تفسیر نمونہ جلد ۱۵

تفسیر نمونہ 0%

تفسیر نمونہ مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن

تفسیر نمونہ

مؤلف: آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی
زمرہ جات:

مشاہدے: 59767
ڈاؤنلوڈ: 3903


تبصرے:

جلد 1 جلد 4 جلد 5 جلد 7 جلد 8 جلد 9 جلد 10 جلد 11 جلد 12 جلد 15
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 169 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 59767 / ڈاؤنلوڈ: 3903
سائز سائز سائز
تفسیر نمونہ

تفسیر نمونہ جلد 15

مؤلف:
اردو

۲ ۔ حفظ ایمان کے سلسلہ میں استقامت

ان کی حفاظت کے سلسلہ میں ماضی و حال دونوں میں فداکاری کی بہت درخشاں مثالیں ہیں ۔ تاریخ ِ انسانی بہت سے ایسے افراد کا پتہ دیتی ہے جنہوں نے اس راستے میں جامِ شہادت نوش کیا ہے اور سولی کی رسی اور جلادوں کی تلواروں کو بوسہ دیا ہے اور پر وانہ دار تشددکرنے والوں کی روشن کی ہوئی آگ میں جلے ہیں جن میں سے صرف ایک گروہ کا نام و نشان تاریخ میں محفوظ ہے ۔

آسیہ زن فرعون کی داستان ہم نے سنی ہے جو موسیٰ بن عمران پر ایمان لانے کی وجہ سے ان تمام شدائد سے دوچار ہوئی اور جس نے انجام کا راس راہ میں اپنی جان جان ِآفرین کی بار گاہ میں پیش کی ۔

ایک حدیث میں حضرت علی علیہ السلام سے منقول ہے کہ خدا نے حبشہ کے لوگوں میں سے ایک پیغمبر ان پر مبعوث کیا۔

وہ لوگ اس پیغمبر کی تکذیب پر آمادہ ہوئے ۔ ان کے دمیان جنگ ہوئی ۔ آخر کار ان لوگوں نے اس پیغمبر کے اصحاب میں سے ایک گروہ کو قتل کیا اور ایک گروہ کو اس پیغمبر سمیت گرفتار کرلیا۔ اس کے بعد ایک جگہ آگ تیار کی اور لوگوں کو اس کے قریب بلا یااور کہا جو شخص ہمارے دین پر وہ اپنے آپ کو آگ میں ڈال دے ۔ پیغمبر کے وہ مقید ہمراہی آگ میں کود نے پر ایک دوسرے سے سبقت میں چھلانگ لگائے تو شفقتِ مادری جوش میں آئی اور سدِّ راہ ہوئی تو اس بچے نے کہا اے مادر گرامی خوف نہ کھائیں آپ خود بھی اس آگ میں کودجائیں اور مجھ کو بھی ڈال دیں ۔ خدا کی قسم یہ چیز راہ ِ خدا میں بہت معمولی ہے۔ (ان هٰذا و الله فی الله قلیل

اور یہ بچہ بھی ان افراد میں سے تھا جنہوں نے گہوارہ میں کلام کیا۔(۱)

اس داستان سے معلوم ہوتا ہے کہ چوتھا گروہ اصحاب الاخدود کا حبشہ میں تھا ۔ حضرت عمار یاسر کے ماں باپ اور ان جیسے دوسرے افراد کی داستان اور اس سے بڑھ کر حضرت امام حسین علیہ السلام کا واقعہ جاں بازی اور میدان کربلا میں ایک دوسرے سے بڑھ کر جام ِ شہادت نوش کرنا، اسلام میں مشہور و معروف ہے ۔

ہم اپنے اس زمانے میں بھی بہت زیادہ نمونے اس موضوع کے اپنے کانوں سے سنتے ہیں اور اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں کہ بوڑھوں او رجوانوں نے دین و ایمان کی حفاظت کے سلسلہ میں اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر نہایت والہانہ انداز میں منزلِ شہادت کی طرف قدم بڑھائے ۔ کہنا یہ چاہیئے کہ خدا کے دین کی بقا گزشتہ اور موجودہ زمانہ میں اس قسم کی قربانیوں کے بغیر نہ تھی ۔

____________________

۱۔ تفسیر عیاشی مطابق تفسیر المیزان، جلد۲۰ ص۳۷۷۔ ( تلخیص کے ساتھ )۔

آیات ۱۰،۱۱،۱۲،۱۳،۱۴،۱۵،۱۶،

۱۰ ۔( ان الذین فتنوا المومنین َ و المومنات ثم لم یتوبوا فلهم عذاب جهنم و لهم عذاب الحریق ) ۔

۱۱ ۔( انّ الذین امنوا و عملوا الصالحات لهم جنات تجری من تحت الانهار ذالک الفوز الکبیر ) ۔

۱۲ ۔( انَّ بطشَ ربک لشدیدٌ ) ۔

۱۳ ۔( انّه هو یبدیٴُ و یعید ) ۔

۱۴ ۔( و هو الغفور الودود ) ۔

۱۵ ۔( ذوالعرش المجید ) ۔

۱۶ ۔( فعّٓال لما یُرید ) ۔

ترجمہ

۱۰ ۔جنہوں نے صاحبان مرد اور عورتوں پر تشدد کیا، پھر انہوں نے توبہ نہ کی ان کے لئے دوزخ کا عذاب ہے اور آگ کا جلانے والا عذاب ہے ۔

۱۱ ۔ جو ایمان لائے اور انہوں نے اعمال صالح انجام دیئے ان کے لئے جنت کے باغات ہیں جن کے درختوں کے نیچے نہریں جاری ہیں اور یہ بہت بڑی کامیابی ہے ۔

۱۲ ۔ تیرے پرورگار کی قہر آمیز گرفت اور سزا بہت ہی شدید ہے۔

۱۳ ۔ وہی ہے جو خلقت کا آغاز کرتا ہے اور وہی ہے جو دوبارہ پلٹا تا ہے ۔

۱۴ ۔ اور بخشنے والا اور ( مومنین کا ) دوست رکھنے والا ہے ۔

۱۵ ۔ صاحبِ عرشِ مجید ہے ۔

۱۶ ۔ اور جو چاہتا ہےانجام دیتا ہے۔

تشدد کرنے والے عذاب ِ الہٰی کے سامنے

گزشتہ اقوام میں سے تشدد کرنے والوں کی عظیم بے رحمی کے بیان کے بعد جو صاحب ایمان لوگوں کو آگ میں زند ہ جلاتے تھے ان آیات میں ان تشدد کرنے والوں کے متعلق خدا کے سخت عذاب اور مومنین کے لئے عظیم ثواب کی طرف نوید ہے ۔ پہلے فرماتا ہے :

” وہ جنہوں نے ایماندارمردوں اور عورتوں کو موردِ آزار و عذاب قرار دیا اور پھر توبہ نہیں کی ان کے لئے دوزخ کا عذاب ہے اور اسی طرح جلانے والی آگ کا عذاب ہے “( ان الذین فتنوا المو منین و المو نات ثم لم یتوبوا فلهم عذاب جهنم و لهم عذاب الحریق )

” فتنوا “ ” فتن“ ( بروزن متن)اور فتنہ کے مادہ سے اصل میں سونے کو آگ میں ڈالنے کے معنی میں ہے تاکہ اس کو پرکھاجاسکے اور کھرا کھوٹا قرار دیا جاسکے ۔ اس کے بعد یہ مادہ ( فتنہ) آز مائش ، عذاب و عقاب ، گمراہی اور شرک کے معنی میں بھی استعما ل ہوا ہے اور زیر بحث آیت میں عذاب، آزار اور تشدد کے معنی میں ہے ۔

اس کی نظیر سورہ ذاریات کی آیت ۱۳ ۔ ۱۴ میں بھی آئی ہے( یوم هم علی النار یفتنون ذوقوا فتمتکم هٰذا الذی کنتم به تستعجلون ) ” وہی دن جس دن وہ آگ میں جلائے جائیں گے اور ان سے کہیں گے کہ عذاب کا مزہ چکھو ۔ یہ وہی چیز ہے جس کے بارے میں تمہیں جلدی تھی “۔” ثم لم یتوبوا “ کا جملہ بتا تا ہے کہ توبہ کا راستہ اس قسم کا تشدد کرنے والوں کے لئے بھی کھلا ہو اہے اور یہ چیز بتاتی ہے کہ پروردگار عالم گناہ گاروں پر کتنا رحم کرنا چاہتاہے ۔

ضمناً یہ مکہ کے لوگوں کے لئے تنبیہ ہے کہ وہ جلد از جلد مومنین کو آزار پہنچانے اور تکلیف دینے سے باز آجائیں اور خدا کی طرف رجوع کریں ۔ قرآن اصولی طور پر باز گشت کی راہ کسی پر بند نہیں کرتا اور یہ چیز بتاتی ہے کہ درد ناک عذاب ِ دنیا بھی مفسدین کی اصلاح کے لئے ہے اور ان کے حق کی طرف لوٹ آنے کے لئے ہے ۔

قابلِ توجہ یہ ہے کہ اس آیت میں ان کے لئے دو قسم کے عذاب بیان ہوئے ہیں ، ایک عذاب جہنم دوسرا عذاب حریق(جلانے والی آگ کا عذاب ) ان دو عذابوں کا ذکر ہوسکتا ہے کہ اس بناء پر ہوکہ چونکہ جہنم میں کئی قسم کی سزائیں اور عذاب ہیں ،جن میں سے ایک جلانے والی آگ ہے ۔ اس کا ذکر خصوصیت کے ساتھ اس بناء پر کہ تشدد کرنے والے مذکورہ افراد مومنین کو آگ میں جلاتے تھے لہٰذا وہاں انہیں آگ کی سزا ملنی چاہئیے، لیکن یہ آگ کہاں اور وہ آگ کہاں ۔ وہ آگ خدا کے قہر غضب کے شعلوں سے بھڑکائی گئی ہے اور و ہ ہمیشہ قائم رہنے والی ہے ، نیز ذلت و خواری اپنے ہمراہ لیئے ہوئے ہے ، جب کہ دنیا کی آگ ناپائیدار ہے جو کمزور مخلوق کی جلائی ہوئی ہے اور جو مومنین اس میں جلے ہیں وہ سر بلند پر افتخار ہوں گے اور راہ حق کے شہیدوں کی پہلی صف میں ان کی جگہ ہے ۔

بعض مفسرین نے یہ بھی کہا ہے کہ عذاب جہنم ان کی کفر کی سزا تھا اور عذاب حریق ان کے تشدد اعمال کے نتیجے میں ہے ۔ اس کے بعد مومنین کے اجر کو پیش کرتے ہوئے فرماتا ہے :

” وہ لوگ جو ایمان لائے اور انہوں نے اعمال صالح انجام دیئے ان کے لئے جنت کے باغات ہیں جن کے درختوں کے نیچے نہریں جاری ہیں اور یہ بہت بڑی کامیابی اور نجات ہے “۔( ان الذین امنوا و عملو ا الصالحات لهم جنات تجری من تحتها الانهار ذالک الفوز الکبیر ) ۔

اس سے بہتر کونسی کامیابی ہوگی کہ پروردگار عالم کے جوارا قدس میں انواع و اقسام کی پائیدار نعمتوں کے درمیان سر بلندی و افتخار کے ساتھ ان کو جگہ ملے۔ لیکن اس بات کو فراموش نہیں کرنا چاہیئے کہ اس فوز کبیر اور کامیابی کی اصل کلید ایمان اور عمل صالح ہے۔ اس راہ کا اصلی سرمایہ یہی ہے ، باقی جو کچھ ہے وہ اس کی شاخیں ہیں ۔

” عملوا الصالحات “ کی تعبیر ( اس طرف توجہ کرتے ہوئے کہ صالحات صالح کی جمع ہے ) بتاتی ہے کہ صرف ایک یا چند عمل صالح کافی نہیں ہیں بلکہ ضروری ہے کہ انسان ہر قدم پر عمل صالح انجام دے ۔

” ذالک “ کی تعبیر جو عربی میں دور کے اشارے کے لئے آیا ہے ، اس قسم کے مقامات پر اہمیت اور بلندی کو ظاہر کرتی ہے یعنی ان کی کامیابی ، نجات اور اختیارات اور اعزازات اس قابل ہیں کہ ہماری فکر کی دسترس سے خارج ہیں ۔ اس کے بعد دوبارہ تشدد کرنے والوں اور کفار کو تنبیہ کرتے ہوئے فرماتا ہے :

” یہ یقینی بات ہے کہ تیرے پر وردگار کی قہر آمیز گرفت اور سزا بہت ہی شدید ہے “۔( ان بطش ربل لشدید ) ۔ اس کے بعد فرماتا ہے :” یہ گمان نہ کروکہ تمہارے درمیان میں قیامت نہیں ہے ، یا تمہاری باز گشت مشکل ہے ، وہی ہے جو خلقت کا آغاز کرتا ہے اور وہی ہے جو واپس لوٹا ئے گا۔ “( انه یبدیٴ و یعید ) ۔

” بطش“ کے معنی ایسی گرفت کے ہیں جس میں قہر و قدرت کا دخل ہو ، چونکہ عام طور پریہ کام سزا کی تمہید ہوتا ہے اس لئے یہ لفظ سزا کے معنی میں بھی آیا ہے ۔

” ربک “ تیرے پروردگار کی تعبیر پیغمبر کے دل کی تسلی اور خدا کی طرف سے ان کی حمایت کی تاکید ہے ۔ قابل توجہ یہ ہے کہ مندرجہ بالا آیت کئی قسم کی تاکید وں کو لیئے ہوئے ہیں ۔ ایک طرف تو لفظ بطش خود قہر آمیز گرفت کے معنی میں ہے اور اس میں شدت پوشیدہ ہے ، دوسرے جملہ اسمیہ ہے جو عام طور پر تاکید کے لیئے آتا ہے ، تیسرے ” شدید“ کی تعبیر اور چوتھے لفظ” انّ“ ، اور پانچویں ” لام تاکید“ یہ سب اسی آیت میں جمع ہیں ، اس بناء پر قرآن مجید چاہتا ہے کہ انہیں انتہائی انداز میں سزاو ں کے بیان سے تہدید کرے اور دھمکائے اورانه یبدیٴ و یعید کا جملہ جس میں معاد کی اجمالی دلیل پوشیدہ ہے ،کہہ کر ایک اور تاکید کا اضافہ کرتا ہے ۔(۱)

( قل یحییها الذی انشأ اوّل مرة و هو بکل خلق علیم ) کہہ دے وہی ذات جس نے اسے ابتداء میں خلق کیا ہے ، دوبارہ زندہ کرے گی اور وہ اپنی پوری مخلوق سے آگاہ ہے ۔ کہتے ہیں کہ فارابی کی آرزو تھی کہ کاش مشہور یونانی فیلسوف ارسطو زندہ ہوتا تاکہ وہ محکم اور خوبصورت دلیل معاد و قیامت کے بارے میں قرآن مجید کی طرف سے سنتا ۔

اس کے بعد خدائے عظیم و برتر کے اوصاف میں سے پانچ اوصاف بیان کرتے ہوئے کہتا ہے : ” وہ توبہ کرنے والے بندوں کو بخشنے والا اور مومنین کو دوست رکھنے والا ہے “۔( وهو الغفور الودود ) ۔

” وہ تخت قدرت والا ، عالم ہستی پر حکومت ِ مطلقہ رکھنے والا صاحب ِ مجدد و عظمت ہے “۔( ذو العرش المجید ) ” وہ کام کا ارادہ کر کے اسے انجام دیتا ہے “۔( فعال لمایرید )

” غفور“ و ” ودود“ دونوں مبالغہ کے صیغہ ہیں اور اس کی انتہائی بخشش اور محبت کی طرف اشارہ ہیں ۔ گناہ گار توبہ کرنے والوں کا بخشنے والااور بند گان صالح کے بارے میں شفیق و مہر بان ۔

حقیقت میں ان اوصاف کا ذکر اس تہدید کے مقابلہ میں ، جو گزشتہ آیات میں آئی ہے ، اس حقیقت کو بیان کرنے کے لئے ہے کہ باز گشت کا راستہ گناہگاروں کے سامنے کھولا ہے اور خدا شدید العقاب ہونے کے باوجود غفور و ،ودود ، و رو ف و مہر بان ہے ۔

جو کچھ کہا گیا ہے اس سے واضح ہو جاتا ہے کہ ودود یہاں فاعل کے معنی رکھتا ہے ، نہ کہ مفعول کے ۔ اور یہ جو بعض مفسرین نے ودود کے لفظ کو اسم مفعول کے معنوں میں سمجھا ہے ، مثل رکوب کے جو مرکوب کے معنی میں آیا ہے یعنی خدا سے بہت زیادہ محبت و دوستی کی گئی ، غفور کی صفت کے ساتھ جو اس سے پہلے آئی ہے کوئی مناسبت نہیں رکھتا۔ اس لئے کہ خدا کا ہدف و مقصد بندوں سے محبت کرنا اور انہیں دوست رکھنا ہے ، نہ کہ بندوں کا اس کی نسبت دوست رکھنا اور محبت کرنا ہے ۔

تیسری صفت یعنی ذوالعرش ، اس طرف توجہ کرتے ہوئے کہ عرش بلند تختِ شاہی کے معنی میں ہے ، اس قسم کے موارد میں قدرت و حاکمیت کا کنایہ ہے اور اس حقیقت کو بیان کرتا ہے کہ جہانِ ہستی کی حکومت اسی لئے ہے اور جو کچھ وہ ارادہ کرے وہ انجام پاجاتا ہے۔

اس بناپر حقیقت میں ”فعا ل لمایرید “ کا جملہ اس حاکمیت مطلقہ کے لوازم میں سے ہے اور ان سب میں مسئلہ معاد اور مردوں کو موت کے بعد زندہ کرنے والے جباروں کو سزا دینے اور کیفرِ کردار تک پہنچانے کے سلسلہ میں اس کی طاقت و قدرت کی نشاندہی کرتا ہے ۔

” مجید“ ” مجد“ کے مادہ سے کرم و شرافت و جلالت کی وسعت کے معنی میں ہے اور یہ ایسی صفات میں سے ہے جو خدا کی ذات سے مخصوص اور دوسروں کے بارے میں بہت کم استعمال ہوتی ہیں ۔(۲)

یہ پانچویں صفتیں ایک واضح انجام اور ایک دوسرے سے تعلق رکھتی ہیں ، اس لئے کہ غفور و و دود ہونا اس وقت مفید ہے جب قدر ت حاصل ہو اور کرم ِ وسیع اور نعمت بے پایاں ہو، تاکہ وہ جو کچھ ارادہ کرے انجام دے سکے ۔ نہ کوئی چیز اس کے کام میں مانع ہو اور نہ کوئی مقابلہ کی قدرت رکھتا ہو اور اس کے ارادہ میں ضعف و نقاہت و شک اور تردید و فسخ کا امکان نہ ہو۔

____________________

۱۔معاد کے بارے میں مندرجہ بالا خوب صورت دلیل وہی ہے جو سورہ یٰسین کے آخر میں آیہ۷۹ میں بھی آئی ہے ۔

۲۔ توجہ رکھنی چاہئیے کہ اوپر والی آیت میں مجید مشہور قرائت کی بناء پر مرفوع ہے اور خداکے اوصاف میں سے ہے نہ کہ مجرد اور عرش کے اوصاف میں سے ۔

آیات ۱۷،۱۸،۱۹،۲۰،۲۱،۲۲

۱۷ ۔( هل اتٰک حدیث الجنود ) ۔

۱۸ ۔( فرعون َ و ثمود ) ۔

۱۹ ۔( بل الذین کفروا فی تکذیب ) ۔

۲۰ ۔( و الله من وآئِهم محیط ) ۔

۲۱ ۔( بل هو قرآن مجید ) ۔

۲۲ ۔( فی لوح محفوظ ) ۔

ترجمہ

۱۷ ۔ کیا لشکروں کی داستان تجھ تک پہنچی ہے ۔

۱۸ ۔ فرعون و ثمود کے لشکر ۔

۱۹ ۔ بلکہ کفار ہمیشہ حق کی تکذیب میں مصروف رہتے ہیں ۔

۲۰ ۔ اور خدا ان سب پر احاطہ رکھتا ہے ۔

۲۱ ۔ ( یہ کوئی جادواور جھوٹ نہیں ہے ) بلکہ باعظمت قرآن ہے ۔

۲۲ ۔ جو لوحِ محفوظ میں موجود ہے ۔

تونے دیکھا کہ خدا نے فرعون و ثمود کے لشکروں کے ساتھ کیا کیا؟

گزشتہ آیات میں خدا کی قدرت ِ مطلقہ اس کی قطعی حاکمیت اور تشدد کرنے والے کفار کی تہدید کے طور پر تھیں ۔

یہ بتانے کے لئے یہ تہدید یں عملی ہیں ، باتوں اور نعروں کی حد تک محدود نہیں ہیں ، زیر بحث آیات میں روئے سخن پیغمبر کی طرف کرتے ہوئے فرماتا ہے :

” کیا لشکروں کی داستان تجھ تک پہنچی ہے “۔( هل اتاک حدیث الجنود ) ۔ وہ عظیم لشکر جنہوں نے خدائی پیغمبروں کے مقابلہ میں صف آرائی کی اور لڑنے کے لئے مستعد ہو گئے اس گمان میں کہ وہ خدائی قدرت کے مقابلہ میں اپنے کو پیش کرسکتے ہیں ۔ اس کے بعد ان کے دو بہت ہی واضح اور آشکار نمونوں کی طرف جن میں سے ایک قدیم الایام میں اور دوسرا بہت ہی نزدیک کے زمانے میں وقوع میں آیا، اشارہ کرتے ہوئے فرماتا ہے :

”وہی فرعون اور ثمود کے لشکر “( فرعون و ثمود ) ۔ ” وہی جن میں سے بعض نے دنیا کے مشرق و مغرب کو اپنے زیر ِ تسلط کرلیا تھا اور بعض نے پہاڑوں کے چیر کر بڑے بڑے پتھر کاٹ کر ان سے بڑے بڑے مکانات ، قصر اور محل بنائے اور کسی میں بھی ان کا مقابلہ کرنے کی جرأت نہیں تھی ، لیکن خدا نے اپنے گروہ کو پانی کے ذریعہ اور دوسرے کی آندھی کے وسیلے سے ، جو دونوں انسانی زندگی کا ذریعہ ہیں اور زیادہ لطیف موجودات شمار ہوتے ہیں ، سپرد کوبی کی ۔ دریائے نیل کی موجیں فرعون اور اس کے لشکر کو نگل گئیں اور ٹھنڈی اور سر کوبی کرنے والی ہَو ا قومِ ثمود پرِکاہ کی طرح اٹھا تی اور تھوڑے وفقہ کے بعد ان کے بے جاں جسموں کو سطح زمین پر پھینک دیتی تھی تاکہ مشرکین عرب جان لیں کہ وہ کچھ بھی کرسکتے ۔

جب خدا نے ان عظیم اور طاقتور لشکروں سے اس طرح انتقام لیا تو ان لوگوں کی کیا ہستی ہے جو ان کے مقابلہ میں بہت ہی کمزور و ناتواں ہیں ، اگر اس کی قدرت مقابلہ میں ضعیف قوی برابر ہیں ۔

گزشتہ عام اقوام میں سے قوم ثمود و فرعون کا انتخاب سر کش قوموں کے نمونہ کے طور پر اس بناء پر ہے کہ وہ دونوں قومیں انتہائی طاقتور تھیں ۔ ایک گزشتہ ادوار سے متعلق تھی ( قوم ثمود ) اور دوسری زیادہ نزدیک ماضی سے تعلق رکھتی تھی ( قوم فرعون ) علاوہ از یں قوم عرب ان ناموں سے باخبر تھی اور اجمالی طور پر ان کی تاریخ سے آشنا تھی ۔

بعد والی آیت میں مزید کہتا ہے :” بلکہ وہ لوگ کافر ہوگئے وہ ہمیشہ حق کی تکذیب میں گرفتار و مبتلا ہیں “۔( بل الذین کفروا فی تکذیب ) ۔ اس طرح نہیں ہے کہ حق کی نشانیاں کسی سے مخفی ہیں ۔ عناد اور ہٹ دھرمی اجازت نہیں دیتے کہ بعض لوگ راہ نکال کر منزل حق کی طرف قدم بڑھائیں ۔

” بل “ کی تعبیر جو اصطلاح کے ،مطابق ” اضراب“ ( ایک چیز سے دوسری چیزکی طرف عدول کرنے ) کے لیئے ہے ، گویا اس طرف اشارہ ہے کہ یہ مشرک گروہ قومِ فرعون و ثمود سے بھی بد تر اور زیادہ ہٹ دھرم ہے۔ یہ لوگ ہمیشہ قرآن کے انکار اور تکذیب میں لگے رہتے ہیں اور اس مقصد کے لئے اور وسیلہ سے فائدہ اٹھاتے ہیں ۔

لیکن انہیں جان لینا چاہئیے کہ خدا ان سب پر احاطہ رکھتاہے اور وہ سب ان کی قدرت کی گرفت میں ہیں( و الله من ورائهم محیط ) ۔

اگر خدا انہیں مہلت دیتا ہے تو عجز و توانائی کی بناپر نہیں ہے اور اگر انہیں جلدی سزا نہیں دیتا تو وجہ یہ نہیں ہے کہ وہ اس کی اقالیم قدرت سے باہرہیں ۔( ورائهم ) ان کے پیچھے اور پسِ پشت کی تعبیر اس طرف اشارہ ہے کہ وہ ہر جہت سے قدرت الہٰی کے قبضہ میں ہیں اور قدرت تمام اطراف سے ان کا احاطہ کئے ہوئے ہے ۔

اس بناپر ممکن نہیں ہے کہ اس کی عدالت اور سزا سے راہ فرار اختیار کرسکیں ۔

یہ احتمال بھی ہے کہ اس سے مراد ان کے اعمال پر تمام جہات سے خدا کا علمی احاطہ ہو اس طرح سے کہ ان کی کوئی گفتار، ان کا کوئی کردار اور ان کا کوئی کام اس سے مخفی نہیں ہے۔ بعد والی آیت میں مزید کہتا ہے :

” ان کا قرآن مجید کی تکذیب پر اصراراور اسے سحر ، جادو، شعر اور کہانت سے تشبیہ دینا ، بیہودہ اور فضول بات ہے ، بلکہ وہ قرآن مجید با عظمت اور بلند مرتبہ ہے “( بل هو قراٰن مجید ) ۔ ” ایسا کلام ہے جو لوح محفوظ میں ثبت ہے اور نااہل شیاطین اور کاہنوں کا ہاتھ ہر گز اس تک نہیں پہنچتا ، اور ہر قسم کے تغیر، تبدیلی ، اضافہ اور نقصان سے محفوظ ہے( فی لوح محفوظ ) ۔

اس بناپر اگر وہ ناروا نسبتیں تیری طرف دیتے ہیں اور تجھے شاعر ، ساحر، کاہن ، اور مجنون کہتے ہیں تو تواس سے ہر گز غمگین نہ ہو۔ تیری تکیہ گاہ محکم ، تیری راہ روشن اور تیرا حمایتی صاحبِ قدرت ہے ۔

” مجید “ جیسا کہ ہم نے کہا ہے ” مجد“ کے مادہ سے شرافت و جلالت کی وسعت کے معنی میں ہے اور یہ معنی قرآن کے بارے میں پورے طور پر صادق آتے ہیں ، اس لئے کہ قرآن کے مشمولات و مضامین وسیع و عظیم ہیں اور اس کے معانی بلند و پر مایہ ہیں ۔

معارف و عقائد کے سلسلہ میں بھی اور اخلاق و مواعظ و احکام و تسنن کے بارے میں بھی۔ ( لوح ، لام کے زبر کے ساتھ ) عریض و وسیع صفحہ کے معنی میں ہے جس پر کوئی چیز لکھتے ہیں اور لوح ( لام کے پیش کے ساتھ ) پیاس کے معنی میں ہے ۔ اس ہَوا کو بھی کہتے ہیں ، جو زمین و آسمان کے درمیان موجود ہے ، وہ فعل جو پہلے تلفظ سے مشتق ہوتا ہے آشکار ہونے اورچمکنے کے معنوں میں ہے ۔

بہر حال یہاں مرادہ وہ صفحہ ہے جس پر قرآن مجید تحریر ہے ۔ لیکن وہ صفحہ نہیں جو ہمارے درمیان رائج ہے جو الواح کی مانند ہے بلکہ ایک تفسیر کے مطابق جو ابن عباس سے منقول ہے کہ:

لوحِ محفوظ کا طول زمین و آسمان کے درمیانی فاصلے کے برابر ہے اور عرض مغرب و مشرق کے فاصلے کے برابر ہے ۔ یہ وہ مقام ہے جہاں محسوس ہوتاہے کہ لوحِ محفوظ وہی علم خدا کا ایک صفحہ ہے جس نے عالم مشرق و غرب کو گھیر رکھا ہے اور وہ ہر قسم کی دگر گونی ، تغیراور تبدیلی و تحریف سے محفوظ ہے ۔

جی ہاں ! قرآن مجید کا سر چشمہ حق تعالیٰ کا علم ِ بے پایاں ہے ۔ یہ انسانی فکر کی پیدا وار نہیں ہے ، نہ یہ القائے شیاطین کا نتیجہ ہے ۔ اس کے مشمولات و مضامین اس حقیقت کے گواہ ہیں ۔

یہ احتمال وہی چیز ہے جسے قرآن مجید میں کبھی کتاب مبین سے اور کبھی ام الکتاب سے تعبیر کیا گیاہے جیسا کہ سورہ رعد کی آیت ۳۹ میں ہم پڑھتے ہیں ( یمحو االلہ مایشاء و یثبت و عندہ ام الکتاب) خدا جسے چاہتا ہے محو کردیتا ہے اور جسے چاہتاہے ثابت رکھتا ہے اور اس کے پاس ام الکتاب ہے ۔ اور سورہ انعام کی آیت ۵۹ میں آیاہے (ولا رطب ولا یابس الاَّ فی کتاب مبین ) خشک و تر کی کوئی چیز ایسی نہیں مگریہ کہ واضح کتاب میں ثبت ہے ۔

خدا وندا ! ہمیں اپنی اس عظیم آسمانی کتاب کی حقیقت سے زیادہ آشنا فرما۔

پر وردگارا ! اس دن جس میں مومنین ِ صالح فوزِ کبیر حاصل کریں گے اور کافرین مجرم عذاب ِ حریق میں گرفتار ہوں گے اپنے دامن عافیت میں پناہ دیجو۔

بار الہٰا ! تو غفور و ودود و رو ف و مہر بان ہے ۔ تو ہم سے وہ سلوک کر جو تیرے ان اسمائے صفات سے ہم آہنگ ہے ۔ وہ سلوک نہ کیجو جس کا ہمارے اعمال تقاضا کرتے ہیں ۔

آمین یا رب العالمین

سورہ بروج کا اختتام

سورہ طارق

یہ سورہ مکہ میں نازل ہوااور اس میں ۱۷ آیتیں ہیں

سورہ طارق کے مضامین اور ان کی فضیلت

اس سورہ کے مطالب نہایت عمدہ طریقہ سے دو محوروں کے گرد گھومتے ہیں ۔

۱ ۔ معاد و قیامت کا محور ۔

۲ ۔ قرآن مجید اور اس کی قدر و قیمت کا محور۔

لیکن سورہ کے آغاز میں فکر آفرین قسموں کے بعد ان نگہبانوں کی طرف اشارہ کرتا ہے جو خدا کی طرف سے بندوں پر مقرر ہیں اور معاد و قیامت کے امکان کو ثابت کرنے کے بعد پہلی زندگی، یعنی انسان کے نطفہ کے پانی سے پیدا ہونے ، کی طرف اشارہ کرکے نتیجہ اخذ کرتا ہے اور فرماتا ہے :

” وہ خدا جو قدرت رکھتا ہے کہاسے اس قسم کی بے قیمت اور ناچیز پانی سے پید اکرے ، وہ نئے سرے سے اس کی باز گشت کی توانائی اور طاقت بھی رکھتا ہے ، بعد کے مر حلے میں روز قیامت کی بعض خصوصیات کی طرف اشارہ کرتا ہے ، اس کے بعدمتعدد پرمعنی قسموں کے حوالہ سے قرآن کی اہمیت کو گوش گزارکرتا ہے اور آخر کا ر سورہ کو خدائی عذاب کی اس تہدید پر ختم کرتا ہے جو کافروں کے لئے ہے ۔

اس سورہ کی فضیلت

اس سورہ کی فضیلت کے بارے میں ایک حدیث میں ہمیں پیغمبر اسلام سے معلوم ہوتا ہے کہ ( من قرأھا اعطاہ اللہ بعدد کل نجم فی السماء عشر حسنات ) جو شخص اس کی تلاوت کرے خدا اسے ہر اس ستارے کی تعداد کے مقابلہ میں ، جو آسمان میں ہے، دس نیکیاں عطا کرتا ہے ۔(۱)

اور ایک حدیث میں امام جعفر صادق علیہ السلام سے منقول ہے (من کان قرأته فی الفریضة و السماء و الطارق کان له عند الله یوم القیامة جاه و منزله و کان من رفقاء النبیین و اصحابهم فی الجنة ) جو شخص نماز فریضہ و واجب میں سورہ و السماء و الطارق کی تلاوت کرے وہ روز قیامت خدا کے ہاں عظیم مقام و منزلت کا حامل ہوگا اور جنت میں پیغمبرو ں کے رفقاء اور ان کے اصحاب میں سے شمار ہو گا ۔(۲)

واضح رہے کہ سورہ کے مضامین پر عمل کرنا ہی ایسی چیز ہے جس کا یہ اجر ِ عظیم ہے ، نہ کہ وہ تلاوت جو عمل اور غور و فکر سے خالی ہو۔

____________________

۱۔ مجمع البیان ،جلد ۱۰ ، ص ۴۶۹۔

۲۔ثواب الاعمال مطابق نور الثقلین ، جلد ۵، ص ۵۴۹۔