تفسیر نمونہ جلد ۱۵

تفسیر نمونہ 0%

تفسیر نمونہ مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن

تفسیر نمونہ

مؤلف: آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی
زمرہ جات:

مشاہدے: 59296
ڈاؤنلوڈ: 3813


تبصرے:

جلد 1 جلد 4 جلد 5 جلد 7 جلد 8 جلد 9 جلد 10 جلد 11 جلد 12 جلد 15
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 169 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 59296 / ڈاؤنلوڈ: 3813
سائز سائز سائز
تفسیر نمونہ

تفسیر نمونہ جلد 15

مؤلف:
اردو

آیات ۱۳،۱۴،۱۵،۱۶،۱۷،۱۸،۱۹

۱۳ ۔( انّ الابرار لفی نعیم ) ۔

۱۴ ۔( و انّ الفجّار لفی جحیم ) ۔

۱۵ ۔( یصلونها یوم الدّین ) ۔

۱۶ ۔( وما هم عنها بغآ ءِ بِینَ ) ۔

۱۷ ۔( ومآ ادراکَ مَا یَومُ الدّینِ ) ۔

۱۸ ۔( ثم مآ ادراک مایوم الدّین ) ۔

۱۹ ۔( یوم لا تملک نفسٌ لِنفسٍ شیئاً و الامرُ یو مئِذٍ للّهِ ) ۔

ترجمہ

۱۳ ۔ یقینا نیک افراد نعمت فراوان میں ہیں ۔

۱۴ ۔ اور بد کار دوزخ میں ہیں ۔

۱۵ ۔ جز ا کے روز ا س میں وارد ہوں گے اور جلیں گے ۔

۱۶ ۔ اور کبھی بھی اس سے غائب اور دور نہیں ہوں گے ۔

۱۷ ۔ تو کیا جانے کہ قیامت کا دن کیا ہے ۔

۱۸ ۔ پھر تو کیا جانے کے قیامت کا دن کیا ہے ۔

۱۹ ۔ ایسا دن ہے جس میں کوئی شخص کسی دوسرے حق کے میں کسی کام کے انجام دینے پر قدرت نہیں رکھتا اور اس دن

سب امور اللہ سے مخصوص ہیں ۔

وہ دن جس میں کوئی شخص کسی کے لئے کوئی کام انجام نہیں دے گا ۔

اس بحث کے بعد جو گزشتہ آیات میں فرشتوں کے ذریعہ انسانوں کے اعمال کے ثبت و ضبط کے سلسلہ میں آئی ہے ان آیتوں میں اس حساب و کتاب کے نیچے اور نیکیوں او ربروں کی جو رہگذر ہے اس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے پروردگار عالم فرماتاہے :

” یقینا نیک اور صالح افراد خد اکی عظیم نعمت میں ہیں “( ان الابرار لفی نعیم ) ۔ ” اور بدکار یقینا جہنم میں ہیں “( ان الفجار لفی جحیم ) ۔

” ابرار“ ۔” بار“ اور” بر“ ( بر وزن حق) کی جمع ہے جس کے معنی نیکو کار شخص کے ہیں ۔ اور ” بِر“ ( ب کے زیر کے ساتھ ) ہر قسم کی نیکی کے معنی میں ہے ۔ یہاں اچھے عقائد بھی مراد ہیں اور اچھی نیتیں اور اچھے اعمال بھی ۔

” نعیم “ مفرد ہے اور نعمت کے معنی میں ہے اور یہاں بہشت جاودانی کے معنی میں ہے اور نکرہ کی صورت میں آیاہے اس نعمت کی اہمیت ، وسعت اور عظمت کے بیان کے لئے ہے ، خدا کے علاوہ کوئی اور اس کی وسعت و عظمت سے واقف نہیں ہے ۔

” نعیم“ جو یہاں صفت مشبہ ہے یہاں ا س کی نعمت کی بقا اور اس کے استمرار کی تاکید کے لئے ہے ۔ یہ مفہوم عام طور پر صفت مشبہ میں چھپا ہوتا ہے ۔

” فجار “ فاجر کی جمع ہے ۔ اصل میں فجر کے معنی و سیع طور پرشگاف کر نے کے ہیں اور طلوع صبح کو اس لئے فجر کہتے ہیں گویا رات کا سیاہ پردہ سپید سحری کے ہاتھوں کلی طور پر شگافتہ ہو جاتاہے ۔ اس بناپر فجور کا لفظ ان لوگوں کے اعمال کے بارے میں دستیاب ہوتاہے جو پاکدامنی اور تقویٰ کا پردہ چاک کرتے ہیں اور گناہ کے راستے میں قدم رکھتے ہیں ۔

” جحیم“۔” جحم“( بر وزن فہم ) کے مادہ سے آگ بھڑ کانے معنی ہے ۔ اس وجہ جحیم بھڑکتی ہو ئی آگ کو کہتے ہیں ۔

قرآنی تعبیر میں یہ لفظ عام طور پر دوزخ کے معنی میں آیاہے اور یہ جو فرماتاہے :

’ نیکو کار جنت میں اور بد کار دوزخ میں ہیں “ ممکن ہے اس معنی میں ہو کہ وہ ابھی سے جنت اور دوزخ میں واردہوگئے ہیں اور اس دنیا ہی میں جنت کی نعمتوں اور جہنم کے عذاب نے انہیں گھیر رکھا ہے جیسا کہ سورہ عنکبوت کی آیت ۵۴ میں پڑھتے ہیں :( و ان جهنم لمحیطة بالکافرین ) ۔ ” دوزخ نے کافروں کااحاطہ کر رکھا ہے “۔

لیکن ایک جماعت نے کہا کہ اس قسم کی تعبیریں حتمی اور یقینی طور پر مستقبل کی طرف اشارہ کرتی ہیں ۔ اس لئے کہ ادب عربی میں حتمی اور یقینی مستقبل اور متحقق الوقوع مضارع کو حال کی شکل میں اور کبھی ماضی کی شکل بیان کرتے ہیں ۔

( آیت کے پہلے معنی طاہر کے ساتھ ساز گارہیں لیکن مناسب دوسرے معنی ہیں )۔

بعدکی آیت میں فاجروں کی سر نوشت کے بارے میں وضاحت کرتے ہوئے مزید فرماتاہے :” وہ روزجزا اور دوزخ میں داخل ہوں گے اور اس کی آگ میں جلیں گے “۔( یصلونها یوم الدین ) ۔

جب گذشتہ آیت کے معنی ایسے ہوں کہ وہ ابھی سے دوزخ میں داخل ہیں تو پھر یہ آیت بتاتی ہے کہ روز قیامت اس جلانے والی آگ میں ان کا داخلہ اور شدیدہوگا اور آگ کے اثر کو وہ اچھی طرح محسوس کریں گے ۔

” یصلون “ ۔” صلی“ (بر وزن سعی) کے مادہ سے آگ میں داخل ہونے ، جلنے ، بھن جانے اور اس کے دردو تکلیف کو بر داشت کرنے کے معنی میں ہے ۔اور اس بناپر ،کہ فعل مضارع ہے، استمرار پر دلالت کرتا ہے ،مزید تاکید کے لئے فرماتا ہے

” وہ اس آ گ سے کبھی دور اور مفقود نہیں ہیں “( وما هم عنها بغائبین ) ۔ بہت سے مفسرین نے اس جملہ کو فجار پرجو عذاب ہوگا اس کے جاوداں ہونے کی دلیل کے طور پر لیا ہے اور اس طرح نتیجہ نکالا ہے کہ فجا رسے مراد ان آیات میں کفار ہیں ، اس لئے کہ خلود اور ہمیشگی ان کے مورد کے علاوہ وجود نہیں رکھتی ۔ اس آیت کی تعبیر زمانہ حال کی شکل میں اس چیز کی مزید تاکید ہے جس کی طرف پہلے اشارہ ہو چکا ہے کہ اس قسم کے افراد دنیا میں بھی کلی طور پر جہنم سے دور نہیں ہیں ۔ ان کی زندگی خود دوزخ ہے ۔ اور مشہور حدیث کے مطابق ان کی قبر جہنم کے گڑھوں میں سے ایک گڑھاہے اور اس طرح دنیا کی دوزخ اور بر زخ کی دوزخ اور قیامت کی دوزخ تینوں ان کے لئے موجود ہیں ۔

مندرجہ بالا ضمنی طور پر اس حقیقت کو بھی بیان کرتی ہے کہ دوزخیوں کے عذاب میں کسی قسم کا وقفہ نہیں ہے ، یہاں تک کہ ایک لمحہ کا وقفہ بھی نہیں ہوگا ۔

اس کے بعد اس عظیم دن کی عظمت کو بیان کرنے کے لئے کہتا ہے : ” توکیا جانے کہ روز جزا کیاہے “( وما ادراک مایوم الدین ) ۔

”پھر تو کیا جانے کہ روز جز ا کیا ہے “۔( ثم ماادراک مایوم الدین ) ۔

جب پیغمبر اسلام قیامت کے بارے میں اس وسیع آگاہی اور علم کے باوجود اس پر حکومت کرنے والے حوادث، اضطراب اور عظیم وحشت کو اچھی طرح نہیں جانتے تو باقی کامعاملہ واضح ہے ۔

یہ گفتگو اس حقیقت کو بیان کرتی ہے کہ قیامت کے ہولناک حوادث اس قدر وسیع و عظیم ہیں کہ جو قالبِ بیان میں نہیں سما سکتے اور جس طرح ہم عالم خاک کے اسیر جنت کی بے نمایا نعمتوں سے اچھی طرح آگاہ نہیں ہیں جہنم کے عذاب اور اس کے حوادث سے کس طرح آگاہ ہو سکتے ہیں ۔

اس کے بعد ایک مختصر اور پر معنی جملہ میں اس دن کی ایک اور خصوصیت جس میں در حقیقت تمام چیزیں چھپی ہو ئی ہیں پیش کرتے ہوئے فرماتاہے :

” وہی دن جس دن کوئی شخص کسی دوسر کے حق میں کوئی کام انجام نہیں دے سکے گا اور اس دن تمام امور خدا سے مختص ہیں “( یوم لاتملک نفس لنفس شیئا و الامر یومئذ لله )

کام تو اس جہان میں بھی سب اسی کے دست قدرت میں ہیں اور سب لوگ اسی کے نیاز مند ہیں لیکن پھر بھی یہاں کبھی کبھی بہرحال مجازی مالک و حاکم اور فرماں روا موجود ہیں جن میں سطحی نگاہ رکھنے والے افراد مستقل مبدا۔ قدرت خیال کرتے ہیں لیکن اس دن یہ مجازی مالکیت و حاکیمیت بھی ختم ہو جائے گی اور خدا کی حاکمیت ِ مطلقہ ہر زمانہ کی بہ نسبت زیادہ واضح ہوگی ۔

یہ چیز قرآن کی دوسری آیتوں میں بھی آئی ہے( لمن الملک الیوم لله الواحد القهار ) ۔ ” آج کے د ن حکومت کس کے لئے ہے غالب و یکتا خدا کے لئے ہے “۔ ( مومن ۔ ۱۶) ۔

اصولی طور پر اس دن ہر شخص اس قدر اپنے آپ میں گرفتا ر ہو گا کہ اگر بالفرض اس میں قوت ہو تی بھی تب بھی دوسروں کی طرف متوجہ نہیں ہوتا ۔( لکل امریء منهم یومئذ شأن یغنیه ) ۔

اس دن ان میں سے ہر ایک اس طرح مبتلا ہو گا جو ا س کے لئے کافی ہوگا ۔ ( عبس ۔ ۳۷) ۔

ایک حدیث میں امام محمد باقر علیہ السلام سے مروی ہے :

( ان الامر یومئذ و الیوم کلمه الله اذاکان یوم القیامة بادت الحکام فلم یبق حاکم الا الله )

” اور آج اس دن تمام کام اللہ کے اختیار میں ہیں لیکن جب قیامت کا دن ہوگا تو تمام حاکم تباہ و بر باد ہو جائیں گے اور خدا کی حکومت کے علاوہ کوئی حکومت باقی نہیں رہے گی ۔(۱)

یہاں ایک سوال سامنے آتاہے کہ کیا یہ تعبیرانبیاء ، اولیاء اور فرشتوں کی شفاعت کے سلسلہ سے متصادم نہیں ہے ۔ اس سوال کا جواب ان مباحث سے جو ہم مسئلہ شفاعت کے سلسلہ میں تحریر کرچکے ہیں واضح ہو جاتاہے اور وہ یہ کہ قرآن مجید متعدد آیات میں تصریح کرچکا ہے کہ شفاعت خدا کے اذن اور اجازت سے ہو گی اور روز جزا کے شفیع اس کے رضا کے بغیر کسی کی شفاعت نہیں کریں گے ۔( ولا یشفعون الا لمن ارتضیٰ ) ( انبیاء ۔ ۲۸) ۔

خدا وند ا ! اس ہولناک دن کے بارے میں سب کی نظریں تیری طرف لگی ہوئی ہیں ۔ ہم ابھی سے تیری طرف نظریں لگائے ہوئے ہیں ۔

پروردگارا! ہمیں اس جہان میں اور اس جہان میں اپنے بے پایاں لطف و کرم سے محروم نہ کیجو ۔

ببار الہٰا ! ہرحالت میں حاکم مطلق تو ہے ہمیں وادی شرک میں محشور ہونے سے بچا لے اور دوسروں کی پناہ لینے سے محفوظ رکھ ۔

آمین یا رب العالمین

سورہ انفطار کا اختتام

____________________

۱۔ مجمع البیان ، جلد ۱۰، ص۴۵۰۔

سورہ مطففین

یہ سورہ مکہ میں نازل ہوا اس میں ۳۶ آیتیں ہیں

سورہ مطففین کے مضامین کا دائرہ

یہ سورہ مکہ میں نازل ہو ایامدینہ میں اس بارے مین مفسرین کے درمیان اختلاف ہے ۔ شان نزول بتاتی ہے کہ اس سورہ کی ابتدائی آیات جن کا موضوع کم تولنا ہے ، ان لوگوں سے متعلق ہےں جو مدینہ میں اس قبیح کام میں مشغول تھے ۔

لیکن دوسری آیا ت کا لب و لہجہ مکی سورتوں کے ساتھ زیادہ مشابہت رکھتا ہے جس میں مختصر اور پر جلال آیا ت میں پر وردگا رعالم قیامت اور حوادث قیامت کی خبر دیتا ہے خصوصاً اس سورہ کی آیات جو مسلمانوں کا مذاق اڑانے کے بارے میں کفا ر کو موضوع بناتی ہیں ۔

یہ آیتیں مکہ کے ماحول کے ساتھ زیادہ مناسبت رکھتی ہیں ۔ وہاں مومنین اقلیت میں تھے اور کافروں کی قطعی اکثریت تھی ۔ شاید یہی وجہ ہے کہ بعض مفسرین سورہ کے ایک حصہ کو مکی اور دوسرے حصہ کو مدنی سمجھتے ہیں لیکن مجموعی طور پر یہ سورہ مکی سورتوں سے زیادہ مشابہت رکھتی ہے ، بہر حال اس سور کے مباحث پانچ محوروں کے گرد گھومتے ہیں ۔

۱ ۔ کم تولنے والوں کے بارے میں شدید تنبیہ و تہدید۔

۲ ۔ اس مفہوم کی طرف اشارہ کہ بڑے بڑے گناہوں کا سر چشمہ قیامت کے بارے میں پختہ یقین نہ ہونا ہے ۔

۳ ۔ اس عظیم دن فجار کی سر نوشت کا ایک حصہ۔

۴ ۔ جنت میں نیکوکاروں کو ملنے والی عظیم اور روح پرور نعمتوں کا ایک حصہ ۔

۵ ۔ کفار کا مومنین سے جاہلانہ مذاق اور اس کے بر عکس قیامت کے ہونے کا بیان ۔

اس سورہ کی تلاوت کی فضیلت

ایک حدیث میں پیغمبر اسلام سے منقول ہے (من قراء سورة المطففین سقاه الله من الرحیق المختوم یوم القیامة

جو شخص سورہ مطففین پڑھے خدا اسے خالص شراب سے جو کسی کو مسیر نہیں ہوتی قیامت میں سیراب کرے گا ۔(۱)

ایک دوسری حدیث میں امام جعفر صادق علیہ السلام سے منقول ہے :

من قرأ فی الفرائضه” ویل للمطففین “ اعطاه الا من یوم القیامة من النار و لم تره ولم یرها

جو شخص اپنی فریضہ نماز وں میں سورہ مطففین پڑھے ،خدا قیامت میں اسے عذاب جہنم سے محفوظ رکھے گا نہ جہنم کی آگ اسے دیکھے گی ، اور نہ وہ جہنم کی آگ کو دیکھے گا ۔(۲)

یہ سب ثواب فضیلت اور بر کت اس شخص کے لئے ہے جو اس کے پڑھنے کو عمل کی تمہید اور مقدمہ قرار دے ۔

____________________

۱- مجمع البیان ، جلد ۱۰، ص ۴۵۱۔

۲-ثواب الاعمال ،مطابق نقل از نور الثقلین جلد ۵،

آیات ۱،۲،۳،۴،۵،۶،

( بسم الله ) ( الرحمن الرحیم )

۱ ۔( ویل للمطففین )

۲ ۔( الذین اذا اکتالوا علی النّاس یستوفون ) ۔

۳ ۔( و اذا کالوهم او وَّ زنوهم یخسرون ) ۔

۴ ۔( ألاَ یظنُّ اُولٰٓئِکَ انّهم مبعوثونَ ) ۔

۵ ۔( لِیومٍ عظیمٍ ) ۔

۶ ۔( یوم یقوم النّٓس لرب العالمینَ ) ۔

ترجمہ

۱ ۔ وائے ہے کم تولنے والوں پر ۔

۲ ۔ وہ جب خود لیتے ہیں تو اپنا حق پورا لیتے ہیں ۔

۳ ۔ لیکن جب چاہتے ہیں کہ دوسروں کے لئے تولیں تو کم تولتے ہیں ۔

۴ ۔ کیاوہ باور نہیں کرتے کہ وہ اٹھائیں جائیں گے ۔

۵ ۔ عظیم دن ۔

۶ ۔ جس روز لوگ رب العالمین کی بار گاہ میں کھڑے ہو ں گے ۔

شان نزول

ابن عباس کہتے ہیں جس وقت پیغمبراکرم مدینہ میں داخل ہوئے تو بہت سے لوگ کم تولنے کے مرض میں مبتلا تھے تو خد ا نے ان آیتوں کو نازل کیا اور انہوں نے قبول کیااور کم تولنا ختم کردیا ۔

دوسری حدیث میں آیاہے کہ بہت سے اہل مدینہ تاجر تھے اور کم تولنے کے عادی تھے او روہ بہت سے حرام کام کرتے تھے توایسی صورت میں یہ آیات نازل ہوئیں ۔ پیغمبر اسلام نے یہ آیتیں اہل مدینہ کو سنائیں اس کے بعد آپ نے فرمایا

( خمس بخمس ) پانچ چیزیں پانچ چیزوں کے مقابلہ میں ہیں ،۔ انہوں نے عرض کیا ”اے خدا کے رسول کونسی پانچ چیزیں پانچ چیزوں کے مقابلہ میں ہیں ۔“ تو آپ نے فرمایا :

(ما نقض قوم العهد الا سلط الله علیهم عدوهم و ما حکموا بغیر ما انزل الله الّا فشافیهم الفقر ما ظهرت فیهم الفاحشةالاَّ فشافیهم الموت ولا طففوا الکیل الاَّ منعوا النبات و اخذ وا بالسنین و لامنعوا الزکاة الاَّ حبس عنهم المطر )

کسی قوم نے عہد شکنی نہیں کی مگر یہ کہ خدا نے اس کے دشمنوں کو اس پر مسلط کر دیا اور کسی جمیعت نے حکم خدا کے خلاف حکم نہیں دیا مگر یہ کہ ان میں فقر و فاقہ زیادہ ہوگیا ۔ کسی ملت کے درمیان فحاشی اور برائیاں ظاہر نہیں ہوئیں مگر یہ کہ موت کا وقوع ان میں زیادہ ہوگیا ۔ کسی قوم نے کم نہیں تولا مگریہ کہ ان کی زراعت ختم ہو گئی اور قحط سالی نے انہیں گھیر لیا اور کسی قوم نے زکاة نہیں روکی مگر یہ کہ بارش سے محروم ہو گئے۔(۱)

مرحوم طبرسی نے مجمع البیان میں ان آیتوں کی شان ِ نزول کے سلسلہ میں نقل کیا ہے کہ مدینہ میں ایک شخص تھا جس کا نام ابو جہنہ تھا جس کے پاس دو چھوٹے بڑے پیمانے تھے ۔ خرید تے وقت بڑا پیمانہ استعمال کرکے فائدہ اٹھا تا اور بیچتے وقت چھوٹے پیمانے سے دیتا ۔ ( تویہ سورہ نازل ہوا اور اسے خبر دار کیا)۔

کم تولنے والوں پر وائے ہے

ان آیات میں ہر چیز سے پہلے کم تولنے والوں کو شدید عذاب کا مستحق ٹھہرا کر فرماتا ہے :” وائے ہے کم تولنے والوں پر “( ویل للمطففین ) ۔ یہ حقیقت میں خدا کی جانب سے ان ظالم ، ستمگر اور گندے لوگوں کے خلاف اعلان جنگ ہے جو بز دلوں کی طرح لوگوں کا حق پامال کرتے ہیں ۔

” مطففین “ ۔ ” تطفیف“ کے مادہ سے اصل میں ” طف“ سے لیا گیا ہے جوکسی چیز کے کناروں کے معنی میں ہے اور یہ جو سر زمین کربلا کو وادیِ طف کہتے ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ فرات کے کنارے پر واقع ہے ۔

اس کے بعد ہرکم چیز پر طفیف کا اطلاق ہوتاہے ۔ اسی طرح وہ پیمانہ جولبریز نہ ہو ، وہاں بھی یہی لفظ بولا جاتا ہے ۔

اس کے بعد یہ لفظ کم تولنے کےلئے استعمال ہوا ہے خواہ وہ کسی شکل و صورت کا ہو ۔

” ویل “ یہاں شر، و غم اندوہ ، ہلاکت یا دردناک عذاب یا جہنم کی سخت جلانے والی وادی کے معنوں میں ہے عام طور پر یہ لفظ نفرین کرنے اور کسی چیز کی قباحت کو بیان کرنے کے لئے استعمال ہوتاہے ، یا یہ کہ ایک مختصر سی تعبیر ہے جو بہت سے مفاہیم کو چاہتی ہے ۔

قابل توجہ یہ ہے کہ ایک روایت میں امام جعفر صادق علیہ السلام سے منقول ہے کہ خد انے لفظ ویل قرآن میں کسی شخص کے لئے استعمال نہیں کیا مگر یہ کہ اس کو کافر کہا ہے( فویل للذین کفروا من مشهد یوم عظیم )

”وائے ہے کافروں پر عظیم دن کے مشاہدہ سے “(۱) ( مریم ۔ ۳۷)

اس روایت سے معلوم ہوتاہے کہ کم تولنے سے کفر کی بو آتی ہے ۔ اس کے بعدمطففین یعنی کم تولنے والوں کے کام کی تشریح کرتے ہوئے فرماتاہے :” وہ ایسے لوگ ہیں جو اپنے لئے تولتے ہیں تو اپنا حق مکمل طور پر وصول کرتے ہیں “( و الذین اذااکتالوا علی الناس یستوفون ) ۔(۲)

لیکن جب وہ چاہتے ہیں کہ دوسروں کے لئے تولیں تو کم تولتے ہیں( و اذاکالوهم او وزنوهم یخسرون ) ۔

مفسرین کی ایک جماعت نے مندرجہ بالا آیات سے اس طرح استفادہ کیا ہے کہ مطفف سے مرادہ وہ شخص ہے جو خریدتے وقت اپناحق زیادہ لیتاہے اور بیچتے وقت مقابل کو اس کے حق سے کم دیتاہے ۔

اسی لئے خدا نے دونوں پہلوو ں کے پیش نظر ان پر ویل رکھی ہے ۔

لیکن یہ ایک اشارہ ہے اور غلط ہے کیونکہ ” یستوفون “ کا مفہوم یہ ہے کہ اپنا حق مکمل طو رپر وصول کرتے ہیں اور ایسا پہلو جس میں اپنے حق سے زیادہ لینے کی بات ہو اس عبارت میں موجود نہیں ہے اور یہ جو ہم دیکھ رہے ہیں کہ خد انے ان کی مذمت کی ہے ان دو حالتوں کے ایک دوسرے سے تقابل کی شکل میں ہے کہ خرید تے وقت پورا پورا حق لیتے ہیں اور بیچتے وقت کمی کرتے ہیں ۔

یہ بالکل اسی طرح ہے جس طرح ہم کسی کی مذمت میں کہتے ہیں ” جب کسی سے اس کو کوئی چیز لینی ہوتی ہے تو وعدہ کے مطابق (جو وقت مقرر ہو عین اسی وقت ) لیتا ہے لیکن کسی کو کچھ دینا ہو تو مہینوں تاخیر کرتا ہے “۔ حالانکہ اپنی طلب کا وعدہ کے مطابق لینا کوئی بری با ت نہیں ہے ، لیکن ان دونوں کے تقابل کا جائزہ لینے کے نتیجے میں بری بات ہے ۔

قابل توجہ با ت یہ ہے کہ حق لینے کے معاملہ میں گفتگو کیل کے بارے میں ہے لیکن دینے کے معاملہ میں گفتگو کیل و وزن دونوں کے حوالے سے ہے ۔ تعبیر کا یہ فرق ہوسکتا ہے کہ ، ذیل کی دو وجوہ میں سے کسی ایک کی بناپر ہو :۔

پہلی وجہ یہ کہ خرید ار عام طور پر پہلے زمانے میں کیل سے استفادہ کرتے تھے اس لئے کہ بڑی ترازو جو زیادہ وزن تول سکے اس زمانے میں موجود لیکن بڑے پیمانہ آسانی سے مل سکتے تھے ۔

(”کر“ کے بارے میں بھی علماء نے کہا کہ یہ لفظ اصل میں ایک بڑے پیمانہ کا نام ہے ) بیچتے وقت وہ تھوک کا کا روبار کیل سے کرتے تھے اور وزن کے ذریعہ خوردہ فروشی کرتے تھے ۔

دوسرے یہ حق لینے کے وقت پیمانے سے زیادہ استفادہ مناسب ہے کیونکہ اس میں دھوکہ کا امکان بہت کم ہے ، لیکن کم تولنے کے لئے وزن کا ذریعہ زیادہ مفید ہوتا ہے اس لئے کہ اس میں دھوکہ دینے کا امکان زیادہ ہوتا ہے ۔

یہ نکتہ بھی قابل توجہ ہے کہ مندرجہ بالاآیات اگرچہ صرف کیل و وزن کے حوالے سے کم تولنے کی بات کرتی ہیں لیکن اس میں شک نہیں کہ آیت کا مفہوم وسیع ہے اور اس کا اطلاق کم تولنے کے سلسلہ میں ان چیزوں پر بھی ہے جن کا لین دین گن کرہوتاہے ۔ بلکہ یہ بھی بعید نہیں کہ آیت اپنے مفہوم کی گہرائی کے اعتبار سے موعودہ خد مت میں کمی کرنے کوبھی اپنے دامن میں سمیٹ لے ۔

مثال کے طور پر کوئی کاریگر یامزدور اپنا کام صحیح طو رپرمکمل نہیں کرتا تو وہ بھی مطففین کا مصداق ہے یعنی کم تولنے والوں کی صف میں ہے ، جن کی یہ آیتیں سختی سے مذمت کررہی ہیں ۔

بعض مفسرین اس آیت کو اور زیادہ وسیع معانی کا حامل سمجھتے ہیں اور حدود خدا وندی سے ہر قسم کا تجاوز اور اجتماعی و اخلاقی روابط میں کمی کو بھی اس کے مفہوم میں شامل سمجھتے ہیں ۔ اگر چہ اس آیت کے الفاظ سے ان معانی کا استفادہ واضح نہیں ہے ، لیکن غیر مناسب بھی نہیں ہے ۔

اس لئے مشہور صحابی رسول عبد اللہ بن مسعود سے منقول ہے کہ نماز میں ایک معقول پیمانہ ہے جو شخص اس کا کیل مکمل طو ر پر ادا کرے تو خدا ا س کا اجر مکمل دے گا اور جو شخص اس میں کمی کرے تو اس کے بارے میں وہی کچھ جاری ہوگا جو خدا نے مطففین یعنی کم تولنے والوں کے بارے میں فرمایاہے ۔(۴)

اس کے بعدپروردگار عالم ایسے لوگوں کو تنبیہ یعنی استفہام ِ تو بیخی کے ذریعہ متنبہ کرتے ہوئے فرماتا ہے :

” کیا وہ باور نہیں کرتے کہ قبروں سے اٹھائے جائیں “( الا یظن اولٰئک انهم مبعوثون ) ۔

”عظیم دن “( لیوم عظیم ) ۔ وہ دن جس کا حساب عذاب اور اس کی ہولناکی اور سب عظیم ہیں ۔ ” وہ دن جب لوگ قبروں سے اٹھیں گے اور رب العالمین کے بارہ گاہ میں حاضر ہو ں گے “۔( یوم یقوم الناس لرب العالمین ) ۔

یعنی وہ اگر قیامت کو باور کرتے اور جانتے کہ حساب کتاب ہو نا ہے اور تمام اعمال ایک عظیم عدالت میں محاکمہ کے لئے پیش ہوں گے جس شخص نے سوئی کی نوک کے برابراچھا یا برا کام کیا ہے اس کا نتیجہ وہ اس عظیم دن دیکھے گا ، پھر وہ کبھی اس قسم کا ظلم و ستم نہ کرتے اور لوگوں کے حقوق پامال نہ کرتے ۔ بہت سے مفسرین ” لظن“ کو جو ظن کے مادہ سے ہے یہاں یقین کے معنی میں سمجھتے ہیں ۔ اس تعبیر نظیر قرآن مجید میں موجود ہے ۔مثلا ً سورہ بقرہ کی آیت ۲۴۹( قال الذین یظنون انهم ملاقوا الله کم من فئة قلیلة غلبت فئة کثیرةً باذن الله ) جو مانتے تھے کہ خدا سے ملاقات کریں گے ( اور وہ قیامت کے دن پر بھروسہ رکھتے تھے ) ”انہوں نے کہاکہ چھوٹے گروہ تھے جو حکم خدا سے بڑے گروہ کے مقابلہ میں کامیاب ہوئے “ ( توجہ رکھیں کہ یہ آیت بنی اسرائیل کے ایک گروہ کے بارے میں ہے جس نے ایمان و استقامت کا مختلف مراحل میں مظاہرہ کیا تھا ۔

اس بات کی شاہد و ناطق وہ حدیث ہے جو امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام سے منقول ہے کہ آپ نے آیہ( الایظن اولٰئک انهم مبعوثون لیوم عظیم ) کی تفسیر میں فرمایا کہ اس کا مفہوم یہ ہے کہ( الیس یوقنون انهم مبعوثون ) ؟ کیا انھیں یقین نہیں ہے کہ وہ قبروں سے اٹھیں گے ؟(۵)

انہی حضرت سے منقول ہے کہ آپ نے فرمایا کہ ظن کی دو قسمیں ہیں ، ظن تردید اور ظن یقین ۔ جو قرآن میں معاد اور قیامت کے بارے میں آیاہے وہ ظن یقین ہے اور جو کچھ دنیا کے بارے میں آیا ہے وہ ظن ِ شک ہے ۔(۶)

ایک جماعت کی طرف سے یہ احتمال بھی پیش کیا گیا ہے کہ ظن سے یہاں مراد موجودہ دور کے مشہور معانی گمان کئے گئے ہیں جو اس طرف اشارہ ہے کہ انسان کی جان او ر روح میں قیامت کی طرف توجہ کرنا اس طرح اثر کرتاہے کہ اگر کوئی شخص اس کا گمان بھی کرتاہو اور اس کو ایک دن کا احتما ل بھی ہو تو وہ برے کاموں سے اجتناب کرے چہ جائیکہ اس کا یقین رکھتا ہو۔ یہ وہی چیز ہے جو علماء کے درمیان دفع غرر مظنون یا دفع ضرر محتمل کے عنوان سے مشہور ہے ۔

اب اس بات کا مفہوم یہ ہوگا کہ یہ بے پروا ہ اور بے باک گناہگار نہ صرف یہ کہ قیامت کا یقین نہیں رکھتے ، بلکہ س کا گمان بھی نہیں رکھتے ،لیکن پہلی تفسیر ، ان وجوہ کی بناپر ، جو بیان کی گئی ہیں مقدم ہے ۔

اہم بات یہ ہے کہ لفظ ظن راغب کے مفردات کی رو سے اصل میں اس حالت کا نام ہے جو چند قرائن کے ہونے کی وجہ سے فکر انسانی کو حاصل ہوتی ہے اگر نشانیاں قوی ہوں تو علم و یقین لے آتی ہے اور اگر نشانیاں کمزور ہوں تو پھر وہ گمنا م کی حد سے آگے نہیں بڑھتی ۔(۶)

اس بناپر مذکورہ لفظ ، ا س کے برخلاف جو ہمارے زمانہ میں مشہور ہے ، وسیع ،مفہوم رکھتا ہے جس میں علم اور گمان دونوں شامل ہیں اور دونوں کے لئے استعمال ہوتاہے ۔

____________________

۱- تفسیر فخر رازی ، جلد ۳۱، ص ۸۸۔

۲۔ اصول کافی مطابق نقل نو رالثقلین ، جلد۵ ، ص۵۲۷۔

۳۔ یہاں علی الناس کی تعبیر اس طرف اشارہ ہے کہ لوگوں پر وہ کوئی حق رکھتے ہیں اور تقدیر اذا کالوا ما علی الناس تھی اور اصولاً ”کال علیہ“ وہاں کہا جاتاہے جہاں کیل کا مقصد حق لینا ہوتاہے باقی رہا ”کالہ“ اور” کال لہ“ اس جگہ سے مربوط ہے جہاں

۴.مجمع البیان جلد ۱۰ صقحه ۲۵۲

۵۔ تفسیر بر ہان ، جلد ۴ ، ص ۳۸۔

۶۔ نو ر الثقلین ، جلد ۵، ص۵۲۸۔

۷۔ مفردات، مادہ ظن۔

کم تولنا فساد فی الارض کا ایک سبب ہے

قرآن مجید کی آیات میں کئی مرتبہ کم تولنے کی مذمت کی گئی ۔ کبھی حضرت شعیب کے واقعہ میں جہاں وہ قوم کو خطاب کرکے کہتے ہیں

( اوفوا الکیل ولاتکونوا من المخسرین وزنو ا بالقسطاس المستقیم ولاتبخسوا الناس اشیاء هم ولاتعثوا فی الارض مفسدین )

”پیمانے کے حق کو ادا کرو اور دوسروں کو نقصان نہ پہنچاو ۔وزن صحیح ترازومیں کرو اور لوگوں کے حق میں کمی نہ کرو اور زمین میں فساد بر پا نہ کرو“۔ ( شعراء۔ ۱۸۱ تا ۱۸۳) ۔

اس طرح وزن کرتے وقت اور چیز کو پیمانے سے ناپتے وقت تولنے کو اور انصاف کو نظر انداز کرنے کو فساد فی لارض بتا یا گیا ہے اور یہ کام اجتماعی مفاسد میں سے ایک ہے ۔

سورہ رحمن کی آیت ۷/۸ میں وزن کرتے وقت انصاف سے کام لینے کو عالم ہستی کے نظام تخلیق میں عدالت کار فرما ہے ، اس کے برابربر قرار دیا گیاہے ، فرماتاہے :

( و السماء رفعها و وضع المیزان الاَّ تطغوا فی المیزان ) ” خد انے آسمان کو بلند کیا اورہر چیز میں میزان و حساب رکھا تاکہ تم وزن و حساب میں طغیان و سر کشی سے کام نہ لو “۔

یہ اس طرف اشارہ ہے کہ ناپ تول میں عدل کی رعایت کا مسئلہ کم اہم نہیں ہے بلکہ حقیقت میں اصل عدالت ہے اور سارے نظام ہستی پر حاکم نظم کلی ک ایک جز ہے ۔

اسی بناپر عظیم آئمہ اسلام نے اس مسئلہ کو بہت زیادہ اہمیت دی ہے ، یہاں تک کہ اصبغ بن نباتہ کی مشہور روایت میں آیاہے وہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت علی علیہ السلام سے سنا کہ آپ منبر پر فرمارہے تھے:

(یامعاشر التجار ! الفقه ثم المتجر ) اے گروہ تجار پہلے فقہ کی تعلیم حاصل کرو اس کے بعد تجارت کرو “ ۔ اس بات کی امام نے تین بار تکرار کی اور اس کلام کے آخر میں فرمایا :

( التاجر و الفاجر فی النار الاَّ من اخذ الحق و اعطی الحق ) ” تجارت کرنے والافاجر ہے اور فاجر دوزخی ہے سوائے اس کے جو صرف اپنا حق لوگوں سے لے اور لوگوں کا حق ادا کرے “۔(۱)

ایک اور حدیث میں امام محمد باقر علیہ السلام سے منقول ہے کہ جس وقت امیر المومنین علی علیہ السلام کوفہ میں تھے تو آپ ہر روز صبح کے وقت کوفے کے بازاروں میں آتے اور ایک ایک بازار میں گشت کرتے اور تازیانہ آپ کے کاندھے پر ہوتا ہر بازار کے وسط میں کھڑے ہو جاتے اور بلند آواز سے کہتے اے گروہ تجار ! خدا سے ڈرو ۔

جس وقت حضرت علی علیہ السلام کی پکار کو سنتے جو کچھ تاجروں کے ہاتھوں میں ہوتا رکھ دیتے اور پورے خلوص کے ساتھ آ پ کی باتوں کو سنتے ۔ اس کے بعد آپ فرماتے :

قدموا الاستخارة وتبرکوا بالسهولة و اقتربوا من المبتاعین و تزینوا بالحلم و تناهوا عن الیمین وجانبوا الکذب وتجافوا عن الظلم و انصفوا المظلومین ولا تقربوا الربا و اوفوا الکیل و المیزان ولا تبخسوا الناس اشیاء هم و لاتعثوا فی الارض مفسدین )

” خد اسے خیر طلب کرو اور لوگوں کے ساتھ معاملہ آسان کرکے بر کت چاہو اور خریداروں کے پاس جاو ، حلم و برد باری کو اپنی زینت قرار دو، قسم کھانے سے پرہیز کرو ، جھوٹ بولنے سے اجتناب کرو ، ظلم سے بچو اور مظلوموں کا حق ظالموں سے لے کر دو ، سود کے قریب نہ جاو ، پیمانے اور وزن کے معاملہ میں پورے پورے انصاف سے کام لو ، لوگوں کی چیزوں میں کمی نہ کرو اور زمین میں باعث فسا د نہ بنا کرو ۔

اس طرح کہ آپ کوفہ کے بازاروں میں گردش کرتے ، اس کے بعد دار الامارة کی طرف پلٹ آتے اور لوگوں کی داد خواہی اور ان کے درمیان فیصلہ کرنے کے لئے بیٹھ جاتے ۔(۲)

اور جیسا کہ ان آیات کی شان نزول میں بھی آیا ہے کہ پیغمبر اکرم فرماتے ہیں :” جو گروہ کم تولے گا خدا اس کی زراعت اس سے چھین لے گا اور اسے قحط سالی میں مبتلا کردے گا ، جو کچھ اوپر کہا گیا اس سے معلوم ہو تاہے کہ بعض گزشتہ اقوال کی بربادی اور ان پرعذاب نازل ہونے کے عامل یہ ہے کہ وہ کم تولتے تھے ۔ ان کا یہ اقدام ان کی اقتصادی بدحالی اور نزولِ عذاب خدا کا سبب بنا۔

یہاں تک اسلامی روایت میں آداب تجارت کے سلسلہ میں آیاہے کہ مومنین کے لئے بہتر ہے کہ پیمانے بھر تے اور وزن کرتے وقت زیادہ دیں او ر لیتے وقت اپنا حق کچھ کم لیں( ان لوگوں کے کام کے بالکل بر عکس جن کی طرف مندرجہ بالا آیات میں اشارہ ہو اہے کہ وہ اپنا حق تو پورا پورا وصول کرتے تھے لیکن دوسروں کا حق کم دیتے تھے )(۳)

دوسرے ، جیساکہ ہم نے اوپر والی آیت کی تفسیر میں اشارہ کیا ہے کم تولنے کا مسئلہ بعض مفسرین کے نظریہ کے مطابق وسیع معا نی کا حامل ہے ، جو ہر قسم کے اجتماعی و انفرادی اور خدا سے تعلق رکھنے والی ذمہ داریوں کے انجام دینے کے سلسلہ میں کمی ہو سکتی ہے ، اس کو بھی اپنے دامن میں لئے ہوئے ہے ۔

____________________

۱۔ کافی ، جلد۵ ، باب آداب التجارة حدیث۱۔

۲۔ کافی، باب آداب التجارة حدیث ۳ ( تھوڑے سے اختصار کے ساتھ )

۳۔وسائل الشیعہ ، جلد ۱۲ ، ابواب التجارة باب ۷ ، ص ۲۹۰ سے رجوع فرمائیے۔