تفسیر نمونہ جلد ۱۵

تفسیر نمونہ 0%

تفسیر نمونہ مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن

تفسیر نمونہ

مؤلف: آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی
زمرہ جات:

مشاہدے: 59420
ڈاؤنلوڈ: 3828


تبصرے:

جلد 1 جلد 4 جلد 5 جلد 7 جلد 8 جلد 9 جلد 10 جلد 11 جلد 12 جلد 15
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 169 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 59420 / ڈاؤنلوڈ: 3828
سائز سائز سائز
تفسیر نمونہ

تفسیر نمونہ جلد 15

مؤلف:
اردو

آیات ۷،۸،۹،۱۰

۷ ۔( کلّا ٓ اِنَّ کتٰب الفجّٓر لفی سجّینٍ ) ۔

۸ ۔( وماَ ادرٰک ما سجِّینٌ ) ۔

۹ ۔( کتٰبٌ مرقومٌ ) ۔

۱۰ ۔( ویلٌ یَّومَئِذٍ للمُکذِّبینَ ) ۔

ترجمہ

۷ ۔ اس طرح نہیں ہے ( جیساکہ وہ قیامت کے بارے میں خیال کرتے ہیں ) یقینافاجروں کا نامہ اعمال سجّین میں ہے ۔

۸ ۔ تو کیاجانے سجّین کیاہے ؟

۹ ۔ رقم زدہ نامہ اور سرنوشت ہے۔

۱۰ ۔ وائے ہے اس دن تکذیب کرنے والوں پر۔

تو کیا جانے سجین کیاہے ؟

اس بحث کے بعد جو گزشتہ آیات میں کم تولنے والوں کے بارے میں اور قیامت کے دن کے بارے میں گناہ اور ایمان راسخ نہ ہونے کے رابطہ کے سلسلہ میں آئی تھی ، ان آیتوں میں اس روز بد کاروں اور فاجروں کا جو حال ہو گا ، اس کے ایک گوشہ کی طرف اشارہ کرتا ہے ، پہلے فرماتا ہے :

”اس طرح نہیں جیسا وہ قیا مت کے بارے میں خیال کرتے ہیں کہ حساب و کتاب نہیں ہوگا بلکہ فاجروں کا نامہ اعمال سجین میں ہے “( کلّا انَّ کتاب الفجار لفی سجّین ) ۔ ” تو کیا جانے سجین کیاہے “۔( و ما ادراک ما سجین ) ایک مہر زدہ تحریر اور نامہ ہے “ (کتاب مرقوم)۔

ان آیات کے سلسلہ میں دو عمدہ نظر ئیے ہیں :

۱ ۔ کتاب سے مراد انسان کا وہی اعمال نامہ ہے ۔ کوئی چھوٹا یا بڑا ایساکام نہیں ہے جس کا اس میں شمار نہ کیا گیا ہو۔ تمام باتیں بے کم و کاست اس میں درج ہیں ۔

اور سجین سے مراد ایک جامع کتاب ہے جس میں تمام انسانوں کے نامہ ہائے اعمال جمع کئے گئے ہیں ۔

سادہ اور عام تعبیروں میں وہ ایک ایسے مکمل رجسٹر کے مانند ہے جس میں ہر ایک قرض خواہ مقروض کا حساب علیحدہ اور مستقل صفحہ پر تحریر ہے ۔

البتہ ان آیات اور بعد کی آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ تمام بد کاروں کے اعمال سجین نامی کتاب میں ہیں اور تمام نیک افراد کے اعمال ایک دوسری کتاب میں درج ہیں ، جس کانام علیین ہے ۔

” سجین “ سجن کے مادہ سے لیا گیا ہے جس کے معنی زندان کے ہیں ۔ اس کے مختلف معانی ہیں ۔ سخت و شدید زندان ، محکم موجود، قعر جہنم میں ایک بہت ہی ہولناک وادی ، وہ جگہ جہاں بد کاروں کے اعمال نامے رکھے جاتے ہیں ، اور جہنم کی آگ ۔(۱)

طریحی مجمع البحرین میں سجن کے مادہ کے بارے میں کہتا ہے :

و فی التفسیر هو کتاب جامع دیوان الشر دوّن الله فیه اعمال الکفرة و الفسقة من الجن و الجنس )

تفسیر میں آیا ہے کہ سجّین ایک کتاب ہے جو برائیوں کے دیوان کا جامع ہے جس میں خدا نے جن و انس میں سے کافروں اور فاسقوں کے اعمال کو مدون کیا ہے طریحی نے واضح نہیں کیا کہ اس تفسیر سے مراد کونسی تفسیر ہے ، آیا معصوم سے منقول ہے یا کسی غیرسے ۔

جو قرائن ان معانی کی تائید کرتے ہیں وہ درج ذیل سے عبارت ہیں

ایک قرآن مجید میں اس قسم کے مواقع پر کتاب کی تعبیر عام طور پر نامہ اعمال کے معنوں میں ہے ۔

۲ ۔ آخری آیت جو سجین کی تفسیر کی شکل میں بیان ہوئی ہے کہتی ہے : ”وہ کتاب ہے جو مہر زدہ اور یہ جو بعض نے آیات کو سجین کی تفسیر کے طور پر قبول نہیں کیا ، یقینا ظاہرکے بر خلاف ہے ۔

۳ ۔ بعض نے کہا کہ سجین اور سجیل کے ایک ہی معنی ہیں اور ہم جانتے ہیں کہ سجلّ ( سین اور جیم کے زیر اور لام پر تشدید کے ساتھ ) بہت بڑی کتاب کے معنی میں ہے ۔(۲)

۴ ۔ قرآن کی دوسری آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان کے اعمال چند کتابوں میں منضبط ہوتے ہیں ، تاکہ حساب کے وقت کسی قسم کا عذر یا بہانہ کسی شخص کے لئے باقی نہ رہے ۔

ایک شخصی اعمال نامے ہیں جو قیامت میں متعلقہ افراد کے ہاتھوں میں دئے جائیں گے۔ نیکو کاروں کو دائیں ہاتھ میں اور بدکاروں کا بائیں ہاتھ میں ۔ آیات قرآنی میں اس کی طرف بہت اشارہ ہو اہے۔

دوسری کتاب وہ ہے جسے امتوں کے نامہ اعمال کا نام دیا جاسکتا ہے ، جس کی طرف وہ سورہ جاثیہ کی آیت ۲۸ میں اشارہ ہو اہے ۔( کل امة تدعی الیٰ کتابها ) ” قیام کے دن ہر امت کو اس کے نامہ اعمال کی طرف پکارا جائے گا ۔

تیسری اعمال نامہ عمومی ہے ۔ وہ تمام نیکو کاروں اوربد کاروں کا نامہ اعمال ہے جس کا زیر بحث آیات اور آنے والی آیات میں سجین اور علیین کے نام سے ذکر کیا گیا ہے ۔

خلاصہ یہ کے اس تفسیر کے مطابق سجین وہی دیوان کل ہے جس میں تمام بد کاروں کے نامہ اعمال جمع ہوں گے ۔ اس کو سجین اس لئے کہا گیا کہ اس دیوان کے مشتملات ان کے جہنم میں زندانی اور مقید ہونے کا سبب ہوں گے نیکو کاروں کی کتاب کے بر عکس جو اعلیٰ علیین ِ بہشت میں ہے ۔

دوسری تفسیر یہ ہے کہ سجین اسی مشہور و معروف معنی ، یعنی دوزخ کے لئے استعمال ہو اہے جو تمام بد کاروں کے لئے بہت بڑا زندان ہے ، یا دوزخ میں ایک سخت جگہ ہے ۔

اور کتاب فجار سے مرادہ وہی سر نوشت ہے ، جو ان کے لئے تحریر ہوئی ہے اس بناپر اس آیت میں معنی یہ ہو ں گے ” مقرر و مسلم سرنوشت بد کاروں کی جہنم میں ہے “۔

اور لفظ کتاب کے استعمال قرآن میں اسی معنی میں بہت مقامات پرہیں ۔ مثلاً سورہ نساء کی آیت ۲۴ ، بعد اس کے فرماتاہے :

” شوہر دار عورتیں تم پر حرام ہیں “ مزید کہتاہے :

( کتاب الله علیکم ) یہ حکم ( اور اس سے پہلے کے احکام ) ایسے ہیں جو خدا نے تمہارے لئے مقرر کر دیئے ہیں “۔

اور سورہ انفال کی آیت ۷۵ میں ہم پڑھتے ہیں :

( و اولو ا الارحام بعضهم اولیٰ ببعض فی کتاب الله )

” رشتہ دار ایک دوسرے کی بہ نسبت ان احکام میں ، جو خدا کے لئے مقرر کئے ہیں ،( دوسروں سے ) زیادہ سزا واراور حقدار ہیں “۔

وہ مطلب جو اس آیت کی تائید کرتا ہے ، یہ کہ سجین اپنے اسی معنی میں ہیں جو اخبارو آثار اسلامی میں بیان ہو اہے ، یعنی اس کی تفسیر جہنم کی گئی ہے ۔

تفسیر علی ابن ابراہیم میں آیاہے کہ ”انّ اکتاب الفجار لفی سجین “ کے معنی یہ ہیں کہ جو کچھ ان کے لئے عذاب مقرر کیا گیا ہے وہ سجین ( دوزخ ) میں ہے ۔

ایک حدیث امام محمد باقر علیہ السلام سے بھی منقول ہے کہ (السجین الارض السابعة و علیون السماء السابعة )سجین ساتویں زمین اور علیین ساتواں آسمان ہے ( سب سے نچلی اور سب سے اوپر والی جگہ کی طرف اشارہ ہے ۔(۱)

متعدد روایا ت سے بھی معلوم ہوتاہے کہ وہ اعمال جو قرب خدا کے لائق نہیں ہیں ساقط ہو جائیں گے اور سجین میں قرار پائیں گے، جیسا کہ ایک حدیث میں پیغمبر اسلام سے منقول ہے :

ان الملک لیصعد بعمل العبد مبتهجاً فاذا صعد بحسناته یقول الله عز وجل اجعلوها فی سجین انه لیس ایای ارادفیها ۔

کبھی ایسا ہوتاہے کہ فرشتہ بندہ کے عمل کو خوشی خوشی آسمان کی طرف لے جاتاہے تو خدا وند عزوجل فرماتا ہے اسے سجین میں قرار دو ، اس لئے کہ اس کا مقصد میری رضا نہیں تھا ۔

ان تمام روایات کا یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ سجین جہنم میں ایک بہت ہی پست جگہ ہے جس میں بد کاروں کے اعمال یا نامہ اعمال رکھے جائیں گے ۔

یا ان کی سر نوشت یہ ہے کہ وہ اس زندان میں گرفتار رہیں گے ۔ اس تفسیر کے مطابق ( کتاب مرقوم ) کا جملہ تاکید ہے ”ان کتا ب الفجار لفی سجین “ کے جملے کی ( نہ یہ کہ سجین کی تفسیر ہے ) یعنی یہ ان کے لئے لکھی ہوئی حتمی اور قطعی سزا ہے ۔

” مرقوم “ رقم ( بر وزن زخم ) واضح خط ( تحریر) کے معنی میں ہے اور چونکہ خطوط یا تحریریں ابہام سے خالی ہوتی ہیں لہٰذا ممکن ہے کہ یہ تعبیر ابہام سے پاک ہونے کی طرف اشارہ ہو ، وہ چیز جو نہ کبھی محو ہوتی ہے نہ فراموش ہوگی ۔

یہ دونوں تفسیریں بھی صحیح ہو سکتی ہیں اس لئے کے پہلی تفسیر میں سجین بد کاروں کے کل اعمال کے دیوان کے معنی میں ہے اور دوسری تفیسر میں دوزخ کی گہرائی اور گڑھے کے معنوں میں ہے اور یہ ظاہر ہے کہ یہ دونوں ایک دوسرے کی علت و معلول ہیں ۔

یعنی جس وقت انسان کا نامہ اعمال بد کاروں کے کل اعمال کا دیوان قرار دیا گیا تویہی سبب بنے گا کہ اسے پست ترین مقام یعنی دوزخ کے گڑھے میں کھینچ کر لے جائیں گے ۔

آخری اور زیر بحث آیت میں ایک دل ہلادینے والے جملے سے منکرین معاد قیامت کی منحوس عاقبت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتا ہے :

”وائے ہے اس دن تکذیب کرنے والوں پر “( ویل یومئذ للمکذبین ) ۔

وہ تکذیب جو انواع و اقسام کے گناہوں کا سر چشمہ ہے ، جن میں سے ایک کم تولنا ہے ۔

پہلی آیت میں فرماتاہے :

( ویل للمطففین ) اور یہاں فرماتاہے :( ویل یومئذ للمکذبین ) ، وہ تعبیر جو مختصر ہونے کے باوجود انواع اقسام کے درد ناک عذابوں اور ہولناک مصائب کی طرف اشارہ کرتی ہے ۔

قابل توجہ یہ کہ پہلی آیت میں گفتگو کم تولنے والوں کے بارے میں ہے اس کے بعد بد کاروں کی بات ہے ، اور آخری آیت میں منکرین قیامت کا ذکر ہے اور اچھی طرح بتاتا ہے کہ اس اعتقاد اور ان اعمال کے درمیان قریبی رابطہ ہے جو آنے والی آیات میں زیادہ واضح طور پر منعکس ہواہے ۔

____________________

۱۔ لسان العرب ، مادہ سجن ۔

۲۔ روح المعانی جلد ۳۰ ، ص ۷۰ اور مجمع البحرین مادہ سجلّ ۔

۳۔ نو ر الثقلین ، جلد ۵، ص ۵۳۰ حدیث ۱۵۔

آیات ۱۱،۱۲،۱۳،۱۴،۱۵،۱۶،۱۷

۱۱ ۔( الذین یکذِّبون بیوم الدین ) ۔

۱۲ ۔( ومایکذِّب به الَّا کلُّ مُعتدٍ واثیمٍ ) ۔

۱۳ ۔( اذا تتلیٰ علیه اٰیاتنا قال اساطیر الاولینَ ) ۔

۱۴ ۔( کلّا بل ران علیٰ قلوبهم ماکانوا یکسبون ) ۔

۱۵ ۔( کلّا ٓ انّهم عن ربهم یومئِذٍ لمَحجوبونَ ) ۔

۱۶ ۔( ثم انّهم لصالوا الجحیم ) ۔

۱۷ ۔( ثم یقال هٰذا الذی کنتم به تُکذِّبونَ ) ۔

ترجمہ

۱۱ ۔ وہی جو قیامت کے دن کا انکار کرتے ہیں ۔

۱۲ ۔ صرف وہی لوگ اس کا انکار کرتے ہیں جوگناہگار اورتجاوز کرنے والے ہیں ۔

۱۳ ۔ وہی شخص کہ جب اسے ہماری آیات سنائی جاتی ہیں تو کہتاہے کہ یہ گذشتہ لوگوں کے افسانے ہیں ۔

۱۴ ۔ اس طرح نہیں جیساکہ وہ خیال کرتے ہیں بلکہ ان کے اعمال ان کے دلوں پر زنگ کی طرح ہیں ۔

۱۵ ۔ ایسانہیں جیساوہ خیال کرتے ہیں بلکہ وہ اس دن اپنے پروردگار سے محجوب ہوں گے ۔

۱۶ ۔ اس کے بعد وہ یقینا جہنم میں وارد ہوں گے۔

۱۷ ۔ پھر ان سے کہا جائے گا یہ وہی چیز ہے جس کی تم تکذیب کرتے تھے -

گناہ دلوں کا زنگ ہے

گزشتہ آیات کی آخری آیت مکذبین اور جھٹلانے والوں کی منحوس سر نوشت کی طرف واضح اشارہ تھا۔ زیر بحث آیات سے پہلے ان افراد کا تعارف کراتی ہیں اور کہتی ہیں وہ ایسے لو گ ہیں کو روز جز ا کا انکار کرتے ہیں( الذین یکذبون بیوم الدین ) ۔ اور اس کے بعد مزید کہتاہے :

” صرف وہ لوگ جو روز جزا کی تکذیب کرتے ہیں جو متجاوز اور گناہگار ہیں “( ومایکذب به الاکل معتد اثیم ) ۔ یعنی انکار قیامت کا اصلی سبب منطق، استدلال اور تفکر نہیں ہے ، بلکہ جو افراد چاہتے ہیں کہ زیادتیاں کرتے رہیں اور گناہ کرتے رہیں وہ قیامت کا انکار کر دیتے ہیں ۔ ( توجہ فرمائیں کہ اثیم صفت مشبہ ہے جو استمرار اور گناہ کو رکھنے پر دلالت کرتی ہے )۔

وہ چاہتے ہیں کہ کسی قسم کے احساس ذمہ داری کے بغیر اپنے گمان کے مطابق انتہائی آزادی کے ساتھ اور ہر قسم کے دباو اور ذہنی پریشانی کے بغیر اپنی برائیوں اور قباحتوں کو جار ی رکھیں اور کسی قانون کو قانون نہ سمجھیں ۔

یہ چیز اس چیز کے مانند ہے جو سورہ قیامت کی آیت پانچ میں آئی ہے( بل یرید الانسان لیفجر امامه ) ” بلکہ انسان چاہتا ہے کہ اپنی آئندہ عمر میں مسلسل فسق و فجور کی راہ اختیار کئے رہے “، اس لئے وہ قیامت کی تکذیب کرتاہے ۔

بعد والی آیات میں قیامت کا انکار کرنے والوں کی تیسری صفت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے مزید فرماتاہے :

” جب ہماری آیتیں ان کے سامنے پڑھی جاتی ہیں تو وہ کہتے ہیں :’ یہ گزشتہ لوگوں کے بے بنیاد مطالب اور افسانے ہیں “۔( اذا تتلیٰ علیه آیاتنا قال اساطیر الاولین ) ۔

یہ لوگ علاوہ اس کے کہ تجاوز کرنے والے ( متعدد) اور گناہ گار ہیں ، آیات الہٰی کا مذاق اڑاتے ہیں ، انہیں کہانیاں اور موہوم قصے بتاتے ہیں ، ایسے قصے کو انسان کے نادانی کے زمانے کی یاد گار ہیں ۔(۱)

اور اس بہانے سے چاہتے ہیں کہ اپنے آپ کو ان آیات کی سماعت سے جو ذمہ داری عائد ہوتی ہے ، اس سے بچالیں ۔نہ صرف اس سورہ میں بلکہ قرآن مجید کی دوسری آیات میں بھی ہم پڑھتے ہیں کہ جسارت کرنے والے مجرم دعوت ِ خدا وند ی سے منحرف ہونے کا یہی بہانہ کرتے تھے ۔

قرآن مجیدکی نو آیتوں میں یہی مضمون واضح کیا گیا ہے کہ مشرکین قرآن مجیدکی آیتوں کے مقابلہ میں اسی بہانہ سے کام لیتے تھے( قالوا اساطیر الاولین اکتتبها فهی تملیٰ علیه بکرةو اصیلاً ) ” انہوں نے کہا یہ قرآن گزشتہ لوگوں کے افسانوں اور قصے کہانیوں کا مجموعہ ہے ، جسے اس نے لکھا ہے اور صبح و شام اسے لکھا یا جاتا ہے “۔ (فرقان۔ ۵) ۔

سورہ احقاف کی آیت ۱۷ میں ایک سر کش جوان کی زبانی جو اپنے مہر بان اور مومن ماں باپ کے مقابلہ پر کھڑا ہو جاتاہے ہم اس طرح سنتے ہیں کہ اپنے ماں باپ کی تمام نصیحتوں کا یہ کہہ کر مذاق اڑاتاہے کہ( ماهٰذا اساطیر الاولین ) یہ باتیں جو کرتے ہو گزشتہ لوگوں کی بے بنیاد باتوں اور افسانوں کے علاوہ اور کچھ نہیں ۔

بعض مفسرین نے کہاکہ زیر بحث آیت نضر بن حارث بن کلدہ ، پیغمبر اسلام کی خالہ کے بیٹے کے بارے میں ،جو کفر و ضلالت کے سرغنوں میں سے تھا ، نازل ہوئی ہے۔

لیکن واضح رہے کہ آیت کا نزول کسی خاص مورد اس سے مانع نہیں کہ دوسروں کے بارے میں بھی صادق آئے ، بہرحال سر کش لوگ وجدان کی تنبیہ سے نجات حاصل کرنے کے لئے اور حق پسند لوگوں کے اعتراضات سے بچنے کے لئے ہمیشہ فضول قسم کے بہانے بناتے رہتے ہیں تاکہ خود اس طرح سکون حاصل کریں ۔

تعجب کی بات یہ ہے کہ وہ عام طور پر ایک ہی انداز سے با ت کرتے تھے گویا تاریخ کے طویل دور میں ایک دوسرے کے کان میں کہہ جاتے تھے سحر ، کہانت جنون اور افسانہ وغیرہ ۔ لیکن قرآن اس کے بعد آنے والی آیت میں ایک مرتبہ پھر ان کی سر کشی کے اصل سبب کی طرف اشارہ کرتے ہوئے مزید کہتاہے :

ایسا نہیں جیسا وہ خیال کرتے ہیں ، بلکہ ان کے برے اعمال ان کے دل پر زنگ بن کر لگے ہوئے ہیں اور وہ حقیقت کے ادراک سے محرو م ہوگئے ہیں ۔( کلا بل ران علیٰ قلوبهم ماکانوا یکسبون ) ۔ عجیب دل ہلادینے والی تعبیر ہے ان کے اعمال نے ان کے دلوں پر زنگ لگا دیا ہے اور وہ نور جو خدا داد فطرت کی بناپر تھا سلب کرلیا ہے ، اس وجہ سے حقیقت کا چہرہ جو آفتاب عالمتاب کی درخشاں ہے ان کے دلوں پر ہر گز روشنی نہیں ڈالتا اور نوار وحی کا پر تو منعکس نہیں ہوتا۔

” ران“ ۔” رین “ ( بروزن عین ) کے مادہ سے ، جیسا کہ راغب نے کہا ہے ، وہی زنگ ہے جو قیمتی چیزوں کو لگ جاتا ہے ۔ اور بعض دوسرے ارباب لغت کے بقول سرخ رنگ کا چھلکا ہے جو ہَوَا کی رطوبت کے زیر اثر لوہے اور دوسری اسی قسم کی چیزوں پر چپک جاتا ہے جسے فارسی میں زنگ یا زنکار کہتے ہیں اور عام طور پر وہ اسی دھا ت کے پرانے اور بوسیدہ ہونے کی نشانی ہے اور طبعی طور پر اس کی شفاعت اور درخشندگی کے ختم ہونے کی علامت ہے ۔

کبھی اس لفظ کی ایک چیز سے دوسری چیز پر غلبہ حاصل کرنے ، یا کسی چیز میں اس طرح گرنے سے جس سے بچا نہ جا سکے ، تفسیر کرتے ہیں ۔ اس لئے کہ یہ سب چیزیں ان اصلی معانی کا لازمہ ہیں ۔(۲)

دل کی نورانیت کو ختم کرنے کے سلسلہ میں گناہ کے تباہ کن اثرات پر ہم بحث کریں گے جسے نکات کے عنوان کے ماتحت ملاحظہ کیا جاسکتا ہے۔

اس سے اگلی آیت میں فرماتاہے :” ایسا نہیں ہے جیسا وہ خیال کرتے ہیں بلکہ اس دن وہ اپنے پر وردگار سے محجوب ہوں گے“۔( کلا انهم عن ربهم یومئذٍ لمحجوبون ) ۔ اور یہ کہ ان کی زیادہ درد ناک سزا ہے ۔ یہ اس بالا تر اور زیادہ لذت بخش نعمت کا بالکل تضاد ہے جو نیک لوگوں کو پروردگار عالم کی معنوی ملاقات اور اس کی بار گاہِ قرب میں حضور سے حاصل ہو گا ۔

کلّا عام طور پر اس بات کی نفی کے لئے آتا ہے جو پہلے سے بیان شدہ ہو اور یہاں مفسیرن نے کئی احتمال تجویز کئے ہیں ۔ پہلا یہ کہ کلا اس کی تاکید ہے جو گزشتہ آیت میں آیاہے یعنی اس طرح نہیں ہے کہ جس طرح انہوں نے قیامت کے دن کا افسانے اور کہانی کے طور پر تعارف کرایا ہے ۔

یا یہ کہ اس طرح نہیں کہ وہ زنگ جو ان کے دلوں پر لگ چکا ہے وہ اتر جائے ۔ وہ اس جہان میں جمال حق کے مشاہدہ سے محروم ہیں اور دوسرے جہان میں بھی ۔

یا یہ کہ جس طرح قرآن کی دوسری آیات میں آیاہے کہ وہ مدعی تھے کہ اگر بالفرض قیامت ہو بھی ، تب بھی وہ خدا کی انواع و اقسام کی نعمتوں سے بہرہ مند ہوں گے ۔(۳)

اس طرح نہیں جس طرح وہ خیال کرتے ہیں بلکہ وہ شدید ترین عذابوں اور سخت ترین شکنجوں میں گرفتار ہوں گے ۔

جی ہاں ! آخرت انسان کے اس دنیا کے اعمال کا عکس اور عظیم تجسم ہے ۔ وہ لوگ جو یہاں مشاہدہ حق سے آنکھیں بند کرلیتے ہیں اور ان کے اعمال زنگ بن کر ان کے دلوں پر لگے ہوئے ہیں ، وہاں بھی پر وردگار سے محجوب ہوں گے اور جما ل ِ حق کے مشاہدہ کی طاقت ان میں نہیں ہو گی اور محبوب ِ حقیقی کے لقائے معنوی سے محروم رہیں گے ۔

اس کے بعد وہ یقینا جہنم کی آگ میں داخل ہوں گے( ثم انهم لصالوا الجحیم ) ۔ یہ جہنم میں ورود پروردگا رسے محجوب ہونے کا نتیجہ ہے اور ایک اثر ہے جو اس سے جد انہیں ہے اور بحیثیت ِ مسلّم دیدار حق سے محرومیت کی آگ جہنم سے بھی زیادہ جلانے والی ہے ۔ اور آخری آیت میں فرماتا ہے :

” پھر ان سے کہا جائے گا کہ یہ وہی چیز ہے جس کی تم تکذیب کرتے تھے “( ثم یقال هٰذا الذی کنتم به تکذبون ) یہ بات ان سے بطور توبیخ وملامت و سر زنش کہی جائے گی اور یہ اس بیوقوف اور ہٹ دھرم گروہ کے لئے ایک روحانی عذاب ہے ۔

____________________

۱۔ ” اساطیر“ ،”اسطورہ“کی جمع ” سطر“ کے مادہ سے عام طور پر موہوم قصوں اور جھوٹی باتوں کے لئے استعمال ہوتا ہے

۲۔ تفسیر رازی در ذیل آیہ زیر بحث اور المنجد مادہ رین کی طرف رجوع فرمائیں ۔

۳۔ سورہ کہف کی آیت ۳۶ میں آیا ہے (وما ا ظن الساعة قائمة و لئن رددت الیٰ ربی لاجدن خیراً منها منقلباً ) میں بالکل باور نہیں کرتا کہ قیامت بر پر ہو گی اور اگر میں اپنے پر وردگار کی طرف لوٹوں بھی اور قیامت بھی ہو ، پھر بھی اس جگہ سے بہتر جگہ وہاں پاو ں گا ( ان معانی کی نظیر سورہ فصلت کی آیت ۵۰ میں بھی آئی ہے) ۔

۱ ۔ دل کے لئے گناہ کیوں زنگ ہے

نہ صرف اس سورہ کی آیت میں دل کو تاریک کرنے پر گناہ کی تاثیر کو ذمہ دار ٹھہرا یا گیا ہے بلکہ قرآن مجید کی بہت سی دوسری آیتوں میں بھی ان معانی کی کئی مرتبہ تکرار کی گئی ہے اور بری صراحت کےساتھ انھیں قابل توجہ قرار دیا گیا ہے ۔ ایک جگہ فرماتاہے :

( کذلک یطبع الله علیٰ کل قلب متکبر جبار ) ” اسی طرح خدا ہر متکبر جبار اور سر کش کے دل پر مہر لگا دیتا ہے “۔ ( مومن ۔ ۳۵) ۔ ایک دوسری جگہ ہٹ دھرم اور عناد رکھنے والے گناہگا روں کے گروہ کے بارے میں فرماتا ہے :

( ختم الله علیٰ قلوبهم و علیٰ سمعهم و علیٰ ابصار هم غشاوة ولهم عذاب عظیم )

” خدا نے ان کے دلوں پر مہر لگادی اور اسی طرح ان کے کانوں اور ان کی آنکھوں پر پر دہ ڈال دیا ہے اور ان کے لئے بہت بڑا عذاب ہے “۔ ( بقرہ ۷) ۔ اور سورہ حج کی آیت ۴۶ میں ہم پڑھتے ہیں: ( فانها لاتعمی الابصار ولکن تعمی القلوب التی فی الصدور ) ظاہری آنکھیں نابینانہیں ہوتیں بلکہ وہ دل ہے جو سینوں میں اندھے اور نابیناہوجاتے ہیں ۔

جی ہاں ! گناہ اور اس کو جاری رکھنے کا بد ترین اثر دل کا تاریک ہوجانا ہے اور نورِ عالم اور حسّ کا ختم ہوناہے ۔گناہ اعضاء و جوارح سے سرزد ہوتے ہیں لیکن دل کومتاثر کرتے ہیں اور اسے غلیظ و متعفن کیچڑ میں تبدیل کردیتے ہیں ۔

یہ وہ مقام ہے جہان انسان راہ اور چاہ کے درمیان امتیاز نہیں کرسکتا اور عجیب و غریب شہادت کا شکار اور غلطیوں کا مر تکب ہوتاہے جن سے ہر شخص حیران ہو جاتا ہے وہ اپنے پیروں پر خود کلہاری مارتا ہے اور اپنی خوشبختی کا سرمایہ بر بادکردیتاہے ۔

ایک حدیث میں پیغمبر اسلام سے منقول ہے (کثرة الذنوب مفسدة للقلب ) گناہوں کی فراوانی انسان کے دل کو تباہ کردیتی ہے ۔(۱)

پیغمبر اسلام و کی ایک اورحدیث ہے (ان العبد اذا اذنب ذنبا نکتت فی قلبه نکتة سوداء فان تاب و نزع و استغفر صقل قلبه و ان عاد زات حتی تعلوقلبه فذٰلک الدین الذی ذکر الله فی القرآن ( کلّا بل ران علیٰ قلوبهم ما کانوا یکسبون )

جس وقت بندہ گناہ کرے تو اس کے دل میں ایک سیاہ نکتہ پید اہو جاتا ہے اگر توبہ کرے اور گناہ سے دست بردار ہوجائے اور استغفار کرے تو اس کا دل صیقل ہوجاتاہے اور اگر دوبارہ گناہ کی طرف پلٹے تو سیاہی بڑھ جاتی ہے،یہاں تک کہ اس کے پورے دل کو گھیر لیتی ہے اور یہ وہی زنگ ہے جس کی طرف اس آیت( کلا بل اران علیٰ قلوبهم ما کانوا یکسبون ) میں اشارہ ہو اہے ۔(۲)

یہی مفہوم امام محمد باقرعلیہ السلام سے بھی اصول کافی میں مختصر سے فرق کے ساتھ منقول ہے ۔(۳)

نیز اسی اصولی کافی میں رسول خدا سے منقول ہے کہ (تذاکر وا و تلاقوا و تحد ثوا فان الحدیث جلاء للقلوب ان للقلوب لترین کما کما یرین السیف و جلائه الحدیث )

مذاکر ہ کرو اور ایک دوسرے ملاقات کرو اور ( دین کے پیشواو ں کی ) احادیث نقل کرو اس لئے کہ حدیث دلوں کی جلا کا سبب ہے ۔ دل بھی زنگ آلود ہو جاتے ہیں جس طرح تلوار کو زنگ لگ جاتا ہے اور قلوب کا صیقل حدیث ہے ۔ ۴

اصول نفسیات کی رو سے بھی مفہوم ثابت ہو چکاہے کہ انسان کے اعمال کا ہمیشہ اس کی روح پر اثر ہوتا ہے اور وہ اعمال روح کو آہستہ آہستہ اپنی صورت پر لے آتے ہیں ، یہاں تک کہ انسان کے سوچنے کے طریقہ اور فیصلہ کرنے کے انداز پر بھی اپنا اثر ڈالتے ہیں ۔

یہ نکتہ بھی قابل توجہ ہے کہ انسان گناہ کو جاری رکھنے کے نتیجے میں رفتہ رفتہ روح کی تاریکی میں ڈوبتا چلا جاتاہے اور ایسی منزل پرپہنچ جاتاہے کہ اس کواپنے گناہ حسنات نظر آتے ہیں یعنی اپنی برائیوں ہی کو اچھائیاں سمجھنے لگتاہے ۔ وہ بعض اوقات اپنے گناہ پر فخر کرتا ہے ایسی منزل پر پہنچ کر اس کے لئے واپسی کا کوئی امکان نہیں رہتا ، یہ ایک خطر ناک ترین حالت ہے جو ایک انسان کو پیش آتی ہے ۔

۲ ۔ روح و جان کے چہرہ پر عذاب

گر بہت سے مفسرین نے کوشش کی ہے کہ آیت( کلا انهم عن ربهم یومئذ لمحجو بون ) میں کسی چیز کو مقدر قرار دیں اور کہیں کہ یہ گناہ گار خد اکی رحمت سے محجوب ہوں گے یا اس کے احسان ، کرامت اور ثواب سے محجوب ہوں گے ، لیکن بظاہر آیت کسی تقدیر کی محتاج نہیں ہے ۔

وہ واقعاً پرور دگار سے محجوب ہوں گے جب کہ نیک اور پاک افراد قربِ خدا وندی کی منزل پر فائز ہوں گے اور دیار محبوب اور اس کے شہود ِ باطنی سے بہرہ مند ہوں گے ۔

یہ بے ایمان اور گناہگار دوزخی ہیں جو اس فیض عظیم اور نعمت بے نظیر سے محروم ہیں ۔ بعض پاک دل مومن اس جہان میں بھی اس دیدار سے فیضیاب ہوتے ہیں جبکہ کور دل مجرم اس جہان میں بھی اس فیض سے محروم ہوں گے ۔ پاک دل ہمیشہ حضور خداوندی میں ہیں اور یہ بے بصیر تاریک دل اس سے دور ہیں ۔

وہ اس کی مناجات سے اس قدرلذت حاصل کر تے ہیں جو کسی بیان کی محتاج نہیں ہے جبکہ یہ گناہگار اپنے گناہوں کی نحوست میں اس قدر غرق ہیں کہ ان کے لئے کو ئی راہ نجات نہیں ہے ۔

تو کز سرائے طبیعت نمی روی بیرون کجا بکوئے حقیقت گزرتوانی کرد

جمال یار ندارد و حجاب و پردہ دلے غبار راہ اشارہ نشاں تا نظر توانی کرد

تومادہ کے گھر سے باہرنہیں نکلتا تو پھر حقیقت کے کوچہ میں تیرا گذر کیسے ہو سکتاہے ۔ محبوب کے جمال پرکوئی پردہ نہیں ہے لیکن غبار ِ راہ کو بھٹانا کہ تو دیکھ سکے ۔

امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام مشہور دعا ئے کمیل میں فرماتے ہیں :هبنی صبرت علیٰ عذابک فکیف اصبر علیٰ فراقک ) بالفرض اگر میں تیرے دردناک عذاب پر صبر کربھی لو تو تیرے فراق پر کیسے صبر کروں گا۔

____________________

۱۔ در المنثور،جلد۶ ص ۳۲۶۔

۲۔ در المنثور، جلد ۶ ص ۳۲۵۔

۳۔ نور الثقلین ، جلد ۵ ص ۵۳۱ حدیث ۲۲،۲۳۔

۴۔ نور الثقلین ، جلد ۵ ص ۵۳۱ حدیث ۲۲،۲۳۔