تفسیر نمونہ جلد ۱۵

تفسیر نمونہ 6%

تفسیر نمونہ مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن

جلد ۱ جلد ۴ جلد ۵ جلد ۷ جلد ۸ جلد ۹ جلد ۱۰ جلد ۱۱ جلد ۱۲ جلد ۱۵
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 169 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 67881 / ڈاؤنلوڈ: 6313
سائز سائز سائز
تفسیر نمونہ

تفسیر نمونہ جلد ۱۵

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

۲ ۔ زبان کی حیرت انگیزیاں

زبان بھی اپنے جگہ پر انسانی بدن کے بہت ہی حیرت انگیز اعضاء میں سے ہے اور اس کے ذمے بہت ہی سخت ذمہ داریاں ہیں ، وہ غذا کو نگلنے میں مدد دینے کے علاوہ اس کو چبانے میں بھی اہم کام انجام دیتی ہے ، اور بار بار غذا کے لقمہ کودانتوں کی ہتھوڑی کے نیچے دھکیلتی رہتی ہے ، لیکن اس کام کو اتنے ماہرانہ انداز میں انجام دیتی ہے کہ اپنے آپ کو دانتوں کی ضربوں سے محفوظ رکھتی ہے ، حالانکہ ہمیشہ ان کے پاس اور ان سے چمٹی ہوئی رہتی ہے ۔

بعض اوقات اتفاقیہ طور پر کھانے کو چباتے وقت ہم اپنی زبان کو بھی چبالیتے ہیں تو ہماری چیخ نکل جاتی ہے اور ہم یہ سمجھ جاتے ہیں کہ اگر زبان میں وہ مہارت نہ ہوتی تو ہم پر کتنی مصیبت آن پڑتی ۔

ضمنی طور پر غذا کھانے کے بعد منھ کی فضا اور دانتوں کو پاک و صاف کرتی اور جھاڑدیتی ہے۔

اور ان سب کا موں سے زیادہ اہم بات کرنے کا مسئلہ ، جو زبان کی تیزی کے ساتھ منظم طور پر پے در پے حرکات اور چھ سمتوں میں حرکت کرنے سے انجام پاتا ہے۔

قابل توجہ بات یہ ہے کہ خدا نے بات کرنے اور تکلم کے لئے ایک ایسا وسیلہ انسانوں کے اختیار میں دیاہے جو بہت ہی سہل اور آسان ، اور سب کی دسترس میں ہے ، نہ کچھ تھکان ہوتی ہے او رنہ ہی رنج و ملال حاصل ہوتا ہے، اور نہ ہی کچھ خرچ ہوتا ہے ۔

اور اس سے بھی زیادہ عجیب بات انسان میں گفتگو کرنے کی استعداد کا مسئلہ ہے ، جو انسان کی روح میں ودیعت کر دیا گیا ہے اور انسان اپنے طرح طرح کے حد سے زیادہ مقاصد کو بیان کرنے کے لئے بے حد مختلف صورتوں میں زیادہ سے زیادہ جملہ بند یاں کرسکتا ہے ۔

اور اس سے بھی زیادہ اہم ، مختلف زبانوں کی وضع کی استعداد ہے ، اور ان ہزاروں زبانوں کے مطالعہ سے جو دنیا میں موجود ہیں ، اس کی اہمیت واضح ہو جاتی ہے ، واقعاً ” العظمة للہ الواحد القھار !“ ( عظمت و بزر گی واحد و قہار خدا کے لئے ہی ہے )۔

۳ ۔ نجدین کی طرف ہدایت

” نجد“ جیساکہ ہم نے بیان کیا ہے ، بلندی یابلند سر زمین کے معنی میں ہے اور یہاں ” خیر “ و ” شر “ کی راہ مراد ہے ۔ ایک حدیث میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے آیا ہے کہ آپ نے فرمایا :

’ ’یا ایها ا لناس ! هما نجدان : نجد الخیر و نجد الشر فما جعل نجد الشر احب الیکم من نجد الخیر “۔

” اے لوگو! دو بلند سر زمینیں موجود ہیں ، خیر کی سر زمین اور شر کی سر زمین ، اور شر کی سر زمین تمہارے لئے خیر کی سر زمین سے ہر گز زیادہ محبوب قرار دی گئی ۔(۱)

اس میں شک نہیں کہ” تکلیف “ او رمسئولیت ، معرفت و آگاہی کے بغیر ممکن نہیں ہے ۔ اور اوپر والی آیت کے مطابق خدا نے یہ آگاہی انسانوں کے اختیار میں دے دی ہے ۔

یہ آگاہی تین طریقوں کے انجام پاتی ہے :

۱ ۔ عقلی اسراکات اور استدلال کے طریق سے ۔

۲ ۔ فطرت و وجدان کے طریق سے ، جس میں استدلال کی ضررت نہیں ہوتی ۔

۳ ۔ روح اور انبیاء و اوصیاء کی تعلیمات کے طریق سے اور تکامل کی راہ کو طے کرنے کے لئے انسان کو جن جن چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے ۔ ان کی خدا نے ان تین طریقوں میں سے کسی ایک سے یابہت سے موارد میں ان تینوں ہی طریقوں سے اسے تعلیم دی ہے ۔

قابل توجہ بات یہ ہے کہ اس حدیث میں اس بات کی تصریح ہوئی ہے کہ ان دونوں راستوں میں کسی ایک کا طے کرنا انسان کی طبیعت او رمزاج کے لئے دوسرے سے زیادہ آسان نہیں ہے اور یہ بات حقیقت میں اس عمومی تصور کی کہ انسان برائیوں کی طرف زیادہ میلان رکھتا ہے اور شر کے راستے کو طے کرنا اس کے لئے زیادہ آسان ہے ، نفی کرتی ہے ۔

اور یہ سچی بات ہے کہ اگر غلط تربیتیں اور فاسد ماحول نہ ہو تو انسان کو نیکیوں کے ساتھ لگاو اور محبت زیادہ ہوتی ہے ۔ اور شاید ” ننجد“ ( بلند سر زمین ) کی تعبیر نیکیوں کے بارے میں اسی بناء پر ہے ، کیونکہ بلند زمینیں بہتر اور زیادہ عمدہ فضا رکھتی ہیں ، اور شرور کے بارے میں تغلیب کی بناء پر ہے ۔

بعض نے یہ بھی کہاہے کہ یہ تعبیر خیر و شر کے راستہ کے ظاہر ، نمایاں اور آشکار ہونے کی طرف اشارہ ہے ، جس طرح سے مرتفع اور بلند سر زمین مکمل او رپورے طور پر نمایا ں ہوتی ہے ۔(۲)

____________________

۱۔ ” مجمع البیان “ جلد ۱۰ ص ۴۹۴ و تفسیر قرطبی جلد ۱ ص ۷۱۵۵۔۲۔ جیسا کہ چاند اور سورج کو ” قمران “ ( دوچاند) کہا جاتا ہے ۔

آیات ۱۱،۱۲،۱۳،۱۴،۱۵،۱۶،۱۷،۱۷،۱۸،۱۹،۲۰

۱۱ ۔( فلا اقتحم العقبة ) ۔ ۱۲ ۔( وما ادراک مالعقبة ) ۔ ۱۳ ۔( فکُّ رقبةٍ ) ۔ ۱۴ ۔( اواطعام فی یوم ذی مسغبةٍ ) ۔

۱۵ ۔( یتیماً ذا مقربةٍ ) ۔ ۱۶ ۔( او مسکیناً ذا متربةً )

۱۷ ۔( ثم کان من الذین اٰمنوا و توصوا بالصبر و تواصوا بالمرحمةِ ) ۔

۱۸ ۔( اولٰئِک اصهاب المیمنةِ ) ۔ ۱۹ ۔( و الذین کفروا باٰیاتنا هم اصحاب المشئمةِ ) ۔ ۲۰ ۔( علیهم نارٌ مو صدةٌ ) ۔

تر جمہ

۱۱ ۔ لیکن وہ ( ناشکرا انسان ) اس اہم گھاٹی سے اوپر نہیں گیا ۔

۱۲ ۔ اور تجھے کیا معلوم کہ وہ گھاٹی کیا ہے ؟ ۱۳ ۔ غلام کو آزاد کرناہے ۔ ۱۴ ۔ یا بھوک کے دن کھانا کھلانا ہے ۔

۱۵ ۔ رشتہ داروں میں کسی یتیم کو ۔ ۱۶ ۔ یا خاک پر پڑے ہوئے مسکین کو ۔

۱۷ ۔ پھر اسے ایسے لوگوں میں سے ہونا چاہئیے جو ایمان لائے ہیں او رجو ایک دوسرے کو صبر و شکیبائی اور رحم کرنے کی وصیت کرتے ہیں ۔

۱۸ ۔ وہ اصحاب الیمین ہیں ( اور ان کے نامہ اعمال کو ان کے دائیں ہاتھ میں دیں گے )۔

۱۹ ۔ اور جن لوگوں نے ہماری آیات کا انکار کردیا ، وہ شوم او ربد بخت لوگ ہیں اور ان کا نامہ اعمال ان کے بائیں ہاتھ میں دیا جائے گا۔

۲۰ ۔ ان کو آگ نے ہر طرف سے گھیررکھا ہے ،( جس سے بھاگنے کی کوئی راہ نہیں ہے )۔

دشوار گزار گھاٹی

ان عظیم نعمتوں کا ذکر کرنے کے بعد ، جو گزشتہ آیات میں آئی تھیں ، زیر نظر آیات میں نا شکر گزار بندوں کو مورد ِ ملامت و سر زنش قرار دیتاہے ، کہ ان تمام وسائل سعادت کے ہوتے ہوئے انہوں نے نجات کی راہ کیوں طے نہیں کی ، پہلے فرماتا ہے :۔ ” یہ ناشکرا انسان اس عظیم گھاٹی سے اوپر نہیں گیا“۔( فلا اقتحم العقبة ) ۔(۱)

اس بارے میں یہ کہ یہاں عقبہ سے کیا مراد ہے ، بعد والی آیات اس کی تفسیر کرتی ہیں ۔

فرماتاہے : ” تو نہیں جانتاوہ گھاٹی کیاہے “؟ :( و اماادراک مالعقبة )

” غلام کو آزاد کرنا ہے “ ۔( فک رقبة ) ۔

” بھوک کے دن کھانا کھلانا ہے “۔( او اطعام فی یوم ذی مسغبة ) ۔ ”

” قریبوں میں سے کسی یتیم کو “( یتیماً ذا مقربة ) ۔

” یاخاک پر پڑے ہوئے مسکین کو “( او مسکیناً ذا متربة ) ۔

اس طرح یہ دشوار گزار گھاٹی جس سے گزرنے کے لئے ناشکرے انسانوں نے ہر گز خود تو تیار نہیں کیا ہے ، اعمال ِ خیر کو ایک ایسا مجموعہ ہے جو ارادی طور پر خدمت ِ خلق اور کمزوروں اور ضعیفوں کی مدد کرنے کے گرد گھومتا ہے ، اور ان صحیح اور خالص عقائد کا مجموعہ بھی ہے جن کی طرف بعد والی آیات میں اشارہ ہوا ہے ۔

اور سچ تو یہ ہے ،کہ اس شدید لگاو کو دیکھتے ہوئے جو عام طور سے لوگ مال و ثروت کے ساتھ رکھتے ہیں ، اس دشوار گزار گھاٹی سے گزرنا کوئی آسان کام نہیں ہے ۔ اسلام اور ایمان صرف دعویٰ اور باتوں سے حاصل نہیں ہوتے بلکہ ہر مومن مسلمان کے سامنے ایسی دشوار گزار گھاٹیاں ہیں جن سے یکے بعد دیگرے ، حول و قوة خدا اور روح ایمان و اخلاص سے مدد طلب کر تے ہوئے گزرنا پڑتا ہے ۔

بعض نے یہاں ” عقبہ “ کی تفسیر ہوائے نفس کے معنی میں کی ہے یہاں آیات نے ” عبقہ“ کی تفسیر کی ہے تو اس تفسیر سے مراد اس طرح ہونا چاہئیے کہ اصلی گھاٹی ہوائے نفس کی گھاٹی ہے ، لیکن غلاموں کو آزاد کرنا ، اور مسکینوں کو کھانا کھلانا ، اس سے مبارزہ کرنے کے واضح مصادیق میں سے ہیں ۔

بعض دوسرے مفسرین نے یہ کہاہے کہ اس ” عقبہ “ سے مراد قیامت میں ایک دشوار گزار گھاٹی ہے ، جیسا کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے ایک حدیث میں آیاہے :

ان امامکم عقبة کو داً لایجوز ها المثقلون ، و انا ارید ان اخفف عنکم لتلک العقبة “۔

” تمہارے سامنے ایک دشوار گزار گھاٹی ہے ، جس سے بھاری بوجھ والے نہیں گزرسکیں گے، اور میں چاہتا ہوں کہ اس گھاٹی سے عبورکرنے کے لئے تمہارے بوجھ کو ہلکا کردوں “(۲)

البتہ حدیث جو پیغمبر اکرم سے نقل ہوئی ہے زیر بحث آیت کی تفسیر کے عنوان سے نہیں ہے ، لیکن مفسرین نے اس سے یہی سمجھا ہے ، لیکن ایسا سمجھنا ، اس تفسیر کی طرف توجہ کرتے ہوئے جو صراحت کے ساتھ آیات میں آئی ہے ، مناسب دکھا ئی نہیں دیتا ، مگر یہ کہ مراد یہ ہو کہ قیامت کی دشوار گزار گھاٹیاں اس جہاں کی سخت اور سنگین اطاعتوں کا تجسم ہیں ، اور ان سے عبور کرنا ان اطاعتوں سے عبور کرنے کی فرع ہے ( غور کیجئے) ۔

یہاں پر” اقتحم “ کی تعبیر جو ” اقتحام “ کے مادہ سے ہے ، قابل توجہ ہے ، جو اصل میں سخت اور خوفناک کام میں داخل ہونے کے معنی میں ہے ۔ ( مفر دات راغب) یا کسی چیز میں داخل ہونا یا اس کے پاس سے شدت و مشقت سے گزرنا ہے ( تفسیر کشاف) اور یہ چیز بتاتی ہے کہ اس گھاٹی سے گزرنا کوئی آسان کام نہیں ہے ۔ اور یہ اس بات پر ایک تاکید ہے جو سورہ کے آغاز میں آئی ہے ، جس میں فرماتا ہے : ” ہم نے انسان کو دکھ اور تکلیف میں پید اکیا ہے ، اور اس کی زندگی بھی دکھ اور رنج و تکلیف سے توأم ہے اور پروردگار کی اطاعت کرنا بھی بہر حال کوئی آسان کام نہیں ہے “۔

امیر المومنین علیہ السلام کے ایک ارشاد میں آیاہے :”ان الجنة حفت بالمکاره و ان النار حفت بالشهوات

” بے شک جنت سختیوں کے درمیان گھری ہوئی ہے ، اور دوزخ شہوات کے درمیان گھری ہوئی ہے ۳

چند قابل ِ توجہ نکات

۱ ۔ ”( فک رقبة ) “ سے مراد ظاہراًوہی غلاموں کو آزاد کرنا ہے ۔

ایک حدیث میں آیا ہے کہ ایک اعرابی پیغمبر کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی ، اے رسول ِ خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم مجھے کوئی ایسا عمل تعلیم کیجئے کہ جو مجھے جنت میں داخل کرے ، آپ نے فرمایا:

ان کنت اقصرت الخطبة لقد عرضت المسألة “۔

” اگر چہ تونے بات تو مختصر کی ہے ، لیکن ایک بہت بڑے مطلب کا سوال کیا ہے “ ۔ ( یا یہ کہ اگر چہ تونے مختصر سی بات کی ہے ، لیکن تونے اپنے مقصود کو اچھی طرح سے بیان کیاہے )۔

اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: ”اعتق النسمة و فک رقبة “ ” غلاموں کو آزادکر اور گردنوں کو ( طوق غلامی سے ) رہائی دے ۔

راوی سوال کرتا ہے ، کیا یہ دونوں چیزیں ایک ہی نہیں ہیں ؟

آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: ” نہیں ! پہلے سے میری مراد یہ ہے کہ مستقل طور پر آزاد کردے ،اور دوسرے سے میری مراد یہ ہے کہ تو اس کی قیمت کی ادائیگی میں امداد کرے تاکہ وہ آزاد ہوجائے ۔

اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا:

و الفیء علی ذی الرحم الظالم ، فان لم یکن ذالک فاطعم الجائع ، واسق الظمأن، و امر بالمعروف و انه عن المنکر ، فان لم تطق ذالک فکف لسانک الامن الخیر “۔

” ان رشتہ داروں کی طرف جنہوں نے تجھ سے قطع رحمی کی ہے اور تجھ پر ظلم کیا ہے ، لوٹ جا ( اور ان سے نیکی کر ) اور اگر اس قسم کا کام ممکن نہ ہو تو پھربھوکوں کو کھانا کھلا اور پیاسوں کو پانی پلا،اور ا مر بالمعروف او رنہی از منکر اور اگر تجھ میں اس کام کے کرنے کی بھی طاقت نہیں ہے تو کم از کم اپنی زبان نیکی کے علاوہ کسی چیز کے لئے نہ کھول ،(۴)

۲ ۔ بعض مفسرین نے ”( فک رقبة ) “ کو اپنی گردن کو گناہوں کے بارسے تو بہ کے ذریعہ آزاد کرنے ، یا خود کو اطاعتوں کے ذریعے عذابِ الہٰی سے آزادکرنے کے معنی میں سمجھا ہے ، لیکن ان آیات کی طرف توجہ کرتے ہوئے جو اس کے بعد آئی ہیں ، اور یتیم و مسکین کے بارے میں وصیت کررہی ہیں ، ظاہراً اس سے مراد وہی غلامی کو آزاد کرنا ہی ہے۔

۳ ۔ ”( مسغبة ) “” سغب“ ( بروزن غضب) کے مادہ سے بھوک کے معنی میں ہے ، اس بناپر ”( یوم ذی مسغبة ) “ بھوک کے دن کے معنی میں ہے ، اگر بھو کے افراد انسانی معاشروں میں رہتے ہیں ،لیکن یہ تعبیر قحط رسانی اور خشک سالی اور اسی قسم کے دنوں میں کھاناکھلانے کی ایک تاکید ہے ، جو اس موضوع کے اہمیت کی بناء پر ہے ، ورنہ تو بھوکوں کو کھاناکھلانا ہمیشہ افضل اعمال سے رہاہے اورہے ۔

ایک حدیث میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم آیاہے :

من اشبع جائعاً فی یوم سغب ادخله الله یوم القیامة من باب من ابواب الجنة لایدخلها الامن فعل مثل مافعل “۔

” جو شخص کسی بھوکے کو قحط کے دنوں میں پیٹ بھرکھانا کھلائے گا تو خدا اس کو قیامت میں جنت کے دروازوں میں سے اس دروازے سے داخل کرے گا جس سے کوئی دوسرا داخل نہیں ہوگا سوائے اس شخص کے جس نے اس جیسا عمل انجام دیا ہوگا ۔(۵)

۴ ۔ ”( مقربة ) “ قرابت اور رشتہ داری کے معنی میں ہے اور یتیم رشتہ داروں کے بارے میں تاکیدبھی ان کی اولویت کی بناپر ہے ، ورنہ تمام یتیموں کو کھانا کھلانا اور ان پر نوازش کرنا چاہئیے۔ یہ جو خاص طور پر اس زمانے میں رشتہ دار یتیموں کے بارے میں زیادہ سخت ذمہ داری رکھتے ہیں ۔

اس سے قطع نظر وہ غلط فائدے، جو خاص طور پر اس زمانے میں رشتہ دار یتیموں کے اموال سے اٹھائے جاتے تھے ، تقاضا کرتے ہیں کہ اس دشوار گزارگھاٹی کے بارے میں ایک خاص قسم کی تنبیہ کی جائے ۔ ابو الفتوح رازی کا نظر یہ یہ ہے کہ ” مقربہ“ ” قرابت کے مادہ سے یہیں ہے ، بلکہ” قرب“ کے مادہ سے ہے اور ایسے یتیموں کی طرف اشارہ ہے جن کے پہلو بھوک کی شدت سے ایک دوسرے سے چمٹے ہوئے ہیں ۔(۶) لیکن یہ تفسیر بعید نظر آتی ہے ۔

۵ ۔ ”( متربة ) “ مصدر میمی ہے ” ترب“ ( بروزن طرب) کے مادہ سے جو اصل میں ” تراب“ بمعنی ” خاک “ سے لیا گیا ہے ۔ اور اس شخص پر بولا جاتا ہے جو فقر و فاقہ کی شدت کی بناء پر خاک نشین ہوگیا ہو ، پھر یہ تاکید اس قسم کے مساکین کے لئے ان کی اولیت کی بناء پر ہے ، ورنہ تمام مساکین کو کھانا کھلانا اعمال حسنہ میں سے ہے ۔

ایک حدیث میں آیاہے :

” امام علی بن موسیٰ رضا علیہ السلام جب کھانا کھانا چاہتے تھے تو یہ حکم دیتے تھے کہ ایک بہت بڑی سینی دستر خوان کے پاس رکھ دی جائے ، اور دسترخوان پر جتنے کھانے ہوتے تھے ان میں سے بہترین کھانااٹھا کر اس سینی میں ڈال دیتے تھے اور پھر حکم دیتے تھے کہ وہ حاجت مندوں کو دے دیں ، پھر آپ اس آیت کی تلاوت فرماتے :”( فلا اقتحم العقبة )

اس کے بعد مزید فرماتے: خدا وند تعالیٰ جانتا تھا کہ سب لوگ غلاموں کو آزاد کرنے پر قادرنہیں ہیں لہٰذ ااپنی بہشت کی طرف ایک اور راستہ بھی قرار دیا ہے “۔(۷)

بعد والی آیت میں ، اس تفسیر کو جاری رکھتے ہوئے ، جو اس دشوار گزار گھاٹی کے لئے یہاں فرمائی ہے ، مزید کہتا ہے : ” پھر وہ ایسے لوگوں میں سے ہوجو ایمان لائے ہیں ، اور ایک دوسرے کو صبر و استقامت اور رحم کرنے کی وصیت کرتے ہیں “۔( ثم کان من الذین اٰمنوا و تواصوا بالصبر و تواصوبالمرحمة ) ۔

اس طرح سے وہ لوگ اس دشوار گزار گھاٹی سے عبور کر لیں گے ، جو صاحب ایمان بھی ہوں اور صبر کی دعوت کرنے اور عواطفِ انسانی جیسے اعلیٰ اخلاق بھی رکھتے ہوں اور انہوں نے غلاموں کو آزاد کرنے میں اور یتیموں اور مسکینوں کو کھانا کھلانے جیسے اعمال صالح بھی انجام دیئے ہوں ۔

یا دوسرے لفظوں میں وہ تین میدانوں ، ایمان ، اخلاق اور عمل میں قدم رکھیں اور اس سے سر بلند و سرفراز ہو کر نکلیں یہی ہیں وہ لوگ جو اس قسم کی دشوار گزار گھاٹی کو عبور کرلیں گے ۔

” ثم “ ( بعد) کی تعبیر ہمیشہ ہی تاخیر زمانی کے معنی میں نہیں ہوتی کہ اس کلام کا لازمہ یہ ہو کہ پہلے کھانا کھلائیں اور انفاق کریں اس کے بعد ایمان لائیں ، بلکہ اس قسم کے موارد میں ۔ جیسا کہ مفسرین کی ایک جماعت نے تصریح کی ہے ۔ مقام کی بر تری کے بیان کے لئے ہے کیونکہ مسلمہ طور پر ایمان کا رتبہ ، اور صبر و مرحمت کی وصیت کرنے کا مرتبہ ، حاجت مندوں کی مدد کرنے کے مرتبہ سے بالاتر ہے ، بلکہ اعمال صالح کا سرچشمہ ایمان اور اخلاق ہی ہیں اور ان سب کی جڑ بنیاد اعتقادات اور اعلیٰ اخلاق میں ہی تلاش کرنا چاہئیے ۔

بعض نے یہ احتمال بھی دیا ہے کہ ” ثم “ یہاں تاخیر زمانی کے معنی میں ہے ، کیونکہ بعض اوقات اعمال ِ صالح ایمان کی طرف جھکاو کا سر چشمہ بن جاتے ہیں اور خاص طور پر اخلاق کی بنیادوں کو محکم کرنے میں مو ثر واقع ہوتے ہیں ، کیونکہ انسان کا خلق و خو پہلے ” فعل “ کی صورت میں ہوتا ہے ، اس کے بعد ” حالت“ کی صورت میں اور پھر ” عادت“ بن جاتا ہے اور اس کے بعد وہ ایک ” ملکہ“ کی صورت اختیار کرلیتا ہے ۔

( تواصوا ) “ کی خبر تعبیر جس کا مفہوم ایک دوسرے کو وصیت اور سفارش کرنا ہے ، ایک اہم نکتہ اپنے اندر لیئے ہوئے ہے اور وہ یہ ہے کہ پر وردگار کی اطاعت کی راہ میں صبر و استقامت اور ہوائے نفس سے مبارزہ و مقابلہ جیسے اہم مسائل ، اور اسی طرح اصل محبت و مرحمت کو تقویت دینا معاشرے میں انفرادی صورت میں نہیں ہونے چاہیئے ، بلکہ اسے ایک عمومی صورت میں سارے معاشرے میں جاری ہونا چاہئیے اور سب افراد ہی ایک دوسرے کو اس ” اصول “ کی رعایت و حفاظت کرنے کی وصیت کریں تاکہ اس طریقہ سے اجتماعی تعلقات اور زیادہ محکم سے محکم ہوں ۔

بعض نے کہا ہے کہ ” صبر“ یہاں فرمان خدا کی اطاعت میں استقامت اور اس کے اوامر میں اہتمام کرنے کے معنی میں ہے اور ” مرحمت“ مخلوق ِ خدا کے لئے محبت کی طرف اشارہ ہے اور ہم جانتے ہیں کہ خالق و مخلوق سے ارتباط ہی دین کی اساس و بنیاد ہے ، بہر حال صبر و استقامت ہی ہر قسم کی اطاعت و بندگی اور گناہ وعصیان کے ترک کرنے کی اصل و بنیاد ہے ۔ اور ان اوصاف کے آخر میں اس اوصاف کے حاملین کے اوصاف کو اس طرح بیان فرماتا ہے : ” وہ اصحاب یمین ہیں “( اولٰئِک اصهابالمیمنة ) ۔

اور ان کا نامہ اعمال بارگاہ دخدا وندی میں قبول ہونے کی نشانی اور علامت کے طور پر ان کے دائیں ہاتھ میں دیا جائے گا۔

یہ احتمال بھی دیا گیا ہے کہ ” میمنہ“ ” یمن “ کے مادہ سے ہے ۔ یعنی وہ صاحبان ِ بر کت ہیں اور ان کا وجود خود ان کے لئے بھی برکت ہے اور معاشرے کے لئے بھی۔

اس کے بعد اس گروہ کے نقطہ مقابل یعنی ان لوگو ں کا بیان کرتے ہوئے ، جو اس دشوار گزار گھاٹی سے نہیں گزرے فرماتاہے :

وہ لوگ جنہوں نے ہماری آیات کا انکار کردیا ، ایسے بد بخت اور شوم ہیں کہ ان کا نامہ اعمال ان کے بائیں ہاتھ میں دیا جائے گا “۔( و الذین کفروا باٰیاتنا هم اصحاب المشئمة ) ۔

اور یہ اس با ت کی نشانی ہے کہ ان کے ہاتھ حسنات اور نیکیوں سے خالی ہے اور ان کا نامہ اعمال سیئات اور برائیوں سے سیاہ ہے ۔

” مشئمة“ ” شوم “ کے مادّہ سے ” میمنة “ کا جو ” یمن “ کے مادہ سے ہے ، نقطہ مقابل ہے ، یعنی یہ کافر گروہ شوم ، بد بخت او رنامبارک افراد ہیں جو اپنی بد بختی کا سبب بھی ہیں اور معاشرے کی بد بختی کا بھی ، لیکن چونکہ قیامت میں بد بخت و شوم ہونا اور مبارک ہونا اس چیز سے پہچانا جائے گا کہ ان کا نامہ اعمال ان کے بائیں یا دائیں ہاتھ میں ہوگا ، لہٰذا بعض نے اس تفسیر کو اسی وجہ سے پسند کیا ہے ، خصوصاً جب کہ شوم کا مادہ لغت میں بائیں طرف کے جھکاو کے معنی میں بھی آیاہے ۔(۸)

اس سورہ کی آخری آیت میں آخری گروہ کی سزا کی طرف ایک مختصر اور پر معنی اشارہ کرتے ہوئے فرماتاہے : ان کے اوپر آگ ہے ، جو انہیں ہر طرف سے گھیرے ہوئے ہے ، جس سے فرار کی کوئی راہ نہیں ہے “۔( علیهم نار مو صدة ) ۔

( موصدة ) “ ”ایصاد “ کے مادہ سے دروازہ کو بند کرنے اور اسے محکم کرنے کے معنی میں ہے ۔ یہ بات کہے بغیر واضح ہے کہ انسان اس کمرے میں جس کی فضا گرم ہو یہ چاہتا ہے کہ اس کے در وازہ کو بند کرنے اور اسے محکم کرنے کے معنی میں ہے ۔ یہ با ت کہے بغیروا ضح ہے کہ انسان اس کمرے میں جس کی فضا گرم ہو یہ چاہتا ہے کہ اس کے دروازوں کو کھول دے ، تاکہ تازہ ہوا آئے اور فضا کی گرمی کو معتدل کردے۔

اب سوچنا چاہئیے کہ دوزخ کی جلانے والی بھٹی میں ، جب کہ تمام دروازے بند ہو جائیں ، کیا حالت پید اہوگی ؟

خدا وندا ! ہمیں اس قسم کی جان گذار عذاب سے اپنے لطف و کرم کی پناہ میں محفوظ رکھنا۔

پروردگارا ! ان گھاٹیوں سے گزرنا جو ہمارے سامنے ہیں ، تیری توفیق کے بغیر ممکن نہیں ہے ۔ تو اپنی توفیق کو ہم سے نہ روکنا ۔

بار الہٰا ! ہمیں اصحاب میمنہ کی صف میں جگہ دینا اور نیک اور ابرار لوگوں کے ساتھ محشور فرمانا ۔

آمین یا رب العالمین

____________________

۱۔ ظاہر یہ ہے کہ اس جملہ میں ” لا‘ ” نافیہ “اور ” خبریہ “ ہے اور یہ جو بعض نے اسے نفرین یا استفہام کے معنی میں سمجھا ہے ، بہت بعید نظر آتا ہے ۔ وہ واحد اعتراض جو یہاں موجود ہے یہ ہے کہ جب انسان فعل ماضی پر ” لا “ آتا ہے تو عام طور پر اس کا تکرار ہوتا ہے ، جیسا کہ سورہ قیامت کی آیت ۳۱ میں آیاہے کہفلا صدّق و لا صلی :( نہ تو اس نے صدقہ دیا اور نہ ہی نمازپڑھی) جب کہ زیر بحث آیت میں ” لا“ کا تکرار نہیں ہوا، لیکن جیسا کہ مرحوم ” طبرسی“ نے ” مجمع البیان “ میں نقل کیا ہے کہ بعض اوقات یہ تکرار کے بغیر بھی استعمال ہوتا ہے ”فخر رازی “ اور” قرطبی “ نے اپنی تفاسیر میں بعض عربی ادب کے بزرگوں سے نقل کیا ہے کہ اگر ” لا“ لم“ کے معنی میں ہوتو پھر تکرار کی ضرورت نہیں ہے ، یہ احتمال بھی دیا ہے کہ یہاں تقدیر میں تکرار ہوا ہے :فلا اقتحم العقبة ولا فک رقبة ولا اطعام فی یوم ذی مسغبة

۲۔ مجمع البیان جلد۱۰ص ۴۹۵

۳-نهج البلاغه»، خطبه ۱۷۶.

۴۔ ” نو ر الثقلین “ جلد ۵ ص ۵۸۳۔

۵۔” مجمع البیان “جلد۱۰ ص۴۹۵۔

۶۔ ” تفسیر ابو الفتوح رازی ، جلد۱۲ ص۹۶۔

۷۔۔ کافی مطابق نقل تفسیر المیزان ، جلد۲۰ ، ص ۴۲۴۔

۸۔ تفسیر ابو الفتوح رازی جلد ۱۲ ص ۹۷ اور المنجد مادہ ” شأم “ ۔

سورہ الشمس

یہ سورہ مکہ میں نازل ہوا ۔اس کی ۱۵ آیات ہیں ۔

سورہ الشمس اور اس کی فضیلت

یہ سورہ جوحقیقت میں ” تہذیب ِ نفس“ اور دلوں کو آلائشوں اور ناپاکیوں سے پاک کرنے والا سورہ ہے ، اسی معنی کے محور پر گر دش کرتاہے البتہ اس سورہ کے آغاز میں ۔ اس مطلب کوثابت کرنے کے لئے کہ فلاح و رست گاری تہذیبِ نفس کی مرہون منت ہے ، عالم ِخلقت کے گیارہ اہم موضوعات اور خدا کی ذاتِ پاک کی قسم کھائی گئی ہے ۔ اور قرآ ن مجید کی بیشتر قسموں کو مجموعی طور پر اپنے اندر سمو لیا ہے ۔

اور سورہ کے آخر میں باغی اور سر کش قوموں میں سے ایک کا ذکر ” جو تہذیب نفس کو ترک کرنے کی بناء پر ابدی او ر دائمی شقاوت و بد بختی میں ڈوب گئی تھی، اور خدا نے اسے شدید عذاب میں گرفتار کیا تھا ، یعنی قوم ” ثمود “ ۔ بطور نمونہ پیش کرتا ہے ، اور ایک مختصر سے اشارہ کے ساتھ ان لوگوں کی سر نوشت کی طرف اشارہ کرتا ہے ۔

حقیقت میں یہ مختصر سا سورہ بشرکی زندگی کے سر نوشت ساز مسائل میں سے ایک اہم ترین مسئلہ کو موضوع بناتا ہے اور انسانوں کے لئے اسلام کے قابل قدر نظام کو مشخص کرتاہے ۔

فضیلت تلاوت

یہ سورہ جوحقیقت میں ” تہذیب ِ نفس“ اور دلوں کو آلائشوں اور ناپاکیوں سے پاک کرنے والا سورہ ہے ، اسی معنی کے محور پر گر دش کرتاہے البتہ اس سورہ کے آغاز میں ۔ اس مطلب کوثابت کرنے کے لئے کہ فلاح و رست گاری تہذیبِ نفس کی مرہون منت ہے ، عالم ِخلقت کے گیارہ اہم موضوعات اور خدا کی ذاتِ پاک کی قسم کھائی گئی ہے ۔ اور قرآ ن مجید کی بیشتر قسموں کو مجموعی طور پر اپنے اندر سمو لیا ہے ۔

اور سورہ کے آخر میں باغی اور سر کش قوموں میں سے ایک کا ذکر ” جو تہذیب نفس کو ترک کرنے کی بناء پر ابدی او ر دائمی شقاوت و بد بختی میں ڈوب گئی تھی، اور خدا نے اسے شدید عذاب میں گرفتار کیا تھا ، یعنی قوم ” ثمود “ ۔ بطور نمونہ پیش کرتا ہے ، اور ایک مختصر سے اشارہ کے ساتھ ان لوگوں کی سر نوشت کی طرف اشارہ کرتا ہے ۔

حقیقت میں یہ مختصر سا سورہ بشرکی زندگی کے سر نوشت ساز مسائل میں سے ایک اہم ترین مسئلہ کو موضوع بناتا ہے اور انسانوں کے لئے اسلام کے قابل قدر نظام کو مشخص کرتاہے ۔

اس سورہ کی فضیلت کے بارے میں بس اتنا ہی کافی ہے کہ ایک حدیث میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے آیاہے :”من قرأها فکانما تصدق بکل شیء طلعت علیه الشمس و القمر

” جو شخص اس سورہ کو پرھے گا تو گویا اس نے ان تمام چیزوں کو تعداد میں جن پر سورج اور چاند طلوع کرتے ہیں ، صدقہ دیا ہے ۔(۱)

اور مسلّمہ طور پر یہ عظیم فضیلت اس شخص کے لئے ہے ، جو اس چھوٹے سے سورہ کے عظیم مطالب پر دل و جا ن سے عمل کرے اور تہذیب نفس کو اپنا قطعی وظیفہ سمجھے ۔

____________________

۱۔ ” مجمع البیان “ جلد ۱۰، ص ۴۹۶۔

ائمہ معصو مین علیہم السلام کی زندگی کا ایک مختصر جائزہ

حضرت امام علی علیہ السلام

(مسلمانوں کے پہلے امام )

حضرت امیرالمومنین علی بن ابیطالب علیہ السلام پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیم وتربیت کے پہلے کامل نمونہ تھے ۔

علی علیہ السلام نے بچپن سے ہی پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دامن میں پرورش پائی تھی ،اس کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی کے آخری لمحہ تک ایک سایہ کے مانند ساتھ ساتھ رہے اورآپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی شمع وجود کے گرد پروانہ کی طرح پرواز کرتے رہے ۔جب آخری بارآپ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے جدا ہوئے ،یہ وہ لمحہ تھا جب آپ نے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے جسد مطہر کوآغوش میں لے کر سپرد خاک کیا۔

حضرت علی علیہ السلام ایک عالمی شخصیت ہیں ۔دعوی کے ساتھ یہ کہا جاسکتا ہے کہ جتنی گفتگو اس عظیم شخصیت کے بارے میں ہوئی ہے ،اتنی کسی بڑے سے بڑے عالمی شخصیت کے بارے میں نہیں ہوئی ہے ۔شیعہ وسنی اور مسلم وغیر مسلم دانشوروں اور مصنفوں نے حضرت علی علیہ السلام کی شخصیت کے بارے میں ایک ہزارسے زائد کتا بیں تالیف کی ہیں ۔آپ کے بارے میں دوست ودشمن بے شمار تحقیق اور کھوج کے باوجود آپ کے ایمان میں کسی قسم کا کمزور نقطہ پیدانہیں کر سکے یاآپ کی شجاعت،عفت،معرفت،عدالت اور دوسرے تمام پسندیدہ اخلاق کے بارے میں شمّہ برابر نقص نہیں نکال سکے ،کیونکہ آپ ایک ایسے شخص تھے ،جوفضیلت وکمال کے علاوہ کسی چیز کو نہیں پہچانتے تھے اوراسی طرح آپ میں فضیلت وکمال کے علاوہ کوئی چیز نہیں پائی جاتی تھی ۔

تاریخ گواہ ہے کہ ،پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحلت سے آج تک جتنے حکّام نے اسلامی معاشرہ میں حکومت کی ان میں صرف حضرت علی علیہ السلام ایسے ہیں کہ جنہوں نے اسلامی معاشر ہ پر اپنی حکومت کے دوران پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت پر پوری طرح عمل کیا اور آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی روش سے ذرہ برابر منحرف نہیں ہوئے اوراسلامی قوانین اورشریعت کو کسی قسم کے دخل وتصرف کے بغیر اسی طرح نافذ کیا ،جس طرح پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیات میں نافذ ہوئے تھے ۔

دوسرے خلیفہ کی وفات کے بعد نئے خلیفہ کو معین کرنے کے لئے خلیفہ دوم کی وصیت کے مطابق جو چھ رکنی کمیٹی بنا ئی گئی تھی ، اس میں کافی گفتگو کے بعد خلافت کا مسئلہ علی اور عثمان کے درمیان تذبذب میں پڑاعلی کو خلافت کی پیشکش کی گئی ،لیکن اس شرط پرکہ ''لوگوں میں خلیفہ اول اور دوم کی سیرت پر عمل کریں''حضرت علی نے ان شرائط کوٹھکراتے ہوئے فرمایا:''میں اپنے علم سے ایک قدم بھی آگے نہیں بڑھوں گا۔''

اس کے بعدوہی شرائط عثمان کے سامنے رکھی گئیں ،انہوں نے قبول کیا اور خلافت حاصل کی ،اگر چہ خلافت ہاتھ میں آنے کے بعددوسری سیرت پر عمل کیا ۔

علی علیہ السلام نے راہ حق میں جن جاں نثاریوں،فداکاریوں اورعفو وبخشش کا مظاہرہ کیا ہے ان میں آپ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اصحاب میں بے نظیر تھے ۔اس حقیقت سے ہرگزانکار نہیں کیاجاسکتا ،کہ اگراسلام کا یہ جاں نثار اور سورمانہ ہوتا ،توکفارو مشرکین ہجرت کی رات کو،اس کے بعد بدرواحد،خندق وخیبر وحنین کی جنگوں میں نبوت کی شمع کوآسانی کے ساتھ بجھا کر حق کے پر چم کو سر نگوں کر دیتے۔

علی علیہ السلام نے جس دن سماجی زندگی میں قدم رکھا ،اسی لمحہ سے انتہائی سادہ زندگی گزارتے تھے ،پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیات میں ،آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رحلت کے بعد ، یہاں تک کہ اپنی با عظمت خلافت کے دنوں میں فقیروں اور پسماندہ ترین افراد جیسی زندگی بسر کرتے تھے ،خوراک ،لباس اور مکان کے لحاظ سے معاشرہ کے غریب ترین افراد میں اور آپ میں کوئی فرق نہیں تھا اور آپ فرماتے تھے ۔

''ایک معاشرے کے حاکم کواس طرح زندگی بسر کرنی چاہئے کہ ضرورت مندوں اور پریشان حال افراد کے لئے تسلی کاسبب بنے نہ ان کے لئے حسرت اور حوصلہ شکنی کا باعث ہو۔''(۱)

علی علیہ السلام اپنی زندگی کی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے محنت و مزدوری کرتے تھے، خاص کر کھیتی باڑی سے دلچسپی رکھتے تھے ،درخت لگا تے تھے اور نہر کھو دتے تھے ،لیکن جو کچھ اس سے کماتے تھے یا جنگوں میں جومال غنیمت حاصل کرتے تھے ،اسے فقرا اورحاجتمندوں میں تقسیم کرد یتے تھے ۔جن زمینوں کو آباد کرتے تھے انھیں یا وقف کرتے تھے یا ان کو بیج کر پیسے حاجتمندوں کو دیتے تھے ۔اپنی خلافت کے دوران ایک سال حکم دیا کہ آپ کے اوقاف کی آمدنی کو پہلے آپ کے پاس لایا جائے پھرخرچ کیا جائے۔جب مذکورہ آمدنی جمع کی گئی تو یہ سونے کے ٢٤ ہزاردینار تھے ۔

علی علیہ السلام نے اتنی جنگوں میں شرکت کی لیکن کبھی کسی ایسے دشمن سے مقابلہ نہ کیا جسے موت کے گھاٹ نہ اتار دیا ہو ۔آپ نے کبھی دشمن کو پیٹھ نہ دکھائی اور فرماتے تھے :

''اگر تمام عرب میرے مقابلہ میں آ جائیں اور مجھ سے لڑیں تو بھی میں شکست نہیں کھا ئوں گا اور مجھے کوئی پروا نہیں ہے ۔''

علی علیہ السلام ایسی شجاعت وبہادری کے مالک تھے کہ دنیا کے بہادروں کی تاریخ آپ کی مثال پیش نہ کرسکی ،اس کے باوجود آپ انتہائی مہر بان،ہمدرد،جوانمرد اور فیاض تھے۔ جنگوں میں عورتوں ،بچوںاور کمزوروں کو قتل نہیں کرتے تھے اور ان کو اسیر نہیں بناتے تھے بھاگنے والوں کا پیچھا نہیں کرتے تھے۔

جنگ صفین میں معاویہ کے لشکرنے سبقت حاصل کر کے نہرفرات پر قبضہ کرلیا اور آپ کے لشکر پر پانی بند کر دیا ،حضرت علی علیہ السلام نے ایک خونین جنگ کے بعدنہر سے دشمن کا قبضہ ہٹا دیا،اس کے بعد حکم دیا کہ دشمن کے لئے پانی کاراستہ کھلا رکھیں ۔

خلافت کے دوران کسی رکاوٹ اوردربان کے بغیر ہر ایک سے ملاقات کر تے تھے اورتنہااورپیدل راستہ چلتے تھے ،.گلی کوچوں میں گشت زنی کرتے تھے اور لوگوں کو تقوی کی رعایت کرنے کی نصیحت فرماتے تھے اور لوگوں کو ایک دوسروں پرظلم کرنے سے منع کرتے تھے ،بے چاروں اوربیوہ عورتوں کی مہر بانی اور فروتنی سے مدد فرماتے تھے ۔یتیموں اورلاوارثوں کو اپنے گھر میں پالتے تھے ،ان کی زندگی کی ضرورتوں کو ذاتی طور پر پورا کرتے تھے اوران کی تربیت بھی کرتے تھے ۔

حضرت علی علیہ السلام علم کو بے حد اہمیت دیتے تھے اورمعارف کی اشاعت کے میں خاص توجہ دیتے تھے ،اور فرماتے تھے:

''نادانی کے مانند کوئی درد نہیں ہے''(۲)

جمل کی خونین جنگ میں آپ اپنے لشکر کی صف آرائی میں مشغول تھے ،ایک عرب نے سامنے آ کر''توحید''کے معنی پوچھے۔لوگ ہر طرف سے عرب پر ٹوٹ پڑے اور اس سے کہاگیا ایسے سوالات کا یہی وقت ہے؟!حضرت نے لوگوں کو اعرابی سے ہٹاکر فرمایا :

''ہم لوگوں سے ان ہی حقائق کو زندہ کرنے کے لئے لڑ رہے ہیں ''(۳)

اس کے بعد اعرابی کواپنے پاس بلایا ،اپنے لشکرکی صف آ رائی کرتے ہوئے اعرابی کو ایک دلکش بیان سے مسئلہ کی وضاحت فرمائی ۔

اس قسم کے واقعات حضرت علی علیہ السلام کے دینی نظم وضبط اور ایک حیرت انگیزخدائی طاقت کی حکایت کرتے ہیں ۔جنگ صفین کے بارے میں مزید نقل کیا گیا ہے کہ ،جب دو لشکر دو تلاطم دریائوں کے مانند آپس میں لڑرہے تھے اور ہر طرف خون کادریا بہہ رہاتھا۔ توحضرت اپنے ایک سپاہی کے پاس پہنچے،اس سے پینے کے لئے پانی مانگا۔

سپاہی نے لکڑی کا ایک پیالہ نکالااوراس میں پانی بھر کے پیش کیا ،حضرت نے اس پیالہ میں ایک شگاف مشاہدہ کیا اور فرمایا :''ایسے برتن میں پانی پینااسلام میں مکروہ ہے۔''

سپاہی نے عرض کی :اس حالت میں کہ جب ہم ہزاروںتیروں اور تلواروںکے حملہ کی زد میں ہیں اس قسم کی دقت کرنے کا موقعہ نہیں ہے !

اس سپاہی کو آپ نے جوجواب دیا،اس کا خلاصہ یہ ہے:''ہم ان ہی دینی احکام و قوانین کو نافذکر نے کے لئے لڑ رہے ہیں اور احکام چھوٹے بڑے نہیں ہوتے ہیں''

اس کے بعد حضرت نے اپنے دونوں ہاتھوں کو ملاکر سامنے کیا اورسپاہی نے پیالہ میں بھرا پانی آپ کے ہاتھوں میں ڈال دیا ۔

حضرت علی علیہ السلام پیغمبر اسلام کے بعدایسے پہلے شخص ہیں کہ جنہون نے علمی حقائق کو فلسفی طرز تفکر ،یعنی آزاداستدلال میں بیان فرمایااور بہت علمی اصطلا حیں وضع کیں اور قرآن مجید کی غلط قرأت اورتحریف سے حفاظت کے لئے عربی زبان کے قو ا ئد ''علم نحو'' وضع کئے اور ان کو مرتب کیا ۔

آپ کی تقریروں ،خطوط اوردیگرفصیح بیانات میں ،معارف الہی،علمی،اخلاقی ،سیاسی یہاں تک کہ ریاضی کے مسائل میں جوباریک بنیی پائی جاتی ہے ، یقینا وہ حیرت انگیزہیں۔

امام علی علیہ السلام کے فضائل کا خلاصہ

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی علیہ السلام کو چھ سال کی عمر میں حضرت ابوطالب کے یہاں سے اپنے گھر لے آئے اور ان کی پرورش اپنے ذمہ لے لی۔حضرت علی علیہ السلام اسی دن سے ایک سایہ کے مانند پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ساتھ رہے اورآنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے آخری بار اس وقت جدا ہوئے ،جب آپ نے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے جسد مطہر کوسپرد خاک کیا۔

حضرت علی علیہ السلام پہلے کامل نمونہ ہیں جو پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی تعلیم وتربیت کے مکتب میں پروان چڑھے ۔آپ پہلے شخص ہیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان لائے اور آپ ہی سب سے آخر میں حضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے جدا ہوئے ۔

بعثت کے پورے زمانہ میں جو خدمات حضرت علی علیہ السلام نے خدا کے دین کے لئے انجام دیئے ،دوست ودشمن گواہ ہیں کہ وہ خدمات کوئی اورانجام نہیں دے سکا ہے ۔

حضرت علی علیہ السلام نے اسلام کی سب سے اہم جنگوں میں شرکت فرمائی اور جنگ کے تمام خونین میدانوں میں مسلمانوں کے اندربے مثال بہادری اور کامیابی کا راز آپ ہی تھے ۔چنانچہ بڑے بڑے صحابی جنگوں میں بار ہا بھاگ جاتے تھے ،لیکن آپ نے کبھی دشمن کو پیٹھ نہیں دکھائی اور کوئی حریف آپ کی تلوار کی وار سے بچ نہ سکا ۔اس بے نظیر شجاعت ،جوضرب المثل بن چکی تھی ،کے باوجودآپ ہمدرداورمہر بان تھے ،کبھی اپنے زخمی دشمن کوقتل نہیں کرتے تھے اور جنگ سے بھاگنے والوں کاپیچھا نہیں کرتے تھے ۔

حضرت علی علیہ السلام ،اپنی تقریروں،کلمات قصار اور اپنے گوہربار بیانات،جویاد گار کے طورپر مسلمانوں کے پاس موجود ہیں ،کے اعتبار سے مسلمانوں میں قرآن مجید کے بلند مقاصد کے بارے میں معروف ترین شخص ہیں ۔آپ نے اسلام کے اعتقادی و علمی معارف کو کما حّقہ حاصل کر کے حدیث شریف:

''انا مدینةالعلم وعلی بابها'' (۴)

کوثابت کردیا اوراس علم کوعملی جا مہ پہنایا ۔ حضرت علی علیہ السلام کا دینداری، عفت نفس اورزھدوتقویٰ میں کوئی نظیر نہیں تھا۔آپ اپنے معاش کے لئے روزانہ محنت ومشقت کرتے تھے ، بالخصوص زراعت کو بہت پسند کرتے تھے ۔بنجر زمینوں کوآباد کرتے تھے ،نہریں کھودتے تھے ،درخت لگاتے تھے،جس جگہ کو آباد کرتے اسے مسلمانوںکے لئے وقف کر دیتے تھے یا اس کو بیچ کر پیسے فقراء میں تقسیم کر دیتے تھے اورخود نہایت زھدوقناعت کے ساتھ فقیرانہ زندگی گزارتے تھے۔ جس دن شہید ہوئے ۔باوجوداس کے کہ تمام اسلامی ممالک کے فرمانروا تھے ۔آپ کی پونجی صرف سات سودرہم تھی جنھیں آپ اپنے گھر کے لئے ایک خدمت گار پرصرف کرنا چاہتے تھے۔

حضرت علی علیہ السلام کی عدالت ایسی تھی کہ خداکے احکام کے نفاذاور لوگوں کے حقوق کو زندہ کرنے میں ہرگز کسی طرح کے استثناء کے قائل نہیں تھے ۔آپ ذاتی طور پرگلی کوچوں میں گشت لگاتے تھے اور لوگوں کو اسلامی قوانین کی رعایت کرنے کی ترغیب دیتے تھے۔

حضرت امیرالمؤ منین کا طریقہ

چنانچہ ہم جانتے ہیں کہ پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحلت کے بعد مسلمانوں کے مسائل میں ولی ہونا،آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نص کے مطابق خدائے متعال کی طرف سے حضرت علی علیہ السلام کے لئے مخصوص تھا ،لیکن اسے انتخابی خلافت میں تبدیل کیا گیا اور اس طرح خلافت کی کرسی پر دوسرے لوگوں نے قبضہ جمایا ۔

حضرت علی علیہ السلام اورآنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چند خاص صحابیوں جیسے سلمان فارسی ،ابوذرغفاری اورمقداد اسدی نے لوگوں سے ایک اعتراض کیا لیکن انھیں مثبت جواب نہیں ملا۔

حضرت علی علیہ السلام لوگوں سے کنارہ کشی اختیار کرکے ایک مدت تک اپنے گھر میں قرآن مجیدجمع کرنے میں مصروف رہے ۔اس کے بعد کچھ خاص صحابیوںاور چنددیگرافراد کی تعلیم وتربیت میں مشغول ہوئے ۔

حضرت علی علیہ السلام کا ماضی درخشان اور بے مثال تھا ۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیات میں آپ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے وزیر اور اسلامی فتوحات کی کلید تھے .علم ودانش میں ، فیصلہ دینے میں ، سخن وری اور دیگرتمام معنوی فضائل میں آپ تمام مسلمانوں پر برتری رکھتے تھے ۔اس کے باوجودخلیفہ اول کے زمانے میں اجتماعی مسائل اور عمومی کام میں آپ سے کسی قسم کا استفادہ نہیں کیاگیا ،اس لئے آپ صرف خدا کی عبادت اور چند اصحاب کی علمی وعملی تربیت میں مشغول رہتے تھے اورایک عام انسان کی طرح زندگی گزارتے تھے ۔

خلیفہ دوم کے زمانے میں بھی کسی کام کوآپ کے حوالہ نہیں کیا جاتا تھا ،لیکن کسی حدتک آپ سے رجوع کرتے تھے اور اہم مسائل میں آپ کے نظریات سے استفادہ کیا جاتا اور آپ سے مشورہ لیا جاتاتھا ۔چنانچہ خلیفہ دوم نے بارہا کہا ہے:(اگرعلی کی رہنمائی نہ ہوتی ،توعمرہلاک ہوجاتا)۔(۵)

خلیفہ سوم کے زمانہ میں لوگوں کی توجہ آپ کی طرف زیادہ ہوئی اوراس پوری ٢٥سالہ

مدت میں آپ کی تعلیم وتربیت کادائرہ دن بدن وسیع تر ہوتاگیا یہاں تک کہ مکتب ولایت سے بالواسطہ اور بلاواسطہ تربیت پانے والوں کی ایک بڑی جماعت نے خلیفہ سوم کے قتل کے فورابعد آپ کے پاس ہجوم کیا اورآپ کوخلافت قبول کرنے پر مجبور کیا ۔

حضرت امیرالمو منین نے خلافت کی باگ ڈورسنبھالتے ہی پیغمبراسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی سیرت کو۔جیسے مدتوںسے فراموش کیاگیاتھا۔پھر سے زندہ کیا۔آپ نے مساوات اوراجتماعی عدالت نافذ کرکے تمام بیجا امتیازات کوختم کردیا۔تمام لاابالی گورنروںاورفرمانرواؤں کو معزول کردیااورانکے بیت المال سے لوٹے گئے مال ودولت اور خلیفہ کی طرف سے مختلف لوگوں کوبے حساب دی گئی جاگیروں و املاک کوضبط کیا،اور دینی ضوابط اورقوانین کی خلاف ورزی کرنے والوں کومناسب سزائیں سنائیں ۔

اثرو رسوخ رکھنے والے لیڈروںاورناجائز منافع حاصل کرنے والوں نے جب دیکھا کہ ان کے ذاتی منافعے خطرے میں پڑ رہے ہیں،توانہوں نے مخالفت کاپرچم بلند کر کے عثمان کے خو ن کابدلہ لینے کے بہانے سے داخلی خونین جنگوں کی آگ بھڑکادی جوحضرت کی مشکلات کاسبب اوراصلاحات رکھنے میں رکاوٹ بن گئیں ۔

حضرت علی علیہ السلام نے اپنی خلافت کے پانچ سالہ دور میں کمر توڑ َمشکلات کے باوجود بے شمار افراد کی تربیت کی اوراپنی تقریروں اورفصیح بیانات کے ذریعہ علمی میدان کے مختلف ہنروفنون کے گراں بہا خزانے یادگارکے طور پر چھوڑدئے ،ان میں سے ایک علم نحوکے اصولوںکا وضع کرنا ہے جو حقیقت میں عربی زبان کے قواعد وضوابط ہیں ۔

آپ کی بر جستہ شخصیت کے اوصاف ناقابل بیان ہیں ،آپ کے فضائل بے انتہا اور بے شمار ہیں ۔تاریخ ہرگز کسی ایسے شخص کو پیش نہیںکر سکتی جس نے آپ کے برابر دنیا کے دانشوروں، مصنّفوں اور متفکروں کے افکار کو اپنی طرف جذب کیا ہو۔

____________________

١۔نہج البلاغہ فیض الاسلام ،خطبہ ٢٠٠،ص٦٦٣۔

۲۔شرح غرر الحکم ،ج٢،ص٣٧٧،ح٢٨٨٢۔

۳۔ بحارالانوار،ج٣،ص٢٠٧ ،ح١۔

۴۔بحارالانوار،ج٤٠،ص٢٠١۔

۵۔بحارالانوار،ج٤٠ص٢٢٩۔

ائمہ معصو مین علیہم السلام کی زندگی کا ایک مختصر جائزہ

حضرت امام علی علیہ السلام

(مسلمانوں کے پہلے امام )

حضرت امیرالمومنین علی بن ابیطالب علیہ السلام پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیم وتربیت کے پہلے کامل نمونہ تھے ۔

علی علیہ السلام نے بچپن سے ہی پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دامن میں پرورش پائی تھی ،اس کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی کے آخری لمحہ تک ایک سایہ کے مانند ساتھ ساتھ رہے اورآپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی شمع وجود کے گرد پروانہ کی طرح پرواز کرتے رہے ۔جب آخری بارآپ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے جدا ہوئے ،یہ وہ لمحہ تھا جب آپ نے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے جسد مطہر کوآغوش میں لے کر سپرد خاک کیا۔

حضرت علی علیہ السلام ایک عالمی شخصیت ہیں ۔دعوی کے ساتھ یہ کہا جاسکتا ہے کہ جتنی گفتگو اس عظیم شخصیت کے بارے میں ہوئی ہے ،اتنی کسی بڑے سے بڑے عالمی شخصیت کے بارے میں نہیں ہوئی ہے ۔شیعہ وسنی اور مسلم وغیر مسلم دانشوروں اور مصنفوں نے حضرت علی علیہ السلام کی شخصیت کے بارے میں ایک ہزارسے زائد کتا بیں تالیف کی ہیں ۔آپ کے بارے میں دوست ودشمن بے شمار تحقیق اور کھوج کے باوجود آپ کے ایمان میں کسی قسم کا کمزور نقطہ پیدانہیں کر سکے یاآپ کی شجاعت،عفت،معرفت،عدالت اور دوسرے تمام پسندیدہ اخلاق کے بارے میں شمّہ برابر نقص نہیں نکال سکے ،کیونکہ آپ ایک ایسے شخص تھے ،جوفضیلت وکمال کے علاوہ کسی چیز کو نہیں پہچانتے تھے اوراسی طرح آپ میں فضیلت وکمال کے علاوہ کوئی چیز نہیں پائی جاتی تھی ۔

تاریخ گواہ ہے کہ ،پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحلت سے آج تک جتنے حکّام نے اسلامی معاشرہ میں حکومت کی ان میں صرف حضرت علی علیہ السلام ایسے ہیں کہ جنہوں نے اسلامی معاشر ہ پر اپنی حکومت کے دوران پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت پر پوری طرح عمل کیا اور آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی روش سے ذرہ برابر منحرف نہیں ہوئے اوراسلامی قوانین اورشریعت کو کسی قسم کے دخل وتصرف کے بغیر اسی طرح نافذ کیا ،جس طرح پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیات میں نافذ ہوئے تھے ۔

دوسرے خلیفہ کی وفات کے بعد نئے خلیفہ کو معین کرنے کے لئے خلیفہ دوم کی وصیت کے مطابق جو چھ رکنی کمیٹی بنا ئی گئی تھی ، اس میں کافی گفتگو کے بعد خلافت کا مسئلہ علی اور عثمان کے درمیان تذبذب میں پڑاعلی کو خلافت کی پیشکش کی گئی ،لیکن اس شرط پرکہ ''لوگوں میں خلیفہ اول اور دوم کی سیرت پر عمل کریں''حضرت علی نے ان شرائط کوٹھکراتے ہوئے فرمایا:''میں اپنے علم سے ایک قدم بھی آگے نہیں بڑھوں گا۔''

اس کے بعدوہی شرائط عثمان کے سامنے رکھی گئیں ،انہوں نے قبول کیا اور خلافت حاصل کی ،اگر چہ خلافت ہاتھ میں آنے کے بعددوسری سیرت پر عمل کیا ۔

علی علیہ السلام نے راہ حق میں جن جاں نثاریوں،فداکاریوں اورعفو وبخشش کا مظاہرہ کیا ہے ان میں آپ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اصحاب میں بے نظیر تھے ۔اس حقیقت سے ہرگزانکار نہیں کیاجاسکتا ،کہ اگراسلام کا یہ جاں نثار اور سورمانہ ہوتا ،توکفارو مشرکین ہجرت کی رات کو،اس کے بعد بدرواحد،خندق وخیبر وحنین کی جنگوں میں نبوت کی شمع کوآسانی کے ساتھ بجھا کر حق کے پر چم کو سر نگوں کر دیتے۔

علی علیہ السلام نے جس دن سماجی زندگی میں قدم رکھا ،اسی لمحہ سے انتہائی سادہ زندگی گزارتے تھے ،پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیات میں ،آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رحلت کے بعد ، یہاں تک کہ اپنی با عظمت خلافت کے دنوں میں فقیروں اور پسماندہ ترین افراد جیسی زندگی بسر کرتے تھے ،خوراک ،لباس اور مکان کے لحاظ سے معاشرہ کے غریب ترین افراد میں اور آپ میں کوئی فرق نہیں تھا اور آپ فرماتے تھے ۔

''ایک معاشرے کے حاکم کواس طرح زندگی بسر کرنی چاہئے کہ ضرورت مندوں اور پریشان حال افراد کے لئے تسلی کاسبب بنے نہ ان کے لئے حسرت اور حوصلہ شکنی کا باعث ہو۔''(۱)

علی علیہ السلام اپنی زندگی کی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے محنت و مزدوری کرتے تھے، خاص کر کھیتی باڑی سے دلچسپی رکھتے تھے ،درخت لگا تے تھے اور نہر کھو دتے تھے ،لیکن جو کچھ اس سے کماتے تھے یا جنگوں میں جومال غنیمت حاصل کرتے تھے ،اسے فقرا اورحاجتمندوں میں تقسیم کرد یتے تھے ۔جن زمینوں کو آباد کرتے تھے انھیں یا وقف کرتے تھے یا ان کو بیج کر پیسے حاجتمندوں کو دیتے تھے ۔اپنی خلافت کے دوران ایک سال حکم دیا کہ آپ کے اوقاف کی آمدنی کو پہلے آپ کے پاس لایا جائے پھرخرچ کیا جائے۔جب مذکورہ آمدنی جمع کی گئی تو یہ سونے کے ٢٤ ہزاردینار تھے ۔

علی علیہ السلام نے اتنی جنگوں میں شرکت کی لیکن کبھی کسی ایسے دشمن سے مقابلہ نہ کیا جسے موت کے گھاٹ نہ اتار دیا ہو ۔آپ نے کبھی دشمن کو پیٹھ نہ دکھائی اور فرماتے تھے :

''اگر تمام عرب میرے مقابلہ میں آ جائیں اور مجھ سے لڑیں تو بھی میں شکست نہیں کھا ئوں گا اور مجھے کوئی پروا نہیں ہے ۔''

علی علیہ السلام ایسی شجاعت وبہادری کے مالک تھے کہ دنیا کے بہادروں کی تاریخ آپ کی مثال پیش نہ کرسکی ،اس کے باوجود آپ انتہائی مہر بان،ہمدرد،جوانمرد اور فیاض تھے۔ جنگوں میں عورتوں ،بچوںاور کمزوروں کو قتل نہیں کرتے تھے اور ان کو اسیر نہیں بناتے تھے بھاگنے والوں کا پیچھا نہیں کرتے تھے۔

جنگ صفین میں معاویہ کے لشکرنے سبقت حاصل کر کے نہرفرات پر قبضہ کرلیا اور آپ کے لشکر پر پانی بند کر دیا ،حضرت علی علیہ السلام نے ایک خونین جنگ کے بعدنہر سے دشمن کا قبضہ ہٹا دیا،اس کے بعد حکم دیا کہ دشمن کے لئے پانی کاراستہ کھلا رکھیں ۔

خلافت کے دوران کسی رکاوٹ اوردربان کے بغیر ہر ایک سے ملاقات کر تے تھے اورتنہااورپیدل راستہ چلتے تھے ،.گلی کوچوں میں گشت زنی کرتے تھے اور لوگوں کو تقوی کی رعایت کرنے کی نصیحت فرماتے تھے اور لوگوں کو ایک دوسروں پرظلم کرنے سے منع کرتے تھے ،بے چاروں اوربیوہ عورتوں کی مہر بانی اور فروتنی سے مدد فرماتے تھے ۔یتیموں اورلاوارثوں کو اپنے گھر میں پالتے تھے ،ان کی زندگی کی ضرورتوں کو ذاتی طور پر پورا کرتے تھے اوران کی تربیت بھی کرتے تھے ۔

حضرت علی علیہ السلام علم کو بے حد اہمیت دیتے تھے اورمعارف کی اشاعت کے میں خاص توجہ دیتے تھے ،اور فرماتے تھے:

''نادانی کے مانند کوئی درد نہیں ہے''(۲)

جمل کی خونین جنگ میں آپ اپنے لشکر کی صف آرائی میں مشغول تھے ،ایک عرب نے سامنے آ کر''توحید''کے معنی پوچھے۔لوگ ہر طرف سے عرب پر ٹوٹ پڑے اور اس سے کہاگیا ایسے سوالات کا یہی وقت ہے؟!حضرت نے لوگوں کو اعرابی سے ہٹاکر فرمایا :

''ہم لوگوں سے ان ہی حقائق کو زندہ کرنے کے لئے لڑ رہے ہیں ''(۳)

اس کے بعد اعرابی کواپنے پاس بلایا ،اپنے لشکرکی صف آ رائی کرتے ہوئے اعرابی کو ایک دلکش بیان سے مسئلہ کی وضاحت فرمائی ۔

اس قسم کے واقعات حضرت علی علیہ السلام کے دینی نظم وضبط اور ایک حیرت انگیزخدائی طاقت کی حکایت کرتے ہیں ۔جنگ صفین کے بارے میں مزید نقل کیا گیا ہے کہ ،جب دو لشکر دو تلاطم دریائوں کے مانند آپس میں لڑرہے تھے اور ہر طرف خون کادریا بہہ رہاتھا۔ توحضرت اپنے ایک سپاہی کے پاس پہنچے،اس سے پینے کے لئے پانی مانگا۔

سپاہی نے لکڑی کا ایک پیالہ نکالااوراس میں پانی بھر کے پیش کیا ،حضرت نے اس پیالہ میں ایک شگاف مشاہدہ کیا اور فرمایا :''ایسے برتن میں پانی پینااسلام میں مکروہ ہے۔''

سپاہی نے عرض کی :اس حالت میں کہ جب ہم ہزاروںتیروں اور تلواروںکے حملہ کی زد میں ہیں اس قسم کی دقت کرنے کا موقعہ نہیں ہے !

اس سپاہی کو آپ نے جوجواب دیا،اس کا خلاصہ یہ ہے:''ہم ان ہی دینی احکام و قوانین کو نافذکر نے کے لئے لڑ رہے ہیں اور احکام چھوٹے بڑے نہیں ہوتے ہیں''

اس کے بعد حضرت نے اپنے دونوں ہاتھوں کو ملاکر سامنے کیا اورسپاہی نے پیالہ میں بھرا پانی آپ کے ہاتھوں میں ڈال دیا ۔

حضرت علی علیہ السلام پیغمبر اسلام کے بعدایسے پہلے شخص ہیں کہ جنہون نے علمی حقائق کو فلسفی طرز تفکر ،یعنی آزاداستدلال میں بیان فرمایااور بہت علمی اصطلا حیں وضع کیں اور قرآن مجید کی غلط قرأت اورتحریف سے حفاظت کے لئے عربی زبان کے قو ا ئد ''علم نحو'' وضع کئے اور ان کو مرتب کیا ۔

آپ کی تقریروں ،خطوط اوردیگرفصیح بیانات میں ،معارف الہی،علمی،اخلاقی ،سیاسی یہاں تک کہ ریاضی کے مسائل میں جوباریک بنیی پائی جاتی ہے ، یقینا وہ حیرت انگیزہیں۔

امام علی علیہ السلام کے فضائل کا خلاصہ

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی علیہ السلام کو چھ سال کی عمر میں حضرت ابوطالب کے یہاں سے اپنے گھر لے آئے اور ان کی پرورش اپنے ذمہ لے لی۔حضرت علی علیہ السلام اسی دن سے ایک سایہ کے مانند پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ساتھ رہے اورآنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے آخری بار اس وقت جدا ہوئے ،جب آپ نے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے جسد مطہر کوسپرد خاک کیا۔

حضرت علی علیہ السلام پہلے کامل نمونہ ہیں جو پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی تعلیم وتربیت کے مکتب میں پروان چڑھے ۔آپ پہلے شخص ہیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان لائے اور آپ ہی سب سے آخر میں حضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے جدا ہوئے ۔

بعثت کے پورے زمانہ میں جو خدمات حضرت علی علیہ السلام نے خدا کے دین کے لئے انجام دیئے ،دوست ودشمن گواہ ہیں کہ وہ خدمات کوئی اورانجام نہیں دے سکا ہے ۔

حضرت علی علیہ السلام نے اسلام کی سب سے اہم جنگوں میں شرکت فرمائی اور جنگ کے تمام خونین میدانوں میں مسلمانوں کے اندربے مثال بہادری اور کامیابی کا راز آپ ہی تھے ۔چنانچہ بڑے بڑے صحابی جنگوں میں بار ہا بھاگ جاتے تھے ،لیکن آپ نے کبھی دشمن کو پیٹھ نہیں دکھائی اور کوئی حریف آپ کی تلوار کی وار سے بچ نہ سکا ۔اس بے نظیر شجاعت ،جوضرب المثل بن چکی تھی ،کے باوجودآپ ہمدرداورمہر بان تھے ،کبھی اپنے زخمی دشمن کوقتل نہیں کرتے تھے اور جنگ سے بھاگنے والوں کاپیچھا نہیں کرتے تھے ۔

حضرت علی علیہ السلام ،اپنی تقریروں،کلمات قصار اور اپنے گوہربار بیانات،جویاد گار کے طورپر مسلمانوں کے پاس موجود ہیں ،کے اعتبار سے مسلمانوں میں قرآن مجید کے بلند مقاصد کے بارے میں معروف ترین شخص ہیں ۔آپ نے اسلام کے اعتقادی و علمی معارف کو کما حّقہ حاصل کر کے حدیث شریف:

''انا مدینةالعلم وعلی بابها'' (۴)

کوثابت کردیا اوراس علم کوعملی جا مہ پہنایا ۔ حضرت علی علیہ السلام کا دینداری، عفت نفس اورزھدوتقویٰ میں کوئی نظیر نہیں تھا۔آپ اپنے معاش کے لئے روزانہ محنت ومشقت کرتے تھے ، بالخصوص زراعت کو بہت پسند کرتے تھے ۔بنجر زمینوں کوآباد کرتے تھے ،نہریں کھودتے تھے ،درخت لگاتے تھے،جس جگہ کو آباد کرتے اسے مسلمانوںکے لئے وقف کر دیتے تھے یا اس کو بیچ کر پیسے فقراء میں تقسیم کر دیتے تھے اورخود نہایت زھدوقناعت کے ساتھ فقیرانہ زندگی گزارتے تھے۔ جس دن شہید ہوئے ۔باوجوداس کے کہ تمام اسلامی ممالک کے فرمانروا تھے ۔آپ کی پونجی صرف سات سودرہم تھی جنھیں آپ اپنے گھر کے لئے ایک خدمت گار پرصرف کرنا چاہتے تھے۔

حضرت علی علیہ السلام کی عدالت ایسی تھی کہ خداکے احکام کے نفاذاور لوگوں کے حقوق کو زندہ کرنے میں ہرگز کسی طرح کے استثناء کے قائل نہیں تھے ۔آپ ذاتی طور پرگلی کوچوں میں گشت لگاتے تھے اور لوگوں کو اسلامی قوانین کی رعایت کرنے کی ترغیب دیتے تھے۔

حضرت امیرالمؤ منین کا طریقہ

چنانچہ ہم جانتے ہیں کہ پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحلت کے بعد مسلمانوں کے مسائل میں ولی ہونا،آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نص کے مطابق خدائے متعال کی طرف سے حضرت علی علیہ السلام کے لئے مخصوص تھا ،لیکن اسے انتخابی خلافت میں تبدیل کیا گیا اور اس طرح خلافت کی کرسی پر دوسرے لوگوں نے قبضہ جمایا ۔

حضرت علی علیہ السلام اورآنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چند خاص صحابیوں جیسے سلمان فارسی ،ابوذرغفاری اورمقداد اسدی نے لوگوں سے ایک اعتراض کیا لیکن انھیں مثبت جواب نہیں ملا۔

حضرت علی علیہ السلام لوگوں سے کنارہ کشی اختیار کرکے ایک مدت تک اپنے گھر میں قرآن مجیدجمع کرنے میں مصروف رہے ۔اس کے بعد کچھ خاص صحابیوںاور چنددیگرافراد کی تعلیم وتربیت میں مشغول ہوئے ۔

حضرت علی علیہ السلام کا ماضی درخشان اور بے مثال تھا ۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیات میں آپ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے وزیر اور اسلامی فتوحات کی کلید تھے .علم ودانش میں ، فیصلہ دینے میں ، سخن وری اور دیگرتمام معنوی فضائل میں آپ تمام مسلمانوں پر برتری رکھتے تھے ۔اس کے باوجودخلیفہ اول کے زمانے میں اجتماعی مسائل اور عمومی کام میں آپ سے کسی قسم کا استفادہ نہیں کیاگیا ،اس لئے آپ صرف خدا کی عبادت اور چند اصحاب کی علمی وعملی تربیت میں مشغول رہتے تھے اورایک عام انسان کی طرح زندگی گزارتے تھے ۔

خلیفہ دوم کے زمانے میں بھی کسی کام کوآپ کے حوالہ نہیں کیا جاتا تھا ،لیکن کسی حدتک آپ سے رجوع کرتے تھے اور اہم مسائل میں آپ کے نظریات سے استفادہ کیا جاتا اور آپ سے مشورہ لیا جاتاتھا ۔چنانچہ خلیفہ دوم نے بارہا کہا ہے:(اگرعلی کی رہنمائی نہ ہوتی ،توعمرہلاک ہوجاتا)۔(۵)

خلیفہ سوم کے زمانہ میں لوگوں کی توجہ آپ کی طرف زیادہ ہوئی اوراس پوری ٢٥سالہ

مدت میں آپ کی تعلیم وتربیت کادائرہ دن بدن وسیع تر ہوتاگیا یہاں تک کہ مکتب ولایت سے بالواسطہ اور بلاواسطہ تربیت پانے والوں کی ایک بڑی جماعت نے خلیفہ سوم کے قتل کے فورابعد آپ کے پاس ہجوم کیا اورآپ کوخلافت قبول کرنے پر مجبور کیا ۔

حضرت امیرالمو منین نے خلافت کی باگ ڈورسنبھالتے ہی پیغمبراسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی سیرت کو۔جیسے مدتوںسے فراموش کیاگیاتھا۔پھر سے زندہ کیا۔آپ نے مساوات اوراجتماعی عدالت نافذ کرکے تمام بیجا امتیازات کوختم کردیا۔تمام لاابالی گورنروںاورفرمانرواؤں کو معزول کردیااورانکے بیت المال سے لوٹے گئے مال ودولت اور خلیفہ کی طرف سے مختلف لوگوں کوبے حساب دی گئی جاگیروں و املاک کوضبط کیا،اور دینی ضوابط اورقوانین کی خلاف ورزی کرنے والوں کومناسب سزائیں سنائیں ۔

اثرو رسوخ رکھنے والے لیڈروںاورناجائز منافع حاصل کرنے والوں نے جب دیکھا کہ ان کے ذاتی منافعے خطرے میں پڑ رہے ہیں،توانہوں نے مخالفت کاپرچم بلند کر کے عثمان کے خو ن کابدلہ لینے کے بہانے سے داخلی خونین جنگوں کی آگ بھڑکادی جوحضرت کی مشکلات کاسبب اوراصلاحات رکھنے میں رکاوٹ بن گئیں ۔

حضرت علی علیہ السلام نے اپنی خلافت کے پانچ سالہ دور میں کمر توڑ َمشکلات کے باوجود بے شمار افراد کی تربیت کی اوراپنی تقریروں اورفصیح بیانات کے ذریعہ علمی میدان کے مختلف ہنروفنون کے گراں بہا خزانے یادگارکے طور پر چھوڑدئے ،ان میں سے ایک علم نحوکے اصولوںکا وضع کرنا ہے جو حقیقت میں عربی زبان کے قواعد وضوابط ہیں ۔

آپ کی بر جستہ شخصیت کے اوصاف ناقابل بیان ہیں ،آپ کے فضائل بے انتہا اور بے شمار ہیں ۔تاریخ ہرگز کسی ایسے شخص کو پیش نہیںکر سکتی جس نے آپ کے برابر دنیا کے دانشوروں، مصنّفوں اور متفکروں کے افکار کو اپنی طرف جذب کیا ہو۔

____________________

١۔نہج البلاغہ فیض الاسلام ،خطبہ ٢٠٠،ص٦٦٣۔

۲۔شرح غرر الحکم ،ج٢،ص٣٧٧،ح٢٨٨٢۔

۳۔ بحارالانوار،ج٣،ص٢٠٧ ،ح١۔

۴۔بحارالانوار،ج٤٠،ص٢٠١۔

۵۔بحارالانوار،ج٤٠ص٢٢٩۔


10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48