تفسیر نمونہ جلد ۱۵

تفسیر نمونہ 0%

تفسیر نمونہ مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن

تفسیر نمونہ

مؤلف: آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی
زمرہ جات:

مشاہدے: 59356
ڈاؤنلوڈ: 3826


تبصرے:

جلد 1 جلد 4 جلد 5 جلد 7 جلد 8 جلد 9 جلد 10 جلد 11 جلد 12 جلد 15
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 169 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 59356 / ڈاؤنلوڈ: 3826
سائز سائز سائز
تفسیر نمونہ

تفسیر نمونہ جلد 15

مؤلف:
اردو

بیدار مجاہدین کی قسم

ہم بیان کرچکے ہیں کہ یہ سورہ بیدار کرنے والی قسموں سے شروع ہوا ہے ۔ پہلے فرماتا ہے: ” ان فراٹے بھرے ہوئے سر پٹ دوڑنے والے گھوڑوں کی قسم ( جو میدان جہاد کی طرف پیش رفت کرتے ہیں )۔( و العادیاتِ صبحاً ) (۲)

یا حاجیوں کے ان اونٹوں کی قسم جو ہانپتے ہوئے سر زمین عرفات سے مشعر الحرام سے مشعر سے منیٰ کی طرف چلتے ہیں ۔

” عادیات“ ” عادیة“ کی جمع ہے ، جو عدو“ ( بر وزن صبر)کے مادہ سے ہے ، اصل میں گزرنے اور جدا ہونے کے معنی میں ہے ، چاہے دل سے ہو ، جسے ” عداوت“ کہتے ہیں ، یا خارجی حرکت اور چلنے سے ہو جسے ” عدو“ ( دوڑنا ) کہتے ہیں ، اور کبھی یہ معاملات میں ہوتی ہے ۔ جسے ” عدوان“ کہتے ہیں ، اور یہاں وہی سرعت اور تیزی کے ساتھ دوڑنا مراد ہے ۔

” ضبح“ ( بر وزن مدح) تیزی اور سرعت کے ساتھ دوڑنے ولاے کے سانس کی آواز کے معنی میں ہے جو ا س کے دوڑنے کے وقت کانوں میں آتی ہے ۔

جیسا کہ ہم نے اوپر اشارہ کیا ہے اس آیت کی تفسیر میں دو نظریے موجود ہیں ۔

پہلا نظریہ یہ ہے کہ اس سے مرادان اونٹوں کی قسم ہے جوحج جیسے عظیم فریضہ میں موافقت اور اماکنِ مقدس میں سرعت اور تیزی کے ساتھ چلتے ہیں ، اس بناء پر وہ ایک تقدس کے حامل بن جاتے ہیں اور قسم کے لائق ہیں ۔

ایک حدیث میں آیاہے کہ ” ابن عباس (رض) ‘ ‘سے روایت ہے کہ ، انہوں نے فرمایا: ” میں خانہ کعبہ کے پاس حجر اسماعیل میں تھا کہ ایک شخص آیا اور اس نے آیہ ” و العادیات ضبحاً“ کے بارے میں میں مجھ سے سوال کیا “ میں نے کہا :” اس سے مراد وہ گھوڑے ہیں جو راہ جہاد میں حملہ کرتے ہیں اور رات کو اپنے آرام کرنے جگہ پر لوٹ جاتے ہیں ، اور وہ غازی لڑنے والے مجاہدین ہیں جو آگ روشن کرتے ہیں اور اپنے لیے کھانا پکاتے ہیں “۔

وہ شخص میرے پاس سے چلا گیا اور علی علیہ السلام کے پاس پہنچا، آپ اس وقت چاہ زمزم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے ۔ اس نے آپ سے بھی اس آیت کے بارے میں سوال کیا۔

آپ نے فرمایا: کیا تونے مجھ سے پہلے بھی کسی شخص سے اس آیت کے بارے میں سوال کیا ہے ؟ اس نے عر ض کیا : ہاں ! میں نے ابن عباس سے پوچھا ہے اور انہوں نے کہا ہے اس سے مراد وہ گھوڑے ہیں جو راہ جہاد میں حملہ کرتے ہیں ، آپ نے فرمایا: جاو اور اسے میرے پاس بلا و ۔

جب میں حضرت علی علیہ السلام کی خدمت میں آیا تو آپ نے فرمایا: جو بات تم نہیں جاتنے اس کے بارے میں لوگوں کو فتوے کیوں دیتے ہو۔ اسلام میں سب سے پہلا غزوہ جنگِ بدر تھا ، اور ہمارے پا گھوڑوں کے سوا کچھ بھی نہیں تھا۔ ایک گھوڑا” زبیر“ کے پاس اور دوسرا گھوڑا” مقداد “ کے پاس تو” عادیات“ سے مراد گھوڑے کیسے ہوسکتے ہیں ؟ایسانہیں ہے ۔ اس سے مراد اونٹ ہیں جو عرفات سے مشعر کی طرف اور مشعر سے منیٰ کی طرف جاتے ہیں ۔ ابن عباس (رض) کہتے ہیں : جب میں نے یہ سنا تو میں نے اپنا نظریہ بدل لیا اور امیر المومنین علی علیہ السلام کے نظریہ کو قبول کرلیا“۔(۲)

یہ احتمال بھی ہے کہ ” عادیات “ ایک وسیع معنی رکھتا ہے ۔ لہٰذا یہ مجاہدوں کے گھوڑوں کو شامل ہے اور حاجیوں کے اونٹوں کو بھی، اور اوپر والی روایت سے مراد یہ ہو کہ اس کے معنی کو گھوڑوں میں محدود نہیں کرنا چاہئیے کیونکہ یہ معنی تمام مقامات پر صادق آتا ہے ۔ اس کا سب سے زیادہ واضح مصداق حاجیوں کے اونٹ ہیں ۔

یہ تفسیر کئی جہات سے زیادہ مناسب نظر آتی ہے ۔

اس کے بعد مزید فرماتا ہے : ” قسم ہے ان کی جو آگ کی چنگاریاں نکالتے ہیں “۔( فالموریات قدحاً ) ۔

مجاہدین کے وہ گھوڑے جو میدان جنگ کی طرف اتنی تیزی کے ساتھ جاتے ہیں کہ ان کے سموں کے پتھروں پر ٹکرانے سے چنگاریاں نکلتی ہیں ، یا وہ اونٹ جو سرعت کے ساتھ مواقف حج میں دوڑ تے ہیں اور ان کے پاو ں کے نیچے سے کنکریاں اور ریت اڑتی ہے اور ان کے دوسرے سنگریزوں کے ساتھ ٹکرانے کی وجہ سے چنگاریاں نکلتی ہیں ۔

یا وہ قبیلے اورگروہ جو مواقفِ حج میں کھانا پکانے کے لئے آگ جلاتے ہیں ، یا ان لوگوں سے کنایہ ہے جو جنگ اور جہاد کی آگ بھڑ کاتے ہیں یا ان زبانوں کی طرف اشارہ ہے جو اپنے چبھنے والے بیان سے دشمن کے دل میں آگ لگادیتے ہیں ، یا بعض مفسرین کے قول کے مطابق اس سے مراد وہ لوگ ہیں جو لوگوں کی حاجات کو انجام دینے کے لیے کوشش کرتے ہیں اور اپنا مقصود حاصل کرلیتے ہیں جیسے کہ آگ چقماق کے پتھر سے باہر آتی ہے ۔ لیکن یہ سارے احتمالات بعید نظر آتے ہیں اور آیت کا ظاہر وہی پہلی دو تفاسیر ہیں ۔ ”موریات“ ” ایراء “ کے مادہ سے ” موریة“ کی جمع ہے جو آگ بھڑکانے کے معنی میں ہے اور ” قدح“ چنگاری نکالنے کے لیے پتھر یالکڑی یالوہے یا چقماق کو ایک دوسرے پر مارنے کے معنی میں ہے ۔

اس کے بعد تیسری قسم میں فرماتا ہے : ” اور صبح ہوتے ہی دشمن پرحملہ کرنے والوں کی قسم “ ( فالمغیرات صبحاً)۔

عربوں کی عادت ۔ جیسا کہ طبرسی نے مجمع البیان میں لکھا ہے ۔ یہ تھی کہ وہ رات کے وقت دشمن کے علاقے کے قریب جاکرگھات میں بیٹھ جاتے تھے تاکہ صبح سویرے ان پر حملہ کردیں ۔

ان آیات کی شان نزول ( یا اس کے ایک واضح مصداق ) میں یہ آیا ہے کہ لشکر اسلام علی علیہ السلام کی کمان میں رات کی تاریکی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے میدانِ کی طرف بڑھتا چلا گیا اور دشمن کے قبیلہ کے قریب پہنچ کرگھات لگا کر بیٹھ گیا اور صبح سویرے بجلی کی سی تیزی کے ساتھ ان پر حملہ کردیا، اور دشمن کے رد عمل دکھانے سے پہلے پہلے ان کی طاقت کو درہم برہم کردیا۔

اور اگر ہم ان قسموں کو حاجیوں کے اونٹوں کی طرف اشارہ سمجھیں تو پھر اس آیہ سے مراد اونٹوں کے قافلوں کا عید کی صبح مشعرسے منیٰ کی طرف دوڑتے ہوئے آنا ہے ۔

”مغیرات“ ”اغارة“ کے مادہ سے ” مغیرة“ کی جمع ہے ، جو ہجوم کرنے اور دشمن پر حملہ کرنے کے معنی میں ہے ۔ چونکہ بعض اوقات یہ ہجوم اور حملہ مال لوٹنے کی غرض سے ہوتا ہے لہٰذا یہ لفظ بعض اوقات فارسی میں عام معنی یعنی غارت کرنے اور دوسروں کا مال چھیننے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے ۔

بعض نے یہ کہا ہے کہ اس لفظ کے مادہ میں گھوڑے کے ساتھ ہجوم اور حملہ کرنا چھپاہوا ہے ، لیکن اس کے موادر استعمال اچھی طرح اس بات کی نشان دہی کرتے ہیں کہ اگر ابتداء میں یہ قید موجود تھی بھی تو تدریجاً اب ختم ہو گئی ہے ۔

اور یہ جو بعض نے احتمال دیا ہے کہ یہاں ” مغیرات“ سے مراد وہ ہجوم کرنے والے طوائف و قبائل ہیں جو میدانِ جنگ کی طرف، یاعجلت اور تیزی کے ساتھ منیٰ کی طرف چلتے ہیں ، بعید نظر آتا ہے کیونکہ آیہ”( و العادیات ضبحاً ) “ یقینی طور پر گھوڑوں یا اونتوں کی تو صیف ہے نہ کہ ان کے سواروں کی ، اور یہ آیت بھی اسی مطلب کی جاری رکھے ہوئے ہے ۔

اس کے بعد ان مجاہدوں کی سواریوں کی ایک اور خصوصیت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے مزید فرماتا ہے :” دشمن پر اس قدر تیزی کے ساتھ دوڑجاتے ہیں کہ جس کی وجہ سے ہر طرف گرد و غبار ہی گرد و غبار کردیتے ہیں “۔( فاثرن به نقعاً ) ۔(۳)

یا یہ کہ حاجیوں کے اونٹوں کے مشعر سے منیٰ کی طرف ہجوم کے زیر اثر ہر طرف سے گرد و غبار اٹھتا ہے ۔

” اثرن“ ”اثارہ“ کے مادہ سے” غبار“ یا” دھوئیں “کو پراگندہ کرنے کے معنی میں ہے ۔ اور بعض اوقات ہیجان میں لانے کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے ، اسی طرح فضا میں آواز کی لہروں کے پھیلنے کے معنی آیامیں ہے ۔

نقع بروزن (نفع) غبار کے معنی میں ہے اور اس مادہ کی اصل پانی کے نیچے چلے جانا، یا کسی کے پانی کے نیچے چلے جانے کے معنی میں ہے اور چونکہ ” غبار“ میں ڈوب جانا بھی اس سے مشابہت رکھتا ہے لہٰذا اس لفظ کا اس پر اطلاق ہوا ہے ”نقیع“ ساکن اور کھڑے ہوئے پانی کو کہا جاتا ہے ۔

ان کی خصوصیات میں سے آخری خصوصیات کے بارے میں فرماتا ہے : ” وہ اسی صبح دشمن کے درمیان پہنچ گئے“۔( فسوطن به جمعاًً ) ۔(۴)

انہوں نے غفلت کی حالت میں دشمن پر ایسی برق رفتاری کے ساتھ حملہ کیا کہ چند ہی لمحوں کے اندر صفوں کو درہم برہم کرکے رکھ دیا ، ان کے قلب لشکر پر حملہ کرکے ان کی جمیعت کو تتر بتر کردیا اور یہ اسی سرعتِ عمل ، بیداری، آمادگی، شہامت اور شجاعت کا نتیجہ ہے ۔

یا یہ حاجیوں کے ” مشعر“ سے سے قلبِ ” منیٰ “ میں ورود کی طرف اشارہ ہے ۔

بعض نے یہ بھی کہا ہے کہ اس سے مراد دشمن کو محاصرہ میں لے لینا ہے ۔ لیکن یہ تفسیر اسی صورت میں صحیح ہوگی جب ”فوسطن“کا جملہ ” سین “کی تشدید کے ساتھ پڑھا جائے جب کہ مشہور قرأت اس طرح نہیں ہے ۔ اس بناء پر صحیح وہی پہلی معنی ہی ہے ۔

مجموعی طور پر اس سارے مضمون کو یکجا کرکے یہ مطلب نکلتا ہے کہ ان مذکورہ گھوڑوں کی قسم جو پہلے تو بڑی سرعت کے ساتھ فراٹے بھر تے ، سانس نکالتے، میدان جہاد کی طرف پیش رفت کرتے ہیں ، پھر ان کی سرعت میں ایسی تیزی آتی ہے کہ پتھروں پر ان کے سموں کی ٹاپوں سے چنگاریاں نکلتی ہیں ، جو رات کی تاریکی کو چیر دیتی ہیں اور اس کے بعد جب وہ دشمن کے علاقے میں پہنچ جاتے ہیں تو ابھی وہ غفلت میں ہی ہوتے ہیں کہ فضا کے صاف اور روشن ہوتے ہی ان پر حملہ کردیتے ہیں ، ایساحملہ ، جس سے فضا میں گرد و غبار چھا جاتا ہے ، اور انجام کار و ہ دشمن کی جمیعت کے قلب میں واردہوکر ان کی صفوں کو درہم برہم کردیتے ہیں ۔

ان طاقتور او رپر قدرت گھوڑوں کی قسم

ان شجاع اور بہادر سواروں کی قسم

مجاہدین کے گھوڑوں کی فراٹے بھرنے کی قسم

ان کی چنگاریوں کی قسم جو ان کے سموں سے نکلتی ہیں ۔

غفلت کی حالت میں ان کے حملے کی قسم

گرد وغبار کے ان ذرات کی قسم جو فضا میں پھیل جاتے ہیں ۔

اور انجام کار ان کے دشمن کی صفوں کے قلب میں وارد ہو کر انہیں درہم برہم کرکے فتح یاب ہونے کی قسم ۔

اگر چہ وہ تمام باتیں جو بیان کی گئی ہیں وہ ان قسموں کے معنی میں نہیں آئی ہیں ، لیکن کلام کی ضمنی دلالت میں یہ سب جمع ہیں ۔

اور یہیں سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ جہاد اس قدر عظمت رکھتا ہے کہ مجاہدین کے گھوڑوں کا فراٹے بھر نا اور سانس لیناتک بھی لائق قسم ہے ۔

اسی طرح پتھروں پر ان کی ٹاپوں سے نکلنے والی چنگاریاں اور اسی طرح وہ گرد و غبار جو فضا میں آڑاتے ہیں ، ہاں ! ہاں ! میدان جہاد کا گرد و غبار بھی قابل قدرا ور عظمت ہے ۔

بعض نے کہا ہے کہ ان قسموں سے مراد احتمالاً وہ نفوس ہیں جو اپنے کمالات کو دوسروں کی طرف منتقل کرسکیں اور اپنے افکار سے علم و دانش کی چنگاریاں نکالیں اور ہوا و ہوس پر حملہ آور ہوں اور اپنے اندر اور دوسروں میں خدا کا شوق پید اکریں ۔ اور انجام کار ساکنین علیین کے قلب میں مقام حاصل کریں ۔(۵)

لیکن یہ بات واضح ہے کہ ان باتوں کو اوپر والی آیات کی تفسیر کے عنوان سے قبول نہیں کیا جاسکتا ، یہ وہ تشبیہات ہیں جو آیت کی تفسیر سے مناسبت کی وجہ سے ذہن میں آتی ہیں ۔

ان عظیم قسموں کے بعد ، یعنی وہ چیزجس کے لیے قسمیں کھائی گئی ہیں ، پیش کرتے ہوئے فرماتا ہے :

”بیشک انسان اپنے پروردگارکی نعمتوں کے بارے میں ناشکرا اور بخیل ہے “۔( انّ الانسان لربه لکنود ) ۔

وہی غیر تربیت یافتہ انسان وہی انسان جس کے دل پر معارف الہٰی اور انبیاء کی تعلیمات کے انوار نہیں چمکے، اور وہی انسان جس نے خود کو خواہشاتِ نفسانی اور سر کش شہوتوں کا تابع بنالیا ہے ، یقینا وہ ” ناشکرا“ اور بخیل“ ہے ۔

”کنود“ اس زمین کو کہتے ہیں جس میں کوئی چیز نہیں اگتی۔ ناشکرے اور بخیل انسان پر بھی اس کا اطلاق ہوتا ہے ۔

مفسرین نے کنود کے لیے بہت سے معنی بیان کیے ہیں ۔ ” ابو الفتوح رازی“ نے تقریباً پندرہ معانی اس سلسلہ میں نقل کیے ہیں ، لیکن ان میں سے اکثر اسی اصل معنیٰ کے شاخ و برگ ہیں جو اوپر بیان ہوا ہے ۔ مزید معانی یہ ہیں :

۱ ۔ کنود اس شخص کو کہتے ہیں جو اپنی مصیبتوں کو تو بڑھا چڑھا کر بیان کرے لیکن نعمتوں کو بھول جائے ۔

۲ ۔ کنود اس شخص کو کہتے ہیں جوخدا کی نعمتوں کو اکیلا ہی کھاتا ہے اور دوسروں کو روکتا ہے ۔ جیس اکہ ایک حدیث میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے آیا ہے : ”ا تدرون من الکنود

” کیا تم جانتے ہوکہ کنود کسے کہتے ہیں “؟ !

لوگوں نے عرض کیا اللہ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہی زیادہ بہتر جانتے ہیں ، تو آپ نے فرمایا:

الکنود الذی یأکل وحده، ویمنع رفده یضرب عبده

۲ ۔ کنود اس شخص کو کہتے ہیں جو اکیلے ہی اکیلے کھا تا ہے اور دوسروں سے عطا و بخشش کو روکتا ہے اور اپنے ماتحت غلاموں کو مارتا ہے “۔(۶)

۳ ۔ کنود وہ شخص ہے جو مشکلات و مصائب میں اپنے دوستوں کے ساتھ ہمدردی نہیں کرتا۔

۴ ۔کنود وہ ہے جس کی نیکیاں بہت ہی کم ہوں ۔

۵ ۔ کنود اس شخص ہے کہ جب اسے کوئی نعمت ملتی ہے تو وہ اسے دوسروں کو نہیں دیتا اور اگر کسی مشکل میں گرفتار ہو جائے توبے صبری دکھاتا اور بہت گڑگڑاتا ہے

۶ ۔ کنود وہ شخص ہے جو اللہ کی نعمتوں کو معصیت میں صرف کرتا ہے ۔

۷ ۔ کنود وہ شخص ہے جو اللہ کی نعمتوں کا انکار کرتا ہے ۔

لیکن جسیا کہ ہم نے بیان کیا ہے ، یہ سب معانی اسی ناشکری اور بخل کی شاخ و برگ اور مصادیق ہیں ۔

ایسے موارد میں ” انسان “ کی تعبیر، بد کار، ہوا پرست، سر کش اور باغی انسانوں کے معنی میں ہے ، او ربعض نے اس کی کافر انسان سے تفسیر کی ہے ورنہ یقینا ہر انسان ایسا نہیں ہے کیونکہ بہت سے انسان ایسے ہیں کہ جن کی روح میں شکر گزاری اور عطا و بخشش گندھی ہوئی ہے ، اور وہ ناشکری اور بخل سے بیزار ہیں ۔ اسی طرح وہ انسان جنہوں نے اللہ پر ایمان کے سائے میں خود خواہی اور خود پرستی کو چھوڑ دیا ہے ، اور پروردگار کے اسماء و صفات کی معرفت اور اخلاق الٰہی کی فضا میں آسمان پر بلند پروازی کررہے ہیں ۔

اس کے بعد مزید کہتا ہے : ” اور وہ خود بھی اسی معنی پر گواہ ہے “۔( و انه علیٰ ذالک لشهید ) ۔

کیونکہ انسان اپنے نفس کے بارے میں اچھی طرح آگاہ ہے اور اگر وہ اپنی اندرونی صفات کو ہر شخص سے چھپاسکتا ہو تو خدا اور اپنے وجدان سے مخفی نہیں رہ سکتا ، چاہے وہ اس حقیقت کا اعتراف کرے یا نہ کرے ۔

بعض نے یہ بھی کہا ہے کہ” انہ“ کی ضمیر ”خدا “کی طرف لوٹتی ہے ، یعنی خدا انسان میں کنود کی صفت کے وجود کا گواہ ہے ۔

لیکن قبل و بعد کی آیات کی طرف توجہ کرتے ہوئے ، جن میں ا س سے مشابہ ضمیر یں انسان کی طر ف لوٹتی ہیں ، یہ احتمال بہت ہی بعید نظر آتا ہے ، اگر چہ بہت سے مفسرین نے اس تفسیر کو ترجیح دی ہے ۔

یہ احتمال بھی دیا گیا ہے کہ اس سے مراد انسان کی اپنے گناہوں اور عیوب پر قیامت میں گواہی دینا ہے ، جیسا کہ قرآن کی بہت سی آیات سے معلوم ہوتاہے ۔

اس تفسیر کے لیے بھی یہاں کوئی دلیل نہیں ہے کیونکہ آیت ایک وسیع مفہوم رکھتی ہے جو اس دنیا میں بھی اس کے کفران اور بخل پر گواہی کو شامل ہے ۔

یہ ٹھیک ہے کہ بعض اوقات انسان اپنی شناخت سے عاجز ہوجاتا ہے ، اور اصطلاح کے مطابق اپنے وجدان کو دھوکا دیتا ہے اور شیطانی آرائش و زیبائش اس کی مذموم صفات کو اس کی نظر میں خوبصورت بنا کر جلوہ گر کردیتی ہیں لیکن خصوصیت کے ساتھ کفران و بخل کے بارے میں مطلب اس قدر واضح ہے کہ اس کی پردہ پوشی نہیں کی جاسکتی اور اپنے وجدان کو دھوکا نہیں دے سکتا۔

بعد والی آیت میں مزید کہتا ہے : وہ مادی چیزیں اور مال سے شدید لگاو اور محبت رکھتا ہے “۔( و انه لحب الخیر لشدید ) ۔(۷)

اور مال و دولت کے ساتھ اس کا یہی شدید اور اکثریت سے لگاو اس کے بخل ، ناشکری اور کفران کا سبب بن جاتا ہے ۔

البتہ ” خیر“ ایک ایسا وسیع معنی رکھتا ہے ، جو ہر قسم کی نیکی کو شامل ہے ۔ اور یقینی طور پر بہت سی نیکیوں اور اچھی چیزوں مثلاً علم و وانش ، تقوی اور بہشت و سعادت سے لگاو اور محبت کو ئی ایسا مذموم مطلب نہیں ہے کہ قرآن اوپر والی تعبیر کے ساتھ اس کی مذمت کر ے۔

اسی لیے اس کی یہاں ”مال“ کے معنی سے تفسیر کی ہے ، جس پر قرینہ مقام اور گزشتہ آیت بھی گواہ ہے ، اور قرآن کی بعض دوسری آیات بھی، اس کی گواہی دیتی ہیں )۔ مثلاً بقرہ کی آیہ ۱۸۰ ، جس میں فرماتا ہے :”( کتب علیکم اذا حضر احدکم الموت ان ترک خیراً الوصیة للوالدین و الاقربین ) “ تم پر فرض ہے کہ اگر تم میں سے کوئی کچھ مال چھوڑجائے تو وہ باپ ، ماں اور نزدیکیوں کے لئے وصیت کرے۔

مسلمہ طور پر ” مال“ پر خیر“ کا اطلاق اس بناپر ہے کہ مال اپنی ذات کی حد تک اچھی چیز ہے ۔ اور وہ انواع و اقسام کی نیکیوں کا ذریعہ بن سکتا ہے ۔ لیکن ناشکرا اور بخیل انسان اس کو اس کے اصلی ہدف سے روک کر خود پسندی اور خود غرضی کی راہ میں استعمال کرتا ہے ۔

اس کے بعد ایک استفہام انکاری کی صورت میں جو تہدید کے ساتھ توأم ہے ، فرماتا ہے : ” کیایہ ناشکرا، بخیل اور دنیا پرست انسان یہ نہیں جانتا کہ جب وہ سب کے سب جو قبروں میں ہیں ،زندہ ہ وجائیں گے“۔( افلا یعلم اذا بعثر ما فی القبور ) ۔ اور جب وہ تمام چیزیں جو سینوں میں ہیں ، جیسے کفر و ایمان ، اخلاص و ریا ، تکبر و غرور ، تواضع و انکسار اور اچھی اور بری نیتیں ، سب آشکار ہو جائیں گی“۔( وحصل ما فی الصدور ) ۔

” اس دن پر وردگار ان سے اور ان کے اعمال اور نیتوں سے آگاہ ہے “۔ اور اس کے مطابق ہی انہیں جزا و سزا دے گا۔( انّ ربهم بهم یومئذ لخبیر ) ۔

” بعثر“ ” بعثرة“ ( بروزن منقبة) کے مادہ سے اصل میں زیر و زبر کرنے ، باہر نکالنے اور استخراج کرنے کے معنی میں ہے۔ اور چونکہ مردوں کو زندہ کرنے کے وقت قبریں زیر و زبر ہوں گی، اور جو کچھ ان میں ہے وہ ظاہر ہوجائے گا، لہٰذا اوپر والی آیات میں یہ تعبیر قیامت کے بارے میں استعمال ہوئی ہے ۔

( مافی القبور ) “ کی تعبیر ( اس بات کی طر توجہ کرتے ہوئے کہ ” ما“ عام طور پر غیر ذوی العقول کے لیے آیات ہے ) یا تو اس بناء پر ہے کہ اس میں یہ بات مد نظر ہے کہ مردے ابھی مٹی ہیں ، یا یہ اس ابہام کی بناء پر ہے جو اس پر حاکم ہے کہ معلوم نہیں کون سے اشخاص ہیں ؟

”قبور“ ( قبروں ) کی تعبیر اس سے کوئی منافات نہیں رکھتی کہ لوگوں کا ایک گروہ اصولاً قبر نہیں رکھتا مثلاً وہ لوگ دریا میں ڈوب جائیں ،یا ان کی قبر ایک مدت کے بعد ختم ہو جاتی ہے اور ان کی مٹی بکھر جاتی ہے کیونکہ ان لوگوں کی اکثریت مد نظر ہے جو قبر رکھتے ہیں علاوہ ازیں ممکن ہے کہ قبر یہاں ایک وسیع معنی رکھتی ہو، یعنی وہ جگہ جہاں لوگوں کی مٹی موجود ہو اگر چہ وہ عام قبر کی صورت میں نہ ہو۔

” حصل “ تحصیل کے مادہ سے اصل میں ”چھلکے“ سے ” مغز“ کو نکالنے کے معنی میں ہے ۔ اسی طرح معادن کو صاف کرنے اور سونے وغیرہ کو کان کے پتھر سے نکالنے پر بولا جاتا ہے ۔ اس کے بعد یہ ایک وسیع معنی یعنی مطلق استخراج کرنے اور الگ کرنے کے معنی میں استعمال ہونے لگا ، اور زیر بحث آیت میں اس خیر و شر اور نیکی و برائی کو جدا کرنا مراد ہو، جودلوں میں چھپی ہوئی ہے چاہے وہ ایمان و کفر ہو، یا صفات حسنہ و رذیلہ، یا اچھی اور بری نیتیں ، وہ سب کی سب اس دن ایک دوسرے سے جدا اور ظاہر و آشکار ہو جائیں گی۔ اور ہر شخص کو ان کے مطابق جزا و سزا ملے گی۔

جیسا کہ سورہ طارق کی آیہ ۹ میں آیا ہے : یوم تبلی السرائر: ” اس دن سارے اندرونی بھید ظاہر و آشکار ہو جائیں گے“۔

” یو مئذٍ “ کی تعبیر اور اس معنی پر تکیہ کہ خدا” اس دن “ ان کے اعمال اور ان کے دلوں میں چھپے ہوئے بھبیدوں سے آگاہ ہو گا حالانکہ ہم جانتے ہیں کہ خدا ہمیشہ ان مسائل سے آگاہ ہے ، اس بناء پر ہے کہ وہ دن روزِ جزا ہے ، اور وہ انہیں ان کے اعمال و عقائد کی جزا دے گا۔

بعض مفسرین کے قول کے مطابق اس تعبیر کی مثال اس طر ح ہے کہ کوئی شخص دوسرے سے تہدید کے طور پر کہے سأعرف لک امرک میں عنقریب تجھے تیرے عمل کا تعارف کراو ں گا “۔ حالانکہ آج بھی اس قسم کا تعارف موجود ہے ۔ یہاں مراد یہ ہے کہ اس کا نتیجہ اور بدلہ تجھے دوں گا۔

ہاں ! خدا ہمیشہ اور ہر حال ت میں اندر او رباہر کے اسرار سے مکمل طور پر آگاہ ہے ، لیکن اس آگاہی کا اثر قیامت میں اجر و ثواب اور جزا و سزا کے وقت زیادہ ظاہر اور زیادہ آشکار ہوجائے گا۔ اور یہ تمام انسانوں کے لیے ایک تنبیہ ہے کہ اگر واقعاً وہ اس پر ایمان رکھتے ہیں تو یہ چیز ان کے گناہوں کے درمیان ایک طاقتور سد بن جائے گی، چاہے وہ گناہ آشکار ہوں یا پنہاں ، اندرونی گناہ ہو یا بیرونی ، اور اس اعتقاد کا تربیت پر کیاثر پڑتا ہے کسی سے پوشیدہ نہیں ہے ۔

____________________

۱۔ قاعدہ کی رو سے ” و العادیات عدواً“ کہنا چاہئیے ،لیکن چونکہ عدو ( دوڑنے ) کا لازمہ سانس نکالنا ہے ، لہٰذا اس کے بجائے” ضبحاً“ کہا گیا ہے، بعض نے یہ کہا ہے کہ آیت میں ایک محذوف ہے اور تقدیر میں اس طرح ہے ۔ (و العادیات یضبحن ضبحاً

۲۔” مجمع البیان “ جلد۱۰ ص ۵۲۹ ۔ اس روایت کو ”قرطبی“ نے بھی اپنی تفسیر کی جلد ۱۰ ص ۷۲۴۵ میں نقل کیا ہے ۔

۳۔ ”بہ“ کی ضمیر”عدو“ ( دوڑنے ) کی طرف لوٹتی ہے جس کا ”والعادیات ضبحاً “ کے جملہ سے استفادہ ہوتا ہے ۔ اس بناء پر ” باء“ یہاں ” سببیت“ کے معنی میں ہے ، یعنی اس دوڑنے کے سبب گرد و غبارفضا کو پر کردیتا ہے ۔ بعض نے یہ احتمال بھی دیا ہے کہ یہ اس زمانہ یا مکان کی طرف لوٹتی ہے جس میں یہ تاخت و تاز انجام پائی ہے ۔ اس بناء پر ” باء“ ظرفیت کے معنی میں ہے ، لیکن صحیح وہی پہلا معنی ہے۔

۴۔”بہ“ کی ضمیر کے مرجع اور ”باء“ کے معنی کے سلسلہ میں یہاں وہی بحث ہے جو پہلی آیت میں تھی۔

۵ تفسير «بيضاوى»، صفحه ۴۶۵.

۶۔۔ ”مجمع البیان “ جلد ۱۰ ص ۵۳۔

۷۔ ”لحب الخیر “ کی ” لام “ ممکن ہے ” لام تعدیہ“ ہو یا لام علت ، پہلے احتمال کی بناء پر ا سکی تفسیر وہی ہے جو اوپر بیان ہو چکی ہے ، اور دوسرے احتمال کی بناء پر آیت کا مفہوم اس طرح ہے ، انسان مال کی محبت کی وجہ سے بخیل ہے ، لیکن مسلمہ طور پر پہلی تفسیر زیادہ مناسب ہے ۔

اس سورہ کی قسموں اور ا س کے ہدف کے درمیان ربط

اس سورہ کے سلسلہ میں جو سوالات سامنے آتے ہیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ مجاہدین کے گھوڑوں کی قسم اور ” ان الانسان لربہ لکنود“کے جملہ کے درمیان کیا ربط ہے ؟ کیونکہ قرآن کی آیات کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ ہمیشہ قسموں اورمقسم بہ

(جس کے لیے قسم کھائی گئی ہے ) کے درمیان ایک قسم کا ربط موجود ہوتا ہے ، اور اصولی طور پر قرآن کی وضاحت و بلاغت بھی اس قسم کے مطلب کا اقتضا کرتی ہے ۔

زیربحث آیات میں ممکن ہے اس طرح کا ربط ہو کہ قرآن یہ کہتا ہے کہ ایسے ایثار کرنے والے انسان بھی موجود ہیں جو جہاد کے راستہ میں بے پرواہ ہو کر پیش رفت کرتے ہیں اور کسی قسم کی فدا کاری میں کوتاہی نہیں کرتے، اور اپنی جان و مال خدا کی راہ میں دے دیتے ہیں لیکن بعض لوگ اتنے بخیل اور ناشکرے کیوں بن جاتے ہیں کہ نہ تو وہ حق تعالیٰ کی نعمتوں کے مقابلہ میں خدا کی حمد و ثنا کرتے ہیں اور نہ ہی اس کی راہ میں ایثار کرتے ہیں ؟

یہ ٹھیک ہے کہ قسم تو گھوڑوں ہی کی کھائی گئی ہے لیکن ہم جانتے ہیں کہ ان کی اہمیت اس لحاظ سے ہے کہ وہ مجادہدین کے لئے ایک آلہ ہیں ، اور حقیقت میں مجاہدین کے جہاد کی قسم کھائی گئی ہے ۔( اور اسی طرح اگر یہ حاجیوں اور خانہ خدا کے زائرین کے اونٹوں کی قسم ہو)۔

بعض نے یہ بھی کہا ہے کہ یہ ربط اس طرح سے حاصل ہوتا ہے کہ یہ جانور حق تعالیٰ کی راہ میں سر عت کے ساتھ جاتے ہیں ۔ پس اے انسان تو کیوں اس کے سامنے سرِ تسلیم خم نہیں کرتا جب کہ تو اشرف المخلوقات ہے اور اس کے لائق ہے ؟

لیکن پہلی مناسبت زیادہ واضح ہے

۲ ۔ کیا انسان طبعاً ناشکرا اور بخیل ہے ؟

ممکن ہے کہ لوگ ان الانسان لربہ لکنود کے جملہ سے مفہوم لیں کہ ” کنود“ کی حالت میں ہونا یعنی ناشکری اور بخل کرنا سب انسانوں کی طبیعت کا جز ء ہے تو پھر یہ سوال سامنے آتا ہے کہ یہ امر بیدار وجدان اور فطری شعور کے ساتھ ، انسان کو شکرِ منعم اور ایثار و قربانی کی دعوت دیتا ہے ، کیسے ساز گار ہوسکتا ہے ؟

اس قسم کا سوال ، قرآن مجید کی بہت سی آیات میں ، جو انسان کی کمزوریوں کے واضح نقاط کو بیان کرتی ہیں ، سامنے آتا ہے ۔

ایک جگہ انسان کو ”( ظلوم و جهول ) “ شمار کیا گیا ہے ۔ ( احزاب۔ ۷۲)

دوسری جگہ ”( هلوع ) “ ( کم ظرف) معارج۔ ۱۹)

ایک دوسری ”( یٴوس کفور ) “ (مایوس ناشکرا) ( ہود۔ ۹)

ایک اور مقام پر ظاغی اور سر کش ۔ ( علق۔ ۶) کے ساتھ متعارف ہوا ہے ۔

کیا واقعاً ضعف کمزوری کے یہ نقاط انسان کی طبیعت میں پوشیدہ ہیں ، حالانکہ قرآ ن صراحت کے ساتھ کہتاہے کہ خدا نے آدم کو مکرم بنایا ہے اور سب مخلوق پر اسے بر تری دی ہے :( ولقد کرمنا بنی آدم و حملنا هم فی البر ولبحر و رزقنا هم من الطیبات و فضلنا هم علیٰ کثیر ممن خلقنا تفضیلاً ) ( اسراء۔ ۷۰)

اس سوال کا جواب ایک نکتہ کی طرف توجہ کرنے سے واضح ہو جاتا ہے ۔ اور وہ یہ ہے کہ انسان دو بعدو جہات وجودی رکھتا ہے، اور اسی بناء پر وہ اپنے ”قوس صعودی “ میں ”( اعلیٰ علیین ) “تک پہنچ جا تا ہے اور اپنے ”قوس نزولی“ میں اسفل سافلین میں گر جاتا ہے۔

اگروہ مربیان ِ الٰہی سے تر بیت پائے، عقل کے پیام سے ہدایت حاصل کرے اور اپنی اصلاح کرے تو وہ( ” فضلناهم علی کثیر ممن خلقنا تفضیلاً“ ) کا مصداق ہو جاتا ہے ۔

اور اگر ایمان تقویٰ سے منھ موڑ لے ، اور اولیاء خدا کی راہنمائی سے باہر نکل جائے ، توپھر وہ ” ظلوم“ و ” کفار“ یو س“ و ”کفور“ اور”ہلوع “ و ” کنود“ کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے ۔

اس طرح ان آیات کے درمیان کسی قسم کا تضاد موجود نہیں ہے ، البتہ ان میں سے ہر ایک کا انسان کے ایک بُعد اور جہت کے ساتھ تعلق ہے ۔

ہاں ! انسان کی فطرت کے اندر تمام نیکیوں ، اچھائیوں اور افتخارات و فضائل کی اصلی جڑ پوشیدہ ہے اور اسی طرح انسان ان فضائل کے نقطہ مقابل کے لیے بھی آمادگی رکھتا ہے ۔ اسی لیے عالم ِ آفرینش کی کسی بھی مخلوق کے قوسِ صعودی و نزولی کے درمیان اس قدر فاصلہ اور دوری نہیں ہے ، (غورکیجئے)

۳ ۔ جہاد کی عظمت

قرآن مجید میں جہاد اور راہ خدا کے مجاہدین کی عظمت کے بارے میں بہت ہی زیادہ گفتگو ہوئی ہے ۔ لیکن شاید یہ مسئلہ کسی جگہ بھی اس عظمت کے ساتھ بیان نہیں ہوا کہ ان کے گھوڑوں کے پھنکارنے ، ان کے سموں سے نکلنے والی چنگاریوں اور ان کے تیز دوڑنے سے اٹھنے والا گرد و غبار تک بھی اس قدر با عظمت سمجھا جائے ، کہ اس کی قسم کھائی جائے خصوصاً ان کے سرعت عمل پر ، جو جنگوں میں کامیابی کا اہم ترین عامل ہے ، تکیہ ہوا ہے ، اور غفلت کی حالت میں جالینے پر بھی، جوجنگ میں موفق ہونے کا ایک اور عامل ہے ، تکیہ ہوا ہے ۔

اور یہ سب جہاد کے پروگرام کے سلسلہ میں ایک ترتیب اور تعلیم ہے ۔

قابل توجہ بات یہ ہے کہ اس سورہ کے شان نزول میں بھی آیا ہے کہ علی علیہ السلام نے یہ حکم دیا تھا کہ رات کی تاریکی میں اپنی سواریوں کو تیار کرلیں ، انہیں ضروری خوراک دیں ، ان پر زین کس لیں ، او رمکمل طور پر الرٹ) تیاری کی صورت میں آجائیں ، جب رات کی تاریکی کا پردہ ہٹا تو آ پ نے فوراً اپنے ساتھیوں کے ساتھ نماز صبح ادا کی ، اور بلا فاصلہ دشمن پر حملہ کردیا، اور دشمن اس وقت بیدار ہوا جب مجاہدین ِ اسلام کے گھوڑے ان کے سروں پر پہنچ گئے۔

غفلت کی حالت میں اس سریع حملہ سے تلف ہونے والوں کی تعداد بھی بہت کم رہی ، اور جنگ کا خاتمہ بھی مختصر سے وقت میں ہو گیا ، اور قابل توجہ بات یہ ہے کہ یہ سب باتیں اس سورہ کی آیات میں بہت ہی عمدہ طریقہ سے بیان ہوئی ہیں ۔

یہ بات صاف طور پر ظاہر ہے کہ نہ تو گھوڑو ں میں کوئی خصوصیت ہے اور نہ ہی بیابان کے پتھروں پر سموں کے ٹکرانے سے پیدا ہونے والی چنگاریاں کوئی خصوصیت رکھتی ہیں ، او رنہ ہی ان کے پاو ں سے اٹھنے والا گرد و غبار ، جو چیز خصوصیت رکھتی ہے وہ مسئلہ جہاد ہے اور اس کے بعد اس کے آلات ہیں ، جو مودہ زمانہ کے تمام جنگی وسائل کو شامل ہیں ،جیسا کہ سورہ انفال کی آیت ۹ میں ”( رباط الخیل ) “ ( قومی اور طاقتور گھوڑوں ) کے بیان میں ” قوة“ اور ”طاقت“ کے بارے میں کلی طور پر گفتگو ہوئی ہے ۔

خدا وندا ! ہمیں اپنی رضا اور خوشنودی کی راہ میں جہاد کرنے اور قربانی دینے کی توفیق مرحمت فرما۔

پروردگارا !نفس سر کش ناشکری اور کفران کی طرف مائل رہتا ہے ، ہمیں اس کے خطرات سے محفوظ فرما۔

بار الہٰا ! تو ہر شخص کے اندرونی اسرار سے آگاہ ہے اور ہمارے اعمال سے باخبر ہے ۔ اپنے لطف و کرم اور عنایت و بخشش سے ہمارے ساتھ سلوک کر ۔

آمین یا رب العالمین

سورہ القارعة

یہ سورہ مکہ میں نازل ہوا ۔ اس میں ۱۱ آیات ہیں ۔

سورہ قارعہ کے مطالب اور اس کی فضیلت

اس سورہ میں کلی طور پرمعاد اور ا س کے مقدمات کے بارے میں گفتگو ہے ۔ اس میں چبھنے والی تعبیریں ، ہلادینے والے بیان ہیں ، اور صریح و واضح انداز اور تنبیہ ہے ۔ اور آخر میں انسانوں کی دو گروہوں میں تقسیم کا بیان ہے ۔

ایک گروہ تو وہ ہے جن کے اعمال عدل الٰہی کے میزان میں وزنی ہوں گے ، اور ان کی جزاء حق تعالیٰ کے جوار ِ رحمت میں سراسر رضایت بخش زندگی ہے ۔ اور دوسرا گروہ وہ ہے جن کے اعمال ہلکے او رکم وزن ہوں گے ، ان کی سر نوشت جہنم کی جلادینے والی آگ ہے ۔

اس سورہ کا نام یعنی ” قارعہ“ اس کی پہلی آیت سے لیا گیا ہے ۔

اس سورہ کی فضیلت

اس کی فضیلت کے سلسلہ میں بس اتنا ہی کافی ہے کہ ایک حدیث میں امام محمد باقر علیہ السلام سے آیا ہے :

من قرأ القارعة اٰمنه الله من الدجال ان یو من به ، و من قیح جهنم یوم القیامة ان شاء الله :

” جو شخص سورہ ” قارعہ“ کو پڑھے گا تو خدا وند تعالیٰ اسے دجال کے فتنہ اور اس پر ایمان لانے سے محفوظ رکھے گا، اور اسے قیامت کے دن انشاء اللہ پیپ سے دو رکھے گا۔ ۱

____________________

۱۔ ” مجمع البیان “ جلد۱۰ ، ص۵۳۰۔