نو جوانوں کے لئے اصول عقائدکے پچاس سبق

نو جوانوں کے لئے اصول عقائدکے پچاس سبق0%

نو جوانوں کے لئے اصول عقائدکے پچاس سبق مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب

نو جوانوں کے لئے اصول عقائدکے پچاس سبق

مؤلف: آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی
زمرہ جات:

مشاہدے: 22334
ڈاؤنلوڈ: 3068

تبصرے:

نو جوانوں کے لئے اصول عقائدکے پچاس سبق
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 68 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 22334 / ڈاؤنلوڈ: 3068
سائز سائز سائز
نو جوانوں کے لئے اصول عقائدکے پچاس سبق

نو جوانوں کے لئے اصول عقائدکے پچاس سبق

مؤلف:
اردو

دسواں سبق:عدل الہٰی اور مسئلہ ”خلود“

ہم جانتے ہیں کہ قرآن مجید نے کفار اور گناہگاروں کے ایک گروہ کے بارے میں واضح طور پر دائمی سزا دینے یعنی دوسرے الفاظ میں ”خلود“کا ذکر کیا ہے۔

سورئہ توبہ کی آیت نمبر ۶۸ میں آیا ہے:

( وعداللهّٰ المنٰفقین والمنٰفقٰت والکفّار نار جهنّم خٰلدین فیها)

”اللہ نے منافق مردوں اور عورتوں سے اور تمام کافروں سے آتش جہنّم کا وعدہ کیا ہے جس میں یہ ہمیشہ رہنے والے ہیں۔“

اسی طرح اس آیت کے ذیل میں باایمان مردوں اور عورتوں کے لئے بہشت کے باغوں کا ہمیشہ کے لئے وعدہ کیا ہے:

( وعداللّٰه المؤمنین والمومنٰت جنّٰت تجری من تحتها الانهار خٰلدین فیها ) ( سو ر ہ توبہ/ ۷۲)

”اللہ نے مومن مردوں اور مومن عورتوں سے ان باغات کا وعدہ کیا ہے جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی ۔یہ ان میں ہمیشہ رہنے والے ہیں ۔“

یہاں پر یہ سوال پیدا ہو تا ہے کہ اس بات کو کیسے قبول کیا جائے کہ ایک انسان جس نے دنیا میں زیادہ سے زیادہ اسی سال یا سو سال زندگی گزاری ہو اور اس سے کوئی گناہ سرزد ہوا ہو ،اسے کروڑوں سال بلکہ ہمیشہ ہمیشہ سزادی جائے؟!

البتہ یہ مطلب نیک اعمال کی جزا کے بارے میں زیادہ اہمیت نہیں رکھتا کیو نکہ خدا کی رحمت کا سمندر وسیع ہے اور جزا جتنی زیادہ ہو خدا کی بے انتہا رحمت اور اس کے فضل و کرم کی علامت ہو گی ۔لیکن برے اعمال اور محدود گناہوں کے نتیجہ میں ہمیشہ کے لئے اس کو کیسے عذاب میں مبتلا رکھا جاسکتا ہے ۔خداوند متعال کی عدالت کے پیش نظر اس کی کیا وجہ بیان کی جاسکتی ہے؟

کیا گناہ اور اس کی سزا کے در میان ایک قسم کا تعادل بر قرارنہیں ہو نا چاہئے؟

جواب:

اس بحث اور سوال کے قطعی حل اور جواب تک پہنچنے کے لئے چند نکات پر دقت کے ساتھ غور وفکر کر نے کی ضرورت ہے:

الف:قیامت کے دن کی سزائیں اس دنیا کی سزاؤں سے ہر گز شباہت نہیں رکھتی ہیں ۔مثلاًاگر کوئی شخص دنیا میں کسی جرم ،جیسے چوری وغیرہ کا مرتکب ہو جائے تو اسے ایک خاص مدت تک جیل میں ڈال دیا جاتاہے،لیکن قیامت کی سزائیں اکثر انسان کے اعمال کے آثار اور اس کے کاموں کی خاصیتوں کے اعتبار سے ہو تی ہیں۔

واضح ترعبارت میں گناہگاروں کی تمام سزائیں ،جن کا سامنا انھیں دوسری دنیا (قیامت)میں کرنا پڑ تا ہے در حقیقت ان کے اپنے کئے گئے گناہوں کا نتیجہ ہے جو ان کے دامن گیر ہو تے ہیں۔

اس سلسلہ میں قرآن مجید میں ایک واضح تعبیر موجود ہے،فر ماتا ہے:

( فالیوم لا تظلم نفس شیئاًولا تجزون إلاّ ماکنتم تعملون ) (سورہ یٰس/ ۵۴)

”پھر آج کے دن کسی نفس پر کسی طرح کا ظلم نہیں کیا جائے گا اور تم کو صرف ویسا ہی بدلہ دیا جائے گا،جیسے اعمال تم کر رہے تھے۔“

ایک آسان مثال سے ہم اس حقیقت کو واضح کرسکتے ہیں:

ایک شخص منشیات یا شراب پینے کا عادی ہے ،جتنا بھی اس سے کہا جاتا ہے کہ یہ زہریلی چیزیں تیرے معدہ کو خراب،تیرے دل کو بیمار اور تیرے اعصاب کو مجروح کردیں گی ،وہ پروا نہیں کر تا ہے ۔چند ہفتے یا چند مہینے ان مہلک چیزوں کی خیالی لذت میں غرق رہتا ہے اور اس کے بعد بتدریج زخم معدہ ،عارضہ قلب اور اعصاب کی بیماریوں میں مبتلا ہو جاتا ہے اور پھر دسیوں سال عمر بھران بیماریوں میں مبتلا ہو کر شب وروزان کے عذاب میں گزارتا ہے ۔کیا یہاں پر یہ اعتراض کیا جاسکتا ہے کہ اس شخص نے تو چند ہفتہ یا چند مہینے سے زیادہ عرصہ منشیات یا شراب کا استعمال نہیں کیا تھا ،دسیوں سال عمر بھر کیوں امراض میں مبتلا ہو گیا؟

اس کے جواب میں فوراً کہا جائے گا یہ اس کے عمل کا نتیجہ واثر ہے !حتی اگر وہ حضرت نوح﷼ کی عمر سے بھی زیادہ یعنی دسیوں ہزار سال بھی عمر پائے اور مسلسل رنج و عذاب میں رہے تب بھی ہم یہی کہیں گے کہ اس نے جان بوجھ کر اور آگاہانہ طورپر اس چیز کو اپنے لئے خریدا ہے۔

قیامت کے دن کی سزائیں زیادہ تر اسی طرح ہیں ،اس لئے عدالت الہٰی پر کسی قسم کا اعتراض باقی نہیں رہتا ہے۔

ب:بعض لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ سزاؤں کی مدت گناہ کی مدت کے برابر ہونی چاہئے ،یہ ایک بڑی غلط فہمی ہے ،کیونکہ گناہ اور اس کی سزا کے در میان زمانہ کے اعتبار سے کوئی ربط نہیں ہے بلکہ سزا کا تعلق اس گناہ کی کیفیت اور نتیجہ سے ہوتا ہے۔

مثلاًممکن ہے کوئی شخص ایک لمحہ میں ایک بے گناہ انسان کو قتل کر ڈالے اور اس دنیا کے بعض قوانین کے مطابق اسے عمر قید کی سزا دی جائے ۔یہاں پر ہم دیکھتے ہیں کہ گناہ انجام دینے کی مدت صرف ایک لمحہ تھی جبکہ سزا کی مدت دسیوں سال (عمر بھر)ہے،اور کوئی شخص اس سزا کو ظالمانہ شمار نہیں کرتا ہے،کیو نکہ یہاں پر منٹ،گھنٹے،مہینے یا سال کی بات نہیں ہے بلکہ گناہ کی کیفیت اور نتیجہ مد نظر رکھا جاتا ہے۔

ج:جہنم میں”خلود“ہمیشگی ،اور دائمی سزائیں ان لوگوں کے لئے ہیں ،جنہوں نے نجات کے تمام راستے اپنے اوپر بند کر لئے ہوں اور جان بوجھ کر فساد،تباہی اور کفر و نفاق میں غرق ہوئے ہوں اور گناہوں نے ان کے سارے وجود کو اپنے لپیٹ میں لے لیا ہو کہ حقیقت میں وہ خود گناہ و کفر کا روپ اختیار کر گئے ہوں۔

قرآن مجید میں یہاں پر ایک خوبصورت تعبیر ہے:

( بلیٰ من کسب سیّئة واحاطت به خطیئته فاولٰئک اصحٰب النّار هم فیها خٰلدون ) (سورہ بقرہ/ ۸۱)

”یقینا جس نے کوئی برائی حاصل کی اور اس کے گناہ نے اسے گھیر لیا،وہ لوگ اہل جہنّم ہیں اور وہیں ہمیشہ رہنے والے ہیں۔“

اس قسم کے افراد خداوند متعال کے ساتھ اپنے رابطہ کو مکمل طور پر منقطع کر لیتے ہیں اور نجات کے تمام راستوں کو اپنے اوپر بند کر لیتے ہیں ۔

ایسے افراد کی مثال اس پرندہ کے مانند ہے جس نے جان بوجھ کر اپنے پروں کوتوڑ کر آگ لگا دی ہو اور وہ مجبور ہے ہمیشہ زمین پر رہے اور آسمان کی بلندیوں پر پرواز کر نے سے محروم رہے ۔

مذکورہ بالا تین نکات اس حقیقت کو واضح کر دیتے ہیں کہ دائمی عذاب کا مسئلہ جوکہ منافقین اور کفار کے اےک خاص گروہ کے لئے مخصوص ہے ہر گز”عدل الہٰی“کے خلاف نہیں ہے بلکہ یہ ان کے برے اعما ل کا نتیجہ ہے اور ان کو پہلے ہی اس بات سے انبیاء الہٰی کے ذریعہ آگاہ کیا جا چکا ہے کہ ان کاموں کا نتیجہ اتنا تلخ اور برا ہے۔

اگر یہ افراد جاہل ہوں اور انبیاء کی دعوت ان تک نہ پہنچی ہو اور جہالت اور نادانی کی وجہ سے ایسے اعما ل کے مرتکب ہوئے ہوں تو وہ یقینا اس قسم کی سزا کے مستحق نہیں ہوں گے ۔

اس بات کا ذکر بھی ضروری ہے کہ قرآن مجید کی آیات اور اسلامی روایتوں سے معلوم ہو تا ہے کہ خدا کی رحمت اس قدر وسیع ہے کہ گناہگاروں کے ایک بڑے گروہ کو بھی بخش دیا جائے گا:

کچھ لوگ شفاعت کے ذریعے

کچھ لوگ معافی کے ذریعے

کچھ لوگ معمولی نیک اعمال کے ذریعہ خدا کے فضل وکرم سے کثیر اجرپا کر بخش دئے جائیں گے۔

اور کچھ لو گ ایک مدت تک جہنم میں اپنے برے اعمال کی سزا بھگتنے اور الہٰی بھٹی سے گزر کر پاک و صاف ہو نے کے بعد رحمت و نعمت الہٰی سے بہرہ مند ہوں گے ۔

صرف ایک گروہ جہنم میں ہمیشہ کے لئے باقی رہ جائے گاجو حق کے خلاف اپنی دشمنی اور ہٹ دھر می ،ظلم وفساد اور بے حد نفاق کی وجہ سے سرتا پا کفر اور بے ایمانی کی گہری تاریکیوں میں ڈوبا ہوا ہے۔

غور کیجئے اور جواب دیجئے

۱ ۔جہنم کی دائمی سزا کو بعض افراد نے کیونکر عدل الہٰی کے خلاف شمار کیا ہے؟

۲ ۔کیا آخرت کی سزائیں اس دنیا کی سزاؤں کے مانند ہیں؟ اگر نہیں تو وہ سزائیں کیسی ہیں؟

۳ ۔کیا عدالت،گناہ کی مدت اور سزا کی مدت برابر ہو نے کا تقاضا کرتی ہے؟

۴ ۔دوزخ کی دائمی سزائیں کن لوگوں کے لئے ہیں؟

۵ ۔عفو الہٰی سے کون لوگ بہرہ مند ہوں گے؟


نبوت کےدس سبق:

پہلا سبق:رہبران الہٰی کی ضرورت

ہمارے علم ودانش کی محدودیت

ممکن ہے بعض لوگ یہ سوچیں کہ کیا اصولی طور پر خدا کی طرف سے لوگوں کی راہنمائی کے لئے انبیاء کا مبعوث ہو نا ضروری ہے؟

کیا ہماری عقل وشعور حقائق کو سمجھنے کے لئے کافی نہیں ہے ؟کیا انسان کی علمی ترقی پوشیدہ اسرار کو کشف کر نے اور تمام حقائق کو واضح کر نے کے لئے کافی اور مددگار نہیں ہے؟

جو چیزیں ممکن ہیں انبیاء ہمارے لئے لے آئیں وہ دو حالتوں سے خارج نہیں ہیں :یاہماری عقل ان کو بخوبی درک کرتی ہے یا درک کر نے سے قاصر ہے۔

پہلی صورت میں ہم انبیاء کو تکلیف دینے کے محتاج نہیں ہیں ۔جبکہ دوسری صورت میں ہمیں عقل و خرد کے خلاف مطالب کو قبول کر نے کی ضرورت ہی نہیں ہے۔

دوسرے الفاظ میں :کیا یہ درست ہے کہ انسان اپنے آپ کو مکمل طور پر کسی دوسرے کے اختیار میں دے دے اور اس کی بات کو کسی چون و چرا کے بغیر قبول کرے ؟کیا انبیاء ہمارے جیسے انسان نہیں ہیں ؟یہ کیسے ممکن ہے کہ ہم اپنے آپ کو اپنے جیسے انسانوں کے اختیار میں دے دیں؟

جواب

چند نکات کی طرف توجہ کر نے سے ان تمام سوالات کے جواب اور انسان کی زندگی کے نظام میں انبیاء کا مرتبہ واضح ہو جائے گا۔

۱ ۔ہمیں جاننا چاہئے کہ ہمارا علم وشعور محدود ہے ۔بشر کو نصیب ہوئی تمام علمی ترقی کے باوجود آج جو کچھ ہم جانتے ہیں وہ ہمارے نہ جاننے کے مقابلہ میں ایک سمندر کے مقابلہ میں ایک قطرہ اور ایک پہاڑ کے مقابلہ ایک تنکے کے مانند ہے ۔یا بعض بڑے دانشوروں کے کہنے کے مطابق جو بھی علوم آج ہمارے اختیار میں ہیں وہ کائنات کی کتاب ہستی کے الف با کے برابر ہیں۔

دوسرے الفاظ میں:ہمارے فیصلہ اور عقلی ادراک کا دائرہ ایک چھوٹے سے علاقہ کے مانند ہے کہ علم ودانش کی شعاعوں نے اسے روشن کیا ہے اور ہم اس کے باہر کی دنیا سے بالکل بے خبر ہیں۔

انبیاء آتے ہیں اور اس وسیع علاقہ کو ہماری ہر ضرورت کی حد تک روشن کرتے ہیں۔حقیقت میں ہماری عقل ایک قوی اور تیز روشنی والے لیمپ کے مانند ہے،لیکن انبیاء اور آسمانی وحی کی مثال تمام عالم کو روشن کر نے والے سورج کے مانند ہے۔کیا ایک قوی اور تیز روشن لیمپ رکھنے والا یہ کہہ سکتا ہے کہ میں سورج کا محتاج نہیں ہوں ؟!

واضح تر عبارت میں:زندگی کے مسائل کو تین گروہوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے :”معقول“،”غیر معقول“ اور”مجہول“۔

انبیاء ہر گز نا معقول بات،یعنی عقل وخرد کے خلاف نہیں کہتے اور اگر ایسی بات کہیں تو وہ انبیاء نہیں ہیں ۔وہ مجہو لات کو سمجھنے اور درک کر نے میں ہماری مدد کرتے ہیں اور یہ بات ہمارے لئے بہت اہمیت رکھتی ہے۔

لہذا وہ افراد جو زمانہ ماضی میں کہتے تھے کہ عقل وخرد کے ہوتے ہوئے ہم انبیاء کے محتاج نہیں ہیں ،(جیسے برہمن جو ہندوستان اور بعض دیگر علاقوں میں رہتے ہیں)یا وہ لوگ جوآج یہ کہتے ہیں کہ ان تمام علمی ترقیوں اور کا میابیوں کے بعد انسان انبیاء اور ان کی تعلیمات کا محتاج نہیں ہے ،تو وہ نہ انسان کے علم ودانش کی وسعت سے باخبر ہیں اور نہ انبیاء کی رسالت کا ادراک رکھتے ہیں ۔

ان لو گوں کی مثال اس بچے کی ہی ہے جوپہلی جماعت میں الف با پڑھنے کے بعد کہے کہ میں سب کچھ جا نتا ہوں اور مجھے معلم و استاد کی ضرورت نہیں ہے، کیا اس کی یہ بات بے بنیاد نہیں ہے؟

انبیاء صرف معلم ہی نہیں ہیں، ان کی رہبری کا مسئلہ ایک مستقل بحث کا حامل ہے کہ بعد میں ہم اس پر تفصیل سے روشنی ڈالیں گے۔

۲ ۔کوئی یہ نہیں کہتا ہے کہ انسان اپنے آپ کو مکمل طور پر اپنے ہی جیسے کسی شخص کے اختیار میں دے دے ۔اصل بات یہ ہے کہ انبیاء۔جیسا کہ ہم بعد میں ثابت کریں گے ۔وحی الہٰی یعنی خداوند متعال کے لا محدودعلم سے رابطہ رکھتے ہیں اور ہمیں چاہئے کہ قطعی دلائل کے ساتھ خداوند متعال سے ان کے رابطہ کو پہچانیں ،صرف اسی صورت میں ہم انبیاء کی باتوں کونہ صرف قبول کریں گے بلکہ ان کی تعلیمات پر دل وجان سے عمل بھی کریں گے ۔

اگر میں ایک ماہر اور ہمدرد طبیعت کے نسخہ پر عمل کروں تو کیا میں نے کو ئی برا کام کیا ہے؟

انبیاء ہمارے عظیم روحانی طبیب ہیں۔

اگر ہم نے اپنے معلم واستاد کے درس کو ،جو ہماری عقل و فکر کے مطابق ہے،کو قبول کریں تو کیا ہم نے غلط کام کیا ہے؟انبیاء بشریت کے سب سے بڑے معلم ہیں۔

بہتر یہ ہے کہ ہم خدا کی طرف سے انبیاء کی بعثت کی ضرورت کے دلائل پر مزید دقت کے ساتھ بحث کریں ۔

ہمارے پاس تین ایسی واضح اور محکم دلیلیں موجود ہیں ،جن سے ثابت ہو تا ہے کہ ہم انبیاء کی راہنمائی کے محتاج ہیں:

۱ ۔تعلیم کے اعتبار سے احتیاج

اگر ہم نور کی ایک خیالی اور افسانوی سواری پر سوار ہو کر تین لاکھ کیلو میٹر (پچاس ہزار فرسخ)فی سیکنڈ کی رفتار سے اس لا محدود کائنات کی سیر کریں تو کسی شک وشبہہ کے بغیر ہمیں حضرت نوح(ع) کی عمر جیسی ہزاروں عمریں در کار ہوں گے تاکہ ہم اس وسیع و عریض کائنات کے صرف ایک گوشے کا نظارہ کرسکیں۔

یہ کائنات اپنی ان تمام حیرت انگیز وسعتوں کے ساتھ یقینا عبث اور فضول نہیں بنائی گئی ہے اور جیسا کہ ہمیں توحید کے اسباق میں معلوم ہوا ہے کہ اس کائنات کا کوئی بھی فائدہ یا نفع خداوند متعال کے لئے نہیں ہے کیونکہ وہ ایک ایسا وجود ہے جو ہر لحاظ سے کامل،بے نیاز ،لامحدوداورہر نقص وعیب سے پاک ہے۔اس نے اس کائنات کو اس لئے نہیں بنایا ہے کہ اپنے کسی نقص کو بر طرف کرے۔

اس لئے ہم یہ نتیجہ لیتے ہیں کہ خداوند متعال کا مقصد یہ ہے کہ دوسروں پر جو دو کرم کرے اور تمام موجودات کو تکا مل تک پہنچا دے ،جیسے سورج جو ہم زمین والوں پر چمکتا ہے حالانکہ وہ ہمارا محتاج نہیں ہے ۔سورج کی یہ روشنی صرف ہمارے فائدے کے لئے ہے ورنہ ہم سورج کے لئے کون سی خدمت انجام دے سکتے ہیں۔

کیا ہمارے لئے رشد و تکامل کی راہ کو طے کرنے اور انسان کامل کے مرحلہ تک پہنچنے کے لئے صرف ہماری معلومات کافی ہیں؟

ہم اس کائنات کے اسرار ورموز میں سے کتنے اسرار کے بارے میں آگاہ ہیں؟ بنیادی طور پر ہماری زندگی کی حقیقت کیا ہے ؟یہ کائنات کب سے وجود میں آئی ہے؟کوئی بھی شخص ان سوالات کے صحیح اور دقیق جوابات نہیں جانتا ۔یہ کائنات کب تک باقی رہے گی ؟اس کا جواب بھی کسی کے پاس نہیں ہے۔

اجتماعی اور اقتصادی زندگی کے لحاظ سے بھی ہر دانشور اپنا ایک خاص نظریہ رکھتا ہے۔

مثلاً ایک گروہ”سر مایہ داری“نظام کا قائل ہے جبکہ دوسرا گروہ ”سوشلزم“اور ”کمیونزم“ کے نظریات کا حامی ہے اور تیسرا گروہ نہ پہلے کو قبول کر تا ہے اور نہ ہی دوسرے کو بلکہ دونوں گروہوں کے نظریات کو نقصان دہ جان کر مسترد کرتا ہے ۔

اسی طرح زندگی کے دیگر مسائل میں بھی دانشوروں کے نظریات میں کافی اختلافات پائے جاتے ہیں۔

انسان حیران وپریشان ہو جاتا ہے کہ ان نظریات میں سے کس نظریہ کو قبول کرے۔؟!

انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ اس بات کا اعتراف کیا جانا چاہئے کہ خلقت کے بنیادی اور حقیقی مقصد یعنی ”انسان کی تمام جہات میں پرورش ،بالید گی اور تکامل“کی منزل تک پہنچنے کے لئے ایسی تعلیمات کی ضرورت ہے جو صحیح اور حقیقی ہوں اور ہر قسم کی خطاؤں سے پاک اور زندگی کے حقائق کے مطابق ہوں ،ایسی تعلیمات جو اس طویل راہ میں اصلی منزل مقصود تک پہنچنے کے لئے انسان کی مددگار ثابت ہوسکیں۔

اور یہ سب کچھ صرف علم خدا یعنی انبیاء کے ذریعہ حاصل ہو نے والی الہٰی وحی سے ہی حاصل ہو سکتا ہے ۔اسی وجہ سے جس خدانے ہمیں اس کو طے کرنے کے لئے پیدا کیا ہے ،ضروری ہے کہ وہ ایسا علم ودانش بھی ہمارے اختیار میں قرار دے ۔

۲ ۔اجتماعی اور اخلاقی مسائل میں رہبری کی احتیاج

ہم جانتے ہیں کہ ہمارے وجود میں” عقل وخرد “کے علاوہ ایک اور قوت بھی موجود ہے کہ جس کا نام ”غرائز اور خواہشات“ ہے :خود پسندی کا غریزہ ،خشم وغضب کا غریزہ ،شہوت کا غریزہ اور اس قسم کے بہت سے دیگر غرائز اور خواہشات۔

بیشک اگر ہم اپنے غرائز کو قابو میں نہ رکھیں تو وہ ہم پر مسلط ہو جائیں گے حتی ہماری عقل وخرد کو بھی اسیر بنالیں گے اور انسان تاریخ کے ظالموں اور جابروں کی طرح ایسے بھیڑیے کی شکل اختیار کرلے گا جو ہر اعتبار سے جنگل کے بھیڑیوں سے بھی زیادہ خطرناک ہوگا۔

ہم اخلاقی تربیت کے لئے ایک تربیت کرنے والے استادکے محتاج ہیں ،ہم ایک”نمونہ“اور ”اسوہ“کے محتاج ہیں تاکہ”محاکات“ کے اصول کے مطابق اس کی گفتار ورفتار پر عمل کرسکیں۔

یہ ضروری ہے کہ ہر لحاظ سے ایک کامل اور تربیت یافتہ انسان اس خطرناک اور نشیب و فراز سے پر راستے میں ہمارا ہاتھ پکڑ لے اور ہمیں غرائز وخواہشات کے طغیان سے بچائے ،اخلاقی فضائل کے اصولوں کو اپنے کردار وعمل سے ہمارے دل وجان میں نقش کردے اور ہماری روح میں شجاعت،شہامت ،انسان دوستی،مروت،عفو وبخشش، وفادری،سچائی ،امانت داری اور پاک دامنی کو پروان چڑھائے۔

معصوم انبیاء کے علاوہ کون ہمارا ایسا مربی اور راہنما بن سکتا ہے؟

اسی دلیل کے پیش نظر ممکن نہیں ہے کہ ہمارا مہر بان اور ہر چیز پر قدرت رکھنے والا خدا ہمیں ایسے راہنماؤں سے محروم رکھے۔(اس بحث کا باقی حصہ آئندہ سبق میں بیان ہو گا)

غور کیجئے اور جواب دیجئے

۱ ۔کیا آپ یہ احساس کرتے ہیں کہ آپ کا علم ودانش جس قدر بھی زیادہ ہو جائے آپ کی جہالت آپ کے علم کے مقابلہ میں بہت زیادہ ہے؟(مثال دیجئے)

۲ ۔کیا آپ اندھی تقلید اور انبیاء کی پیروی کے در میان فرق کی وضاحت کر سکتے ہیں؟

۳ ۔اگر ہم کسی نا معلوم راستے پرراہنما کے بغیر چلیں تو ہمیں کن ممکنہ خطرے کا سامنا پڑ سکتا ہے؟

۴ ۔ہم انبیاء کی رہبری کے کس قدر اور کس لحاظ سے محتاج ہیں وضاحت کیجئے۔

۵ ۔کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ اس سبق میں کونسا مطلب باقی رہا ہے جو آئندہ سبق میں بیان کیا جائے؟

دوسرا سبق: قانون گزاری کے لئے انبیاء کی ضرورت

ہم گزشتہ درس میں”تعلیم“اور” تربیت“کے حوالے سے انبیاء کی ضرورت کے بارے میں جان چکے ہیں ۔اب اجتماعی قوانین اور اس سلسلہ میں انبیا کے اہم رول پر بحث کریںگے۔

ہم جانتے ہیں کہ انسان کی زندگی کی سب سے بڑی خصوصیت جواس کی ترقی کا سبب بنی ہے اور اس کی زندگی کے مختلف پہلوؤں میں مشہود ہے،اس کی وہی پر تلاش اجتماعی زندگی ہے۔

یقینا اگر تمام انسان ایک دوسرے سے الگ تھلگ زندگی بسر کرتے تو تہذیب وتمدن اور فکری لحاظ سے آج وہ سب ”عصر حجر“کے انسان جیسے ہوتے!

جی ہاں!یہ انسان کی اجتماعی تلاش وکوشش ہی ہے،جس نے تہذیب و تمدن کا چراغ جلایا ہے ،یہی اجتماعی تلاش وکوشش ہے جو انسان کی تمام علمی ایجادات اور انکشافات کا سبب بنی ہے۔

مثال کے طور پر اگر ہم چاند تک پہنچنے کے سفر کے مسئلہ پر غورکریں،تو معلوم ہو گا کہ یہ کام صرف ایک یا چند دانشوروں اور سائنسدانوں کی کوششوں کا نتیجہ نہیں ہے ،بلکہ ہزاروں برسوں کے دوران لا کھوں علماء اور دانشوروں کے اجتماعی مطالعات ،انکشافات اور تجربیات کا نتیجہ ہے کہ انسان اس عظمت تک پہنچا ہے ۔

اگر ہمارے زمانہ میں ایک ماہر سرجن ایک مردہ انسان کے قابل استفادہ دل کو نکال کر دوسرے قریب المرگ انسان کے سینہ میں پیوند لگاتا ہے اور اسے قطعی موت سے نجات دلاتا ہے،تو یہ پوری تاریخ کے ہزاروں طبیبوں اور جراحوں کے تجربوں کا نتیجہ ہے جو استادوں کے ذریعہ شاگردوں کو منتقل ہوتا رہا ہے۔

لیکن اس اجتماعی زندگی میں ان تمام فوائد کے باوجود کچھ مشکلات بھی ہیں ،اور ہ مشکلات انسانوں کے ایک دوسرے کے حقوق اور منافع کا آپس میں متصادم ہونا ہے جو کبھی حق تلفی اور جنگ کی صورت اختیار کر لیتی ہیں۔

یہاں پر قوانین ،نظام اور قواعد وضوابط کی ضرورت واضح ہو جاتی ہے ۔قوانین ہماری تین بڑی مشکلات کو حل کرسکتے ہیں :

۱ ۔قانون معاشرے کی نسبت ہر فرد کے اختیارات اور ذمہ داریوں کو اور ہر فرد کی نسبت معاشرے کی ذمہ داریوں اور فرائض کو واضح کرتا ہے،اور قابلیتوں کو بالید گی اور کوششوں کو مربوط کر نے کا سبب بنتا ہے۔

۲ ۔قانون لوگوں کے فریضوں اور ذمہ داریوں کی انجام دہی پر ضروری نگرانی کی راہ ہموار کرتا ہے۔

۳ ۔قانون لوگوں کو ایک دوسرے کے حقوق کو پامال کر نے سے روکتا ہے اور معاشرے کو ہرج و مرج اور مختلف افراداور گرہوں کے در میان تصادم سے بچاتاہے۔ ضرورت پڑنے پر زیادتی کر نے والوں کے لئے مناسب سزائیں معیّن کرتا ہے ۔

بہترین قانون ساز کون ہے؟

اب ہمیں دیکھنا چاہئے کہ انسان کی ضرورت کے مطابق قانون سازی میں مذکورہ تین اصولوں کے ساتھ بہترین قوانین مرتب و منظم کر نے والا کون ہو سکتا ہے؟ تاکہ معاشرے کے افراد اور خود معاشرہ کے اختیارات ،فرائض اور حقوق واضح اور معین ہو جائیںاور لوگوں کے اعمال پر مکمل نگرانی کے علاوہ ظلم و زیادتی کر نے والوں کو بھی روکا جاسکے۔

اس سلسلہ میں ہم یہاں پر ایک واضح مثال پیش کرتے ہیں :

انسانی معاشرہ کو ایک بڑی ٹرین اور حکمراں طبقہ کو اسے چلا نے اور حرکت میں لانے والے انجن سے تشبیہ دی جاسکتی ہے۔

قانون اس ریلوے لائن کی پٹری کے مانند ہے جواس ریل گاڑی کو منزل مقصود تک پہنچنے کے راستہ کو معین کرتی ہے۔

پہاڑوں اور درّوں کے مختلف پیچ وخم سے گزر نے والی ایک اچھی ریلوے لائن کے لئے درج ذیل خصوصیات کا ہو نا ضروری ہے:

۱ ۔جس زمین سے ٹرین کو گزر نا ہے ،اس میں اس کے زیادہ سے زیادہ دباؤ کو برداشت کر نے کی طاقت ہونی چاہئے۔

۲ ۔ریل کی دوپٹریوں کے درمیان کا فاصلہ مکمل طور پر ٹرین کے پہیوں کے موافق اور ھماھنگ ہو ناچاہئے اور اسی طرح ٹنلوں کی دیواریں اور ان کی بلندی ٹرین کی بلندی کے مطابق ہو نی چاہئے۔

۳ ۔نشیب و فراز اتنے گہرے اور اونچے نہ ہوں کہ ٹرین کے بریکوں اور اس کے جاذبہ کی قوت کو برداشت نہ کرسکیں۔

۴ ۔اسی طرح ٹرین کے گزر نے کے راستہ پر پہاڑوں سے پتھروں کے گرنے،سیلاب اور برف کے تودوںکے گرنے کو مکمل طور پر مد نظر رکھنا چاہئے تاکہ ٹرین صحیح وسالم ان رستوں سے گزر کر منزل مقصود تک پہنچ سکے۔اسی طرح اور دوسرے خصوصیات بھی اس زمین میں پائے جانے چاہئیں۔

اس مثال کو بیان کر نے کے بعد ہم پھر انسانی معاشرہ کی بحث کی طرف لوٹتے ہیں۔

انسانوں کے لئے بہتریں قانون بنانے والے قانون ساز کو مندرجہ ذیل خصوصیات کا حامل ہو نا چاہئے:

۱ ۔نوع انسان کو مکمل طور پر پہچانتا ہو اور ان کے تمام غرائز ،خواہشات،جذبات،ضروریات اور مشکلات سے آگاہ ہو۔

۲ ۔انسانوں میں پائی جانے والی تمام صلاحیتوں اورتوانائیوں کو مد نظر رکھے اور ان کو اجاگر کر نے کے لئے قوانین سے استفادہ کرے۔

۳ ۔معاشرے کو ممکنہ طور پر پیش آنے والے ہر قسم کے حوادث اور ان کے رد عمل کے بارے میں قبل از وقت پیش گوئی کرسکے۔

۴ ۔معاشرہ سے اس کے کسی بھی قسم کے منافع مربوط نہ ہوں تاکہ قوا نین وضع کرتے وقت اس کی فکر خود اپنے شخصی یا اپنے رشتہ داروں یا اپنی جماعت کے منافع کی طرف متوجہ نہ رہے۔

۵ ۔ضروری ہے کہ یہ قانون بنانے والا مستقبل میں انسان کو حاصل ہو نے والی ہر قسم کی ترقی یا تنزل سے مکمل طور پر آگاہ ہو۔

۶ ۔یہ قانون ساز ہر قسم کی خطا،غلطی اور فراموشی سے محفوظ ہو ناچاہئے۔

۷ ۔یہ قانون ساز ایسی طاقت کا مالک ہو ناچاہئے کہ معاشرے کے کسی فرد کی طاقت کے مقابلہ میں مرعوب نہ ہو جائے اور کسی سے نہ ڈرے اور اس کے ساتھ ہی نہایت مہر بان اور ہمدرد ہو نا چاہئے۔

یہ شرائط کس میں جمع ہیں؟

کیا انسان بہترین قانون ساز ہو سکتا ہے ؟

کیا آج تک کسی نے مکمل طورپر انسان کو پہچانا ہے؟جبکہ عصر حاضر کے ایک بڑے دانشور نے انسان کے بارے میں ایک مفصل کتاب لکھی ہے اور اس کا نام”انسان، موجود ناشناختہ “(انسان ایک نا شناختہ مخلوق)رکھا ہے ۔

کیا انسان کی ذہنیت ،میلانات ،غرائز اور جذبات کو مکمل طور پر پہچان لیا گیا ہے؟

کیا انسان کی جسمانی اور روحانی ضروریات کو خداوند متعال کے علاوہ کوئی اورشخص جانتا ہے؟

کیا عام انسانوں میں کوئی ایسا شخص پایا جاسکتا ہے جو معاشرے میں خاص ذاتی منافع نہ رکھتا ہو؟

کیا آپ عام انسانوں کے در میان کسی ایسے شخص کو جانتے ہیں جو سہو وخطا سے محفوظ ہو اور معاشرے کے تمام افراد کو در پیش مسائل سے آگاہ ہو؟

لہذا خداوند متعال کی ذات اور خدا سے وحی حاصل کر نے والی ہستی (معصوم) کے علاوہ کوئی بھی شخص مکمل اور بہترین قانون سازنہیں ہو سکتا ہے ہم اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں: جس خدا وند متعال نے انسان کو کمال کے مراحل طے کر نے کے لئے پیدا کیا ہے ،اسے چاہئے کہ اس کی ہدایت کے لئے ایسے افراد کو مامور فر مائے جو تمام الہٰی قوانین کو انسان کے اختیار میں دے دیں۔

یقیناجب لوگ جان لیں گے کہ فلاں قانون ،خدا کا قانون ہے تو وہ اسے زیادہ اعتماد اور اطمینان سے قبول کر کے اس پر عمل کریں گے اور دوسرے الفاظ میں یہ آگاہی ان قوانین کے بہترین نفاذ کی ضمانت فراہم کرے گی۔

توحید و نبوت کے در میان رابطہ

ہم یہاں پر اس مطلب پر تو جہ کر نا ضروری سمجھتے ہیں کہ نظام خلقت بذات خود انبیائے الہٰی اور ان کی رسالت کے وجود پر ایک زندہ گوا ہے ۔

اس مطلب کی وضاحت یہ ہے :اگر ہم کائنات کے حیرت انگیز نظام پر ایک تحقیقی نظر ڈالیں تو ہمیں معلوم ہو گا کہ خدا وند متعال نے اپنی مخلوقات کی کسی بھی ضرورت کو اپنے لطف و کرم سے محروم نہیں رکھا ہے ۔مثلاًاگر اس نے ہمیں دیکھنے کے لئے آنکھیں عطا کی ہیں تو ان کی حفاظت اورروشنی کو مناسب طور پر تنظیم کر نے کے لئے پلکیں اور بھنویں بھی عطا کی ہیں ۔

آنکھوں کے گوشوں میں آنسوؤں کے غدود خلق کئے ہیں تا کہ آنکھوں کو مرطوب رکھیں ،کیونکہ آنکھوں کا خشک ہو نا ان کی نابودی کا سبب بن سکتا ہے۔

آنکھ کے گوشوں میں باریک سوراخ بنائے ہیں تا کہ آنکھوں کا اضافی پانی ان سوراخوں کے ذریعہ ناک میں داخل ہو جائے ۔اگر یہ باریک سوراخ نہ ہو تے تو آنسوؤں کے قطرے مسلسل ہمارے چہرے پر بہتے رہتے!

آنکھ کی پُتلی کو اس قدر حساس بنایا ہے کہ وہ خود بخود تیز یا کم روشنی کے مقابلہ میں تنگ یا گشادہ ہو جاتی ہے ،تا کہ ضرورت کے مطابق آنکھ میں روشنی داخل ہو جائے اور آنکھ کو کسی قسم کا صدمہ نہ پہنچے ۔

آنکھ کے حلقہ کے اطراف میں ایسے مختلف پٹھے بنائے ہیں تا کہ سر اور بدن کو ہلائے بغیر آنکھ کو آسانی کے ساتھ ہر طرف گھما کر مختلف مناظر کو دیکھا جا سکے ۔

وہ خدا جو انسان کی مختلف ضروریات کا اس قدر خیال رکھتا ہے ،کیا یہ ممکن ہے کہ وہ اسے ایک معصوم اور قابل اعتماد رہنما اور رہبر سے محروم رکھے جو وحی الہٰی کے ذریعہ راہنمائی کرتا ہو؟!

مشہور و معروف فلاسفر بو علی سینا اپنے کتاب ”شفا“میں یوں لکھتا ہے:

”انسان کے لئے اپنی بقا کے تحفظ اور کمال حاصل کر نے کی ضرورت کے پیش نظر انبیاء کا مبعوث ہو نا یقینا پلکوں اور بھنوؤں کے بال اُگنے اور پاؤں کے تلوؤں میں خمیدگی جیسی چیزوں سے زیادہ ضروری ہے۔ممکن نہیں ہے کہ خداوند متعال اپنی ازلی عنایت کے تقاضے کی بناپر مذکورہ ضروری چیزوں کو پیدا کرے لیکن ان سے زیادہ ضروری چیز کو پیدا نہ کرے؟“

غور کیجئے اور جواب دیجئے

۱ ۔انسان کی زندگی کی سب سے بڑی خصوصیت کیا ہے؟

۲ ۔انسان قانون کے بغیر زندگی کیوں نہیں گزار سکتا ہے؟

۳ ۔انسانی زندگی میں قانون کی اہمیت کو واضح کر نے کے لئے ایک زندہ مثال بیان کیجئے۔

۴ ۔ایک بہترین قانون ساز کے لئے کن صفات کا ہو نا ضروری ہے؟

۵ ۔انبیاء کا خود انسانوں میں سے ہو نا کیوں ضروری ہے؟