دعائے ندبہ کی سندی اور مضمونی اعتراضات کی تحقیق و تنقید

دعائے ندبہ کی سندی اور مضمونی اعتراضات کی تحقیق و تنقید33%

دعائے ندبہ کی سندی اور مضمونی اعتراضات کی تحقیق و تنقید مؤلف:
زمرہ جات: ادعیہ اور زیارات کی کتابیں
صفحے: 228

دعائے ندبہ کی سندی اور مضمونی اعتراضات کی تحقیق و تنقید
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 228 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 47509 / ڈاؤنلوڈ: 4688
سائز سائز سائز
دعائے ندبہ کی سندی اور مضمونی اعتراضات کی تحقیق و تنقید

دعائے ندبہ کی سندی اور مضمونی اعتراضات کی تحقیق و تنقید

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

سيكولرازم كے استدلال كا پہلا مقدمہ يہ ہے كہ اجتماعى اورسماجى روابط و تعلقات ہميشہ بدلتے رہتے ہيں_ طول تاريخ ميں انسان كے اجتماعى اور اقتصادى روابط تبديل ہوتے رہے ہيں اور اس تبديلى كا سرچشمہ علمى اور انسانى تجربات كا رشد ہے_ ديہاتى اور قبائلى معاشرہ ميں حاكم سياسى ،ثقافتى اور اقتصادى روابط ،صنعتى اور نيم صنعتى معاشرہ پر حاكم اجتماعى روابط سے بہت مختلف ہيں _ بنابريں اجتماعى زندگى كے تحول و تغير كى بناپر اجتماعى روابط ميں تبديلى ايك ايسى حقيقت ہے جس سے انكار نہيں كيا جاسكتا_

دوسرا مقدمہ يہ ہے كہ دين اور اس كى تعليمات ثابت اور غير قابل تغيير ہيں_كيونكہ دين نے ايك خاص زمانہ جو كہ اس كے ظہور كا دور تھا ميں انسان سے خطاب كيا ہے اور اس زمانے كو ديكھتے ہوئے ايك مخصوص اجتماع كےحالات اور خاص ماحول كے تحت اس سے سروكار ركھاہے_ دين اور شريعت ايسى حقيقت نہيں ہے جو قابل تكرار ہو_ اسلام نے ايك خاص زمانہ ميں ظہور كيا ہے اور اس طرح نہيں ہے كہ سماجى تحولات كے ساتھ ساتھ وحى الہى بھى بدل جائے اور اسلام بھى نيا آجائے _ دين ايك امر ثابت ہے اور سماجى تحولات كے ساتھ اس ميں جدّت پيدا نہيں ہو تى اور اس كے اصول و ضوابط اور تعليمات نئے نہيں ہوجاتے _ ان دو مقدموں كانتيجہ يہ ہے كہ ايك امر ثابت، امر متغير پر قابل انطباق نہيں ہے _ دين جو كہ امر ثابت ہے ہر زمانے كے مختلف اجتماعى اور سماجى روابط كو منظم نہيں كرسكتا_ صرف اُن معاشروں ميں شريعت كا نفاذ مشكل سے دوچار نہيں ہوتا جو اس كے ظہوركے قريب ہوں كيونكہ اس وقت تك ان معاشروں كے اجتماعى روابط ميں كوئي بنيادى تبديلى نہيں ہوئي تھى _ ليكن ان معاشروں ميں شريعت كا نفاذ مشكل ہوتاہے، جن كے اجتماعى مسائل نزول وحى كے زمانہ سے مختلف ہيںپس شريعت كے نفاذ كے غير ممكن ہونے كا نتيجہ يہ ہے كہ سياسى اور اجتماعى امور ميں دين كى حاكميت اور دينى حكومت كى تشكيل كى ضرورت نہيں ہے_

۶۱

اس پہلي دليل كا جواب

اس استدلال اور اس كے دو اساسى مقدموں پر درج ذيل اشكالات ہيں _

۱_ اجتماعى امور اور روابط ميں تبديليوں كا رونما ہونا ايك حقيقت ہے ليكن يہ سب تبديلياںايك جيسى نہيں ہيں اور ان ميں سے بعض شريعت كے نفاذ ميں ركاوٹ نہيں بنتيں _ اس نكتہ كو صحيح طور پر سمجھ لينا چاہيے كہ تمام اجتماعى تغيرات اساسى اور بنيادى نہيں ہيں بلكہ بعض اجتماعى تبديلياں صرف ظاہرى شكل و صورت كے لحاظ سے ہوتى ہيں بايں معنى كہ گذشتہ دور ميں معاشرے ميں لوگوں كے درميان اقتصادى روابط تھے آج بھى ويسے ہى اقتصادى روابط موجود ہيں ليكن ايك نئي شكل ميں نہ كہ نئے روابط نے ان كى جگہ لى ہے_ مختلف اجتماعى روابط ميں شكل و صورت كى يہ تبديلى قابل تصور ہے_ مثلاًتمام معاشروں ميں اقتصادى و تجارتى تعلقات; خريد و فروخت، اجارہ ، صلح اور شراكت جيسے روابط اور معاملات كى صورت ميں موجود رہے ہيں اور آج بھى موجود ہيں _زمانہ كے گزرنے كے ساتھ ساتھ ان كى شكل و صورت ميں تبديلى آجاتى ہے ليكن ان معاملات كى اصل حقيقت نہيں بدلتي_ اگر ماضى ميں خريد و فروخت ،اجارہ اور شراكت كى چند محدود صورتيںتھيں ، تو آج انكى بہت سارى قسميں وجود ميں آچكى ہيں _ مثلاً ماضى ميں حصص كاكا روبار كرنے والي(۱) اور مشتركہ سرمايہ كى(۲) بڑى بڑى كمپنياں نہيں تھيں_ اسلام نے ان معاملات كى اصل حقيقتكے احكام مقرر كر ديئے ہيں _ تجارت ، شراكت اور اجارہ كے متعلق صدر اسلام كے فقہى احكام ان تمام نئي صورتوں اور قسموں كے ساتھ مطابقت ركھتے ہيں كيونكہ يہ احكام اصل حقيقت كے متعلق ہيں نہ كہ ان كى كسى مخصوص شكل و صورت كے متعلق_ لہذا اب بھى باقى ہيں _

____________________

۱) Exchange. Stock

۲) jointstock companis

۶۲

اسى طرح اسلام نے بعض اقتصادى معاملات كو ناجائز قرار ديا ہے _ آج اگر وہ نئي شكل ميں آجائيں تب بھى اسلام كيلئے ناقابل قبول ہيں اور اس نئي شكل پر بھى اسلام كا وہى پہلے والا حكم لاگو ہوتا ہے _ مثلاً سودى معاملات اسلام ميں حرام ہيں _ آج نئے طرز كے سودى معاملات موجود ہيں جو ماضيميں نہيں تھے _ اگر تجزيہ و تحليل كرتے وقت مجتہد كو معلوم ہوجائے كہ يہ سودى معاملہ ہے تو وہ اس كى حرمت اور بطلان كا حكم لگا دے گا _ بنابريں اس نئے مورد ميں بھى سود والا حكم لگانے ميں كوئي دشوارى نہيں ہوگى _ لہذا اقتصادى روابط و معاملات ميں تغير و تبدل شرعى احكام كے منطبق ہونے ميں ركاوٹ نہيں بنتا _

۲_ بعض اجتماعى تحولات، ايسے مسائل كو جنم ديتے ہيں جوحقيقت اور شكل و صورت كے لحاظ سے بالكل نئے ہوتے ہيں كہ جنہيں ''مسائل مستحدثہ'' كہتے ہيں اس قسم كے مسائل كا حل بھى شريعت كے پاس موجود ہے_ پس سيكولرازم كے استدلال كا دوسرا مقدمہ كہ'' دين ثابت ہے اور تغير پذير اشياء پر منطبق ہونے كى صلاحيت نہيں ركھتا'' درست نہيں ہے كيونكہ دين اگر چہ ثابت ہے اور معاشرتى تحولات كے ساتھ ساتھ تبديل نہيں ہوتا ليكن اس كے باوجود دين مبين اسلام ميں ايسے قوانين و اصول موجود ہيں جن كى وجہ سے فقہ اسلامى ہر زمانہ كے مسائل مستحدثہ (نئے مسائل ) پر منطبق ہونے اور ان كو حل كرنے كى قدرت و صلاحيت ركھتى ہے اور اس ميں اسے كوئي مشكل پيش نہيں آتى _ ان ميں سے بعض اصول و قوانين يہ ہيں_

الف_ اسلامى فقہ خصوصاً فقہ اہلبيت ميں اجتہاد كا دروازہ كھلا ہے بايں معنى كہ فقيہ اور مجتہد كا كام صرف يہ نہيں ہے كہ فقہى منابع ميں موجود مسائل كے احكام كا استنباط كرے بلكہ وہ فقہى اصول و مبانى كو مد نظر ركھتے ہوئے جديد مسائل كے احكام كے استخراج كيلئے بھى كوشش كرسكتا ہے _

ب_ شرط كى مشروعيت اور اس كى پابندى كا لازمى ہونا فقہ كے بعض شرائط اور جديد مسائل كے ساتھ

۶۳

مطابقت كى راہ ہموار كرتا ہے كيونكہ بہت سے نئے عقلائي معاملات كو ''شرط اور اس كى پابندى كے لزوم'' كے عنوان سے جواز بخشا جاسكتاہے _ مثلاً عالمى تجارت كے قوانين ،دريائي اور بحرى قوانين، قوانين حق ايجاد ، فضائي راستوںاور خلائي حدود كے قوانين سب نئے امور اور مسائل ہيں كہ جن كے متعلق اسلامى فقہ ميں واضح احكام موجود نہيں ہيں _ ليكن اسلامى نظام ان ميں سے جن ميں مصلحت سمجھتاہے ان كو بين الاقوامى يا بعض انفرادى معاملات كے ضمن ميں قبول كرسكتاہے اور لوگوں كو ان كى پابندى كرنے اور ان سے فائدہ اٹھانے كيلئے راہنمائي كرسكتا ہے _

ج_ مصلحت كے پيش نظر جامع الشرائط ولى فقيہ كا حكم حكومتى زمانہ كے تقاضوں كے ساتھ فقہ كى مطابقت كے اہم ترين اسباب ميں سے ہے _نئے امور كہ جن كے متعلق مخصوص فقہى حكم موجود نہيں ہے ميں ولى فقيہ حكومتى حكم كے تحت ان كى شرعى حيثيت كا تعين كرسكتا ہے_

مختصر يہ كہ:

اولاً: تو تمام اجتماعى تبديلياں ايسى نہيں ہيں جو نئے شرعى جواب كا مطالبہ كريں اور نفاذ شريعت ميں دين كا ثبات اور استحكام ركاوٹ پيدا كرے كيونكہ صرف شكل وصورت بدلى ہے لہذا شريعت كا حكم آسانى سے اس پر منطبق ہوسكتا ہے _

ثانياً: اگر اجتماعى تحولات كى وجہ سے بالكل نئے مسائل پيدا ہوجائيں تب بھى اسلامى فقہ ميں ايسے اسباب وا صول موجود ہيں جن كى وجہ سے شريعت ان نئے مسائل كيلئے بھى جواب گو ہوسكتى ہے _ بنابريں '' ثبات دين'' كا معنى يہ نہيں ہے كہ دين كا جديد مسائل پر منطبق ہونا ممكن نہيں ہے _ بلكہ دين ثابت ميں ايسےعناصرموجود ہيں كہ جن كى بناپر دين جديد تبديليوںاور مسائل كے قدم بہ قدم چل سكتا ہے _

۶۴

خلاصہ :

۱)'' سيكولرازم'' دينى حكومت كو تطبيق اور نفاذ شريعت كى مشكل سے دوچا ر سمجھتاہے _

۲) دينى حكومت كى مخالفت كے سلسلہ ميں ''سيكولرازم'' كى مشہور دليل يہ ہے كہ فقہ اپنے ثبات كى وجہ سے اجتماعى تحولات پر منطبق نہيں ہوسكتى _

۳)''سيكولرازم'' كے استدلال كا بنيادى نكتہ يہ ہے كہ دين ثابت ہے اور اجتماعى روابط تبديل ہوتے رہتے ہيں اور ثابت چيز متغيّر شےء پر منطبق نہيں ہو سكتى پس دين معاشرے ميں قابل اجرا نہيں ہے _

۴) حقيقت يہ ہے كہ اجتماعى تغيرات ايك جيسے نہيں ہيں _

۵) اجتماعى معاملات كى شكل و صورت ميں تبديلى نفاد شريعت ميں مشكل پيدا نہيں كرتى _

۶) اگر چہ بعض تبديلياں بالكل نئي ہيں ليكن شريعت ميں ان كيلئے راہ حل موجود ہے _

۷) دين اگر چہ ثابت ہے ليكن اس ميں مختلف حالات كے ساتھ سازگار ہونے كے اسباب فراہم ہيں_

۶۵

سوالات :

۱) دينى حكومت كى نفى پر ''سيكولرازم'' كى پہلى دليل بيان كيجيئے _

۲) دو قسم كے اجتماعى تغيرات كى مختصر وضاحت كيجيئے _

۳) كس قسم كے اجتماعى تغيرات ميں شريعت كا اجرازيادہ مشكل ہے ؟

۴)''سيكولرازم'' كے پہلے استدلال كا اختصار كيساتھ جواب بيان كيجئے_

۵) جديد مسائل پر اسلامى فقہ كو قابل انطباق بنانے والے عناصر كى چند مثاليں پيش كيجئے_

۶۶

آٹھواں سبق :

دينى حكومت كى مخالفت ميں سيكولرازم كى ادلّہ -۲-

دوسرى دليل :

سيكولرازم كى پہلى دليل اس زاويہ نگاہ سے بيان كى گئي تھى كہ اجتماعى معاملات اور مسائل ہميشہ بدلتے رہتے ہيں جبكہ دين و شريعت ثابت ہے لہذا فقہ ان معاملات اور مسائل كا جواب دينے سے قاصر ہے _ سياست اور اجتماع كے متعلق فقہ كى ناتوانى پر سيكولرازم كى دوسرى دليل درج ذيل مقدمات پر مشتمل ہے _

۱_ فقہ كے سياسى اہداف ميں سے ايك معاشرتى مشكلات كا حل اور انسان كى دنيوى زندگى كے مختلف پہلوؤں كى تدبير كرنا ہے غير عبادى معاملات مثلاً ارث ، وصيت، تجارت ، حدود اور ديات ميں واضح طور پريہ ہدف قابل فہم ہے _ مثال كے طور پر معاشرتى برائيوں كو روكنے كيلئے حدود و ديات كا باب اور معاشرہ كى اقتصادى مشكلات كے حل كيلئے مختلف تجارتى اور معاملاتى ابواب كارسازہيں _

۲_ گذشتہ ادوار ميں اجتماعى روابط بہت ہى سادہ اور لوگوں كى ضروريات نہايت كم اور غير پيچيدہ تھيں _ فقہ آسانى سے ان اہداف سے عہدہ برا ہو سكتى تھى اور انسان كى اجتماعى ضروريات كو پورا كرنے كى صلاحيت

۶۷

ركھتى تھى بنابريں فقہ اور فقہى نظارت صرف اس معاشرہ كے ساتھ ہم آہنگ ہوسكتى ہے جو نہايت سادہ اور مختصرہو_

۳_ آج معاشرہ اور اجتماعى زندگى مخصوص پيچيدگيوں كى حامل ہے لہذا اس كى مشكلات كے حل كيلئے علمى منصوبہ بندى(۱) كى ضرورت ہے اور موجودہ دور كى مشكلات كو فقہ اپنى سابقہ قد و قامت كيساتھ حل كرنے سے قاصر ہے كيونكہ فقہ بنيادى طور پر منصوبہ بندى كے فن كو نہيں كہتے بلكہ فقہ كا كام احكام شريعت كو بيان كرنا ہے فقہ صرف قانونى مشكلات كو حل كرسكتى ہے جبكہ موجودہ دور كى تمام مشكلات قانونى نہيں ہيں _

ان مقدمات كا نتيجہ يہ ہے كہ فقہ موجودہ معاشروں كو چلانے سے قاصر ہے كيونكہ فقہ صرف قانونى مشكلات كا حل پيش كرتى ہے جبكہ موجود معاشرتى نظام كو ماہرانہ اور فنى منصوبہ بندى كى ضرورت ہے _ لہذا آج كى ماہرانہ علمى اورسائنٹيفك منصوبہ بنديوں كے ہوتے ہوئے فقہى نظارت كى ضرورت نہيں ہے _

اس دوسرى دليل كاجواب:

مذكورہ دليل ''دينى حكومت'' اور'' اجتماعى زندگى ميں فقہ كى دخالت ''كى صحيح شناخت نہ ہونے كا نتيجہہے _ اس دليل ميں درج ذيل كمزورنكات پائے جاتے ہيں _

۱_ اس دليل كے غلط ہونے كى ايك وجہ فقہى نظارت اور علمى و عقلى نظارت(۲) كے در ميان تضاد قائم كرنا ہے _گويا ان دونوں كے درميان كسى قسم كا توافق اور مطابقت نہيں ہے _ اس قسم كے تصور كا سرچشمہ عقل اور دين كے تعلق كا واضح نہ ہونا اوردينى حكومت اور اس ميں فقہ كے كردار كے صحيح تصور كا فقدان ہے_ اسى ابہام كى وجہ سے سيكولرازم نے يہ سمجھ ليا ہے كہ معاشرے كى تمام تر زمام نظارت يا تو فقہ كے ہاتھ ميں ہو اور تمام تر

____________________

۱) scientific management

۶۸

اجتماعى و سماجى مشكلات كا حل فقہ كے پاس ہو اور علم و عقل كى اس ميں كسى قسم كى دخالت نہ ہو يا فقہ بالكل ايك طرف ہوجائے اور تمام تر نظارت علم و عقل كے پاس ہو_

اس تضاد كى كوئي بنياد اور اساس نہيں ہے دينى حكومت اور سيكولر حكومت ميں يہ فرق نہيں ہے كہ دينى حكومت عقل ، علم اور انسانى تجربات كو بالكل ناديدہ سمجھتى ہے اور معاشرے كے انتظامى امور ميں صرففقہى احكام پر بھروسہ كرتى ہے جبكہ سيكولر حكومت معاشرتى امور ميں مكمل طور پر عقل و علم پر انحصار كرتى ہے _اس قسم كى تقسيم بندى اور فرق كاملاً غير عادلانہ اور غير واقعى ہے_دينى حكومت بھى عقل و فہم اور تدبيرومنصوبہ بندى سے كام ليتى ہے_ دينى حكومت اور سيكولر حكومت ميں فرق يہ ہے كہ دينى حكومت ميں عقل اور منصوبہ بندى كو بالكل بے مہار نہيں چھوڑ اگيا بلكہ عقل دينى تعليمات كے ساتھ ہم آہنگ ہوتى ہے اور دينى حكومت عقل سے بے بہرہ نہيں ہے_ بلكہ اسے وہ عقل چاہيے جو شريعت كے رنگ ميں رنگى ہو اور دينى حكومت ميں نظارت اور عقلى منصوبہ بندى كيلئے ضرورى ہے كہ وہ دينى تعليمات سے آراستہ ہوں اور اسلامى حدودكو مد نظر ركھتے ہوئے معاشرتى امور كو چلائے _ سيكولر حكومت ميںعقلى نظارت ،بے مہار اور دين سے لا تعلق ہوتى ہے _ ايسى عقلينظارت دين سے كوئي مطابقت نہيں ركھتى _

۲_ دينى حكومت ميں دين كى حاكميت اور اسلامى احكام كى رعايت كا يہ معنى نہيں ہے كہ حكومت كے تمام كام مثلاً قانون گذارى ، فيصلے اور منصوبہ بندى جيسے امور بلاواسطہ'' فقہ سے ماخوذ'' ہوں _ دينى حكومت كى اساس اس پر نہيں ہے كہ معاشيات كى جزوى تدابير، بڑے بڑے سياسى اور اقتصادى منصوبے اور اجتماعى پيچيدگيوں كا حل عقل و علم كى دخالت اور مددكے بغير براہ راست فقہ سے اخذ كيا جائے_ يہ بات نا ممكن ہے اور دين نے بھى اس قسم كا كوئي دعوى نہيں كيا _ نہ ماضى ميں اور نہ حال ميں كبھى بھى فقہ تمام مشكلات كا حل نہيں

۶۹

رہى بلكہ ماضى ميں بھى جو مشكلات سيكولر افراد كى نظر ميں صرف فقہ نے حل كى ہيں در حقيقت ان ميں عقل اور انسانى تجربات بھى كار فرما رہے ہيں_ آنحضرت (ص) ،اميرالمؤمنيناور صدر اسلام كے دوسرے خلفاء نے اسلامى معاشرے كے انتظامى امور ميں جس طرح فقہ سے مدد لى ہے اسى طرح عقلى چارہ جوئي، عرفى تدابير اور دوسروں كے مشوروں سے بھى فائدہ اٹھايا ہے _ ايسا ہرگز نہيں ہے كہ فقہ تمام اجتماعى مسائل اور مشكلات كا حل رہى ہو اور اس نے عقل و تدبيركى جگہ بھى لے لى ہو _ پس جس طرح ماضى ميں دينى حكومت نے فقہ اور عقل و عقلى تدابير كو ساتھ ساتھ ركھا ہے اسى طرح آج بھى دينى حكومت ان دونوں كو ساتھ ساتھ ركھ سكتى ہے _ سيكولر حضرات كو يہ غلط فہمى ہے كہ ماضى ميں دينى حكومت صرف فقہ كى محتاج تھى اور آج چونكہ دنيا كو اجتماعى اورناقابل انكار منصوبہ بندى كى ضرورت ہے لہذا دينى حكومت جو كہ صرف فقہى نظارت پر مشتمل ہوتى ہے معاشرتى نظام كو چلانے سے قاصر ہے_

۳_ اجتماعى زندگى ميں فقہ كے دو كام ہيں_ ايك : مختلف پہلوؤں سے قانونى روابط كو منظم كرنا اور ان كى حدود متعين كرنا_ دوسرا : ثقافت ، معيشت اور داخلى و خارجى سياست كے كلى اصول و ضوابط مشخص كرنا_دينى حكومت كا فقہ پر انحصار يا فقہى نظارت كا مطلب يہ ہے كہ وہ حكمراني، خدمتگزاري،كا ركردگى اور قوانين بنانے ميں ان قانونى حدود كا بھى خيال ركھے اور ان اصول و قوانين كے اجرا اور اپنے اہداف كے حصول كيلئے عملى منصوبہ بندى بھى كرے_ فقہى نظارت كا معنى يہ نہيں ہے كہ فقہ صرف افراط زر ، بے روزگارى اور ٹريفك كى مشكلات كو حل كرے بلكہ فقہى نظارت كا معنى يہ ہے كہ اسلامى معاشرے كے حكمران اور منتظمين اقتصادى اور سماجى مشكلات كو حل اوران كى منصوبہ بندى كرتے وقت شرعى حدود كى رعايت كريں _ اور ايسے قوانين كا اجرا كريں جو فقہى موازين كے ساتھ سب سے زيادہ مطابقت ركھتے ہوں _ لہذا دليل كے تيسرے حصّے ميں جو يہ

۷۰

كہا گيا ہے كہ فقہ صرف قانونى پہلو ركھتى ہے اور تمام معاشرتى مسائل قانونى نہيں ہيں وہ اس نكتے پر توجہ نہ دينے كى وجہ سے كہا گيا ہے _ اگرچہ تمام معاشرتى مسائل قانونى نہيں ہيں ليكن ايك دينى معاشرے ميں ان مشكلات اور جديد مسائل كے حل كا طريقہ بہت اہميت ركھتا ہے_ ايك اجتماعى مشكل كے حل كے مختلف طريقوں ميں سے وہ طريقہ اختيار كيا جائے جس ميں اسلامى احكام كى زيادہ رعايت كى گئي ہو اورجو اسلامى اصولوں سے زيادہ مطابقت ركھتا ہو _ پس كسى اجتماعى مشكل كے قانونى نہ ہونے كا مطلب يہ نہيں ہے كہ اس كے حل كيلئے اسلامى احكام كو بالكل نظر انداز كرديا جائے_

يہ دو دليليں جو ان دو سبقوںميں بيان كى گئي ہيں ''سياست اور معاشرتى نظارت ميں دين كى عدم دخالت '' پر سيكولر حضرات كى اہم اور مشہورترين ادلّہ ميں سے ہيں _باقى ادلّہ اتنى اہم نہيں ہيں لہذا انہيں ذكر نہيں كرتے اورانہيں دو پر اكتفاء كرتے ہيں _

۷۱

خلاصہ :

۱) فقہ كے اہداف ميں سے ايك انسانى معاشرے كى اجتماعى مشكلات كو حل كرنا ہے _

۲)سيكولر حضرات كا خيال ہے كہ ماضى ميں ان مشكلات كے حل كرنے ميں اسلامى فقہ كامياب رہى ہے ليكن موجودہ جديد دور ميں وہ اس كى صلاحيت نہيں ركھتي_

۳) موجودہ دور، خاص قسم كى پيچيدگيوں اور مسائل كا حامل ہے پس اس كى تمام مشكلات فقہ سے حل نہيں ہو سكتيں لہذا ان كے حل كيلئے علمى نظارت اور منصوبہ بندى كى ضرورت ہے _

۴) سيكولر حضرات كا خيال ہے كہ علمى و عقلى نظارت، فقہى نظارت كى جانشين بن چكى ہے_

۵) سيكولر حضرات كى نظر ميں فقہ صرف قانونى مشكلات كو بر طرف كرتى ہے جبكہ موجودہ دور كى مشكلات صرف قانونى نہيں ہيں_

۶) سيكولر حضرات كو فقہى نظارت اور علمى نظارت كے درميان تضاد قرار دينے ميں غلط فہمى ہوئي ہے _

۷) دينى حكومت اور فقہى نظارت نے ماضى سے ليكر آج تك عقل سے فائدہ اٹھايا ہے _

۸) امور حكومت ميں فقہ كو بروئے كار لانا ،عقل سے مدد حاصل كرنے كے منافى نہيں ہے _

۹)دينى حكومت ميں اجتماعى مشكلات كے حل ، منصوبہ بندى اور نظارت ميں فقہى موازين اور دينى اقدار كى رعايت كرنا ضرورى ہے _

۷۲

سوالات :

۱) سيكولرحضرات اجتماعى اور سماجى مشكلات كے حل كرنے ميں فقہ كى توانائي اور صلاحيت كے بارے ميں كيا نظريہ ركھتے ہيں؟

۲) دينى حكومت كى نفى پر سيكولر حضرات كى دوسرى دليل كو مختصر طور پربيان كيجئے ؟

۳) سيكولر حضرات كى نظر ميں موجودہ دور كيلئے كس قسم كى نظارت كى ضرورت ہے ؟

۴) كيا علمى نظارت اور فقہى نظارت ميں تضادہے ؟

۵) اجتماعى زندگى ميں فقہ كا دائرہ كاركيا ہے ؟

۶) ''معاشرے كى نظارت ميں دين كى حاكميت ''سے كيا مراد ہے ؟

۷۳

دوسرا باب :

اسلام اور حكومت

سبق نمبر ۹،۱۰ : آنحضرت (ص) اور تاسيس حكومت

سبق نمبر ۱۱ : آنحضرت (ص) كے بعد سياسى ولايت

سبق نمبر ۱۲ : شيعوں كا سياسى تفكر

سبق نمبر ۱۳، ۱۴ : سياسى ولايت كى تعيين ميں بيعت اور شورى كا كردار

۷۴

تمہيد :

گذشتہ باب ميں ہم نے كہا تھا كہ دينى حكومت كا معنى '' حكومتى امور ميں دينى تعليمات كى دخالت اور مختلف سياسى امور ميں دين كى حاكميت كو قبول كرناہے'' _ دينى حكومت كے مخالفين كى ادلّہ پر ايك نگاہ ڈالتے ہوئے ہم يہ ثابت كرچكے ہيں كہ اجتماعى و معاشرتى امور ميں دين كى حاكميت اور دينى حكومت كى تشكيل ميں كوئي ركاوٹ نہيں ہے _

اس باب ميں اس نكتہ كى تحقيق كى جائے گى كہ كيا اسلام مسلمانوں كو دينى حكومت كى تشكيل كى دعوت ديتا ہے يانہيں ؟ اور حكومت كى تشكيل، اس كے اہداف و مقاصد اور اس كے فرائض كے متعلق اس كا كوئي خاص نظريہ ہے يا نہيں ؟ دوسرے لفظوں ميں كيا اسلام نے دين اور حكومت كى تركيب كا فتوى ديا ہے ؟ اور كوئي خاص سياسى نظريہ پيش كيا ہے ؟

واضح سى بات ہے كہ اس تحقيق ميں دينى حكومت كے منكرين كى پہلى قسم كى آراء اور نظريات جو كہ گذشتہ باب ميں بيان ہوچكے ہيں پر تنقيد كى جائے گى _ يہ افراد اس بات كا انكار نہيں كرتے كہ معاشرے اور سياست ميں دين كى دخالت ممكن ہے _ اسى طرح اس كے بھى قائل ہيں كہ اجتماعى امور ميں دين كى حاكميت ميں كوئي ركاوٹ نہيں ہے بلكہ ان كا كہناہے كہ'' اسلام ميں ايسا ہوانہيں '' _ يعنى ان كى نظر ميں اسلام نے حكومت كى تشكيل ، اس كى كيفيت اور حكومتى ڈھانچہ جيسے امور خود مسلمانوں كے سپرد كئے ہيں اور خود ان كے متعلق كسى قسم كا اظہار رائے نہيں كيا _

۷۵

نواں سبق:

آنحضرت (ص) اور تاسيس حكومت -۱-

كيا اسلام نے دينى حكومت كى دعوت دى ہے؟ كيا مختلف سياسى اور حكومتى امور ميں اپنى تعليماتپيش كى ہيں ؟ اس قسم كے سوالات كے جواب ہميں صدر اسلام اور آنحضرت (ص) كى مدنى زندگى كى طرف متوجہ كرتے ہيں_

آنحضرت (ص) نے اپنى زندگى كے جو آخرى دس سال مدينہ ميں گزارے تھے اس وقت امت مسلمہ كى قيادت اور رہبرى آپ كے ہاتھ ميں تھى _سوال يہ ہے كہ يہ قيادت اور رہبرى كيا مسلمانوں پر حكومت كے عنوان سے تھي؟ يااصلاً آ پ (ص) نے حكومت تشكيل نہيں دى تھى بلكہيہ رہبرى و قيادت صرف مذہبى اور معنوى عنوان سے تھى ؟

گذشتہ زمانے كے تمام مسلمانوں اور موجودہ دور كے اسلامى مفكرين كى اكثريت معتقدہے كہ تاريخى شواہد بتاتے ہيں كہ اس وقت آنحضرت (ص) نے ايك اسلامى حكومت تشكيل دى تھى جس كا دارالحكومت مدينہ تھا _ اس مشہور نظريہ كے مقابلہ ميں قرن اخير ميں مسلمان مصنفينكى ايك قليل تعداد يہ كہتى ہےكہ پيغمبر

۷۶

اكرم (ص) صرف دينى رہبر تھے اور انہوں نے كوئي حكومت تشكيل نہيں دى تھى _

آنحضرت (ص) كى قيادت كے سلسلہ ميں دو بنيادى بحثيں ہيں :

الف_ كيا آپ (ص) نے حكومت تشكيل دى تھى ؟

ب_ بنابر فرض تشكيل حكومت كيا آنحضر ت (ص) كى يہ رياست اور ولايت ،وحى اور دينى تعليمات كى رو سے تھى يا ايك معاشرتى ضرورت تھى اور لوگوں نے اپنى مرضى سے آپ(ص) كو اپنا سياسى ليڈر منتخب كر ليا تھا؟ پہلے ہم پہلے سوال كى تحقيق كريں گے اور ان افراد كى ادلّہ پر بحث كريں گے جو كہتے ہيں : آنحضرت (ص) نے حكومت تشكيل نہيں دى تھى _

حكومت كے بغير رسالت

مصرى مصنف على عبدالرازق اس نظريہ كا دفاع كرتے ہيں كہ آنحضرت (ص) كى قيادت ورہبرى صرف مذہبى عنوان سے تھى اور اس قيادت كا سرچشمہ آپ كى نبوت اور رسالت تھى اسى وجہ سے آپ كى رحلت كے بعد اس قيادت كا خاتمہ ہوگيا _ اور يہ امر جانشينى اور نيابت كے قابل نہيں تھا _ آنحضرت (ص) كى رحلت كے بعد خلفاء نے جو قيادت كى وہ آنحضرت (ص) والى رہبرى نہيں تھى بلكہ خلفاء كى قيادت سياسى تھى اور اپنى اس سياسى حكومت كى تقويت كيلئے خلفاء نے آنحضرت (ص) كى دينى دعوت سے فائدہ اٹھايا_ اس نئي حكومت كے اہلكاروں نے خود كو خليفہ رسول كہلوايا جس كى وجہ سے يہ سمجھ ليا گيا كہ ان كى رہبرى رسول اكرم (ص) كى قيادت كى جانشينى كے طور پر تھى حالانكہ آنحضرت (ص) صرف دينى قيادت كے حامل تھے اور يہ قيادت قابل انتقال نہيں ہے_ پيغمبر اكرم (ص) سياسى قيادت كے حامل نہيں تھے كہ خلفا آپ كے جانشين بن سكتے(۱) _

____________________

۱) ''الاسلام و اصول الحكم ''على عبدالرازق صفحہ ۹۰، ۹۴_

۷۷

عبدالرازق نے اپنے مدعا كے اثبات كيلئے دو دليلوں كا سہارا ليا ہے _

الف _ پہلى دليل ميں انہوں نے بعض قرآنى آيات پيش كى ہيں ان آيات ميں شان پيغمبر (ص) كو رسالت ، بشير اور نذير ہونے ميں منحصر قرار ديا گيا ہے _ ان كے عقيدہ كے مطابق ''اگر آنحضرت (ص) رسالت اور نبوت كے علاوہ بھى كسى منصب كے حامل ہوتے يعنى حكومت اور ولايت كے منصب پر بھى فائز ہوتے تو كبھى بھى ان آيات ميں ان كى شان كو نبوت ، بشير اور نذير ہونے ميں منحصر نہ كيا جاتا''(۱)

ان ميں سے بعض آيات يہ ہيں_

( ''ان ا نا الّا نذيرو بشير '' ) (۲)

ميں تو صرف ڈرانے اور بشارت دينے والا ہوں _

( ''وَ مَا على الرسول الّا البلاغ المبين '' ) (۳)

اور رسول كے ذمہ واضح تبليغ كے سوا كچھ بھى نہيں ہے _

( ''قل انّما ا نا بشر مثلكم يُوحى الي'' ) (۴)

كہہ ديجيئے ميں تمھارے جيسا بشر ہوں مگر ميرى طرف وحى آتى ہے_

( ''انّما ا نت منذر'' ) (۵)

يقيناً تو صرف ڈرانے والا ہے _

____________________

۱) ''الاسلام و اصول الحكم ''على عبد الرازق صفحہ ۷۳_

۲) سورہ اعراف آيت۱۸۸_

۳) سورہ نور آيت ۵۴_

۴) سورہ كہف آيت۱۱۰_

۵) سورہ رعد آيت ۷_

۷۸

'' ( فان ا عرضوا فما ا رسلناك عليهم حفيظاً ان عليك الا البلاغ'' ) (۱)

اگر يہ روگردانى كريں تو ہم نے آپ كو ان كا نگہبان بنا كر نہيں بھيجا ہے _ آپ كا فرض صرف پيغام پہنچا دينا ہے_

ب_ آنحضرت (ص) نے حكومت تشكيل نہيں دى تھى _ عبدالرازق اس كى دوسرى دليل يہ ديتے ہيں كہ آج كل ہر حكومت بہت سے شعبوں اور اداروں پر مشتمل ہوتى ہيں _ ضرورى نہيں ہے كہ گذشتہ دور كى حكومتيں بھى اسى طرح وسيع تر اداروں پر مشتمل ہوں ليكن جہاں بھى حكومت تشكيل پاتى ہے كم از كم كچھ سركارى محكموں مثلاً انتظاميہ ،داخلى و خارجى اور مالى امور سے متعلقہ اداروںو غيرہ پر مشتمل ہوتى ہے_ يہ وہ كمترين چيز ہے جس كى ہر حكومت كو احتياج ہوتى ہے ليكن اگر ہم آنحضرت (ص) كے دور فرمانروائي كى طرف ديكھيں تو كسى قسم كے انتظامى اداروں كا نشان نہيں ملتا _ يعنى آنحضر ت (ص) كى حاكميت ميں ايسے كمترين انتظامى ادارے بھى مفقود ہيں جو ايك حكومت كيلئے ضرورى ہوتے ہيں_

ممكن ہے ذہن ميں يہ خيال آئے كہ چونكہ آنحضرت (ص) ايك سادہ زندگى بسر كرتے تھے لہذا انہوں نے اپنى حكومت كے دوران اس قسم كے اداروں كے قائم كرنے كى ضرورت محسوس نہيں كى ليكن عبدالرازق كے نزديك يہ احتمال صحيح نہيں ہے كيونكہ اس قسم كے ادارے ايك حكومت كيلئے ناگزير ہيں اور سادہ زندگى كے منافى بھى نہيں ہيں _ لہذا ان امور اور اداروں كا نہ ہونا اس بات كى دليل ہے كہ آنحضر ت (ص) نے حكومت تشكيل نہيں دى تھى اور يہ كہ اسلام صرف ايك دين ہے اور رسالت پيغمبر اكرم (ص) دينى حكومت كے قيام كو شامل نہيں تھي_(۲)

____________________

۱) سورہ شورى آيت ۴۸_

۲) الاسلام و اصول الحكم صفحہ ۶۲_ ۶۴_

۷۹

پہلى دليل كا جواب

قرآن مجيد كى طرف رجوع كرنے سے يہ بات واضح ہوجاتى ہے كہ آنحضرت (ص) كے مناصب اور ذمہ دارياں پيام الہى كے ابلاغ اور لوگوں كو ڈرانے ميں منحصر نہيں تھے بلكہ قرآن كريم نے كفار اور منافقين كے ساتھ جہاد، مشركين كے ساتھ جنگ كيلئے مومنين كى تشويق ، عدالتى فيصلے اور معارف الہى كے بيان جيسے امور كو بھى آنحضرت (ص) كى ذمہ دارى قرار ديا ہے_

اور يہ امور پيام الہى كے ابلاغ اور لوگوں كو ڈرانے جيسے امور كے علاوہ ہيں _ ان ميں سے ہر منصب كيلئے ہم بطور دليل ايك آيت پيش كرتے ہيں_

''( يا ايها النبى جاهد الكفار و المنافقين و اغلظ عليهم ) ''(۱)

اے پيغمبر (ص) آپ كفار اور منافقين سے جہاد كريں اور ان پر سختى كريں_

''( يا ايها النبى حرّض المومنين على القتال ) ''(۲)

اے پيغمبر مومنين كو جہاد پر آمادہ كريں_

''( وما كان لمومن و لا مومنة اذا قضى الله و رسوله امراً ان يكون لهم الخيرة من امرهم ) ''(۳)

كسى مومن مرد يا عورت كو اختيار نہيں ہے كہ جب خدا اور اس كا رسول كسى امر كے بارے ميں فيصلہ كريں تو وہ بھى اپنے امر كے بارے ميں صاحب اختيار بن جائے_

____________________

۱) سورہ تحريم آيت ۹_

۲) سورہ انفال آيت ۶۵_

۳) سورہ احزاب آيت۳۶_

۸۰

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

۱۴ ۔ ابو نعیم اصفہانی (متوفی ۴۳۰ ھئق) جابر ابن عبد اللہ انصاری سے روایت کرتے ہیں کہ:

”ایک اعرابی پیغمبر اکرم کی خدمت میں شرف یاب ہوا اور عرض کیا:” یا محمد! مجھے اسلام بتائیں“ فرمایا: گواہی دیتے ہو کہ سوائے خدائے وحدہ لاشریک کے کوئی معبود نہیں ہے اور محمد اس کے بندے اور رسول ہیں“ اس نے دریافت کیا:”تبلیغ رسالت کے مقابل میں آپ مجھ سے کون سا اجر چاہتے ہیں؟“ فرمایا: ”کوئی اجر نہیں چاہتا سوائے اس کے کہ قرابت داروں سے مودت و محبت کرو“ اس اعرابی نے سوال کیا:” اپنے قرابت داروں سے ،یاآپ کے قرابت داروں سے ؟“ فرمایا: میرے قرابت داروںسے “۔

اعرابی نے کہا:” اپنا ہاتھ مجھے دیجیے میں بیعت کروں گا ،جو شخص آپ کو اور آپ کے قرابت داروں کو دوست نہ رکھے اس پر خدا کی لعنت ہو“(۱)

۱۵ ۔ سیوطی(متوفی ۹۱۱ ھئق) نے بھی مجاہد کے طریقے سے ابن عباس سے روایت کی ہے کہ رسول اکرم نے فرمایا:

”لا اسئلکم علیه اجراً الّا المودّة فی القربی؛ان تحفظونی فی اهل بیتی و تودّوهم بی

_______________________

۱۔ حلیة الاولیاء ،ابو نعیم اصفہانی،ج۳،ص ا۲۰۔

۱۶۱

”یعنی یہ کہ سوائے اپنے قرابت داروں کی مودت و محبت کے تبلیغ رسالت کے بدلے تم سے کوئی اجر نہیں چاہتا اور وہ یہ ہے کہ میرے اہل بیت کا احترام کر کے میرے احترام کو محفوظ رکھو اور ان سے میری وجہ سے دوستی و محبت رکھو“(۱)

۱۶ ۔ حاکم نیشاپوری (متوفی ۴۰۵ ھئق) نے اپنے سلسلہ اسناد کے ساتھ امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام سے روایت کی ہے کہ انہوں نے حضرت علی کی شہادت کے دن ایک مفصل خطبہ کے ذیل میں فرمایا:

”میں ان اہل بیت میں سے ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی مودت و محبت کو تمام مسلمانوں پر واجب قرار دیا ہے اور اس سلسلے میں اپنے پیغمبر سے فرمایا:( قل لا اسئلکم علیه اجرا الّا المودّة فی القربیٰ ) (۲)

۱۷ ۔ محمد بن جریر طبری (متوفی ۳۱۰ ھئق) اپنے سلسلہ اسناد کے ساتھ روایت کرتے ہیں کہ:

”جب امام زین العابدین کو اسیر کر کے شام میں داخل کیا گیا تو ان کو ایک چبوترہ پر روکا گیا ایک ضعیف العمر آپ کے پاس آیا اور کہا:”خدا کا شکر ادا کرتا ہوں کہ تمہارے مردوں کو ہلاک کیا اور فتنے کو جڑسے اکھاڑ

_______________________

۱۔ الدر المنثور ،جلال الدین سیوطی ،ج۶،ص۷۔

۲۔ المستدرک علی الصحیحین فی الحدیث ،ابو عبد اللہ محمد بن عبد اللہ حاکم نیشاپوری ،ج۳،ص ۱۷۲۔

۱۶۲

پھینکا گیا“ امام سجاد نے دریافت فرمایا: کیا تم نے قرآن پڑھا ہے؟کہا : ہاں! ”کیا ”آل حامیم“ پڑھا ہے ؟“ کہا نہیں ،پھر دریافت فرمایا: کیا اس آیت کی تلاوت کی ہے( قل لا اسئلکم علیه اجرا الّا المودّة فی القربی ) ؟ کہا : ”کیا آپ وہی لوگ ہیں؟“ فرمایا: ”ہاں“۔(۱)

۱۸ ۔ احمد حنبل (متوفی ۲۴۱ ھئق) مفسرین کے اقوال کو شمار کرتے وقت سعید بن جبیر سے نقل کرتے ہیں کہ اس آیت کی تفسیر میں کہتے ہیں:

”قربیٰ آل محمد“

(مودت سے مراد) محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ ) کے قرابت دار ہیں(۲)

۱۹ ۔بخاری (متوفی ۲۵۶ ھئق) طبری ،قرطبی اور سیوطی نے بھی عین اسی عبارت کو سعید ابن جبیر سے نقل کیا ہے(۳)

پھر فخر رازی نے اس کے اثبات کے لیے ایک لطیف تحقیق پیش کی ہے(۴)

اس بیان کی بنا پر دوست اور دشمن کے لیے یہ بات روشن ہو جائے گی کہ قرابت

_______________________

۱۔ جامع البیان فی تفسیر القرآن ،ابو جعفر محمد بن جریرطبری ،جزء ۲۵، ص۱۶۔

۲۔ المسند ، احمد ابن حنبل ، ج۱،ص ۲۸۶۔

۳۔ الصحیح ،اسماعیل ابن ابراہیم البخاری ،ج۶،ص۱۶۲،ابو جعفر محمد بن حریر طبری گزشتہ حوالہ ،ج۱۱،ص۱۷، تفسیر محمد ابن احمد قرطبی ،ج۱۶، ص۲۱، در منثور ،جلال الدین سیوطی ،ج۶،ص۵۔

۴۔ تفسیر کبیر ،فخر رازی ،ج۲۷،ص۱۶۶۔

۱۶۳

داروں کی مودت ومحبت سے مراد خاندان پیغمبر کی مودت و محبت ہے اور گزشتہ مصادر صرف اہل سنت کی تفسیروں کا ایک گوشہ تھا جو مولف کے ذاتی مخصوص کتاب خانہ میں موجود ہے ۔ اور اگر کوئی شخص اس سلسلے میں تحقیق کرے تو اسے اس کے دسیوں برابر مطالب دست یاب ہو جائیں گے۔

لیکن دوسرے معانی جو معترض نے بعض منحرف افکار کی پیروی کرتے ہوئے ذکر کیے ہیں وہ آیہ کریمہ کے مقصد اور ذوق سلیم سے دور ہےں ،جیسا کہ علامہ طباطبائی نے تفصیلی تحقیق پیش کی ہے(۱)

نتیجے کے طور پر دعائے ندبہ کا یہ فقرہ بھی قرآن کے منافی و متضاد نہیں ہے بلکہ مکمل طور پر آیات قرآن، مفسرین کے اقوال ،مفسرین کی روایات اور شریعت مقدسہ کے دوسرے معیاروں کے عین مطابق ہے ۔

۹ ۔ کیا دعائے ندبہ کے مضامین شرک آمیز ہیں؟

معترض کہتا ہے :خداوند متعال نے قرآن کریم کی سکیڑوں آیات میں فرمایا ہے کہ خدا کے علاوہ کسی کونہ پکارو ،اور غیر خدا کو پکارنا کفر و شرک ہے ۔ہمارے پاس اس کا کوئی منبع نہیں ہے کہ پیغمبر اکرم یا ائمہ معصومین علیہم السلام سے کسی امام نے یہ فرمایا ہو کہ اپنی حاجتوں کو ہم سے طلب کرو۔لہٰذا دعائے ندبہ جو کہتی ہے :امام زمانہ کو

________________________

۱۔ المیزان ،سید محمد حسین طباطبائی ،ج۱۸، ص۴۳۔

۱۶۴

پکارو اورفریاد کرو ،یہ کفر و شرک ہے ۔

ہم جواب میں عرض کریں گے کہ سب سے پہلے یہ کہ:

اولیائے خدا سے توسل اختیار کرنا قرآن و سنت کی نظر میں کوئی اشکال نہیں رکھتا بلکہ قرآن کریم نے بہت سے سوروں میں اس کو صحیح قرار دیا ہے اور اس کا حکم دیا ہے کہ ہم ایک نمونہ کی طرف اشارہ کرتے ہیں:

( یا ایها الذین آمنوا اتقواللّه و ابتغوا الیه الوسیلة و جاهدوا فی سبیله لعلکم تفلحون)

”اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور اس تک پہنچنے کا وسیلہ تلاش کرو اور اس کی راہ میں جھاد کرو کہ شاید اس طرح کامیاب ہو جاؤ۔“(۱)

اس آیہ کریمہ میں خداوند منان مومنین کو صراحت کے ساتھ حکم دیتا ہے کہ اللہ تک جانے کا وسیلہ تلاش کرو۔

بہت سی حدیثوں میں اولیائے الٰہی سے توسل کی کیفیت تعلیم دی گئی ہے کہ ہم ان میں سے ایک نمونہ کی طرف اشارہ کر رہے ہیں:

عثمان بن حنیف روایت کرتے ہیں کہ ایک نابینا شخص رسول اکرم کی خدمت اقدس میں شرف یاب ہوا اور ان سے دعا کرنے کی درخواست کی تاکہ اللہ تعالیٰ اسے صحت و عافیت عنایت فرمائے ۔

________________________

۱۔ سورہ مائدہ (۵) آیت ۳۵۔

۱۶۵

پیغمبر اکرم نے اسے تعلیم فرمایا کہ نئے سرے سے وضو کرو اور دو رکعت نماز پڑھو پھر کہو:

الّلّهم انّی اسئلک و اتوجه الیک بنبیّک نبیّ الرّحمة ، یا محمد انّی اتوجّه بک الی ربّی فی حاجتی لتقضی، اللّهم شفّعه فیّ

”خدایا ! میں تیرے پیغمبر رحمت کے وسیلہ سے تیری طرف متوجہ ہو رہا ہوں۔اے محمد! میں آپ کے وسیلہ سے اپنے پروردگار کی طرف توجہ پیدا کر رہا ہوں تاکہ میری حاجت پوری ہو۔ پروردگار! ان کی شفاعت کو میرے حق میں قبول فرما۔“(۱)

رسول اکرم کی یہ حدیث ایک حاجت مند انسان کو اس بات کی تعلیم دے رہی ہے کہ وہ پیغمبراکرم کو کس طرح اپنا شفیع قرار دے اور آنحضرت کے وسیلہ سے خداوند منان سے اپنی حاجت کو طلب کرے ۔

اس حدیث کو حاکم نے مستدرک میں نقل کر کے یہ تصریح کی ہے کہ بخاری اورمسلم کی حدیث شناسی کے تمام معیار کے مطابق یہ حدیث صحیح ہے ۔ذہبی نے بھی تلخیص مستدرک میں اس کے صحیح ہونے کی تاکید کی ہے(۲)

________________________

۱۔ مستدرک ابو عبد اللہ محمد بن عبد اللہ،حاکم نیشاپوری ،ج۱،ص ۳۱۳۔

۱۶۶

۲ ۔ تلخیص المستدرک ،شمس الدین احمد بن محمد ذہبی ،مستدرک کے ذیل میں ۔

ترمذی اور ابن ماجہ نے بھی اس کے صحیح ہونے کی تاکید کی ہے(۱)

اس بیان کی بنا پر اولیائے الٰہی میں کسی ایک سے توسل اختیار کرنا نہ صرف یہ کہ کفر و شرک نہیں ہے بلکہ قرآن کریم ،احادیث رسول (ص) سے ہم آہنگ اور اکابر محدثین کے نزدیک قابل قبول ہے ۔

ہم نے معترض کی غرض و مقصد کو واضح کرنے کے لیے دعائے ندبہ کو چھ مخصوص حصوں میں تقسیم کیا اور ان چھ حصوں کے مضامین پر ایک اجمالی نظر ڈالیں گے تاکہ معلوم ہو کہ دعائے ندبہ کے فقرات میں سے کسی بھی فقرہ میں حضرت بقیة اللہ ارواحنا فداہ کے وجود اقدس سے حاجت نہیں طلب کی گئی ہے ۔

وہ دعائے ندبہ جو اس کتاب میں تحریر کی گئی ہے ۱۴۸ سطروں پر مشتمل ہے اور اس کا پہلا حصہ پہلی سطر سے ۱۹ سطر تک تمام ہوتا ہے ،یہ حصہ پروردگار کی حمد و ثنا اس کی عظیم نعمتوں کے مقابلے میں جیسے ارسال رسل انزال کتب (رسولوں کے بھیجنے اور کتابوں کے نازل کرنے) کا حامل ہے اور جملہ ”الحمد للّٰہ ربّ العالمین“ سے آغاز ہوتا ہے ۔

دوسرا حصہ بیسویں سطر سے ۳۶ تک تمام ہوتا ہے ،یہ حصہ نبوت خاصہ، بعثتِ رسول اکرم کی عظیم نعمت اور آنحضرت کے بعض فضائل و مناقب سے مخصوص ہے اور جملہ ” الی ان انتھیت بالامر الی حبیبک و نجیبک “سے آغازہوتا ہے۔

________________________

۱۔ السنن ،ابو عبد اللہ ابن ماجہ ،ج۱،ص ۴۴۱۔

۱۶۷

اس کا تیسرا حصہ چھتیسویں سطر سے ۵۸ سطر تک تمام ہوتا ہے ،یہ حصہ نصب امامت ،غدیر خم کے تاریخی واقعہ اور مولائے متقیان امیر المومنین علی بن ابی طالب کے فضائل و مناقب کے ذکر سے مخصوص ہے اور جملہ ” فلمّا انقضت ایّامہ ،اقام ولیّہ علی بن ابی طالب علیہ السلام “سے آغاز ہوتا ہے ۔

اس کا چوتھا حصہ انسٹھویں سطرسے ۷۲ سطر تک اختتام پذیر ہوتا ہے ،یہ حصہ عترتِ طاہرہ پر کیے گئے مصائب پر مشتمل ہے اور ائمہ معصومین علیہم السلام کے آثار و برکات سے امت کی محرومیت کے اشک ِحسرت و ندامت سے مخصوص ہے اور جملہ”و لمّا قضیٰ نحبہ“ سے آغاز ہوتا ہے ۔

اس کا پانچواں حصہ بہترویں سطر سے ۱۲۱ سطر تک اختتام پذیر ہوتا ہے اور دوران غیبت کے طولانی ہونے کے تاثرات اور افسوس ناک ہونے کے اظہار پر مشتمل ہے ،درد ہجران اور دیدار یار کے اظہارِ شوق سے مخصوص ہے اور جملہ ”این بقیّة اللّٰہ الّتی لا تخلو من العترة الھادیة“ سے آغاز ہوتا ہے ۔

اس کا چھٹا حصہ ایک سو بائیسویں سطر سے ۱۴۸ سطر تک دعائے ندبہ کے آخری حصہ پر مشتمل ہے اور خداوند قاضی الحاجات کی بارگاہ میں دعا و مناجات سے مخصوص ہے اور جملہ” الّلھمّ انت کشّاف الکرب والبلوی“ سے آغاز ہوتا ہے ۔

دعائے ندبہ کے اس حصے میں اس بات کے پیش نظر کہ حضرت بقیة اللہ ارواحنا فداہ کو بارگاہ رب العزّت میں شفیع قرار دیا گیا ہے ،اس کے چند فقرات کو یہاں ذکر کر رہے ہیں تاکہ معترضین کا مقصد مزید واضح ہو جائے :

۱۶۸

خدایا! ان کے ذریعہ حق کو قائم کر۔

باطل کو ان کے ذریعہ فنا کر دے ۔

اپنے دوستوں کو ان کے ذریعہ حاکم قرار دے ۔

اپنے دشمنوں کو ان کے ذریعہ ذلیل و رسوا کر ۔

ان کی برکت سے ہماری نماز کو مقبول بنا دے ۔

ان کی خاطر ہمارے گناہوں کو بخش دے ۔

ان کے احترام میں ہماری دعائیں مستجاب قرار دے ۔

ان کی برکت سے ہمارے رزق میں وسعت عطا فرما۔

ان کی خاطر ہمارے رنج و غم کو دور کر دے ۔

ان کے احترام میں ہماری حاجتوں کو پوری فرما۔

اس طرح خداوند منان سے حاجت طلب کرنا اور خالق دو جہاں کی بارگاہ میں حجت زمانہ کو شفیع قرار دینا کیا آیات قرآن اور رسول اسلام سے منقولہ احادیث سے ہم آہنگ نہیں ہے؟!تو پھر کیوں حسد و کینہ رکھنے والے اس کو کفر و شرک سے تعبیر کرتے ہیں؟!

۱۰ ۔ کیا مہدیّہ (نامی مقامات) کی تعمیر کرانا بدعت ہے ؟

معترضین دعائے ندبہ برقرار کرنے کے لیے کسی مخصوص جگہ کی تعمیر کرانا حرام اور بدعت جانتے ہیں!

”مہدیّہ“”قائمیّہ“ ،”منتظریّہ“ یا اسی جیسے دوسرے نام سے کسی مقام کی تعمیر کرانا بالکل بارگاہ حضرت ابا عبد اللہ الحسین میں اظہار عقیدت اور مجلس کے لیے ”حسینیہ“ بنانے کی طرح ہے ۔

۱۶۹

اسی طرح سے کہ ایک جگہ”دارالشفاء“ کے نام سے بیماروں کے علاج کے لیے بنائی جائے ،”دار الایتام“ یتیموں کی حفاظت کے لیے ”دار الحفّاظ“ حافظین قرآن کی تربیت کے لیے،”دار التجوید“ تجوید قرآ ن کی تعلیم کے لیے ”دار القرآن “ قرآن کی تعلیمات عام کرنے کے لیے ”دار الحدیث “ احادیث اہل بیت کو نشر کرنے کے لیے اور اسی طرح کی دوسری جگہ تعمیر کرانے میں شرعاً کوئی مانع نہیں ہے ۔دعائے کمیل ،دعائے ندبہ ،زیارت عاشورا وغیرہ کو برقرار کرنے کے لیے بھی کسی جگہ کے تعمیر کرانے میں کوئی اشکال نہیں ہے ۔ اس بیان کی بنا پر، ”مہدیّہ“ ،”قائمیّہ“ ،”منتظریّہ“اور اسی طرح کی دوسری جگہوں کے تعمیر کرانے کی شرعاً کوئی ممانعت نہیں ہے بلکہ اس آیہ مبارکہ کے ایک مصداق میں شامل ہے :

( تعاونوا علی البرّ و التقویٰ)

”نیکی اور تقوی پر ایک دوسرے کی مدد کرو۔ “(۱)

لہٰذا طول تاریخ اسلام میں ہر وہ مرکز جو بہ عنوان ”دار الکتب“، ”دار الحکمة“ ، ”‘دار العلم‘ ، ”دار الشفا“، ”دار القرّاء“، ”دار الحفّاظ“ اور اسی جیسی کوئی اور جگہ بنائی گئی ہو تو وہ کبھی بھی قابل اعتراض واقع نہیں ہوئی ہے ۔

سب سے زیادہ قدیم مقام کی تاسیس جو گزشتہ زمانے میں ایک امام معصوم کے ذریعہ عمل میں آئی اور اس آخری زمانہ تک محفو ظ تھی ،”بیت الاحزان “ حضرت فاطمہ زہرا تھا جو حضرت امیر المومنین کے ذریعہ رحلت پیغمبر اکرم کے بعد تعمیر کرایا گیا۔

استاد توفیق ابو علم ،مشہور مصری رائٹر اس سلسلے میں تحریر کرتے ہیں:

”حضرت علی نے حضرت فاطمہ زہرا کے لیے بقیع میں ایک گھر بنایا کہ جسے ”بیت الاحزان “کہا جاتا ہے ۔یہ گھر ہمارے زمانے تک باقی ہے“۔(۲)

مجد الدین فیروزآبادی (متوفی ۸۱۶ ھئق) صاحب قاموس اللغة ”بیت الاحزان “ کی وجہ تسمیہ میں رقم طراز ہیں:

”کیونکہ حضرت فاطمہ زہرا اپنے پدربزرگوار حضرت سید المرسلین کی رحلت کے بعد وہاں پناہ حاصل کر تی تھیں اور گریہ و نالہ میں مشغول ہوتی تھیں۔“(۳)

ابن جبیر، تاریخ اسلام کا مشہور سیّاح (متوفی ۶۱۴ ھئق) کہ جس نے چھٹی صدی

_____________________

۱۔ سورئہ مائدہ (۵)، آیت ۲۔

۲۔اہل البیت ،ابو علم ،ص۱۶۷۔

۳۔ وفاء الوفاء ،باخبار دار المصطفیٰ ،نور الدین علی بن احمد سمہودی ،ج۳،ص ۹۱۸۔

۱۷۰

ہجری میں مدینہ منورہ کا دیدار کیا تھا تحریر کرتا ہے :

”عباس بن عبد المطلب کے گنبد کے پیچھے ،دخترِ پیغمبر فاطمہ زہرا کا بیت الشرف واقع ہے جسے ”بیت الحزن “کہا جاتا ہے ،مشہور یہ ہے کہ:

یہ وہی جگہ ہے کہ پیغمبر کی رحلت کے وقت حضرت فاطمہ زہرا وہاں جایا کرتی تھیں اور اس جگہ عزاداری اور گریہ و ماتم میں مشغول رہتی تھیں۔(۱)

مرزا حسین فراہانی جنہوں نے چودہویں صدی ہجری کے آغاز میں مدینہ منورہ کا دیدار کیا تھا تحریر کرتے ہیں:

”ائمہ بقیع کے گنبد کے پیچھے ایک چھوٹا گنبد ہے جو حضرت فاطمہ زہرا کا ”بیت الاحزان “ ہے اور اس میں ایک آ ہنی چھوٹی ضریح ہے ۔“(۲)

فراہانی کے بعد رفعت پاشا کی فوج کا سردار (متوفی ۱۳۵۳ ھئق) جس نے ۱۳۲۰ ھئق سے ۱۳۲۵ ھئق تک مصریوں کے امیر الحاج ہونے کی حیثیت سے مدینہ منورہ کا مشاہدہ کیا، تحریر کرتا ہے ۔

”وہاں ایک گنبد ہے جس کا نام ”قبّة الحزن“ ہے کہا جاتا ہے کہ حضرت فاطمہ زہرا اپنے پدربزرگوار کی رحلت کے بعد وہاں پناہ گزیں ہوتی تھیں اور وہاں گریہ و ماتم کرتی تھیں۔“(۳)

____________________

۱۔ وفاء الوفاء ،باخبار دار المصطفیٰ ،نور الدین علی بن احمد سمہودی ،ج۳،ص ۹۱۸۔ ۔

۲۔ سفر نامہ ،مرزا حسین فراہانی ،ص۲۸۶۔

۳۔ مرآة الحرمین ،ابراہیم رفعت پاشا، ج۱،ص ۴۲۶۔

۱۷۱

سمہودی بھی غزالی سے نقل کرتے ہیں جو اعمال بقیع کے بیان کے ضمن میں رقم طراز ہیں:

”مسجد حضرت فاطمہ میں نماز پڑھو۔ “

پھر مزید تحریر کرتے ہیں:

اور وہ وہی ”بیت الحزن “ کی مشہور جگہ ہے جہاں حضرت فاطمہ زہرا پدربزرگوار کی رحلت کے غم و اندوہ کے دنوں میں وہاں قیام کرتی تھیں اور گریہ و ماتم میں مصروف رہتی تھیں(۱)

اس بیان کی بنا پر ”بیت الاحزان “ ۱۱ ھئق میں مولائے متقیان حضرت امیر المومنین کے دست ِ مبارک سے تعمیر ہوا، بعد میں اس کے اوپر ضریح اور گنبد بنایا گیا،اور تمام صدیوں اور زمانوں میں مدینہ منورہ کے زائرین کی زیارت گاہ اور محل عبادت بنا رہا اور کبھی بھی کسی کے مورد اعتراض نہیں قرار پایا، یہاں تک کہ ۸ شوال ۱۳۴۴ ھئق میں وہابیوں کے شر پسند ہاتھوں سے منہدم اور برباد کیا گیا۔

اگر کوئی مقام بنام ”بیت المہدی“ ،”دار المہدی“، ”مہدیّہ“، ”قائمیّہ“، ”منتظریّہ“وغیرہ تعمیر کرایا جائے اور اس میں دعائے ندبہ برگزار ہو تو نہ صرف یہ کہ بدعت نہیں ہے بلکہ آیہ کریمہ ”تعاونوا علی البرّ و التّقوی“(۲) کے ایک مصداق میں شامل ہے ۔

_______________________

۱۔ وفاء الوفاء باخبار دار المصطفیٰ ،نور الدین علی بن احمد سمہودی ،ج۳،ص ۹۰۷۔

۲۔ سورئہ مائدہ (۵) آیت ۲۔

۱۷۲

تیسری فصل

دعائے ندبہ کے متعلق چند نکات

پہلا نکتہ :

دعائے ندبہ کے بعض نکات سے چند عظیم شیعہ فقہا کا استناد کرنا ۔

عالم تشیّع کے بزرگ فقہاء نے اپنی استدلالی کتابوں میں دعائے ندبہ کے بعض حصے کو بطور شاہد و استناد پیش کیا ہے کہ جس میں سرِ فہرست استاد الفقہا و المجتہدین آیت اللہ شیخ مرتضیٰ انصاری رحمة اللہ علیہ (متوفی ۱۲۸۱ ھئق) ہیں ۔

انہوں نے کتاب المکاسب میں جو حوزہ علمیہ کی درسی کتاب ہے ،اس سلسلے میں کہ کیا ابتدائی التزامات (معاہدوں) پر شرط ، صادق آتی ہے یا نہیں دعائے ندبہ کے ایک حصہ کو جس کی عبارت یہ ہے :

قوله علیه السلام فی اوّل دعاء الندبه “بطور شاہد پیش کیا ہے۔(۱)

________________________

۱۔ المکاسب ،شیخ مرتضیٰ انصاری، ص۲۱۶۔

۱۷۳

اور یہ اس بات کی صراحت کرتی ہے کہ شیخ انصاری دعائے ندبہ کو امام معصوم علیہم السلام سے ماثور جانتے ہوئے اس سے استناد کرتے ہیں اور اسے ”قولہ علیہ السلام“ ”امام علیہ السلام “ کے قول سے تعبیر کرتے ہیں ۔

شیخ انصاری کے بعد ،کتاب المکاسب کی شرح اور حاشیہ تحریر کرنے والوں نے جو سبھی اپنے زمانے کے مراجع کرام میں سے تھے ،مکاسب کے اس مذکورہ حصہ کی شرح میں انہوں نے دعائے ندبہ سے استناد کیا ہے اور دعائے ندبہ کو امام معصوم سے استناد کرنے کے موقع پر شک و شبہ کا اظہار نہیں کیا ہے کہ ہم ان میں سے بعض افراد کے اسماء کو اپنے صفحات کی زینت قرار دے رہے ہیں:

۱ ۔ آیت اللہ الحاج شیخ محمد حسن مامقانی ،(متوفی ۳۲۳ اھئق)(۱)

۲ ۔ آیت اللہ الحاج ملّا محمد کاظم خراسانی ،صاحب کفایہ (متوفی ۱۳۲۹ ء ھ ق)۔

۳ ۔ آیت اللہ الحاج سید محمد کاظم یزدی صاحب عروة الوثقیٰ (متوفی ۱۳۳۷ ھئق)۔

۴ ۔ آیت اللہ الحاج مرزا علی ایروانی (متوفی ۱۳۵۴ ھئق)(۲)

۵ ۔ آیت اللہ الحاج شیخ محمد حسین اصفہانی ،(متوفی ۱۳۶۱ ھئق) ۔

۶ ۔ آیت اللہ الحاج مرزا فتّاح شہیدی (متوفی ۱۳۷۲ ھئق)(۳)

________________________

۱۔ غایة الآمال ،الشیخ حسن مامقانی ،ج۲،ص ۲۔

۲۔ التعلیقةعلی المکاسب ،ایروانی ،ج۲،ص ۵۔

۳۔ ھدایة الطالب الی اسرار المکاسب ،مرزا فتّاح شہیدی ، ص۴۱۰۔

۱۷۴

۷ ۔ آیت اللہ الحاج سید محمد شیرازی (ہم عصر)(۱)

اس بیان کی بنا پر ان تمام بڑے فقہا کہ جنہوں نے کتاب المکاسب پر شرح یا حاشیہ تحریر کیا ہے ان سب نے شیخ انصاری کی بات کا یقین اور اسے صحیح تسلیم کیا ہے اور جملہ ”قولہ علیہ السلام“ ”قول امام علیہ السلام“ ،پر اعتراض نہیں کیا ہے ۔ نتیجے کے طور پر دعائے ندبہ کے ماثور و منقول ہونے کی سب نے امضاء و تائید کی ہے۔

دوسرا نکتہ :

کیا یہ بات ممکن ہے کہ دعائے ندبہ بزرگ علماء میں سے کسی ایک کی خود ساختہ ہو؟

ہم جواب میں عرض کریں گے کہ یہ احتمال بہت سی دلیلوں سے بعید ہے :

۱ ۔دعائے ندبہ کی سند کو تفصیل کے ساتھ ہم نے بیان کیا۔

۲ ۔ اس کی قوّت سند اور اعتبار کو علامہ مجلسی سے ہم نے نقل کیا۔

۳ ۔ امام معصوم سے اس کے ماثور و منقول ہونے کے شواہد و دلائل کو ہم نے بیان کیا۔

۴ ۔ امام جعفر صادق سے اس کے منقول ہونے کے شواہد و دلائل کو ہم نے بیان کیا۔

۵ ۔ شیخ انصاری کے استناد اور ان کا دعائے ندبہ کی پیروی کرنے کو نیز اس کے ماثور ہونے کے سلسلے میں دوسرے عظیم فقہا کے اقوال کو ہم نے نقل کیا۔

_______________________

۱۔ ایصال الطالب الی المکاسب ،سید محمد حسینی شیرازی ،ج۱۱،ص۴۳۔

۱۷۵

۶ ۔ سب سے پہلے جس نے دعائے ندبہ کو اپنی تحریر و تالیف میں ذکر کیا وہ ”بزوفری“ شیخ مفید کے استاد ہیں ،کہ جنہوں نے چار عظیم عیدوں میں دعائے ندبہ پڑھنے کے مستحب ہونے کا فتوی دیا ہے ۔(۱) لہذا اگر بزوفری کو اس دعا کے متعلق امام معصوم سے صادر ہونے کا اطمیان نہ ہوتا تو کبھی بھی اس کے مستحب ہونے کا فتوی نہ دیتے ،کیونکہ کسی شئے کے مستحب ہونے کا فتوی دینے کے لیے شرعی دلیل کی ضرورت ہوتی ہے ۔

۷ ۔ ابن ابی قرّہ ،ابن مشہدی ، سید ابن طاووس ، محدث نوری ،محمدث قمی اور بہت سے فقہاء و محدثین نے بزوفری کے اس فتوی کو نقل کیا ہے اور اس کے صحیح ہونے کو تسلیم کیا ہے(۲)

۸ ۔ علامہ مجلسی نے اس کی سند کو معتبر قرار دینے کی تصریح کرنے کے بعد خود دعائے ندبہ کا چار عظیم عیدوں میں پڑھنے کے مستحب ہونے کا فتویٰ دیا ہے ۔(۳)

_______________________

۱۔ المزار الکبیر ،ابو عبد اللہ محمد بن جعفر ابن مشہدی ،ص۵۷۳۔

۲۔ المزار الکبیر ،ابو عبد اللہ محمد بن جعفر ابن مشہدی ،ص۵۷۳۔ مصباح الزائر، سید علی بن موسیٰ ابن طاووس، ص ۴۴۶، حسین بن محمد تقی نوری، ص ۶۴۸، مفاتیح الجنان، شیخ عباس قمی، طبع رسالت، ص ۶۵۰۔

۳۔ زاد المعاد ،محمد باقر مجلسی ،ص۴۸۶۔

۱۷۶

۹ ۔ اگر یہ دعا علماء میں سے کسی ایک کے ذریعہ انشاء ہوئی ہوتی تو یقینا اس کی تصریح کرتے ، اس لیے کہ علمائے شیعہ کا یہ شیوہ رہا ہے کہ اگر کوئی دعا یا زیارت نامہ کو انشاء کرے تو اس کی تصریح کرتے ہیں ۔

اور اب ہم چند چیزوں کی طرف بعنوان مثال اشارہ کرتے ہیں :

۱ ۔ شیخ صدوق نے ، حضرت فاطمہ زہرا کے زیارت نامہ کے متعلق(۱)

۲ ۔ سید ابن طاووس نے رویت ہلال کی دعا کے متعلق ۔(۲)

۳ ۔ فخر المحققین نے ، محدّث نوری کے نقل کے مطابق ”دعائے عدیلہ“ کے متعلق ۔(۳)

۴ ۔ آقا جمال خوانساری نے ، حضرت عبد العظیم کے زیارت نامہ کے متعلق(۴)

۵ ۔ محدث قمّی نے ،حکیمہ خاتون سلام اللہ علیہا کے زیارت نامہ کے متعلق(۵)

________________________

۱۔ من لایحضرہ الفقیہ ،شیخ صدوق ،ج۳،ص ۵۷۳۔

۲۔ اقبال الاعمال ،سید ابن طاووس ،ص۳۰۷۔

۳۔ مستدرک الوسائل ،حسین بن محمد تقی نوری ،طبع سنگی ،ج۱،ص ۹۳ ۔

۴۔ المزار ،جمال خوانساری ،ص۱۰۹۔

۵۔ مفاتیح الجنان ،شیخ عباس قمی ،طبع رسالت ،ص۶۳۴۔

۱۷۷

تیسرا نکتہ :

اعتراض کرنے والا کون ہے ؟

ابتدائی دنوں میں کہ جب دعائے ندبہ قابل توجہ منابع میں جیسے المزار الکبیر ، المزار القدیم ،الاقبال ،مصباح الزائر اور بحار الانوار وغیرہ میں نقل ہوئی اور عاشقین و قارئین کی دست رس میں قرار پائی تو خاندان عصمت و طہارت کے عقیدت مندوں نے بغیر کسی خوف کے جمعہ کے دنوں میں صبح کے وقت اور دوسری اسلامی عیدوں میں اس کے پڑھنے کی طرف سبقت حاصل کی اور سبقت کرتے رہتے ہیں ،کوئی شک و شبہ بھی نہیں رکھے کہ اس کا متن امام معصوم سے صادر ہوا ہے ، اس کا زمانہ غیبت میں پڑھنا شیعہ منتظر کی ذمہ داریوں میں سے ایک ہے اور حضرت بقیة اللہ ارواحنا فداہ کی خاص عنایت و توجہ کا مرکز ہے ۔ اس طریقے سے ،علمائے اعلام اور اسلام کے پاسبانوں نے اس کی سند کے متعلق بحث و تحقیق کی ضرورت محسوس نہیں کی ۔یہاں تک کہ تقریباً تیس سال پہلے ایک کتابچہ بغیر کسی نام و نشان کے ”بررسی دعائے ندبہ “ (یعنی دعائے ندبہ کی تحقیق) کے نام سے ایک نامعلوم مولف جس کا مستعار (دوسرے سے مانگاہوا) نام ”علی احمد موسوی“ ہے تہران میں نشر ہوا کہ جس نے اس کی سند میں شک و شبہ کا اظہار کیا ،اس کے مطالب پر ناجواں مردانہ دھاوا بول دیا تھا۔ اس لحاظ سے عہد کیے ہوئے علماء اور درد آشنا پاسبانوں نے خود کو ذمہ دار سمجھا کہ اس ناجواں مردانہ دھاوا بولنے والے کو بغیر جواب دیے خاموش نہیں بیٹھیں گے ،لہٰذا دعائے ندبہ کی سند، متن اور دوسرے مختلف پہلوؤوں سے دفاع سے متعلق بہت سی گراں قدر کتابیں تحریر کیں اور اس کے کھوکھلے اعتراضات کا جواب دیا کہ اس کے بعض عناوین سے آپ اس کتاب میں آشنا ہوں گے ۔

۱۷۸

چوتھا نکتہ :

کیا دعائے ندبہ ناحیہ مقدسہ (امام زمانہ ) کی طرف سے صادر ہوئی ہے؟

جیسا کہ ہم نے کتاب کے دوسرے حصہ میں تفصیل کے ساتھ بیان کیا، دعائے ندبہ کو حضرت امام جعفر صادق سے صادر ہونے کا شرف حاصل ہے ،جیسا کہ علامہ مجلسی اور بعض بزرگوں نے اس بات کی تصریح کی ہے ۔(۱) اور سید ابن طاووس کے کلام سے بھی یہی ظاہر ہوتا ہے ۔(۲) لیکن ”محمد بن ابی قرّہ“ کی تعبیر کہ جس نے کہا ہے :

”کتاب”بزوفری“ میں ذکر ہوا ہے کہ یہ دعا صاحب الزمان صلوات اللہ علیہ کے لیے ہے ۔“(۳)

_______________________

۱۔ زاد المعاد ،محمد باقر مجلسی ،ص۳۹۴، مکیال المکارم ،سید محمد تقی موسوی اصفہانی ،ج۲،ص ۹۳ ،شرح دعائے ندبہ ، سید صدر الدین مدرس ،ص۱۔

۲۔ اقبال الاعمال ، سید ابن طاووس ،ص۲۹۵۔ ۳۔ المزار الکبیر ، ابن مشہدی ،ص۵۷۳، مصباح الزائر ،سید ابن طاووس،ص۴۴۶، زوائد الفوائد ، سید علی بن علی بن موسیٰ ابن طاووس (فرزند ابن طاووس ) خطی نسخہ ،ص۴۹۳۔

۱۷۹

بعض ہم عصرلوگوں نے یہ تصور کیا ہے کہ یہ دعا ناحیہ مقدسہ (حضرت بقیة اللہ)کی طرف سے صادر ہوئی ہے(۱)

پانچواں نکتہ:

دعائے ندبہ اور وہ زیارت جو ”ندبہ “ کے نام سے مشہور ہے ۔

دعائے ندبہ کے علاوہ سرداب مقدس کے زیارت ناموں میں سے ایک زیارت نامہ ”ندبہ “ کے نام سے بھی موجود ہے اور وہ زیارت ”زیارت آل یٰسین “ کے نام سے مشہور ہے ۔

سید ابن طاووس اپنی مبارک کتاب مصباح الزائر میں سرداب مقدس کی زیارتوں کو شمار کرتے ہوئے ”زیارت آل یٰسین “ کو اس عنوان سے بیان کرتے ہیں:

”ہمارے مولا حضرت صاحب الزمان صلوات اللہ علیہ کی دوسری زیارت جو زیارت ”ندبہ “ کے نام سے مشہور ہے جو قداست ”ناحیہ مقدسہ“ کے عنوان سے مالا مال ہے اس نے ابو جعفر محمد ابن عبد اللہ حمیری کے لیے صدور کا شرف حاصل کیا، اور حکم دیا گیا ہے کہ سرداب مقدس میں پڑھی جائے: ”بسم اللّٰه الرّحمن الرحیم ،لا لامر ه تعقلون، ولا من اولیائه تقبلونسلام علی آل یاسین(۲)

________________________

۱۔ہفدہ رسالہ ،محمد تقی شوشتری ،ص۳۴۳، دہ رسالہ ،رضا استادی ،ص۲۸۴، ۳۱۰۔

۲۔مصباح الزائر ،سید ابن طاووس ،ص۴۳۰۔ بحار الانوار ،محمد باقر مجلسی ،ج۱۰۲،ص۹۲۔

۱۸۰

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228