تفسیر نمونہ جلد ۱۵

تفسیر نمونہ 4%

تفسیر نمونہ مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن

جلد ۱ جلد ۴ جلد ۵ جلد ۷ جلد ۸ جلد ۹ جلد ۱۰ جلد ۱۱ جلد ۱۲ جلد ۱۵
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 169 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 67877 / ڈاؤنلوڈ: 6313
سائز سائز سائز
تفسیر نمونہ

تفسیر نمونہ جلد ۱۵

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

آیات ۱۵،۱۶،۱۷،۱۸،۱۹

۱۵ ۔( کلا لئن لم ینته لنسفعاً بالناصیةَ ) ۔ ۱۶ ۔( ناصیةٍ کاذبةٍ کاطئَةٍ ) ۔ ۱۷ ۔( فلیدع نادیه ) ۔

۱۸ ۔( سندع زبانیة ) ۔ ۱۹ ۔( کلا لاتطعه و اسجد و اقترب ) ۔

ترجمہ

۱۵ ۔ جیسا کہ وہ خیال کرتا ہے ایسا نہیں ہے ، اگر وہ اپنے کام سے دستبردار نہ ہوگا تو ہم اس کی ناصیہ(اس کے سر کے اگلے حصہ کے بال) پکڑ کر( عذاب کی طرف کھیچ لے جائیں گے)

۱۶ ۔ وہی دروغ گو اور خطاکار ناصیہ ( پیشانی)

۱۷ ۔ پھر وہ جسے چاہے پکار تارہے( کہ وہ اس کی مدد کرے) ۱۸ ۔ ہم بھی عنقریب دوزخ کے مامورین کو پکاریں گے۔

۱۹ ۔ جیسا کہ وہ سمجھتا ہے ،ایسا نہیں ہے ، ہر گز اس کی اطاعت نہ کر، اور سجدہ کر ، اور خدا کا تقرب حاصل کر۔

سجدہ کر اور تقرب حاصل کر!

اس بحث کے بعد ، جو گشتہ آیات میں کافر سرکشوں ، اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور نماز گزاروں کے لیے ان کی مزاحمت کے بارے میں آئی تھی۔ ان آیات میں ان پر سخت دھمکیوں کی بارش کرتے ہوئے فرماتا ہے ،” جیسا کہ وہ خیال کرتا ہے ایسا نہیں ہے ( وہ گمان کرتا ہے کہ وہ پیغمبر کی گردن پر ان کے سجدہ کے وقت پاو ں رکھ سکتا ہے ، اور انہیں اس عبادتِ خدا سے روک سکتا ہے “)۔( کلّا ) ۔

” اگر وہ اپنے اس غرور اور جہالت سے دستبردار نہ ہوگا تو ہم اس کے سر کے اگلے حصہ کے بالوں کو پکڑ کر اسے عذاب کی طرف کھینچ لے جائیں گے“۔( لئن لم ینته لنسفعاً بالناصیة ) ۔

وہی دروغ گو اور خطا کار کے سر کا اگلا حصہ ( پیشانی) “( ناصیة کاذبة خاطئة ) ۔

” لنسفعاً“ سفع“( بروزن عفو) کے مادہ سے بعض مفسرین کے قول کے مطابق مختلف معنی رکھتا ہے : پکڑنا، اور سختی کے ساتھ کھینچنا، منہ پر طمانچہ مارنا ، منہ کو کالاکرنا( ان تین پتھر وں کو بھی ، جو دیگ کو آگ پر رکھتے وقت دیگ کے پایے کے طور پر استعمال ہوتے ہیں ، سفع کہاجاتا ہے کیونکہ وہ سیاہ اور دھوئیں سے آلودہ ہوتے ہیں )۔ اور آخری بات نشان زدہ کرنے اور ذلیل کرنے کے لیے آیاہے۔(۱)

اور یہاں سب سے زیادہ مناسب وہی پہلا معنی ہے۔ اگر زیر بحث آیت میں دوسرے معانی کا احتمال بھی ہے ۔

بہر حال کیا اس سے مراد ہے کہ یہ ماجراقیامت میں واقع ہوگاکہ ابو جہل جیسے افراد کے سر کے اگلے حصہ کے بالوں کو پکڑیں گے اور جہنم کی طرف کھینچ کر جائیں گے ، یا دنیا میں پورا ہوجائے گا، یا دونوں باتیں ہوں گی؟ یہ بات بعید نہیں ہے کہ دونوں ہی مراد ہوں ، اوراور اس کا گواہ ذیل کی روایت ہے ۔

ایک رویت میں آیاہے :

”جس وقت سورہ رحمن نازل ہواتو پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنے اصحاب سے فرمایا:

” تم میں سے کون ہے؟ جو اس سورہ کو رو سائے قریش کے سامنے جاکر پڑھے“۔

حاضرین کچھ دیر کے لیے خاموش رہے چونکہ وہ سردارانِ قریش کی ایذا رسانی سے ڈرتے تھے ۔

” عبد اللہ بن مسعود“ کھڑے ہوگئے اور کہا: اے رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ! میں یہ کام کروں گ ابن مسعود (رض) چھوٹے سے جثہ کے تھے اور جسمانی لحاظ سے کمزور بھی تھے، کھڑے ہو کر سردارانِ قریش کے پاس پہنچ گئے۔ انہیں دیکھا کہ وہ کعبہ کے ارد گردبیٹھے ہیں ، لہٰذا( ابن مسعود نے ) سورہ رحمن کی تلاوت شروع کردی۔

” ابو جہل“ نے کھڑے ہوکر ابنِ مسعود (رض) کے منہ پر ایسا تھپڑ مارا کہ ان کا کان پھٹ گیا اور خون جاری ہوگیا ۔

ابن مسعود (رض) روتے ہوئے پیغمبر کی خدمت میں حاضرہوئے، جب پیغمبر کی نگاہ ان پر پڑی تو آپ کو دکھ ہوا ۔ آپ نے سر نیچے کرلیا اور گہرے غم و اندوہ میں ڈوب گئے ۔

اچانک جبرئیل نازل ہوئے جب کہ وہ خندان و مسرو رہے تھے ، آپ نے فرمایا: اے جبرئیل تم کس لیے ہنس رہے ہو جب کہ ابن مسعود رو رہا ہے ؟ ( جبرئیل نے ) عرض کیا عنقریب آپ کواس کی وجہ معلوم ہو جائے گی۔

یہ ۰ ماجرا گزر گیا ۔ جب مسلمان جنگ بدر کے دن کامیاب و کامران ہوئے تو ابن مسعود مشرکین کے مقتولین کے درمیان گر دش کررہے تھے، ان کی نظر ابو جہل پر پڑی کہ وہ آخری سانس لے رہا تھا ، ابن مسعود اس کے سینہ پر سوار ہوگئے، جب اس کی نگاہ ان پر پڑی تو کہا : اے حقیر چر واہے تو کتنے بلند مقام پر چڑھ کر بیٹھ گیا۔ ابن مسعودنے کہا : الاسلام یعلو و لایعلیٰ علیہ : ” اسلام برتری حاصل کرے گا اور کسی چیز کو اسلام پر برتری حاصل نہیں ہوگی“۔

ابو جہل نے ان سے کہا اپنے دوست محمد ( صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ) سے کہہ دے :نہ تو زندگی میں کوئی شخص میری نظر میں اس سے زیادہ مبغوض تھا اور نہ ہی موت کی حالت میں ۔

جب یہ بات پیغمبر کے کانوں تک پہنچی تو آپ نے فرمایا :

”میرے زمانے کا فرعون موسیٰ کے زمانے کے فرعون سے بد تر ہے ۔ کیونکہ اس نے تو اپنی عمر کے آخری لمحات میں یہ کہا تھا: میں ایمان لے آیا ہوں ، لیکن اس کی سر کشی اور بھی بڑھ گئی ہے “۔

اس کے بعد ابو جہل نے ابن مسعود (رض) کی طرف رخ کر کے کہا: میر اسراس تلوار سے قطع کر جو زیادہ تیز ہے ۔ جب ابن مسعود نے اس کا سرقلم کیا تو وہ اس کو اٹھاکر پیغمبر کی خدمت میں نہ لاسکے۔ ( لہٰذا اس کے سر کے بالوں کو پکڑ کر زمین پرکھینچتے ہوئے پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمت میں پہنچے اور آیت کا مضمون اس دنیا میں پورا ہوگیا )۔(۳)

” ناصبہ“ سر کے اگلے حصہ کے بالوں کو کہتے ہیں ۔ اور ان بالوں کو پکڑنا ایسی جگہ بولا جاتا ہے جب کسی شخص کو کسی کام کے لئے ذلت وخواری کے ساتھ لے جائیں ، کیونکہ جب کسی کے سر کے اگلے حصہ کے بالوں کو پکڑ تے ہیں تو اس سے ہر قسم کی حرکت کی قدرت سلب ہوجاتی ہے اور اس کے لیے سر تسلیم خم کرنے کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں رہتا ۔

البتہ لفظ ” ناصبة“ سر کے افراد و اشخاص کے لئے بھی اور نفیس اشیاء کے بارے میں بھی استعمال کیا جاتا ہے جیسا کہ ہم فارسی ( اور اردو) زبان میں ” جمعیت کی پیشانی“ یا” عمارت کی پیشانی“ سے تعبیر کرتے ہیں ۔

” ناصبة کاذبہ خاطئة“ کی تعبیر ایسے شخص کی طرف اشارہ ہے ، جو یہ ناصیہ رکھتا ہے ، جو چھوٹا بھی تھا اور خطا کار بھی ، جیسا کہ ابو جہل تھا۔

ایک روایت میں ابن عباس (رض) سے آیا ہے کہ ایک دن ابو جہل رسول خدا کے پاس آیاجب کہ آنحضرت صلی اللہ و آلہ وسلم مقام ابراہیم کے پاس نماز میں مشغول تھے ، اس نے پکار کر کہا کیا میں نے تجھے اس کام سے منع نہیں کیا تھا؟ حضرت نے اس کو جھڑک کر دھتکار دیا ۔

ابو جہل نے کہا : اے محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ) ! تم مجھے جھڑک تے ہو اور مجھے دھتکارتے ہو؟ کیا تمہیں معلوم نہیں ہے کہ اس سر زمین میں میری قوم اورقبیلہ سب سے زیادہ ہے ۔(۳)

اس موقع پر بعد والی آیت نازل ہوئی: یہ جاہل و مغرور اپنی ساری قوم و قبیلہ کو پکار لے اورانہیں مدد کے لیے بلالے( فلیدع نادیة ) ۔

” ہم بھی اس مامورین دوزخ کو پکار لیں گے“۔( سندع زبانیة ) ۔

تاکہ اسے معلوم ہو جائے کہ اس بے خبر غافل سے کوئی کام بھی نہیں ہو سکتا۔ اور مامورینِ عذاب کے چنگل میں پر کاہ کی طرح ایک خوفناک طوفان کے درمیان میں ہے ۔

” نادی“ ” ندا“ ( پکار نا) کے مادے سے مجلس عمومی کے معنی میں ہے ، اور بعض اوقات مرکزِ تفریح کو بھی نادی کہا جاتا ہے ، چونکہ وہاں لوگ دوسرے کو پکار تے اور ندا دیتے ہیں ۔

بعض نے یہ کہا ہے کہ یہ” ندا“سے لیا گیا ہے جو بخشش کے معنی میں ہے ، کیونکہ وہاں ایک دوسرے کی پذیرائی کرتے ہیں ’ ’دار الندوة“ بھی جو قریش کی مشہور مجلس مشاورت کہی جاتی تھی اسی معنی سے لی گئی ہے ۔

لیکن یہاں ” نادی“سے مراد وہ جماعت ہے جو اس مجلس میں جمع ہو تی تھی ۔ یا دوسرے لفظوں میں اس سے وہ قوم و قبیلہ اور دوست مراد ہیں جن کی قوت پر ابو جہل جیسے لوگ اپنے کاموں میں بھروسہ کرتے تھے ۔

” ” زبانیة“ جمع” زبینہ“ (زاء کی زیر کے ساتھ)اصل میں یہ انتظامی مامورین کے معنی میں ہے جو” زبن“ ( بروزن متن) کے مادہ سے دفع کرنے ، ضرب لگانے اور دور کرنے کے معنی میں ، اور یہاں فرشتگان عذاب اور دوزخ کے مامورین کے معنی میں ہے ۔

اس سورہ کی آخری آیت میں جو آیہ سجدہ ہے ، فرماتا ہے :” اس طرح نہیں ہے جیسا کہ وہ خیال کرتا ہے او رتیرے سجدہ کے ترک کرنے پر اصرار کرتا ہے ” کلا“

” ہر گز ا س کی اطاعت نہ کر، اپنے پروردگار کی بار گاہ میں سجدہ کر اور اس کا تقرب حاصل کر“( لاتطعمه و اسجد و اقترب ) ۔

دنیا زمانے کے ابو جہل اس سے کہیں زیادہ حقیر و ناچیز ہیں کہ تجھے سجدہ کرنے سے روک سکیں ، یا تیرے دین و آئین کی ترقی میں روڑے اٹکاسکیں اور اس میں کوئی رکاوٹ ڈال سکیں ۔ تو پروردگار پر توکل کرتے ہوئے اس کی عبادت و بندگی اور سجدہ کے ساتھ اس راستہ میں قدم بڑھائے جا، اور ہر روز اپنے اپنے خدا سے نزدیک سے نزدیک تر ہوتا چلا جا۔

ضمنی طور پر اس آیت سے اچھی طرح معلوم ہو جاتا ہے کہ سجدہ انسان کے لئے بار گاہِ خدا کے قرب اور نزدیکی کا باعث ہے ۔ اور اسی لیے ایک حدیث میں رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے آیا کہ آپ نے فرمایا:

( اقرب مایکون العبد من الله اذا کان ساجداً )

” بندے کی خدا سے سب سے زیادہ قرب کی حالت اس وقت ہوتی ہے ، جب وہ سجدہ میں ہوتا ہے “۔

البتہ ہمیں معلوم ہے کہ اہل بیت عصمت کی روایات کے مطابق قرآن مجید میں چار سجدے واجب ہیں ”الم سجده “ و ” حٰم سجده “ و ”النجم “ اور یہاں ”سورهٴ علق “ میں اور قرآن کے باقی سجدہ مستحب ہیں ۔

____________________

۱۔ ” فخر رازی“ جلد ۳۲ ص۲۳۔

۲ ” تفسیر فخر رازی “ جلد ۳۲ ص ۲۳ ( تلخیص کے ساتھ )۔

۳۔” فی ظلال القرآن“ جلد ۱۰ ص ۶۲۴۔

سر کشی اوربے نیازی کا احساس

دنیا کے اکثر مفاسد اور خرابیاں مرفہ الحال اور مستکبر طبقوں سے قوت حاصل کرتی ہیں ، اور انبیاء کے مقابلہ میں مخالفت کرنے والوں کی صف اول میں یہی لوگ ہوتے تھے، وہی لوگ جنہیں قرآن کبھی ” ملأ“ ( اعراف۔ ۶۰) سے تعبیر کرتا ہے ، اور کبھی ” مترفین“ ( سبا۔ ۳۴) سے ، اور کبھی ”( مستکبرین ) “( مو منون۔ ۶۷) کے ساتھ جن میں پہلا لفظ تو ان اشراف کی جمعیت کی طرف اشارہ ہے جن کا ظاہر آنکھوں کو بھلالگتا ہے لیکن ان کا باطن خالی ہوتا ہے ، اور دوسرا لفظ ان لوگوں کی طرف اشارہ ہے جو نارو نعمت میں زندگی بسر کرتے ہیں اور مست و مغرور ہو جاتے ہیں اور انہیں دوسروں کے دکھ درد کی کوئی خبر نہیں دیتی، اور تیسرا لفظ ایسے لوگوں کی طرف اشارہ ہے جو کبر و غرور کی سواری پر سوار ہو کر خدا اور خلق خدا سے دور ہو جاتے ہیں ۔

اور ان سب کا سر چشمہ بے نیازی اور غنا کا احساس ہے ، اور یہ کم ظرف لوگوں کی خصوصیات میں سے ہے کہ جب وہ کوئی نعمت، مال یا کوئی مرتبہ و مقام حاصل کرلیتے ہیں تو وہ ایسے مست ہوجاتے ہیں اور بے نیازی کا احساس کرنے لگ جاتے ہیں کہ جس سے خدا کو بھی بھول جاتے ہیں ۔

حالانکہ ہم جانتے ہیں کہ ہو اکے ایک ذراسے جھونکے سے دفتر ربام درہم و بر ہم ہو جاتا ہے اور انسان کا سارامال و دولت ایک ساعت سے بھی کم وقت میں نابود ہو سکتا ہے ، یا سیلا ب و زلزلہ اور بجلی کی کڑک سب کچھ بر باد کرکے رکھ دیتی ہے اور انسان کی سلامتی بھی ، پانی کے ایک گھونٹ کے گلے میں پھنس جانے سے ، ایسی خطرے میں پڑجاتی ہے کہ موت آنکھوں کے سامنے نظر آنے لگتی ہے

یہ کیسی غفلت ہے جو کچھ لوگوں کو دامن گیر ہوجاتی ہے اور وہ اپنے آپ کو بے نیاز خیال کرنے میں لگ جاتے ہیں اور غرورکی سر کش سوار پر سوار ہوکر معاشرے کے میدان کو اپنی جولانگاہ بنالیتے ہیں ۔

اس جہل و نادانی، اور اس بے خبری اور خیرہ سری سے خدا کی پناہ

ایسی حالت سے بچنے کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ انسان تھوڑا سا اپنے بے حساب ضعف و کمزوری اور پروردگار کی عظیم قدرت پر غور کرے، اور تھوڑا سا گزرے ہوئے لوگوں کی تاریخ کی ورق گردانی کرلے، اور ان اقوام کی سر گزشت کو جو اس سے زیادہ قوی اور طاقتور تھے، دیکھ لے تاکہ غرور کے سواری سے نیچے اترآئے۔

خدا وندا ! ہمیں کبر و غرور سے ، جو تجھ سے دوری کا اصل سبب ہے ، محفوظ رکھ۔

پروردگارا ! ہمیں دنیا و آخرت میں ایک لمحہ کے لیے بھی ہمارے اپنے سپرد نہ کرنا۔

بارلٰہا ! ہمیں ایسی قدرت عطا فرما کہ ہم ان مغرور و مستکبرین کی ناک کو ، جو تیرے سامنے سدِّراہ بنے ہوئے ہیں ، رگڑ کر رکھ دیں اور ان کے تمام منصوبوں کو مٹا دیں ۔

آمین یا رب العالمین

سورہ القدر

یہ سورہ مکہ میں نازل ہوا ۔ اس میں ۵ آیات ہیں ۔

سورہ قدر کے مطالب

اس سورہ کا مضمون ، جیسا کہ اس کے نام سے بھی ظاہر ہوتا ہے ، شب قدرِ قدر میں قرآن کا نزول ہے ۔ اس کے بعد شب قدر کی اہمیت اور اس کے بر کات و آثار کا بیان ہے ۔

اس بارے میں کہ یہ سورہ” مکہ“ میں نازل ہوا ہے یا” مدینہ“ میں ، مفسرین کے درمیان مشہور اس کا ” مکی“ ہونا ہے لیکن بعض نے احتمال دیا ہے کہ یہ مدینہ میں نازل ہوا ہے کیونکہ ایک روایت میں آیا ہے کہ پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے خواب میں دیکھا کہ ” بنی امیہ “ آپ کے منبر پر چڑھ گئے ہیں ۔ یہ چیز آپ پر گراں گزری اور آپ رنجیدہ ہوئے تو سورہ قدر نازل ہوئی اور آپ کو تسلی دی ، لہٰذا بعض علماء” لیلة القدر خیر من الف شہر “ کو بنی امیہ کی حکومت کی طرف ناظر سمجھتے ہیں جو تقریباً ایک ہزار ماہ رہی ) اور ہم جانتے ہیں کہ مسجد اور منبر مدینہ میں بنائے گئے تھے۔(۱)

____________________

۱۔ ” روح المعانی“ جلد ۳۰ ص ۱۸۸ و ” در المنثور“ جلد ۶ ص ۳۷۱۔

اس سورہ کی فضیلت

اس سورہ کی فضیلت میں یہی کافی ہے کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے منقول ہے کہ آپ نے فرمایا:

من قرأ ها اعطی من الاجر کمن صام رمضان و احیا لیلة القدر

” جو شخص اس کی تلاوت کرے گا تو وہ اس شخص کی طرح ہو گا جس نے ماہ رمضان کے روزے رکھے اور شب قدر کو احیاء کیا ہو“۔(۱)

ایک اور حدیث میں امام محمد باقر علیہ السلام سے آیاہے :

من قرأ انّا انزلناه بجهر کان کشا هر سیفه فی سبیل الله، ومن قرأها،سرّاً کان کالمتشحط بدمه فی سبیل الله “۔

” جو شخص سورہ انّا انزلناہ کو بلند آواز سے پڑھے وہ اس شخص کی مانند ہے جس نے راہ خدا میں تلوار کھینچی اور جہاد کیا ، اور جو شخص اسے آہستہ اور پنہاں طور پڑھے وہ اس شخص کے مانند ہے جو راہ خدا میں اپنے خون میں لت پت ہو۔(۲)

آیات ۱،۲،۳،۴،۵

( بسم الله الرحمن الرحیم )

۱ ۔( انّآ انزلناه فی لیلة القدر ) ۔ ۲ ۔( وما ٓ ادراک مالیلة القدر ) ۔ ۳ ۔( لیلة القدر خیر مّن الف شهر ) ۔

۴ ۔( تنزّ لُ الملآئکةُ و الرُّوحُ فیها باذن ربهم من کل امرٍ ) ۔ ۵ ۔( سلامٌ هی حتّی مطلع الفجر ) ۔

ترجمہ

شروع اللہ کے نام سے جو رحمن و رحیم ہے ۱ ۔ ہم نے اس قرآن کو شب قدر میں نازل کیا ہے ۔ ۲ ۔ اور تو کیا جانے شب قدر کیا چیز ہے ؟ ! ۳ ۔ شب قدر ہزار مہینہ سے بہتر ہے ۔

۴ ۔ فرشتے اور روح اس رات میں اپنے پروردگار کے اذن سے ہرکام ( کی تقدیر) کے لیے اتر تے ہیں ۔

____________________

۱۔ ” مجمع البیان “ جلد۱۰ ص ۵۱۶۔

۲۔’ مجمع البیان “ جلد۱۰ ص ۵۱۶۔

شب قدر نزولِ قرآن کی رات

قرآن کی آیات سے اچھی طرح معلوم ہوتا ہے کہ قرآن مجید ماہ مبارک میں نازل ہوا ہے :” شہر رمضان الذی انزل فیہ القراٰن “ (بقرہ۔ ۱۸۵) اور اس تعبیر کا ظاہر یہ ہے کہ سارا قرآن اسی ماہ میں نازل ہوا ہے ۔

اور سورہ قدر کی پہلی آیت میں مزید فرماتا ہے : ہم نے اسے شب قدر میں نازل کیا “۔( انّآ انزلناه فی لیلة القدر )

اگر چہ اس آیت میں صراحت کے ساتھ قرآن کا نام ذکر نہیں ہوا ، لیکن یہ بات مسلم ہے کہ ” انّا انزلناہ“ کی ضمیر قرآن کی طرف لوٹتی ہے اور اس کا ظاہری ابہام اس کی عظمت اور اہمیت کے بیان کے لیے ہے ۔

( انّا انزلناه ) “ ( ہم نے اسے نازل کیا ہے ) کی تعبیر بھی اس عظیم آسمانی کتاب کی عظمت کی طرف ایک اور اشارہ ہے جس کے نزول کی خدا نے اپنی طرف نسبت دی ہے مخصوصاً صیغہ متکلم مع الغیر کے ساتھ جو جمع کامفہوم رکھتا ہے ، اور یہ عظمت کی دلیل ہے ۔

اس کا شب” قدر“ میں نزول وہی شب جس میں انسانوں کی سر نوشت اور مقدرات کی تعین ہوتی ہے ۔ یہ اس عظیم آسمانی کتاب کے سرنوشت ساز ہونے کی ایک اور دلیل ہے۔

اس آیت کو سورہ بقرہ کی آیت کے ساتھ ملانے سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ شب قدر ماہ مبارک رمضان میں ہے ، لیکن وہ کون سی رات ہے قرآن سے اس بارے میں کچھ معلوم نہیں ہوتا ۔ لیکن روایات میں اس سلسلہ میں بھی اور دوسرے مسائل کے بارے میں بھی گفتگو کریں گے۔

یہاں ایک سوال سامنے آتا ہے اور وہ یہ ہے کہ تاریخی لحاظ سے بھی اور قرآن کے مضمون کے پیغمبر اکرم کی زندگی سے ارتباط کے لحاظ سے بھی یہ مسلم ہے کہ یہ آسمانی کتاب تدریجی طور پر اور ۲۳ / سال کے عرصہ میں نازل ہوئی ہے ۔ یہ بات اوپر والی آیات سے جو یہ کہتی ہیں کہ ماہ رمضان میں اور شب قدر میں نازل ہوئی، کس طرح ساز گار ہوگی؟

اس سوال کا جواب:۔ جیسا کہ بہت محققین نے کہا ہے ۔ یہ ہے کہ قرآن کے دو نزول ہیں ۔

۱ ۔ نزول دفعی : جو ایک ہی رات میں سارے کا ساراپیغمبراکرم کے پاس قلب پریا بیت المعمور پر یا لوح محفوظ سے نچلے آسمان پر نازل ہوا۔

۲ ۔ نزول تدریجی : جو تیئس سال کے عرصہ میں نبوت کے دوران انجام پایا ۔ ( ہم سورہ دُخان کی آیہ ۳ جلد ۱۲ تفسیر نمونہ ص ۲۶ سے آگے اس مطلب کی تشریح کے چکے ہیں )۔

بعض نے یہ بھی کہا ہے کہ آغازِنزول ِ قرآن شب قدر میں ہواتھا، نہ کہ سارا قرآن ، لیکن یہ چیز آیت کے ظاہر کے خلاف ہے ، جو کہتی ہے کہ ہم نے قرآن کو شب قدر میں نازل کیا ہے ۔

قابل توجہ بات یہ ہے کہ قرآن کے نازل ہونے کے سلسلے میں بعض آیات میں ” انزال“ اور بعض میں ” تنزیل“ تعبیر ہوئی ہے ۔ اور لغت کے کچھ متنوں سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ” تنزیل “ کا لفظ عام طور پر وہاں بولا جاتا ہے جہاں کوئی چیز تدریجاًنازل ہو لیکن ” انزال “ زیادہ وسیع مفہوم رکھتا ہے جو نزول دفعی کو بھی شامل ہوتا ہے ۔(۱)

تعبیر کایہ فرق جو قرآن میں آیاہے ممکن ہے کہ اوپر والے دو نزولوں کی طرف اشارہ ہو۔

بعد والی آیت میں شب قدر کی عظمت کے بیان کے لیے فرماتاہے :” تو کیا جانے کہ شب قدر کیا ہے “۔( وما ادراک مالیلة القدر ) ۔

اور بلا فاصلہ کہتا ہے :” شب قدر ایک ایسی رات ہے جو ہزار مہینے سے بہتر ہے “۔( لیلة القدر خیر من الف شهر ) ۔

یہ تعبیر اس بات کی نشان دہی کرتی ہے کہ اس رات کی عظمت اس قدر ہے کہ پیغمبر اکرم نور مجسم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم تک بھی اپنے اس وسیع وعریض علم کے باوجود آیات کے نزول سے پہلے واقف نہیں تھے ۔

ہم جانتے ہیں کہ ہزار ماہ اسّی ( ۸۰) سال سے زیادہ ہے ۔ واقعاً کتنی باعظمت رات ہے جو ایک پر برکت طولانی عمر کے برابر قدر و قیمت رکھتی ہے ۔

بعض تفاسیر میں آیا ہے کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا:

” بنی اسرائیل میں سے ایک شخص نے لباسِ جنگ زیب تن کررکھا تھا ، اور ہزار ماہ تک اسے نہ اتا را ، وہ ہمیشہ جہاد فی سبیل اللہ میں مشغول ( یا آمادہ ) رہتا تھا ، پیغمبر اکرم کے اصحاب و انصار نے تعجب کیا، اور آرزو کی کہ کاش اس قسم کی فضیلت و افتخار انہیں بھی میسر آئے تو اوپروالی آیات نازل ہوئیں ۔ اور بیان کیاکہ شب قدر ہزار ماہ سے افضل ہے ۔ ۲

ایک اور حدیث میں آیاہے کہ پیغمبر نے بنی اسرائیل کے چار افراد کو ذکر کیا جنہوں نے اسی سال بغیر معصیت کیے خدا کی عبادت کی تھی۔ اصحاب نے آرزو کی کہ کاش وہ بھی اس قسم کی توفیق حاصل کرتے تو اس سلسلہ میں اوپر والی آیات نازل ہوئیں ۔(۳)

اس بارے میں کہ یہاں ہزار کا عدد” تعداد“ کے لئے ہے یا” تکثیر“ کے لیے بعض نے کہا ہے : یہ تکثیر کے لیے ہے ، اور شب قدر کی قدر و منزلت کئی ہزار ماہ سے بھی زیادہ ہے ، لیکن وہ روایات جوہم نے اوپرنقل کی ہیں وہ اس بات کی نشان دہی کرتی ہیں کہ عددِ مذکور تعداد ہی کے لئے ہے اور اصولی طور پر بھی عدد ہمیشہ کے لئے ہوتا ہے مگر یہ تکثیر پر کوئی واضح قرینہ موجود ہو ، اوراس کے بعد اس عظیم رات کی مزید تعریف و توصیف کرتے ہوئے اضافہ کرتا ہے : ” اس رات میں فرشتے اور روح اپنے پروردگار کے اذن سے ہر کام کی تقدیر کے لیے نازل ہوتے ہیں “۔( تنزل الملائکة و الروح فیها باذن ربهم من کل امر ) ۔

اس بات کی طرف توجہ کرتے ہوئے کہ ” تنزل“ فعل مضارع ہے اور استمرار پر دلالت کرتا ہے ( جو اصل میں ” تتنزل“ تھا)۔ واضح ہو جاتا ہے کہ شبِ قدر پیغمبر اکرم اور نزولِ قرآن کے زمانہ کے ساتھ مخصوص نہیں تھی، بلکہ یہ ایک امر مستمر ہے ، اور ایسی رات ہے جو ہمیشہ آتی رہتی ہے اور ہر سال آتی ہے ۔

اس بارے میں کہ روح سے کیا مراد ہے بعض نے تو یہ کہا ہے کہ اس سے مراد ” جبرئیل امین “ ہے ، جسے ” روح الامین “ بھی کہا جاتا ہے ، اور بعض نے ” روح“ کی سورہ شوریٰ کی آیہ ۵۲” و کذلک اوحینا الیک روحاً من امرنا“ ” جیسا کہ ہم نے گزشتہ انبیاء پر وحی کی تھی، اسی طرح سے تجھ پر بھی اپنے نافرمان سے وحی کی ہے“۔

کے قرینہ سے ” وحی“ کے معنی میں تفسیر کی ہے ۔

اس بناء پر آیت کا مفہو م اس طرح ہوگا” فرشتے وحی الٰہی کے ساتھ، مقدرات کی تعیین کے سلسلہ میں ، اس رات میں نازل ہوتے ہیں “۔ یہاں ایک تیسری تفسیر بھی ہے جو سب سے زیادہ قریب نظر آتی ہے ۔ اور وہ یہ ہے کہ” روح ایک بہت بڑی مخلوق ہے جو فرشتوں سے مافوق ہے ، جیساکہ ایک امام جعفر صادق علیہ السلام سے نقل ہوا ہے کہ ایک شخص نے آپ سے سوال کیا : کیا روح وہی جبرئیل ہے “ ؟ امام علیہ السلام نے جواب میں فرمایا:”جبرئیل من الملائکة، و الروح اعظم من الملائکة ان الله عز و جل یقول : تنزل الملائکة و الروح “۔

” جبرئیل تو ملائکہ میں سے ہے ، اور روح ملائکہ سے زیادہ عظیم ہے ، کیا خدا وند تعالیٰ یہ نہیں فرماتا : ملائکہ اور روح نازل ہوتے ہیں ، ؟(۴)

یعنی مقابلہ کے قرینہ سے یہ دونوں آپس میں مختلف ہیں لفظ ” روح“ کے لئے یہاں دوسری تفاسیر بھی ذکر ہوئی ہیں کیونکہ ان کے لیے کوئی دلیل نہیں تھی ، لہٰذا ان سے صرف نظرکی گئی ہے

” من کل امر“ سے مراد یہ ہے کہ فرشتے سر نوشتوں کی تقدیر و تعین کے لئے ، او رہر خیر و برکت لانے کے لئے اس رات میں نازل ہوتے ہیں ، اور ان کے نزول کا مقصدان امور کی انجام دہی ہے ۔

یا یہ مراد ہے کہ ہر امر خیر اور ہر سر نوشت اور تقدیر کو اپنے ساتھ لاتے ہیں ۔(۵)

”ربھم“ کی تعبیر کو، جس میں ربوبیت اور تدبیر جہاں کے مسئلہ پر بات ہوئی ہے ، ان فرشتوں کے کام کے ساتھ قریبی مناسبت ہے ، کہ وہ امور کی تدبیر و تقدیر کے لیے نازل ہوتے ہیں ، اور ان کا کام بھی پروردگارکی ربوبیت کا ایک گوشہ ہے ۔اور آخری آیت میں فرماتا ہے :” یہ ایک ایسی رات ہے ، جو طلوع صبح تک سلامتی اور خیر و برکت و رحمت سے پر رہتی ہے “۔( سلام هی حتی مطلع الفجر ) ۔

قرآن بھی اسی میں نازل ہوا، اس کا احیاء اور شب بیداری بھی ہزار ماہ کے برابر ہے ، خدا کی خیرات و برکات بھی اسی شب میں نازل ہوتی ہیں ، اس کی رحمتِ خاص بھی بندوں کے شامل حال ہوتی ہے ، اور فرشتے اور روح بھی اسی رات میں نازل ہوتے ہیں ۔

اسی بناء پر یہ ایک ایسی رات ہے جو آغاز سے اختتام تک سرا سر سلامتی ہی سلامتی ہے۔ یہاں تک کہ بعض روایات کے مطابق تو اس رات میں شیطان کو زنجیر میں جکڑ دیا جاتا ہے ۔ لہٰذا اس لحاظ سے بھی یہ ایک ایسی رات ہے جو سالم او رسلامتی سے توأم ہے ۔

اس بناء پر ” سلام “ کا اطلاق ، جو سلامت کے معنی میں ہے ۔( سالم کے اطلاق کے بجائے) حقیقت میں ایک قسم کی تاکید ہے ، جیسا کہ بعض اوقات ہم کہہ دیتے ہیں کہ فلاں آدمی عین عدالت ہے ۔

بعض نے یہ بھی کہا ہے کہ اس رات پر” سلام “کا اطلاق اس بناء پر ہے کہ فرشتے مسلسل ایک دوسرے پریا مومنین پر سلام کرتے ہیں ، یا پیغمبر کے حضور میں اور آپ کے معصوم جانشین کے حضور میں جاکر سلام عرض کرتے ہیں ۔

ان تفسیروں کے درمیان بھی ممکن ہے ۔

بہر حال یہ ایک ایسی رات ہے جو ساری کی ساری نور و رحمت ، خیر و بر کت، سلامت و سعادت، اور ہر لحاظ سے بے نظیر ہے ۔

ایک حدیث میں آیاہے کہ امام محمد باقر علیہ السلام سے پوچھا گیا ۔ کیاآپ جانتے ہیں کہ شب قدر کونسی رات ہے ؟ تو آپ نے فرمایا-”کیف لانعرف و الملائکة تطوف بنا فیها

” ہم کیسے نہ جانیں گے جب کہ فرشتے اس رات ہمارے گرد طواف کرتے ہیں “۔(۶)

حضرت ابراہیم علیہ السلام کے واقعہ میں آیا ہے کہ خدا کے کچھ فرشتے آپ کے پاس آئے اور انہیں بیٹے کے تولد کی بشارت دی اور ان پر سلام کیا ، ( ہود۔ ۶۹) ۔ کہتے ہیں کہ ابراہیم علیہ السلام کی جو لذت ان فرشتوں کے سلام میں آئی، ساری دنیا کی لذتیں بھی اس کے برابرنہیں تھیں ۔ اب غور کرنا چاہئیے کہ جب شب قدر میں فرشتے گروہ درگروہ نازل ہورہے ہوں ، اور مومنین کو سلام کررہے ہوں ،تو اس میں کتنی لذت، لطف اور برکت ہوگی؟! جب ابراہیم کو آتش نمرودمیں ڈالا گیا ، تو فرشتوں نے آکر آپ کو سلام کیااور آگ ان پر گلزار بن گئی ، تو کیا شب قدر میں مومنین پر فرشتوں کے سلام کی برکت سے آتش دوزخ” برد“و” سلام “ نہیں ہو گی ؟ ۔

ہاں ! یہ امت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی عظمت کی نشانی ہے کہ وہاں تو خلیل پر نازل ہوتے ہیں اور یہاں اسلام کی اس امت پر ۔(۷)

____________________

۱۔ مفردات راغب مادّہ نزل۔

۲۔ ” در المنثور“ جلد ۶ ص ۳۷۱۔

۳۔ ” در المنثور“ جلد ۶ ص ۳۷۱۔

۴۔ ” تفسیر بر ہان “ جلد ۴ ص ۴۸۱۔

۵-بعض نے یہ بھی کہا ہے کہ اس سے مراد یہ ہے کہ وہ خدا کے امر و فرمان سے نازل ہوتے ہیں لیکن مناسب وہی پہلا معنی ہے ۔

۶۔ ” تفسیر برہان“ جلد ۴ ص۴۸۸ حدیث ۲۹۔

۷۔ ” تفسیر فخر رازی“ جلد ۳۲ ص ۳۶۔

۱ ۔ شب قدر میں کون سے امورمقدّر ہوتے ہیں ؟

اس سوال کے جواب میں کہ اس رات کو، شب قدر، کا نام کیوں دیا گیاہے ، بہت کچھ کہا گیا ہے : منجملہ یہ کہ :

۱ ۔ شب قدر کو نام شب قدر کا نام اس لیے دیا گیا ہے کہ بندوں کے تمام سال کے سارے مقدرات اسی رات میں تعین ہوتے ہیں ، اس معنی کی گواہ سورہ دخان ہے جس میں آیاہے کہ :( انا انزلناه فی لیلة مبارکة انا کنا منذرین فیا یفرق کل امر حکیم ) “: ہم نے اس کتاب مبین کو ایک پر بر کت رات میں نازل کیا ہے ، اور ہم ہمیشہ ہی انداز کرتے رہتے ہیں ، اس رات میں ہر امر خدا وند عالم کی حکمت کے مطابق تنظیم و تعین ہوتا ہے “۔ ( دخان۔ ۳ ۔ ۴)

یہ بیان متعدد روایات کے ساتھ ہم آہنگ ہے جو کہتی ہیں کہ اس رات میں انسان کے ایک سال کے مقدرات کی تعین ہوتی ہے اور رزق ، عمریں اور دوسرے امور اسی مبارک رات میں تقسیم اور بیان کیے جاتے ہیں ۔

البتہ یہ چیز انسان کے اردہ اور مسئلہ اختیارکے ساتھ کسی قسم کا تضاد نہیں رکھتی ، کیونکہ فرشتوں کے ذریعے تقدیر الٰہی لوگوں کی شائستگیوں اور لیاقتوں ، اور ان کے ایمان و تقویٰ اور نیت ِ اعمال کی پاکیزگی کے مطابق ہوتی ہے ۔

یعنی ہر شخص کے لیے وہی کچھ مقدر کرتے ہیں جو اس کے لائق ہے ، یا دوسرے لفظوں میں ، اس کے مقدمات خود اسی کی طرف سے فراہم ہوتے ہیں ، اور یہ امر نہ صرف یہ کہ اختیارکے ساتھ کوئی منا فات نہیں رکھتا، بلکہ یہ اس پر ایک تاکید ہے ۔

۲ ۔ بعض نے یہ بھی کہاہے کہ اس رات کا اس وجہ سے شب قدر نام رکھا گیاہے کہ وہ ایک عظیم و قدر و شرافت کی حامل ہے ( جس کی نظیر سورہ حج کی آیہ ۷۴ میں آئی ہے ) (ماقدر و اللہ حق قدرہ)انہوں نے حقیقت میں خدا کی قدر و عظمت کو ہی نہیں پہچا نا“۔

۳ ۔ بعض نے یہ بھی کہا ہے کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ قرآن اپنی پوری قدر و منزلت کے ساتھ، قدر و منزلت والے رسول پر اور صاحبِ قدر و منزلت فرشتے کے ذریعے اس میں نازل ہواہے۔

۴ ۔ یایہ مطلب ہے کہ ایک ایسی رات ہے جس میں قرآن کا نازل ہونا مقدر ہوا ہے ۔

۵ ۔ یایہ کہ جو شخص اس رات کو بیدارر ہے تو وہ صاحبِ قدر و مقام و منزلت ہوجاتا ہے ۔

۶ ۔ یا یہ بات ہے کہ اس رات میں اس قدر فرشتے نازل ہوتے ہیں کہ ان کے لیے عرصہ زمین تنگ ہو جاتا ہے ، کیونکہ تقدیر تنگ ہونے کے معنی میں بھی آیاہے۔ و من قدر علیہ رزقہ ( طلاق۔ ۷)

ان تمام تفاسیر کا ” لیلة القدر “ کے وسیع مفہوم میں جمع ہونا پورے طور پر ممکن ہے اگر چہ پہلی تفسیر زیادہ مناسب اور زیادہ مشہور ہے ۔

۲ ۔ شب قدر کون سی رات ہے ؟

اس بارے میں کہ ” لیلة القدر“ ماہ رمضان میں ہوتی ہے ، کوئی شک و شبہ نہیں ہے کیونکہ قرآن کی تمام کی تمام آیات اسی معنی کا اقتضا کرتی ہیں ، ایک طرف تو وہ کہتی ہیں کہ قرآن ماہ رمضان میں نازل ہوا ہے ( بقرہ۔ ۱۸۵) اور دوسری طرف یہ کہتی ہیں کہ شب قدر میں نازل ہوا ہے ۔ ( آیات زیر بحث)۔

لیکن اس بارے میں کہ ماہ رمضان کی راتوں میں سے کون سی رات ہے ، بہت اختلاف ہے ، اوراس سلسلہ میں بہت سی تفاسیر بیان کی گئی ہیں ۔ منجملہ : پہلی رات سترھویں رات ، انیسویں رات، اکیسویں رات، تیئسویں رات، اور ستائیویں رات اور انتیسویں رات۔

لیکن روایات میں مشہور و معروف یہ ہے کہ ماہ رمضان کی آخری دس راتوں میں سے اکیسویں یا تیئسویں رات ہے ۔ اسی لیے ایک روایت میں آیاہے کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ماہ مبارک کی آخری دس راتوں میں تمام راتوں کا احیاء فرماتے اور عبادت میں مشغول رہتے تھے ۔

ایک روایت میں امام جعفر صاق علیہ السلام سے آیاہے کہ شب قدر اکیسویں یا تیئسویں رات ہے ، یہاں تک کہ جب راوی نے اصرار کیا کہ ان دونوں راتوں میں سے کون سی رات ہے اور یہ کہا کہ اگر میں ان دونوں راتوں میں عبادت نہ کر سکوں تو پھر کون سی رات کا انتخاب کروں “۔ تو بھی امام نے تعین نہ فرمائی اور مزیدکہا: ”ماالیسر لیلتین فیما تطلب “اس چیز کے لیے جسے تو چاہتا ہے دو راتیں کس قدرآسان ہیں ؟(۱)

لیکن متعدد روایات میں جو اہل بیت کے طریقہ سے پہنچی ہیں زیادہ تر تیئسویں رات پر تکیہ ہوا ہے ۔ جب کہ اہل سنت کی زیادہ تر روایات ستائیسویں رات کے گرد گردش کرتی ہیں ۔

ایک روایت میں امام جعفر صادق علیہ السلام سے یہ بھی نقل ہوا ہے کہ آپ نے فرمایا:

التقدیر فی لیلة القدر تسعة عشر، و الابرام فی لیلة احدی و عشرین، و الامضاء فی لیلة ثلاث و عشرین “۔

”تقدیر مقدرات تو انیسوں کی شب کو ہوتی ہے ، اور ان کا حکم اکیسویں رات کو ، اور ان کی تصدیق او رمنظوری تیئسویں رات کو۔(۲)

اور اس طرح سے روایات کے درمیان جمع ہو جاتی ہے ۔

لیکن بہر حال ، اس وجہ کی بناء پر جس کی طرف بعد میں اشارہ ہوگا، شب قدر کو ابہام کے ایک ہالے نے گھیر رکھا ہے۔

____________________

۱۔ ” تفسیر نور الثقلین“ جلد ۵ ص ۶۲۵ حدیث ۵۸ ۔

۲ ۔ ” تفسیر نور الثقلین“ جلد ۵ ص ۶۲۶ حدیث ۶۲ ۔

چند نکات

۱ ۔ ایسی حدیث جس میں اعجاز ہے

ایک حدیث میںاذاالسماء انشقت کی تفسیر کے سلسلے میں حضرت علی علیہ السلام سے منقول ہے کہ آپ نے فرمایا (انها تنشق من المجرة )( ستارے ) کہکشا و ں سے الگ ہوجائیں گے ۔(۱)

یہ حدیث پر معنی اور قابل دِقّت ہے اور علمی معجزات میں شمار ہوتی ہے اور ایسی حقیقت پر سے پر دہ اٹھاتی ہے کہ اس زمانہ کے ماہرین علماء میں سے کوئی اس تک نہیں پہنچتا تھا ۔ وہ یہ کہ موجودہ زمانے کے ماہرین فلکیات نے اپنے نجوم سے متعلق مشاہدات اور دور بینوں کے ذریعہ ثابت کیا ہے کہ عالم کہکشاں کا مجموعہ ہے اور ہر کہکشاں شمسی نظاموں اور ستا روں کا مجموعہ ہے اسی بناپر انہیں ستاروں کے شہر کانام دیتے ہیں ۔

کہ کہکشاں مشہور شہر کا راستہ ہے جو آنکھ سے نظر آسکتا ہے اور نظام ہائے شمسی اور ستاروں کے عظیم مجموعہ اور دائرہ کی مانند ہے ، اس کی ایک سمت ہم سے اس قدر دور ہے کہ اس کے ستارے ہمیں سفید بادل کی شکل میں نظر آتے ہیں ، لیکن وہ در حقیقت ایک دوسرے سے نزدیک نورانی نقطوں کا مجموعہ ہےں ۔

وہ سمت جو ہم سے نزدیک ہے اس کے ستارے قابل رو یت ہیں یہ وہی ستارے ہیں جو رات کے وقت ہم آسمان پر دیکھتے ہیں اور اس طرح ہمارا نظام شمسی سوائے اس کہکشاں کے اور کچھ نہیں ہے ۔

مندرجہ بالا روایت کے مطابق حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں کہ قیامت کے بر پا ہونے کے وقت یہ ستارے جنہیں تم دیکھتے ہوکہکشاں سے جدا ہو جائیں گے اور سب کا نظام درہم بر ہم ہو جائے گا ۔

اس زمانے میں کون جانتا تھا کہ یہ ستارے جنہیں ہم دیکھ رہے ہیں ، واقعی اس کہکشاں کا جز ہیں سوائے اس شخص کے کہ جس کا دل عالم غیب سے مربوط ہو اور علم خدا کے سر چشمہ سے سیراب ہوا ہو۔

____________________

۱- روح المعانی ، جلد ۳۰ ص۸۷ و در المنثور، جلد ۶ ص ۳۲۹

۲ ۔ دنیا رنج و تکلیف اور دکھ درد کا گھر ہے

” کادح“ کی تعبیر مندرجہ بالا آیت میں آئی ہے اور سعی و کوشش کی طرف اشارہ ہے جس میں رنج و زحمت کی آمیزش ہو ، اس طرف توجہ رکھتے ہوئے ، کہ اس کے مخالف تمام انسان ہیں ، اس واقعیت کو پیش کرتی ہے کہ اس جہان کی زندگی کی طبیعت کسی مرحلہ میں بھی مشکلات ، تکالیف اور رنج و مشقت سے خالی نہیں ہے ۔

چاہے یہ مشکلات و تکالیف جسمانی ہوں ، چاہے روحانی اور فکری یا دونوں کسی فرد کو اس سے مفر نہیں ہے ۔ حضرت علی ابن الحسین کی ایک بہت ہی پر معنی حدیث ہے :

(الراحة لم تخلق فی الدنیا ولا لاهل الدنیا ، انما خلقت الراحة فی الجنة و لاهل الجنة و التعب و النصب خلقا فی الدنیا و لاهل الدنیا وما اعطی احد منها جفنة الا اعطی من الحرص مثلیها و من اصاب من الدنیا اکثر کان فیها اشد فقیراً لانه یفتقر الیٰ الناس فی حفظ امواله و تفتقر الیٰ کل اٰلة من اٰلات الدنیا فلیس فی غنی الدنیا الراحة )

راحت و آرام دنیا میں اہل دنیا کے لئے نہیں ہے ، راحت و آسائش صرف جنت میں ہے اور اہل جنت کے لئے ہے ۔ رنج و تعب دنیا میں ہیں اور اہل دنیا کے لئے پیدا کئے گئے ہیں ۔ اسی وجہ سے جو ایک پیمانہ اس میں سے حاصل کر لیتا ہے تو دگنا لالچ اس کے نصیب میں شامل ہو جاتا ہے اور جس کے پاس مال دنیا کا فی ہے وہ زیادہ فقیر ہے ، کیونکہ وہ اپنے مال کی حفاظت کے سلسلہ میں دوسروں کا محتاج ہے اور زیادہ وسائلِ حفاظت کا محتاج ہے ۔ لہٰذا دنیا کے مال و دولت میں کوئی راحت و آرام نہیں ہے ۔

اس کے بعد امام نے اس حدیث کے ذیل میں فرمایا:(کلا ما تعب اولیاء الله فی الدنیا للدنیا بل تعبوا فی الدنیا للاٰ خرة) اولیاء خدا دنیا میں دنیا کی خاطر رنج و تعب میں نہیں مبتلا ہوتے بلکہ دنیا میں ان کا رنج و تعب آخرت کے لئے ہے ۔(۱)

____________________

۱۔ خصال صدیق جلد جلد۱، باب الدنیا و الاخرة ککفق المیزان ، حدیث ۹۵۔

آیات ۱۰،۱۱،۱۲،۱۳،۱۴،۱۵

۱۰ ۔( وامّا مَنْ اوتیَ کتابه ورآءَ ظَهره ) ۔

۱۱ ۔( فسوفَ ید عوا ثُبُوراً ) ۔

۱۲ ۔( ویصلیٰ سَعِیراً ) ۔

۱۳ ۔( انّه کان فی اهله مسروراً )

۱۴ ۔( انّه ظنّ اَن لن یحورَ ) ۔

۱۵ ۔( بلیٰ ِانَّ ربَّه کان به بصیراً ) ۔

ترجمہ

۱۰ ۔ اور رہا وہ شخص جس کو اس کانامہ اعمال پیچھے کی طرف سے دیا گیا ۔

۱۱ ۔ تو عنقریب اس کی فریاد بلند ہوگی کہ وائے ہو مجھ پر میں ہلاک ہوگیا ۔

۱۲ ۔ اور وہ جہنم کی آگ کے جلانے والے شعلوں میں جلے گا۔

۱۳ ۔ وہ اپنے گھروں کے درمیان ( کفرو گناہ کے سبب) مسرور تھا ۔

۱۴ ۔ وہ گمان کرتا تھا کہ کبھی پلٹ کر نہیں آئے گا۔

۱۵ ۔ جی ہاں ! اس کا پروردگار اس کے مقابلہ میں بینا تھا۔

وہ جو شرم و حیاکے باعث اپنانامہ اعمال پشت کی طرف سے لیں گے

اس بحث کے بعد ، جو گذشتہ آیات میں اصحاب الیمین ( وہ مومنین جن کانامہ اعمال ان کے دائیں ہاتھ میں دیاجائے گا) کے بارے میں گزرچکی ہے ، ان آیات میں کفار مجرمین اور ان کے نامہ اعمال کی کیفیت کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے فرماتا ہے :

” باقی رہا وہ شخص جس کا نامہ اعمال اس کی پشت کی طرف سے دیا جائے گا“ ( و اما من اوتی کتابہ واء ظھرہ)۔ عنقریب وہ فریاد کرے گا کہ وائے ہو مجھ پر کہ میں ہلا ک ہوگیا ( فسوف یدعوا ثبوراً۔ ” اور آگ کے جلانے والے شعلوں میں جلے گا “ (ویصلیٰ سعیراً)۔

یہ کہ ان کے نامہ اعمال کس طرح ان کے پس پشت سے دیں گے اور کس طرح یہ آیت اور وہ آیات جو کہتی ہیں کہ ان کے دائیں ہاتھ میں دیں ، ایک جگہ جمع ہوں گی، اس سلسلہ میں مفسرین نے مختلف تفسیریں کی ہیں ۔ بعض نے کہا کہ ان کے دائیں ہاتھ گردن کےساتھ زنجیر سے بندھے ہوں گے اور ان کے نامہ ہائے اعمال بائیں اور پشت کے پیچھے سے ملیں گے جو ذلت و خواری کے سر نیچے رکھنے اور شرمساری کی علامت ہے ۔

بعض دوسرے مفسرین نے کہا ہے کہ ان کے دونوں ہا تھ قید یو ں کے طرح پیچھے باندھ دئیے جائیں گے ۔ بعض دوسروں نے کہا ہے کہ سورہ نساء کی آیت ۴۷ کی طرف توجہ کرتے ہوئے کہتی ہے :( من قبلی ان نطمس وجوهاً فنرها علیٰ ادبار ها ) ۔ ” اس سے پہلے کہ ہم چہروں کو مٹادیں اور پشت کی طرف پھیر دیں “ اس طرح گروہ مجرمین کے منہ عقب کی جانب مڑ جائیں گے اور ضروری ہے کہ وہ اپنے نامہ ہائے اعمال خود پڑھیں ۔ لہٰذاوہ ان کے بائیں ہاتھ میں پشت کی جانب انہیں دیں گے ۔

لیکن زیادہ مناسب یہ ہے کہ کہاجائے کہ اصحاب الیمین سر فرازی اور فخر و مباہات کے ساتھ اپنا نامہ اعمال دائیں ہاتھ میں لیئے ہوئے پکار کر کہیں گے( هاو م اقرء الکتابیه ) ” اے اہل محشر آو اور میر انامہ اعمال لے کر پڑھو“ ( حاقہ ۔ ۱۹) ۔ لیکن گناہگاروں کو ان کا نامہ اعمال ان کے بائیں ہاتھ میں دیں گے تو وہ شرمساری اور ذلت سے اپنا ہاتھ پشت کے پیچھے کرلیں گے تاکہ جرم کی سند کم تر دیکھی جائے ۔

لیکن فائدہ کچھ نہیں ہوگا اس لئے کہ وہاں کوئی چیز پوشیدہ رہنے والی نہیں ہے ۔( یدعوا ثبورا ) ، اس کی تعبیر کی طرف اشارہ ہے جو عرب کس خطر ناک حادثہ کے موقعہ پر کرتے ہیں اور فریاد بلند کرتے ہیں( و اثبوا ) ،اے وائے کہ میں ہلاک ہو گیا ۔

توجہ فرمائیں کہ ” ثبور“ ہلاکت کے معنی میں ہے ۔ لیکن یہ آہ نالہ و فریاد کسی کے کان تک نہیں پہنچے گی ۔ اس کے بعد( ویصلیٰ سعیراً ) ہے یعنی وہ جہنم کے جلانے والی آگ میں داخل ہوگا ۔اس کے بعد اس منحوس سر نوشت کی علت کو بیان کرتے ہوئے فرماتاہے :” یہ اس بنا ء پر ہے کہ وہ اپنے گھروں میں ہمیشہ اپنے ( کفر و گناہ کی وجہ سے ) خوش رہتا تھا( انه کان فی اهله مسروراً ) ، ایسا سرور جس میں غرور کی آمیزش تھی اور ایسا غرور جو غفلت اور خدا سے بے خبری کو اپنے ساتھ لیئے ہوئے تھا ، ایسا غرور جو دنیا کے ساتھ شدید و بستگی اور موت کے بعد والے جہان سے بے پرواہی کی نشانی تھا ۔

واضح رہے کہ ذاتی طور پر سرور و خوش حالی مذموم چیزنہیں ہے بلکہ مومن کو چاہئیے کہ لطفِ خدا سے مسرور ہو اور رہنے سہنے کے انداز میں ہشاش بشاس ہو۔ وہ سرور و خوشی مذموم ہے جو انسان کو یاد خدا سے غافل کردے اور خواہشات کا اسیر بنا کر رکھ دے ۔

اس لئے بعد والی آیت میں مزید کہتا ہے : ”یہ اس بنا پر ہے کہ وہ گمان کرتا تھا کہ کبھی واپس نہیں لوٹے گا اور معاد و قیامت کا کوئی امکان نہیں ہے “( انه ظن ان لن یحور ) ۔ حقیقت میں اس کی بد بختی کا سبب اصلی اس کا اعتقاد فاسد اور گمان باطل تھا ، جس کا دارومدار انکار قیامت پر تھا ۔

یہی اعتقاد اس کے غرور و سرور کا باعث ہوا ، اس نے اس کو خد اسے دور کیا اور خواہشات کا اسیر بنا کر رکھ دیا ، یہاں تک کہ وہ انبیاء کی دعوت فکر کا مذاق اڑاتا اور جب اپنے گھر والوں کے پاس آتا تو اس مذاق سے خوش ہوتا ۔

یہی مفہوم سورہ مطففین کی آیت ۳۱( و اذا انقلبوا الیٰ اهلهم انقلبوا فکهین ) میں بھی آیا ہے ۔ اس طرح قارون اس مغرور دولت مند اور خداسے بے خبر انسان کی داستان میں بیان ہوا ہے کہ بنی اسرائیل میں سے باخبر افراد اس سے کہتے تھے( لا تفرح ان الله لا یحب الفرحین )

اس قدر متکبرانہ طور پر خوش نہ ہو کیونکہ خدا خوش ہونے والے مغروروں کو دوست نہیں رکھتا ( قصص۔ ۷۶)

” لن یحور“ کبھی واپس نہیں لوٹے گا“۔ ” یحور “۔ ” حور“ ( بروزن غور ) کے مادہ سے تردد اور آمد و رفت کے معنی میں ہے ، خواہ یہ آمد و رفت عمل ہو یا فکر و نظر میں ،اسی لئے پانی کے حوض یا تا لاب میں گردش کرنے کے سلسلہ میں اس لفظ کا اطلاق ہوتا ہے اور محور اس کو کہتے جس کے گرد چرخہ گھومتا ہے ، محاورہ بحث کی آمد و رفت اور ردّ و بدل کے معنی سے ہے اور ” حوار“ بھی انہی معانی میں ہے اور کبھی اس دار کے معنی میں بھی آتاہے جو بحث کے آوزان بلند ہوتی ہے اور تحیر بھی کسی مسئلہ میں فکر کی آمد و رفت کا نتیجہ ہے جس کا لازمہ عمل میں سر گردانی ہے ۔

بعض مفسرین کانظریہ ہے کہ اس لفظ کی اصل حبشی ہے ۔ اور ابن عباس سے نقل ہو اہے کہ میں قرآن کے اس جملے کے معنی نہیں جانتا تھا ، یہاں تک کہ ایک بیابانی عرب سے میں نے سنا کہ وہ اپنی لڑ کی سے کہہ رہا تھا ” حوری “ یعنی واپس آجا ۔(۱)

اسے ” حور “ کے مادہ سے دھونے اور سفید کرنے کے معنی میں سمجھا ہے ، کیونکہ وہ لوگوں کے دلوں کو شرک و گناہ کے زنگ سے پاک و صاف کرتے تھے ، اور جنت کی حورو ں کو اسی لئے یہ نام دیاگیا ہے کہ ان کا رنگ سفید ہے ، یاان کی آنکھوں کی سفیدی بہت زیادہ ہے ۔

بعض مفسرین نے یہ بھی کہا ہے کہ یہ لفظ جنت کی حوروں کے لئے اس لئے بولا جاتا ہے کہ وہ اس قدر خوبصورت ہیں کہ آنکھ انہیں دیکھ کر حیران رہ جاتی ہے ۔ لیکن بہر حال یہ لفظ زیر بحث آیت میں باز گشت اور معاد کے معنی میں ہے

” جی ہاں ! اس کا پروردگار اس کے بارے میں بینا تھا “( بلی ان ربه کان به بصیراً ) اس کے تمام اعمال کو لکھوایا اور روز حساب کے لئے ایک نامہ اعمال میں انہیں محفوظ کیا۔ اس آیت کی تعبیر گزشتہ آیت ( یا ایھا الانسان انک کادح الیٰ ربک کد حاً فملاقیہ)کی مانند عقیدہ و معاد پر دلیل و حجت شما رہو سکتی ہے ۔

خصوصاً دونوں آیات میں رب یعنی پروردگار کے عنوان پر انحصار ہو اہے ، اس لئے کہ انسان کی سیر ارتقاء یعنی پروردگار تک پہنچنے کا عمل ، موت کے آنے پر منقطع نہیں ہوتا اور دنیا وی زندگی ہر گز اس قابل نہیں ہے کہ خود مقصودِ تکامل ہو نیز انسان کے اعمال کے بارے میں خدا کا بصیر ہونا اور ان کے اعمال کو تحریر کیاجا نا حسا ب و سزا و جزا کی تمہیدہی بن سکتا ہے ، ورنہ فضول ہے ۔

____________________

۱۔مفردات راغب، تفسیر فخر رازی ، ابو الفتوح اور دوسری کتب ۔

آيات ۱۶،۱۷،۱۸،۱۹،۲۰،۲۱،۲۲،۲۳،۲۴،۲۵

۱۶ ۔( فلآ اقسم باشفق ) ۔

۱۷ ۔( و الّیل وما وسقَ ) ۔

۱۸ ۔( و القمر اذا اتسقَ ) ۔

۱۹ ۔( لترکبنَّ طبقاً عن طبقٍ ) ۔

۲۰ ۔( فما لهم لایومنون ) ۔

۲۱ ۔( و اذا قریٴ علیهم القرآنُ لا یسجدونَ ) ۔

۲۲ ۔( بل الذین کفروا یکذبون ) ۔

۲۳ ۔( و الله اعلم بما یوعونَ ) ۔

۲۴ ۔( فَبَشِّر هُم بِعَذَابٍ الیمٍ ) ۔

۲۵ ۔( اِ لاَّ اٰمنوا و عملوا الصّا لحاتِ لهم اجرٌ غیر ممنونٍ ) ۔

ترجمہ

۱۶ ۔ شفق کی قسم ۔

۱۷ ۔ اور رات کی قسم جسے وہ جمع کرتی ہے ۔

۱۸ ۔ اور قسم ہے چاند کی جبکہ وہ بدر کامل ہوتا ہے ۔

۱۹ ۔ تم سب ایک حالت سے دوسری حالت کی طرف منتقل ہوتے ہو۔

۲۰ ۔ پس وہ کیوں ایمان نہیں لاتے ؟

۲۱ ۔ اور جب قرآن ان کے سامنے پڑھا جائے تو سجدہ نہیں کرتے ۔

۲۲ ۔ بلکہ کفار ہمیشہ آیات الہٰی کی تکفیر کرتے ہیں ۔

۲۳ ۔ خدا اس چیز کو جسے وہ دل میں چھپائے رکھتے ہیں ، اچھی طرح جانتا ہے ۔

۲۴ ۔ پس انہیں دردناک عذاب کی بشارت دے ۔

۲۵ ۔ مگر وہ لوگ جو ایمان لائے ہیں اور انہوں نے اعمال صالح انجام دئیے ہیں ، تو ان کے لئے ختم نہ ہونے والا اجر ہے ۔

تم ہمیشہ دگر گوں ہوتے رہتے ہو

اس بحث کے بعد جو گشتہ آیات میں خدا کی طرف سے انسان کی سیر تکامل کے بارے میں آئی تھی ان آیات میں ان مفہوم کی تاکید اور مزید توضیح کے لئے فرمایا ہے :

” قسم شفق کی “( فلا اقسم باشفق ) ۔ اور قسم ہے ان پراکندہ امور کی جنہیں وہ اکھٹا کرتی ہیں( و اللیل وما وسق ) ۔ اور قسم ہے چاند کی جب وہ کامل ہوتا ہے اور چودھویں کے چاند کی صورت اختیار کرلیتا ہے( و القمر اذا اتسق ) ، کہ تم سب ہمیشہ ایک حالت سے دوسری حالت کی طر ف منتقل ہوتے ہو( لترکبن طبقاً عن طبق ) ۔

فلا اقسم کے جملہ میں لا کا لفظ ، جیساکہ پہلے بھی ہم نے اشارہ کیا ہے ، زائدہ ہے اور تاکید کے لئے ہے ۔ اگر چہ بعض کا خیا ل ہے کہ نفی کے لئے ہو یعنی میں قسم نہیں کھاتا اس بناء پر کہ مفہوم عیاں ہے ۔ قسم کی ضرورت نہیں ہے ، یایہ کہ مطلب اس قدر اہم ہے کہ ان قسموں کی ضرورت نہیں ہے کہ ان کی قسم کھائی جائے ۔ لیکن پہلے معنی ( زائد اور تاکید کے لئے ہونا ) زیادہ مناسب ہےں ۔

” شفق “ مفردات میں راغب کے بقول دن کی روشنی رات کی تاریکی سے آمیختہ ہونا ہے ، اس لئے لفظ اشفاق اس توجہ اور عنایت کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے جس میں خوف کا عنصر پایا جاتاہو۔ مثلا ً اگر کوئی فرد کسی شخص کے لئے محبت کے جذبات رکھتا ہو اور اس کے بارے میں کچھ حوادث سے ڈرتا ہوتو اس حالت کو اشفاق اور ایسے شخص کو مشفق کہتے ہیں ۔

لیکن فخر رازی کا نظر یہ ہے کہ شفق کا لفظ اصل میں رقّت اور نازک ہونے کے معنی میں ہے ۔ رقّت کے معنی پتلا ہونا ہے۔ اسی لئے بہت ہی نازک اور پتلے لباس کو شفق کہتے ہیں اور شفقت کا لفظ رقّتِ قلب کی حالت کے لئے بولا جاتا ہے ( لیکن راغب کا قول زیادہ صحیح نظر آتاہے )۔

بہر حال شفق سے مراد وہی روشنی ہے جو آغاز شب کی تاریکی کی آمیزش رکھتی ہو اور چونکہ ابتدائے شب میں ایک کم رنگ کی سرخی افق مغرب پر پیدا ہوتی ہے اور پھر اس کی جگہ سفیدی لے لیتی ہے ، جو اس میں اختلاف ہے کہ شفق کا اطلاق اس سرخی پر ہے یا سفیدی پر۔

علماء مفسرین کے درمیان مشہو ر و معروف وہ پہلے معنی ہیں اور اشعار عرب میں بھی اسی پر انحصار کیاگیا ہے اور شفق کو شہیدوں کے خو ن سے تشبیہ دیتے ہیں اور (دماء الشهداء ) کہتے ہیں ۔

لیکن بعض مفسرین نے دوسرے معنی کو منتخب کیا ہے جو بہت ضعیف نظر آتے ہیں ، خصوصاً یہ کہ اگر اس کی لغوی اصل کے معنی ہم رقّت سمجھیں تو پھر اس کم رنگ کی سرخی سے مناسبت رکھتے ہیں جو سورج کی رقیق اور پتلی روشنی اور نور ہے ۔

بہر حال چونکہ شفق کا ظہور دنیا میں ایک گہری تبدیلی اور دگر گونی کی حالت کی خبر دیتا ہے او ر دن کے اختتام اور رات کے آغاز کا اعلان کرتا ہے ، اس کے علاوہ اس میں ایک خاص قسم کا جلدہ زیبائی اور خوبصورتی ہے ، اور ان سب سے قطع نظر نماز مغرب کے وقت کی قسم کھائی ہے تاکہ سب لوگوں کو خبردار اور آمادہ کرے کہ وہ اس خوبصورت آسمانی وجود کے بارے میں غور کریں ۔

باقی رہا رات کی قسم کھانا تو وہ ان بہت سے آثار و اسرار کی بناپر ہے جو اس میں پوشیدہ ہوتے ہیں ۔ اس پر ہم پہلے مفصل گفتگو کر چکے ہیں ۔(۱)

جانوروں ، پرندوں ، یہاں تک کہ انسانوں کے اپنے گھروں ، آشیانوں اور گھونسلوں کی طرف رات کے وقت لوٹنے کی طرف اشارہ ہے جس کا نتیجہ جانوروں کا عمومی آرام و سکون اور آسائش ہے اور یہ رات کے اہم آثار و اسرار میں سے ایک شمار ہوتاہے جیساکہ سورہ مو من کی آیت ۶۱ میں ہم پڑھتے ہیں( الله الذی جعل لکم لتسکنوا فیه ) ، خدا وہ ہے جس نے رات کو تمہارے لیئے خلق کیا ہے تاکہ تم اس میں آرام و سکون حاصل کرو۔

اس سے واضح ہوتا ہے کہ اذا اتسق کی تعبیر اسی مادہ سے ہے اور مختلف وجودوں کے جمع ہونے کے معنی میں ہے اور یہاں چودھویں رات کے چاند کی روشنی کے کمال کے معنی میں ہے ۔ ہم جانتے ہیں کہ چاند اس حالت میں بہت ہی خوبصورت لگتا ہے اور ہر دیکھنے والی آنکھ کو دل کش نظر آتا ہے ۔

اس کا نور صفحہ زمین کو روشن کرتا ہے ۔ اس کے ہلکے رنگ کی روشنی جو رات کے آرام و سکون کو خراب نہیں کرتی ۔ رات کے مسافروں کو راستہ دکھاتی ہے اس لئے وہ خدا کی عظیم آیات میں سے ایک آیت ہے ۔ اسی بناء پر اس کی قسم کھائی گئی ہے ۔

قابل توجہ بات یہ ہے کہ چاروں موضوعات جن کی ان آیات میں قسم کھائی گئی ہے( شفق ، رات اور وہ موجودات جنہیں رات جمع کرتی ہے اور چودھویں رات کا چاند )۔

یہ سب ایسے جو ایک دوسرے سے مربوط ہیں اور ایک دوسرے کی تکمیل کرتے ہیں اور ایک ایسے خوبصورت مجموعہ کو تشکیل دیتے ہیں جو انسانی فکر میں تحریک پیدا کرتا ہے تاکہ وہ تخلیق کی عظیم وقت پر غور و فکر کرے اور ان تیز تبدیلیوں سے وقوعِ قیامت اور قدرت خدا کے بارے میں آشنائی حاصل کرے۔

قابلِ توجہ بات یہ ہے کہ مختلف امور کا یہ حصہ ایسے حالات اور تبدیلیوں کی طرف اشارہ ہے جو عالمِ آفرینش میں ایک دوسرے کے ساتھ رونما ہوتی ہیں ۔

سورج چہرے پر نقاب ڈالتا ہے تو شفق ظاہر ہوجاتی ہے جو اس کے نور کا بقیہ ہے ۔ انسان، پرندہ ، چرند بڑی تیزی سے اپنے ٹھاکانوں اور آشیانوں کی طرف لوٹتے ہیں اور چاند بدرِ کامل کی شکل میں بلند ہوتا ہے ۔

توجہ فرمائیں کہ چودھویں کا چاند رات کے اسی ابتدائی حصہ میں طلوع ہوتا ہے اور ان قسموں کو ” لترکبن طبقاً عن طبق “کے اس جملے کی تمہید قراردیتاہے جو مختلف ایسے حالات کو بیان کرتا ہے جو انسان اپنی راہ حیات میں یکے بعد دیگرے پیدا کرتا ہے ۔ اس جملے کے لئے مفسرین نے مختلف تعبیریں بیان کی ہیں جن میں ایک یہ بھی ہے ۔

۱ ۔ مراد وہ گوناگوں حالات ہیں جو انسان ، خدا اور کمال ِ مطلق کی جانب سفر کرنے کے پر مشقت راستے پیدا کرتا ہے ۔ پہلے عالم ِ دنیا ، پھر عالم ِ بر زخ ہے اور پھر قیامت اور اس کے مختلف حالات ہیں ۔ ( توجہ فر مائیں کہ ” طبق“ ” مطابقہ “ کے مادہ سے ایک چیز کو دوسری چیز کے اوپر قرار دینے کے معنی میں ہے اور ان منزلوں کے معنی میں ہے جنہیں انسان اپنی سیر صعودی میں طے کرتا ہے )۔

۲ ۔ مراد وہ حالات ہیں جنہیں انسان کو نطفہ سے لے کر موت تک کے سفر میں سامنا کر نا ہو تا ہے ۔ بعض محققین نے ایسی ۳۷ حالتیں شمار کی ہیں ۔

۳ ۔ مراد وہ مختلف حالات و شدائد ہیں جن میں سے انسان دنیاوی زندگی میں صحت و بیماری ، غم و اندوہ سرور مسرت ،سختی و آرام اور صلح و جنگ کی صورت میں دوچار ہوتا ہے ۔

۴ ۔ مراد وہ مختلف حالات و شدائد ہیں جن سے انسان قیامت میں دوچارہوگا یہاں تک کہ حساب سے فارغ ہو کر ہر شخص اپنے اعمال کے نتیجے میں دوزخ اور جنت کی طرف جائے گا ۔

۵ ۔ مراد وہ حالات ہیں جو گزشتہ قوموں کو پیش آئے یعنی وہی تلخ و شیریں حوادث اور انواع و اقسام کی تردیدیں اور مخالفین کے انکار اس امت میں بھی واقع ہوں گے یہ مضامین ایک اور رویت میں امام جعفر صادق علیہ السلام سے بھی نقل ہوئے ہیں ۔

ان تفسیروں کا جمع ہونا بھی معنی نہیں رکھتا ۔ ہوسکتاہے کہ آیت ان تمام تبدیلیوں ، تغیرات اور مراحل کی طرف اشارہ کررہی ہو جنہیں انسان اپنی زندگی میں دیکھتا ہے ۔ بعض مفسرین یہاں مخا طب خود پیغمبر کو سمجھتے ہیں اور آیت کی ان آسمانوں کی طرف اشارہ سمجھتے ہیں جن سے پیغمبر اسلام معراج کی شب گزرے ہیں ۔

لیکن اس طرف توجہ کرتے ہوئے کہ ” لترکبن “ میں جو ” ب“ ہے اور پر پیش ہے اور جمع کے معنی دیتا ہے ، اس لئے یہ تفسیر مناسب ہے ۔ خصوصاً یہ کہ گذشتہ آیات میں بھی مخاطب کل انسان تھے ۔

بہر حال ان حالات کا حدوث اور آدمی کا ایک حالت پر قیام نہ کرنا ایک تو اس کے مخلوق ہونے اور محتاج خالق ہونے کی دلیل ہے ، اس لئے کہ ہر متغیر حادث ہے اور ہر حادث کو خالق کی ضرورت ہے ، دوسرے اس جہان کی ناپائیدار ہونے کی دلیل ہے ۔

تیسرے انسان کی پروردگار عالم کی طرف حرکت ِ مستمر مسئلہ معادو قیامت کی نشانی ہے جیسا کہ گزشتہ آیات میں آیاتھا( یا ایها الانسان انک کادح الیٰ ربک کد حاً فملاقیه )

اس کے بعد گزشتہ مباحث ایک نتیجہ کلی اخذ کرتے ہوئے فرماتا ہے ‘ ” وہ ایمان کیوں نہیں لاتے “( فمالهم لایومنون ) ، اس کے باوجود کے حق کے دلائل واضح و آشکار ہیں ، توحید و خدا شناسی کے بھی اور معاد و قیامت کے بھی ۔ آیات آفاتی بھی جو رات دن کی خلقت اور چاند سورج ، نور و ظلمت ، طلوع و غروب ، آفتاب و شفق ، رات کی روشنی اور رات کی روشنی کے تکامل میں چھپے ہوئے ہیں ۔ اور آیاتِ انفسی بھی ۔ اس لمحے سے لے کر جب انسان کا نطفہ رحم میں قرار پاتا ہے اور یکے بعد دیگرے مختلف مراحل طے کرتا ہے یہاں تک کہ عالم جنین میں اپنے اوج کمال کو پہنچتا ہے ، اس کے بعد ولادت کے لمحے سے لیکر موت تک دوسرے مراحل طے کرتا ہے، تو ان واضح نشانیوں کے باوجود نوع بشر ایمان کیوں نہیں لاتی ۔

اس کے بعد کتاب تکوین سے کتاب حق کی طرف رخ کرتے ہوئے فرماتاہے : ” جب ان کے سامنے قرآن پڑھا جاتا ہے تویہ خضوع اختیار کیوں نہیں کرتے “۔( و اذا قریٴ علیهم القرآن لایسجدون ) ۔

قرآن جو آفتاب کے مانند اپنی دلیل آپ ہے ، نور اعجاز اس کے مختلف پہلوو ں سے عیاں ہے ، پھر اس کے مضامین و مشمولات یہ سب اس بات کی واضح دلیل ہیں کہ اسے وحی کے سر چشمہ سے لیا گیا ہے ۔

قرآن کے بارے میں ہر غیر جانب دار یہ جانتا ہے کہ یہ ممکن ہی نہیں کہ قرآن کسی انسان کے دماغ کی تخلیق ہو۔ پھر انسان بھی ایسا جس نے کبھی کوئی سبق نہیں پڑھا ہو اور ایک ایسے ماحول میں اس نے زندگی بسر کی ہو جو خرافات و ظلمات سے پر ہو ۔ یہاں سجدہ سے مراد خضوع ، تسلیم اور اطاعت ہے ۔(۲)

اور وہ مشہور سجدہ جس میں پیشانی کو زمین پر رکھتے ہیں ، اس مفہوم کلی کا ایک مصداق ہے ۔ اور شاید اسی بناپر بعض رویات میں آیا ہے کہ پیغمبر نے ان آیات کی تلاوت فرمائی تو سجدہ کیا ۔

البتہ فقہائے اہلبیت کے مشہور فتوے کے مطابق یہ سجدہ قرآ ن کے مستحب سجدوں میں سے ہے اور اہل تسنن کے چاروں مذاہب اس آیت کی تلاوت کے وقت سجدہ کرنا واجب سمجھتے ہیں ، سوائے امام مالک کے جن کا نظریہ ہے کہ سورہ کے ختم ہونے کے بعد سجدہ کرنا چاہئیے ۔(۳)

بعد والی آیت میں مزید کہتا ہے : ” بلکہ کفار ہمیشہ آیات الہٰی اور معاد قیامت کی تکذیب کرتے ہیں “( بل الذین کفروا یکذبون ) ۔ یہاں فعل مضارع کا استعمال ، جوعام طور پر استمرار کے لئے ہوتا ہے ، ان معانی کا گواہ ہے کہ وہ اپنی تکذیب پر مصر تھے اور یہ ایسا اصرار تھا جو محض ہٹ دھرمی اور عناد کی وجہ سے تھا ۔ ان کی تکذیب ایسی نہیں تھی کہ انہیں اس کے لئے دلیلیں نہیں مل سکی تھیں ، بلکہ تعصب ، اندھی تقلید ، مادی منفعتوں کی حفاظت اور شیطانی خواہشات کی تسکین کے لئے تھی ۔

اس کے بعد تہدید آمیز لہجے میں فرماتا ہے :”خدا اسے اچھی طرح جانتا ہے جسے وہ اپنے دل کے اندر پنہاں رکھتے ہیں “( و الله اعلم بما یوعون ) ۔ خدا ان کی نیتوں ، مقاصد اور ایسی ترغیبات سے ، جو مسلسل تکذیبوں کا سبب بنتی ہیں ، باخبر ہے ، وہ چاہے کتنی ہی پردہ پوشی کیوں نہ کریں ، انجام کار انہیں اس کی سزا ملے گی ۔

” یوعون “ ” وعاء “ کے مادہ سے ظرف اور برتن کے معنی میں ہے ، جیسا کہ حضرت علی علیہ السلام کی مشہور عبارت سے نہج البلاغہ میں منقول ہے کہ آپ نے فرمایا :

( ان هٰذه القلوب اوعیة فخیرها اوعاها ) یہ دل ظروف ہیں اور ان میں سے بہترین دل وہی ہے جس کی حفاظت اورظرفیت زیادہ ہو۔

اور بعد والی آیت میں فرماتا ہے :” پس انہیں دردناک عذاب کی بشارت دے “( فبشر هم بعذاب الیوم ) بشارت کی تعبیر جو عام طور پر خوشخبری کے لئے استعمال ہوتی ہے ، یہاں ایک قسم کے طعن اور سرزنش کے طور پر ہے ۔

در حقیقت وہ اس طرح مومنین کو جنت کی وسیع نعمتوں کی بشارت دیتا ہے تاکہ تکذیب کرنے والے دوزخی حسرت و اندوہ میں ڈوب جائیں ۔ اس سورہ کی آخری آیت میں ایک استثناء کی شکل میں ایک مرتبہ پھر نیک عمل مومنین کی سر نوشت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتا ہے :

” مگر وہ لوگ جو ایمان لائے اور اعمال صالح انجام دئیے ان کے لئے اجر و ثواب ہے ، ایسا اجر جو ثابت شدہ اور منقطع نہ ہونے والااور ہر قسم کے نقصان سے محفوظ ہے “۔

( الاّّ الذین اٰمنوا و عملو ا الصالحات لهم اجر غیر ممنون ) ۔

” ممنون “ ” من “ کے مادہ سے نقصان و انقطاع کے معنی میں آیاہے اور منت کے معنوں میں بھی ہے ۔ ( لفظ منون جوموت کے معنوں میں ہے وہ بھی اسی مادہ سے ہے) اور یہ بھی ممکن ہے کہ یہ سب معانی یہاں جمع ہوں ، اس لئے کہ آخرت کی نعمتیں دنیاوی نعمتوں کے بر عکس ، جو ناپائیدار اور نقصان پذیر بھی ہیں اور عام طور پر غیر مطلوب عوارض کی آمیزش رکھتی ہیں ،کسی قسم کی منت ِ نقصان، فنا اور غیر مطلوب عوارض نہیں رکھتیں ۔ وہ جاودانی ہیں ، نقصان ناپذیر ہیں اور ہر قسم کے نامناسب امور اور منت و احسان سے مبراہیں ،یہ استثناء متصل ہے یا منقطع مفسرین کے درمیان اس میں اختلا ف ہے ۔

بعض نے یہ احتمال تجویز کیاہے کہ استثناء منقطع ہے ، یعنی کفار کے حالات کی تشریح جو گزشتہ آیات میں تھی اس کو چھور کر مومنین کی جاودانی اجر کی بات کرتا ہے لیکن زیادہ مناسب یہی ہے کہ استثناء متصل ہو اور مقصد یہ ہو کہ کفار کے سامنے باز گشت کی راہ کھولے اور انہیں یہ یہ بتائیں کے جو لوگ توبہ کرے کے ایمان لے آئیں اور اعمال صالح انجام دیں ، ان سے عذاب دائمی اٹھا لیا جائے گا اور انہیں ایسا اجر دیاجائے گا جو دائمی ہوگا اور جس میں نقصا ن کا کوئی پہلو نہ ہوگا ۔

ایک نکتہ

مرحوم طبرسی مجمع البیان میں اس سورہ کی آخری آیات سے پہلے تو اختیار اور ارادہ کی آزادی کا اصل کی فائدہ اٹھاتے ہیں ، اس لئے مجبور افراد کے بارے میں ترک سجدہ اور ترکِ ایمان پر ملامت کرنا خدا وند حکیم کے لئے یہ ایک امر قبیح ہے اور وہ جو یہ فرماتا ہے :( فما لهم لا یومنون و اذا قریٴ علیهم القراٰن لا یسجدون ) مسئلہ اختیار پر واضح دلیل ہے ، اور پھر ترک سجدہ پر ملامت کرنا اس امر کا ثبوت ہے کہ کفار جس طرح اصول دین کے مکلف ہیں اسی طرح فروع دین کے بھی مکلف ہیں ۔ ( یہ گفتگو اس صورت میں ہے جب لفظ سجدہ مذکورہ بالا آیت میں نماز والے سجدے کے معنی میں ہو یاکم از وسیع معانی رکھتا ہو جس میں سجدہ نماز بھی شامل ہے )۔

خدا وند !جس دن سب لوگ تیری داد گاہ عدل میں حاضرہوں گے ہم پر حساب آسان کر دیجو ۔

پر وردگار ا ! اس راہ میں جہاں تمام بندے تیری طرف سفر کرتے ہیں صراط مستقیم طے کرنے میں ہماری مدد فرما ۔

بار الہٰا ! ہم تیرے قرآن کریم کے سامنے سرِ تسلیم خم کئے ہوئے ہیں ، ہم سب کو اس پر عمل کرنے کی توفیق مرحمت فرما۔

آمین یا رب العالمین

____________________

۱۔ تفسیر نمو نہ ۔ جلد ۹، ۱۴۳، سورہ قصص کی آیت ۷۱ تا ۷۳ سے رجوع فرمائیں ۔

”ماوسق“ کی تعبیر۲اس طرف توجہ کرتے ہوئے کہ ” وسق “ بکھری ہوئی چیزوں کے جمع کرنے کے معنی میں ہے ۳اور مختلف قسم کے

۲۔” ماوسق“ میں ما مو صولہ ہے اور اس کے مصدریہ ہونے کا احتمال ضعیف ہے اور اس کی طرف لوٹنے والی ضمیر بھی محذوف ہے اور تقدیر میں ” وما وسقہ“ ہے ۔

۳۔ ”وسق“ ( بر وزن غضب) اونٹ کے ایک بار یا ساٹھ صاع جس کا ہر صاع تقریباً تین کلو ہے کے معنی میں آیا ہے اور وہ بھی ان سب کے مجتمع ہونے کے معنی میں ہے ۔

۲۔ ان معانی کے شواہد میں سے گزشتہ اور آئندہ آیات کی شہادت کے علاوہ ایک یہ ہے کہ سجدہ جس کے معنی تلاوت قرآن کے وقت زمین پر پیشانی رکھنا ہے ، سوائے چند آیات کے نہ واجب ہے نہ مستحب، اس لئے یہ جو کہہ رہاہے کہ قرأت قرآن کے وقت وہ سجدہ کیوں نہیں کرتے اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ سجدے سے مراد سارے قرآن کے سامنے سر تسلیم خم کرنا ہے۔

۳۔ روح البیان ، جلد ۱،ص، ۱۳۸۲


11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48