دعائے ندبہ کی سندی اور مضمونی اعتراضات کی تحقیق و تنقید

دعائے ندبہ کی سندی اور مضمونی اعتراضات کی تحقیق و تنقید16%

دعائے ندبہ کی سندی اور مضمونی اعتراضات کی تحقیق و تنقید مؤلف:
زمرہ جات: ادعیہ اور زیارات کی کتابیں
صفحے: 228

دعائے ندبہ کی سندی اور مضمونی اعتراضات کی تحقیق و تنقید
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 228 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 47450 / ڈاؤنلوڈ: 4673
سائز سائز سائز
دعائے ندبہ کی سندی اور مضمونی اعتراضات کی تحقیق و تنقید

دعائے ندبہ کی سندی اور مضمونی اعتراضات کی تحقیق و تنقید

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

نے ایک رکعت نماز پڑھی ہو اس کو خلیفہنے حکومت و ولایت پر منصوب کیا۔

اصفہانی نے داستان کی تفصیل کو مذکورہ خبر کے بعد 'عوف بن خارجہ مّری'' سے نقل کر کے اپنی کتاب اغانی میں یوں لکھا ہے:

عمر ابن "ابن " خطاب کی خلافت کے دوران ایک دن میں ان کے پاس بیٹھا تھا ۔کہ ایک شخص داخل ہوا ، اس کے سر کے دونوں طرف تھوڑے سے بال دکھائی دیتے تھے ۔اس کے پیر ٹیڑھے تھے، پاؤں کے انگلیا ں ایک دوسرے کے اوپر اور ایڑیاں اس کے شانوں کے موازی تھیں ۔

وہ لوگوں کو دھکا دیتے ہوئے اور ان کے سروں پر سے گزر کر آگے بڑھ رہا تھا اور اس طرح اس نے اپنے آپ کو عمر کے روبروپہنچا دیا اور خلافت کی رسم کے مطابق آداب بجالائے:

عمر نے اس سے پوچھا :

تم کون ہو؟

اس شخص نے جواب دیا:

میں ایک عیسائی ہوں اور میرا نام ''امرئو القیس بن عدی کلبی'' ہے۔

عمر نے اسے پہچان لیا ،اور اس سے پوچھا ۔

اچھا ! کیا چاہتے ہو؟

امرئو القیس نے جواب دیا:

مسلمان ہونا چاہتا ہوں ۔

عمر نے اسے اسلام کی تعلیم دی اور اس نے قبول کیا ۔ اسی اثنا ء میں خلیفہ نے حکم دیاکہ ایک نیزہ لایا جا ئے ، اس کے بعد اس پر ایک پر چم نصب کر کے ''امرؤالقیس ''کے ہاتھ میں دیدیا اور اسے شام کے علاقہ قضایئہ کے مسلمانوں پر حاکم مقر ر کر دیا۔

۲۱

''امرئوالقیس '' پرچم مضبوطی سے ہاتھ میں لئے ہوئے اس حالت میں خلیفہ سے رخصت ہوا کہ پرچم اس کے سر پر لہرا رہا تھا ....(داستان آخر تک '' اغانی ''میں )

''علقمہ بن علاثۂ کلبی '' کی ارتداد کے بعد حکومت کی داستان بھی سیف کی روایتوں سے تناقض رکھتی ہے ۔ یہ روایت اصفہانی کی ''اغانی'' اور ابن "ابن " حجر کی ''اصابہ '' میں اس کے حالات کی تشریح کے ضمن میں درج ہوئی ہے جو حسب ذیل ہے :

علقمہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے زمانے میں اسلام لایا اور اسے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی مصاحبت کا شرف حاصل ہوا تھا ۔ لیکن اس نے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بعد ابوبکرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خلافت کے دوران اسلام سے منہ موڑ لیا اور مرتد ہوگیا ۔ ابوبکرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مجبور ہو کر ، اس کے پیچھے خالدبن ولید کو بھیج دیا ۔ جب علقمہ اس موضوع سے باخبر ہوا تو چھپ گیا ۔ کہتے ہیں کہ بعد میں علقمہ معافی مانگ کر خلیفہ کی خدمت میں پہنچا اور دوبارسلام لایا۔

ابن "ابن " حجر نے علقمہ کے بارے میں اپنی کتاب ''اصابہ '' میں مندرجہ ذیل مطالب بھی درج کئے ہیں ؛

عمر نے اپنی حکومت کے دوران علقمہ پر شراب پینے کے جرم میں حد شرعی جاری کی۔ علقمہ اس کی وجہ سے خفا ہو کر مرتد ہوگیا اور روم کی طرف چلا گیا اس نے روم بادشاہ کے پاس جاکر اپنا تعارف کرایا۔ پادشاہ نے اس کا استقبال کیا اور اس کی پہچان کے سلسلے میں اس سے سوال کیا ۔

کیا تم ''عامر بن طفیل '' کے چچیرے بھائی ہو ؟

پادشاہ کے اس طرح سوال کرنے سے علقمہ کی شخصیت مجروح ہوئی ، اس لئے وہ خفا ہو کرغصہ کی حالت میں بولا:

ایسا لگتا ہے کہ آپ مجھے عامر کی نسبت کے علاوہ کسی اور طریقہ سے نہیں پہچانتے؟ اس کے بعد اٹھ کے باہر نکلا اور مدینہ واپس لوٹ کر دوبارہ اسلام لایا۔ لیکن علقمہ کے عمر کی طرف سے حکومت حاصل کرنے کی داستان ابن "ابن " حجر کی '' اصابہ '' اور ابو الفرج اصفہانی کی ''اغانی'' میں درج ہوئی ہے ۔ ہم یہاں پر اسے ''اغانی '' سے نقل کرتے ہیں ؛ علقمہ اسلام سے منہ موڑنے کے بعد ایک مدت تک مدینہ ے دوری اور دربدری تحمل کرنے کے بعد سرانجام دوبارہ مدینہ واپس آیا اور لوگوں کی نظروں سے چھپ کیراہی مسجد ہوا اور ایک کونے میں مخفی ہوگیا ۔

۲۲

رات کے وقت عمر مسجد میں داخل ہوئے،لیکن علقمہ نے اندھیرے کی وجہ سے صحیح طور پر انھیں نہیں پہچاناکہ یہ داخل ہونے والا کون تھا ۔ عمر کی خالد بن ولید جو علقمہ کا دوست تھا سے شباہت کی وجہ سے علقمہ نے گمان کیا مسجد میں داخل ہونے والا خالد بن ولید ہے ۔ لہذا اس کے ساتھ گفتگو شروع کرتے ہوئے پوچھا:

بالاخر اس نےتمہیں کام سے برطرف کر دیا ؟

گویا عمر نے علقمہ کو پہچان لیا تھا اور اس کی غلط فہمی سے آگاہ ہو چکا تھا ، لہذا اس فرصت سے استفادہ کرتے ہوئے چالاکی کے ساتھ خالد کے انداز میں جواب دیا۔

ہاں ! ایسا ہی ہے !

علقمہ نے متاثر انداز میں کہا!

معلوم ہے ، یہ نظر بد اور حسد کے علاوہ کچھ نہیں ہے ، تمہارے ساتھ یہ ظلمحسد کے وجہ سے ہوا ہے !

عمر نے فرصت کوغنیمت سمجھ کر عیّارانہ انداز میں علقمہ سے پوچھا :

کیا تم مدد کر و گے تاکہ عمر سے اپناا نتقا م لے لوں ؟

علقمہ نے بلافاصلہ جواب دیا۔

خدا کی پناہ ، عمر ہم پر فرمانبرداری و اطاعت کا حق رکھتے ہیں ، ہمیں حق نہیں ہے ان کے خلاف کوئی کام کریں اور ان کے مخالفت کریں !

سرانجام عمر ، یا علقمہ کے خیال میں خالد ۔ اٹھ کر مسجد سے چلے گئے ۔

دوسرے دن عمر لوگوں سے ملاقات کرنے کے لئے آمادہ ہوئے اسی اثنا ء میں خالد علقمہ کے ہمراہ داخل ہوا اور دونو ں ایک ساتھ ایک جگہ پر بیٹھ گئے ۔

۲۳

تھوڑی دیر کے بعد ایک مناسب فرصت پر عمر نے علقمہ کی طرف رخ کر کے سوال کیا:

اچھا علقمہ ! کیا تم نے وہ باتیں خالد سے کیں ؟

علقمہ ، عمر کا سوال سنکر الجھن میں پڑگیا ، چند لمحہ خاموشی کے بعد اسے کل رات کی وہ ساری باتیں یاد آئیں جو اس نے خالد سے کی تھیں ۔ لہذا فوری طور پر خالد سے مخاطب ہو کر بلند آواز میں پوچھا :

ابو سلیمان ! کیا تو نے اس سے کوئی بات کہی ہے ؟

خالد نے جواب دیا :

وائے ہو ہم تم پر ، خدا کی قسم اس ملاقات سے پہلے میں نے اس کو دیکھا تک نہیں ہے ۔ اس وقت خالد نے فراست سے مطلب کو سمجھ لیا اور بولا:

ایساتو نہیں ہے تو نے ان کو خلیفہ کی طرف اشارہ کر کے مجھ سے پہلے کہیں دیکھا ہواور غلط فہمی سے میری جگہ پر انھیں لے لیا ہوگا؟

علقمہ نے جواب دیا۔

ہاں خدا کی قسم ، صحیح ہے میں نے تیرے بجائے انھیں دیکھا تھا۔

اس کے بعد خلیفہ سے مخاطب ہو کر بولا :

اے امیرالمؤمنین !آپ نے توخیر و خوبی کے علاوہ کوئی چیز مجھ سے نہیں سنی ہے ، کیا ایسا نہیں ہے ؟

عمر نے جواب دیا : صحیح ہے ۔ کیا تم پسند کرتے ہو کہ ''حوران '' ١کی گورنری تمہیں دیدوں ؟

علقمہ نے جواب دیا :

جی ہاں

اس کے بعد عمر نے ''حوران '' کی حکومت کا فران علقمہ کے ہاتھ میں دیدیا اور وہ زندگی کے آخری دن تک اس حکومت پر پرقرار رہا اور وہیں پر وفات پائی ۔''حطیئہ'' نے اس کے سوگ میں یوں کہا ہے:.....( آخر تک )

ابن حجر نے اس داستان کے ضمنمیں یوں اضافہ کیا ہے:

عمر ''حوران ''کی حکومت کا فرما ن علقمہ کے ہاتھ میں دینے کے بعد لوگوں سے مخاطب ہو کر بولے:

اگر میرے پاس اس قسم کے باوفا اشخاص ہوتے ، تو وہ میرے لئے تمام دنیا کی دولت سے قمیتی تھے

۲۴

بحث کا نتیجہ :

ہم نے مشاہدہ کیا کہ مکتب خلفاء کے پیرو علماء نے '' ابن "ابن " ابی شیبہ ''سے نقل کیا ہے کہ اس نے ''ایک قابل اعتبار منبع و مصدر '' سے روایت کی ہے کہ ''اسلاف کی رسم یہ تھی کہ جنگوں میں صحابی کے علاوہ کسی کو سپہ سالار نہیں بنایا جاتا تھا.''

ان علماء نے اس قسم کی روایت کے مصدر کے بارے میں ''صحیح ''یا '' حسن'' کی اصطلاحات سے استفادہ نہیں کیا ہے بلکہ صرف اتنا کہا ہے کہ'' ایک ایسے منبع سے جس پر کوئی اعتراض نہیں ہے''۔ اور اس طرح اس مآخذ کی قدر وقیمت اور اعتبار کو کافی حد تک گھٹا کے رکھدیا ہے۔

ہم نے سیف بن عمر کو بھی یہ کہتے ہوئے پایا:

فوج کے سپہ سالار سب صحابی تھے ۔

ابو بکر جنگوں میں مرتد وں سے مدد حاصل نہیں کرتے تھے اور حکم دیدیا تھا کہ ان سے مدد طلب نہ کریں ۔ اس لئے ان جنگوں میں کسی مرتدنے شرکت نہیں کی ہے !

عمر مرتدوں کو سپاہ کے طور پر قبول کرتے تھے ، لیکن ان میں سے انگشت شمار افراد کے علاوہ ، جن کی تعداد مشکل سے دس افراد تک پہنچی تھی ، کسی کو سپہ سالار نہیں بنایا خود آپ صحابی کو فوج کا سپہ سالار بنانے سے کبھی غفلت نہیں کرتے تھے۔

یہ وہ مطالب تھے جنہیں مکتب خلفاء کے دانشمندوں نے اصحاب کی شناخت اور پہچان کے طور پر ذکر کیا ہے۔

لیکن ہم نے ان سب ادعاو'ں کے باوجود دیکھا کہ خلیفۂ عمر نے اس کے برخلاف'' علقمہ'' کو جو مرتدہوگیاتھا ، ''حوران '' کے حاکم کے طور پر منصوب کیا جبکہ شامی امراء اور حکام اس زمانے میں فوج کی کمانڈ بھی سنبھالتے تھے ، اس مفہوم میں کہ شام کاحاکم اور گورنر وہاں کی فوج پر ، فلسطین کا حاکم وہاں کی فوج پر اور قنسرین کا فرمان روا علاقہ قنسرین کی فوج کا کمانڈر بھی تھا ۔

خلاصہ یہ کہ ہر علاقہ کا حاکم و فرماں روا صلح کے زمانے میں مطلق حاکم اور جنگ کے زمانے میں افسر اور سپہ سالار بھی ہوتا تھا۔

اس کے علاوہ ہم نے دیکھا کہ خلیفۂ دوم نے ایک نو مسلم عیسائی کے ہاتھوں میں حکمرانی کا پرچماس وقت دیدیا جب کہ اسلام لانے کے بعد اس نے ابھی تک ایک نماز بھی نہیں پڑھی تھی ، جبکہ اس زمانے کے رسم کے مطابق ایسا پرچم ایسے شخص کو دیا جاتا تھا جو ایک قبیلہ کو جنگ میں شرکت کرنے کے لئے آمادہ کرتا تھا۔کیونکہ ان دنوں فوج منظمکرنے کا کام قبیلوں کی بنیاد پر ہوا کرتا تھا اور یہ رسم جنگ صفین اور ، حادثۂ کربلا بلکہ اس کے بعد بھی رائج تھی ۔

۲۵

اس بنا پر خلیفۂ عمر نے ''امرئو القیس کلبی '' کو جو قبیلہ کلب سے تھا اور قضاء نام کے ایک بڑے قبیلہ کا ایک جزتھا ، تمام قبائل قضاعہ پر حاکم مقرر کیا اور اس طرح سپاہ قضاعہ کی سپہ سالاری بھی اسے سونپ دی تا کہ وہ ان کی مدد سے رومیوں کے ساتھ جنگ میں شرکت کر ے اور اسلام کی طرف سے کفر و الحاد سے جنگ کرے !

اس حساب سے مکتب خلفاء کے علماء نے صحابی کی پہچان کے لئے جو قاعدہ وضع کیاہے وہ باطل اور بے بنیاد ہے ۔ کیونکہ اس کا مآ خذ بھی ضعیف ہے اور جو کچھ کہا گیا ہے تاریخی واقعات اور روداد سے بھی فرق بھی رکھتا ہے۔

اس کے باوجود انہی علماء نے اس خیالی اور جھو ٹے قاعدہ کی خوش فہمی پر دسیوں بلکہ سینکڑوں جعلی چہروں کو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے حقیقی اصحاب کی فہرست میں قرار دے کر ان کے حالات لکھے ہیں ۔

ہم آنے والی بحث میں سیف کے چند ایسے جعلی اصحاب کے حالات پر روشنی ڈالیں گے جن کو اس نے خاص طور پر سپہ سالار کے عہدوں پر فائز کیا ہے اور مختلف و متعدد روایتوں کے ذریعہ ان کے نام پر اخبار جعل کئے ہیں تاکہ اس طرح اپنے جھوٹ کو علما ء کی نظروں سے چھپا سکے اور اس کے علاوہ اسلام کی احادیث کر شہبہ میں ڈال کر ہمارے مصادر و مآخذ کو ہے اعتبار اور مجروح کر دے۔

سیف کے اس خطرناک مقصد کے بارے میں افسوس کے ساتھ کہنا پڑتاہے کہ بعض علماء نے سیف کی اس سلسلے میں قرار واقعی مدد کی ہے اور اس طرح اس کو اپنے مقاصد تک پہنچے کی خوش فہمی کو اس پر اور اس کی احادیث پر اعتماد کر کے شرمندہ تعبیر کیا ہے کیونکہ انہوں نے اس کے اسلام کے خلاف ظلم و خیانت پر مبنی کئے گئے افسانوی اصحاب و سورمائوں کو اسلام کے مصادر و مآ خذ میں قرار دے کر انھیں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے حقیقی اصحاب کی فہرست میں ثبت کیا ہے۔ کیا پتا ہے شاید سیف نے اپنی اتنی کامیابیوں کو خواب میں بھی نہیں سوچا ہو گ

۲۶

مصادر و مآ خذ

صحابی کی پہچان کے سلسلہ میں '' ابن ابی شیبہ '' کی روایت کے بارے میں ابن حجر کا بیان :

١۔'' ابن "ابن " حجر ''کی کتاب '' اصابہ '' (١/١٣) اور (١/١٦)

ابن ابی "ابن " شیبہ کی روایت کے بارے میں خبری منابع و مآخذ :

١ ۔ تاریخ طبری ١٣ ھ کے حوادث کے ضمن میں (١/٢١٥١)

٢۔ تاریخ ابن "ابن " عساکر (١/٥١٤)

مرتدوں کے ساتھ عمر و ابو بکر کی روش پر سیف کی روایت :

١۔ تاریخ طبری (١/٢٠٢٠تا٢٠٢١)اور (١/٢٤٥٧ تا٢٤٥٨)اور (١/٢٢٢٥)

''امرئو القیس'' کی حکوت کی داستان:

١۔ابوافرج اصفہائی کی ''اغانی '' طبع ساسی (٤ا/١٥٧۔١٥٨)

٢۔ابن حزم کی ''جمھرہ '' (ص٤٥٧) بطور خلاصہ

''علقمہ بن علاثہ ، کلبی ''کی داستان :

١۔ابن حجر کی ''اصابہ'' (٢/٤٩٦۔۔٤٩٨)

٢۔اصفہانی کی ''اغانی'' (١٥/٥٦)

علقمہ و عامر کے اختلاف کی داستان:

١۔ ''اغانی '' (١٥/٥٠تا٥٥)

٢۔ ابن حزم کی ''جمھرہ'' (ص٢٨٤)

قضاعہ کا نسب:

ابن حزم کی '' جمہرہ انساب '' (٤٤٠۔٤٦٢)

۲۷

ا س کتاب میں درج سیف کے جعلی اصحاب کی فہرست

ہم نے اس کتاب کی پہلی جلد سے تیسری جلد تک سیف کے ٥٣ جعلی اصحاب کا تعارف کرایا

اب اس جلد میں اس کے مزید چالیس جعلی اصحاب کا حسب ذیل تعارف کراتے ہیں ۔

پہلا حصہ :

عراق کی جنگوں میں سیف خلق کردہ افسراور سپہ سالار: (١)

٥٤۔بشر بن عبداﷲ

٥٥۔ مالک بن ربیعہ تیمی

٥٦۔مزھاز بن عمر و عجلی

٥٧۔حمیضہ بن نعمان بارقی

٥٨۔جابر اسدی

٥٩۔عثمان بن ربیعہ ثقفی

٦٠۔سواد بن مالک تمیمی

دوسرا حصہ:

عراق کی جنگوں میں افسر اور سپہ سالار (٢)

٦١۔ عمرو بن وبرہ

٦٢۔حمّال بن مالک بن حماّل

٦٣۔ ربّیل بن عمروبن عبدری

٦٤۔ طلیحہ بن بلال قرشی

٦٥۔ خلید بن منذربن ساوی عبدی

٦٦۔حارث بن یزید عامری (دوسرا!)

۲۸

تیسرا حصہ :

مختلف قبائل سے چند اصحاب

٦٧۔ عبداﷲ بن حفص قرشی

٦٨ ۔ ابوحبیش عامر کلابی

٦٩۔ حارث بن مرّہ جہنی

چو تھا حصہ:

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ہم عصر ہونے کے سبب بنے اصحاب

٧٠ ۔ قرقرہ یا قرفہبن زاہر تیمی

٧١۔ نائل بن جعشم

٧٢۔ سعد بن عمیلہ فزاری

٧٣ ۔ قریب بن ظفر

٧٤ ۔ عامر بن عبدالا سد

پانچواں حصہ:

ارتداد کی جنگوں کے افسر اور سپہ سالار

٧٥ ۔ عبدالرحمان ابوالعاص

٧٦۔ عبیدة بن سعد

٧٧ ۔ خصفہ تیمی

٧٨۔ یزید بن قینان

٧٩۔صیحان بن صو حان

٨٠ ۔عباد ناجی

٨١۔شخریت

۲۹

چھٹا حصہ :

ابو بکر کی خدمت میں پہنچنے کے سبب بننے والے اصحاب

٨٢۔ شریک فزاری

٨٣۔ مسور بن عمرو

٨٤۔معاویہ عذری

٨٥۔ذو یناق و شہر ذو یناف

٨٦۔معاویۂ ثقفی

ساتواں حصہ:

ابوبکر کی جنگوں میں شرکت کرنے کے سبب بننے والے اصحاب

٨٧۔ سیف بن نعمان لخمی

٨٨۔ ثمامہ بن اوس بن ثابت

٨٩۔مہلہل بن یزید ۔

٩٠۔ غزال ھمدانی

٩١۔معاویہ بن انس

٩٢۔جراد بن مالک نویرہ

٩٣۔عبد بن غوث حمیری ، جو ابوبکرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی سپاہ کی مدد کرنے کے سبب بعنوان صحابی پہچانا گیا ہے :

۳۰

پہلا حصہ

عراق جنگوں میں سعد وقاص کے ہمراہ جنگی افسر اور سپہ سالار (١)

٥٤۔ بشر بن عبداﷲ

٥٥۔ مالک بن ربعیہ تیمی ( تیم رباب)

٥٦۔ہزھاز بن عمرو عجلی

٥٧۔ حمیضہ بن نعمان بارقی

٥٨۔ جابر اسدی

٥٩۔عثمان بن ربیعۂ تقفی

٦٠۔ سواد بن مالک تمیمی

۳۱

٥٤ واں جعلی صحابی بُشر بن عبداﷲ

ابن "ابن " حجر کی کتاب ''اصابہ '' میں اس صحابی کا یوں تعارف کرایاگیا ہے :

بشربن عبداﷲ :سیف نے اپنی کتاب ''فتوح '' میں لکھا ہے کہ خلیفہ عمر بن خطاب نے ١٤ھ کو اسے '' سعد وقاص'' کے ہمراہ بھیجا۔

سعد نے اس ماموریت کے دوران ''بشر '' کو'' قیس'' کے ایک ہزار جنگجوؤں کی سرپرستی پر منتخب کیا ہے ۔

طبری نے بھی انہی مطالب کو اپنی ''تاریخ '' میں درج کیا ہے ۔ اور ابن ابی "ابن " شبیہ نے اپنے مصادر سے روایت کی ہے کہ قدما میں رسم تھی کہ جنگجوؤں میں صحابی کے علاوہ کسی کو سپہ سالار کے طور پر منتخب نہیں کیا جا تا تھا (ز)(ابن حجر کی بات کا خاتمہ )

ابن حجر نے حرف ''ز'' کو اپنی بات کے اختتام پر اس لئے کیا کر تا ہے تاکہ یہ بتائے کہ اس نے اس صحابی کے نام کو دوسرے تذکرہ نویسوں پر استدر اک کر کے اسے اضافہ کیا ہے ۔

بُشر کے بارے میں ابن "ابن " حجر کے مطالب تاریخ طبری میں یوں ذکر ہوئے ہیں :

... اور'' قیس عیلان '' کے ایک ہزار جنگجو اس سعد وقاص کے ہمراہ عراق کی طرف روانہ ہوئے اور ان کی کمانڈ بُشر بن عبداﷲھلالی، کر رہا تھا۔

یہاں پر ہم دیکھتے ہیں کہ طبری نے ''بشر'' کو ''ہلالی '' کے عنوان سے پہچنوایا ہے اور یہ تعارف اس کی طرف سے نہیں ہے بلکہ سیف کی طرف سے ہے ۔ اس بنا پر سیف نے اپنی اس خیالی تخلیق کو قبیلۂ ''ہلال بن عامر صعصعة بن..... عیلان بن مضر''سے خلق کیا ہے ۔

اس داستان کے راوی:

سیف نے ''بشر بن عبداﷲ ''کے افسانہ میں درج ذیل ناموں کو راویوں کے طور پر ذکر کیاہے۔

١۔''محمد و مستینر'' کہ دونوں اس کے خیالی راوی ہیں ۔

٢۔''طلحہ و حنش'' دونوں افراد مجہول اور نامعلوم ہیں اور ہم نہیں جانتے کہ سیف نے ان سے کن کو مراد لیا ہے !

۳۲

اس افسانہ کی اشاعت کرنے والے علما:

درج ذیل علماء نے افسانہ ''بشر ''کی اشاعت میں سیف کی نمایا ں مدد کی ہے:

١۔امام المورخین ،محمد بن جریر طبری نے اپنی تاریخ میں سیف کے نام کے ساتھ ۔

٢۔ ابن "ابن " اثیر نے اپنی تاریخ میں طبری سے نقل کرکے ۔

٣۔ ابن خلدون نے اپنی تاریخ میں تاریخ طبری سے نقل کر کے ۔

٤۔ابن حجر نے اپنی کتاب ''اصابہ '' میں ، سیف کی کتاب ''فتوح ''اور تاریخ طبری سے نقل کرکے ۔

قابل ذکر بات یہ ہے کہ ابن "ابن " حجر نے ''بشر '' کو اس لئے اپنی کتاب کے پہلے حصہ میں ذکر کیا ہے کہ سیف کے کہنے کے مطابق قدمانے ''بشر '' کو مدینہ کو ترک کر کے قادسیہ کی جنگ میں شرکت کرنے کیلئے عراق کی طرف روانہ ہوتے وقت ''قیس عیلان ''کے ایک ہزار جنگجوؤں کی کمانڈ سونپی تھی۔

اس کے علاوہ ابن "ابن " حجر نے ''ابن ابی شیبہ'' کی بات پر اعتماد اور توجہ بھی کی ہے ۔ جہا ں اس نے ایک مجہول ماخذسے یہ کہتے ہوئے کہ ''اس (ماخذ)پر کوئی اعتراض نہیں ہے '' بیان کیا ہے کہ قدیم جنگوں میں صحابی کے علاوہ کسی اور کو سپہ سالار کے عنوان سے منتحب نہیں کر تے تھے !!

اورہم نے یہ بھی دیکھا کہ یہ روایت تاریخی حقائق اورموجودہ ما خذ و مصادر سے کتنا تناقص رکھتی ہے !!

اس کے علاوہ ''بشر''کی ''عبدالقیس''کے ایک ہزار جنگجوؤں کی سپہ سالاری کی روایت صرف سیف کی زبانی نقل ہوئی ہے اور کسی دوسرے مصدر و منبع میں اس کا ذکر موجود نہیں ہے۔

سرانجام ہم نے بنیادی طور پر اس صحابی بشر بن عبدا للہ ہلالی اور اس داستان کے راویوں کو سیف بن عمر تمیمی افسانہ ساز کے علاوہ کسی اور منبع خبریمیں نہیں پایا !

۳۳

ان مقدماتی باتوں کے مدنظر معلوم ہوا کہ داستان ''بشر بن عبداﷲ''کا ''موضوع ،وجود ،اخبار اور راوی '' سب سرا پا جھوٹ اور جعلی تھے ، یہ ایک افسانہ ہے جسے سیف نے گڈھ لیا ہے ۔تاکہ علماء کو اسلام کے اصلی راستہ سے منحرف کرے ۔ ستم ظریفی ہے کہ'' محمدبن جریرطبری اور ابن حجر'' جیسے نامور علماء نے اس افسانہ اور سیف کے دیگر افسانوں کو اپنی معتبر و گراں قدر کتابوں میں درج کر کے سیف کے منحوس مقاصد کی خدمت اور اسلام کے ساتھ....

یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ اگر چہ ابن "ابن " حجر نے اس خبر کے مصدر (قدما کی رسم یہ تھی کہ جنگوں میں صحابی کے علاوہ ....)کو ابن ابی شیبہ پہنچایا ہے ۔ لیکن یہ نہیں کہا ہے کہ انہوں نے روایت کو ''ابن ابی شیبہ ''کی کس کتاب سے نقل کیا ہے !

ہم بعد میں یہ بھی دیکھیں گے کہ ابن "ابن " حجر اپنے دیگر اصحاب کا تعارف کراتے وقت صرف '' ابن ابی شیبہ '' کی مذکورہ روایت کو نقل کرنے پرہی اکتفا کی ہے اور اس کے مصدر کا بھی نام نہیں لیتا ہے ۔

مصادر و مآ خذ

بشر بن عبداﷲ ،کے حالات:

١۔ ابن "ابن " حجر کی '' اصابہ '' (١/١٥٧) حصہ اول حرف ''ب '' حالات کی تشریح٦٦٥- سعد وقاص کی عراق کی طرف عزمیت اور بشر کی سپہ سالاری:

١۔ تاریخ طبری ١٧ ھ کی روداد (١/ ٢٢١٩)

٢۔ تاریخ ابن "ابن " اثیر (٢/٣٤٧)

٣۔ تاریخ ابن "ابن " خلدون (١/٣١٦)

سیف کے جعلی صحابی کا شجرہ نسب:

١۔ ''اللباب'' (٣/٢٩٦)

٢۔ ابن "ابن " حزم کی ''جمھرہ'' (٢٦٩۔٢٧٣)

۳۴

٥٥ واں جعلی صحابی مالک بن ربیعہ

ابن "ابن " حجر کی کتاب ''اصابہ ''میں یہ صحابی یوں پہچنوایا گیا ہے :

مالک بن ربیعہ بنی تیم ربا ب ١سے تعلق رکھتاتھا ۔ وہ سعد بن ابی وقاص کا ایک کرنیل تھا ، جس نے خلافت عمر کے اوائل میں اس کے ساتھ عراق کی طرف عزیمت کی تھی ۔

قادسیہ کی جنگ کے سپہ سالار اعظم سعد وقاص نے مالک بن ربیعہ کو اپنی سپاہ کے ایک دستہ کی کمانڈ سونپی تھی ۔

ابو جعفر محمدبن جریر طبری نے بھی مالک بن ربیعہ کے بارے میں ان ہی مطلب کو درج کیا ہے اورہم اسے پہلے بھی کہہ چکے ہیں کہ قدما کی یہ رسمتھی کہ وہ جنگ میں صحابی کے علاوہ کسی اور کو سپہ سالار معین نہیں کرتے تھے ۔(ابن حجر کی بات کا خاتمہ )

مالک بن ربیعہ کے بارے میں ابن "ابن " حجر کی تشریح کے تین حصے ہیں ، پہلا حصہ شجرہ ٔنسب پر مشتمل ہے ۔ہم

____________________

١۔ ابن حجر کی کتاب ''اصابہ '' میں '' بنی تیم مرة رباب '' آیا ہے ،ہم نے انساب عرب میں اس قسم کے نسب کو نہیں پایا ہے یہ وہی ''بنی تیم رباب ''ہونا چاہئے ، جس کا ہم نے متن میں ذکر کیاہے ۔

۳۵

حسب ذیل اس پر بحث کرتے ہیں ۔

١ ۔ عراق کی ''جنگ ِ قادسیہ میں سعد بن ابی وقاص کی طرف سے قبیلۂ تیم رباب کے ''مالک بن ربیعہ''کو ایک فوجی دستہ کے سپہ سالار کے عنوان سے انتصاب کی روایت صرف تاریخ طبری میں وہ بھی سیف بن عمر تمیمی سے نقل کر کے درج کی گئی ہے کہیں اورنہیں ہے!!

٢۔ اس انتصاب اور اس سے مربوط دیگر و قائع کے بارے میں طبری نے صراحت کے ساتھ سیف کانام لے کر اپنی کتاب کے چھ صفحات پر مفصل روشنی ڈالی ہے ۔ شاید خبر کا طولانی ہونا سبب بن گیا ہوکہ علامہ ابن "ابن " حجر کی نظر اس روایت کے اصلی منبع یعنی سیف بن عمر پر نہ پڑی ہو اور اس طرح اس نے مالک بن ربیعہ کے حالات پر روشنی ڈالتے ہوئے صراحت کے ساتھ ''تاریخ طبری ''کو اس کا منبع بیان کیاہے۔

قادسیہ کی جنگ میں فوج کے ایک دستہ کے لئے''مالک بن ربیعہ کے سپہ سالار بننے کے سلسلہ میں جس نکتہ سے استفادہ کیا گیا ہے ، اور جسے تاریخ طبری نے درج کیاہے ، حسب ِ ذیل ہے؛

سیف نے ''طلحہ '' سے اس نے '' کیسان صنبیہ کی بیٹی '' سے اور اس نے قا دسیہ کی جنگ کے ایک اسیر سے روایت کی ہے ....(یہاں تک کہ وہ کہتاہے:)

اسی طرح اسلامی فوجی کے سپہ سالار اعظم سعد وقاص نے '' مالک بن ربیعہ تیمی تیم رباب وائلی'' کو''مساور بن نعمان تیمی ربیعی '' کے ہمراہ ایک اور فوجی دستہ کے کمانڈر کے طور پر منتخب کیا۔

ان دو کمانڈرو ں نے اپنے ماتحت افراد کے ساتھ علاقہ''قیوم '' پر حملہ کیا۔ قبائل '' تغلب ونمر'' کے اونٹ ہنکالے گئے، اور اس علاقہ کے لوگوں کا قتل عام کیا اور فاتحانہ طور پر صبح سویرے سعد کی خدمت میں حاضر ہوگئے (طبری کی بات کا خاتمہ )

٣۔ ہم نے ابن "ابن " حجر کی بیان کردہ روایت کہ '' قدما صحابی کے علاوہ کسی دوسرے کو سپہ سالار ی کے عہدہ پرمنتخب نہیں کرتے تھے ''پر پہلے ہی مفصل بحث کی ہے ۔

۳۶

اور ہمیں یاد ہے کہ ابن حجر نے مذکورہ خبر کو ''بشر بن عبداﷲ کے حالات پر روشنی ڈالتے ہوئے ''ابن ابی شیبہ '' سے نقل کر کے اپنی کتاب میں درج کیا ہے ۔

اور ہم یہ بھی نہیں بھولے ہیں کہ ابن "ابن " حجر نے اپنی کتاب کے مقدمہ میں تاکید کی ہے کہ کتاب ''اصابہ '' کو تین حصوں میں تقسیم کرنے اور اس کے پہلے حصہ کو سپہ سالار ی کے عہدہ فائز اصحاب کے لئے مخصوص کرنے کا سبب وہی '' ابن ابی شیبہ '' کی روایت تھی ۔

٤۔اب رہا ، سیف کے اس جعلی صحابی کا نسب ،ابن حجر نے اپنی کتاب اصابہ میں اسے ''تیمی اور بنی تیم مرّہ رباب ''کے نام سے پہچنوایا ہے اور ہم نے کہا ہے کہ یہ نسب ظاہراً غلط ہے ، اور صحیح ''تیم رباب '' ہے ''مرة '' نہیں ہے ۔

قبائل '' بنی منات '' کے ایک مجموعہ کو ''رباب'' کہاجاتاہے۔ انہوں نے اپنے چچیرے بھائیوں ''یعنی بنی سعد منات ''کے خلاف قبیلۂ ''ضبّہ ''کے ساتھ پیمان باندھا تھا ۔ انہوں نے اس پیمان کے عقد کے وقت یکجہتی کے طور پر اپنے ہاتھوں کو ''رُب ''سے پرایک برتن میں ڈبویاتھا۔

اوراسی مناسبت سے ''تیم بن عبد منات ''کے فرزندوں نے ''تیم رباب ''کی شہرت پائی ہے۔

لیکن یہ کہ تاریخ طبری میں مالک بن ربیعہ کی نسبت ''بنی تیم رباب وائلی ''سے دی گئی ہے ہم نہ سمجھ سکے کہ ''وائلی ''سے سیف کی مراد کیا تھی۔ اگر وائلی سے مراد ''عوف بن عبد منات ادّ ''کے نواسہ ''وائل بن قیس '' کی طرف نسبت ہے جو'' تیم رباب'' کے رشتہ دار تھے تو وہ ایک دوسرے کے چچیرے بھائی ہیں ۔

اگر ''وائلی ''سے سیف کا مقصد قبائل سیاء سے جذام کے نواسہ ''وائل بن مالک '' سے قرابت داری ہو تو یہ قبیلہ ''تیم رباب '' قبائل عدنان میں سے ہے اور یہ آپس میں جمع نہیں ہوسکتے اور نسب کے لحاظ سے آپس میں کافی اختلاف و فاصلہ رکھتے ہیں ۔

ہم نہیں جانتے کہ سیف اس مسئلہ اور ان دو نسب کی دوری سے آگاہ تھا یا اپنے شیوہ کے مطابق اس نے عمداً ''بنی تیم رباب وائلی ''لکھا ہے اور اس کا مقصد دانشمندوں کو حقا ئق سے گمراہ اور شبہ سے دو چار کرنا اور تحقیق سے سلسلے میں اختلاف ایجاد کرنا تھا؟

۳۷

یایہ کہ خوش فہمی کے عالم میں یہ قبول کریں کہ سیف میں کسی قسم کا چھل کپٹ نہیں تھا بلکہ وہ ایک غلط فہمی سے دوچار ہوا ہے ، تو یہ بعید نظر آتا ہے کیونکہ سیف کی تحریروں سے صاف ظاہر ہے کہ وہ انساب عرب کے بارے وسیع علم رکھتا تھا۔

تیسری صورت یہ ہے کہ انساب عرب کے بارے میں سیف دوسرے صاحب تالیف نسب شناسوں کی نسبت کافی اطلاعات رکھتاتھا اور وہ ایسے قبیلوں کو بھی جانتاتھا کہ دوسرے ان سے لا علم تھے اسلئے اس نے اپنے مالک بن ربیعہ کو ایسے ہی قبیلوں سے نسبت دی ہے !!

بہرحال بعید نہیں ہے کہ ابن "ابن " حجر نے سیف کے مالک بن ربیعہ کے نسب میں اس نقص کو پاکر مالک بن ربیعہ کے حالات پر شرح لکھتے وقت اس کا شجرہ نسب لکھنے سے پرہیز کیا ہے۔

افسانہ مالک کے مآخذ کی پڑتال

سیف نے اپنے مالک بن ربیعہ کی قادسیہ کی جنگ میں فوجیوں کے ایک دستہ کی سپہ سالار ی کی خبر کو بقول :

طلحہ نے کیسان ضبیہ کی بیٹی سے '' اس نے جنگ قادسیہ کے ایک اسیر سے نقل کیا ہے!! اور نہ ہم جانتے ہیں اور نہ کوئی دوسرا ستارہ شناس کہ سیف کا یہ طلحہ کون ہے !

کیسان ضبیّہ کی بیٹی کا کیا نام تھا اور خود کیسان ضبیہ کون ہے ؟!

بالآخر قادسیہ کی جنگ کے اس بدقسمت اسیر کا نام کیاتھا؟!

ہم نے بیکار اپنا قمیتی وقت صرف کر کے مختلف کتابوں ، روائی مناطع اور اسلامی مصادر ومآ خذ میں جستجوں کی تاکہ شائد کیسان ضبیہ کی بیٹی کا کہیں سراغ ملے۔ لیکن ہماری یہ ساری تلاش بے نتیجہ ثابت ہوئی ۔

۳۸

گذشتہ بحث کا خلاصہ اور نتیجہ :

ہم نے دیکھا کہ سیف بن عمر تنہا شخص ہے جس نے سعد وقاص کے حکم سے ''مالک بن ربیعہ ''اور ''مساور '' کی ایک فوجی دستے کی سپہ سالاری ، اور ان کے علاقہ ''قیوم '' پر حملہ کرنے کی روایت بیانں کی ہے ۔

اس کے علاوہ ہم نے دیکھا کہ سیف نے ''مالک بن ربیعہ ''کے لئے ایک حیرت انگیز شجرہ نسب گھڑلیا ہے اور اسے کسی پروا کے بغیر اپنی کتا ب میں میں درج کیاہے ، نامعلوم اور مجہول راویوں کو کسی لحاظ کے بغیر سند اور مأخذکے طور پر پہچنوایا ہے!

اور آخر ہم میں نے محترم عالم ابن "ابن " حجر کو دیکھا کہ اس نے سیف کے افسانہ کے دو خیالی اشخاص مالک و مساور کورسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے مسلح اور حقیقی اصحاب کے طور پر پہچنوا کر ان کے حالات کی شرح لکھی ہے۔

یہ امر قابل ذکر ہے کہ سیف کے افسانہ میں ''مالک اور مساور '' کے ''فیوم '' نامی ایک جگہ پر چڑھائی کا ذکر آیا ہے ۔اب ہم دیکھتے ہیں کہ ''فیوم'' کہاں پر واقع ہے ۔

جہاں تک معلوم ہے ''فیوم '' مصر میں ایک معروف جگہ ہے ۔ ایسا لگتا ہے کہ سیف اس سے پورے طور پر مطلع تھا اور لہذا اس نے اسی کی ہم نام جگہ کو عراق میں خلق کیا ہے!

یہ اسلامی جغرافیہ شناس اور محترم عالم یاقوت حموی ہے جس نے سیف کی باتوں پر اعتماد کر کے اس کے ''فیوم '' کو اپنی کتاب ''معجم البلدان'' میں خصوصی طور پر جگہ معین کر کے لکھاہے :

''فیوم '' دوجگہوں کانام ہے ۔ ایک مصر میں ہے اور دوسری عراق میں شہر ''ھیت ''کے نزدیک۔

اس کے بعد یاقوت حموی نے اپنی کتاب میں مصر کے ''فیوم '' کے بارے میں تین صفحوں پر مفصل تشریح کی ہے ۔آخر میں چونکہ عراق کی ''فیوم '' نامی جگہ کے بارے میں کچھ تھا ہی نہیں جسے وہ لکھتا ،اس لئے صرف اتنا لکھنے پر اکتفاکرتاہے:

یہ فیوم عراق میں شہر ''ھیت '' کے نزدیک ہے ۔

۳۹

ایسا لگتا ہے حموی کے شہر ''ھیت '' کو انتخاب کرنے کا سبب یہ تھا کہ سیف کے افسانہ سے معلوم ہوتا ہے کہ ''فیوم '' نامی جگہ قادسیہ کے اطراف میں واقع تھی ۔چونکہ ھیت قادسیہ کے نزدیک ہے ۔لہذا یاقوت حموی نے بھی اندھا دھند ایک اندازہ سے کہہ دیا کہ ''فیوم ''عراق کے شہر ھیت کے نزدیک واقع ہے ۔ جبکہ یہ خبر بنیادی طور پر جھوٹ اور من گڑھت ہے اور ''فیوم '' نامی یہ جگہ بھی سیف کے دوسرے مطالب کی طرح اس کے خیالات کی تخلیق ہے اور حقیقت میں وجود نہیں رکھتی ہے ۔

یاقوت نے اس غلط فہمی کو اپنی دوسری کتاب '' المشترک ''جو ہم نام مقامات کے لئیمخصوص ہے میں تکرار کرتے ہوئے لکھاہے :

''فیوم '' دو جگہوں کا نام ہے ''

اس کے بعد جو کچھ اس سلسلے میں اپنی ''معجم'' میں درج کیا ہے اسے یہاں پر''المشترک''میں بھی ذکر کرتا ہے۔

یہاں پر یہ گمان تقویت پاتا ہے شاید سیف بن عمر نے اپنے افسانہ کے خیالی اداکار مالک بن ربیعہ تیمی کے نام کو بھی ''مالک بن ربیعہ ،ابو اسید ساعدی انصاری ''یا '' ابن "ابن " وھب قرشی '' یا ان کے علاوہ کسی اور کے نام سے لیا ہوگا تاکہ علماء و محققین کو گمراہ کرکے حیران و پریشان کر ے کیونکہ اصحاب میں اسی ہم نامی کے مسئلہ نے کتنے محققین اور علماء کو پریشان اور تشویش سے دو چار کر کے گمراہی اور غلطی کا مرتکب بنایا ہے۔

مصادر و مآخذ

مالک بن ربیعہ کے حالات:

١۔ابن حجر کی ''اصابہ '' (٣/٣٢٤) پہلا حصہ

٢۔ تاریخ طبری (ا/٢٢٤٤۔٢٢٤٥) قادسیہ کے وقائع کے ضمن میں ۔

''رباب ''کے نسب کے بارے میں :

١۔''جمہرہ انساب العرب '' ابن "ابن " حزم (١٩٨)

٢۔ لباب الانساب'' لفظ ''رباب '' (١٢٠)

٣۔ ''عجالہ ھمدانی'' لفظ ''وائلی '' (١٢٠) اور جذامی (٣٨)

۴۰

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

پانچویں فصل

کتاب نامہ دعائے ندبہ

جب بعض ناآگاہ اہل قلم نے اپنے مقصد کو پورا کرنے اور ناجواں مردانہ حریم دعائے ندبہ پر دھاوا بولنے کے لیے اس مستحکم دشمن شکن دعا کے متعلق اعتراضات کا اظہار کرنا شروع کیا تو علماء و دانشمندوں کے ایک گروہ اور متعہد مولفین نے حریم دعائے ندبہ سے دفاع کیا مزید اس سلسلہ میں گراں قدر کتابیں تحریر کیں اور عظیم مکتب تشیع کے حریم کی صمیمی طور پر حمایت کی۔

مولف نے ان گراں قدر کتابوں میں سے بعض کو کتاب نامہ حضرت مہدی علیہ السلام(۱) میں جمع کیا ہے اور ان کی کتاب شناسی توصیفی میں تفصیلی وضاحت دی ہے ۔

دعائے ندبہ سے متعلق جو کتابوں کے مختلف عناوین نشر ہو چکے ہیں خواہ شرح،ترجمہ، سند یا اس کے دوسرے پہلوؤں کے بارے میں رہے ہوں جہاں تک مولف کی رسائی ہو سکی وہ سب مندرجہ ذیل ہیں:

_______________________

۱۔ کتابشناسی توصیفی،جو حضرت بقیة اللہ ارواحنا فداہ کے متعلق /۲۰۰۰ سے زائد مستقل کتابوں پر مشتمل ہے ۔

۲۰۱

۱ ۔ انوار الولایة ،دعائے ندبہ کے متعلق کیے گئے اعتراضات کے جواب میں ۔

تالیف :آیت اللہ الحاج شیخ لطف اللہ صافی گلپایگانی (ہم عصر(

تعارف: عرفان محمود

طبع :بیروت ،دار الہادی، ۱۴۱۹ ھئق

۲ ۔ بہ عشق مہدی ،منظومہ دعائے ندبہ ۔

ناشر:محمد شائق قمی (ہم عصر(

طبع:قم،رووف ۱۳۷۰ ئش

۳ ۔ پاسخ ما بہ گفتہ ھا،دعائے ندبہ کے متعلق کیے گئے اعتراضات کے جواب میں۔

تالیف :عبد الصاحب سید محمد مہدی مرتضوی لنگرودی (ہم عصر(

طبع:قم ،انتظاری ، ۱۳۵۱ ئش

۴ ۔ تحقیقی دربارہ دعائے ندبہ ،کیے گئے اعتراضات کے جواب میں ۔

تالیف: رضا استادی (ہم عصر(

طبع: قم، مولف، ۱۳۵۱ ئش

۵ ۔ ترجمہ دعائے ندبہ ،شرح اور ترجمہ دعائے ندبہ ۔

شارح: مولی رفیع گیلانی۔ بارہویں صدی ہجری ۔

تاریخ کتابت ۱۱۵۳ ھئق(۱)

________________________

۱۔الذریعہ الی تصانیف الشیعہ ،آغا بزرگ طہرانی ،ج۲۶، ص۱۹۷۔

۲۰۲

۶ ۔ ترجمہ دعائے ندبہ ،متن اور دعائے ندبہ کا ترجمہ ۔

مترجم :الٰہی قمشہ ای (متوفی ۱۳۹۳ ھئق(

متعدد مرتبہ طبع ہو چکی ہے ۔

۷ ۔ ترجمہ وسیلة القربة در شرح دعائے ندبہ ۔

تالیف: علی بن علی رضا خوئی ،(متوفی ۱۳۵۰ ھئق(

مترجم : سید جلال الدین محدث ارموی ،(متوفی ۱۳۹۹ ھئق(

۸ ۔جمال حضور در آئینہ غیبت ،شرح و تفسیر دعائے ندبہ ۔

تالیف:سید حسین خادمیان (ہم عصر(

طبع: اصفہان ،مولف ، تاریخ طبع نامعلوم

۹ ۔ درس ہایی از ولایت ، کیے گئے اعتراضات کے جواب میں ۔

تالیف: الحاج شیخ محمد باقر صدّیقینی (متوفی ۱۴۱۴ ھئق(

طبع: اصفہان ،مولف،تاریخ طبع نامعلوم

۱۰ ۔ دعائے ندبہ با ترجمہ فارسی ۔

مترجم :غلام رضا ناصرنیا(ہم عصر(

طبع : مشہد مقدس،طوس، ۱۳۵۰ ئش

۲۰۳

۱۱ ۔ دعائے ندبہ با ترجمہ فارسی ۔

مترجم و خطّاط: الحاج شیخ عباس مصباح زادہ (ہم عصر(

طبع : تہران ،اقبال ،سنگی

۱۲ ۔ دعائے ندبہ با ترجمہ منظوم فارسی ،انگریزی ترجمہ کے ساتھ۔

ناشر :الحاج شیخ عباس مصباح زادہ(ہم عصر(

طبع: ویرجینیا ،امریکا ،موسسہ اہل البیت ۔

۱۳ ۔ دعائے ندبہ با ترجمہ منظوم فارسی ۔

ناشر:ابو القاسم امین زادہ (ہم عصر(

طبع :تہران ،نعیمی ، ۱۳۵۳ ئش

۱۴ ۔ دعائے ندبہ با ترجمہ فارسی منظوم ۔

ناشر: رضا موحّد ،تخلّص، ”حقیر تہرانی“۔

طبع : مکان و تاریخ طباعت نامعلوم ۔

۱۵ ۔ دعائے ندبہ بر اساس قدیمی ترین نسخہ ھا، متن، ترجمہ اور سندی بحث۔

تالیف: ڈاکٹر باقر قربانی زرّین (ہم عصر(

طبع : تہران ،بشارت ، ۱۳۷۵ ئش۔

۲۰۴

۱۶ ۔ دعائے ندبہ و ترجمہ آن ،اردو زبان میں ۔

مترجم:محمد متقی ۔

طبع :ہند

۱۷ ۔ دعائے ندبہ و ترجمہ آن، اردو زبان میں ۔

مترجم :ناصر رضوی

طبع :حیدر آباد دکن ، ۱۹۶۹ ءء

۱۸ ۔ دعائے ندبہ و ترجمہ آن،دعائے ندبہ کا متن اور فارسی ترجمہ ۔

مترجم:سرتیپ شمس الدین رشدیّہ۔

طبع :تہران ،کتاب فروشی حافظ (تاریخ طباعت نامعلوم(

۱۹ ۔ دعائے ندبہ و تفسیر آن ، شرح وتفسیر دعائے ندبہ ۔

تالیف: سید محمد حسن میرجہانی (متوفی ۱۴۱۳ ھئق(

طبع :تہران ،مکتب الغدیر ، ۱۳۸۵ ھئق(

۲۰ ۔ دعائے ندبہ و زیارت حضرت صاحب الزمان علیہ السلام ،متن ،ترجمہ و آثار دعائے ندبہ ۔

تالیف : علی اکبر شفیعی ۔

طبع :اصفہان ،دین و دانش ، ۱۳۸۵ ھئق

۲۰۵

۲۱ ۔ سخنان نخبہ ،در شرح دعائے ندبہ ۔

تالیف :علی عطائی اصفہانی ۔

طبع : قم ،علامہ ، ۱۳۵۱ ئش۔

۲۲ ۔ شرح دعائے ندبہ ،دعائے ندبہ کے فقرات کی شرح اور معترضین کا جواب۔

تالیف: مولی حسین تربتی سبزواری (متوفی ۱۳۰۰ ھئق(

مولف کا خطی نسخہ کتاب خانہ سید عبد اللہ برہان سبزوار میں موجود ہے ۔(۱)

________________________

۱۔الذریعہ ،آغا بزرگ تہرانی ،ج۳ا،ص ۲۶۰۔

۲۰۶

۲۳ ۔ شرح دعائے ندبہ ۔

تالیف:صدر الدین ،سید محمد بن نصیر الدین محمد طباطبائی یزدی (متوفی ۱۱۵۴ ھئق(

طبع :یزد۔

۲۴ ۔ شرح دعائے ندبہ ۔

تالیف: سید علی رضا ریحان یزدی(متوفی ۱۳۶۳ ئش)صاحب آئینہ دانشوران، از منابع ناصر رضوی در کتاب دعائے ندبہ و ترجمہ آن ،اردو زبان میں ۔

۲۵ ۔ شرح دعائے ندبہ ۔

تالیف: محمد باقر شریعت پناہ(ہم عصر(

مولف کا خطی نسخہ مولف کے کتاب خانہ تہران میں موجود ہے ۔

۲۶ ۔ شرح دعائے ندبہ ۔

تالیف: سید محمود بن سید سلطان علی شوشتری مرعشی (متوفی تقریباً ۱۳۵۵ ھئق(

اس کے خطی نسخہ کی رپورٹ شیخ آغا بزرگ نے الذریعہ میں ذکر کی ہے(۱)

۲۷ ۔ شرح دعائے ندبہ ۔

تالیف: سید محی الدین علوی طالقانی (متوفی ۱۳۷۸ ھئق(

طبع: تہران ،صدوق، ۱۳۷۰ ئش۔

مولف نے اس کا نام کشف العقدہ فی شرح دعائے الندبہ رکھا ہے لیکن شرح

____________________

۱۔ الذریعہ ،آغا بزرگ تہرانی ،ج۳ا،ص۲۶۱۔

۲۰۷

دعائے ندبہ کے عنوان سے طبع ہوئی ہے(۱)

۲۸ ۔ شرح دعائے ندبہ از کتاب وسنت ،با استناد بہ احادیث فریقین ۔

تالیف: سید علی اکبر موسوی محب الاسلام (ہم عصر(

طبع: تہران،مولف ، ۱۳۶۳ ئش۔

۲۹ ۔ شرح دعائے ندبہ ۔

تالیف: مرزا حیدر قلی خان ،سردار کابلی (متوفی ۱۳۷۲ ھئق)۔

اس کے خطی نسخہ کی رپورٹ مرحوم خیابانی نے ذکر کی ہے(۲)

۳۰ ۔ شفاء الامة ، ترجمہ شرح دعائے ندبہ ۔

تالیف:محمد جعفر شاملی شیراز۔

طبع: شیراز ،مولف ، ۱۳۷۳ ھئق۔

۳۱ ۔ عقد الجمان لندبة صاحب الزمان۔

تالیف: مرزا عبد الرحیم کلیبری تبریزی،(متوفی ۱۳۳۴ ھئق۔

کتاب کا خطی نسخہ مرحوم محدّث ارموی کے کتاب خانہ تہران میں موجود ہے ۔

۳۲ ۔ فروغ ولایت و دعائے ندبہ ،معترضین کے اعتراضات کا جواب۔

تالیف: آیت اللہ الحاج شیخ لطف اللہ صافی گلپائیگانی (ہم عصر(

طبع: تہران، بنیاد بعثت ، ۱۳۶۰ ئش۔

________________________

۱۔ شرح دعائے ندبہ ،سید محی الدین علوی طالقانی ،ص۱۷۔

۲۔علمائے معاصرین ،ملا علی واعظ خیابانی ،ص۲۹۳۔

۲۰۸

۳۳ ۔ فریاد منتظرین ،ترجمہ و شرح دعائے ندبہ ،اردو زبان میں۔

تالیف: سید علی شرف الدین بن سید محمد موسوی۔

طبع :پاکستان۔

۳۴ ۔ کشف الکربة فی شرح دعائے الندبہ، دعائے ندبہ کی سب سے مفصل شرح۔

تالیف: سید جلال الدین محدث ارموی ،(متوفی ۱۳۹۹ ھئق(

اس کا خطی نسخہ متعدد جلدوں میں مولف کے کتاب خانہ تہران میں موجود ہے ۔

۳۵ ۔ مدارک دعائے شریف ندبہ ۔

تالیف: جعفر صبوری قمی(ہم عصر)

طبع: تہران ۱۹۷۷ ءء۔

۳۶ ۔ معالم القربة فی شرح دعائے الندبہ ،عقدالجمان و وسیلة القربة کے ہمراہ ۔

تالیف: سید جمال الدین محدث ارموی (متوفی ۱۳۹۹ ھئق(

مولف کا خطی نسخہ مولف کے کتاب خانہ تہران میں موجود ہے ۔

۳۷ ۔ النخبة فی شرح دعائے الندبہ ۔

تالیف: سید محمود مرعشی (متوفی ۱۴۰۸ ھئق(

تاریخ تالیف: ۱۳۶۱ ھئق۔

۳۸ ۔ ندبہ و نشاط ،دعائے ندبہ کا منظوم ترجمہ اور مفصل شرح۔

تالیف :الحاج احمد زمّردیان (متوفی ۱۴۲۰ ھئق(

طبع :تہران ،دفتر نشر فرہنگ اسلامی ، ۱۳۷۱ ئش۔

۲۰۹

۳۹ ۔ نشریة ینتشربھا انوار دعائے الندبہ،منحرف افکار کے جواب میں ۔

تالیف: شیخ محمد باقر رشاد زنجانی (متوفی ۱۳۵۷ ئش(

طبع: تہران ،مولف ، ۱۳۵۱ ئش۔

۴۰ ۔ نصرة المومنین ،دعائے ندبہ کی حمایت میں ۔

تالیف :عبد الرضا ابراہیمی ۔

طبع :کرمان ،سعادت ، ۱۳۵۲ ئش۔

۴۱ ۔ نوید بامداد پیروزی ،شرح دعائے ندبہ۔

تالیف: سید مصطفیٰ طباطبائی۔

طبع: تہران ،کتاب خانہ صدر ۱۳۸۸ ھئق۔

۴۲ ۔ وسیلة القربة فی شرح دعاء الندبہ ۔

تالیف: علی بن علی رضا خوئی (متوفی ۱۳۵۰ ھئق(

تاریخ تالیف: ۱۳۴۵ ھئق۔مولف کا خطی نسخہ محدث ارموی کے کتاب خانہ میں موجود ہے۔

۴۳ ۔ وظائف الشیعہ ،شرح دعائے ندبہ ۔

تالیف: شیخ عباس علی ادیب اصفہانی ،(متوفی ۱۴۱۲ ھئق(

طبع: اصفہانی ،مولف ، ۱۳۸۲ ھئق۔

۲۱۰

۴۴ ۔ ھدیّة مھدویّہ ، ترجمہ دعائے ندبہ اور حضرت کی طولانی عمر کے متعلق بحث۔

تالیف:صالحی کرمانی ۔

طبع:مولف ۱۳۸۹ ھئق۔

ہم آخر میں چند مقالوں کے عناوین کی طرف اشارہ کریں گے جو اس سلسلے میں نشر ہو چکے ہیں۔

۴۵ ۔ اسناد دعائے ندبہ ۔

اہل قلم کی ایک جماعت ۔

مجلہ ماہانہ مکتب اسلام ،سال ۳ اشمارہ ۷ ،ص ۶۵ ۔ ۶۸ ۔

طبع قم ،تیرماہ ۱۳۵۱ ئش۔

۴۶ ۔ تحقیقی دربارہ دعائے ندبہ ۔

اہل قلم کی ایک جماعت ۔

مجلہ ماہانہ مکتب اسلام ،سال ۱۳ ،شمارہ ۶ ،ص ۶۰ ۔ ۶۵ ۔

یہ دونوں مقالے بعد میں ایک مجموعہ کے ضمن میں بعنوان پرسشھا و پاسخھا بھی نشر ہو چکے ہیں(۱)

۴۷ ۔ پیرامون دعائے ندبہ و سند آن۔

مولف :الحاج شیخ محمد تقی شوشتری ،صاحب قاموس الرجال (متوفی ۱۴۱۵ ھئق(

مجلہ نور علم ،حوزئہ علمیہ قم۔

____________________

۱۔ پرسشھا و پاسخھا ،ناصر مکارم شیرازی و جعفر سبحانی ،ج۲،ص۱۱۶۔۱۳۷۔

۲۱۱

یہ مقالہ بعد میں بعنوان پاسخ معقول و منطقی بہ یک سوال ،ہفدہ رسالہ فارسی کے ضمن میں نشر ہوا۔(۱)

۴۸ ۔ تحقیقی دربارہ دعائے ندبہ ۔

مولف:رضا استادی ۔

دہ رسالہ: رسالہ ششم،ص ۲۷۹ ۔ ۳۱۸ ۔

یہ مقالہ مفصل طور پر مستقلاً اسی عنوان سے مقالہ نگار کی طرف سے اسی کتاب نامہ میں متعارف ہو چکا ہے ۔

________________________

۱۔ ہفدہ رسالہ فارسی ،رضا استادی ،ص۳۳۷،۳۴۵۔

۲۱۲

آخری سخن

یہ معمولی عقیدت مندی کا اظہار، کم بضاعتی کے ساتھ، حضرت بقیة اللہ روحی و ارواح العالمین لہ الفداء کی مقدس بارگاہ میں حضرت جواد الائمہ امام محمد تقی کی بابرکت ولادت کے دن ان کی محترمہ پھوپھی کریمہ اہل بیت حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا کے حرم مطہر کے جوارِ مبارک میں مجلہ موعود کے چیف ایڈیٹر کی پیش کش کی بنا پر اختتام پذیر ہوا۔

یہ سال جو (امیر المومنین -) کے مقدس نام سے مزین ہوا ہے اور چودہ سو چوالیس ( ۱۴۴۴) سال مولائے کائنات امام المتقین سید الصالحین، اسوئہ منتظرین حضرت علی ابن ابی طالب - کی ولادت با سعادت کے مکمل ہورہے ہیں لہٰذا خداوند منان سے درخواست کرتا ہوں کہ اولین مظلوم کائنات”مولود کعبہ“ کے احترام میں ”موعود کعبہ“ اور مظلوموں کے خون کا انتقام لینے والے کے ظہور میں تعجیل فرما، مولف اور ان کا طباعت و اشاعت کے مرحلے میں تعاون کرنے والوں نیز تمام قارئین کرام کے اسماء کو اپنے فضل و کرم سے حضرت کی برحق حکومت کے دوران حضرت کے دیدار سے مشرف ہونے والوں کی فہرست میں درج فرما۔

اس عقیدت مندی کے اظہار کو ہم سے اور تمام عاشقین اور دعائے ندبہ کی مجلسوں میں ”یابن الحسن-“ کہنے والوں کی طرف سے تمام جمعہ کی صبح میں قبول فرما۔ انشاء اللہ

و آخر دعوانا ان الحمد للّٰه ربّ العالمین

۲۱۳

منابع و مآخذ

۱ ۔ نصرة المومنین در حمایت از دعائے ندبہ، عبد الرضا، ابراہیمی،کرمان۔

۲ ۔ الصحیفة الرضویة الجامعة، سید محمد باقر (موحد) ابطحی، قم ۔

۳ ۔ شرح نہج البلاغہ، ابن ابی الحدید، ابو حامد بن ھبة اللہ المدائنی (متوفی ۶۵۶ ء) قاہرہ۔

۴ ۔ السیر و المغازی، محمد ابن اسحاق (متوفی ۱۵۱ ھ ء ق) بیروت ۱۳۹۸ ء ھ ق۔

۵ ۔ الکامل فی التاریخ، عز الدین علی ابن الاثیر، (متوفی ۶۳۰ ھئق بیروت۔

۶ ۔ النھایة فی غریب الحدیث والاثر، مجد الدین ابو السعادات مبارک بن محمد جزری ابن الاثیر (متوفی ۶۰۶ ھء ق) مصر۔

۷ ۔ غایة النھایة، شمس الدین ابن الجزری (متوفی ۶۰۶ ء ھ ق) بغداد۔

۸ ۔ تذکرة الخواص، سبط ابن الجوزی (متوفی ۶۵۴ ء ھ ق)، نجف اشرف۔

۹ ۔ جمال الاسبوع، السید علی بن موسی ابن طاووس (متوفی ۶۶۴ ھ ق)، طبع سنگی، تہران، ۱۳۳ ھء ق۔

۱۰ ۔ فلاح السائل، السید علی بن موسی ابن طاووس، قم۔

۱۱ ۔ معجم مقاییس اللغة، احمد ابن الفارس بن زکریّا (متوفی ۳۹۵ ء ھ ق) مصر ۱۳۸۹ ء ھ ق۔

۱۲ ۔ تفسیر کنز الدقائق، محمد بن محمد رضا ابن مشہدی، (بارہویں صدی) تہران۔

۱۳ ۔ المزار الکبیر، ابو عبد اللہ محمد بن جعفر ابن مشہدی (چھٹی صدی ہجری) قم ۱۴۱۹ ء ھ ق۔

۱۴ ۔ طبقات الشعراء، ابن المعتزّ۔

۱۵ ۔ مناقب علی ابن ابی طالب، ابن المغازلی، (متوفی ۴۸۳ ء ق)۔

۱۶ ۔ الصواعق المحرقہ، احمد ابن حجر ھیثمی مکی، (متوفی ۹۷۴ ء ق) قاہرہ۔

۱۷ ۔ جمھرة انساب العرب، ابن حزم اندلسی (متوفی ۴۵۶ ء ق ) مصر ۱۹۶۲ ء م۔

۱۸ ۔ المسند، احمد ابن حنبل (متوفی ۲۴۱ ھ ق) قاہرہ ۱۳۱۳ ھ ق۔

۱۹ ۔ المقدمة، عبد الرحمن ابن خلدون مغربی، بیروت۔

۲۱۴

۲۰ ۔ وفیات الاعیان، شمس الدین احمد بن محمد بن ابوبکر ابن خلّکان (متوفی ۶۸۱ ھ ق) بیروت۔

۲۱ ۔ الطبقات الکبری، محمد ابن سعد الکاتب (ابن واقدی) متوفی ۲۳۰ ھء ق، لیدن۔

۲۲ ۔ مناقب آل ابی طالب، ابو جعفر محمد بن علی ابن شہر آشوب (متوفی ۵۸۸ ھ ق) بیروت۔

۲۳ ۔ فلاح السائل، ابن طاؤوس (متوفی ۶۶۴ ء ھ ق) قم۔

۲۴ ۔ زوائد الفوائد، السید علی بن علی بن موسی (فرزند ابن طاووس) نسخہ خطبی کتابخانہ مرکزی دانشگاہ تہران۔

۲۵ ۔ اقبال الاعمال، السید علی بن موسیٰ بن طاووس (متوفی ۶۶۴ ، ھ ق)، قم ۱۴۱۷ ء ھ ق۔

۲۶ ۔ الامان من اخطار الاسفار، السید علی بن موسیٰ بن طاووس (متوفی ۶۶۴ ، ھ ق) ۱۴۰۹ ء ھ ق، قم۔

۲۷ ۔ مصباح الزائر، السید علی بن موسیٰ بن طاووس (متوفی ۶۶۴ ، ھ ق)۔

۲۸ ۔مھج الدعوات ،طبع سنگی،تہران۔

۲۹ ۔ کامل الزیارات ،ابو القاسم جعفر بن محمد ابن قولویہ (متوفی ۳۶۸ ھئق) قم۔

۳۰ ۔ السنن ،حافظ ابو عبد اللہ ابن ماجہ ،(متوفی ۲۷۵ ھئق) بیروت۔

۳۱ ۔ مختصر تاریخ دمشق ،محمد ابن مکرم ابن منظور (متوفی ۷۱۱ ھ ق) ،بیروت۔

۳۲ ۔ لسان العرب ، محمد ابن مکرم، ابن منظور ، ۱۴۰۸ ھئق، بیروت۔

۳۳ ۔ السیرة النبویّة ،ابو محمد عبد الملک ابن ہشام ،(متوفی ۲۱۳ ھء ق ) بیروت۔

۳۴ ۔ اہل البیت ،استاد ابو علم توفیق،قاہرہ ۔

۳۵ ۔ جوامع الکلم ،احمد احسائی (متوفی ۱۲۴۳ ھئق) طبع سنگی۔

۳۶ ۔ شرح الزیارة،احمد احسائی (متوفی ۱۲۴۳ ء ھ ق) طبع سنگی۔

۳۷ ۔ شرح عرشیہ، احمد احسائی (متوفی ۱۲۴۳ ء ھ ق) طبع سنگی، تبریز۔

۳۸ ۔ مجموعة الرسائل الحکمیّة ،احمد احسائی (متوفی ۱۲۴۳ ء ھ ق) طبع سنگی۔

۳۹ ۔ شرح دعائے ندبہ ،عباس علی ادیب ،موعود سال اول شمارہ ۶ بہمن و اسفند ۱۳۷۶ ھئق۔

۴۰ ۔ اخبار مکہ،ابو الولیدمحمد بن عبد اللہ بن احمد الازرقی،(متوفی ۲۴۴ ھئق) مکہ۔

۲۱۵

۴۱ ۔ تحقیقی دربارہ دعائے ندبہ ،رضا استادی ،قم، ۱۳۵۱ ئش۔

۴۲ ۔ دہ رسالہ ،رضا استادی، قم ، ۱۳۷۰ ئش۔

۴۳ ۔ ہفدہ رسالہ فارسی، رضا استادی۔

۴۴ ۔ المقالات و الفرق، سعد بن عبد اللہ الاشعری ،(متوفی ۳۰۱ ھئق) تہران ، ۱۹۶۳ ءء

۴۵ ۔ الاغانی ،ابو الفرج الاصفہانی (متوفی ۳۵۶ ھئق) بولاق مصر۔

۴۶ ۔ حلیة الاولیاء ،ابو نعیم الاصفہانی (متوفی ۴۳۰ ھئق) ۱۳۵۷ ھء ق)۔

۴۷ ۔ اعیان الشیعہ ،السید محسن الامین العاملی (متوفی ۱۳۷۱ ھئق) بیروت۔

۴۸ ۔ مفتاح الجنات، السید محسن الامین العاملی (متوفی ۱۳۷۱ ھ ق) بیروت۔

۴۹ ۔ المکاسب ،مرتضی انصاری (شیخ انصاری) (متوفی ۱۲۸۱ ھئق) تبریز، ۱۳۷۵ ھئق۔

۵۰ ۔ التعلیقہ علی المکاسب ،الایروانی ۔

۵۱ ۔ حلیة الابرارفی فضائل محمد و آلہ الاطہار ، السید ہاشم بن سلیمان البحرانی (متوفی ۱۱۰۹ ھئق) طبع سنگی۔

۵۲ ۔ البرہان فی تفسیر القرآن ، السید ہاشم بن سلیمان البحرانی (متوفی ۱۱۰۹ ء ھ ق ) طبع جدید تحقیق شدہ۔

۵۳ ۔ اللوامع النورانیّة ،السید ہاشم بن سلیمان البحرانی (متوفی ۱۱۰۹ ء ھ ق ) اصفہان ، ۱۴۰۴ ھئق۔

۵۴ ۔ التاریخ الکبیر،محمد ابن اسماعیل البخاری،متوفی ۲۵۶ ھئق،بیروت۔

۵۵ ۔ صحیح بخاری ،محمد بن اسماعیل البخاری متوفی ( ۲۵۶ ھ ق) ۹ جلدی، قاہرہ۔

۵۶ ۔ المحاسن ،احمد بن محمد بن خالد البرقی(متوفی ۲۸۰ ھئق)قم ، ۱۴۱۳ ھئق۔

۵۷ ۔ انساب الاشراف،احمد بن یحییٰ البلاذری(متوفی ۲۷۹ ھئق) قاہرہ۔

۵۸ ۔ قاموس الرجال ،شیخ محمد تقی شوشتری(متوفی ۱۴۱۵ ھئق) قم۔

۵۹ ۔ ہفدہ رسالہ، شیخ محمد تقی شوشتری (متوفی ۱۴۱۵ ء ھ ق ) قم۔

۶۰ ۔ قصص العلماء ،محمد تنکابنی (متوفی ۱۳۰۲ ھئق) تہران ۱۳۶۴ ئش۔

۲۱۶

۶۱ ۔ شفاء الصدور فی شرح زیارة العاشور، مرزا ابو الفضل تہرانی (متوفی ۱۳۱۶ ھ ئق)قم۔

۶۲ ۔ المستدرک علی الصحیحین فی الحدیث ،ابو عبید اللہ محمد بن عبد اللہ الحاکم النیشابوری (متوفی ۴۰۵ ھئق) حیدر آباد دکن۔

۶۳ ۔ اثبات الھداة ،محمد بن الحسن الحر العاملی ،(متوفی ۱۱۰۴ ھئق) قم ۱۳۹۹ ء ھ ق۔

۶۴ ۔ وسائل الشیعہ الی تحصیل مسائل الشریعة ،محمد بن الحسن الحر العاملی (متوفی ۱۱۰۴ ء ھ ق) طبع ۳۰ ،جلدوں میں ،موسسة آل البیت ،قم۔

۶۵ ۔ شواہد التنزیل لقواعد التفضیل ،عبید اللہ بن عبد اللہ الحسکانی ،پانچویں صدی ہجری ،تہران ۱۴۱۱ ھئق۔

۶۶ ۔ فہرست کتاب خانہ آیت اللہ مرعشی ،سید احمد حسینی اشکوری،قم ۔

۶۷ ۔ عدّة الداعی ،احمد بن فہد الحلی (متوفی ۵۴۱ ھئق) بیروت۔

۶۸ ۔ ایضاح الاشتباہ ،حسن بن یوسف الحلی( علامہ) (متوفی ۷۲۶ ھئق) قم، ۱۴۱۱ ھئق۔

۶۹ ۔ رجال ،حسن بن یوسف الحلّی (علامہ) متوفی ۷۲۶ ئھ ق نجف اشرف۔

۷۰ ۔ معجم البلدان،یاقوت بن عبد اللہ الحموی البغدادی، متوفی ۶۲۶ ھئق، بیروت ، ۱۳۹۹ ھئق۔

۷۱ ۔ الدیوان ،السید اسماعیل الحمیری، (متوفی ۱۷۳ ھئق)،بیروت۔

۷۲ ۔ نور الثقلین ،عبد العلی الحویزی، (متوفی ۱۱۱۲ ھئق) قم، ۱۳۸۳ ھئق۔

۷۳ ۔کفایة الاثر فی النّص علی الائمة الاثنی عشر، ابو القاسم علی بن محمد بن علی الخراز القمی (چوتھی صدی ہجری ) قم۔

۷۴ ۔ نور الیقین ،محمد خضری ،مصر۔

۷۵ ۔ معجم رجال الحدیث ،السید ابو القاسم الخوئی ،(متوفی ۱۴۱۴ ء ھ ق) قم۔

۷۶ ۔ مقتل الحسین ، موفق بن احمد الخوارزمی ،(متوفی ۵۶۸ ء ھق نجف اشرف۔

۷۷ ۔ المزار ،جمال خوانساری ۔

۷۸ ۔ تلخیص المستدرک ،ذیل المستدرک الصحیحین ،شمس الدین احمد بن محمد الذہبی ، (متوفی ۸۴۸ ء ھ ق) بیروت ۱۳۹۸ ھئق۔

۲۱۷

۷۹ ۔ سیر اعلام النبلاء ، شمس الدین احمد بن محمد الذہبی (متوفی ۱۴۲۱ ء ھ ق) بیروت ، ۱۴۰۱ ھئق۔

۸۰ ۔ میزان الاعتدال ، شمس الدین احمد بن محمد الذہبی (متوفی ۱۴۲۱ ء ھ ق) بیروت۔

۸۱ ۔ کرامات صالحین ، شریف محمد رازی (متوفی ۱۴۲۱ ھئق)قم ۔

۸۲ ۔ گنجینہ دانشمندان ،شریف محمد رازی (متوفی ۱۴۲۱ ء ھ ق) تہران۔

۸۳ ۔ نشریة ینتشر بھا انوار دعاء الندبة ،شیخ محمد باقر رشاد زنجانی (متوفی ۱۳۵۷ ھئق) تہران ۔

۸۴ ۔ مرآة الحرمین ابراہیم رفعت پاشا(متوفی ۱۳۵۳ ھئق)سعودی۔

۸۵ ۔ الاعلام ،خیر الدین الزرکلی،(متوفی ۱۳۹۶ ھئق)طبع پنجم، بیروت، ۱۹۸۰ ءء۔

۸۶ ۔الکشّاف عن حقائق غوامض التنزیل ،محمود بن عمر الزمخشری (متوفی ۵۲۸ ھئق) بیروت۔

۸۷ ۔ ندبہ و نشاط ،احمد زمردیان شیرازی،(متوفی ۱۴۲۰ ھئق) تہران۔

۸۸ ۔ فروغ ابدیت ، جعفر سبحانی ،قم ۱۳۵۱ ھئش۔

۸۹ ۔ تفسیر العیاشی ،محمد بن مسعود بن عیاشی السلمی السمرقندی (العیاشی) (تیسری صدی ہجری) تہران۔

۹۰ ۔ یوم الخلاص ،کامل سلیمان ،طبع چہارم ،بیروت۔

۹۱ ۔ وفاء الوفاء باخبار دار المصطفیٰ ،نور الدین علی بن احمد السمہودی (متوفی ۹۱۱ ھئق) بیروت ۱۴۰۱ ھئق۔

۹۲ ۔حکمة الاشراق،شہاب الدین سہروردی،(متوفی ۵۸۷ ھئق)

۹۳ ۔ الدرّ المنثور ،جلال الدین سیوطی،(متوفی ۹۱۱ ھئق) قم۔

۹۴ ۔ کفایة الطالب فی مناقب علی بن ابی طالب ،محمد ابن یوسف الشافعی (الگنجی) (متوفی ۶۵۸ ھئق) تہران۔

۹۵ ۔ الانوار اللامعة ،السید عبد اللہ شبّر،(متوفی ۱۱۸۸ ھئق) تہران۔

۹۶ ۔انتظار مذہب اعتراض ،علی شریعتی، تہران۔

۹۷ ۔ نہج البلاغہ ،الشریف الرضی (متوفی ۴۰۴ ھئق) طبع صبحی صالح، بیروت۔

۹۸ ۔ الملل و النحل ، ابو الفتح محمد بن عبد الکریم ،(متوفی ۵۴۸ ھئق) بیروت۔

۲۱۸

۹۹ ۔ ہدایة الطالب الی اسرار المکاسب ،مرزا فتاح الشہیدی،(متوفی ۱۳۷۲ ھئق) تبریز ۱۳۷۵۷ ئھ ق ۔

۱۰۰ ۔ ایصال الطالب الی المکاسب ، سید محمد الشیرازی (الحسیني)،تہران۔

۱۰۱ ۔ منتخب الاثر، لطف اللہ صافی گلپائیگانی ،قم ۱۳۷۳ ھئق۔

۱۰۲ ۔ فروغ ولایت در دعائے ندبہ ،لطف اللہ صافی گلپائیگانی، طبع سوم ،قم ۔

۱۰۳ ۔ مدارک دعائے شریف ندبہ ،جعفر صبوری قمی ،تہران

۱۰۴ ۔ علل الشرایع ،محمد بن علی بن الحسین الصدوق(شیخ صدق) (متوفی ۳۸۱ ھئق)۔

۱۰۵ ۔ الامالی ،محمد بن علی بن الحسین الصدوق(شیخ صدوق) بیروت ۱۴۰۰ ء ھ ق۔

۱۰۶ ۔ الامامة والتبصرة ،محمد بن علی بن الحسین الصدوق(شیخ صدوق) بیروت۔

۱۰۷ ۔ الخصال ،محمد بن علی بن الحسین الصدوق(شیخ صدوق)قم، ۱۳۶۲ ء ھ ش۔

۱۰۸ ۔ عیون اخبار الرضا،محمد بن علی بن الحسین الصدوق(شیخ صدوق) نجف اشرف۔

۱۰۹ ۔ کمال الدین و تمام النعمة، محمد بن علی بن الحسین الصدوق(شیخ صدوق) تہران ۔

۱۱۰ ۔ معانی الاخبار ، محمد بن علی بن الحسین الصدوق(شیخ صدوق)قم، ۱۳۶۱ ھئش۔

۱۱۱ ۔ من لایحضرہ الفقیہ، محمد بن علی بن الحسین الصدوق(شیخ صدوق) بیروت۔

۱۱۲ ۔ ثواب الاعمال ، محمد بن علی بن الحسین الصدوق(شیخ صدوق)نجف اشرف، ۱۳۸۷ ھئق۔

۱۱۳ ۔ درس ھایی از ولایت ،محمد باقر صدیقین۔

۱۱۴ ۔ شرح دعائے ندبہ ،سید محی الدین طالقانی (علوی) (متوفی ۱۳۴۷ ء ھ ش) تہران ۱۳۷۰ ھئش۔

۱۱۵ ۔ المیزان فی تفسیر القرآن ،السید محمد حسین الطباطبائی، (متوفی ۱۴۰۲ ء ھ ق) بیروت۔

۱۱۶ ۔ بحث کوتاہی در بارہ علم امام، السید محمد حسین الطباطبائی (متوفی ۱۴۰۲ ھ ق) دار التبلیغ اسلامی ، قم۔

۱۱۷ ۔شرح دعائے ندبہ ،سید صدر الدین طباطبائی (حسنی) متوفی ۱۱۵۴ ء ھ ق، یزد۔

۱۱۸ ۔ المعجم الکبیر، ابو القاسم سلیمان بن احمد الطبرانی(متوفی ۳۶۰ ھئق) بیروت۔

۲۱۹

۱۱۹ ۔ اعلام الوری باعلام الھدی،ابو علی الفضل بن حسن الطبرسی (چھٹی صدی ہجری) قم ، ۱۳۹۹ ھئق۔

۱۲۰ ۔ الاحتجاج ، ابو علی الفضل بن حسن الطبرسی (چھٹی صدی ہجری) بیروت۔

۱۲۱ ۔ مجمع البیان ، ابو علی الفضل بن حسن الطبرسی (چھٹی صدی ہجری) بیروت۔

۱۲۲ ۔ جامع البیان فی تفسیر القرآن ،ابو جعفر محمد بن جریر الطبری ،(متوفی ۳۱۰ ھئق) بیروت۔

۱۲۳ ۔ دلائل الامامة،ابو جعفر محمد بن جریر الطبری ، ۱۴۱۳ ھئق،قم ۔

۱۲۴ ۔ ذخائر العقبیٰ ، محب الدین الطبری،(متوفی ۶۹۴ ھئق) قاہرہ۔

۱۲۵ ۔ مجمع البحرین ،فخر الدین الطریحی ،تہران ، ۱۳۶۵ ھئش۔

۱۲۶ ۔ التبیان فی تفسیر القرآن ، محمد بن الحسن الطوسی (شیخ طوسی)(متوفی ۴۶۰ ھئق) بیروت۔

۱۲۷ ۔ اختیار معرفة الرجال ، محمد بن الحسن الطوسی (شیخ طوسی)(متوفی ۴۶۰ ھئق) طبع سنگی،مشہد۔

۱۲۸ ۔ الاستبصار ، محمد بن الحسن الطوسی (شیخ طوسی)(متوفی ۴۶۰ ھئق) بیروت۔

۱۲۹ ۔ تہذیب الاحکام ، محمد بن الحسن الطوسی (شیخ طوسی)(متوفی ۴۶۰ ھئق) بیروت۔

۱۳۰ ۔ مصباح المتہجّد، محمد بن الحسن الطوسی (شیخ طوسی)(متوفی ۴۶۰ ھئق) بیروت، ۱۴۱۱ ھئق۔

۱۳۱ ۔ کتاب الغیبة ، محمد بن الحسن الطوسی (شیخ طوسی)(متوفی ۴۶۰ ھئق) طبع تحقیق شدہ ،قم ۔

۱۳۲ ۔ الذریعہ الی تصانیف الشیعہ،آغا بزرگ الطہرانی ،(متوفی ۱۳۸۹ ھئق) بیروت۔

۱۳۳ ۔ طبقات اعلام الشیعہ، آغا بزرگ الطہرانی ،(متوفی ۱۳۸۹ ھئق) بیروت۔

۱۳۴ ۔ مفتاح الفلاح ،محمد بن الحسین العاملی (شیخ بہائی) (متوفی ۱۰۳۰ ھئق) قم۔

۱۳۵ ۔ الدیوان ،الکُثَیَّر عزّة (متوفی ۱۰۵ ھئق) بیروت ، ۱۹۷۱ ءء۔

۱۳۶ ۔ سخنان نخبہ ،علی عطائی اصفہانی ،قم ۱۳۵۰ ئش۔

۱۳۷ ۔ الفصول المختارة ،السید مرتضی علم الہدی ،(متوفی ۴۳۶ ھئق) نجف اشرف۔

۱۳۸ ۔ التفسیر الکبیر ، الفخر الرازی ،متوفی ۶۰۶ ھئق) بیروت۔

۲۲۰

221

222

223

224

225

226

227

228