تفسیر نمونہ جلد ۱۵

تفسیر نمونہ 0%

تفسیر نمونہ مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن

تفسیر نمونہ

مؤلف: آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی
زمرہ جات:

مشاہدے: 58519
ڈاؤنلوڈ: 3592


تبصرے:

جلد 1 جلد 4 جلد 5 جلد 7 جلد 8 جلد 9 جلد 10 جلد 11 جلد 12 جلد 15
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 169 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 58519 / ڈاؤنلوڈ: 3592
سائز سائز سائز
تفسیر نمونہ

تفسیر نمونہ جلد 15

مؤلف:
اردو

آیات ۱۱،۱۲،۱۳،۱۴،۱۵،

۱۱ ۔( کذ بت ثمود بطغوٰهآ ) ۱۲ ۔( اِذِ انْبَثَ اشقٰها ) ۔ ۱۳ ۔( فقال لهم رسول اللهِ ناقة اللهِ و سُقیٰهَا ) ۔

۱۴ ۔( فکذّ بوه فعقروها فدمدم علیهم ربهم بذنبهم فسَوٰها ) ۔ ۱۵ ۔( ولایخاف عقبٰهَا ) ۔

ترجمہ

۱۱ ۔ قوم ثمود نے سر کشی کی وجہ سے ( اپنے پیغمبر کی ) تکذیب کی ۔

۱۲ ۔ جب کہ ان کا ایک شقی ترین آدمی اٹھ کھڑا ہوا۔

۱۳ ۔ اور خدا کے بھیجے ہوئے رسول ( صالح) نے ان سے کہا: اللہ کے ناقے کو اس کے پانی پینے کے لئے چھوڑ دو ( اور اس کی مزاحمت نہ کرو)۔

۱۴ ۔ لیکن انہوں نے اس کی تکذیب کی ، اور ناقہ کی کونچیں کاٹ دیں ، اور اسے ہلاک کردیا ، لہٰذا ان کے خدا نے انہیں اس گناہ کی بناء پر جسکے وہ مرتکب ہوئے تھے تباہ کردیا ، اور ان کی زمین کو ہموار کردیا۔

۱۵ ۔ اور وہ ہر گز اس کام کے انجام دینے سے نہیں ڈرتا۔

سر کشوں کا ہلاکت خیز انجام

اس تنبیہ کے بعد ، جو گزشتہ آیات میں ان لوگوں کے بارے میں آئی تھی ، جو اپنے نفس کو آلودہ کرتے ہیں ، ان آیات میں نمونہ کے طور پر اس مطلب کی ایک واضح تاریخی مثال کو پیش کیا ہے اور سرکش قوم (ثمود ) کی سر نوشت کوقاطع اور پر معنی عبارتوں کے ساتھ بیان کرتے ہوئے فرماتا ہے :” قوم ثمود نے سرکشی کی وجہ سے ( اپنے پیغمبر کی ) تکذیب کی “۔ ( کذبت ثمود بطغواھا )۔

” طغوٰی“ اور طغیانی “ دونوں ایک ہی معنی میں ہیں ، اور وہ حد اور سر حد سے تجاوز کرنا ہے اور یہاں حدود الٰہی سے تجاوز کرنا اور ا سکے فرامین کے مقابلہ میں سر کشی مراد ہے۔(۱)

قوم ثمود، جن کے پیغمبر کانام ” صالح “ تھا قدیم ترین اقوام میں سے ہے ، جو ”حجاز “اور ”شام“ کے درمیان ایک کوہستانی علاقے میں رہتی تھی ۔ ان کی زندگی مرفہ الحال تھی ، زمینیں آباد ، ہموار میدان اور زراعت کے لئے عمدہ مٹی ، شان و شوکت والے محلات، اور مضبوط و مستحکم گھر رکھتے تھے ۔ لیکن نہ صرف یہ کہ ان سب نعمتوں کا شکر ادا نہیں کرتے تھے ، بلکہ سر کشی کرتے ہوئے اپنے پیغمبر صالح علیہ السلام کی تکذیب کے لئے کھڑے ہوگئے ، آیاتِ الٰہی کا مذاق اڑایا اور آخر کار خدا نے انہیں ایک آسمانی بجلی کے ذریعے نابود کردیا ۔

اس کے بعد اس قوم کی ایک ظاہری سر کشی کو پیش کرتے ہوئے مزید فرماتا ہے : جبکہ ان کا ایک شقی ترین آدمی اٹھ کھڑا ہوا “۔( اذا نبعث اشقاها ) ۔

” اشقیٰ“اس قوم کے شقی ترین اور سنگ دل ترین آدمی کے معنی میں ہے جو اس شخص کی طرف اشارہ ہے جس نے ناقہ صالح علیہ السلام کو ہلاک کیا تھا، وہی اونٹنی ( ناقہ ) جو ایک معجزہ کے طور پر اس قوم کے درمیان ظاہر ہوئی تھی اور اس کو ہلاک کرنا اس پیغمبر الٰہی کے ساتھ اعلان جنگ تھا ۔

مفسرین اور مورخین کے قول کے مطابق اس شخص کانام ” قدار بن سالف“ تھا۔

بعض روایات میں آیاہے کہ پیغمبر اکرم اور حضرت علی علیہ السلام سے فرمایا: ”من اشقی الاولین “؟

” پہلی قوموں میں سب سے زیادہ شقی اور سنگ دل کون تھا“ علی علیہ السلام نے جواب میں عرض کیا : ”عاقر الناقة “ ” وہ جس نے ناقہ ثمود کی کونچیں کاٹ کر ہلاک کردیا تھا“

پیغمبر نے فرمایا: ”صدقت ، فمن اشقی الاٰخرین ؟:

”تم نے سچ کہا ۔ آخری اقوام میں شقی ترین آدمی کون ہے ؟

علی علیہ السلام کہتے ہیں : میں نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم مجھے معلوم نہیں ہے ، توپیغمبر نے فرمایا: ” الذی یضرب علی ھٰذہ و اشارہ الیٰ یافوخہ“جو شخص سر کے اس مقام پر ضرب لگائے گا “ اور پیغمبر نے آپ کی پیشانی کے اوپر والے حصہ کی طرف اشارہ کیا “۲/۳

بعد والی آیت میں قوم ثمود کی سر کشی کے بارے میں مزید تشریح پیش کرتے ہوئے فرماتاہے : ” اللہ کے رسول ( حضرت صالح ) نے ان سے کہا : خد ا کے ناقہ کو اس کا پانی پینے کے لئے آزاد چھوڑ دو اور اس کی مزاحمت نہ کرو“۔( فقال رسول الله ناقة و سقیاها ) ۔(۴)

یہاں ” رسول اللہ“ سے مراد قوم ثمود کے پیغمبر ،حضرت صالح علیہ السلام ہیں ، اور ناقة اللہ ( وہ اونٹنی جو خدا کی طرف منسوب ہے )۔ کی تعبیر اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ یہ اونٹنی کوئی معمولی اونٹنی نہیں تھی بلکہ صالح علیہ السلام کی صداقت کی ایک گویا اور ناطق سند اور معجزہ کے عنوان سے بھیجی گئی تھی۔ مشہور روایت کے مطابق اس کی ایک خصوصیت یہ تھی کہ مذکورہ اونٹنی پہاڑ کے ایک پتھر کے اندر سے نکلی تھی تاکہ وہ ہٹ دھرم منکرین کے لئے ایک گویا و ناطق معجزہ ہو۔

قرآن مجید کی دوسری آیات سے اچھی طرح معلوم ہوتا ہے کہ حضرت صالح علیہ السلام نے انہیں یہ خبر دی تھی کہ بستی کے پینے کا پانی ان کے اور ناقہ کے درمیان تقسیم ہو۔ ایک دن ناقہ کے لئے ہوگا اور ایک بستی والوں کے لئے ہوگا ، اور ان میں سے ہر ایک اپنی باری پر پانی سے فائدہ اٹھا ئے گا ۔ اور ایک دوسرے کے لئے مزاحم نہیں ہوگا :

( و نبئهم ان الماء قسمة بینهم کل شرب مختضر ) “ ( قمر۔ ۲۸)

اور انہیں خصوصیت کے ساتھ بتلادیا گیا: اگر تم نے اس ناقہ کو ہاتھ لگایا تو عذاب الٰہی تمہارے دامن گیر ہو جائے گا“: ”( ولا تمسوها بسوء فیأخذ کم عذاب یوم عظیم ) ‘ ‘ ( شعراء۔ ۱۵۶)

اور بعد والی آیت میں فرماتا ہے :اس سر کش قوم نے اس عظیم پیغمبر کے کلمات اور اس کی تنبیہات کی کوئی پرواہ نہ کی ،اس کی تکذیب کی اور ناقہ کو ہلاک کردیا “( فکذبوه فعقروها ) ۔

( عقروها“ )عقر “کے مادہ سے ( جو ظلم کے وزن پر ہے ) کسی چیز کی اصل اور جڑ بنیاد کے معنی میں ، اور عقر ناقہ کا معنی اس کی جر کاٹنے اور ہلاک کرنے کے معنی میں ہے ۔

بعض نے یہ بھی کہا ہے کہ اس سے مراد اس کی کونچیں یعنی اس جانور کے پاو ں کے نچلے حصہ کو کاٹنا او راسے زمین پرپھینکنا ہے کہ اس کا نتیجہ بھی اس حیوان کی موت ہی ہے ۔

قابل توجہ بات یہ ہے کہ جس شخص نے ناقہ کو ہلاک کیا تھا وہ ایک ہی تھا جسے قرآن نے ” اشقی“ سے تعبیر کیاہے۔ لیکن اوپر والی آیت میں ہم دیکھتے ہیں کہ اس عمل کی قوم ثمود کے تمام سر کشوں اور طغیان گروں کی طرف نسبت دی گئی ہے ، اور ” عقروھا“ جمع کے صیغہ کی صورت میں آیا ہے : اس کی وجہ یہ ہے کہ دوسرعے لوگ بھی اس طرح سے اس کام میں حصہ دار تھے ، کیونکہ اولا اس قسم کی سازشیں عموماً گروہ او رجمیعت کے توسط سے پیش ہوتی ہیں اس کے بعد معین آدمی یا چند افراد کے ہاتھوں پایہ تکمیل کو پہنچتی ہیں ۔ ثانیاً چونکہ دوسروں کی رضا اور خشنودی سے انجام پاتی ہیں تو وہ ان کی اس کام میں شر کت کاسبب بن جاتا ہے ، یعنی رضامندی نتیجہ میں شرکت کا سبب بنتی ہے۔

اسی لئے امیر المومنین علی علیہ السلام کے فصیح و بلیغ کلام میں آیا ہے :

” ناقہ ثمود کو صرف ایک ہی شخص نے ہلاک کیا تھا ، لیکن خد انے عذاب میں سب کو شامل کیاہے کیونکہ وہ سب اس امر پر راضی تھے ، اسی لئے فرماتا ہے :

” ان ( سب نے ) ناقہ کو ہلاک کیا ، اور اس کے بعد وہ سب اپنے کئے پر نادم ہوئے “۔ ( لیکن اس وقت جب پشیمانی کا کوئی فائدہ نہیں تھا ۔(۵)

اس تکذیب اور شدید مخالفت کے بعد خدا نے انہیں ایسی سزادی کہ ان کانام و نشان تک باقی نہ رہا ، جیسا کہ اسی آیت کو جاری رکھتے ہوئے فرماتا ہے : ” ان کے پر ور دگار نے ان کے اس گناہ کی بنا ء پر جس کے وہ مرتکب ہوئے تھے سب کو نابود کردیا ، اور ان کی سر زمین کو صاف اور ہموار بنا دیا “( فدمدم علیهم ربهم بذنبهم فسواها ) ۔

صاعقہ یعنی اس عظیم آسمانی چیخ نے چند ہی لمحوں کے اندر اندر ان کی سر زمین کو ہلاک کر دیا اور ایسا زلزلہ پید اکیا کہ ان کے سارے کے سارے مکانات زمین بوس ہو گئے ، اور ان کے گھروں کو ان کی قبروں میں بدل کر رکھ دیا ۔

”دمدم“ ” دمدمة“ کے مادہ سے ، کبھی ہلاک کرنے کے معنی میں آیا ہے ، اور کبھی عذاب اور نامکمل سزا کے معنی میں ، بعض اوقات کوٹنے اور نرم کرنے کے معنی میں آیا ہے ، اور کبھی جڑ سے اکھاڑ نے کے معنی میں اور کبھی غضب ناک ہونے کے معنی میں یا احاطہ کرنے اور گھیر لینے کے معنی میں ،(۶)

اور زیربحث میں یہ سب معانی صادق آتے ہیں کیونکہ اس وسیع عذاب کا سر چشمہ غضب الٰہی ہے ، اور ان سب کی اس نے سر کوبی کی، انہیں کمزور کیا اور انہیں جڑ سے اکھاڑ پھینکا ۔

” سوّاھا“ ” تسویہ“ کے مادہ سے ، ممکن ہے کہ صیحہ عظیم اور صاعقہ و زلزلہ کی وجہ سے ان کے گھروں کا صفایا کرنے اور ان کی زمینوں کو صاف کرنے کے معنی میں ہو، یا اس گروہ کو ایک طرف ٹھکانے لگانے کے معنی میں ہو ، یا ان سب کی سزا و عذاب میں مساوات کے لئے ہو اس طرح کہ ا ن میں سے کوئی بھی اس ماجرے سے صحیح و سالم نہ بچا ۔

ان معانی کے درمیا ن بھی جمع ممکن ہے ۔

”سوّاھا“ میں ضمیر “ قبیلہ “ ثمود کی طرف لوٹی ہے ، یاان کے شہروں اور آبادیوں کی طرف ، جنہیں خدا نے مٹی میں ملا کر یکساں کردیا ۔

بعض نے یہ بھی کہا ہے کہ یہ ” دمدم“ کی طرف لوٹتی ہے جو بعد والے جملہ سے معلوم ہوتی ہے ، یعنی خدا نے اس خشم و غضب و ہلاکت کو ان کے درمیان یکساں قرارد یا۔ بعض نے یہ بھی کہا ہے یہ ” دمدم “ کی طرف لوٹتی ہے جو بعد والے جملہ سے معلوم ہوتی ہے ، یعنی خدا نے اس خشم و غضب و ہلاکت کو ان کے درمیان یکسان قرار دیا ، اور اس طرح سے کے تمام کو اس نے گھیر لیا ۔

لیکن پہلی تفسیرزیادہ مناسب نظر آتی ہے ۔

ضمنی طور پر اس آیت سے بخوبی معلوم ہوتا ہے کہ ان کی سزا او ر عذاب ان کے گناہ کا نتیجہ ، اور اس کے ساتھ مناسبت رکھتا تھا اور یہ عین عدالت و حکمت ہے ۔

بہت سی اقوام کے بار ے میں ہم پڑھتے ہیں کہ وہ آثار عذاب کے ظہور کے وقت پشیمان ہو گئیں ، اور توبہ کی راہ اختیار کرلی، لیکن تعجب کی بات یہ ہے کہ بعض روایات میں آیاہے کہ جس وقت صالح علیہ السلام کی قوم نے عذا ب کی نشانیاں دیکھیں تو وہ صالح علیہ السلام کی تلاش میں نکل کھڑے ہوئے کہ جہاں کہیں بھی وہ مل جائیں انہیں ہلاک کر دیں ۔(۷)

اور یہ خدا اور پیغمبر کے مقابلہ میں ان کے عصیان و سر کشی کے شدید ہونے کی دلیل ہے ۔ لیکن خدا نے صالح علیہ السلام کو نجات دی اور اس قوم کو ہلاک کردیا، اور ان کی زندگی کے دفتر کو کلی طور پر لپیٹ دیا۔

انجام کار آخری آیت میں ان تمام لوگوں کو جو اسی راستہ پر چلتے ہیں ،سخت تنبیہ کرتے ہوئے فرماتا ہے : ” اور خدا کو اس کام کے انجام کا کوئی خوف نہیں ہے “۔( ولا یخاف عقباها ) ۔

بہت سے حاکم ہیں جو سزا دینے پر قدرت رکھتے ہیں ، لیکن وہ ہمیشہ اس کے نتیجہ اور انجام سے ڈرتے رہتے ہیں ، اس کے رد عمل اور عکس العمل سے خوف زدہ رہتے ہیں اور اسی بناء ر اپنی قدرت سے فائدہ اٹھاتے ، اور زیادہ صحیح تعبیر میں ان کی قدرت ضعف و ناتوانائی کے ساتھ اور ان کے علم و جہالت کےساتھ ملا ہواہوتا ہے وہ اس بات سے ڈر تے ہیں کہ کہیں ان میں اس کے برے نتائج کے مقابلہ کی طاقت نہ ہو۔

لیکن خدا وند قادر متعال جس کا علم ان تمام امور اور ان کے عواقب و آثار پر احاط رکھتا ہے ، اور اس کی قدرت میں حوادث کے برے نتائج کے مقابلہ میں کسی قسم کے ضعف و ناتوانی کی آمیزش نہیں ہوتی ۔ اور اسی بناء پر انتہائی قدرت اور قاطعیت کے ساتھ جس چیز کا ارادہ کرتا ہے اسے انجام دےتا ہے ۔

سر کشوں کو بھی اپنے کئے کی سز بھگتنی پڑے گی ، لہٰذا انہیں اپنے اعمال کی وجہ سے خدا کے خشم و غضب کا مشمول ہونے سے خود کو بچا ناچاہیئے ۔

” عقبیٰ“ اختتام ، انتہا اور انجام کار کے معنی میں ہے اور ” عقباھا“ کی ضمیر ” دمدمہ “ اور ہلاکت کی طرف لوٹتی ہے ۔

____________________

۱۔بعض علماء لغت کی عبارت سے معلوم ہوتا ہے کہ ” طغیان“ ناقص وادی کی صورت میں بھی آیاہے اور ناقص پانی کی صورت میں بھی ۔ ” طغوی“ ناقص واوی کے مادہ سے لیا گیا ہے ، اور ” طغیان “ ناقص پانی سے ( غور کیجئے )

۲۔ مجمع البیان جلد ۱۰ ص ۴۹۹، یہی معنی کچھ مختصر صورت میں تفسیر قرطبی میں بھی آیاہے ، جلد ۶ ص۷۱۶۸۔

۳۔ ” یافوخ “ سر کے اس اگلے حصہ کو کہا جاتا ہے ، جو بچّوں میں بالکل نرم ہوتا ہے ، اور آہستہ آہستہ ہڈی کی صورت اختیار کرتا ہے ، اور مضبوط، اور وہ سر کا حساس ترین مقام ہے ۔

۴۔” ناقة اللہ “ منصوب ہے ، ایک فعل محذوف سے اور تقدیر میں اس طرح ہے ، ذروا ناقة اللہ و سقیاھا ، اس کے مشابہ کو جو سورہ اعراف کی آیہ ۷۳ اور سورہ ہود کی آیہ۶۴ میں آیاہے ۔

۵۔ نہج البلاغہ خطبہ ۲۰۱۔

۶۔ مفرداتِ راغب، لسان العرب، مجمع البیان اور تفسیر کی دوسری کتابیں ۔

۷۔ روح البیان ، جلد ۱۰ ، ص ۴۴۶۔

۱ ۔ قوم ثمود کی سر گزشت کا خلاصہ

قوم ” ثمود“ جیساکہ ہم نے بیان کیا ہے ، مدینہ اور شام کی درمیانی سر زمین میں ( جس کانا م وادی القریٰ ہے ) زندگی بسر کرتی تھی ۔ ان کا دین و مذہب بت پرستی تھا او روہ انواع و اقسا م کے گناہوں میں ملوث تھے خد اکے عظیم پیغمبر صالح علیہ السلام ان میں مبعوث ہوئے اور ان کی ہدایت اور نجات کے لئے کمر ہمت باندھی ، لیکن ناتو یہ لوگ بت پرستی سے دست بر دار ہوئے اور نہ ہی انہوں نے سر کشی اور گناہ کے بارے میں اپنا نظر یہ بدلا ۔

جب انہوں نے معجزہ کا تقاضا کیاتو خدا نے ایک ناقہ ( اونٹنی ) اعجاز آمیز اور خارق العادہ طریقے سے پہاڑ کے اندر سے نکالی ، لیکن اس بناء پر کہ اس بارے میں ان کی آز مائش کرے یہ حکم دیاکہ اس بستی کا ایک دن کا سارا پانی اس اونٹنی کے لئے رہے گا اور دوسرے دن کا پانی خود استعمال کریں گے یہاں تک کہ بعض روایات میں آیا ہے کہ جب وہ پانی سے محروم رہتے تھے تو اونٹنی کے دودھ سے فائدہ اٹھاتے تھے ،لیکن عظیم معجزہ بھی ان کی ہٹ دھرمی اور فسق و فجور میں کمی نہ کرسکا ۔

لہٰذا انہوں نے ناقہ کو نابود کرنے کامنصوبہ بنایا اور حضرت صالح علیہ السلام کو قتل کرنے کابھی ، کیونکہ وہ انہیں اپنی خواہشات اور ہواوہوس میں مزاحم سمجھتے تھے ۔

ناقہ کی نابودی کا منصوبہ ایک بہت ہی بے رحمی اور شقی آدمی ” قدار بن سالف“ کے ذریعے عمل میں آیاہے اور اس نے کئی ضربوں کے ساتھ ناقہ کو زمین پر ڈھیر کردیا ۔

یہ بات حقیقت میں خدا کے ساتھ اعلان جنگ تھی ، کیونکہ وہ یہ چاہتے تھے کہ ناقہ کو ختم کردینے سے ، جو صالح علیہ السلام کا معجزہ تھی ، نورِ ہدایت کو خاموش کردیں گے ۔ اس موقع پر حضرت صالح علیہ السلام نے انہیں آگاہ کیا کہ وہ تین دن تک اپنے گھروں میں جس نعمت سے لذت حاصل کرنا چاہیں کرلیں ، لیکن وہ اچھی طرح جان لیں کہ تین دن کے بعد عذاب الٰہی سب کو گھیر لے گا۔ ( سورہ ہود ۔ ۶۵)

یہ تین دن آخری غور و فکر کے لئے مہلت تھی ، اور توبہ و باز گشت کے لئے ایک آخری فرصت۔ لیکن انہوں نے نہ صرف یہ کہ تجدید نظر نہیں کی ،بلکہ ان کے طغیان و سر کشی میں اضافہ ہو گیا ۔ اس موقع پر عذاب الٰہی ان پر نازل ہوا اور ” صیحہ آسمانی “ ”( واخذ الذین ظلمواالصیحة فاصبحوا فی دیار هم جاثمین ) “( ہود ۔ ۶۷) ۔

وہ ایسے نابود ہوئے ، اور ان کی سر زمین اس طرح خاموش ہوئی کہ گویا ہر گز ہرگز ان گھروں میں کوئی رہتا ہی نہیں تھا ۔ لیکن خدا نے صالح اور ان کے مومن اصحاب کے اس مہلکہ سے نجات بخشی(ہود۔ ۶۶)

قوم ثمود کی سر گزشت کی مزید تفصیل کے بارے مین تفسیر نمونہ جلد ۵ ص ۳۱۲ سے آگے مطالعہ کریں

۲ ۔ اشقی الاولین“ و اشقی الاٰخرین“

شیعہ و سنی بزرگ علماء کی ایک جماعت منجملہ ثعلبی، واحدی ، ابن مردویہ، خطیب بغدادی ، طبری موصلی اور احمد حنبل وغیرہ نے اپنی اپنی اسناد کے ساتھ عمار یاسر (رض) جابر بن سمرہ (رض) اور عثمان (رض) بن صہیب کی وساطت سے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے اس طرح نقل کیا ہے کہ آپ نے علی علیہ السلام سے فرمایا:

یا علی ! اشقی الاولین عاقر الناقة، اشقی الاٰخرین قاتلک، و فی روایة من یخضب هٰذه من هٰذا :

” اے علی ! پہلے لوگوں میں سے بد بخت ترین شخص وہ تھا جس نے ناقہ صالح کو قتل کیا ، اور پچھلے لوگوں میں سے بد بخت ترین آدمی تیرا قاتل ہے اور ایک روایت میں آیا ہے کہ جو اس سے رنگین کرے گا، ( جو اس طرف اشارہ ہے کہ تیری داڑھی کو تیرے سر کے خون سے خضاب کرے گا)۔(۱)

حقیقت میں ناقہ صالح کی کونچیں کاٹنے والے ” قدابن یوسف“ اور امیر المومنین کے قاتل” عبد الرحمن بن ملجم مرادی“ کے درمیان ایک شباہت موجود تھی ، ان دونوں میں سے کسی کو بھی ذاتی رنجش نہیں تھی ، مسلمان بھی امیر المومنین علی کی شہادت کے بعد جابرادر بیداد گر بنی امیہ کی حکومت کے زیر تسلط دردناک ترین عذابوں کے شاہد ہوئے ۔

قابل توجہ بات یہ ہے کہ ” حاکم جسکانی“ نے شواہد التنزیل“ میں اس سلسلہ میں بہت زیادہ روایت نقل کی ہیں ، جو مضمون و مطالب کے لحاظ سے اوپر والی روایت کے مشابہ ہیں(۲)

____________________

۱۔ ” تفسیر نو ر الثقلین“ جلد ۵ ص ۵۸۷۔

۲۔ شواہد التنزیل “ جلد ۲ ص ۳۵ تا ۳۴۳۔

۳ ۔ تہذیب نفس ایک عظیم خدائی وظیفہ ہے

جس قدر قرآنی قسمیں کسی چیز کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ محکم ہوں وہ اس موضوع کی اہمیت کی دلیل ہیں ، اور ہم جانتے ہیں کہ زیادہ طولانی اور زیادہ تاکیدی قسمیں اسی سورہ میں ہیں ، خصوصاً خدا کی ذات پاک کی قسم کا اس میں تین مرتبہ تکرار ہواہے ۔ اور انجام کار اس مسئلہ پر تکیہ ہو اہے کہ فلاح و رست گاری تزکیہ نفس میں ہے ۔ اور محرومیت اور شکست و بد بختی تزکیہ کے ترک کردینے میں ہے ۔

حقیقت میں انسانی زندگی کا اہم ترین مسئلہ بھی یہی مسئلہ ہے ۔ اور حقیقتاً قرآن نے اوپر والے معنی کے ساتھ مفہوم کو واضح کردیا ہے کہ انسان کی نجات ورست گاری تصورات اور خیالوں کی مرہون منت نہیں ہے ، نہ ہی مال و ثروت اور مقام و منصب کے سایہ میں اور نہ ہی دوسرے اشخاص کے اعمال کے ساتھ وابستہ ہے ۔ ( جیساکہ عیسائی خیال کرتے ہیں کہ ہر شخص کی نجات عیسیٰ مسیح کی فداکاری کی مرہون منت ہے ) اور نہ ہی اس قسم کی دوسری باتوں میں ۔ بلکہ نجات انسانی ایمان و عمل صالح کے سایہ میں روح و جان کی پاکیزگی اور بلندی کی مرہون منت ہے ۔

انسان کی بد بختی اورشکست بھی نہ ہو تو اجباری قضاو قدر میں ہے ، اور نہ ہی الزامی سر نوشتوں میں ، او رنہ ہی دوسروں کے لئے ہوئے کاموں میں ، بلکہ وہ صرف اور صرف گناہ کی آلودگی سے بچے رہنے میں ہے اور تقویٰ کی راہ اختیار کرنے میں ہے ۔

تاریخوں میں آیا ہے کہ عزیز ِ مصر کی بیوی ( زلیخا) نے ، جب یوسف خزانوں کے مالک اور سرزمین ِ مصر کے حاکم بن گئے ، ان سے ملاقات کی او رکہا:

ان الحرص و الشهوة تصیر الملوک عبیداً ، وان الصبر و التقوی یصیر العبد ملوکاً، فقال یوسف قال الله تعالیٰ انه من یتق و یصبر فان الله لایضیع اجر المحسنین “۔

” حرص و شہوت بادشاہوں کو غلام بنادیتے ہیں اور صبر و تقویٰ غلاموں کو بادشاہ بنادیتے ہیں ۔ یوسف علیہ السلام نے اس کی بات کی تصدیق کی ، اور یہ کلام اسے یاد دلایا: ” جو شخص تقویٰ او ر صبر و شکیبائی اختیار کرے گا تو خدا نیکو کاروں کے اجر کو ضائع نہیں کرتا ۔(۱)

یہی مطلب ایک دوسری عبارت میں نقل ہواہے کہ عزیز مصر کی بیوی ایک راہ گزر میں بیٹھی ہوئی تھی کہ یوسف کی سواری وہاں سے گزری ، تو زلیخا نے کہا؛الحمد لله الذی جعل الملوک بمعصیتهم عبیداً، و جعل العبید بطاعتهم ملوکاً :

” سب تعریفیں اس اللہ کے لئے ہیں کہ جس نے بادشاہوں کو معصیت اور نافرمانی کی بناء پر غلام بنا دیا ، اور غلاموں کو اطا عت و فرماں برداری کی وجہ سے باد شاہ “۔(۲)

ہاں نفس کی بندگی انسان کی غلامی کا سبب ہے ، اور تقویٰ و تہذیبِ نفس عالم ہستی پر حکومت کرنے کا سبب ہے ۔

ایسے افراد کتنے زیادہ ہیں جو خدا کی بندگی اور طاعت کی وجہ سے ایسے بلند مقام تک پہنچے ہیں کہ ولایتِ تکوینی کے مالک بن گئے ، خدا کے اذن سے اس عالم کے حوادث میں اثر انداز ہوسکتے ہیں اور کرامات و خوارق عادات پر دسترس رکھ سکتے ہیں ۔

خداوندا !ہوائے نفس کے ساتھ مبارزہ کرنے میں تو ہامری مد داور نصرت فرما۔

پروردگارا! تونے ہمیں ” فجور“ و ” تقویٰ“ کا الہا م کیا ہے ۔ ہمیں اس الہام سے فائدہ اٹھانے کی توفیق عنایت فرما۔

بارِ الٰہا! شیطان کے مکرو فریب انسان کے نفس میں مخفی و پوشیدہ ہیں ، ہمیں ان مکروں کی شناخت سے آشنا کردے!

آمین یا رب العالمین

____________________

۱۔ ” محجة البیضاء “ جلد۵ ص ۱۱۶۔

۲۔ ” محجة البیضاء “ جلد۵ ص۱۱۷۔

سورہ اللیل

یہ سورہ مکہ میں نازل ہوا اس کی ۲۱ آیا ت ہیں

سورہ ” اللیل “ کے مضامین

یہ سورہ جو مکی سورتوں میں سے ہے اور مکی سورتوں کی خصوصیات کاحامل ہے ، مختصر آیات کے ٹکڑوں میں ہے ، لیکن ان کے مضامین گرما گرم اور تیز ہیں ، اور زیادہ تر قیامت ، خد ائی جزا و سزا اور اس کے عوامل و اسباب کے بارے میں ہیں ۔ ابتداء میں تین قسموں کو ذکر کے نے کے بعد لوگوں کو دو گروہوں میں تقسیم کیا ہے :

۱ ۔ تقویٰ کے ساتھ انفاق کرنے والے ۔

۲ ۔ وہ بخیل جو قیامت کے اجر و پاداش کے منکر ہیں ، پہلے گروہ کا انجام کار خوش بختی اور راحت و آرام ہے جب کہ دوسرے گروہ کا انجام سختی ، تنگی اور بد بختی ہے ۔

اس سورہ کے دوسرے حصہ میں اس معنی کی طرف اشارہ کرنے کے بعد کہ بندوں کو ہدایت کرنا خدا کا کام ہے ،سب لوگوں کو دوزخ کی بھڑکتی ہوئی آگ سے ڈرایا ہے ۔

اور آخری حصہ میں ، ان لوگوں کے ، جو اس آگ میں جلیں گے، اور اس گروہ کے جو اس سے نجات پائیں گے ، اوصاف بیان کر تے ہوئے تعارف کرایا ہے ۔

اس سورہ کی تلاوت کی فضیلت

اس سورہ کی تلاوت کی فضیلت میں پیغمبر اکرام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا:

من قرائها اعطاه الله حتی یرضی، و عافاه من العسر و یسر له الیسر(۱)

”جو شخص اس سورہ کی تلاوت کرے گا خدا اسے اس قدر عطا کرے گا کہ وہ راضی او رخوش ہوجائے گا، اور اسے سختیوں سے نجات دے گا اور زندگی کی راہوں کو اس کے لئے آسان کردے گا“۔

آیات ۱،۲،۳،۴،۵،۶،۷،۸،۹،۱۰،۱۱

( بسم الله الرحمن الرحیم )

۱ ۔( و اللیل اذا یغشیٰ ) ۔ ۲ ۔( و النهار اذا تجلیٰ ) ۔ ۳ ۔( وما خلق الذکر و الانثیٰٓ ) ۔ ۴ ۔( انّ سعیکم لشتیّٰ ) ۔

۵ ۔( فامامن اعطیٰ و اتّقیٰ ) ۔ ۶ ۔( و صدق بالحسنی ) ٰ ۔ ۷ ۔( فسنیسره للیسریٰ ) ۔ ۸ ۔( و اما من بخل و استغنیٰ ) ۔

۹ ۔( کذب بالحسنیٰ ) ۱۰( فسنیسره للیسریٰ ) ۱۱ ۔( وما یغنی عنه ما اذا تردّی )

ترجمہ

شروع اللہ کے نام سے جو رحمن و رحیم ہے

۱ ۔ قسم ہے رات کی جبکہ وہ عالم کو ڈھاپ لے ۔ ۲ ۔ اور قسم ہے دن کی جب کہ وہ تجلی کرے ۔ ۳ ۔ اور قسم اس کی جس نے مذکر مو نث پید اکئے ۔

۴ ۔ کہ تمہاری سعی و کو شش مختلف ہے ۔ ۵ ۔پس وہ خدا کہ جو ( راہ خدا میں انفاق کرے اور پر ہیز گاری ) اختیار کرے ۔

۶ ۔ اور ( خدا کی ) نیک جزاکی تصدیق کرے ۔ ۷ ۔ ہم اس کی راہوں کو آسان بنادیں گے ۔

۸ ۔ لیکن جو شخص بخل کرے ، اور اس طریقہ سے بے نیاز ہونا چاہے۔ ۹ ۔ اور ( خدا کی ) اچھی جزاو ں کی تکذیب کرے ۔

۱۰ ۔ ہم عنقریب اس کی راہوں کو دشوار بنادیں گے ۔

۱۱ ۔ اور جس وقت وہ( جہنم یا قبر میں )گرے گا تو اس کے اموال اس کی حالت کے لئے مفید ہوں گے ۔

سورہ ”و اللیل کا شان نزول

مفسرین نے اس سالم سورہ کے لئے ابنِ عباس (رض) سے ایک شانِ نزول نقل کی ہے ۔ ہم اس شانِ نزول کو مرحوم طبرسی کی ” مجمع البیان “ سے نقل کرتے ہیں :

مسلمانوں میں سے ایک شخص کے کھجور کے درخت کی ایک شاخ ایک فقیر عیال دار کے گھر کے اوپر پہنچی ہوئی تھی ۔ کھجور والا جب خرمے اتارنے کے لئے کھجور پر چڑھتا تو بعض اوقات خرمے کے کچھ دانے اس فقیر آدمی کے گھر میں جاگر تے اور اس کے بچے انہیں اٹھا لیتے وہ شخص کھجور کے درخت سے اتر کر خرمے چھین لیتا ، ( اور وہ اتنا بخیل اورسنگ دل تھا کہ )اگر ان میں سے کسی کے منھ میں بھی خرمے کا دانہ دیکھتا تو اس کے منھ میں انگلی ڈال کر نکال لیتا ۔ اس مرد فقیر نے پیغمبر کی خد مت میں شکایت کی : حضور نے فرمایا : تم جاو میں تمہارا یہ کام کرتا ہوں : اس کے بعد آپ نے کھجور والے سے ملاقات کی یہ درخت جس کی شاخیں فلاں شخص کے گھر کے اوپر پہنچی ہوئی ہیں ، مجھے دے دے تاکہ اس کے مقابلہ میں جنت میں ایک درخت دوں ۔ اس نے کہا میرے پاس کھجور کے بہت سے درخت ہیں لیکن کسی کے خرمے اس درخت کے جیسے اچھے نہیں ہیں ۔( لہٰذا میں یہ سو داکرنے کے لئے تیار نہیں ہوں )۔ اصحاب پیغمبر میں سے کسی نے یہ گفتگو سن لی ۔ اس نے عرض کیا: اے رسول اللہ اگر میں جاکر یہ درخت اس شخص سے خرید لوں ، اور آپ کو دیدوں تو آپ وہی چیز جو اس کو دے رہے تھے مجھے عطا فرمائیں گے ؟آپ نے فرمایا:ہاں ! اس شخص نے جاکر درخت والے سے ملاقات کی اور اس سے اس سلسلہ میں بات کی ، کھجور کے مالک نے کہا : کیا تجھے معلوم ہے کہ محمد ( صلی اللہ علیہ آلہ وسلم ) اس کے بدلے میں جنت میں کھجور کا ایک درخت مجھے دینے کے لئے تیار تھے ۔ ( لیکن میں نے قبول نہیں کیا )۔ اور میں نے انہیں یہ کہ د یا کہ میں اس کے خرموں سے بہت لذت اندوز ہوتا ہوں ، میرے پاس بہت سے کھجور کے درخت ہیں لیکن کسی کے خرمے اتنے اچھے نہیں ہیں ۔

خریدار نے کہا کیا تو بیچنا چاہتا ہے یانہیں ؟ اس نے کہا : میں اسے نہیں بیچوں گا ، مگر صرف اس صورت میں کہ تو اتنی رقم مجھے دے دے کہ کوئی نہیں دے گا ۔ اس نے کہا: تو کتنی رقم لینا چاہتا ہے ؟ اس نے کہا چالیس درخت ۔

خریدار نے تعجب کرتے ہوئے کہا : تو ایسے کھجور کے درخت کی جو ٹیڑھا ہوچکا ہے بہت ہی بھاری قیمت مانگتا ہے ۔ چالیس کھجور کے درخت !

پھر تھوڑے سے سکوت کے بعد اس نے کہا : بہت اچھا ، میں خرمے کے چالیس درخت تجھے دیتا ہوں ۔

بیچنے والے( لالچی )نے کہا اگر تو سچ کہتا ہے تو کچھ آدمیوں کو گواہی کے لئے بلا لے! اتفاقاً کچھ لوگ وہاں سے گزررہے تھے اس نے انہیں آوازدی اور انہیں اس معاملہ پر گواہ بنایا۔

اس کے بعد وہ پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمت میں آیا اور عرض کیا: اے رسول ِ خدا ! وہ کھجور کا درخت میری ملکیت میں آگیا ہے ، اور میں اسے آپ کی با رگاہ میں پیش کرتا ہوں ۔

پیغمبر اکرام صلی اللہ علیہ آلہ وسلم فقیر کے گھر والوں کے پاس گئے اور صاحب خانہ سے کہا : ” یہ کھجور کا درخت تیرا اور تیرے بچوں کا ہے ۔اس موقع پر سورہ ” و اللیل “ نازل ہوئی ( اور بخیلوں اور سخیوں کے بارے میں ان کے لائق باتیں کہیں )۔ بعض روایات میں آیاہے کہ اس خریدار کا نام ” ابوالاحداح“ تھا۔(۲)

____________________

۱۔” مجمع البیان “ جلد ۱۰ ص ۴۹۹۔۲۔ ” مجمع البیان “ جلد ۱۰ ص ۵۰۱۔