قصص القرآن-منتخب از تفسير نمونه

قصص القرآن-منتخب از تفسير نمونه   5%

قصص القرآن-منتخب از تفسير نمونه   مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 667

قصص القرآن-منتخب از تفسير نمونه
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 667 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 335234 / ڈاؤنلوڈ: 6151
سائز سائز سائز
قصص القرآن-منتخب از تفسير نمونه

قصص القرآن-منتخب از تفسير نمونه

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

تاريخ كے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے كہ ان ميں سے كچھ افراد اگرچہ وہ تعداد ميں بہت كم تھے ، ليكن قدر وقيمت كے لحاظ سے بہت تھے ،ان پر ايمان لے آئے تھے اور نسبتاًكچھ آمادگى كا سامان دوسروں كے لئے بھى پيدا ہوگيا تھا _

ابراہيم (ع) كو جلا ديا جائے

اگرچہ ابراہيم(ع) كے عملى ومنطقى استدلالات كے ذريعے سب كے سب بت پرست مغلوب ہوگئے تھے اور انہوں نے اپنے دل ميں اس شكست كا اعتراف بھى كرليا تھا _

ليكن تعصب اور شديد ہٹ دھرمى حق كو قبول كرنے ميں ركاوٹ بن گئي لہذا اس ميں كوئي تعجب كى بات نہيں ہے كہ انہوں نے ابراہيم كے بارے ميں بہت ہى سخت اور خطرناك قسم كا ارادہ كرليا اور وہ لوگ ابراہيم(ع) كو بدترين صورت ميں قتل كرنا چاہتے تھے انہوں نے پروگرام بنايا كہ انہيں جلاكر راكھ كرديا جائے _

عام طور پر طاقت اور منطق كے درميا ن معكوسى رابطہ ہوتا ہے ، جس قدر انسان ميں طاقت اور قدرت زيادہ ہوتى جاتى ہے ، اتنى ہى اس كى منطق كمزور ہوتى جاتى ہے سوائے مردان حق كے كہ وہ جتنا زيادہ قوى اور طاقتور ہوتے ہيں ، اتناہى زيادہ متواضع اور منطقى ہوجاتے ہيں _

جو لوگ طاقت كى زبان سے بات كرتے ہيں جب وہ منطق كے ذريعے كسى نتيجے پر نہ پہنچ سكيں تو فورا ًاپنى طاقت وقدرت كا سہارالے ليتے ہيں حضرت ابراہيم كے بارے ميں ٹھيك يہى طرز عمل اختيار كيا گيا جيسا كہ قرآن كہتا ہے :

'' ان لوگوں نے (چيخ كر)كہا: اسے جلادواور اپنے خدائوں كى مدد كرو ، اگر تم سے كوئي كام ہوسكتا ہے_''(۱)

طاقتور صاحبان اقتداربے خبر عوام كو مشتعل كرنے كے لئے عام طور پر ان كى نفسياتى كمزوريوں سے

____________________

(۱) سورہ انبياء آيت ۶۸

۱۲۱

فائدہ اٹھاتے ہيں كيونكہ وہ نفسيات كو پہچانتے ہيں اور اپنا كام كرنا خوب جانتے ہيں _

جيساكہ انہوں نے اس قصہ ميں كيا اور ايسے نعرے لگائے اور ان كى غيرت كو للكارا: يہ تمہارے خدا ہيں ، تمہارے مقدسات خطرے ميں پڑگئے ہيں ، تمہارے بزرگوں كى سنت كو پائوں تلے روند ڈالاگيا ہے ، تمہارى غيرت وحميت كہاں چلى گئي ؟ تم اس قدرضعيف حال كيوں ہوگئے ہو؟ اپنے خدائوں كى مدد كيوں نہيں كرتے ؟ابراہيم كو جلادو اور اپنے خدائوں كى مدد كرو، اگر كچھ كام تم سے ہوسكتا ہے اور بدن ميں توانائي اورجان ہے ،ديكھو: سب لوگ اپنے مقدسات كا دفاع كرتے ہيں ، تمہارا تو سب كچھ خطرے ميں پڑگيا ہے_

خلاصہ يہ كہ انہوں نے اس قسم كى بہت سى فضول اور مہمل باتيں كيں اور لوگوں كو ابراہيم كے خلاف بھڑكايا اس طرح سے كہ لكڑيوں كے چند گٹھوں كى بجائے كہ جو كئي افرادكے جلانے كے لئے كافى ہوتے ہيں ، لكڑيوں كے ہزارہا گٹھے ايك دوسرے پر ركھ كر لكڑيوں كا ايك پہاڑ بناديا اور اس كے بعد آگ كا ايك طوفان اٹھ كھڑاہوا تاكہ اس عمل كے ذريعہ سے اپنا انتقام بھى اچھى طرح سے لے سكيں اور بتوں كا وہ خيالى رعب ودبدبہ اور عظمت بھي، جس كو ابراہيم (ع) كے طرز عمل سے سخت نقصان پہنچاتھا، كسى حدتك بحال ہوسكے _

تاريخ دانوں نے اس مقام پر بہت سے مطالب تحرير كيے ہيں كہ جن ميں سے كوئي بھى بعيدنظر نہيں آتا _

فرشتوں كى فرياد

سب لوگ چاليس دن تك لكڑياں جمع كرنے ميں لگے رہے اور ہر طرف سے بہت سى خشك لكڑياں لالا كر جمع كرتے رہے اور نوبت يہاں تك پہنچ گئي تھى كہ وہ عورتيں تك بھى كہ جن كاكام گھر ميں بيٹھ كر چرخا كاتنا تھا، وہ اس كى آمدنى سے لكڑيوں كا گٹھالے كر اس ميں ڈلواتى تھيں اور وہ لوگ كہ جو قريب مرگ ہوتے تھے ، اپنے مال ميں سے لكڑياں خريد نے كى وصيت كرتے تھے اور حاجت منداپنى حاجتوں كے پورے ہونے كے لئے يہ منت مانتے تھے كہ اگران كى حاجت پورى ہوگئي ، تو اتنى مقدار لكڑيوں كا اضافہ كريں گے _

يہى وجہ تھى كہ جب ان لكڑيوں ميں مختلف اطراف سے آگ لگائي گئي تو اس كے شعلے اتنے بلند

۱۲۲

ہوگئے تھے كہ پرندے اس علاقے سے نہيں گزر سكتے تھے _

يہ بات واضح ہے كہ اس قسم كى آگ كے تو قريب بھى نہيں جايا جاسكتا چہ جائيكہ ابراہيم عليہ السلام كو لے جاكر اس ميں پھينكيں مجبوراً منجنيق سے كام ليا گيا حضرت ابراہيم كو اس كے اندار بٹھاكر بڑى تيزى كے ساتھ آگ كے اس دريا ميں پھينك ديا گيا _

ان روايات ميں كہ جو شيعہ اور سنى فرقوں كى طرف سے نقل ہوئي ہيں ، يہ بيان ہواہے كہ:

''جس وقت حضرت ابراہيم(ع) كو منجنيق كے اوپر بٹھايا گيا اور انہيں آگ ميں پھينكاجانے لگا تو آسمان، زمين اور فرشتوں نے فرياد بلند كى اور بارگاہ خداوندى ميں درخواست كى كہ توحيد كے اس علمبرداراور حريت پسندوں كے ليڈركوبچالے _''

اس وقت جبرئيل، حضرت ابراہيم كے پاس آئے اور ان سے كہا :

كيا تمہارى كوئي حاجت ہے كہ ميں تمہارى مدد كروں ؟

ابراہيم عليہ السلام نے مختصر سا جواب ديا : تجھ سے حاجت ؟نہيں ، نہيں ،(ميں تو اسى ذات سے حاجت ركھتا ہوں كہ جو سب سے بے نياز اور سب پر مہربان ہے )

تواس موقع پر جبرئيل نے كہا : تو پھر تم اپنى حاجت خداسے طلب كرو _

انہوں نے جواب ميں كہا : ''ميرے لئے يہى كافى ہے كہ وہ ميرى حالت سے آگاہ ہے ''_

ايك حديث ميں امام باقر عليہ السلام سے نقل ہوا ہے كہ اس موقع پر حضرت ابراہيم نے خداسے اس طرح رازونياز كيا:

''يااحد يا احد ياصمد يا صمد يا من لم يلد ولم يولد ولم يكن له كفواًاحد توكلت على اللّه _''

اے اكيلے: اے اكيلے اے بے نياز اے بے نياز اے وہ كہ جس نے كسى كو نہيں جنا اور نہ جو جنا گيا اور جس كا كوئي ہم پلہ نہيں : ميں اللہ پر ہى بھرسہ ركھتا ہوں _

۱۲۳

آگ گلزار ہوگئي

بہرحال لوگوں كے شوروغل ہو اور جوش وخروش كے اس عالم ميں حضرت ابراہيم(ع) آگ كے شعلوں كے اندر پھينك ديئے گئے لوگوں نے خوشى سے اس طرح لغرے لگائے گويا بتوں كو توڑنے والا ہميشہ كے لئے نابود اور خاكستر ہوگيا _

ليكن وہ خدا كہ جس كے فرمان كے سامنے تمام چيزيں سرخم كيے ہوئے ہيں _ جلانے كى صلاحيت اسى نے آگ ميں ركھى ہے اور مائوں كے دل ميں محبت بھى اسى نے ڈالى ہے اس نے ارادہ كرليا كہ يہ خالص بندئہ مومن آگ كے اس دريا ميں صحيح وسالم رہے تاكہ اس كے افتخاراور اعزاز كى سندوں ميں ايك اور سند كا اضافہ ہوجائے _

جيسا كہ قرآن اس مقام پر كہتا ہے :''ہم نے آگ سے كہا :اے آگ : ابراہيم پر سلامتى كے ساتھ ٹھنڈى ہوجا_''(۱)

مشہور يہ كہ آگ اس قدر ٹھنڈى ہوگئي كہ ابراہيم كے دانت ٹھنڈك كى شدت سے بجنے لگے اور بعض مفسرين كے قول كے مطابق تو اگر''سلاماً'' كى تعبير ساتھ نہ ہوتى تو آگ اس قدر سرد ہوجاتى كہ ابراہيم كى جان سردى سے خطرے ميں پڑجاتى _ مشہور روايت ميں يہ بھى بيان ہوا ہے كہ نمرود كى آگ خوبصورت گلستان ميں تبديل ہوگئي _يہاں تك كہ بعض نے تو كہا ہے كہ جس دن ابراہيم آگ ميں رہے ، ان كى زندگى كے دنوں ميں سب سے بہترين راحت وآرام كا دن تھا ؟(۲)

____________________

(۱)سورہ انبياء آيت ۶۹

(۲) آگ نے حضرت ابراہيم كو كيوں نہ جلايا ؟، مفسيرين كے درميان بہت اختلاف ہے ليكن اجمالاً بات يہ ہے كہ بينش توحيد ى كو مد نظر ركھتے ہوئے كسى سبب سے بھى خدا كے حكم كے بغير كوئي كام نہيں ہوسكتا ايك دن وہ ابراہيم كے ہاتھ ميں موجود چھرى سے كہتا ہے: نہ كاٹ اور دوسرے دن آگ سے كہتا : نہ جلا اور ايك دن پانى كوجو سبب حيات ہے حكم ديتا ہے كہ فرعون اور فرعونيوں كو غرق كردے

۱۲۴

يہ بات كہنے كى ضرورت نہيں ہے كہ ابراہيم كے آگ ميں صحيح وسالم رہ جانے سے صورت حال بالكل بدل گئي خوشى اورمسرت كا شور وغل ختم ہوگيا، تعجب سے منہ كھلے كے كھلے رہ گئے كچھ لوگ ايك دوسرے كے كان ميں رونماہونے والى اس عجيب چيزكے بارے ميں باتيں كررہے تھے ابراہيم (ع) اور اس كے خدا كى عظمت كا ورد زبانوں پر جارى ہوگيا نمرود كا اقتدار خطرے ميں پڑگيا ليكن پھر بھى تعصب اور ہٹ دھرمى حق كو قبول كرنے ميں پورى طرح حائل ہوگئي اگرچہ كچھ بيداردل اس واقعہ سے بہرہ ور بھى ہوئے اور ابراہيم كے خدا كے بارے ميں ان كے ايمان ميں زيادتى اور اضافہ ہوا ، مگريہ لوگ اقليت ميں تھے _

بہادرنوجوان

حضرت ابراہيم كو جب آگ ميں ڈالاگيا تو ان كى عمر سولہ سال سے زيادہ نہيں تھى اوربعض نے اس وقت ان كا سن ۲۶ سال كا ذكر كيا ہے _

بہرحال وہ جوانى كى عمر ميں تھے اور باوجود اس كے كہ ظاہرى طور پر ان كا كوئي ياردمددگار نہيں تھا، اپنے زمانے كے اس عظيم طاغوت كے ساتھ پنجہ آزمائي كى كہ جو دوسرے طاغوتوں كا سرپرست تھا، آپ تن تنہا جہالت ، خرافات اور شرك كے خلاف جنگ كرنے كے لئے نكل كھڑے ہوئے اور ماحول كے تمام خيالى مقدسات كا مذاق اڑايا اور لوگوں كے غصے اور انتقام سے ذرا بھى نہ گھبرائے كيونكہ ان كا دل عشق خدا سے معمور تھا اور ان كا اس پاك ذات پر ہى توكل اور بھروسہ تھا _

ہاں : ايمان ايسى ہى چيز ہے كہ يہ جہاں پيدا ہوجاتاہے وہاں جرا ت وشجاعت پيدا كرديتا ہے اور جس ميں يہ موجود ہو، اسے شكت نہيں ہوسكتى _

ابراہيم عليہ السلام اور نمرود

حضرت ابراہيم(ع) كو جب آگ ميں ڈالا گيا، نمرود كو يقين ہوگياتھا كہ ابراہيم مٹى بھر خاك ميں تبديل ہوگئے ہيں ليكن جب اس نے غور سے ديكھا تو معلوم ہوا كہ وہ زندہ ہيں تو اپنے ارد گرد بيٹھے ہوئے لوگوں سے

۱۲۵

كہنے لگا مجھے تو ابراہيم زندہ دكھائي دے رہا ہے شايد مجھے اشتباہ ہورہا ہے وہ ايك بلند مقام پر چڑھ گيا اور خوب غور سے ديكھا تو اسے معلوم ہوا كہ معاملہ تو اسى طرح ہے _

نمرودنے پكار كركہا : اے ابراہيم(ع) : واقعاً تيرا خدا عظيم ہے اور اس قدر قدرت ركھتا ہے كہ اس نے تيرے اور آگ كے درميان ايك ركاوٹ پيدا كردى اب جبكہ يہ بات ہے تو ميں چاہتاہوں كہ اس كى قدرت اور عظمت كى وجہ سے اس كے لئے قربانى كروں (اور اس نے چار ہزار قربانياں اس مقصد كے لئے تياركيں ) ليكن ابراہيم نے اس سے كہا : تجھ سے كسى قسم كى قربانى او ر كارخير قبول نہيں كيا جائے گا مگر يہ كہ توپہلے ايمان لے آئے _

نمرودنے جواب ميں كہا :'' اس صورت ميں تو ميرى حكومت ختم ہوجائے گى اور ميں يہ بات گوارا نہيں كرسكتا _''

بہرحال يہى حادثات اس بات كا سبب بن گئے كہ كچھ آگاہ اور بيدار دل لوگ ابراہيم كے خدا پر ايمان لے آئے يا ان كے ايمان ميں اضافہ ہوگيا (اور شايد يہى واقعہ اس بات كا سبب بناكہ نمرود ابراہيم كے مقابلہ ميں كسى سخت رد عمل كا اظہار نہ كرے اور صرف ان كو سرزمين بابل سے جلاوطن كرنے پر قناعت كرے _)

نمرود سے گفتگو

سوال يہ پيدا ہوتا ہے كہ حضرت ابراہيم(ع) كے مد مقابل اس اجتماع ميں كون تھا اور كون آپ(ع) سے حجت بازى كررہا تھا؟

اس كا جواب يہ ہے كہ قرآن ميں اس كے نام كى صراحت نہيں ہے ليكن فرمايا گيا ہے:

اس غرور و تكبر كے باعث جو اس ميں نشہ حكومت كى وجہ سے پيدا ہوچكا تھا وہ ابراہيم(ع) سے حجت بازى كرنے لگا_

ليكن حضرت على عليہ السلام سے منقول درمنثور كى ايك حديث ميں اور اسى طرح تواريخ ميں اس كا نام ''نمرود بن كنعان''بيان كيا گيا ہے_

۱۲۶

يہاں پر اس مباحثے كا وقت نہيں بتايا گيا_ليكن قرائن سے اندازا ہوتا ہے كہ يہ واقعہ حضرت ابراہيم(ع) كى بت شكنى اور آگ كى بھٹى سے نجات كے بعد كا ہے كيونكہ يہ مسلم ہے كہ آگ ميں ڈالے جانے سے قبل اس گفتگو كا سوال ہى پيدا نہيں ہوتا تھا،اور اصولى طور پر بت پرست آپ كو ايسے مباحثے كا حق نہ دے سكتے تھے وہ حضرت ابراہيم(ع) كو ايك ايسا مجرم اور گنہ گار سمجھتے تھے جسے ضرورى تھا كہ جتنى جلدى ہوسكے اپنے اعمال اور خدايان مقدس كے خلاف قيام كى سزا ملے_وہ تو انہوں نے بت شكنى كے اقدام كا صرف سبب پوچھا تھا اور اس كے بعد انتہائي غصے اور سختى سے انہيں آگ ميں جلانے كا حكم صادر ہوا تھا ليكن جب آپ(ع) حيرت انگيز طريقے سے آگ سے نجات پاگئے تو پھر اصطلاحى الفاظ ميں ''نمرود كے حضور رسائي ہوئي''اور پھر بحث و مباحثے كے ليے بيٹھ سكے_

بہر حال نمرود اپنى حكومت كى وجہ سے بادہ غرور سے سرمست تھا لہذا حضرت ابراہيم(ع) سے پوچھنے لگا تيرا خدا كون ہے_ حضرت ابراہيم(ع) نے كہا: ''وہى جو زندہ كرتا اور مارتا ہے''،حقيقت ميں آپ(ع) نے عظيم ترين شاہكار قدرت كو دليل كے طور پر پيش كيا_ مبداء جہان ہستى كے علم و قدرت كى واضح نشانى يہى قانون موت وحيات ہے ليكن اس نے مكر و فريب كى راہ اختيار كى اور مغالطہ پيدا كرنے كى كوشش كرنے لگا_ لوگوں اور اپنے حمايتيوں كو غافل ركھنے لے لئے كہا وہ تو ميں زندہ كرتا اور مارتا ہوں اور موت و حيات كا قانون ميرے ہاتھ ميں ہے_

قرآن ميں اس كے جملے كے بعد واضح نہيں ہے كہ اس نے اپنے پيدا كئے گئے مغالطے كى تائيد كے لئے كس طرح عملى اقدام كيا ليكن احاديث و تواريخ ميں آيا ہے كہ اس نے فوراًدو قيديوں كو حاضر كرنے كا حكم ديا_قيدى لائے گئے تو اس نے فرمان جارى كيا كہ ايك كو آزاد كردو اور دوسرے كو قتل كردو_ پھر كہنے لگا:تم نے ديكھا كہ موت و حيات كس طرح ميرے قبضے ميں ہے_

يہ امر قابل توجہ ہے كہ حضرت ابراہيم(ع) كى موت و حيات سے متعلق دليل ہر لحاظ سے قوى تھى ليكن دشمن شادہ لوح لوگوں كو جھل دے سكتا تھا لہذا حضرت ابراہيم عليہ السلام نے دوسرا استدلال پيش فرمايا كہ خدا

۱۲۷

آفتاب كو افق مشرق سے نكالتا ہے اگر جہاں ہستى كى حكومت تيرے ہاتھ ميں ہے تو تو اسے مغرب سے نكال كر دكھا_

يہاں دشمن خاموش،مبہوت اور عاجز ہوگيا_ اس ميں سكت نہ رہى كہ اس زندہ منطق كے بارے ميں كوئي بات كرسكے_ ايسے ہٹ دھرم دشمنوں كو لاجواب كرنے كايہ بہترين طريقہ ہے_

يہ مسلم ہے كہ موت و حيات كا مسئلہ كئي جہات سے آسمان اور گردش شمس و قمرى كى نسبت پروردگار عالم كے علم و قدرت پر زيادہ گواہى ديتاہے_ اسى بنا_ پر حضرت ابراہيم(ع) نے پہلے وہى مسئلہ پيش كيا اور يہ فطرى امر ہے كہ اگر صاحب فكر اور روشن ضمير افراد اس مجلس ميں ہوں گے تو وہ اسى دليل سے مطمئن ہوگئے ہوں گے كيونكہ ہر شخص اچھى طرح جانتا ہے كہ ايك قيدى كو آزاد كرنا اور دوسرے كو قتل كردينا يہ طبيعى اور حقيقى موت و حيات سے بالكل ربط نہيں ركھتا، ليكن جو لوگ كم عقل تھے اور اس دور كے ظالم حكمران كے پيدا كردہ مغالطے سے متا ثر ہوسكتے تھے ان كى فكر راہ حق سے منحرف ہوسكتى تھى لہذا آپ(ع) نے دوسرا استدلال پيش كيا اور سورج كے طلوع و غروب كا مسئلہ پيش كيا تا كہ حق ہر دو طرح كے افراد كے سامنے واضح ہوجائے_

اس بات كى توجہ كرنا مناسب ہے كہ قرآنى گفتگو سے يہ بات اچھى واضح ہوتى ہے كہ وہ ظالم اپنے بارے ميں الوہيت كا مدعى تھا، يہى نہيں كہ وہ اپنى پرستش كرواتا تھابلكہ اپنے آپ كو عالم ہستى كا پيدا كرنے والابھى بتاتا تھا، يعنى اپنے آپ كو ''معبود'' بھى سمجھتا تھا اور ''خالق'' بھي_

بت پرستوں كى سرزمين سے ابراہيم كى ہجرت

ابراہيم(ع) كے آگ ميں ڈالے جانے كے واقعہ اور اس خطرناك مرحلہ سے ان كى معجزانہ نجات نے نمرودكے اركان حكومت كو لرزہ براندام كرديا،نمرود تو بالكل حواس باختہ ہوگيا كيونكہ اب وہ ابراہيم كو ايك فتنہ كھڑا كرنے والا اور نفاق ڈالنے والا جوان نہيں كہہ سكتا تھا كيونكہ ابراہيم اب ايك خدائي رہبر اور بہادر رہبر كى حيثيت سے پہچانا جاتاتھا اس نے ديكھاكہ ابراہيم اس كے تمام ترطاقت ووسائل كے باوجود اس كے خلاف جنگ كى ہمت ركھتا ہے اس نے سوچا كہ اگر ابراہيم ان حالات ميں اس شہراور اس ملك ميں رہا تو اپنى باتوں

۱۲۸

،قوى منطق اور بے نظير شجاعت كے ساتھ ،مسلمہ طور پر اس جابر، خود سراور خود غرض حكومت كےلئے ايك خطرے كا مركز بن سكتا ہے لہذا اس نے فيصلہ كيا كہ ابراہيم كو ہر حالت ميں اس سرزمين سے چلا جانا چاہئے_

دوسرى طرف ابرہيم حقيقت ميں اپنى رسالت كا كام اس سرزمين ميں انجام دے چكے تھے وہ حكومت كى بنيادوں پر يكے بعد ديگرے چكنا چوركرنے والى ضربيں لگا چكے تھے اس سرزمين ميں ايمان وآگاہى كا بيج بوچكے تھے اب صرف ايك مدت كى ضرورت تھى كہ جس سے يہ بيج آہستہ آہستہ بار آور ہواور بت پرستى كى بساط الٹ جائے _

اب ان كے لئے بھى مفيد يہى تھا كہ يہاں سے كسى دوسرى سرزمين كى طرف چلے جائيں اور اپنى رسالت كے كام كو وہاں بھى عملى شكل ديں لہذا انہوں نے يہ ارادہ كرليا كہ لوط (جو آپ كے بھتيجے تھے )اور اپنى بيوى سارہ اور احتمالاً مومنين كے ايك چھوٹے سے گروہ كو ساتھ لے كر اس سرزمين سے شام كى طرف ہجرت كرجائيں _

جيسا كہ قرآن كہتا ہے : ہم نے ابراہيم اور لوط كو ايسى سرزمين كى طرف نجات دى كہ جسے ہم نے سارے جہان والوں كے لئے بركتوں والا بنايا تھا_''(۱)

اگرچہ قرآن ميں اس سرزمين كانام صراحت كے ساتھ بيان نہيں ہوا ہے ليكن سورہ بنى اسرائيل كى پہلى آيت( سبحان الذي_____باركناحوله _) پر توجہ كرنے سے معلوم ہوتا ہے كہ اس سے مراد ہى شام كى سرزمين ہے جوظاہرى اعتبار سے بھى پر بركت ، زرخيز اور سرسبز وشاداب ہے اور معنوى لحاظ سے بھى ،كيونكہ وہ انبيا كى پرور ش كا مركز تھى _

ابراہيم (ع) نے يہ ہجرت خود اپنے آپ كى تھى يا نمرود كى حكومت نے انہيں جلاوطن كيا يا يہ دونوں ہى صورتيں واقع ہوئيں ، اس بارے ميں تفاسيروروايات ميں مختلف باتيں بيان كى گئي ہيں ان كا مجموعى مفہوم يہي

____________________

(۱)سورہ انبياء آيت ۷۱

۱۲۹

ہے كہ ايك طرف تو نمرود اور اس كے اركان حكومت ابراہيم(ع) كو اپنے لئے بہت بڑا خطرہ سمجھتے تھے،لہذا انھوں نے انھيں اس سرزمين سے نكلنے پر مجبور كرديا اور دوسرى طرف ابرہيم(ع) بھى اس سرزمين ميں اپنى رسالت كے كام تقريباً مكمل كرچكے تھے اور اب كسى دوسرے علاقے ميں جانے كے خواہاں تھے كہ دعوت توحيد كو وہاں بھى پھيلائيں خصوصاً بابل ميں باقى رہنے سے ممكن تھا كہ آپ كى جان چلى جاتى اور آپ كى عالمى دعوت نامكمل رہ جاتى _

يہ بات قابل توجہ ہے كہ امام صادق عليہ السلام سے ايك روايت ميں يہ بيان ہوا كہ جس وقت نمرود نے يہ ارادہ كيا كہ ابراہيم كو اس سرزمين سے جلاوطن كردے تو اس نے يہ حكم ديا كہ ابراہيم كى بھيڑيں اور ان كا سارا مال ضبط كرليا جائے اور وہ اكيلاہى يہاں سے باہر جائے حضرت ابراہيم نے ان سے كہا يہ ميرى عمربھر كى كمائي ہے اگر تم ميرا مال لينا چاہتے ہو تو ميرى اس عمر كو جو ميں نے اس سرزمين ميں گزارى ہے مجھے واپس دے دو لہذا طے يہ پايا كہ حكومت كے قاضيوں ميں سے ايك اس بارے ميں فيصلہ دے ،قاضى نے حكم ديا كہ ابراہيم (ع) كا مال لے ليا جائے اور جو عمر انہوں نے اس سرزمين ميں خرچ كى ہے وہ انہيں واپس كردى جائے _

جس وقت نمرود اس واقعے سے آگاہ ہوا تو اس نے بہادر قاضى كے حقيقى مفہوم كو سمجھ ليا اور حكم ديا كہ ابراہيم كا مال اور اس كى بھيڑيں اسے واپس كردى جائيں تاكہ وہ انہيں ساتھ لے جائے اور كہا: مجھے ڈر ہے كہ اگر وہ يہاں رہ گيا تو وہ تمہارے دين وآئين كو خراب كردے گا اور تمہارے خدائوں كو نقصان پہنچائے گا ''_

كس طرح مردوں كو زندہ كرے گا ؟

ايك دن حضرت ابراہيم(ع) دريا كے كنارے سے گزررہے تھے _ آپ نے دريا كے كنارے ايك مردار پڑاہوا ديكھا، اس كا كچھ حصہ دريا كے انداراور كچھ باہر تھا دريا اور خشكى كے جانور دونوں طرف سے اسے كھارہے تھے بلكہ كھاتے كھاتے ايك دوسرے سے لڑنے لگتے تھے ،اس منظر نے حضرت ابراہيم(ع) كو ايك ايسے مسئلہ كى فكر ميں ڈال ديا جس كى كيفيت سب تفصيل سے جاننا چاہتے ہيں اور وہ ہے موت كے بعد مردوں كے زندہ ہونے كى كيفيت ابراہيم(ع) سوچنے لگے كہ اگر ايسا ہى انسانى جسم كے ساتھ ہو اور انسان كا بدن جانوروں كے

۱۳۰

بدن كا جزء بن جائے تو قيامت ميں اٹھنے كا معاملہ كيسے عمل ميں آئے گا جب كہ وہاں انسان كو اسى بدن كے ساتھ اٹھنا ہے _

حضرت ابراہيم(ع) نے كہا : خدايا مجھے دكھا كہ تو مردوں كو كيسے زندہ كرے گا؟اللہ تعالى نے فرمايا : كيا تم اس بات پر ايمان نہيں ركھتے؟ انہوں نے كہا: ايمان تو ركھتا ہوں ليكن چاہتاہوں دل كو تسلى ہوجائے _

خدا متعال نے حكم ديا : چار پرندے لے لو اور ان كا گوشت ايك دوسرے سے ملادو پھر اس سارے گوشت كے كئي حصے كردو اور ہر حصہ كو ايك پہاڑپر ركھ دو اس كے بعد ان پرندوں كو پكار و تاكہ ميدان حشر كا منظر ديكھ سكو _ انہوں نے ايسا ہى كيا تو انتہائي حيرت كے ساتھ ديكھا كہ پرندوں كے اجزاء مختلف مقامات سے جمع ہوكر ان كے پاس آگئے ہيں اور ان كى ايك نئي زندگى كا آغاز ہوگيا ہے _

اس سلسلہ ميں قرآن كہتا ہے :

''اس وقت (كو ياد كرو)جب ابراہيم نے كہا : خدايا : مجھے دكھا دے تو كيسے مردوں كو زندہ كرتا ہے ،فرمايا : كيا تم ايمان نہيں لائے _ كہنے لگے : كيوں نہيں ، ميں چاہتاہوں ميرے دل كو اطمينان ہوجائے فرمايا : يہ بات ہے تو چار پرندے انتخاب كرلو (ذبح كرنے كے بعد ) انہيں ٹكڑے ٹكڑے كرلو (پھر ان كے گوشت كو آپس ميں ملادو ) پھر ہر پہاڑپر ايك حصہ ركھ دو ، پھر انہيں پكارو ، وہ تيزى سے تمہارے پاس آئےں گے، اور جان لوكہ خدا غالب اور حكيم ہے ''_(۱) (وہ مردوں كے اجزائے بدن كو بھى جانتا ہے اور انہيں جمع كرنے كى طاقت بھى ركھتا ہے _)

چندا ہم نكات

۱_ چار پرندے : اس ميں شك نہيں كہ مذكورہ چار پرندے مختلف قسم كے پرندوں ميں سے تھے كيونكہ اس كے بغير حضرت ابراہيم كا مقصد پورا نہيں ہوسكتاہے _ اس كے لئے ضرورى تھا كہ ہرايك كے اجزاء اس

____________________

(۱) سورہ بقرہ آيت ۲۵۹

۱۳۱

كے اصلى بدن ميں واپس آئيں اوريہ مختلف قسم كے ہونے كى صورت ميں ہى ظاہر ہوسكتا تھا _ مشہور روايت كے مطابق وہ چار پرندے اس طرح تھے مور، مرغ ،كبوتر اور كوا جو كہ كئي پہلوئوں سے ايك دوسرے سے بہت مختلف ہيں _

بعض ان پرندوں كو انسانوں كى مختلف صفات اور جذبات كا مظہر سمجھتے ہيں _

مور: خود نمائي، زيبائش اور تكبركا مظہر ہے _

مرغ : شديد جنسى ميلانات كا مظہرہے_

كبوتر : لہوولعب اور كھيل كود كا مظہر ہے _

كوا: لمبى چوڑى آرزئوں اور تمنائوں كا مظہر ہے _

۲_ پہاڑوں كى تعداد : جن پہاڑوں پر حضرت ابراہيم عليہ السلام نے پرندوں كے اجزاركھے تھے ان كى تعدا كى صراحت قرآن حكيم ميں نہيں ہے ليكن روايات اہل بيت ميں يہ تعداد دس بتائي گئي ہے _(۱)

۳_ واقعہ كب رونماہوا : جب حضرت ابراہيم بابل ميں تھے يا جب شام چلے آئے تھے ،يوں لگتا ہے ،يہ شام ميں آنے كے بعد كا واقعہ ہے كيونكہ سرزمين بابل ميں پہاڑنہيں ہيں _

اسماعيل (ع) اور ہاجرہ(ع) كو منتقل كرنے كا حكم

سالہا گذرگئے كہ جناب ابراہيم(ع) نے اس صالح فرزند كے انتظار اور خواہش ميں زندگى بسركرتے رہے، انھوں نے عرض كيا:'' پروردگارا: مجھے ايك فرزند صالح عطا فرما_''(۲)

آخر كار خدا نے ان كى دعا قبول كرلي، پہلے انھيں اسماعيل(ع) اور پھر اسحاق(ع) مرحمت فرمايا كہ جن ميں سے ہر ايك بزرگ پيغمبر اور صاحب منزلت تھے_

____________________

(۱)اسى لئے بعض روايات ميں آيا ہے كہ اگر كوئي شخص وصيت كرجائے كہ اس كے مال كا ايك جزء فلاں سلسلے ميں صرف كرنا اور اس كى مقدار معين نہ كرجائے تو مال كا دسواں حصہ دينا كافى ہے _

(۲)سورہ صافات آيت ۱۰۰

۱۳۲

آپ نے اپنى كنيزہاجرہ كو اپنى بيوى بناليا تھا _ اس سے انہيں اسماعيل جيسا بيٹا نصيب ہوا آپ كى پہلى بيوى سارہ نے ان سے حسد كيا يہى حسد سبب بنا كہ آپ ہاجرہ اور اپنے شيرخوار بچے كو حكم خدا سے فلسطين سے لے كر مكہ كى جلتى ہوئي سنگلاخ پہاڑوں كى سرزمين ميں لے گئے يہ وہ علاقہ تھا جہاں پانى كى ايك بوند بھى دستياب نہ تھى آپ(ع) حكم خدا سے ايك عظيم امتحان سے گزرتے ہوئے انہيں وہاں چھوڑ كر واپس فلسطين آگئے _

وہاں چشمہ زمزم پيدا ہوا اس اثنا ميں جرہم قبيلہ ادھر سے گزرا اس نے جناب ہاجرہ سے وہاں قيام كى اجازت چاہى __گويا واقعات كا ايك طولانى سلسلہ ہے كہ جو اس علاقے كى آبادى كا باعث بنا_

حضرت ابراہيم (ع) نے خدا سے دعا كى تھى كہ اس جگہ كو آباد اور پر بركت شہر بنادے اور لوگوں كے دل ميرى اولاد كى طرف مائل كردے ان كى اولاد وہاں پھلنے پھولنے لگى تھى _(۱)

يہ بات جاذب نظر ہے كہ بعض مو رخين نے نقل كيا ہے كہ جب حضرت ابراہيم ہاجرہ اور شير خوار اسماعيل كو مكہ ميں چھوڑ كر واپس جانا چاہتے تھے تو جناب ہاجرہ نے فرياد كي: اے ابراہيم(ع) آپ كو كس نے حكم ديا ہے كہ ہميں ايسى جگہ پر چھوڑ جائيں كہ جہاں نہ كوئي سبزہ ہے ، نہ دودھ دينے والا كوئي جانور،يہاں تك كہ يہاں پانى كا ايك گھونٹ بھى نہيں ہے آپ پھر بھى ہميں بغير زادو توشہ اور مونس ومدد گار كے چھوڑے جارہے ہيں _

حضرت ابراہيم(ع) نے مختصر سا جواب ديا : ميرے پروردگار نے مجھے يہى حكم ديا ہے _

ہاجرہ نے يہ سنا تو كہنے لگيں : اگر ايسا ہے تو پھر خدا ہرگز ہميں يونہى نہيں چھوڑے گا _

ابراہيم(ع) نے حكم خدا كى اطاعت كى اور انہيں سرزمين مكہ ميں لے گئے جو ايسى خشك اور بے آب وگياہ تھى كہ وہاں كسى پرندے كا بھى نام ونشان نہ تھا جب ابراہيم انہيں چھوڑ كر تنہا واپس ہولئے تو ان كى اہليہ رونے لگيں كہ ايك عورت اور ايك شيرخوار بچہ اس بے آب وگياہ بيابان ميں كيا كريں گے_

اس خاتون كے گرم آنسو اور ادھر بچے كا نالہ ودزارى اس منظرنے ابراہيم(ع) كا دل ہلاكے ركھ ديا _

____________________

(۱)سورہ ابراہيم ايت ۳۷ تا ۴۱

۱۳۳

انہوں نے بارگاہ الہى ميں ہاتھ اٹھائے اور عرض كيا:

خدا وندا: ميں تيرے حكم پر اپنى بيوى اور بچے كو اس جلادينے والے بے آب وگياہ بيابان ميں تنہا چھوڑ رہا ہوں ، تاكہ تيرا نام بلند اور تيرا گھر آباد ہو_

يہ كہہ كر غم واندوہ اور شديد محبت كے عالم ميں الوداع ہوئے _

زيادہ وقت نہيں گزرا تھا كہ ماں كے پاس آب وغذا كا جو توشہ تھا ختم ہوگيا اور اس كى چھاتى كا دودھ بھى خشك ہوگيا شير خوار بچے كى بے تابى اور تضرع وزارى نے ماں كو ايسا مضطرب كرديا كہ وہ اپنى پياس بھول گئي وہ پانى كى تلاش ميں اٹھ كھڑى ہوئي، پہلے كوہ صفا كے قريب گئي تو پانى كا كوئي نام ونشان نظر نہ آيا، سراب كى چمك نے اسے كوہ مروہ كى طرف كھينچا تو وہ اس كى طرف دوڑى ليكن وہاں بھى پانى نہ ملا، وہاں ويسى چمك صفاپر دكھائي دى تو پلٹ كر آئي، زندگى كى بقاء اور موت سے مقابلہ كے لئے اس نے سات چكر لگائے، آخر شيرخوار بچہ زندگى كى آخرى سانسيں لينے لگا كہ اچانك اس كے پائوں كے پاس انتہائي تعجب خيز طريقہ سے زمزم كا چشمہ ابلنے لگا، ماں اور بچے نے پانى پيا اور موت جو يقينى ہوگئي تھى اس سے بچ نكلے_

زمزم كا پانى گويا آب حيات تھا، ہر طرف سے پرندے اس چشمہ كى طرف آنے لگے، قافلوں نے پرندوں كى پروازديكھى تو اپنے رُخ كو اس طرف موڑديا اور ظاہراً ايك چھوٹے سے خاندان كى فداكارى كے صلے ميں ايك عظيم مركز وجود ميں آگيا_

آج خانہ خدا كے پاس اس خاتون اور اس كے فرزند اسماعيل (ع) كا مسكن ہے، ہر سال تقريباً ۲۰ / لاكھ افراد اطراف عالم سے آتے ہيں ان كى ذمہ دارى ہے كہ اس مسكن كو جسے مقام اسماعيل كہتے ہيں اپنے طواف ميں شامل كريں گويا اس خاتون اور اس كے بيٹے كے مدفن كو كعبہ كا جز ء سمجھيں _

اسماعيل (ع) قربان گاہ ميں

اسماعيل كا سن ۱۳ /سال كا تھا كہ حضرت ابراہيم نے ايك عجيب اور حيرت انگيز خواب ديكھا ،يہ خواب اس عظيم الشان پيغمبر كے لئے ايك اور آزمائش كو بيان كرتا تھا _ انھوں نے خواب ديكھا كہ انھيں خدا كى طرف

۱۳۴

سے يہ حكم ديا گيا ہے كہ وہ اپنے اكلوتے بيٹے كو اپنے ہاتھ سے قربانى كريں اور اسے ذبح كرديں _

ابراہيم(ع) وحشت زدہ خواب سے بيدار ہوئے ،وہ جانتے تھے كہ پيغمبروں كے خواب حقيقت اور شيطانى وسو سوں سے دور ہوتے ہيں ليكن اس كے باوجود دو راتوں ميں بھى يہى خواب ديكھا جو اس امر كے لازم ہونے اور اسے جلد انجام دينے كے لئے تاكيد تھى _

كہتے ہيں كہ پہلى مرتبہ '' شب ترويہ'' (آٹھ ذى الحجہ كى رات ) يہ خواب ديكھا اور '' عرفہ '' اور '' عيد قربان '' (نويں اور دسويں ذى الحجہ ) كى راتوں ميں خواب كا تكرار ہوا _ لہذا اب ان كے لئے ذراسا بھى شك باقى نہ رہا كہ يہ خدا كا قطعى فرمان ہے _

ابراہيم(ع) جو بار ہا امتحان خداوندى كى گرم بھٹى سے سرفراز ہو كر باہر آچكے تھے،اس دفعہ بھى چاہئے كہ بحر عشق ميں كود پڑيں اور خداوند عالم كے فرمان كے سامنے سرجھكاديں ،اور اس فرزند كو جس كے انتظار ميں عمر كا ايك حصہ گذارديا تھا اور اب وہ ايك آبرومند نوجوان تھا، اسے اپنے ہاتھ سے ذبح كرديں _

ليكن ضرورى ہے كہ ہر چيز سے پہلے اپنے فرزند كو اس كام كے لئے آمادہ كريں ، لہذا اس كى طرف رخ كركے فرمايا :'' ميرے بيٹے : ميں نے خواب ديكھا ہے كہ ميں تجھے ذبح كررہاہوں ، اب تم ديكھو: تمہارى اس بارے ميں كيا رائے ہے ''؟(۱)

بيٹا بھى تو ايثار پيشہ باپ كے وجود كا ايك حصہ تھا اور جس نے صبرو استقامت اور ايمان كا درس اپنى چھوٹى سى عمر ميں اسى كے مكتب ميں پڑھا تھا ، اس نے خوشى خوشى خلوص دل كے ساتھ اس فرمان الہى كا استقبال كيا اور صراحت اور قاطيعت كے ساتھ كہا:

''اباجان : جو حكم آپ كو ديا گيا ہے اس كى تعميل كيجئے''_(۲)

ميرى طرف سے بالكل مطمئن رہئے_ '' انشاء اللہ آپ مجھے صابرين ميں سے پائيں گے ''_(۳)

____________________

(۱)سورہ صافات آيت۱۰۲

(۲) سورہ صافات آيت ۱۰۲

(۳)سورہ صافات آيت۱۰۲

۱۳۵

باپ اور بيٹے كى يہ باتيں كس قدر معنى خيز ہيں اور كتنى باريكياں ان ميں چھپى ہوئي ہيں _

ايك طرف تو باپ، ۱۳/ سالہ بيٹے كے سامنے اسے ذبح كرنے كى بات بڑى صراحت كے ساتھ كرتا ہے اور اس سے اس كى رائے معلوم كرتا ہے اس كے لئے مستقل شخصيت اور ارادے كى آزادى كا قائل ہوتا ہے ، وہ ہرگز اپنے بيٹے كو دھوكے ميں ركھنا نہيں چاہتا اور اسے اندھيرے ميں ركھتے ہوئے امتحان كے اس عظيم ميدان ميں آنے كى دعوت نہيں ديتا وہ چاہتا ہے كہ بيٹا بھى اس عظيم امتحان ميں پورے دل كے ساتھ شركت كرے اور باپ كى طرح تسليم ورضا كا مزہ چكھے _

دوسرى طرف بيٹا بھى يہ چاہتا ہے كہ باپ اپنے عزم وارادہ ميں پكااور مضبوط رہے، يہ نہيں كہتا كہ مجھے ذبح كريں بلكہ كہتا ہے : جوآپ كو حكم ديا گيا ہے اسے بجالائيں ميں اس كے امرو فرمان كے سامنے سر تسليم خم ہوں ،خصوصاً باپ كو '' يا ابت '' (ابا جان :) كہہ كر مخاطب كرتا ہے ،تاكہ اس بات كى نشاندہى كردے كہ اس مسئلے پر جذبات فرزندو پدر كاسوئي كى نوك كے برابر بھى اثر نہيں ، كيونكہ فرمان خدا ہر چيز پر حاكم ہے _

اور تيسرى طرف سے پروردگار كى بارگاہ ميں مراتب اداب كى اعلى ترين طريقے سے پاسدارى كرتا ہے ،ہرگز اپنے ايمان اور عزم وارادہ كى قوت پر بھروسہ نہيں كرتا ، بلكہ خدا كى مشيت اور اس كے ارادہ پر تكيہ كرتاہے اور اس عبادت كے ساتھ اس سے پامردى اور استقامت كى توفيق چاہتاہے _

اس طرح سے باپ بھى اور بيٹا بھى اس عظيم آزمائش كے پہلے مرحلے كو مكمل كاميابى كے ساتھ گزارديتے ہيں _

شيطانى وسوسہ

شيطان نے بہت ہاتھ پائوں مارے كہ كوئي ايسا كام كرے كہ حضرت ابراہيم(ع) اس ميدان سے كامياب ہوكر نہ نكليں ، كبھى وہ (اسمعيل كي) ماں ہاجرہ كے پاس آيا اور ان سے كہا:كيا تمھيں معلوم ہے كہ ابراہيم نے كيا ارادہ كيا ہے ؟ وہ چاہتاہے كہ آج اپنے بيٹے كو ذبح كردے_

ہاجرہ نے كہا: دورہوجا ، محال اور نہ ہونے والى بات نہ كر، كيونكہ وہ تو بہت مہربان ہے اپنے بيٹے كو

۱۳۶

كيسے ذبح كرسكتا ہے ؟ اصولاً كيا دنيا ميں كوئي ايسا انسان پيدا ہوسكتا ہے جو اپنے بيٹے كو اپنے ہاتھ سے ذبح كردے ؟

شيطان نے اپنے وسوسہ كو جارى ركھتے ہوئے كہا: اس كا دعوى ہے كہ خدانے اسے حكم ديا ہے _ ہاجرہ نے كہا : اگر خدا نے اسے حكم ديا ہے تو پھر اسے اطاعت كرنا چاہيے، اور سوائے رضاو تسليم كے كوئي دوسرى راہ نہيں ہے _

پھر شيطان ان كے بيٹے اسماعيل(ع) كے پاس آيا،اور انھيں ورغلانے لگا ،ان سے بھى اسے كچھ حاصل نہ ہوسكا، كيونكہ اس نے اسماعيل (ع) كو تسليم ورضا كا پيكر پايا _

آخرميں حضرت ابراہيم (ع) كے پاس آيا اور ان سے كہا: ابراہيم(ع) : جو خواب تم نے ديكھا ہے وہ شيطانى خواب ہے، تم شيطان كى اطاعت نہ كرو _

ابراہيم (ع) نے نور ايمان اور نبوت كے پر تو ميں اسے پہچان ليا : چلاكر كہا: ''دورہوجااے دشمن خدا _''

ايك حديث ميں منقول ہے كہ حضرت ابراہيم (ع) پہلے'' مشعرالحرام'' ميں آئے تاكہ بيٹے كى قربانى ديں ، تو شيطان ان كے پيچھے دوڑا _ وہ'' جمرہ اولى '' كے پاس آئے شيطان كو ديكھا ، اس كو سات پتھر مارے، اس كے بعد وہاں سے جمرہ دوم پر ائے وہاں شيطان كو ديكھا تو دوبارہ سات پتھراسے مارے يہاں تك كہ '' جمرہ عقبہ '' ميں آئے تو سات اور پتھراسے مارے _(اور اسے ہميشہ ہميشہ كے لئے اپنے سے مايوس كرديا)_

ميرى والدہ كو سلام كہنا

اس دوران كيا كيا حالات پيش آئے، قرآن نے انھيں تشريح كے ساتھ بيان نہيں كيا اور صرف اس عجيب ماجرے كے نہايت حساس پہلو ذكركئے ہيں _

بعض نے لكھا ہے كہ فدا كار بيٹے نے اس بنا پر كہ باپ كى اس ماموريت كى انجام دہى ميں مدد كرے اور ماں كے رنج واندوہ ميں كمى كرے جس وقت وہ اسے سرزمين '' منى ''كے خشك اور جلاڈالنے والے گرم

۱۳۷

پہاڑوں كے درميان ، قربان گاہ ميں لائے توباپ سے كہا: اباجان :رسى كو مضبوطى كے ساتھ باندھ ديجئے، تاكہ ميں فرمان خداوندى كے اجراء كے وقت ہاتھ پائوں نہ ہلا سكوں ،مجھے ڈرہے كہ كہيں اس سے ميرے اجر ميں كمى واقع نہ ہوجائے _

اباجان :چھرى تيزكر ليجيے اور تيزى كے ساتھ ميرے گلے پر چلايئےاكہ اسے برداشت كرنا مجھ پر بھى (اور آپ پر بھى ) زيادہ آسان ہوجائے_

اباجان : ميرا كرتا پہلے ہى ميرے بدن سے اتار ليجئے تاكہ وہ خون آلودنہ ہو، كيونكہ مجھے خوف ہے كہ كہيں ميرى ماں اسے ديكھے تو دامن صبر اس كے ہاتھ سے نہ چھوٹ جائے_

پھر مزيد كہا: ميرا سلام ميرى ماں كو پہنچاديجئے گا اور اگر كوئي امر مانع نہ ہو تو ميرا كرتا اس كے لئے لے جايئےا جو اسكى تسلى خاطر اور تسكين كا باعث بنے گا كيونكہ وہ اس سے بيٹے كى خوشبوسونگھے گى اور جس وقت دل بے قرار ہوگا تو اسے اپنى آغوش ميں لے لے گى اس طرح يہ اس كے درددل ميں تخفيف كا باعث ہوگا _

باپ بيٹے ايك دوسرے سے مل كررونے لگے

آخروہ حساس لمحے آن پہنچے جب فرمان الہى كى تعميل ہونا تھى حضرت ابراہيم(ع) نے جب بيٹے كے مقام تسليم كو ديكھا، اسے اپنى آغوش ميں لے ليا، اس كے ر خساروں كے بوسے لئے اوراس گھڑى دونوں رونے لگے _ ايسا گريہ تھا كہ ان كے جذبات اور لقائے خدا كےلئے ان كا شوق ظاہر ہوتا تھا _

قرآن مختصر اور معنى خيز عبارت ميں صرف اتنى سى بات كہتا ہے : ''جب دونوں آمادہ وتيار ہوگئے اور (باپ ) ابراہيم (ع) نے بيٹے كو ماتھے كے بل لٹايا''(۱)

قرآن يہاں پھر اختصار كے ساتھ گزرگيا ہے اور سننے والے كو اجازت ديتا ہے كہ وہ اپنے احساسات كى موجوں كى ساتھ قصے كو سمجھے _

____________________

(۱) سورہ صافات آيت ۱۰۳

۱۳۸

بعض نے كہا ہے كہ '' تلہ للجبين ''_سے مراد يہ تھى كہ پيشانى خود اس كى فرمائش پر زمين پر ركھى كہ مبادان كى نگاہ بيٹے كے چہرے پر پڑے اور پدرى جذبات جوش ميں آجائيں اور فرمان خدا كے اجراء ميں مانع ہوجائيں _

بہرحال حضرت ابراہيم نے بيٹے كے چہرے كو خاك پر ركھا اور چھرى كو حركت دى اور تيزى اور طاقت كے ساتھ اسے بيٹے كے گلے پر پھير ديا جب كہ ان كى روح ہيجان ميں تھى اور صرف عشق خداہى انھيں اپنى راہ ميں كسى شك كے بغير آگے بڑھا رہاتھا _

ليكن تيزدھار چھرى نے بيٹے كے لطيف ونازك گلے پر معمولى سا بھى اثر نہ كيا _

حضرت ابراہيم(ع) حيرت ميں ڈوب گئے ،دوبارہ چھرى كو چلايا ، ليكن پھر بھى وہ كار گر ثابت نہ ہوئي ، ہاں : خليل تو كہتے ہيں كہ ''كاٹ'' ليكن خدا وند جليل يہ حكم دے رہا ہے كہ ''نہ كاٹ '' اور چھرى تو صرف اسى كى فرمانبردارہے _

يہ وہ منزل ہے كہ جہاں قرآن ايك مختصر اور معنى خيز جملے كے ساتھ انتظار كو ختم كرتے ہوئے كہتا ہے:'' اس وقت ہم نے ندادى (اور پكار كر كہا ) كہ اے ابراہيم : خواب ميں جو حكم تمھيں ديا گيا تھا وہ تم نے پورا كرديا ،ہم نيكو كاروں كو اسى طرح جزا ديا كرتے ہيں _ ''(۱)

ہم ہى انھيں امتحان ميں كاميابى كى توفيق ديتے ہيں اور ہم ايسا بھى نہيں ہونے ديں گے كہ ان كا فرزند دل بندان كے ہاتھ ہى سے چلاجائے ہاں : جو شخص سرتاپا ہمارے حكم كے سامنے سر تسليم خم كئے ہوئے ہے اوراس نے نيكى كو اعلى حد تك پہنچا ديا ہے ، اس كى اس كے سوااور كوئي جزا نہيں ہوگى _

اس كے بعد مزيد كہتا ہے :'' بے شك يہ اہم اور آشكار امتحان ہے _''(۲)

بيٹے كو اپنے ہاتھ سے ذبح كرنا ، وہ بھى نيك اور لائق بيٹا ،اس باپ كے لئے جس نے ايك عمر ايسے

____________________

(۱)سورہ صافات آيات ۱۰۴

(۲) سورہ صافات آيات ۱۰۶

۱۳۹

فرزند كے انتظار ميں گذارى ہو، آسان كام نہيں ہے _ ايسے فرزندكى ياد كس طرح دل سے نكال سكتا تھا ؟اس سے بھى بالا تر يہ كہ وہ انتہائي تسليم ورضا كے ساتھ ماتھے پرشكن لائے بغير ايسے فرمان كى تعميل كے لئے آگے بڑھے اور اس كے تمام مقدمات كو آخرى مرحلے تك انجام دے ، اس طور پر كہ روحانى اور عملى آمادگى كے لحاظ سے كوئي كسرباقى نہ چھوڑے _

اس سے بھى بڑھ كر عجيب، اس فرمان كے آگے اس نوجوان كى اطاعت شعارى كى انتہا ،وہ خوشى خوشى ، اطمينان قلب كے ساتھ پروردگار كے لطف سے ، اس كے ارادے كے سامنے ، سرتسليم خم كرتے ہوئے ، ذبح كے استقبال كےلئے آگے بڑھا _

جبرئيل (ع) كى فرياد تكبير

جس وقت يہ كام انجام پاچكا تو جبرئيل نے (تعجب كرتے ہوئے )پكاركر كہا '' اللّہ اكبر'''' اللّہ اكبر'' ابراہيم(ع) كے فرزندنے كہا : ''لااله الااللّه و اللّه اكبر ''_اور عظيم فداكار باپ نے بھى كہا '' اللّہ اكبر واللّہ الحمد '' _

اور يہ ان تكبيروں كے مشابہ ہے جو ہم عيد قربان كے دن پڑھتے ہيں _

ہم جانتے ہيں كہ اسلامى روايات ميں عيد الاضحى كے بارے ميں جو احكام آئے ہيں ان ميں كچھ مخصوص تكبيريں ہيں جو تمام مسلمان پڑھتے ہيں چاہے وہ مراسم حج ميں شريك ہوں اوريا منى ميں موجود ہوں اور چاہے دوسرے مقامات پر ہوں _ فرق اتنا ہے كہ جو منى ميں ہيں وہ ان نمازوں كے بعد پڑھتے ہيں جن سے پہلى عيد كے دن كى نماز ظہر ہے اور جو منى ميں نہيں ہوتے وہ ان نمازوں كے بعد تكرار كرتے ہيں اور ان تكبيرات كى صورت اس طرح ہے :

''اللّه اكبر، اللّه اكبر، لااله الاللّه ، اللّه اكبر ، اللّه اكبر، وللّه الحمد، اللّه اكبر على ماهدانا ''_

جس وقت ہم اس حكم كا اس حديث كے ساتھ موازنہ كركے ديكھتے ہيں ، جسے ہم پہلے نقل كرچكے

۱۴۰

ہيں _ تو معلوم ہوتا ہے كہ يہ تكبيريں حقيقت ميں جبرئيل(ع) اور اسماعيل (ع) اور ان كے باپ ابراہيم كى تكبيروں كا مجموعہ ہيں ، اور كچھ اس پراضافہ ہے _دوسرے لفظوں ميں يہ الفاظ حضرت ابراہيم(ع) اور حضرت اسماعيل كى اس عظيم آزمائش ميں كاميابى كى ياد لوگوں كى نظروں ميں زندہ كرتے ہيں ، اور تمام مسلمانوں كو ايك پيغام الہى ديتے ہيں چاہے وہ منى ميں ہوں يا منى كے علاوہ دوسرے مقامات پر _''(۱)

ذبح عظيم

ليكن اس غرض سے كہ ابراہيم(ع) كا پروگرام بھى نامكممل نہ رہ جائے اور خدا كى بارگاہ ميں ان كى طرف سے قربانى بھى ہوجائے اور ابرہيم كى آرزو پورى ہوجائے ، خدا نے ايك بہت بڑا مينڈھا بھيج ديا تاكہ بيٹے كى جگہ اس كى قربانى كريں اور مراسم '' حج'' اور سرزمين '' منى '' ميں آنے والوں كے لئے اپنى سنت چھوڑجائيں چنانچہ قرآن كہتا ہے :'' ہم نے ذبح عظيم كو اس كا فديہ قرارديا _''(۲)(۲)

اس ذبح كى عظمت كى ايك نشانى يہ ہے كہ زمانہ گذرنے كے ساتھ ساتھ ہر سال زيادہ وسعت پارہى ہے _

اس وقت ہر سال اس ذبح عظيم كى ياد ميں بيس لاكھ سے زيادہ'' منى ''ميں جانورذبح كيے جاتے ہيں اوراس ياد كو زندہ كيا جاتاہے_

____________________

(۱) سورہ حجر آيت ۵۱

(۲)سورہ صافات آيات ۱۰۷

(۳) اس بارے ميں كہ اس ذبح كى عظمت كس لحاظ سے تھى ، جسمانى اور ظاہرى لحاظ سے يااس جہت سے كہ فرزند ابراہيم كا فديہ تھى يا اس لحاظ سے كہ خدا كى راہ ميں اور خداكے لئے تھى يا اس لحاظ سے كہ قربانى خدا كى طرف سے ابراہيم كے لئے بھيجى گئي تھى _

مفسرين نے اس سلسلے ميں بہت كچھ كہا، ليكن كوئي مانع نہيں كہ يہ تمام جہات ذبح عظيم ميں جمع ہوں اور وہ مختلف جہات سے عظمت كى حامل ہو_

۱۴۱

وہ بہت بڑامينڈھا ابراہيم كو كس طرح ديا گيا اس بارے ميں زيادہ تر اس بات كے معتقد ہيں كہ اسے جبرئيل لائے تھے ، بعض يہ بھى كہتے ہيں كہ وہ ''مني'' كے پہاڑوں كے دامن سے نيچے اتراتھا _ بہرحال جو كچھ بھى تھا خدا كے حكم اور اس كے ارادے سے تھا ،خدانے نہ صرف اس دن كے عظيم امتحان ميں حضرت ابراہيم كى كاميابى كى تعريف وتوصيف كى بلكہ اس كى ياد كو جاويدانى بناديا _

جيسا كہ قرآن ميں فرمايا گيا ہے :''ہم نے ابراہيم كے نيك نام كوبعد كى امتوں ميں باقى رہنے والا بنايا _''(۱)

وہ آنے والى سب نسلوں اور لوگوں كے لئے نمونہ اور تمام پاكباز اور كوئے دوست كے دلدادہ عاشقوں كے لئے راہنمابن گئے اور ہم نے ان كے طرز عمل كو رہتى دنيا تك كے لئے حج كى سنت كے طور پر جاويدانى بناديا وہ عظيم پيغمبروں كے باپ تھے وہ امت اسلامى اور پيغمبر اسلام كے باپ تھے _

'' ابراہيم پر سلام (جو مخلص اور پاكباز تھے) _''(۲) ہاں '' ہم اسى طرح سے نيكو كاروں كو بدلہ ديا كرتے ہيں _''(۳) عظمت دنيا كاصلہ، تمام زمانوں ميں باقى رہنے والا كاصلہ ،خدائے برزگ كے لائق درودوسلام كاصلہ _

ذبيح اللہ كون ہے ؟

اس بارے ميں كہ حضرات ابراہيم كے دونوں فرزندوں (اسماعيل (ع) اور اسحاق (ع) ) ميں سے كون قربان گاہ ميں لايا گيا اور كس نے ذبيح اللہ كا لقب پايا؟ مفسرين كے درميان شديد بحث ہے ايك گروہ حضرت اسحاق (ع) كو '' ذبيح'' جانتا ہے اور ايك جماعت حضرت اسماعيل (ع) ،كو پہلے نظريہ كو بہت سے مفسرين اہل سنت اور دوسرے نظريہ كو مفسرين شيعہ نے اختيار كيا ہے ،ليكن جو كچھ قرآن كى مختلف آيات كے ظاہر سے ہم آہنگ ہے وہ يہى ہے كہ '' ذبيح'' '' اسماعيل (ع) '' تھے_

____________________

(۱)سورہ صافات آيت ۱۰۸

(۲)سورہ صافات آيت ۱۰۹

(۳) سورہ صافات آيت۱۱۰

۱۴۲

جناب اسحاق كى بشارت

يہ امر جاذب نظر ہے كہ بات حضرت ابراہيم عليہ السلام كے مہمانوں كے واقعہ سے شروع كى گئي ہے (وہى فرشتے كہ جو آپ كے پاس انسانى لباس ميں آئے تھے پہلے انھوں نے آپ كو ايك ذى وقاربيٹے كى پيدائش كى بشارت دى اور پھر قوم لوط كے دردناك انجام كى خبردى )_

ارشادفرمايا : ميرے بندوں كو ابراہيم كے مہمانوں كے بارے ميں خبردو _''(۱)

يہ بن بلائے مہمان وہى فرشتے تھے جنہوں نے '' ابراہيم (ع) كے پاس پہنچ كر پہلے انجانے طور پر اسے سلام كيا _''(۲)

جيسا كہ ايك بزرگوار ميزبان كا فريضہ ہے، ابراہيم(ع) نے ان كى پذيرائي كا اہتمام كيا فورا ًان كےلئے مناسب غذافراہم كى ليكن جب دسترخوان بچھايا گيا تو انجانے مہمانوں نے غذا كى طرف ہاتھ نہ بڑھايا تو حضرت ابراہيم(ع) كو اس پر وحشت ہوئي ،انھوں نے اپنى پريشانى چھپائي نہيں صراحت سے ان سے كہا: ''ہم تم سے خوفزدہ ہيں _ ''(۳)

يہ خوف اس رواج كى بناء پر تھا كہ اس زمانے ميں اور بعد ميں بھى بلكہ ہمارے زمانے تك بعض قوموں كا معمول ہے كہ جب كوئي شخص كسى كا نان نمك كھاليتا ہے تو اسے ضرر نہيں پہنچاتااور اپنے آپ كو اس كا ممنون احسان سمجھتا ہے لہذا كھانے كى طرف ہاتھ نہ بڑھانے كو برا سمجھتا ہے اور اسے كينہ وعداوت كى دليل شمار كيا جاتاہے _

ليكن زيادہ ديرنہ گذرى تھى كہ فرشتوں نے حضرت ابراہيم عليہ السلام كو پريشانى سے نكال ديا اور ''ان سے كہا :'' ڈرو نہيں ہم تجھے ايك عالم ودانا بيٹے كى بشارت ديتے ہيں _''(۴)

____________________

(۱) سورہ حجر آيت ۵۱

(۲) سورہ حجر آيت ۵۲

(۳) سورہ حجر آيت۵۲

(۴)سورہ فجر آيت ۵۳

۱۴۳

يہ كہ غلام عليم(صاحب علم لڑكے ) سے كون مراد ہے؟

قرآن كى ديگر آيات كو سامنے ركھتے ہوئے واضح ہوجاتاہے كہ اس سے مراداسحاق ہيں كيونكہ فرشتوں نے جب حضرت ابراہيم كو يہ بشارت دى تو ان كى بيوى سارہ جوظاہراً ايك بانجھ عورت تھى وہ بھى موجود تھى انھوں نے اسے بھى يہ بشارت دي_(۱)

ہم يہ بھى جانتے ہيں كہ سار ہ حضرت اسحاق عليہ السلام كى والدہ تھيں اس سے پہلے حضرت ابراہيم عليہ السلام حضرت ہاجرہ سلام اللہ عليہا سے صاحب اولاد تھے حضرت اسماعيل عليہ السلام ان كے فرزند تھے ( حضرت ہاجرہ وہ كنيزتھيں جنھيں حضرت ابراہيم نے زوجيت كے لئے انتخاب كيا تھا ) ليكن حضرت ابراہيم(ع) اچھى طرح جانتے تھے كہ طبيعى اصولوں كے لحاظ سے ان سے ايسے بيٹے كى پيدائش بہت بعيد ہے اگرچہ خدا كى قدرت كاملہ كے لئے كوئي چيز محال نہيں ہے، مگر انھوں نے معمول كے طبيعى قوانين كى طرف توجہ كى جس نے ان كے تعجب كو ابھارا لہذا انھوں نے كہا مجھے ايسى بشارت ديتے ہو حالانكہ ميں بڑھاپے كى عمر كو پہنچ گيا ہوں ،واقعاً مجھے كس چيز كى بشارت دے رہے ہو _(۲)

''كيا تمہارى يہ بشارت حكم الہى سے ہے يا خود تمہارى طرف سے ہے صراحت سے كہو تاكہ مجھے زيادہ اطمينان ہو''_

''ممكن ہے كہا جائے كہ اس لحاظ سے ابراہيم ايك اچھے تجربے سے گذرے تھے كہ بڑھاپے ميں ہى ان كے بيٹے اسماعيل پيدا ہوئے تھے لہذا نئے بيٹے يعنى حضرت اسحاق كى پيدائش كے بارے ميں انھيں تعجب نہيں كرنا چاہئے تھا ليكن معلوم ہونا چاہئے ،كہ بعض مفسرين كے بقول حضرت اسماعيل اور حضرت اسحاق كى پيدائش ميں دس سال سے زيادہ كا فاصلہ تھا لہذابڑھاپے ميں دس سال گذر جائيں تو بچے كى پيدائش كا احتمال بہت ہى كم ہوتا ہے_

____________________

(۱) سورہ ہودكى آيہ ۷۱ميں ہے''اس كى بيوى كھڑى تھى ،وہ ہنسى اور ہم نے اسے اسحاق كى بشارت دي''

(۲)سورہ حجر ايت ۵۴

۱۴۴

ثانياً اگر كوئي واقعہ خلاف معمول ہو اگر چہ استثنائي طورپر ہو،اس سے مشابہ مواقع پر تعجب كرنے سے مانع نہيں ہے''_

كيونكہ ايسے سن وسال ميں بچے كى پيدائش بہرحال ايك امر عجيب ہے ،كہتے ہيں كہ جناب اسماعيل كى پيدائش كے وقت جناب ابرہيم (ع) كى ۹۹/ سال كى عمر تھى اور جناب اسماعيل كى ولادت كے وقت ۱۱۲/كى عمر ہوچكى تھي_(۱)

بہرحال فرشتوں نے حضرت ابراہيم عليہ السلام كو ترد د يازيادہ تعجب كا موقع نہ ديا ، اور ان سے صراحت وقاطعيت سے كہا ہم تجھے حق كے ساتھ بشارت دے رہے ہيں _ ''(۲)

وہ بشارت كہ جوخدا كى طرف سے ہے اور اس كے حكم سے ہے اسى بناء پر يہ حق ہے مسلم ہے _

اس كے بعد اس لئے كہ مبادا ابراہيم مايوس ونااميد ہوں تاكيد كے طور پر كہنے لگے : ''اب جبكہ ايسا ہے تو مايوس ہونے والوں ميں سے نہ ہو ''_

ليكن ابراہيم عليہ السلام نے فوراً ان كے اس خيال كودور كرديا كہ يہاں پر مايوسى اوررحمت خدا سے نااميدى كا غلبہ نہيں ہے اور واضح كيا كہ يہ تو صرف طبيعى معمولات كے حوالے سے تعجب ہے، لہذا صراحت سے كہا: گمراہوں كے سوا اپنے پروردگار كى رحمت سے كون مايوس ہوگا_''(۳)

وہى گمراہ كہ جنھوں نے خدا كواچھى طرح نہيں پہچانا اور اس كى بے پاياں قدرت پر ان كى نگاہ نہيں _ وہ خدا كہ جو مشت خاك سے ايسا عجيب وغريب انسان پيدا كرتا ہے اور ناچيز نطفہ سے ايك مكمل بچہ وجود ميں لاتاہے خرمے كا خشك درخت جس كے حكم سے پھل سے لدجاتاہے اور جلانے والى آگ جس كے حكم سے گلزار ہوجاتى ہے، كون شخص ايسے پروردگار كى قدرت ميں شك كرے يا اس كى رحمت سے مايوس ہو _

____________________

(۱)سورہ حجر ايت ۵۵

(۲) سورہ حجر آيت۵۳

(۳)سورہ حجر آيت ۵۵

۱۴۵

حضرت ابراہيم (ع) كے ہاتھوں خانہ كعبہ كى تعمير نو

قرآن كى مختلف آيات،احاديث اور تو اريخ اسلامى سے واضح ہوتا ہے خانہ كعبہ حضرت ابراہيم سے پہلے ،بلكہ حضرت آدم (ع) كے زمانے ميں موجود تھا كيونكہ سورہ ابراہيم ميں حضرت ابراہيم (ع) جيسے عظيم پيغمبر كى زبانى يوں آياہے :

پروردگار :ميں اپنى ذريت ميں سے (بعض كو ) اس بے آب وگياہ وادى ميں تيرے محترم گھر كے پاس بسارہاہوں _ ''(۱)

يہ آيت واضح طور پر گواہى ديتى ہے كہ جب حضرت ابراہيم اپنے شير خوار بيٹے اسماعيل اور اپنى زوجہ كے ساتھ سرزمين مكہ ميں آئے تو خانہ كعبہ كے آثار موجود تھے _

اسى طرح سورہ آل عمران ميں بھى ہے :

''پہلا گھر جو عبادت خدا كى خاطر انسانوں كے لئے بنايا گيا وہ سرزمين مكہ ميں تھا'' _(۲)

يہ مسلم ہے كہ عبادت خدا اور مركز عبادت كى بنياد حضرت ابراہيم عليہ السلام كے زمانہ سے نہيں پڑى بلكہ حضرت آدم عليہ السلام كے زمانے سے يہ سلسلہ جارى تھا _

اتفاقاً قرآنى كى تعبير بھى اس معنى كو تقويت ديتى ہے كہ فرماياگيا ہے : ياد كرو اس وقت كو جب ابراہيم اور اسماعيل عليہما السلام (جب اسماعيل عليہ السلام كچھ بڑے ہوگئے تو ) خانہ كعبہ كى بنيادوں كو اونچا كررہے تھے اور كہتے تھے:''پروردگاراہم سے قبول فرما،تو سننے والا اور جاننے والا ہے_''(۳)

آيت كا يہ انداز بتاتا ہے كہ خانہ كعبہ كى بنياديں موجود تھيں اور ابراہيم(ع) اور اسماعيل(ع) اس كے ستون بلند كررہے تھے _

نہج البلاغہ كے مشہور خطبہ قاصعہ ميں بھى ہے :

____________________

(۱)سورہ ابراہيم آيت ۳۷

(۲)سورہ ال عمران ايت ۹۶

(۳)سورہ بقرہ آيت ۱۲۷

۱۴۶

''كيا ديكھتے نہيں كہ ہو كہ خدا نے آدم سے لے كر آج تك كچھ پتھروں كے ذريعہ ذريعہ امتحان ليا(وہ پتھر كہ) جنھيں اپنا محترم گھر قرار ديا، پھر آدم اور اولاد آدم كو حكم ديا كہ اس كے گرد طواف كريں ''_

مختصر يہ كہ آيات قرآن اور روايات ،تاريخ كى اس مشہور بات كى تائيد كرتى ہيں كہ خدا كعبہ پہلے پہل حضرت آدم عليہ السلام كے ہاتھوں بنا_ پھر طوفان نوح(ع) ميں گرگيا _ اس كے بعد حضرت ابراہيم عليہ السلام اوران كے فرزند حضرت اسماعيل عليہ السلام كے ہاتھوں اس كى تعمير نو ہوئي _

حضرت ابراہيم عليہ السلام كو انعام ميں امامت ملي

قرآن كريم حضرت ابراہيم عليہ السلام كى زندگى كے اہم ترين موڑ يعنى ان كى بڑى بڑى آزمائش وں اور ان ميں ان كى كاميابى كے متعلق گفتگو كرتا ہے وہ آزمائش يں جنھوں نے ابراہيم عليہ السلام كى عظمت، مقام اور شخصيت كو مكمل طور پر نكھار ديا اور ان كى شخصيت كى بلندى كو روشن كرديا، ارشاد ہوتا ہے:

''اس وقت كو ياد كرو جب خدا نے ابراہيم كو مختلف طريقوں سے آزمايا اور وہ ان آزمائش وں ميں اچھى طرح سے كامياب ہوئے_''(۱)

جب ابراہيم عليہ السلام ان امتحانات ميں كامياب ہوگئے تو وہ منزل آئي كہ خدا انھيں انعام دے ،تو فرمايا: ''ميں تمہيں لوگوں كا امام، رہبر اورپيشوا قرار ديتا ہوں _''(۲)

'' ابراہيم عليہ السلام نے درخواست كى كہ ميرى ذريت اور خاندان سے بھى آئمہ قرار دے ''تاكہ يہ رشتہ نبوت وامامت منقطع نہ ہو، اور صرف مجھ سے قائم نہ رہے_ ''(۳)

خدا نے اس كے جواب ميں فرمايا:''ميرا عہدہ يعنى مقام امامت ظالموں تك ہرگز نہيں پہنچے گا_''(۴)

____________________

(۱) سورہ بقرہ آيت ۱۲۴

(۲) سورہ بقرہ آيت ۱۲۴

(۳) سورہ بقرہ آيت ۱۲۴

(۴) سورہ بقرہ آيت ۱۲۴

۱۴۷

يعنى ہم نے تمہارى درخواست قبول كرلى ہے ليكن تمہارى ذريت ميں سے صرف وہ لوگ اس مقام كے لائق ہيں جو پاك اور معصوم ہيں _

ابراہيم عليہ السلام كا كن چيزوں كے ذريعہ امتحان ليا گيا

آيات قرآن سے اور ابراہيم عليہ السلام كے وہ نظر نوازاعمال جن كى خدانے تعريف كى ہے،ان كے مطالعہ سے ظاہر ہوتا ہے كہ كلمات (وہ جملے جو خدانے ابراہيم عليہ السلام كو سكھائے ) در اصل ذمہ داريوں كا ايك گراں اور مشكل سلسلہ تھا جو خدانے ابراہيم عليہ السلام كے ذمہ كيا اور اس مخلص پيغمبر نے انہيں بہترين طريقے سے انجام ديا _

حضرت ابراہيم عليہ السلام كے امتحانات ميں يہ امور شامل تھے :

(۱)بيٹے كو قربان گاہ ميں لے جانا اور فرمان خدا سے اسے قربان كرنے كے لئے پر عزم آمادگى كا مظاہرہ كرنا _

(۲) اپنى بيوياں اور بيٹے كو مكہ كى خشك اور بے آب وگياہ سرزمين ميں لے جانا جہاں كوئي انسان نہ بستا تھا _

(۳) بابل كے بت پر ستوں كے مقابلے ميں قيام كرنا ،بتوں كو توڑنا اور اس تاريخى مقدمو ں ميں پيش ہونا اور نتيجتاًآگ ميں پھينكا جانا اور ان تمام مراحل ميں اطمينان وايمان كا ثبوت دينا _

(۴) بت پرستوں كى سرزمين سے ہجرت كرنا اور اپنى زندگى كے سرمائے كو ٹھوكرمارنا اور ديگر علاقوں ميں جاكر پيغام حق سنانا ،ايسے اور بھى بہت سے امور ہيں _

حقيقت يہ ہے كہ ان ميں سے ہر ايك بہت سخت اور مشكل آزمائش تھى ليكن ابراہيم عليہ السلام ايمانى قوت كے ذريعہ ان تمام امتحانات ميں پورا اترے اور ثابت كيا كہ وہ مقام'' امامت ''كى اہليت ركھتے تھے _

۱۴۸

امام كسے كہتے ہيں ؟

قرآن كريم سے اجمالاً يہ ظاہر ہوتا ہے كہ حضرت ابراہيم كو جو مقام امامت بخشا گيا وہ مقام نبوت ورسالت سے بالاتر تھا_ ''

امام صادق عليہ السلام فرماتے ہيں :

''خداوندعالم نے نبى بنانے سے قبل ابراہيم عليہ السلام كو عبد قرار ديا،اور اللہ نے انہيں رسول بنانے سے قبل نبى قرار ديا،اور انہيں خليل بنانے سے پہلے اپنى رسالت كے لئے منتخب كيا اور اس سے پہلے كہ امام بناتا انھيں اپنا كليل بناياجب يہ تمام مقامات و مناصب انہيں حاصل ہوچكے تو اللہ نے فرمايا ميں تمہيں انسانوں كے لئے امام بناتا ہو ں حضرت ابراہيم كو يہ مقام عظيم ديا تو انہوں نے عرض كيا : خدايا ميرى ذريت ميں سے بھى امام قرار دے _ ارشاد ہوا: ميرا عہدہ ظالموں تك نہيں پہنچے گا، بے وقوف شخص متقى لوگوں كا امام نہيں ہوسكتا _

۱۴۹

۳ انبياء عليهم السلام کے واقعات

حضرت لوط عليہ السلام

جناب لوط عليہ السلام خدا كے عظيم پيغمبر تھے اور حضرت ابراہيم (ع) كے ہم عصر تھے اور جناب ابراہيم(ع) سے قريبى رشتہ دارى تھى (كہا جاتاہے كہ آپ جناب ابراہيم(ع) كے خا لہ زاد بھائي تھے )_

يہ بات مسلمہ ہے كہ ابراہيم(ع) عراق اور سرزمين بابل سے ہجرت كرنے كے بعد شامات كى طرف گئے، كہتے ہيں كہ لوط بھى ان كے ساتھ تھے ليكن كچھ مدت كے بعد (توحيد كى طرف دعوت دينے اور فتنہ وفساد سے مبارزہ كے لئے ) شہر'' سدوم'' كى طرف گئے _

'' سدوم '' قوم لوط كے ايك شہر اور آبادى كا نام تھا جو شامات( ملك اردن ميں )'' بحر الميت'' كے قريب واقع تھا جو آباد اور درختوں اور سبزہ زار سے بھرا تھا، ليكن اس بدكاروبے غيرت قوم پر عذاب الہى كے نازل ہونے كے بعد، ان كے شہر مسمار اور تہ وبالا ہوگئے ، چنانچہ انہيں '' مدائن مو تفكات''_ (تہ وبالاہونے والے شہر) كہتے ہيں _

بعض كا نظر يہ، يہ ہے كہ ان شہروں كے ويرانے زير آب آگئے ہيں ، اور ان كا دعوى ہے كہ انہوں نے '' بحر الميت''كے ايك گوشہ ميں كچھ ستون اور دوسرے آثار جوان شہروں كے خرابوں پر دلالت كرتے ہيں ديكھے ہيں _

جب كہ بعض لوگوں كا نظريہ ہے كہ قوم لوط كے شہر زير اب نہيں ائے ،اور اب بھى ''بحر الميت''كے قريب ايك علاقہ ہے جو سياہ پتھروں كے نيچے ڈھكا ہوا ہے، احتمال ہے كہ قوم لوط كے شہروں كى جگہ يہيں ہو _

۱۵۰

اور يہ بھى كہا ہے كہ ابراہيم(ع) كا مركز شہر'' حبرون'' ميں تھا ، جو شہر'' سدوم '' سے چنداں دور فاصلہ پر نہيں تھا، اور جس وقت زلزلہ يا صاعقہ كے زيراثران كے شہروں كو آگ لگى تو اس وقت ابراہيم حبرون كے قريب كھڑے ہوئے تھے، اور شہر سے جو دھنواں اٹھ رہا تھا اسے اپنى آنكھ سے ديكھ رہے تھے _

اس گفتگو كے مجموعہ سے ان شہروں كے قريباً حدودواضح ہوگئے، اگرچہ ان كے جزئيات كے ابھى تك پردہ ابہام ميں ہيں _

قوم لوط كا سب سے بڑا اخلاقى انحراف

قرآن كريم اس عظيم پيغمبر اور ان كى قوم كے واقعہ كو اس طرح شروع كرتا ہے كہ ''لوط كى قوم نے خدا كے بھيجے ہوئے رسولوں كى تكذيب كي_''(۱)

'' مرسلين ''رسولوں كو جمع كى صورت ميں بيان كرنے كى وجہ يا تويہ ہے كہ انبياء عليہم السلام كى دعوت ايك ہوتى ہے لہذا كسى بھى پيغمبر كى تكذيب سب كى تكذيب شمار كى جاتى ہے يا پھر اس لئے ہے كہ وہ گزشتہ كسى بھى پيغمبر پر ايمان نہيں ركھتے تھے_پھر فرمايا گيا ہے : ميں تمہارے لئے امين رسول ہوں _

اب جبكہ صورت حال يہ ہے تو پرہيزگارى اختياركرو ، خدا سے ڈرو اور ميرى اطاعت كرو ،كيونكہ ميں راہ سعادت كا رہبر ہوں _''(۲)

كيا اب تك تم نے مجھ سے كوئي خيانت ديكھى ہے ؟اس كے بعد وحى الہى اور تمہارے رب كا پيغام پہنچانے ميں بھى يقينا امانت كو مدنظر ركھوں گا _

يہ نہ سمجھوكہ يہ دعوت الہى ميرے گزراوقات كا ايك ذريعہ ہے يا كسى مادى مقصد كو پيش نظر ركھ كر ايسا كام كررہاہوں ، نہ، ميں تو ذرہ بھر بھى تم سے اجرت نہيں مانگتا، ميرا اجر تو صرف عالمين كے رب كے پاس ہے_''(۳)

____________________

(۱)سورہ شعراء آيت ۱۶۱

(۲)سورہ شعراء آيت ۱۶۲

(۳)سورہ شعراء آيت ۱۶۳

۱۵۱

پھروہ ان كے ناشائستہ اعمال اورا ن كى كچھ اخلاقى بے راہروى كى باتوں كو بيان كرتے ہيں اور چونكہ ان كا بڑا انحراف اور ہم جنس بازى تھا لہذا اسى بات پرزيادہ زوردے كر كہتے ہيں : آيا تم سارى دنيا ميں صرف مردوں كے پاس ہى جاتے ہو ''_(۱)

يعنى باوجود يكہ خداوندعالم نے اس قدر جنس مخالف تمہارے لئے خلق فرمائي ہے جن سے صحيح طريقے سے شادى كركے پاك وپاكيزہ اور اطمينان بخش زندگى بسركرسكتے ہو ں

خدا كى اس پاك اور فطرى نعمت كو چھوڑكر تم نے خود كو اس طرح كے پست اور حيا سوزكام سے آلودہ كرليا ہے _

''اپنى ازواج كو ترك كرديتے ہو جنھيں خدانے تمہارے لئے خلق فرمايا ہے تم تو تجاوز كرنے والى قوم ہو _''(۲)

يقينا كسى روحانى يا جسمانى فطرى ضرورت نے تمہيں اس بے راہروى پر آماوہ نہيں كيا بلكہ يہ تمہارى سركشى ہے جس نے تمہارے دامن كو اس شرمناك فعل كى گندگى سے آلودہ كرديا ہے _

تمہارے كام كى مثال ايسے ہے جيسے كوئي شخص خوشبودار ميوے ،مقوى اور صحيح سالم غذائيں چھوڑكرزہر آلوداور مارڈالنے والى غذائوں كو استعمال كرے يہ فطرى خواہش نہيں بلكہ سركشى ہے _

جہاں پر عفت ايك عيب ہو

قوم لوط كے افراد جو بادہ شہوت وغرور سے مست ہوچكے تھے، اس رہبر الہى كى نصيحتوں كو جان ودل سے قبول كرنے اور خود كو اس دلدل سے باہر نكالنے كى بجائے اس كے مقابلے پر تل گئے اور ان سے كہا :اے لوط(ع) كافى ہوچكا ہے ،اب خاموش رہو اگر ان باتوں سے بازنہ آئے تو تمہارا شمار بھى اس شہر سے نكال ديئےانے والوں ميں سے ہوگا ''_(۳)

____________________

(۱)سورہ شعراء آيت ۱۶۵

(۲) سورہ شعراء آيت ۱۶۶

(۳)سورہ شعرا آيت ۱۶۷

۱۵۲

تمہارى باتيں ہمارى فكر اور آرام ميں خلل ڈال رہى ہيں ہم ان باتوں كے سننے كے ہرگز روادار نہيں ، اگر تمہارى يہى حالت رہى تو ہم تمہيں سزاديں گے جو كم از كم جلاوطنى كى صورت ميں ہوگى ہے _قرآن مجيدميں ايك اور مقام پر ہے كہ انھوں نے اپنى اس دھكى كو عملى جامہ بھى پہنايا اور حكم ديا كہ لوط(ع) كے خاندان كو شہرسے باہر نكال دو كيونكہ وہ پاك لوگ ہيں اور گناہ نہيں كرتے _

ان گمراہ اور گناہ سے آلود لوگوں كى جسارت اس حدتك جاپہنچى كہ تقوى اور طہارت ان كے درميان بہت بڑا عيب سمجھا جانے لگا اور ناپا كى اور گناہ سے آلود گى سرمايہ افتخار اور يہ كسى معاشرے كى تباہى كى علامت ہوتى ہے جو تيزى كے ساتھ برائيوں كى طرف بڑھ رہا ہوتا ہے _اس سے معلوم ہوتا ہے كہ اس فاسق وفاجر گروہ نے ايسے پاك وپاكيزہ لوگوں كوپہلے باہرنكال ديا جوان كوان كے بے ہودہ اعمال سے روكا كرتے تھے لہذا انھوں نے حضرت لوط عليہ السلام كو بھى يہى دھمكى دى كہ اگر تم نے اپنے اس تبليغى سلسلے كو جارى ركھا تو تمہارا بھى وہى انجام ہوگا _بعض تفسيروں ميں صراحت كے ساتھ تحرير ہے كہ وہ پاك دامن لوگوں كو بدترين طريقے سے جلاوطن كرديا كرتے تھے _

قرآن كہتا ہے ان كے پاس اس كے سوا اور كوئي جواب نہيں تھا كہ ايك دوسرے سے كہا: ''لوط كے خاندان كو اپنے شہر اور علاقے سے نكال باہر كرو كيونكہ يہ برے پاكباز لوگ ہيں اور يہ اپنے تئيں ہم سے ہم آہنگ نہيں كرسكتے ''_(۱)

يہ ايك ايسا جواب ہے جو ان كى فكرى پستى اور انتہائي اخلاقى تنزل كا آئينہ دار ہے _

جى ہاں : مجرم اور گناہ سے آلودہ ماحول ميں پاكيزگى ايك جرم وعيب ہوا كرتى ہے يوسف جيسے پاكدامن كو عفت وپارسائي كے جرم ميں زندانوں ميں ڈالا جاتا ہے جبكہ زليخائيں اس ماحول ميں آزاد اور صاحب جاہ ومقام ،ہوا كرتى ہيں اور قوم لوط(ع) اپنے اپنے گھروں ميں آرام وآساآش كے ساتھ رہتى ہے _

____________________

(۱) سورہ شعراء آيت ۱۶۷

۱۵۳

يہيں پر قرآن مجيد كا مصداق واضح ہوجاتاہے جووہ گمراہ لوگوں كے بارے ميں كہتا ہے كہ:

ہم (ان كے اپنے اعمال كى بناپر) ان كے دلوں پر مہرلگاديتے ہيں اور ان كى آنكھوں پر پردے ڈال ديتے اور ان كے كان بہرے ہوجائے _

ايك احتمال يہ بھى ہے كہ وہ گناہوں كى دلدل ميں اس حدتك پھنس چكے تھے كہ لوط كے خاندان كا تمسخراڑا كر كہتے تھے كہ وہ ہميں ناپاك سمجھتے ہيں اور خود بڑے پاكباز بنتے ہيں ، يہ كيسا مذاق ہے؟

يہ عجيب بات نہيں تو اور كيا ہے كہ بے حيائي اور بے شرمى كے فعل سے مانوس ہوجانے كى وجہ سے انسان كى حس شناخت ہى يكسر بدل جائے يہ بالكل اس چمڑارنگنے والے كى مثال ہے جوبدبوسے مانوس ہوچكا تھا اور جب ايك مرتبہ وہ عطاروں كے بازارسے گزررہا تھا تو عطر كى نامانوس بوكى وجہ سے بے ہوش ہوگيا، جب اسے حكيم كے پاس لے گئے تو اس نے حكم ديا كہ اسے دوبارہ چمڑار نگنے والوں كے بازار ميں لے جاياجائے چنانچہ ايسا ہى كيا گيا اور وہ ہوش ميں آگيا اور مرنے سے بچ گيايہ واقعاًاس بارے ميں ايك دلچسپ حسى مثال ہے _

۳۰ /سال سعى و كوشش

جناب لوط عليہ السلام نے اس قوم كو تيس سال تك تبليغ كي، ليكن اپنے خاندان كے سوا(اور وہ بھى بيوى كو مستثنى كر كے كيونكہ وہ مشركين كے ساتھ ہم عقيدہ ہوگئي تھي)، اور كوئي آپ پر ايمان نہيں لايا_

ليكن حضرت لوط عليہ السلام نے ان دھمكيوں كى كوئي پرواہ نہ كى اور اپنا كام جارى ركھا اور كہا :'' ميں تمہارے ان كاموں كا دشمن ہوں _''(۱)

يعنى ميں اپنا احتجاج برابر جارى ركھوں گا ،تم جو كچھ ميرا بگاڑنا چاہتے ہو بگاڑلو ،مجھے راہ خدا اور برائيوں كے خلاف جہاد كے سلسلے ميں ان دھمكيوں كى قطعا ًكوئي پرواہ نہيں ہے_

____________________

(۱)سورہ شعراء آيت ۱۶۷

۱۵۴

اس احتجاج ميں اور بھى بہت سے لوگ جناب لوط عليہ السلام كے ہمنوا ہوچكے تھے، يہ اوربات ہے كہ سركش قوم نے آخركارانھيں جلاوطن كرديا _

لائق توجہ بات يہ كہ حضرت لوط عليہ السلام فرماتے ہيں كہ '' تمہارے اعمال كا دشمن ہوں '' يعنى مجھے تمہارى ذات سے دشمنى نہيں بلكہ تمہارے شرمناك اعمال سے نفرت ہے اگر ان اعمال كو اپنے سے دور كردو تو پھر تم ميرے پكے دوست بن جاو گے _

بہرحال جناب لوط عليہ السلام كى ذمہ دارى كا آخرى مرحلہ آن پہنچا لہذا وقت آپہنچا كہ جناب لوط عليہ السلام خود كو بھى اور جو لوگ ان پر ايمان لاچكے ہيں انھيں بھى اس گناہ آلود علاقے سے باہر نكال كرلے جائيں تاكہ ہولناك عذاب اس بے حياقوم كو اپنى لپيٹ ميں لے لے _

حضرت لوط عليہ السلام نے اللہ كى بارگاہ ميں دست دعا بلند كركے كہا:

''پروردگار : جو كچھ يہ لوگ كہہ رہے ہيں مجھے اور ميرے خاندان كو اس سے نجات دے _''(۱)

يہ ہے گناہ گاروں كا انجام

آخركار حضرت لوط عليہ السلام كى دعا مستجاب ہوئي اور خدا كى طرف سے اس قوم تباہ كار كے خلاف سخت سزا كا حكم صادر ہوا ،وہ فرشتے جو عذاب نازل كرنے پر مامور تھے قبل اس كے كہ سرزمين لوط پر اپنا فرض ادا كرنے كے لئے جاتے، حضرت ابراہيم (ع) كے پاس ايك اور پيغام لے كر گئے اور وہ پيغام تھا، حضرت ابراہيم (ع) كو فرزند كى پيدائش كى خوشخبرى تھى _

'' اس كى وضاحت يہ ہے كہ:ابراہيم شام كى طرف جلا وطن ہونے كے بعد لوگوں كو خدا كى طرف دعوت دينے اور ہر قسم كے شرك و بت پرستى كے خلاف مبارزہ كرنے ميں مصروف تھے،حضرت ''لوط''جو ايك عطيم پيغمبر تھے ،ان ہى كے زمانہ ميں ہوئے ہيں اور احتمال يہ ہے كہ اپ ہى كى طرف سے مامور ہوئے

____________________

(۱)سورہ شعراء آيت ۱۶۹

۱۵۵

تھے،كہ گمراہوں كو تبليغ و ہدايت كرنے كے لئے شام كے ايك علاقہ (يعنى سدوم كے شہروں كى طرف) سفر كريں ،وہ ايك ايسى گناہگار قوم كے درميان ائے جو شرك اور بہت سے گناہوں ميں الودہ تھى ،اور سب سے قبيح گناہ اغلام اور لواطت تھى ،اخر كار فرشتوں كا ايك گروہ،اس قوم كى ہلاكت پر ما مور ہوا ليكن وہ پہلے ابراہيم (ع) كے پاس ائے_

ابراہيم (ع) مہمانوں كى وضع و قطع سے سمجھ گئے كہ يہ كسى اہم كام كے لئے جارہے ہيں ،اور صرف بيٹے كى ولادت كى بشارت كے لئے نہيں ائے، كيونكہ اس قسم كى بشارت كے لئے تو ايك ہى شخص كا فى تھا ،يا اس عجلت كى وجہ ہے جو وہ چلنے كے لئے كر رہے تھے ،اس سے محسوس كيا كہ كوئي اہم ڈيوٹى ركھتے ہيں ''_ قران ميں حضرت ابراہيم عليہ السلام سے ملاقات كا ذكر ہے چنانچہ كہا گيا ہے : جس وقت ہمارے ايلچى حضرت ابراہيم عليہ السلام كے پاس بشارت لے كرگئے _انھيں اسحاق اور يعقوب كے پيدا ہونے كى خوش خبرى سنائي اور پھر (قوم لوط كى بستى كى طرف اشارہ كرتے ہوئے )كہا كہ ہم اس شہر اور اس ميں رہنے والوں كو ہلاك كرديں گے كيونكہ يہ لوگ ظالم ہيں _ ''(۱)

چونكہ فرشتوں نے ''ھذہ القرية''_ كہا اس سے ثابت ہوتا ہے كہ قوم لوط اسى مقام كے قرب جوار ميں رہتى تھى جہاں حضرت ابراہيم (ع) رہتے تھے_،اور اس قوم كو لفظ ''ظالم''سے ياد كرنا اس وجہ سے تھا كہ وہ اپنے نفوس پر ظلم كرتے تھے يہاں تك كہ اس طرف سے گزرنے والے مسافروں اور قافلوں پر بھى ستم كرتے تھے _

جب حضرت ابراہيم عليہ السلام نے يہ بات سنى تو انھيں حضرت لوط پيغمبر خدا كى فكر ہوئي اور كہا :'' اس آبادى ميں تو لوط بھى ہے ''_(۲)

اس پر كيا گزرے گى ؟

مگر فرشتوں نے فورا ًجواب ديا :'' آپ فكر نہ كريں ہم ان سب لوگوں سے خوب واقف ہيں جو اس

____________________

(۱)سورہ عنكبوت آيت ۳۱

(۲)سورہ عنكبوت آيت ۳۲

۱۵۶

بستى ميں رہتے ہيں ''_(۱)

ہم اندھا دھند عذاب نازل نہيں كريں گے ہمارا پروگرام نہايت سنجيدہ اور نپاتلاہے _

فرشتوں نے يہ بھى كہا كہ'' ہم لوط(ع) اور اس كے خاندان كو نجات ديں گے بجز اس كى بيوى كے كہ جو اس قوم كے ساتھ ہى مبتلائے عذاب ہوگى ''_(۲)

صرف ايك خاندان مومن اور پاك

فرآن سے بخوبى ثابت ہوتاہے كہ اس علاقے كى تمام آباديوں اور بستيوں ميں صرف ايك ہى خاندان مومن اور پاك نفس تھا اور خدانے بھى اسے عذاب سے نجات دى جيسا كہ قرآن ميں مذكورہے :

''ہم نے وہاں ايك خاندان كے سوائے كوئي بھى مسلمان نہ پايا _''(۳)

يہاں تك كہ حضرت لوط كى زوجہ بھى مومنين كى صف سے خارج تھى اس لئے وہ بھى عذاب ميں گرفتار ہوئي _

وہ عورت جو خانوادہ نبوت ميں شامل تھى اسے تو ''مو منين اور مسلمين '' سے جدا نہيں ہونا چاہئے تھا مگر وہ اپنے كفرو شرك اور بت پرستى كى وجہ سے اس صنف سے جدا ہوگئي _

اس طرح كلام سے واضح ہوتاہے كہ وہ عورت منحرف العقيدہ تھى كچھ بعيد نہيں كہ اس ميں يہ بد عقيدگى اس مشرك معاشرے كے اثر سے پيداہوگئي ہو ا،ور ابتدا ميں مومن وموحد ہو اس صورت ميں حضرت لوط پر يہ اعتراض نہيں ہوتا كہ انھوں نے ايسى مشركہ سے نكاح ہى كيوں كيا تھا ؟

يہ خيال بھى ہوتاہے كہ اگر كچھ اور لوگ حضرت لوط عليہ السلام پر ايمان لائے ہوں گے تو وہ حتما ًنزول عذاب سے پہلے اس گناہ آلود زمين سے ہجرت كرگئے ہوں گے ،تنہا حضرت لوط عليہ السلام اور ان كے اہل

____________________

(۱)سورہ عنكبوت آيت۳۲

(۲)سورہ عنكبوت آيت۳۲

(۳)سورہ ذاريات آيت۳۶

۱۵۷

وعيال اس مقام پر اس توقع سے آخرى وقت تك ٹھہرے ہوں گے كہ ممكن ہے ان كى تبليغ اور ڈرانے كا لوگوں پر اثرہو_

يہاں تك كہ حضرت ابراہيم عليہ السلام سے فرشتوں كى گفتگو ختم ہوگئي اور وہ حضرت لوط عليہ السلام كے علاقے كى طرف روانہ ہوگئے _

حضرت لوط عليہ السلام مہمانوں كو ديكھ كر پريشان ہوگئے

قرآن ميں ارشاد ہوتاہے:

''جب ہمارے رسول،لوط(ع) كے پاس آئے تو وہ ان كے آنے پر بہت ہى ناراحت اور پريشان ہوئے ، ان كى فكر اورروح مضطرب ہوئي اور غم واندوہ نے انہيں گھيرليا _''(۱)

اسلامى روايات اور تفاسير ميں آيا ہے كہ حضرت لوط اس وقت اپنے كھيت ميں كام كررہے تھے، اچانك انہوں نے خوبصورت نوجوانوں كو ديكھا جو ان كى طرف آرہے تھے وہ ان كے يہاں مہمان ہونا چاہتے تھے ،اب حضرت لوط(ع) مہمانوں كى پذيرائي بھى چاہتے تھے ليكن اس حقيقت كى طرف بھى ان كى توجہ تھى كہ ايسے شہر ميں جو انحراف جنسى كى آلود گى ميں غرق ہے_

ان خوبصورت نوجوانوں كا آنا طرح طرح كے مسائل كا موجب ہے اور ان كى آبروريزى كا بھى احتمال ہے، اس وجہ سے حضرت لوط سخت مشكل سے دوچار ہوگئے يہ مسائل ،روح فرسا افكار كى صورت ميں ان كے دماغ ميں ابھرے اور انہوں نے آہستہ آہستہ اپنے آپ سے كہنا شروع كيا آج بہت سخت اورو حشتناك دن ہے _''(۲)

بہرحال حضرت لوط عليہ السلام كے پاس اس كے علاوہ كوئي چارہ كار نہ تھا كہ وہ اپنے نووارد مہمانوں كو اپنے گھرلے جاتے، ليكن اس بناء پر كہ وہ غفلت ميں نہ رہيں راستے ميں چند مرتبہ ان كے گوش گزار كرديا

____________________

(۱) سورہ ہودآيت ۷۷

(۲) سورہ ہودآيت ۷۷

۱۵۸

كہ اس شہر ميں شرير اور منحرف لوگ رہتے ہيں تاكہ اگر مہمان ان كا مقابلہ نہيں كرسكتے تو صورت حال كا اندازہ كرليں _

خداوند عالم نے فرشتوں كو حكم ديا تھا كہ جب تك يہ پيغمبر تين مرتبہ اس قوم كى برائي اور انحراف كى گواہى نہ دے انہيں عذاب نہ ديا جائے ( يعنى يہاں تك كہ ايك گنہگار قوم سے متعلق بھى حكم خدا عدالت كے ايك عادلانہ فيصلے كى روشنى ميں انجام پائے)اور ان رسولوں نے راستے ميں تين مرتبہ لوط عليہ السلام كى گواہى سن لى _

حضرت لوط عليہ السلام نے مہمانوں كو اتنى دير تك (كھيت ميں ) ٹھہرائے ركھا كہ رات ہوگئي تاكہ شايد اس طرح اس شرير اور آلودہ قوم كى آنكھ سے بچ كر حفظ آبرو كے ساتھ ان كى پذيرائي كر سكيں ليكن جب انسان كا دشمن خود اس كے گھر كے اندر موجود ہوتو پھر كيا كيا جاسكتا ہے حضرت لوط عليہ السلام كى بيوى كو جوايك بے ايمان عورت تھى اور اس گنہگار قوم كى مدد كرتى تھى جب اسے ان نوجوانوں اور خوبصورت مہمانوں كے آنے كى خبر ہوئي تو چھت پر چڑھ گئي پہلے اس نے تالى بجائي پھر آگ روشن كركے اس كے دھوئيں كے ذريعے اس نے منحرف قوم كے بعض لوگوں كو آگاہ كيا كہ لقمہ تر جال ميں پھنس چكا ہے _

قوم لوط(ع) آپ كے گھر ميں داخل ہوگئي

شہروالوں كو جب لوط عليہ السلام كے پاس آنے والے نئے مہمانوں كا پتہ چلاتو وہ ان كے گھر كى طرف چل پڑے، راستے ميں وہ ايك دوسرے كو خوشخبرى ديتے تھے_ گمراہى كى شرمناك وادى ميں بھٹكنے والے ان افراد كا خيال تھا كہ گويا نرمال ان كے ہاتھ آگيا ہے خوبصورت اور خوش رنگ نوجوان اور وہ بھى لوط كے گھر ميں _

قرآن ميں اس جگہ اہل مدينہ استعمال ہوا ہے اوريہ كى تعبير نشاندہى كرتى ہے كہ كم از كم شہر كے بہت سے لوگ ٹوليوں ميں حضرت لوط عليہ السلام كے گھر كى طرف چل پڑے ،اس سے يہ امر واضح ہوتا ہے كہ وہ كس حدتك بے شرم ، ذليل اور جسور تھے خصوصا لفظ ''يستبشرون ''(ايك دوسرے كو بشارت ديتے تھے )ان كى

۱۵۹

آلودگى كى گہرائي كى حكايت كرتا ہے كيونكہ يہ ايك ايسا شرمناك عمل ہے كہ شايد كسى نے اس كى نظيرجانوروں ميں بھى بہت ہى كم ديكھى ہوگى اور يہ عمل اگر كوئي انجام ديتا بھى ہے تو كم از كم چھپ چھپا كراور احساس شرمندگى كے ساتھ ايسا كرتا ہے ليكن يہ بدكاراور كمينہ صفت قوم كھلم كھلا ايك دوسرے كو مباركباد ديتى تھي_

حضرت لوط عليہ السلام نے جب ان كا شوروغل سنا تو بہت گھبرائے اورمضطرب ہوئے انھيں اپنے مہمانوں كے بارے ميں بہت خوف ہوا كيونكہ ابھى تك وہ نہيں جانتے تھے كہ يہ مہمان مامورين عذاب ہيں اور قادر وقاہر خدا كے فرشتے ہيں لہذا وہ ان كے سامنے كھڑے ہوگئے اور كہنے لگے :يہ ميرے مہمان ہيں ، ميرى آبرونہ گنوائو_''(۱)

يعنى اگر تم خدا ، پيغمبر اور جزاء وسزا كے مسئلہ سے صرف نظر كرلو تو بھى كم از كم يہ انسانى مسئلہ ہے اور يہ بات تو سب انسانوں ميں چاہے مومن ہوں يا كافر ، موجود ہے كہ وہ مہمانوں كا احترام كرتے ہيں تم كيسے انسان ہو كہ اتنى سى بات بھى نہيں مانتے ہو اگر تمہارا كوئي دين نہيں تو كم ازكم آزاد انسان تو بنو _اس كے بعد آپ نے مزيد كہا : آئو خدا سے ڈرو اور مجھے ميرے مہمانوں كے سامنے شرمسار نہ كرو_''(۲)

ليكن ،وہ بہت جسوراورمنہ پھٹ تھے بجائے اس كے كہ و ہ شرمندہ ہوتے كہ انہوں نے اللہ كے پيغمبر حضرت لوط عليہ السلام سے كے سا مطالبہ كيا ہے الٹا اس طرح سے پيش آئے جيسے لوط عليہ السلام سے كوئي جرم سرزد ہوا ہے انھوں نے زبان اعتراض دراز كى اور كہنے لگے : '' كيا ہم نے تجھ سے نہ كہا تھا كہ دنيا والوں كو اپنے يہاں مہمان نہ ٹھہرانا اور كسى كو اپنے يہاں نہ آئے دينا _''(۳)

تم نے اس كى خلاف ورزى كيوں كى اور ہمارے كہنے پر عمل كيوں نہ كيا _

يہ اس بناء پر تھا كہ يہ قوم انتہائي كم ظرف اور كنجوس تھى يہ لوگ ہرگز كسى كو اپنے يہاں مہمان نہيں ٹھہراتے تھے اور اتفاق سے ان كے شہرقافلوں كے راستے ميں پڑتے تھے كہتے ہيں كہ انھوں نے يہ كام بعض

____________________

(۱)سورہ حجر آيت ۶۸

(۲)سورہ حجرآيت ۶۹

(۳)سورہ حجر آيت ۷۰

۱۶۰

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667