قصص القرآن-منتخب از تفسير نمونه

قصص القرآن-منتخب از تفسير نمونه   5%

قصص القرآن-منتخب از تفسير نمونه   مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 667

قصص القرآن-منتخب از تفسير نمونه
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 667 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 331503 / ڈاؤنلوڈ: 6103
سائز سائز سائز
قصص القرآن-منتخب از تفسير نمونه

قصص القرآن-منتخب از تفسير نمونه

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

ہيں _ تو معلوم ہوتا ہے كہ يہ تكبيريں حقيقت ميں جبرئيل(ع) اور اسماعيل (ع) اور ان كے باپ ابراہيم كى تكبيروں كا مجموعہ ہيں ، اور كچھ اس پراضافہ ہے _دوسرے لفظوں ميں يہ الفاظ حضرت ابراہيم(ع) اور حضرت اسماعيل كى اس عظيم آزمائش ميں كاميابى كى ياد لوگوں كى نظروں ميں زندہ كرتے ہيں ، اور تمام مسلمانوں كو ايك پيغام الہى ديتے ہيں چاہے وہ منى ميں ہوں يا منى كے علاوہ دوسرے مقامات پر _''(۱)

ذبح عظيم

ليكن اس غرض سے كہ ابراہيم(ع) كا پروگرام بھى نامكممل نہ رہ جائے اور خدا كى بارگاہ ميں ان كى طرف سے قربانى بھى ہوجائے اور ابرہيم كى آرزو پورى ہوجائے ، خدا نے ايك بہت بڑا مينڈھا بھيج ديا تاكہ بيٹے كى جگہ اس كى قربانى كريں اور مراسم '' حج'' اور سرزمين '' منى '' ميں آنے والوں كے لئے اپنى سنت چھوڑجائيں چنانچہ قرآن كہتا ہے :'' ہم نے ذبح عظيم كو اس كا فديہ قرارديا _''(۲)(۲)

اس ذبح كى عظمت كى ايك نشانى يہ ہے كہ زمانہ گذرنے كے ساتھ ساتھ ہر سال زيادہ وسعت پارہى ہے _

اس وقت ہر سال اس ذبح عظيم كى ياد ميں بيس لاكھ سے زيادہ'' منى ''ميں جانورذبح كيے جاتے ہيں اوراس ياد كو زندہ كيا جاتاہے_

____________________

(۱) سورہ حجر آيت ۵۱

(۲)سورہ صافات آيات ۱۰۷

(۳) اس بارے ميں كہ اس ذبح كى عظمت كس لحاظ سے تھى ، جسمانى اور ظاہرى لحاظ سے يااس جہت سے كہ فرزند ابراہيم كا فديہ تھى يا اس لحاظ سے كہ خدا كى راہ ميں اور خداكے لئے تھى يا اس لحاظ سے كہ قربانى خدا كى طرف سے ابراہيم كے لئے بھيجى گئي تھى _

مفسرين نے اس سلسلے ميں بہت كچھ كہا، ليكن كوئي مانع نہيں كہ يہ تمام جہات ذبح عظيم ميں جمع ہوں اور وہ مختلف جہات سے عظمت كى حامل ہو_

۱۴۱

وہ بہت بڑامينڈھا ابراہيم كو كس طرح ديا گيا اس بارے ميں زيادہ تر اس بات كے معتقد ہيں كہ اسے جبرئيل لائے تھے ، بعض يہ بھى كہتے ہيں كہ وہ ''مني'' كے پہاڑوں كے دامن سے نيچے اتراتھا _ بہرحال جو كچھ بھى تھا خدا كے حكم اور اس كے ارادے سے تھا ،خدانے نہ صرف اس دن كے عظيم امتحان ميں حضرت ابراہيم كى كاميابى كى تعريف وتوصيف كى بلكہ اس كى ياد كو جاويدانى بناديا _

جيسا كہ قرآن ميں فرمايا گيا ہے :''ہم نے ابراہيم كے نيك نام كوبعد كى امتوں ميں باقى رہنے والا بنايا _''(۱)

وہ آنے والى سب نسلوں اور لوگوں كے لئے نمونہ اور تمام پاكباز اور كوئے دوست كے دلدادہ عاشقوں كے لئے راہنمابن گئے اور ہم نے ان كے طرز عمل كو رہتى دنيا تك كے لئے حج كى سنت كے طور پر جاويدانى بناديا وہ عظيم پيغمبروں كے باپ تھے وہ امت اسلامى اور پيغمبر اسلام كے باپ تھے _

'' ابراہيم پر سلام (جو مخلص اور پاكباز تھے) _''(۲) ہاں '' ہم اسى طرح سے نيكو كاروں كو بدلہ ديا كرتے ہيں _''(۳) عظمت دنيا كاصلہ، تمام زمانوں ميں باقى رہنے والا كاصلہ ،خدائے برزگ كے لائق درودوسلام كاصلہ _

ذبيح اللہ كون ہے ؟

اس بارے ميں كہ حضرات ابراہيم كے دونوں فرزندوں (اسماعيل (ع) اور اسحاق (ع) ) ميں سے كون قربان گاہ ميں لايا گيا اور كس نے ذبيح اللہ كا لقب پايا؟ مفسرين كے درميان شديد بحث ہے ايك گروہ حضرت اسحاق (ع) كو '' ذبيح'' جانتا ہے اور ايك جماعت حضرت اسماعيل (ع) ،كو پہلے نظريہ كو بہت سے مفسرين اہل سنت اور دوسرے نظريہ كو مفسرين شيعہ نے اختيار كيا ہے ،ليكن جو كچھ قرآن كى مختلف آيات كے ظاہر سے ہم آہنگ ہے وہ يہى ہے كہ '' ذبيح'' '' اسماعيل (ع) '' تھے_

____________________

(۱)سورہ صافات آيت ۱۰۸

(۲)سورہ صافات آيت ۱۰۹

(۳) سورہ صافات آيت۱۱۰

۱۴۲

جناب اسحاق كى بشارت

يہ امر جاذب نظر ہے كہ بات حضرت ابراہيم عليہ السلام كے مہمانوں كے واقعہ سے شروع كى گئي ہے (وہى فرشتے كہ جو آپ كے پاس انسانى لباس ميں آئے تھے پہلے انھوں نے آپ كو ايك ذى وقاربيٹے كى پيدائش كى بشارت دى اور پھر قوم لوط كے دردناك انجام كى خبردى )_

ارشادفرمايا : ميرے بندوں كو ابراہيم كے مہمانوں كے بارے ميں خبردو _''(۱)

يہ بن بلائے مہمان وہى فرشتے تھے جنہوں نے '' ابراہيم (ع) كے پاس پہنچ كر پہلے انجانے طور پر اسے سلام كيا _''(۲)

جيسا كہ ايك بزرگوار ميزبان كا فريضہ ہے، ابراہيم(ع) نے ان كى پذيرائي كا اہتمام كيا فورا ًان كےلئے مناسب غذافراہم كى ليكن جب دسترخوان بچھايا گيا تو انجانے مہمانوں نے غذا كى طرف ہاتھ نہ بڑھايا تو حضرت ابراہيم(ع) كو اس پر وحشت ہوئي ،انھوں نے اپنى پريشانى چھپائي نہيں صراحت سے ان سے كہا: ''ہم تم سے خوفزدہ ہيں _ ''(۳)

يہ خوف اس رواج كى بناء پر تھا كہ اس زمانے ميں اور بعد ميں بھى بلكہ ہمارے زمانے تك بعض قوموں كا معمول ہے كہ جب كوئي شخص كسى كا نان نمك كھاليتا ہے تو اسے ضرر نہيں پہنچاتااور اپنے آپ كو اس كا ممنون احسان سمجھتا ہے لہذا كھانے كى طرف ہاتھ نہ بڑھانے كو برا سمجھتا ہے اور اسے كينہ وعداوت كى دليل شمار كيا جاتاہے _

ليكن زيادہ ديرنہ گذرى تھى كہ فرشتوں نے حضرت ابراہيم عليہ السلام كو پريشانى سے نكال ديا اور ''ان سے كہا :'' ڈرو نہيں ہم تجھے ايك عالم ودانا بيٹے كى بشارت ديتے ہيں _''(۴)

____________________

(۱) سورہ حجر آيت ۵۱

(۲) سورہ حجر آيت ۵۲

(۳) سورہ حجر آيت۵۲

(۴)سورہ فجر آيت ۵۳

۱۴۳

يہ كہ غلام عليم(صاحب علم لڑكے ) سے كون مراد ہے؟

قرآن كى ديگر آيات كو سامنے ركھتے ہوئے واضح ہوجاتاہے كہ اس سے مراداسحاق ہيں كيونكہ فرشتوں نے جب حضرت ابراہيم كو يہ بشارت دى تو ان كى بيوى سارہ جوظاہراً ايك بانجھ عورت تھى وہ بھى موجود تھى انھوں نے اسے بھى يہ بشارت دي_(۱)

ہم يہ بھى جانتے ہيں كہ سار ہ حضرت اسحاق عليہ السلام كى والدہ تھيں اس سے پہلے حضرت ابراہيم عليہ السلام حضرت ہاجرہ سلام اللہ عليہا سے صاحب اولاد تھے حضرت اسماعيل عليہ السلام ان كے فرزند تھے ( حضرت ہاجرہ وہ كنيزتھيں جنھيں حضرت ابراہيم نے زوجيت كے لئے انتخاب كيا تھا ) ليكن حضرت ابراہيم(ع) اچھى طرح جانتے تھے كہ طبيعى اصولوں كے لحاظ سے ان سے ايسے بيٹے كى پيدائش بہت بعيد ہے اگرچہ خدا كى قدرت كاملہ كے لئے كوئي چيز محال نہيں ہے، مگر انھوں نے معمول كے طبيعى قوانين كى طرف توجہ كى جس نے ان كے تعجب كو ابھارا لہذا انھوں نے كہا مجھے ايسى بشارت ديتے ہو حالانكہ ميں بڑھاپے كى عمر كو پہنچ گيا ہوں ،واقعاً مجھے كس چيز كى بشارت دے رہے ہو _(۲)

''كيا تمہارى يہ بشارت حكم الہى سے ہے يا خود تمہارى طرف سے ہے صراحت سے كہو تاكہ مجھے زيادہ اطمينان ہو''_

''ممكن ہے كہا جائے كہ اس لحاظ سے ابراہيم ايك اچھے تجربے سے گذرے تھے كہ بڑھاپے ميں ہى ان كے بيٹے اسماعيل پيدا ہوئے تھے لہذا نئے بيٹے يعنى حضرت اسحاق كى پيدائش كے بارے ميں انھيں تعجب نہيں كرنا چاہئے تھا ليكن معلوم ہونا چاہئے ،كہ بعض مفسرين كے بقول حضرت اسماعيل اور حضرت اسحاق كى پيدائش ميں دس سال سے زيادہ كا فاصلہ تھا لہذابڑھاپے ميں دس سال گذر جائيں تو بچے كى پيدائش كا احتمال بہت ہى كم ہوتا ہے_

____________________

(۱) سورہ ہودكى آيہ ۷۱ميں ہے''اس كى بيوى كھڑى تھى ،وہ ہنسى اور ہم نے اسے اسحاق كى بشارت دي''

(۲)سورہ حجر ايت ۵۴

۱۴۴

ثانياً اگر كوئي واقعہ خلاف معمول ہو اگر چہ استثنائي طورپر ہو،اس سے مشابہ مواقع پر تعجب كرنے سے مانع نہيں ہے''_

كيونكہ ايسے سن وسال ميں بچے كى پيدائش بہرحال ايك امر عجيب ہے ،كہتے ہيں كہ جناب اسماعيل كى پيدائش كے وقت جناب ابرہيم (ع) كى ۹۹/ سال كى عمر تھى اور جناب اسماعيل كى ولادت كے وقت ۱۱۲/كى عمر ہوچكى تھي_(۱)

بہرحال فرشتوں نے حضرت ابراہيم عليہ السلام كو ترد د يازيادہ تعجب كا موقع نہ ديا ، اور ان سے صراحت وقاطعيت سے كہا ہم تجھے حق كے ساتھ بشارت دے رہے ہيں _ ''(۲)

وہ بشارت كہ جوخدا كى طرف سے ہے اور اس كے حكم سے ہے اسى بناء پر يہ حق ہے مسلم ہے _

اس كے بعد اس لئے كہ مبادا ابراہيم مايوس ونااميد ہوں تاكيد كے طور پر كہنے لگے : ''اب جبكہ ايسا ہے تو مايوس ہونے والوں ميں سے نہ ہو ''_

ليكن ابراہيم عليہ السلام نے فوراً ان كے اس خيال كودور كرديا كہ يہاں پر مايوسى اوررحمت خدا سے نااميدى كا غلبہ نہيں ہے اور واضح كيا كہ يہ تو صرف طبيعى معمولات كے حوالے سے تعجب ہے، لہذا صراحت سے كہا: گمراہوں كے سوا اپنے پروردگار كى رحمت سے كون مايوس ہوگا_''(۳)

وہى گمراہ كہ جنھوں نے خدا كواچھى طرح نہيں پہچانا اور اس كى بے پاياں قدرت پر ان كى نگاہ نہيں _ وہ خدا كہ جو مشت خاك سے ايسا عجيب وغريب انسان پيدا كرتا ہے اور ناچيز نطفہ سے ايك مكمل بچہ وجود ميں لاتاہے خرمے كا خشك درخت جس كے حكم سے پھل سے لدجاتاہے اور جلانے والى آگ جس كے حكم سے گلزار ہوجاتى ہے، كون شخص ايسے پروردگار كى قدرت ميں شك كرے يا اس كى رحمت سے مايوس ہو _

____________________

(۱)سورہ حجر ايت ۵۵

(۲) سورہ حجر آيت۵۳

(۳)سورہ حجر آيت ۵۵

۱۴۵

حضرت ابراہيم (ع) كے ہاتھوں خانہ كعبہ كى تعمير نو

قرآن كى مختلف آيات،احاديث اور تو اريخ اسلامى سے واضح ہوتا ہے خانہ كعبہ حضرت ابراہيم سے پہلے ،بلكہ حضرت آدم (ع) كے زمانے ميں موجود تھا كيونكہ سورہ ابراہيم ميں حضرت ابراہيم (ع) جيسے عظيم پيغمبر كى زبانى يوں آياہے :

پروردگار :ميں اپنى ذريت ميں سے (بعض كو ) اس بے آب وگياہ وادى ميں تيرے محترم گھر كے پاس بسارہاہوں _ ''(۱)

يہ آيت واضح طور پر گواہى ديتى ہے كہ جب حضرت ابراہيم اپنے شير خوار بيٹے اسماعيل اور اپنى زوجہ كے ساتھ سرزمين مكہ ميں آئے تو خانہ كعبہ كے آثار موجود تھے _

اسى طرح سورہ آل عمران ميں بھى ہے :

''پہلا گھر جو عبادت خدا كى خاطر انسانوں كے لئے بنايا گيا وہ سرزمين مكہ ميں تھا'' _(۲)

يہ مسلم ہے كہ عبادت خدا اور مركز عبادت كى بنياد حضرت ابراہيم عليہ السلام كے زمانہ سے نہيں پڑى بلكہ حضرت آدم عليہ السلام كے زمانے سے يہ سلسلہ جارى تھا _

اتفاقاً قرآنى كى تعبير بھى اس معنى كو تقويت ديتى ہے كہ فرماياگيا ہے : ياد كرو اس وقت كو جب ابراہيم اور اسماعيل عليہما السلام (جب اسماعيل عليہ السلام كچھ بڑے ہوگئے تو ) خانہ كعبہ كى بنيادوں كو اونچا كررہے تھے اور كہتے تھے:''پروردگاراہم سے قبول فرما،تو سننے والا اور جاننے والا ہے_''(۳)

آيت كا يہ انداز بتاتا ہے كہ خانہ كعبہ كى بنياديں موجود تھيں اور ابراہيم(ع) اور اسماعيل(ع) اس كے ستون بلند كررہے تھے _

نہج البلاغہ كے مشہور خطبہ قاصعہ ميں بھى ہے :

____________________

(۱)سورہ ابراہيم آيت ۳۷

(۲)سورہ ال عمران ايت ۹۶

(۳)سورہ بقرہ آيت ۱۲۷

۱۴۶

''كيا ديكھتے نہيں كہ ہو كہ خدا نے آدم سے لے كر آج تك كچھ پتھروں كے ذريعہ ذريعہ امتحان ليا(وہ پتھر كہ) جنھيں اپنا محترم گھر قرار ديا، پھر آدم اور اولاد آدم كو حكم ديا كہ اس كے گرد طواف كريں ''_

مختصر يہ كہ آيات قرآن اور روايات ،تاريخ كى اس مشہور بات كى تائيد كرتى ہيں كہ خدا كعبہ پہلے پہل حضرت آدم عليہ السلام كے ہاتھوں بنا_ پھر طوفان نوح(ع) ميں گرگيا _ اس كے بعد حضرت ابراہيم عليہ السلام اوران كے فرزند حضرت اسماعيل عليہ السلام كے ہاتھوں اس كى تعمير نو ہوئي _

حضرت ابراہيم عليہ السلام كو انعام ميں امامت ملي

قرآن كريم حضرت ابراہيم عليہ السلام كى زندگى كے اہم ترين موڑ يعنى ان كى بڑى بڑى آزمائش وں اور ان ميں ان كى كاميابى كے متعلق گفتگو كرتا ہے وہ آزمائش يں جنھوں نے ابراہيم عليہ السلام كى عظمت، مقام اور شخصيت كو مكمل طور پر نكھار ديا اور ان كى شخصيت كى بلندى كو روشن كرديا، ارشاد ہوتا ہے:

''اس وقت كو ياد كرو جب خدا نے ابراہيم كو مختلف طريقوں سے آزمايا اور وہ ان آزمائش وں ميں اچھى طرح سے كامياب ہوئے_''(۱)

جب ابراہيم عليہ السلام ان امتحانات ميں كامياب ہوگئے تو وہ منزل آئي كہ خدا انھيں انعام دے ،تو فرمايا: ''ميں تمہيں لوگوں كا امام، رہبر اورپيشوا قرار ديتا ہوں _''(۲)

'' ابراہيم عليہ السلام نے درخواست كى كہ ميرى ذريت اور خاندان سے بھى آئمہ قرار دے ''تاكہ يہ رشتہ نبوت وامامت منقطع نہ ہو، اور صرف مجھ سے قائم نہ رہے_ ''(۳)

خدا نے اس كے جواب ميں فرمايا:''ميرا عہدہ يعنى مقام امامت ظالموں تك ہرگز نہيں پہنچے گا_''(۴)

____________________

(۱) سورہ بقرہ آيت ۱۲۴

(۲) سورہ بقرہ آيت ۱۲۴

(۳) سورہ بقرہ آيت ۱۲۴

(۴) سورہ بقرہ آيت ۱۲۴

۱۴۷

يعنى ہم نے تمہارى درخواست قبول كرلى ہے ليكن تمہارى ذريت ميں سے صرف وہ لوگ اس مقام كے لائق ہيں جو پاك اور معصوم ہيں _

ابراہيم عليہ السلام كا كن چيزوں كے ذريعہ امتحان ليا گيا

آيات قرآن سے اور ابراہيم عليہ السلام كے وہ نظر نوازاعمال جن كى خدانے تعريف كى ہے،ان كے مطالعہ سے ظاہر ہوتا ہے كہ كلمات (وہ جملے جو خدانے ابراہيم عليہ السلام كو سكھائے ) در اصل ذمہ داريوں كا ايك گراں اور مشكل سلسلہ تھا جو خدانے ابراہيم عليہ السلام كے ذمہ كيا اور اس مخلص پيغمبر نے انہيں بہترين طريقے سے انجام ديا _

حضرت ابراہيم عليہ السلام كے امتحانات ميں يہ امور شامل تھے :

(۱)بيٹے كو قربان گاہ ميں لے جانا اور فرمان خدا سے اسے قربان كرنے كے لئے پر عزم آمادگى كا مظاہرہ كرنا _

(۲) اپنى بيوياں اور بيٹے كو مكہ كى خشك اور بے آب وگياہ سرزمين ميں لے جانا جہاں كوئي انسان نہ بستا تھا _

(۳) بابل كے بت پر ستوں كے مقابلے ميں قيام كرنا ،بتوں كو توڑنا اور اس تاريخى مقدمو ں ميں پيش ہونا اور نتيجتاًآگ ميں پھينكا جانا اور ان تمام مراحل ميں اطمينان وايمان كا ثبوت دينا _

(۴) بت پرستوں كى سرزمين سے ہجرت كرنا اور اپنى زندگى كے سرمائے كو ٹھوكرمارنا اور ديگر علاقوں ميں جاكر پيغام حق سنانا ،ايسے اور بھى بہت سے امور ہيں _

حقيقت يہ ہے كہ ان ميں سے ہر ايك بہت سخت اور مشكل آزمائش تھى ليكن ابراہيم عليہ السلام ايمانى قوت كے ذريعہ ان تمام امتحانات ميں پورا اترے اور ثابت كيا كہ وہ مقام'' امامت ''كى اہليت ركھتے تھے _

۱۴۸

امام كسے كہتے ہيں ؟

قرآن كريم سے اجمالاً يہ ظاہر ہوتا ہے كہ حضرت ابراہيم كو جو مقام امامت بخشا گيا وہ مقام نبوت ورسالت سے بالاتر تھا_ ''

امام صادق عليہ السلام فرماتے ہيں :

''خداوندعالم نے نبى بنانے سے قبل ابراہيم عليہ السلام كو عبد قرار ديا،اور اللہ نے انہيں رسول بنانے سے قبل نبى قرار ديا،اور انہيں خليل بنانے سے پہلے اپنى رسالت كے لئے منتخب كيا اور اس سے پہلے كہ امام بناتا انھيں اپنا كليل بناياجب يہ تمام مقامات و مناصب انہيں حاصل ہوچكے تو اللہ نے فرمايا ميں تمہيں انسانوں كے لئے امام بناتا ہو ں حضرت ابراہيم كو يہ مقام عظيم ديا تو انہوں نے عرض كيا : خدايا ميرى ذريت ميں سے بھى امام قرار دے _ ارشاد ہوا: ميرا عہدہ ظالموں تك نہيں پہنچے گا، بے وقوف شخص متقى لوگوں كا امام نہيں ہوسكتا _

۱۴۹

۳ انبياء عليهم السلام کے واقعات

حضرت لوط عليہ السلام

جناب لوط عليہ السلام خدا كے عظيم پيغمبر تھے اور حضرت ابراہيم (ع) كے ہم عصر تھے اور جناب ابراہيم(ع) سے قريبى رشتہ دارى تھى (كہا جاتاہے كہ آپ جناب ابراہيم(ع) كے خا لہ زاد بھائي تھے )_

يہ بات مسلمہ ہے كہ ابراہيم(ع) عراق اور سرزمين بابل سے ہجرت كرنے كے بعد شامات كى طرف گئے، كہتے ہيں كہ لوط بھى ان كے ساتھ تھے ليكن كچھ مدت كے بعد (توحيد كى طرف دعوت دينے اور فتنہ وفساد سے مبارزہ كے لئے ) شہر'' سدوم'' كى طرف گئے _

'' سدوم '' قوم لوط كے ايك شہر اور آبادى كا نام تھا جو شامات( ملك اردن ميں )'' بحر الميت'' كے قريب واقع تھا جو آباد اور درختوں اور سبزہ زار سے بھرا تھا، ليكن اس بدكاروبے غيرت قوم پر عذاب الہى كے نازل ہونے كے بعد، ان كے شہر مسمار اور تہ وبالا ہوگئے ، چنانچہ انہيں '' مدائن مو تفكات''_ (تہ وبالاہونے والے شہر) كہتے ہيں _

بعض كا نظر يہ، يہ ہے كہ ان شہروں كے ويرانے زير آب آگئے ہيں ، اور ان كا دعوى ہے كہ انہوں نے '' بحر الميت''كے ايك گوشہ ميں كچھ ستون اور دوسرے آثار جوان شہروں كے خرابوں پر دلالت كرتے ہيں ديكھے ہيں _

جب كہ بعض لوگوں كا نظريہ ہے كہ قوم لوط كے شہر زير اب نہيں ائے ،اور اب بھى ''بحر الميت''كے قريب ايك علاقہ ہے جو سياہ پتھروں كے نيچے ڈھكا ہوا ہے، احتمال ہے كہ قوم لوط كے شہروں كى جگہ يہيں ہو _

۱۵۰

اور يہ بھى كہا ہے كہ ابراہيم(ع) كا مركز شہر'' حبرون'' ميں تھا ، جو شہر'' سدوم '' سے چنداں دور فاصلہ پر نہيں تھا، اور جس وقت زلزلہ يا صاعقہ كے زيراثران كے شہروں كو آگ لگى تو اس وقت ابراہيم حبرون كے قريب كھڑے ہوئے تھے، اور شہر سے جو دھنواں اٹھ رہا تھا اسے اپنى آنكھ سے ديكھ رہے تھے _

اس گفتگو كے مجموعہ سے ان شہروں كے قريباً حدودواضح ہوگئے، اگرچہ ان كے جزئيات كے ابھى تك پردہ ابہام ميں ہيں _

قوم لوط كا سب سے بڑا اخلاقى انحراف

قرآن كريم اس عظيم پيغمبر اور ان كى قوم كے واقعہ كو اس طرح شروع كرتا ہے كہ ''لوط كى قوم نے خدا كے بھيجے ہوئے رسولوں كى تكذيب كي_''(۱)

'' مرسلين ''رسولوں كو جمع كى صورت ميں بيان كرنے كى وجہ يا تويہ ہے كہ انبياء عليہم السلام كى دعوت ايك ہوتى ہے لہذا كسى بھى پيغمبر كى تكذيب سب كى تكذيب شمار كى جاتى ہے يا پھر اس لئے ہے كہ وہ گزشتہ كسى بھى پيغمبر پر ايمان نہيں ركھتے تھے_پھر فرمايا گيا ہے : ميں تمہارے لئے امين رسول ہوں _

اب جبكہ صورت حال يہ ہے تو پرہيزگارى اختياركرو ، خدا سے ڈرو اور ميرى اطاعت كرو ،كيونكہ ميں راہ سعادت كا رہبر ہوں _''(۲)

كيا اب تك تم نے مجھ سے كوئي خيانت ديكھى ہے ؟اس كے بعد وحى الہى اور تمہارے رب كا پيغام پہنچانے ميں بھى يقينا امانت كو مدنظر ركھوں گا _

يہ نہ سمجھوكہ يہ دعوت الہى ميرے گزراوقات كا ايك ذريعہ ہے يا كسى مادى مقصد كو پيش نظر ركھ كر ايسا كام كررہاہوں ، نہ، ميں تو ذرہ بھر بھى تم سے اجرت نہيں مانگتا، ميرا اجر تو صرف عالمين كے رب كے پاس ہے_''(۳)

____________________

(۱)سورہ شعراء آيت ۱۶۱

(۲)سورہ شعراء آيت ۱۶۲

(۳)سورہ شعراء آيت ۱۶۳

۱۵۱

پھروہ ان كے ناشائستہ اعمال اورا ن كى كچھ اخلاقى بے راہروى كى باتوں كو بيان كرتے ہيں اور چونكہ ان كا بڑا انحراف اور ہم جنس بازى تھا لہذا اسى بات پرزيادہ زوردے كر كہتے ہيں : آيا تم سارى دنيا ميں صرف مردوں كے پاس ہى جاتے ہو ''_(۱)

يعنى باوجود يكہ خداوندعالم نے اس قدر جنس مخالف تمہارے لئے خلق فرمائي ہے جن سے صحيح طريقے سے شادى كركے پاك وپاكيزہ اور اطمينان بخش زندگى بسركرسكتے ہو ں

خدا كى اس پاك اور فطرى نعمت كو چھوڑكر تم نے خود كو اس طرح كے پست اور حيا سوزكام سے آلودہ كرليا ہے _

''اپنى ازواج كو ترك كرديتے ہو جنھيں خدانے تمہارے لئے خلق فرمايا ہے تم تو تجاوز كرنے والى قوم ہو _''(۲)

يقينا كسى روحانى يا جسمانى فطرى ضرورت نے تمہيں اس بے راہروى پر آماوہ نہيں كيا بلكہ يہ تمہارى سركشى ہے جس نے تمہارے دامن كو اس شرمناك فعل كى گندگى سے آلودہ كرديا ہے _

تمہارے كام كى مثال ايسے ہے جيسے كوئي شخص خوشبودار ميوے ،مقوى اور صحيح سالم غذائيں چھوڑكرزہر آلوداور مارڈالنے والى غذائوں كو استعمال كرے يہ فطرى خواہش نہيں بلكہ سركشى ہے _

جہاں پر عفت ايك عيب ہو

قوم لوط كے افراد جو بادہ شہوت وغرور سے مست ہوچكے تھے، اس رہبر الہى كى نصيحتوں كو جان ودل سے قبول كرنے اور خود كو اس دلدل سے باہر نكالنے كى بجائے اس كے مقابلے پر تل گئے اور ان سے كہا :اے لوط(ع) كافى ہوچكا ہے ،اب خاموش رہو اگر ان باتوں سے بازنہ آئے تو تمہارا شمار بھى اس شہر سے نكال ديئےانے والوں ميں سے ہوگا ''_(۳)

____________________

(۱)سورہ شعراء آيت ۱۶۵

(۲) سورہ شعراء آيت ۱۶۶

(۳)سورہ شعرا آيت ۱۶۷

۱۵۲

تمہارى باتيں ہمارى فكر اور آرام ميں خلل ڈال رہى ہيں ہم ان باتوں كے سننے كے ہرگز روادار نہيں ، اگر تمہارى يہى حالت رہى تو ہم تمہيں سزاديں گے جو كم از كم جلاوطنى كى صورت ميں ہوگى ہے _قرآن مجيدميں ايك اور مقام پر ہے كہ انھوں نے اپنى اس دھكى كو عملى جامہ بھى پہنايا اور حكم ديا كہ لوط(ع) كے خاندان كو شہرسے باہر نكال دو كيونكہ وہ پاك لوگ ہيں اور گناہ نہيں كرتے _

ان گمراہ اور گناہ سے آلود لوگوں كى جسارت اس حدتك جاپہنچى كہ تقوى اور طہارت ان كے درميان بہت بڑا عيب سمجھا جانے لگا اور ناپا كى اور گناہ سے آلود گى سرمايہ افتخار اور يہ كسى معاشرے كى تباہى كى علامت ہوتى ہے جو تيزى كے ساتھ برائيوں كى طرف بڑھ رہا ہوتا ہے _اس سے معلوم ہوتا ہے كہ اس فاسق وفاجر گروہ نے ايسے پاك وپاكيزہ لوگوں كوپہلے باہرنكال ديا جوان كوان كے بے ہودہ اعمال سے روكا كرتے تھے لہذا انھوں نے حضرت لوط عليہ السلام كو بھى يہى دھمكى دى كہ اگر تم نے اپنے اس تبليغى سلسلے كو جارى ركھا تو تمہارا بھى وہى انجام ہوگا _بعض تفسيروں ميں صراحت كے ساتھ تحرير ہے كہ وہ پاك دامن لوگوں كو بدترين طريقے سے جلاوطن كرديا كرتے تھے _

قرآن كہتا ہے ان كے پاس اس كے سوا اور كوئي جواب نہيں تھا كہ ايك دوسرے سے كہا: ''لوط كے خاندان كو اپنے شہر اور علاقے سے نكال باہر كرو كيونكہ يہ برے پاكباز لوگ ہيں اور يہ اپنے تئيں ہم سے ہم آہنگ نہيں كرسكتے ''_(۱)

يہ ايك ايسا جواب ہے جو ان كى فكرى پستى اور انتہائي اخلاقى تنزل كا آئينہ دار ہے _

جى ہاں : مجرم اور گناہ سے آلودہ ماحول ميں پاكيزگى ايك جرم وعيب ہوا كرتى ہے يوسف جيسے پاكدامن كو عفت وپارسائي كے جرم ميں زندانوں ميں ڈالا جاتا ہے جبكہ زليخائيں اس ماحول ميں آزاد اور صاحب جاہ ومقام ،ہوا كرتى ہيں اور قوم لوط(ع) اپنے اپنے گھروں ميں آرام وآساآش كے ساتھ رہتى ہے _

____________________

(۱) سورہ شعراء آيت ۱۶۷

۱۵۳

يہيں پر قرآن مجيد كا مصداق واضح ہوجاتاہے جووہ گمراہ لوگوں كے بارے ميں كہتا ہے كہ:

ہم (ان كے اپنے اعمال كى بناپر) ان كے دلوں پر مہرلگاديتے ہيں اور ان كى آنكھوں پر پردے ڈال ديتے اور ان كے كان بہرے ہوجائے _

ايك احتمال يہ بھى ہے كہ وہ گناہوں كى دلدل ميں اس حدتك پھنس چكے تھے كہ لوط كے خاندان كا تمسخراڑا كر كہتے تھے كہ وہ ہميں ناپاك سمجھتے ہيں اور خود بڑے پاكباز بنتے ہيں ، يہ كيسا مذاق ہے؟

يہ عجيب بات نہيں تو اور كيا ہے كہ بے حيائي اور بے شرمى كے فعل سے مانوس ہوجانے كى وجہ سے انسان كى حس شناخت ہى يكسر بدل جائے يہ بالكل اس چمڑارنگنے والے كى مثال ہے جوبدبوسے مانوس ہوچكا تھا اور جب ايك مرتبہ وہ عطاروں كے بازارسے گزررہا تھا تو عطر كى نامانوس بوكى وجہ سے بے ہوش ہوگيا، جب اسے حكيم كے پاس لے گئے تو اس نے حكم ديا كہ اسے دوبارہ چمڑار نگنے والوں كے بازار ميں لے جاياجائے چنانچہ ايسا ہى كيا گيا اور وہ ہوش ميں آگيا اور مرنے سے بچ گيايہ واقعاًاس بارے ميں ايك دلچسپ حسى مثال ہے _

۳۰ /سال سعى و كوشش

جناب لوط عليہ السلام نے اس قوم كو تيس سال تك تبليغ كي، ليكن اپنے خاندان كے سوا(اور وہ بھى بيوى كو مستثنى كر كے كيونكہ وہ مشركين كے ساتھ ہم عقيدہ ہوگئي تھي)، اور كوئي آپ پر ايمان نہيں لايا_

ليكن حضرت لوط عليہ السلام نے ان دھمكيوں كى كوئي پرواہ نہ كى اور اپنا كام جارى ركھا اور كہا :'' ميں تمہارے ان كاموں كا دشمن ہوں _''(۱)

يعنى ميں اپنا احتجاج برابر جارى ركھوں گا ،تم جو كچھ ميرا بگاڑنا چاہتے ہو بگاڑلو ،مجھے راہ خدا اور برائيوں كے خلاف جہاد كے سلسلے ميں ان دھمكيوں كى قطعا ًكوئي پرواہ نہيں ہے_

____________________

(۱)سورہ شعراء آيت ۱۶۷

۱۵۴

اس احتجاج ميں اور بھى بہت سے لوگ جناب لوط عليہ السلام كے ہمنوا ہوچكے تھے، يہ اوربات ہے كہ سركش قوم نے آخركارانھيں جلاوطن كرديا _

لائق توجہ بات يہ كہ حضرت لوط عليہ السلام فرماتے ہيں كہ '' تمہارے اعمال كا دشمن ہوں '' يعنى مجھے تمہارى ذات سے دشمنى نہيں بلكہ تمہارے شرمناك اعمال سے نفرت ہے اگر ان اعمال كو اپنے سے دور كردو تو پھر تم ميرے پكے دوست بن جاو گے _

بہرحال جناب لوط عليہ السلام كى ذمہ دارى كا آخرى مرحلہ آن پہنچا لہذا وقت آپہنچا كہ جناب لوط عليہ السلام خود كو بھى اور جو لوگ ان پر ايمان لاچكے ہيں انھيں بھى اس گناہ آلود علاقے سے باہر نكال كرلے جائيں تاكہ ہولناك عذاب اس بے حياقوم كو اپنى لپيٹ ميں لے لے _

حضرت لوط عليہ السلام نے اللہ كى بارگاہ ميں دست دعا بلند كركے كہا:

''پروردگار : جو كچھ يہ لوگ كہہ رہے ہيں مجھے اور ميرے خاندان كو اس سے نجات دے _''(۱)

يہ ہے گناہ گاروں كا انجام

آخركار حضرت لوط عليہ السلام كى دعا مستجاب ہوئي اور خدا كى طرف سے اس قوم تباہ كار كے خلاف سخت سزا كا حكم صادر ہوا ،وہ فرشتے جو عذاب نازل كرنے پر مامور تھے قبل اس كے كہ سرزمين لوط پر اپنا فرض ادا كرنے كے لئے جاتے، حضرت ابراہيم (ع) كے پاس ايك اور پيغام لے كر گئے اور وہ پيغام تھا، حضرت ابراہيم (ع) كو فرزند كى پيدائش كى خوشخبرى تھى _

'' اس كى وضاحت يہ ہے كہ:ابراہيم شام كى طرف جلا وطن ہونے كے بعد لوگوں كو خدا كى طرف دعوت دينے اور ہر قسم كے شرك و بت پرستى كے خلاف مبارزہ كرنے ميں مصروف تھے،حضرت ''لوط''جو ايك عطيم پيغمبر تھے ،ان ہى كے زمانہ ميں ہوئے ہيں اور احتمال يہ ہے كہ اپ ہى كى طرف سے مامور ہوئے

____________________

(۱)سورہ شعراء آيت ۱۶۹

۱۵۵

تھے،كہ گمراہوں كو تبليغ و ہدايت كرنے كے لئے شام كے ايك علاقہ (يعنى سدوم كے شہروں كى طرف) سفر كريں ،وہ ايك ايسى گناہگار قوم كے درميان ائے جو شرك اور بہت سے گناہوں ميں الودہ تھى ،اور سب سے قبيح گناہ اغلام اور لواطت تھى ،اخر كار فرشتوں كا ايك گروہ،اس قوم كى ہلاكت پر ما مور ہوا ليكن وہ پہلے ابراہيم (ع) كے پاس ائے_

ابراہيم (ع) مہمانوں كى وضع و قطع سے سمجھ گئے كہ يہ كسى اہم كام كے لئے جارہے ہيں ،اور صرف بيٹے كى ولادت كى بشارت كے لئے نہيں ائے، كيونكہ اس قسم كى بشارت كے لئے تو ايك ہى شخص كا فى تھا ،يا اس عجلت كى وجہ ہے جو وہ چلنے كے لئے كر رہے تھے ،اس سے محسوس كيا كہ كوئي اہم ڈيوٹى ركھتے ہيں ''_ قران ميں حضرت ابراہيم عليہ السلام سے ملاقات كا ذكر ہے چنانچہ كہا گيا ہے : جس وقت ہمارے ايلچى حضرت ابراہيم عليہ السلام كے پاس بشارت لے كرگئے _انھيں اسحاق اور يعقوب كے پيدا ہونے كى خوش خبرى سنائي اور پھر (قوم لوط كى بستى كى طرف اشارہ كرتے ہوئے )كہا كہ ہم اس شہر اور اس ميں رہنے والوں كو ہلاك كرديں گے كيونكہ يہ لوگ ظالم ہيں _ ''(۱)

چونكہ فرشتوں نے ''ھذہ القرية''_ كہا اس سے ثابت ہوتا ہے كہ قوم لوط اسى مقام كے قرب جوار ميں رہتى تھى جہاں حضرت ابراہيم (ع) رہتے تھے_،اور اس قوم كو لفظ ''ظالم''سے ياد كرنا اس وجہ سے تھا كہ وہ اپنے نفوس پر ظلم كرتے تھے يہاں تك كہ اس طرف سے گزرنے والے مسافروں اور قافلوں پر بھى ستم كرتے تھے _

جب حضرت ابراہيم عليہ السلام نے يہ بات سنى تو انھيں حضرت لوط پيغمبر خدا كى فكر ہوئي اور كہا :'' اس آبادى ميں تو لوط بھى ہے ''_(۲)

اس پر كيا گزرے گى ؟

مگر فرشتوں نے فورا ًجواب ديا :'' آپ فكر نہ كريں ہم ان سب لوگوں سے خوب واقف ہيں جو اس

____________________

(۱)سورہ عنكبوت آيت ۳۱

(۲)سورہ عنكبوت آيت ۳۲

۱۵۶

بستى ميں رہتے ہيں ''_(۱)

ہم اندھا دھند عذاب نازل نہيں كريں گے ہمارا پروگرام نہايت سنجيدہ اور نپاتلاہے _

فرشتوں نے يہ بھى كہا كہ'' ہم لوط(ع) اور اس كے خاندان كو نجات ديں گے بجز اس كى بيوى كے كہ جو اس قوم كے ساتھ ہى مبتلائے عذاب ہوگى ''_(۲)

صرف ايك خاندان مومن اور پاك

فرآن سے بخوبى ثابت ہوتاہے كہ اس علاقے كى تمام آباديوں اور بستيوں ميں صرف ايك ہى خاندان مومن اور پاك نفس تھا اور خدانے بھى اسے عذاب سے نجات دى جيسا كہ قرآن ميں مذكورہے :

''ہم نے وہاں ايك خاندان كے سوائے كوئي بھى مسلمان نہ پايا _''(۳)

يہاں تك كہ حضرت لوط كى زوجہ بھى مومنين كى صف سے خارج تھى اس لئے وہ بھى عذاب ميں گرفتار ہوئي _

وہ عورت جو خانوادہ نبوت ميں شامل تھى اسے تو ''مو منين اور مسلمين '' سے جدا نہيں ہونا چاہئے تھا مگر وہ اپنے كفرو شرك اور بت پرستى كى وجہ سے اس صنف سے جدا ہوگئي _

اس طرح كلام سے واضح ہوتاہے كہ وہ عورت منحرف العقيدہ تھى كچھ بعيد نہيں كہ اس ميں يہ بد عقيدگى اس مشرك معاشرے كے اثر سے پيداہوگئي ہو ا،ور ابتدا ميں مومن وموحد ہو اس صورت ميں حضرت لوط پر يہ اعتراض نہيں ہوتا كہ انھوں نے ايسى مشركہ سے نكاح ہى كيوں كيا تھا ؟

يہ خيال بھى ہوتاہے كہ اگر كچھ اور لوگ حضرت لوط عليہ السلام پر ايمان لائے ہوں گے تو وہ حتما ًنزول عذاب سے پہلے اس گناہ آلود زمين سے ہجرت كرگئے ہوں گے ،تنہا حضرت لوط عليہ السلام اور ان كے اہل

____________________

(۱)سورہ عنكبوت آيت۳۲

(۲)سورہ عنكبوت آيت۳۲

(۳)سورہ ذاريات آيت۳۶

۱۵۷

وعيال اس مقام پر اس توقع سے آخرى وقت تك ٹھہرے ہوں گے كہ ممكن ہے ان كى تبليغ اور ڈرانے كا لوگوں پر اثرہو_

يہاں تك كہ حضرت ابراہيم عليہ السلام سے فرشتوں كى گفتگو ختم ہوگئي اور وہ حضرت لوط عليہ السلام كے علاقے كى طرف روانہ ہوگئے _

حضرت لوط عليہ السلام مہمانوں كو ديكھ كر پريشان ہوگئے

قرآن ميں ارشاد ہوتاہے:

''جب ہمارے رسول،لوط(ع) كے پاس آئے تو وہ ان كے آنے پر بہت ہى ناراحت اور پريشان ہوئے ، ان كى فكر اورروح مضطرب ہوئي اور غم واندوہ نے انہيں گھيرليا _''(۱)

اسلامى روايات اور تفاسير ميں آيا ہے كہ حضرت لوط اس وقت اپنے كھيت ميں كام كررہے تھے، اچانك انہوں نے خوبصورت نوجوانوں كو ديكھا جو ان كى طرف آرہے تھے وہ ان كے يہاں مہمان ہونا چاہتے تھے ،اب حضرت لوط(ع) مہمانوں كى پذيرائي بھى چاہتے تھے ليكن اس حقيقت كى طرف بھى ان كى توجہ تھى كہ ايسے شہر ميں جو انحراف جنسى كى آلود گى ميں غرق ہے_

ان خوبصورت نوجوانوں كا آنا طرح طرح كے مسائل كا موجب ہے اور ان كى آبروريزى كا بھى احتمال ہے، اس وجہ سے حضرت لوط سخت مشكل سے دوچار ہوگئے يہ مسائل ،روح فرسا افكار كى صورت ميں ان كے دماغ ميں ابھرے اور انہوں نے آہستہ آہستہ اپنے آپ سے كہنا شروع كيا آج بہت سخت اورو حشتناك دن ہے _''(۲)

بہرحال حضرت لوط عليہ السلام كے پاس اس كے علاوہ كوئي چارہ كار نہ تھا كہ وہ اپنے نووارد مہمانوں كو اپنے گھرلے جاتے، ليكن اس بناء پر كہ وہ غفلت ميں نہ رہيں راستے ميں چند مرتبہ ان كے گوش گزار كرديا

____________________

(۱) سورہ ہودآيت ۷۷

(۲) سورہ ہودآيت ۷۷

۱۵۸

كہ اس شہر ميں شرير اور منحرف لوگ رہتے ہيں تاكہ اگر مہمان ان كا مقابلہ نہيں كرسكتے تو صورت حال كا اندازہ كرليں _

خداوند عالم نے فرشتوں كو حكم ديا تھا كہ جب تك يہ پيغمبر تين مرتبہ اس قوم كى برائي اور انحراف كى گواہى نہ دے انہيں عذاب نہ ديا جائے ( يعنى يہاں تك كہ ايك گنہگار قوم سے متعلق بھى حكم خدا عدالت كے ايك عادلانہ فيصلے كى روشنى ميں انجام پائے)اور ان رسولوں نے راستے ميں تين مرتبہ لوط عليہ السلام كى گواہى سن لى _

حضرت لوط عليہ السلام نے مہمانوں كو اتنى دير تك (كھيت ميں ) ٹھہرائے ركھا كہ رات ہوگئي تاكہ شايد اس طرح اس شرير اور آلودہ قوم كى آنكھ سے بچ كر حفظ آبرو كے ساتھ ان كى پذيرائي كر سكيں ليكن جب انسان كا دشمن خود اس كے گھر كے اندر موجود ہوتو پھر كيا كيا جاسكتا ہے حضرت لوط عليہ السلام كى بيوى كو جوايك بے ايمان عورت تھى اور اس گنہگار قوم كى مدد كرتى تھى جب اسے ان نوجوانوں اور خوبصورت مہمانوں كے آنے كى خبر ہوئي تو چھت پر چڑھ گئي پہلے اس نے تالى بجائي پھر آگ روشن كركے اس كے دھوئيں كے ذريعے اس نے منحرف قوم كے بعض لوگوں كو آگاہ كيا كہ لقمہ تر جال ميں پھنس چكا ہے _

قوم لوط(ع) آپ كے گھر ميں داخل ہوگئي

شہروالوں كو جب لوط عليہ السلام كے پاس آنے والے نئے مہمانوں كا پتہ چلاتو وہ ان كے گھر كى طرف چل پڑے، راستے ميں وہ ايك دوسرے كو خوشخبرى ديتے تھے_ گمراہى كى شرمناك وادى ميں بھٹكنے والے ان افراد كا خيال تھا كہ گويا نرمال ان كے ہاتھ آگيا ہے خوبصورت اور خوش رنگ نوجوان اور وہ بھى لوط كے گھر ميں _

قرآن ميں اس جگہ اہل مدينہ استعمال ہوا ہے اوريہ كى تعبير نشاندہى كرتى ہے كہ كم از كم شہر كے بہت سے لوگ ٹوليوں ميں حضرت لوط عليہ السلام كے گھر كى طرف چل پڑے ،اس سے يہ امر واضح ہوتا ہے كہ وہ كس حدتك بے شرم ، ذليل اور جسور تھے خصوصا لفظ ''يستبشرون ''(ايك دوسرے كو بشارت ديتے تھے )ان كى

۱۵۹

آلودگى كى گہرائي كى حكايت كرتا ہے كيونكہ يہ ايك ايسا شرمناك عمل ہے كہ شايد كسى نے اس كى نظيرجانوروں ميں بھى بہت ہى كم ديكھى ہوگى اور يہ عمل اگر كوئي انجام ديتا بھى ہے تو كم از كم چھپ چھپا كراور احساس شرمندگى كے ساتھ ايسا كرتا ہے ليكن يہ بدكاراور كمينہ صفت قوم كھلم كھلا ايك دوسرے كو مباركباد ديتى تھي_

حضرت لوط عليہ السلام نے جب ان كا شوروغل سنا تو بہت گھبرائے اورمضطرب ہوئے انھيں اپنے مہمانوں كے بارے ميں بہت خوف ہوا كيونكہ ابھى تك وہ نہيں جانتے تھے كہ يہ مہمان مامورين عذاب ہيں اور قادر وقاہر خدا كے فرشتے ہيں لہذا وہ ان كے سامنے كھڑے ہوگئے اور كہنے لگے :يہ ميرے مہمان ہيں ، ميرى آبرونہ گنوائو_''(۱)

يعنى اگر تم خدا ، پيغمبر اور جزاء وسزا كے مسئلہ سے صرف نظر كرلو تو بھى كم از كم يہ انسانى مسئلہ ہے اور يہ بات تو سب انسانوں ميں چاہے مومن ہوں يا كافر ، موجود ہے كہ وہ مہمانوں كا احترام كرتے ہيں تم كيسے انسان ہو كہ اتنى سى بات بھى نہيں مانتے ہو اگر تمہارا كوئي دين نہيں تو كم ازكم آزاد انسان تو بنو _اس كے بعد آپ نے مزيد كہا : آئو خدا سے ڈرو اور مجھے ميرے مہمانوں كے سامنے شرمسار نہ كرو_''(۲)

ليكن ،وہ بہت جسوراورمنہ پھٹ تھے بجائے اس كے كہ و ہ شرمندہ ہوتے كہ انہوں نے اللہ كے پيغمبر حضرت لوط عليہ السلام سے كے سا مطالبہ كيا ہے الٹا اس طرح سے پيش آئے جيسے لوط عليہ السلام سے كوئي جرم سرزد ہوا ہے انھوں نے زبان اعتراض دراز كى اور كہنے لگے : '' كيا ہم نے تجھ سے نہ كہا تھا كہ دنيا والوں كو اپنے يہاں مہمان نہ ٹھہرانا اور كسى كو اپنے يہاں نہ آئے دينا _''(۳)

تم نے اس كى خلاف ورزى كيوں كى اور ہمارے كہنے پر عمل كيوں نہ كيا _

يہ اس بناء پر تھا كہ يہ قوم انتہائي كم ظرف اور كنجوس تھى يہ لوگ ہرگز كسى كو اپنے يہاں مہمان نہيں ٹھہراتے تھے اور اتفاق سے ان كے شہرقافلوں كے راستے ميں پڑتے تھے كہتے ہيں كہ انھوں نے يہ كام بعض

____________________

(۱)سورہ حجر آيت ۶۸

(۲)سورہ حجرآيت ۶۹

(۳)سورہ حجر آيت ۷۰

۱۶۰

آنے والوں كے ساتھ اس لئے كيا كوئي ان كے يہاں ٹھہرے نہ ،آہستہ آہستہ ان كى عادت بن گئي لہذا جب حضرت لوط عليہ السلام كو شہر ميں كسى مسافر كے آنے كى خبر ہوتى تو اسے اپنے گھر ميں دعوت ديتے تاكہ وہ كہيں ان كے چنگل ميں نہ پھنس جائے ان لوگوں كو جب اس كا پتہ چلاتو بہت سيخ پاہوئے اور حضرت لوط عليہ السلام سے كھل كر كہنے لگے كہ تمھيں كوئي حق نہيں پہنچتا كہ اب تم كسى مہمان كو اپنے گھرلے جائو _

اے كاش ميں تم سے مقابلہ كرسكتا

بہر حال جب حضرت لوط عليہ السلام نے ان كى يہ جسارت اور كمينہ پن ديكھى تو انھوں نے ايك طريقہ اختيار كيا تاكہ انھيں خواب غفلت اور انحراف وبے حيائي كى مستى سے بيدار كرسكيں _ آپ نے كہا : تم كيوں انحراف كے راستے پر چلتے ہو اگر تمہارا مقصد جنسى تقاضوں كو پورا كرنا ہے تو جائز اور صحيح طريقے سے شادى كركے انھيں پورا كيوں نہيں كرتے ، ،يہ ميرى بيٹياں ہيں (تيار ہوں كہ انھيں تمہارى زوجيت ميں دے دوں ) اگر تم صحيح كام انجام دينا چاہتے ہو تو اس كا راستہ يہ ہے _''(۱)

اس ميں شك نہيں كہ حضرت لوط عليہ السلام كى تو چند بيٹياں تھيں اور ان افراد كى تعداد زيادہ تھى ليكن مقصديہ تھا كہ ان پر اتمام حجت كيا جائے اور كہا جائے كہ ميں اپنے مہمانوں كے احترام اور حفاظت اور تمہيں برائي كى دلدل سے نكالنے كے لئے اس حد تك ايثار كے لئے تيار ہوں _يہ بات واضح ہے كہ جناب لوط يونہى اپنى لڑكيوں كا عقد ان مشركوں اور گمراہوں سے نہيں كرنا چاہتے تھے بلكہ مقصد يہ تھا كہ پہلے ايمان لے او تاكہ بعد ميں اپنے لڑكيوں كى شادى تم سے كردوں _

ليكن افسوس شہوت، انحراف اور ہٹ دھرمى كے اس عالم ميں ان ميں ذرہ بھر بھى انسانى اخلاق اور جذبہ باقى ہوتا تو كم از كم اس امر كے لئے كافى تھا كہ وہ شرمندہ ہوتے اور پلٹ جاتے، مگرنہ صرف يہ كہ وہ شرمندہ نہ ہوئے بلكہ اپنى جسارت ميں اور بڑھ گئے اور چاہا كہ حضرت لوط كے مہمانوں كى طر ف ہاتھ بڑھائيں _

____________________

(۱)سورہ حجر آيت ۷۱

۱۶۱

وہ قوم حرص اور شوق كے عالم ميں اپنے مقصد تك پہنچنے كے لئے بڑى تيزى سے لوط كى طرف آئي_

مگر اس تباہ كار قوم نے نبى خدا حضرت لوط(ع) كو بڑى بے شرمى سے جواب ديا :

''تو خود اچھى طرح سے جانتا ہے كہ ہماراتيرى بيٹيوں ميں كوئي حق نہيں ، اور يقينا تو جانتا ہے كہ ہم كيا چاہتے ہيں _''(۱)

يہ وہ مقام تھا كہ اس بزر گوار پيغمبر نے اپنے آپ كو ايك محاصرے ميں گھراہوا پايا اور انہوں نے ناراحتى وپريشانى كے عالم ميں فرياد كى :اے كاش : مجھ ميں اتنى طاقت ہوتى كہ ميں اپنے مہمانوں كا دفاع كر سكتا اورتم جيسے سر پھروں كى سركوبى كرسكتا ''_(۲)

يا كوئي مستحكم سہارا ہوتا ، كوئي قوم و قبيلہ ميرے پيروكارں ميں سے ہوتا اور ميرے كوئي طاقتور ہم پيمان ہوتے كہ جن كى مدد سے تم منحرف لوگوں كا مقابلہ كرتا_(۳)

اے لوط(ع) آپ پريشان نہ ہويئے

آخر كار پروردگار كے رسولوں نے حضرت لوط كى شديد پريشانى ديكھى اور ديكھا كہ وہ روحانى طور پر كس اضطراب كا شكار ہيں تو انہوں نے اپنے اسرار كار سے پردہ اٹھايا اور ان سے كہا :'' اے لوط(ع) : ہم تيرے پروردگار كے بھيجے ہوئے ہيں ، پريشان نہ ہومطم ن رہو كہ وہ ہرگز تجھ پر دسترس حاصل نہيں كرسكيں گے''_(۴)

قران ميں دوسرى جگہ پر ہے :(۵)

يہ آيت نشاندہى كرتى ہے كہ اس وقت حملہ آورقوم پروردگار كے ارادے سے اپنى بينائي كھوبيٹھى تھي

____________________

(۱)سورہ ہودآيت ۷۹

(۲)سورہ ہود آيت ۸۰

(۳)سورہ ہود آيت۸۰

(۴)سورہ ہود آيت ۸۱

(۵)وہ لوط عليہ السلام كے مہمانوں كے بارے ميں تجاوز كا ارادہ ركھتے تھے ليكن ہم نے ان كى آنكھيں اندھى كرديں _

۱۶۲

اور حملے كى طاقت نہيں ركھتى تھى بعض روايات ميں بھى ہے كہ ايك فرشتے نے مٹھى بھر خاك ان كے چہروں پر پھينكى جس سے وہ نابينا ہوگئے _

بہرحال جب لوط اپنے مہمانوں كے بارے ميں ان كى ماموريت كے بارے ميں آگاہ ہوئے تو يہ بات اس عظيم پيغمبر كے جلتے ہوئے دل كے لئے ٹھنڈك كى مانند تھي، ايك دم انہوں نے محسوس كيا كہ ان كے دل سے غم كا بار گراں ختم ہوگيا ہے اور ان كى آنكھيں خوشى سے چمك اٹھيں ، ايسا ہوا جيسے ايك شديد بيمارى كى نظر مسيحاپر جاپڑے، انہوں نے سكھ كا سانس ليا اور سمجھ گئے كہ غم واندوہ كا زمانہ ختم ہورہاہے اور اس بے شرم حيوان صفت قوم كے چنگل سے نجات پانے كا اور خوشى كا وقت آپہنچا ہے _

مہمانوں نے فوراً لوط عليہ السلام كو حكم ديا : تم تاريكى شب ميں اپنے خاندان كو اپنے ساتھ لے لو اور اس سرزمين سے نكل جائو ليكن يہ پابندى ہے كہ '' تم ميں سے كوئي شخص پس پشت نہ ديكھے_ ''(۱)

اس حكم كى خلاف ورزى فقط تمہارى معصيت كار بيوى كرے گى كہ جو تمہارى گنہگار قوم كو پہنچنے والى مصيبت ميں گرفتار ہوگى _''(۲)

____________________

(۱)''ولا يلتفت منكم احد''_ كى تفسير ميں مفسيرين نے چند احتمال ذكر كيے ہيں :

پہلا يہ كوئي شخص اپنى پس پشت نہ ديكھے _

دوسرا يہ كہ شہر ميں سے مال اور وسائل لے جانے كى فكر نہ كرے بلكہ صرف اپنے آپ كو اس ہلاكت سے نكال لے جائے _

تيسرايہ كہ اس خاندان كے اس چھوٹے سے قافلہ ميں سے كوئي شخص پيچھے نہ رہ جائے_

چوتھا يہ كہ تمہارے نكلنے كے وقت زمين ہلنے لگے كى اور عذاب كے آثار نماياں ہوجائيں گے لہذا اپنے پس پشت نگاہ نہ كرنا اور جلدى سے دور نكل جانا_

البتہ كوئي مانع نہيں ہے كہ يہ سب احتمالات اس آيت كے مفہوم ميں جمع ہوں

(۲)سورہ ہود آيت ۸۱

۱۶۳

كيا صبح قريب نہيں ہے؟

بالآخر انھوں نے لوط سے آخرى بات كہي: ''نزول عذا ب كا لمحہ اور وعدہ كى تكميل كا موقع صبح ہے اور صبح كى پہلى شعاع كے ساتھ ہى اس قوم كى زندگى غروب ہوجائے گى _''(۱)

ابھى اٹھ كھڑے ہو اور جتنا جلدى ممكن ہو شہر سے نكل جائو''كيا صبح نزديك نہيں ہے _''(۲)

بعض روايات ميں ہے كہ جب ملائكہ نے كہا كہ عذاب كے وعدہ پر عمل درآمدصبح كے وقت ہوگا توحضرت لوط عليہ السلام كو جو اس آلودہ قوم سے سخت ناراحت اور پريشان تھے، وہى قوم كہ جس نے اپنے شرمناك اعمال سے ان كا دل مجروح كرركھا تھا اور ان كى روح كو غم واندوہ سے بھرديا تھا، فرشتوں سے خواہش كى كہ اب جب كہ ان كو نابودہى ہونا ہے تو كيا ہى اچھا ہو كہ جلدى ايسا ہو ليكن انہوں نے حضرت لوط كى دلجوئي اور تسلى كے لئے كہا : كياصبح نزديك نہيں ہے ؟

آخركار عذاب كا لمحہ آن پہنچا اور لوط پيغمبر عليہ السلام كے انتظاركے لمحے ختم ہوئے ، جيسا كہ قرآن كہتا ہے :

''جس وقت ہمارا فرمان آن پہنچا تو ہم نے اس زمين كو زيروزبر كرديا اور ان كے سروں پر مٹيلے پتھروں كى پيہم بارش برسائي _''(۳)

پتھروں كى يہ بارش اس قدر تيز اور پے درپے تھى كہ گويا پتھرايك دوسرے پر سوار تھے _ليكن يہ معمولى پتھرنہ تھے بلكہ تيرے پروردگار كے يہاں معين اور مخصوص تھے ''مسومة عند ربك ''_ البتہ يہ تصور نہ كريں كہ يہ پتھر قوم لوط كے ساتھ ہى مخصوص تھے بلكہ'' يہ كسى ظالم قوم اور جمعيت سے دور نہيں ہيں _ ''(۴)

اس بے راہ روااور منحرف قوم نے اپنے اوپر بھى ظلم كيا اور اپنے معاشرے پر بھى وہ اپنى قوم كى تقدير

____________________

(۱)سورہ ہود آيت ۸۱

(۲)سورہ ہود آيت ۸۱

(۳)سورہ ہود آيت ۸۲

(۴)سورہ ہود آيت ۸۳

۱۶۴

سے بھى كھيلے اور انسانى ايمان واخلاق كا بھى مذاق اڑايا ،جب ان كے ہمدرد رہبر نے داد وفرياد كى تو انہوں نے كان نہ دھرے اور تمسخركيا اعلى ڈھٹائي ، بے شرمى اور بے حيائي يہاں تك آپہنچى كہ وہ اپنے رہبر كے مہمانوں كى حرمت وعزت پر تجاوز كے لئے بھى اٹھ كھڑے ہوئے _

يہ وہ لوگ تھے كہ جنہوں نے ہر چيز كو الٹ كر ركھ ديا ان كے شہروں كو بھى الٹ جانا چاہئے تھا فقط يہى نہيں كہ ان كے شہرتباہ وبرباد ہوجاتے بلكہ ان پر پتھروں كى بارش بھى ہونا چاہئے تھى تاكہ ان كے آخرى آثار حيات بھى درہم وبرہم ہوجائيں اور وہ ان پتھروں ميں دفن ہوجائيں اس سے كہ ان كا نام ونشان اس سرزمين ميں نظر نہ آئے، صرف وحشت ناك ، تباہ وبرباد بيابان ، خاموش قبرستان اور پتھروں ميں دبے ہو ئے مردوں كے علاوہ ان ميں كچھ باقى نہ رہے _

كيا صرف قوم لوط(ع) كو يہ سزا ملنى چاہئے نہيں ، يقينا ہر گز نہيں بلكہ ہر منحرف گروہ اور ستم پيشہ قوم كے لئے ايسا ہى انجام انتظار ميں ہے كبھى سنگريزوں كى بارش كے نيچے ، كبھى آگ اگلتے بموں كے نيچے اور كبھى معاشرے كے لئے تباہ كن اختلافات كے تحت خلاصہ يہ كہ ہر ستمگر كو كسى نہ كسى صورت ميں ايسے عذاب سے دوچار ہونا پڑے گا _

صبح كے وقت نزول عذاب كيوں ؟

يہاں پر ذہن ميں يہ سوال پيدا ہوتاہے كہ نزول عذاب كےلئے صبح كا وقت كيوں منتخب كيا گيا رات كے وقت ہى عذاب كيوں نازل نہيں ہوا ؟

ايسا اس لئے تھا كہ جب حضرت لوط(ع) كے گھر پر چڑھ آنے والے افراد اندھے ہوگئے اور قوم كے پاس لوٹ كر گئے اور واقعہ بيان كيا تو وہ كچھ غور وفكر كرنے لگے، معاملہ كيا ہے خدانے صبح تك انہيں مہلت دى كہ شايد بيدار ہوجائيں اور اس كى بارگاہ كى طرف رجوع كريں اور توبہ كريں يا يہ كہ خدا نہيں چاہتا تھا كہ رات كى تاريكى ميں ان پر شب خون مارا جائے اسى بناء پر حكم ديا كہ صبح تك مامور عذاب سے ہاتھ روكے ركھيں _تفاسير ميں اس كے بارے ميں تقريباً كچھ نہيں لكھا گيا ليكن جو كچھ ہم نے اوپر ذكر كيا ہے وہ اس سلسلے

۱۶۵

ميں پند قابل مطالعہ احتمالات ہيں _

زيرو زبركيوں كيا گيا

ہم كہہ چكے ہيں كہ چكے ہيں كہ عذاب كى گناہ سے كچھ نہ كچھ مناسبت ہونا چاہئے، اس قوم نے انحراف جنسى كے ذريعہ چونكہ ہر چيز كوالٹ پلٹ كرديا تھا لہذا خدا نے بھى ان شہروں كو زيرو زبر كرديا اور چونكہ روايات كے مطابق ان كے منہ سے ہميشہ ركيك اور گندى گندگى كى بارش ہوتى تھى لہذا خدانے بھى ان پر پتھروں كى بارش برسائي _

جس نكتے كا ہم آخر ميں ذكر ضرورى سمجھتے ہيں وہ يہ ہے كہ جنسى انحراف كى طرف افراد كے ميلان كے بہت سے علل واسباب ہيں يہاں تك كہ بعض اوقات ماں باپ كا اپنى اولاد سے سلوك يا ہم جنس اولاد كى نگرانى نہ كرنا ، ان كے طرز معاشرت اور ايك ہى جگہ پر سونا وغيرہ بھى ہوسكتا ہے اس آلودگى كا ايك عامل بن جائے _

بعض اوقات ممكن ہے كہ اس انحراف سے ايك اور اخلاقى انحراف جنم لے لے، يہ امر قابل توجہ ہے كہ قوم لوط كے حالات ميں ہے كہ ان كے اس گناہ ميں آلودہ ہونے كا ايك سبب يہ تھا كہ وہ بخيل اور كنجوس لوگ تھے اور چونكہ ان كے شہر شام جانے والے قافلوں كے راستے ميں پڑتے تھے اور وہ نہيں چاہتے تھے كہ مہمانوں اور مسافروں كى پذيرائي كريں لہذا ابتداء ميں وہ اس طرح ظاہر كرتے تھے كہ وہ چاہتے تھے كہ مہمانوں اور مسافروں كو اپنے سے دور بھگائيں ليكن تدريجاًيہ عمل ان كى عادت بن گيا اور انحراف جنسى كے ميلانات آہستہ آہستہ ان كے وجود ميں بيدار ہوگئے اور معاملہ يہاں تك جاپہنچا كہ وہ سرسے لے كر پائوں تك اس ميں آلودہ ہوگئے _(۱)

____________________

(۱) يہاں تك كے فضول قسم كا مذاق جو كبھى كبھى لڑكوں كے درميان اپنے ہم جنسوں كے بارے ميں ہوتا ہے بعض اوقات ان انحرافات كى طرف كھينچ لے جانے كا سبب بن جاتاہے _

۱۶۶

قوم لوط(ع) كا اخلاق

اسلامى روايات وتواريخ ميں جنسى انحراف كے ساتھ ساتھ قوم لوط(ع) كے برے اور شرمناك اعمال اور گھٹيا كردار بھى بيان ہواہے _

كہا گيا ہے كہ ان كى مجالس اور بيٹھكيں طرح طرح كے منكرات اور برے اعمال سے آلودہ تھيں وہ آپس ميں ركيك جملوں ، فحش كلامى اور پھبتيوں كا تبادلہ كرتے تھے ايك دوسرے كى پشت پر مكے مارتے تھے قمار بازى كرتے تھے بچوں والے كھيل كھيلتے تھے گزرنے والوں كو كنكرياں مارتے تھے طرح طرح كے آلات موسيقى استعمال كرتے تھے او رلوگوں كے سامنے برہنہ ہو جاتے تھے اور اپنى شرمگاہوں كو ننگاكرديتے تھے _

واضح ہے كہ اس قسم كے گندے ماحول ميں ہر روز انحراف اور بدى نئي شكل ميں رونما ہوتى ہے اور وسيع سے وسيع تر ہوتى چلى جاتى ہے ايسے ماحول ميں اصولى طور پر برائي كا تصور ختم ہوجاتاہے اور لوگ اس طرح سے اس راہ پر چلتے ہيں كہ كوئي كام ان كى نظر ميں برا اور قبيح نہيں رہتا ان سے زيادہ بد بخت وہ قوميں ہيں جو علم كى پيش رفت كے زمانے ميں انہى راہوں پر گا مزن ہيں ،بعض اوقات تو ان كے اعمال اس قدر شرمناك اور رسوا كن ہوتے ہيں كہ قوم لوط كے اعمال بھول جاتے ہيں _

حضرت لوط (ع) كى بيوى كافروں كے لئے مثال

قرآن مجيد ميں ارشاد ہوتا ہے ''خدا نے كافروں كے لئے ايك مثال بيان كى ہے'' نوح عليہ السلام كى بيوى كى مثال اور لوط عليہ السلام كى بيوى كى مثال ''وہ دونوں ہمارے دوصالح بندوں كے ما تحت تھيں ليكن انہوں نے ان سے خيانت كي، ليكن ان دو عظيم پيغمبر وں سے ان كے ارتباط نے عذاب الہى كے مقابلہ ميں انھيں كوئي نفع نہيں ديا اور ان سے كہا گيا كہ تم بھى آگ ميں داخل ہونے والے لوگوں كے ساتھ آگ ميں داخل ہوجائو_ ''(۱)

____________________

(۱) سورہ تحريم آيت ۱۰

۱۶۷

حضرت نوح كى بيوى كا نام ''والھہ'' اور حضرت لوط كى بيوى كا نام ''والعة''تھا ۱ اور بعض نے اس كے برعكس لكھا ہے يعنى نوح كى بيوى كانام''والعة'' اورلوط كى بيوى كا نام ''والھہ'' يا ''واہلہ'' كہا ہے_

بہرحال ان دونوں عورتوں نے ان دونوں عظيم پيغمبروں كے ساتھ خيانت كى ،البتہ ان كى خيانت جائدہ عفت سے انحراف ہرگزنہيں تھا كيونكہ كسى پيغمبر كى بيوى ہرگز بے عفتى سے آلودہ نہيں ہوتى جيسا كہ پيغمبر اسلام سے ايك حديث ميں صراحت كے ساتھ بيان ہواہے :

''كسى بھى پيغمبر كى بيوى ہرگز منافى عفت عمل سے آلودہ نہيں ہوئي''_

حضرت لوط كى بيوى كى خيانت يہ تھى كہ وہ اس پيغمبر كے دشمنوں كے ساتھ تعاون كرتى تھى اور ان كے گھر كے راز انھيں بتاتى تھى اور حضرت نوح (ع) كى بيوى بھى ايسى ہى تھى _

۱۶۸

حضرت يوسف اور يعقوب (عليہماالسلام)

داستان عشق يا پاكيزگى كا بہترين سبق

حضرت يوسف (ع) كے واقعہ كو بيان كرنے سے پہلے چند چيزوں كا بيان كرنا ضرورى ہے:

۱_ بے ہدف داستان پردازوں يا پست اور غليظ مقاصد ركھنے والوں نے اس اصلاح كنندہ واقعہ كو ہوس بازوں كے لئے ايك عاشقانہ داستان بنانے اور حضرت يوسف عليہ السلام او ران كے واقعات كے حقيقى چہرے كو مسخ كرنے كى كوشش كى ہے،يہاں تك كہ انھوں نے اسے ايك رومانى فلم بناكر پردہ سيميں پر پيش كرنا چاہا ہے ،ليكن قرآن مجيد نے كہ جس كى ہر چيز نمونہ اور اسوہ ہے اس واقعے كے مختلف مناظرسے پيش كرتے ہوئے اعلى ترين عفت وپاكدامني، خوداري، تقوى ،ايمان اور ضبط نفس كے درس دئے ہيں اس طرح سے كہ ايك شخص اسے جتنى مرتبہ بھى پڑھے ان قوى جذبوں سے متاثر ہوئے بغير نہيں رہ سكتا_

اسى بنا پر قرآن نے اسے ''احسن القصص'' (بہترين داستان) جيسا خوبصورت نام ديا ہے اور اس ميں صاحبان فكرونظر كے لئے متعدد عبرتيں بيان كى ہيں _

قہرمان پاكيزگي

۲_اس واقعہ ميں غوروفكر سے يہ حقيقت واضح ہو تى ہے كہ قرآن تمام پہلو ئوں سے معجزہ ہے اور اپنے واقعات ميں جو ہيرو پيش كرتا ہے وہ حقيقى ہيرو ہو تے ہيں نہ كہ خيا لى _كہ جن ميں سے ہر ايك اپنى نو عيت كے

۱۶۹

اعتبار سے بے نظير ہو تا ہے _

حضرت ابراہيم ،وہ بت شكن ہيرو ،جن كى روح بلند تھى اور جو طاغوتيوں كى كسى سازش ميں نہ آئے _

حضرت نو ح،طويل اور پر بر كت عمرميں _صبر واستقا مت،پا مردى اور دلسوزى كے ہيرو بنے_

حضرت مو سى وہ ہير و كہ جنہوں نے ايك سركش اور عصيان گر طاغوت كے مقابلے كے لئے ايك ہٹ دھرم قوم كو تيار كرليا _

حضرت يوسف ;ايك خوبصورت ،ہو س باز اور حيلہ گر عورت كے مقابلے ميں پاكيز گى ، پارسائي اور تقوى كے ہيرو بنے_

علاوہ ازيں اس واقعے ميں قرآنى وحى كى قدرت بيان اس طرح جھلكتى ہے كہ انسان حيرت زدہ ہو جاتا ہے كيونكہ جيسا كہ ہم جانتے ہيں كئي مواقع پر يہ واقعہ عشق كے بہت ہى باريك مسائل تك جا پہنچتاہے اور قرآن انہيں چھوڑ كر ايك طرف سے گزر ے بغير ان تمام مناظر كو ان كى بار يكيوں كے سا تھ اس طرح سے بيان كرتا ہے كہ سا مع ميں ذرہ بھر منفى اور غير مطلوب احساس پيدا نہيں ہوتا _قرآن تمام واقعات كے تن سے گزر تا ہے ليكن تمام مقامات پر تقوى وپاكيزگى كى قوى شعاعوں نے مباحث كا احا طہ كيا ہوا ہے _

حضرت يوسف(ع) كا واقعہ اسلام سے پہلے اور اسلام كے بعد

۳_ اس ميں شك نہيں كہ قبل از اسلام بھى داستان يوسف لوگوں ميں مشہور تھى كيو نكہ تو ريت ميں سفر پيد ائش كى چو دہ فصلوں (فصل ۳۷تا ۵۰) ميں يہ واقعہ تفصيل سے مذكورہے _البتہ ان چودہ فصلوں كا غور سے مطا لعہ كيا جا ئے تو يہ بات ظاہر ہو تى ہے كہ توريت ميں جو كچھ ہے وہ قرآن سے بہت ہى مختلف ہے _ان اختلافات كے موازنے سے معلوم ہو تا ہے كہ جو كچھ قرآن ميں آيا ہے وہ كس حد تك پيراستہ اور ہر قسم كے خرافات سے پاك ہے_ يہ جو قرآن پيغمبر سے كہتا ہے :''اس سے پہلے آپ كو علم نہيں تھا ،،اس عبرت انگيز داستا ن كى خالص واقعيت سے ان كى عدم آگہى كى طرف اشارہ ہے_ (اگر احسن القصص سے مراد واقعہ يوسف ہو ) _

۱۷۰

موجود ہ توريت سے ايسا معلوم ہوتا ہے كہ حضرت يعقوب نے جب حضرت يوسف كى خون آلود قميص ديكھى تو كہا :''يہ ميرے بيٹے كى قبا ہے جسے جانور نے كھا ليا ہے يقينا يوسف چير پھاڑڈالا گيا ہے _''

پھر يعقوب نے اپنا گريبان چا ك كيا ٹاٹ اپنى كمر سے باند ھا اور مدت دراز تك اپنے بيٹے كے لئے گريہ كرتے رہے، تمام بيٹوں اور بيٹيوں نے انہيں تسلى دينے ميں كسراٹھا نہ ركھى ليكن انہيں قرار نہ آيا اور كہا كہ ميں اپنے بيٹے كے ساتھ اسى طرح غمزدہ قبر ميں جائوں گا _

جبكہ قرآن كہتا ہے كہ حضرت يعقوب عليہ السلام اپنى فراست سے بيٹوں كے جھوٹ كو بھانپ گئے اور انہوں نے اس مصيبت ميں داد وفرياد نہيں كى اور نہ اضطراب دكھا يا بلكہ جيسا كہ انبياء عليہم السلام كى سنت ہے اس مصيبت كا بڑے صبر سے سا منا كيا اگر چہ ان كا دل جل رہا تھا، آنكھيں اشكبار تھيں ، فطر ى طور پر كثرت گريہ سے ان كى بينا ئي جاتى رہى _ليكن قرآن كى تعبير كے مطابق انہوں نے صبر جميل كا مظاہرہ كيا اور اپنے اوپر قابو ركھا (كظيمہ) انہوں نے گريبان چاك كر نے ، دادو فرياد كرنے اور پھٹے پرا نے كپڑے پہنے سے گريز كيا جو كہ عزادارى كى مخصوص علامات تھيں _

بہر حال اسلام كے بعد بھى يہ واقعہ مشرق مغرب كے مو رخين كى تحريروں ميں بعض اوقات حاشيہ آرائي كے ساتھ آيا ہے فارسى اشعار ميں سب سے پہلے ''يوسف زليخا ،،كے قصے كى نسبت فردوسى كى طرف دى جاتى ہے اس كے بعد شہاب الدين عمق اور مسعودى قمى كى ''يوسف زليخا''ہے اور ان كے بعد نويں صدى كے مشہور شاعر عبدالرحمن جامى كي'' يوسف زليخا ''ہے _

احسن القصص

۴_قران ميں داستان يوسف كو شروع كرتے ہوئے خدافرماتا ہے:''ہم اس قران كے ذريعہ (جو اپ پر وحى ہوتى ہے )،كے ذريعہ ''احسن القصص ''بيان كرتے ہيں ''_(۱)

____________________

(۱)سورہ يوسف آيت۳

۱۷۱

يہ واقعہ كيسے بہترين نہ ہو جب كہ اس كے ہيجان انگيز پيچ وخم ميں زندگى كے اعلى تر ين دروس كى تصوير كشى كى گئي ہے _اس واقعے ميں ہر چيز پر خدا كے اراد ے كى حاكميت كا ہم اچھى طرح مشاہدہ كرتے ہيں _

حسد كرنے والوں كا منحوس انجام ہم اپنى آنكھوں سے ديكھتے ہيں اوران كى سازشوں كونقش بر آب ہو تے ہو ئے ديكھتے ہيں _

بے عفتى كى عارو ننگ اور پارسا ئي وتقوى كى عظمت وشكوہ اس كى سطور ميں ہم مجسم پاتے ہيں كنويں كى گہرائي ميں ايك ننھے بچے كى تنہائي، زندان كى تاريك كو ٹھرى ميں ايك بے گناہ قيدى كے شب وروز ، ياس ونا اميدى كے سياہ پردوں كے پيچھے نو ر اميد كى تجلى اور آخر كار ايك وسيع حكو مت كى عظمت وشكوہ كہ جو آگاہ ہى وامانت كا نتيجہ ہے يہ تمام چيز يں اس داستان ميں انسان كى آنكھوں كے سامنے سا تھ سا تھ گزر تى ہيں _

وہ لمحے كہ جب ايك معنى خيز خواب سے ايك قوم كى سر نوشت بدل جاتى ہے _

وہ وقت كہ جب ايك قوم كى زندگى ايك بيدا ر خدا ئي زمام دار كے علم وآگہى كے زير سا يہ نابودى سے نجات پاليتى ہے _

اور ايسے ہى دسيوں درس ، جس داستا ن ميں مو جود ہوں وہ كيوں نہ ''احسن القصص''ہو _

البتہ يہى كافى نہيں كہ حضرت يوسف عليہ السلام كى داستان ''احسن القصص'' ہے اہم بات يہ ہے كہ ہم ميں يہ لياقت ہو كہ يہ عظيم درس ہمارى روح ميں اتر جائے_

بہت سے ايسے لوگ ہيں جو حضرت يوسف (ع) كے واقعہ كو ايك اچھے رومانوى واقعہ كے عنوان سے ديكھتے ہيں ، ان جا نو روں كى طرح جنھيں ايك سر سبز وشاداب اور پھل پھو ل سے لدے ہوئے باغ ميں صرف كچھ گھا س نظر پڑتى ہے كہ جو ان كى بھو ك كو زائل كردے _

ابھى تك بہت سے ايسے لوگ ہيں كہ جو اس داستا ن كو جھو ٹے پر وبال دے كر كوشش كرتے ہيں كہ اس سے ايك سيكسى ( sexsi )داستان بنا ليں جب كہ اس واقعہ كے لئے يہ بات نا شائستہ ہے اور اصل داستان ميں تمام اعلى انسا نى قدر يں جمع ہيں آئند ہ صفحات ميں ہم ديكھيں گے كہ اس واقعہ كے جامع خو

۱۷۲

بصورت پيچ وخم كو نظر انداز كر كے نہيں گزرا جاسكتا ايك شاعر شيريں سخن كے بقول :

''كبھى كبھى اس داستان كے پر كشش پہلوئوں كى مہك انسا ن كو اس طرح سر مست كر ديتى ہے كہ وہ بے خود ہو جاتا ہے_''

اميد كى كرن او ر مشكلات كى ابتدا ء

حضرت يوسف عليہ السلام كے واقعے كا آغاز قرآن ان كے عجيب اور معنى خيز خواب سے كرتا ہے كيونكہ يہ خواب دراصل حضرت يوسف كى تلا طم خيز زندگى كا پہلاموڑ شمار ہو تا ہے _

ايك دن صبح سوير ے آپ بڑے شوق اور وار فتگى سے باپ كے پاس آئے اور انہيں ايك نيا واقعہ سنا يا جو ظا ہر اً كو ئي زيادہ اہم نہ تھا ليكن درحقيقت ان كى زندگى ميں ايك تازہ با ب كھلنے كا پتہ دے رہا تھا _

''يو سف نے كہا :ابا جان :

''ميں نے كل رات گيا رہ ستاروں كو ديكھا كہ وہ آسمان سے نيچے اتر ئے سورج اور چاندان كے ہمراہ تھے ' سب كے سب ميرے پاس آئے اور مير ے سامنے سجدہ كيا _''(۱)

حضرت يوسف (ع) نے يہ خواب شب جمعہ ديكھا تھا كہ جو شب قدر بھى تھى (وہ رات جو مقدرات كے تعين كى رات ہے ) _

يہاں پر سوال يہ پيد ا ہوتا ہے كہ حضرت يوسف نے جب يہ خواب ديكھا اس وقت آپ كى عمر كتنے سال تھى 'اس سلسلے ميں بعض نے نو سال' بعض نے بارہ سال اور بعض نے سات سال عمر لكھى ہے جو بات مسلم ہے وہ يہ ہے كہ اس وقت آپ بہت كم سن تھے _

اس ہيجان انگيز اور معنى خيز خواب پر خدا كے پيغمبر يعقوب فكر ميں ڈوب گئے كہ سورج ،چاند اور آسمان كے گيارہ ستارے ،وہ گيا رہ ستارہ نيچے اترے اور ميرے بيٹے يوسف كے سامنے سجدہ ريز ہو گئے _

____________________

(۱) سورہ يوسف آيت ۴

۱۷۳

يہ كس قدر معنى آفر يں ہے يقينا سورج اور چاند ميں اور اس كى ماں (يامَيں اور اس كى خالہ ) ہيں اور گيارہ ستارے اس كے بھائي ہيں ميرے بيٹے كى قدر ومنزلت اور مقام اس قدر بلند ہو گا كہ آسمان كے ستارے ، سورج اور چاند اس كے آستا نہ پر جبيں سائي كريں گے يہ بار گاہ الہى ميں اس قدر عزيز اور باوقار ہو گا كہ آسمان والے بھى اس كے سامنے خضوع كريں گے كتنا پر شكوہ اور پر كشش خواب ہے _ لہذا پريشانى اور اضطراب كے انداز ميں كہ جس ميں ايك مسرت بھى تھى ،اپنے بيٹے سے كہنے لگے ''ميرے بيٹے :اپنا يہ خواب بھائيوں كو نہ بتانا،كيو نكہ وہ تيرے خلا ف خطر ناك سازش كريں گے ،ميں جانتا ہوں كہ شيطان انسا ن كا كھلا دشمن ہے _( ۲) وہ مو قع كى تاڑميں ہے تا كہ اپنے وسوسو ں كا آغاز كرے ، كينہ وحسد كى آگ بھڑ كا ئے يہا ں تك كہ بھا ئيوں كو ايك دوسرے كا دشمن بنادے_ ليكن يہ خواب صرف مستقبل ميں يو سف كے مقام كى ظاہرى ومادى عظمت بيان نہيں كرتا تھا بلكہ نشا ندہى كرتا تھا كہ وہ مقام نبوت تك بھى پہچنيں گے كيونكہ آسمان والو ں كا سجدہ كرنا آسمانى مقام كے بلند ى پر پہنچنے كى دليل ہے اسى لئے تو ان كے پدر بزر گوار حضرت يعقوب نے مزيد كہا : اور اس طر ح تير ا پرور دگار تجھے منتخب كرے گا _'' اور تجھے تعبير خواب كا علم دے گا اور اپنى نعمت تجھ پر اور آل يعقوب(ع) پر تمام كرے گا ،جيسے اس نے قبل از يان تيرے باپ ابراہيم عليہ السلام اور اسحاق(ع) پر تمام كى ہاں تيرا پروردگار عالم ہے اور حكمت كےمطابق كام كرتاہے_''(۳)

بھائيوں كى سازش

يہاں سے يوسف(ع) كے بھائيوں كى يوسف(ع) كے خلاف سازش شروع ہو تى ہے ،قران ميں ان بہت سے اصلا حى دروس كى طرح اشارہ كيا گيا ہے جو اس داستا ن ميں موجود ہيں ،ارشاد ہوتا ہے :''يقينا يوسف اور اس كے بھائيوں كى داستا ن ميں سوال كرنے والوں كے لئے نشانياں تھيں _''(۴)

____________________

(۱)سورہ يوسف آيت ۵

(۲)سورہ يوسف آيت ۵

(۳)سورہ يوسف آيت ۶

(۴)سورہ يوسف آيت ۷

۱۷۴

اس سے بڑھ كر اوركيا درس ہوگا كہ چند طاقتور افراد ايك سو چے سمجھے منصوبے كے تحت كہ جس كا سر چشمہ حسد تھا'ظاہراً ايك كمزور اور تنہا شخص كو نابود كرنے كے لئے اپنى تمام تر كو شش صرف كرتے ہيں مگر اس كام سے انہيں خبر نہيں ہو تى كہ وہ اسے ايك حكومت كے تخت پر بٹھا رہے ہيں اور ايك وسيع مملكت كا فرماں روا بنا رہے ہيں اور آخر كا وہ سب اس كے سامنے سر تعظيم وتسليم خم كرتے ہيں يہ امر نشاند ہى كرتا ہے كہ جب خدا كسى كام كا ارادہ كرتا ہے تو وہ اتنى طاقت ركھتا ہے كہ اس كا م كو اس كے مخالفين كے ہا تھوں پايہ تكميل تك پہنچا دے تا كہ يہ واضح ہوجائے گا كہ ايك پاك اور صاحب ايمان انسان اكيلا نہيں ہے اور اگر سارا جہان اس كى نا بودى پر كمر باند ھ لے ليكن خدا نہ چاہے تو كوئي اس كا بال بھى بيكا نہيں كرسكتا _

حضرت يعقوب(ع) كے بارہ بيٹے تھے ان ميں يو سف اور بنيا مين ايك ماں سے تھے ان كى والدہ كا نام ''راحيل'' تھا يعقوب (ع) ان دونوں بيٹوں سے خصوصاًيو سف سے زيا دہ محبت كرتے تھے كيونكہ ايك تو يہ ان كے چھوٹے بيٹے تھے لہذا فطرتاً زيادہ تو جہ اور محبت كے محتاج تھے اور دوسرا ان كى والدہ ''راحيل''فوت ہو چكى تھيں اس بنا ء پر بھى انہيں زيادہ تو جہ اور محبت كى ضرورت تھى علاوہ ازيں خصوصيت كے سا تھ حضرت يوسف ميں نا بغہ اور غير معمولى شخصيت ہونے كے آثار نمايا ں تھے؟ مجمو عى طور پر ان سب باتو ں كى بنا ء پر حضرت يعقوب واضح طور پر ان سے زيادہ پيار محبت كا برتائو كرتے تھے _

حاسد بھا ئيوں كى تو جہ ان پہلوئوں كى طرف نہيں تھى اور وہ اس پر بہت نا راحت اور ناراض تھے_ خصوصاًشايد مائوں كے الگ الگ ہونے كى وجہ سے بھى فطر تاً ان ميں رقابت مو جود تھى لہذا وہ اكٹھے ہو ئے اور كہنے لگے : يو سف اور اس كے بھا ئي كو باپ ہم سے زيادہ پيار كرتا ہے حالانكہ ہم طاقتور اور مفيد لوگ ہيں _''(۱)

اور باپ كے امور كو بہتر طور پر چلا سكتے ہيں اس لئے اسے ان چھوٹے بچوں كى نسبت ہم سے زيادہ محبت كرنا چاہئے جب كہ ان سے تو كچھ بھى نہيں ہو سكتا ،اس طرح يك طرفہ فيصلہ كرتے ہو ئے انہوں نے اپنے باپ كے خلاف كہا كہ'' ہمارا باپ واضح گمراہى ميں ہے_''( ۲)

____________________

(۱)سورہ يوسف آيت ۸

(۲)سورہ يوسف آيت ۸

۱۷۵

حسد اور كينے كى آگ نے انہيں اجازت نہ دى كہ وہ معا ملے كے تمام اطراف پر غور وفكر كرتے اور ان دو بچوں سے اظہار محبت پر باپ كے دلائل معلوم كرتے كيو نكہ ہميشہ ذاتى مفادات ہر شخص كى فكر پر پر دہ ڈال ديتے ہيں اور اسے يك طرفہ فيصلوں پر آمادہ كرديتے ہيں كہ جن كا نتيجہ حق وعدا لت كے راستے سے گمراہى ہے_البتہ ان كى مراد دين ومذہب كے اعتبار سے گمراہى نہ تھى كيو نكہ بعد ميں آنے والى گفتگو نشاندہى كرتى ہيں كہ اپنے باپ كى عظمت او رنبوت پر ان كا عقيدہ تھا اور انہيں صرف ان كے طرز معا شر ت پر اعتراض تھا _

يوسف (ع) كو قتل كر ديا جائے

بغض ،حسد اور كينے كے جذبات نے آخر كار بھا ئيوں كو ايك منصوبہ بنا نے پر آمادہ كيا وہ ايك جگہ جمع ہو ئے اور دو تجاو يزاان كے سامنے تھيں كہنے لگے :''يا يوسف كو قتل كردو يا اسے دور دراز كے كسى علاقے ميں پھينك آئو تا كہ باپ كى محبت كا پورا رخ ہما رى طرف ہو جائے ''_(۱)

يہ ٹھيك ہے كہ اس كا م پر تمہيں احساس گناہ ہو گا اور وجدان كى ندامت ہو گى كيو نكہ اپنے چھو ٹے بھا ئے پر يہ ظلم كرو گے ليكن اس گناہ كى تلافى ممكن ہے ،تو بہ كر لينا'' اور اس كے بعد صالح جمعيت بن جانا ''_(۲)

ليكن بھائيوں ميں سے ايك بہت سمجھدار تھا يا اس كا ضمير نسبتاًزيادہ بيدارتھا اسى لئے اس نے يوسف(ع) كو قتل كرنے كے منصوبے كى مخالفت كى اور اسى طرح كسى دور دراز علاقے ميں پھينك آنے كى تجويز پيش كي،كيونكہ اس منصوبے ميں يوسف(ع) كى ہلاكت كا خطرہ تھا_ اس نے ايك تيسرا منصبوبہ پيش كيا،وہ كہنے لگا:''اگر تمہيں ايسا كا م كرنے پر اصرار ہى ہے تو يوسف(ع) كو قتل نہ كرو بلكہ اسے كسى كنويں ميں پھينك دو(اس طرح سے كہ وہ زندہ رہے)تا كہ راہ گزاروں كے كسى قافلے كے ہاتھ لگ جائے اور وہ اسے اپنے ساتھ لے جائيں اور اس طرح يہ ہمارى اور باپ كى آنكھوں سے دور ہو جائے _(۳)

____________________

(۱)سورہ يوسف آيت ۹

(۲)سورہ يوسف آيت ۹

(۳)سورہ يوسف آيت۱۰

۱۷۶

منحوس سازش

يوسف (ع) كے بھائيوں نے جب يوسف كو كنويں ميں ڈالنے كى آخرى سازش پر اتفاق كرليا تو يہ سوچنے لگے كہ يوسف كو كس طرح لے كر جائيں لہذا اس مقصد كے لئے انہوں نے ايك اور منصوبہ تيار كيا اس كے لئے وہ باپ كے پاس آئے اور اپنے حق جتا نے كے انداز ميں ، نرم ونازك لہجے ميں محبت بھرے شكو ے كى صورت ميں كہنے لگے :''ابا جان :آپ يو سف كو كيوں كبھى اپنے سے جدا نہيں كرتے اور ہما رے سپر د نہيں كر تے آپ ہميں بھائي كے بارے ميں امين كيوں نہيں سمجھتے حالا نكہ ہم يقينا اس كے خير خوا ہ ہيں ''_(۱)

آيئے :جس كا آپ ہميں متہم سمجھتے ہيں اسے جانے ديجئے ،علا وہ ازيں ہمارا بھائي نو عمر ہے، اس كا بھى حق ہے 'اسے بھى شہر سے باہر كى آزاد فضا ميں گھو منے پھر نے كى ضرورت ہے 'اسے گھر كے اندر قيد كردينا درست نہيں ،كل اسے ہمارے سا تھ بھيجئے تا كہ يہ شہر سے باہر نكلے ،چلے پھر ے، درختوں كے پھل كھا ئے ،كھيلے كو دے اور سير و تفريح كرے ''_(۲)

اور اگر آپ كو اس كى سلامتى كا خيال ہے اور پريشانى ہے ''تو ہم سب اپنے بھائي كے محا فظ ونگہبان ہوں گے ''_(۳)

كيو نكہ آخر يہ ہمارا بھائي ہے اور ہمارى جان كے برابر ہے _اس طرح انہو ں نے بھائي كو باپ سے جدا كرنے كا بڑاماہر انہ منصوبہ تيار كيا ،ہو سكتا ہے انہوں نے يہ باتيں يوسف كے سا منے كى ہوں تا كہ وہ بھى باپ سے تقاضا كريں اور ان سے صحرا كى طرف جا نے كى اجازت لے ليں _

اس منصوبہ ميں ايك طرف باپ كے لئے انہوں نے يہ مشكل پيدا كر دى تھى كہ اگر وہ يوسف كو ہمارے سپر د نہيں كرتے تو يہ اس امر كى دليل ہے كہ ہميں متہم سمجھتے ہيں اور دوسرى طرف كھيل كو د اور سير وتفريح كے لئے شہر سے باہر جانے كى يوسف كے لئے تحريك تھى _

____________________

(۱)سورہ يوسف آيت ۱۱

(۲)سورہ يوسف آيت ۱۲

(۳)سورہ يوسف آيت ۱۲

۱۷۷

كنعان كے بھيڑئے

حضرت يعقوب عليہ السلام نے برادران يو سف كى باتوں كے جواب ميں بجائے اس كے كہ انہيں برے ارادے كا الزام ديتے، كہنے لگے كہ ميں جو تمہارے ساتھ يوسف كو بھيجنے پر تيار نہيں ہوں تو اس كى دو وجوہ ہيں :''پہلى يہ كہ يوسف كى جدا ئي مير ے لئے غم انگيز ہے ''_(۱) اور دوسرى يہ كہ ہو سكتا ہے كہ ان كے ارد گرد كے بيابانوں ميں خو نخوار بھيڑئے ہوں ''اور مجھے ڈر ہے كہ مبادا كوئي بھيڑيا ميرے فرزند دلبند كو كھا جائے اور تم اپنے كھيل كود ،سير و تفريح اور دوسرے كامو ں ميں مشغول رہو'' _(۲)

يہ بالكل فطرى امر تھا كہ اس سفر ميں بھائي اپنے آپ ميں مشغول ہوں اور اپنے چھو ٹے بھا ئي سے غافل ہوں اور بھيڑ يوں سے بھرے اس بيابان ميں كوئي بھيڑيا يوسف كو اٹھائے البتہ بھائيوں كے پا س باپ كى پہلى دليل كا كوئي جواب نہ تھا كيو نكہ يو سف كى جدا ئي كا غم ايسى چيز نہ تھى كہ جس كى وہ تلافى كر سكتے بلكہ شايد اس بات نے بھا ئيوں كے دل ميں حسد كى آگ كو اور بھڑكا ديا ہو _

دوسرى طرف بيٹے كو باہر لے جانے كے بارے ميں باپ كى دليل كا جواب تھا كہ جس كے ذكر كى چندا ں ضرورت نہ تھى اور وہ يہ كہ آخر كار بيٹے كو نشوو نما اور تر بيت كے لئے چاہتے يا نہ چاہتے ہوئے باپ سے جدا ہو نا ہے اور اگر وہ ''نورستہ ''كے پودے كى طرح ہميشہ باپ كے زير سايہ رہے تو نشوو نما نہيں پاسكے گا اور بيٹے كے تكا مل وار تقا ء كے لئے باپ مجبور ہے كہ يہ جدا ئي بردا شت كرے آج كھيل كو د ہے كل تحصيل علم و دانش ہے پر سوں زندگى كے لئے كسب وكار اور سعى وكو شش ہے اخر كا ر جدا ئي ضرورى ہے _

لہذا اصلاً انہوں نے اس كا جواب نہيں ديا بلكہ دوسرى دليل كا جواب شروع كيا كہ جو ان كى نگاہ ميں اہم اور بنيا دى تھى اور كہنے لگے : ''كيسے ممكن ہے كہ ہمارے بھائي كو بھيڑ يا كھاجائے حالانكہ ہم طا قتور لوگ ہيں اگر ايسا ہو جائے تو ہم زياں كا روبد بخت ہوں گے ''(۳)

____________________

(۱)سورہ يوسف آيت ۱۳

(۲)سورہ يوسف آيت ۱۳

(۳)سورہ يوسف آيت ۱۴

۱۷۸

يعنى كيا ہم مردہ ہيں كہ بيٹھ جائيں اور ديكھتے رہيں گے اور بھيڑ يا ہمارے بھائي كو كھا جائےگا ،بھا ئي كو بھائي سے جو تعلق ہو تا ہے اس كے علاوہ جو بات اس كى حفاظت پر ہميں ابھارتى ہے يہ ہے كہ ہمارى لوگوں ميں عزت وآبرو ہے ،لوگ ہمارے متعلق كيا كہيں گے ،يہى نا كہ طاقتور مو ٹى گر دنوں والے بيٹھے رہے اور اپنے بھائي پر بھيڑئے كو حملہ كرتے ديكھتے رہے كيا پھر ہم لوگوں ميں جينے كے قابل رہيں گے _(۱)

انہوں نے ضمناً باپ كى اس بات كا بھى جواب ديا كہ ہو سكتا ہے تم كھيل كود ميں لگ جائو اور يوسف سے غافل ہو جائواور وہ يہ كہ يہ مسئلہ گو يا سارى دولت اور عزت وآبرو كے ضا ئع ہو نے كا ہے ايسا مسئلہ نہيں ہے كہ كھيل كود ہميں غافل كردے كيو نكہ اس صورت ميں ہم لوگ بے وقعت ہوجائيں گے اور ہمارى كوئي قدر وقيمت نہيں ہو گى _

بہر حال انہوں نے بہت حيلے كئے خصو صا ًحضر ت يو سف كے معصوم جذ بات كو تحريك كيااور انہيں شوق دلا يا كہ وہ شہر سے باہر تفر يح كے لئے جائيں اور شايد يہ ان كے لئے پہلا مو قع تھا كہ وہ باپ كو اس كے لئے راضى كريں اور بہر صورت اس كام كے لئے ان كى رضا مندى حاصل كريں _

يہ احتمال بھى ذكر كيا گيا ہے كہ حضرت يعقوب (ع) نے كنائے كى زبان ميں بات كى تھى اور ان كى نظر بھيڑيا صفت انسانوں كى طرف تھى ،جيسے يوسف كے بعض بھائي تھے

____________________

(۱)يہاں يہ سوال سامنے اتا ہے كہ تمام خطرات ميں سے حضرت يعقو ب (ع) نے صرف بھيڑئے كے حملے كے خطرے كى نشاندہى كيوں كى تھى _

بعض كہتے ہيں كہ كنعان كا بيابان بھيڑيوں كا مركز تھا ،اس لئے زيادہ خطرہ اسى طرف سے محسوس ہوتا تھا _

بعض ديگر كہتے ہيں كہ يہ ايك خواب كى وجہ سے تھا كہ جو حضرت يعقوب عليہ السلام نے پہلے ديكھاتھا كہ بھيڑيوں نے ان كے بيٹے يوسف پر حملہ كر ديا ہے _

۱۷۹

روتے ہوئے جناب يوسف(ع) كو وداع كيا

آخركا ربھائي كامياب ہوگئے_انہوں نے باپ كو راضى كرليا كہ وہ يوسف(ع) كو ان كے ساتھ بھيج دے_ وہ رات انہوں نے اس خوش خيالى كے ساتھ گزارى كہ كل يوسف(ع) كے بارے ميں ان كا منصوبہ عملى شكل اختيار كرے گا اور راستے كى ركاوٹ اس بھائي كو ہميشہ كے لئے راستے سے ہٹاديں گے_پريشانى انہيں صرف يہ تھى كہ باپ پشيمان نہ ہور اور اپنى بات واپس نہ لے لے_

صبح سويرے وہ باپ كے پاس گئے اور يوسف(ع) كى حفاظت كے بارے ميں باپ نے ہدايات دہرائيں _ انہوں نے بھى اظہار اطاعت كيا_ باپ كے سامنے اسے بڑى محبت و احترام سے اٹھايا اور چل پڑے_

كہتے ہيں شہر كے دروازے تك باپ ان كے ساتھ آئے اور آخرى دفعہ يوسف(ع) كو ان سے لے كر اپنے سينے سے لگايا_ آنسو ان كى آنكھوں سے برس رہے تھے_ پھر يوسف(ع) كو ان كے سپرد كركے ان سے جدا ہوگئے ليكن حضرت يعقوب(ع) كى آنكھيں اسى طرح بيٹوں كے پيچھے تھيں _ جہاں تك باپ كى آنكھيں كام كرتى تھيں وہ بھى يوسف(ع) پر نوازش اور محبت كرتے رہے ليكن جب انہيں اطمينان ہوگيا كہ اب باپ انہيں نہيں ديكھ سكتا تو اچانك انہوں نے آنكھيں پھير ليں _ سالہاسال سے حسد كى وجہ سے جو ان كے اندرتہ بہ تہ بغض و كينہ موجود تھا وہ حضرت يوسف(ع) پر نكلنے لگا_ ہر طرف سے اسے مارنے لگے وہ ايك سے بچ كر دوسرے كى پناہ ليتے ليكن كوئي انہيں پناہ نہ ديتا_

يوسف كى ہنسى اور ان كا رونا

ايك روايت ميں ہے كہ اس طوفان بلاء ميں حضرت يوسف آنسوبہار ہے تھے اور جب وہ انہيں كنويں ميں پھينكنے لگے تواچانك حضرت يوسف ہنسنے لگے ،بھا ئيوں كو بہت تعجب ہوا يہ ہنسنے كا كو نسا مقام ہے گو يا يوسف نے اس مسئلے كو مذاق سمجھا ہے اور بات سے بے خبر ہے كہ سياہ وقت اور بدبختى اس كے انتظار ميں ہے

۱۸۰

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667