تفسیر نمونہ جلد ۱۵

تفسیر نمونہ 0%

تفسیر نمونہ مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن

تفسیر نمونہ

مؤلف: آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی
زمرہ جات:

مشاہدے: 59408
ڈاؤنلوڈ: 3827


تبصرے:

جلد 1 جلد 4 جلد 5 جلد 7 جلد 8 جلد 9 جلد 10 جلد 11 جلد 12 جلد 15
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 169 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 59408 / ڈاؤنلوڈ: 3827
سائز سائز سائز
تفسیر نمونہ

تفسیر نمونہ جلد 15

مؤلف:
اردو

انقطاع وحی کا فلسفہ

اوپر والی آیات کے مجموعہ سے واضح ہوجاتا ہے کہ پیغمبر کے پاس جو کچھ بھی ہے وہ خدا کی جانب سے ہے، یہاں تک کہ نزول وحی میں بھی آپ اپنی طرف سے کوئی اختیار نہیں رکھتے، جس وقت خدا چاہے وحی کو منقطع کردے، اور جس وقت چاہے بر قرار کردے اور شاید انقطاعِ وحی بھی اسی مقصد کے لئے تھا، تاکہ ان لوگوں کا جواب ہو جو پیغمبرِ اکرم صلی علیہ و آلہ وسلم سے اپنے من مانے اور اپنے میلان کے مطابق معجزوں کا تقاضا کرتے تھے ، یا آپ سے فرمائش کرتے تھے کہ فلاں حکم فلاں آیت کو بدل دیجئے، اور آ پ ان سے یہ فرماتے کہ میں ان امور میں اپنی طرف سے کوئی اختیار نہیں رکھتا ، ( جیسا کہ سورہ یونس کی آیہ ۱۵ میں آیاہے )۔

آیات ۶،۷،۸،۹،۱۰،۱۱

۶ ۔( الم یجد ک یتیماً فاٰوٰی ) ۔ ۷ ۔( ووجدک ضآلاًّ فهدٰی ) ۔ ۸ ۔( ووجدک عآئلاً فاغنٰی ) ۔

۹ ۔( فاما الیتیم فلا تقهر ) ۔ ۱۰ ۔( و اما السآئِل فلا تنهر ) ۔ ۱۱ ۔( و اما بنعمةِ ربک فحدِّث ) ۔

ترجمہ

۱ ۔ کیا تجھے یتیم نہیں پایا تو پھر پناہ دی؟ ۷ ۔ اور تجھے گمشدہ پایاتو راہنمائی کی ۔ ۸ ۔اور تجھے فقیر پایا تو بے نیاز کیا۔

۹ ۔ اب جب کہ یہ بات ہے تو یتیم کو حقیر نہ سمجھ۔ ۱۰ ۔ اور سوال کرنے والے کو نہ دھتکار۔ ۱۱ ۔ اور اپنے پروردگار کی نعمتوں کو یاد کر۔

ان تمام نعمتوں کے شکرانے میں جو خدا نے تجھے دی ہیں

جیسا کہ ہم بیان کرچکے ہیں اس سورہ میں ہدف اور مقصد پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی تسلی و دلداری اور آنحضرت کے لئے الطاف الہٰی کابیان ہے ۔ لہٰذا گزشتہ آیات کو جاری کرتے ہوئے ، جن میں اس مطلب کو بیان کیا گیا تھا، زیر بحث آیات میں پہلے تو پیغمبر ِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر خدا کی تین خاص نعمتوں کا ذکر کرتا ہے ، اور اس کے بعد انہیں سے مربوط تین اہم حکم انہیں دیتاہے۔

فرماتا ہے : کیا خدا نے نے تجھے یتیم نہیں پایا تو تجھے اس نے پناہ دی ؟( الم یجد ک یتیماً فاٰوٰی ) ۔

تو ابھی شکم مادر ہی میں تھا کہ تیرا باپ اس دنیا سے چل بسا ، تو میں نے تجھے تیرے جد عبد المطلب ( سردارِکہ) کی آغوش میں میں پرورش کرائی۔

توچھ سالکا تھا تیری ماں دنیا سے چل بسی اور اس لحاظ سے بھی تو اکیلا رہ گیا ، لیکن ہم نے تیرے عشق و محبت کو ” عبد المطلب “ کے دل میں زیادہ کردیا۔

تو آٹھ سال کاہوا تو تیرا دادا ” عبد المطلب“ بھی دنیا سے رخصت ہو گیا “، تو ہم نے تیرے چچا ” ابو طالب “ کو تیری خدمت و حمایت کے لئے مقرر کردیا ، تاکہ تجھے جانِ شیریں کی طرح رکھے اور تیری حفاظت کرے۔

ہاں ! تو یتیم تھا اور میں نے تجھے پناہ دی۔

بعض مفسرین نے اس آیت کے کچھ اوردوسرے معنی بیان کئے ہیں جو اس کے ظاہر کے ساتھ ساز گار نہیں ، منجملہ ان کے یہ ہے کہ یتیم سے مراد وہ شخص ہے جو شرافت و فضیلت میں اپنامثل ونظیر نہ رکھتا ہو، جیساکہ بے نظیر موتی کو” در یتیم “ کہتے ہیں ، لہٰذا اس جملہ کامعنی یہ ہوگا کہ خدا نے تجھے شرافت و فضیلت میں بے نظیرپایا ۔ اس لئے تجھے انتخاب کیا اور مقامِ نبوت بخشا۔ دوسرا یہ کہ تو خود ایک دن یتیم تھا لیکن آخر کار تویتیموں کو پناہ گاہ اور انسانوں کا رہبر ہو گیا ۔

اس میں شک نہیں کہ پہلا معنی ہر لحاظ سے زیادہ مناسب ہے اور ظاہر آیت کے ساتھ زیادہ ہم آہنگ ہے ۔

اس کے بعد دوسری نعمت کو بیان کرتے ہوئے فرماتا ہے : ” اور تجھے گمشدہ پایاتو تیری راہنمائی کی “۔( ووجدک ضا لاًّ فهدٰی )

ہاں ! تو ہر گز نبوت و رسالت سے آگاہ نہیں تھا ، اور ہم نے یہ نور تیرے دل میں ڈالا ، تاکہ تو اس کے ذریعہ انسانوں کو ہدایت کرے،جیسا کہ ایک دوسری جگہ فرماتاہے :”( ماکنت ماالکتاب و لا الایمان و لٰکن جعلناه نوراً نهدی به من نشاء من عبادنا ) : ”نہ توتو کتاب ہی کو جانتاہے اورنہ ہی ایمان کو“ ( یعنی نزول وحی سے پہلے تواسلام و قرآن کے مطالب سے آگاہ نہیں تھا ) لیکن ہم نے اس کو ایک ایسا نور قرار دیا ہے کہ جس کے ذریعے ہم اپنے بندوں میں جسے چاہیں ہدایت کرتے ہیں “ ( شورٰ۔ ۵۲)

یہ بات واضح ہے کہ پیغمبر کے پاس مقام نبوت و رسالت تک پہنچنے سے پہلے یہ الٰہی فیض نہیں تھا ۔ خدا نے آپ کا ہاتھ پکڑ کر ہدایت فرمائی اور اس مقام تک پہنچا دیا ، جیساکہ سورہ یوسف کی آیہ ۳ میں آیا ہے :( نحن نقص علیک احسن القصص بما اوحینا الیک القراٰن و ان کنت من قبله لمن الغافلین ) :” ہم نے قرآن کی وحی کے ذریعہ ایک بہترین داستان تیرے لئے بیان کی ہے ، اگر تو اس سے پہلے اس سے آگاہ نہیں تھا ۔

یقینا اگر ہدایت الہٰی اور غیبی امدادیں پیغمبر کے ہاتھ کو نہ پکڑتیں تو وہ ہر گز منزلِ مقصود کا راستہ نہ پاتے۔

اس بناء پریہاں ” جلالت“ سے مراد ایمان ، توحید، پاکیزگی اور تقویٰ کی نفی نہیں ہے ، بلکہ ان آیات کے قرینہ سے جن کی طرف اوپر اشارہ ہواہے، اسرارِ نبوت اور قوانینِ اسلام سے آگاہی کی نفی ، اور ان حقائق سے عدم آشنائی تھی، جیسا کہ بہت سے مفسرین نے کہا ہے لیکن بعثت کے بعد پروردگار کی مدد سے ان تمام امور سے واقف ہو گئے اور ہدایت پائی، ( غور کیجئے)۔

سورہ بقرہ کی آیہ ۲۸۲ میں قرضوں کی سند لکھنے کے مسئلہ میں متعدد گواہوں کے فلسفہ کو ذکر کرتے وقت فرماتا ہے : ”( ان تضل احداهما فتذکر احدهما الاخرٰی ) :”یہ اس بناء پر ہے کہ اگر ان دونوں میں سے ایک گمراہ ہو جائے اور بھول جائے تو دوسرا ،اسے یاد دلادے“۔

اس آیت میں ” ضلالت“ صرف صرف بھول جانے کے معنی میں ہے ” فتذکر“ کے جملہ کے قرینہ سے ۔

یہاں اس آیت کے لئے اور بھی کئی تفاسیربیان ہوئی ہیں ، منجملہ ان کے یہ کہ اس سے مراد یہ ہے کہ تو بے نام و نشان تھا ، خدا نے تجھے اس قدر بے نظیر نعمتیں عطا کیں کہ تو ہر جگہ پہچانا جانے لگا۔

ہاں ا س سے مراد یہ ہے کہ تو اپنے بچپنے میں کئی مرتبہ گم ہوا۔ ( ایک دفعہ مکہ کے درّوں میں جب کہ تو عبد المطلب کی پناہ میں تھا، اور دوسری مرتبہ اس وقت جب تیری رضاعی ماں ” حلیمہ سعدیہ“ دودھ پلانے کی مدت کے اختتام پر تجھے مکہ کی طرف لا رہی تھی تاکہ تجھے عبد المطلب کے سپرد کردے تو تو راستہ میں گم ہوگیا ، اور تیسری مرتبہ اس وقت جب تو اپنے چچا ابو طالب کے ساتھ اس قافلہ میں جو شام کی طرف جا رہاتھا ،ایک تاریک اور اندھیری رات میں گم ہو گیا تھا ) اور خدا نے ان تمام موارد میں تیری راہمنائی کی اور تجھے تیرے جد یا چچا کی محبت بھری آغوش میں تک پہنچا دیا۔

قابل توجہ بات یہ ہے کہ ” ضال“ لغت کے لحاظ سے دو معنی کے لئے آیاہے : ۱ ۔” گم شدہ “ ۲ ۔ ”گم راہ“مثلاً کہاجاتا ہے کہ :الحکمة ضالة المو من : حکمت و دانش مومن کی گم شدہ چیز ہے “۔

اور اسی مناسبت سے مخفی اور غائب کے معنی میں بھی آیاہے جیساکہ سورہ سجدہ کی آیہ ۱۰ میں آیا ہے : منکران معاد کہاکرتے تھے :

( ءَ اذا ضللنا فی الارض ءَ اناّ لفی خلق ) جدید:کہ جب ہم زمین میں پنہاں اور غائب ہو جائیں گے تو پھر نئی خلقت اختیار کریں گے“؟۔

اگر زیر بحث آیت میں ” ضال“ گم شدہ کے معنی میں ہو تو پھر کوئی مشکل پیش نہیں آتی ، ( یعنی تو گمشدہ تھا ،لوگ تیری عظمت و شرافت سے ناواقف تھے، پس ہم نے انہیں تیری طرف ہدایت کی ، ( مترجم )

اور اگر یہ ” گمراہ کے معنی میں ہوتو اس مراد بعثت سے پہلے راہ نبوت و رسالت تک دسترس نہ رکھتا ہو گا، یا دوسرے لفظوں میں پیغمبر اپنی ذات میں کوئی چیز نہیں رکھتے تھے، جو کچھ تھا وہ خدا کی طرف سے تھا، اس بناء پر دونوں ہی صورتوں میں کوئی مشکل پیش نہیں آئے گی۔

اس کے بعد تیسری نعمت کو پیش کرتے ہوئے فرماتا ہے : خدا نے تجھے فقیر یا غنی و بے نیاز کردیا “۔( ووجدک عائلاً فاغنیٰ ) ۔(۱)

جناب ”خدیجہ (رض) “جیسی مخلص و باوفا خاتون کی توجہ تیری طرف مبذول کی ، تاکہ وہ اپنی عظیم ثروت و دولت کو تیرے اختیار میں دے دے اور تیرے عظیم اہداف و مقاصد کے لئے وقف کردے ، اور اسلام کے غلبہ کے بعد جنگوں میں بکثرت مال ہائے غنیمت تجھے عطا کئے ، اس طرح سے کہ تو اپنے عظیم مقاصد تک پہنچنے کے لئے بے نیاز ہوگیا ۔

ایک روایت میں امام علی بن موسیٰ رضا علیہ السلام سے آیا ہے کہ آپ نے ان آیات کی تفسیر میں اس طرح فرمایا :

( الم یجدک یتیماً فاٰوٰی قال: فرداً لا مثل لک فی المخلوقین، فاٰوٰی الناس الیل، ووجد ک ضالاً ای ضا لة فی قوم لایعرفون فضلک فهداهم الیک، ووجدک عائلاًتعول اقواماً بالعلم فاغناهم بک ) :“

” کیا ہم نے تجھے اپنی مخلوق کے اندر یتیم یعنی بے نظیرفرد نہیں پایا تو ہم نے لوگوں کو تیری پناہ میں دے دیا ، اور تجھے اپنی قوم کے درمیان گمشدہ اور نا پہچانا ہوا پایا ، جو تیرے مقامِ فضل کو نہیں پہچانتے تھے ، تو خدا نے انہیں تیری طرف ہدایت کی اور تجھے علم و دانش میں اقوامِ عالم کا سر پرست قرار دیا اورا نہیں تیرے ذریعے بے نیاز کردیا۔(۲)

البتہ یہ حدیث آپ کے بطون کو بیان کرتی ہے ورنہ آیت کا ظاہر وہی ہے ، جو اوپربیان کیا گیا ۔

لیکن یہ تصور نہیں ہونا چاہئیے کہ یہ امور جو آیت کے آخر میں بیان ہوئے ہیں ۔ پیغمبر کے مقامِ بلندمیں کمی اورنقص کا سبب ہیں ، یا آپ کے بارے میں پر وردگار کی طرف سے منفی تو صیف ہے۔ بلکہ یہ تو حقیقت میں الطاف الٰہی اور اس عظیم پیغمبر کے بارے میں اس کے اکرام و احترام کابیان ہے ، جب محبوب دلباختہ عاشق کے بارے میں اپنے لطف و کرم کی بات کرتا ہے تو یہ خود ایک لطف و کرم کی بات کرتاہے تو یہ خود ایک لطف و محبت ہے اور اس کے لطف خاص کی دلیل ہے اور اسی بناء پرمحبوب کی طرف سے ان الفاظ کی سننے سے اس کی روح تازہ ہوجاتی ہے، اور ان کی جان میں صفا پید اہوتی ہے ، اور اس کے دل کو آرام و سکون حاصل ہو تاہے ۔

بعد والی آیات میں گزشتہ آیات کا نتیجہ نکالتے ہوئے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو تین احکام دیتی ہے، اگر چہ ان میں مخاطب رسول اللہ کی ذات گرامی ہے، لیکن یقیناً وہ سب کو شامل ہیں ، پہلے فرماتا ہے ، : جب معاملہ یہ ہے کہ تو پھر یتیم کی تحقیر و تذلیل نہ کر“( فاما الیتیم فلاتقهر ) ۔

”تقھر“ ” قھر“کے مادہ سے ” مفردات“میں ” راغب“ کے قول کے مطابق ، اس غلبہ کے معنی میں ہے جس کے ساتھ تحقیر ہو، لیکن ان دومعانی میں سے ہر ایک کے لئے علٰیحدہ بھی استعمال ہوتا ہے، اور یہاں مناسب وہی ” تحقیر“ ہی ہے ۔ یہ چیز اس بات کی نشا دہی کرتی ہے کہ یتیموں کے بارے میں اگر چہ اطعام و انفاق کا مسئلہ بھی اہم ہے لیکن اسے سے بھی زیادہ اہم دل جوئی و نوازش اور شفقت کی کمی کو رفع کرنا ہے۔ اسی لئے ایک مشہور حدیث میں آیاہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا :”من مسح علی رأس یتیم کان له بکل شعره تمر علی یده نور یوم القیامة “۔

” جو شخص نوازش و مہر بانی کے ساتھ یتیم کے سر پر ہاتھ پھیرے تو ہر بال کی تعداد کے مطابق جس پر اس کا ہاتھ پھرے گا قیامت میں ایک نور ہو گا“۔(۳)

گویا پیغمبر سے فرماتاہے : توخودبھی یتیم تھا ، اور تونے بھی یتیمی کا رنج اور تکلیف اٹھائی ہے ، تو اب تو دل و جان سے یتیموں کی نگہبانی کر ، اور ان کی پیاسی روح کو محبت کے ساتھ سیراب کر۔

اور بعد والی آیت میں دوسرے حکم کو پیش کرتے ہوئے فرماتا ہے :

” اور سوال کرنے والے کو نہ دھتکار“( و اما السائل فلاتنهر ) ۔

”لا تنھر“ ”نھر“کے مادہ سے سختی کے ساتھ دھتکار نے“ کے معنی میں ہے ۔ اور بعید نہیں ہے کہ اس کی اصل” نھر“ ہو اور جاری پانی کو نہر کے معنی کے ساتھ ایک ہو ، کیونکہ وہ بھی پانی کی شدت کے ساتھ دھکیلتی ہے ۔

اس بارے میں کہ یہاں ” سائل “ سے کون مراد ہے ؟ چند تفسیریں موجود ہیں ، پہلی یہ کہ اس سے ایسے افراد مراد ہیں جو علمی، اعتقادی اور دینی مسائل میں سوالات رکھتے ہیں ، اور قرینہ ا س کا یہ ہے کہ یہ حکم اس چیز پر جو گزشتہ آیات میں آیاہے متفرع ہے، ” ووجدک ضالا فھدٰی“ خدا نے تجھے گم شدہ پایا تو تجھے ہدایت کی ، پس اس ہدایتِ الٰہی کے شکرانے کے طور پر ہدایت کے نیاز مندوں کے لئے کوشاں راہ، اور اس کسی ہدایت کا تقاضا کرنے والے کو اپنے پاس سے نہ دھتکار۔

دوسری تفسیر یہ ہے کہ اس سے مراد ایسے لوگ ہیں جو مادہ لحاظ سے فقیر ہیں اور وہ تیرے پاس آتے ہیں ، توجتنی تجھ میں طاقت ہے اس کے مطابق عمل کر اور انہیں مایوس نہ کر اور اپنے پاس سے نہ دھتکار ۔

تیسری تفسیر یہ ہے کہ یہ فقرِ علمی اور فقرِ مادی دونوں کو بیان کررہی ہے ، اور اس کا حکم یہ ہے کہ ہر قسم کا سوال کرنے والے کو مثبت جواب دے ، یہ معنی پیغمبر کے لئے خدا کی ہدایت کے ساتھ بھی مناسبت رکھتا ہے ، اور ان کی یتیمی کے زمانے میں ان کی سر پرستی سے بھی مناسبت رکھتا ہے۔ تعجب کی بات یہ ہے کہ بعض مفسرین نے یہ ثابت کرنے کے لئے کہ سائل سے مراد یہاں صرف علمی مسائل کے بارے میں سوال کرنے والا ہے ، کہا ہے کہ ” سائل کی تعبیر قرآن مجید میں ہر گز مالی تقاضا کرنے والوں کے لئے نہیں آئی۔(۴)

حالانکہ یہ قرآن میں بارہا اس معنی میں استعمال ہوا ہے ، چنانچہ سورہ ذاریات کی آیہ ۱۹ میں آیا ہے:( و فی اموالهم حق للسائل و المحروم ) :”ان کے مالوں میں سائل اور محروم کے لئے حق ہے اور یہی معنی سورہ معارج کی آیہ ۲۵ اور سورہ بقرہ آیہ ۱۷۷ میں بھی آیاہے۔

اور آخر میں تیسرے اور آخری حکم میں فرماتا ہے : اور باقی رہیں تیرے پروردگار کی نعمتیں تو توان کو بیان کر“ ( و اما بنعمة ربک فحدث)۔

نعمت کوبیان کرنا کبھی تو زبان سے ہوتا ہے اور ایسی تعبیروں سے جو انتہائی شکر و سپاس کی ترجمان ہوتی ہیں ، نہ کہ غرور و تکبر اور برتری کے خیال سے، اور کبھی عمل سے بھی ہوتا ہے اس طرح کے اس سے راہ ِ خدا میں انفاق وبخشش کرے، ایسی بخشش جو اس بات کی نشان دہی ہوکہ خدا نے اسے فرواں نعمت عطا کی ہے ۔

یہ سخی اور کریم لوگوں کی سنت ہے کہ انہیں کو ئی نعمت ملتی ہے تو وہ اسے بیان کرتے ہیں اور خد اکا شکر بجا لاتے ہیں ۔

اور ان کا عمل بھی اس حقیقت کی تائید و تاکید کرتا ہے ، پست ہمت بخیلوں کے بر عکس جو ہمیشہ نالہ و فریاد کرتے ہیں ، اور اگر ساری دنیا بھی انہیں دے دیں تو بھی نعمتوں پر پردہ پوشی ہی کرتے رہتے ہیں ۔ ان کاچہرہ فقیرانہ اور ان کی باتیں آہ و زاری کے ساتھ، اور ان کا عمل بھی فقر و فاقہ کو بیان کرنے والا ہوتاہے ۔

یہ اس حالت میں ہے کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے نقل ہواہے کہ آپ نے فرمایا :

انّ الله تعالیٰ انعم علی عبده نعمة یحب ان یری اثر النعمة علیه

” خدا وند عالم جب کسی بندہ کو کوئی نعمت دیتا ہے ، تو وہ اس بات کو دوست رکھتا ہے کہ اس پر نعمت کے آثار دیکھے“(۵)

اس بناء پر آیت کا ماحصل اس طرح ہے : اس بات کے شکرانے میں کہ تو فقیر تھا اور خدا نے تجھے بےاز کیا ہے ، تو بھی نعمت کے آثارکو آشکار، اور گفتار و عمل سے اس خدائی نعمت کو بیان کر۔

لیکن بعض مفسرین نے کہا ہے کہ یہاں ” نعمت“ سے مراد صرف معنوی نعمتیں ہیں ، منجملہ انکے نبوت یا قرآن مجید ہے کہ پیغمبر ا سکی تبلیغ کے ذمہ دار تھے، اور نعمت کوبیان کرنے سے مراد یہی ہے ۔

یہ احتمال بھی ہے کہ یہ تمام مادی و معنوی نعمتوں کو شامل ہو۔

لہٰذا ایک حدیث میں امام جعفر صادق علیہ السلام سے آیاہے کہ آپ نے فرمایا : کہ آیت کا معنی اس طرح ہے :

حدث بما اعطاک الله ، وفضلک ، و رزقک،و احسن الیک وهداک :

” جو کچھ خدا نے تجھے بخشا ہے، برتری دی ہے ، روزی عطا کی ہے، اور تیرے ساتھ نیکی اور احسان کیا ہے اور تجھے ہدایت کی ہے ، ان سب کو بیان کر“(۶)

اور بالآخرہ ایک اور حدیث میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے ایک دستور کلی کے عنوان سے آیا ہے :

من اعطی خیراً فلم یر علیه، سمی یغیض الله معادیاً لنعم الله

” جس شخص کو کوئی خیر و نعمت دی جائے ، لیکن اس کی شخصیت میں اس کے آثار نظر آئیں تو اسے خد اکا دشمن اور ا س کی نعمتوں کا مخالف شمار کرنا چاہئیے۔(۷)

ہم اس گفتگو کو امیر المومنین کی ایک دوسری حدیث کے ساتھ ختم کرتے ہیں ، آپ نے فرمایا:

انّ الله جمیل یحب الجمال ، و یحب ان یری اثر النعمة علی عبده “۔

” خدا جمیل ہے اور وہ جمال و زیبائی کو دوست رکھتا ہے ، اور اسی طرح سے وہ اس بات کو دوست رکھتا ہے کہ اپنے بندے پر نعمت کے آثار دیکھے“۔(۸)

____________________

۱۔”عائل“ اصل میں عیال دار شخص کے منعی میں ہے ، چاہے وہ غنی و توانگر ہو ، لیکن یہ لفظ فقیر کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے ۔ اور زیر بحث آیت میں اسی معنی کی طرف اشارہ ہے ۔ ” راغب“ کے کلام سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر” عال“ اجوف یائی ہو تو فقیر کے معنی میں ہے ، اور اجوف واوی ہو تو کثیر العیال کے معنی میں ہوتاہے ، (لیکن ان دونوں کالازم و ملزوم ہونا بعید نہیں ہے )۔

۲۔ ” مجمع البیان “ جلدا۱۰ ، ص۵۰۶۔

۳۔ ” جمع البیان “ جلد۱۰ ،ص۵۰۶۔

۴۔ ” تفسیرعبدہ، جزء عم ،ص۱۱۳۔

۵۔ ” نہج الفصاحة“ حدیث۶۸۳۔

۶۔ ” مجمع البیان “ جلد ۱۰ ص۵۰۷۔

۷۔ ” تفسیر قرطبی“ جلد ۱۰ص ۷۱۹۲ ، اسی معنی کے قریب قریب کافی جلد ۶۔ کتاب الذی و التجمل حدیث ۲ میں بھی آیاہے۔

۸۔ فروع کافی جلد۶ ص ۴۳۸ حدیث۔

۱ ۔ مصائب و آرام کے درمیان سے مبعوث ہونے والا پیغمبر

اوپر والی آیات جو پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر خد اکی نعمتوں کی تشریح و تفصیل کو بیان کرتی ہیں ، ضمنی طور پر اس نکتہ کوبھی بیان کرتی ہیں کہ آپ بچپن کے آغاز سے ہی یتیم تھے، مادی لحاظ سے سخت و شدید حالات میں زندگی بسر کررہے تھے، مصائب و آلام میں گھرے ہوئے تھے اور انہیں مصائب میں مبعوث ہوئے تھے اور یسا ہی ہونا چاہئیے۔

ایک دائی اور انسانی رہبر کو زندگی کی تلخیوں کو چکھنا ، پریشانیوں کو ذاتی طور پر لمس کرنا ، اور اپنے سارے وجود کے ساتھ تلخیوں کا احساس کرنا چاہئیے، تاکہ معاشرے کے محروم طبقات کی صحیح طور پر قدر کرسکے، اور ایسے لوگوں کے حالات سے جو مصائب و آلام میں مبتلا ہیں باخبر ہو سکے۔

پھر بچپن میں ہی باپ ( کی شفقت ) سے محروم ہوجائے، تاکہ اپنے یتیم بچوں کو مصیبت سے باخبرکرہے، دن اس کے بھوک میں گزریں اور راتوں کو بھوکا سوئے تاکہ بھوکوں کو درد اور تکلیف کو اپنے سارے وجود کے ساتھ محسوس کرے۔

یہی وجہ ہے کہ جب آپ کسی یتیم کو دیکھتے تھے تو آپ کی آنکھوں سے آنسوں جاری ہو جاتے تھے ۔ اسے اپنی گود میں بٹھاتے تھے، اس سے نوازش وشفقت کرتے تھے ، اور جان شریں کی طرح اپنی آغوش میں لے لیتے تھے۔

اورپھر اس نے معاشرے کے تمدن میں فقر کو اچھی طرح سے درک کیاہو، تاکہ جو لوگ علم و دانش کے حصول کے لئے اس کی خد مت میں آئیں ان کا احترام کرے، اور کھلی آغوش کے ساتھ ان کی پذیرائی کرے۔

نہ صرف پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بلکہ شاید تمام انبیاء مصائب اور محرومیوں کے پرور دہ تھے ، اور نہ صرف انبیاء بلکہ تمام سچے اور موفق رہبر ایسے ہی ہوئے ہیں اور انہیں ایسا ہی ہونا چاہیئے۔

جس شخص نے ناز و نعمت کے درمیان پرورش پائی ہو، شان و شوکت والے محلوں میں زندگی بسر کی ہو ، اس نے جب بھی کوئی خواہش کی ہو وہ پوری ہو گئی ہو، وہ محروم لوگوں کے درد و تکلیف کو کس طرح سے درک کرسکتا ہے، اور فقراء و مساکین کے کاشانوں اور یتیموں کے گھروں کا منظر اس کی نظروں میں کیسے مجسم ہو سکتا ہے اور وہ ان کی کمک اور مدد کے لئے بے تابی کے ساتھ کیسے آگے بڑھ سکتا ہے؟!

ایک حدیث میں امام صادق علیہ السلام سے آیا ہے :

ما بعث الله نبیاً قط حتی یسترعیه الغنم یعلمه بذالک رعیة الناس

”خد انے ہر گز کسی نبی کو مبعوث نہیں کیا جبکہ اس سے بھیڑ بکریوں کی چوپانی کا کام نہیں کرایا ، تاکہ وہ اس طریقہ سے انسانوں کی نگہبانی کا طریقہ سیکھ سکیں “۔(۱)

یعنی ایک تو رنج و تکلیف بر داشت کیا ، دوسرے کم شعور افراد سے مقابلہ میں صبر و تحمل کا تجربہ کیااور کوہ و صحرا اور فطرت و مادہ کی آغوش میں توحیدو عرفان کے عظیم سبق حاصل کئے ۔

اور ایک حدیث میں آیاہے ” موسیٰ بن عمرا ن“ نے اپنے خدا سے سوال کیا کہ میں کس بناء پر اس مقام تک پہنچا؟خطاب قدر ت ہوا ، کیاتجھے وہ دن یاد ہے جب گوسفند کا ایک بچہ تیرے گلہ سے بھاگ گیا تھا ؟ پھر تو اس کو دوش پر اٹھا کرگوسفندوں کے گلہ میں واپس لے آیا، میں نے اسی بناء پر تجھے مخلوق کا سر پرست بنا دیا ہے۔ ( ایک جانور کے مقابلہ میں تیرا یہ عجیب و غریب تحمل و حوصلہ ، تیری عظیم روحی قدرت کی دلیل ہے۔ لہٰذا تو اس عظیم مقام کے لائق ہے)۔

____________________

۱۔” بحار الانوار“ جلد ۱۱ ، ص ۶۴ حدیث ۷۔

۲ ۔ یتیموں پر نوازش و شفقت

چھوٹے چھوٹے یتیم بچوں کاوجود ، جوبچپنے میں اپنے باپ ( کی شفقت) سے محروم ہو چکے ہوں ، ہر معاشرے میں اجتناب ناپذیر ہے۔ ان چھوٹے چھوٹے بچوں کی کئی جہات سے حمایت ہونی چاہئیے۔

شفقت و مہر بانی کے لحاظ سے بہت سے محرومیاں ہوتی ہیں ۔ اگر ان کے وجود کا خلا اس لحاظ سے پر نہ ہوتوغیر صحیح، غیر سالم، اور بہت سے مواقع ہر سنگ دل ، مجرم اور خطر ناک بچے پروان چڑھتے ہیں ۔ علاوہ ازیں عواطف انسانی کا تقاضا یہ ہے کہ تمام لوگ ان کی طرف معاشرے کے تمام بچوں کی طرح توجہ اور حمایت کریں ۔ اور ان تمام باتوں سے قطع نظر لوگ اپنے بچوں کے مستقبل کے بارے میں ، جو ممکن ہے انہیں حالات سے دوچار ہو جائیں ، مطمئن ہوں ۔

بہت سے موارد میں یتیم بچے ایسے مال کے مالک ہوتے ہیں جسے وقت و امانت کے ساتھ ان کے مستقبل کے لئے محفوظ رکھناچاہئیے۔ اور بہت سے موارد میں ان کے ہاں مالی امکانات و وسائل کا فقدان ہوتا ہے ۔ لہٰذا انہیں اس لحاظ سے بھی موردتوجہ ہونا چاہئیے اور دوسرے لوگوں کو، مہر بان ماں باپ کی طرح ، ان کی روح سے یتیمی کے رنج اور تکلیف کو دور کرنا چاہئیے اور تنہائی کے کے گرد و غبار کو ان کے چہرے سے ہٹا دینا چاہئیے۔

اسی لئے قرآن مجید کی آیات، اور بہت سی اسلامی روایات میں اس مسئلہ پر تکیہ ہواہے جس میں اخلاقی پہلو بھی ہے اور معاشرتی اور انسانی پہلو بھی۔

یہ حدیث پیغمبر اکرام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے معروف ہے کہ آپ نے فرمایا:

ان الیتیم اذابکی اهتز لبکائه عرش الرحمٰن

” جب یتیم روتا ہے کہ خدائے رحمن کا عرش لرز ا ُ ٹھتا ہے “۔

” خدا اپنے فرشتوں سے فرماتا ہے : اے میرے فرشتو! اس یتیم کو جس کا باپ مٹی میں روپوش ہو گیا ہے ، کس نے رلادیا؟فرشتے کہتے ہیں : خد ایا تو زیادہ بہتر طور سے جانتا ہے تو خدا فرماتا ہے : اے میرے فرشتو! میں تمہیں گواہ بنا کر کہتا ہوں کہ جو شخص اس کو رونے سے خاموش کرے گا اور اس کے دل کو خوش کرے گا ، میں قیامت کے دن اسے خوش کروں گا ۔ “ ۱

اس سے بالاتر ایک اور حدیث میں پیغمبراکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے آیاہے:

اذا بکی الیتیم وقعت دموعه فی کف الرحمن “۔

” جب یتیم روتا ہے تو اس کے آنسوں خدائے رحمن کے ہاتھ میں پڑتے ہیں ۔(۲)

ایک اور حدیث میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے یہ بھی آیاہے کہ آپ نے فرمایا:

انا و کافل الیتیم کهاتین فی الجنة اذا اتقی الله عزوجل و اشار بالسبابة وا لوسطی

”میں اور یتیم کا سر پرست ان دو کی طرح جنت میں ہوں گے، بشر طیکہ وہ خوفِ خدا اور تقویٰ رکھتا ہو۔ پھر آپ نے انگشت شہادت اور درمیانی انگلی کی طرف اشارہ کیا، ۳

اس موضوع کی اہمیت اس قدر زیادہ ہے کہ امیر المومنین علی علیہ السلام نے اپنے مشہور وصیت نامہ میں یتیموں کی طرف توجہ اور دھیان دینے کو نماز و قرآن کی طرف توجہ کرنے کے ساتھ قرار دیا ہے ،فرماتے ہیں :

الله الله فی الایتام فلا تغلبوا افواههم ولایضیعوا بحضرتکم “:

” خدا کو یاد رکھو، خدا کو یاد رکھو! یتیموں کو کبھی سیر اور کبھی بھوکا نہ رکھو اور تمہارے سامنے وہ ضائع نہ ہوں ۔(۴)

ایک حدیث میں پیغمبر کے ایک صحابی سے آیا ہے ، وہ کہتا ہے کہ ہم رسول خدا کی خدمت میں بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک بچہ آپ کی خدمت میں آیا اور عرض کیا : ” میں ایک یتیم بچہ ہوں ، میری ایک یتیم بہن ہے، اور ایک بیوہ ماں ہے ، جو جو کچھ خدا نے آپ کو کھانے کے لئے دیا ہے اس میں سے ہمیں بھی کھلائیے تاکہ خدا کے پاس جو کچھ ہے اس میں سے وہ آپ کو اس قدر دے کہ آپ راضی ہوجائیں “!

” بیٹا تم نے کتنی اچھی بات کہی ہے ! پھر آپ نے حضرت بلا ل (رض) کی طرف رخ کیا جاو اور جو کچھ ہمارے پاس ہے وہ لے آو ۔ بلال اکیس( ۲۱) خرمے کے دانے لے آئے پیغمبر نے فرمایا : سات دانے تیرے اور سات دانے تیری بہن کے اور سات دانے تیری ماں کے لئے “۔

” معاذ بن جبل (رض)“ اٹھے اور یتیم کے سر پر ہاتھ پھیر کر کہا : خد اتیری یتیمی کی تلافی کرے اور تجھے اپنے باپ کا اچھا جانشین بنائے۔ ( یتیم بچہ مہاجرین کی اولاد میں سے تھا )۔

پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے” معاذ “ کی طرف رخ کر کے فرمایا:

” تیرے اس کام کا سبب کیا تھا ؟ “ اس نے عرض کیا : محبت اور رحمت تھی۔

آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا:

” جو شخص تم میں سے کسی یتیم کی سر پرستی اپنے ذمہ لے ، اور اس کا حق اداکرے، اور یتیم کے سر پر ہاتھ پھیرے تو خدا ہر بال کی تعداد میں ا س کے لئے ایک نیکی تحریر کرے گا، اور ہر بال کی تعداد میں اس کی برائیوں کو محو کردے گا، اور ہر بال کے بدلے اس کو ایک درجہ عطا کرے گا۔ “(۵)

البتہ ایسے وسیع معاشروں میں جیسا کہ آج کے معاشرے ہیں ، مسلمانوں کو چاہئیے کہ وہ اس سلسلے میں انفرادی کا موں پر قناعت نہ کریں ، بلکہ انہیں چاہئیے کہ اپنی توانائیوں کو یکجا طور پر استعمال کرتے ہوئے یتیموں کو اقتصادی، علمی اور تربیتی پروگراموں کے ذریعے کار آمدبنائیں اور انہیں اسلامی معاشرے کے لائق افراد بنائیں ۔ اور یہ اہم کام عمومی تعاون کا محتاج ہے ۔

____________________

۱۔” مجمع البیان “ جلد۱۰ ص ۵۰۶۔

۲۔” تفسیرفخر رازی“ جلد ۳۱ ص ۲۱۹۔

۳۔ ” نو ر الثقلین“ جلد ۵ ،ص ۵۹۷ حدیث ۲۳۔

۴۔ ” نہج البلاغہ خط نمر ۴۷ حصہ خطوط۔

۵ ۔ ” مجمع البیان“ جلد۱۰ ، ص ۵۰۔

۳ ۔ نعمتوں کو بیان کرنا

وہ حکم جو اس سلسلہ میں اوپر والی آیات میں بیان ہوا ہے، اگر وہ خد اکے شکر و سپاس کے عنوان سے ہو، اور خود کو بڑا کر کے دکھانے اور فخر کے عنوان سے نہ ہو، تو وہ نہ صرف انسان کو پر وردگار کے مقامِ عبودیت میں تکامل و ارتقاء بخشا ہے اور اجتماعی مثبت اثرات رکھتا ہے ، بلکہ انسان کی روح و جان میں بھی آرام بخش اثر چھوڑتا ہے ۔

خد اکی نعمتوں کے ذکر کرنے سے انسان اپنے پاس کسی چیز کے کم ہونے کا احساس ہی نہیں کرتا، بیماری کا شکوہ نہ کرنے سے دوسرے اعضاء کی سلامتی پر شکر گزار ہوتا ہے، کسی چیز کے کھوئے جانے پر جزع و فزع نہ کرنے سے وہ اپنے باقی امکانات و وسائل کو بیان کرتا ہے ۔

اس قسم کے افراد زندگی کی سختیوں اور طوفان میں یاس و نامیدی میں گرفتار نہیں ہوتے اور نہ ہی مضطرب و پرشان ہو تے ہیں ۔ ان کی روح سکون و آرام میں ، اور دل مطمئن ہوتا ہے۔ اور مشکلات سے مقابلہ کرنے میں ان میں زیادہ توانائی ہوتی ہے ۔

خدا وندا ! تیری نعمتیں اس سے کہیں زیادہ ہیں کہ انہیں بیان کیاجاسکے ، ان کو ہم سے سلب نہ کرنا ، اور اپنے فضل و کرم سے ان میں اضافہ فرمانا۔

پروردگار ا ! ہم اس دنیا میں تیرے احسان میں غرق ہیں اور یہ توقع رکھتے ہیں کہ اس جہاں میں بھی اسی طرح ہوں ۔

بارالٰہا ! ہمیں توفیق مرحمت فرما کہ ہم ہمیشہ محروم لوگوں کے پشتیبان اور یتیموں کے حقوق کے محافظ ہوں ۔

آمین یا رب العالمین

سورہ الم نشرح

یہ مکہ میں نازل ہوا اس میں ۸ آیات ہیں

سورہ” الم نشرح“ کے مضامین

مشہور یہ ہے کہ یہ سورہ، سورہ و الضحٰی کے بعد نازل ہوا ہے اور ا سکے مضامین بھی اسی مطلب کی تائید کرتے ہیں ، کیونکہ اس سورہ میں بھی پھر سے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر خداکی نعمتوں کے ایک حصہ کو شمار کیا گیا ہے۔ حقیقت میں تین قسم کی عظیم نعمتیں سورہ و الضحیٰ میں آئی تھی اور تین ہی عظیم نعمتیں سورہ الم نشرح میں آئی ہیں ۔ گزشتہ نعمتوں میں تو بعض مادی اور بعض معنوی تھیں ، لیکن اس سورہ کی تمام نعمتیں معنوی پہلو رکھی ہیں اور یہ سورہ خصوصیت کے ساتھ تین محوروں کے گردش کرتا ہے :

ایک تو انہی تینوں نعمتوں کا بیان ہے ، دوسرا پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو مستقبل میں ان کی دعوت کی مشکلات کے بر طرف ہونے کے لحاظ سے بشارت ہے ، اور تیسرا خداوند یگانہ کی طرف اور اس کی عبادت و بندگی کی طرف تحریص و ترغیب۔

اسی بناء پر روایات اہل بیت میں ۔۔۔۔جیساکہ ہم نے پہلے بھی اشارہ کیاہے۔ یہ دونوں ایک ہی سورہ شمار ہوئی ہیں ۔ اسی لئے قرأت نماز میں اسی بناء پر کہ ایک مکمل سورت پڑھی جائے ، دونوں کو اکھٹا پڑھتے ہیں ۔ اہل سنت میں بھی بعض حضرات اسی نظریہ کے طرف دار ہیں جیسا کہ فخر رازی نے طاو س اور عمر بن عبد العزیز سے نقل کیا ہے کہ وہ بھی یہی کہا کرتے تھے کہ یہ دونوں سورتیں ایک ہی سورت ہیں اور وہ ایک رکعت میں دونوں کو تلاوت کیا کرتے تھے، البتہ وہ ان دونوں کے درمیان بسم اللہ کو حذف کردیتے تھے۔ ( لیکن ہمارے فقہاء کے مطابق بسم اللہ دونوں میں ہو نا چاہیئے، اور یہ جو مرحوم طبرسی نے مجمع البیان میں نقل کیا ہے کہ ہمارے فقہا ء بسم اللہ کو خذف کردیتے ہیں درست نظر نہیں آ تا)۔

تعجب کی بات یہ ہے کہ فخر رازی ان لوگو ں کا قول نقل کرنے کے بعد ، جو ان دونوں کو ایک سورہ کہتے ہیں ، کہتا ہے کہ یہ بات ٹھیک نہیں ہے کیونکہ ان دونوں کے مضامین ایک دوسرے سے مختلف ہیں ۔ سورہ و الضحیٰ اس وقت نازل ہوا جب رسول ِ خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کفار کی اذیت رسانی پریشا ن تھے اور زندگی سختی اور غم و اندوہ میں بسر کررہے تھے، حالانکہ دوسری سورت اس وقت نازل ہو ئی جب کہ پیغمبر خوش حال و شادمان تھے، تو یہ دونوں چیزیں ایک دوسرے کے ساتھ کیسے جمع ہو سکتی ہےں ۔(۱)

لیکن یہ استدلال عجیب ہے کیونکہ دونوں سورتیں پیغمبر کی گزشتہ زندگی کی بات کررہی ہیں ، اور اس وقت کی بات ہے جبکہ آپ بہت ہی مشکلات کو پیچھے چھوڑ چکے تھے ، اور آپ کا پاک دل امید و سرور میں غرق تھا ۔ یہ دونوں سورتیں خدا کی نعمتوں کی بات کرہی ہیں ، اور سختی اور مشکلات سے پر ماضی کی یاد دلارہی ہیں ، تاکہ پیغمبر کے دل کی تسلی اور زیادہ سے زیادہ کامل امید کا باعث ہو۔

بہر حال ان دونوں سورتوں کے مضامین کا قریبی تعلق ایسی چیز نہیں ہے جو شک اور تردید کے قابل ہو ، اسی معنی کی نظیر سورہ فیل اور سورہ قریش میں بھی آئے گی۔ انشاء اللہ ۔

اس سورے کے بارے میں کہ یہ سورہ( الم نشرح ) مکہ میں نازل ہوا ہے یا مدینہ میں ، اوپر بیان سے واضح ہو جاتا ہے کہ یہ مکہ میں نازل ہوا ہے ، لیکن آیہ( ورفعنالک ذکرک ) ” ہم نے تیرے ذکر کو بلند کیا “ کی طرف توجہ کرتے ہوئے بعض کا نظر یہ یہ ہے کہ یہ مدینہ میں نازل ہوا ہے ، اس وقت جب کہ اسلام اور پیغمبر اسلام کی شہرت، چاروں طرف پھیل چکی تھی لیکن انصاف یہ ہے کہ یہ دلیل اطمنان بخش نہیں ہے کیونکہ پیغمبر کی شہرت ان تمام مشکلات کے باوجود ، جو آپ کو مکہ میں در پیش تھیں ۔ ہر طرف پھیل چکی تھی ، اور تمام محفلوں میں آ پ کے قیام ، رسالت اور دعوت کے بارے میں چر چے ہو رہے تھے اور حج کے سالانہ اجتماع کے ذریعے یہ شہرت حجاز کے دوسرے علاقوں خصوصاً مدینہ میں پہنچ چکی تھی ۔

____________________

۱- تفسیر فخر رازی“ جلد۳۲ ص۲۔