تفسیر نمونہ جلد ۱۵

تفسیر نمونہ 0%

تفسیر نمونہ مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن

تفسیر نمونہ

مؤلف: آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی
زمرہ جات:

مشاہدے: 58520
ڈاؤنلوڈ: 3593


تبصرے:

جلد 1 جلد 4 جلد 5 جلد 7 جلد 8 جلد 9 جلد 10 جلد 11 جلد 12 جلد 15
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 169 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 58520 / ڈاؤنلوڈ: 3593
سائز سائز سائز
تفسیر نمونہ

تفسیر نمونہ جلد 15

مؤلف:
اردو

آیات ۲۱،۲۲،۲۳،۲۴،۲۵،۲۶

۲۱ ۔( کلا اذا دکت الارض دکاً دکاً ) ۔ ۲۲ ۔( و جآء ربک و الملک صفاً صفاً ) ۔

۲۳ ۔( و جِایْ ٓءَ یومئذ بجهنم یومئذٍ یتذکر الانسان و انّٰی له الذکریٰ ) ۔

۲۴ ۔( یقول یٰلیتنی قدمت لحیاتی ) ۔ ۲۵ ۔( فیومئذٍ لایعذب عذابهٓ احدٌ ) ۔ ۲۶ ۔( ولا یو ثق وثاقهٓ احدٌ ) ۔

ترجمہ

۲۱ ۔ ایسانہیں ہے جیساکہ وہ خیال کرتے ہیں جس دن زمین کوٹ کوٹ کر ریزہ ریزہ ہو جائے گی ۔

۲۲ ۔ اور تیرے پروردگار ک افرمان پہنچے گا اور ملائکہ صف بہ صف ہوں گے ۔

۲۳ ۔ اور اس دن جہنم کو حاضر کریں ۔ جی ہاں ! اس دن انسان متذکرہ ہوگا، لیکن کیسا فائدہ اس لئے کہ یہ تذکراس کے لئے سود مند نہیں ہوگا ۔

۲۴ ۔ وہ کہے گا کاش اس زندگی کے لئے میں نے کوئی چیز بھیجی ہوتی ۔

۲۵ ۔ اس دن کوئی بھی اس جیسا عذاب نازل نہیں کرے گا۔ ۲۶ ۔ اور کوئی شخص اس کی طرح کسی کو قید و بند میں نہیں جکڑے گا۔

اس دن بیدار ہوں گے کہ جب پانی سر سے اونچا ہو چکا ہو گا ۔

ان مذمتوں کے بعد جو گزشتہ آیات میں سر کشی کرنے والوں ، دنیا پرستوں اور دوسروں کے حقوق پر ہاتھ صاف کرنے والوں کی ہوئی تھیں ، ان آیات میں انہیں خطرے سے آگاہ کرتا ہے کہ آخر کار قیامت آنے والی ہے اور حساب و کتاب اور جزا و سزا کا مرحلہ در پیش ہے ۔ ضروری ہے کہ آ پ خود کو اس کے لئے تیار کریں ۔ پہلے فرماتا ہے :

ایسا نہیں ہے جیسا وہ گمان کرتے ہیں ( حساب و کتاب نہیں ہے اور اگر خدا نے انہیں مال دیا ہے تو ان کے احترام و اکرام کی وجہ سے دیاہے ، نہ کہ آزمائش و امتحان کے لئے ( کلّا) ۔

جس وقت زمین کوٹ کوٹ کرریزہ ریزہ کردی جائے گی ( اذا دکت الارض دکا ً دکاً) دک اصل میں نرم و صاف زمین کے معنی میں ہے ۔ پھر اونچی جگہ اور عمارتوں کے لئے کوٹنے اور ریزہ ریزہ کرنے اور صاف کرنے پر اطلاق ہواہے ۔ ” دکان“ اس جگہ کو کہتے ہیں جو صاف اور نشیب و فراز کے بغیر ہو۔ ” دکہ“ (چبوترا ) اس اونچی جگہ کو کہتے ہیں جسے بیٹھنے کے لئے صاف اور تیار کرتے ہیں ۔ ” دک “ کی تکرار مندرجہ بالا آیت میں تاکید کے لئے ہے ۔

مجمو عی طور پر یہ تاکید دنیا کے اختتام اور قیامت کے آغاز کے زلزلوں اور جھنجوڑ دینے والے حوادث کی طرف اشارہ ہے ۔ موجودات میں اس قسم کا تزلزل رونما ہوگا کہ پہاڑ ریزہ ریزہ اور زمینیں ہموار ہو جائیں گی ، جیسا کہ سورہ طٰہٰ کی آیت ۱۰۵ سے ۱۰۷ تک آیاہے :

( و یسئلونک عن الجبال فقل ینسفها ربی نسفاً فیذرها قاعاً صفصفاً لاتریٰ فیها عوجاً ولا امتاً )

تجھ سے پہاڑوں کے بارے میں سوال کرتے ہیں ، کہہ دے میرا پر وردگار انہیں بر باد کردے گا اور اس کے بعد زمین کو صاف و ہموار اور بے آب و گیاہ کردے گا ، اس طرح کہ تو اس میں کسی طرح کا نشیب و فراز نہیں دیکھے گا۔

قیامت کے پہلے مرحلہ کے اختتام ، یعنی اس جہاں کی ویرانی کے بعد ، دوسرا مرحلہ شروع ہوگا ۔ سارے انسان زندہ ہو جائیں گے اور عدالت الہٰی میں ظاہر ہوں گے ۔ اس وقت تیرے پروردگار کا فرمان آن پہنچے گا۔ فرشتے صف در صف حاضر ہو ں گے( و جاء ربک و الملک صفاً صفاً ) ۔ محشر میں موجود لوگوں کا محاصرہ کرلیں اور فرمانِ حق کے اجراء کے لئے آمادہ ہوں گے ۔

یہ تصویر کشی اس عظیم دن کی عظمت اور عدالت کے چنگل سے انسان کے فرار کرنے کی توانائی نہ ہونے کی ہے ۔

جاء ربک ) ” تیرا پر وردگار آئے گا “ کی تعبیر اس حقیقت کا کنایہ ہے کہ مخلوقات کے حساب و کتاب کا فرمان پہنچے گا ۔ یا پھر خدا کی عظمت کی علامتوں کا ظہور مراد ہے ، یا پر وردگار کے ظہور سے مراد اس دن اس کی معرفت کا ظہور ہے ، اس طرح سے کہ کسی شخص کےلئے انکار کی گنجائش باقی نہیں رہے گی ۔ گویا سب لوگ اپنی آنکھوں سے اس کی ذاتِ بے مثال کے جمال کامشاہدہ کریں گے۔ بہر حال مسلم ہے کہ خدا کا آنا ، اس لفظ کے حقیقی معنی جن کا لازمہ جسم ہے اور کسی مکان میں منتقل ہونا ہے ، کوئی امکان نہیں رکھتے اور وہ مراد نہیں رہی اس لئے کہ خدا جسم اور خواصِ جسم سے مبراہے ۔(۱)

یہی مفہوم بڑی صراحت کے ساتھ ایک حدیث میں امام علی بن موسیٰ رضا سے منقول ہے ۔(۲)

اس تفسیر کی شاہد سورہ نحل کی آیت ۳۳ ہے جس میں فرماتا ہے :

( هل ینظرون الاَّ تأتیهم الملائکة أو یأتی امر ربک ) کیاوہ اس کے علاوہ توقع رکھتے ہیں کہ فرشتے ان کے پاس آئیں یا تیرے پر وردگار کا امر آن پہنچے ؟ صفاً صفا کی تعبیر اس طرف اشارہ ہے کہ ملائکہ محشر میں مختلف صفوں میں وارد ہوں گے ۔ احتما ل ہے کہ ہر آسمان کے فرشتے ایک الگ صف میں حاضر ہوں گے اور اہل محشر کے گرد گھیرا ڈال دیں گے اس کے بعد فرماتاہے :

” اوراس دن جہنم کو لے آئیں گے ، اس دن انسان متذکرہوگا لیکن اس کو اس کا کوئی فائدہ نہیں پہنچے گا“

( وجیء یومئذ بجهنم یومئذیتذکر الانسان و انّی له الذکریٰ ) ۔ اس تعبیر سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ جہنم جلانے کے قابل ہے اور اسے لاکر مجرموں کے قریب کردیا جائے گا، جیسا کہ جنت کے بارے میں بھی سورہ شعراء کی آیت ۹۰ میں ہم پڑھتے ہیں ( و ازلفت الجنة للمتقین) جنت پرہیزگاروں کے نزدیک کردی جائے گی ۔

اگر مفسرین مائل ہیں کہ ان الفاظ کو مجازی معنوں پر محمول کریں اور جنت و جہنم کے نیکو کاروں اور بد کاروں کے سامنے ظہور کا کنایہ سمجھیں ، لیکن اس خلاف ظاہر کے لئے ہمارے پاس کوئی دیل نہیں ہے ۔ بلکہ بہتر ہے کہ انہیں اس کے ظاہر پر چھوڑ دیا جائے، اس لئے کہ عرصہ محشر کی حقیقتیں ہم پرمکمل طور پر واضح نہیں ہیں اوروہاں کے حالات ہماری دنیا کے حالات سے بہت مختلف ہیں ۔ پھر اس کا کوئی مانع نہیں ہے کہ اس روز دوزخ و جنت کو اسن کی جگہ سے ہٹائیں گے ۔

ایک حدیث میں پیغمبر اسلام سے ہمیں ملتا ہے کہ جس وقت مندرجہ بالا آیت( وجیء یومئذ بجهنم ) نازل ہوئی تو آپ کے چہرہ مبارک کا رنگ متغیر ہوگیا ۔ یہ حالت اصحاب پر گراں گزری ۔ وہ حضرت علی علیہ السلام کے پاس آئے اور ماجرا بیان کیا۔ حضرت علی علیہ السلام آئے اور پیغمبر اسلام کے دونوں شانوں کے دمیان بوسہ دیا اور کہا:

” اے خدا کے رسول ! میرے ماں باپ آپ پر قربان ہو جائیں ۔ کیا حادثہ رونما ہواہے “؟

آپ نے فرمایا!” جبرائیل آئے تھے اور یہ آیت تلاوت کی ہے “۔

حضرت علی علیہ السلام کہتے ہیں :” میں نے عرض کیا کس طرح جہنم کو لے آئیں گے “؟

فرمایا: ” ستر ہزار فرشتے ستر ہزار مہاروں کے ذریعہ اسے کھینچ کر لائیں گے او روہ سر کشی کی حالت میں ہوگی ۔ اگر اس کو چھوڑ دیں تو وہ سب کو آگ لگادے گی ، پھر میں جہنم کے سامنے کھڑا ہو جاو ں گا اور وہ کہے گی : اے محمد مجھے آپ سے کو ئی سر و کار نہیں ہے ۔ خدا نے آپ کا جسم مجھ پر حرام کیا ہے “۔

اس دن ہر شخص اپنی فکر میں ہوگا لیکن جناب سید المرسلین کہیں گے :”رب امتی رب امتی “( پروردگار میری امت ، میری امت، )۔(۳)

جی ہاں ! جب مجرم انسان ان مناظر کو کو دیکھے گا تو ہل جائے گا اور غم و اندوہ میں ڈوب جائے گا ، اپنے ماضی پر نگاہ ڈالے گا اور اپنے اعمال سے سخت پشیمان ہوگا ،لیکن یہ پشیمانی اس کو کوئی فائدہ نہ دے گی ، انسان آرزو کرے گا کہ واپس پلٹ جائے اور اپنے تاریک ماضی کی تلافی کرے ، لیکن واپسی کے در وازے بالکل بند ہوں گے وہ چاہے گا کہ توبہ کرے لیکن توبہ کا زمانہ ختم ہو گیا ہوگا وہ چاہے گا کہ اعمال صالح بجالائے تاکہ اپنے برے اعمال کی تلافی کر سکے ، لیکن اعمال کا دفتر بند ہو چکا ہو گا ، یہ وہ مقام ہے جہاں اس کی فریاد بلند ہو گی او روہ کہے گا :” اے کاش ! میں نے اپنی زندگی کے لئے اعمال ِ صالح بھیجے ہوتے “( یقول یا لیتنی قدمت لحیاتی ) ۔

قابل توجہ یہ ہے کہ یہ نہیں کہے گا کہ اپنی آخرت کی زندگی کے لئے ، بلکہ کہے گا اپنی زندگی کے لئے ، گو یازندگی کا لفظ آخرت کی زندگی کے علاوہ کسی اور زندگی کے لئے موزوں نہیں ہے ، اور جلدی گزرنے والی ، انواع و اقسام کے مصائب کی آمیزش رکھنے والی دنیا وی زندگی شمار ہی نہیں ہوتی ۔ جیسا کہ سورہ عنکبوت کی آیت ۶۴ میں ہم پڑھتے ہیں( وما هٰذا الحیوة الدنیا لهو لعب و انّ الدار الاٰخرة لهی الحیوان لوکانوا یعلمون ) ” یہ دنیا کی زندگی کھیل کود اور لہو لعب کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے اور حقیقی زندگی آخرت کی زندگی ہے اگر تم جانتے ہو“۔

جی ہاں ! وہ لوگ جنہوں نے یتیموں کامال کھایا ، بھوکوں کے منہ لقمہ نہیں دیا ، ان کا مال و میراث غارت کیا اور مال ِ دنیا کی محبت نے ان کے دل کو مسخر کر رکھا تھا، وہ اس دن آرزو کریں گے کہ کاش کو ئی چیز آخرت کی زندگی کے لئے ، جو حقیقی اور جاودان زندگی ہے ، ہم نے آگے بھیجی ہوئی ، لیکن یہ آرزو بے نتیجہ ہو گی ۔

اس کے بعد دو مختصر جملوں میں ا س دن کے عذاب کے شدت کی تشریح کرتے ہوئے فرماتاہے : ” اس دن خدا اس قسم کی سزا دے گا کہ اس جیسی سزا کوئی بھی نہیں دے سکے گا “( فیو مئذٍ لایعذب عذابه احد ) ۔

جی ہاں ! یہ سرکش جو اپنی قوت کے وقت بد ترین جرائم اور گناہوں کے مرتکب ہوئے ہیں ، اس دن ان کو اس قسم کی سزا ملے گی جو اس سے پہلے کسی کو نہیں ملی ہوگی ، جیسا کہ نیکو کار اس قسم کی جز ا پائیں گے جو کسی کے خیال و گمان میں بھی نہیں گزری ہوگی ، اس لئے کہ خدا ارحم الراحمین بھی ہے اور اشد العاقبین بھی ۔ نیز اس دن کوئی بھی خدا کی طرح کسی کو قیدو بند کی سزا نہیں دے گا ۔

( ولا یوثق وثاقه احد ) ۔نہ اس کی قید بند و زنجیر کی کوئی مثال ہے ، نہ اس کے عذاب کی کو ئی مثل و نظیر ہے ۔ ایسا کیوں نہ ہو جبکہ انہوں نے اس دنیا میں خدا کے مظلوم بندوں کو جتنا ان سے ممکن تھا قید و بند میں رکھا اور ان کو سخت تکالیف پہچائیں ۔

____________________

۱۔ فخر رازی اپنی تفسیر میں کہتا ہے کہ آیت میں کچھ محذوف ہو سکتا ہے کہ لفظ امر یا قہر جلائل آیات یا ظہور معرفت ہو۔ دوسرے مفسرین نے بھی ان چار الفاظ میں سے خصوصاً پہلے لفظ کو تقدیر آیت کے عنوان سے بیان کیا ہے ۔

۲۔ تفسیر المیزان ، جلد ۲۰ ص ۴۱۶۔

۳۔مجمع البیان ، جلد، ۱۰ ،ص ۴۸۳۔ ان معنی کے قریب نیز تفسیر در المنثور میں آیا ہے ، المیزان کی نقل کے مطابق جلد،۲۰، ص ۴۱۵۔

آیات ۲۷،۲۸،۲۹،۳۰

۲۷ ۔( یا ایتها النفس المطمئنة ) ۔ ۲۸ ۔( ارجعیٓ اِلیٰ ربک راضیةً مرضیةً ) ۔

۲۹ ۔( فادخلی فی عبادی ) ۔ ۳۰ ۔( و ادخُلی جنّتی ) ۔

تر جمہ

۲۷ ۔ تو اے سکون و اطمینان یافتہ نفس ۔

۲۸ ۔ اپنے پروردگار کی طرف پلٹ جا ، اس حالت میں کہ تو بھی اس سے راضی ہے اور وہ بھی تجھ سے راضی ہے ۔

۲۹ ۔ اور میرے بندوں کی صف میں داخل ہو جا ۔ ۳۰ ۔ اور میری جنت میں واردہو جا ۔

اے صاحب نفس مطمئنہ!

اس وحشتناک عذاب کے تذکرے کے بعد جو سر کشوں اور دنیا پرستوں پر قیامت میں نازل ہوگا ، زیر بحث آیات میں ا سکے بر عکس ، جو صورتِ حال ہے اس کو پیش کرتاہے ، اب نفس مطمئنہ اور ان مومنین کی طرف جو ان عظیم طوفانوں میں مکمل سکون و اطمینا ن سے بہرہ وررہے ، متوجہ انہیں نہایت لطف و محبت سے مخاطب کرتے ہوئے فرماتاہے :

” اے نفس مطمئنہ!“( یا ایها النفس المطمئنة ) ۔ اپنے پروردگارکی طرف پلٹ آ، اس حالت میں کہ تو اس سے راضی ہے اور وہ تجھ سے راضی ہے“۔( ارجعی الیٰ ربک راضیة مرضیة ) ۔” اور میرے بندوں کی صف میں داخل ہوجا “۔( فادخلی فی عبادی ) ۔ ” اور میری جنت میں داخل ہوجا “۔( وادخلی جنتی ) ۔ کیاہی پرکشش، دل خوش کن اور روح پرور تعبیر یں ہیں ، جن سے لطف وصفا اور اطمینان کی خوشبو آتی ہے ۔

پروردگار کی دعوت مستقیم ایسے نفوس کے لئے ، جو ایمان کے سائے میں اطمینان و سکون کی حالت میں پہنچے ہوئے ہیں ، انہیں اپنے پروردگار ، اپنے مالک ومربی اور مصلح کی طر ف باز گشت کی دعوت دیتا ہے ، ایسی دعوت جو طرفین کی رضا مندی لئے ہوئے ، دلدادہ عاشق کی رضامندی معشوق کے لئے اور محبوب ومعبودحقیقی کی رضامندی ۔ اس کے بعد افتخارِ عبودیت کا تاج ا س کے سر پر رکھنا اور لباس زندگی سے اسے مفتخر کرنا اور اپنے خاصانِ بارگاہ کی مسلک میں انہیں پرونا اور جگہ دینا ۔

اس کے بعد انہیں جنت میں ورود کی دعوت دینا اور وہ بھی ” میری جنت میں داخل ہو جا“ کی تعبیر کے ساتھ جو بتاتی ہے کہ اس مہمان کامیز بان صرف اور صرف خدا کی ذات پاک ہے ۔ عجیب دعوت ، عجیب مہمان اور عجیب میزبانی ہے ۔

نف سے مراد وہی انسان ہے اور مطمئنہ کی تعبیر اس سکون و اطمینان کی طرف اشارہ ہے جو ایمان کے پر تو کے سائے میں پیدا ہوا ہے ، جیسا کہ قرآن کہتا ہے :( الابذکر الله تطمئن القلوب ) ” جان لو کہ صرف اللہ کے ذکر ہی سے دلوں کو سکون و اطمینان حاصل ہوتا ہے “۔ ( رعد۔ ۲۸) اس قسم کا نفس اللہ کے وعدوں پر بھی اطمینان رکھتا ہے اور جو راہ اس نے اختیار کی ہے اس پر بھی مطمئن ہوتا ہے ۔ دنیا اس کی طرف بڑھے ، تب بھی اور اس سے منہ موڑے تب بھی ، طوفان میں بھی اور حوادث و بلا میں بھی ،اور سب سے بالاتر خوف و وحشت اور قیامت کے عظیم اضطراب میں بھی۔

پروردگار کی طرف باز گشت سے مراد ، مفسرین کی ایک جماعت کے نظریہ کے مطابق ، ا سکے ثواب و رحمت کی طرف باز گشت ہے ، یعنی اس کے جوار قرب میں جگہ پانا، معنوی و روحانی باز گشت پاناکہ مادی و جسمانی ۔

کیا پروردگا رکی طرف یہ باز گشت صرف قیامت میں ہوگی یا جان دینے والے عمر کے لمحات کے ختم ہونے سے متعلق ہے ؟ آیا ت کا سیاق تو البتہ قیامت

سے مربوط ہے ، اگر چہ اس آیت کی تعبیر مطلق و وسیع ہے ، راضیہ کی تعبیر اس بناء پر ہے کہ ثواب ِ خدا وندی کے تمام وعدوں کو ، اس سے زیادہ کہ جتنا وہ تصور کرسکتا تھا ، وہ حقیقی طور پر دیکھے گا اور اس طرح خدا کا فضل و کرم اس کے شامل حال ہوگا کہ وہ جسم رضا بن جائے گا ۔ باقی رہا مرضیہ کی تعبیر تو وہ اس بناپر ہے کہ وہ مورد ِ قبول و رضائے دوست واقع ہوا ہے ۔

اس قسم کا بندہ اس طرح کے اوصاف کے ساتھ اور مکمل رضا و تسلیم کے مقام پرپہنچنے کے ساتھ ، جس نے عبودیت کی اس حقیقت کو جو معبود کی راہ میں ہر چیز کو چھوڑ دینا ہے ، پالیا ہے اور اس نے خدا کے بندگان ِ خاص کے دائرہ میں قدم رکھا ہے ۔ یقینا ا س کے لئے جنت کے علاوہ کوئی دوسری جگہ نہیں ہے ۔

بعض تفاسیر میں آیاہے کہ یہ آیتیں سید الشہداء حضرت حمزہ کے بارے میں نازل ہوئی ہیں ، لیکن اس طرف توجہ کرتے ہوئے کہ یہ سورہ مکی ہے ، یہ حقیقت میں ایک قسم کی تطبیق ہے ، نہ کہ شانِ نزول ، جیسا کہ امام حسین کے بارے میں بھی ہم نے سورہ کے آغاز میں پڑھا ہے ۔ قابل توجہ یہ کہ کافی میں امام جعفر صادق علیہ السلام سے منقول ایک روایت میں ہمیں ملتاہے کہ آپ کے ایک صحابی نے پوچھا کہ کیا یہ ممکن ہے کہ ایک مومن اپنی روح کے قبض ہوجانے سے خوش نہ ہو ؟ تو آپ نے فرمایا: ” نہیں خدا کی قسم ! جب موت کا فرشتہ اس کی روح قبض کرنے کے لئے آتاہے تو ناخوشی و ناراضی کا اظہار کرتا ہے ۔ اس وقت موت کا فرشتہ اس سے کہتا ہے ” اے ولی خدا ! پریشان نہ ہو قسم ہے اس ذات کی جس نے محمد کو مبعوث کیا ہے ، میں تجھ پرمہر بان باپ سے زیادہ شفیق ہوں ٹھیک طرح سے اپنی آنکھیں کھول کر دیکھ لے “ وہ دیکھے گا رسول خدا ، امیر المومنین حضرت فاطمہ زہر حسن و حسین اور باقی ائمہ تیرے دوست و محبوب ہیں “ وہ اپنی آنکھوں کو کھولے گا اور دیکھے گا ۔ اچانک ایک کہنے والا پروردگار کی طرف سے کہے گا ”( یا ایتها النفس المطمئنة ) “ اے وہ شخص جو حضرت اور ان کے اہلبیت پر ایمان رکھتا ہے ، پلٹ آ، اپنے پروردگار کی جانب، اس حالت میں کہ تو ان کی ولایت پر راضی ہے اور و ہ اپنے ثواب پر تجھ سے راضی ہیں ۔ داخل ہوجا میرے بندوں یعنی محمد اور ان کے اہلبیت کے درمیان اور داخل ہو جامیری جنت میں تو اس موقع پر اس مومن کے لئے کوئی اور چیز زیادہ محبوب نہیں ہوگی ۔

وہ چاہے گا کہ جس قدر جلد ہو روح بدن سے رہا ہو اور اس منادی کے ساتھ مل جائے “۔(۱)

خدا وند! ہمیں اس قسم کے اطمینان و سکون سے مفتخر فرماتاکہ ہم اس عظیم خطاب کے لائق و شائستہ بنیں ۔

پروردگارا ! اس مقام تک پہنچنا تیرے لطف و کرم کے بغیر ممکن نہیں ہے ہمیں اپنے لطف و کرم سے نواز ۔

خدا وندا ! یقینا کوئی چیز تیرے کرم سے کم نہیں ہوگی ، اگر ہمیں صاحبان ِ نفوس ِ مطمئنہ میں سے قرار دے ہم پر احسان و کرم فرما۔

بار الہٰا! ہم جانتے ہیں کہ یہ سکون و اطمنان تیرے ذکر کے سائے کے بغیر ممکن نہیں ہے ۔ تو ہمیں اپنے ذکر کی خود توفیق عطا فرما۔

آمین یا رب العالمین

____________________

۱۔ کافی جلد ۳، بابان المو من لایکره علی قبض روحه ۔ حدیث ۲۔