تفسیر نمونہ جلد ۱۵

تفسیر نمونہ 0%

تفسیر نمونہ مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن

تفسیر نمونہ

مؤلف: آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی
زمرہ جات:

مشاہدے: 59340
ڈاؤنلوڈ: 3822


تبصرے:

جلد 1 جلد 4 جلد 5 جلد 7 جلد 8 جلد 9 جلد 10 جلد 11 جلد 12 جلد 15
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 169 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 59340 / ڈاؤنلوڈ: 3822
سائز سائز سائز
تفسیر نمونہ

تفسیر نمونہ جلد 15

مؤلف:
اردو

آیات ۱،۲،۳،۴،

( بسم الله الرحمن الرحیم )

۱ ۔( لایلف قریش ) ۔ ۲ ۔( ایلافهم رحلة الشتاء والصیف ) ۔ ۳ ۔( فلیعبدوا رب هذاالبیت ) ۔ ۴ ۔ا( لذی اطعمهم من جوع ) ۔( واٰمنهم من خوف ) ۔

تر جمہ

شروع اللہ کے نام سے جو رحمان و رحیم ہے

۱ ۔(اصحاب فیل کا عذاب )اس بناء پر تھا کہ قر یش (اس سر زمین مقدس سے )الفت رکھیں ۔(اور پیغمبر کے ظہور کے مقد مات فرا ہم ہوں )۔

۲ ۔انہیں سردیوں اور گر میوں کے سفر سے الفت ہے ۔ ۳ ۔پس (اس عظیم نعمت کے شکرانے کے طور پر )اس گھر کے پر وردگارکی عبادت کریں ۔

۴ ۔وہی جس نے انہیں بھوک سے نجات دی اور بدامنی سے نجات بخشی ۔

اس گھر کے پروردگار کی عبادت کرنی چا ہیئے ۔

چو نکہ گزشتہ سورہ (سورئہ فیل )میں اصحاب فیل اور ابرھہ کے لشکر کی نابودی کی تفصیل بیان ہوئی تھی ،جو خانہ کعبہ کو نابود کرنے اور اس خدائی مرکز مقدس کو ویران کرنے کے ارادہ سے آیا تھا ،لہٰذا اس سور ہ کی پہلی آیت میں ،جو حقیقت میں سورئہ فیل کا ایک (تکمیل بیان )ہے ،فر ماتا ہے :”ہم نے ہاتھیوں کے لشکر کو نابود کر کے انہیں کھائے ہوئے بھو سہ کے مانند ریزہ ریزہ کر دیا ،”تاکہ قر یش اس مقدس سر زمین سے الفت پیدا کریں “اور پیغمبر اکرم کے ظہور کے مقد مات فراہم ہوں ۔‘( لا یلاف قر یش ) ۔(۱)

”ایلاف “مصدر ہے ،اورالفت بخشنے کے معنی میں ہے اور ”الفت “انس و محبت اور گھل مل جانے کے ساتھ اجتماع کے معنی میں ہے ،اور یہ بعض نے ”ایلاف“کی مئوالفت اور ”عہد و پیمان “کے ساتھ تفسیر کی ہے ،تو وہ نہ تو اس لفظ کے ساتھ مناسب ہے جو باب افعال کا مصدر ہے ،اور نہ ہی اس سورہ کی آیات کے مضمون سے ۔

بہر حال اس سے مراد قریش اور سر زمین مکہ اور خانہ کعبہ کے درمیان الفت پیدا کرنا ہے کیو نکہ قریش اور تمام اہل مکہ اس سر زمین کی مر کزیت اور امنیت کی بناء پر ہی وہاں رہا ئش پذیر تھے ۔حجاز کے بہت سے لوگ ہر سال وہاں آتے تھے اور مراسم حج بجا لاتے تھے ،اقتصادی اور ادبی مباد لات رکھتے تھے اور اس سر زمین کی مختلف بر کات سے استفادہ کرتے تھے ۔

یہ سب کچھ اس کی مخصوص سلامتی کی وجہ سے تھا ۔اگر ابرھہ یا کسی اور لشکر کشی سے اس کی سلامتی اور امنیت مخدوش ہوجاتی ،یا خانہ کعبہ ویران ہو جاتا ،تو پھر کسی کو اس سر زمین سے الفت و محبت نہ رہتی ۔

”قریش “کا لفظ جیسا کہ بہت سے مفسرین اور ارباب لغت نے کہا ہے اصل میں سمندر کے عظیم جانوروں کی ایک نوع کے معنی میں ہے ،جو ہر جانور کو آسانی کے ساتھ کھا لیتی ہے ۔یہ عبارت ”ابن عباس “سے مشہور ہے کہ جب ان سے سوال ہوا کہ قریش کو ”قریش “کیوں کہتے ہیں ؟تو انہوں نے یہ جواب دیا :”لدابةتکون فی البحر من اعظم دوابه یقال لها القریش ،لا تمر بشیء من الغث والسمین الااکلته ،!:

”یہ اس وجہ سے ہے کہ یہ سمندر کے ایک بہت بڑے جانور کا نام ہے ،وہ جس دبلے یا موٹے جانور کے پاس سے گزر تا ہے اسے کھا جاتا ہے ۔“

اس کے بعد وہ اپنی بات کے ثبوت میں اشعار عرب سے شہاد ت پیش کرتے ہیں ۔

اس بناء پر اس قبیلہ کے لیے اس نام کا انتخاب ،اس قبیلہ کی قدرت و قوت اور اس قدرت سے غلط فائدہ اٹھا نے کی وجہ سے ہوا ۔

لیکن بعض نے اسے ”قریش “(بر وزن فرش)کے مادہ سے اکتساب کے معنی میں لیا ہے ،کیونکہ عام طور پر یہ قبیلہ تجارت اور کسب میں مشغول رہتا تھا ۔بعض اس مادہ کو خبر گیری اور دیکھ بھال کرنے کے معنی میں جانتے ہیں او رچو نکہ قریش حاجیوں کے حالات کی خبر گیری کرتے تھے ،اور بعض اوقات ان کی مدد کرتے تھے ،اس لیے یہ لفظ ان کے لیے منتخب ہوا ۔

”قریش“لغت میں اجتماع کے معنی میں آیا ہے کیونکہ یہ قبیلہ ایک خاص قسم کی تنظیم اور اجتماع رکھتا تھا ،اس لیے یہ نام ان کے لیے انتخاب ہو ا۔

لیکن بہر حال موجودہ زما نہ میں قریش کسی اچھے مفہوم میں استعمال نہیں ہوتا ،اور با وجود اس کے کہ وہ پیغمبر اکرم کا قبیلہ تھا ،اسلام کا سخت ترین دشمن شمار ہوتا تھا جو کسی قسم کی عہد شکنی،عداوت اور دشمنی سے نہیں چو کتا تھا ۔یہاں تک کہ جب ان کی قدرت و طاقت اسلام کی کامیابی کی وجہ سے دم توڑ گئی تو پھر بھی انہوں نے مخفی سا زشوں کو جاری رکھا اور پیغمبر اکرم کی رحلت کے بعد بھی انہوں نے ایسے درد ناک حوادث پیدا کیے جنہیں تاریخ اسلام کبھی فرا موش نہیں کرے گی ۔ہم جانتے ہیں کہ ”بنی امیہ “اور”بنی عباس “جو طاغوتی حکومت کا اعلیٰ ترین نمونہ تھے ،قریش میں سے ہی اٹھے تھے ۔

قرائن بھی اس بات کی نشان دہی کرتے ہیں کہ وہ عربوں کے زمانہ جاہلیت میں بھی لوگوں کے استشمار و استعمار کی کو شش میں لگے رہتے تھے اور اسی وجہ سے جب آزادی بخش اسلام نے طلوع کیا اوران کے ناجائز منا فع خطرے میں پڑ گئے تو وہ پوری طاقت کے ساتھ مبارزہ کے لیے کھڑے ہو گئے ۔لیکن اسلام کی عظیم قدرت نے انہیں درہم و برہم کر دیا ۔

بعدو الی آیت میں مزید کہتا ہے :”ہدف اور مقصد یہ تھا کہ خدا قریش کو سردیوں اور گر میوں کے سفروں سے الفت بخشے ۔“( ایلافهم رحلةالشتاء والصیف ) (۲) ، ۔(۳)

ممکن ہے کہ اس سر زمین مقدس سے قریش کو الفت بخشنا مراد ہو ،تا کہ وہ گرمیوں اور سر دیوں کے طویل سفروں میں اس مقدس مر کز سے اپنا تعلق اور لگاؤ دل سے نہ بھلائیں اور ا س کی سلامتی کی وجہ سے اس کی طرف لوٹ آئیں ۔کہیں ایسا نہ ہو کہ سر زمین یمن اور شام کی زندگی کی آسا ئشوں سے متاثر ہو کر مکہ کو خالی چھوڑ دیں ۔یا اس سے ان دو عظیم سفروں میں قریش اور دوسرے لوگوں کے درمیان الفت پیدا کرنا مراد ہے ،کیو نکہ ابرھہ کی داستان کے بعد لوگ انہیں دوسری نظر سے دیکھتے تھے اور قریش کے قافلہ کے احترام و اہمیت کے قائل تھے ۔

قریش کو اس طویل سفر میں بھی امن کی ضرورت تھی اور سر زمین مکہ کے لیے بھی ،اور خدا نے ابرھہ کے لشکر کی شکست کے نتیجہ میں یہ دونوں سلامتیاں انہیں بخش دی تھیں ۔

ہمیں معلوم ہے کہ ”مکہ “کی زمین میں نہ تو کوئی باغ تھا اور نہ ہی کوئی کھیتی باڑی ہوتی تھی ۔جانوروں کی دیکھ بھال بھی ان کی محدود تھی ،ان کی در آمد زیادہ تر انہیں تجارتی قافلوں کے ذر یعے پوری ہوتی تھی ۔وہ سردی کے موسم میں جنوب یعنی سر زمین یمن کی طرف ۔جس کا موسم نسبتا گرم ہوتا ہے ۔رخ کر تے تھے اور گرمی کے موسم میں شمال اور سر زمین کی طرف ۔جس کی ہوا اور موسم خو شگوار ہوتا تھا ۔اور اتفاق کی بات یہ ہے کہ سر زمین یمن بھی اور سر زمین شام بھی ،اس زمانہ میں اہم تجارتی مرا کز تھے ۔اور مکہ اور مدینہ ان دونوں کے در میان حلقئہ اتصالی شمار ہوتے تھے ۔

البتہ قریش ان غلط کاریوں کی وجہ سے ،جو وہ انجام دیتے تھے ،خدا کے ان الطاف و محبت کے مستحق تو نہ تھے ۔لیکن چو نکہ یہ مقدر ہو چکا تھا کہ اس قبیلہ اور اس سر زمین مقدس سے اسلام اور پیغمبر اسلام کا طلوع ہو ،لہٰذا خدا نے ان پر یہ لطف فر مایا ۔

بعد والی آیت میں یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ قریش کو ان سب خدائی نعمتوں کی وجہ سے جو انہیں کعبہ کی بر کت سے حاصل ہوئی تھیں ”اس گھر کے پروردگار کی عبادت کرنا چا ہیئے نہ کہ بتوں کی ۔“(فلیعبدوارب ھٰذاالبیت )۔

”وہی خدا جس نے انہیں بھوک سے نجات بخشی اور کھانا دیا ،اور بے امنی سے رہائی بخشی اور امن دیا ۔“( الذی اطعمهم من جوع و امنهم من خوف ) ۔(۴)

ایک طرف تو انہیں تجارت میں فروغ عطا کیا اور انہیں فائدہ پہنچایا اور دوسری طرف بد امنی کو ان سے دور کر دیا اور دفع ضرر کیا ۔اور یہ سب کچھ ابرھہ کے لشکر کی شکست سے فراہم ہوا اور حقیقت میں یہ کعبہ کے بانی ابرا ہیم علیہ اسلام کی دعا کی قبو لیت تھی ۔لیکن انہوں نے اس نعمت کی قدر نہ کی ۔اس مقدس گھر کو ایک بت خانہ میں تبدیل کر دیا ،بتوں کی عبادت کو اس گھر کے خدا کی عبادت پر تر جیح دی اور انجام کار ان تمام نا شکر یوں کا انجام بد دیکھا ۔

خدا وندا!ہمیں عبادت و بندگی اور نعمتوں کا شکر ادا کرنے اور اس عظیم گھر کی حفا ظت ،پاسداری اور احترام کرنے کی تو فیق مر حمت فر ما ۔پرور دگار ا!اس عظیم اسلامی مرکز کو روز بروز زیادہ پر شکوہ ،اور دنیا جہان کے مسلمانوں کے لیے حلقئہ اتصال قرار دے ۔

بار الٰہا!سارے خو نخوار دشمنوں اور ان لوگو ں کے جو اس عظیم مر کز سے فائدہ اُٹھاتے ہیں ،ہا تھ کاٹ دے ۔

آمین یارب العالمین

____________________

۱۔”لا یلاف “میں ”لام “ علت کے معنی میں ہے اور ”جار دمجرور“”جعل “سے متعلق ہے ،جو گز شتہ سورہ کی آیہ ”فجعلھم کعصف مأ کول “میں ،یا کسی اور دوسرے فعل کے جو اس سورہ میں تھا ۔بعض نے اس جارومجرور کو فلیعبدوا کے جملہ سے متعلق سمجھا ہے ، جو بعد والی آیات میں آیا ہے ۔لیکن یہ احتمال آیات کے مفہوم کے ساتھ چنداں ساز گار نہیں ہے اور پہلا معنی بہتر ہے ۔

۲۔”ایلافھم “اس ”ایلاف “کا بدل ہے جو گزشتہ آیت میں آیاہے ،اور ”ھم “کی ضمیر پہلا مفعول ہے ۔اور ”رحلةالشتاء“دوسرا مفعول ہے اور بعض کے نظریے کے مطابق ظر فیت کے معنی میں ہے ۔اور ممکن ہے کہ وہ ”منصوب بنذع خافض“ہو، اور تقدیر میں اس طرح ہو ”ایلافھم من رحلة الشتاء والصیف “(دوسرا اور تیسر امعنی زیادہ مناسب نظر آتا ہے ۔)

۳۔”رحلة“در اصل ”رحل “(بر وزن شہر )سے ،اس پردہ کے معنی میں ہے جو سوار ہونے کے لیے ڈالتے ہیں ۔اسی مناسبت سے ،خود اونٹ پر یا ان مسافرتوں پر جو اُونٹ یا دوسرے ذرائع سے ہوتی ہیں ،پربھی اس کا اطلاق ہوتا ہے ۔

۴۔ بعض مفسرین نے اس آیت کو دو آیات سمجھا ہے ،اور اس سورہ کی آیات کو پانچ آیات شمار کیا ہے ،لیکن مشہور و معروف یہ ہے کہ یہ ایک آیت ہے ،اور اس سورہ کی چار ہی آیات ہیں ۔

سورئہ الماعون

یہ سورہ مکہ میں نازل ہوا ۔ اس میں ۷ آیات ہیں ۔

سورہ ما عون کے مطالب

یہ سورہ بہت سے مفسرین کے نظریہ کے مطابق مکی سورتوں میں سے ہے ۔اس کی آیات کا لب و لہجہ ،جو مختصر اورچبھنے والے مقاطع میں قیامت اور اس کے منکرین کے اعمال کے بارے میں گفتگو کرتی ہیں ،اس مطلب کی ناطق گواہ ہیں ۔مجموعی طور پر اس سورہ میں منکرین قیا مت کی صفات و اعمال کو پا نچ مر حلوں میں بیان کیا گیا ہے ،کہ وہ اس عظیم دن کی تکذیب کی وجہ سے راہ خدا میں ”اتفاق “کرنے اور ”یتیموں “اور ”مسکینوں کی مدد کرنے سے کس طرح رو گردانی کرتے ہیں اور وہ ”نماز “ کے بارے میں کیسے غافل اور ریا کار ہیں ،اور ”حاجت مندوں “کی مدد کرنے سے کس طرح رو گردانی کرتے ہیں ؟

اس سورہ کی شان نزول کے بارے میں بعض نے تو یہ کہاہے کہ یہ ابو سفیان کے بارے میں نازل ہوا ہے جو روزانہ دوبڑے بڑے اونٹ نحر کیا کرتا تھا اور وہ خود اس کے یار دوست انہیں کھاتے تھے۔ لیکن ایک دن ایک یتیم آیا اور اس نے ان سے کچھ مانگا تو اس نے اپنے عصا سے اسے مارا ، اور اسے دور کر دیا ۔

بعض دوسرے مفسرین نے یہ کہا کہ یہ ” ولید بن مغیرہ“ یا ” عاص بن وائل “ کی شان میں نازل ہوئی ہے ۔

اس سورہ کی فضیلت

اس سورہ کی تلاوت کی فضیلت کے بارے میں ایک حدیث میں امام محمد باقر علیہ السلام سے آیا ہے :

” من قرأ أء یت الذی یکذب بالدین فرایضہ و نووافلہ قبل اللہ صلاتہ و صیامہ، ولم یحاسبہ بما کان منہ فی الحیاة الدنیا“:

” جو شخص اس سورہ کو اپنی فریضہ نمازوں میں پڑھے گا تو ا س کے نماز و روزہ کو قبول کرے گا اور ان کاموں کے مقابلہ میں جو اس سے دنیا میں سر زد ہوئے ہیں اس کا کوئی حساب نہیں لے گا“۔(۱)

____________________

۱۔ ” مجمع البیان “ جلد ۱۰ ص ۵۴۶۔

آیات ۱،۲،۳،۴،۵،۶،۷،

( بسم الله الرحمن الرحیم )

۱ ۔( ارء یتَ الذی یکذب بالدین ) ۔ ۲ ۔( فذالک یدع الیتیم ) ۔ ۳ ۔( و لایحض علیٰ طعام المسکین ) ۔

۴ ۔( فویل للمصلین ) ۔ ۵ ۔( الذین هم عن صلاتهم ساهون ) ۔ ۶ ۔( الذین هم یرآء ُ و ن ) ۔ ۷ ۔( ویمنعون الماعون ) ۔

ترجمہ

شروع اللہ کے نام سے جو رحمن و رحیم ہے

۱ ۔ کیا تونے اس شخص کو دیکھاہے ، جو ہمیشہ ہی روز ِ جزا کا انکار کرتا رہتا ہے ؟ ۲ ۔ وہی تو ہے ، جو یتیم کو سختی کے ساتھ دھکے دیتا ہے ۔

۳ ۔ اور دوسروں کو مسکین کو کھانا کھلانے کا شوق نہیں دلاتا ہے ۔ ۴ ۔ پس ان نماز گزاروں پر وائے ہے ، جو ۔

۵ ۔ اپنی نمازوں کو بھول جاتے ہیں ۔ ۶ ۔ وہی جو ریاکاری کرتے ہیں ۔ ۷ ۔ اور دوسروں کو ضروریاتِ زندگی سے باز رکھتے ہیں ۔

معاد کے انکار کے اثراتِ بد

اس سورے میں پہلے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے مخاطب کرتے ہوئے منکرین کے اعمال میں روز جزا کے انکار کے اثراتِ بد کو بیان کرتا ہے :۔

” کیاتو نے اس شخص کو دیکھا ہے جو ہمیشہ روز جزا کا انکار کرتا ہے “( أ راء یت الذی یکذب با لدین ) ۔

اس کے بعد اس کے جواب کا انتظا رکیے بغیر مزید فرماتا ہے ،: ” وہی تو ہے جو یتیم کو سختی کے ساتھ دھکے دیتا ہے “۔( فذالک الذی یدع الیتیم ) ۔

” دین “ سے مراد یہاں ” جزا“ یا ” روز جزا “ ہے ۔ اور اس کی عظیم داد گاہ کے انکار سے انسان کے عمل میں ایک وسیع ردِّ عمل پیدا ہوتا ہے ۔ جس کے پانچ حصوں کی طرف اس سورہ میں اشارہ ہوا ہے ، منجملہ : یتیموں کو سختی کے ساتھ دھتکا ر نا اور دوسرے لوگوں کو مسکینوں کو کھانا کھلانے کا شوق دلا نا ۔یعنی نہ تو خود ہی انفاق کرنا اور نہ ہی دوسروں کو ا س کام کی دعوت دینا ۔

بعض نے یہ احتمال بھی دیا ہے کہ یہاں “ دین “ سے مراد قرآن یا تمام آئین و دین اسلام ہے ۔ لیکن پہلا معنی زیادہ مناسب نظر آتا ہے ، اور اس کی نظیر سورہ انفطار کی آیہ ۹” کلا بل تکذبون بالدین “اور سورہ ” تین “ آیہ ۷ فما یکذبک بعد بالدین“ میں بھی آئی ہے ، جہاں ان سورتوں کی دوسری آیات کے قرینہ سے دین سے مراد روز جزا ہے ۔

” یدع “ ” دعّ “ ( بر وزن حد) کے مادہ سے، سختی کے ساتھ دور کرنے اور غصہ کے ساتھ دھتکار نے کے معنی میں ہے اور” یحض“ ” حض“ کے مادہ سے کسی چیز کے لیے دوسروں کو تحریص و ترغیب دینے کے معنی میں ہے ، ” راغب“ ” مفردات“ میں کہتا ہے ، ” حص“ چلنے اور سیر کرنے کے لیے شوق دلانا ہے ، لیکن ” حض“ اس طرح نہیں ۔(۱)

چونکہ ”یحض “ اور ”یدع“فعل مضارع کی صورت میں آئے ہیں ، لہٰذا اس بات کی نشان دہی کرتے ہیں کہ یتیموں اور مسکینوں کے بارے میں ان کا یہ کام دائمی طور پر تھا ۔

یہ نکتہ بھی یہاں پر قابل توجہ ہے کہ یتموں کے بارے میں انسانی حقیقت او رمہر بانی کرنے کا مسئلہ کھا نا کھلانے اور سیر کرنے کی نسبت زیادہ عمدہ ہے۔ کیونکہ یتیم سب سے زیادہ رنج اور دکھ شفقت و مہر بانی کے مرکز اور غذا ئے روحی کے ہاتھ سے چلے جانے کی وجہ سے ہوتا ہے ، اور جسمانی غذا کا مرحلہ بعد میں آتا ہے ۔

پھر ان آیات میں ہمارے سامنے مسکینوں کو کھانا کھلانے کا مسئلہ آتا ہے ، جو اہم ترین کار ہائے خیر میں سے ہے ۔ یہاں تک کہ فرماتا ہے کہ اگر کوئی شخص خود کسی مسکین کو کھاناکھلانے کی قدرت نہیں رکھتا، تو دوسروں کو اس بات کی ترغیب دے اور شوق دلائے۔

” فذالک“ کی تعبیر ( اس بات کی طرف توجہ کرتے ہوئے کہ یہاں ” فا“ سببیت کا معنی دیتا ہے ) اس نکتہ کی طرف اشارہ ہے کہ معاد پر ایمان کا نہ ہونا ان غلط کاریوں کا سبب بنتا ہے ، اور واقعاً ایسا ہی ہے وہ شخص جو دل کی گہرائیوں کے ساتھ اس عظیم دن اور اس دادگاہ عدل ، اور اس حساب و کتاب اور جزا و سزا پر یقین رکھتا ہو، اس کے تمام اعمال میں اس کے مثبت آثار ظاہر ہو ں گے ، لیکن جو اس پر ایمان نہیں رکھتے تو گناہ کرنے اور انواع و اقسام کے جرائم کرنے پر ان کی جرأت کرنے میں اس کے اثرات کامل طو ر پر نمایاں ہوتے ہیں ۔

اس گروہ کی تیسری صفت کے بارے میں فرماتاہے : پس ان نماز گزاروں پر وائے ہے “۔( فویل للمصلین ) ۔

” وہی نمازی جو اپنی نماز کو بھول جاتے ہیں “۔( الذین هم عن صلاتهم ساهون ) ۔

وہ اس کے لیے نہ تو کسی قدر و قیمت کے قائل ہیں او ر نہ ہی اس کے اوقات کوکوئی اہمیت دیتے ہیں ، او رنہ ہی اس کے ارکان و شرائط اور آداب کی رعایت کرتے ہیں ۔

” ساھون “ ” سھو“ کے مادہ سے اصل میں اس خطا کے معنی میں ہے جو غفلت کی بناء پر سرزد ہوچاہے اس کے مقدمات کے فراہم کرنے میں مقصر ہو یانہ ہو ۔ البتہ پہلی صورت میں معذور نہیں ہے ، اور دوسری صورت میں معذور ہے لیکن یہاں وہ سہو مراد ہے جو تقصیر کے ساتھ توأم ہو۔

اس بات کی توجہ رکھنی چاہئیے کہ یہ نہیں فرماتا کہ:” وہ اپنی نما ز میں سہو کرتے ہیں “۔ چونکہ نماز میں سہو تو بہر حال ہر شخص سے ہوجاتا ہے ، ”وہ اصل نماز سے ہی سہو کرتے ہیں ، اور کل کی کل نماز کو ہی بھول جاتے ہیں “۔

اس بات واضح ہے کہ اگر اس مطلب کاایک یاچند مرتبہ اتفاق ہو تو ممکن ہے کہ کوتاہی کی وجہ سے ہو ۔ لیکن جو شخص نماز کو ہمیشہ کے لیے ہی بھولے ہوئے ہو، اور اسے بالکل ہی بھلا چکا ہو، تو اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اس کے لیے کسی اہمیت کا قائل نہیں ہے ، یا اصلاً اس پر ایمان نہیں رکھتا ، اور اگر وہ کبھی کبھار نماز پڑھ لیتا ہے تو لوگو ں کی زبان یا اسی طرح کی باتوں سے ڈر کر پڑھتا ہے

اس بارے میں کہ یہاں ” ساھون “ سے مراد کیا ہے ؟ جو کچھ ہم نے اوپر بیان کیا ہے اس کے علاوہ دوسری تفسیریں بھی بیان کی گئی ہیں ۔ منجملہ ان کے یہ ہے کہ اس سے مراد وقت فضیلت سے تاخیر کرنا ہے ۔

یا اس سے مراد منافقین کی طرف اشارہ کرنا ہے جونہ نماز کے ثواب کا اعتقاد رکھتے ہیں ، اور نہ ہی ا س کے ترک کے عذاب کا ۔

یا اس سے مرادوہ لوگ ہیں جو نماز میں ریا کاری کرتے ہیں ۔ ( جب کہ یہ معنی بعد والی آیت میں آرہاہے )۔

البتہ ان معانی کے درمیان جمع بھی ممکن ہے اگر چہ پہلی تفسیر زیادہ مناسب نظر آتی ہے ۔

بہر حال جب نماز کو بھول جانے والے ویل او رہلاکت کے مستحق ہیں ، تو پھر ان لوگوں کا کیا حال ہوگا جو کلی طور پر نماز کو چھوڑے ہوئے ہیں اور تارک الصلاة ہیں ۔

چوتھے مرحلہ میں ان کے ایک اور بد ترین عمل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتا ہے : ” وہ ایسے لوگ ہیں جو ہمیشہ رہا کاری کرتے ہیں “۔( الذین هم یراء ون ) ۔

مسلمہ طور پر اس تظاہر اور ریا کاری کے سر چشمے روز قیامت پرایمان کا نہ ہونا ، اور خدا ئی جزاو ں کی طرف توجہ کرنا ہے ، ورنہ یہ کیسے ممکن ہے کہ انسان خدائی جزاو ں کو تو چھوڑ دے، اور مخلوق کو خوش کرنے کی طرف توجہ رکھے۔

”ماعون“ ” معن“ ( بر وزن شأن) کے مادہ سے ، کم اور تھوڑی سی چیز کے معنی میں ہے اور بہت سے مفسرین کا نظریہ یہ ہے کہ یہاں اس سے مراد جزئی اور معمولی قسم کی چیزیں ہیں ، جو لوگ ، خصوصاً ہمسائے ، ایک دوسرے سے رعایتاً لے لیتے ہیں ، مثلاً کچھ نمک، پانی ، آگ ( ماچس) برتن وغیرہ۔

واضح رہے کہ جو شخص اس قسم کی چیزیں بھی دوسروں کو دیتا، وہ انتہائی پست اور بے ایمان آدمی ہوتا ہے ، ایسے افراد اس قدر بخیل ہوتے ہیں کہ اس قسم کی معمولی چیزوں کے دینے سے بھی گریز کرتے ہیں ۔ حالانکہ یہی معمولی معمولی چیزیں بعض اوقات بڑی بڑی احتیاجات کو پورا کرتی ہیں اور ان کے روک لینے سے لوگوں کی زندگی میں بڑی مشکلات پیدا ہوجاتی ہیں ۔

ایک گروہ نے یہ بھی کہا ہے کہ ” ماعون“ سے مراد زکوٰة ہے ۔ کیونکہ اصل مال سے عام طور پر بہت ہی کم ہوتی ہے ۔ کبھی سو میں سے دس، کبھی سو میں سے پانچ اور کبھی سو میں سے اڑھائی۔

یقینا ”زکوٰة کا نہ دینا “بھی بد ترین کا موں میں سے ایک ہے ، کیونکہ زکوٰة معاشرے کی بہت سی اقتصادی مشکلات کو حل کرتی ہے۔ ایک روایت میں امام جعفر صادق علیہ السلام سے آیا ہے کہ آپ نے ماعون کی تفسیر میں فرمایا :

( هو القرض یقرضه، و المتاع یعیره ، و المعروف یصنعه ) :

” ماعون وہ قرض ہے جو انسان دوسرے کو دیتا ہے ۔اور وہ وسائل زندگی ہیں جو وہ ادھار کے طور پر دوسرں کو دیتا ہے ۔ اور وہ امدادیں اور کار ہائے خیر ہیں جنہیں انسان انجام دیتا ہے ۔(۲)

ایک اور روایت میں انہیں حضرت سے یہی معنی نقل ہو اہے ، اور اس کے ذیل میں آیا ہے کہ راوی نے کہا : ہمارے ہمسائے ایسے ہیں کہ جب ہم کچھ وسائل زندگی ان کو دیتے ہیں تو وہ انہیں توڑدیتے ہیں اور خراب کردیتے ہیں ، تو کیا انہیں نہ دینا بھی گناہ ہے ؟ تو آپ نے فرمایا اس صورت میں کوئی مانع نہیں ہے ۔

”ماعون“ کے معنی کے بارے میں دوسرے احتمالات بھی دئے گئے ، یہاں تک کہ تفسیر قرطبی میں بارہ سے زیادہ قول اس سلسلے میں نقل ہوئے ہیں جن میں سے بہت سوں کو ایک دوسرے میں ملا یا جاسکتا ہے ، البتہ زیادہ اہم وہی جو ہم نے اوپر نقل کیے ہیں ۔

ان دونوں کا موں کو ایک دوسرے کے بعد ذکر کرنا ( ریا کاری و منع ماعون) گویا اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ جو بات خدا کے لیے ہے اسے وہ مخلوق کی نیت سے بجالاتے ہیں ، اور جو مخلوق کے لیے ہے وہ ان کے لیے نہیں کرتے اور اس طرح سے و ہ کوئی بھی حق اس کے حق دار تک نہیں پہچاتے۔

ہم اس گفتگو کو پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ایک حدیث کے ساتھ ختم کرتے ہیں ، آپ نے فرمایا :

” من منع الموعون جارہ منعہ اللہ خیرہ یوم القیامة، ووکلہ الیٰ نفسہ، ومن وکلہ الیٰ نفسہ فما اسوء حالہ ؟ ! :

جو شخص ضروری اور معمولی چیزوں کو اپنے ہماسایہ سے روکتا ہے ، خدا اسے قیامت کے دن اپنی خیر سے روک دے گا، اور جسے خدا اس کی اپنی حالت پر چھوڑ دے اس کا بہت ہی برا حال ہوگا۔(۳)

____________________

۱۔ ” مفردات“ مادہ ”حض“

۲۔ ” کافی “ مطابق نقل نور الثقلین جلد ۵ ص ۶۷۹۔

۳- نور الثقلین “ جلد ۵ ص ۶۷۹ حدیث ۲۰۔

۱ ۔ سورہ ماعون کے مباحث کی جمع بندی

اس مختصر سورہ میں صفات رذیلہ کا ایک ایسا مجموعہ آیا ہے کہ وہ جس شخص میں بھی ہو اس کی بے ایمانی ، پستی اور حقارت کی ایک نشانی ہے ۔ اور قابل توجہ بات یہ ہے کہ ان سب کو تکذیب ِ دین یعنی جزاء یا روزِ جزا کی فرع قرار دیا ہے ۔

یتیموں کو حقیر جاننا ، بھوکوں کو کھانا کھلانا، نماز سے غفت برتنا ، ریاکاری کرنا اور لوگوں سے موافقت نہ کرنا ، یہاں تک کہ زندگی کے معمولی وسائل دینے میں یہ ہے کہ ان ( صفات رذیلہ ) کا مجموعہ۔

اور اس طرح سے ان بخیل ، خودخواہ اور ریا کار افراد کو ظاہر کرتا ہے ، جن کا نہ تو ” مخلو قِ خدا “ ہی کے ساتھ کوئی تعلق ہے اور نہ ہی ”خالق “کے ساتھ کوئی رابط ۔ ایسے افراد جن کے وجود میں نور ایمان اور احساس ِ مسئولیت نہیں ہوتا، نہ تو وہ خدائی اجرو ثواب میں غور و فکر کرتے ہیں اور نہ ہی اس کے عذاب سے ڈرتے ہیں ۔

۲ ۔ تظاہر و ریا ایک بہت بڑی اجتماعی مصیبت ہے ۔

ہرعمل کی قدر و قیمت اس کے سبب کے ساتھ وابستہ ہوتی ہے ، یا دوسرے لفظوں میں اسلام کی نگاہ میں ہر عمل کی بنیاد اس کی ” نیت“ پر ہوتی ہے، وہ بھی ” خالص نیت“

اسلام ہر چیز سے پہلے نیت کے بارے میں تحقیق کرتا ہے ، لہٰذا ایک مشہور حدیث میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے آیا ہے

انما الاعمال بالنیات و لکل امرء مانوی

” ہر عمل نیت کے ساتھ وابستہ ہے او ر ہر شخص کا عمل میں حصہ ، اس کی اس نیت کے مطابق ہوگا، جو وہ عمل میں رکھتا تھا “۔

اور اسی حدیث کے ذیل میں آیا ہے :

” جو شخص خد اکے لیے جہاد کرے اس کا اجر خدائے بزرگ و بر تر ہے ۔ اور جو شخص مالِ دنیا کے لیے جنگ کرے، یہاں تک کہ ایک عقال وہ چھوٹی سی رسّی جس سے اونٹ کے پاو ں کو باندھتے ہیں ) لینے کے لیے کرے اس کا حصہ بس وہی ہے ۔(۱)

یہ سب اس بناء پر ہے کہ ” نیت سے ہی عمل وجود میں آتا ہے ۔ وہ شخص جو خدا کے لیے کوئی کام انجام دیتا ہے ، تو وہ اس کی بنیاد کومحکم کرتا ہے ، اور اس کی تمام کوشش یہ ہوتی ہے کہ لوگ اس سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھائیں ۔ لیکن جو شخص تظاہر اور ریا کاری کے لیے کسی عمل کو انجام دیتا ہے وہ صرف ا س کے ظاہر اور زرق و برق پرنظر رکھتا ہے ، اور وہ اس کی گہرائی و بنیاد اورحاجت مندوں کے استفادے کو کوئی اہمیت نہیں دیتا ۔

وہ معاشرہ جو ریا کاری کا عادی ہو جاتا ہے وہ نہ صرف خدا ، اخلاق حسنہ اور ملکاتِ فاضلہ سے دور کردیا جاتا ہے ، بلکہ اس کے تمام اجتماعی پروگرام مفہوم و مطلب سے خالی ہو جاتے ہیں ، اور وہ مٹھی بھرے معنی ظواہر کا خالص رہ جاتے ہیں ، اور ایسے انسان اور اس قسم کے معاشرے کی سر نوشت کتنی دردناک ہے ؟ ! ۔

” ریا “ کی مذمت میں بہت زیادہ روایات آئی ہیں ، یہاں تک کہ اس کو شرک کی ایک نوع کہا گیا ہے ، اور ہم یہاں تین ہلادینے والی روایات پر قناعت کرتے ہیں ۔

۱ ۔ ایک حدیث میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے آیاہے :

سیأ تی علی الناس زمان تخبث فیه سرائر هم ونحن فیه علانیتهم، طمعاً فی الدنیا لایدون به ما عند ربهم، یکون دینهم ریاء لایخالطهم خوف، یعمعهم الله بعقاب فید عونه دعا ء الغریق فلا یستحب لهم ! :

” لوگوں پر ایک ایسا زمانہ آنے والا ہے جب ان کے باطن قبیح ، گندے اور آلودہ ہوجائیں ، اور ان کے ظاہر زیبا اور خوبصورت ہوں گے۔ دنیا میں طمع کی خاطر وہ اس سے اپنے پروردگار کی جزاو ں کے طلب گار نہیں ہوں گے ۔ ان کا دین ریا ہو جائے گا، خوف خدا ان کے دل میں باقی نہ رہے گا، خد اان سب کو ایک سخت عذاب میں گرفتار کرے گا ، اور وہ جتنا بھی ایک ڈوبنے والے کی طرح خدا کو پکاریں گے ، ہر گز ان کی دعا قبول نہ ہوگی“۔(۲)

۲ ۔ ایک دوسری حدیث میں امام جعفر صادق علیہ السلام سے آیا ہے کہ آپ نے اپنے ایک صحابی” زرارہ“ سے فرمایا :

من عمل للناس کان ثوابه علی الناس یا زراره ! کل ریاء شرک !“۔

” جو شخص لوگوں کے لیے عمل کرے گا اس کا اجر و ثواب لوگوں پر ہی ہو گا۔ اے زرارہ ! ہر ریا شرک ہے ۔(۳)

۳ ۔ ایک اور حدیث میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ آلہ وسلم سے آیاہے :” ان المرائی یدعی یوم القیامة باربعة اسماء:

یا کافر ! یا فاجر ! غادر ! یا خاسر ! حبط عملک ، و بطل اجرک، فلا خلاص لک الیوم ، فالتمس اجرک ممن کنت تعمل له !:

” ریا کار شخص کو قیامت کے دن چار ناموں سے پکارا جائے گا:

اے کافر! اے فاجر ! اے حیلہ گر ! اے خاسر و زیاں کار ! تیرا عمل نابود ہو گیا ہے ، تیرا اجر و ثواب باطل ہوچکا ہے۔ آج تیرے لیے نجات کی کوئی راہ نہیں ہے ، لہٰذا تو اپنا اجر و ثواب اس سے طلب کر جس کے لیے تو عمل کرتا تھا۔ ۴

خد اوندا ! خلوص نیت سخت مشکل کام ہے ، تو خود اس راہ میں ہماری مدد فرما۔

پروردگارا ! ہمیں ایسا ایمان مرحمت فر ما کہ ہم تیرے ثواب و عقاب کے علاوہ اور کچھ نہ سوچیں ، او رمخلوق کی رضا و خشنودی اور غصہ و غضب تیری راہ میں ہمارے لیے یکساں ہو۔

بار لہٰا ! اس راہ میں جو خطا اور غلطی اب تک ہم نے کی ہے وہ ہمیں بخش دے ۔

آمین یا رب العالمین ۔

____________________

۱۔وسائل الشیعہ“ جلد اول ص ۳۵ ( ابواب مقدمہ العبادات باب ۵ حدیث ۱۰)۔

۲۔ ” اصول کافی “ جلد ۲ باب الریاء حدیث ۱۴۔

۳۔ ” وسائل الشیعہ “ جلد اول ص ۴۹ ( حدیث ۱۱ کے ذیل میں )۔

۴۔ ” وسائل الشیعہ “ جلد اول ص ۵۱ ( حدیث ۱۶ کے ذیل میں )۔