تفسیر نمونہ جلد ۱۵

تفسیر نمونہ 0%

تفسیر نمونہ مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن

تفسیر نمونہ

مؤلف: آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی
زمرہ جات:

مشاہدے: 59350
ڈاؤنلوڈ: 3824


تبصرے:

جلد 1 جلد 4 جلد 5 جلد 7 جلد 8 جلد 9 جلد 10 جلد 11 جلد 12 جلد 15
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 169 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 59350 / ڈاؤنلوڈ: 3824
سائز سائز سائز
تفسیر نمونہ

تفسیر نمونہ جلد 15

مؤلف:
اردو

سورہ بلد

یہ سورہ مکہ میں نازل ہوا ۔ اس کی بیس آیات ہیں ۔

سورہ بلد کی فضیلت اور اس کا مضمون

یہ سورہ مختصر ہونے کے باجود عظیم حقائق اپنے اندر لئے ہوئے ہے :

۱ ۔ اس سورہ کے پہلے حصہ میں پر معنی قسموں کے ذکر کے بعد اس حقیقت کی طرف اشارہ ہوا ہے کہ انسان کی زندگی اس عالم میں مشکلات اور تکلیفوں کے ساتھ توأم ہوتی ہے ، تاکہ وہ ایک طرف تو اپنے آپ کو مشکلات سے جنگ کرنے کے لئے آمادہ کرے اور دوسری طرف اس دنیا میں راحت و آرام اور مطلق آسودگی توقع اپنے ذہن سے نکال دے ، کیو نکہ مطلق آسودگی و راحت تو صرف آخرت کی زندگی میں ہی ممکن ہے ۔

۲ ۔ یہ سورہ دوسرے حصہ میں انسان پر اللہ کی کچھ نعمتوں کو شمار کرتا ہے ، اور اس کے بعد ان نعمتوں کے مقابلہ میں اس کی ناشکری اور کفران نعمت کی طرف اشارہ ہے ۔

۳ ۔ اس سورہ کے آخری حصہ میں لوگوں کو دوگروہوں ” اصحاب میمنہ “ اور ” اصحاب مشئمہ “ میں تقسیم کرتا ہے ، اور پہلے گروہ ( صالح مومنین ) کے صفات ِ اعمال کے ایک گوشہ کو اور پھر ان کی سر زنش کو بیان کرتا ہے ۔ اس کے بعد ان کے نقطہ مقابل یعنی کفار و مجرمین اور ان کی سر نوشت کو پیش کرتا ہے ۔

اس سور ہ کی آیات کی تعبیریں بہت ہی قاطع اور دو ٹوک اورچھبھنے والی ہیں ، اس کی جملہ بندیامختصر اور زوردار ہیں الفاظ بہت ہی موثر اور انتہائی فصیح ہیں ، آیات کی صورت اور اس کا مضمون اس بات کی نشان دہی کرتا ہے کہ یہ سورہ مکی سورتوں میں سے ہے ۔

سورہ بلد کی فضیلت

اس سورہ کی تلاوت کی فضیلت میں پیغمبر اکرام صلی اللہ علیہ آلہ و سلم سے نقل ہواہے کہ آپ نے فرمایا:

من قرأ ها اعطاه الله الامن من غضبه یوم القیامة “۔

” جو شخص سورہ بلد کو پڑھے گا خدا اسے قیامت میں اپنے غضب سے امان میں رکھے گا۔ (” مجمع البیان “جلد ۱۰ ، ص ۴۹۰ ۔)

نیز ایک حدیث میں امام جعفر صادق علیہ السلام سے مروی ہے کہ :

” جو شخص نمازِ واجب میں سورہ( لااقسم بهٰذا البلد ) کو پڑھے گا وہ دنیا میں صالحین میں شما رہو گا اور آخرت میں ایسے لوگوں میں سے پہچاناجائے گا جو بار گاہ خدا میں مقام و منزلت رکھتے ہیں ، اور وہ انبیاء ، شہداء اور صلحاء کے دوستوں میں سے ہو گا ۔ ( ” ثواب الاعمال “ مطابق نو ر الثقلین جلد ۵ ص ۵۷۸)

آیات ۱،۲،۳،۴،۵،۶،۷

( بسم الله الرحمن الرحیم )

۱ ۔( لآ اقسم بهٰذا البلد ) ۔ ۲ ۔( و انت حل ) بھٰذا البلد ۔ ۳ ۔( و والدٍ وما ولد ) ۔

۴ ۔( لقد خلقنا الانسان فی کبد ) ۔ ۵ ۔( أ یحسب ان لن یقدر علیه احد ) ۔ ۶ ۔( یقول اهلکتُ مالاً لبداً ) ۔

۷ ۔( ایحسب ان لم یرهُ احد ) ۔

ترجمہ

شروع اللہ کے نام سے جو رحمن و رحیم ہے

۱ ۔ قسم ہے اس شہر مقدس ( مکہ ) کی ۔ ۲ ۔ اور قسم ہے جس میں تو ساکن ہے !

۳ ۔ اور قسم ہے باپ اور اس کے بیٹے کی ( ابراہیم خلیل و اسمٰعیل ذبیح)۔

۴ ۔ کہ ہم نے انسان کو تکلیف میں پیدا کیا ہے ۔ ( اور اس کی زندگی رنج و الم سے پر ہے )۔

۵ ۔ کیا وہ یہ گمان کرتا ہے کہ اس پرکوئی بھی قدرت نہیں رکھتا؟ !

۶ ۔ وہ یہ کہتا ہے کہ میں نے بہت سا مال ( اچھے کاموں میں ) تلف کردیا ہے !

۷ ۔ کیاوہ گمان کرتا ہے کہ اسے کسی نے نہیں دیکھا ۔ ( اور نہ ہی دیکھتا ہے )؟

اس شہر ِ مقدس کی قسم

بہت سے مورد میں قرآن کا طریقہ یہ ہے کہ وہ بہت زیادہ اہم حقائق کو قسم کے ساتھ شروع کرتا ہے ، ایسی قسمیں جو خود بھی انسانی عقل اور فکر و نظر کے تحرک کا سبب ہوتی ہیں ، ایسی قسمیں اس مورد نظر مطلب کے ساتھ ایک خاص رابطہ رکھتی ہیں ۔

یہاں بھی اس حقیقت کو بیان کرنے کےلئے کہ دنیا میں انسان کی زندگی دکھ ، درد اور رنج و الم کےساتھ توأم ہے ایک نئی قسم سے قسم کرتا ہے اور فرماتا ہے :

”قسم ہے اس شہر مقدس مکہ کی “( لااقسم بهٰذا البلد ) (۱)

۱ ۔( یہاں ” لا “ زائدہ ہے ، جو تاکید کے لئے آیا ہے ۔ البتہ ایک دوسری تفسیر کے مطابق احتمال ہے کہ ” لا“ نافیہ ہو ( اس سلسلہ میں مزید وضاحت سورہ قیامت کی ابتداء میں دی گئی ہے )۔

” وہ شہر کہ جس میں تو ساکن ہے “( و انت حل بهٰذا البلد ) ۔

اگر چہ ان آیات میں مکہ کا نام صراحت کے ساتھ نہیں آیا ، لیکن ایک طرف تو اس سورہ کے مکہ ہونے کی طرف توجہ کرتے ہوئے اور دوسری طرف اس مقدس شہر کی حد سے زیادہ اہمیت کی بناپر یہ بات واضح ہے کہ اس سے مراد مکہ ہی ہے ۔ اور مفسرین کا اجماع بھی اسی پر ہے ۔

یقینا سر زمین مکہ کی شرافت اور عظمت اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ خدا کی قسم کھائے ، کیونکہ توحید اور پر وردگار کی عبادت کا پہلا مرکز یہیں بنایا گیا تھا ، اور عظیم پیغمبروں نے اس گھر کے گرد طواف کیاہے ۔ لیکن ” و انت حل بھٰذا البلد“کاجملہ ایک نئے مطلب کو اپنے اندر لئے ہوئے ہے ، جو یہ کہتا ہے کہ یہ شہر تیرے وجود کے فیض و بر کت سے اس قسم کی عظمت کا حامل ہو گیا ہے کہ وہ اس قسم کے لائق ہو گیا ہے ۔

اور حقیقت بھی یہی ہے کہ سر زمینون کی قدرو قیمت ان میں مقیم انسانوں کی قدر و قیمت کی وجہ سے ہوا کرتی ہے ۔ کہیں ایسانہ ہو کہ کفار یہ تصور کرنے لگیں کہ قرآن نے جو اس سر زمین کی قسم کھائی ہے تو وہ ان کا وطن ہونے ، یا ان کے بتوں کا مرکز ہونے کی وجہ سے اس کی اہمیت کا قائل ہوگیا ۔ ایسا نہیں ہے بلکہ اس شہر کی قدر و قیمت ( اس کے مخصوص تاریخی حالات سے قطع نظر ) خدا کے خاص بندے محمد صلی اللہ علیہ آلہ وسلم کے وجودِ ذی جود کی بناء پر ہے :

اے کعبہ راز یمن قدوم تو شرف دی مردہ رازِ مقدم پاکِ تو صد صفا

بطحا ز نورِ طلعت تو یافتہ فروغ یثرب زخاک پائے تو با رونق و نوا

اے وہ کہ تیرے قدوم میمنت لزوم سے کعبہ کا شرف دوگنا ہوگیا ہے ۔

اور تیرے پاک قدم کے آنے سے مروہ کو صفائی حاصل ہو گئی ہے ۔

بطحا نے تیرے نور کی چمک سے روشنی حاصل کی ہے ۔

اور یثرب تیرے پاو ں کی خاک کی وجہ سے بارونق اور خوشحال ہو گیا ہے ۔

یہاں ایک اور تفسیر بھی ہے اور وہ یہ ہے کہ :” میں اس شہر مقدس کی قسم کھاتا ، جب کہ انہوں نے تیرے احترام کی ہتک کی ہے ، اور تیری جان و مال اور عزت و آبرو کو حلال اور مباح شمار کر لیا ہے “۔

اور یہ کفار قریش کے لئے ایک شدید سر زنش اور توبیخ ہے کیونکہ وہ خود کو حرم مکہ کے خادم اور محافظ سمجھتے تھے اور وہ اس سر زمین کے احترام کے اس قدر قائل تھے کہ اگر ان کے باپ کا قاتل بھی اس میں آجاتا تو وہ بھی امان میں ہوتا تھا ۔یہاں تک کہ کہتا کہ جو لوگ مکہ کے درختوں کا چھلکا بھی لے کر اپنے بدن پر باند ھ لیتے تھے تو وہ بھی اس کی وجہ سے امان میں ہوتے تھے ، لیکن اس کے باوجود انہوں نے پیغمبراکرم صلی اللہ علیہ آلہ وسلم کے بارے میں ان تمام ا ٓداب و سنن کو پاو ں تلے کیوں روند ڈالا؟!

اور آپ اور آپ کے اصحاب کے بارے میں ہر قسم کے آزار و اذیت کو جائز کیوں سمجھ لیا یہاں تک کہ ان کے خون کو بھی مباح سمجھنے لگے؟!

یہ تفسیر ایک حدیث میں امام صادق علیہ السلام سے بھی نقل ہوئی ہے ۔ ( ”مجمع البیان “ جلد ۱۰ ، ص ۴۹۳)

اس کے بعد مزید کہتا ہے :” قسم ہے باپ اور اس کے بیٹے کی ۔( ووالد وما ولد ) ۔

اس کے بارے میں کہ اس باپ اور بیٹے سے کون مراد ہے َ کئی تفاسیر بیان کی گئی ہیں ۔

پہلی تفسیر یہ کہ ” والد“ سے مراد ” ابراہیم “ اور ولد“ سے مراد اسماعیل ذبیح “ ہیں اور اس بات کی طرف توجہ کرتے ہوئے کہ گزشتہ آیت میں شہر مکہ کی قسم کھائی گئی ہے اور ہم جانتے ہیں کہ کعبہ اور شہر مکہ کی بنیاد رکھنے والے ابراہیم علیہ السلام اور ان کے فرزند اسماعیل علیہ السلام تھے ، یہ تفسیر بہت ہی مناسب نظر آتی ہے ، خصوصاً زمانہ جاہلیت کے عرب بھی حضرت ابراہیم علیہ السلام اور ان کے فرزند کی حد سے زیادہ اہمیت کے قائل تھے ، اور ان پر فخر کرتے تھے اور ان میں سے بہت سے اپنا نسب اور ان دونوں تک پہنچاتے تھے ۔

دوسری تفسیر یہ ہے کہ اس سے مراد حضرت آدم علیہ السلام اور ان کے بیٹے ہیں ۔

تیسری تفسیر یہ ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام اور ان کی ذریت میں سے جو پیغمبراو ر انبیاء مبعوث ہوئے وہ مراد ہیں ۔

چوتھی تفسیر یہ ہے کہ اس سے ہرباپ اور بیٹا مراد ہیں کیونکہ مختلف زمانوں میں تولد اورنسل ِ انسانی کی بقا کا مسئلہ خلقت کی آفرینش کے حیرت انگیز مسائل میں ہے ، اور خدا نے خصو صیت کے ساتھ اس کی قسم کھائی ہے ۔

ان چاروں تفسیروں کے درمیان جمع بھی بعید نہیں ہے اگرچہ پہلی تفسیر سب سے زیادہ مناسب نظر آتی ہے ۔(۱)

۱ ۔ بعض تفاسیر میں والدسے مراد امیر المومنین علیہ السلام اور اولاد سے مراد ان کے فرزندان ِ گرامی ہیں ، اور شاید وہ جناب ا س کے بہترین مصداق ہوں ۔ لہٰذا اس تفسیر کو ذکر کرنا زیادہ مناسب تھا۔ ( مترجم )

اس کے بعد اس چیز کو بیان کرتا ہے جو ان قسموں کا اصل مقصد ہے فرماتا ہے : ” یقینا ہم نے انسان کو رنج و تکلیف میں پید اکیا ہے ،( لقد خلقنا الانسان فی کبد ) ۔

” کبد“ مجمع لابیان “میں طبرسی کے قول کے مطابق شدت کے معنی میں ہے ، اسی لئے جب دودھ گاڑھا ہوجاتا ہے تو اسے” تکبد اللبن“ کہتے ہیں ۔

لیکن ” مفردات“ میں ” راغب “ کے قول کے مطابق ” کبد“ ( بروزن حسد) اس درد کے معنی میں ہے ، جو انسان کے ” کبد“ ( سیاہ جگر) کو عارض ہوتا ہے ۔ اس کے بعد ہر قسم کی مشقت اور دکھ تکلیف کے لئے اطلاق ہونے لگا۔

اس لفظ کی اصل چاہے جو کچھ بھی ہو اس کا اس مقام پرمفہوم وہی رنج ا ور دکھ درد ہی ہے ۔

ہاں ! انسان آغاز زند گی سے ہی ، یہاں تک کہ اسی لمحہ سے جب اس کا نطفہ قرار گاہ رحم میں واقع ہوتا ہے ۔ مشکلات اور درد و رنج کے بہت سے مرحلے طے کرتا ہوا متولد ہوتا ہے اور پیدا ہونے کے بعد بچپنے میں ، اور ا س کے بعد جوانی میں ، اور زیادہ بڑھاپے میں ، طرح طرح کی زحمتوں ، مشقتوں اور تکالیفات سے روبروہوتا ہے۔ دنیا کی زندگی کا مزاج یہی ہے اور اس کے علاوہ کوئی توقع رکھنا غلطی ہی غلطی ہے ۔ ایک شاعر عرب کے قول کے مطابق :

طبعت علی کدر و انت ترید ها صفواً عن الاکدار و الاقذار ؟

و مکلف الایام ضد طباعها متطلب فی الماء جدوة نار ؟

جہاں کی طبیعت کدورت اور گندے پن پر ہے اور تو چاہتا ہے کہ ہر قسم کی کدورت اور ناپاکی سے صاف ہو،

وہ جو شخص کی مانند ہے جو پانی کی موجوں کے درمیان آگ کا شعلہ طلب کرے ۔

انبیاء اور اولیاء اللہ کی زندگیوں کی طرف نگاہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے آفرینش کے ان سرِ سبد پھولوں کی زندگی بھی انواع و اقسام کے غیر مناسب امور اور دردو تکلیف میں گھری ہوئی تھی ۔ جب دنیا کے لئے اس طرح ہے تو دوسروں کے لئے اس کی وضع و کیفیت واضح ہے ۔

اور اگر ہمیں کچھ افراد یامعاشرے ایسے نظر آتے ہیں جنہیں بظاہر کوئی دکھ اور تکلیف نہیں ہوتی تو وہ یاتو ہمارے سطحی مطالعہ کی وجہ ایسا دکھائی دیتے ہیں ۔ اس لئے جب ہم اور زیادہ نزدیک ہوتے ہیں تو انہیں مرفہ الحال زندگی والوں کی درد و رنج کے عمق اور گہرائی سے آشنا ہوجاتے ہیں ، اور یا پھر وہ ایک محدودمدت اور استثنائی زمانہ کے لئے ہوتا ہے ، جوعالم کے قانوں کلی کو نہیں توڑتا۔

اس کے بعد مزید فرماتا ہے :” کیایہ انسان گمان کرتا ہے کہ کوئی بھی اس پر دست رسی کی قدرت نہیں رکھتا“۔( ایحسب ان لن یقدر علیه احد ) (۱)

یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ انسان کی زندگی کی ان تمام درد، دکھ اور تکالیف کے ساتھ آمیزش اس بات کی دلیل ہے کہ وہ بالکل کوئی قدرت نہیں رکھتا ۔

لیکن غرور وتکبر کے گھوڑے پر سوار ہے اور ہر قسم کے غلط کام گناہ ِ جرم اور حد سے بڑھ جانے کامرتکب ہوتا رہتا ہے ، گویا وہ خود کو امن و امان میں سمجھتا ہے اور اپنے آپ کو سزاو ں کی قلم رَوسے دور خیا ل کرتا ہے ۔ جب اسے قدرت حاصل ہو جاتی ہے عذاب کے چنگل سے رہائی حاصل کرلے گا ؟ کتنا بڑا اشتباہ اور غلط فہمی ہے !

یہ احتمال بھی دیا گیا ہے کہ اس سے مراد وہ دولت مند ہیں جو یہ خیال کرتے تھے کہ کو ئی ان کی دولت و ثروت کو ان سے چھین لینے کی قدرت نہیں رکھتا ۔

یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس سے مراد وہ لوگ ہیں جن کا عقیدہ تھا کہ ان کے اعمال کی کوئی بھی باز پرس نہیں کرے گا ۔

لیکن آیت ایک جامع مفہوم رکھتی ہے جو ان تمام تفاسیر کو شامل ہوسکتی ہے ۔

بعض نے یہ کہا ہے کہ اوپر والی آیت قبیلہ ” جمع“ کے ایک شخص کی طرف جس کا نام ” ابو الاسد“ تھا اشارہ ہے وہ اس قدر طاقتور تھا کہ چمڑے کے ایک ٹکڑے پر بیٹھ جاتا تھا اور دس آدمی اسے اس کے نیچے سے کھینچنا چاہتے تھے تو نہیں کھینچ سکتے تھے وہ چمڑا ٹکڑے ٹکڑے ہو جاتا تھا ، لیکن وہ اپنی جگہ سے نہیں ہلتا تھا ۔ ۲

لیکن آیت کا اس قسم کے مغرور شخص یا اشخاص کے بارے میں بیان اس مفہوم کی عمومیت و وسعت سے مانع نہیں ہے ۔( یقول اهلکت مالا لبداً ) ۔

یہ ایسے لوگوں کی طرف اشارہ ہے کہ جب انہیں کارِ خیر میں مال صرف کرنے کو کہتے تھے تو وہ غرور و نخوت کی بناء پر یہ کہتے تھے : ہم نے یہ بہت زیادہ مال ان کاموں میں صرف کیا ہے ، حالانکہ انہوں نے خدا کی راہ میں کوئی چیز خرچ نہیں کی تھی۔ اور اگر انہوں نے کسی کو مال دیا بھی تھا تو وہ دکھاوے ، یا ریا کاری اور شخصی اغراض کی بناء پر تھا ۔

بعض نے یہ بھی کہا ہے کہ آیت میں ان لوگوں کی طرف اشارہ ہے جنہوں نے اسلام اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی دشمنی اور اسلام کے برخلاف سازشوں میں صرف کیا تھا اور وہ اس پر فخر کرتے تھے ، جیسا کہ ایک حدیث میں آیا ہے کہ جنگِ خندق کے دن جب علی علیہ السلام نے عمر بن عبد ود کے سامنے اسلام کو پیش کیا تو اس نے جواب میں کہا :”فاین ما انفقت فیکم مالاً لبداً

” پس وہ سارامال جومیں نے تمہاری مخالفت میں صرف کیا ہے اس کا کیا بنے گا“۔(۳)

بعض نے یہ بھی کہا ہے کہ آیت ” حارث بن عامر جیسے بعض سردارانِ قریش کے بارے میں ہے ، جو ایک گناہ کا مرتکب ہواتھا ۔ اس نے پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے نجات کے بارے میں پوچھا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اسے کفارہ دینے کاحکم دیا ۔ اس نے کہا: جب سے میں دین ِ اسلام میں داخل ہواہوں میرا تمام مال و دولت کفاروں اور نفقات میں نابودہوگیا ہے ۴

ان تینوں تفاسیر کے درمیان جمع میں کوئی امرمانع نہیں ہے اگر چہ پہلی تفسیر آیت کے ساتھ زیادہ مناسب ہے ۔

اهلکت “ کی تعبیر اس بات کی طرف اشارہ ہے کہاس کے اموال در حقیقت نابودہی ہوئے ہیں ، اور اسے ان سے کوئی فائدہ نہیں ہوگا ۔

” لبد “ ( بر وزن لغت) تہ بہ تہ اور انبوہ کثیر کے معنی میں ہے اور یہاں بہت زیادہ مال کے معنی میں ہے ۔

اس کے بعد مزید فرماتا ہے : ” کیا وہ یہ گمان کرتا ہے کہ اسے کسی نے نہیں دیکھا ، اور نہ ہی دیکھے گا“؟ !( ایحسب ان الم یره احد ) ۔

وہ اس حقیقت سے غافل ہے کہ نہ صرف اس کے ظاہری اعمال کو خلوت و جلوت میں دیکھتا ہے ، بلکہ اس کے دل اور روح کی گہرائیوں سے بھی آگاہ ہے ، اور اس کی نیتوں سے باخبر ہے ۔ کیا یہ ممکن ہے کہ وہ خدا جس کا غیر متناہی وجود ہر چیز پر احاطہ رکھتا ہے کسی چیز کو نہ دیکھے اور نہ جانے ؟ یہ غافل اس بات سے بے خبر ہیں کہ وہ اپنی جہالت اور نادانی کی وجہ سے خود کو پر وردگار کی دائمی نگرانی ست باہر خیال کر رہے ہیں ۔

ہاں خد اکو علم ہے کہ انہوں نے یہ اموال کہاں سے حاصل کئے ہیں اور انہیں کس راہ میں صرف کیاہے ؟ ! ایک حدیث میں ابن عباس (رض) سے نقل ہو اہے کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

لا تزول قد ما العبد حتی یسأل عن اربعة: عن عمره فیما افناه و عن ماله من این جمعه ، و فیما ذا انفقه؟ و عن عمله ماذا عمل به ؟ و عن حبنا اهل البیت

”قیامت میں کوئی شخص اپنے قدم سے قدم نہیں اٹھائے گا ، مگر یہ کہ چارچیزوں کے بارے میں اس سے سوال ہو گا: اس کی عمر کے بارے میں کہ اسے کس راہ میں فنا کیا ، اس کے مال کے بارے میں کہ اسے کہاں سے جمع کیا ، کس راہ میں اسے صرف کیا ، اور اس کے عمل کے بارے میں کہ اس نے کون کون ساعمل انجام دیا ، اور ہم اہل بیت کی محبت و مودت کے بارے میں “(۵)

او پروہ یہ دعویٰ کیسے کر تا ہے کہ میں نے بہت زیادہ مال خدا کی راہ میں خرچ کیا ہے جب کہ وہ اس کی نیت سے آگاہ ہے ، اور ان اموال کے غیر شرعی حصول کی کیفیت سے بھی آگاہ ہے ، اور ریا کاری اور مغر ضانہ طورپر صَرف کرنے کی کیفیت سے بھی باخبر ہے ۔

____________________

۱۔ ” ان “ اس جملہ میں ” مثقلہ سے مخففہ ہے “ اور تقدیر میں ”انه لن یقدر علیه احد “ ہے ۔

۲۔” مجمع البیان “جلد ۱۰ ، ص ۴۹۳۔

۳ ۱۰۔ حدیث ۵۸۰ ص ۵ جلد الثقلین نور«مسكن الفؤاد »، صفحه ۱۴.

۴۔ مجمع البیان جلد ۱۰ ،ص ۴۹۳۔

۵۔ خلاصہ یہ ہے کہ انسان کس طرح سے مغرور ہو جاتا ہے اور قدرت و طاقت کا دعویٰ کیسے کرتا ہے ، حالانکہ اس کی زندگی درد و رنج اور تکلیفات کے ساتھ خمیر ہوئی ہے ۔ اگر اس کے پاس کچھ مال ہے تو ایک رات کے لئے ہے ، اور اگر جان رکھتا ہے توایک بخار تک ہے

آنکھ ، زبان او رہدایت کی نعمت

گزشتہ آیات کے بعد، جن میں سر کشی کرنے والے انسانوں کے غرور و غفلت کے بارے میں گفتگو تھی ، زیر بحث آیات میں انسان پر خدا کی اہم ترین مادی و معنوی نعمتوں کا کچھ حصہ بیان کرتا ہے ،تاکہ ایک طرف تو اس کے غرور و غفلت کو توڑدے اور دوسری طرف اسے ان نعمتوں کوخلق کرنے والے میں تفکر اور غور و خوض کرنے پر آمادہ کرے اور اس کے دل و جان کے اندر شکر گذاری کے احساس کو بیدار کرکے اسے خالق کی معرفت کی طرف چلائے ۔

پہلے فرماتا ہے :” کیا ہم نے اس انسان کے لئے دو آنکھیں قرار نہیں دیں “۔( الم نجعل له عینین ) ۔

” اور ایک زبان اور دو ہونٹ( نہیں دیئے )“؟!( و لسانا ً و شفتین ) ۔ اور ہم نے اسے اس کی بھلائی اور برائی کو دونوں راہیں دکھادیں “( و هدینا النجدین ) اس طرح ان چند مختصر جملوں میں تین اہم مادی نعمتوں اور ایک عظیم معنوی نعمت کی طرف ، جو سب کی سب خدا کی عظیم ترین نعمتیں ہیں ، اشارہ کیا ہے ۔ ایک طرف تو آنکھوں ، زبان اور لبوں کی نعمت ہے اور دوسری طرف خیر و شر کی معرفت وہدایت کی نعمت ہے ۔

( اس بات کی طرف توجہ رہے کہ ” نجد“ اصل میں مرتفع اور بلند مقام کے معنی میں ہے ،” تھامہ“ کے مقابلہ میں پست زمینوں پربولا جاتاہے ، یا دوسرے لفظوں میں ” بلند جگہ “ اور پست جگہ “ اور یہاں خیر و شر و شقاوت کی راہ سے کنایہ ہے ۔ ۱

اوپر والی نعمتوں کی اہمیت کے بارے میں بس اتنا کافی ہے کہ :

” آنکھ “ بیرونی دنیا سے انسان کے رابطہ کے لئے ایک اہم ترین ذریعہ ہے آنکھ کے عجائبات اس قدر ہیں کہ وہ واقعی طور پر انسان کو خالق کے مقابلہ میں خضوع کرنے پر آمادہ کر دیتے ہیں ، آنکھ کے سات طبقے ہیں جو صلبیہ ( قرنیہ ) مشیمیہ ، عیبیہ ،زلالیہ، زجاجیہ اور شبکیہ کے نام سے موسوم ہیں ، ان میں سے ہر ایک عجیب و غریب اور عمدہ ساخت رکھتا ہے جن میں نور اور روشنی او رآئینوں سے مربوط طبیعاتی اور جسمانی قوانین کا بہت ہی باریک بینی کے ساتھ خیال رکھاگیا ہے ۔ اس طرح سے کہ تصویر کشی کی ترقی یافتہ دور بینیں بھی اس کے مقابلہ میں بے قدرو قیمت ہیں ، اور حقیقت یہ ہے کہ اگر ساری دنیا میں انسان کے سوا اور سارے وجودِ انسانی میں انکھ کے علاوہ اور کوئی چیز نہ ہوتی تو اس کی عجائبات کا مطالعہ پر وردگار کے عظیم علم قدرت کی شناخت کے لئے کافی تھا ۔

باقی رہی ” زبان “ تو وہ انسان کے لئے دوسرے انسانوں سے ارتباط، اور ایک قوم سے دوسری قوم ، اور ایک نسل سے دوسری نسل کی طرف اطلاعات ومعلومات کے نقل ہونے ، اور مبادلہ کا ایک اہم ترین ذریعہ ہے ، اور اگر یہ ارتباط کا ذریعہ نہ ہوتا تو انسان ہر گز کبھی بھی علم و دانش او رمادی تمدن او رمعنوی مسائل میں اس حد تک ترقی نہ کرسکتا ۔

باقی رہے ” لب“ تو ” اولاً“ بول چال میں ان کا بہت بڑا حصہ ہے کیونکہ بہت سے حروف لبوں ہی کے ذریعہ ادا ہوتے ہیں اس کے علاوہ ہونٹ کے چبانے ، اور منہ کی رطوبت کو محفوظ رکھنے اور پانی کے پینے میں بہت زیادہ مدد کرتے ہیں ، اور اگر یہ نہ ہوتے تو انسان کے کھانے پینے کا مسلہ ، یہاں تک کہ اس کے چہرے کامنظر ، اس کے لعاب دہن کے باہر کی طرف بہنے کی وجہ سے ، اور بہت سے حروف کی ادائیگی پر قدرت نہ رکھنے کی بناء پر افسوس ناک ہوتا۔

اور چونکہ حقائق کا ادراک پہلے درجہ میں آنکھ اور زبان سے ہوتا ہے ۔ ان کے بعد ” عقل “ اور فطری ہدایت آتی ہے ، یہاں تک کہ آیت کی تعبیر ” ہدایت تشریعی “ کو بھی جو انبیاء و اولیاء کے ذریعے ہوتی ہے شامل ہے ۔

ہاں !اس نے دیکھنے والی آنکھ اور زبان کو بھی انسان کے اختیار میں رکھا ہے ، اور” راہ اور چاہ “ کی بھی اسے نشاندھی کرادی ہے ” تا آدمی نگاہ کند پیش پائے خویش “ تاکہ انسان اپنے سامنے کی ہر چیز کو دیکھ لے ۔

لیکن ان روشن چراغوں کے باوجود ، جو اس کے راستے میں موجود ہیں ، اگر پھر بھی کو ئی راستہ سے ہٹ جاتا ہے تو پھر کہنا چاہئیے : ” بگذار تابیفتد و بیند سزای خویش “ ! اسے گرنے دو تاکہ وہ اپنی سزا پالے ۔

( و هدینا ه النجدین ) “۔ ( ہم نے اسے بھلائی اور برائی کے دونوں راستے دکھا دیئے ) کاجملہ علاوہ اس کے کہ وہ انسان کے ارادہ کی آزادی اور اختیار کے مسئلہ کو بیان کرتا ہے ، اس بات کی طرف توجہ کرتے ہوئے ” نجد“ اونچی جگہ کو کہتے ہیں لہٰذا یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ خیر اور بھلائی کی راہ کو طے کرنا مشکلات ، زحمت اور رنج سے خالی نہیں ہے ، جیساکہ اونچی زمینوں کی طرف جانا مشکل ہے یہاں تک کہ شراور برائی کی راہوں کا طے کرنا بھی مشکلات رکھتا ہے ۔ لہٰذا کیسی اچھی بات ہے کہ انسان سعی و کوشش سے خیر کی راہ کو اختیار کرے ۔

لیکن ا س کے باوجود راستہ کا انتخاب کرنا خود انسان کے اختیار میں ہے ۔ یہ وہی ہے جو اپنی آنکھ اور زبان کو حلال یا حرام کے راستہ میں گردش دے سکتا ہے اور خیر و شر کی دونوں راہوں میں جسے چاہے انتخاب کرسکتا ہے ۔

لہٰذا ایک حدیث میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے مروی ہے خدا وند تعالیٰ آدم علیہ السلام کی اولاد سے کہتا ہے :

( یابن اٰدم ! ان نازعک لسانک فیما حرمت علیک فقد اعنتک علیه بطبقتین فاطبق، ان نازعک بصرک الیٰ بعض ماحرمت علیک فقد اعنتک علیه بطقتین فاطبق )

” اے اولاد آدم ! اگر تیری زبان تجھے کسی فعل ِ حرام پر ابھار نا چاہئیے، تو میں نے اسے روکنے کے لئے دو ہونٹ تیرے اختیار میں دئے ہیں ۔ پس تو ہونٹوکو بند کرے اور اگر تیری آنکھ تجھے حرام کی طرف لے جانا چاہے تو میں نے پلکیں تیرے اختیار میں دے دی ہیں تو انہیں بند کرلے “(۲)

اس طرح سے خدا نے ان عظیم نعمتوں پر کنٹرول کے وسائل و ذرائع بھی انسا ن کے اختیار میں دیئے ہیں اور یہ ایک اور اس کا عظیم لطف ہے ۔

قابل توجہ بات یہ ہے کہ اوپر والی آیات میں زبان کے بارے تو لبوں کی طرف اشارہ ہواہے، لیکن آنکھوں کے بارے میں پلکوں کی طرف اشارہ نہیں ہوا۔ اس کے بظاہر دو اسباب ہیں ، ایک تو یہ ہے کہ کہ لبوں کاکام بات کرنے ، کھانے اور تمام پہلوو ں میں پلکوں کی نسبت آنکھوں کے لئے کام کرنے سے کئی گناہ زیادہ ہے ، اور دوسرا سبب یہ ہے کہ زبان کاکنٹرول کرنا آنکھ کے کنٹرول سے کئی درجے زیادہ اہم ہے ، اور زیادہ بخت ساز ہے

____________________

۱۔ یہ تفسیر ایک حدیث میں امیر المومنین علیہ السلام سے نقل ہوئی ہے ( مجمع البیان زیر بحث آیات کے ذیل میں ) اور یہ جو بعض نے ماں کے دو پستانوں سے جو سینہ پر ابھر ے ہوئے ہوتے ہیں تفسیر کی ہے بہت ہی بعید ہے ۔ ضمنی طور پر ” نجد“ کی تعبیر خیر کے بارے میں اس کی عظمت کی وجہ سے ہے اور شر کے بارے میں بابِ تغلب سے ہے ۔

۲ ـ «نور الثقلين»، جلد ۵، صفحه ۵۸۱.

۱ ۔ آنکھ کی حیرت انگیز یاں

آنکھ کو عام طور ہر کیمرے کی دوربین سے تشبیہ دیتے ہیں ، جو اپنی بہت ہی چھوٹی سی پتلی کے ساتھ مختلف مناطر کے فوٹو اتارتی ہے ، ایسی تصویریں جو فلم کے بجائے ” شبکیہ چشم “ ( آنکھ کی سکرین ) پر منعکس ہوتی ہیں اور وہاں سے بینائی کے اعصاب کے ذریعہ دماغ میں منتقل ہوتی ہیں ۔

تصویر کشی کا یہ حد سے زیادہ لطیف و دقیق کا خانہ ، شب و روز میں کئی ہزار تصویریں ، مختلف مناظر کی اتار سکتا ہے ، لیکن تصویر کشی اور فلمیں بنانے کی ترقی یافتہ مشینوں پر بھی اس کا بہت سے پہلوو ں سے قیاس نہیں ہوسکتا ، کیونکہ :

۱ ۔ اس مشین میں روشنی کو منظم کرنے والا دریچہ وہی آنکھ کی پتلی ہے کو خود کا ر طریقہ سے زیادہ قوی روشنی کے مقابلہ میں زیادہ تنگ اور کمزور روشنی کے مقابلہ میں زیادہ کشادہ ہوجاتی ہے حالانکہ کیمرے کی مشین کو اشخاص کے ذریعے منظم کرنا پڑتا ہے ۔

۲ ۔ آنکھ کا عدسہ ، ان تمام شیشوں کے بر خلاف ، جو دنیا کے تصویر کشی کے کیمروں میں استعمال ہوتے ہیں ، ہمیشہ اپنی شکل بدلتا رہتا ہے ، اس طور پر کہ کبھی تو اس کا قطر ۔ ۱/۵ ملی میٹر ہوجاتا ہے اور کبھی ۸/ ملی میٹر تک پہنچ جاتا ہے تاکہ وہ دور اور نزدیک کے مناظر کی تصویرین بنا سکے ۔ اور یہ کام ان عضلات کے ذریعے ، جنہوں نے عدسہ کو گھیرا ہو اہے، اور وہ کبھی اسے کھینچ لیتے ہیں اور کبھی چھوڑ دیتے ہیں ، انجام پاتا ہے، اس طرح سے آنکھ کا ایک عدسہ تنہا سینکڑوں عدسوں کا کام انجام دیتا ہے ۔

۳ ۔ تصویر کشی کی یہ مشین چار مختلف سمتوں کی طرف حرکت کرتی ہے ، یعنی آنکھ کے عضلات کی مدد سے جس طرف چاہے حرکت کر سکتی ہے اور تصویر بنا سکتی ہے ۔

۴ ۔ یہاں ایک ا در اہم نکتہ بھی ہے کہ تصویر کشی کے کیمروں کے لئے یہ ضروری ہے کہ ان کی فلموں کو تبدیل کرتے رہیں ، اور جب فلم کی ایک ریل ختم ہو جائے تو اس کی جگہ دوسری ریل رکھنی پڑتی ہے ۔ لیکن انسا ن کی انکھیں زندگی بھر تصویریں اتارتی رہتی ہیں ، اور اس میں کوئی چیز تبدیل نہیں کرنی پڑتی ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ آنکھ کی سکرین کا وہ حصہ ، جس پر تصویریں منعکس ہوتی ہیں ، اس میں دو قسم کے سلول ہوتے ہیں :

۱ ۔ مخروطی سلول ۲ ۔ عمودی سلول ، جو روشنی کے مقابلہ میں بہت ہی زیادہ حساس مادہ رکھتے ہیں اور روشنی کی تھوڑی سی چمک سے ہی ان کا تجزیہ ہو جاتاہے اور وہ ایسی لہریں پیدا کردیتے ہیں کہ وہ دماغ کی طرف منتقل ہو جاتی ہیں اور اس کے بعد اس کا اثر زائل ہوجاتا ہے اور سکرین دوبارہ نئی تصویر کھینچنے کے لئے آمادہ ہوجاتی ہے ۔

۵ ۔ تصویر کھینچنے والی دوربینیں بہت ہی محکم اور مضبوط مادوں سے بنائی گئی ہیں ، لیکن آنکھ کی تصویر کھینچنے کی مشین اتنی لطیف کہ جس میں معلولی سی چیز سے بھی خراش آجاتی ہے ، اسی وجہ سے اس کو ایک مضبوط ہڈیوں سے بنی ہوئی حفاظت گاہ میں رکھا گیا ہے ۔

لیکن اتنی ظرافت و نزاکت کے باوجود یہ لوہے اور فولاد سے بھی زیادہ چلنے والی چیز ہے ۔

۶ ۔ فلیمیں بنانے والوں اور تصویر کھینچنے والوں کے لئے ” روشنی کے منظم ہو نے“ کا مسئلہ ایک بہت ہی اہم مسئلہ ہے ، اور اس مقصد کے لئے کہ تصویر یں صاف ہوں ، بعض اوقات کئی کئی گھنٹے روشنی اور اس کے مقدمات کو منظم کرنے میں مشغول رہناپڑتا ہے ، جب کہ آنکھ تمام حالات میں ، چاہے روشنی قوی ہویا درمیانی یا کمزور ، یہاں تک کہ تاریکی میں بھی ، بشر طیکہ معمولی اور خفیف سی روشنی بھی وہاں پر موجود تصویر لے لیتی ہے ۔ اور یہ چیز آنکھ کے عجائبات میں سے ہے ۔

۷ ۔ بعض اوقات ہم روشنی سے تاریکی کی طرف جاتے ہیں ، یا بجلی کے بلب اچانک بجھ جاتے ہیں ، تو ہم اس وقت کسی چیز کو نہیں دیکھ سکتے ، لیکن چند ہی لمحے گزرجانے کے بعد ہماری آنکھ خود کار طور پر اپنی کیفیت کو اس کمزور روشنی کے ساتھ منطبق کرلیتی ہے، اس طرح سے کہ جب ہم اپنے ارد گرد نظر کرتے ہیں کہ ہماری آنکھ تاریکی کی عادی ہوگئی ہے اور یہ عادت والی تعبیر کو سادہ اور عام زبان میں ادا ہو جاتی ہے ۔ایک بہت ہی پیچیدہ مکانیسم (طرزِساخت ) کا نتیجہ ہے جو آنکھ میں رکھی گئی ہے ، اور وہ خود کو بہت ہی مختصر سے وقت میں نئے حالات پر منطبق کرسکتی ہے ۔

اس کے بر خلاف جب ہم تاریکی سے روشنی میں داخل ہوتے ہیں تو ا س کے بر عکس ہوتا ہے ، یعنی ابتدا میں ہماری آنکھ قوی روشنی کو بر داشت نہیں کرتی ، لیکن چند لمحات کے بعد وہ اس سے منطبق ہو جاتی ہے اور اصطلاح کے مطابق عادی ہو جاتی ہے لیکن یہ امور تصویر بنانے والے کیمروں میں ہر گز موجود نہیں ہیں ۔

۸ ۔ تصویر بنانے والے کیمرے محدود فضا سے تصویر بناسکتے ہیں جب کہ انسا ن کی آنکھ تمام افق کا نیم دائرہ جو اس کے سامنے ہوتا ہے دیکھ لیتی ہے ، اور دوسرے لفظوں میں ہم اپنے اطراف کے تقریباً ۱۸۰ درجے کے دائرے کو دیکھ لیتے ہیں ، جب کہ تصویر کشی کا کوئی کیمرہ ایسانہیں ہے ۔

۹ ۔ عجیب و غریب بات یہ ہے کہ انسان کی دونوں آنکھیں ، جن میں سے ہر ایک ایک مستقل مشین ہے ، اس طر ح منظم ہوئی ہیں کہ ان دونوں سے لئے گئے فوٹو ایک ہی نقطہ پر جاکر پڑتے ہیں ۔ اس طرح سے اگر یہ تنظیم تھوڑی سی خراب ہوجائے تو اسے اپنی دو آنکھوں سے ایک ہی جسم کو دوجسم دیکھتا ہے ، جیساکہ احول ( جسے دو دو نظر آتے ہوں ) اشخاص میں یہ معنی مشاہدہ ہوتا ہے۔

۱۰ ۔ دوسرا قابل غور نکتہ یہ ہے کہ وہ تمام مناظر جن کی آنکھ تصویر کشی کرتی ہے آنکھ کی ا سکرین پر الٹے پڑتے ہیں ، حالانکہ ہم کسی چیز کو الٹا نہیں دیکھتے ، آنکھ کے عاد اور چیزوں کی ایک دوسر ے سے نسبت کو محفوظ رکھنے کی بناء پر ہے ۔

۱۱ ۔ آنکھ کی سطح ہمیشہ مرطوب ہونی چاہئیے کیونکہ اگر و ہ چند ساعت بھی خشک رہ جائے تو اس پر شدید ضرب پڑے یہ رطوبت ہمیشہ آنسوو ں کے غدود وں سے حاصل ہو تی ہے جو آنکھ میں ایک طرف منتقل ہو جاتے ہیں اور اسے بھی مرطوب رکھتے ہیں ۔

اگر آنکھ کے غدود خشک ہو جائیں تو آنکھ خطرے میں پڑ جاتی ہے اور پلکوں کی حرکت غیرممکن ہوجاتی ہے ، اور اگر اس کا فعل حد سے بڑھ جائے تو ہمیشہ چہرے پر آنسوں بہتے رہتے ہیں ، یا آنکھ کے فاضل پانی کو خشک کرتے ہیں اور یہ کتنا بڑا درد سر ہے

۱۲ ۔ آنسوو ں کی ترکیب ایک پیچیدہ ترکیب ہے ، اور اس میں دس سے زیادہ عناصرہوتے ہیں ، اور وہ مجموعاً آنکھ کی نگہداشت کے لئے ایک بہترین اور مناسب ترین مائع یا مر کب ہوتا ہے ۔

مختصر یہ ہے کہ آنکھ کے عجائبات اس قدر زیادہ ہیں کہ ان کے بارے میں کئی دن تک بیٹھ کر گفتگو کرنے کی ضرورت ہے ، اور ان کی کئی کتا بیں لکھنی پڑیں ، اور ان تمام چیزوں کے باوجود اگر ہم ا س کے اصلی مادہ کو دیکھیں تو وہ تقریباً چر بی کے ایک ٹکڑے سے زیادہ نہیں ہے ۔

امیر المومنین علی علیہ السلام اپنی ایک قابل قدر گفتگو میں فرماتے ہیں :

” اعجبوا لهٰذا الانسان ینظر بشحم ، و یتکلم بلحم ، و یسمع بعظم، و یتنفس من خرم !“

”تعجب ہے اس انسان پرجو چربی کے ایک ٹکڑے سے دیکھتا ہے ، اور گوشت کے ایک ٹکڑے سے بولتا ہے ہڈی سے سنتا ہے سوراخ سے سانس لیتا ہے اور وہ ان بزرگ حیاتی کا موں کو ان چھوٹے سے وسائل کے ذریعے انجام دیتا ہے(۱)

____________________

۱۔ نہج البلاغہ ” کلمات قصار“ حکمت۸۔