تفسیر نمونہ جلد ۱۵

تفسیر نمونہ 0%

تفسیر نمونہ مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن

تفسیر نمونہ

مؤلف: آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی
زمرہ جات:

مشاہدے: 58511
ڈاؤنلوڈ: 3588


تبصرے:

جلد 1 جلد 4 جلد 5 جلد 7 جلد 8 جلد 9 جلد 10 جلد 11 جلد 12 جلد 15
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 169 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 58511 / ڈاؤنلوڈ: 3588
سائز سائز سائز
تفسیر نمونہ

تفسیر نمونہ جلد 15

مؤلف:
اردو

آیات ۱،۲،۳،۴،۵،۶،۷،۸،۹،۱۰

( بسم الله الرحمٰن الرحیم )

۱ ۔( و السماء و الطارق ) ۔

۲ ۔( و ما ادراک ما الطارق ) ۔

۳ ۔( النّجم الثّاقب ) ۔

۴ ۔( اِنْ کلُّ نفسٍ لمَّا علیها حافظٌ ) ۔

۵ ۔( فلینظر الانسان ُ ممَّ خُلق ) ۔

۶ ۔( خُلق من مآءٍ دافقٍ ) ۔

۷ ۔( یخرجُ مِن مّآءٍ دافقٍ ) ۔

۸ ۔( اِنّه مِن بین الصُّلبِ و التَّرآئِب ) ۔

۹ ۔( یوم تُبلیَ السَّرآ ئِر )

۱۰ ۔( فماله مِن قوةٍ وَ لا نَاصرٍ ) ۔

ترجمہ

رحمن و رحیم کے نام سے

۱ ۔ قسم ہے آسمان کی اور رات کے کھٹکھٹانے والی کی ۔

۲ ۔ اور تو نہیں جانتا کہ رات کو کھٹکھٹانے والا کون ہے ؟

۳ ۔ وہی درخشاں ستارہ اور تاریکیوں کو چیر نے والا ۔

۴ ۔ ( اس عظیم خدائی آیت کی قسم ) ہر شخص کا ایک مراقب و محافظ ہے ۔

۵ ۔ انسان کو دیکھنا چاہئیے کہ وہ کس چیز سے پیدا کیا گیا ہے ؟

۶ ۔ وہ اچھلتے ہوئے پانی( منی ) سے پیدا ہو اہے ۔

۷ ۔ وہ پانی جو پشت او رسینوں کے درمیان سے خارج ہوتا ہے ۔

۸ ۔ ( وہ جس نے اس قسم کی ناچیز شے سے پیدا کیا ہے ) اسے واپس لوٹا سکتا ہے ۔

۹ ۔ جس دن اسرار کھلیں گے ۔

۱۰ ۔ اور اس کے لئے کوئی قوت اور مدد گار نہیں ہے ۔

اے انسان دیکھ کہ تو کس چیز سے پید اہو اہے

یہ صورت بھی قرآن کے آخری پارے کی بہت سی دوسری سورتوں کی طرح خوبصورت اور فکر انگیز قسموں کے ساتھ شروع ہو رہاہے ۔ ایسی قسمیں ایک عظیم حقیقت کے بیان کی تمہید ہیں ۔

” قسم ہے آسمان کی اور رات کو کھٹکھٹانے والے کی “( و السماء و الطارق ) ” اور تو نہیں جانتا کہ رات کو کھٹکھٹانے والا کون ہے “( وما ادراک ما الطارق ) ” بلند و درخشاں اور رات کی تاریکیوں کو چیر نے والا ستارہ ہے “۔( النجم الثاقب ) ۔

” طارق“ طریق ( بر وزن برق) کے مادہ سے کوٹنے کے معنی میں ہے ۔ راستے کو اسی لیئے طریق کہتے ہیں کہ وہ چلنے والے لوگوں کے قدموں سے رونداجاتاہے اور مطرقہ اس ہتھوڑے کے معنوں میں ہے جسے دھاتوں وغیرہ کو کوٹنے کے لئے استعمال کی کیا جاتا ہے ۔ چونکہ رات کو گھروں کے دروازے بند کردیتے ہیں اس لئے وہ شخص جو رات کو آتا ہے در وازہ کھٹکھٹانے پر مجبور ہو تاہے ، لہٰذا رات کو آنے والے شخص کو طارق کہتے ہیں ۔

امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام اشعث بن قیس منافق کے بارے میں ، جو رات کے وقت آپ کے دروازہ پر آیا تھا اور حلوہ اپنے ساتھ لا یا تھا کہ اپنے خیال ناقص میں حضرت علی علیہ السلام اپنی طرف متوجہ کرے اور کسی معاملہ میں آپ سے اپنے موافق حکم حاصل کرے ، فرماتے ہیں (وا عجب من ذالک طارق طرقنا بملفوفة و عائها ) اور اس سے زیادہ تعجب کی بات تو اس شخص کی ہے جس نے رات کے وقت در وازہ کھٹکھٹایا تھا اور وہ لذیذ حلوہ سے پُر ڈھکا ہوا بر تن اپنے ہمراہ لایا تھا ۔(۱)

لیکن قرآن یہاں طارق کی خود تفسیر کرتاہے اور کہتا ہے یہ رات کا مسافر وہی درخشاں ستارہ ہے جو آسمان پر ظاہر ہوتا ہے اور اس قدر بلند ہے گویا چاہتاہے کہ آسمان کی چھت میں سوراخ کردے ۔ اس کی روشنی آنکھوں کو اس قدر خیرہ کرنے والی ہے کہ تاریکویں میں شگاف ڈال دیتی ہے اور انسان کی آنکھوں کے اندر نفوذ کرتی ہے ۔

(توجہ فرمائیں کہ ثاقب ثقب کے مادہ سے سوراخ کرنے کے معنی ہے)۔

یہ بات کہ اس سے مراد کوئی معین ستارہ ہے ، مثلاً ثریا نامی ستارہ ( آسمان میں بلندی اور دوری کے لحاظ سے ) یا زحل، پھر زہرہ یا شہب ، (خیرہ کرنے والی روشنی کے لحاظ سے ) یا آسمان کے تمام ستاروں کی طرف اشار ہ ہے ۔ یہاں تفسیریں کی گئی ہیں ۔ لیکن اس طرف توجہ کرتے ہوئے کہ بعد کی آیت میں اسے نجم ثاقب ( نفوذ کرنے والے ستارے ) کے نام سے ظاہر کیا گیا ہے ، معلوم ہوتا ہے کہ اس سے مراد ہر ستارہ نہیں بلکہ وہ درخشاں ستارے ہیں جن کو نور تاریکی کے پردوں میں شگاف ڈال دیتاہے اور انسان کی آنکھوں میں نفوذ کرتاہے ۔

بعض روایا ت میں النجم الثاقب کی زحل ستارے سے تفسیر کی گئی ہے جو نظام شمسی کے سیاروں میں سے بہت ہی پر فروع اور منور ستارہ ہے ، اور یہ معنی اس حدیث سے بھی ظاہر ہوتے ہیں ، جو امام صادق علیہ السلام نے النجم الثاقب کی تفسیر کے سلسلہ میں ایک منجم کو بتائے ہیں ۔ آپ علیہ السلام نے فرمایا : زحل ستارہ ہے جو ساتویں آسمان میں طلوع ہوتا ہے اور اس کی روشنی تمام آسمانوں کو چیرتی ہوئی نچلے آسمان تک پہنچ جاتی ہے ۔ اسی لئے خدا نے اسے نجم ثاقب کہاہے ۔(۲)

قابل توجہ بات یہ ہے کہ زحل آخری اور سب سے دور جو نظام شمسی ہے ، اس کا ستارہ ہے ، جو بغیر کسی آلے کی مدد کے خالی آنکھ سے دیکھاجاسکتاہے اور چونکہ نظام شمسی کے ستاروں کی ترتیب کے اعتبار سے سورج کی نسبت کے پیش نظر ساتویں مدار اور مقام گردش میں قرار پاتا ہے ( چاند کے مدار کے حساب سے ) تو امام اس حدیث میں اس کا مدار ساتواں آسمان بتاتے ہیں ۔ اس ستارے کی کچھ خصوصیات ہیں جو اسے قابل قسم بناتی ہیں ۔

ایک تو یہ نظام شمسی کے سب سے دور ستاروں میں سے ہے ۔ اس وجہ سے ادب عربی میں ہر بلندی کی اس سے مثال دیتے ہیں اور کبھی اسے شیخ النجوم بھی کہتے ہیں ۔(۳)

زحل ستارہ جس کا فارسی نام کیوان ہے ، اس کے کئی نورانی حلقے ہیں جو اس کا احاطہ کئے ہوئے ہیں ۔ اس کے آٹھ چاند ہیں ۔زحل کے نورانی حلقے جو اس کا احاطہ کئے ہوئے عجیب ترین آسمانی مظاہر میں سے ہیں ، جن کے بارے میں ماہرین ِ فلکیات کے مختلف نظر یات ہیں اور وہ حلقے اب بھی پر اسرار موجودات ہیں ۔ بعض مفسرین کا نظریہ ہے کہ زحل دس چاند ہیں جن میں سے آٹھ کا عام نجومی دوربینوں سے مشاہدہ کیا جا سکتاہے اور دوسرے دو چاند صرف بہت بڑی دور بینوں سے نظر آسکتے ہیں ۔(۴)

مذکورہ اسرار میں اس وقت کسی پر قطعاً واجب نہیں تھے ۔ جب قرآن نازل ہوا تھا ۔ وہ اس کے صدیوں بعد آشکارہوئے ، بہر حال نجم ثاقب کی زحل ستارے سے تفسیر خصوصیت کے ساتھ ممکن ہے ، ایک واضح مصداق کے بیان کی قبیل سے ہوا ور وہ اس راہ میں حائل نہ ہو کہ آسمان کے دوسرے درخشاں ستاروں سے تفسیر کی جائے ، اس لئے کہ ہم جانتے ہیں کہ ہماری روایات میں مصداقی تفسیربہت زیادہ ہے ۔

سورہ صافات کی آیت ۱۰ میں ہم پڑھتے ہیں (الاَّ من خطف الخطفة فاتبعة شهاب ثاقب ) ” مگر وہ جو مختصر سے لہجہ میں استراق سمع کے لئے (چوری چھپے کان لگاکر سننے کے لئے )آسمان کے نزدیک ہوتو شہاب ثاقب اس کا تعاقب کرتاہے “۔

تو اس آیت میں شہاب کی توصیف لفظِ ثاقب سے ہوئی ہے اور چونکہ یہ آسمان میں وجود میں آنے والی چیز عجائبات ِ عالم میں سے ایک ہے ، لہٰذا ممکن ہے کہ زیر بحث آیت کی ایک تفسیر یہ بھی ہو۔ اس آیت کے لئے جو شانِ نزول بعض کتب تفسیر میں بیان ہوئی ہے وہ بھی ان معانی کی تاکید کرتی ہے ۔(۵)

ہم دیکھیں کہ یہ قسمیں کس لئے ہیں ۔ بعد میں آنے والی آیت میں فرماتا ہے :” مسلم ہے کہ ہر ایک مراقب و محافظ ہے ،( ان کل نفس لما علیها حافظ )

۲ ۔ اس آیت میں ان نافیہ ہے اور لما الاَّ کے معنی میں ہے ۔

جو اس کے اعمال کو لکھتاہے اور حساب کتاب اور جزاء وسزا کے لئے محفوظ رکھتاہے ۔ جیسا کہ سورہ انفطار کی آیت ۱۰ ۔ ۱۱ ۔ ۱۲ ۔ میں ہم پڑھتے ہیں( و انّ علیکم لحافظین کراما ً کاتبین یعملون ماتفعلون ) اور تم پر کچھ محافظ مقرر کر دیئے گئے ہیں ، لکھنے والے مکرم و محترم ، جو ہمیشہ تمہارے اعمال لکھتے ہیں اور جوکچھ انجام دیتے ہو اس سے واقف ہیں “۔

اس طرح تم اکیلے اور تنہا نہیں ہو ،اور تم میں سے کوئی بھی ہو اور جہاں کہیں بھی ہو، وہ پروردگار کے مامورین کی زیر نگرانی ہوگا۔ یہ ایسا مفہوم ہے جس کی طرف توجہ انسان کی اصلاح و تربیت کے لئے بے حد مو ثر ہے قابل توجہ بات یہ ہے کہ آیت میں یہ نہیں بیان کیا گیا کہ یہ حافظ کون ہے اور کن امور کی حفاظت کرتا ہے ۔

لیکن قران کی دوسری آیتیں گواہی دیتی ہیں کہ حفاظت کرنے والے فرشتے ہیں اور جن چیزوں کی حفاظت کرتے ہیں وہ انسان کے اعمال ہیں ، قطع نظر اس سے کہ وہ طاعتیں ہوں یا معاصی و گناہ ۔ یہ احتمال بھی پیش کیا گیا ہے کہ اس سے مراد انسان کی حوادث و مہلکات سے حفاظت ہے ۔

واقعی اگر خدا انسان کی حفاظت نہ کرے تو دنیا میں بہت کم افرادکو طبیعی موت نصیب ہو ، اس لئے کہ حوادث کا حجم اس قدر زیادہ ہے کہ کوئی بھی ان سے نہیں بچ سکتا ۔ خصوصاً وہ بچہ جن کی عمر ابھی چند سال ہی کی ہوتی ہے ۔ممکن ہے یہ بھی حفاظت نہ ہو توجن و انس پر مبنی شیاطین کے وسوسے اس قدر زیادہ ہیں کہ کوئی فرد بھی اس سے محفوظ نہیں رہ سکتا۔

لیکن اس طرف توجہ کرتے ہوئے کہ بعد والی آیت مسئلہ معاد و قیامت اور اعمال و کردار کے حساب و کتاب میں گفتگو کرتی ہے لہٰذا پہلی تفسیر سب سے زیادہ مناسب ہے ۔ اگرچہ اس آیت میں ان تینوں تفسیروں کو جمع کرنے سے بھی کوئی قباحت پید انہیں ہوتی ۔

قابل توجہ یہ ہے کہ پہلے بیان شدہ قسموں کے اور اعمال ِ انسان کی فرشتوں کے ذریعہ حفاظت کے مسئلہ کے درمیان ایک زندہ رابطہ ہے، اس لئے کہ بلند آسمان اور ستارے ، جو اپنے منظم راستوں میں مسلسل راہ پیمائی کررہے ہیں ، اس عالم عظیم میں نظم و ضبط اور حساب وکتاب کے موجود ہونے کی دلیل ہے تو پھر کس طرح ممکن ہے کہ انسان کے اعمال حساب وکتاب کے بغیر ہوں اور مراقبین الہٰی اور محافظین خدائی ان کی نگرانی نہ کریں ۔

اس کے بعد مسئلہ معاد کے ایک استدلال کے عنوان سے ، ان لوگوں کے مقابلہ میں جو اسے غیر ممکن سمجھتے ہیں ، فرماتا ہے :” انسان کو دیکھنا چاہئیے کہ وہ کس چیز سے پیدا کیا گیا ہے “( فلینظر الانسان مما خلق )

اس طرح قرآن تمام لوگوں کا ہاتھ پکڑ کر پہلی خلقت کی طرف واپس لے جاتا ہے اور ایک جملہ استفہامیہ کے ذریعہ ان سے پوچھتا ہے ” تمہاری خلقت کس چیز سے ہوئی ہے ؟“اور بغیر اس کے کہ ان کے جواب کا انتظار کرے ، اس سوال کا جواب جو بالکل واضح ہے ، خود دیتا ہے اور مزید کہتاہے :” وہ ایک ٹپکنے والے پانی سے خلق ہوا ہے “( خلق من ماءٍ دافق ) ۔ جو مرد کے نطفہ کی توصیف کرتے ہوئے کہتا ہے : ” جو صلب اور ترائب کے درمیان سے نکلتا ہے “( یخرج من بین الصلب و الترائب ) ۔

” صلب“ کے معنی پشت کے ہیں اورترائب تریبہ کی جمع ہے جو علماء لغت کے مطابق سینے کے اوپر کی ہڈیوں کے معنی میں ہے ، جس کے اوپر گلوبند باندھا جاتا ہے ، جیسا کہ ابن منظور لسان العرب میں کہتا ہے :(قال اهل اللغة اجمعون موضع القلادة من الصدر )سب اہل لغت کہتے ہیں وہ سینے کے قلادة والی جگہ ہے ۔ اس کے باوجود اس کے کئی اور معنی بھی بیان ہوئے ہیں ۔ منجملہ ان کے ایک یہ کہ ترائب کے معنی ہاتھ، پاو ں اور آنکھیں ہیں ، یہ کہ سینہ کی ساری ہڈیاں ہیں ۔ یاد ائیں طرف کی چارپسلیاں ، ۔ یا بائیں طرف کی چار پسلیاں ، ۔ بہر حال یہ کہ اس آیت شریفہ میں صلب و ترائب سے کیا مراد ہے ، اس عنوان پر مفسرین کے درمیان بہت کچھ اختلاف ہے اور اس سلسلہ میں انہوں نے بہت سی تفسیریں تحریر کی ہیں ۔

ان میں سے چند درج ذیل ہیں :

۱ ۔ ”صلب “ مردوں کی طرف اشارہ ہے اور ” ترئب “ عورتوں کی طرف، اس لئے کہ مرد مظہر صلابت اور عورتیں مظہر لطافت وزینت ہیں ۔ اس لئے یہ آیت نطفہ انسانی کی ترکیب کی طرف مرداور عورت کے نطفے کے حوالے سے اشارہ کرتی ہے جو موجودہ زمانے کی اصلاح میں ” اسپرم“( Sperm )اور ” اودل“ کے نام سے موسوم ہے ۔

۲ ۔ ” صلب “ اشارہ ہے مرد کی پشت کی طرف اور ترائب اشارہ ہے اس کے سینے اور بدن کے اگلے حصہ کی طرف۔ اس بناء پر مراد صرف مرد کا نطفہ ہے ، جو شکم کے اندرونی حصوں میں سے پشت اور اگلے حصے کے اندر سے خارج ہوتا ہے ۔

۳ ۔ مراد عورت کے رحم سے جنین کا خروج ہے جو اس کی پشت اور بدن کے اگلے حصہ میں قرار پاتا ہے ۔

۴ ۔ بعض مفسرین نے یہ کہاہے کہ یہ آیت ایک دقیق علمی نکتہ کی طرف اشارہ کرتی ہے جس سے اس آخری زمانے کے انکشاف نے پردہ اٹھایا ہے ، جو نزولِ َقرآن زمانے میں یقینا پنہان تھا اور وہ یہ کہ نطفہ مرد کے بیضے اور عورت کے تخمدان سے لیاجاتا ہے اور ماہرین جنین شناسی کے حوالے سے بتاتے ہیں کہ یہ دونوں ابتداء میں جب جنین میں ظاہر ہوتے ہیں تو گُردوں کے قریب میں ہوتے ہیں اور تقریباً پشت کے مہروں کے ستون کے وسط کے مقابلہ میں صلب اور ترائب ( پشت اور انسان کی نچلی پسلیاں ) کے درمیان قرار پاتے ہیں ۔ پھر کچھ وقت گزرنے کے بعد اور ان دونوں اعضاء کے نشو نما سے اس جگہ سے نیچے آجاتے ہیں اور ان میں سے ہرایک اپنی موجودہ جگہ پر آجاتا ہے ۔

چونکہ انسان کی پیدائش عورت او رمرد کے نطفہ کی ترکیب سے ہوتی ہے اور دونوں ابتداء میں اصل محل صلب و ترائب کے درمیان قرار پاتاہے ،لہٰذا قرآن نے اس قسم کی تعبیر کو منتخب کیاہے ، وہ تعبیر جو اس زمانے میں کسی کو معلوم نہیں تھی اور جدید علم جنین شناسی نے اس پر سے پردہ اٹھا یاہے ۔(۶)

زیادہ واضح تعبیر میں مرد کا بیضہ اور عورت کا تخمدان ابتدائے خلقت میں ، یعنی اس وقت جب عورت و مرد خود عالم جنین میں تھے ، ان کی پشت میں قرار پایاتھا ، جو تقریبا ً پشت کے مہروں کے ستون کے وسط کے مدِ مقابل تھا ۔ اس طرح سے کہا جاسکتا ہے کہ مرد کا نطفہ ساز دستگاہ دونوں صلب و ترائب کے درمیان تھے ۔ لیکن آہستہ آہستہ جب مرد و عورت کی خلقت شکمِ مادر میں مکمل ہوتی ہے تو وہاں سے الگ ہو کر آہستہ آہستہ نیچے آتی ہے ، اس طرح سے کہ مردکے بیضے کے تولد کے وقت شکم سے باہر اور آلہ تناسل کے قریب قرار پاتی ہے اور عورت کا تخمدان رحم کے قرب میں قرار پاتاہے ۔

لیکن اس تفسیر پر اہم اعتراض یہ ہے کہ قرآن کہتاہے کہ وہ ٹپکنے والا پانی صلب اور ترائب کے درمیان سے خارج ہوتا ہے ، یعنی پانی خروج کے وقت ان دونوں کے درمیان سے گزرتا ہے ، جبکہ اس تفسیر کے مطابق نطفہ کے پانی کے خروج کے وقت ایسا نہیں ہوتا ۔ جبکہ نطفہ ساز دستگاہ اس موقع پر کہ جب خود شکم مادر میں تھی تو اس وقت صلب و ترائب کے درمیان تھی ۔ اس سے قطع نظر ترائب کی تعبیر اگر نچلی آخری پسلیوں سے لی جائے تب بھی بحث و تنقید سے خالی نہیں ہے

۵ ۔ اس جملہ سے یہ مراد ہے کہ منی حقیقت میں انسان کے تمام اجزائے بدن سے لی جاتی ہے ۔ اسی لئے خروج کے وقت سارے بدن میں ہیجان ہوتا ہے اور اس کے بعد تمام بدن میں سستی آجاتی ہے ۔ اس لئے صلب و ترائب انسان کی عام پشت او رتمام اگلے حصہ کی طرف اشارہ ہے ۔

۶ ۔ بعض نے یہ بھی کہا ہے کہ عمدہ ترین منی کی پیدائش کا عامل ”نخاع شو کی “ حرام مغز ہے کو مرد کی پشت اوراس کے بعد دل و جگر ہیں ، جن میں سے ایک سینہ کی ہڈیوں کے نیچے اور دوسرا دونوں کے درمیان ہے اور یہی چیزسبب بنی کے صلب وترائب کے مابین تعمیر کا اس کے لئے انتخاب ہوا ، لیکن ہر چیز سے پہلے مشکل کے حل کرنے کے لئے اس اہم نکتہ کی طرف توجہ کی جائے کہ مندر بالا آیات میں صرف مرد کے نطفہ کے بارے میں گفتگو ہے اس لئے کہ ماء دافق “ کی تعبیر( اچھل کر نکلنے والا پانی ) مرد کے نطفہ پر صادق آتی ہے ، نہ عورت کے نطفہ پر ۔

یہی وجہ ہے کہ بعد والی آیت پر ” یخرج“ کی ضمیر جس کی طرف لوٹتی ہے اور کہتی ہے کہ یہ اچھل کر نکلنے والا پانی صلب و ترائب سے خارج ہوتا ہے،تو اس حساب سے اس بحث قرآنی میں عورت کو شریک کرنا مناسب نظر نہیں آتا ، بلکہ زیاہ مناسب وہی تعبیر ہے کہ کہا جائے کہ قرآن نطفہ کے دو اصلی اجزاء میں سے ایک کی طرف ، جو مرد کا نطفہ ہے اور سب کو معلوم ہے ، اشارہ کرتا ہے اور صلب و ترائب سے مراد انسان کی پشت اور اگلا حصہ ہے، اس لئے کہ مرد کے نطفہ کا پانی ان ہی دونوں کے درمیان سے نکلتا ہے ۔(۷)

یہ تعبیر واضح اور ہر قسم کی پیچیدگی سے خالی ہے اور لفظ کے معنی کے سلسلہ میں جو کچھ کتب لغت میں آیا ہے اس سے ہم آہنگ ہے ۔ اس کے باوجود ممکن ہے کہ اس آیت میں ایک سے زیادہ اہم حقیقت بھی چھپی ہوئی ہو جو ہمارے موجودہ علم کی حد تک ہمارے لئے منکشف نہیں ہوئی اور ماہرین کے آئندہ کے انکشافات اس پر سے پردہ ہٹاسکیں گے ۔

اس کے بعد اس بیان سے نتیجہ اخذ کرتے ہوئے فرماتا ہے :” وہ جس نے انسان کو نطفہ کے پانی سے پیداکیاہے ، قادر ہے کہ اسے دوبارہ زندگی کی طرف لوٹا ئے“۔( انه علیٰ رجعه لقادر ) ۔

ابتداء میں وہ مٹی تھا ، پیچیدہ اورتعجب انگیز مراحل طے کرنے کے بعد کامل انسان میں تبدیل ہوا۔ اس لئے اس کی نئی زندگی کی طرف باز گشت کوئی مشکل پیدانہیں کرتی ۔ اس بیان کی نظیر قرآن کی دوسری آیتوں میں بھی نظر آتی ہے ۔

سورہ حج کی آیت ۵ میں فرماتاہے :( یاایهاالناس ان کنتم فی ریب من البعث فانا خلقنا کم من تراب ثم من نطفة ) ”اے لوگوں ! اگر قرآن کے بارے میں شک میں مبتلا ہو تو ہم نے تمہیں خاک سے پیدا کیا ، پھر نطفہ سے “۔ نیز سورہ مریم کی آیت ۶۷ میں ہم پڑھتے ہیں( اولا یذکر الانسان انا خلقناه من قبل و لم یک شیٴاً ) ” کیاانسان اس بات کو یاد نہیں کرتا کہ ہم نے اسے پہلے پید اکیا ، جبکہ وہ کوئی شیء نہیں تھا “۔

اس کے بعد اس عظیم دن کی تعظیم و توصیف پیش کرتے ہوئے فرماتا ہے : ” یہ باز گشت اس دن تحقق پائے گی جس دن اسرار آشکار ہوں گے“۔( یوم تبلی السرائر ) ۔(۸)

”تبلیٰ“ ۔” بلوی“ کے مادہ سے آزمائش اور امتحان کے معنی میں ہے اور چونکہ آز مائش کے وقت اشیاء کی حقیقت آشکا رو واضح ہو جاتی ہے ، لہٰذا یہ مادہ یہاں ظہور و بروز کے معنی میں آیا ہے۔

جی ہاں ! اس دن جو یوم الظہور و یوم البروز ہے، اسرار آشکار ہوجائیں گے، قطع نظر اس سے کہ ایمان و کفر نفاق ہوں ، یا نیت خیر و شر یاریا و اخلاص ۔

روز بروز یہ ظہور مومنین کے لئے باعث افتخار و فراوانی نعمت ہوگا اور مجرموں کے لئے شرمساری اور اس کے جھلکے کا سبب اور ذلت و خواری کا باعث۔ اور کیا ہی درد ناک ہے کہ وہ انسان جس نے اپنی اندرونی خرابیوں اور برائیوں کو عمر بھر لوگوں سے چھپائے رکھا ہو اور ان کے درمیان عزت سے زندگی گزاری ہو ، لیکن اس دن ، جس دن تمام اسرار آشکار ہوں گے ، تو تمام مخلوق کے سامنے شرمسار اور ندامت سے سرنگوں ہو، اس لئے کہ بعض اوقات عذابِ ندامت اور دوزخ کی آگ سے بھی زیادہ دردناک ہوتا ہے ۔

سورہ رحمن کی آیت ۴۱ میں بھی آیاہے :( یعرف المجرمون بسیماهم ) ” قیامت میں گناہگار اپنے چہروں سے پہچانے جائیں گے “۔ نیز دوسری آیات میں ہے کہ” قیامت میں ایک گروہ کے چہرے روشن اور تابناک ہوں گے اور دوسرے گروہ کے چہرے تاریک و غبار آلود ہوں گے “۔ ( عبس۔ ۳۸ ۔ ۴۱)

جی ہاں !جس طرح طارق اور ستارے رات کے وقت آسمان میں ظاہر ہوتے ہیں اور پردے سے باہر آ جاتے ہیں ، وہ محافظ و مراقب جو انسان کے اعمال کے حفظ و ضبط پر مامور ہیں ، وہ بھی وہاں سب کچھ ظاہر کردیں گے ۔۔

ایک روایت میں معاذ بن جبل سے منقول ہے ، وہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول خدا ﷺسے اس آیت میں جو لفظ سرائر ہے ، اس کے معنی پوچھے کہ وہ کون سے اسرار ہیں جن کے ذریعہ خدا قیامت میں بندوں کو آزمائے گا ؟تو آپ نے فرمایا

(سرائرکم هی اعمالکم من الصلٰوة و الصیام و الزکوٰة و الوضوء و الغسل من الجنابة و کل مفروض لان الاعمال کلها سرائر خفیة فان شاء الرجل صلیت ولم یصل وان شاء قال توضأت ولم یتوضأ فذالک قوله یوم تبلی السرائر

”تمہارے سرائر تمہارے اعمال ہی ہیں ، مثلاً نماز، روزہ،زکوٰة ، وضو ، غسل ، ِ جنابت اور ہر واجب عمل ، اس لئے کہ تما م اعمال حقیقت میں پنہاں ہیں ۔ اگرانسان چاہے تو کہہ دے کہ میں نے نماز پڑھی ہے جب کہ اس نے نہ پڑھی ہو اور کہہ سکتا ہے کہ میں نے وضو کیا ہے جبکہ وضو نہ کیا ہو۔ یہ ہے خدا کے اس کلام کی تفسیر( یوم تبلی السرائر ) ۔(۹)

اس دن اہم مشکل یہ ہوگی کہ انسان کے لئے کوئی قوت و طاقت اندر سے اور کوئی یاور و ہمدرد باہر سے نہیں ہوگا (نماله من قوة ولا ناصر )۔ کوئی طاقت جو اس کے برے اعمال اور بری نیت پر پردہ ڈالے اور کوئی مدد گارجو اسے عذابِ الہٰی سے رہائی بخشے۔

یہ مفہوم بہت سی قرآنی آیات میں آیاہے کہ اس دن نہ کوئی مدد گار ہوگا نہ کوئی فدیہ ہونے والا قبول ہوگا ، نہ ہی کوئی فرار اور باز گشت کی راہ انسان کے سامنے ہوگی اور نہ کوئی راستہ عدالتِ پر وردگار کے چنگل سے فرار کرنے کا راستہ ہوگا۔ نجات کا وسیلہ صرف اور صرف عمل صالح ہوگا۔ جی ہاں ! نجات کا وسیلہ صرف یہی ہے ۔۔

____________________

۱-۔نہج البلاغہ، خطبہ ۲۲۴۔

۲۔نو رالثقلین، جلد ۵، ص۵۵۰ حدیث۴۔

۳۔دائرة المعارف دھخدا مادہ زحل۔

۴۔ دائرة المعارف دھخدا مادہ زحل۔

۵۔ روح المعانی ، جلد ۱۰، ص۳۹۷۔

۶۔ تفسیر مراغی ، جلد ۳۰، ص۱۱۳۔

۷۔ قرآن کی دوسری آیتوں میں بھی جب نطفہ سے انسان کی خلقت کی گفتگو درمیان میں آتی ہے تو زیادہ تر مرد ہی کے نطفہ پر، جو ایک محسوس امر ہے ، انحصار کیا جاتا ہے ۔ سورہ نجم کی آیت ۴۶ اور سورہ قیامت کی آیت ۳۷ کی طرف رجوع فرمائیں ۔

۸۔یوم یہاں ظرف ہے اور رجع کا متعلق ہے جو گزشتہ آیت میں آیاہے اور اس قسم کے مواد میں مصدر اور اس کے معمول کے درمیان فاصلہ ضرر نہیں رکھتا، اس لئے کہ یہ کسی اجنبی سے فاصلہ نہیں ہے ۔

۹۔مجمع البیان ، جلد ۱۰۔ اس مفہوم سے مشابہ تفسیر در المنثور، جلد۶، ص ۳۳۶ میں بھی آئی ہے ۔