تفسیر نمونہ جلد ۱۵

تفسیر نمونہ 0%

تفسیر نمونہ مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن

تفسیر نمونہ

مؤلف: آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی
زمرہ جات:

مشاہدے: 59349
ڈاؤنلوڈ: 3824


تبصرے:

جلد 1 جلد 4 جلد 5 جلد 7 جلد 8 جلد 9 جلد 10 جلد 11 جلد 12 جلد 15
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 169 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 59349 / ڈاؤنلوڈ: 3824
سائز سائز سائز
تفسیر نمونہ

تفسیر نمونہ جلد 15

مؤلف:
اردو

آیات ۶،۷،۸،۹،۱۰،۱۱،۱۲،۱۳

۶ ۔( سنقر ئُک فلا تنسیٰٓ ) ۔

۷ ۔( الاَّ ما شآءَ الله انّه یعلم الجهر و ما یخفیٰ ) ۔

۸ ۔( ونیسرک للیسریٰ ) ۔

۹ ۔( فذکِّراِنْ نَّفعتِ الذِّکریٰ ) ۔

۱۰ ۔( سیذَّ کر من یخشیٰ ) ۔

۱۱ ۔( ویتجنبُها الاشقی ) ۔

۱۲ ۔( الذی یصلی النار الکبریٰ ) ۔

۱۳ ۔( ثم لایموت فیها ولا یحییٰ ) ۔

ترجمہ

۶ ۔ ہم عنقریب تیرے سامنے( قرآن کو) پڑھیں گے اور تو اسے کبھی فراموش نہیں کرے گا ۔

۷ ۔ مگر جو کچھ خدا چاہے ۔ و ہ آشکار اور پنہاں کو جانتا ہے ۔

۸ ۔ اور ہم تمہیں ہر اچھے کام کے انجام دینے کے لئے آمادہ کریں گے ۔

۹ ۔ تو جہاں سمجھنا مفید ہو ، سمجھا تے رہو۔

۱۰ ۔ اور عنقریب وہ لوگ جو خدا سے ڈرتے ہیں متذکر ہوں گے ۔

۱۱ ۔ لیکن زیادہ بدبخت لوگ اس سے دوری اختیار کرتے ہیں

۱۲ ۔ وہی جو بہت بڑی آگ میں داخل ہوگا ۔

۱۳ ۔ پھر اس آگ میں نہ مر جائے گا، نہ زندہ رہے گا۔

ہم تجھے ہر اچھے کام کے لئے آمادہ کریں گے

گزشتہ آیتوں میں پروردگار کی ربوبیت اور توحید کے بارے میں گفتگو تھی ۔ اس کے بعد زیر بحث آیات میں قرآن اور پیغمبر کی نبوت کی بات ہورہی ہے ۔

گزشتہ آیات میں عام موجودا ت کی ہدایت متعلق گفتگو تھی اور زیربحث آیات میں نوع انسانی کی ہدایت کی بات ہے ۔ خلاصہ یہ کہ گزشتہ آیات میں پروردگار علی و اعلیٰ کی تسبیح کا ذکر آیا تھا اور ان آیات میں اس قرآن کی بات ہے جو اس تسبیح کو بیان کرتاہے ۔

فرماتاہے : ” ہم عنقریب تیرے لئے قرأت کریں گے اور تو کبھی نہیں بھولے گا۔“( سنقرئک فلا تنسیٰ ) اس بناپر نزول وحی کے وقت عجلت سے کام نہ لے اور آیات الہٰی کے بھول جانے کے بارے میں کبھی پریشان نہ ہو ۔ وہ ذات جس نے یہ عظیم آیات انسانوں کی ہدایت کے لئے تجھ پر نازل کی ہیں ، وہ ان کا محافظ و نگہبان بھی ہے ۔

وہ ان آیات کا نقش تیرے مبارک سینے میں اس طرح ثبت کرے گا کہ نسیان کا گرد و غبار اسے کبھی مکدر نہیں کرے گا۔

یہ اس مفہوم کی نظیر ہے جو سورہ طٰہٰ کی آیت ۱۱۴ میں آیا ہے( ولا تعجل بالقرآن من قبل ان یقضیٰ الیک وجیه و قل رب زدنی علماً ) قرآن پڑھنے کے سلسلہ میں اس سے پہلے کہ اس کی وحی تجھ پر تمام ہو ، جلدی نہ کر اور کہہ پر وردگار میرے علم میں اضافہ فرما“۔

پھر سورہ قیامت کی آیت ۱۶ ۔ ۱۷ ۔ میں ہم پڑھتے ہیں :( لاتحرک به لسانک لتعجل به ان علینا جمعه و قراٰنه ) ” اپنی زبان کو قرآن کے ساتھ حرکت نہ دے اس سے پہلے کہ وحی تجھ پر تمام ہو، یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اس کو جمع کریں اور تیرے سامنے پڑھیں ۔“

اس کے بعد خدا کی قدرت کو ثابت کرنے اور یہ جو کچھ خیر و بر کت ہے وہ اسی کی طرف ہے ،مزید کہتاہے : ” تو آیات ِ الٰہی میں سے کسی چیز کو نہیں بھولے گا، مگر وہ جسے خدا چاہے۔ اس لئے کہ وہ آشکار و پنہاں کو جاننے والاہے “۔( الاَّ ما شاء الله انه یعلم الجهر ومایخفیٰ ) ۔

اس تعبیر کا مفہوم یہ نہیں ہے کہ پیغمبر آیات الہٰی میں سے کسی چیز کو بھول جائیں گے ، یا ان کی گفتگو سے اطمینان قلب ہوجائے گا۔

مقصود کلام یہ ہے کہ آیات الہٰی کو یادر کھنے کی نعمت خدا کی طرف سے ہے ، لہٰذا جس وقت وہ چاہے اسے پیغمبر سے چھین سکتا ہے ، یا دوسرے لفظوں میں ہدف و مقصد خدا کے علم ذاتی اور اس کے پیغمبر کے علم وہبی کے درمیان جو فرق ہے اس کو بیان کرنا ہے۔

یہ آیت حقیقت میں اس چیز کے مشابہ ہے جو سورہ ہود کی آیت ۱۰۸ میں اہل بہشت کے جنت میں ہمیشہ رہنے کے بارے میں آئی ہے( و اما الذین سعدوا ففی الجنة خالدین فیها مادامت السماوات و الارض الاَّ ما شاء ربک عطاء غیر مجذوذ )

سعادتمند ہمیشہ جنت میں رہیں گے ، جب تک کہ آسمان و زمین قائم ہیں وہ جو تیرا پروردگار چاہے ،یہ عطا ہے جو کبھی منقطع نہیں ہو گی“۔

یہ طے شدہ بات ہے کہ اہل جنت ہمیشہ جنت میں رہیں گے اور آیت کا آخری حصہ گواہ ہے :( الاَّ ما شاء ربک ) کا جملہ خداکے ارادے اورحاکمیت کی طرف اشارہ ہے اور اس طرف اشارہ ہے کہ ہر چیز اس کی مشیت سے ربط رکھتی ہے ، اپنی ابتدا و خلقت میں بھی اور بقاء و استمرار میں بھی ۔

من جملہ ان امور کے جو اس موضوع کے گواہ ہیں ، یہ ہے کہ خدا اپنے پیغمبر کے لئے ایک نعمت کے طور پر بیان کرے ۔ لہٰذا مراد تمام آیاتِ قرآن اور احکام و معارف اسلام کا حفظ اور یاد رکھنا ہے ۔

بعض مفسرین نے یہ بھی کہا ہے کہ اس اثناء سے مراد وہ آیتیں ہیں جنکے معنی اور تلاوت دونوں منسوخ ہو گئے ہیں ، لیکن یہ تفسیر بہت بعید نظر آتی ہے اصولی طور پر اس قسم کی آیات کا وجود ہی ثابت نہیں ہے ۔

بعض مفسرین نے یہ احتمال بھی پیش کیا ہے کہ استثناء قرأت سے متعلق ہے ۔ اس لئے کہ آیت کا مفہوم یہ ہے کہ ہم عنقریب تیرے لئے قرأت کریں گے اور اپنی آیات کو بیان کریں گے، مگر وہ آیات کے سیاق کی طرف توجہ کرتے ہوئے بعید نظر آتی ہے( انه یعلم الجهر و ما یخفیٰ ) کا جملہ حقیقت میں ا س مفہوم کی علت کا بیان ہے جو سنقرئک کے جملہ میں آیاہے ، جو اس طرف اشارہ ہے کہ وہ خدا جو تمام آشکار و پنہاں حقائق سے باخبر ہے، وہ تجھ پر نوعِ بشر کی احتیاجات میں سے باقی رہ جانے والی چیزیں وحی کے ذریعہ القا کرتا ہے اور اس سلسلہ میں کسی چیز کو نظر انداز نہیں کرے گا۔

یہ احتمال بھی ہے کہ مراد یہ ہوکہ پیغمبر وحی کے حصول میں عجلت نہ کریں اور بھول چوک کا خوف نہ رکھیں ، اسلئے کہ وہ خدا ، جو آشکار و پنہاں حقائق کاعلم ہے ، اس نے وعدہ کیا ہے کہ پیغمبر کو نسیان نہیں ہوگا ۔

بہر حال یہ پیغمبر ِ اسلام کا ایک معجزہ ہے کہ طولانی آیات کو جبرائیل کے ایک ہی مرتبہ تلاوت کرنے سے یاد کرلیتے ، ہمیشہ یاد رکھتے اور کوئی بات بھی نہیں بھولتے تھے۔

اس کے بعد پیغمبر کی دلداری کرتے ہوئے مزید کہتا ہے :”ہم تجھے ہر اچھے کام کے انجام دینے کی تو فیق دیں گے “۔( ونیسرک للیسریٰ ) (۱)

دوسرے لفظوں میں مقصودِ کلام یہ ہے کہ ا س راستہ میں جو تجھے در پیش ہے ، بہت سی سختیاں اور مشکلات ہیں ، وحی کے اخذ کرنے اور اسے یاد رکھنے کی راہ میں بھی ، تبلیغ رسالت میں بھی اور اچھے کام انجام دینے میں بھی ، ہم ان تمام امور میں ( وحی کے حصول ، اس کی تبلیغ ، نشر و اشاعت، تعلیم دینے اور اس پر عمل کرنے میں ) تیری مدد کریں گے اور مشکلات کو تجھ پر آسان کردیں گے

یہ جملہ ، ہو سکتا ہے کہ دعوت فکر ِ پیغمبر کے نفس مضمون ، پیغمبر کی ذمہ داریوں اور خدا کی طرف سے بھیجے ہوئے لائحہ عمل کی طرف بھی اشارہ ہو ، یعنی اس کا مفہوم و مضمون آسان ہے ، اس کی شریعت شریعت سہلہ ہے اور اس کی خدائی دین میں حوصلہ شکن تکلیفیں اور ذمہ داریاں نہیں ہیں ۔

اس بناپر مندرجہ بالا آیات کا ایک بہت ہی وسیع مفہوم ہے ۔ اگر چہ بہت سے مفسرین نے اسے ایک ہی جہت میں محدود کردیا ہے ، اور واقعی کار خدا کی مدد ، توفیق اور نصرت نہ ہوتی تو ان مشکلات پر پیغمبر کاقابو پانا ممکن نہیں تھا ، خود پیغمبر اسلام کی زندگی بھی اس حقیقت کی تعلیم کا ایک نمونہ تھی ، آپ کسی چیز میں بھی ، قطع نظر اس سے کہ لباس ، خوراک، سواری یا زندگی کے دوسرے وسائل میں سخت گیر نہیں تھے ۔ ہر مناسب غذا کھالیتے ، ہر قسم کا لباس باعثِ عیب و نقص نہ ہوتا ، زیب تن فرمالیتے ، کبھی بستر پر آرام کرتے ، کبھی عام فرش پر ، حتیٰ کبھی بیابان کے ریت پر ، نیز آپ ہر قسم کے تعلق اور تقید سے آزاد تھے ۔

پیغمبر اسلام پر وحی آسمانی کی موہبت و نعمت اور آپ کے لئے توفیق اور تسہیل امور کے وعدے کے بیان کرنے کے بعد آپ کی اہم ترین ذمہ داری کو بیان کرتے ہوئے فرماتا ہے : ” پس تذکرمفید ہو “( فذکر انفعت الذکریٰ ) بعض مفسرین نے کہا ہے کہ اس سے مراد یہ ہے کہ تذکربہر حال مفید ہے ، وہ افراد جو اس سے کسی طرح بھی مستفید نہ ہوں ، وہ بہت کم ہیں ، علاوہ ازیں اور کچھ نہیں کم از کم منکرین پر اتمام حجت کا سبب تو ہے ، جو بجائے خود ایک بہت بڑی منفعت ہے ۔ ۲

جبکہ بعض کا نظریہ ہے کہ آیت میں کچھ محذوف ہے اور اس کا مفہوم یہ ہے کہ تذکرکردار اور یاد دہانی کراچاہے مفید ہو یا نہ و( فذکر ان نفعت الذکرٰ اولم تنفع ) یہ حقیقت میں اس چیز کے مشابہ ہے جو سورہ نحل کی آیت ۸۱ میں آئی ہے( و جعل لکم سرابیل تقیکم الحر ) خدا نے تمہارے لئے پیراہن قرار دیئے ہیں ، جو تمہیں گرمی ( سردی ) سے محفوظ رکھتے ہیں ۔

اس آیت میں صرف گرمی کا ذکر ہو اہے اوردوسری قرینہِ تقابل سے معلوم ہوتی ہے لیکن بعض مفسرین کا اصرار ہے کہ جملہ شرطیہ یہاں مفہوم رکھتا ہے اور مراد یہ ہے کہ وہاں تذکر کرجہاں مفید ہو او رجہاں کوئی فائدہ نہ ہو تو پھر اس کی کوئی ضرورت نہیں ۔

یہ احتمال بھی پیش کیا گیا ہے کہ” ان “ یہاں شرطیہ نہ ہو بلکہ ”قد“ کے معنی میں تاکید و تحقیق کے لئے ہو اور جملہ کا مفہوم یہ ہو کہ تذکر مفید و فائدہ بخش ہے ۔ ان چاروں تفسیروں میں سب سے زیاد ہ مناسب پہلی تفسیر ہے ۔

پیغمبر اسلام کا لائحہ عمل بھی اس پر گواہ ہے کہ وہ اپنی تبلیغات و تذکرات کے لئے کسی قسم کی قید و شرط کے قائل نہیں تھے ، سب کو وعظ و نصیحت کرتے اور خوفِ خدا دلاتے تھے ۔

بعد والی آیت میں تذکر، وعظ اور انذار کے مقابلہ میں لوگوں کے رد عمل کو پیش کرتا ہے اور انہیں دو گروہوں میں تقسیم کرتے ہوئے فرماتا ہے : عنقریب و ہ لوگ جو خد اسے ڈرتے ہیں اور مسئولیت و ذمہ داری کا احساس کرتے ہیں ، متذکر ہوں گے “( سیذکر من یخشیٰ )

جی ہاں جب روح میں خوف خدا اور خشیت الہٰی نہ ہو ، یا دوسرے لفظوں میں حق طلبی اور حق جوئی کی روح انسان میں نہ ہو ، جو تقویٰ کاایک مرتبہ مواعظ الٰہیہ اور تذکراتِ انبییاء فائدہ نہیں پہنچاتے۔ اسی لئے سورہ بقرہ کے آغاز میں پروردگار قرآن کو پرہیز گاروں کے لئے سبب ہدایت شمار کرتے ہوئے فرماتا ہے :( هدیً للمتقین ) ایک بعد والی آیت میں ایک دوسرے گروہ کو پیش کرتے ہوئے مزید ارشادہوتا ہے :” لیکن زیادہ بد بخت افراد اس سے دوری کرتے ہیں “( ویتجنبها الاشقی ) ۔(۳)

بعض روایا ت میں آیا ہے کہ ابن عباس کہتے ہیں کہ آیت ( سیذکر من یخشیٰ) عبد اللہ ابن مکتوم ،۔پاک دل و حق طلب نابینا کے بارے میں نازل ہوئی ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ( یتجنبها الاشقیٰ ) ولید بن مغیرہ اور عتبہ بن ربیعہ کے بارے میں ہے کہ کفار ومشرکین کے سر غنہ تھے ۔(۴)

بعض مفسرین نے کہا ہے کہ اشقیٰ سے مراد یہاں معاندین اور دشمنان حق ہیں ، اس لئے کہ لوگو ں کے تین گروہ ہیں : ایک عارف و آگاہ گروہ ، دوسرا، متوقف اور شک کرنے والاگروہ اور تیسرا گروہ دشمنی کرنے والا گروہ ۔ فطری و طبعی امر ہے کہ پہلا اور دوسرا گروہ تو فہمائش سے فائدہ اٹھا تے ہیں ۔ صرف تیسرا گروہ ہے جو مشیت سے فائدہ نہیں اٹھا تا ۔ ان کے بارے میں فہمائش کی تاثیر صرف وہی اتمام حجت ہے جس ذکر کیا گیا ۔

اس آیت سے ضمنی طور پرمعلوم ہوتاہے کہ پیغمبر اسلام تیسرے گروہ کو بھی اپنی فہمائش سے مستفید فرماتے تھے ، لیکن وہ لوگ دوری اختیار کرتے اور روگرداں ہوتے تھے ۔

قابل توجہ بات یہ ہے کہ ان دونوں آیتوں میں شقاوت و خشیت کا نقطہ مقابل قرار دیا گیا ہے جبکہ قاعدةً اسے سعادت کے مقابلہ میں قرار پانا چاہئیے تھا یہ اس بناپر ہے کہ انسان کی سعادت اور خوش بختی کا اصل سبب مسئولیت و ذمہ داری کا احساس اور خشیت ہی ہے ۔

بعد والی آیت میں آخری گروہ کی سر نوشت اس طرح بیان فرماتاہے :” وہ شقی جو دوزخ کی عظیم آگ میں داخل ہو گا اور وہاں قرار پائے گا“( الذی یصلی النار الکبریٰ ) پھر اس آگ میں ہمیشہ رہے گا ، نہ مرے گا اور نہ زندہ رہے گا ۔( ثم لایموت فیها ولا یحییٰ ) یعنی نہ تو مرےگا تاکہ آسودہ ہو اور نہ اس حالت کو جس میں وہ زندگی کا نام دیا جا سکتا ہے ۔ ۔ وہ ہمیشہ زندگی اور موت کے درمیان ہاتھ پاو ں مارتا رہے گا ، جو کیفیت ایسے افراد کے لئے بد ترین بلا و مصیبت ہے ۔

( النارالکبریٰ ) سے کیا مراد ہے ؟ ایک جماعت کا کہنا ہے کہ جہنم کا سب سے نچلا طبقہ اسفل السافلین ہے ۔ ایسا کیوں نہ ہوکہ وہ شقی ترین اور معاند ترین لوگ ہیں ۔ لہٰذا ان پر نازل ہونے والا عذاب بھی سخت ترین اور ہولناک ترین ہونا چاہئیے ، لیکن بعض مفسرین نے کہا ہے کہ اس آگ کی لفظ کبریٰ کے ساتھ توصیف آتشِ صغریٰ کے مقابلہ میں ہے ، یعنی اس دنیا کی آگ کے مقابلہ میں ، جیسا کہ ایک حدیث میں آیاہے کہ امام صادق علیہ السلام نے فرمایا:

(ان نارکم هٰذه جزء من سبعین جزء من نارجهنم و قد اطفئت سبعین مرة بالماء ثم التهبت ولولا ذالک ما استطاع ادمی ان یطیقها )۔ ” یہ تمہاری آگ جہنم کی آگ کی ستر اجزاء میں سے ایک ہے ۔ وہ پانی سے ستر مرتبہ دھوئی گئی پھر بھی وہ بھڑک اٹھی ۔ اگر ایسانہ ہو تا تو پھر کوئی آدمی اس کے تحمل کی طاقت نہ رکھتا اور ا سکے قریب نہ ٹھہر سکتا ۔(۵)

مشہور دعا ئے کمیل جو امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام ہے اس میں دنیا کی آگ اور آخرت کی آگ کے موازنہ میں ہم پڑھتے ہیں (علیٰ ان ذالک بلاء و مکروه مکثه یسیر بقائه قصیر مدته ) یہ ایسی بل ااو رمکروہ و ناپسندیدہ چیز ہے جس میں توقف کم ہے ، اس کی بقا مختصر ہے اور اس کی مدت تھوڑی ہے ۔

____________________

۱۔ بعض نے کہا ہے کہ واقعی آیت کا مفہوم ونیسرک الیسریٰ لک تھا ، اور تاکید کے عنوان سے تقدیم و تاخیر ہوئی ہے اور نیسرک للیسریٰ ہو گیا ہے ۔ البتہ یہ اس صورت میں ہے کہنیسرک نوفقک کے معنی میں نہ ہو ورنہ تقدیم و تاخیر کی ضرورت نہیں ہے ۔

۲۔ اور یہ جو قرآن کہتاہے ”سواء علیهم ء انذرتهم ام لم تنذر هم لا یو منون “ان کے لئے برابر ہے چاہے تو انہیں ڈرائے یا نہ ڈرائے ۔وہ ایمان نہیں لائیں گے۔(بقرہ۔ ۶) یہ لوگوں کی صرف ایک اقلیت کے لئے ، ورنہ اکثریت بہر حال اچھی باتوں کا اثر لیتی ہے ، البتہ بعض لوگ بہت زیادہ اور اس کے بر عکس بعض لوگ بہت کم اثر لیتے ہیں ۔ لیکن بہر حال سنجیدہ باتیں عام طور پر اثر کرتی ہیں ۔ اس وجہ سے یہاں جملہ شرطیہ قید غالب کی قبیل سے ہے جو اثر نہیں رکھتی ۔

۳۔ یتجنبھا کی ضمیر ذکریٰ کی طرف لوٹتی ہے جو گزشتہ آیات میں آیا ہے ۔( غور کیجئے)

۴۔تفسیر قرطبی ، جلد ۱۰، ص ۷۱۱۰ دوسرا حصہ تفسیر کشاف و روح المعانی زیر بحث آیات کے ذیل میں ۔

۵۔ بحار الانوار ، جلد ۸، ص ۲۸۸، حدیث ۲۱۔

آیات ۱۴،۱۵،۱۶،۱۷،۱۸،۱۹

۱۴ ۔( قد افلح من تزکیٰ ) ۔

۱۵ ۔( و ذکراسم ربه فصلیٰ ) ۔

۱۶ ۔( بل تو ثرون الحیٰوةَ الدنیا ) ۔

۱۷ ۔( و الآخرةُ خیر وَّ ابقیٰ ) ۔

۱۸ ۔( انّ هٰذا لفی الصحفِ الاولیٰ ) ۔

۱۹ ۔( صحف ابراهیم و موسیٰ ) ۔

ترجمہ

۱۴ ۔ یقینا وہ رستگار ہوگا جو تزکیہ کرے ۔

۱۵ ۔ اور اپنے پر وردگار کے نام کا ذکر کرے اور نماز پڑھے ۔

۱۶ ۔ بلکہ تم دنیا کی زندگی کو مقدم سمجھتے ہو۔

۱۷ ۔ جب کہ آخرت زیادہ پائیدار اور بہتر ہے ۔

۱۸ ۔ یہ احکام پہلی آسمانی کتب میں آچکے ہیں ۔

۱۹ ۔ کتاب ابراہیم و موسیٰ میں ۔

وہ دستور العمل جو تمام آسمانی کتب میں آیاہے

گزشتہ آیات میں کفار اور دشمنان ِ حق کے بارے میں سخت سزا کا اشارہ ہوا ہے ، زیر بحث آیات میں اہل ایمان کی نجات اور اس نجات کے اسباب و عوامل کی طرف اشارہ کرتا ہے ۔ پہلے فرماتاہے :

” یقینا وہ شخص فلاح پائے گا جو اپنا تزکیہ کرے “( قد افلح من تزکیّٰ ) ۔ اور اپنے پروردگار کے نام کا ذکر کرے اور اس کے بعد نماز پڑھے ( وذکراسم ربہ فصلی) اس طرح فلاح و رستگاری اور کامیابی و نجات کے عوامل ان تین چیزوں کو بتایا ہے ، تزکیہ، نام خداکا ذکر اور اس کے بعد نماز پڑھنا ۔

تزکیہ سے مراد کیاہے ؟ اس سلسلہ میں علماء نے مختلف تفسیریں کی ہیں ۔ پہلی روح کو نجاستِ شرک سے پاک کرنا ہے ، گزشتہ آیات کے قرینہ سے ، نیز اس قرین سے بھی کہ اہم ترین تطہیر شرک سے تطہیر ہے ۔

دوسری یہ کہ تزکیہ سے مراد دل کو اخلاقی رزائل سے پاک کرنا اور اعمال صالح بجا لانا ہے ۔ قرآن مجید میں آیات فلاح کے نقطہ نظر سے دوسری آیات کے علاوہ سورہ مومنین کے آغاز کی ا ٓیتیں ہیں جو فلاح کو اعمال صالح کی روح قرار دیتی ہےں اور سورہ شمس آیت ۹ کے حوالے سے جس میں تقویٰ اور فجور کے بیان کے بعد فرماتاہے :( قد افلح من زکّٰها ) وہ فلاح پا گیا جس نے اپنے نفس کو فسق و فجور اور دوسرے برے اعمال سے پاک کیااور تقویٰ سے آرستہ کیا۔

تیسری تفسیر یہ ہے کہ زکیٰ سے مراد زکوٰة فطرہ دینا ہے ۔ عید فطرسے پہلے زکوٰة فطرہ ادا کی جائے ، پھر نماز عید پڑھی جائے ۔ جیساکہ متعدد روایات میں امام جعفر صادق علیہ السلام سے منقول ہے ۔ ۱ ۔ اور یہی معانی منابع اہل سنت میں امیر المومنین علیہ السلام سے منقول ہیں ۔(۲)

یہاں سوال پید اہوتا ہے کہ سورہ اعلیٰ مکی ہے اور مکہ میں نہ زکوٰة فطرہ مقرر ہو ئی تھی ، نہ ماہ رمضان کے روزے ، نہ نمازِ عید ہی اور فطرہ کے مراسم ۔اس سوال کے جواب میں بعض مفسرین نے کہا ہے کہ کوئی مانع نہیں ہے کہ اس سورہ کا پہلا حصہ مکہ میں نازل ہوا ہو اور ذیلی حصہ مدینہ میں ۔ یہ احتمال بھی قوی طور پر موجود ہے کہ مندرجہ بالاتفسیر ایک واضح مصداق کے بیان کی قبیل سے ہو اور آیت کی تطبیق کسی واضح فرد پرہو ، بعض نے یہاں تزکیہ کو مالی صدقہ دینے کے معنی میں سمجھا ہے ۔ اہم بات یہ ہے کہ تزکیہ کے وسیع معانی ہیں ۔ یہ روح سے شرک کی آلود گی کو دور کرنے کے معنی میں بھی ہے، اخلاقِ رزیلہ سے خود کو پاک کرنے کے معنی میں بھی ، ہر قسم کے مکر و ریا سے پاک کرنے کے معنی میں بھی اور راہ خدا میں زکوٰة دے کر مال و جان کی تطہیر کے معنی میں بھی اس لئے کہ سورہ توبہ آیت ۱۰۳ ۔( خذ من اموالهم صدقة تطهر هم و تزکییهم بها ) ”ان کے مال میں سے صدقہ ( زکوٰة ) لے تاکہ انہیں اس کے ذریعہ پا ک کرے اور ان کا تزکیہ کرے “ ۔ کے مطابق زکوٰة کا دینا روح و جان کی پاکیزگی کا سبب ہے ۔

اس بناپر تمام تفسیریں آیت کے وسیع معنی کے اعتبار سے ممکن ہے کہ ٹھیک ہوں ۔ قابل توجہ یہ بات ہے کہ مندرجہ بالا آیت میں پہلے تزکیہ ، اس کے بعد پروردگار کا ذکر اور پھر نماز کی بات ہوئی ہے ۔

بعض مفسرین کے بقول مکلف کے تین عملی مراحل ہیں ، پہلا دل سے فاسد عقیدہ کا ازالہ ، اس کے بعد اللہ کی معرفت اور اس کے صفات و اسماء کا دل میں حضور ، اور تیسرا مشغلہ ہے ” اشتغال بخدمت“ مندرجہ ذیل بالا آیت نے تین مختصر جملوں میں ان تینوں مرحلوں کی طرف اشارہ کیا ہے ۔

یہ نکتہ بھی قابل ذکر ہے کہ نما زکا ذکر پر وردگا رکی فرع شمار کیا گیا ہے ۔ یہ اس بناء پر ہے کہ جب تک اس کی یاد میں محو نہ ہو اور نور ایمان دل میں سایہ فگن نہ ہو اس وقت تک بندہ نما زکے لئے کھڑا نہیں ہوتا ۔ علاوہ از این وہ نماز قدر و قیمت رکھتی ہے جس کے ساتھ اس کا ذکر بھی ہو اور وہ اس کی یاد کو ساتھ لئے ہوئے ہو اور یہ جو بعض لوگوں نے ذکر پروردگار سے مراد صرف اللہ اکبر یا بسم اللہ الرحمن الرحیم کو لیا ہے ، یہ در حقیقت اس کی بعض مصادیق کا بیان ہے ۔

اس کے بعد اس فلاح و رستگاری کے دستور العمل سے انحراف کے اصلی عامل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے مزید فرماتا ہے :” بلکہ تم دنیاوی زندگی کو مقدم رکھتے ہو اور اسے ترجیح دیتے ہو“( بل تو ثرون الحیٰوة الدنیا ) جبکہ آخرت بہتر اور زیادہ پائیدار ہے( و الآخرة خیر و ابقیٰ ) ۔

یہ حقیقت میں وہی مفہوم ہے جو احادیث میں بھی آیاہے (حب الدنیا رأس کل خطئة ) ” دنیا کی محبت ہر گناہ کا سر چشمہ ہے “۔(۴)

حالانکہ عقل کبھی اجازت نہیں دیتی کہ انسان سرائے باقی کو متاعِ فانی کے بدلے فروخت کرے اور اور ان مختصر سی لذتوں کو جو انواع و اقسام کے درد و رنج ساتھ لئے ہوئے ہیں ان تمام جاودانی اور ہر قسم کی تکالیف سے مبرانعمتوں پر مقدم سمجھے اور ان پر ترجیح دے ۔

انجام کار سورے کے آخر میں فرماتاہے :” یہ احکام جو بتائے گئے ہیں اس کتاب ِ آسمانی ہی میں محدود نہیں ہیں بلکہ پہلی کتب اور صحف میں بھی آچکے ہیں “۔( انّ هٰذا الصحف الاولیٰ ) یعنی صحفِ و کتب ابراہیم و موسیٰ میں ۔( صحف ابراهیم و موسیٰ ) ۔(۵)

یہ بات کہ ھٰذا کامشارالیہ کیاہے اس سلسلہ میں کئی نظر یات موجود ہیں ۔ ایک جماعت نے کہا ہے کہ تزکیہ ، نماز اور حیاتِ دنیا کو آخرت پرترجیح نہ دینے کے آخری حکم کے سلسلہ میں اشارہ ہے ، اس لئے کہ یہی انبیاء کی سب سے اہم او ربنیادی تعلیمات تھیں اور نا کا بیاں تمام کتب آسمانی میں موجود ہے ۔

بعض دوسرے مفسرین اس کو ساری سورة کی طرف اشارہ سمجھتے ہیں ، اس لئے کہ سورة توحید سے شروع ہوتی ہے اور نبوت کاتذکرہ جاری رکھتے ہوئے عملی دستور العمل پر ختم ہوجاتی ہے ۔ بہر حال یہ تعبیر بتاتی ہے کہ اس سورہ کا اہم مضمون ، بالخصوص آخری آیات عالم ادیان کے اصول اساسی میں سے ہے ۔ ، تمام انبیاء کی بنیادی تعلیمات میں سے ہے اور یہ خود اس سورة کی عظمت اور ان کی تعلیمات کی اہمیت کی نشانی ہے ۔

” صحف“ صحیفہ کی جمع ہے جو یہاں لوح تختی اور صفحہ کے معنی میں ، جس پر کوئی چیز لکھتے ہیں مندرجہ بالا آیات بتاتی ہیں کہ حضرت ابراہیم اور حضرت موسیٰ بھی آسمانی کتابوں کے حامل تھے ۔ ایک روایت حضرت ابو ذر غفاری (رض) سے منقول ہے کہ انہوں نے کہا کہ میں نے پیغمبر اکرم کی خدمت میں عرض کیا کہ انبیاء کی تعداد کیا ہے ، تو آپ نے فرمایا ” ایک لاکھ چوبیس ہزار “ میں نے عرض کیا ” ان میں سے رسول کتنے تھے “؟ فرمایا: تین سو تیرہ اور باقی سب نبی تھے “۔ میں نے عرض کیا ” حضرت آدم بنی تھے ؟ “ فرمایاہاں ۔ خدا نے ان سے کلام کیا اور انہیں اپنے دست قدرت سے خلق فرمایا “۔

اس کے بعد پیغمبر اکرم نے مزید فرمایا:” اے ابو ذر انبیاء میں سے چار افراد عرب تھے : ہود ، صالح ، شعیب ، اور تیرا پیغمبر “۔ میں نے کہا ” اے اللہ کے رسول ! خدا نے کتنی کتابیں نازل فرمائیں ہیں ؟ “ فرمایا: ایک سو چار کتابیں “ دس کتابیں آدم پر پچاس کتابیں شیث پر اور تیس کتابیں اخنوخ پر ، جو ادریس وہ پہلے شخص ہیں جنہوں نے قلم سے لکھا ۔ ابرہیم پر دس کتابیں اور توریت ، انجیل ، زبور اور فرقان ، موسیٰ ، عیسیٰ ، داو د ،اور پیغمبر اسلام پر نازل ہوئیں ۔(۶)

( الصحف الاولیٰ ) کی تعبیر ابراہیم و موسیٰ کی کتب کے بارے میں آخری صحف کے مقابل ہے جو حضرت عیسیٰ اور پیغمبر اسلام پر نازل ہوئے ۔

____________________

۱۔ نور الثقلین، جلد، ۵ ص ۵۵۶ حدیث۱۹تا ۲۱۔

۲۔ روح المعانی ، جلد ۳۰، ص ۱۱۰ اور تفسیر کشاف، جلد ۴، ص ۷۴۰۔

۳۔ تفسیر فخر رازی ، جلد ۳۱، ص ۱۴۷۔

۴۔ یہ حدیث مختلف عبارتوں کے ساتھ امام جعفر صادق علیہ السلام اور امام زین العابدین علیہ السلام سے ، بلکہ تمام انبیاء سے نقل ہوئی ہے اور یہ اس کی حد سے زیادہ اہمیت کی بناء پر ہے ۔ نور الثقلین ، جلد۵، ص ۵۵۶۔ ۵۵۷۔

۵۔ ہوسکتا ہے کہ صحف ابراہیم و موسیٰ صحف الاولیٰ کی وضاحت ہو، یہ احتمال بھی ہے کہ اس کا بیان اور واضح مصداق ہو، پہلی صورت میں گزشتہ تمام انبیاء کی کتب پر حاوی ہوگا اور دوسری صورت میں صرف ابراہیم و موسیٰ کے صحیفے مراد ہوں گے ۔

۶۔ مجمع البیان، جلد ۱۰، ص ۴۷۶۔

حب الدنیا رأس کل خطیئة کی تحلیل

یقینا مومن افراد کے لئے یہ قرآنی محاسبہ ، جومندرجہ بالا آیات میں آیاہے اور جو دنیا و آخرت کے موازنے کے سلسلہ میں ہے ، جس میں یہ بتایا گیا ہے کہ آخرت بہتر او ر زیادہ پائیدار ہے، مکمل طور پر واضح ہے ۔ لیکن اس کے باوجود مومن اکثر اوقات اپنے علم و آگاہی کو اپنے قدموں تلے روندتا ہے اور گناہوں کا ارتکاب کرتاہے ۔

اس سوال کے جواب میں ایک ہی جملہ دیا جاسکتا ہے کہ یہ سب ان خواہشات کے نتیجے میں ہوتاہے جن کا انسان کے وجود پر غلبہ ہوتاہے اور خواہشات کے غلبہ کا سر چشمہ بھی حب دنیا ہی ہے ۔ حب دنیا میں یہ سب چیزیں شامل ہیں :۔

حب مال ، حب مقام ، شہوت جنسی ، تفوّق طلبی ، تن پروری ، جذبہ انتقام اور اسی قسم کے دیگر امور جو انسان کی روح میں کبھی کبھی اس قسم کاطوفان بر پا کردیتے ہیں کہ اس کی تمام معلومات کو بر باد کردیتے ہیں ، یہاں تک کہ بعض اوقات ا س کی حس تشخیص ہی کو ختم کردیتے ہیں جس کے نتیجے میں وہ دنیاکی زندگی کو آخرت پر ترجیح دیتاہے ۔

یہ جو بعض اسلامی رویات میں بارہا حب دنیا کو تمام گناہوں کا سر چشمہ بتایا گیا ہے یہ ایک حقیقت واقعی ہے ، جسے ہم نے خود اپنی زندگی اور دوسروں کی زندگی میں بار ہا آزمایا ہے ۔ اسی بناپر گناہ کی جڑوں کو کاٹنے کے لئے اس کے علاوہ اور کوئی چارہ کار نہیں ہے کہ ہم دنیا کی محبت اور ا س کے عشق کو دل سے باہر نکال دیں

ہمیں چاہئیے کہ ہم دنیا کو ایک وسیلہ ، رہگزر ، پل اور کھیتی سمجھیں ۔ یہ ممکن نہیں ہے کہ دنیا کے عاشق ، دورا ہے پر کھڑے ہیں ، یعنی متاع دنیا کے حصول اور رضائے خد اکے حصول کا دوراہہ وہ کسی دوسری چیز کو ترجیح دیں ۔

اگر ہم اپنے جرائم کے دفتر کو دیکھیں تو مندرجہ بالاآیت کی حقیقت ہمیں اس میں اچھی طرح نظر آئے گی ، اگر ہم لڑائیوں میں ، خونریزیوں اور قتل و غارت کے اسباب و علل کو موردَِ توجہ قرار دیں تو ان سب میں حب دنیا بنائے فساد کے طور پرملے گی ۔

باقی رہا کہ حب دنیا کو کس طرح دل سے نکالا جاسکتا ہے کہ ہم سب ابنائے دنیا ہیں اور ماں سے بیٹے کی محبت ایک امر فطری ہے ۔ یہ چیز فکری تعلیم و تربیت اور تہذیب ِ نفس کی متقاضی ہے ۔ من جملہ ان امو کے جو حب دنیا کو دل سے نکالنے کے خواہشمند لوگوں کی مدد کر سکتے ہیں ، اہل دنیا کے انجام ِ کار کا مطالعہ ہے ۔

فراعنہ باجود وقوت اور مالی وسائل کے آخر کار کیا کیا ؟ قارون ان خزانوں میں سے ، جن کی چابیاں کئی طاقتور انسا ن مشکل سے اٹھاسکتے تھے ، اپنے ساتھ کیالے کر گیا؟ وہ طاقتیں جنہیں ہم اپنے زمانے میں دیکھتے ہیں ایک موج ہوا کے ذریعہ ان کی زندگی کا چراغ گل کردیاجاتاہے اور صرف ایک گردش لیل و نہار کے نتیجے میں ان کا تحت سلطنت الٹ کر رکھ دیا جاتا ہے ۔ وہ اپنے قصر دولت و ثروت کو چھوڑ کر بھاگ کھڑے ہوتے ہیں ، یا زیر خاک پنہاں ہو جاتے ہیں ۔ یہ سب چیزیں ہمارے لئے بہترین معلم کا کام دے سکتی ہیں ۔

اس وسیع و عریض گفتگو کو ہم امام زین العابدین علیہ السلام کی ایک بہت ہی معنی خیز حدیث پر ختم کرتے ہیں ۔ آنجناب سے کچھ لوگوں نے پوچھا ” خد اکے نزدیک سب سے افضل عمل کونسا ہے ؟آپ نے فرمایا:

(ما من عمل بعد معرفة الله عزل وجل ومعرفة رسول افضل من بغض الدنیا )” خدا اور اس کے رسول کی معرفت کے بعد بغض دنیا سے بہتر کوئی عمل نہیں ہے “۔ اس کے بعد آپ نے مزید فرمایا: ” محبت دنیا بہت سے شعبے ہیں ۔ سب سے پہلی چیز جس کی وجہ سے خدا کی نافرمانی ہوئی ، وہ ابلیس کی نافرمانی تھی ، جس وقت اس نے انکار کیا اور تکبر کر کے کافرین میں سے شمارہو گیا ۔

اس کے بعد حرص تھی جو آدم و حواکے ترک اولیٰ کاسبب بنی ، جس وقت کہ خدا وند متعال نے ان سے فرمایا جنت کی جس جگہ سے چاہوکھاو ، لیکن اس ممنوع درخت کے قریب نہ جانا ورنہ ظالم ہو جاو گے ۔ لیکن وہ اس چیز کی طرف گئے جس کی انہیں ضرورت نہیں تھی ، یہی چیز ان کی اولا دکے لئے قیامت تک باقی رہ گئی ، اس لئے کہ زیادہ تر چیزیں جو انسان طلب کرتا ہے اس کی ضرورت سے تعلق نہیں رکھتیں ۔ ( عام طور ضرورتیں گناہ کا سبب نہیں ہیں ۔ وہ چیزیں جو سبب گناہ ہے وہ ہوا و ہوس اور ضرورت سے زائد امور ہیں )۔

اس کے بعد حسد تھا جو آدم کے بیٹے کا سبب ِ گناہ تھا اس نے اپنے بھائی سے حسد کیا اور اس کو قتل کردیا ۔ اس کے شعبوں میں سے عورتوں کی محبت ، دنیا کی محبت(۱)

حبّ ریاست، حب راحت و آرام ، حب گفتگو و کلام ، حب بر تری اور حب دولت و ثروت ہے ۔ یہ سات صفات ہیں جو سب کی سب حب دنیا میں جمع ہیں ، اسی لئے انبیاء مر سلین اور علماء اعلام نے اس حقیقت سے آگاہی کے لئے کہا ہے کہ ”حبّ الدنیا رأس کل خطیئة ) ۔

خدا وندا! دنیا کی محبت ، جو تمام گناہوں کا سرچشمہ ہے ، اسے ہمارے دلوں سے نکال دے ۔

پروردگارا ! تو خو دہی تکامل و ارتقاء کے پر بیچ راستے میں ہمارا ہاتھ تھام کر منزل ِ مقصود تک ہماری ہدایت فرما۔

بار لہٰا ! تو آشکار و پنہاں سب سے آگاہ ہے ، ہمارے مخفی اور آشکار گناہ اپنے لطف و کرم سے بخش دے ۔

آمین یا رب العالمین

____________________

۱۔ ایسا نظر آتاہے کہ یہاں حب دنیا میں باقی رہنے کی محبت ہے ، جو سات شعبوں میں سے ایک شما رہوتی ہے اور عام طور پر طویل امیدوں میں ظاہر ہوتی ہے ۔ اصول کافی جلد ۲، باب ”حب الدنیا و الحرص علیہا “حدیث ۸۔ اصول کافی کے اس باب میں اس سلسلہ میں ۱۷ روایت نقل ہوئی ہیں ، جو بہت ہی اخلاقی اور تربیتی ہیں ۔