تفسیر نمونہ جلد ۱۵

تفسیر نمونہ 0%

تفسیر نمونہ مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن

تفسیر نمونہ

مؤلف: آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی
زمرہ جات:

مشاہدے: 59273
ڈاؤنلوڈ: 3804


تبصرے:

جلد 1 جلد 4 جلد 5 جلد 7 جلد 8 جلد 9 جلد 10 جلد 11 جلد 12 جلد 15
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 169 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 59273 / ڈاؤنلوڈ: 3804
سائز سائز سائز
تفسیر نمونہ

تفسیر نمونہ جلد 15

مؤلف:
اردو

سورہ غاشیہ

یہ سورہ مکہ میں نازل ہو اا س میں ۲۶ آیتیں ہیں

سورہ غاشیہ کی مشتملات اور اس کی فضیلت

یہ سورہ جو مکی سورتوں میں سے ہے ، زیادہ تر تین محوروں کے گردش کرتا ہے ۔

پہلا ۔معاد و قیامت کی بحث ، یا بالخصوص مجرموں کا درد ناک انجام اور مومنوں کو ملنے والا شوق انگیز ثواب ۔

دوسرا۔ توحید کی بحث جو آسمان کی خلقت ، پہاڑوں اور آسمان کی آفرینش کی طرف اشارہ اور انسان کی تین موضوعات کی طرف توجہ کے بیان سے عبارت ہے ۔

تیسرا۔ نبوت کی بحث، پیغمبر اسلام کی فرائض اور ان کی ذمہ داریوں کے بیان پرمبنی ہے ۔

یہ سورہ مجموعی طور پر مکی سورتوں کی مقاصد ہی کو موضوع گفتگوبناتا ہے جن سے ایمان و اعتقاد کو تقویت حاصل ہوتی ہے ۔

اس سورہ کی تلاوت کی فضیلت

اس سورہ کی تلاوت کی فضیلت کے سلسلہ میں ایک حدیث پیغمبر اسلام سے منقول ہے (من قرأ ها حاسبه الله حسابا ً یسیراً ) ” جو شخص اس کی تلاوت کرے گا پروردگار عالم بروز قیامت اس کا حساب آسان کردے گا۔

ایک اور حدیث امام جعفر صادق علیہ السلام سے مروی ہے ” جو شخص واجب اور مستحب نمازوں میں اس سورہ کی قرأت کی پابندی کرے گا ، خدا سے دنیا و آخرت میں اپنے سایہ رحمت میں جگہ دے گا

یقینا یہ سب ثواب اسی صورت میں انسان کو حاصل ہو گا جب اس کی تلاوت اس کے لئے فکر و عمل کا محرّک ثابت ہو۔

آیات ۱،۲،۳،۴،۵،۶،۷

( بسم الله الرحمٰن الرحیم )

۱ ۔( هل اتٰک حدیث الغاشیة ) ۔ ۲ ۔( وجوه یومئذ خاشعةٌ ) ۔ ۳ ۔( عاملة ناصبة ) ۔

۴ ۔( تصلیٰ ناراً حامیة ) ۔ ۵ ۔( تسقیٰ من عینِ اٰنیةٍ ) ۔ ۶ ۔( لیس لهم طعام الاّ مِنْ ضَرِیع ) ۔

۷ ۔( یسمنُ ولا یغنی مِن جوعٍ ) ۔

تر جمہ

رحمن و رحیم خداکے نام سے ۔

۱ ۔کیا غاشیہ( قیامت کا دن جس کے وحشت ناک حوادث سب کا احاطہ کر لیں گے )کی داستان تجھ تک پہنچی ہے ؟

۲ ۔ چہرے اس دن خاشع اورذلت بار ہوں گے ۔

۳ ۔ وہ جنہوں نے ہمیشہ عمل کیا ہے تھک چکے ہیں ( اور کوئی نتیجہ انہیں حاصل نہیں ہوا)۔

۴ ۔ دہکتی آگ میں داخل ہوں گے ۔

۵ ۔ انہیں حد سے زیادہ گرم چشمے سے پلایا جائے گا ۔

۶ ۔ ضریع (بد بو داراور تلخ خشک کاٹنے ) کے علاوہ انہیں اور کوئی کھانا نہیں ملے گا۔

۷ ۔ ایسی غذا جو نہ انہیں موٹا کرے گی اور نہ ان کی بھوک کو ختم کرے گی ۔

بد نصیب تھکے ماندے

اس سورہ کے آغاز میں ہمارا سامنا قیامت کے ایک نئے نام سے ہو اہے جو غاشیہ ہے ۔ فرماتاہے : ” کیا غاشیہ کی داستان تجھ تک پہنچی ہے “۔( هل اتٰک حدیث غاشیة ) ۔

” غاشیة “ غشاوة کے مادہ سے ڈھانپنے کے معنوں میں ہے ۔ قیامت کے لئے اس کانام انتخاب اس وجہ سے ہے کہ اس دن اولین و آخرین حسا ب کے لئے جمع ہو ں گے ۔ بعض نے یہ کہا ہے کہ مراد اس طرح کی آگ ہے جو کافروں اور مجرموں کے چہرے کو ڈھانپ لے گی ۔

پہلی تفسیر سب سے زیادہ مناسب ہے ۔ ظاہر ہے کہ اس آیت میں مخاطب خود پیغمبر کی ذات ِ اقدس ہے اور پیغمبر اسلام سے یہ جملہ استفہام کی شکل میں اس عظیم دن کی اہمیت کے پیش نظر کہا گیا ہے ۔

بعض مفسرین نے یہ احتمال بھی تجویز کیا ہے کہ ا س آیت میں مخاطب ہر انسان ہے ۔ لیکن یہ مفہوم بعید نظر آتاہے ۔ ا س کے بعد مجرموں کی حالت کو پیش کیا کرتے ہوئے فرماتاہے :

” چہرے اس دن خاشع اور ذلت بارہوں گے“۔( وجوه یومئذٍخاشعة ) ذلت عذاب اور عظیم سزا کے خوف نے اس دن ان کے تمام وجود کو گھیر رکھا ہوگا ، اور چونکہ انسان کے باطنی حالات ہر جگہ سے زیادہ اس کے چہرے سے ظاہر ہوتے ہیں ، لہٰذا خوف، ذلت اور وحشت کی طرف اشارہ کرتا ہے ، جو اس کے تمام چہرے کو ڈھانپ لیں گے ۔

بعض نے یہ بھی کہا ہے کہ یہاں ”وجوہ “سے کفر کے بڑے بڑے لوگ اور سر غنے مراد ہیں ،جو ایک گہری ذلت میں ڈوبے ہوئے ہیں ۔ لیکن پہلے معنی زیادہ مناسب نظر آتے ہیں ۔ اس وقت مزید فرماتا ہے :” یہ ایسے لوگ ہیں جو مسلسل کام کرکے تھک چکے ہیں “۔( عاملة ناصبة ) زندگانی دنیا میں بہت زیادہ کوشش کرتے ہیں ، لیکن تھکن کے علاوہ انہیں کوئی فائدہ نصیب نہیں ہوتا، نہ ان کا بار گاہ خدا میں کوئی عمل مقبول ہے اور نہ اس دولت و ثروت میں سے وہ کوئی چیز اپنے ساتھ لے جا سکتے ہیں ، جسے انہون نے جمع کر رکھا ہے ، نہ اپنے بعد وہ کوئی نیک نامی چھوڑ جاتے ہیں ، نہ کوئی اولاد صالح ، وہ محض تھک جانے والے زحمت کش ہیں ، کتنی بہترین اور عمدہ تعبیر ہے( عاملة ناصبة )

بعض مفسرین نے اس جملہ کی تفسیر میں کہا ہے کہ مراد یہ ہے کہ اس نیا میں وہ عمل کرتے ہیں لیکن اس کی خستگی و رنج و تکلیف اپنے ساتھ آخرت میں لے جاتے ہیں ۔

بعض نے کہا ہے کہ مجرموں سے دوزخ میں محنت ِشاقّہ لی جائے گی تاکہ وہ زیادہ سے زیادہ عذاب جھیلیں ۔ لیکن ان تینوں تفسیروں میں سے پہلی تفسیر زیادہ صحیح نظر آتی ہے ۔

آخر کار یہ خستہ ، تھکے ہوئے اور فضول کام کرنے والے زحمت کش بھڑکتی ہوئی آگ میں داخل ہوں گے اور اس میں جلیں گے ۔( تصلیٰ ناراً حامیةً ) ” تصلیٰ“ صلی ( بروزن نفی) کے مادہ سے آگ میں داخل ہونے اور اس میں جلنے کے معنی میں ہے (صلی بالنار ای لزمها و احترق بها ) آگ میں ہمیشہ رہا اور جلتارہا “۔

لیکن ان کا عذاب اسی پر ختم نہیں ہوگا ، جب وہ آگ کی حرارت کی وجہ سے پیا س میں مبتلا ہوں گے توحد سے زیادہ کھولتے ہوئے چشمے سے انہیں پلایا جائے گا ۔( تسقیٰ من عین اٰنیة ) ” اٰنیة“ مونث ہے اٰنی کے ( انی بروزن حلی) مادہ سے جو تاخیر میں ڈالنے کے معنی میں ہے او ر کسی چیز کے بیان کرنے کے وقت کے پہنچ جانے کے لئے بولا جاتاہے ۔ یہاں ایسے جلانے والے پانے کے معنی میں ہے جس کی حرارت اپنی انتہاکو پہنچی ہوئی ہو۔

سورہ کہف کی آیت ۲۹ میں ہم پڑھتے ہیں( و ان یستغیثوا یغاثوا بماء کلمهل یشوی الجوه بٴس الشواب وسا ء ت مرتفقاً )

اور اگر پانی مانگیں گے تو ان کے لئے ایسا پانی لائیں گے جو کسی پگھلی ہوئی دھات کی طرح ہوگا جو ان کے چہروں کو بھون دے گا ۔ وہ کتنا بر ا مشروب ہے اور وہ محل اجتماع کتنا بر اہے ۔

بات بعد والی آیت میں ان کی خوراک کے بارے میں ، جبکہ وہ بھوکے ہوں گے ، مزید فرماتاہے :” وہ ضریع کے علاوہ کوئی غذا نہیں رکھتے “۔( لیس لهم طعام الاَّ من ضریع ) یہ ضریع کیا ہے؟ اس سلسلہ میں مفسرین کے پاس مختلف تفسیر ہیں ، بعض نے کہا ہے کہ ایک قسم کا کانٹا ہے جو زمین سے چمٹ جاتاہے ، اگر وہ تر ہو تو قریس اسے شبرق کہتے تھے اور جب خشک ہوتا تو ضریع کہتے ۔ وہ ایک زہریلی گھاس ہے جسے کوئی جانور منھ نہیں لگاتا ۔(۱)

علمائے لغت میں سے خلیل کا کہنا ہے کہ ضریع بد بو دار اور سبز گھاس ہے جو دریا سے باہر آن گر تی ہے ، ابن عباس نے کہا ہے کہ یہ آتش جہنم کایک درخت ہے جو اگر دنیا میں ہوتو زمین اور جو کچھ اس میں ہے اس سب کو جلا کر فنا کردے ۔ ایک حدیث میں پیغمبر اسلام سے منقول ہے کہ ضریع دوزخ کی آگ میں ایک چیز ہے جو کانٹے کی طرح ہے ، حنظل سے زیادہ تلخ اور مردار سے زیادہ بد بو دار، آگ سے زیادہ جلانے والی ہے ۔ خدا نے ا سکانام ضریع رکھا ہے (الضریع شیء یکون فی النار یشبه الشوک اشد مرارة من الصبر و انتن من الجیفة و احر من النار سماه الله ضریعاً ) بعض نے یہ بھی کہا ہے کہ ضریع ایک ذیل غذا ہے کہ جہنمی جس سے چھٹکارہ حاصل کرنے کے لئے بارگاہ خدا میں تضرع کریں گے )۔(۲)

( ہم اس بات کو نہ بھول جائیں کہ ضرع کا مادہ ضعف ، ذلّت اور خضوع کے معنی ہے ۔(۳)

یہ تفاسیر ایک دوسرے کے ساتھ منافات نہیں رکھتی اور ہوسکتا ہے کہ اس لفظ کے معنی میں یہ سب جمع ہوں ۔ اس کے بعد مزید ارشاد ہوتاہے : نہ وہ انہیں موٹا کرتاہے نہ ان کی بھوک کو ختم کرتا ہے “۔( لایسمن و لایغنی من جوع ) ۔ یقینا اس قسم کی غذا نہ جسم کی تقویت کے لئے اور نہ بھوک کو ختم کرنے کے لئے ہے ۔ وہ ایک ایسی غذا ہے جو بجائے خود ایک عذاب ہے جیسا کہ سورہ مزمل کی آیت ۱۳ میں ہم پڑھتے ہیں :

( و طعاماً ذاعصة و عذابا الیما ) ً ) ہمارے پاس گلے میں پھندہ لگانے والی غذائیں ہیں اور وہ دردناک عذاب ہیں وہ لوگ جنہوں نے اس دنیا میں انواع و اقسام کی لذیذ، مرغن اور شیریں غذائیں دوسروں پر ظلم کرکے فراہم کی ہیں اور جنہوں نے محروم لوگوں کو ناگوار غذائیں کھانے کے علاوہ اور کسی غذا کے حاصل کرنے کا موقع نہیں دیا ، ضروری ہے کہ وہاں ان کی ایسی غذا ہو جو ان کے لئے عذاب ِ الیم بنے ۔ البتہ جیساکہ ہم نے بار ہاکہا ہے جنت کی نعمتیں اور دوزخ کی عذاب دونوں ہم جیسے اسیروں زندگی کے لئے ناقابل تشریح ہیں ۔ یہ سب اشارے ہیں جنہیں ہم سمجھنے کی کوشش کرسکتے ہیں ۔

____________________

۱۔ تفسیر قرطبی ، جلد ۱۰ ، ص۷۱۱۹۔

۲۔ تفسیر قرطبی ، جلد ۱۰ ، ص۷۱۲۰۔

۳۔ایک اور بحث دوزخیوں کی غذا کے بارے میں جسے قرآن کبھی ضریع کبھی زقول اورکبھی غسلین کے نام سے یاد کرتا ہے اور ان تعبیرات میں فرق ہے ۔ یہ سب تفسیر نمونہ کی جلد ۱۴،پر سورہ حاقہ کی آیت ۳۶ کے ذیل میں ہم پیش کرچکے ہیں

آیات ۸،۹،۱۰،۱۱،۱۲،۱۳،۱۴،۱۵،۱۶

۸ ۔( وجوه یومئذ ناعمة ) ۔ ۹ ۔( لسعیها راضیة ) ۔ ۱۰ ۔( فی جنّة عالیة ) ۔

۱۱ ۔( لایسمع فیها لاغیةً ) ۔ ۱۲ ۔( فیها عین جاریةٌ ) ۔ ۱۳ ۔( فیها سرور مرفوعةٌ ) ۔

۱۴ ۔( و اکواب موضوعةٌ ) ۔ ۱۵ ۔( ونمارقُ مصفوفةٌ ) ۔ ۱۶ ۔( و زرابیُّ مبثوثةٌ ) ۔

ترجمہ

۸ ۔ اس دن کچھ چہرے شاداب ہوں گے ۔ ۹ ۔ اس لئے کہ اپنی کوشش سے مسرور ہوں گے ۔

۱۰ ۔ جو بہشت عالی میں ہوں گے ۔ ۱۱ ۔ جس میں تو کوئی لغو اور بیہودہ بات نہیں سنے گا۔

۱۲ ۔ اس میں چشمے جاری ہیں ۔ ۱۳ ۔ اس میں خوبصورت بلند تخت ہوں گے ۔

۱۴ ۔ اور پیالے جو ان چشموں کے پاس رکھے ہوں گے۔ ۱۵ ۔ اور تکیے جو صف بستہ ہوں گے ۔

۱۶ ۔ اور بچھے ہوئے فاخرہ فرش ہوں گے ۔

بہشت کی روح پرور نعمتوں کے مناظر

اس تشریح کے بعد جو گزشتہ آیات میں دوسری دنیا میں مجرموں او ربد کاروں کی حالت اور جہنم کے عذاب کے بارے میں آئی تھی ، ان آیتوں میں نیکو کار مومنین کی حالت کی تشریح اور جنت کی بے نظیر نعمتوں کی توصیف پیش کرتا ہے تاکہ قہر کو مہر سے ملا دے اور انذار کو بشارت سے مربوط کردے ، فرماتا ہے :

” چہرے اس دن پرطراوت اورمسرور ہوں گے “( وجوه یومئذً ناعمة ) بد کاروں کے چہروں کے برعکس ، جن کی طرف گزشتہ آیات میں اشارہ ہواہے کہ وہ ذلت و اندوہ میں غرق ہوں گے ۔

”ناعمة“ نعمت کے مادہ سے یہاں ایسے چہروں کی طرف اشارہ ہے جو نعمت سے سر شار ، ترو تازہ شاداب اور مسرور و نورانی ہوں گے ، جیسا کہ سورہ مطففین کی آیت ۲۴ میں آیاہے کہ جنتیوں کی توصیف میں فرماتا ہے :( تعرف فی وجوههم نضرة النعیم ) ” ان کے چہروں میں تجھے طراوت او رنعمت کی شادابی نظر آئے گی“۔ یہ چہرے ایسے نظر آئیں گے کہ وہ اپنی سعی و کوشش سے راضی اور خوش ہوں گے( لسعیها راضیة ) دوزخیوں کے برعکس جنہوں نے اپنی سعی و کوشش سے سوائے تھکن اور رنج کے اور کچھ حاصل نہیں کیا( عاملة ناصبة ) ۔

بہشتی اپنی سعی و کو شش کو احسن وجہ سے دیکھیں گے اور مکمل طور پر راضی اور خوش ہوں گے ، ایسی سعی و کوشش جولطفِ خدا کے پر توکے سائے میں کبھی کئی گنا، کبھی دس گنا اور کبھی سات سو گنا اور کبھی اس سے بھی زیادہ بڑھ چکی ہو۔ اور کبھی اس سے بے حد و حساب وجزا حاصل کر چکے ہوں گے( انما فی الصابرون اجرهم بغیر حساب ) ( زمر۔ ۱۰) ۔

اس کے بعد اس مفہوم کی شرح پیش کرتاہے اور فرماتا ہے :”وہ بہشت عالی میں قرار پائے ہیں “( فی جنة عالیة ) لفظ ”عالیة“ ممکن ہے کہ علو ّمکانی کی طرف اشارہ ہو ، یعنی وہ جنت کے عالی طبقات میں ہیں ، یا یہ علو مکانی ہے ۔ مفسرین نے دونوں احتمال تجویز کئے ہیں ، لیکن دوسری تفسیر زیادہ مناسب نظر آتی ہے ، اگر چہ دونوں کے درمیان جمع بھی ممکن ہے ۔

اس کے بعد اس جنت کی ایک اور صفت ، جوروحانی او رمعنوی پہلو رکھتی ہے ، بیان فرماتا ہے : ” وہاں تو کوئی اور لغو اور بیہودہ بات نہیں سنے گا“( لایسمع فیها لاغیة ) (۱)

نہ ایسی بات جو نفاق کاپہلو لئے ہوئے ہو، نہ عداوت و جنگ و جدال کی ، نہ کینہ پروری اور حسد کی ، نہ جھوٹ نہ تہمت و افترا ، نہ غیبت ،نہ لغوو بے فائدہ ۔ وہ ماحول کیسا آرام دہ ہوگا جو ان فضولیات سے پاک و مبرّا ہو۔

اگر ہم ٹھیک طرح سے غور وفکر کریں تو دنیا میں وہ زندگی کا زیادہ تر حصہ اسی قسم کی باتوں کا سننا ہے جو روح و جان کے سکون اور اجمتاعی نظاموں کو درہم برہم کردیتا ہے ، فتنوں کی آگ بھڑکاتا ہے اور انہیں شعلہ ور کرتا ہے ۔

اس روحانی اور آرام و سکون بخش نعمت کے ذکر کے بعد ، جو جنتیوں کی روح و جان کو لغو و بیہودہ باتیں نہ ہونے کی وجہ سے حاصل ہے ، جنت کی مادی نعمتوں کے ایک حصہ کو پیش کرتے ہوئے فرماتا ہے : ” اس جنت میں چشمے جاری ہیں “( فیها عین جاریة ) اگر چہ عین یہاں نکرہ ہے اور عام طور پر نکرہ ایک فرد کے لئے بھی آتاہے ، لیکن قرآن کی باقی آیات کے قرینہ سے جس کے معنی رکھتا ہے اور مختلف چشموں کے معنی میں ہے ، جیسا کہ سورہ ذاریات کی آیت ۱۵ میں ہے( ان المتقین فی جنات وعیون ) پرہیز گار او رمتقی لوگ جنت کے باغات او رچشموں کے درمیان قرار پائے ہیں ۔

بعض مفسرین نے یہ بھی کہاہے جنتیوں کے محلوں میں سے ہرمحل میں ایک چشمہ جاری ہے اور عین کا مفرد ہونا یہاں اس طرف اشارہ کرتا ہے ، ایسا چشمہ جوجنت والوں کی خواہش کے مطابق جس طرف چاہیں گے اسی طرف بہے گا اور جنت والے نہر وغیرہ بنانے کے محتاج نہیں ہوں گے ۔ البتہ کئی چشموں کا ہونا خوبصورتی و زیبائی و طراوت کے اضافہ کے علاوہ یہ فائدہ بھی رکھتا ہے کہ ان میں سے ہر ایک مخصوص مشروب ہو اور جنتیوں کے ذائقہ کو انواع ق اقسام کی شراب ِ طہور سے شیریں و معطر کرتا ہو۔

ان چشموں کے تذکرہ کے بعد جنت کے تخت اور پلنگوں کو موضوع بناکر فرماتاہے :” جنت کے ان باغوں میں بلند اور اونچے تخت او رپلنگ ہوں گے “( فیها سر ر مر فوعة ) ” سر ر“ جمع ہے سریرکی ،” سرور“ کے مادہ سے ایسے تحت اور پلنگوں کے معنی میں کہ جن پر مجالس انس و سرور میں بیٹھتے ہیں ۔(۲)

ان پلنگوں کابلند ہونا اس بناء پر ہے کہ جنتی اپنے اطراف کے تمام مناظر اور صحن دیکھ سکیں اور ان کے مشاہدہ سے لذت حاصل کریں ۔ ابن عباس کہتے ہیں یہ بلند تخت اور پلنگ اس قسم کے ہیں کہ جس وقت ان کے مالک ان پر بیٹھنے کا ارادہ کریں گے تو وہ تواضع و خضوع کریں گے اور نیچے ہوجائیں گے اور بیٹھنے کے بعد اپنی پہلی حالت پر پلٹ جائیں گے ۔

یہ احتمال بھی ہے کہ ان پلنگوں کی مرفوعة کے لفظ کے ساتھ توصیف ان کے قیمتی ہونے کی طرف اشارہ ہواور، جیسا کہ بعض نے کہا ہے کہ وہ سونے کے ٹکڑوں سے بنے ہوئے ہوں گے اور دُر و یاقوت و زبرجد سے مزیّن ہوں گے ۔ دونوں تفسیروں کے مابین جمع بھی ممکن ہے ۔

چونکہ ان خوشگوار چشموں اور جنت کی شراب طہور سے فائدہ اٹھانا بر تنوں کی احتیاج رکھتا ہے ، لہٰذا بعد والی آیت میں فرماتا ہے :” خوبصورت اور جاذب نظر پیالے ان چشموں کے پاس رکھے ہوں گے “( و اکواب موضوعة ) ۔ جس وقت وہ ارادہ کریں گے تو پیالے چشموں سے پر ہو کر ان کے سامنے آجائیں گے اور وہ تازہ تازہ نوش کریں گے ایسی لذت جس کا شعور ساکنین دنیا کے لئے ممکن نہیں ہے ۔ اکواب جمع کوب ( بر وزن خوب) جو قدح ، پیالے یا اسی ظرف کے معنی میں ہے جس میں دستہ لگاہوا ہو۔

اس نکتہ کی طرف توجہ ضروری ہے کہ قرآن میں اہل جنت کی شراب طہور کے برتنوں کے بارے میں مختلف تعبیریں آئی ہیں یہاں اور بعض دوسری آیت میں اکواب کی تعبیرآئی ہے جبکہ بعض دوسری آیات میں اباریق ( ابریق کی جمع ) کی تعبیر آئی ہے ، جو ایسے ظرف کے معنی میں ہے جس کا دستہ اورٹونٹی ہو، سیال چیزوں کو انڈیل نے کی غرض سے ۔ یا پھر کأس کا لفظ آیاہے جس کے معنی شراب سے لبریز جام کے ہیں( یطوف علیهم ولدان مخلدون باکواب و اباریق و کأس من معین ) ان کے گرد ایسے جوان گردش کرتے ہوں گے جو ہمیشہ جوانی کی طراوت و تروتازگی کے حامل ہوں گے ۔ جبکہ شراب طہور سے لبریز پیالے او رجام ان کے ہاتھ میں ہوں گے اور وہ ان کے سامنے پیش کریں گے ۔ (واقعہ ۱۷ ۔ ۱۸) ۔

اس کے بعد جنت کی نعمتوں کے جزئیات کے متعلق مزید نکات پیش کرتے ہوئے اضافہ فرماتا ہے : ” وہاں پلنگوں پر تکیئے اور گاو تکیئے ہوں گے جو صف بستہ ہوں گے“( ونمارق مصفوفه ) ۔ نمارق نمرقہ ( بروزن غلغلہ) کی جمع ہے جس کے معنی چھوٹے تکیئے کے ہیں جس کا سہارا لیتے ہیں ۳

اور عام طور پر مکمل استراحت کے وقت ان سے فائدہ اٹھایا جا سکتاہے اور مصفوفہ کی تعبیر اشارہ ہے نظمِ خاص او ر تعداد کی طرف جو ان پر حاکم ہے ۔ یہ تعبیر بتاتی ہے کہ وہ مجالس ِ انس تشکیل دیں گے اور یہ مجلسیں جو ہر قسم کی لغویت او ر بیہودگی سے پاک ہوں گی۔

ان میں صرف الطاف الٰہی ، اس کی بے پایاں نعمتوں اور دنیا کے درد و رنج اور عذاب سے نجات کے بارے میں گفتگو ہوگی ، اس قدر لطف اور لذت رکھتی ہوں گی کہ کوئی چیز ان کی ہمسر نہیں ہوسکتی ۔

آخری زیر ِبحث آیت میں جنت کے قیمتی فرشوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتا ہے : ” وہاں گراں بہااور خوبصورت فرش بچھے ہوئے ہوں گے “۔( و زرابی مبثوثة ) ۔

” زرابی“ جمع ہے زریبہ کی جو ایسے قیمتی فرش کے معنی میں ہے جو نرم ، راحت بخش اور بیش قیمت ہوں گے ۔ واضح ہے کہ ان آسائش و لذت کے وسائل و ذرائع کے برابر اور بہت سے دوسرے وسائل موجود ہوں گے جبکہ یہ مشتے نمونہ ازخروارے کے مصداق ہیں ۔ ان آیتوں میں جنت کی ساتھ اہم نعمتیں بیان ہوئی ہیں جن میں سے ہر ایک دوسری سے زیادہ جاذب تر اور زیبا تر ہے ۔

خلاصہ کلا م یہ ہے کہ جنت ایک بے نظیر جگہ ہے ، جس میں کسی قسم کا لڑائی جھگڑا نہیں ہے ۔ وہاں انواع و اقسام کے رنگ برنگ کے پھل ، دل خوش کن نغمے ، آبِ جاری کے چشمے ، شراب طہور ،سائشتہ خدمتگار ، بے مثل بیویاں ، مصّع پلنگ ، قیمتی فرش اور پر خلوص دوست ہوں گے ۔ نیز عمدہ او رخوبصورت پیالے ہوں گے جو چشموں کے پاس رکھے ہوں گے ۔ مختصر یہ ایسی نعمتیں وہاں دستیاب ہوں گی جن کی نہ اس دنیا کے الفاظ کے ذریعے تشریح ممکن ہے اور نہ عالمِ خیال ہی اس کی توضیح کرسکتا ہے ۔

یہ سب چیزیں ان مومنین کی تشریف آوری کی متظر ہیں جنہوں نے اپنے اعمال صالح کے ذریعہ نعمت الہٰی کے اس مرکز میں ورود کی اجازت لے لی ہے ۔

مذکورہ بالا مادّی لذتوں کے علاوہ معنوی لذتیں بھی ہیں ۔ سب سے بڑھ کر لقا اللہ کی نعمت ہے ۔ اس معبود حقیقی کے لطف و کرم ہیں کہ اگر ایک لمحے کے لئے مل جائیں تو وہ جنت کی تمام مادہ نعمتوں کے مقابلہ میں بہتر و بر تر ہیں بقول شاعر

گرم بہ دا من و صل تو دسترس باشد دگر ز طالع خویشم چہ ملتمس باشد؟

اگر بہ ہر دو جہاں یک نفس زنم بر دوست مراز ہر دوجہاں حاصل آن نفس باشد

اگر مجھے تیرے وصل کے دامن تک دسترس حاصل ہو جائے تو پھر میں اپنے مقدر سے اور کیامانگوں ۔

اگر دونوں جہاں کے بدلے دوست کے ساتھ ایک سانس لوں تو اس دونوں جہاں کاماحصل یہی ایک سانس ہو گا ۔

____________________

۱۔ ”لاغیة“ اگر چہ اسم فاعل ہے لیکن اس قسم کے موارد میں اس چیز کے معنی ہے جو لغویت لئے ہو ۔ اسی لئے مفسرین نے اس کی ( ذاتِ لغو) لغو لئے ہوئے تفسیر کی ہے

۲۔ مفردات راغب مادہ ”سر“

۳۔ صحاح اللغة مادہ مادہ غرق ۔