تفسیر نمونہ جلد ۱۵

تفسیر نمونہ 0%

تفسیر نمونہ مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن

تفسیر نمونہ

مؤلف: آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی
زمرہ جات:

مشاہدے: 59353
ڈاؤنلوڈ: 3826


تبصرے:

جلد 1 جلد 4 جلد 5 جلد 7 جلد 8 جلد 9 جلد 10 جلد 11 جلد 12 جلد 15
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 169 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 59353 / ڈاؤنلوڈ: 3826
سائز سائز سائز
تفسیر نمونہ

تفسیر نمونہ جلد 15

مؤلف:
اردو

ـآیات ۱،۲،۳،۴،۵،۶،۷،۸،۹

( بسم الله الرحمن الرحیم )

۱ ۔( اذا الشمس کورت )

۲ ۔( و اذا النجوم انکدرت )

۳ ۔( واذا الجبال سیّرت )

۴ ۔( و اذا العشار عطّلت )

۵ ۔( و اذاالوحوش حشرت )

۶ ۔( و اذا البحار سجّرت )

۷ ۔( و اذا النفوس زوّجت )

۸ ۔( و اذا الموء دة سئلت ) ۔

۹ ۔( بِایّ ذنب قتلت ) ۔

ترجمہ

اس خدا کے نام سے جو مہر بان اور بخشنے والا ہے ۔

۱ ۔ جس وقت سورج کو لپیٹاجائے گا۔

۲ ۔ اور جس وقت ستارے بے نور ہوجائیں گے ۔

۳ ۔ جس وقت پہاڑ چلنے لگیں گے ۔

۴ ۔ جس وقت زیادہ قیمتی مال فراموش کردیا جائے گا۔

۵ ۔ جس وقت وحوش کو جمع کیاجائے گا۔

۶ ۔ جس وقت دریا جوش مارنے لگیں گے ۔

۷ ۔ جس وقت ہر شخص اپنے جیسے کا قرین قرار پائے گا ۔

۸ ۔ جس وقت زندہ در گور لڑکیوں سے سوال کیا جائے گا ۔

۹ ۔ کہ ان کو کس گناہ کی پاداش میں قتل کیا گیا ہے ؟

جس دن کائنات کے دفتر کو لپیٹ دیاجائے گا

اس سورہ کے آغاز میں جیسا کہ ہم نے کہا ہے ، مختصر، ہیجان انگیز اور دل ہلا دینے والے اشاروں کے ساتھ اس جہاں کے اختتام اور قیامت کی ابتداء کے ہولناک حوادث سے ہمارا آمنا سامنا ہے ۔

یہ حوادث ہمیں عجیب و غریب جہانوں کی سیر کراتے ہیں ، پر وردگار عالم ان نشانیوں میں سے آٹھ نشانیون کو بیان کرتاہے ۔ پہلے ارشاد فرماتاہے :

” اس وقت جب سورج کا دفتر لپیٹ دیاجائے گا “( اذاالشمس کورت ) ۔

” کورت“ ،” تکویر“ کے مادہ سے اصل میں کسی چیز کے لپیٹنے اور جمع کرنے کے معنی میں ہے ۔ ( مثلاً سر پر عمامہ لپیٹنا) یہ ایسا مفہوم ہے جو لغت و تفسیر کی بہت سی کتب سے معلوم ہو تا ہے کبھی کسی چیز کے پھینک دینے اور تاریک ہو نے کے معنی میں بھی بولا جاتا ہے ۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ دونوں معانی اسی اصلی مضمون کی طرف لوٹتے ہیں ۔

بہر حال یہاں مراد سورج کی روشنی کا بجھ جانا ہے ، اس کا تاریک ہو نا ، یعنی اس کے وجود کا ختم ہو جانا ہے ، ہمیں معلوم ہے کہ فی الحال سورج ایک کرّہ ہے ، حد سے زیادہ گرم اور جلتا ہو ا، اس قدر کے اس کا تمام مواد تہہ بہ تہہ گیس کی شکل میں نکل آیاہے اور اس کے ارد گرد جلانے والے شعلے موجود ہیں جن کی بلندی لاکھوں میٹر ہے ۔ اگر کرہ زمین ان میں سے کسی شعلے کی دمریان الجھ جائے تو ایک ہی لمحہ میں خاک ہو کر تھوڑی سی گیس میں تبدیل ہو جائے لیکن اس جہان کے آخر میں قیامت کی ابتداء پر جوحرارت ختم ہو جائے گی اور شعلے بجھ جائیں گے ، اس کی روشنی بھی ختم ہو جائے گی اور اس کے حجم میں کمی ہو جائے گی ۔

تکویر کے یہ معنی ہیں ۔ اسی لئے لسان العرب میں آیاہے :

(کورت الشمس جمع ضوء ا ولف کما تلف العمامه ) سورج کی تکویر کے یہ معنی ہیں کہ اس کی روشنی سمٹ جائے گی اور لپیٹ دی جائے گی جس طرح عمامہ کو پیٹتے ہیں ۔

یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس کی موجودہ علم بھی تائید کرتا ہے ۔ سورج کی روشنی آہستہ آہستہ تاریکی کی طرف جارہی ہے ۔ اس کے بعد مزید فرماتا ہے :

” اور جس وقت ستارے بے نور ہو کر غائب ہو جائیں گے “( و اذا النجوم انکدرت ) ۔

” انکدرت“،” انکدار“ کے مادہ سے گرنے اور پراکندہ ہونے کے معنی میں ہے اور کدورت کی اصل کے پیش نظر تیر گی اور تاریکی کے معنی میں ہے ۔ زیر بحث آیت میں ان دونوں کا جمع ہونا بھی ممکن ہے اس لئے کہ آغاز قیامت میں ستارے اپنی روشنی کھو بیٹھے گے ، منتشر ہو جائیں گے اور گر پڑیں گے اور عالم بالا کا نظام درہم بر ہم ہو جائے گا جیسا کہ سورہ انفطار کی آیت ۲ میں آیاہے :

( و اذا الکواکب انتثرت ) ” اور جب ستارے گر کر منتشر ہو جائیں گے “اور جیسا کہ سورہ مرسلات کی آیت ۸ میں آیا ہے( فالنجوم طمست ) اور جب ستارے مٹ جائیں گے اور تاریک ہو جائیں گے “قیامت کی تیسری نشانی کے سلسلہ میں فرماتا ہے :

”اور جب پہاڑ چلنے لگیں گے “اذالجبال سیرت “۔ جیسا کہ ہم نے پہلے بھی اشارہ کیا ہے کہ قرآن کی مختلف آیتوں سے ہمیں معلوم ہوتاہے کہ آغاز قیامت میں پہاڑ مختلف مراحل طے کریں گے۔

پہلا مرحلہ یہ کہ چلنے لگیں گے اور آخری مرحلہ میں غبار میں تبدیل ہو جائیں گے ۔ اس سلسلہ میں مزید تشریح اسی جلد میں سورہ نباکی آیت ۲۵ میں ملاحظہ فرمائیں )۔ اس کے بعد مزید فرماتا ہے :” جس وقت نہایت قیمتی مال فراموشی کے حوالہ ہو جائیں گے “( اذاالعشار عطلت ) ۔

” عشار“ جمع ”عشراء“کی جو در اصل حاملہ اونٹنی کے معنی میں ہے جس کے حمل کو دس ماہ گذر چکے ہوں اور وہ بچہ جننے کے قریب ہویعنی زیادہ وقت نہ گزرے گا کہ وہ ایک اور اونٹ کو جنم دے گی ۔ اور بہت زیادہ دودھ اس کے پستانوں میں ظاہرہو گا ۔

جس وقت یہ آیتیں نازل ہوئیں تو عرب میں اس قسم کے اوٹنی بہت قیمتی شمار ہو تی تھی ۔

”عطلت“ تعطیل کے مادہ سے سرپرست اور چرواہے کے بغیر چھوڑدینے کے معنی میں ہے ، مراد یہ ہے کہ اس دن ہولناکی اس قدر شدید ہو گی کہ ہر انسان اپنے نفیس ترین مال کو فراموش کردے گا ۔

مرحوم طبرسی مجمع البیان میں نقل کرتے ہیں کہ بعض مفسرین نے عشار کو بادل کے معنی میں لیا ہے اور ” عطلت‘ بارش کے معطل ہو جانے کے معنی میں ہے ۔ یعنی اس دن آسمان پر بادل تو ظاہر ہوں گے لیکن برسیں گے نہیں ۔ ( ہوسکتاہے یہ بادل مختلف گیسو ں سے ہوں ، یا ایٹمی بادل ہوں ، یا گرد و غبار کے تودے جو پہاڑوں کے ریزہ ریزہ ہو جانے سے آغاز قیامت میں ظاہر ہو ں گے )۔

لیکن طبرسی مزید کہتے ہیں کہ بعض مفسرین نے کہا ہے کہ عشار کی تفسیر بادلوں سے کرنا ایسی چیز ہے جو لغت عرب میں معروف نہیں ہے لیکن اس مطلب کی طرف توجہ سے جو ” طریحی “ نے مجمع البحرین میں نقل کیا ہے کہ ” عشار“ اصل میں حاملہ اونٹنی کے معنی میں ہے اور اس کے بعد بار بردار کو کہا گیا ہے ۔

ممکن ہے بادلوں پر بھی اس اطلاق عام طور پر پانی کا بوجھ اٹھانے کی وجہ سے ہو اگرچہ ہو بادل جو آغاز قیامت میں نمو دار ہو ں گے بار بردارنہیں ہوں گے ( غور کیجئے)

بعض مفسرین نے ”عشار“ کی تفسیر گھروں اور زرعی زمینوں سے کی ہے جو عرصہ محشرمیں بیکار ہو جائیں گے اور ساکنوں اور زراعت کرنے والوں سے محروم ہوں گی۔لیکن پہلی تفسیر سب سے زیادہ مشہور ہے ۔ بعد میں آیت میں مزید ارشاد ہوتا ہے :

” اور جس وقت وحشی جانور اکھٹے کئے جائیں گے “( و اذا الوحوش حشرت ) ۔ وہی جانور جو عام حالات میں ایک دوسرے سے ڈرتے تھے عرصہ قیامت کے حولناک حوادث کی وحشت کی شدت ایسی ہو گی کہ ان کو ایک دوسرے کے گرد جمع کردے گی اور وہ ہر چیز کو بھول جائیں گے ، گویا وہ چاہیں گے کہ اپنے اس اجتماع سے اپنے خوف و و حشت میں کمی کریں ۔

دوسرے لفظوں میں جس وقت وہ ہولناک مناظر و حشی جانوروں سے ان کے مخصوص خواص چھین لیں گے تو انسانوں سے کیا سلوک کریں گے ۔ لیکن بہت سے مفسرین کا نظر یہ ہے کہ مندرجہ بالا آیت قیامت کی عدالت میں وحشی جانوروں کو جمع ہو نے کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ وہ بھی اپنے عالم میں اور اپنی آگاہی اور شعور کے حدود میں رہتے ہو ئے جواب دہی کے پابند ہیں اور گر انہوں نے ایک دوسرے پرظلم و ستم کیا ہو گا تو وہاں ان سے بدلہ لیا جائے گا ۔

اس آیت کی سورہ انعام کی آیت ۳۸ کے ساتھ مشابہت ہے کہ جو کہتی ہے کہ:

( وما من دآبةٍ فی الارض ولا طائر یطیر بجناحیه اِلَّا امم امثالکم ما فرطنا فی الکتاب من شیء ٍ ثم الیٰ ربهم یحشرون )

کوئی زمین میں چلنے والا اور کوئی پرندہ جو پانے پروں سے پرواز کرتا ہے موجود نہیں مگریہ کہ وہ تمہاری طرح امتیں ہیں ۔ ہم نے کسی چیز کو اس کتاب میں چھوڑا نہیں ہے ، اس کے بعد تم اپنے پر ور دگار کی طرف محشور ہوگے۔

( جانوروں کے حشر و نشر اور حساب و کتاب کے سلسلہ میں تفصیلی بحث سورہ انعام کی اسی آیت کے ذیل میں جلد ۳ ص ۳۶۹ تا ۳۷۲ ہم کر چکے ہیں )۔

جو کچھ یہاں کہا جاسکتا ہے وہ یہ ہے کہ اس طرف توجہ کرتے ہوئے کہ زیرِ بحث آیات دنیا کے اختتام اور آخرت کے آغاز کی ہولناک نشانیوں کے سلسلہ میں بحث کر رہی ہیں ، لہٰذا پہلی تفسیر مناسب ہے ۔ اس کے بعد مزید فرماتاہے :۔

” جس وقت دریا و ں میں آگ لگ جائے گی “( و اذا البحار سجرت ) ۔

” سجرت“ ۔ ” تسجیر“ کے مادہ سے جلانے اور آگ کے ہیجان میں آنے کے معنی میں ہے ۔ اور اگر قرآن کی یہ تعبیر گزشتہ زمانے میں مفسیرین کے لئے عجیب و غریب تھی تو اس وقت ہمارے لئے باعث تعجب نہیں ہے اس لئے کہ ہم جانتے ہیں کہ پانی دو عناصر ، ہیڈروجن اور آکسیجن، سے مرکب ہے جو دونوں شدید طور پر قابل اشتعال ہیں ۔

بعید نہیں کہ عرصہ قیامت میں دریا اور سمندروں کاپانی اس طرح دباو اور فشار میں آجائے کہ انکا تجزیہ ہو جائے اور یہ آگ پکڑ جائیں ۔

بعض نے اس لفظ کے پر ہو نے کے معنی میں تفسیر کی ہے جیسا کہ آگ سے پر تنور کو مسجر کہا جا تا ہے ۔

ہو سکتا ہے کہ عرصہ محشر کے زلزلے اور پہاڑوں کا انتشار دریاو ں اور سمندروں کے پر ہونے کا سبب بنے یا آسمانی پتھروں کے گرنے سے وہ پر ہو جائیں اور ان کا متلاطم پانی خشکیوں کی سطح پرجاری ہو اور ہر چیز کو غرق کر دے ۔ اس کے بعد مزید فرماتاہے :

” اور جس وقت ہر شخص اپنے جیسے کا قرین ہو جائے گا( و اذا النفسوس زوّجت ) ۔ صالحین صالحین کے ساتھ، اور بد کار بدکار لوگوں کےساتھ ، اصحاب الیمین اصحاب الیمین کے ساتھ اور اصحاب الشمال اصحاب الشمال کے ساتھ ، اس دنیا کے بر عکس جہاں سب ملے جلے ہیں ، کہیں مومن کا ہمسایہ مشرک ہے اور کہیں صالح اور نیک کا ہمسایہ غیر صالح ہے ۔لیکن قیامت کے جو یوم الفصل یعنی جدائی کا دن ہے ، اس میں یہ صفتیں مکمل طور پر الگ الگ اور ایک دوسرے سے جدا ہو جائیں گی ۔

اس آیت کی تفسیر میں دوسرے احتمالات بھی پیش ہو ئے ہیں من جملہ ایک یہ ہے کہ ارواح ابدان میں پلٹ آئیں گی یا جتنی روحوں کے ساتھ جہنمی نفسوس شیاطین کے پا ہو جائیں گے یا یہ کہ ہر انسان اپنے دوست یا رفیق کے قریب ہو گا بعد میں اس کے کہ موت ان کے درمیان جدائی ڈال دے گی یا ہر انسا ن اپنے اعمال کا قرین ہو گا۔

لیکن پہلی تفسیر سب سے زیادہ مناسب نظر آتی ہے ۔ سورہ واقعہ کی آیات ۷ سے اا تک اس کی گواہ ہیں :

( وکنتم ازواجاً ثلاثة فاصحاب المینة ما اصحاب المینة و اصحاب امشئمة ما اصحاب المشئمة و السابقون السابقون اولٰئک المقربون )

اس دن تم تین گروہوں میں تقسیم ہو جاو گے۔ پہلا گروہ اصحاب مینہ کا ہے ۔ کیا کہنا اصحاب میمنہ کا ۔ دوسرا گروہ اصحاب شمال کا ہے وہ کیاہی منحوس گروہ ہے اور تیسرا گروہ سبقت کرنے والوں کاہے اور سبقت کرنے والے ہی مقربین ہیں ۔

حقیقت میں یہ آیت ایسی تبدیلیاں جو قیامت کی تمہید ہیں ، ان کے ذکرکے بعد اس عظیم دن کے ہر اول دستے کی طرف اشارہ کرتی ہے اور وہ ایسا دن ہے جس میں ہر شخص اپنے قرین کے ہمراہ ہو جائے گا ۔

اس کے بعد قیامت کے ایک حادثہ کو موضوع بناتے ہوئے مزید فرماتا ہے :

” جس وقت زندہ در گور لڑکیوں سے سوال کیا جائے گا “( و اذا المو دة سئلت ) ۔” کہ وہ کس جرم میں قتل کی گئی ہیں “( بایّ ذنبٍ قتلت ) ۔

” موء دة “ ۔ ” وأد“ ( بروزن رعد) اس کی لڑکی کے معنی میں ہے جسے زندہ دفن کر دیا گیا ہو بعض مفسرین نے کہا ہے کہ اس کے اصل معنی ثقل ، بوجھ اور سنگینی کے ہیں اور چونکہ ان لڑکیوں کو قبر میں دفن کرتے تھے اور ان پر مٹی ڈال دیتے تھے اس لئے یہ تعبیر ان کے لئے استعمال کی گئی ہے ۔

بعض روایات کے نتیجہ میں اس آیت کی تفسیر کو وسعت دی گئی ہے یہاں تک کہ ہر قسم کے قطع رحم یا مودة اہل بیت کو قطع کرنا اس میں شامل ہے ۔

ایک حدیث میں امام محمد باقر علیہ السلام سے مروی ہے کہ جس وقت اس آیت کی تفسیر کے متعلق سوال ہو ا تو آپ نے فرمایا (من قتل فی مودتنا ) اس سے مراد وہ لوگ ہیں جو ہماری محبت کی راہ میں قتل کر دیئے گئے ہیں ۔(۱)

ایک د وسری حدیث میں آیا ہے کہ اس بات کی گواہ آیت قربیٰ ہے( قل لا اسئلکم علیه اجراً الاالمودة فی القربیٰ ) ”کہہ دے میں تبلیغ نبوت کے سلسلہ میں تم سے کسی قسم کا اجر نہیں چاہتا سوائے اپنے اہل بیت کی مودة کے “ (سورہ شوریٰ ۲۳ ۔ )(۲) البتہ آیت کا ظاہری مفہوم وہی پہلی تفسیر ہے لیکن اس میں اس قسم کے مفہوم کی صلاحیت ہے ۔

____________________

۱۔تفسیر بر ہان جلد۴ ص۴۳۲، حدیث ۷ و ۱۱۔۲۔تفسیر بر ہان جلد۴ ص۴۳۲، حدیث ۷ و ۱۱۔

۱ ۔ لڑکیوں کو زندہ در گور کرنا

عربوں کے زمانہ جاہلیت کے درد ناک ترین اور نہایت وحشیانہ مظاہر میں سے ایک مظہر لڑکی کا زندہ در گور کردینا ہے جس کی طرف قرآن مجید میں بارہا اشارہ ہوا ہے ۔ اگر بعض مفسرین کا نظریہ یہ ہے کہ یہ قبیح رسم عربوں میں عام تھی۔ صرف قبیلہ کندہ یا بعض دوسرے قبائل میں تھی۔ لیکن ظاہر ہے کہ یہ اقدام کچھ عجیب نہیں سمجھا جاتا تھا ۔ ورنہ قرآن اس بارے میں اتنی تاکید کے ساتھ بار بار گفتگو نہ کرتا۔

بہر حال یہ کام اس قدر وحشت ناک تھا کہ اس کا کبھی کبھی ہو نا بھی نہایت قبیح امر ہے ۔ مفسرین نے کہا ہے کہ عربوں کے زمانہ جاہلیت میں جس وقت عورت کے وضع حمل کا وقت قریب آتا تو زمین میں ایک گڑھا کھود دیتے اور اس کے اوپر بیٹھ جاتے اگر نوزائیدہ بچہ لڑکی ہوتو اس کواس گڑھے میں پھینک دیتے اور اگر لڑکا ہوتا تو اسے زندہ رہنے دیتے ۔ اسی لئے ان کے شعراء میں سے ایک شاعر اس سلسلہ میں فخر یہ لہجہ میں کہتا ہے :

سمیتها اذا ولدت تموت و القبرصهو ضامن ذمیت

میں نے اس نو زائید لڑکی کا نام اس کی ولادت کے وقت تموت رکھا ( جس کے معنی مر جائے گی ) اور قبر میرا داماد ہے جس نے اسے اپنی بغل میں لے لیا اور اسے خاموش کردیا ۔(۱)

اس جرم کے مختلف اسباب و عوامل تھے

زمانہ جاہلیت میں عورت کا ایک انسان کے لحاظ سے بے قدر و قیمت ہونا اس شدید فقر و فاقہ کی کیفیت کا نتیجہ تھا جو اس معاشرہ میں مسلط تھا ۔ لڑکیاں نہ تو کچھ کماکر دے دسکتی تھی نہ ڈاکہ ڈالنے میں شرکت کر سکتی تھیں ۔

ایک سبب اور بھی اور وہ یہ کہ اس بات کا امکان تھاکہ مختلف جنگوں میں گرفتار ہو کر لڑکیاں قید ہو جائیں اور ان کی عزت و ناموس دوسروں کے قبضہ میں چلی جائے گی جس کے نتیجہ میں بے غیرتی کا دھبہ متعلقین کے دامن پر لگ جائے گا۔

یہ چند عوامل لڑکیوں کے زندہ در گور کرنے کا سبب بنے ، انتہائی افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ زمانہ موجود میں بھی یہ رسم کسی نہ کسی صورت میں موجو دہے ۔ اور کچھ نہیں تو اسقاط حمل کی آزادی کی صور ت میں بہت سے متمدن ممالک میں رواج پائے ہوئے ۔ اگر زمانہ جاہلیت کے عرب نو زائیدہ بچیوں کو زندہ در گور کر دیتے تھے تو ہمارے زمانہ متمدن انسان انھیں شکم مادر میں قتل کردیتے ہیں اس کی مزید تشریح جلد ۶ ص ۳۷۲ پر سورہ نحل کی آیت ۵۹ کے ذیل میں ہم لکھ چکے ہیں ۔

۲ ۔ قابل توجہ بات یہ ہے کہ قرآن مجید نے اس اقدام کو اس قدر قبیح اور قابل ِ نفرت قرار دیاہے کہ روز ِ قیامت دوسرے اعمال کی پر سش سے پہلے اس داد خواہی کا تذکرہ کیا ہے ۔ یہ چیز اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ قانون ِ اسلام کی رو سے عام انسانوں خصوصاً بے گناہ انسانوں کے خون کی بہت شدید گرفت کی گئی ہے ۔ اس سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ اسلام کی نگاہ میں عورت کی کتنی قدر و منزلت ہے ۔

۳ ۔ ایک اور نکتہ جس کی طرف یہاں توجہ ضروری ہے وہ یہ ہے کہ قرآن میں نہیں کہا کہ قاتلوں سے سوال کریں گے بلکہ کہتا ہے کہ ان معصوم بچیوں سے سوال ہو گا کہ تمہارا کیا گناہ تھا کہ اس بے رحمانہ طریقہ پر تم کو قتل کیا گیا ۔ گو یا قاتل اس قابل بھی نہیں ہیں کہ ان سے ان کے جرم کے بارے میں پر سش بھی کی جائے بلکہ تنہا ان مقتولین کی گواہی کا فی ہے ۔

____________________

۱۔ مجمع البیان ، جلد ۱۰ ، ص ۴۴۴

آیات ۱۰،۱۱،۱۲،۱۳،۱۴

۱۰ ۔( و اذا الصحف نشرت )

۱۱ ۔( و اذا السمآء کشطت )

۱۲ ۔( و اذاالجحیم سعرت )

۱۳ ۔( و اذاالجنة ازلفت )

۱۴ ۔( علمت نفسٌ مّآ احضرت )

ترجمہ

۱۰ ۔ جس وقت اعمال نامہ کھول دیئے جائیں گے ۔

۱۱ ۔اور جس وقت آسمان سے پردہ ہٹا دیا جائے گا۔

۱۲ ۔ اور جس وقت دوزخ دہک اٹھے گا ۔

۱۳ ۔ اور جس وقت جنت قریب کردی جائے گی ۔

۱۴ ۔ اس وقت ہر انسان جان لے گا کہ اس نے کیا کیا ہے ۔

اس دن معلوم ہو گاکہ ہم کتنے پانی میں ہیں ۔

اس بحث کے بعد کہ جو گذشتہ آیتوں میں قیامت کے مرحلے یعنی اس جہان کی ویرانی کے موضوع پر آئی تھی زیر بحث آیتوں میں اس کے دوسرے مرحلہ یعنی دوسرے عالم کے ظہور اورنامہ اعمال کی طرف اشارہ کر کے فرماتا ہے : ” جس روز اعمال نامہ کھول دئے جائیں گے “( و اذاالصحف نشرت ) ۔ ” صحف “ صحیفہ کی جمع ہے ۔ یہ اس چیز کے معنوں میں ہے جو صفحہ رخ کی طرح وسیع ہو ۔ اس کا اطلاق ان تختیوں اور کاغذوں پر ہوا ہے جن پر کچھ مطالب لکھتے ہیں ۔ قیامت میں اعمال ناموں کے کھلنے سے مراد یہ ہے کہ جنہوں نے وہ عمال انجام دئے ہیں ان کے سامنے اعمال ظاہر ہو جائیں گے تاکہ وہ اپنا حساب کتاب دیکھ لیں جیسا کہ سورہ اسراء کی آیت چار میں آیاہے :( اقراء کتابک کفیٰ بنفسک الیوم علیک حسیباً ) اور ان اعمال ناموں کا دوسروں کے سامنے واضح ہونا بھی نیکو کاروں کے لئے ایک تشویق کا عنوان ہے اور بد کاروں کے لئے تشویق و سزا و رنج اور تکلیف ہے۔ اس کے بعد مزید فرماتاہے :”اور جس وقت آسمان کے سامنے سے پر دہ ہٹا دیا جائے گا “۔( و اذا السماء کشطت ) ۔ ”کشطت“ ( بر وزن کشف) کے مادہ سے اصل میں ، جیسا کہ راغب مفردات میں کہتا ہے ، جانور کی کھال اتار نے کے معنی میں ہے اور ابن منظور کے بقول ” لسان العرب “ میں کسی چیز کے رخ سے پردہ ہٹا نے کے معنی میں بھی آیاہے ، لہٰذا جس وقت بادل ٹکڑے ٹکڑے ہوجائیں تو یہ تعبیر استعمال ہوتی ہے ۔

زیربحث آیت میں اس سے مرادیہ ہے کہ وہ پر دے جو اس دنیا میں عالم مادہ اور عالم بالا پر پڑے ہو ئے ہیں یعنی لوگ فرشتوں کو یادوزخ و جنت کو نہیں دیکھ سکتے ، وہ ہٹ جائیں گے اور انسان علم ہستی کے حقائق کو دیکھ سکیں گے ۔ جیساکہ بعد والی آیت میں آئے گا کہ جہنم شعلہ ور ہوگا اور جنت انسانوں کے نزدیک ہو جائے گی جی ہاں قیامت کا دن یوم البروزہے ۔ چیزوں کی ہیت اس دن آشکار ہو جائے گی اور آسمان کے چہرے سے پردہ ہٹ جائے گا ۔ اس تفسیرکے مطابق و مندرجہ بالا آیت قیامت کے دوسرے مرحلہ کے حوادث یعنی انسانوں کی حیات تازہ کے مراحل کی گفتگو کرتی ہے ۔ قبل و بعد کی آیات بھی انہی چیزوں کے حامل ہیں اور یہ بہت سے مفسرین اس آیت کو آسمانوں کے لپیٹے جانے اور قیامت کے پہلے مرحلہ یعنی اس عالم کی فنا سے متعلق سمجھا ہے ، یہ بہت بعید نظر آتاہے اور نہ یہ مفہوم قبل و بعد کی آیت کے ساتھ ہم آہنگ ہے ، اس لئے بعد والی آیات میں مزید فرماتاہے ” اور جس وقت جہنم شعلہ ور ہو گا “( و اذاالجحیم سعرت ) ۔( و ان جهنم لمحیطة بالکافرین ) ۔ ” بیشک دوزخ کافروں کا احاطہ کئے ہو ئے ہے “ ( توبہ/ ۴۹)

کے مطابق جہنم اب بھی موجود ہے لیکن اس دنیا کے حجابات اس کے مشاہدہ کی راہ میں حائل ہیں ۔ جیسا کہ بہت سی آیات قرآنی کے مطابق جنت بھی ان پر ہیز گاروں کے لئے تیار ہے ۔ اسی بناء پر بعد والی آیت میں فرماتا ہے :” اور جس وقت جنت ہیز گاروں کے نزدیک کر دی جائے گی “( و اذاالجنة ازلفت ) ۔ یہی معنی سورہ شعراء کی آیت ۹۰ میں بھی اس فرق کے ساتھ آئے ہیں کہ یہاں متقین کے نام کی تصریح نہیں ہو ئی ۔ ”ازلفت“ ۔ ” زلف“( بر وزن حرف) اور ”زلفیٰ “ ( بر وزن کبریٰ) کے مادہ سے نز دیکی کے معنوں میں ہے ہو سکتا ہے اس سے مراد قرب مکانی ہو یا قرب زمانی یا اسباب و مقدمات کے لحاظ سے یا پھر یہ سب امور ہوں یعنی جنت مکان کے لحاظ سے بھی مومنین کے نزدیک ہوجائے گی اور زمانِ ورود کے اعتبار سے بھی اور اس کے اسباب و علل بھی وہاں سہل و آسان ہوں گے ۔ قابل توجہ یہ ہے کہ یہ نہیں فرماتاکہ نیکو کار جنت کے نزدیک ہو جائیں گے بلکہ فرماتا ہے جنت کو ان کے نزدیک کردیں گے اور یہ بہت ہی محترم تعبیر ہے جو اس سلسلہ میں ممکن ہے ۔ جیسا کہ ہم نے کہا ہے جنت اور جہنم دونوں اس وقت موجود ہیں لیکن اس دن جنت زیادہ تر نزدیک اور دوزخ ہر زمانہ کی نسبت زیادہ بھڑک رہا ہوگا۔آخری زیر بحث آیت میں جو فی الحقیقت تمام گذشتہ آیتوں کی تکمیل کرتی ہے اور تمام شرطیہ جملوں کی جزا ہے جو گذشتہ بارہ آیتوں میں آئے ہیں ، فرماتا ہے :” اس وقت ہر شخص جان لے گا کہ اس نے کیا کچھ حاضر کیا ہے “( علمت نفس مااحضرت ) ۔ اور تعبیر اچھی طرح بتا تی ہے کہ انسان کے تما م اعمال وہاں حاضر ہو گے اور وہاں انسان کا علم مشاہدہ لئے ہوگا ۔ یہ حقیقت قرآن کی متعدد آیات میں آئی ہے ۔ سورہ کہف کی آیت ۴۹ میں ہم پڑھتے ہیں ( و وجدوا ما عملوا حاضراً) ” جو کچھ انہوں نے اعمال کئے ہیں وہ اسے حاضرپائیں گے “۔ اور سورہ زلزال کی آخری آیات میں آیاہے : ( فمن یعمل مثقال ذرةٍ خیراً یرہ و من یعمل مثقال ذرة شراً یرہ)جس شخص نے ذرہ برابر نیک عمل کیا ہو گا وہ اسے دیکھے گا اور جس شخص نے ذرہ برابر برائی کی ہوگی وہ اسے دیکھے گا ۔ یہ آیت بھی اعمال کی تجسیم کو بیان کرتی ہے اور یہ کہ انسانوں کے اعمال جو اس جہاں میں بظاہر نابود ہو جاتے ہیں ، وہ حقیقتاً نابود نہیں ہوتے ۔ اس دن مناسب شکلوں اور صورتوں میں مجسم ہو گے اور عرصہ محشر میں حاضر ہو گے ۔

۱ ۔نظم آیات

زیر بحث آیتوں میں اور گزشتہ آیتوں میں مسئلہ قیامت کے رابطہ سے بارہ احادیث کی طرف اشارہ ہوا ہے جن سے چھ دوسرے حوادث چھ دوسرے مرحلہ یعنی موت کے بعد کی نئی زندگی سے تعلق رکھتے ہیں ۔

پہلے حصہ میں سورج کے تاریک و سیاہ ہو جانے ، ستاروں کے بے نور ہونے ، پہاڑوں کے تزلزل اور حرکت میں آجانے ، سمندروں میں آگ لگ جانے ،اموال کو بھول جانے اور جانوروں کے وحشت زدہ ہو جانے کے بارے میں گفتگو ہے ۔

دوسرے مرحلہ میں انسانوں کے الگ الگ صفوں میں محشور ہونے ، بے گناہ زندہ در گورلڑکیوں سے سوال کئے جانے، نامہ اعمال کے کھلنے ،آسمانوں سے حجابات کے ہٹ جانے ، جہنم کی آگ کے بھڑک اٹھنے، جنت کے نزدیک ہونے اور آخر میں انسان کے اپنے اعمال سے مکمل طور پر آگاہ ہونے کی بات ہو ئی ہے ۔

یہ آیات ، باوجود اختصار، اس قدر پر معنی اور دل ہلانے دینے والی ہیں کہ ہر انسان کے وجود کو متزلزل کر دیتی ہےں اور اسے غور و فکر پر اس طرح مجبور کر دیتی ہےں کہ وہ اس دنیا کے انجام اور قیامت کی کیفیات کو مختصر عبارتو ں میں اپنی آنکھوں کے سامنے مجسم دیکھنے لگتاہے ۔ کس قدر زیبا، خوبصورت،اور اثر کرنے والی یہ آیات ِ قرآن ہیں اور کس قدر پرمعنی اور الہام بخش ان کے نکات ہیں ۔

۲ ۔کیا نظام شمسی ختم ہو جائے گا اور ستاروں کے چراغ گل ہوجائیں گے ؟

ہر چیز سے پہلے ہمیں یہ جاننا چاہئیے کہ ہمارے نظام شمسی کا یہ حیات بخش مرکز جسے ہم سورج کہتے ہیں آسمان کے باقی رہنے ستاروں کی بہ نسبت اگر چہ یہ متوسط ستارہ ہے لیکن اپنی ذات کی حد تک اور کرہ زمین کی نسبت بہت بڑا ہے ۔

ماہرین کی تحقیقق اور ان کے مطالعوں کے مطابق اس حجم کا ایک ملین اور تین کروڑ گنا زمین کے مقابلہ میں ہے البتہ یہ چو نکہ ہم سے تقریباًایک سو پچاس ملین کلو میٹر کے فاصلہ پر ہے لہٰذا وہ موجود حجم میں نظر آتاہے ۔

سورج کی عظمت و وسعت کی تصویر کشی کے لئے یہی مقدار کا فی ہے کہ اگر چاند اور زمین کو اس فاصلہ کے ساتھ جو اس وقت ان دونوں کے درمیان ہے سورج کے اندرمنتقل کردیں تو چاند آسانی کے ساتھ زمین کے گردگردش کر سکتا ہے بغیراس کے کہ وہ سورج کی سطح سے خارج ہو ۔

سورج کی سطح کی حرارت چھ ہزار سینٹی گریڈ سے زیادہ ہے اور اس کے عمق کی حرار ت کئی ملین درجوں سے زیادہ ہے ۔ اگر چہ ہم چاہیں کہ سورج کے وزن کو ٹنوں کے حساب سے بیان کریں تو ضروری ہے کہ ہم دو کا عدد لکھیں اور ستائیس صفراس کے آگے لگائیں یعنی دو ارب ارب ارب ٹن۔

سورج کی سطح سے شعلہ بلند ہوتے ہیں جنکا ارتفاع کبھی تو ایک سوساٹھ ہزار کلو میڑ ہو تا ہے اور کرہ زمین اس کے اندر آسانی سے گم ہوسکتاہے ، چونکہ زمین قطرہ بارہ ہزار کلومیٹر سے زیادہ نہیں ہے ، باقی رہا سورج کی نورانی روشنی دینے والی طاقت کا سرچشمہ، اس کے بر عکس جو بعض ماہرین نے طے کر کھا ہے ، وہ چلنے سے پید ا نہیں ہوتا ۔

جارج گاموف اپنی کتاب ” سورج کی پیدائش اور اس کی موت“ میں لکھتاہے کہ اگر سورج کا جسم خالص پتھر کے کوئلے سے بناہوتا اور مصر کے پہلے فرعون کے زمانے میں اسے آگ لگائی گئی ہوتی تو ضروری تھاکہ وہ اب تک سب جل چکا ہو تا اور خاک کے سوا کوئی چیز باقی نہ بچی ہوتی اور کسی قسم کے دوسرا جلنے والا مادہ اگر پتھر کے کوئلے کی جگہ ہم فرض کریں تووہ بھی یہی اشکال رکھتا ہے ۔

حقیقت یہ ہے کہ جلنے کا مفہوم سورج پر صادق نہیں آتا۔ اس میں جو کچھ ہے وہ ایٹمی تجربوں سے حاصل شدہ طاقت ہے ہم جانتے ہیں کہ یہ طاقت ( انرجی) بہت زیادہ اور بڑی ہے اس بناء پر سورج کے ایٹم انرجی کی تبدیلی میں مصروف ہیں جو ماہرین کے حساب کے مطابق ہر سیکنڈ میں چار ملین ٹن کم ہوجاتے ہیں مگر سورج کا حجم اتنا بڑا ہے کہ ہزار ہا سال گزرنے کے باوجود اس پر کو ئی اثر نہیں پڑتا اور اس کیفیت و وضع میں معمولی سا تغیر بھی واقع نہیں ہوتا۔

لیکن جاننا چاہئیے کہ یہی چیز ایک مدت دراز کے بعد سورج کے فنا ہو جانے کا سبب بنے گی اور آخر کار یہ جرم عظیم لاغر، کمزور، پتلا اور بے نور ہو جائے گا ۔ اور یہی چیز ستاروں پر بھی صادق آتی ہے ۔(۱)

اس بنا ء پر جو کچھ اوپر والی آیات میں سورج کے تاریک ہونے اور ستاروں کے بکھر جانے کے سلسلہ میں آیاہے وہ ایسی حقیقت ہے جو مو جودہ زمانے کے علم کے ساتھ ہم آہنگ ہے اور قرآن نے اس وقت ان حقایق کو بیان کیا ہے جب نہ صرف جزیرة العرب کے ماحول میں بلکہ اس زمانے کی علمی دنیا کی محفلوں میں بھی ان مسائل کی کوئی خبر نہیں تھی ۔

____________________

۱۔ اقتباس از کتب” پیدائش و مرگ خورشید“ و نجوم بی تلسکوب“ اور ” ساختمان خورشید