تفسیر نمونہ جلد ۱۵

تفسیر نمونہ 0%

تفسیر نمونہ مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن

تفسیر نمونہ

مؤلف: آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی
زمرہ جات:

مشاہدے: 58527
ڈاؤنلوڈ: 3605


تبصرے:

جلد 1 جلد 4 جلد 5 جلد 7 جلد 8 جلد 9 جلد 10 جلد 11 جلد 12 جلد 15
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 169 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 58527 / ڈاؤنلوڈ: 3605
سائز سائز سائز
تفسیر نمونہ

تفسیر نمونہ جلد 15

مؤلف:
اردو

سورہ و اللیل کے شانِ نزول کے بارے میں ایک بات

فخر رازی : ” مفسرین اہل سنت عموماً یہ نظر یہ رکھتے ہیں کہ ” سیجنبھا الاتقی“ میں ” اتقی“ سے مراد حضرت ابو بکر (رض)ہیں ، اور شیعہ عام طور پر اس بات کا انکار کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ حضرت علی علیہ السلام کی شان میں نازل ہوئی ہے ۔(۱)

اس کے بعد وہ اپنے مخصوص انداز میں تجزیہ کرتے ہوئے اس طرح کہتاہے : امتِ اسلامی ( عام اس سے کہ اہل سنت ہوں یا شیعہ )ٌ اس چیز پر اتفاق رکھتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد افضل ترین شخص یا ابو بکر (رض)ہے یا علی، اور علی علیہ السلام پرمنطبق نہیں کیا جا سکتا ، کیونکہ قرآن اس فرد اتقیٰ کے بارے میں کہتا ہے :وما لاحد عندہ من نعمة تجزٰی کوئی شخص اس پر کوئی حق نہیں اور احسان نہیں رکھتا ، کہ جس کی جزا دی جائے اور یہ صفت علی علیہ السلام پر تطبیق نہیں کرتی کیونکہ پیغمبر ان پر حقِ نعمت رکھتے تھے ، لیکن پیغمبر اکرام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نہ صرف یہ کہ ابو بکر (رض) پر کوئی مادی حق نعمت نہیں رکھتے تھے ، بلکہ اس کے بر عکس وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر انفاق کرتے تھے اور حقِ نعمت رکھتے تھے !

اس کا نتیجہ یہ بنتا ہے کہ ” اتقیٰ“ کامصداق ابو بکر (رض)ہے ، اور چونکہ اتقیٰ کا معنی سب لوگوں سے زیادہ پر ہیز گار ہے ،لہٰذا اس کی افضلیت ثابت ہے ۔(۲)

اگر چہ ہم ا س تفسیر کے مباحث میں ، اس قسم کے مسائل میں وارد ہونے کی طرف زیادہ مائل نہیں ہیں لیکن بعض مفسرین کااپنے پہلے سے کئے ہوئے فیصلہ کو قرآن کی آیات کے ذریعے ثابت کرنے پر اصرار اس حدتک پہنچ گیا ہے کہ وہ ایسی تعبیریں کرنے لگے ہیں جو پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے مرتبہ ، اور بلند مقام کے لائق نہیں ہے ۔ لہٰذا اسی سبب سے ہم بھی یہاں چند نکات کاذکر کرتے ہیں ۔

اولاً : یہ جوفخررازی کہتاہے کہ اہل سنت کا اس پر اجماع و اتفاق ہے کہ یہ آیت ابو بکر (رض) کے بارے میں نازل ہوئی ہے ، لیکن اس چیز کے بر خلاف جسے اہل سنت کے مشہور و معروف مفسرین نے صراحت کے ساتھ نقل کیا ہے ، منجملہ ” قرطبی“ اپنی تفسیروں میں ابن عباس (رض) سے ایک روایت میں نقل کرتا ہے کہ یہ سارا سورہ ( سورہ للیل ) ” ابو الدحداح“ کی شان میں نازل ہوا ہے ۔ ( جس کی داستان ہم نے سورہ کے آغاز میں بیان کردی ہے )۔(۳)

خاص طور پر جب وہ آیہ( وسیجنبها الاتقی ) ٰپر پہنچتا ہے تو پھر دوبارہ کہتا ہے کہ اس سے مراد ” ابو الد حداح“ ہے اگر چہ اکثر مفسرین سے اس نے یہ بھی نقل کیا ہے کہ (ان کے نزدیک ) یہ ابو بکر (رض)کے بارے میں نازل ہوئی ہے ، لیکن خود اس نے اس نظریہ کو قبول نہیں کیا۔

ثانیاً: جو اس نے کہاہے کہ شیعوں ک اس پر اتفاق ہے کہ یہ آیت علی علیہ السلام کے بارے میں نازل ہوئی ہے ، ٹھیک نہیں ہے ، کیونکہ بہت سے مفسرین نے وہی ابوالدحداح کی داستان ہی بیان کی ہے اور اسے قبول کیا ہے ۔ البتہ بعض روایات میں امام جعفر علیہ السلام سے نقل ہواہے کہ ” اتقی“ سے مراد ان کے پیرو کا ر اور شیعہ ہیں اور الذی یو تی مالہ یتزکّٰی سے مراد امیر المومنین علی علیہ السلام ،

لیکن ظاہر یہ ہے کہ یہ باتیں شانِ نزول کا پہلو نہیں رکھتیں ، بلکہ یہ واضح اور روشن مصداق کی تطبیق کی قبیل سے ہیں ۔

ثالثاً: اس میں شک نہیں کہ اوپر والی آیت میں لفظ ” اتقی“ لوگوں میں سے زیادہ تقویٰ رکھنے والے کے معنی میں نہیں ہے، بلکہ اس مفہوم وہی متقی ہوناہے ، اور اس بات کاواضح گواہ یہ ہے کہ اس کے مقابلہ میں ” اشقی“ لوگوں میں سے بد بخت ترین کے معنی میں نہیں ہے ، بلکہ اس سے مراد وہ کا فر ہیں جو انفاق سے بخل کرتے تھے ۔ علاوہ ازیں یہ آیت اس وقت نازل ہوئی تھی جب کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ آلہ وسلم زندہ تھے ، تو کیا ابو بکر (رض) کو پیغمبر سے بھی مقدم رکھا جاسکتا ہے ؟ پہلے سے کئے ہوئے فیصلوں اور ذہنیتوں کی بناء پر ایسی تعبیر کیوں کریں جو پیغمبر تک کے مقامِ بلند کوبھی ضرب لگائیں ۔

اور اگر یہ کہاجائے کہ پیغمبر کامعاملہ الگ ہے ، تو پھر ہم کہتے ہیں کہ آیہ وماحد عند من نعمة تجزٰی میں ان کے معاملے کو کیوں الگ نہیں رکھا گیا اورعلی علیہ السلام کو آیت کے مورد سے خارج کرنے کے لئے کیوں کہاگیا کہ چونکہ وہ پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی مادی نعمتوں کے مشمول ہیں لہٰذا وہ اس آیت میں داخل نہیں ہیں ۔

رابعاً: ایسا کونسا آدمی ہے جس سے اس کی زندگی میں کسی نے محبت کی ہی نہ ہو اور کسی نے بھی نہ اسے ہدیہ دیاہو نہ کبھی دعوت کی ہو۔ کیا واقعاً ایسا ہو اہے کہ ابو بکر (رض) اپنی ساری عمر میں نہ تو کسی کی مہمانی پرگئے اور نہ ہی کبھی کسی کا کوئی ہدیہ قبول کیا اور نہ ہی کوئی اور دوسری مادی خدمت کس سے قبول کی کیا یہ چیز باور کرنے کے لائق ہے ؟ نتیجہ یہ ہے کہ آیہ ومالا حد عندہ من نعمة تجزیٰسے مرادیہ نہیں ہے کہ کسی بھی شخص کااس پر کوئی حق نعمت ہے ہی نہیں ، بلکہ اس سے مراد یہ ہے کہ ان سے انفاق کرنا کسی حق نعمت کی بناء پر نہیں ہے ۔

یعنی اگر وہ کسی پر انفاق کرتے ہیں تو وہ صرف خدا کے لئے ہوتا ہے ، نہ کہ وہ کسی خدمت کی بناء پر اسے اجر و پاداش دینا چاہتے ہیں ۔

خامساً: اس سورہ کی آیات اس بات کی نشان دہی کرتی ہیں کہ یہ سورہ ایک ایسے ماجرے کے بارے میں ، جس کے دو قطب ہیں ، نازل ہوا ہے ، ایک ” اتقی“ کے قطب میں تھا اور دوسرا ” اشقی“ کے قطب میں ۔ اگر ہم ” ابو الدحداح“ کی داستان کو شانِ نزول سمجھیں تو مسئلہ حل شدہ ہے لیکن اگر ہم کہیں کہ مراد ابوبکر (رض) تھے تو ” اشقی“ کی مشکل باقی رہ جاتی ہے کہ اس سے مراد کون شخص ہے؟

شیعوں کو اس بات پر کوئی اصرار نہیں ہے کہ یہ آیت خصوصیت کے ساتھ علی علیہ السلام کے بارے میں ہے ۔ ان کی شان میں آیات بہت زیادہ ہیں ، لیکن اگر اس کی تطبیق علی پرکی جائے تو” اشقی“ کی مشکل حل ہے، کیونکہ سورہ شمس کی آیہ ۱۲( اذانبعث اشقاها ) کے ذیل میں اہل سنت کے طرق سے کافی روایات نقل ہوئی ہیں کہ ” اشقی“ سے مراد علی بن ابی طالب کا قاتل ہے ۔ (ان روایات کو ، جیسا کہ ہم نے بیان کیا ہے ، کہ حاکم حسکانی نے شواہد التنزیل میں جمع کیا ہے )۔

خلاصہ یہ ہے کہ فخر رازی کی گفتگواور اس آیت کے بارے میں اس کی تحلیل بہت ہی کمزور او ربہت سے اشتباہات پر مشتمل ہے ۔ اسی لئے اہل سنت کے بعض مشہور مفسرین مثلاً آلوسی تک نے بھی روح المعانی میں اس تجزیہ کو پسند نہیں کیا، اوراس پر اعتراض کیاہے ، جیسا کہ وہ کہتا ہے:

و استدل بذالک الامام علی انه ( ابو بکر) افضل الامة و ذکر ان فی الاٰیات ما یأبی قول الشیعة انهافی علی و أطال الکلام فی ذالک و اٰتی بما لایخلو عن قبیل و قال :

” امام فخر رازی نے اس آیت سے یہ استدلال کیاہے کہ ابو بکر (رض)افضل امت ہیں ، اور مزید کہا ہے کہ آیات میں بعض قرائن ایسے ہیں جو شیعوں کے قول کے ساتھ ساز گار نہیں ہیں ۔ اور یہاں گفتگو کو طول دیا ہے اور ایسے مطالب بیان کئے ہیں جو قیل ( اور اشکال ) سے خالی نہیں ہیں ۔۴

____________________

۱۔ ”تفسیر فخر رازی“جلد ۳۱، صفحہ ۲۰۴۔

۲ ۔ تفسیر قرطبی“ جلد ص۷۱۸۰۔۳ ۔ تفسیر قرطبی“ جلد ص۷۱۸۰۔

۴ ۔روح المعاج جلد ۳۰ ص ۱۵۳

۲ ۔ انفاق فی سبیل اللہ کی فضیلت

راہ خدا میں انفاق اور بخشش کرنا ، محروم، خصوصاً آبرو مند لوگوں کی مالی امداد کرنا ، جو خلوصِ نیت سے لی ہوئی ہو، ایسے امور میں ہے جس کا قرآن مجید کی آیات میں بار بار ذکرہوا ہے ، اور اس کو ایمان کی نشانیوں سے لیاگیا ہے ۔ اس بارے میں اسلامی روایات بھی تاکید سے بھری ہوئی ہیں ، یہاں تک کہ وہ اس بات کی نشا دہی کرتی ہیں کہ اسلامی معاشرے اور تمدن میں مالی انفاق کرنا ، بشرطیکہ اس کا محرک پر وردگار کی رضاکے علاوہ اور کچھ نہ ہو ، اور وہ ہرقسم کی ریا کاری ، احسان جتانے اور آزار سے خالی ہو ، تو بہترین اعمال میں سے ہے۔

ہم اس بحث کو چند معنی خیز احادیث کے ذکر کے ساتھ مکمل کرتے ہیں ۔

۱ ۔ ایک روایت میں امام محمد باقر علیہ السلام سے آیاہے :

ان احب الاعمال الی الله ادخال السرور علی المو من ، شعبة مسلم او قضاء دینه

”خدا کے نزدیک محبوب ترین عمل ضرورت مند مومن کے دل کو خوش کرنا ہے ، اس طرح سے کہ اسے سیر کیا جائے یاا س کا قرض ادا کیا جائے ۔(۱)

۲ ۔ ایک حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے آیاہے :

من الایمان حسن الخلق ، و اطعام الطعام ، و اراقة الدماء

حسن خلق ، کھانا کھلانا، اور خون بہانا ( راہ خدا میں قربانی) ایمان کے اجزاء میں سے ہیں ۔(۲)

۳ ۔ ایک اور حدیث میں امام جعفر صادق علیہ السلام سے آیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا:

ما اری شیئاً یعدل زیادة المو من الااطعامه، وحق علی الله ایطعم من اطعم مو مناً من طعام الجنة “:

” میرے نزدیک کوئی چیز مومن کے دیدار اور زیارت کے برابر نہیں ہے سوائے اس کو کھانا کھلانے کے ۔ اور جو شخص کسی مومن کو کھانا کھلائے خدا پر لازم ہے کہ وہ اسے جنت کے کھانوں میں سے کھانا کھلائے “۔(۳)

۴ ۔ ایک اور حدیث میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے آیاہے کہ ایک شخص نے آنحضرت صلی اللہ علیہ آلہ وسلم کی سواری کی مہار پکڑلی اور عرض کیا : اے رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم !ای الاعمال افضل ؟ تمام اعمال میں کون سا عمل افضل ہے“۔

اطعام الطعام ، و اطیاب الکلام “ :

” لوگوں کو کھانا کھلانا اور خوش کلام ہونا “۔(۴)

۵ ۔ اور آخر میں ایک حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے منقول ہے :

من عال اهل بیت من المسلمین یومهم ولیلتهم غفر الله ذنوبه “ :

” جو شخص مسلمانوں کے گھرانے کی ایک رات دن پذیرائی کرے تو خدا اس کے گناہوں کو بخش دیتاہے “۔(۵)

خدا وندا ! ہم سب کو تو فیق دے تاکہ ہم اس عظیم کارِ خیر میں قدم رکھیں ۔

پروردگارا ! تمام اعمال میں ہمارے خلوص نیت میں اضافہ فرما۔

بار الہٰا ہم تجھ سے دعا کرتے ہیں کہ تو ہمیں اپنی نعمت و رحمت کا اس طرح سے مشمول قرار دے کہ تو بھی ہم سے خوش ہو اور ہم بھی خوش اور راضی ہوں ۔

آمین یا رب العالمین

____________________

۱۔ ” بحا رالانوار“ جلد ۷۴ حدیث ۳۵ ص ۳۶۵۔

۲۔ ” بحا رالانوار“ جلد ۷۴ حدیث ۳۵ ص ۳۶۵۔

۳- «بحار الانوار»، جلد ۷۴، صفحه ۳۷۸، حديث ۷۹، «اصول كافى»، جلد ۲، صفحه ۲۰۳، باب اطعام المؤمن

۴۔ ” بحار الانوار“ جلد ۷۴ ص۱۱۳۔

۵ ۔ ” بحار الانوار“ جلد ۷۴ حدیث ۲۔

سورہ ضحٰی

یہ سورہ مکہ میں نازل ہوا ۔ اس میں ۱۱ آیات ہیں ۔

سورہ” الضحیٰ“کے مضامین اور اس کی فضیلت

یہ سورہ جو مکی سورتوں میں ہے ، اور بعض ورایات کے مطابق اس وقت نازل ہوا جب پیغمبر وحی کے وقتی طور پر منقطع ہوجانے اور تاخیر سے پریشان تھے ، اور دشمنوں کی زبان کھلی ہوئی تھی،۔ تو یہ سورہ نازل ہوا ، اور باران رحمت کی طرح پیغمبر کے قلب ِ پاک پر اُترا ، اور انہیں نئی تاب و توان بخشی او ربد زبانوں کی زبان کو بند کردیا ۔

اس سورہ کی دو قسموں کے ساتھ ابتدا ہوتی ہے ۔ اس کے بعد پیغمبر کو بشارت دیتاہے کہ خدا نے آپ کو ہر گز نہیں چھوڑا ۔

اس کے بعد آپ کو یہ خوشخبری دیتا ہے کہ خدا آپ کو اس قدر عطا کرے گا کہ آپ خوش ہو جائیں گے ۔

اور آخری مرحلہ میں ، پیغمبر کی گزشتہ زندگی کو آپ کی نظر میں مجسم کرتا ہے کہ خدا نے ہمیشہ آپ کو کس طرح اپنی انواع و اقسام کی رحمت کامشمول قرار دیا ہے ، اور زندگی کے سخت ترین لمحات میں اس نے آپ کی حمایت کی ہے ۔

اور اسی لئے آخری آیات میں آپ کو حکم دیتا ہے کہ ( خدا کی ان عظیم نعمتوں کے شکرانہ کے طور پر ) یتیموں اور حاجت مندوں پرمہر بانی کریں اور خدا کی نعمت کو یاد کرتے رہیں

اس سورہ کی فضیلت

اس سورہ کی فضیلت میں یہی بات کافی ہے کہ ایک حدیث میں پیغمبراکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے نقل ہوا ہے :

”من قرأ ھا کا ن ممن یرضاہ اللہ ، ولمحمد( ص) ان یشفع لہ ولہ عشر حسنات بعدد کل یتیم و سائل !

” جو شخص اس کی تلاوت کرے گا وہ اےسے لوگوں میں سے ہوگا جن سے خدا راضی ہو گا ، اور وہ اس لائق ہوگا کہ محمد اس کی شفاعت کریں اور ہر یتیم اور سوال کرنے والے مسکین کے برابر دس حسنات اس کے لئے ہوں گے ۔(۱)

اور یہ سب فضائل اس کے لئے ہیں جو اسے پڑھے اور اس پر عمل کرے۔

قابل توجہ بات یہ ہے کہ متعدد روایات کے مطابق یہ سورہ اور اس کے بعد والا سورہ (سورہ الم نشرح) ایک ہی سورہ ہیں اور چونکہ ہر رکعت میں الحمد کے بعد ایک مکمل سورہ پڑھنا چاہئیے، لہٰذا ان دونوں سورتوں کو اکٹھا ملا کر پڑھنا چاہئیے، ( یہی بات ”سورہ فیل “اور” لایلاف“کے بارے میں کہی گئی ہے)۔

اور اگر ہم صحیح طور پر ان دونوں سورتوں کے مطالب میں غور کریں تو ہم دیکھیں گے کہ ان دونوں کے مطالب ایک دوسرے سے اتنے ہی ملتے جلتے ہیں کہ یقینی طو رپر ایک دوسرے کے ساتھ تسلسل قائم ہے اگر چہ ان دونوں کے درمیان ” بسم اللہ “ کا فاصلہ ہے ۔

اس بارے میں کہ کیا یہ دونوں سورتیں ہر لحاظ سے ایک ہی ہیں ؟ یا انہیں خصوصیت کے ساتھ نماز میں ایک سورے کے حکم میں شمار کرنا چاہئیے؟ اس میں اختلاف ہے ، جس کی تفصیل کا فقہ کی کتابوں میں ( قرأت نما ز کی بحث میں ) مطالعہ کرنا چاہئیے ، لیکن بہرحال علماء کا اجماع اس بات پر ہے کہ قرأت نماز میں ان میں سے ایک سورہ پر قناعت نہیں کرنا چاہیئے۔

آیات ۱،۲،۳،۴،۵

( بسم الله الرحمن الرحیم )

۱ ۔( و الضحٰی ۲ و الّیل اذا سجٰی ) ۔ ۳ ۔( ماودّعک ربک و ما قلیٰ ) ۔ ۴ ۔( و للاٰخرة خیر لک من الاولیٰ ) ۔

۵ ۔( ولسوف یعطیک ربک فترضیٰ ) ۔

ترجمہ

شروع اللہ کے نام سے جو رحمن و رحیم ہے

۱ ۔ قسم ہے دن کی جب کہ سورج نکل آئے ( اور ہر جگہ کو گھیر لے )۔

۲ ۔ اور قسم ہے رات کی جب کہ وہ ساکن ہوجائے ۔

۳ ۔ کہ ہر گز نہ تو خدا نے تجھے چھوڑا ہے او رنہ ہی تجھ سے غصہ ہوا ہے۔

۴ ۔ اور یقینی طور تیرے لئے آخرت دنیا سے بہتر ہے ۔

۵ ۔ اور عنقریب تیرا رب تجھے اس قدر دے گا کہ تو راضی ہو جائے گا۔

شان نزول

اس سورہ کے شان نزول کے بارے میں بہت زیادہ روایات نقل ہوئی ہیں ، جن میں سب سے زیادہ واضح ذیل کی روایت ہے ۔

”ابن عباس (رض)“ کہتے ہیں : پندرہ دن گزر گئے اور پیغمبر پر وحی نازل نہ ہوئی۔ مشرکین نے کہا: محمد( صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ) کے پر وردگار نے اسے چھوڑدیا ہے اور اس کا دشمن ہو گیا ہے ۔ اگر اس کی یہ بات سچ ہے کہ اس کی ماموریت خدا کی جانب سے ہے تو پھر اس پرمسلسل وحی نازل ہوتی ۔ اس موقع پر اوپروالی سورت نازل ہو ئی ( اور اس کی باتوں کا جواب دیا)۔

قابل توجہ بات یہ ہے کہ ایک حدیث کے مطابق یہ سورہ نازل ہواتو پیغمبر نے جبرئیل سے فرمایا:

” تونے دیر لگادی حالانکہ میں شدت سے تیرا مشتاق تھا “، تو جبرئیل نے کہا :و انا کنت اشد الیک شوقا :“ میں تو خود آپ کا مشتاق تھا ، لیکن میں بندہ مامور ہوں اور پروردگار کی حکم کے بغیر نازل نہیں ہوتا“۔

ایک اور حدیث میں آیا ہے کہ یہودیوں کی ایک جماعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمت اقدس میں آئی اور” ذی القرنین “ و ” اصحابِ کہف“ اور” روح “ کی خلقت کے بارے میں سوال کیا: پیغمبر نے فرمایا:

” میں کل بتاو ں گا “ ، اور انشاء اللہ نہ کہا ، لہٰذا اسی وجہ سے وحی الٰہی کئی دن تک منقطع رہی “ اور دشمنوں کی زبان ِ شماتت سے کھل گئی،اور اس بناء پر پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم غمگین ہوگئے ، تو یہ سورہ نازل ہوا تاکہ پیغمبر کے دل کی تسلی کاباعث ہو(لیکن شان نزول بعید نظر آتی ہے ، کیونکہ یہودیوں کا پیغمبر سے آکر ملنا اور اس قسم کے سوالات کرنا عام طور پر مدینہ میں تھا نہ کہ مکہ میں )۔

بعض روایات میں یہ بھی آیا ہے کہ مسلمانوں کی ایک جماعت نے عرض کیا، اے رسول ِ خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ پر وحی کیوں نازل نہیں ہوتی ؟ آپ نے فرمایا: ” کیف ینزل علیّ الوحی و انتم لاتنقون براجمکم و التقلمون اظفارکم “

” مجھ پر وحی کیسے نازل ہو جب کہ تم اپنی انگلیوں کے جوڑوں کو پاک وصاف نہیں رکھتے ، اور ناخن نہیں کترواتے!؟(۲)

اس بارے میں کہ انقطاع وحی کی مدت کس قدر تھی ؟ مختلف روایات ہیں ۔ بعض نے بارہ دن ، بعض نے پندرہ دن ، بعض نے پچیس دن اور بعض نے چالیس دن تک نقل کئے ہیں ، اور ایک روایت میں صرف دو تین شب و روز بھی نقل ہوئے ہیں ۔

____________________

۱۔ ” مجمع البیان “ جلد ۱۰ ص ۵۰۳۔

۲۔ ” مجمع البیان “ جلد۱۰ ص ۵۰۴، ( تھوڑی سی تلخیص اور اقتباس کے ساتھ )۔

تجھے اس قدر عطا کرے گا کہ تو خوش ہوجائے گا

اس سورے کے آغاز میں بھی دو قسمیں کھائیں گئی ہیں :

۱ ۔ ”نور“ ( روشنی ) کی قسم

۲ ۔ ” ظلمت“ ( تاریکی ) کی قسم ، فرماتا ہے : ” قسم ہے دن کی جب کہ سورج نکل آئے اور ہر جگہ کو گھیر لے“ ( و الضحٰی)” اور قسم ہے رات کی جب کہ وہ ساکن اور ہر جگہ کو سکون و آرام میں غرق کردے“ ( و للیل اذا سجیٰ)۔ ” ضحی“دن کے پہلے حصہ کے معنی میں ہے جب کہ سورج آسمان پر اونچا ہو جائے ، اور اس کی روشنی ہر جگہ مسلط ہو جائے ،

اور یہ در حقیقت دن کا بہترین وقت ہوتا ہے ۔

اور بعض کی تعبیر کے مطابق یہ فصل جوانی کے حکم میں ہے ، جب کہ گرمیوں کی ہوا بھی گرم نہیں ہوتی، اور سر دیوں میں ہوا کی سردی ٹوٹی ہوئی ہوتی ہے اور انسان کی روح و جان اس موقع پر ہر قسم کی فعالیت کے لئے آمادہ ہوتی ہے ۔ ” سجیٰ“ ” سجو“ ( بر وزن سرد، اور بر وزن غلو) کے مادہ سے اصل میں سکون و آرام کے معنی میں ہے ، اور چھپانے “ اور ” تاریک ہونے “ کے معنی میں بھی آیا ہے ، اسی لئے جب ” میت “ کو کفن میں لپیٹ دیتے ہیں تو اسے ” مسجی“ کہاجاتا ہے ۔

لیکن یہاں یہ وہی اصلی معنی دیتا ہے جو سکون و آرام ہے ۔ اسی وجہ سے ان راتوں کو جن میں ہوا نہ چلے ” لیلة ساجیة“ (آرام و سکون کی رات ) کہتے ہیں ،اور طوفان و امواج ِ خروشاں سے خالی سمندر کو ” بحر ساج“ ( پر سکون سمندر) کہا جاتا ہے ۔

بہر حال جو چیز رات کے سلسلہ میں اہم بات ہے وہی سکون و آرام ہے جو اس پر حکم فرما ہے ، اور طبعاً انسان کے اعصاب اور روح کو سکون و آرام میں ڈبو دیتی ہے ہے اور کل اور آئندہ آنے والے دنوں میں سعی اور کوشش کے لئے آمادہ و تیار کرتی ہے ۔ اس لحاظ سے یہ بہت ہی اہم نعمت ہے اور اس لائق ہے کہ اس کی قسم کھائی جائے ۔

ان دونوں قسموں اور آیت کے مضمون کے درمیان شباہت اور ایک قریبی ربط موجود ہے ۔ دن تو پیغمبر کے پاک دل پروحی کے نور کے نزول کی مانند ہے اور رات وقتی طو پر وحی کے انقطاع کے مانند ہے جو بعض مقاطع اور اوقات میں ضروری ہے ۔ ان دونوں عظیم قسموں کے بعد نتیجہ او رجواب ِ قسم کو پیش کرتے ہوئے فرماتا ہے :” تیرے پروردگار نے ہر گز تجھے چھوڑا نہیں ہے ، اور نہ ہی تجھ سے غصہ ہوا ہے “۔( ماودعک ربک وما قلیٰ ) ۔

” ودع “ ” تودیع“ کے مادہ سے ، چھوڑنے اور وداع کردینے کے معنی میں ہے ۔

”قلیٰ“ ” قلا“ ( بروزن صدا) کے مادہ سے شدِت بعض و عداوت کے معنی میں ، اور مادّہ ” قلو“ ( بروزن سرو) پھینکنے اور دھکا دینے کے معنی میں بھی آیاہے ۔

راغب کا نظر یہ یہ ہے کہ یہ دونوں ایک ہی معنی کی طرف لوٹتے ہیں ، کیونکہ جو شخص کسی سے دشمنی کرتا ہے تو گویا دل اسے دھکادے دیتا ہے ، اور اسے قبول نہیں کرتا ۔(۱)

بہرحال یہ تعبیر پیغمبر کی ذات کے لئے ایک دلداری اور تسلی کے طور پر ہے کہ اچھی طرح یہ جان لیں کہ اگر کبھی نزول ِ وحی میں تاخیر ہو جائے تو وہ کچھ مصالح کی بناء پر ہوتی ہے جسے خدا ہی جانتاہے ، اور ہر گز اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ دشمنوں کے قول کے مطابق خدا اس سے خشمگیں اور غصہ ہوگیا ، یا اس کو چھوڑ دیا ہے۔ وہ ہمیشہ ہی خدا کے خاص لطف و کرم اور عنایات کے مشمول ہوتے ہیں اور ہمیشہ اس کی خاص حمایت کے زیر سایہ رہتے ہیں ۔

اس کے بعد مزید فرماتا ہے : ” بیشک عالم آخرت تیرے لئے اس دنیا سے بہتر ہے “۔( وللاٰخرة خیر لک من الاولیٰ ) اورتو اس دنیا میں بھی اس کے ا لطاف کامشمول ہے، اور آخرت کی دراز مدت میں خلاصہ یہ ہے کہ اے محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم تو دنیا میں بھی محترم ہے اور آخرت میں بھی محترم ہے، البتہ دنیا میں عزیز و محترم تر ہے ۔

بعض مفسرین نے ” آخرت“ اور ” اولیٰ “ کی پیغمبر کی عمر کے آغاز و انجام کی طرف اشارہ سمجھا ہے اور یہ کہا ہے کہ اس سے مراد یہ ہے کہ تو اپنی آخری عمر میں زیادہ موافق اور زیادہ کامیاب ہو گا ۔ اور یہ اسلام کی وسعت اور پھیلا و اور مسلمانوں کی دشمنوں پر بار بار کی کامیابیوں اور جنگوں میں ان کی فتوحات اور اسلام کے پودے باور ہونے اور شرک و بت پرستی کے آثار کے ہٹ جانے کی طرف اشارہ ہے

ان دونوں تفسیرکے درمیان جمع میں بھی کوئی مانع نہیں ہے ۔

اور آخری زیر بحث آیت میں پیغمبر کو افضل و بر تر خوش خبری دیتے ہوئے مزید فرماتا ہے :” عنقریب تیرا پروردگار تجھے اس قدر عطا کرے گا کہ تو خوش ہوجائے گا “۔( ولسوف یعطیک ربک فترضیٰ ) ۔

یہ خدا کا اپنے بندہ خاص محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے لئے بالاترین احترام و اکرام ہے کہ فرماتا ہے : اس قدر تجھے بخشوں گا کہ تو راضی ہوجائے گا“۔

دنیا میں تو دشمنوں پرکامیاب ہو جائے گااور تیرا دین عالم گیر ہو جائے گا، اور آخرت میں بھی تو عظیم ترین نعمتوں کا مشمول ہو گا۔

اس میں شک نہیں کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ، خاتم ِ انبیاء اور عالم ِ بشریت کا رہبر ہو نے کی حیثیت سے صرف اپنی ہی نجات پر خوش ہو سکتے ،بلکہ آپ اس وقت راضی و خوش ہوں گے جب آپ کی شفاعت آپ کی امت کے بارے میں قبول ہو جائے گی ، اس بناء پر روایات میں آیاہے کہ یہ آیت امید بخش ترین آیت ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی شفاعت کے قبول ہونے کی دلیل ہے ۔

ایک حدیث میں امام محمد باقر علیہ السلام سے آیاہے کہ انہوں نے اپنے باپ زین العابدین علیہ السلام سے انہوں نے اپنے چچا ” محمد بن حنفیہ “ سے ، انہوں نے اپنے باپ امیر المومنین علیہ السلام سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:” قیامت کے دن میں موقف شفاعت میں کھڑا ہو جاو ں گا اور گناہ گاروں کی اس قدر شفاعت کروں گا ، کہ خدا فرمائے گا:

” ارضیت یا محمد؟! ” اے محمد کیا تم راضی ہوگئے“؟!تو میں کہوں گا، رضیت، رضیت : ” میں راضی ہوگیا ، میں راضی ہو گیا“!اس کے بعد امیر المومنین علیہ السلام نے اہل کو فہ کی ایک جماعت کی طرف رخ کیا اور مزید فرمایا - تمہارا یہ نظریہ ہے کہ قرآنی آیات میں سب سے زیادہ امید بخش آیت ”( قل یا عبادی الذی اسرفوا علیٰ انفسهم لا تقنطوا من رحمة الله ) “ ہے ( یعنی اے میرے بندو! جنہوں نے اپنے اوپر زیادتی کی ہے خدا کی رحمت سے ناامید نہ ہو)۔ اس جماعت نے کہا : جی ہاں ! ہم اسی طرح ہیں :آپ نے فرمایا : ” لیکن ہم اہل بیت یہ کہتے ہیں کہ آیاتِ قرآنی میں سب سے زیاد ہ امید بخش آیت ” ولسوف یعطیک ربک فتر ضیٰ “ ہے ۔(۲)

یہ بات کہے بغیر واضح ہے کہ پیغمبر کی شفاعت کے لئے کچھ شرائط ہیں ، نہ تو آپ ہر شخص کےلئے شفاعت کریں گے اور نہ ہیں ہر گنہگار اس کی توقع رکھ سکتا ہے ۔ ( اس کی بحث کی تفصیل جلد اول سورہ بقرہ کی آیت ۴۸ میں مطالعہ فرمائیے)۔ ایک اور حدیث میں امام جعفر صادق علیہ السلام سے آیاہے :

” رسول خدا فاطمہ کے گھر میں داخل ہوئے، جب کہ آپ کی بیٹی اونٹ کی اون کا سخت لباس پہنے ہوئے تھیں ، ایک ہاتھ سے چکی پیس رہی تھیں ، اور دوسرے ہاتھ سے اپنے فرزند کو دودھ پلارہی تھیں ، پیغمبر صلی اللہ علیہ آلہ وسلم کی آنکھوں میں آنسو آگئے اور فرمایا، بیٹی ! دنیاکی تلخی کو آخرت کی شیرینی کے مقابلہ میں برداشت کر، کیونکہ خدا نے مجھ پر یہ نازل کیا ہے کہ تیراپروردگار اس قدر تجھے دے گا کہ تو راضی ہوجائے گا“۔

( ولسوف یعطیک ربک فترضیٰ ) (۳)

____________________

۱۔ یہ مادہ ” ناقص یائی“ کی صورت میں بھی آیاہے اور ” ناقص“ واوی“ کی صورت میں بھی پہلی صورت میں بغض و عداوت کے معنی میں ہے ، اور دوسری صورت میں پھینکنے اور دھکادینے کے معنی میں ہے ، اور جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا ہے دونوں معنی ایک ہی جڑ اور ریشہ کی طرف لوٹتے ہیں ۔

۲۔ ” ابو الفتوح رازی “ جلد ۱۲، صفحہ ۱۱۰۔

۳۔ ” مجمع البیان “ جلد۱۰، ص ۵۰۵۔