تفسیر نمونہ جلد ۱۵

تفسیر نمونہ 0%

تفسیر نمونہ مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن

تفسیر نمونہ

مؤلف: آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی
زمرہ جات:

مشاہدے: 59106
ڈاؤنلوڈ: 3747


تبصرے:

جلد 1 جلد 4 جلد 5 جلد 7 جلد 8 جلد 9 جلد 10 جلد 11 جلد 12 جلد 15
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 169 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 59106 / ڈاؤنلوڈ: 3747
سائز سائز سائز
تفسیر نمونہ

تفسیر نمونہ جلد 15

مؤلف:
اردو

آیات ۱،۲،۳،۴،۵

( بسم الله ارحمن ارحیم )

۱ ۔( تبّت یدا ٓ ابی لهبِ وَّتبّ ) ۲ ۔( ما اغنی عنه ما له وما کسب )

۳ ۔( سیصلیٰ نارا ذات لهب ) ۴ ۔( وامراته حما لة الحطب ) ۵ ۔( فی جید هاحبل من مسد )

ترجمہ

شروع اللہ کے نام سے جو رحمان و رحیم ہے

۱ ۔ابو لہب کے دونوں ہاتھ کٹ جائیں (اور وہ ہلاک ہو جائے)۔

۲ ۔اس کے مال و دولت نے اور جو کچھ اس نے کمایا ہے اسے ہر گز کو ئی فائدہ نہ دیا۔

۳ ۔وہ جلدی اس آگ میں داخل ہوجائے گا جس کے شعلے بھڑک رہے ہیں ۔

۴ ۔ اور اسی طرح سے اس کی وہ بیوی جو ایندھن اٹھانے والی ہے ۔ ۵ ۔ اور اس کی گردن میں خرما کی چھال کی رسی ہے ۔

ابو لہب کا ہاتھ کٹ جائے

جیسا کہ ہم نے اس سورہ کے شان نزول میں بیان کیا ہے یہ سورہ حقیقت میں پیغمبر اکرم کے چچا،عبد المطلب کے بیٹے”ابو لہب کی بری باتوں کاجوا ب ہے جو اسلام کے سخت دشمنو ں میں سے تھا اور جس نے پیغمبر اکرم کی آشکار اور عمومی دعوت اور عذاب ِالٰہی کے بارے میں آپ کے انداز کو سن کر یہ کہا تھا کہ:”تو ہلاک ہو جائے ،کیا تو نے ہمیں انہی باتوں کے لیے پکارا تھا“؟

قرآن مجید اس بد زبان شخص کے جواب میں فرماتا ہے :

”ابو لہب کے دونوں ہاتھ کٹ جائیں ،یا وہ ہلاک ہو جائے اور خسارہ اُٹھائے “۔

( تب یدا ابی لهب وتب ) ”تب“و ”تباب “(بر وزن ِخراب )”مفر دات “میں ”راغب “کے قول کے مطابق دائمی خسارے کے معنی میں ہے لیکن ”طبرسی“نے”مجمع البیان “میں یہ کہا ہے کہ یہ اس نقصان کے معنی ہے جو ہلاکت پر منتہی ہو۔

بعض ارباب لغت نے اس کی ”قطع کرنے “کے معنی میں بھی تفسیر کی ہے اور شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ ہلاکت پر منتہی ہو نے والا دائمی نقصان طبعاََ قطع ہونے اور کٹ جانے کا سبب بنتا ہے۔ان معانی کے مجموعہ سے وہی بات معلوم ہوتی ہے جو ہم نے آیہ کے معنی میں بیان کی ہے ۔

البتہ یہ ہلاکت اور نقصان ممکن ہے دنیوی پہلو رکھتا ہو یا معنوی و اُخروی یا دونوں ۔

یہاں یہ سوال سامنے آتاہے کہ قرآن مجید نے اپنی روش اور سیرت کے بر خلاف ایک شخص کا نام کیسے لے لیااوراس شدّت کے ساتھ اس پر حملہ کیو ں کیا ہے ؟لیکن ابو لہب کی حثییت معلوم ہو نے سے اس سوال کا جواب واضح ہوجاتا ہے۔اس کا نام ”عبد العزیٰ“(عزی بت کا بندہ )اور اس کی کنیت”ابو لہب “تھی ۔اس کے لیے اس کنیت کا انتخاب شاید اس وجہ سے تھاکہ اس کاچہرہ سرخ اور بھڑکتا ہو اتھا ،چو نکہ لغت میں لہب آگ کے شعلہ کے معنی میں ہے۔

وہ اور اس کی بیوی ”اُمِ جمیل “جو ابو سفیان کی بہن تھی ،پیغمبر اکرم کے نہایت بد زبان اور سخت ترین دشمنو ں میں سے تھے۔ایک روایت میں آیا ہے کہ ”طارق محاربی“نامی ایک شخص کہتا ہے :میں ”ذی المجاز“ کے بازار میں تھا۔(ذی المجاز عر فات کے نزدیک مکہّ سے تھوڑے سے فاصلہ پر ہے)اچانک میں نے ایک جوان کو دیکھاجو پکار پکار کر کہہ رہا تھا:اے لوگوں !لا الٰہ الاّاللہ کا اقرار کر لوتو نجات پا جاؤ گے ۔اور اس کے پیچھے پیچھے میں نے ایک شخص کو دیکھا جو اس کے پاؤں کے پچھلے حصہ پر پتھر مار تا جاتا ہے جس کی وجہ سے اس کے پاؤں سے خون جاری تھا اور وہ چلا چلا کر کہہ رہاتھا”اے لوگوں !یہ جھوٹاہے،اس کی بات نہ ماننا“!

میں نے پوچھا کہ یہ جوان کون ہے ؟تو لوگوں نے بتایا:”یہ محمّد“ ہے جس کا گمان یہ ہے کہ وہ پیغمبر ہے اور یہ بوڑھا اس کا چچا ابو لہب ہے جو اس کو جھوٹا سمجھتاہے۔.-(۱)

ایک اور د وسری روایت میں آیا ہے کہ ”ربیع بن عباد“کہتا ہے :میں اپنے باپ کے ساتھ تھا،میں نے رسول اللہ کو دیکھا کہ وہ قبائل عرب کے پاس جاتے اورہر ایک کو پکار کر کہتے:میں تمہاری طرف خدا کا بھیجا ہو ارسول ہوں :تم خدائے یگانہ کے سوا کسی اور کی عبادت نہ کرواور کسی کو اس کا شریک نہ بناؤ۔جب وہ اپنی بات سے فارغ ہو جاتا تو ایک خو برو بھینگا آدمی جو ان کے پیچھے پیچھے تھا،پکار کر کہتا:”اے فلاں قبیلہ :یہ شخص یہ چاہتا ہے کہ تم لات وعزی بت اور اپنے ہم پیمان جنوں کو چھوڑدو اور اس کی بد عت وضلالت کی پیروی کر نے لگ جاؤ۔اس کی بات نہ سننا، اور ا س کی پیروی نہ کرنا!میں نے پوچھا کہ یہ کون ہے ؟تو انہوں نے بتایا کہ یہ ”اس کا چچا ابو لہب ہے“۔(۲)

ایک اور روایت میں آیا ہے کہ جب مکہّ سے باہر کے لوگوں کا کوئی گروہ اس شہرمیں داخل ہوتا تھا تو وہ پیغمبر سے اس کی رشتہ داری اور سن و سال کے لحاظ سے بڑا ہو نے کی بنا پر ابو لہب کے پاس جاتا تھااور رسول اللہ کے بارے میں تحقیق کرتا تھا ۔وہ جواب دیتا :محمّد ایک جادو گر ہے۔وہ بھی پیغمبر سے ملاقات کیے بغیر ہی لوٹ جاتے۔اسی اثناء میں ایک ایسا گروہ آیا جنہوں نے یہ کہا کہ ہم تو اسے دیکھے بغیر واپس نہیں جائیں گے۔ابو لہب نے کہا:”ہم مسلسل اس کے جنون کا علاج کر رہے ہیں !وہ ہلاک ہو جائے !(۳)

ان روایات سے اچھی طرح معلوم ہو جاتا ہے کہ وہ اکثر مواقع پرسایہ کی طرح پیغمبر کے پیچھے لگا رہتا تھا اور کسی خرابی سے فرد گزاشت نہ کرتا تھا۔خصوصاََاس کی زبان بہت ہی گندی اور آلودہ ہوتی تھی اور و ہ رکیک اور چبھنے والی باتیں کیا کرتاتھا۔اور شاید اسی وجہ سے پیغمبر اسلام کے سب دشمنوں کا سر غنہ شما رہوتا تھا ۔اسی بناء پرزیربحث آیات اس پر اس کی بیوی ام جمیل پر ایسی صراحت ا ور سختی کے ساتھ تنقید کر رہی ہیں ۔

وہی ایک اکیلاایسا شخص تھا جس نے پیغمبر اکرم سے بنی ہاشم کی حمایت کے عہد و پیمان پر دسخظ نہیں کیے تھے اور ا س نے آپ کے دشمنوں کی صف میں رہتے ہوئے دشمنوں کے عہد وپیمان میں شرکت کی تھی ۔ان حقا ئق کی طرف توجہ کرنے سے اس سورہ کی استثنائی کیفیت کی دلیل واضح ہو جاتی ہے۔

اس کے بعد مزید فرماتا ہے:اس کے مال و ثروت نے اور جوکچھ اس نے کمایا ہے اس نے ،اسے ہرگزکوئی فائدہ نہیں دیااور وہ اسے عذاب الٰہی سے نہیں بچا ئے گا۔“( ما اغنیٰ عنه ما له وما کسب ) (۴)

اس تعبیر سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ ایک دولت مند مغرور شخص تھا جو اپنی اسلام دشمن کو ششوں کے لیے اپنے مال ِو دولت پربھروسہ کرتاتھا۔

بعد والی آیت میں مزید کہتاہے:”وہ جلدی ہی اس آگ میں داخل ہوگاجس کے شعلے بھڑکنے والے ہیں ۔“( سیصلیٰ نارََا ذات لهب ) اگر اس کا نام ”ابو لہب “تھا تو اس کے عذاب کی آگ بھی”ابو لہب “ہے اور وہ بہت ہی عظیم شعلے رکھتی ہے۔(اس بات پر توجہ رہے کہ ”لہب “یہاں نکرہ کی صورت میں آیا ہے اور یہ اس شعلہ کی عظمت کی دلیل ہے)۔نہ صرف ابو لہب کو بلکہ کسی بھی کافر اور بد کارکو اس کا مال و ثروت اور اس کی اجتماعی ومعا شرتی حثییت جہنم کی آگ اور خدا کے عذاب سے رہائی نہیں بخشیں گے،جیسا کہ سورہ شعراء کی آیہ ۸۸ و ۸۹ میں آیا ہے:( یوم لا ینفع مال ولا بنون الّامن اتی الله بقلب سلیم ) :قیامت ایک ایسا دن ہے جس میں انسان کو نہ تو ا س کامال ہی کوئی فائد ہ دے گا اور نہ ہی اس کی کوئی اولاد ،سوائے اس شخص کے جو قلب سلیم (یعنی ایمان و تقویٰ کی روح کے ساتھ )پر وردگار کے دربار میں حاضر ہو۔مسلمہ طور پر آیہ ”( سیصلیٰ ناراََ ذات لهب ) “سے مراد جہنم کی آگ ہے ،لیکن بعض نے احتمال دیا ہے کہ اس میں دنیا کی آگ بھی شامل ہے ۔

روایات میں آیا ہے کہ جنگ ”بدر “اور سخت شکست کے بعد ،جو مشرکین قریش کو اُٹھانی پڑی تھی ،ابو لہب نے جو خود میدان جنگ میں شریک نہیں ہو اتھا۔ابو سفیان کے واپس آنے پر اس سے ماجرے کے بارے میں سوال کیا:

ابوسفیان نے قریش کے لشکر کی شکست اور سر کوبی کی کیفیت اس سے بیان کی ۔اس کے بعد اس نے مزید کہا:خدا کی قسم ہم نے اس جنگ میں آسمان و زمین کے درمیان ایسے سوار دیکھے ہیں جو محمّد کی مدد کے لیے آئے تھے ۔اس موقع پر”عباس “ کے ایک غلام ”ابو رافع“نے کہا :میں وہاں بیٹھا ہوا تھا ،میں نے ا پنے ہاتھ بلند کیے اور کہا کہ وہ آسمانی فرشتے تھے۔اس سے ابو لہب بھڑک اُٹھا اور اس نے ایک زور دار تھپڑ میرے منہ پر دے مارا۔مجھے اُٹھا کرزمین پر پٹخ دیااور اپنے دل کی بھڑاس نکالنے کے لیے مجھے پیٹے چلے جا رہا تھا۔وہاں عباس کی بیوی”ام الفضل“ بھی موجودتھی اس نے ایک چھڑی اُٹھائی اورابو لہب کے سر پر دے ماری اور کہا:”کیا تو نے اس کمزور آدمی کو اکیلا سمجھا ہے ؟“

ابو لہب کا سر پھٹ گیا اور اس سے خون بہنے لگا۔سات دن کے بعد اس کے بدن میں بدبو پیدا ہو گئی،اس کی شکل میں طاعون کے دانے نکل آئے اور وہ اسی بیماری سے واصل جہنم ہو گیا۔اس کے بدن سے اتنی بدبو آرہی تھی کہ لوگ اس کے نزدیک جانے کی جرات نہیں کرتے تھے ۔وہ اسے مکہّ سے باہر لے گئے اور دور سے اس پر پانی ڈالااور اس کے بعد اس کے اُوپرپتھر پھینکے۔یہاں تک کہ اس کا بدن پتھروں اور مٹی کے نیچے چھپ گیا ۔(۵)

بعد والی آیت میں اس کی بیوی ”اُمِ جمیل “کی کیفیت بیان کرتے ہوئے فرماتا ہے :”اس کی بیوی بھی جہنم کی بھڑکتی ہوئی آگ میں داخل ہوگی،جو اپنے دوش پر ایندھن اُٹھاتی ہے ۔“( وامراته حما لة الحطب ) (۶)

”اور اس کی گردن میں خرما کی چھال کی رسیّ یاگردن بند ہے۔“( فی جید ها حبل من مسد )

کوئی شک و شبہ نہیں ہے کہ ابو لہب کی بیوی ۔جو ”ابو سفیان “ کی بہن اور معاویہ کی پھو پھی تھی ۔اسلام کے بر خلاف اپنے شوہر کی عداوتوں اور خرابیوں میں برابر کی شریک تھی لیکن اس بارے میں کہ قرآن نے اس کی حما لة الحطب (دوش پر ایندھن اُٹھانے والی عورت ) کے ساتھ تو صیف کیوں کی ہے،مفسرین نے متعددتفسیر یں بیان کی ہیں :بعض نے تو یہ کہا ہے کہ یہ اس بناء پر ہے کہ وہ کاٹیں دار جھاڑیاں کندھے پراُٹھا کرلاتی تھی اور پیغمبر کے راستہ میں ڈال دیا کرتی تھی تا کہ وہ آپ کے پاؤ ں میں چبھ جائیں ۔اور بعض نے یہ کہا ہے کہ یہ تعبیر اس کی سخن چینی اور چغل خوری کے بارے میں آئی ہے ،جیسا کہ کسی نے کہاہے :میان دوکس جنگ چوں آتش است سخن چین بد بخت ہیزم کش است

دو آدمیوں کے در میان جنگ آگ کے مانندہے اور بد بخت چغل خور ایندھن اُٹھانے والا ہے ۔

بعض اسے اس کے شدت سے بُخل سے کنا یہ سمجھتے ہیں ،کیو نکہ وہ اتنی دولت مند ہو نے کے با وجود کسی ضرورت مند کی مددکے لیے تیار ہی نہیں ہوتی تھی ۔اسی لیے اسے ”ہیز م کش“ایندھن اُٹھانے والے فقیر سے تشبیہ دی گئی ہے ۔

بعض یہ بھی کہتے ہیں کہ وہ قیامت میں بہت سے گروہوں کے گناہوں کو اپنے کندھے پر اُٹھائے ہوئے ہوگی ۔ان معانی میں سے پہلا معنی سب سے زیادہ مناسب ہے ،اگر چہ ان کے در میان جمع بھی بعید نہیں ہے ۔

”جید “(بر وزن دید )”گر دن “کے معنی میں ہے اور اس کی جمع ”ا جیاد“ ہے بعض ارباب لغت کا نظریہ یہ ہے کہ ”جید “و ”عنق “ اور ”رقبہ “تینوں کے ایک ہی معنی ہے ، فرق صرف یہ ہے کہ ”جید “سینہ سے اُوپر والے حصہ کو کہا جاتا ہے ،”عنق “گر دن کی پشت یا ساری گردن کو اور ”رقبہ “مطلقاََگردن کو کہا جاتا ہے ۔اور بعض اوقات ایک انسان کو بھی ”رقبہ“کہتے ہیں ،مثلاََ:”فک رقبه “یعنی انسان کو آزاد کرنا ۔(۷)

”مسد “(بر وزن حسد ) اس رسی کے معنی میں ہے جو کھجور کے پتوں سے بنائی جاتی ہے ۔بعض نے یہ کہا ہے کہ ”مسد “وہ رسی ہے جو جہنم میں اس کی گردن میں ڈالیں گے جس میں کھجور کے پتوں جیسی سختی ہو گی اور اس میں آگ کی حرارت اور لو ہے کی سنگینی ہو گی۔

بعض نے یہ بھی کہا ہے کہ چو نکہ بڑے لوگوں کی عورتیں اپنی شخصیت کو آلات و زیو رات خصو صاََگردن کے قیمتی زیورات سے زینت دینے میں خاص بات سمجھتی ہیں ،لہٰذا خدا قیا مت میں اس مغرور و خود پسند عورت کی تحقیر کے لیے لیف خرما کاایک گردن بند اس کی گردن میں ڈال دے گا۔یا یہ اصلاََاس کی تحقیر سے کنایہ ہے۔

بعض نے یہ بھی کہا ہے کہ اس تعبیر کے بیان کرنے کاسبب یہ ہے کہ ”اُمِ جمیل “کے پاس جوا ہرات کا ایک بہت ہی قیمتی گردن بند تھا اور اس نے یہ قسم کھائی تھی کہ وہ اسے پیغمبر اکرم کی دشمنی میں خرچ کرے گی،لہٰذا اس کے اس کام کے بدلے میں خدا نے بھی اس کے لیے ایسا عذاب مقرر کر دیا ہے -

____________________

۱- مجمع البیان “جلد ۱۰ ص۵۵۹

۲-فی ظلا ل القرآن“جلد ۸ص۶۹۷

۳-تفسیر القرآن “جلد ۳۰ص۵۰۳

۴- ماکسب “میں ”ما“ ممکن ہے”مو صولہ“یا ”مصدریہ“ہو،بعض ا س کے لیے ایک وسیع معنی کے قائل ہیں جو نہ صرف اس کے اموال بلکہ اس کی اولاد کو بھی شامل ہے ،اور ”ما اغنیٰ عنہ “میں ”ما“مسلمہ طور پر”مانا فیہ “ہے ۔

۵--بحار الانوار “جلد ۱۹ ص۲۲۷

۶- ”امراتہ“ ”سیصلیٰ“میں پوشیدہ ضمیر پر عطف ہے اور حما لة الحطب “ حال ہے اور منصوب ہے،اور بعض نے مثل ”زمخشری “ کے ”کشاف“میں اسے ”ذم “ کے عنوان سے منصوب جاناہے ۔اور تقدیر میں اس طرح ہے اذاحما لة الحطب ۔لیکن مسلمہ طور پرپہلا معنی بہتر ہے ۔

۷- التحقیق فی کلمات القرآن الکر یم “جلد ۲ ،ص۱۵۸

۱ ۔ قرآن کے اعجاز کی ایک اور نشانی

ہم جانتے ہیں کہ یہ آیات مکہّ میں نازل ہوئیں اورقرآ ن کریم نے دو ٹوک طریقہ سے یہ خبر دی تھی کہ ابو لہب اور اس کی بیوی جہنم کی آگ میں ہوں گے ،یعنی وہ ہر گز بھی ایمان نہیں لائیں گے۔انجام کار ایسا ہی ہوا ،بہت سے مشرکین مکہّ توواقعی طور پر ایمان لے آئے اور بعض ظاہری طور پر مسلمان ہو گئے ،لیکن وہ افراد جو نہ تو واقع میں ایمان لائے اور نہ ہی ظاہر بظاہر ،وہ یہ دونوں تھے ۔یہ قرآن مجید کے غیبی اخبار میں سے ایک ہے اور قرآن نے دوسری آیات میں بھی اس قسم کی خبریں دی ہیں جن میں قرآن کی غیبی خبروں کے عنوان کے تحت اعجاز ِ قرآن کی ایک فصل کو مخصوص کیا گیا ہے اور ہم نے ان آیات میں سے ہر ایک کے ذیل میں مناسب بحث کی ہے

۲ ۔ ایک اور سوال کا جواب

یہاں ایک سوال سامنے آتا ہے اور وہ یہ ہے کہ قرآن مجید کی ان پیشین گوئیو ں کی مو جودگی میں ممکن نہیں تھا کہ ابو لہب اور اس کی بیوی ایمان لے آتے ،ورنہ یہ خبر جھو ٹی اور دردغ ہو جاتی ۔

یہ سوال اسی معروف سوال کے مانندہے جو ”علم ِ خدا “کے مسئلہ کے بارے میں جبر کی بحث میں پیش ہوا ہے اور وہ یہ ہے کہ ہم جانتے ہیں کہ وہ خدا جو ازل سے ہر چیز کا عالم تھا ،وہ گنہگاروں کے گناہ اور اطاعت گزاروں کی اطاعت کو جانتا تھا ۔اس بناء پر اگر گنہگار گناہ نہ کرتے تو خداکا علم جہالت میں بدل جائے ۔

علماء اور فلا سفئہ اسلام قدیم سے اس سوال کا جواب دے چکے ہیں اور وہ یہ ہے کہ خدا جانتا ہے کہ ہر شخص اپنے اختیار و آزادی سے فائدہ اُٹھا تے ہوئے کون کون سے کام انجام دے گا ،مثلاََزیرِبحث آیات میں خدا ابتداء سے جانتا تھا کہ ابو لہب اور اس کی بیوی اپنی خواہش و رغبت اور ارادہ و اختیار سے ہرگز ایمان نہیں لائیں گے ،جبری اور لازمی طور نہیں ۔

دوسرے الفاظ میں ارادہ و اختیار کی آزادی کا عنصر بھی خدا کو معلوم تھا۔وہ جانتا تھا کہ بندے صفت اختیا ر کے ساتھ اور اپنے ارادہ سے کون سے عمل انجام دیں گے۔

مسلمہ طور پر ایسا علم اور مستقبل کے بارے میں اس قسم کی خبر دینا ،مسئلہ اختیار کی تاکید ہے ،جبراور مجبوری کے لیے کو ئی دلیل نہیں ہے ۔(غور کیجئے)

۳ ۔بے بصیرت رشتہ دار ہمیشہ دور ہوتے ہیں ۔

یہ سورہ ایک مرتبہ پھراس حقیقت کی تاکید کر رہا ہے کہ ایسی رشتہ داری جس میں ایمان اور عقیدہ کا رشتہ نہ ہو اس کی کوئی حیثیت اور قدر و قیمت نہیں ہوتی ،اور مردان ِ خدا منحرف ،جبار اور سر کش لوگوں کے مقابلہ میں کسی قسم کامیلان نہیں رکھتے تھے چاہے وہ ان کے کتنے ہی قریبی رشتہ دار ہوں ۔

با وجود اس کے کہ ابو لہب پیغمبر اکرم کا چچا تھا اور آپ کے قریب ترین رشتہ داروں میں شمار ہو تاہے ،جب اس نے اپنا اعتقادی اور عملی راستہ آپ سے جدا کر لیا تو اس کی بھی دوسرے منحرف اور گمراہ لوگوں کی طرح سخت ملامت اور سر زنش کی گئی ۔اس کے بر عکس ایسے دور دراز کے لو گ بھی تھے جو نہ صرف پیغمبر کے رشتہ داروں میں شمار نہ ہو تے تھے ،بلکہ آپ کے خاندان اور اہل زبان سے بھی نہیں تھے ،لیکن وہ فکری ،اعتقادی اور عملی رشتہ کی بنا ء پر اس قدر نزدیک ہو گئے ، کہ مشہور حدیث میں سلمان منا اھل البیت (سلمان ہم اہل بیت میں سے ہیں )کے مطابق گویا خاندانِ رسالت کاجزء ہو گئے ۔

یہ ٹھیک ہے کہ اس سورہ کی آیات صرف ابو لہب اور اس کی بیوی کے بارے میں گفتگو کر رہی ہیں لیکن یہ بات واضح ہے کہ صرف ان کے صفات کی وجہ سے ان کی ایسی مذمت کی گئی ہے ۔اس بناء پر جو شخص یا جو گروہ اُنہیں اوصاف کا حامل ہوگا اس کی سر نو شت بھی ا ُ نہیں جیسی ہوگی ۔

خدا وندا!ہمارے دل کو ہر قسم کی ہٹ دھرمی اور عناد سے پاک کر دے ۔

پر ور دگار!ہم سب اپنے انجام اور عاقبت کار سے ڈرتے ہیں ،ہمیں امن و سکون اور آرام بخش دےو اجعل عاقبةامر نا خیراََ ،(ہماری عاقبت بخیر کر)

بارِالہا !ہم جانتے ہیں کہ اس عظیم عدالت میں نہ تو مال و دولت کام آتے ہیں اور نہ ہی کوئی رشتہ داری فائدہ دیتی ہے ،صرف تیرا لطف و کرم ہی کام آتا ہے ،لہٰذا ہم پر اپنا لطف و کرم کر ۔

آمین یا ربّ العالمین

سورہ اخلاص

یہ سورہ مکہّ میں نازل ہوا ۔ اس میں ۴ آیات ہیں

سورہ اخلاص “ کے مطالب

یہ سورہ ۔ جیسا کہ اس کے نام سے واضح ہے (سورئہ اخلاص اور سورہ توحید )پروردگارکی توحید اور اس کی یگا نگت اور یکتائی کے بارے میں گفتگو کرتا ہے اور چار مختصر سی آیات میں خدا کی وحدانیت کی اس طرح سے تو صیف و تعریف کی ہے جس میں اضافہ کی ضرورت نہیں ہے ۔

اس سورہ کی شان نزول کے بارے میں امام جعفر صادق علیہ السلام سے اس طرح نقل ہوا ہے :

”یہو دیو ں نے رسول اللہ سے یہ تقا ضا کیا کہ آپ ان کے لیے خدا کی تو صیف بیان کریں ۔پیغمبر تین دن تک خاموش رہے اور کوئی جواب نہ دیا،یہا ں تک کہ یہ سورہ ناز ل ہوا اور ان کو جواب دیا۔“

بعض روایات میں آیا ہے کہ یہ سوال کرنے والا ”عبد اللہ بن صوریا“تھا ،جو یہودیوں کے مشہور سر داروں میں سے ایک تھا۔اور دوسری روایت میں یہ آیا ہے کہ اس قسم کاسوال ”عبد اللہ بن سلام “نے پیغمبر اکرم سے مکہّ میں کیا تھا اور اس کے بعد وہ ایمان لے آیا تھا ۔لیکن اپنے ایمان کو اسی طرح سے چھپا ئے ہوئے تھا ۔دوسری روایات میں یہ آیا ہے کہ اس قسم کا سوال مشرکین مکہّ نے کیا تھا۔(۱)

بعض روایات میں یہ بھی آیا ہے کہ سوال کر نے والا نجران کے عیسائیوں کا ایک گروہ تھا ۔

ان روایات کے در میان کوئی تضاد نہیں ہے،کیو نکہ ممکن ہے کہ یہ سوال ان سب کی طرف سے ہو اہو ۔اور یہی بات اس سورہ کی حد سے زیادہ عظمت و بزرگی کی ایک دلیل ہے جو مختلف افراد و اقوام کے سوالات کا جو اب دیتا ہے

اس سورہ کی تلاوت کی فضیلت

اس سورہ کی تلاوت کی فضیلت کے بارے میں مشہور اسلامی منابع میں بہت سی روایات آئی ہیں ،جو اس سورہ کی حد سے زیادہ عظمت کی تر جمان ہیں ۔منجملہ ۔

ایک حدیث میں پیغمبر اکرم سے آیا ہے کہ آپ نے فر مایا:

ایعجزاحد کم ان یقراثلث القرآن فی لیلة

”کیا تم میں سے کوئی شخص اس بات سے عاجز ہے کہ ایک ہی رات میں ایک تہائی قرآن پڑھ لے ۔“

حا ضرین میں سے ایک نے عرض کیا ،اے رسول ِخدا ،ایسا کرنے کی کس میں طاقت ہے ؟

پیغمبر نے فر مایا :”اقرء واقل هو الله احد “”سورہ قل ھو اللہ پڑھا کرو “

ایک اور حدیث میں امام جعفر صادق علیہ السلام سے آیا ہے کہ جب رسول خدا نے ”سعد بن معاذ“کے جنازے پر نماز پڑھی تو آپ نے فر مایا :”ستر ہزار فرشتوں نے، جن میں جبرئیل بھی تھے ،اس کے جنازے پر نماز پڑھی ہے ۔میں نے جبرئیل سے پو چھا ہے کہ وہ کس عمل کی بناء پر تمہارے نماز پڑھنے کا مستحق ہو ا ہے “؟

جبرئیل نے کہا :’(اٹھتے بیٹھتے ،پیدل چلتے اور سوار ہوتے اور چلتے پھرتے ”قل هو الله احد “ پڑھنے کی وجہ سے “(۲)

ایک اور حدیث میں پیغمبر اکرم سے آیا ہے کہ آپ نے فر مایا :”جس شخص پر ایک رات اور دن گزر جائے ،اور وہ پنجگانہ نمازیں پپڑھے اور ان میں قل ھو اللہ احد کی قرات نہ کرے تو اس سے کہا جائے گا:یا عبد اللہ!لست من المصلین “!:

”اے بندہ خدا تو نماز گزارو ں میں سے نہیں ہے ۔(۳)

ایک اور حدیث میں پیغمبر اکرم سے آیا ہے کہ آپ نے فر مایا :”جو شخص خدا اور روزِ قیا مت پر ایمان رکھتا ہے وہ ہر نماز کے بعد قل ھو اللہ احد کے پڑھنے کو ترک نہ کرے کیو نکہ جو شخص اسے پڑھے گاخدا اس کے لیے خیر دنیا و آخرت جمع کر دے گا ۔اور خود اسے اور اس کے ماں باپ اور اس کی اولاد کو بخش دے گا“(۴)

ایک اور حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ گھر میں داخل ہوتے وقت اس سورہ کا پڑھنا ،رزق کو بڑھاتا ہے اور فقر و فا قہ کو دور کردیتا ہے ۔(۵)

اس سورہ کی فضیلت میں اتنی زیادہ روایات ہیں کہ وہ اس مختصر بیان میں نہیں سما سکتیں اور ہم نے جو کچھ نقل کیا ہے وہ صرف ان کا ایک حصہ ہے ۔اس بارے میں کہ سورہ ”قل ھو اللہ “قرآن کی تہائی کے برا بر کیسے ہو گیا؟تو بعض نے تو یہ کہا ہے کہ یہ اس بناء پر ہے کہ قرآن ”احکام “و ”عقا ئد “اور ”تا ریخ “پر مشتمل ہے اور یہ سورہ عقا ئد کے حصہ کو اختصار کے ساتھ بیان کرتا ہے ۔

بعض دوسرے مفسرین نے یہ کہا ہے کہ قرآن کے تین حصے ہیں ”مبداء“و ”معاد “اور ”جوکچھ ان دونوں کے درمیان ہے“اور یہ سورہ پہلے حصہ کی تشریح کرتا ہے ۔

یہ بات قابل قبو ل ہے کہ قرآن کی تقریباََایک تہائی توحید کے بارے میں بحث کرتی ہے ،اور اس کا خلا صہ سورہ تو حید میں آیا ہے

ہم اس گفتگو کو اس سورہ کی عظمت کے بارے میں ایک دوسری حدیث کے ساتھ ختم کرتے ہیں ۔امام علی بن الحسین علیہ السلام سے لوگوں نے سورئہ توحید کے بارے میں سوال کیا تو آپنے فر مایا :

ان الله عز و جل علم انه یکون فی اٰخر الزمان اقوام متعمقون،فا نزل الله تعالیٰ قل هو الله احد ،والاٰیات من سورةالحدیدالی قو له :”وهو علیم بذات الصدور“فمن رام وراء ذالک فقد هلک

”خدا وند تعالی ٰجانتا تھا کہ آخری زمانہ میں ایسی قو میں آئیں گی جو مسا ئل میں تعمق اور غور و خو ض کرنے والی ہو ں گی ،لہٰذااس نے (مبا حث توحید اور خدا شناسی کے سلسلہ میں )سورہ قل ھو اللہ احد اور سورئہ حدید کی آیات ،علیم بذا ت الصدور تک نا زل فر مائیں ۔جو شخص اس سے زیادہ کا طلب گار ہوگاوہ ہلاک ہو جا ئے گا ۔(۶)

جملہ کا ”ھو “کی ضمیر کے ساتھ آغاز ،جو واحد غائب کی ضمیر ہے اور ایک مبہم مفہوم کو بیان کرتی ہے ،حقیقت میں اس واقعیت کی ایک رمز اور اشارہ ہے کہ اس کی ذات اقدس انتہائی خفا ء میں ہے اور انسانوں کے محدود افکار کی دسترس سے باہر ہے اگر چہ اس کے آ ثار نے جہان کو اس طرح سے پر کر رکھا ہے کہ وہ ہر چیز سے زیادہ ظاہر اور زیادہ آشکار ہے ۔جیسا کہ سورہ حٰم سجدہ کی آیہ ۵۳ میں آیا ہے :

سنر یهم اٰیاتنا فی الاٰفاق و فی انفسهم حتی یتبین لهم انه الحق :“”ہم جلدی ہی اطراف جہان اور ان کے نفسوں میں اپنی نشانیاں دکھا ئیں گے،تا کہ واضح ہوجائے کہ وہ حق ہے “اس کے بعد اس نا شنا ختہ حقیقت سے پر دہ اٹھائے ہو ئے کہتا ہے،”وہ یکتا و یگانہ خدا ہے “ضمنی طور پر یہاں ”قل “(کہہ دے )کا معنی یہ ہے کہ اس حقیقت کا اظہار کرو ۔

ایک حدیث میں امام محمد باقر علیہ السلام سے آیا ہے کہ آپنے اس بات کا ذکر کرنے کے بعد فرمایا کہ کفار و بت پر ست اسم اشارہ کے ساتھ اپنے بتوں کی طرف اشارہ کرتے تھے اور کہتے تھے :

”اے محمد !یہ ہمارے خدا ہیں ،تو بھی اپنے خدا کی تعریف و تو صیف کرتا کہ ہم اسے دیکھیں اور اس کا ادراک کریں ۔تو خدا نے یہ آیات نازل کیں :قل هو الله احد ۔۔۔۔”ھا “”ھو “میں ، مطلب کو ثابت کرنے اور توجہ دینے کے لیے ہے اور ”واو “ضمیر غائب ہے ،جو اس ذات کی طرف اشارہ ہے جو آنکھو ں کے دیکھنے سے غائب اور حواس کے لمس سے دور ہے ،“(۷)

ایک اور حدیث میں امیر المو منین علی علیہ السلام سے آیا ہے کہ آپ نے فر مایا:

”جنگ ِ بدر کی رات میں نے ”خضر“علیہ السلام کوخواب میں دیکھا اور ان سے کہا کہ مجھے کوئی ایسی چیز بتائیں جس کی مدد سے میں دشمنو ں پر کامیاب ہوں “تو انہوں نے کہا :کہیئے:”یا هو ، یامن لاهو الّا هو

____________________

۱۔ المیزان جلد ۱۰ ص۵۴۶

۲۔”مجمع البیان “جلد ۱۰ ص۵۶۱

۳۔ ”مجمع البیان “جلد ۱۰ ص۵۶۱اور تفسیرو حدیث کی دوسری کتا بیں ۔

۴۔”مجمع البیان “جلد ۱۰ ص۵۶۱ اور تفسیرو حدیث کی دوسری کتا بیں

۵۔”مجمع البیان “جلد ۱۰ ص ۵۶۱ اور تفسیر و حدیث کی دوسری کتابیں

۶۔”اصول کافی “جلد ۱ باب السیئہ حدیث ۳

۷۔بعض نے ھو کو یہاں ”ضمیر شان “لیا ہے ، اس بناء پر معنی یہ ہوگا کہ شان و مطلب یہ ہے کہ خدا ایک اکیلا ہے ۔لیکن بہتریہ ہے کہ ”ھو “اس خدا کی پا ک ذات کی طرف اشارہ ہو جو سوال کرنے والوں کے لیے غیر معلوم اورمبہم تھی ۔اس بناء پر”ھو “مبتداء ہے اور ”اللہ “اس کی خبر اور ”احد “خبر کے بعد کی خبر ہے ۔

آیات ۱،۲،۳،

( بسم الله الرّحمن ارحیم )

۱ ۔( قل هو الله احد ) ۲ ۔( الله الصمد ) ۳ ۔( لم یلد ولم یو لد ولم یکن له کفو ااحد )

تر جمہ

شروع اللہ کے نام سے جو رحمان و رحیم ہے

۱ ۔کہہ دیجئے خدا یکتا و یگانہ ہے ۔ ۲ ۔خدا ہی ہے کہ جس کی طرف تمام حاجت مند رُخ کرتے ہیں ۔

۳ ۔نہ تو اس نے کسی کو جنا ہے اور نہ ہی وہ کسی سے پیدا ہو اہے۔ ۴ ۔ اور ہر گز اس کا کوئی ہم پلہ اور مانند نہیں ہے ۔

وہ یکتا اور بے مثال ہے

اس سورہ کی پہلی آیت بار بار کے ان سوالات کے جواب میں ہے جو مختلف اقوام یا افراد کی طرف سے پر وردگارکے او صاف کے سلسلہ میں ہو ئے تھے ،فر ماتا ہے :”کہہ دیجئے وہ یکتا و یگانہ ہے “( قل هو الله احد ) (۱)

جب صبح ہوئی تو میں نے رسول اللہ کی خدمت میں یہ واقعہ بیان کیاتو آپ نے فر مایا‘”یا علی !علمت الاسم الا عظم “اے علی آپ کو اسمِ اعظم کی تعلیم دی گئی ہے “

اس کے بعد جنگ بدر میں یہی جملہ میرا ورد زبان رہا ۔۔(۲)

”عمّاریا سر“ نے جب یہ سنا کہ حضرت امیر المو منین علیہ السلام صفین کے دن جنگ کے وقت یہی ذکر پڑھ رہے تھے تو عرض کیا :یہ کیا کنا یات ہیں ؟تو آپ نے فر مایا :یہ خدا کا اسم اعظم اور تو حید کا ستون ہے ۔(۳)

____________________

۱۔ ”بحار الانوار“جلد ۳ ص۲۲۲

۲”بحار الانوار جلد۳، ص۲۲۲

۳۔”بحار الانوار “جلد ۳،ص۲۲۲

اللہ “خدا کااسم خاص ہے

اللہ “خدا کااسم خاص ہے اور امام کی بات کا مفہوم یہ ہے کہ اسی ایک لفظ کے ذریعے اس کے تمام صفا ت جلال و جمال کی طرف اشارہ ہو ا ہے اور اسی بناء پر اس کو اسم اعظم الٰہی کا نام دیا گیاہے۔اس نام کا خدا کے سوا اور کسی پر اطلاق نہیں ہوتا جب کہ خدا کے دوسرے نام پر اس کی کسی صفت جمال و جلال کی طرف اشارہ ہوتے ہیں ،مثلاََ:عالم و خالق و رازق ،اور عام طور پراس کے غیر پر بھی اطلاق ہوتے ہیں ۔(مثلاََرحیم ،کریم ،عالم ،قادروغیرہ)اس حال میں اس کی اصل اور ریشہ و صفی معنی رکھتا ہے اور اصل میں یہ ”ولہ “سے مشتق ہے ،جو ”تحیر “کے معنی میں ہے کیو نکہ اس کی ذات پاک میں عقلیں حیران ہیں ،جیسا کہ ایک حدیث میں امیر المو منین علی سے آیاہے :

الله معناه المعبود الذی یا له فیه الخلق ویئوله الیه ،والله هوالمستور عن درک الابصار،المحجوب عن الاوهام والخطرات

اللہ کا معنی ایک ایسا معبود ہے جس میں مخلوق حیران ہے اور اس سے عشق رکھتی ہے ۔اللہ وہی ذات ہے جو آنکھوں کے ادراک سے مستور اور مخلوق کے افکار و عقول سے محجوب ہے ۔(۱)

بعض او قات اسے ”الاھة“(بر وزن وبمعنی عبادت )کی اصل اور ریشہ سے بھی سمجھا گیا ہے اور اصل میں ”الالٰہ “ہے جو ”تنہا معبود حقیقی“کے معنی میں ہے ۔

لیکن جیسا کہ ہم نے بیان کیا ہے ۔اس کا ریشہ اور اصل چاہے جو بھی ہو ،بعد میں اس نے اسم خاص کی صورت اختیار کر لی ہے او ر یہ اسی جامع جمیع صفات کمالیہ اور ہر قسم کے عیب و نقص سے خالی ذات کی طرف اشارہ کرتا ہے

اس مقدس نام کا قرآن مجید میں تقریباََایک ہزار “مرتبہ تکرار ہوا ہے اور خدا کے اسماء مقد سہ میں سے کوئی سا نام بھی اتنی مرتبہ قرآن میں ہیں آیا۔یہ ایک ایسا نام ہے جو دل کو روشن کر تاہے اور انسان کو قوت اور توا نائی اور سکون و آرام بخشتا ہے اور اسے نور و صفا کے ایک عالم میں غرق کر دیتا ہے ۔

____________________

۱۔”بحار الانوار “جلد ۳، ص۲۲۲