دعائے ندبہ کی سندی اور مضمونی اعتراضات کی تحقیق و تنقید

دعائے ندبہ کی سندی اور مضمونی اعتراضات کی تحقیق و تنقید16%

دعائے ندبہ کی سندی اور مضمونی اعتراضات کی تحقیق و تنقید مؤلف:
زمرہ جات: ادعیہ اور زیارات کی کتابیں
صفحے: 228

دعائے ندبہ کی سندی اور مضمونی اعتراضات کی تحقیق و تنقید
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 228 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 47456 / ڈاؤنلوڈ: 4674
سائز سائز سائز
دعائے ندبہ کی سندی اور مضمونی اعتراضات کی تحقیق و تنقید

دعائے ندبہ کی سندی اور مضمونی اعتراضات کی تحقیق و تنقید

مؤلف:
اردو

۱

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں تنظیم ہوئی ہے

۲

صبحِ جمعہ ، دعائے ندبہ کے ہمراہ

تالیف: حجة الاسلام و المسلمین علی اکبر مہدی پور

مترجم: حجة الاسلام جناب فیروز حیدر فیضی

۳

صبح ِ جمعہ غم زدہ عاشقوں اور دل باختہ شیعوں کے پُر شکوہ اجتماعات، اہل بیت کے خلاف حلف بردار دشمنوں کو شدید آزار و اذیت پہنچاتے ہیں اور ان کی آنکھوں سے خواب راحت کو اڑا دیتے ہیں۔

لہٰذا اسی رہ گزر سے مدت مدید سے بہت سے سوالات، دعائے ندبہ کے متعلق اعتراض کے عنوان سے شک و شبہ ایجاد کرنے کے لیے دشمنوں کی طرف سے رونما اور بعض مقامات پر نا آگاہ دوستوں کے ذریعے منتشر ہوئے، جوانوں کے بعض گروہ کے درمیان شک و شبہ کا غبار پھیلایا اور ان کے اذہان میں علامتِ سوال پیدا کیا۔

ہم اس تحریر میں اس بات کے درپے ہیں کہ ان سوالات کو بیان کرکے صاف و شفاف اسی کے ساتھ ہی ان کے استدلالی و منطقی جوابات قارئین محترم کی خدمت میں پیش کریں۔

کچھ اپنی باتیں

بعض افراد دعائے ندبہ کی حقیقت و معرفت سے نا آگاہی اور غفلت کی بنیاد پر طرح طرح کے بے جا اعتراضات اپنے زعم ناقص سے کرتے رہتے ہیں۔

مثلاً کبھی کہتے ہیں: یہ اعصاب کو کمزور اور بے حس کردیتی ہے کیوں کہ ان کی نظر میں دعا لوگوں کو سرگرمیوں، سعی و کوشش، ترقی و سربلندی اور کامیابی و کامرانی کے اسباب کے بجائے اسی راستے پر گامزن کرکے صرف اسی پر قناعت کرنے کا درس دیتی ہے۔

کبھی اس بات کے قائل ہوتے ہیں: یہ دعا اصولاً خدا کے معاملات میں بے جا دخل اندازی کا نام ہے، اللہ کی جیسی جو مصلحت ہوگی اسے انجام دے گا وہ ہم سے محبت کرتا ہے وہی ہمارا خالق ہے اور ہمارے مصالح و منافع کو بہتر جانتا ہے پھر کیوں ہر وقت ہم اپنی مرضی کے مطابق اس سے سوال کرتے ہیں؟! یا یہ اعتراض کرتے نظر آتے ہیں کہ دعائے ندبہ قرآنی تعلیمات سے ناسازگار ہے وغیرہ وغیرہ ۔

۴

قارئین محترم ! جو لوگ اس قسم کے اعتراضات کرتے ہیں وہ دعا، گریہ و ندبہ اور نالہ و زاری کے نفسیاتی، اجتماعی، تربیتی اور روحانی و معنوی آثار سے غافل ہیں، انسان ارادے کی تقویت اور رنج و الم کے دور ہونے کے لیے کسی سہارے کا محتاج ہے اور دعا انسان کے دل میں امید کی کرن بن کر اس کے تمام وجود کو روشن و منور کردیتی ہے۔

کسی مشہور ماہر نفسیات کا قول ہے: ”کسی قوم میں دعا اور گریہ و زاری کا فقدان اس ملت کی تباہی کے مترادف و مساوی ہے ، جس قوم نے دعا کی ضرورت کے احساس کا گلا گھونٹ دیا ہے وہ عموماً فساد اور زوال پذیر ہونے سے محفوظ نہیں رہ سکتی“۔

البتہ اس بات کو بھی فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ صبح کے وقت دعا اور عبادت کرنا پھر بقیہ مکمل دن کے تمام اوقات وحشی جانوروں کی طرح گزارنا، بے کار اور فضول امر ہے لہٰذا دعا کا سلسلہ مسلسل جاری رہنا چاہیے کیونکہ کہیں ایسا نہ ہو کہ انسان اس کے گہرے اثرات سے بہرہ مند نہ ہوسکے۔

مزید یہ کہ دعا انسان کے نفس میں اطمینان پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ انسانی فکر میں ایک طرح کی شگفتگی اور شادابی کیفیت پیدا کرتی ہے، مزید باطنی انبساط و سرور کا باعث ہوتی ہے اور بسا اوقات یہ انسان کے لیے شجاعت و بہادری کی روح کو برانگیختہ کرتی ہے، دعا کے ذریعے انسان پر بہت سی علامات ظاہر ہوتی ہیں جن میں سے بعض تو صرف دعا سے مخصوص ہیں، جیسے نگاہ کی پاکیزگی، کردار میں سنجیدگی، باطنی فرحت و مسرت، مطمئن چہرہ، استعدادِ ہدایت اور حوادث کا استقبال کرنے کا حوصلہ، یہ سب دعا کے اثرات و نتائج ہیں۔

مگر افسوس کی بات ہے کہ ہماری کائنات میں دعا کے حقیقی خدو خال کی شناخت و معرفت رکھنے والے بہت کم ہیں۔

دعائے ندبہ حقیقت میں حجتِ زمانہ سرکار امام زمانہ (ع) عجل اللہ فرجہ الشریف روحی و ارواح العالمین لہ الفدا کے پس پردئہ غیبت، جمعہ کے دن پڑھی جانے والی ایک زیارت ہے جو شیعوں کے برحق اصول عقائد پر مشتمل ہے اور وہ انہیں ان کے وظائف و ذمہ داریوں کی تعلیم دیتی ہے تاکہ صاحبان ایمان اپنے اعتقادات میں ولایت و امامت کے متعلق بھی اپنے عظیم فریضے سے غافل نہ ہوں اور ان کے دلوں میں انتظار فرج و گشائش اور امید کی ضیاء پاشی ہوتی رہے۔

کتاب ہذا میں دعائے ندبہ کے مختلف اعتراضات جو اب تک دنیا کے گوشہ و کنار میں سامنے آتے رہے ہیں اس کے خاطر خواہ جوابات قارئین کرام کو دست یاب ہوجائیں گے ساتھ ہی ساتھ وہ امام زمانہ - کی معرفت سے بھی مالا مال ہوں گے۔

انشاء اللّٰہ المستعان

۵

(دعائے ندبہ کی سندی اور مضمونی اعتراضات کی تحقیق و تنقید)

عرض ناشر

مبارک دعائے ندبہ قدیم الایام سے شیعوں کے توجہات کا مرکز رہی ہے اور حضرت صاحب الامر (ارواحنا لہ الفداہ) کا انتظار کرنے والے طول تاریخ میں اپنے دل کی تپش کو اس دعا کی خنکی سے آرام بخشتے تھے ۔

دعائے ندبہ حقیقت میں حجتوں اور اولیاء الٰہی کے اس وسیع زمین پر حاضر رہنے کی مختصر تاریخ کی نشان دہی کرتی ہے ۔وہ سلسلہ جو حضرت آدم (ع) سے آغاز ہوا اور آخری حجت حضرت امام مہدی (ع) تک جاری رہے گا۔

جو شخص دعائے ندبہ سے مانوس ہو جائے اور دل کی گہرائی سے پیغمبر اکرم کے بر حق جانشینوں کی مظلومیت کو معلوم کرے ،تو ان کی ولایت و حجت کی شمع اس کے دل میں روشن و منور ہو گی اور اس کا تمام وجود حجت خدا کی ضرورت کا احساس کرے گا۔

دعائے ندبہ کے پڑھنے والے کو آخری حجت خدا کی غیبت کی وجہ سے جو انسانی معاشرے پر مصیبت وارد ہوئی ہے معلوم ہو جائے گی اور وہ عظیم مصیبت جو امام معصوم (ع) کے وجود سے محروم ہونے کی بنا پر عالمِ بشریت پر وارد ہوئی ہے اس سے بھی واقف ہو جائے گا اس لحاظ سے اس کو اس کے علاوہ کوئی چارہ کار نہیں کہ شب و روز گریہ و زاری میں بسر کرے اور موجودہ سیاہ ترین حالات میں گرفتار ہونے پر آنسو بہائے ۔ لیکن یہ گریہ و زاری ایک طرح سے ان افراد پر اعتراض ہے جنہوں نے آخری امام - کی غیبت کا زمینہ فراہم کیا، اور دوسری طرف سے اس سر زمین پر امام معصوم (ع) کے ظہور کا زمینہ فراہم کرنے اور ان کی خدمت کرنے کا اعلان ہے ۔ دعائے ندبہ اور اس کی استناد کے متعلق بہت سی باتیں کہی گئی ہیں اور متعدد رسالے اور کتابیں بھی اس سلسلہ میں تالیف ہوئی ہیں ،لیکن اب بھی دنیا کے گوشہ و کنار میں زندگی بسر کرنے والے بعض ایسے بھی ہیں جو اس دعا میں شک و شبہ پیدا کرتے ہیں اور اس کی سند اور مضمون پر اعتراض کرتے ہیں ،اس وجہ سے لازم و ضروری ہے کہ دوسری مرتبہ اس دعا کے اعتراضات کو عمیق تحقیق کے ساتھ جواب دیا جائے ۔ کتابِ حاضر جو محقق محترم حجة الاسلام و المسلمین علی اکبر مہدی پور کے عزم و ہمت سے منظر عام پر آئی ہے ،اس کی ابتدائی بحثوں میں آخری حجت حضرت مہدی (ع) کے لیے گریہ و زاری کرنے کی تاریخ بیان ہوئی ہے اور اس کے بعد دعا ئے ندبہ کی تفصیلی سندی بحث ذکر کی گئی ہے مزید اس دعا کے متعلق بعض مضمونی اعتراضات کی تحقیق بھی کی گئی ہے ۔

کتاب کے محترم مولف کے شکریہ کے ساتھ ہمیں امید ہے کہ یہ تالیف حضرت صاحب (ع)الامر (عج) کی خدمت میں شرفِ قبولیت حاصل کرے گی اور قارئین کرام کی رضایت بھی۔

انشاء اللہ

۶

ابتدائیہ

صبح ِ جمعہ غم زدہ عاشقوں اور دل باختہ شیعوں کے پُر شکوہ اجتماعات، اہل بیت کے خلاف حلف بردار دشمنوں کو شدید آزار و اذیت پہنچاتے ہیں اور ان کی آنکھوں سے خواب راحت کو اڑا دیتے ہیں۔ شہر کی فضا میں ”یابن الحسن -“ کی ان اجتماعات سے آواز بلند ہوتی ہے اور ایک خون آلود تیر کی طرح دشمن کے سینے میں داخل ہوجاتی ہے اور ان کے آرام و سکون کو ان سے سلب کرلیتی ہے۔لہٰذا اسی رہ گزر سے مدت مدید سے بہت سے سوالات، دعائے ندبہ کے متعلق اعتراض کے عنوان سے شک و شبہ ایجاد کرنے کے لیے دشمنوں کی طرف سے رونما اور بعض مقامات پر نا آگاہ دوستوں کے ذریعے منتشر ہوئے، جوانوں کے بعض گروہ کے درمیان شک و شبہ کا غبار پھیلایا اور ان کے اذہان میں علامتِ سوال پیدا کیا۔ہم اس تحریر میں اس بات کے درپے ہیں کہ ان سوالات کو بیان کرکے صاف و شفاف اسی کے ساتھ ہی ان کے استدلالی و منطقی جوابات قارئین محترم کی خدمت میں پیش کریں۔ اس کے وہ بعض سوالات یوں ہیں کہ:

۱ ۔ کیا یہ معقول امر ہے کہ ایک فرد کی ولادت سے قبل اس کے فراق میں گریہ و زاری کی جائے؟

۲ ۔ کیا دعائے ندبہ کی کوئی معتبر سند پائی جاتی ہے؟

۳ ۔ کیا دعائے ندبہ پیغمبر (ص) کی جسمانی معراج سے ناسازگار ہے؟

۴ ۔ کیا دعائے ندبہ کیسانیہ عقائد سے نشاة پائی ہے؟

۵ ۔ کیا دعائے ندبہ گوشہ نشینی جیسی حالت کی حامل ہے؟

۶ ۔ کیا دعائے ندبہ بدعت ہے؟

۷ ۔ کیا دعائے ندبہ عقل کے منافی ہے؟

۸ ۔ کیا دعائے ندبہ بارہ ائمہ کی امامت کے ساتھ ہم آہنگ ہے؟

۹ ۔ کیا دعائے ندبہ کا معصوم سے صادر ہونا معقول ہے؟

۱۰ ۔ کیا دعائے ندبہ کے فقرات قرآن کے مخالف ہیں؟

ان سوالات کے بعض حصّے عظیم القدر اور ارزش مند مجلّہ موعود میں بیان ہوئے ہیں ان کے استدلالی جوابات گراں قدر مجلّہ کے قارئین کرام کی خدمت میں پیش کیے،(۱) اب یہ ہماری سعادت ہے کہ ان کے مجموعی مقالات کو جس صورت میں آپ ملاحظہ کر رہے ہیں آپ قارئین گرامی کی خدمت میں پیش کیا جاتا ہے۔

علی اکبر مہدی پور

____________________

۱۔ ماہ نامہ موعود، شمارہ ۱۴ تا ۱۹، خردار ماہ ۷۸ تا فروردین ۷۹۔

۷

پہلی فصل

دعائے ندبہ سے آشنائی

۱ ۔ مہدی موعود کے فراق میں گریہ و زاری کا تاریخی پس منظر

اے نور یزداں! اے مہرتاباں! اے فروغ لامتناھی! اے دائمی روشن آفتاب! اے پرچم نجات کے مالک! اے چشمہ زار عطوفت و محبت کو پینے والے! اے وہ غائب جوناقابل فراموش ہے!

اے وہ کہ جہاں بھی فتنہ و فساد ہے تو اسے ختم کرنے والا ہے! اے وہ کہ جہاں کہیں بھی کوئی نظام چل رہا ہے تو اس کا ناظم ہے ! اے وہ کہ جہاں بھی کوئی قیام عمل میں آرہا ہے تو قائم ہے!

اے وہ کہ تو تمام ہم و غم کا منتہیٰ ہے! اے وہ کہ تو تمام درد و الم کا مداوا ہے! اے وہ کہ تو تمام بے اسباب افراد کا سرو سامان مہیا کرنے والا ہے !

آپ کی جاں گداز جدائی بہت طولانی ہو گئی ،تمام آنکھیں سو گئیں ،سوائے آپ کے عاشقوں کی ،جو غیبت کی طولانی شب میں آپ کے آفتاب عالم تاب کے طلوع کی متلاشی ہیں ،اے دنیا کے روشن آفتاب!

دریا طوفانی کیفیت کا حامل ہو گیا، تمام کشتیاں آپس میں ٹوٹ گئیں سوائے آپ کے چشم براہ لوگوں کے ،جو فتنوں کی موجوں کی بلندی پر آپ کے نجات بخش ساحل کی تلاش میں ہیں ، اے آرام بخش ساحلِ نجات!

تمام کرہ ارض خشک ہو گیا،ہر ایک گل بوٹے پژمردہ ہو گئے سوائے آپ کے عاشقوں کے گُل لالہ زار کے، اے موّاج چشمہ حیات!

ہاں! غیبت کی تاریک شب طولانی ہو گئی ،زندگی کا سیاہ دریا طوفانی صورت میں تبدیل ہو گیا، انسانیت کا وسیع صحرا گرم بے آب و گیاہ سر زمین میں بدل گیا اور میں اس شب تاریک میں وحشت زدہ ہو گیا، آپ کی آمد کے لیے تمام لمحات کو شمار کر رہا ہوں اور وہ بھی اس وحشت زدہ غار میں ،دل تنگ، تھکا ماندا آپ کے انتظار میں ستاروں کو گن رہا ہوں ، اے غم و درد کو ختم کرنے والے موعود امم!

۸

یقینا ”وصل وہجران“کی تاریخ میں اور ”عشق وحرمان“ کے دفتر میں اس قسم کی دیرپا محبت اور ایسے پا برجا محب نیز ایسے گریز پا محبوب کسی آنکھ نے نہ دیکھا اور نہ ہی کسی کان نے سنا ہے کہ جس کے ۱۱۶۶ سال گزرچکے ہوں اور وہ اس عشق و جذبہ ناز اور راز و نیاز کے ساتھ برقرار ہو۔

یہ صرف زمانہ غیبت کے افراد ہی نہیں ہیں جو ظلم و ستم سے رنجیدہ اور عاجز ہو چکے ہوں اور حجت خدا کے ظہور کے انتظار میں لحظہ شماری کر رہے ہوں ان کی آتش فراق میں جل رہے ہوں اور ان کی غیبت کے طولانی ہونے کی وجہ سے خون کے آنسو رو رہے ہوں ،بلکہ تمام پیغمبروں نے یوسفِ زہرا کی غیبت اور ظہور کے متعلق گفتگو کی ہے ، ان کے فضائل و مناقب کا قصیدہ پڑھا ان کے ظہور کے انتظار کے لیے اپنی امت کو نصیحت فرمائی ہے۔

یہ حضرت داؤد ہیں جنہوں نے کتاب زبور کی ہر فصل میں حضرت کے ظہور موفور السرور کے متعلق بیان فرمایا ہے ،آسمانوں کی خوشی ،اہل زمین کی مسرت ،دریاؤں کی کڑک صحراؤں کا وجد میں آنا، جنگلوں کے درختوں کا نغمہ سرائی کرنا اور ان کے ظہور کے وقت کی خبر دی ہے۔ دنیا کا آباد ہونا، انسان اور سب کو سکون و اطمینان کی سانس میسر ہونا آپ کی بہترین حکومت میں نمایاں طور پر حاصل ہو گی ،مزید انتظار کا حکم بھی دیا ہے۔(۱)

یہ حضرت دانیال ہیں جنہوں نے عدل و انصاف کے پھیلنے اور حضرت قا ئم - کے ہاتھوں ظلم و ستم کے ختم ہونے کی خبر دی ہے اور مردوں کی رجعت کے متعلق گفتگو کی ہے نیز ظہور کے منتظرین کی تعریف کی ہے ۔(۲)

یہ حیقوق نبی ہیں کہ جنہوں نے ظہور کی بشارت دی ہے اور آپ کی طولانی غیبت کو بیان کیا ہے اور اپنی امت سے فرمایا:

اگر چہ تاخیر بھی کریں پھر بھی تم ان کا انتظار کرو اس لیے کہ یقینا وہ آئیں گے ۔ “(۳)

____________________

۱۔ عہد عتیق، مزامیر، مزمور ۳۷/ ۹۔۱۸ و مزمور ۹۶/ ۱۰۔ ۱۳۔

۲۔ عہد عتیق، اشعیانبی، ۱۱/ ۴۔ ۱۰۔

۳۔ عہد عتیق، حیقوق نبی، ۱۲/ ۱۔ ۱۳۔

۹

یہ حضرت عیسیٰ - کی ذات گرامی ہے کہ جنہوں نے پچاس سے زائد مقامات پر عہد جدید (انجیل) میں حضرت کے ناگہانی ظہور کو بیان کیا ہے اور تعمیری انتظار کے موافق حکم دیا ہے مزید غفلت و بے توجہی سے ہوشیار کیا ہے چنانچہ فرماتے ہیں:

”اپنی اپنی کمر کو باندھ لو اپنے چراغوں کو روشن رکھو وہ تمام غلام خوش نصیب ہیں کہ جب ان کے آقا و مولا آئیں تو انہیں بیدار دیکھیں“۔(۱)

یہ رسول اکرم (ص) ہےں جو شب معراج حضرت علی و فاطمہ زہرا اور دوسرے ائمہ معصومین کے انوار طیبہ کا مشاہدہ فرماتے ہیں ،نیز حضرت بقیةاللہ ارواحنا فداہ کے مقدس نور کا جب دیدار کرتے ہیں کہ ان کے درمیان روشن ستارے کی طرح نور افشانی کر رہے ہیں تو اللہ تعالیٰ سے عرض کرتے ہیں:” پروردگارا! یہ کون لوگ ہیں؟“ خطاب ہوتا ہے :

”یہ ائمہ ہیں اور یہ وہی ”قائم“ ہے جو میرے حلال کو حلال اور میرے حرام کو حرام کرے گا ،اسی کے بدست اپنے دشمنوں ،ظالموں ،کافروں اور منکرین سے انتقام لوں گا، وہ میرے دوستوں اور آپ کے شیعوں کے لیے آرام بخش ہونے کا وسیلہ ہے ، وہی لات و عزّیٰ (قریش کے دو بڑے بت) کو تروتازہ زمین کے اندر سے باہر لائے گا اور انہیں آگ کی نذر کرے گ“(۲)

_______________________

۱۔ عہد جدید، انجیل لوقا، ۱۲/ ۳۵ اور ۳۶۔

۲۔ عیون اخبار الرضا، شیخ صدوق، ج۱، ص ۴۷۔

۱۰

اس وقت ایک بہت طولانی حدیث کے ضمن میں فرماتے ہیں:

طوبیٰ لمن لقیه و طوبی لمن احبّه و طوبی لمن قال به

”خوش نصیب ہے وہ شخص جو ان سے ملاقات کرے ،خوش نصیب ہے وہ شخص جو ان کو دوست رکھے ،خوش نصیب ہے وہ شخص جو ان کا معتقد ہو“۔(۱)

اس طرح اشرف کائنات نے بھی منطق وحی سے دائمی منتظرین کی جماعت کے سوز و گداز آمیز انتظار سے پردہ اٹھایا جیسا کہ فرمایا:

( فقل انما الغیب للّه فانتظروا انی معکم من المنتظرین)

”آپ کہہ دیجیے کہ تمام غیب کا اختیار پروردگار کو ہے اور تم انتظار کرو اور میں بھی تمہارے ساتھ انتظار کرنے والوں میں سے ہوں ۔ “(۲)

امام ناطق برحق حضرت امام جعفر صادق نے فرمایا:

” اس آیت میں غیب سے مراد حجت غائب حضرت قائم ہیں ۔“(۳)

یہ امیر المومنین علی ہیں کہ جنہوں نے ایک نامور خطبہ میں حضرت مہدی کو بعنوان :

_____________________

۱۔ کمال الدین و تمام النعمة، شیخ صدوق ،ج۱،ص۲۶۸۔

۲۔ سورئہ یونس (۱۰) آیت ۲۰۔

۳۔ ینابیع المودة سلیمان بن ابراہیم قندوزی ،ص۵۰۸۔

۱۱

”عرب کے بلند ترین پہاڑوں کی بلند ترین چوٹیوں میں سے ہوں گے، علوم و فضیلت کے بحر زخار ہوں گے ۔وہ بے پناہوں کی پناہ ہوں گے ، ہمیشہ فاتح و سر بلند ، وہ شیر نر ہوں گے ، سب (ظالموں ) کو کاٹ کر رکھ دیں گے ، ظلم و ستم کے محلوں کو ڈھا دیں گے ، وہ اللہ تعالیٰ کی شمشیر برّاں ہو ں گے“

وغیرہ وغیرہ جیسی صفت سے یاد کرتے ہیں اور اپنا دست مبارک سینہ پر رکھ کر دل سے ایک آہ نکالتے ہوئے فرماتے ہیں :

هاه ، شوقا الی رویته

”آہ میں ان کے دیدار کا کتنا اشتیاق رکھتا ہوں ۔ “(۱)

دوسری حدیث میں حضرت کے ۳۱۳ ملکی اور فوجی کمانڈر کے متعلق حضرت نے خبر دی ہے ، دل کی گہرائیوں سے فرماتے ہیں:

” و یا شوقاه الی رویتهم فی حال ظهور دولتهم

”آہ ، میں ان کے ظہور کے وقت ان کی حکومت کا کتنا زیادہ شوق دیدار رکھتا ہوں ۔ “(۲)

اصبغ ابن نباتہ کا بیان ہے : ایک دن حضرت امیر المومنین کے خدمت میں شرفیاب ہوا میں نے دیکھا کہ دریائے فکر میں غوطہ زن ہیں اور اپنی انگشت مبارک

________________________

۱۔ بحار الانوار، علامہ محمد باقر مجلسی، ج۵۱، ص ۱۱۵۔ بشارة الاسلام، سید مصطفی کاظمی، ص ۵۲۔

۲۔ الکافی، محمد بن یعقوب الکلینی، ج۱، ص ۱۷۰۔

۱۲

زمین پر رکھتے ہیں۔ میں نے عرض کیا : اے امیر المومنین ! آپ کو کیا ہو گیا ہے؟ میں آپ کو متفکر دیکھ رہا ہوں ؟ اپنی انگشت مبارک زمین پر رکھتے ہیں ،کیا آپ کو آب و گِل سے لگاؤ پیدا ہو گیا ؟ فرمایا:

”ہرگز نہیں ، خدا کی قسم! میں نے ایک دن کے لیے بھی اس آب و گِل سے تعلق نہیں پیدا کیالیکن میں اس مولود کے متعلق فکر کر رہاہوں جو میری نسل سے دنیا میں آئے گا ۔وہ میرا گیارہواں فرزند ہے ۔ وہ وہی مہدی ہے جو زمین کو عدل و انصاف سے پُر کر دے گا جس طرح وہ ظلم و جور سے پُر ہو چکی ہو گی۔ اس کے لیے زمانہ غیبت میں حیرانی و سرگردانی ہے۔ ان دنوں میں کچھ قومیں راہ حق سے منحر ف ہو جائیں گی اور کچھ قومیں راہ راست کی طرف ہدایت پائیں گی ۔“(۱)

یہ سوز و گداز اور اشتیاق دیدار کا اظہار کرنا صرف امیر المومنین میں منحصر نہیں ہے بلکہ تمام ائمہ - صمیم قلب سے اس آفتاب عالم تاب کے دیدار کے خواہش مند ہیں اور ہر ایک نے اپنی اپنی تعبیر میں اس اندرونی عشق و محبت سے پردہ اٹھایا ہے۔

یہ سبط اکبر حضرت امام حسن مجتبیٰ - ہیں جو حضرت کی با عظمت حکومت کی وضاحت کے بعد فرماتے ہیں:

_______________________

۱۔ کفایة الاثر فی النص علی الائمة الاثنی عشر ، ابو القاسم علی الخراز القمی ، ص۲۲۰۔ کمال الدین و تمام النعمة ،شیخ صدوق ، ج۱،ص ۲۸۹۔

۱۳

”فطوبیٰ لمن ادرک ایامه و سمع کلامه “

”خوش نصیب ہیں وہ لوگ جو ان کے ایام کو درک کریں اور ان کے احکام کی اطاعت کریں“۔(۱)

اور یہ سید الشہداء حضرت امام حسین ہیں جو ہمیشہ اپنے خون اور طول تاریخ کے دوسرے مظلوموں کے خون کا انتقام لینے والے کی یاد میں تھے اور حضرت کے عالمی قیام کو بیان کرتے وقت انہیں ” الموتور با بیہ“ (اپنے بابا کے خون کا انتقام لینے والے ) سے تعبیر کرتے ہیں ۔(۲)

”موتور“ ”صاحب خون“ اور ”منتقم“ کے معنی میں ہے ۔(۳)

آیہ کریمہ کی تفسیر میں :

( وَمَنْ قُتِلَ مَظْلُومًا فَقَدْ جَعَلْنَا لِوَلِیِّهِ سُلْطَانًا فَلاَیُسْرِفْ فِی الْقَتْلِ إِنَّهُ کَانَ مَنصُورًا)

”اور جو مظلوم قتل ہوتا ہے ہم اس کے ولی کو بدلہ کا اختیار دے دیتے ہیں لیکن اسے بھی چاہیے کہ قتل میں حد سے آگے نہ بڑھ جائے کہ اس کی بہر حال مدد کی جائے گی۔ “(۴)

_______________________

۱۔ یوم الخلاص ،کامل سلیمان ،ص۳۷۴۔

۲۔ کمال الدین و تمام النعمة ، شیخ صدوق ،ج۱،ص ۳۱۸۔

۳۔ النھایة فی غریب الحدیث والاثر، ابن ا لاثیر، ج۵، ص ۱۴۸۔

۴۔ سورئہ اسراء (۱۷)، آیت ۳۳۔

۱۴

امام صادق نے فرمایا:

”یہ آیت حضرت قائم آل محمد (ص) کے حق میں نازل ہوئی ہے جو ظہور کے بعد امام حسین- کے خون کا انتقام لیں گے ۔“(۱)

یہ امام سجاد ہیں جو اپنے مشہور خطبہ میں دربارِ یزید میں خاندان عصمت و طہارت کے امتیازات کو شمار کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

”اللہ تعالیٰ نے ہمیں ، علم ،حِلم ،سخاوت ،شجاعت سے نوازا ہے اور مومنین کے دلوں میں ہماری محبت عطا کی ہے ، رسول خدا ہم میں سے ہیں،ان کے وصی کا تعلق ہمارے خاندان سے ہے ، سید الشہداء (جناب حمزہ ) جعفر طیار اور امت پیغمبر کے دو سبط ہم میں سے ہیں اور وہ مہدی جو دجّال کو قتل کریں گے وہ بھی ہم میں سے ہیں ۔“(۲)

یہ امام محمد باقر ہیں جو حضرت کے شوق دیدار کا اظہار کرتے ہوئے فرماتے ہیں :

”و یاطوبیٰ من ادرکه “

”وہ شخص خوش نصیب ہے جو انہیں درک کرے ۔“(۳)

”ام ہانی “کو خطاب کر کے فرمایا:

_______________________

۱۔ کامل الزیارات، ابن قولویہ، ص ۶۳۔ البرہان فی تفسیر القرآن، سید ہاشم بحرانی، ج۲، ص ۴۱۸۔

۲۔ نفس المھموم، شیخ عباس قمی، ص ۲۸۵۔

۳۔بحار الانوار، علامہ محمد باقر مجلسی، ج۵۱ ، ص ۱۳۷۔

۱۵

”فان ادرکت زمانه قرّت عینک “

”اگر تم نے ان کے زمانہ کو درک کیا تو تمہاری آنکھیں روشن ہو جائیں گی۔“(۱)

یہ امام جعفر صادق ہیں کہ اس سلسلہ میں فرماتے ہیں:

” فطوبی لمن ادرک ذلک الزّمان “

”وہ شخص خوش نصیب ہے جو ان کے زمانہ کو درک کرے“ ۔(۲)

پھر بہت عظیم تعبیر نقل ہوئی ہے جو ایک طرف سے حضرت بقیة اللہ ارواحنا فداہ کی عظیم المرتبت عظمت کی حکایت کرتی ہے اور دوسری طرف سے امام جعفر صادق کا اپنے چھٹے فرزند ارجمند سے انتہائی عشق و محبت کی نشان دہی کرتی ہے ۔

”و لو ادرکته، لخدمته ایام حیاتی “

”اگر میں ان کے زمانہ کو درک کرتا تو تمام عمر ان کی خدمت کے لیے کمر بستہ رہتا ۔“(۳)

اس وقت شیعوں کی مشکلات کو زمانہ غیبت میں بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں :

” و لتد معنّ علیه عیون المومنین “

”مومنین کی آنکھوں سے حضرت کے لیے آنسوؤں کا سیلاب امنڈ

____________________

۱۔ الکافی، محمد بن یعقوب الکلینی، ج۱، ص ۲۷۶۔

۲۔ بحار الانوار،محمد باقر مجلسی ،ج۵۱، ۱۴۴۔

۳۔ کتاب الغیبة ،محمد بن ابراہیم نعمانی ،ص۲۴۵۔

۱۶

پڑے گا“ ۔(۱)

لیکن حضرت امام جعفر صادق - نے حضرت بقیة اللہ ارواحنا فداہ کے فراق میں کس قدر اشک فشانی کی سوائے خدا کے کوئی نہیں جانتا۔

”سدیر صیرفی “ کہتے ہیں:” ایک مرتبہ ہم ،”مفضل“ ،”ابو بصیر“ اور ”ابان“ اپنے مولا امام جعفر صادق کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے تو دیکھا کہ آپ زمین پر بیٹھے ہوئے ہیں اور کاندھے پر ایک اونی خیبری عبا ہے جس کی آستینیں چھوٹی چھوٹی ہیں اور اس طرح گریہ فرمارہے ہیں جیسے کوئی ماں اپنے فرزند کی میت پر گریہ کرتی ہے۔

آپ کے چہرہ انور سے غم و اندوہ کے آثار نمایاں اور رخساروں کا رنگ بالکل متغیر تھا اور پرخون دل اور شدّت غم سے آنسوؤں کا سیلاب آپ کے رخساروں پر بہہ رہا ہے اور اس طرح مناجات کر رہے ہیں:

”سیدی غیبتک نفت رقادی ،وضیّقت علیّ مهادی ، و ابتزّت منّی راحة فوادی “

”اے میرے سید و سردار! آپ کی غیبت نے میری آنکھوں سے نیند اڑا دی ، عرصہ حیات مجھ پر تنگ کر دیا ہے میرے دل کا سکون جاتا رہا ہے “ ۔

سُدیر کا بیان ہے : امام صادق کو اس پر یشانی کے عالم میں دیکھ کر میری عقل جاتی رہی اور کلیجہ پاش پاش ہو گیا کہ کون سی جان لیوا مصیبت حجت خدا کے سر پر

________________________

۱۔ کمال الدین و تمام النعمة، شیخ صدوق ، ج۲، ص ۳۴۷۔ کتاب الغیبة، محمد بن ابراہیم نعمانی، ص ۱۵۲۔

۱۷

آگئی؟ کون سا افسوس ناک عظیم واقعہ ان کے لیے رونما ہوا؟! ہم نے عرض کیا:

اے خیر خلق کے فرزند! آپ کے لیے یہ کون سا حادثہ پیش آگیا کہ اس طرح آپ کی آنکھوں سے آنسوؤں کا سیلاب بہہ رہا ہے؟! اور آپ کے مبارک آنسو ابر بہاری کی طرح آپ کے چہرے پر رواں دواں ہیں؟! کس عظیم واقعہ کی بنا پر اس طرح کے سوگ میں بیٹھے ہوئے ہیں؟!

حضرت امام صادق نے یہ سن کر لرزتے ہوئے دل کی گہرائیوں سے ایک سرد آہ بھر کر ہماری طرف رخ کر کے فرمایا:

”آج صبح میں نے کتاب ”جفر“ دیکھی جو قیامت تک کے علم منایا و بلایا اور علم ما کان و ما یکون (یعنی: خواب اور آزمائشوں نیز جو کچھ ہوچکا ہے اور ہونے والا ہے ان امور کے علم) پر مشتمل ہے اور جو اللہ تعالیٰ نے حضرت محمد اور آپ کے بعد ائمہ طاہرین کے لیے مخصوص فرمادی ہے ،اس میں ہم نے اپنے قائم کے ولادت ،ان کی طولانی غیبت ،طول عمر اور زمانہ غیبت میں مومنین کے مصائب ،لوگوں کے دلوں میں شک و شبہ کا پیدا ہونا ،اکثر لوگوں کا دین اسلام سے منحرف ہو جانا اور ہر انسان کا اپنے گلے سے اسلام کی حبل متین کا اتار پھینکنا دیکھا ہے ،میرا دل اس زمانے کے لوگوں کے لیے جل رہا ہے اور غم و اندوہ کی موجوں نے میرے جسم کو گھیر لیا ہے ۔“(۱)

_______________________

۱۔ کتاب الغیبة ، محمد بن حسن طوسی (شیخ طوسی)، ص۱۶۷۔

۱۸

اس زمانے کے شیعوں کے حالات کے مطالعے نے امام صادق کی کیفیت کو یوں متغیر کر دیا ان کے چہرہ مبارک پر سیل اشک رواں ہو گئے ،لیکن ہمارے پاس تو امام کی طرح وہ استحکام اور مقاومت و پائیداری نہیں ہے اور ہم زمانہ کے تلخ حوادث کا بار سنگین اپنے شانوں پر محسوس کر رہے ہیں ،ا س وقت ہمارا کیا حال ہو گا؟ یا یہ کہ کیوں ہم حیران و پریشان ہو کر صحرا میں نہیں چلے جاتے ،اور ہمارے دل کی آتش اس عالم ہستی کو آگ کی نذر کیوں نہیں کرتی۔کیوں اسی دلیل اور علت کی بنا پر عظیم واقعہ کی مصیبت کی گہرائی کو جیسا درک کرنا چاہیے محسوس نہیں کرتے ۔

یہ امام موسیٰ کاظم ہیں جو امام عصر کے غیبت کے متعلق بیان کرتے ہوئے اپنے بڑے بھائی ”علی بن جعفر“ سے فرماتے ہیں:

”انّما هی محنة من اللّٰه عزّوجلّ امتحن بها خلقه “

”یہ غیبت صرف اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک آزمائش ہو گی اس کے ذریعہ وہ اپنے بندوں کا امتحان لے گا۔“

اور جب علی بن جعفر مزید وضاحت طلب کرتے ہیں تو فرماتے ہیں :

”یا بنی عقولکم تضعف عن هذا و احلامکم تضیق عن حمله ولکن ان تعیشوا فسوف تدرکونه “

”اے میرے بیٹو! تمہاری عقلیں کوتاہ ہیں ،تم اس کا تصور بھی نہ کر سکو گے ،تمہاری عقل و فہم اتنی کم ہے کہ اس کی متحمل نہ ہو سکے گی ،لیکن اگر تم لوگ اس زمانہ تک زندہ رہے تو اس کو خود ہی دیکھ لو گے۔“(۱)

یہ حضرت امام رضا ہیں جو حضرت کی طولانی غیبت کو یاد کر کے فرماتے ہیں :

”یبکی علیه اهل السماء و الارض و کلّ حرّی و حرّان و کل حزین و لهفان “

”اس کے لیے تمام زمین و آسمان میں بسنے والے عاشقین گریہ کریں گے ،ہر مردوزن اس کے لیے محزون اور سب آہ و زاری کریں گے۔“(۲) جب ”دعبل خزاعی“ نے اپنے مشہور اشعار کو امام رضا کی خدمت میں پڑھا تو جیسے ہی آپ نے حضرت بقیة اللہ اور ان کے عظیم قیام کا ذکر کیا تو امام رضا اپنی جگہ کھڑے ہو گئے اور اپنا دست مبارک سر پر رکھا حضرت ولی عصر کے نام پر کھڑے ہو کر آپ کے ظہور کی دعا کی ۔(۳)

امام جعفر صاد ق سے سوال کیا گیا: قائم ، سن کر کھڑے ہونے کے لازم ہونے کا کیا سبب ہے ؟ فرمایا:

” صاحب الامر دراز مدت تک غیبت میں رہیں گے یہ لقب حضرت کی برحق حکومت کی نشان دہی کرتا ہے اور آپ کی غربت پر اظہار افسوس ہے ،لہذا جو شخص حضرت کو اس قائم لقب سے یاد کرے تو وہ اسے محبت

________________________

۱۔ کمال الدین و تمام النعمة ، شیخ صدوق، ج۲،ص ۳۶۰۔۲۔ بحار الانوار، محمد باقر مجلسی، ج۵۱، ص ۱۵۲۔ ۳۔ قاموس الرجال، شوشتری، ج۴، ص ۲۹۰۔

۱۹

آمیز نگاہ سے دیکھتے ہیں ۔چونکہ اس وقت امام ان کی طرف متوجہ ہوتے ہیں لہذا احترام کے لیے کھڑا ہونا چاہیے اور خدا سے آپ کے لیے تعجیل فرج کی دعا کرنی چاہیے“ ۔(۱)

یہ حضرت امام تقی الجواد ہیں جو چار سال کی عمر میں شدت غم واندوہ میں ڈوب جاتے ہیں،تو آپ کے پدربزرگوار اس ہمّ وغم کا سبب دریافت کرتے ہیں ۔

تو وہ اپنی مادرگرامی حضرت فاطمہ زہرا کے مصائب اور حضرت محسن کے خون کا انتقام لینے کو زمانہ ظہور میں بیان کرتے ہیں۔(۲)

دوسری حدیث میں امام عصر کے عظیم قیام کو بیان کرتے ہوئے آخر میں فرماتے ہیں:

” فاذا دخل المدینة اخرج اللات والعزّیٰ فاحرقهما“

”جب وہ مدینہ پہونچیں گے تو (قریش کے دو بڑے بت) لات و عزّیٰ کو زمین سے نکال کر جلا ڈالیں گے ۔“(۳)

یہ امام علی نقی ہیں جو سامرا کے زندان میں یوسف زہرا کی یاد میں ”صقر ابن ابی دُلف“ سے فرماتے ہیں:

”سنیچر کا دن رسول خدا سے مخصوص ہے جمعرات کا دن میرے فرزند

________________________

۱۔ منتخب الاثر، لطف اللہ صافی گلپائیگانی، ص ۵۰۶۔

۲۔ اعلام الوریٰ باعلام الھدیٰ، ابو علی الفضل بن حسن الطبرسی، ص ۴۰۹۔

۳۔ حلیة الابرار فی احوال محمد و آلہ الاطہار، ج۲، ص ۵۹۸۔ بیت الاحزان، شیخ عباس قمی، ص ۱۰۰۔

۲۰

(امام حسن عسکری ) سے اور جمعہ کا دن میرے فرزند کے بیٹے (حضرت مہدی ) سے مخصوص ہے ۔“(۱)

یہ امام حسن عسکری کی ذات گرامی ہے کہ سامرا کے زندان میں اپنے فرزند ارجمند کی یاد میں نغمہ سرائی کرتے ہوئے اس بیت کو پڑھتے ہیں:

من کان ذا عضد یدرک ظلامته

انّ الذّلیل الذی لیست له عضد

یعنی : جو قوت بازو کا حامل ہوتا ہے وہ اپنے حقوق اخذ کرلیتا ہے

بے شک ذلیل وہ شخص ہوتا ہے جس کا کوئی قوت و بازو نہ ہو

زندان میں ساتھ رہنے والا شخص دریافت کرتا ہے:

”کیا آپ کا کوئی بیٹا ہے؟“

فرماتے ہیں:

”ای واللّه سیکون لی ولد یملا الارض قسطاً، فامّا الآن فلا “

”ہاں!خدا کی قسم! میرے لیے ایک فرزند ہو گا جو زمین کو عدل و انصاف سے بھر دے گا لیکن ابھی میرا کوئی فرزند نہیں ہے ۔ “

اس وقت درج ذیل شعر کو بطور مثال پیش کیا:

________________________

۱۔ کمال الدین و تمام النعمة، شیخ صدوق ، ج۲، ص ۳۸۳۔

۲۱

لعلّک یوما ان ترانی کانّما

بنیّ حوالیّ الاسود اللّوابد

یعنی: تم شاید مجھے ایک دن دیکھو گے جب میرے بیٹے شیروں کی طرح کہ ان کے بال ان کی گردن پر آویزاں ہوں گے اور وہ میرے اطراف میں جمع ہوئے ہوں گے۔“(۱)

اور جب آفتاب امامت افق سامرا سے طلوع ہوا تو احمد ابن اسحاق سے فرمایا:

”اللہ تعالیٰ کا شکر کہ مجھے دنیا سے نہ اٹھایا یہاں تک کہ میرے اس فرزند کا دیدار کرایا جو میرا جانشین ہے اور لوگوں میں خلقت اور سیرت میں رسول خدا سے سب سے زیادہ مشابہ ہے ۔“(۲)

ولادت کے دوسرے دن جب حکیمہ خاتون نے گہوارہ کو خالی پایا تو دریافت کیا: میرے آقا و مولا کہاں گئے ؟

فرمایا:

”یا عمّة استودعناه الذی استودعت امّ موسیٰ “

اے پھوپھی جان! میں نے ان کو اس ذات کے سپرد کر دیا ہے کہ جس کے سپرد مادر موسیٰ نے موسیٰ کو کیا تھا۔ “(۳)

________________________

۱۔ بحار الانوار، محمد باقر مجلسی، ج۵۱، ص ۱۶۲۔

۲۔ اعلام الوریٰ باعلام الھدی، ابو علی الفضل بن حسن الطبرسی، ص ۲۹۱۔

۳۔ کتاب الغیبة ، شیخ طوسی، ص ۲۳۷۔

۲۲

یہ حضرت بقیة اللہ ہیں جو ہمیشہ زمانہ غیبت کے طولانی ہونے کی وجہ سے اکثر اپنی ملاقات سے مشرف ہونے والوں سے سوز گداز کی حالت میں تعجیل فرج کے متعلق دعا کرنے کا حکم صادر فرماتے ہیں اور توقیع مبارک میں کہتے ہیں:

” واکثر وا الدعاء بتعجیل الفرج ،فانّ ذلک فرجکم “

”تعجیل فرج و کشائش کے لیے کثرت سے دعا کرو کہ اس میں تمہارے لیے کشائش و آسائش ہے ۔ “(۱)

محمد بن عثمان ۔ دوسرے نائب خاص۔ حضرت کا ”باب المستجار“ میں دیدار کرتے ہیں کہ وہ غلاف کعبہ کو پکڑ کر دعاگو ہیں :

”اللهم انتقم من اعدائی “

خدایا ! میرے دشمنوں سے میرا انتقام لے ۔(۲)

اور جب حضرت کی خدمت میں آخری مرتبہ پہونچتے ہیں تو حضرت کے وجود اقدس کا خانہ کعبہ کے کنارے مشاہدہ کرتے ہیں کہ پروردگار کی طرف دست بدعا ہو کر عرض کرتے ہیں :

”اللهم انجزلی ما وعدتنی “

”خدایا ! جو مجھ سے وعدہ ہے کیا وفا کر “(۳)

________________________

۱۔ الاحتجاج، ابو علی الفضل بن حسن طبرسی، ج۲، ص ۴۷۱۔ کتاب الغیبة، شیخ طوسی ، ص ۲۹۲۔

۲۔ بحار الانوار، محمد باقر مجلسی، ج۵۲، ص ۳۰۔

۳۔ اعیان الشیعہ، السید محسن الامین العاملی، ج۲، ص ۷۱۔

۲۳

یہ مختصر اشارہ ائمہ دین کی سیرت اور مذہب کے پاسبانوں کے متعلق تھا جو گزشتہ انبیاء، خود ذات پیغمبر اکرم ،امیر المومنین اور بقیہ ائمہ معصومین علیہم السلام آفتاب امامت کے طلوع ہونے سے صدیوں پہلے شدید عشق و محبت اپنے دل میں پوشیدہ رکھے ہوئے تھے اور حضرت کے فراق میں تڑپ رہے تھے نیز کبھی اس ماں کی طرح آنسو بہاتے تھے جس نے اپنے جواں سال بچہ کا داغ دیکھا ہو ،ان کی یاد کے ذریعے عشق و محبت کا اظہار کرتے تھے ، ان کے دیدار کے مشتاق ہوتے تھے اور جو افراد حضرت کے جمال آرائے عالم کے دیدار کی توفیق حاصل کریں گے ان پر رشک کرتے تھے ۔ ائمہ دین نہ صرف یہ کہ خود حضرت کے فراق میں تڑپتے تھے بلکہ حضرت کے شیعوں اور عاشقوں کو حکم دیتے تھے کہ وہ بھی ہمیشہ عزیز زہرا کے غائب فرزند کی یاد میں رہ کر ان کی جدائی میں اشک بہائیں اور نالہ وشیون بلند کریں اور خود کثرت سے انہیں دعاؤں کی تعلیم دیتے تھے کہ جسے وہ خاص اوقات میں پڑھیں اور آئندہ نسلوں کو سپرد کریں کہ ان دعاؤں کو وہ زمانہ غیبت میں پڑھا کریں ۔یہ دعائیں حدیثی اور فقہی مصادر میں مختلف زمانوں اور صدیوں میں ضبط تحریر میں آچکی ہیں اور حضرت تمام کے شیعہ عاشق، مشاہد ِمشرفہ اور مقامات مقدسہ میں مختلف اوقات میں حضرت بقیة اللہ ارواحنا فداہ سے اظہار عقیدت کے وقت ان دعاؤں کے ذریعہ اپنے آقاومولا سے راز دل کہتے ہیں ،غیبت کے طولانی ہونے کا شکوہ کرتے ہیں ، آپ کے جمال پر نور کے شوق دیدار کا اظہار کرتے ہیں اپنے کعبہ مقصود کے فراق میں نالہ و شیون کی صدائیں بلند کرتے ہیں ۔ مرحوم سید محمد تقی موسوی اصفہانی (متوفیٰ ۱۳۴۸ ھئق) جو اپنے زمانے میں مایہ افتخار و سر بلندی تھے انہوں نے اپنی مکمل قوت و تلاش سے ان دعاؤں کی جمع آوری کی اور ایک سو سے زائد فقرات ائمہ نور سے ماثورہ دعاؤں کو اس سلسلے میں بھی جمع کیا ہے اور اپنی گراں قدر کتاب مکیال المکارم کو دل سوختہ اور درد آشنا شیعوں کے اختیار میں قرار دیا ۔(۱)

مولف کتاب کے مقدمہ میں وضاحت فرماتے ہیں کہ میں ایک شب عالم خواب میں ،حضرت بقیة اللہ الاعظم ارواحنا فداہ کی خدمت میں حاضر ہوا تو حضرت نے فرمایا:

”اس کتاب کو تحریر کرو ،عربی میں لکھو اور اس کا نام ”مکیال المکارم فی فوائد الدعاء للقائم “رکھو۔“(۲)

یہ کتاب حسن اتفاق سے فارسی میں بھی ترجمہ ہو چکی ہے اور عام قارئین کی دست رس میں ہے ۔(۳)

ان دعاؤں میں سب سے جذّاب ،قابل توجہ ،جامع ترین اور پر سوز ترین دعا”دعائے ندبہ“ ہے جسے حضرت کے عاشقین ہر جمعہ کی صبح ہر شہر اور دیہات میں

________________________

۱۔مکیال المکارم فی فوائد الدعاء للقائم ،سید محمد تقی موسوی اصفہانی ،ج۲،ص ۲۔۱۰۳۔۲۔ گذشتہ حوالہ ،ج۱،ص ۴۔

۳۔ رجوع کریں۔ مکیال المکارم ،سید محمد تقی موسوی اصفہانی ،ترجمہ سید مہدی حائری ۔

۲۴

جمع ہو کر خاص سوز و گداز کے ساتھ اس دعا کو پڑھتے ہیں اور اپنے محبوب اور ہر دل عزیز سے اپنے راز دل کو بیان کرتے ہیں نیز اپنے بہترین لحن اور یابن الحسن کے نغموں کی صدائے بازگشت کو بہت زیادہ نورانی اور معنوی فضا میں سنتے ہیں ، ساتوں آسمان کے فرشتوں کو گواہ بناتے ہیں کہ غیبت کی تاریک شب سے عاجز اور تھک چکے ہیں اور صبح ِامید کے اشتیاق میں لحظہ شماری کر رہے ہیں ۔

امام محمد باقر آیہ کریمہ

( و اللیل اذا یغشیٰ و النهار اذا تجلیّٰ ) (۱)

”رات کی قسم جب وہ دن کو ڈھانپ لے اور دن کے قسم جب وہ چمک جائے ۔ “

کی تفسیر میںفرمایا:

”اس جگہ ”و اللیل اذا یغشیٰ “ سے مراد باطل حکومتیں ہیں کہ جنہوں نے اپنے دور حکومت میں امیر المومنین کی ولایت و خلافت کے مقابلے میں قیام کیا ،عرصہ عالم کو اپنی جولان گاہ قرار دیا اور ”والنھار اذا تجلیٰ “سے مراد ہم اہل بیت میں سے امام قائم کے ظہور کا دن ہے کہ جب وہ ظہور کریں گے تو باطل حکومتوں کا صفحہ ہستی سے خاتمہ ہو جائے گا۔“(۲)

________________________

۱۔ سورہ لیل (۹۲) آیت ۱،۲۔

۲۔ تفسیر القمی، علی بن ابراہیم قمی، ج۲، ص ۴۲۵۔

۲۵

دعائے ندبہ ہر جمعہ کی صبح میں مستکبرین عالَم سے اعلان نفرت اور ظلم و استبداد کے محلوں کو ویران کرنے والے کے ساتھ اور ایک عالمی حکومت عدالت و آزادی کی بنیاد پر قائم کرنے والے سے تجدید بیعت کا نام ہے۔

دعائے ندبہ امام برحق مصحف ناطق حضرت امام جعفر صادق نے اپنے دوستوں اور شیعوں کو تعلیم دی اور انہیں حکم دیا کہ اس دعا کو چارعظیم عیدوں یعنی عید فطر ،عید قربان ،عید غدیر اور عید جمعہ کے دنوں میں پڑھا کریں اور ہمیں حکم دیا کہ زمانہ غیبت میں اس دعا کے ذریعہ اپنے امام ، محبوب آقا و مولا اور اپنے مقتدا کے ساتھ درد دل اور تجدید عہد کریں۔

گزشتہ انبیاء، رسول اسلام، ائمہ معصومین اور حضرت بقیة اللہ ارواحنا فداہ سے مذکورہ عبارتوں پر توجہ کرنے کے بعد ان لوگوں کا کثرت سے تعجیل فرج کے لیے دعا کرنے کا حکم دینا نیز ائمہ معصومین سے وارد شدہ دعاؤں کی تالیف و جمع آوری یہ تمام امور انتظار کے بہت زیادہ طولانی ہونے کی نشان دہی کرتے ہیں اور ائمہ معصومین کے امام غائب کے شوق دیدار کے پائے جانے کے ظریف نکات پر مشتمل ہیں۔ مزید ان کی طولانی غیبت کی شکایت بھی ہے ،پھر ایک اور مرتبہ دعائے ندبہ کے سب سے پہلے اعتراض کرنے والوں کے جواب کو دقت سے مطالعہ کرتے ہیں:

”کیا معقول ہے کہ ایک فرد کی ولادت سے پہلے اس کی جدائی میں گریہ و نالہ کیا جائے ؟!“

مزید وضاحت :دعائے ندبہ امام جعفر صادق سے منقول ہے امام صادق ۱۴۸ ھئق میں شہید ہوئے اور حضرت بقیة اللہ ارواحنا فداہ ۲۵۵ ھئق میں پیدا ہوئے۔

لہٰذا جس وقت امام جعفر صادق نے دعائے ندبہ کو انشاء فرمایا تو اسے حضرت ولی عصر کی ولادت سے سو سال پہلے انجام دیا لہذا کس طرح ممکن ہے کہ انسان ایک ایسے انسان کی بہ نسبت جو ایک صدی کے بعد پیدا ہو گا اس کے لیے گریہ وزاری کرے ،اس کے فراق میں آنسو بہائے اور نالہ و فریاد بلند کرے؟!

۲۶

جواب میں ہم عرض کریں گے: اگر یہ معنی معمولی اور عام افراد کے متعلق تصور کریں تو معترض حق بہ جانب ہے اور ہرگز معقول نہیں ہے کہ ایک عاقل انسان اپنے چھٹے پوتے کے لیے گریہ و زاری کرے اور اس کے فراق میں حسرت آمیز آنسو بہائے ،لیکن اگر مورد نظر ایسا فرد ہو جو دنیا کی خلقت کا باعث ہو اور سب سے خوش نما ، دل کش اور ہر دل عزیز شخصیت کا مالک ہو اور تمام انبیاء الٰہی نے اللہ تعالیٰ کے حکم سے اس کے آنے کی اپنے پیروکاروں کو خوش خبری دی ہو،اور اپنی امت کو اس کے انتظار کا حکم دیا ہو،اس کی طولانی غیبت کے متعلق گفتگو کی ہو، تو یہ بہت ہی فطری اور منطقی بات ہو گی کہ درد آشنا افراد زمانے اور صدیوں کی طویل مدت میں اس کے آنے کے انتظار میں لحظہ شماری کریں ، اس کے فراق میں حسرت آمیز اشک بہائیں اور اس کی طولانی غیبت کی وجہ سے گریہ و زاری کریں ۔

اس بات کے متعلق پہلے حصہ میں تفصیلی گفتگو اور گزشتہ انبیاء کے بیش بہا نمونے، رسول اسلام (ص) اور ائمہ معصومین علیہم السلام سے نقل کر چکے ہیں اور سدید صیرفی کی وہ روایت کہ جس میں وہ اصحاب کی ایک جماعت کے ساتھ امام جعفر صادق کی خدمت میں مشرف ہوئے اور حضرت کو زمین پر بیٹھے ہوئے دیکھا جیسے کوئی ماں اپنے فرزند کی میت پر گریہ اور نالہ و فریاد کرتی ہے ، جب اس کی وجہ دریافت کی تھی تو ایک جاں گداز بیان میں فرمایا کہ حضرت قائم کی طولانی غیبت اور مومنین کی اس دوران پریشانی کے پیش نظر یہ میرے اشک جاری ہیں ۔(۱) اب چند نکات کی اس سلسلے میں یاد آوری کرتے ہیں:

۱ ۔ امام محمد باقر نے زرارہ سے فرمایا:”جمعہ کے دن قبل اس کے کہ اپنے لیے دعا کرو اپنی نماز کے قنوت میں پڑھو:

”اللّٰهم انّا نشکو الیک فقد نبیّنا و غیبة ولیّنا و شدّة الزمان علینا ووقوع الفتن و تظاهر الاعداء و کثرة عدوّنا و قلّة عددنا ،فافرج ذلک یا ربّ عنّا بفتح منک تعجّله و نصرمنک تعزّه و امام عدل تظهر ه ، اله الحق آمین

”پروردگارا! ہم لوگ اپنے نبی کے جدا ہونے کی تجھ سے شکایت کرتے ہیں اور اپنے ولی عصر کی غیبت کی اور زمانے کی سختیوں کی ،اور ہر طرف فتنوں کے برپا ہونے کی اور دشمنوں کے غلبے کی ،اعداء کی کثرت اور زیادتی و فراوانی دشمن کی ، اور اپنی تعداد میں کمی کی (شکایت کرتے ہیں)

________________________

۱۔ کمال الدین و تمام النعمة ،شیخ صدوق ،ج۲،ص۳۵۳۔

۲۷

اے اللہ ! اپنی طرف سے ان کی کشادگی کو جلد کھول دے۔ اور اپنی طرف سے عطا کردہ صبر کے ذریعے آسانی پیدا کر دے اور امام عادل کو ظاہر فرما اے معبود بر حق۔“(۱) آمین

۲ ۔ اسی قسم کی عبارت امام المتقین امیر المومنین حضرت علی سے روایت ہوئی ہے کہ جسے اپنے قنوت میں پڑھا کرتے تھے :

”اللّٰهم انّا نشکوالیک فقد نبیّنا و غیبة امامنا ففرّج ذلک اللّهم بعدل تظهره و امام حق نعرفه “

”خدایا! ہم لوگ اپنے نبی کے جدا ہونے کی تجھ سے شکایت کرتے ہیں اور اپنے امام عصر کی غیبت کی لہذا ایسی کشادگی فراہم فرما جو ایسی عدالت کے ہمراہ ہو جسے عام کیا جا رہا ہو اور اس امام بر حق کے ساتھ ہو کہ جس کی ہم شناخت رکھتے ہیں “(۲)

۳ ۔ شہید اول اس کو کتاب ذکری میں نقل کرتے ہوئے کہتے ہیں:

ابن ابی عقیل نے امیر المومنین کے اس قنوت کو دعاؤں سے منتخب کر کے کہا ہے :

”مجھ تک یہ خبر پہونچی ہے کہ امام جعفر صادق اپنے شیعوں کو حکم دیتے تھے کہ کلمات فرج کے بعد اس دعا کو قنوت میں پڑھا کریں“۔(۳)

________________________

۱۔ مصباح المتھجد ،شیخ طوسی ،ص۳۶۶۔

۲۔ مستدرک الوسائل و مستنبط المسائل ،مرزا حسین نوری طبرسی ،ج۴،ص ۴۰۴۔

۳۔ الذکری ،شہید اول ،ص۱۸۴۔

۲۸

یہ بات قابل توجہ ہے کہ حضرت علی امام موعود کی ولادت باسعادت سے دو صدی پہلے اپنی نماز کے قنوت میں اس قبلہ موعود کی غیبت کے متعلق خدا سے شکایت کرتے ہیں اور تمام عالم اسلام کی مشکلات کے حل اور اس عالمی مصلح کے ظہور کے لیے خدائے منان سے درخواست کرتے ہیں ۔

امام محمد باقر اس متن کو اپنی نماز کے قنوت میں پڑھتے ہیں اور زرارہ کو حکم دیا کہ اسے جمعہ کے دن ہر قنوت میں پڑھا کریں اور اسی طرح امام صادق اپنے شیعوں کو حکم دیتے ہیں کہ قنوت میں کلمات فرج کے بعد اس دعا کو پڑھا کریں۔

۴ ۔ آٹھویں امام حضرت علی رضا بھی اپنے شیعوں کو حکم دیتے ہیں کہ جمعہ کے دنوں میں نماز ظہر کے قنوت میں اس سلسلے میں ایک دعا پڑھا کریں۔(۱)

۵ ۔ امام جواد (تقی ) نے اپنی نماز کے قنوت میں تعجیل فرج کے لیے دعا کی ،اس کعبہ مقصود کے پیروکاروں کی توصیف میں فرماتے ہیں :

”فاصبحوا ظاهرین والی الحق داعین و للامام المنتظر القائم بالقسط تابعین“

”وہ لوگ کامیاب ہوئے ،حق کی طرف دعوت دیتے ہیں اور امام منتظر جو عدل و انصاف کو قائم کرنے والے ہیں ان کی پیروی کرتے ہیں“ ۔(۲)

____________________

۱۔ جمال الاسبوع ،سید علی ابن موسیٰ ابن طاووس ،ص۴۱۳۔

۲۔ بحار الانوار ،محمد باقر مجلسی ، ج۸۵،ص ۲۲۶۔

۲۹

۶ ۔ امام ہادی (نقی ) بھی اپنی نماز کے قنوت میں تعجیل فرج کے لیے دعا کرتے تھے ۔(۱)

۷ ۔امام حسن عسکری اپنی نماز کے قنوت میں بہت عظیم دعا اپنے فرزند ارجمند کے تعجیل فرج کے لیے پڑھا کرتے تھے اور اللہ تعالیٰ سے درخواست کرتے تھے کہ غیبت کی تاریک شب ختم ہونے کے بعد عدالت کے روز روشن کو ظاہر فرما۔(۲)

۸ ۔ جس وقت اہل قم نے ”موسیٰ بن بغی“ عامل متوکل کے مظالم کی امام حسن عسکری کی خدمت میں شکایت کی تو امام نے ان سے فرمایا : نماز مظلوم پڑھیں اور مذکورہ دعا کو اس کے قنوت میں پڑھیں۔“(۳)

۹ ۔ امام محمد باقر اپنی نماز کے قنوت میں غیبت کے طولانی ہونے کی بنا پر نالہ و شیون کرتے ہیں اور پروردگار کی بارگاہ میں عرض کرتے ہیں:

اللّهمّ فانّ القلوب قد بلغت الحناجر ، والنّفوس قد علت التّراقی والاعمار قد نفدت با لانتظار “

”خدایا! قلوب حنجروں تک پہنچ گئے ہیں اور سانسیں سینوں میں مقید ہو گئی ہیں اور عمریں انتظار کی بنا پر اپنی انتہا کو پہنچ چکی ہیں۔ “

اس وقت اللہ تعالیٰ سے مومنین کی آرزوؤں کی تکمیل کے خواہاں ہوتے ہیں کہ

____________________

۱۔ مھج الدعوات ،سید علی ابن موسیٰ ابن طاووس ،ص۶۲۔

۲۔ مھج الدعوات ،سید علی ابن موسیٰ ابن طاووس ،ص۶۴۔

۳۔ مکیال المکارم، محمد تقی موسوی اصفہانی، ج۲، ص ۸۵۔

۳۰

مومنین کو ان کی آرزوؤں تک پہونچا دے ،دین کو نصرت عطا فرمائے ،اپنی حجت کو ظاہر کرے اور اس کے قوت بازو کے ذریعے دشمنوں سے انتقام لے ۔(۱)

۱۰ ۔ یحییٰ بن فضل نوفلی کہتے ہیں :بغداد میں امام موسیٰ کاظم کی خدمت اقدس میں پہنچا ، جب نماز عصر پڑھ چکے تو اپنے ہاتھوں کو آسمان کی جانب بلند کر کے عرض کیا:

ایک مفصل دعا کو نقل کیا ،آخر میں مزید عرض کرتے ہیں:

”و ان تعجّل فرج المنتقم لک من اعداء ک وانجزله ما وعد ته یا ذالجلال و الاکرام

”اور یہ کہ منتقم حقیقی کے ظہور میں تعجیل فرما، جو تیرے دشمنوں سے انتقام لے گا، لہذا جو اس سے وعدہ کیا ہے اسے پورا کر، اے صاحب جلالت و کرامت والے خدا!“

نوفلی نے دریافت کیا: یہ دعا کس کے حق میں ہے؟

فرمایا: مہدی آل محمد کے حق میں ہے ۔

اس وقت حضرت کے بعض اوصاف کو شمار کرتے ہیں اور آخر میں فرماتے ہیں:

”بابی القائم بامر اللّه “

”میرے باپ اس بزرگوار پر فدا ہو جائیں جو حکم خدا سے قیام کریں گے۔ “(۲)

________________________

۱۔ مھج الدعوات، سید علی ابن موسی ابن طاووس، ص ۵۲۔

۲۔ فلاح السائل ،سید علی ابن موسیٰ ، ابن طاووس ،ص۲۰۰۔

۳۱

یہ سمندر کی رطوبت ،خرمن کا ایک خوشہ اور جو ائمہ معصومین نے دعا کے اوقات میں اپنی نمازوں کے قنوت یا تعقیبات میں گم گشتہ یوسف زہرا کے متعلق شکوے کیے تھے، ان کے فراق میں نالہ و فریاد بلند کی تھی مومنین کی عصر غیبت میں پریشانیوں پر سیلِ اشک جاری کیے ان کے تعجیل ظہور کے لیے دست نیاز بارگاہ رب العزت میں بلند کیا،اور بہت ہی عظیم تعبیروں کو استعمال کرنے سے دریغ نہیں فرمایا۔ اگر ان تمام موارد کو ہم شمار کرنا چاہیں تو اس (مثنوی) کو تحریر کرنے کے لیے ستّر من کاغذ درکار ہو گا۔

ہم یہاں مزید یہ کہتے ہیں کہ انتظار کی یہ حالت اور شوق، ائمہ سے مخصوص نہیں ہے بلکہ بہت سے ایسے اصحاب جو رسول اکرم اور ائمہ دین کے زیر تربیت پروان چڑھے حضرت بقیة اللہ ارواحنا فداہ کی بہترین حکومت سے آشنا ہوئے ،جان لیوا عشق حاصل کیا، وہ شب و روز حضرت کے فراق میں اشک بہاتے تھے ،ان میں سے ایک مثا ل جناب سلمان کی ہے ۔(۱)

قابل توجہ یہ ہے کہ یہ سوز و گداز اصحاب پیغمبر اور ائمہ ہدیٰ کے اصحاب ہی سے مخصوص نہیں ہے بلکہ بعض اکابر اہل سنت بھی اس عشق و محبت سے بہرہ مند تھے کہ ان میں سے ایک کی مثال ”عبادا بن یعقوب رواجنی “ کی ہے ۔

رواجنی اہل سنت کے بزرگوں میں سے تھے ،بخاری ،ترمذی ،ابن ماجہ ،ابو حاتم،

________________________

۱۔دلائل الامامة ،محمد بن جریر طبری،ص۴۴۹۔

۳۲

بزّاز اور دوسرے محدثین اہل سنت نے ان سے روایت نقل کی ہے اور تمام اہل رجال نے ان کی وثاقت و صداقت کی تاکید کی ہے ۔(۱)

ان کا انتظار ،شوق دیدار اور سوز و گداز، گریہ و زاری ہی پر ختم نہیں ہوتا ،بلکہ ایک شمشیر آمادہ کیے ہوئے تھے کہ اگر امام مہدی کے زمانہ کو درک کریں گے تو اس شمشیر کے ذریعہ حضرت کی رکاب میں (دشمنوں سے ) جنگ کریں گے ۔

منقول ہے کہ قاسم ابن زکریّا حدیث سننے کے لیے رواجنی کی خدمت میں گئے، جب ان کے سر کے پاس ایک تلوار رکھی ہوئی مشاہدہ کی تو دریافت کیا، یہ کس کی تلوار ہے ،رواجنی نے جواب دیا:

”میں نے اسے اس لیے آمادہ کیا ہے کہ حضرت مہدی کے حضور میں اس تلوار کو چلاؤں“۔(۲)

قابل توجہ نکتہ یہ ہے کہ رواجنی کی وفات ۲۵۰ ھء ق میں واقع ہوئی ۔(۳) اور حضرت بقیة اللہ ارواحنا فداہ کی ولادت ۲۵۵ ھئق میں واقع ہوئی ہے ۔

اس سے بھی زیادہ توجہ کے قابل یہ نکتہ ہے کہ ان کی ایک کتاب بطور یادگار باقی ہے جس کا نام اخبار المہدی المنتظر ہے ۔(۴)

_______________________

۱۔ سیر اعلام النبلاء ،محمد بن احمد بن عثمان ذہبی ،ج۱۱،ص ۵۳۷۔

۲۔میزان الاعتدال ،محمد بن احمد بن عثمان ذہبی ،ج۲،ص ۳۷۹۔

۳۔ التاریخ الکبیر ،محمد بن اسماعیل بخاری ،ج۶،ص۴۴۔

۴۔ الاعلام، خیر الدین زرکلی ،ج۳،ص ۲۵۸۔

۳۳

رواجنی کی کتاب کی اہمیت اس جہت سے ہے کہ اسے حضرت بقیة اللہ کی ولادت باسعادت سے پہلے تحریر کیا ہے ۔

جس مقام پر ایک سنی مسلک شخص اس مہرتاباں کی ولادت سے پہلے اس سے عشق و محبت کا اظہار کرے اس کے فراق میں اشک فشانی کرے اس کے حریم سے دفاع کرنے کے لیے اسلحہ آمادہ کرے،اور ایک مقام پر سلمان جیسی شخصیت ان کی ولادت سے صدیوں پہلے ان کے فراق میں گریہ کرے ،اور جہاں ائمہ معصومین امیرالمومنین سے لے کر امام حسن عسکری تک اپنی نمازوں کے قنوت میں تعجیل فرج کے لیے دعا کریں ان کی طولانی غیبت کا شکوہ کریں،اور ایک سو سے زائد شیعوں کو تعلیم دیں اور یہ حکم دیں کہ زمانہ غیبت میں اسے پڑھنا ضروری سمجھیں۔(۱) پھر بھی اگر کوئی شخص دعائے ندبہ کا امام جعفر صادق سے صادر ہونے میں شک و شبہ کرے اور یہ کہے :”کیا یہ بات معقول ہے کہ امام صادق اس شخص کے لیے جس کی ابھی ولادت نہیں ہوئی ہے اشک بہائےں ؟!“ ایسا انسان یا نادان ہے یا غرض دار شخص ہے ،اس لیے کہ دعائے ندبہ سیکڑوں دعاؤں میں سے ایک ہے کہ جس کی زمانہ غیبت میں پڑھنے کی ائمہ معصومین علیہم السلام نے تاکید کی ہے ۔

آخر میں ہم یہ بھی یاد آوری کراتے ہیں کہ ہرگز کسی نے بھی اس بات کا دعوی نہیں کیا ہے کہ امام صادق دعائے ندبہ پڑھتے ہیں بلکہ شیعوں کو حکم دیا ہے کہ اس دعا کو

_______________________

۱۔ مکیال المکارم ،محمد تقی موسوی اصفہانی ،ج۲،ص ۲۔ ۱۰۳۔

۳۴

چارعظیم عیدوں میں پڑھا کریں اس لحاظ سے دعائے ندبہ زمانہ غیبت میں شیعوں کے لیے ایک دستور العمل ہے ۔

لیکن اس بنیاد پر جو کچھ کہا گیا ہے ،اگر کوئی شخص یہ دعویٰ کرے کہ ائمہ اپنے زمانے میں دعائے ندبہ پڑھا کرتے تھے تو کوئی مانع نہیں ۔ نہ ہی خلاف عقل ہے اور نہ ہی خلاف ذوق ۔

مگر کیا ایسا نہیں ہے کہ امام سجاد نے عرفہ کے دن صحرائے عرفات میں مشہور دعائے عرفہ میں اس پُر سوز و گداز دعا کے بعض حصے کو حضرت بقیة اللہ ارواحنا فداہ سے مخصوص کیا ہے اور فرماتے ہیں :

و اصلح لنا امامن اللّهم املا الارض به عدلاً و قسطاً و اجعلنی من خیار موالیه و شیعته و ارزقنی الشهادة بین یدیه(۱)

”خدایا! ہمارے امام کے امر (قیام و حکومت) کے اسباب عطا فرما خدایا! زمین کو ان کے دست مبارک کے ذریعے عدل و انصاف سے بھر دے خدایا! ہمیں ان کے بہترین دوستوں اور شیعوں میں قرار دے اور ہمیں ان کی رکاب میں شہادت کی توفیق کرامت فرما “

امام سجاد نے اس دعا کو مزید اوصاف اور مخصوص سوز و گداز کے ساتھ اس دعا کو

_______________________

۱۔ مصباح المتھجّد،محمد بن حسن طوسی، شیخ طوسی ،ص۶۹۸۔

۳۵

صحرائے عرفات میں پڑھا اور ہر سال لاکھوں حاجی اس دعا کو عرفہ کے دن ہزاروں آہ و نالہ کے ساتھ پڑھتے ہیں ۔

یہ کیسی جرات اور گستاخی ہے کہ بعض بد اندیش لوگوں کے سامنے جیسے ہی دعائے ندبہ کا نام دورانِ گفتگو آتا ہے تو اسے غیر معقول اور غیر منطقی شمار کرنے لگتے ہیںا ور دوسری سیکڑوں دعا جو اس سلسلے میں ائمہ معصومین علیہم السلام سے صادر ہوئی ہیں اس میں شک و شبہ کا اظہار نہیں کرتے ۔

شیعیان واقعی اور عاشقان حقیقی پر لازم ہے کہ دشمن شکن دعائے ندبہ کی مجالس میں سرگرم عمل ہوکر کج فکروں کو عملی جواب دیں ۔

۳۶

۲ ۔ دعائے ندبہ کی سندی تحقیق

اعلیٰ معارف، درخشاں حقائق ، روشن معانی اور عمیق مطالب جو بدیع و نوآوری کے اسلوب ، بہترین و منطقی بیان بہت فصیح اور عظیم فقرات اس مبارک دعا میں وارد ہوئے ہیں ،جو ہمیں ہر قسم کی سند اور حوالے سے بے نیاز کرتے ہیں کہ ایسے روشن حقائق اور درخشاں نکات ، ہرگز کسی اور منبع و مصدر سے صادر نہیں ہو سکتے اس کا سرچشمہ سوائے ولایت اور خاندان عصمت و طہارت حضرات ائمہ معصومین علیہم السلام کے صاف و شفاف چشمے کے کچھ اور نہیں ہو سکتا ، لیکن عاشقوں کی جماعت کے دل کی نورانیت کے لیے دعائے ندبہ کی نورانی مجالس کو ہر جمعہ کی صبح میں ،دعائے ندبہ کے استوار اور مستحکم منابع و مصادر کو زمانے کے تسلسل کے اعتبار سے ہم یہاں ذکر کررہے ہیں :

۱ ۔ ابو جعفر محمد بن حسین ابن سفیان بزوفری

سب سے پہلے با وثوق اور مورد اعتماد شخص کہ جنہوں نے دعائے ندبہ کی سند کو اپنے مکتوب میں برحق رہنما مصحف ناطق حضرت امام جعفر صادق سے روایت کی ہے وہ ابو جعفر محمد بن حسین بن سفیان بزوفری ہیں ۔

”بزوفری “”بزوفر“ نامی دیہات جو ”قوسان “ کے اطراف میں ”بغداد “ کے نزدیک ”موفّقی“ نہر کے ساحل پر دریائے دجلہ کے مغرب میں واقع ہے ۔(۱)

”بزوفری“ کا شمارشیخ مفید کے اساتذہ میں ہوتا ہے اور شیخ مفید نے ان سے کثرت سے روایت نقل کی ہے ۔ محدث نوری شیخ مفید کا نام شمار کرتے وقت ان کا نام ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں:

”ابو علی ۔فرزند شیخ طوسی ۔نے امالی میں متعدد مرتبہ اپنے والد شیخ طوسی سے ،انہوں نے شیخ مفید سے ان سے روایت کی ہے اور ان کے لیے مغفرت طلب کی ہے ۔“(۲)

جناب آقابزرگ تہرانی کہتے ہیں:

”ان کی وثاقت و صداقت شیخ مفید کا ان سے کثرت سے نقل کرنا، ان

_______________________

۱۔ معجم البلدان ،یاقوت بن عبد اللہ حموی بغدادی ،ج۱،ص ۴۱۲۔

۲۔ مستدرک الوسائل و مستنبط المسائل ،حسین ابن محمد تقی نوری طبرسی ، ج۲۱، ص۲۴۴۔

۳۷

کے لیے طلب مغفرت کرنے سے واضح و آشکار ہے ۔“(۱)

شیخ طوسی تہذیب الاحکام اور استبصار کی مشیخہ میں ان کا نام ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں:

”میں نے جو روایت احمد ابن ادریس سے نقل کی ہے ،اسے شیخ مفید نے ”حسین بن عبید اللہ غضائری “ سے نقل کی ہے کہ دونوں نے ابو جعفر محمد بن حسین بن سفیان بزوفری سے روایت نقل کی ہے ۔“(۲)

بے مثال محقق،حجت تاریخ ،جناب آقا بزرگ تہرانی ان کی کتاب کے متعلق بحث کرتے وقت کہتے ہیں :

”کتاب الدعاء ابو جعفر محمد بن حسین بن سفیان بزوفری سے ،شیخ مفید کے اساتذہ سے ،کہ شیخ مفید نے ان سے احادیث کو نقل کیا ہے یہ حدیثیں امالی شیخ طوسی میں شیخ مفید کے طریق سے ان سے روایت کی گئی ہےں ۔

پھر کہتے ہیں :

”انہوں نے دعائے ندبہ کو اس کتاب میں ذکر کیا ہے ،محمد ابن ابی قرّہ نے ان سے روایت کی ہے اور محمد بن مشہدی نے اپنی کتاب مزار میں

________________________

۱۔ الذریعہ الی تصانیف الشیعہ ،آغا بزرگ طہرانی ،ج۱،ص ۱۹۴۔

۲۔ تہذیب الاحکام شیخ طوسی ،ج۱۰،ص ۳۵۔ الاستبصار ،ج۴،ص ۳۰۴،(المشیخہ)۔

۳۸

ان سے روایت کی ہے “ ۔(۱)

۲ ۔ ابو الفرج محمد ابن علی ابن یعقوب ابن اسحاق ابن ابی قرّہ قُنّائی

دوسرے مورد اعتماد شخص کہ جنہوں نے دعائے ندبہ کی سند کو اپنی کتاب میں ذکر کیا ہے وہ محمد بن علی بن ابی قرّہ ہیں کہ انہوں نے ”کتاب الدعاء“ میں بزوفری کی کتاب سے نقل کیا ہے ۔

علامہ تہرانی فرماتے ہیں :

”محمد بن مشہدی مزار میں اور سید ابن طاووس نے اقبال اور دوسری کتابوں میں کثرت سے ان کی کتاب سے نقل کیا ہے ۔ “(۲)

محمد بن ابی قرّہ نجاشی کے اجازہ روّاة میں شمار ہوتے ہیں ۔(۳)

قدمائے اہل رجال میں سے مرحوم نجاشی اپنی کتاب رجال میں کہتے ہیں:

”ابو الفرج ،محمد بن علی بن یعقوب بن اسحاق بن ابی قرّہ قنائی موثق تھے، کثرت سے روایات کو سنا بہت سی کتابیں تالیف کیںمنجملہ ان میں سے یہ ہے : عمل یوم الجمعہ ،عمل الشھور، معجم رجال ابی مفضل اور کتاب تھجّد کہ ان سب کی مجھے خبر دی ہے اور مجھے ان کی روایت نقل کرنے کا اجازہ دیا ہے ۔(۱)

_______________________

۱۔ الذریعہ الی تصانیف الشیعہ ،آغا بزرگ تہرانی ،ص۲۶۶۔

۲۔الذریعہ الی تصانیف الشیعہ ،آغا بزرگ تہرانی ،ص۲۶۶۔ طبقات اعلام الشیعہ، آغا بزرگ تہرانی (چوتھی صدی ہجری) ص ۲۶۶۔

۳۔ طبقات اعلام الشیعہ، آغا بزرگ تہرانی (پانچویں صدی ہجری) ص ۱۸۲۔

۳۹

نجاشی نے ان کا لقب ”قنّائی “ذکر کیا ہے ،لیکن علامہ حلّی نے انہیں کبھی ”قنّائی“ اور کبھی ”قنّابی“ سے تعبیر کیا ہے ۔(۲) اور ان کی وثاقت کو ثابت کیا ہے(۳) اور نمازی علیہ الرحمہ کہتے ہیں:

”تمام اہل رجال کا ان کی وثاقت پر اتفاق ہے ۔“(۴)

۳ ۔ محمد ابن جعفر ابن علی ابن جعفر مشہدی حائری

ابن مشہدی چھٹی صدی ہجری کے ایک جلیل القدر علماء میں شمار ہوتے تھے جو تقریباً ۵۱۰ ھئق میں پیدا ہوئے اور ۵۸۰ ھء ق سے پہلے دنیا سے رحلت کر گئے ۔

صاحب معالم نے اجازہ کبیرمیں ان کے اساتذہ کی مخصوص تعداد کو شمار کیا ہے کہ منجملہ ان میں سے یہ ہیں: ورّام(صاحب مجموعہ ورّام) ، شاذان ابن جبرئیل ،ابن زہرہ، ابن شہر آشوب وغیرہ ۔(۵)

ان کی گراں قدر کتاب بطور یادگار موجود ہے جو مزار کبیر اور مزار ابن مشہدی سے مشہور ہے خوش نصیبی سے اس کے بہت سے خطی نسخے ہمارے زمانے تک محفوظ رہے ہیں :

________________________

۱۔ رجال نجاشی ،ص۳۹۸۔

۲۔ ایضاح الاشتباہ ،حسن بن یوسف حلی (علامہ حلی)،ص۲۶۶،۲۸۷۔

۳۔ رجال(خلاصہ ) حسن بن یوسف حلی (علامہ حلی) ،ص۱۶۴۔

۴۔ مستدرکات علم رجال الحدیث ،شیخ علی نمازی ،ج۷،ص۲۵۱۔

۵۔ طبقات اعلام الشیعہ ،قرن ششم آغا بزرگ تہرانی ،ص۲۵۲۔

۴۰

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228