دعائے ندبہ کی سندی اور مضمونی اعتراضات کی تحقیق و تنقید

دعائے ندبہ کی سندی اور مضمونی اعتراضات کی تحقیق و تنقید0%

دعائے ندبہ کی سندی اور مضمونی اعتراضات کی تحقیق و تنقید مؤلف:
زمرہ جات: ادعیہ اور زیارات کی کتابیں
صفحے: 228

دعائے ندبہ کی سندی اور مضمونی اعتراضات کی تحقیق و تنقید

مؤلف: حجة الاسلام و المسلمین علی اکبر مہدی پور
زمرہ جات:

صفحے: 228
مشاہدے: 40601
ڈاؤنلوڈ: 3031

تبصرے:

دعائے ندبہ کی سندی اور مضمونی اعتراضات کی تحقیق و تنقید
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 228 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 40601 / ڈاؤنلوڈ: 3031
سائز سائز سائز
دعائے ندبہ کی سندی اور مضمونی اعتراضات کی تحقیق و تنقید

دعائے ندبہ کی سندی اور مضمونی اعتراضات کی تحقیق و تنقید

مؤلف:
اردو

منجملہ ان میں سے :

۱ ۔ رسول اکرم نے فرمایا:

”رضوی، رضی اللّہ عنہ “۔

”رضویٰ ،خدا اس سے خوش ہے !“۔(۱)

۲ ۔ دوسری حدیث میں فرمایا:

”رضویٰ جنت کے پہاڑوں میں سے ہے“ ۔(۲)

۳ ۔ امام جعفر صادق ،جب سر زمین “رَوْحا “ پر وارد ہوئے تو ایک نظر اس پہاڑ پر ڈالی جو دشت روحا سے نزدیک تھا ،عبد الاعلی غلام آل سام جو حضرت کی خدمت میں تشریف فرماتھے فرمایا:

”اس پہاڑ کو دیکھ رہے ہو؟ اس کو ”رضویٰ“ پہاڑ کہا جاتا ہے جو فارس کی پہاڑیوں میں سے تھا، چونکہ اس نے ہمیں دوست رکھا تو خدا نے اس کو ہماری طرف منتقل کر دیا۔ اس میں ہر قسم کے میوے کے درخت موجود ہیں حیران اور خوف زدہ شخص کے لیے کتنی بہترین پناہ گاہ ہے ۔ “

اس جملہ کی دو مرتبہ تکرار کی پھر فرمایا:

”اما انّ لصاحب هذا الامر فیه غیبتین ،واحدة قصیرة ،و

______________________

۱۔ معجم البلدان ،یاقوت حموی ،ج۳،ص ۵۱۔

۲۔ وفاء الوفاء ،باخبار دار المصطفیٰ ،نور الدین سمہودی،ج۴،ص ۱۲۱۹۔

۱۰۱

الاخریٰ طویلة “

”اس صاحب الامر کے لیے اس پہاڑ میں دو غیبت ہے ،ایک مختصر اور دوسری طولانی ۔“(۱)

۴ ۔ امام زین العابدین نے ایک طولانی حدیث کے ضمن میں ظہور کے وقت جبرئیل امین کا حضرت کی خدمت میں آنے کے متعلق بیان کیا ہے ،اس کے آخر میں فرماتے ہیں:

”و یجیئه بفرس یقال له البُراق، فیرکبه ،ثم یاتی الی جبل رضوی“

”اس وقت وہ گھوڑا کہ جسے براق کے نام سے جانا جاتا ہے ان کی خدمت میں لایا جائے گا۔ حضرت قائم اس پر سوار ہو ں گے پھر کوہ رضویٰ کی طرف حرکت کریں گے “۔

اس وقت حضرت کے ۳۱۳ اصحاب کی آمد، ظہور کے اعلان اور دعوت اسلام کے آغاز کے متعلق تفصیلی گفتگو فرماتے ہیں۔(۲)

۵ ۔ امام جعفر صادق نے ایک طولانی حدیث کے ضمن میں ارواح مومنین کا گلستان ”رضویٰ “ میں جمع ہونے کے متعلق بیان کیا ہے ،اور آخر میں فرماتے ہیں:

____________________

۱۔ کتاب الغیبة ،شیخ طوسی ،ص۱۶۳۔

۲۔ بحار الانوار ،محمد باقر مجلسی ،ج۵۲،ص ۳۰۶۔

۱۰۲

”ثمّ یزور آل محمد فی جنان رضوی ، فیاکل معهم من طعامهم ، و یشرب معهم من شرابهم ، و یتحدّث معهم فی مجالسهم ،حتی یقوم قائمنا اهل البیت ، فاذا قام قائمنا بعثهم اللّه فاقبلوا یُلبّون زمَراً زمراً“

”پھر وہ مومن جنت رضوی میں آل محمد کی زیارت کرتا ،کھاتا پیتا اور ان کے ساتھ ان کی مجالس میں بیٹھ کر ان حضرات سے گفتگو کرتا رہے گایہاں تک کہ ہم اہل بیت کا قائم ظہور کرے گا اور جب وہ ظہور کرے گا تو اللہ تعالیٰ ان مومنین کو دوبارہ زندہ کر کے دنیا میں بھیجے گا پس وہ گروہ درگروہ لبیک کہتے ہوئے ان کی خدمت میں حاضر ہوں گے“ ۔(۱)

پہلی اور دوسری حدیث سے رضوی پہاڑ کی فضیلت و قداست کا استفادہ ہوتا ہے۔

تیسری حدیث صراحت کے ساتھ اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ حضرت بقیة اللہ ارواحنا فداہ ،غیبت صغریٰ اور کبریٰ میں اپنی مبارک عمر کا ایک حصّہ کوہ رضویٰ میں بسر کریں گے ۔

چوتھی حدیث سے استفادہ ہوتا ہے کہ وہ عالمی مصلح ظہور کے موقع پر بھی رضویٰ پہاڑ سے گزریں گے اور وہاں سے مکہ معظمہ کی طرف جانے کا قصد کریںگے ۔

_____________________

۱۔ بحار الانوار ،محمد باقر مجلسی ، ج۶،ص ۱۹۸، ج۵۳،ص۹۷۔

۱۰۳

پانچویں حدیث سے بھی استفادہ ہوتا ہے کہ حضرت کے بعض اصحاب اس پہاڑ میں اللہ تعالیٰ کی نعمتوں سے لطف اندوز ہو رہے ہیں تاکہ حضرت کے ظہور کے وقت رجعت کریں اور حضرت کی خدمت کے لیے کمربستہ ہوں اور ان کے تمام فرمان کو ہوبہ ہو نافذ کریں۔

۲ ۔ ”ذی طُویٰ“

”طوی“ لغت میں سمٹنے اور لپٹنے کے ہیں اور اس کے بعض مشتقات جیسے ”طایہ“ ہموار سر زمین، چھت، چبوترہ اور وہ بڑے بڑے پتھر جو وسیع ریگ زاروں میں پائے جاتے ہیں ان پر اطلاق ہوتا ہے ۔(۱)

”ذی طوی“ مکہ کے ایک فرسخ کے درمیان ،حرم کے اندر واقع ہے اور وہاں سے مکہ کے گھروں کا مشاہدہ ہوتا ہے ۔(۲)

جو شخص یہ چاہتا ہے ”مَسفَلَہ “ (مکہ کی نیچی سطح) کی طرف سے مکہ معظمہ میں وارد ہو ،مستحب ہے کی ”ذی طوی “ کہ جگہ غسل کرے پھر شہر مکہ میں وارد ہو۔(۳)

یہ علاقہ ”حجون “اور ”فخّ“ کے درمیان واقع ہے ۔جو شخص مسجد تنعیم میں احرام باندھ کر مسجد الحرام کی طرف جانے کا قصد کرتا ہے ،علاقہ فخّ (شہید فخ

____________________

۱۔ معجم مقاییس اللغة ،ج۳،ص ۴۳۰۔

۲۔ مجمع البحرین ،فخر الدین الطریحی،ج۱،ص ۲۷۹۔

۳۔ النھایہ فی غریب الحدیث و الاثر،المبارک بن محمد ابن الاثیر ، ج۳،ص ۱۴۷۔

۱۰۴

حسین کی شہادت کی جگہ ) کو عبور کرنے کے بعد ”ذی طوی “ کے مقام میں وارد ہوتا ہے، اس وقت قبرستان معلّیٰ (قبرستان حضرت ابو طالب علیہ السلام) کی طرف سے مکہ معظمہ میں وارد ہوتا ہے ۔(۱)

رسول اکرم نے ”حجة الوداع “ میں چوتھی ذی الحجة الحرام کو وہاں رات گزاری، وہاں نماز صبح ادا کی ،غسل کیا پھر ”ذی طوی“ کی سنگلاخ وادی سے جو حجون کے نزدیک ہے مکہ معظمہ میں وارد ہوئے ۔(۲)

”طوی“شام میں ایک پہاڑ کا نام ہے ”ذی طُوا“ الف ممدودہ کے ساتھ طائف کے راستہ میں ایک مقام ہے اور ”ذی طوی“ الف مقصورہ کے ساتھ مکہ کے مغربی علاقہ میں ایک جگہ کا نام ہے اور اس کے صدر دروازہ میں واقع ہے ۔(۳)

اب ”ذی طوی“ کے متعلق بعض روایات ملاحظہ فرمائیں:

۱ ۔ امام جعفر صادق سے دریافت کیا گیا: جس شخص نے عمرہ مفردہ کے لیے احرام باندھا اسے تلبیہ کو کہاں قطع کرنا چاہیے ؟فرمایا:

”اذا رایتَ بیوت ذی طوی فاقطع التلبیة“

”جب ذی طوی کے گھروں کا مشاہدہ کرو تو تلبیہ کو قطع کرو“۔(۴)

______________________

۱۔ اخبار مکہ ،ابو الولید محمد بن عبد اللہ الازرقی ،ج۲،ص ۲۹۷۔

۲۔ مرآة الحرمین ،پاشا ابراہیم رفعت ،ج۱،ص ۸۱۔

۳۔ لسان العرب ،ابن منظور ،ج۸،ص۲۳۸۔

۴۔ الاستبصار ،شیخ طوسی ،ج۲،ص۱۷۶۔

۱۰۵

۲ ۔ امام رضا سے دریافت کیا گیا کہ عمرہ تمتع میں تلبیہ کو کہاں قطع کرنا چاہیے ؟ فرمایا:

”اذا نظر الی عراش مکّة ،عَقَبةَ ذی طوی “

”جب مکہ کے سائبانوں کو ذی طوی کے ابتدائی حصے میں مشاہدہ کرو“۔

راوی نے دریافت کیا:”مکہ کے گھروں کے متعلق فرمارہے ہیں؟“ جواب دیا: ہاں۔(۱)

۳ ۔ امام جعفر صادق نے رسول اکرم کے حج کی کیفیت کی وضاحت میں فرمایا:

”فلمّا دخل مکة دخل من اعلاها من العقبة ،و خرج حین خرج من ذی طوی “

”جب مکہ میں داخل ہوئے تو مکہ کی بالائی جگہ کے ابتدائی حصہ سے وارد ہوئے اور جب مکہ سے باہر نکلے تو ذی طوی سے نکلے ۔“(۲)

۴ ۔ امام جعفر صادق نے ،خانہ کعبہ کی ساخت و ساز کی وضاحت کے وقت فرمایا:

”فبنی ابراهیم البیت و نقل اسماعیل الحجر من ذی طوی“

____________________

۱۔ تہذیب الاحکام ، شیخ طوسی ،ج۵،ص ۹۵۔

۲۔ الکافی ،محمد بن یعقوب الکلینی ،ج۴،ص ۲۵۰۔

۱۰۶

”حضرت ابراہیم نے خانہ خدا کی تعمیر کی اور حضرت اسماعیل نے ذی طوی سے پتھر لا کر دیے“ ۔(۱)

۵ ۔ امام محمد باقر نے اپنے دست مبارک سے ”ذی طوی“ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا:

”یکون لصاحب هذا الامر غیبة فی بعض هذه الشّعاب“

”اس صاحب الامر کے لیے ان بعض درّوں میں غیبت واقع ہوگی ۔“(۲)

۶ ۔ امام محمد باقر حضرت بقیة اللہ ارواحنا فداہ کے ظہور کی جگہ کے متعلق وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں :

”انّ القائم علیه السلام ینتظر من یومه فی ذی طوی ،فی عدّة اهل بدر، ثلاثماة عشر رجلاً حتی یسند ظهره الی الحجر و یهزّ الرایة المعلّقة“

”اس دن سے حضرت قائم اپنے تین سو تیرہ (اصحاب بدر کی تعداد کے مطابق ) اصحاب کے ساتھ مقام ذی طوی میں انتظار کریں گے پھر حجر اسود کی طرف اپنی پشت کر کے کھڑے ہوں گے اور اپنا پرچم لہرائیں گے ۔“(۳)

____________________

۱۔ بحار الانوار ،محمد باقر مجلسی ،ج۱۲،ص۹۹، ج۹۹، ص۳۸۔

۲۔ تفسیر عیاشی ،محمد مسعود بن عیاش سلمی سمرقندی (عیاشی) ،ج۲،ص ۵۶۔

۳۔ اثبات الھداة ،محمد بن حسن حر عاملی ،ج۳،ص ۵۸۲۔

۱۰۷

۷ ۔ امام جعفر صادق بھی اس سلسلہ میں فرماتے ہیں:

”کانّی بالقائم علیه السلام علی ذی طوی ،قائما علی رجلیه حافیا یرتقب بسنّة موسیٰ حتی یاتی المقام فیدعو فیه“

”گویا میں دیکھ رہا ہوں کہ امام قائم مقام ذی طوی سے پا پیادہ حضرت موسیٰ کی سنت پر عمل کرتے ہوئے آرہے ہیں اور جب مقام (ابراہیم ) پر پہونچیں گے تو وہاں لوگوں کو دعوت دیں گے ۔ “(۱)

۸ ۔ امام محمد باقر ظہور کے عظیم الشان دن کو یوں بیان فرماتے ہیں :

”انّ القائم یهبط من ثنیّة ذی طوی ،فی عدّة اهل بدر، ثلاثمائة و ثلا ثة عشر رجلاً، حتی یسند ظهره الی الحجر الاسود، یهزّ الرّایة الغالبة“

”یقینا حضرت قائم ”ذی طوی“ کے ٹیلوں سے اپنے تین سو تیرہ اصحاب بدر کی تعداد کے مطابق ان کے ساتھ نازل ہوں گے پھر حجر اسود کی طرف اپنی پشت کر کے کھڑے ہوں گے اور اپنا پرچم لہرائیں گے ۔(۲)

۹ ۔ دوسری حدیث میں شہادت نفس زکیہ کی وضاحت فرمائی اس مصلح غیبی کے عالمی قیام کے متعلق بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں :

_____________________

۱۔ بحار الانوار ،محمد باقر مجلسی ، ج۵۲،ص ۳۸۵۔

۲۔ کتاب الغیبة ، ابن ابی زینب نعمانی ،ص۳۱۵۔

۱۰۸

”فیهبط من عقبة طوی فی ثلاثمائة و ثلاثة عشر رجلاً ، عدّة اهل بدر،حتی یاتی المسجد الحرام ،فیصلّی فیه عند مقام ابراهیم اربع رکعات “

”پھر آپ اصحاب بدر کی تعداد کے مطابق تین سو تیرہ افراد کو لے کر عقبہ طوی سے اتر کر مسجد الحرام میں تشریف لائیں گے اور مقام ابراہیم پر چار رکعت نماز پڑھیں گے “ ۔(۱)

پانچویں حدیث سے نویں حدیث تک کی تحقیق کے بعد کوئی شک و شبہ باقی نہیں رہتا کہ ”ذی طوی“ کے علاقے کا حضرت بقیة اللہ ارواحنا فداہ کے ساتھ گہرا تعلق ہے اور حضرت اپنی غیبت کے کچھ زمانے تک وہاں زندگی بسر کریں گے اور ظہور کے وقت اس مقدس مکان میں حکم الٰہی کے منتظر رہیں گے اور وہاں اپنے ملک اور فوج کے ۳۱۳ افراد کو ترتیب دیں گے اور اپنے آخری قیام کو اسی مقام سے شروع کریں گے اور حرم امن الٰہی کی طرف قدم بڑھائیں گے ۔

ہر با انصاف شخص جو”رضویٰ“ اور ”ذی طوی“ سے متعلق حدیثوں کی تحقیق کرے، تو اسے اطمینان کامل حاصل ہو جائے گا کہ یہ دونوں مقدس مکان ایک مقدس مقامات میں سے ہیں کہ کعبہ مقصود او رقبلہ موعود کی عمر مبارک کے زمانہ غیبت کا ایک حصہ اس جگہ بسر ہو گااور نتیجہ میں بہت بجا اور مناسب ہے کہ منتظرین

____________________

۱۔ بحار الانوار ،محمد باقر مجلسی ،ج۵۲، ص۳۰۷۔

۱۰۹

ظہور اور عاشقین حضور حضرت نظروں سے غائب رہنے والے اس امام کی خدمت میں اپنی اشکبار آنکھوں سے نذرانہ عقیدت پیش کرنے کے لیے اس کا طولانی انتظار کرتے ہوئے عرض کریں:

اے کاش مجھے معلوم ہوتا کہ تیری جائے سکونت کس سر زمین میں ہے؟! کیا مقام رضوی ہے یا مقام ذی طوی یا دوسری جگہ ۔

اس بیان کی بنا پر دعائے ندبہ کا یہ فقرہ جو امام صادق سے معتبر سند کے ساتھ صادر ہوا ہے کیسانیہ کے عقائد سے اس کا کوئی ربط نہیں پایا جاتا بلکہ دقیق طور پر شیعوں کے اعتقادات کے مطابق ہے اور ہم ائمہ معصومین علیہم السلام کے نورانی کلمات کی روشنی میں اس بات کا عقیدہ رکھتے ہیں کہ حضرت بقیةاللہ ارواحنا فداہ زمانہ غیبت میں کبھی مکہ معظمہ ،کبھی مدینہ منورہ ،کبھی کوہ رضوی ، کبھی ذی طوی کے صحرا میں ،کبھی دور دراز سر زمینوں میں ،کبھی بیت الحرام وغیرہ میں تشریف فرماہوتے ہیں اور دعائے ندبہ کا مزکورہ فقرہ بطور دقیق اس عقیدہ سے ساز گار ہے اور کیسانیہ کے عقائد کے ساتھ کسی صورت میں سازگار نہیں ہے ۔اور اب ہم دعائے ندبہ کی کیسانیہ کے عقائد سے ناسازگاری کے دلائل کو فہرست وار نقل کر رہے ہیں:

۱ ۔ دعائے ندبہ میں سر زمین ”ذی طوی“ بھی ”رضو ی“ کے ساتھ ذکر ہوئی ہے ،جب کہ فرقہ کیسانیہ کا کوئی بھی شخص محمد حنفیہ کے قیام گاہ کا سر زمین ذی طوی میں معتقد نہیں ہے ۔

۲ ۔ دعائے ندبہ میں ،ان دونوں مقامات کے ساتھ ”اوغیرھا“ یا ”دوسری جگہ“ ،ذکر ہوا ہے جب کہ کیسانیہ فرقے والے افراد محمد حنفیہ کی قیام گاہ ”کوی رضوی“ کے معتقد ہیں اور وہ کسی دوسری جگہ کا عقیدہ نہیں رکھتے ۔

۳ ۔ دعائے ندبہ کے اس فقرہ کے بعد یہ جملہ نقل ہوا ہے :

”بنفسی انت من مغیّب لم یخل منّا “

”میری جان قربان! تو ایسا غائب ہے جو کبھی مجھ سے جدا نہیں ہوا۔“

جب کہ فرقہ کیسانیہ میں سے کسی بھی شخص نے محمد حنفیہ کے سلسلے میں اس قسم کے عقیدہ کا اظہار نہیں کیا ہے ۔

۴ ۔ دعائے ندبہ میں امام غائب کے متعلق نقل ہوا ہے :

”این ابن النّبیّ المصطفیٰ ؟

”رسول مصطفی ٰ کا فرزند کہاں ہے ؟“

جب کہ محمد حنفیہ رسول اکرم کی نسل سے نہیں ہیں۔

۱۱۰

۵ ۔ دعائے ندبہ میں حضرت مہدی کے متعلق ذکر ہوا ہے :

”و ابن خدیجة الغرّاء“

”اور خدیجہ کا نور نظر “

جب کہ جناب محمد حنفیہ حضرت خدیجہ علیہا السلام کے خاندان میں سے نہیں ہیں ۔

۶ ۔ مزید اس کے بعد نقل ہوا ہے :

”و ابن فاطمة الکبریٰ “

”اور فاطمہ کبریٰ کا لخت جگر ۔“

جب کہ ہم سب جانتے ہیں کہ محمد حنفیہ ”خَوْلہ“ کے فرزند ہیں نہ حضرت فاطمہ زہرا کے۔

۷ ۔ دعائے ندبہ میں دسیوں روشن تعبیر کے ساتھ جیسے ”یابن الحجج البالغة “ ”اے کامل حجتوں کے فرزند“ لوگوں کی نظروں سے امام غائب ،ائمہ اطہار علیہم السلام کی نسل سے مخاطب کیا ہے ،جب کہ محمد حنفیہ ایک امام کے فرزند ہیں نہ کہ اماموں کے فرزند ہیں ،ایک حجت کے فرزند ہیں نہ کہ مختلف حجتوں کے ۔

۸ ۔ دعائے ندبہ میں مکمل یقین اور صریحی تعبیر کے ساتھ امام غائب کو رسول اسلام کی نسل سے متعارف کرایا گیا ہے اور یہ ذکر ہوا ہے :

”هل الیک یابن احمد سبیل فتلقی “

”کیا فرزند رسول کوئی راستہ ہے جو تیری منزل تک پہنچا سکے؟ “

اس بیان کی بنا پر دعائے ندبہ کے تمام فقرات ،کیسانیہ کے اعتقادات کو درہم برہم کرتے ہیں اور کسی بھی صورت میں ذرہ برابر ان کے عقائد سے سازگار نہیں ہیں۔ اور یہ کہ ”ابِرضوی “ کی تعبیر اس مبارک دعا میں ذکر ہوئی ہے وہ اس جہت سے ہے کہ کوہ رضوی حضرت کی زمانہ غیبت میں دسیوں قیام گاہوں میں سے ایک ہے ۔ اور عقائد کیسانیہ کے ساتھ موافقت کے معنی میں نہیں ہے ۔

۱۱۱

دوسری تعبیر میں : دعائے ندبہ کیسانیہ عقائد سے نشاة نہیں پائی ہے بلکہ ”عقائدِ کیسانیہ “ کو مہدویت (حضرت مہدی ) کے متعلقہ مسائل پر محمد حنفیہ کے سلسلے میں بے جا تطبیق دیا ہے ۔ لہٰذا ہم یہ دیکھتے ہیں کہ کیسانیہ کے تمام عقائد، شیعہ عقائد سے ناقص طور پر نسخہ برداری ہے ،مثلاً کیسانیہ کہتے ہیں:

۱ ۔ محمد حنفیہ مکہ معظمہ سے ظاہر ہوں گے۔(۱)

۲ ۔ حجر اسود کے گوشے سے قیام کریں گے۔(۲)

۳ ۔ اصحاب بدر کی تعداد کے مطابق ۳۱۳ افراد ان کی بیعت کریں گے۔(۳)

۴ ۔جو فرشتے بدر میں حاضر تھے ان کی مدد کے لیے تیزی سے پہنچیں گے۔(۴)

۵ ۔ ان کے ذریعہ شہر مکہ کو مسخّر کریں گے ۔(۵)

۶ ۔ محمد حنفیہ پیغمبر اکرم کے ہم نام اور ہم کنیت ہوں گے ۔(۶)

۷ ۔ پیغمبر کی شمشیر ان کے ہاتھ میں ہوگی ۔(۷)

۸ ۔ چالیس اصحاب ان کے ہمراہ ہیں ۔(۸)

____________________

۱۔ المقالات و الفرق، سعد بن عبد اللہ الاشعری ،ص۳۱۔ ۲۔ گزشتہ حوالہ ۔

۳۔ اصول النحل ،اکبر الناشی ء، ص۲۷۔

۴۔ اصول النحل ،اکبر الناشیء، ص۲۷۔

۵۔ المقالات و الفرق،اشعری ، سعد بن عبد اللہ ص۳۱۔

۶۔ تذکرة الخواص ،سبط ابن جوزی ،ص۲۶۳۔

۷۔ الطبقات الکبری ، محمد ابن سعد، ج۵،ص۱۱۲۔

۸۔ وفیات الاعیان ،شمس الدین احمد ابن محمد ابن خلّکان ،ج۴،ص ۱۷۳۔

۱۱۲

۹ ۔ وہ حضرت سلیمان اور ذوالقرنین کی طرح تمام زمین پر حکومت کریں گے ۔(۱)

۱۰ ۔ وہ رحلت نہیں کیے ہیں اور نہ رحلت کریں گے یہاں تک کہ ظہور کریں گے اور دنیا کو عدل و انصاف سے بھر دیں گے جس طرح وہ ظلم و ستم سے بھر چکی ہو گی۔(۲)

یہ سب دقیق طور پر شیعہ اثنا عشری کے عقائد ہیں وہ محکم دلائل ، معتبر روایات ، رسول اکرم اور ائمہ معصومین علیہم السلام سے مستند حدیثوں کے ذریعہ کعبہ مقصود اور قبلہ موعود حضرت بقیة اللہ ارواحنا فداہ کے متعلق معتقد ہیں ۔

اس بیان کی بنا پر دعائے ندبہ عقائد کیسانیہ سے نشاة نہیں پائی ہے بلکہ کیسانیہ شیعوں کے اعتقادات کے معتقد ہیں اورانہوں نے امام منتظر کو اپنے خیالی امام (جناب محمد حنفیہ ) پر تطبیق کیا ہے ۔

کیسانیہ اور ان کے عقائد کی رد میں بعض بزرگ قدیم علماء نے کتابیں تحریر کی ہیں جیسے :

۱ ۔ شیخ صدوق (متوفیٰ ۳۸۱ ھئق) نے کمال الدین و تمام النعمة میں ۔

۲ ۔ شیخ مفید (متوفیٰ ۴۱۳ ھئق) نے العیون و المحاسن میں ۔

_____________________

۱۔ المقالات و الفرق ،سعد بن عبد اللہ الاشعری ،ص۳۱۔

۲۔ البدء و التاریخ ،مطھّر ابن طاہر المقدسی ،ج۵،ص ۱۲۸۔

۳۔ سید مرتضیٰ علم الہدی (متوفیٰ ۴۳۶ھئق) نے الفصول المختارہ میں ۔

۴۔ شیخ طوسی (متوفی ۴۶۰ھئق) نے کتاب الغیبة میں ۔

۱۱۳

اور دسیوں عالم تشیع کی ممتاز شخصیتوں نے مختلف زمانے اور صدیوں کے دوران تفصیلی گفتگو کی ہے اور دوسری صدی ہجری کے اواخر میں ان کے تمام فرقے ختم ہو گئے اور ایک ہزار سال سے زائد ہو چکا ہے کہ ایک شخص بھی آسمان کے نیچے ان کا عقیدہ رکھنے والا نہیں پایا جاتا ہے ،لہذا اب اس سلسلہ میں ہمیں بحث کرنے کی ضرورت نہیں ہے ۔اور یہ کہ ہم نے اس کے متعلق نسبتاً بحث کو طولانی کر دیا تو اس کی دو جہت تھی:

۱ ۔ ابھی آخر میں کچھ لوگ پیدا ہوئے ہیں جو ائمہ علیہم معصومین السلام کی اولاد کے متعلق غلط پروپیگنڈہ کر رہے ہیں ،تاکہ اس طرح معصومین علیہم السلام کے بلند مقام کو کم کریں ۔ اس گروہ نے زید شہید کے بعد اپنی شمشیر کی تیز دھار کا رخ جناب محمد حنفیہ کی طرف کر دیا ہے ،تاکہ انہیں اپنے خیالِ خام میں امامت کا دعوے دار متعارف کرائیں۔

گزشتہ مطالب کی تحقیق سے بھی اس نتیجہ تک پہونچیں گے کہ کیسانیہ فرقہ کا معاملہ جناب محمد حنفیہ سے جدا کرنا چاہیے اور ہم حضرت امیر المومنین کے اس فرزند کی پاکیزگی ِ نفس اور شائستگی میں کسی قسم کے شک و شبہ میں مبتلا نہ ہوں۔

۲ ۔ تیس سال قبل بیمار دل افراد کے ایک گروہ کو دعائے ندبہ کی باعظمت مجالس، جمعہ کے دنوں میں بر قرار کرنے سے نہایت تکلیف پہنچی اور پہنچ رہی ہے نیز ان کی یہ کوشش ہے کہ انتظار کرنے والوں کے دلوں میں شک و شبہ ایجاد کریں اور عاشق شیعوں کی متحد صفوں میں رخنہ اندازی کریں ۔

کبھی یہی گروہ اس بات کی کوشش کرتا ہے کہ دعائے ندبہ کی سند کا انکار کرے اور کبھی ان کی سعی یہ ہوتی ہے کہ دعائے ندبہ کے فقرات کو شیعہ عقائد کے برخلاف شمار کریں۔

ان وجوہات کی بنا پر جناب محمد حنفیہ اور عقائد کیسانیہ کے متعلق تفصیلی گفتگو کی ۔

مولفین میں سے ایک شخص کا اصرار اس بات پر ہے کہ دعائے ندبہ ”کیسانیہ “ عقائد سے نشاة پائی ہے وہ اپنے آخری کلام میں کہتا ہے : ”دعائے ندبہ کے متن کے دقیق مطالعہ سے کہ جس میں ہمارے ائمہ علیہم السلام کے نام کی ترتیب و تصریح نہیں ہوئی ہے معلوم ہوتا ہے کہ اس میں حضرت امیر علیہ السلام کے تفصیلی فضائل و مناقب کے بعد فوراً اور بغیر واسطہ کے امام غائب کو خطاب کرتے ہیں ،اور یہی سوال بار بار ذہن میں آتا ہے ۔ “(۱)

دعائے ندبہ کے متن کے بعض فقرات پر ایک مختصر نگاہ کرتے ہوئے مذکورہ کلام کو بے بنیاد ثابت کرنے کے لیے روشنی ڈالتے ہیں، دعائے ندبہ کے فقرات میں ہم پڑھتے ہیں:

____________________

۱۔ انتظار مذہب اعتراض، علی شریعتی، ص ۱۴۔

۱۱۴

۱ این الحسن این الحسین ؟

”کہاں ہیں حسن اور کہاں ہیں حسین علیہما السلام ؟“

۲ این ابناء الحسین ؟

”کہاں ہیں اولاد حسین علیہم السلام ۔ “

۳ صالح بعد صالح

”نیک کردار کے بعد نیک کردار “

۴ وصادق بعد صادق ؟

”اور صادق کے بعد صادق کہاں ہیں؟ “

۵ این السبیل بعد السبیل ؟

”را ہ ہدایت کے بعد دوسرا راہ ہدایت کہاں ہے ؟ “

۶ این الخیرة بعد الخیرة ؟

”ایک منتخب کے بعد دوسرا منتخب ِروزگار کہاں ہے ؟ “

۷ این الشموس الطّالعة ؟

”کہاں ہیں طلوع کرتے ہوئے آفتاب؟“

۸ این الاقمار المنیرة ؟

”کہاں ہیں چمکتے ہوئے ماہتاب ؟ “

۹ این الانجم الزاهرة ؟

”کہاں ہیں روشن ستارے؟“

۱۱۵

۱۰ این اعلام الدین و قواعد العلم ؟

”کہاں ہیں دین کے لہراتے ہوئے پرچم اور علم کے مستحکم ستون ؟ “

یہ نورانی جملے صراحت کے ساتھ یہ ثابت کرتے ہیں کہ مکتب دعائے ندبہ کی نورانی ثقافت میں یہ بے مثال نغمے ، شیعہ دستور اور معارف حقّہ کے مطابق ہیں ،امام حسین کے بعد ائمہ نور سچے پیشوا ہیں جنہوں نے یکے بعد دیگرے اپنے تابناک انوار مقدسہ سے جہان ہستی کو معرفت کے صاف و شفاف چشمہ سے سیراب کیا،وادی ضلالت کے گم گشتہ راہ افراد کو گمراہی سے نجات دے کر شاہراہ ِ ہدایت اور اللہ تعالیٰ کے صراط مستقیم کی طرف رہنمائی فرمائی۔

وہ صفات جو ان مذکورہ دس فقرات میں ائمہ نور علیہم السلام کے لیے بیان ہوئے ہیں وہ بہ ترتیب مندرجہ ذیل ہیں:

۱ ۔ امام حسین کی اولاد ہیں ۔

۲ ۔ امت کے نیک افراد ہیں ۔

۳ ۔ سچے لوگ ہیں ۔

۴ ۔ اللہ تعالیٰ کے برحق راستے ہیں ۔

۵ ۔ منتخب بندے ہیں ۔

۶ ۔ روشن آفتاب ہیں ۔

۷ ۔ تابناک ماہتاب ہیں ۔

۸ ۔درخشاں ستارے ہیں۔

۹ ۔دین کی روشن قندیلیں ہیں ۔

۱۰ ۔ علم کے مستحکم ستون ہیں ۔

۱۱۶

کیا انصاف سے دور اور تحقیق سے خالی یہ بات نہیں ہے کہ اگر کوئی یہ کہے : دعائے ندبہ میں حضرت امیر علیہ السلام کے بعد دوسرے اماموں کا نام نہیں لیا گیا ہے لہذا یہ دعا کیسانیہ عقائد سے ساز گار ہے اور شیعہ اعتقادات کے موافق نہیں ہے ؟!

جیسا کہ آپ سب نے ملاحظہ فرمایا دعائے ندبہ میں امام حسن اور امام حسین علیہما السلام کے نام کے بعد دس فقرے ذکر ہوئے ہیں کہ ان کے ضمن میں ائمہ نور علیہم السلام کی دس صفتیں بیان ہوئی ہیں ،پھر پروردگار کی آخری حجت جو ذخیرہ الٰہی ، حضرت بقیة اللہ ارواحنا فداہ ہیں ان کے متعلق اوصاف بیان ہوئے ہیں مزید فرماتے ہیں :

این بقیة اللّٰه التی لا تخلو من العترة الهادیة(۱)

”کہاں ہے وہ بقیة اللہ جس سے ہدایت کرنے والی عترتِ پیغمبر دنیا سے خالی نہیں ہو سکتی ۔ “

پھر اس وقت حضرت کے ظہور موفور السرور اور قبلہ موعود کے بعض حیات بخش پروگرام کی تعداد کو بیان کرتے ہیں اور حضرت کو خطاب کر کے کہتے ہیں:

یابن السادة المقرّبین ،یابن النُّجباء الاکرمینَ(۲)

______________________

۱۔ مصباح الزائر ،سید علی ابن موسیٰ ابن طاووس ،ص۴۴۹۔

۲۔ مصباح الزائر ،سید علی ابن موسیٰ ابن طاووس ،ص۴۴۹۔

۱۱۷

”اے مقرب سرداروں کے فرزند! اے مکرّم اشراف کے فرزند!“ ۔

اگر ”فی الهادین بعد الهادین “کے بعد کے فقرات کو ”یابن النّعم السابغات “ کے جملہ تک جو امام حسین کے بعد والے ائمہ علیہم السلام سے حضرت بقیة اللہ ارواحنا فداہ تک کے لیے استعمال ہوا ہے انہیں شمار کریں ان جملوں میں ائمہ نور علیہم السلام اور ائمہ معصومین علیہم السلام کے تیس اوصاف بیان ہوئے ہیں ۔

کیا تیس جملے آٹھ اماموں (امام زین العابدین سے امام حسن عسکری تک ) کے لیے کافی نہیں ہیں جو یہ ثابت کریں کہ دعائے ندبہ میں ان کا ذکر ہوا ہے اور اچانک بغیر واسطہ کے امام غائب کو نہیں بیان کیا ہے ۔

۱۱۸

۳ ۔ کیا دعائے ندبہ نشہ آور حالت کی حامل ہے؟

اسلام کے سخت ترین دشمن کہتے ہیں:”دعا ئے ندبہ نشہ آور حالت کی حامل ہے! وہ لوگ کہتے ہیں:

اسلام مسلمانوں کو ہر شبِ جمعہ میں مجالسِ دعائے کمیل اور جمعہ کے دنوں میں مجالس دعائے ندبہ میں مشغول رکھتا ہے تاکہ ایک مجلس میں جمع ہو کر ”یابن الحسن “ کہیں اپنا سر و سینہ پیٹیں اور وہ اس بات کی طرف متوجہ نہ ہوں کہ ان کے متعلق دنیا میں کیسے حالات گزر رہے ہیں۔

یہ ناروا تہمتیں مارکیسزم ( MARXISM ) کی طرف سے گڑھی گئی ہیں اور ان کے مکتب فکر کے فریب کھانے والوں نے آسمانی ادیان کے ماننے والوں کے درمیان پھیلائیں۔

کارل مارکس ( CARL MARXS ) نے اپنے مشہور جملے:”دین اقوام عالم کے لیے تریاک (نشہ آور شے) ہے “کو منتشر کر کے تمام الٰہی ادیان کو مورد سوال قرار دیا ۔ وہ کہتا تھا:” تمام ادیان طاقت وروں کے خدمت گزار ہیں ، اور لوگوں کو نصیحت کرتا ہے کہ اسلامی محکمہ کے مقابل تسلیم نہ ہوں ،اور کبھی بھی ان کی نافرمانی اور مخالفت کے در پے نہ ہوں۔اور اگر ان کی طرف سے مشکل میں گرفتار ہوں تو صبر و ضبط سے کام لیں تاکہ اخروی ثواب مل سکے ۔ “

اگر یہ تعبیر کلیسا ( CHURCH ) کے متعلق اور صاحبان کلیسا کی تعلیمات کے لیے کہی گئی ہوتی تو وہ وجود خارجی رکھتی اس لیے کہ تحریف شدہ انجیلوں میں نقل ہوا ہے :

”شریر شخص کے مقابل میں صلابت و مقاومت اور پائداری نہ اختیار کرو بلکہ اگر کوئی شخص تمہارے داہنے رخسار پر طمانچہ مارے تو دوسرے رخسار کو بھی اس کی طرف پھیر دو۔ اور اگر کوئی شخص تم سے لڑائی جھگڑا کرتا ہے اور تمہاری قبا کو اپنی گرفت میں لیتا ہے تو اپنی عبا کو بھی اس کے حوالے کردو۔ اور اگر کوئی شخص تم کو ایک میل لے جانے پر مجبور کرے تو تم دو میل اس کے ہمراہ جاؤ۔“(۱)

______________________

۱۔ کتاب مقدس، انجیل متّی ،باب۴، بندنمبر ۳۹۔۴۱۔

۱۱۹

لیکن ان تہمتوں سے اسلام کی جنگی بہادری کی روح اور اصول کی طرف توجہ کے بعد اسلام کے روشن چہرے کو مورد سوال نہیں قرار دیا جا سکتا۔ وہ اسلام جس نے خدا کی راہ میں جہاد کو اپنے ایک اصلی فرائض میں سے قرار دیا، میدان کارزار سے فرار کرنے کو بڑے گناہوں میں شمار کیا جو افراد ہجرت کرنے کی طاقت رکھنے کے باوجود ہجرت اختیار نہ کرتے ہوئے ظالموں کے ماتحت زندگی بسر کر کے ظلم کا نشانہ قرار پائے ان سے آتش جہنم کا وعدہ کیا ہے۔(۱) اور جو شخص اپنے مال سے دفاع کرنے کی راہ میں قتل ہو جائے اسے شہید جانا ہے اور اعلان کر رہا ہے :”من قتل دون ماله فهو شهید(۲) ( جو شخص اپنے مال کے دفاع میں قتل کر دیا جائے وہ شہید ہے ) ایسا دین ہرگز تریاک جیسی تہمت سے متہم نہیں ہو سکتا۔

قرآن کریم میں جہاد کی آیات کے پیش نظر خطبات رسول اکرم ،خطبات امیر المومنین ،خطبات امام حسین اور دوسرے ائمہ معصومین کے گہر بار اور انمول کلمات میں نمایاں نکات نظر آئیں گے دشمن سے جہاد کرنے کے متعلق شہید ہونے کا ثواب جہاد کی خلاف ورزی اور میدان جنگ سے فرار کرنے کا عذاب بھی مدّنظر قرار دیتے ہوئے جو شخص بھی اسلام کے مقدس قانون کو ”اقوام کے لیے تریاک ہونے سے“ متہم کرے وہ خود ذلیل و رسوا ہو گااور وہ کبھی بھی اسلام کے درخشاں چہرے کو مورد

____________________

۱۔ سورہ نساء ،(۴) ،آیت۹۷۔

۲۔ عیون اخبار الرضا، محمد ابن علی ابن الحسین الصدوق(شیخ صدوق) ،ج۲،ص۱۲۲۔

۱۲۰