تفسیر نمونہ جلد ۱۵

تفسیر نمونہ 0%

تفسیر نمونہ مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن

تفسیر نمونہ

مؤلف: آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی
زمرہ جات:

مشاہدے: 58523
ڈاؤنلوڈ: 3602


تبصرے:

جلد 1 جلد 4 جلد 5 جلد 7 جلد 8 جلد 9 جلد 10 جلد 11 جلد 12 جلد 15
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 169 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 58523 / ڈاؤنلوڈ: 3602
سائز سائز سائز
تفسیر نمونہ

تفسیر نمونہ جلد 15

مؤلف:
اردو

اپنے پروردگار کے نام سے پڑھ

پہلی آیت میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو مخاطب کرتے ہوئے کہتا ہے :” اپنے پروردگار کے نام سے پڑھ جس نے سارے جہان کوخلق کیا ہے “۔( اقرأ باسم ربک الذی خلق ) ۔(۱)

بعض نے یہ کہا ہے کہ اوپر والے جملہ میں مفعول مخذوف ہے اور اصل میں اس طرح تھا اقرأ القراٰن باسم ربّک اپنے پروردگار کے نام سے قرآن مجید پڑھ ، اور اسی بناء پر علماء نے اس آیت کو اس پر دلیل بنایاہے کہ بسم اللہ قرآن کی سورتوں کا جز ہے۔(۲)

اور بعض نے ” باء “ کو زائدہ سمجھا ہے اور یہ کہاہے کہ اپنے پروردگارکے نام کو پڑھ ہے ، لیکن یہ تفسیر بعید نظر آتی ہے ، کیونکہ مناسب یہ ہے کہ کہاجائے اپنے پروردگار کے نام کو یاد کر۔

قابل توجہ بات یہ ہے کہ یہاں سب سے پہلے پروردگار کی ” ربوبیت“ کے مسئلہ پر تکیہ ہواہے ۔ اور ہم جانتے ہیں کہ ” رب“ ” مالک مصلح“ کے معنی میں ہے ، یعنی وہ ہستی جو کسی چیز کی مالک بھی ہے اور اس کی اصلاح و تربیت بھی کرتی ہو۔

اس کے بعد پروردگار کی ربوبیت کی ثابت کرنے کے لئے عالم ہستی کوخلقت و آفرینش پر تکیہ ہو اہے ، کیونکہ اس کی ربوبیت کی بہترین دلیل اس کی خالقیت ہے ، اور عالم کی تدبیر وہی کرسکتا ہے جس نے اس کو خلق کیا ہے ۔

یہ حقیقت میں عرب کے مشرکوں کا جواب ہے جو خدا کی خالقیت کو تو قبول کرتے ہیں لیکن ربوبیت اور تدبیر کے ضمن میں بتوں کے قائل تھے۔

اس کے علاوہ نظام ہستی میں خد اکی ربوبیت اور اس کی تدبیر اس کی ذاتِ مقدس کو ثابت کرنے کی بہترین دلیل ہے۔

اس کے بعد تمام مخلوقات میں سے عالم خلقت کے اہم ترین موجود اور آفرینش کے گل سر سبد یعنی انسان پر تکیہ کرتا ہے اور اس کی آفرینش کو ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے : ” وہی خداجس نے انسان کو جمے ہوئے خون سے پیدا کیا “۔( خلق الانسان من علق ) ۔

”من علق“ اصل میں کسی چیز کے چپک جانے کے معنی میں ہے۔ اسی لیے جمے ہوئے خون کو اور اسی طرح” جو نک“ کو جو خون چُوسنے کے لیے بدن سے چپک جاتی ہے” علق“ کہتے ہیں ، اور چونکہ نطفہ عالم جنین کا پہلا دورگزار نے کے بعد جمے ہوئے اور چپکے ہوئے خون کی صورت اختیار کرلیتا ہے ، جو ظاہرمیں بہت ہی کم قدر و قیمت رکھتا ہے لہٰذا اس آیت میں انسان کی خلقت کا مبداء اسی ناچیز موجودکو شمار کرتا ہے تاکہ پروردگار کی عظیم قدرت نمائی واضح ہوجائے جس نے اس قسم کی بے قدر و قیمت موجود سے ایسی قابل قدر اور قیمتی مخلوق پید اکردی ہے۔

بعض نے یہ بھی کہا ہے کہ علق سے مرادیہاں آدم علیہ السلام کی مٹی ہے جو چپکنے کی حالت بھی رکھتی تھی ، اور یہ بات واضح ہے کہ وہ خدا جو اس عجیب مخلوق کو اس ” چپکی ہوئی مٹی “ کے ایک ٹکڑے سے وجود میں لایاہے ، وہی ہر قسم کی حمد و ستائش کے لائق ہے ۔

کبھی” علق“ کو ” صاحبِ علاقہ “ وجود کے معنی میں لیا ہے جو انسان کی اجتماعی روح اور ان کے ایک دوسرے کے ساتھ تعلق کی طرف اشارہ ہے ، اور یہ حقیقت میں تکامل بشر اور تمدنوں کی پیش رفت کا پایہ اصلی ہے ۔

بعض ” علق“ کو نر کے نطفہ ( سپرم) کی طرف اشارہ سمجھتے ہیں جو ” جونک“ کے ساتھ بہت زیادہ مناسبت رکھتا ہے یہ خورد بینی موجود نطفہ کے پانی میں تیرتا ہے ، رحم میں عورت کے نطفہ کی طرف بڑھتا ہے ، اس کے ساتھ چپک جاتا ہے اور ان دونوں کی ترکیب سے انسان کا کامل و مکمل نطفہ وجود میں آتا ہے ۔

یہ ٹھیک ہے کہ اس زمانہ میں یہ مسائل تحقیق و دریافت نہیں ہوئے تھے، لیکن قرآن مجید نے علمی اعجاز کے طریق سے اس سے پردہ اٹھایا ہے ۔ ان چار تفاسیر میں سے پہلی تفسیر زیادہ واضح معلوم ہوتی ہے، اگر چہ تفسیروں کے درمیان جمع کرنے میں بھی کوئی مانع نہیں ہے ۔

ہم نے جو کچھ بیان کیا ہے اس سے واضح ہو جاتاہے کہ ” انسان“ ایک تفسیر کے مطابق حضرت آدم علیہ السلام کے معنی میں ہے اور دوسری تفسیر کے مطابق انسانوں کے معنی میں ہے ۔

دوبارہ تاکید کے لئے مزید کہتا ہے : ” پڑھ کہ تیرا پروردگارہر کریم سے زیادہ کریم اور اور ہر بزرگوار سے اور باعزت سے بڑھ کر بزرگوار اور باعزت ہے ۔“( اقرأو ربک الاکرم ) ۔(۳)

بعض کا نظر یہ ہے کہ دوسرا ” اقرأ“ اسی ” اقرأ“ کی ایک تاکید ہے جواس پہلی آیات میں ہے ۔ اور بعض نے یہ کہا کہ یہ اس سے مختلف ہے ۔ پہلے جملہ میں پیغمبر کا اپنے لیے پڑھنا مراد ہے ، اور دوسرے جملہ میں لوگوں کے لیے پڑھنا۔

لیکن تاکید زیادہ مناسب نظر آتی ہے کیونکہ اس فرق پر کوئی دلیل موجود نہیں ہے۔

بہر حال اس آیت کی تعبیرحقیقت میں پیغمبر کی اس گفتگوکا جواب ہے کہ جو جبرئیل کے جواب میں آپ نے کہی تھی کہ میں پڑھا ہو انہیں ہوں ۔ یعنی پروردگار کی برکت سے جو حد سے زیادہ کریم وبزرگوار ہے تو قرأت و تلاوت کی طاقت وتوانائی رکھتا ہے ۔

اس کے بعداس خدا کی توصیف کر تے ہوئے جو سب کریموں سے بڑھ کر کریم و بزرگوار ہے ، فرماتا ہے :

”وہی ہستی جس نے قلم کے ذریعے تعلیم دی ہے“۔( الذی علم الانسان بالقلم )

”اور انسان کو وہ سب کچھ سکھا دیا جو وہ نہیں جانتا تھا “۔( علم الانسان مالم یعلم ) ۔

یہ آیات بھی درحقیت پیغمبر کی اسی گفتگو کا جواب ہیں جس میں آپ نے فرمایاتھا کہ : ” میں قرأت کرنے والانہیں ہوں “۔ یعنی وہی خدا جس نے انسان کو قلم کے ذریعہ تعلیم دی ہے اور جو کچھ انسان نہیں جانتاتھا اسے سکھا یا ہے، وہ اس بندے کو بھی جس نے کسی سے سبق نہیں پڑھا ہے قرأت و تلاوت سکھانے کی قدرت رکھتا ہے ۔

” الذی علم بالقلم “کے جملہ کے دو معنی نکلتے ہیں ، ایک یہ کہ : خدا نے انسان کو لکھنا اور کتابت کرنا سکھا یا ،اوراس عظیم کام کی قدرت و توانائی، جو تاریخ بشرکا مبداء اور تمام علوم و فنون اور تمدنوں کا سر چشمہ ہے ، اس میں ایجاد کی ۔

دوسرا یہ کہ اس سے مراد یہ ہے کہ انسان کو اس طریق سے اور اس وسیلہ سے علوم و فنون سکھائے۔

خلاصہ یہ ہے کہ ایک تفسیر کے مطابق تولکھنے کی تعلیم مراد ہے ،اور دوسری تفسیر کے مطابق وہ علوم مراد ہیں جو کتابت کے ذیعہ انسان تک پہنچے ہیں ۔

بہرحال یہ ایک ایسی پر معنی تعبیر ہے، جو نزول وحی کے ا ن حسّاس لمحات میں ان عظیم اور پر معنی آیات میں منعکس ہو گئی ہے ۔

____________________

۱۔ ”راغب“ مفردات“ کہتا ہے ” قرأت“ حروف کلمات کو ایک دوسرے میں ملانے اور ضم کرنے کے معنی میں ہے ، اس لیے حرف کو قرائت نہیں کہتے ۔

۲۔ اس صورت میں ” باء“ ملابست کے لیے ہے ۔

۳۔ ” وربک الاکرم “ کا جملہ اسمیہ استینافیہ ہے اور ” مبتدا“ اور ” خبر‘ سے مرکب ہے۔

۱ ۔ وحی کا آغاز ایک حرکت علمی کے آغاز کے ساتھ ہوا ۔

یہ آیات، جیسا کہ ہم نے بیان کیا ہے ، اکثر مفسرین یا تمام مفسرین کے نظریہ کے مطابق، وہ سب سے پہلی آیات ہیں جو پیغمبر صلی اللہ علیہ آلہ وسلم کے قلبِ پاک پرنازل ہوئی تھیں اور وحی کی پہلی شعاعوں کی روشنی سے تاریخِ بشریت میں ایک نئی فصل کا آغاز ہوا، اور نوع انسانی ایک عظیم ترین الطافِ الٰہی کی مشمول ہوئی ، اور خدا کا وہ اکمل ترین دین ، جو سارے دینوں کا نقطہ اختتام تھا، نازل ہوا، اور تمام احکام اور اسلامی تعلیمات کے نزول کے بعد( الیوم اکملت لکم دینکم و اتممت علیکم نعمتی و رضیت لکم الاسلام دیناً ) ۔ ( مائدہ۔ ۳) کے مطابق دین الٰہی کی تکمیل ہوئی اس کی نعمت حد، کمال کو پہچ گئی اور اسلام خدا کا پسندیدہ دین قرار پایا۔ یہاں ایک بہت عمدہ موضوع ہے، ( اور وہ یہ ہے ) کہ باوجود اس بات یہ کہ پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ” امی تھے ، اور آپ نے کسی سے درس نہیں لیاتھا، اور حجاز کے ماحول کو سراسرجہالت و نادانی کے ماحول نے گھیر رکھاتھا، وحی کی پہلی آیات میں ” علم “ اور ” قلم “ کے مسئلہ پر گفتگو ہوئی، جو ان آیات میں خلقت و آفرینش جیسی عظیم نعمت کے فوراً بعد بلا فاصلہ ذکر ہوا ہے ۔ حقیقت میں یہ آیات پہلے انسانی جسم کی ایک بے قدر و قیمت لوتھڑے” علقہ“ جیسے موجود تکامل و ارتقاء کی خبر دیتی ہیں ، اور دوسری طرف سے روح کے تکامل کی ، تعلیم و تعلم کے ذریعے خصوصاً قلم کے ذریعہ بات کرتی ہیں ۔ جس دن یہ آیات نازل ہورہی تھیں اس دن نہ صرف حجاز کے ماحول میں ، جو جہالت کا ماحول تھا، کوئی شخص قلم کی قدر و منزلت کا قائل نہ تھا بلکہ اس زمانہ کی متمدن دنیا میں بھی قلم کی کم ہی قدر کی جاتی تھی۔ لیکن آج کے زمانہ میں ہم جانتے ہیں کہ وہ تمام تمدن ، علوم و فنون اور ترقیاں جو میدان میں نوعِ بشر کو نصیب ہوئی ہیں ، قلم کے محور کے گرد گردش کرتی ہیں ۔اور حقیقت یہ ہے کہ” مدادِ علماء( علماء کے قلم کی سیاہی) دماء شہداء( شہداء کے خون) پرسبقت لے چکی ہے کیونکہ شہید کے خون کی بنیاد اور اس کی پشتیبان علماء کے قلموں کی سیاہی ہی ہے ، اور اصولی طور پر انسانی معاشروں کی سر نوشت پہلے درجہ میں قلم کی نوک سے ہی لکھی گئی ہے

انسانی معاشروں کی اصلاحی باتیں مو من و متعمد قلموں سے لکھی جاتی ہےں ، اور معاشروں کے فساد اور تباہیوں کی باتیں بھی مسموم اور فاسد قلموں سے ہی تحریر میں آتی ہیں ۔

یہ بات بلاوجہ نہیں ہے کہ قرآن مجید نے قلم کی اور جو کچھ قلم سے لکھتے ہیں ، ا س کی قسم کھائی ہے ۔ یعنی” آلہ“ کی قسم بھی کھاتا ہے اورجو کچھ اس سے حاصل ہوتا ہے اس کی قسم ، جیسا کہ فرماتا ہے :”( نٓ و القم وما یسطرون ) “ ( قلم ۔ ۱)

ہم جانتے ہیں کہ بشر کی زندگی کے ادوار کو دو ادوار میں تقسیم کرتے ہیں ۔

۱ ۔ تاریخ کا دور ۲ ۔ قبل از تاریخ کا دور

تاریخ کا دور وہ ہے جس میں قلم ، پڑھنے اور لکھنے کا زمانہ شروع ہوا ،اور انسان اس قابل ہو گیا کہ قلم کے ذریعہ اپنی زندگی کی کوئی چیز لکھ سکے ، اور آنے والے انسانوں کی زندگی میں قلم کے اثرات کے بارے میں تفسیر نمونہ کی جلد ۱۴ میں سورہ قلم کے آغاز میں ایک مفصل اور مبسوط تشریح پیش کی ہے ۔

اسی بناء ابتداء سے ہی اسلام کی بنیاد علم و قلم پر رکھی گئی ہے، اور یہ بات بلاوجہ نہیں ہے کہ اس قسم کی پس ماندہ قوم علوم و فنون میں اس قدر ترقی کر گئی کہ ،دوست و دشمن کے اعتراف کے مطابق ، انہوں نے ساری دنیا میں علم و دانش کو پھیلا دیا اور یورپ کے مورخین کے اعتراف کے مطابق یہ مسلمان کا نور علم و دانش ہی تھا جو قرونِ وسطیٰ میں تاریک یورپ کے صفحہ پر چمکا اور انہیں متمدن عصر میں داخل کرگیا ۔

اور اس سلسلہ میں خود انہیں کی طرف سے بہت سے کتابیں ” تاریخ تمدنِ اسلام“ یا” میراثِ اسلام “ کے عنوان سے لکھی گئی ہیں ۔

کس قدر نامناسب بات ہے کہ اس قسم کی ملت اور ایسا دین علم و دانش کے میدان میں پیچھے رہ جائے اور دوسروں کا محتاج ہو جائے ، یہاں تک کہ ان سے وابستہ ہوجائے۔

۲ ۔ ہرحال میں ذکرِ خدا

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ کی دعوت کا آغازخدا کے نام کے ذکر سے شروع ہوا ہے ” اقرأ باسم ربک“ اور قابلِ غور بات یہ ہے کہ آپ کی بھر پور زندگی ذکر خدا اوریادِ خدا سے ملی ہوئی تھی۔

آپ کا ہر سانس ذکر خداکے ساتھ وابستہ تھا ۔ کھڑے ہوتے، بیٹھتے، سوتے ، چلتے، اور سوار ہوتے،پیادہ چلتے یا توقف کرتے سب یادِ خدا کے ساتھاور ” اللہ کے نام کے ساتھ تھا۔

جب نیند سے بیدار ہوتے تھے تو فرماتے تھے: ”الحمد لله الذی احیانا بعد مااماتنا و الیه النشور

” حمد کے لائق وہی ہے جس نے ہمیں موت کے بعد زندگی بخشی اور اسی کی جانب ہم سب نے لوٹ کرجانا ہے “۔

” ابن عباس (رض)“ کہتے ہیں کہ ایک رات میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے یہاں سویا ہواتھا۔ جب آپ بیدار ہوئے تو آپ نے آسمان کی طرف سر کوبلند کیااور سورہ آلِ عمران کی آخری دس آیات کی تلاوت فرمائی۔

( ان فی خلق السماوات و الارض و اختلاف اللیل و النهار )

پھر عرض کیا:اللهم لک الحمد انت نور السماوات و الارض و من فیهناللهم لک اسلمت و بک اٰمنت و علیک توکلت و الیک انبت

” خدایا سب تعریفیں تیرے ہی لیے ہیں ، تو ہی آسمانوں اور زمین اور جو کچھ ان میں ہے سب کا نور ہے خدا یا میں تیرے سامنے سر تسلیم خم کرچکا ہوں ، تجھ پر ایمان لا چکا ہوں ، تجھ پر توکل کر چکاہوں ، اور تیری طرف لوٹ چکاہوں “۔

جس وقت آپ گھر سے نکلتے تو فرماتے:

بسم الله ، توکلت علی الله ، اللهم انی اعوذبک ان اضل ، او اضل، اوازل، او ظلم، او اظلم، او جهل، اویجهل علیّ “۔

” اللہ کے نام سے ، میں اللہ پر توکل کرتا ہوں ، خدا یا میں تجھ سے پناہ مانگتا ہوں کہ میں گمراہ ہوجاو ں ، یا کسی کی گمراہی کا سبب بنوں ، یا میں پھسل جاو ں یا کسی پرظلم کروں یا ظلم کیا جاو ، یاجہالت سے کام لوں ، یا مجھ سے جہالت کا بر تاو کیاجائے “۔

جب آپ مسجد میں داخل ہوتے تو فرماتے:

اعوذ بالله العظیم، وبوجهه الکریم و سلطانه القدیم من الشیطان الرجیم “۔

میں عظیم خدا سے اور اس کی کریم ذات سے اور اس کی قدیم سلطنت کے ذریعہ راندہ در گاہ شیطان سے پناہ مانگتا ہوں “۔

اور جس وقت آپ نیا لباس زیبِ تن کرتے تو فرماتے:

اللهم لک الحمد انت کسوتنیه اسئلک خیره وخیر ماصنع له و اعوذبک من شره و شرما صنع له “۔

” خد ایا سب تعریفیں تیرے ہی لیے ہیں ۔ تونے ہی یہ لباس مجھے پہنایا ہے۔ میں تجھ سے اس کی خیر چاہتا ہوں اور جس خیر کے لیے یہ بنا ہے اور تجھ سے اس کے شر سے پناہ مانگتا ہوں اور جس شرکے لیے یہ بنا ہے “۔

اور جب گھر کی طر ف لوٹتے تو فرماتے:

الحمد الذی کفانی و اٰوانی و الحمد لله الذی اطعمنی و اسقانی “۔

” حمد ہے اس اللہ کی جس نے میری کفالت کی اور مجھے پناہ دی، اور حمد ہے اس للہ کی جس نے مجھے کھلایا اور پلایا۔

اور اسی طرح آپ کی تمام زندگی یادخدا، نام خدا اور الطافِ خدا کے تقاضوں سے گوندھی ہوئی اور ملی ہوئی تھی۔(۱)

____________________

۱۔ ” فی ظلال القراٰن جلد ۸ ص ۶۱۹ سے آگے( بہت زیادہ تلخیص کے ساتھ)۔

آیات ۶،۷،۸،۹،۱۰،۱۱،۱۲،۱۳،۱۴

۶ ۔( کلّآ اِنّ الانسان لیطغیٰٓ ) ۷ ۔( أنْ رَّاهُ اسْتَغنیٰ ) ۸ ۔( اِنّ اِلیٰ ربِّک الرجعیٰ ) ۹ ۔( ارء یتَ الذی ینهیٰ )

۱۰ ۔( عَبْداً اذا صلّٰی ) ۔ ۱۱ ۔( أر ء یتَ اِن ْ کانَ علی الهُدٰٓی ) ۱۲ ۔( أوْ اَمَرَ بالتّقوٰی )

۱۳ ۔( أرء یتَ اِنْ کذَّبَ و تولیّ ) ٰ۔ ۱۴ ۔( ألم یعلم بِأنَّ الله یرٰی ) ۔

ترجمہ

۶ ۔ ایسانہیں کہ انسان حق شناس ہو، یقیناوہ سر کشی کرتا ہے ۔ ۷ ۔ اس وجہ سے کہ وہ خود کو بے نیاز سمجھتا ہے ۔

۸ ۔ یقینی طور پر سب کی باز گشت تیرے پروردگار کی طرف ہے ۔ ۹ ۔ مجھے بتا کیا وہ شخص جو نہی کرتا ہے ۔

۱۰ ۔ بندہ کو جب وہ نماز پڑھتا ہے ( کیا وہ مستحق عذابِ الہٰی نہیں ؟ ) ۱۱ ۔ مجھے بتا اگر یہ بندہ طریقِ ہدایت پرہو ۔

۱۲ ۔ یالوگوں کو تقویٰ کا حکم دے( کیا اسے نہیں کرنا مناسب ہے ؟ )

۱۳ ۔ مجھے بتا اگر( یہ سر کش) حق کی تکذیب کرے اور اس کی طرف سے پشت پھیرلے( تو اس کی کیسی دردناک سر نوشت ہو گی؟)

۱۴ ۔ کیا وہ نہیں جانتا کہ خدا اس کے تمام اعمال کو دیکھتا ہے؟

کیا تجھے معلوم نہیں کہ خدا تیرے تمام اعمال کو دیکھتا ہے ؟

گزشتہ آیات کے بعد جن میں انسان کے لیے پروردگار کی مادی و معنوی نعمتوں کی طرف اشارہ ہوا تھا، اور ایسی وسیع نعمتوں کا لازمہ یہ ہے کہ انسان شکر ادا کرے اور خدا کے سامنے سر تسلیم خم کردے، لہٰذا زیر بحث آیات میں فرماتا ہے: ایسا نہیں ہے کہ خدا ئی نعمتیں ہمیشہ ہی انسان میں شکر گزاری کی روح بیدار کرتی ہوں بلکہ وہ یقینی طور پر طغیان و سر کشی کرتا ہے “۔( کلّا ان الانسان لیطغیٰ ) ۔(۱)

” اور اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ وہ اپنے آپ کو بے نیاز سمجھنے لگ جاتا ہے “۔( ان رٰاه استغنیٰ ) (۲)

یہ عام لوگوں کی فطرت ہوتی ہے ، ان لوگوں کی فطرت اور عادت جنہوں نے عقل و وحی کے مکتب میں پرورش نہ پائی ہو، چنانچہ جب وہ اپنے آپ کو بے نیاز سمجھنے لگ جاتے ہیں تو سر کشی و طغیان شروع کردیتے ہیں ۔

نہ تو خدا کا بندہ بنتے ہیں ، نہ اس کے احکام کو قبول کرتے ہیں ، نہ وجدان کی پکار پر کان دھرتے ہیں اور نہ ہی حق و عدالت کا خیال کرتے ہیں ۔

انسان اور کوئی بھی دوسری مخلوق ہر گز بے نیاز اور مستغنی نہیں ہو سکتی۔ بلکہ تمام ممکن موجودات ہمیشہ خدا کے لطف اور نعمتوں کے محتاج اور نیاز مند رہتے ہیں ۔اور اگر ایک لمحہ بھی اس کافیض و کرم منقطع ہو جائے تو ٹھیک اسی لمحہ سب کے سب نابودو فنا ہو جائیں ۔ البتہ انسان بعض اوقات غلطی سے اپنے آپ کو بے نیاز سمجھنے لگ جاتا ہے ، اور آیت کی تعبیر لطیف بھی اسی معنی کی طرف اشارہ ہے، جو یہ کہتی ہے کہ :” وہ خود کو بے نیاز سمجھنے لگ جاتا ہے“۔ یہ نہیں کہتی کہ وہ بے نیاز ہو جاتا ہے“۔

بعض کا نظریہ یہ ہے کہ زیر بحث آیت میں ” انسان “ سے مراد خصوصیت کے ساتھ ” ابو جہل “ ہے ، جو پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی دعوت کے آغاز ہی سے مخالفت کے لیے کھڑا ہو گیا تھا۔ لیکن مسلّمہ طور پر یہاں ’ ’ انسان“ ایک مفہوم کلی رکھتا ہے اور ” ابو جہل“ جیسے افراد اس کے مصادیق ہیں ۔

بہر حال ایسامعلوم ہوتا ہے کہ آیت کا ہدف اور مقصد یہ ہے کہ پیغمبر کو یہ توقع رکھنی چاہئیے کہ لوگ فوراًہی ان کی دعوت قبول کرلیں گے۔ بلکہ انہیں چاہئیے کہ وہ خود کو سر کش مستکبرین کے انکار اور مخالفت کے لیے آمادہ تیارو رکھیں اور یہ جان لیں کہ ایک نشیب و فراز سے بھراہوا راستہ ان کے سامنے ہے ۔

اس کے بعد ان مستکبر سر کشوں کو تہدید کرتے ہوئے فرماتاہے : یقینا سب کی باز شگت تیرے پروردگار کی طرف ہے “۔( ان الیٰ ربک الرجعیٰ ) ۔

اور وہی سر کشوں کو ان کے کیفر کردار تک پہنچا تا ہے ۔

اصولی طور پر جس طرح کہ ہر چیز کی باز گشت اس کی طرف ہے اور سب مرجائیں گے ، اور آسمان و زمین کی میراث اس کی پاک ذا ت کے لیے رہ جائے گی:( و لله میراث السماوات و الارض ) ( آل عمران۔ ۱۸۰) ابتداء میں بھی تمام چیزیں اسی کی طرف سے تھیں ، اور اس با ت کی گنجائش نہیں ہے کہ انسان خود کو بے نیاز سمجھنے لگ جائے ، اور مغرور ہوکر سر کش بن جائے۔

اس کے بعد مغرور سر کشوں کے کاموں کے ایک حصہ، یعنی راہ حق پر چلنے اور ہدایت و تقویٰ کے طریق کو طے کرنے سے روکنے کو بیان کرتے ہوئے مزید فرماتا ہے : ” مجھے بتا کیا وہ شخص جو منع کرتا ہے “۔( ارئت الذی ینهیٰ )

”بندہ کو جب کہ وہ نماز پڑھتا ہے “۔( عبداً اذا صلّٰی ) ۔

کیا ایسا آدمی عذاب الٰہی کا مستحق نہیں ہے ؟ !

احادیث میں آیا ہے کہ ” ابو جہل“ نے اپنے اطرافیوں سے سوال کیا! کیا محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم، تمہارے سامنے بھی ( سجدہ کے لئے ) مٹی پر چہرے کو رکھتا ہے ؟ انہوں نے کہا: ہاں ! اس نے کہا : قسم ہے اس کی جس کی ہم قسم کھاتے ہیں ، اگر میں اسے اس حالت میں دیکھوں گا تو اپنے پاو ں سے اس کی گردن کو کچل کر رکھ دوں گا۔ انہوں نے اس سے کہا : وہ دیکھوں ! وہ اس جگہ نماز پڑھنے میں مشغول ہے۔

ابو جہل چلا تاکہ پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی گردن کو اپنے پاو ں کے نیچے کچلے۔ لیکن جب وہ قریب پہنچا تو پیچھے ہٹ گیا اور ایسا معلوم دیتاتھا جیسے کہ وہ کسی چیز کو اپنے ہاتھ سے ہٹا رہا ہے ۔ان لوگوں نے اس سے کہا ، ہم تیری یہ حالت کیا دیکھ رہے ہیں ؟

اس نے کہا: میں نے اچانک اپنے اور اس کے درمیان آگ کی ایک خندق دیکھی ہے ، اور ایک وحشت ناک منظر اور کچھ پر و بال مشاہدہ کیے ہیں !

اس موقع پر پیغمبر نے فرمایا: قسم ہے اس کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے ، اگر وہ میرے قریب آجاتا تو خدا کے فرشتے اس کے بدن کو ٹکڑے ٹکڑے کردیتے اور ا س کے ایک ایک عضو کو اچک کرلے جاتے“!

اس موقع پر اوپر والی آیات نازل ہوئیں ،(۳)

ان روایات کے مطابق اوپر والی آیات آغازِ بعثت میں نازل ہوئیں ، بلکہ اس وقت نازل ہوئیں جب اسلام کی دعوت برملا ہو چکی تھی۔ اسی لیے ایک گروہ کا نظریہ یہ ہے کہ اس سورت کی پہلی پانچ آیات ہی آغازِ بعثت میں نازل ہوئی تھیں ، اور باقی کافی مدت کے بعد نازل ہوئیں ۔

لیکن بہر حال یہ شانِ نزول آیت کے مفہوم کی وسعت سے مانع ہے ۔

بعد والی آیت میں اور زیادہ تاکید کے لئے مزید کہتا ہے :” مجھے بتا اگر نماز گزار بندہ طریق ہدایت پر ہو “۔( ارء یت ان کان علی الهدٰی ) ۔

” یا لوگوں کو تقویٰ کا حکم دے “۔( او امر بالتقویٰ ) ۔ کیا منع کرنا مناسب ہے ، اور کیا اس قسم کے شخص کی سزا جہنم کی آگ کے علاوہ کچھ اور ہوسکتی ہے ؟ !

” کیاوہ نہیں جانتا کہ خدا اس کے تمام اعمال کو دیکھتا ہے ، اور ان سب کو حساب و کتاب اور جزا و سزا کے لیے ثبت و ضبط کررہا ہے “۔( الم یعلم بان الله یرٰی ) ۔

اوپر والی آیات میں قضیہ شرطیہ کی تعبیر اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ اس مغرور سرکش کو کم از کم یہ احتمال تودینا چاہئیے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم طریقِ ہدایت پر ہیں ، اور ان کی دعوت تقویٰ کی طرف دعوت ہے ، یہی احتمال اس کی سر کشی کو روکنے کے لیے کافی ہے ۔

اس بناء پر ان آیات کا مفہوم ، پیغمبر کی تقویٰ کی طرف دعوت، اور ہدایت میں تردید نہیں ہوگا ، بلکہ یہ اوپر والے باریک نکتہ کی طرف اشارہ ہے ۔

بعض مفسرین نے ” کان“ و ”مر“ کی ضمیر کو اسی نہی کرنے والے شخص کی طرف لوٹا یا ہے ، جیسا کہ ”ابو جہل“ تھا۔ اس بناء پر آیات کا مفہوم اس طرح ہوجائے گا، اگر وہ ہدایت کو قبول کرلے اور نماز سے منع کرنے کی بجائے تقویٰ کی دعوت کرے تو اس کی حالت کے لئے یہ کتنا مفید ہوگا؟

لیکن پہلی تفسیر زیادہ مناسب نظر آتی ہے ۔

عالم ہستی محضر خدا میں ہے

اس واقعیت کی طرف توجہ کہ انسان جو کام بھی انجام دیتاہے وہ خدا کے سامنے ہے ، اور اصولاً،” تمام عالم ہستی محضر خدا میں ہے “اور انسان کے اعمال میں سے کوئی چیز بھی ، یہاں تک کہ اس کی نیّات بھی خدا سے پنہان نہیں ہیں ، انسان کی زندگی کے پروگرام پر زیادہ اثر انداز ہو سکتی ہے، اور اس کی غلط کاروائیوں سے روک سکتی ہے ، لیکن شرط یہ ہے کہ وہ واقعی اس مطلب پر ایمان رکھتا ہو اور ا س نے ایک قطعی یقین کی صورت اختیار کرلی ہو۔

ایک حدیث میں آیاہے :

اعبد الله کانک تراه فان لم تکن تراه فانه یراک

”خدا کی اس طرح عبادت کر گویا کہ تو اسے دیکھ رہاہے، اور اگر تو اسے نہیں دیکھ سکتا تو وہ تجھے دیکھ رہاہے “۔

کہتے ہیں کہ ایک بیدار دل نے گناہ کے بعد توبہ کرلی تھی، لیکن ہمیشہ روتا رہتا تھا ۔ لوگوں نے اس سے کہا کہ تو اتنا کیوں روتا ہے؟ کیا تونہیں جانتا کہ خدا وند تعالیٰ بخشنے والاہے ؟ اس نے کہا : ہاں ممکن ہے کہ وہ معاف کردے، لیکن یہ خجالت و شرمساری کہ اس نے مجھے گناہ کرتے ہوئے دیکھ لیا ہے ، اس کو اپنے سے کیسے دور کروں ؟!

گیرم کہ تو از سرّ گنہ گزری زان شرم کہ دیدی کہ چہ کردم چکنم ؟

میں نے مانا کہ تو میرے گناہ کو ضرورمعاف کردے گا۔

لیکن اس شرم کا کیا کروں کہ تونے یہ دیکھ لیا ہے میں نے کیا کیا ہے ؟

____________________

۱۔ جو کچھ ہم نے اوپر بیان کیا ہے ” کلا“ اس چیز کو روکنے کے لیے ہے جو گزشتہ آیات کے مضمون کالازمہ ہے، اور بعض نے اسے ’ ’ حقاً“کے معنی میں بھی لیا ہے جو تاکید کے لئے ہے۔

۲۔ ”ان رٰاه استغنی “کا جملہ مفعول لاجلہ ہے اور تقدیر میں لان ہے اور رو یت یہاں علم کے معنی میں ہے ، لہٰذا اس کے دو مفعول ہوئے ۔ یہ احتمال بھی ہے کہ روئیت حِسی کے معنی میں ہو اور” استغنیٰ“ بمنزلہ” حال“ کے ہو۔

۳۔ تفسیر ” مجمع البیان “ جلد۱۰ ص ۵۱۵۔