تفسیر نمونہ جلد ۱۵

تفسیر نمونہ 0%

تفسیر نمونہ مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن

تفسیر نمونہ

مؤلف: آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی
زمرہ جات:

مشاہدے: 59103
ڈاؤنلوڈ: 3746


تبصرے:

جلد 1 جلد 4 جلد 5 جلد 7 جلد 8 جلد 9 جلد 10 جلد 11 جلد 12 جلد 15
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 169 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 59103 / ڈاؤنلوڈ: 3746
سائز سائز سائز
تفسیر نمونہ

تفسیر نمونہ جلد 15

مؤلف:
اردو

لفظ ”احد

لیکن ”احد “کا لفظ”وحدت “کے مادّہ سے ہی ہے اور اسی لیے بعض نے ”احد “اور ”واحد “کی ایک ہی معنی کے ساتھ تفسیر کی ہے ۔ ان کا عقیدہ یہ ہے کہ یہ دونوں ہی اس ذات کی طرف اشارہ ہیں جو ہر لحاظ سے بے مثل و بے نظیر ہے۔علم میں یگانہ ہے ،قدرت میں بے مثل ہے ،رحما نیت اور رحیمیت میں یکتا ہے اور خلا صہ یہ ہے کہ وہ ہر لحاظ سے بے نظیر ہے ۔

لیکن بعض کا نظریہ یہ ہے کہ”احد “اور ”واحد“ میں فرق ہے ۔”احد “اس ذات کو کہا جاتا ہے جو کثرت کو قبول نہیں کرتا ،نہ تو خارج میں اور نہ ہی ذہن میں ۔لہٰذا وہ شمار کرنے کے قابل نہیں ہے اور ہر گز عدو میں داخل نہیں ہوتا ،”واحد “کے بر خلاف کہ اس کے لیے دوسرے اور تیسرے کا تصور ہوتا ہے ،چا ہے وہ خارج میں ہو یا ذہن میں ۔اسی لیے بعض اوقات ہم یہ کہتے ہیں کہ :احدی ازاں جمعیت نیا مد ،یعنی ان میں سے کوئی شخص بھی نہیں آیا لیکن جب ہم یہ کہتے ہیں کہ :واحدی نیامد (ایک نہیں آیا )تو ممکن ہے کہ دو یا چند افراد آئے ہوں ۔(۱)

لیکن یہ فرق قرآن مجید اور احادیث کے مو ارد استعمال کے ساتھ چنداں سا ز گا ر نہیں ہے ۔

بعض کا یہ بھی نظریہ ہے کہ ”احد “(جنس و فصل اور ما ہیت و وجود )کے اجزائے تر کیبیہ خارجیہ یا عقلیہ کے مقابلہ میں خدا کی بساطتِ ذات کی طرف اشارہ ہے کہ جب کہ واحد خارجی کثرتوں کے مقابلہ میں اس کی ذات کی یگانگت کی طرف اشارہ ہے ۔ایک حدیث میں امام باقر علیہ السلام سے آیا ہے کہ ”احد “فرد یگا نہ کو کہتے ہیں ،اور ”احد “اور ” واحد “کا ایک ہی مفہوم ہے ،اور وہ ایک ایسی منفرد ذات ہے جس کا کوئی مثل و نظیر نہیں ہے ۔ او ر” توحید “اس کی یگا نگت ،وحدت اور انفرا دیت کا اقرار ہے ۔

اسی حدیث کے ذیل میں آیا ہے ۔

”واحد عدد نہیں ہے ، بلکہ واحد اعداد کی بنیاد ہے ۔عدد دو سے شروع ہو تا ہے ،اس بناء پر اللہ احد “یعنی وہ معبود جس کی ذات کے ادراک سے انسان عاجز ہیں ،اور جس کی کیفیت کا احاطہ کر نے سے نا تو اں ہیں “کا معنی یہ ہے کہ وہ الٰہیت میں فرد ہے اور مخلو قات کی صفا ت سے بر تر ہے ۔(۲)

قرآن مجید میں ”واحد “ و ” احد “دونوں کا خدا کی ذات پا ک پر اطلاق ہو اہے ۔

یہ بات قابل توجہ ہے کہ تو حید صدوق میں آیا ہے کہ جنگ جمل میں ایک اعرابی نے کھڑے ہو کر عرض کیا اے امیر المو منین!کیا آپ یہ کہتے ہیں کہ خدا واحد ہے ؟تو واحد کا کیا معنٰی ہے ؟

اچا نک لوگو ں نے ہر طرف سے اس پر حملہ کر دیا اور کہنے لگے :”اے اعرابی یہ کیا سوال ہے ؟کیا تو دیکھ نہیں رہا ہے کہ امیر المو منین علیہ السلام مسئلہ جنگ کی فکر میں کتنے مشغول ہیں ؟ہر سخن جائے و ہر نکتہ مقامی دارد !ہر بات کا ایک مو قع اور ہر نکتہ کا ایک مقام ہو تا ہے ۔

امیر المو منین علیہ السلام نے فر مایا :” اسے اس کی حالت پر چھوڑدو کیو نکہ جو کچھ وہ چا ہتا ہے وہی چیز ہم اس دشمن گروہ سے چا ہتے ہیں ۔(وہ تو حید کے بارے میں پو چھ رہا ہے ،ہم بھی مخالفین کو کلمئہ تو حید ہی کی دعوت دے ر ہے ہیں )۔“

اس کے بعد آپ نے فر مایا:

”اے اعرابی یہ جو ہم کہتے ہیں کہ خدا ”واحد“ہے تو اس کے چار معا نی ہو سکتے ہیں جن میں سے دو معا نی خدا کے لیے صحیح نہیں ہیں اور ا س کے دو معا نی صحیح ہیں ۔

”اب وہ دوجو صحیح نہیں ہیں ،ان میں سے ایک وحدت عددی ہے ۔یہ خدا کے لیے جا ئز نہیں ہے (یعنی ہم یہ کہیں کہ وہ ایک ہے دو نہیں ہیں )کیو نکہ اس بات کا مفہوم یہ ہے کہ اس کے لیے دوسرے کا تصور ہو سکتا ہے لیکن وہ مو جود نہیں ہے۔حا لانکہ مسلہ طور پر حق تعالیٰ کی غیر متناہی ذات کے لیے دوسرے کا تصور نہیں ہو ہی سکتا ۔کیو نکہ جس چیز کا کوئی ثانی ہی نہیں ہے وہ باب اعداد میں داخل نہیں ہو تی ۔کیا تو دیکھتا نہیں کہ خدا نے ان لوگو ں کی،جنہوں نے یہ کہا تھاکہ :”ان اللہ ثالث ثلا ثة۔“(خدا تین میں کا تیسرا ہے ،تکفیر کی ہے ۔

”واحد کا دوسرا معنی جو خدا کے لیے صحیح نہیں ہے یہ ہے کہ وہ واحد نو عی کے معنی میں ہو ،مثلاََ:ہم یہ کہیں کہ فلاں آدمی لو گو ں میں سے ایک ہے ،یہ بھی خدا کے لیے صحیح نہیں ہے ۔(کیو نکہ خدا کی کوئی جنس اور نوع نہیں ہے )اس بات کا مفہوم تشبیہ ہے ،اور ہر قسم کی تشبیہ اور نظیر سے برترو بالا تر ہے۔”اب رہے وہ دو مفہوم جو خدا کے بارے میں صحیح اور صادق ہیں ، ان میں سے پہلا یہ ہے کہ یہ کہا جائے کہ خدا واحد ہے یعنی اشیاء عالم میں کوئی اس کی شبیہ نہیں ہے ،ہاں !ہمارا پر ور دگار ایسا ہی ہے ۔

”دوسرے یہ کہ یہ کہا جائے کہ ہمارا پروردگار احدی المعنی ہے ،یعنی اس کی ذات نا قابل ِ تقسیم ہے ،نہ تو خارج میں ،نہ توعقل میں اور نہ ہی وہم میں ،ہاں !خدائے بزرگ ایسا ہی ہے ۔(۳)

”خلاصہ یہ ہے کہ خدا واحد و احد ہے اور یگانہ ویکتا ہے ۔واحد عددی یا نوعی و جنسی کے معنی میں نہیں بلکہ وحدت ِذاتی کے معنی میں ،زیادہ واضح عبا رت میں اس کی وحدانیت کا معنی یہ ہے اس کا کوئی مثل و نظیر اور مانند و شبیہ نہیں ہے “اس بات کی دلیل بھی واضح وروشن ہے :وہ ایک ایسی ذات ہے جو ہر جہت سے غیر متناہی ہے اور مسلّمہ طور پر ہر جہت سے دو غیر متنا ہی ذاتیں ناقابل تصور ہیں ،کیو نکہ اگر دو ذاتیں ہوں گی تو وہ دونوں محدود ہو جا ئیں گی ،اس میں اس کے کما لات نہ ہوں گے اور نہ اس میں اس کے کما لات (غور کیجئے )۔

بعد والی آیت میں اس یکتا ذات مقدس کے بارے میں فر ماتا ہے :”وہ ایسا خدا ہے کہ تمام حاجت مند اسی کی طرف رخ کرتے ہیں ۔“( الله الصمد ) ۔

”صمد“کے لیے روایات اور مفسرین و ارباب لغت کے کلمات میں بہت زیادہ معنی بیان ہو ئے ہیں ۔

”راغب “”مفر دات “میں کہتا ہے :صمد اس آقا اور بزرگ کے معنی میں ہے جس کی طرف کاموں کی انجام دہی کے لیے جاتے ہیں ۔اور بعض نے یہ کہاہے کہ”صمد “اس چیز کے معنی میں ہے جو اندر سے خالی نہ ہو بلکہ پُر ہو ۔

”مقا ییس اللغت“میں آیا ہے کی دو اصلی جڑ بنیادیں ہیں :ایک قصد کے معنی میں ہے اور دوسرا صلابت واستحکام کے معنی میں ،اور یہ جو خدا کو ”صمد “کہا جاتا ہے تو یہ اس بناء پر ہے کہ بندے اس کی بار گاہ کا قصد و ارادہ کرتے ہیں ۔

اور شاید یہی وجہ ہے کہ ذیل کے متعدد معانی بھی لغت کی کتا بوں میں ”صمد “کے لیے ذکر ہوئے ہیں :ایسی بزرگ ہستی جو انتہا ئی عظمت ہو،اور ایسی ذات جس کی طرف لوگ اپنی حاجات لے کر جاتے ہیں ،ایسی ذات جس سے برتر کوئی چیز نہیں ہے ،ایسی ہستی جو مخلوق کے فناو نابود ہونے کے بعد بھی دائم اور باقی رہنے والی ہے ۔اسی لیے امام حسین بن علی علیہماالسلام نے ایک حدیث میں ”صمد“کے لیے پانچ معانی بیان کیے ہیں ۔

”صمد“اس ہستی کو کہتے ہیں جوانتہائی سیادت و آقائی میں ہو ۔

”صمد “وہ ذات ہے جو دائم اور ازلی و ابدی ہو۔

’صمد “وہ موجود ہے جو ف (اندر سے خلا ) نہ رکھتا ہو ۔

”صمد“وہ ہستی جو نہ کھاتی ہو نہ پیتی ہو ۔

”صمد“وہ ہستی جو کبھی نہ سوتی ہو ۔(۴)

اور دوسری عبارتوں میں آیا ہے کہ :”صمد اس ہستی کو کہتے ہیں جو قائم بہ نفس ہو اور غیر سے بے نیاز ہو ۔“

”صمد“اس ہستی کو کہتے ہیں جس میں تغیرات اور کون و فساد نہیں ہے ۔امام علی بن الحسین علیہ السلام سے نقل ہو اہے کہ آپ نے فرمایا :

”صمد“اس ہستی کو کہتے ہیں جس کا کوئی شریک نہ ہو کسی چیز کی حفا ظت کرنا اس کے لیے مشکل نہ ہواور کوئی چیز اس سے مخفی نہیں رہتی ۔(۵)

بعض نے یہ بھی کہا ہے کہ ”صمد“اس ذات کو کہتے ہیں کہ وہ جب بھی کسی چیز کا ارادہ کرے تو اسے کہتا ہے ہو جا ،تو وہ فوراََہو جاتی ہے ۔

ایک حدیث میں آیا ہے کہ ”اہل ِبصرہ “نے امام حسن علیہ السلام کی خدمت میں ایک خط لکھا اور ”صمد “کے معنی در یافت کیے ۔امام علیہ السلام نے ا ن کے جواب میں فر مایا :

”بسم اللہ الرحمان الرحیم ،اما بعد قرآن میں آگاہی کے بغیر بحث و گفتگو نہ کرو ،کیو نکہ میں نے اپنے نانا رسول اللہ سے سنا ہے ،آپ فرما رہے تھے :جو شخص علم کے بغیر بات کرے گااسے آگ میں اس مقام پر رہنا پڑے گا جو اس کے لیے معین ہے ۔خدا نے خود ”صمد “کی تفسیر بیان فر مائی ہے ”( لم یلد ولم یولد ولم یکن له کفواََاحد )

نہ اسے کسی نے جنا اور نہ وہ کسی سے پیدا ہو ا،اور نہ ہی کوئی اس کی ماننداور مثل و نظیر ہے ۔ہاں !خدا وندِ”صمد “وہ ہے جو کسی چیز سے وجود میں نہیں آیا ،اور نہ ہی وہ کسی چیز کے اندر موجود ہے نہ کسی چیز کے اوپر قرار پایا ہے ،وہ تمام چیزوں کا پیدا کرنے والا اور ان کا خالق ہے ،تمام چیزوں کو وہی اپنی قدرت سے وجود میں لایا ہے ۔جن چیزوں کو اس نے فنا کے لیے پیدا کیا ہے وہ اس کے ارادہ سے متلا شی ہو جائے گی ،اور جسے بقاء کے لیے پیدا کیا ہے وہ اس کے علم سے باقی رہے گی ۔یہ ہے خدا وند صمد ۔۔“(۶)

اور بالآخر ایک اور حدیث میں آیا ہے کہ ”محمد بن حنفیہ“نے امیر المومنین علی علیہ السلام سے ”صمد “کے بارے میں سوال کیا تو آپ نے فر مایا :

”صمد “کی تا ویل یہ ہے کہ وہ نہ اسم ہے اور نہ جسم ہے ،نہ اس کا کوئی مثل ہے نہ کوئی نظیر ہے ،نہ صورت ہے ، نہ تمثال ہے ،نہ حد ہے ،نہ حدود ہے ،نہ محل ہے ،نہ مکان ہے،نہ حال ہے ،نہ یہ ہے ،نہ یہاں ہے ،نہ وہاں ہے ،نہ پر ہے ،نہ خالی ہے ،نہ کھڑا ہے ،نہ بیٹھا ہے ،نہ ساکن ہے ،نہ محترک ہے ،نہ ظلما تی ہے ،نہ نو رانی ہے ،نہ نفسانی ہے ،اس کے باوجود کوئی جگہ اس سے خالی نہیں ہے اور کسی مکان میں اس کی گنجائش نہیں ہے ۔نہ وہ رنگ رکھتا ہے ،نہ انسان کے دل میں سماتا ہے اور نہ ہی اس کی کوئی بو ہے ۔یہ سب چیزیں اس کی ذات پاک سے منتقی ہے ۔(۷)

یہ حدیث اچھی طرح سے نشان دہی کرتی ہے کہ ”صمد “کا ایک بہت ہی جامع اور وسیع مفہوم ہے ۔جو اس کی ساخت قدس سے مخلوقات کی ہر قسم کی صفات کی نفی کر تاہے ،کیو نکہ مشخص اور محدود اسماء اور اسی طرح جسم و رنگ و بو و مکان وسکون و حرکت و کیفیت و حد و حدود اور اسی قسم کی دوسری چیزیں ،یہ سب ممکنات و مخلوقات کی صفات ہیں ،بلکہ زیادہ تر عالم مادّہ کے او صاف ہیں ،اور ہم جانتے ہیں کہ خدا ان سب سے برتر اور بالاتر ہے ۔آخری انکشافات سے معلوم ہوا ہے کہ جہان مادّہ کی تمام چیزیں بہت ہی چھوٹے چھو ٹے ذرّات سے مل کر بنی ہے جنہیں ”ایٹم “کہا جاتا ہے ۔اور ”ایٹم “خود بھی دو عمدہ حصوں کا مر کّب ہے ۔مر کز ی ذرہ اور وہ الکڑون جو اس کے گرد گر دش کر رہے ہیں ۔اور تعجب کی بات یہ ہے کہ اس ذرہ اور الکڑونوں کے در میان بہت زیادہ فا صلہ ہے ۔(البتہ یہ زیادہ ایٹم کے حجم کے اندازہ سے ہے )اس طرح سے کہ ا گر یہ فاصلہ اُٹھا دیا جائے تو اجسام اس قدر چھوٹے ہو جائیں گے کہ وہ ہمارے لیے حیرت میں ڈالنے والے ہو ں گے ۔

مثلاََاگر ایک انسان کے وجود کے ایٹمی ذرات کے فاصلے ختم کردیں اور اسے مکمل طور پر دبا دیں تو ممکن ہے کہ وہ ایک ذرہ کی صورت اختیار کر لے ،جس کا آنکھ کے ساتھ دیکھنا مشکل ہو جائے ۔لیکن اس کے باوجود وہ ایک انسان کے بدن کے سارے وزن کے برا بر ہوگا ،(مثلاََ:یہی معمولی ذرّہ ۶۰ کلووزنی ہو گا)

بعض نے اس علمی انکشاف سے استفادہ کرتے ہوئے اور اس بات کی طرف توجہ دیتے ہوئے کہ ”صمد “کا ایک معنی ایسا وجود ہے جو اندر سے خالی نہیں ہے ،یہ نتیجہ نکالا ہے کہ قرآن اس تعبیر سے یہ چاہتا ہے کہ خدا سے ہر قسم کی جسما نیت کی نفی کر دے ،کیو نکہ تمام اجسام ایٹم سے بنے ہوئے ہیں اور ایٹم اندر سے خالی ہوتے ہیں ۔اور اس طرح یہ آیت قرآن کے علمی معجزات میں سے ایک ہو سکتی ہے ۔

لیکن اس بات کو نہیں بھو لنا چا ہیئے کہ اہل لغت میں ”صمد “ایک ایسی عظیم ہستی کے معنی میں ہے جس کی طرف تمام حاجت مند رخ کرتے ہیں اور وہ ہر لحاظ سے کامل ہو ،اور ظاہراََباقی تمام معانی اور تفا سیر جو اس کے لیے بیان کی گئی ہیں اسی اصل کی طرف لو ٹتی ہیں ۔

اس کے بعد اگلی آیت میں نصاریٰ،یہود اور مشرکین عرب کے عقائد کی رد پیش کر تے ہوئے ۔جو خدا کے لیے بیٹے یا باپ کے لیے قائل تھے ۔فر ماتا ہے :”اس نے نہ تو کسی کو جنا ہے اور نہ ہی وہ خود کسی سے پیدا ہو اہے ۔“( لم یلد ولم یو لد ) ۔اس بیان کے مقا بلہ میں ان لوگوں کا نظریہ ہے جو تثلیث (تین خداؤں )کا عقید ہ رکھتے تھے ،باپ خدا ،بیٹا خدا ،اور روح القدس ۔

نصاریٰ”مسیح“کو خدا کا بیٹا کہتے تھے اور یہود ”عزیر“کو اس کا بیٹا سمجھتے تھے،و قالت الیهود عزیر ابن الله و قالت النصاریٰ المسیح ابن الله ذالک قو لهم با فواههم یضاهئون قول الذین کفرو امن قبل قا تلهم الله انیّ یو فکون :

”یہود نے تو یہ کہا کہ عزیر خدا کابیٹا ہے اور عیسا ئیوں نے کہا کہ مسیح خدا کا بیٹا ہے ۔یہ ایک ایسی بات ہے جو وہ اپنی زبان سے کہتے ہیں اور ان کی یہ بات گز شتہ کافروں کے قول کے مانند ہے ان پر خدا کی لعنت ہو ،وہ حق سے کیسے منحرف ہو جاتے ہیں ،(توبہ ۔ ۳۰)

مشرکین عرب کا یہ عقیدہ بھی تھا کہ ملا ئکہ خدا کی بیٹیاں ہیں ،و خر قوا له بنین و بنات بغیر علم : ”انہوں نے جھو ٹ اور جہا لت کی بناء پر خدا کے لیے بیٹے اور بیٹیاں گھڑ لی تھیں ۔“(انعام ۔ ۱۰۰)

بعض روا یات سے معلوم ہوتاہے کہ آیہ ”لم یلد و لم یولد “میں تو لدایک و سیع معنی رکھتا ہے اور اس سے ہر قسم کی مادّی ولیطف چیزوں کے خروج اس ذات ِ مقّدس کے دوسری مادّی و لطیف چیزوں سے خروج کی نفی کرتا ہے ۔جیسا کہ اسی خط میں ۔جو امام حسین نے ”اہل ِ بصرہ “کے جواب میں صمد کی تفسیر میں لکھا تھا۔”( لم یلد ولم یو لد ) “کے جملہ کی اس طرح تفسیر کی گئی تھی:(لم یلد )یعنی کوئی چیز اس سے خارج نہیں ہوئی ،نہ تو بیٹے جیسی کوئی مادّی چیز اور نہ ہی وہ تمام چیزیں جو مخلوق سے خارج ہوئی ہیں (جیسے ماں کی چھا تیوں سے دودھ )اور نہ ہی نفس جیسی کوئی لطیف چیز ،اور نہ ہی قسم قسم کے حالات ،جیسے خواب وخیال حزن و اندوہ ،خو شحال ہونا ،ہنسنااور رونا،خوف و رجاء ،شوق و ملالت ،بھوک اور سیری وغیرہ ۔خدا اس سے بر تر و بالاتر ہے کہ کوئی چیز اس سے خارج ہو ۔

اور وہ اس بات سے بھی بر تر و بالاتر ہے کہ وہ کسی مادّی چیز سے متو لّد ہو ۔۔۔۔جیسا کہ کسی زندہ موجود کا کسی دوسرے زندہ موجود سے خارج ہونا اور گھاس کا زمین سے ،پانی کا چشمہ سے ،پھل کا درختوں سے اور اشیائے لطیف کا اپنے منا بع سے ،جیسے نگاہ کا آنکھ سے ،سماعت کا کان سے ،سو نگھنے کا ناک سے ،چکھنے کا منھ سے ،گفتگو کا زبان سے معر فت و شناخت کا دل سے اور آگ کی چنگاری کا پتھر سے نکلنا ۔(۸)

اس حدیث کے مطا بق تولد ایک وسیع معنی رکھتا ہے جو ہر قسم کے خروج اور ایک چیز کے کسی دوسری چیز کا نتیجہ ہونے کو شامل ہے ،اور یہ حقیقت میں آیت کا دوسرا معنی ہے اور اس کا پہلا اور ظاہری معنی وہی تھا جو ابتداء میں بیان کیا گیا ہے ۔اس کے علاوہ دوسرا معنی پہلے معنی کی تحلیل کرنے سے پورے طور پر قابل ادراک ہے کیو نکہ اگر خدا کے بیٹا نہیں ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ مادّی عوارض سے پاک و منزّہ ہے ۔یہی معنی تمام مادّی عوارض میں بھی صادق آتا ہے ۔(غور کیجئے )

اور آخر میں اس سورہ کی آخری آیت میں خدا کے اوصاف کے بارے میں مطلب کو مرحلہ کمال تک پہنچاتے ہوئے فرماتا ہے : اور ہر گز اس کاکوئی شبیہ اور ہمسر نہیں ہے ۔( ولم یکن له کفواً احد ) ۔(۹)

”کفواً“ اصل میں مقام و منزلت اور قدر میں پلہ کے معنی میں ہے اور اس کے بعد اس کا ہر قسم کے شبیہ اور مانند پر اطلاق ہوا ہے ۔

اس آیت کے مطابق مخلوقات کے تمام عوارض او رموجودات کی صفات اور ہر قسم کا نقص و محدودیت اس کی ذاتِ پاک سے منتفی ہے ۔ یہ وہی توحید ِ ذاتی و صفاتی ہے جو اس توحید عددی و نوعی کے مقابلہ میں ہے جس کی طرف اس سورہ کے آغاز میں اشارہ ہوا ہے ۔

اس بناء پر نہ تو ذات میں اس کا کوئی شبیہ ہے اور نہ صفات میں کوئی اس کے مانند ہے ، او رنہ ہی افعال میں کوئی اس کا مثل و نظیر ہے ، وہ ہر لحاظ سے بے مثل و نظیر ہے ۔

امیر المومنین علی علیہ السلام نہج البلاغہ کے خطبہ میں فرماتے ہیں :”لم یلد “ فیکون مولودا ً “ ” ولم یولد“ فصیر محدود اً ولا ”کفٴ“ له فیاکفئه“ ولا نظیر له فیساویه

”اس نے کسی کونہیں جنا کہ وہ خود بھی مولود ہو۔ اور وہ کسی سے پیدا نہیں ہوا ورنہ وہ محدود ہو جاتا اس کا کوئی مثل و نظیر نہیں ہے کہ وہ اس کا ہم پلہ ہو جائے ، اور اس کے لئے کسی شبیہ کا تصور نہیں ہو سکتا کہ وہ اس کے مساوی ہو جائے۔(۱۰)

اور یہ ایک ایسی عمدہ تفسیر ہے جو توحید کے عالیترین دقائق کو بیان کرتی ہے ۔ (سلام الله علیک یا امیر المومنین

____________________

۱۔ ”المیزان “جلد ۲۰، ص۵۴۳

۲۔”بحارالانوار “جلد ۳،ص۲۲۲

۳۔”بحار الانوار “جلد ۳،ص۳۰۶،حدیث۱

۴۔”بحار الانوار “جلد ۳،ص۲۲۳

۵۔”بحارالانوار “جلد ۳،ص ۲۲۳

۶۔”مجمع البیان“جلد ۱۰ ،ص۵۶۵

۷۔”بحار الانوار “جلد ۳، ص۲۳۰ ،حدیث۲۱

۸ ۔”بحار الانوار “جلد ۳ ص ۲۲۴

۹۔”احد“ ” کان“ کا اسم ہے اور ” کفواً “ اس کی خبر ہے ۔

۱۰۔ ” نہج البلاغہ“ خطبہ ۱۸۶۔

۱ ۔ توحید کے دلائل

توحید ، یعنی ذاتی خدا کا یکتا و یگانہ ہونا اور اس کا کوئی شریک و شبیہ نہ ہونا، دلائل نقلی اور قرآن مجید کی آیات کے علاوہ بہت سے عقلی دلائل سے بھی ثابت ہے جن میں سے ایک حصہ کو ہم مختصر طور پر یہاں نقل کرتے ہیں ۔

۱ ۔ برہان صرف الوجود۔اس کا خلاصہ یہ ہے کہ خدا وجود مطلق ہے اور اس کے لیے کوئی قید و شرط اورحد نہیں ہے ۔اس قسم کا وجود یقینی طور پر غیر محدود ہو گا ،کیو نکہ اس میں محدودیت ہوگی تو وہ ضروری طور پر عدم سے آلودہ ہوگا ،لیکن وہ ذات ِمقّدس جس کی ہستی و وجود خود بخود موجود ہے وہ ہر گز عدم و نیستی کامقتضی نہیں ہوگا ،اور وہ خارج میں کوئی ایسی چیز نہیں ہے جو عدم کو اس پر ڈال دے ۔اس بناء پر وہ کسی حد کے ساتھ محدود نہیں ہوگا۔

دوسری طرف سے عالم میں دو غیر محدود ہستیاں تصور میں ہی نہیں آسکتیں ،کیو نکہ اگر دو موجود پیدا ہو جائیں تو یقینا ان میں سے ہر ایک دوسرے کے کمالات کا فاقد ہوگا ۔یعنی اس میں دوسرے کے کمالات نہیں ہوں گے ۔اس بناء پر وہ دونوں ہی محدود ہو جائیں گے ،اور یہ خود ذات واجب والو جود کی یگانیت اور یکتائی پر ایک واضح دلیل ہے ۔(غور کیجئے )

۲ ۔ برھان علمی ۔جب ہم اس وسیع و عر یض جہان پر نگاہ ڈالتے ہیں تو ابتداء میں ہم عالم کو پرا گندہ موجودات کی صورت میں دیکھتے ہیں ،زمین و آسمان ،سورج ،چاند ،ستارے ،انواع و اقسام کی نباتات و حیوانات ،لیکن ہم جتنا زیادہ غور کرتے ہیں ہم دیکھتے ہیں کہ اس عالم کے اجزاء و ذرّات اس طرح سے ایک دوسرے کے ساتھ مربوط اورپیوستہ ہیں کہ مجمو عی طور پر وہ ایک منظم چیز بناتے ہیں اور اس جہان پرمعین قوانین کا ایک سلسلہ حکو مت کرتا ہے ۔

انسانی علم و دانش کی پیش رفت جس قدر زیادہ ہوتی جاتی ہے اسی قدر اس جہان کے اجزاء کا انسجام و وحدت زیادہ آشکار اور ظاہر ہوتا جا رہا ہے ،یہاں تک کہ بعض اوقات ایک چھو ٹے سے نمونہ (مثلاََایک سیب کے درخت سے گرنے )کی آزمائش اس بات کاسبب بن جاتی ہے کہ ایک بہت بڑا قانون جو سارے عالم ِ ہستی پر حکم فر ماہے ،منکشف ہو جاتا ہے ۔(جیسا کہ ”نیو ٹن “اور ”قانون جاذبہ “کے بارے میں ہے )۔

نظام ہستی کی یہ وحدت ،اس پر حاکم قوانین اور ا س کے اجزاء کے در میان انسجام و یکتائی ،اس بات کی نشان دہی کرتے ہیں کہ اس کا خالق یکتا و یگانہ ہے ۔

۳ ۔بر ھانِ تمانع۔(فلسفی علمی دلیل )دوسری دلیل جو علماء نے خدا کی ذات کی یکتائی اور وحدت کے لیے بیان کی ہے اور قرآن نے سورہ انبیاء کی آیہ ۲۲ میں جس کے بارے میں ہدایت کی ہے ،وہ برھان تما نع ہے ،فر ماتا ہے :”( لو کان فیهما اٰلهةالا الله لفسدتا فسبحان الله رب ّالعرش عمّا یصفون ) “اگر زمین و آسمان میں خدائے واحد و یکتا کے علاوہ اور بھی خدا ہوتے تو آسمان و زمین میں فساد ہو جاتا ،اور نظام جہاں درہم و بر ہم ہو جاتا پس وہ خدا جو عرش کا پر ور دگار ہے ان کی تو صیف سے پاک و منزّہ ہے ۔

ہم اس دلیل کی جلد ۱۳ ص ۲۸۶ میں ”بر ھان تمانع “کے عنوان کے ما تحت تفصیل کے ساتھ وضاحت کر چکے ہیں ۔

۴ ۔خدا وندیگانہ کی طرف انبیاء کی عمومی دعوت : اثبات توحید کے لیے یہ ایک اور دلیل ہے کیو نکہ اگر عالم میں دو واجب الوجود ہوتے تو دونوں کو ہی منبع فیض ہو نا چا ہیئے تھا ،کیو نکہ ایک بے نہایت کامل وجود کے لیے یہ ممکن نہیں ہے کہ وہ اپنی نور افشانی میں بخل کرے ،کیو نکہ وجود کامل کے لیے عدم فیض نقص ہے ،اور اس کے حکیم ہونے کا تقاضا یہ ہے کہ وہ سب کو اپنا فیض پہنچائے ۔

اس فیض کی دو شاخیں ہیں ۔(عالم خلقت میں )فیض تکوینی ،اور (عالم ہدایت میں )فیض تشریعی۔اس بناء پر اگر متعدد خدا ہوتے تو ضروری تھا کہ ان کی طرف سے بھی پیغمبر اور رسول آتے ،اور ان کے فیض تشر یعی سب کو پہنچاتے ۔حضرت علی علیہ السلام اپنے فر زند گرامی امام ِ مجتبٰی علیہ السلام کے وصیت نامہ میں فر ماتے ہیں : ”و اعلم یا بنی انه لو کان لربک شریک لا تتک رسله و لرایت اٰثار ملکه و سلطا نه ،و لعرفت افعاله و صفاته ،و لکنه اله واحد کماوصف نفسه ۔“”اے بیٹا !جان لو کہ اگر تیرے پرور دگار کا کوئی شریک ہوتا تواس کے بھیجے ہوئے نما ئند ے تیرے پاس آتے ،اور تو اس کے ملک و سلطنت کے آثار کا بھی مشاہد ہ کرتا ،اور تو اس کی صفات و افعال سے بھی آشنا ہوتا ،لیکن وہ ایک اکیلا معبود ہے ،جیسا کہ خود اس نے اپنی توصیف فر مائی ہے(۱)

یہ سب اس کی ذات کی یکتائی کے دلا ئل ہیں ۔باقی رہا اس کی ذات پاک میں ہر قسم کی تر کیب و اجزاء کے نہ ہونے کی دلیل تو وہ روشن و واضح ہے کیو نکہ اگر اس کے لیے اجزائے خارجیہ ہوں تو طبعاََ وہ ان کا محتاج ہوگا ،او ر واجب الوجود کے لیے محتاج ہونا معقو ل نہیں ہے ۔اور اگر ”اجزائے عقیلہ “(ما ہیت و وجود یا جنس و فصل کی تر کیبب)مراد ہو ،تو وہ بھی محال ہے ،کیونکہ ماہیت و وجود سے تر کیب اس کے محدود ہو نے کی فرع ہے ۔حالا نکہ ہم جانتے ہیں کہ اس کا وجود غیر محدود ہے ،اور جنس و فصل کی تر کیب ما ہیت رکھنے کی فرع ہے ،لیکن وہ ذات جس کی کوئی ماہیت نہیں ہے ،اس کی جنس و فصل بھی نہیں ہے ۔

توحید کی اقسام

عام طور پر تو حید کی چار اقسام بیان کی جاتی ہیں :

۱ ۔ توحید ذات :

(جس کی اوپر تشریح کی گئی ہے )

۲ ۔ تو حید صفات :

یعنی اس کی صفا ت اس کی ذات سے الگ نہیں ہے اور ایک دوسرے سے بھی جدا نہیں ہے،مثلاََہمارا”علم “و ”قدرت “دو الگ الگ صفات ہیں جو ہماری ذات پر عارض ہیں ،ہماری ذات ایک الگ چیز ہے اور ہمارا علم و قدرت دوسری چیزیں ہیں جیسا کہ ”علم “و ”قدرت “بھی ہم میں ایک دوسرے سے جدا ہے ۔ہمارے علم کا مر کزہماری روح ہے ،جب کہ ہماری قدرت جسمانی کا مرکز ہمارے بازو اور عضلات ہیں لیکن خدا میں نہ اس کی صفات اس کی ذات پر زائد ہیں اور نہ ہی وہ ایک دوسرے سے جدا ہیں بلکہ وہ ایک ایسا وجود ہے جو سارا کا سارا علم ہے ،سارا کا سارا قدرت ہے اور سب کاسب ازلیت و ابد یت ہے ۔

اگر اس کے علاوہ صورت ہو تو اس کا لازمہ تر کیب ہے اور اگروہ مرکب ہوگا تو اجزاء کا محتاج ہوگا ،اور محتاج چیز ہر گز واجب الوجود نہیں ہوتی ۔

۳ ۔ تو حید افعالی :

یعنی ہر وجود ،ہرحرکت ،اور ہر حرکت جو دنیا میں ہو رہی ہے اس کی باز گشت خدا کی پاک ذات کی طرف ہے ،وہی مسبب الا سباب ہے اور اس کی پاک ذات ہی علت العلل ہے ،یہاں تک کہ وہ افعال بھی جو ہم سے سر زد ہو تے ہیں ایک معنی میں اسی کے افعال ہیں ،چو نکہ اسی نے ہمیں قدرت و اختیار اور ارادہ کی آزادی فر مائی ہے ۔اس بناء پر ہم اپنے افعال کے فاعل اور ان کے مقابلہ میں مسئول و جواب دہ ہونے کے باوجود ایک لحاظ سے فاعل خدا ہی ہے ،کیو نکہ ہمارے پاس جو کچھ بھی ہے وہ سب اسی کی طرف سے ہے ۔(لا مو ثر فی الوجود الاالله )(عالم وجود میں خدا کے سوا کوئی مو ثر نہیں ہے )۔

۴ ۔توحید در عبادت :

یعنی صرف اس کی عبادت کر نا چا ہیئے اور اس کا غیر لا ئق عبا دت نہیں ہے ، کیو نکہ عبا دت ایسی ذات کی ہونا چا ہیئے جو کمال مطلق اور مطلق کمال ہے ،جو سب سے بے نیاز اور تمام نعمتوں کا بخشنے والا ،اور تمام موجودات کا پیدا کرنے ولا ہے ، اور یہ صفات اس کی پاک ذات کے سوا کسی میں جمع نہیں ہو سکتیں ۔عبا دت کا اصلی مقصد اس کمال مطلق اور بے پایاں ہستی کا قرب حاصل کر نا اور اس کی صفات جمال و کمال کو اپنی روح کے اندر منعکس کرنا ہے ،جس کا نتیجہ ہو او ہوس سے دوری اور تہذیب نفس اور خود سازی کی طرف رخ کرنا ہے ۔

یہ ہدف اور مقصد ”اللہ “کی عبادت کے بغیر ،جو وہی کمال مطلق ہے، امکان پذ یر نہیں ہے ۔

____________________

۱۔”نہج البلاغة “وصیت امام مجتبٰی (حصہ خطوط و خط ۳۱)۔

۳ ۔توحید افعال کی اقسام

پھر توحید افعال کی بھی بہت سی اقسام ہیں جن میں سے ہم یہاں چھ اہم ترین اقسام کی طرف اشارہ کرتے ہیں ۔

۱ ۔ توحید خالقیت :

جیسا کہ قرآن کہتا ہے :قل اللہ خالق کل شیء:”کہہ دیجئے خدا ہی ہر چیز کا خالق ہے “(رعد ۔ ۱۶)

اس کی دلیل بھی واضح ہے ، جب گزشتہ دلائل سے ثابت ہو گیاکہ واجب الوجود ایک ہی ہے اور اس کے علاوہ ہر چیز ممکن الوجود ہے تو اس بناء پر تمام موجودات کا خالق بھی ایک ہی ہوگا ۔

۲ ۔ تو حید ر بو بیّت :

یعنی عالم ہستی کا مد بر و مدیر ،مربی اور اس کا نظام بخش صرف خدا ہے ،جیسا کہ قرآن کہتا ہے:۔( قل اغیر الله ابغی رباََوهو رب کل شی ء ) “کہہ دیجئے کیا میں خدا کے سوا کسی اور کو اپنا پرور دگار مان لوں حالا نکہ ہر چیز کا پر ور دگار وہی ہے “؟(انعام ۔ ۱۶۴)

اس کی دلیل بھی واجب الوجود کی وحدت اور عالم ہستی میں خالق کی توحید ہے ۔

۳ ۔توحید تشریع و قانون گزاری :

جیسا کہ قرآن کہتا ہے :( و من لم یحکم بما انزل الله فا و لئک هم الکا فرون ) :”جو شخص اس کے مطابق حکم نہیں کرتا ،جو خدا نے نازل کیا ہے ،وہ کا فر ہے ۔-“(مائدہ ۔ ۴۴)

کیو نکہ جب ہم نے یہ ثابت کر دیا کہ مدبر و مدیر وی ہے ،جو مسلہ طور پر اس کے غیر میں قانون گزاری کی صلا حیت نہیں ہو سکتی ،کیو نکہ اس کے غیر کا تد بیر عالم میں کوئی حصہ نہیں ہے ۔لہٰذا وہ نظام تکوین سے ہم آہنگ قوانین وضع نہیں کر سکتا ۔

۴ ۔تو حید در ما لکیت :

چاہے ”حقیقی ما لکیت “ہو ،یعنی کسی چیز پرتکوینی تسلط ،یا ”حقو قی ما لکیت “ہو ،یعنی کسی چیزپرقانونی تسلط ،یہ سب اسی کے لیے ہیں جیسا کہ قرآن کہتا ہے :”( و لله ملک السماوات ولارض ) “”آسمانوں اور زمین کی مالکیت حاکیمیت خدا ہی کے ساتھ مخصوص ہے ۔(آل عمران ۔ ۱۸۹)

اور یہ بھی فر ماتا ہے :”( وانفقو مما جعلکم مستخلفین فیه ) “”خدا نے جن اموال میں تمہیں اپنا نمایندہ قرار دیا ہے ،ان میں سے (راہ خدا )میں خرچ کرو ۔“(حدید ۔ ۷)

اس کی دلیل بھی وہی توحید در خا لقیت ہے ۔جب تمام اشیاء کا خالق وہی ہے ،تو طبعاََتمام چیزوں کی مالک بھی اسی کی ذات مقدس ہے ،اس بناء پر ہر ملکیت کا سر چشمہ اسی کی ما لکیت کو ہو نا چا ہیئے ۔

۵ ۔ توحید حا کیمیت

یقینا انسانی معاشرہ حکومت کا محتاج ہے ،کیو نکہ اجتما عی زندگی حکو مت کے بغیر ممکن نہیں ہے ۔ذمہ داریوں کی تقسیم ،پرو گرا موں کی تنظیم ،مدیر یتوں کا اجراء اور تجاوذات کو رو کنا ،صرف حکومت کے ذریعے ہی ممکن ہے ۔

ایک طرف تو انسانوں کی اصل آزادی یہ کہتی ہے کہ کوئی شخص کسی شخص پر حق حکومت نہیں رکھتا مگر جسے اصل مالک اور حاکم حقیقی اجازت دے ،اور یہی وجہ ہے کہ ہم ہر اس حکومت کو جو حکومت الٰہی پر منتہی نہیں ہوتی مر دود سمجھتے ہیں ،اور یہی وجہ ہے کہ ہم حکومت کی مشر وعیت کو صرف پیغمبرکے بعد ائمہ معصو مین کے لیے اور ان کے بعد فقیہ جامع الشرائط کے لیے جا نتے ہیں ۔البتہ یہ ممکن ہے کہ لوگ کسی کو یہ اجازت دے دیں کہ وہ ان پر حکومت کرے ،لیکن چو نکہ پورے معاشرے کے تمام افراد کا اتفاق عادتاََممکن نہیں ہے ،لہٰذا عملی طور پراس قسم کی حکو مت ممکن نہیں ہے ۔(۱)

البتہ اس بات کو نہیں بھو لنا چاہیئے کہ تو حید ر بو بیت عالم تکوین کے ساتھ مر بوط ہے اور تو حید قانون گزاری و حکومت کا تعلق عالم تشریع کے ساتھ ہے۔

قرآن مجید کہتا ہے :( ان الحکم الالله ) “:”حکم اور حکومت کرنا صرف خدا کے لیے ہے “۔( انعام ۔ ۵۷ )

۶ ۔ تو حید اطاعت

یعنی جہان میں واجب الاطاعت ہونے کا مقام صرف خدا کی ذات پاک کے لیے ہے اور ہر دوسرے مقام کی اطاعت کی مشر وعیت کا سر چشمہ یہیں سے ہو نا چا ہیئے ،یعنی اس کی اطاعت بھی خدا ہی کی اطاعت شمار ہو گی ۔اس کی دلیل بھی واضح ہے ۔جب حا کمیت اسی کے ساتھ مخصوص ہے ،تو مطاع ہو نا بھی اسی کے ساتھ مخصوص ہے ۔اسی لیے ہم انبیاء کی اطاعت ،ائمہ معصو مین کی اطاعت اور ان کے جا نشینوں کی اطاعت کو بھی خدا ہی کی اطاعت کا پر تو شمار کرتے ہیں ۔قرآن کہتا ہے :( یا ایها الذین امنو ااطیعو االله و اطیعو الر سول و اولی الامر منکم ) :

”اے ایمان لانے والو!خدا کی اطاعت کرو اور رسول کی اور صاحبان ِ امر (ائمہ معصو مین )کی اطاعت کرو ۔(نساء ۵۹)

البتہ اوپر والے مبا حث میں سے ہر ایک کے لیے بہت ہی زیادہ شرح و بسط کی ضرورت ہے اور ہم نے اس بناء پر کہ ہم بحث تفسیری سے خارج نہ ہو جا ئیں ،انہیں اختصار کے ساتھ بیان کیا ہے ۔

خدا وندا!ہمیں ساری عمرتوحید کے راستہ پر ثابت قدم رکھ ۔

پر ور دگار !شرک کی شاخیں بھی تو حید کی شاخوں کی طرح بہت زیادہ ہیں ،اور تیرے لطف کے بغیر شرک سے نجات ممکن نہیں ہے ۔تو ہمیں اپنے لطف کا مشمول قرار دے ۔

بارالہا !ہمیں توحید کے ساتھ زندہ رکھنا اور توحید کے ساتھ ہی ہمیں موت دینا ،اور حقیقت تو حید کے ساتھ ہمیں محشور کر نا ۔

آمین یا رب العالمین ۔

____________________

۱۔ اس بناء پر اگر کوئی حکومت عوام اور اکثریت کی رائے سے معین ہو تو ضروری ہے کہ وہ فقیہ جامع الشرائط کے ذر یعے نافذ ہو ،تا کہ وہ مشر وعیت الہٰیہ پیدا کرسکے ۔