّک انّه علیٰ کل شیءٍ شهید ) (سورہ فصلت/ ۵۳)

”ہم عنقریب اپنی نشانیوں کو تمام اطراف عالم میں اور خود ان کے نفس کے اندر دکھلائیں گے تا کہ ان پر یہ بات واضح ہو جائے کہ وہ برحق ہے اور کیا تمھارے پرور دگار کے لئے یہ بات کافی نہیں ہے۔کہ وہ ہرشے کا گواہ اور سب کا دیکھنے والا ہے۔“

غور کیجئے اور جواب دیجئے

۱ ۔صنعتی کار خانوں کی چند مثالیں(سبق میں بیان کی گئی مثال کے علاوہ )پیش کیجئے ،جن کے مشاہدہ سے خالق کائنات کے وجود کا علم حاصل ہو جائے۔

۲ ۔”آفاق“اور ”انفس“میں کیا فرق ہے؟آفاق اور انفس میں خدا کی نشانیوں کی چند مثالیں بیان کیجئے۔

ساتواں سبق:نظام خلقت کے چند نمونے

پوری کائنات میں ”نظم“،”مقصد“اور”نقشہ“کو واضح طور پر مشاہدہ کیا جاسکتا ہے ۔اب توجہ فر ما یئے کہ ہم ان کے چند نمونوں کو بیان کرتے ہیں:

ہم نے یہاں پر آپ کے لئے چند چھوٹے بڑے نمونے اکٹھا کئے ہیں۔

خوشبختی سے آج طبیعی علوم میں ترقی کے نتیجہ میں عالم طبیعت میں انسان،حیوان،پودوں،خلیوں اور ایٹم کی حیرت انگیز عمارت کی باریک بینیوں اور ستاروں کے حیرت انگیز نظام نے ہم پر معرفت خدا کے دروازے کھول دئے ہیں۔اس لئے جر ات کے ساتھ کہا جاسکتا ہے کہ طبیعی علوم کی تمام کتابیں تو حید اور معرفت خدا کی کتابیں ہیں ،جو ہمیں عظمت پروردگار کا درس دیتی ہیں،کیونکہ یہ کتابیں کائنات کی مخلوقات کے دلکش نظام سے پردہ اٹھاتی ہیں اور بتاتی ہیں کہ خالق کائنات کس قدر عالم وقادر ہے۔

ملک بدن کی حکمرانی کا مرکز

ہماری کھوپڑی کے اندر خاکی رنگ کا ایک مادہ ہے ،جسے ہم مغز کہتے ہیں ۔یہ مغزہمارے بدن کے اہم ترین اور دقیق ترین حصہ کو تشکیل دیتا ہے ،کیو نکہ اس کاکام بدن کے تمام قوا کو فر مان جاری کرنا اور ہمارے جسم کے تمام اعضاء کو کنٹرول کرنا ہے۔اس عظیم مرکز کی اہمیت کو بیان کر نے کے لئے مناسب ہے پہلے آپ کے لئے یہ خبر بیان کریں:

جرائد میں یہ خبر نقل کی گئی تھی کہ ایک شیرازی طالب علم کو خوزستان میں ایک ٹریفک حادثہ کے نتیجہ میں مغز پر چوٹ لگ گئی تھی ،بظاہروہ سالم نظر آتا تھا ۔لیکن تعجب کی بات یہ ہے کہ وہ اپنی تمام یاد داشتیں کھو بیٹھا تھا۔اس کا دماغ بخوبی کام کر تا تھا ۔مطالب کو سمجھتا تھا،لیکن اگر اپنے ماں یا باپ کو دیکھتا تو انھیں نہیں پہچانتا تھا۔جب اس سے کہتے تھے کہ یہ تمھاری ماں ہے ،وہ تعجب کرتا تھا ۔اسے اپنے گھر شیراز لے جایا گیا اور اس کی دستکاری۔۔جو اس کے کمرہ کی دیوار پر نصب تھی ۔۔اسے دکھائی گئی تو وہ تعجب سے ان پر نگاہ کر نے کے بعد کہتاتھا کہ میں انھیں پہلی بار دیکھ رہا ہوں۔

معلوم ہوا کہ اس مغزی چوٹ کے نتیجہ میں اس کے دماغ کی خلیوں کا ایک حصہ، جو حقیقت میں فکر اور حافظہ کے مخزن کے در میان رابطہ کے تار کا رول ادا کرتا ہے ،بیکار ہوا ہے اور جیسے بجلی کا فیوزاڑ جانے کے نتیجہ میں بجلی منقطع ہو کر تاریکی پھیل جاتی ہے ،اسی طرح اس کی سابقہ یادوں کا ایک بڑا حصہ فرا موشی کی تاریکی میں ڈوب گیا ہے۔

شاید اس کے مغز کا بیکار شدہ حصہ ایک پن کی نوک سے زیادہ نہیں ہوگا ،لیکن اس نے اس کی زندگی پر کس قدر اثر ڈالا ہے !اس سے معلوم ہو تا ہے کہ ہمارے مغز کا سسٹم کس قدر پیچیدہ ہے اور اہم ہے۔

مغز و اعصاب کا سلسلہ دواہم حصوں سے تشکیل پاتا ہے :

۱ ۔ارادی اعصاب :ہمارے بدن کے تمام اختیاری حرکات،جیسے:راہ چلنے دیکھنے ،باتیں کر نے و....کا سرچشمہ اعصاب کا یہی حصہ ہے ۔

۲ ۔غیر ارادی اعصاب:اعصاب کا یہ حصہ ،دل کی دھڑکن،معدہ وغیرہ جیسے اعضاء کا کنٹرول کرتا ہے۔مغز کے اس حصہ کا ایک ذرہ بیکار ہو نے کے نتیجہ میں ممکن ہے انسان کا قلب یاکوئی دوسرا عضو مختل ہو کر رہ جائے۔

دماغ کا ایک عجیب وغریب حصہ:

”مخ“(بھیجا)دماغ کا وہ چھوٹا حصہ ہے جو دماغ کے دوحصوں کے در میان واقع ہے ،مغز کا یہ بالکل چھوٹاحصہ ہوش ،ارادہ اور شعور کا مرکز ہے۔یہ مغز کا ایک اہم ترین حصہ ہے بہت سے جذباتی رد عمل ،جیسے غضب اور ترس وغیرہ اسی سے مربوط ہیں ۔

اگر کسی جانور کا ”مخ“الگ کر دیا جائے ،لیکن اس کے باقی اعصاب اپنی جگہ پر صحیح وسالم ہوں تو وہ جانور زندہ رہتا ہے لیکن فہم وشعور کو بالکل ہی کھو دیتا ہے۔ایک کبو تر کا ”مخ“نکالا گیا ۔وہ ایک مدت تک زندہ رہا۔لیکن جب اس کے سامنے دانہ ڈالتے تھے وہ اسے تشخیص نہیں دے سکتا تھا اور بھوکا ہو نے کے باوجود اسے نہیں کھاتا تھا ۔اگر اسے اڑاتے تھے ،تو وہ پرواز ہی کرتا رہتا تھا ،یہاں تک کہ کسی چیز سے ٹکراکرگر جاتا تھا۔

دماغ کا ایک اور حیرت انگیز حصہ،”حافظہ“ ہے۔

کیا آپ نے اس پر غور کیا ہے کہ ہماراقوئہ حافظہ کس قدر حیرت انگیز ہے؟اگر ایک گھنٹہ کے لئے ہم سے حافظ چھین لیا جائے تو ہم کس مصیبت سے دو چار ہو جائیں گے؟!

حافظ کا مرکز ،جو ہماے دماغ کا ایک چھوٹا حصہ ہے ،ہماری پوری عمر کی یادوںکو تمام خصوصیات کے ساتھ ریکارڈکرتا ہے ۔جس شخص نے بھی ہم سے رابطہ قائم کیا ہو،اس کی تمام خصوصیات جیسے،قد،شکل وصورت،رنگ ،لباس،اخلاق اور جذبات کو ریکارڈ کر کے محفوظ رکھتا ہے اور ہر ایک کے لئے ایک الگ فائل تشکیل دیتا ہے۔لہذا جوں ہی ہم اس شخص سے روبرو ہو تے ہیں ،ہماری فکر تمام فائلوں میں سے اس شخص کی فائل کو نکال کر فوری طور پر اس کا مطالعہ کرتی ہے ۔اس کے بعد ہمیں حکم دیتی ہے کہ ہم اس کے مقابلہ میں کون سا رد عمل ظاہر کریں۔

اگر وہ دوست ہے تو اس کا احترام کریں اور اگر دشمن ہے تو اظہار نفرت کریں۔ لیکن یہ تمام کام اس قدر سرعت کے ساتھ انجام پاتے ہیں کہ وقت کے ذراسا بھی فاصلہ کا احساس تک نہیں ہو تا۔

اس مسئلہ پر تعجب اس وقت اور زیادہ ظاہر ہو تا ہے جب ہم اپنے حافظ میں موجود چیزوں کو تصویر کے ذریعہ کاغذپر تر سیم کر نا چاہیں یا انھیں کیسٹ میں ضبط کر نا چاہیں تو ہم بیشک کاغذ اور کیسٹ کی بڑی تعداد کو مصرف میں لاتے ہیں جو ایک انبار کی صورت اختیار کر لیتے ہیں۔عجیب تر یہ ہے کہ ان کیسٹوں اور کاغذات میں سے ایک کو باہر نکالنے کے لئے ہمیں بہت سے مامورین کی مدد کی ضرورت پڑتی ہے ،جبکہ ہمارا حافظہ ان تمام کاموں کو آسانی کے ساتھ فی الفور انجام دیتا ہے۔

بے شعورطبیعت کیسے باشعورچیزوں کی تخلیق کرسکتی ہے؟

انسان دماغ کے عجائبات کے بارے میں بہت سی کتابیں لکھی گئی ہیں،ان میں سے بعض کاکالجوں اور یونیورسٹیوںکی کتابوں میں مشاہدہ کیا جاسکتا ہے۔کیا اس پر باور اور یقین کیا جاسکتا ہے کہ یہ غیر معمولی ،انوکھا،دقیق،پیچیدہ اورپر اسرار دماغ کسی بے شعور طبیعت کی تخلیق ہوگی؟اس سے بڑھ کر کوئی بات تعجب انگیز نہیں ہوسکتی ہے کہ ہم بے عقل طبیعت کو عقل کا خالق جانیں!

قرآن مجید فر ماتا ہے:

( وفی انفسکم افلا تبصرون ) (ذاریات/ ۳۱)

”خود تمھارے اندر بھی (خدا کی عظمت اور قدرت کی بڑی نشانیاں ہیں)کیاتم نہیں دیکھ رہے ہو؟“

غور کیجئے اور جواب دیجئے

۱ ۔کیاآپ انسانی دماغ کے عجائبات کے بارے میں کچھ اور مطالب جانتے ہیں؟

۲ ۔خداوند متعال نے گوناگون حوادث کے مقابلہ میں انسانی دماغ کے تحفظ کے لئے کون سی تد بیریں کی ہیں؟

آٹھواں سبق: ایک چھوٹے سے پرندے میں حیرت انگیزدنیا

چمگادڑ اور اس کی عجیب خلقت

اس درس میں ہم اپنے بدن کے عظیم ملک سے۔۔کہ ہم نے اس کے سات شہروں میں سے ایک گلی کی بھی سیر نہیں کی ہے ۔۔باہر آکر تیزی کے ساتھ ادھر ُادھر گھوم پھر کر مخلوقات کے حیرت انگیز نظام کے چند نمو نے اکٹھا کریں گے:

ہم رات کی تاریکی میں آسمان پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔ہم ظلمت کے پردوں کے در میان ایک غیر معمولی پرندے کو پراسرار سایہ کی صورت میں دیکھتے ہیں جو پوری شجاعت کے ساتھ اپنی غذا حاصل کر نے کے لئے ہر طرف پرواز کر رہاہے۔

یہ پرندہ وہی ”چمگا دڑ“ ہے،جس کی ہر چیز عجیب ہے۔لیکن رات کی تاریکی میں اس کی پرواز عجیب تر ہے۔

اندھیری رات میں چمگا دڑ کا انتہائی سرعت کے ساتھ پروازکرنا اور کسی چیز سے اس کا نہ ٹکرانا اس قدر تعجب انگیز ہے کہ جتنا بھی اس پر غور کیا جائے اس پر اسرار پرندہ کے بارے میں نئے نئے اسرار معلوم ہو تے ہیں۔

یہ پرندہ رات کی تاریکی میں اسی سرعت وشجاعت کے ساتھ پرواز کرتا ہے کہ جیسے ایک تیز اڑنے والا کبوتر دن کے اجالے میں پرواز کر تا ہے ۔یقینا اگر اس پرندہ میں مانع کے بارے میں اطلاع دینے کا کوئی وسیلہ نہ ہو تا تو بڑی احتیاط سے اور آہستہ آہستہ پرواز کر تا۔

اگر اس پرندہ کو ایک تنگ و تاریک اورپرپیچ وخم اور سیاہی سے بھرے ٹنل(سرنگ)میں چھوڑ دیاجائے تووہ تمام پیچ وخم سے گزر جاتا ہے بغیر اس کے کہ ایک بار بھی ٹنل کی دیوار سے ٹکرائے اور ایک ذرہ سیاہی بھی اس کے پروں پر بیٹھے چمگادڑ کی یہ عجیب حالت اس کے وجود میں پائی جانے والی خاصیت کے سبب ہے جو کہ راڈار کی خاصیت کے ماند ہے۔

یہاں پر ہمیں راڈار کے بارے میں تھوڑی سی آگاہی حاصل کر نی چاہئے تا کہ ہمیں اس چھوٹے سے چمگادڑ میں اس راڈار کی حالت معلوم ہو جائے۔

علم فزیکس میں آواز کے سلسلہ میں ماورائے صوت کی امواج کے بارے میں ایک بحث ہے ۔یہ وہی امواج ہیں جن کا وقفہ اور طول اس قدر زیادہ ہے کہ انسان کے کان اسے درک کر نے کی قدرت نہیں رکھتے ہیں ،اسی لئے انھیں ماورائے صوت کہتے ہیں ۔

جب اس قسم کی امواج کو ایک قوی ٹرانسمیٹر کے ذریعہ ایجاد کیا جاتا ہے ،تو یہ امواج ہر طرف پھیلتی ہیں ۔لیکن جوں ہی فضا میں کسی جگہ پر کسی رکاوٹ (دشمن کے جہاز یا کسی اور مانع)سے ٹکراتی ہیں ایک فٹ بال کے دیوار سے ٹکرانے کے مانند واپس پلٹتی ہیں بالکل اسی طرح کہ جب ہم ایک اونچے پہاڑ یا دیوار کے سامنے آوازبلند کرتے ہیں تو اس آواز کی گونج پہاڑ یا دیوار سے ٹکرا کر واپس لوٹتی ہے ۔ان امواج کی باز گشت کی مدت کے مطابق اس مانع کے فاصلہ کا صحیح انداز کیا جاسکتا ہے۔

بہت سے ہوائی جہازوں اور کشتیوں کو راڈرار کے ذریعہ سے ہی ہدایت کی جاتی ہے جہاں کہیں بھی وہ جانا چاہیں ۔اسی طرح دشمن کے ہوائی جہاز اور کشتیوں کو معلوم کر نے کے لئے بھی راڈار سے استفا دہ کیا جاتا ہے۔

سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ اس چھوٹے سے پرندہ میں راڈار کے مانند ایک مشین موجود ہے ۔اس کا ثبوت یوں ملتا ہے کہ اگر چمکادڑ کو ایک بند کمرے میں پرواز کرائیں اور اسی لمحہ ماورائے صوت کی امواج کو سننے کے قابل امواج میں تبدیل کر نے والے ایک مائیکر وفون کو کمرہ میں رکھا جائے تو پورے کمرہ میں ایک نامفہوم گوش خراش آواز پھیل جائے گی اور ہر سیکنڈمیں ۳۰ سے ۶۰ مرتبہ ماورائے صوت کی امواج چمگادڑ سے سنی جائیں گی۔

لیکن سوال یہ پیدا ہو تا ہے کہ چمگادڑ کے کس عضو سے یہ امواج پیدا ہوتی ہیں یعنی اس کا ٹرانسمیٹرکون سا عضو ہے اور مائیکر و فون کون سا عضو ہے؟

اس سوال کے جواب میں سائنسدان کہتے ہیں:یہ امواج چمگادڑکے حلق کی نالی کے قوی پٹھّوں سے پیدا ہوتی ہیں اور اس کی ناک کے سوراخوں سے باہر نکلتی ہیں اور اس کے بڑے کان امواج کو حاصل کر نے میں مائیکروفون کاکام انجام دیتے ہیں۔

اس لئے چمگادڑاندھیری رات کی اپنی سیر و سیاحت کے دوران اپنے کانوں کا مر ہون منت ہے۔”جورین“نامی ایک روسی سائنسدان نے تجربے سے ثابت کیا ہے کہ اگر چمگادڑ کے کان کاٹ دئے جائیںتو وہ تاریکی میں کسی مانع سے ٹکرائے بغیر پرواز نہیں کرسکتا ہے۔جبکہ اگر اس کی آنکھوں کو بالکل ہی نکال دیا جائے تو پھر بھی وہ پوری مہا رت سے پرواز کر سکتا ہے ،یعنی چمگادڑ اپنے کانوں سے دیکھتا ہے،نہ اپنی آنکھوں سے اور یہ ایک عجیب چیز ہے۔(توجہ کیجئے!!)

اب ذرا غور کیجئے کہ اس چھوٹے سے پرندہ کے اس نازک جسم میں ان دو عجیب اور حیرت انگیز مشینوں کو کس نے خلق کیا ہے اور ان سے استفادہ کر نے کے طریقہ کو کس نے اسے سکھایا ہے تاکہ اس اطمینان بخش وسیلہ کے ذریعہ رات کے وقت اپنی پرواز کے دوران بہت سے خطرات سے محفوظ رہ سکے؟واقعاًکس نے سکھایا ہے؟

کیا یہ ممکن ہے کہ ایک بے شعور اور بے عقل طبیعت ایسا کام انجام دے سکے؟اور ایک ایسی مشین کو آسانی کے ساتھ اس پرندہ کے بدن میں قرار دے ،جسے بڑے بڑے سائنسدان کافی رقو مات خرچ کر کے بناتے ہیں؟

شاعر کہتا ہے:

شائستہ ستائش آن آفریدہ گاری اس کارچنین دلاویز نقشی زماء وطینی

وہ خالق جہان ہی تعریف کے ہی لائق جو آب وگل دکش جہاں بنادے

امیرالمؤمنین علی علیہ السلام نے نہج البلاغہ میں چمگادڑ کی خلقت کے بارے میں ایک مفصل خطبہ میں فر مایا ہے:

لاتمتنع من المضی فیه لغسق دجنتهفسبحان الباری لکل شیء علی غیر مثال “(خطبہ / ۱۵۵)

”وہ (چمگادڑ)شدید اندھیرے کی وجہ سے ہر گز اپنی راہ سے پیچھے نہیں ہٹتا ہے پاک ومنزّہ ہے وہ خدا جس نے کسی نمونہ کے بغیر ہر چیز کو خلق کیا ہے“

غور کیجئے اور جواب دیجئے

۱ ۔چمگادڑ کی خلقت کے بارے میں آپ کونسے مزید دلچسپ اطلاعات رکھتے ہیں؟

۲ ۔کیا آپ جانتے ہیں کہ چمگادڑ کے پر ،بچے کی پرورش کا طریقہ اور یہاں تک کہ اس کاسونا دوسرے حیوانات سے متفاوت ہے یعنی یہ مکمل طور پر ایک استثنائی پرندہ ہے

نواں سبق :حشرات اور پھولوں کی دوستی!

موسم بہار میں ایک دن ،جب ہوا رفتہ رفتہ گرم ہو رہی ہو،سرسبز اور خوبصورت باغوں اور کھیتوں کی ایک سیر کیجئے ۔آپ وہاں پر چھوٹے چھوٹے حشرات،شہد کی مکھیاں،طلائی مکھیاں ،تتلیاں اور چھوٹے چھوٹے مچھروں کو گروہوں کی صورت میں مشاہدہ کریں گے جوآہستہ آہستہ کسی قسم کے شور وغل کے بغیر ادھر اُدھردوڑتے پھرتے ہیں،ایک پھول سے اٹھ کر دوسرے پھول کی طرف پرواز کر تے ہیں ایک ٹہنی سے دوسری ٹہنی کی طرف اڑتے ہیں ۔

یہ حشرات اس قدر سر گرم عمل ہیں کہ جیسے کوئی مرموز طاقت ایک منتظم کے مانند انھیں حکم دیتی ہے اور ایک کارخانہ میں وردی پوش مزدوروں کی طرح ان کے پر وبال پھولوں کی زردی سے آغشتہ ہو کر مزدوروں کی شکل وصورت اختیار کر لیتے ہیں اور نہایت تندی اور لگن سے اپنے اپنے کام میں مصروف ہیں۔

حقیقت میں یہ ایک اہم ماموریت اور کام انجام دیتے ہیں ۔ان کی یہ ماموریت اس قدر عظیم ہے کہ پروفیسر رلئون برٹن اس سلسلہ میں کہتا ہے:

”بہت کم لوگ یہ جانتے ہیں کہ حشرات کے وجود کی بغیر ہمارے میوؤں کی ٹوکریاں خالی پڑی رہ جائیں گی“

ہم اس دانشور کے قول کے ساتھ اس جملہ کا اضافہ کرتے ہیں:”برسوں کے بعد ہمارے باغ اور لہلہاتے کھیت اس طراوت اور شادابی مکمل طور پر کھودیں گے ۔“اس لئے حقیقت میں حشرات میوؤں کی پرورش کرنے والے اور پھولوں کے بیج مہیّا کر نے والے ہیں۔

آپ ضرور پوچھیں گے کیوں کر؟اس لئے کہ پودوں کا حساس ترین حیاتی عمل یعنی عمل لقاح ( fertilization )انہی حشرات کے ذریعہ انجام پاتا ہے ۔آپ نے ضرور یہ بات سنی ہوگی کہ بہت سے حیوانوں کے مانند پھولوں میں نر و مادہ پائے جاتے ہیں اور جب تک ان کے در میان ملاپ اور پیوند کا کام انجام نہ پائے ،بیج ،دانہ اور ان کے نتیجہ میں میوہ حاصل نہیں ہو گا ۔

لیکن کیا آپ نے کبھی اس پر غور کیاہے کہ پودوں کے بے حس وحرکت مختلف حصے کس طرح ایک دوسرے کے ساتھ جذب ہوتے ہیں اور نر پھولوں کی خلیہ ،جو مرد کے نطفہ( sperm )کے حکم میں ہے،مادہ پھولوں کی خیلہ سے ،جو مادہ کے نطفہ ( )کے حکم میں ہے، ملتی ہے اور ان کے در میان ازدواج کے مقد مات فراہم ہو تے ہیں؟

یہ کام بہت مواقع پر حشرات کے ذریعہ انجام پاتا ہے اور بعض مواقع پر ہواؤں کے ذریعہ۔

لیکن یہ بات اتنی آسان نہیں ہے جیسا ہم خیال کرتے ہیں۔یہ مبارک اور بابرکت نکاح جو حشرات کی خواستگاری سے انجام پاتا ہے ۔اس کی ایک حیرت انگیز اور طولانی تاریخ ہے۔یہاں پر ہم اس کی ایک جھلک پیش کرتے ہیں:

دوقدیمی اور جگری دوست

علم طبیعت کے سائنسدان مطالعات و تحقیقات کے بعد اس نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ نباتات اور پھول زمین شناسی کے دوسرے دور کے دوسرے حصہ میں وجود میں آئے ہیں۔ تعجب کی بات ہے کہ اسی دوران میں حشرات بھی وجود میں آئے ہیں اور یہ دونوںحوادث و واقعات سے پُرخلقت کی پوری تاریخ میں ہمیشہ دو وفادار اور جگری دوستوں کے مانند زندگی بسر کرتے ہوئے ایک دوسرے کے لازم و ملزم رہے ہیں۔

پھولوں نے اپنے دائمی دوستوں کی محبت کو حاصل کر نے اور ان کے دہن کو شرین کر نے کے لئے ایک بہت ہی لذیز مٹھائی کو اپنے اندر ذخیرہ کیا ہے اور جب حشرات نر پھولوں کی خلیہ کو پیوند اور لقاح کے مقد مات مہیا کر نے کے لئے ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جانے کے لئے زحمت اٹھاتے ہوئے پھولوں کے اندر داخل ہوتے ہیں!تو پھول انھیں اس مٹھائی کو مفت میں پیش کرتے ہیں،یہ مخصوص قند حشرات کے لئے اتنا میٹھا اور لذیز ہو تا ہے کہ انھیں بے اختیار اپنی طرف کھینچ لیتا ہے۔

علم نباتات کے بعض ماہرین کا اعتقاد ہے کہ پھولوں کے خوبصورت رنگ اورخوشبوبھی حشرات کو اپنی طرف کھینچنے میں موثر ہیں ۔شہد کی مکھیوں پر کئے گئے تجربوں سے ثابت ہوا ہے کہ وہ رنگوں کو تشخیص دیتی ہیں اور پھولوں کی خوشبو کو درک کرتی ہیں۔

حقیقت میں یہ پھول ہیں جو خود کو حشرات کے لئے سجاتے ہیں اور خوشبو پھیلاتے ہیں تاکہ بازوق تتلیوں اور نفاست پسند شہد کی مکھیوں کو اپنی طرف کھینچ لیں۔وہ بھی دل کھول کر اس دعوت کو قبول کر کے کام کے مقد مات کو فراہم کرتے ہو ئے ان کی مٹھائی کو تناول کر تے ہیں ۔یہی مٹھائی اور خاص قند ہے جو حشرات کی غذا شمار ہوتی ہے اور جب یہ بہت ڈھیرہو جاتی ہے تو یہی شہد بن جاتا ہے ۔کیو نکہ جب حشرات پھولوں کے پاس آتے ہیں ،تو اس مٹھائی سے تھوڑا سا کھاتے ہیں اور اس کا زیادہ تر حصہ بے تکلّف مہمانوں کی طرح اپنے ساتھ لے جاکر اپنے چھتوں میں ذخیرہ کرتے ہیں۔پھولوں اور حشرات کے در میان دوستی و محبت کا یہ معاہدہ دوطرفہ منافع کی بنیاد پر ہمیشہ تھا اور رہے گا۔

توحید کاایک درس

جب انسان حشرات اور پھولوں کی زندگی میں ان حیرت انگیز نکات کا مطالعہ کرتا ہے ،توغیر شعوری طور پر اپنے آپ سے یہ سوال کرتا ہے:پھولوں اور حشرات کے در میان اس دوستی و محبت کے عہد و پیمان کو کس نے برقرار کیا ہے؟

پھولوں کو یہ مخصوص مٹھاس اور لذیز غذا کس نے دی ہے ؟یہ دلکش اور خوشنما رنگ اور یہ خوشبو پھولوں کو کس نے عطا کی ہے کہ اس طرح حشرات کو اپنی طرف دعوت کرتے ہیں؟

حشرات،تتلیوں ،شہد کی مکھیوں اور بھڑوں کو یہ نازک پاؤں اور خوبصورت اندام کس نے عطا کئے ہیں تاکہ پھولوں کی خلیہ کونقل وانتقال دینے کے لئے مستعد و آمادہ رہیں؟

شہد کی مکھیاں کیوں ایک مدت تک خاص ایک ہی قسم کے پھولوں کی طرف رخ کرتی ہیں اور پھولوں اور حشرات کی خلقت کی تاریخ کیوں ایک ساتھ شروع ہوئی ہے؟

کیا کوئی شخص،جس قدر بھی ہٹ دھرم ہو،باور کر سکتا ہے کہ یہ سب واقعات پہلے سے مرتب ہوئے کسی نقشہ اور منصوبہ کے بغیر انجام پائے ہیں؟اور فطرت کے بے شعور قوانین ان حیرت انگیز مناظر کو خودبخود وجود میں لائے ہیں؟نہیں ،ہر گز نہیں

قرآن مجید فر ماتا ہے:

( واوحیٰ ربّک إلی النّحل ان اتّخذی من الجبال بیوتاًومن الشّجر وممّا یعرشون ثمّ کلی من کلّ الثّمرات فاسلکی سبل ربّک ذللاً ) (سورئہ نحل/ ۶۸،۶۹)

”اور تمھارے پر وردگار نے شہد کی مکھی کو اشارہ دیا کہ پہاڑوں اور درختوں اور گھروں کی بلندیوں میں اپنے گھر بنائے اس کے بعد مختلف پھلوں سے غذا حاصل کرے اور نر می کے ساتھ خدائی راستہ پر چلے۔“

غور کیجئے اور جواب دیجئے

۱ ۔پھولوں کی تہ میں پائی جانے والی مٹھاس اور ان کے رنگ و خوشبو کے کیا فائدے ہیں؟

۲ ۔شہد کی مکھیوں کی زندگی کے عجائبات میں سے آپ کیا جانتے ہیں؟


3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17