تفسیر نمونہ جلد ۱۵

تفسیر نمونہ 0%

تفسیر نمونہ مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن

تفسیر نمونہ

مؤلف: آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی
زمرہ جات:

مشاہدے: 59109
ڈاؤنلوڈ: 3747


تبصرے:

جلد 1 جلد 4 جلد 5 جلد 7 جلد 8 جلد 9 جلد 10 جلد 11 جلد 12 جلد 15
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 169 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 59109 / ڈاؤنلوڈ: 3747
سائز سائز سائز
تفسیر نمونہ

تفسیر نمونہ جلد 15

مؤلف:
اردو

آیات ۱۵،۱۶،۱۷،۱۸،۱۹

۱۵ ۔( کلا لئن لم ینته لنسفعاً بالناصیةَ ) ۔ ۱۶ ۔( ناصیةٍ کاذبةٍ کاطئَةٍ ) ۔ ۱۷ ۔( فلیدع نادیه ) ۔

۱۸ ۔( سندع زبانیة ) ۔ ۱۹ ۔( کلا لاتطعه و اسجد و اقترب ) ۔

ترجمہ

۱۵ ۔ جیسا کہ وہ خیال کرتا ہے ایسا نہیں ہے ، اگر وہ اپنے کام سے دستبردار نہ ہوگا تو ہم اس کی ناصیہ(اس کے سر کے اگلے حصہ کے بال) پکڑ کر( عذاب کی طرف کھیچ لے جائیں گے)

۱۶ ۔ وہی دروغ گو اور خطاکار ناصیہ ( پیشانی)

۱۷ ۔ پھر وہ جسے چاہے پکار تارہے( کہ وہ اس کی مدد کرے) ۱۸ ۔ ہم بھی عنقریب دوزخ کے مامورین کو پکاریں گے۔

۱۹ ۔ جیسا کہ وہ سمجھتا ہے ،ایسا نہیں ہے ، ہر گز اس کی اطاعت نہ کر، اور سجدہ کر ، اور خدا کا تقرب حاصل کر۔

سجدہ کر اور تقرب حاصل کر!

اس بحث کے بعد ، جو گشتہ آیات میں کافر سرکشوں ، اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور نماز گزاروں کے لیے ان کی مزاحمت کے بارے میں آئی تھی۔ ان آیات میں ان پر سخت دھمکیوں کی بارش کرتے ہوئے فرماتا ہے ،” جیسا کہ وہ خیال کرتا ہے ایسا نہیں ہے ( وہ گمان کرتا ہے کہ وہ پیغمبر کی گردن پر ان کے سجدہ کے وقت پاو ں رکھ سکتا ہے ، اور انہیں اس عبادتِ خدا سے روک سکتا ہے “)۔( کلّا ) ۔

” اگر وہ اپنے اس غرور اور جہالت سے دستبردار نہ ہوگا تو ہم اس کے سر کے اگلے حصہ کے بالوں کو پکڑ کر اسے عذاب کی طرف کھینچ لے جائیں گے“۔( لئن لم ینته لنسفعاً بالناصیة ) ۔

وہی دروغ گو اور خطا کار کے سر کا اگلا حصہ ( پیشانی) “( ناصیة کاذبة خاطئة ) ۔

” لنسفعاً“ سفع“( بروزن عفو) کے مادہ سے بعض مفسرین کے قول کے مطابق مختلف معنی رکھتا ہے : پکڑنا، اور سختی کے ساتھ کھینچنا، منہ پر طمانچہ مارنا ، منہ کو کالاکرنا( ان تین پتھر وں کو بھی ، جو دیگ کو آگ پر رکھتے وقت دیگ کے پایے کے طور پر استعمال ہوتے ہیں ، سفع کہاجاتا ہے کیونکہ وہ سیاہ اور دھوئیں سے آلودہ ہوتے ہیں )۔ اور آخری بات نشان زدہ کرنے اور ذلیل کرنے کے لیے آیاہے۔(۱)

اور یہاں سب سے زیادہ مناسب وہی پہلا معنی ہے۔ اگر زیر بحث آیت میں دوسرے معانی کا احتمال بھی ہے ۔

بہر حال کیا اس سے مراد ہے کہ یہ ماجراقیامت میں واقع ہوگاکہ ابو جہل جیسے افراد کے سر کے اگلے حصہ کے بالوں کو پکڑیں گے اور جہنم کی طرف کھینچ کر جائیں گے ، یا دنیا میں پورا ہوجائے گا، یا دونوں باتیں ہوں گی؟ یہ بات بعید نہیں ہے کہ دونوں ہی مراد ہوں ، اوراور اس کا گواہ ذیل کی روایت ہے ۔

ایک رویت میں آیاہے :

”جس وقت سورہ رحمن نازل ہواتو پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنے اصحاب سے فرمایا:

” تم میں سے کون ہے؟ جو اس سورہ کو رو سائے قریش کے سامنے جاکر پڑھے“۔

حاضرین کچھ دیر کے لیے خاموش رہے چونکہ وہ سردارانِ قریش کی ایذا رسانی سے ڈرتے تھے ۔

” عبد اللہ بن مسعود“ کھڑے ہوگئے اور کہا: اے رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ! میں یہ کام کروں گ ابن مسعود (رض) چھوٹے سے جثہ کے تھے اور جسمانی لحاظ سے کمزور بھی تھے، کھڑے ہو کر سردارانِ قریش کے پاس پہنچ گئے۔ انہیں دیکھا کہ وہ کعبہ کے ارد گردبیٹھے ہیں ، لہٰذا( ابن مسعود نے ) سورہ رحمن کی تلاوت شروع کردی۔

” ابو جہل“ نے کھڑے ہوکر ابنِ مسعود (رض) کے منہ پر ایسا تھپڑ مارا کہ ان کا کان پھٹ گیا اور خون جاری ہوگیا ۔

ابن مسعود (رض) روتے ہوئے پیغمبر کی خدمت میں حاضرہوئے، جب پیغمبر کی نگاہ ان پر پڑی تو آپ کو دکھ ہوا ۔ آپ نے سر نیچے کرلیا اور گہرے غم و اندوہ میں ڈوب گئے ۔

اچانک جبرئیل نازل ہوئے جب کہ وہ خندان و مسرو رہے تھے ، آپ نے فرمایا: اے جبرئیل تم کس لیے ہنس رہے ہو جب کہ ابن مسعود رو رہا ہے ؟ ( جبرئیل نے ) عرض کیا عنقریب آپ کواس کی وجہ معلوم ہو جائے گی۔

یہ ۰ ماجرا گزر گیا ۔ جب مسلمان جنگ بدر کے دن کامیاب و کامران ہوئے تو ابن مسعود مشرکین کے مقتولین کے درمیان گر دش کررہے تھے، ان کی نظر ابو جہل پر پڑی کہ وہ آخری سانس لے رہا تھا ، ابن مسعود اس کے سینہ پر سوار ہوگئے، جب اس کی نگاہ ان پر پڑی تو کہا : اے حقیر چر واہے تو کتنے بلند مقام پر چڑھ کر بیٹھ گیا۔ ابن مسعودنے کہا : الاسلام یعلو و لایعلیٰ علیہ : ” اسلام برتری حاصل کرے گا اور کسی چیز کو اسلام پر برتری حاصل نہیں ہوگی“۔

ابو جہل نے ان سے کہا اپنے دوست محمد ( صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ) سے کہہ دے :نہ تو زندگی میں کوئی شخص میری نظر میں اس سے زیادہ مبغوض تھا اور نہ ہی موت کی حالت میں ۔

جب یہ بات پیغمبر کے کانوں تک پہنچی تو آپ نے فرمایا :

”میرے زمانے کا فرعون موسیٰ کے زمانے کے فرعون سے بد تر ہے ۔ کیونکہ اس نے تو اپنی عمر کے آخری لمحات میں یہ کہا تھا: میں ایمان لے آیا ہوں ، لیکن اس کی سر کشی اور بھی بڑھ گئی ہے “۔

اس کے بعد ابو جہل نے ابن مسعود (رض) کی طرف رخ کر کے کہا: میر اسراس تلوار سے قطع کر جو زیادہ تیز ہے ۔ جب ابن مسعود نے اس کا سرقلم کیا تو وہ اس کو اٹھاکر پیغمبر کی خدمت میں نہ لاسکے۔ ( لہٰذا اس کے سر کے بالوں کو پکڑ کر زمین پرکھینچتے ہوئے پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمت میں پہنچے اور آیت کا مضمون اس دنیا میں پورا ہوگیا )۔(۳)

” ناصبہ“ سر کے اگلے حصہ کے بالوں کو کہتے ہیں ۔ اور ان بالوں کو پکڑنا ایسی جگہ بولا جاتا ہے جب کسی شخص کو کسی کام کے لئے ذلت وخواری کے ساتھ لے جائیں ، کیونکہ جب کسی کے سر کے اگلے حصہ کے بالوں کو پکڑ تے ہیں تو اس سے ہر قسم کی حرکت کی قدرت سلب ہوجاتی ہے اور اس کے لیے سر تسلیم خم کرنے کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں رہتا ۔

البتہ لفظ ” ناصبة“ سر کے افراد و اشخاص کے لئے بھی اور نفیس اشیاء کے بارے میں بھی استعمال کیا جاتا ہے جیسا کہ ہم فارسی ( اور اردو) زبان میں ” جمعیت کی پیشانی“ یا” عمارت کی پیشانی“ سے تعبیر کرتے ہیں ۔

” ناصبة کاذبہ خاطئة“ کی تعبیر ایسے شخص کی طرف اشارہ ہے ، جو یہ ناصیہ رکھتا ہے ، جو چھوٹا بھی تھا اور خطا کار بھی ، جیسا کہ ابو جہل تھا۔

ایک روایت میں ابن عباس (رض) سے آیا ہے کہ ایک دن ابو جہل رسول خدا کے پاس آیاجب کہ آنحضرت صلی اللہ و آلہ وسلم مقام ابراہیم کے پاس نماز میں مشغول تھے ، اس نے پکار کر کہا کیا میں نے تجھے اس کام سے منع نہیں کیا تھا؟ حضرت نے اس کو جھڑک کر دھتکار دیا ۔

ابو جہل نے کہا : اے محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ) ! تم مجھے جھڑک تے ہو اور مجھے دھتکارتے ہو؟ کیا تمہیں معلوم نہیں ہے کہ اس سر زمین میں میری قوم اورقبیلہ سب سے زیادہ ہے ۔(۳)

اس موقع پر بعد والی آیت نازل ہوئی: یہ جاہل و مغرور اپنی ساری قوم و قبیلہ کو پکار لے اورانہیں مدد کے لیے بلالے( فلیدع نادیة ) ۔

” ہم بھی اس مامورین دوزخ کو پکار لیں گے“۔( سندع زبانیة ) ۔

تاکہ اسے معلوم ہو جائے کہ اس بے خبر غافل سے کوئی کام بھی نہیں ہو سکتا۔ اور مامورینِ عذاب کے چنگل میں پر کاہ کی طرح ایک خوفناک طوفان کے درمیان میں ہے ۔

” نادی“ ” ندا“ ( پکار نا) کے مادے سے مجلس عمومی کے معنی میں ہے ، اور بعض اوقات مرکزِ تفریح کو بھی نادی کہا جاتا ہے ، چونکہ وہاں لوگ دوسرے کو پکار تے اور ندا دیتے ہیں ۔

بعض نے یہ کہا ہے کہ یہ” ندا“سے لیا گیا ہے جو بخشش کے معنی میں ہے ، کیونکہ وہاں ایک دوسرے کی پذیرائی کرتے ہیں ’ ’دار الندوة“ بھی جو قریش کی مشہور مجلس مشاورت کہی جاتی تھی اسی معنی سے لی گئی ہے ۔

لیکن یہاں ” نادی“سے مراد وہ جماعت ہے جو اس مجلس میں جمع ہو تی تھی ۔ یا دوسرے لفظوں میں اس سے وہ قوم و قبیلہ اور دوست مراد ہیں جن کی قوت پر ابو جہل جیسے لوگ اپنے کاموں میں بھروسہ کرتے تھے ۔

” ” زبانیة“ جمع” زبینہ“ (زاء کی زیر کے ساتھ)اصل میں یہ انتظامی مامورین کے معنی میں ہے جو” زبن“ ( بروزن متن) کے مادہ سے دفع کرنے ، ضرب لگانے اور دور کرنے کے معنی میں ، اور یہاں فرشتگان عذاب اور دوزخ کے مامورین کے معنی میں ہے ۔

اس سورہ کی آخری آیت میں جو آیہ سجدہ ہے ، فرماتا ہے :” اس طرح نہیں ہے جیسا کہ وہ خیال کرتا ہے او رتیرے سجدہ کے ترک کرنے پر اصرار کرتا ہے ” کلا“

” ہر گز ا س کی اطاعت نہ کر، اپنے پروردگار کی بار گاہ میں سجدہ کر اور اس کا تقرب حاصل کر“( لاتطعمه و اسجد و اقترب ) ۔

دنیا زمانے کے ابو جہل اس سے کہیں زیادہ حقیر و ناچیز ہیں کہ تجھے سجدہ کرنے سے روک سکیں ، یا تیرے دین و آئین کی ترقی میں روڑے اٹکاسکیں اور اس میں کوئی رکاوٹ ڈال سکیں ۔ تو پروردگار پر توکل کرتے ہوئے اس کی عبادت و بندگی اور سجدہ کے ساتھ اس راستہ میں قدم بڑھائے جا، اور ہر روز اپنے اپنے خدا سے نزدیک سے نزدیک تر ہوتا چلا جا۔

ضمنی طور پر اس آیت سے اچھی طرح معلوم ہو جاتا ہے کہ سجدہ انسان کے لئے بار گاہِ خدا کے قرب اور نزدیکی کا باعث ہے ۔ اور اسی لیے ایک حدیث میں رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے آیا کہ آپ نے فرمایا:

( اقرب مایکون العبد من الله اذا کان ساجداً )

” بندے کی خدا سے سب سے زیادہ قرب کی حالت اس وقت ہوتی ہے ، جب وہ سجدہ میں ہوتا ہے “۔

البتہ ہمیں معلوم ہے کہ اہل بیت عصمت کی روایات کے مطابق قرآن مجید میں چار سجدے واجب ہیں ”الم سجده “ و ” حٰم سجده “ و ”النجم “ اور یہاں ”سورهٴ علق “ میں اور قرآن کے باقی سجدہ مستحب ہیں ۔

____________________

۱۔ ” فخر رازی“ جلد ۳۲ ص۲۳۔

۲ ” تفسیر فخر رازی “ جلد ۳۲ ص ۲۳ ( تلخیص کے ساتھ )۔

۳۔” فی ظلال القرآن“ جلد ۱۰ ص ۶۲۴۔

سر کشی اوربے نیازی کا احساس

دنیا کے اکثر مفاسد اور خرابیاں مرفہ الحال اور مستکبر طبقوں سے قوت حاصل کرتی ہیں ، اور انبیاء کے مقابلہ میں مخالفت کرنے والوں کی صف اول میں یہی لوگ ہوتے تھے، وہی لوگ جنہیں قرآن کبھی ” ملأ“ ( اعراف۔ ۶۰) سے تعبیر کرتا ہے ، اور کبھی ” مترفین“ ( سبا۔ ۳۴) سے ، اور کبھی ”( مستکبرین ) “( مو منون۔ ۶۷) کے ساتھ جن میں پہلا لفظ تو ان اشراف کی جمعیت کی طرف اشارہ ہے جن کا ظاہر آنکھوں کو بھلالگتا ہے لیکن ان کا باطن خالی ہوتا ہے ، اور دوسرا لفظ ان لوگوں کی طرف اشارہ ہے جو نارو نعمت میں زندگی بسر کرتے ہیں اور مست و مغرور ہو جاتے ہیں اور انہیں دوسروں کے دکھ درد کی کوئی خبر نہیں دیتی، اور تیسرا لفظ ایسے لوگوں کی طرف اشارہ ہے جو کبر و غرور کی سواری پر سوار ہو کر خدا اور خلق خدا سے دور ہو جاتے ہیں ۔

اور ان سب کا سر چشمہ بے نیازی اور غنا کا احساس ہے ، اور یہ کم ظرف لوگوں کی خصوصیات میں سے ہے کہ جب وہ کوئی نعمت، مال یا کوئی مرتبہ و مقام حاصل کرلیتے ہیں تو وہ ایسے مست ہوجاتے ہیں اور بے نیازی کا احساس کرنے لگ جاتے ہیں کہ جس سے خدا کو بھی بھول جاتے ہیں ۔

حالانکہ ہم جانتے ہیں کہ ہو اکے ایک ذراسے جھونکے سے دفتر ربام درہم و بر ہم ہو جاتا ہے اور انسان کا سارامال و دولت ایک ساعت سے بھی کم وقت میں نابود ہو سکتا ہے ، یا سیلا ب و زلزلہ اور بجلی کی کڑک سب کچھ بر باد کرکے رکھ دیتی ہے اور انسان کی سلامتی بھی ، پانی کے ایک گھونٹ کے گلے میں پھنس جانے سے ، ایسی خطرے میں پڑجاتی ہے کہ موت آنکھوں کے سامنے نظر آنے لگتی ہے

یہ کیسی غفلت ہے جو کچھ لوگوں کو دامن گیر ہوجاتی ہے اور وہ اپنے آپ کو بے نیاز خیال کرنے میں لگ جاتے ہیں اور غرورکی سر کش سوار پر سوار ہوکر معاشرے کے میدان کو اپنی جولانگاہ بنالیتے ہیں ۔

اس جہل و نادانی، اور اس بے خبری اور خیرہ سری سے خدا کی پناہ

ایسی حالت سے بچنے کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ انسان تھوڑا سا اپنے بے حساب ضعف و کمزوری اور پروردگار کی عظیم قدرت پر غور کرے، اور تھوڑا سا گزرے ہوئے لوگوں کی تاریخ کی ورق گردانی کرلے، اور ان اقوام کی سر گزشت کو جو اس سے زیادہ قوی اور طاقتور تھے، دیکھ لے تاکہ غرور کے سواری سے نیچے اترآئے۔

خدا وندا ! ہمیں کبر و غرور سے ، جو تجھ سے دوری کا اصل سبب ہے ، محفوظ رکھ۔

پروردگارا ! ہمیں دنیا و آخرت میں ایک لمحہ کے لیے بھی ہمارے اپنے سپرد نہ کرنا۔

بارلٰہا ! ہمیں ایسی قدرت عطا فرما کہ ہم ان مغرور و مستکبرین کی ناک کو ، جو تیرے سامنے سدِّراہ بنے ہوئے ہیں ، رگڑ کر رکھ دیں اور ان کے تمام منصوبوں کو مٹا دیں ۔

آمین یا رب العالمین

سورہ القدر

یہ سورہ مکہ میں نازل ہوا ۔ اس میں ۵ آیات ہیں ۔

سورہ قدر کے مطالب

اس سورہ کا مضمون ، جیسا کہ اس کے نام سے بھی ظاہر ہوتا ہے ، شب قدرِ قدر میں قرآن کا نزول ہے ۔ اس کے بعد شب قدر کی اہمیت اور اس کے بر کات و آثار کا بیان ہے ۔

اس بارے میں کہ یہ سورہ” مکہ“ میں نازل ہوا ہے یا” مدینہ“ میں ، مفسرین کے درمیان مشہور اس کا ” مکی“ ہونا ہے لیکن بعض نے احتمال دیا ہے کہ یہ مدینہ میں نازل ہوا ہے کیونکہ ایک روایت میں آیا ہے کہ پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے خواب میں دیکھا کہ ” بنی امیہ “ آپ کے منبر پر چڑھ گئے ہیں ۔ یہ چیز آپ پر گراں گزری اور آپ رنجیدہ ہوئے تو سورہ قدر نازل ہوئی اور آپ کو تسلی دی ، لہٰذا بعض علماء” لیلة القدر خیر من الف شہر “ کو بنی امیہ کی حکومت کی طرف ناظر سمجھتے ہیں جو تقریباً ایک ہزار ماہ رہی ) اور ہم جانتے ہیں کہ مسجد اور منبر مدینہ میں بنائے گئے تھے۔(۱)

____________________

۱۔ ” روح المعانی“ جلد ۳۰ ص ۱۸۸ و ” در المنثور“ جلد ۶ ص ۳۷۱۔

اس سورہ کی فضیلت

اس سورہ کی فضیلت میں یہی کافی ہے کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے منقول ہے کہ آپ نے فرمایا:

من قرأ ها اعطی من الاجر کمن صام رمضان و احیا لیلة القدر

” جو شخص اس کی تلاوت کرے گا تو وہ اس شخص کی طرح ہو گا جس نے ماہ رمضان کے روزے رکھے اور شب قدر کو احیاء کیا ہو“۔(۱)

ایک اور حدیث میں امام محمد باقر علیہ السلام سے آیاہے :

من قرأ انّا انزلناه بجهر کان کشا هر سیفه فی سبیل الله، ومن قرأها،سرّاً کان کالمتشحط بدمه فی سبیل الله “۔

” جو شخص سورہ انّا انزلناہ کو بلند آواز سے پڑھے وہ اس شخص کی مانند ہے جس نے راہ خدا میں تلوار کھینچی اور جہاد کیا ، اور جو شخص اسے آہستہ اور پنہاں طور پڑھے وہ اس شخص کے مانند ہے جو راہ خدا میں اپنے خون میں لت پت ہو۔(۲)

آیات ۱،۲،۳،۴،۵

( بسم الله الرحمن الرحیم )

۱ ۔( انّآ انزلناه فی لیلة القدر ) ۔ ۲ ۔( وما ٓ ادراک مالیلة القدر ) ۔ ۳ ۔( لیلة القدر خیر مّن الف شهر ) ۔

۴ ۔( تنزّ لُ الملآئکةُ و الرُّوحُ فیها باذن ربهم من کل امرٍ ) ۔ ۵ ۔( سلامٌ هی حتّی مطلع الفجر ) ۔

ترجمہ

شروع اللہ کے نام سے جو رحمن و رحیم ہے ۱ ۔ ہم نے اس قرآن کو شب قدر میں نازل کیا ہے ۔ ۲ ۔ اور تو کیا جانے شب قدر کیا چیز ہے ؟ ! ۳ ۔ شب قدر ہزار مہینہ سے بہتر ہے ۔

۴ ۔ فرشتے اور روح اس رات میں اپنے پروردگار کے اذن سے ہرکام ( کی تقدیر) کے لیے اتر تے ہیں ۔

____________________

۱۔ ” مجمع البیان “ جلد۱۰ ص ۵۱۶۔

۲۔’ مجمع البیان “ جلد۱۰ ص ۵۱۶۔

شب قدر نزولِ قرآن کی رات

قرآن کی آیات سے اچھی طرح معلوم ہوتا ہے کہ قرآن مجید ماہ مبارک میں نازل ہوا ہے :” شہر رمضان الذی انزل فیہ القراٰن “ (بقرہ۔ ۱۸۵) اور اس تعبیر کا ظاہر یہ ہے کہ سارا قرآن اسی ماہ میں نازل ہوا ہے ۔

اور سورہ قدر کی پہلی آیت میں مزید فرماتا ہے : ہم نے اسے شب قدر میں نازل کیا “۔( انّآ انزلناه فی لیلة القدر )

اگر چہ اس آیت میں صراحت کے ساتھ قرآن کا نام ذکر نہیں ہوا ، لیکن یہ بات مسلم ہے کہ ” انّا انزلناہ“ کی ضمیر قرآن کی طرف لوٹتی ہے اور اس کا ظاہری ابہام اس کی عظمت اور اہمیت کے بیان کے لیے ہے ۔

( انّا انزلناه ) “ ( ہم نے اسے نازل کیا ہے ) کی تعبیر بھی اس عظیم آسمانی کتاب کی عظمت کی طرف ایک اور اشارہ ہے جس کے نزول کی خدا نے اپنی طرف نسبت دی ہے مخصوصاً صیغہ متکلم مع الغیر کے ساتھ جو جمع کامفہوم رکھتا ہے ، اور یہ عظمت کی دلیل ہے ۔

اس کا شب” قدر“ میں نزول وہی شب جس میں انسانوں کی سر نوشت اور مقدرات کی تعین ہوتی ہے ۔ یہ اس عظیم آسمانی کتاب کے سرنوشت ساز ہونے کی ایک اور دلیل ہے۔

اس آیت کو سورہ بقرہ کی آیت کے ساتھ ملانے سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ شب قدر ماہ مبارک رمضان میں ہے ، لیکن وہ کون سی رات ہے قرآن سے اس بارے میں کچھ معلوم نہیں ہوتا ۔ لیکن روایات میں اس سلسلہ میں بھی اور دوسرے مسائل کے بارے میں بھی گفتگو کریں گے۔

یہاں ایک سوال سامنے آتا ہے اور وہ یہ ہے کہ تاریخی لحاظ سے بھی اور قرآن کے مضمون کے پیغمبر اکرم کی زندگی سے ارتباط کے لحاظ سے بھی یہ مسلم ہے کہ یہ آسمانی کتاب تدریجی طور پر اور ۲۳ / سال کے عرصہ میں نازل ہوئی ہے ۔ یہ بات اوپر والی آیات سے جو یہ کہتی ہیں کہ ماہ رمضان میں اور شب قدر میں نازل ہوئی، کس طرح ساز گار ہوگی؟

اس سوال کا جواب:۔ جیسا کہ بہت محققین نے کہا ہے ۔ یہ ہے کہ قرآن کے دو نزول ہیں ۔

۱ ۔ نزول دفعی : جو ایک ہی رات میں سارے کا ساراپیغمبراکرم کے پاس قلب پریا بیت المعمور پر یا لوح محفوظ سے نچلے آسمان پر نازل ہوا۔

۲ ۔ نزول تدریجی : جو تیئس سال کے عرصہ میں نبوت کے دوران انجام پایا ۔ ( ہم سورہ دُخان کی آیہ ۳ جلد ۱۲ تفسیر نمونہ ص ۲۶ سے آگے اس مطلب کی تشریح کے چکے ہیں )۔

بعض نے یہ بھی کہا ہے کہ آغازِنزول ِ قرآن شب قدر میں ہواتھا، نہ کہ سارا قرآن ، لیکن یہ چیز آیت کے ظاہر کے خلاف ہے ، جو کہتی ہے کہ ہم نے قرآن کو شب قدر میں نازل کیا ہے ۔

قابل توجہ بات یہ ہے کہ قرآن کے نازل ہونے کے سلسلے میں بعض آیات میں ” انزال“ اور بعض میں ” تنزیل“ تعبیر ہوئی ہے ۔ اور لغت کے کچھ متنوں سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ” تنزیل “ کا لفظ عام طور پر وہاں بولا جاتا ہے جہاں کوئی چیز تدریجاًنازل ہو لیکن ” انزال “ زیادہ وسیع مفہوم رکھتا ہے جو نزول دفعی کو بھی شامل ہوتا ہے ۔(۱)

تعبیر کایہ فرق جو قرآن میں آیاہے ممکن ہے کہ اوپر والے دو نزولوں کی طرف اشارہ ہو۔

بعد والی آیت میں شب قدر کی عظمت کے بیان کے لیے فرماتاہے :” تو کیا جانے کہ شب قدر کیا ہے “۔( وما ادراک مالیلة القدر ) ۔

اور بلا فاصلہ کہتا ہے :” شب قدر ایک ایسی رات ہے جو ہزار مہینے سے بہتر ہے “۔( لیلة القدر خیر من الف شهر ) ۔

یہ تعبیر اس بات کی نشان دہی کرتی ہے کہ اس رات کی عظمت اس قدر ہے کہ پیغمبر اکرم نور مجسم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم تک بھی اپنے اس وسیع وعریض علم کے باوجود آیات کے نزول سے پہلے واقف نہیں تھے ۔

ہم جانتے ہیں کہ ہزار ماہ اسّی ( ۸۰) سال سے زیادہ ہے ۔ واقعاً کتنی باعظمت رات ہے جو ایک پر برکت طولانی عمر کے برابر قدر و قیمت رکھتی ہے ۔

بعض تفاسیر میں آیا ہے کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا:

” بنی اسرائیل میں سے ایک شخص نے لباسِ جنگ زیب تن کررکھا تھا ، اور ہزار ماہ تک اسے نہ اتا را ، وہ ہمیشہ جہاد فی سبیل اللہ میں مشغول ( یا آمادہ ) رہتا تھا ، پیغمبر اکرم کے اصحاب و انصار نے تعجب کیا، اور آرزو کی کہ کاش اس قسم کی فضیلت و افتخار انہیں بھی میسر آئے تو اوپروالی آیات نازل ہوئیں ۔ اور بیان کیاکہ شب قدر ہزار ماہ سے افضل ہے ۔ ۲

ایک اور حدیث میں آیاہے کہ پیغمبر نے بنی اسرائیل کے چار افراد کو ذکر کیا جنہوں نے اسی سال بغیر معصیت کیے خدا کی عبادت کی تھی۔ اصحاب نے آرزو کی کہ کاش وہ بھی اس قسم کی توفیق حاصل کرتے تو اس سلسلہ میں اوپر والی آیات نازل ہوئیں ۔(۳)

اس بارے میں کہ یہاں ہزار کا عدد” تعداد“ کے لئے ہے یا” تکثیر“ کے لیے بعض نے کہا ہے : یہ تکثیر کے لیے ہے ، اور شب قدر کی قدر و منزلت کئی ہزار ماہ سے بھی زیادہ ہے ، لیکن وہ روایات جوہم نے اوپرنقل کی ہیں وہ اس بات کی نشان دہی کرتی ہیں کہ عددِ مذکور تعداد ہی کے لئے ہے اور اصولی طور پر بھی عدد ہمیشہ کے لئے ہوتا ہے مگر یہ تکثیر پر کوئی واضح قرینہ موجود ہو ، اوراس کے بعد اس عظیم رات کی مزید تعریف و توصیف کرتے ہوئے اضافہ کرتا ہے : ” اس رات میں فرشتے اور روح اپنے پروردگار کے اذن سے ہر کام کی تقدیر کے لیے نازل ہوتے ہیں “۔( تنزل الملائکة و الروح فیها باذن ربهم من کل امر ) ۔

اس بات کی طرف توجہ کرتے ہوئے کہ ” تنزل“ فعل مضارع ہے اور استمرار پر دلالت کرتا ہے ( جو اصل میں ” تتنزل“ تھا)۔ واضح ہو جاتا ہے کہ شبِ قدر پیغمبر اکرم اور نزولِ قرآن کے زمانہ کے ساتھ مخصوص نہیں تھی، بلکہ یہ ایک امر مستمر ہے ، اور ایسی رات ہے جو ہمیشہ آتی رہتی ہے اور ہر سال آتی ہے ۔

اس بارے میں کہ روح سے کیا مراد ہے بعض نے تو یہ کہا ہے کہ اس سے مراد ” جبرئیل امین “ ہے ، جسے ” روح الامین “ بھی کہا جاتا ہے ، اور بعض نے ” روح“ کی سورہ شوریٰ کی آیہ ۵۲” و کذلک اوحینا الیک روحاً من امرنا“ ” جیسا کہ ہم نے گزشتہ انبیاء پر وحی کی تھی، اسی طرح سے تجھ پر بھی اپنے نافرمان سے وحی کی ہے“۔

کے قرینہ سے ” وحی“ کے معنی میں تفسیر کی ہے ۔

اس بناء پر آیت کا مفہو م اس طرح ہوگا” فرشتے وحی الٰہی کے ساتھ، مقدرات کی تعیین کے سلسلہ میں ، اس رات میں نازل ہوتے ہیں “۔ یہاں ایک تیسری تفسیر بھی ہے جو سب سے زیادہ قریب نظر آتی ہے ۔ اور وہ یہ ہے کہ” روح ایک بہت بڑی مخلوق ہے جو فرشتوں سے مافوق ہے ، جیساکہ ایک امام جعفر صادق علیہ السلام سے نقل ہوا ہے کہ ایک شخص نے آپ سے سوال کیا : کیا روح وہی جبرئیل ہے “ ؟ امام علیہ السلام نے جواب میں فرمایا:”جبرئیل من الملائکة، و الروح اعظم من الملائکة ان الله عز و جل یقول : تنزل الملائکة و الروح “۔

” جبرئیل تو ملائکہ میں سے ہے ، اور روح ملائکہ سے زیادہ عظیم ہے ، کیا خدا وند تعالیٰ یہ نہیں فرماتا : ملائکہ اور روح نازل ہوتے ہیں ، ؟(۴)

یعنی مقابلہ کے قرینہ سے یہ دونوں آپس میں مختلف ہیں لفظ ” روح“ کے لئے یہاں دوسری تفاسیر بھی ذکر ہوئی ہیں کیونکہ ان کے لیے کوئی دلیل نہیں تھی ، لہٰذا ان سے صرف نظرکی گئی ہے

” من کل امر“ سے مراد یہ ہے کہ فرشتے سر نوشتوں کی تقدیر و تعین کے لئے ، او رہر خیر و برکت لانے کے لئے اس رات میں نازل ہوتے ہیں ، اور ان کے نزول کا مقصدان امور کی انجام دہی ہے ۔

یا یہ مراد ہے کہ ہر امر خیر اور ہر سر نوشت اور تقدیر کو اپنے ساتھ لاتے ہیں ۔(۵)

”ربھم“ کی تعبیر کو، جس میں ربوبیت اور تدبیر جہاں کے مسئلہ پر بات ہوئی ہے ، ان فرشتوں کے کام کے ساتھ قریبی مناسبت ہے ، کہ وہ امور کی تدبیر و تقدیر کے لیے نازل ہوتے ہیں ، اور ان کا کام بھی پروردگارکی ربوبیت کا ایک گوشہ ہے ۔اور آخری آیت میں فرماتا ہے :” یہ ایک ایسی رات ہے ، جو طلوع صبح تک سلامتی اور خیر و برکت و رحمت سے پر رہتی ہے “۔( سلام هی حتی مطلع الفجر ) ۔

قرآن بھی اسی میں نازل ہوا، اس کا احیاء اور شب بیداری بھی ہزار ماہ کے برابر ہے ، خدا کی خیرات و برکات بھی اسی شب میں نازل ہوتی ہیں ، اس کی رحمتِ خاص بھی بندوں کے شامل حال ہوتی ہے ، اور فرشتے اور روح بھی اسی رات میں نازل ہوتے ہیں ۔

اسی بناء پر یہ ایک ایسی رات ہے جو آغاز سے اختتام تک سرا سر سلامتی ہی سلامتی ہے۔ یہاں تک کہ بعض روایات کے مطابق تو اس رات میں شیطان کو زنجیر میں جکڑ دیا جاتا ہے ۔ لہٰذا اس لحاظ سے بھی یہ ایک ایسی رات ہے جو سالم او رسلامتی سے توأم ہے ۔

اس بناء پر ” سلام “ کا اطلاق ، جو سلامت کے معنی میں ہے ۔( سالم کے اطلاق کے بجائے) حقیقت میں ایک قسم کی تاکید ہے ، جیسا کہ بعض اوقات ہم کہہ دیتے ہیں کہ فلاں آدمی عین عدالت ہے ۔

بعض نے یہ بھی کہا ہے کہ اس رات پر” سلام “کا اطلاق اس بناء پر ہے کہ فرشتے مسلسل ایک دوسرے پریا مومنین پر سلام کرتے ہیں ، یا پیغمبر کے حضور میں اور آپ کے معصوم جانشین کے حضور میں جاکر سلام عرض کرتے ہیں ۔

ان تفسیروں کے درمیان بھی ممکن ہے ۔

بہر حال یہ ایک ایسی رات ہے جو ساری کی ساری نور و رحمت ، خیر و بر کت، سلامت و سعادت، اور ہر لحاظ سے بے نظیر ہے ۔

ایک حدیث میں آیاہے کہ امام محمد باقر علیہ السلام سے پوچھا گیا ۔ کیاآپ جانتے ہیں کہ شب قدر کونسی رات ہے ؟ تو آپ نے فرمایا-”کیف لانعرف و الملائکة تطوف بنا فیها

” ہم کیسے نہ جانیں گے جب کہ فرشتے اس رات ہمارے گرد طواف کرتے ہیں “۔(۶)

حضرت ابراہیم علیہ السلام کے واقعہ میں آیا ہے کہ خدا کے کچھ فرشتے آپ کے پاس آئے اور انہیں بیٹے کے تولد کی بشارت دی اور ان پر سلام کیا ، ( ہود۔ ۶۹) ۔ کہتے ہیں کہ ابراہیم علیہ السلام کی جو لذت ان فرشتوں کے سلام میں آئی، ساری دنیا کی لذتیں بھی اس کے برابرنہیں تھیں ۔ اب غور کرنا چاہئیے کہ جب شب قدر میں فرشتے گروہ درگروہ نازل ہورہے ہوں ، اور مومنین کو سلام کررہے ہوں ،تو اس میں کتنی لذت، لطف اور برکت ہوگی؟! جب ابراہیم کو آتش نمرودمیں ڈالا گیا ، تو فرشتوں نے آکر آپ کو سلام کیااور آگ ان پر گلزار بن گئی ، تو کیا شب قدر میں مومنین پر فرشتوں کے سلام کی برکت سے آتش دوزخ” برد“و” سلام “ نہیں ہو گی ؟ ۔

ہاں ! یہ امت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی عظمت کی نشانی ہے کہ وہاں تو خلیل پر نازل ہوتے ہیں اور یہاں اسلام کی اس امت پر ۔(۷)

____________________

۱۔ مفردات راغب مادّہ نزل۔

۲۔ ” در المنثور“ جلد ۶ ص ۳۷۱۔

۳۔ ” در المنثور“ جلد ۶ ص ۳۷۱۔

۴۔ ” تفسیر بر ہان “ جلد ۴ ص ۴۸۱۔

۵-بعض نے یہ بھی کہا ہے کہ اس سے مراد یہ ہے کہ وہ خدا کے امر و فرمان سے نازل ہوتے ہیں لیکن مناسب وہی پہلا معنی ہے ۔

۶۔ ” تفسیر برہان“ جلد ۴ ص۴۸۸ حدیث ۲۹۔

۷۔ ” تفسیر فخر رازی“ جلد ۳۲ ص ۳۶۔

۱ ۔ شب قدر میں کون سے امورمقدّر ہوتے ہیں ؟

اس سوال کے جواب میں کہ اس رات کو، شب قدر، کا نام کیوں دیا گیاہے ، بہت کچھ کہا گیا ہے : منجملہ یہ کہ :

۱ ۔ شب قدر کو نام شب قدر کا نام اس لیے دیا گیا ہے کہ بندوں کے تمام سال کے سارے مقدرات اسی رات میں تعین ہوتے ہیں ، اس معنی کی گواہ سورہ دخان ہے جس میں آیاہے کہ :( انا انزلناه فی لیلة مبارکة انا کنا منذرین فیا یفرق کل امر حکیم ) “: ہم نے اس کتاب مبین کو ایک پر بر کت رات میں نازل کیا ہے ، اور ہم ہمیشہ ہی انداز کرتے رہتے ہیں ، اس رات میں ہر امر خدا وند عالم کی حکمت کے مطابق تنظیم و تعین ہوتا ہے “۔ ( دخان۔ ۳ ۔ ۴)

یہ بیان متعدد روایات کے ساتھ ہم آہنگ ہے جو کہتی ہیں کہ اس رات میں انسان کے ایک سال کے مقدرات کی تعین ہوتی ہے اور رزق ، عمریں اور دوسرے امور اسی مبارک رات میں تقسیم اور بیان کیے جاتے ہیں ۔

البتہ یہ چیز انسان کے اردہ اور مسئلہ اختیارکے ساتھ کسی قسم کا تضاد نہیں رکھتی ، کیونکہ فرشتوں کے ذریعے تقدیر الٰہی لوگوں کی شائستگیوں اور لیاقتوں ، اور ان کے ایمان و تقویٰ اور نیت ِ اعمال کی پاکیزگی کے مطابق ہوتی ہے ۔

یعنی ہر شخص کے لیے وہی کچھ مقدر کرتے ہیں جو اس کے لائق ہے ، یا دوسرے لفظوں میں ، اس کے مقدمات خود اسی کی طرف سے فراہم ہوتے ہیں ، اور یہ امر نہ صرف یہ کہ اختیارکے ساتھ کوئی منا فات نہیں رکھتا، بلکہ یہ اس پر ایک تاکید ہے ۔

۲ ۔ بعض نے یہ بھی کہاہے کہ اس رات کا اس وجہ سے شب قدر نام رکھا گیاہے کہ وہ ایک عظیم و قدر و شرافت کی حامل ہے ( جس کی نظیر سورہ حج کی آیہ ۷۴ میں آئی ہے ) (ماقدر و اللہ حق قدرہ)انہوں نے حقیقت میں خدا کی قدر و عظمت کو ہی نہیں پہچا نا“۔

۳ ۔ بعض نے یہ بھی کہا ہے کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ قرآن اپنی پوری قدر و منزلت کے ساتھ، قدر و منزلت والے رسول پر اور صاحبِ قدر و منزلت فرشتے کے ذریعے اس میں نازل ہواہے۔

۴ ۔ یایہ مطلب ہے کہ ایک ایسی رات ہے جس میں قرآن کا نازل ہونا مقدر ہوا ہے ۔

۵ ۔ یایہ کہ جو شخص اس رات کو بیدارر ہے تو وہ صاحبِ قدر و مقام و منزلت ہوجاتا ہے ۔

۶ ۔ یا یہ بات ہے کہ اس رات میں اس قدر فرشتے نازل ہوتے ہیں کہ ان کے لیے عرصہ زمین تنگ ہو جاتا ہے ، کیونکہ تقدیر تنگ ہونے کے معنی میں بھی آیاہے۔ و من قدر علیہ رزقہ ( طلاق۔ ۷)

ان تمام تفاسیر کا ” لیلة القدر “ کے وسیع مفہوم میں جمع ہونا پورے طور پر ممکن ہے اگر چہ پہلی تفسیر زیادہ مناسب اور زیادہ مشہور ہے ۔

۲ ۔ شب قدر کون سی رات ہے ؟

اس بارے میں کہ ” لیلة القدر“ ماہ رمضان میں ہوتی ہے ، کوئی شک و شبہ نہیں ہے کیونکہ قرآن کی تمام کی تمام آیات اسی معنی کا اقتضا کرتی ہیں ، ایک طرف تو وہ کہتی ہیں کہ قرآن ماہ رمضان میں نازل ہوا ہے ( بقرہ۔ ۱۸۵) اور دوسری طرف یہ کہتی ہیں کہ شب قدر میں نازل ہوا ہے ۔ ( آیات زیر بحث)۔

لیکن اس بارے میں کہ ماہ رمضان کی راتوں میں سے کون سی رات ہے ، بہت اختلاف ہے ، اوراس سلسلہ میں بہت سی تفاسیر بیان کی گئی ہیں ۔ منجملہ : پہلی رات سترھویں رات ، انیسویں رات، اکیسویں رات، تیئسویں رات، اور ستائیویں رات اور انتیسویں رات۔

لیکن روایات میں مشہور و معروف یہ ہے کہ ماہ رمضان کی آخری دس راتوں میں سے اکیسویں یا تیئسویں رات ہے ۔ اسی لیے ایک روایت میں آیاہے کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ماہ مبارک کی آخری دس راتوں میں تمام راتوں کا احیاء فرماتے اور عبادت میں مشغول رہتے تھے ۔

ایک روایت میں امام جعفر صاق علیہ السلام سے آیاہے کہ شب قدر اکیسویں یا تیئسویں رات ہے ، یہاں تک کہ جب راوی نے اصرار کیا کہ ان دونوں راتوں میں سے کون سی رات ہے اور یہ کہا کہ اگر میں ان دونوں راتوں میں عبادت نہ کر سکوں تو پھر کون سی رات کا انتخاب کروں “۔ تو بھی امام نے تعین نہ فرمائی اور مزیدکہا: ”ماالیسر لیلتین فیما تطلب “اس چیز کے لیے جسے تو چاہتا ہے دو راتیں کس قدرآسان ہیں ؟(۱)

لیکن متعدد روایات میں جو اہل بیت کے طریقہ سے پہنچی ہیں زیادہ تر تیئسویں رات پر تکیہ ہوا ہے ۔ جب کہ اہل سنت کی زیادہ تر روایات ستائیسویں رات کے گرد گردش کرتی ہیں ۔

ایک روایت میں امام جعفر صادق علیہ السلام سے یہ بھی نقل ہوا ہے کہ آپ نے فرمایا:

التقدیر فی لیلة القدر تسعة عشر، و الابرام فی لیلة احدی و عشرین، و الامضاء فی لیلة ثلاث و عشرین “۔

”تقدیر مقدرات تو انیسوں کی شب کو ہوتی ہے ، اور ان کا حکم اکیسویں رات کو ، اور ان کی تصدیق او رمنظوری تیئسویں رات کو۔(۲)

اور اس طرح سے روایات کے درمیان جمع ہو جاتی ہے ۔

لیکن بہر حال ، اس وجہ کی بناء پر جس کی طرف بعد میں اشارہ ہوگا، شب قدر کو ابہام کے ایک ہالے نے گھیر رکھا ہے۔

____________________

۱۔ ” تفسیر نور الثقلین“ جلد ۵ ص ۶۲۵ حدیث ۵۸ ۔

۲ ۔ ” تفسیر نور الثقلین“ جلد ۵ ص ۶۲۶ حدیث ۶۲ ۔