قصص القرآن-منتخب از تفسير نمونه

قصص القرآن-منتخب از تفسير نمونه   8%

قصص القرآن-منتخب از تفسير نمونه   مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 667

قصص القرآن-منتخب از تفسير نمونه
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 667 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 334536 / ڈاؤنلوڈ: 6147
سائز سائز سائز
قصص القرآن-منتخب از تفسير نمونه

قصص القرآن-منتخب از تفسير نمونه

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

آنے والوں كے ساتھ اس لئے كيا كوئي ان كے يہاں ٹھہرے نہ ،آہستہ آہستہ ان كى عادت بن گئي لہذا جب حضرت لوط عليہ السلام كو شہر ميں كسى مسافر كے آنے كى خبر ہوتى تو اسے اپنے گھر ميں دعوت ديتے تاكہ وہ كہيں ان كے چنگل ميں نہ پھنس جائے ان لوگوں كو جب اس كا پتہ چلاتو بہت سيخ پاہوئے اور حضرت لوط عليہ السلام سے كھل كر كہنے لگے كہ تمھيں كوئي حق نہيں پہنچتا كہ اب تم كسى مہمان كو اپنے گھرلے جائو _

اے كاش ميں تم سے مقابلہ كرسكتا

بہر حال جب حضرت لوط عليہ السلام نے ان كى يہ جسارت اور كمينہ پن ديكھى تو انھوں نے ايك طريقہ اختيار كيا تاكہ انھيں خواب غفلت اور انحراف وبے حيائي كى مستى سے بيدار كرسكيں _ آپ نے كہا : تم كيوں انحراف كے راستے پر چلتے ہو اگر تمہارا مقصد جنسى تقاضوں كو پورا كرنا ہے تو جائز اور صحيح طريقے سے شادى كركے انھيں پورا كيوں نہيں كرتے ، ،يہ ميرى بيٹياں ہيں (تيار ہوں كہ انھيں تمہارى زوجيت ميں دے دوں ) اگر تم صحيح كام انجام دينا چاہتے ہو تو اس كا راستہ يہ ہے _''(۱)

اس ميں شك نہيں كہ حضرت لوط عليہ السلام كى تو چند بيٹياں تھيں اور ان افراد كى تعداد زيادہ تھى ليكن مقصديہ تھا كہ ان پر اتمام حجت كيا جائے اور كہا جائے كہ ميں اپنے مہمانوں كے احترام اور حفاظت اور تمہيں برائي كى دلدل سے نكالنے كے لئے اس حد تك ايثار كے لئے تيار ہوں _يہ بات واضح ہے كہ جناب لوط يونہى اپنى لڑكيوں كا عقد ان مشركوں اور گمراہوں سے نہيں كرنا چاہتے تھے بلكہ مقصد يہ تھا كہ پہلے ايمان لے او تاكہ بعد ميں اپنے لڑكيوں كى شادى تم سے كردوں _

ليكن افسوس شہوت، انحراف اور ہٹ دھرمى كے اس عالم ميں ان ميں ذرہ بھر بھى انسانى اخلاق اور جذبہ باقى ہوتا تو كم از كم اس امر كے لئے كافى تھا كہ وہ شرمندہ ہوتے اور پلٹ جاتے، مگرنہ صرف يہ كہ وہ شرمندہ نہ ہوئے بلكہ اپنى جسارت ميں اور بڑھ گئے اور چاہا كہ حضرت لوط كے مہمانوں كى طر ف ہاتھ بڑھائيں _

____________________

(۱)سورہ حجر آيت ۷۱

۱۶۱

وہ قوم حرص اور شوق كے عالم ميں اپنے مقصد تك پہنچنے كے لئے بڑى تيزى سے لوط كى طرف آئي_

مگر اس تباہ كار قوم نے نبى خدا حضرت لوط(ع) كو بڑى بے شرمى سے جواب ديا :

''تو خود اچھى طرح سے جانتا ہے كہ ہماراتيرى بيٹيوں ميں كوئي حق نہيں ، اور يقينا تو جانتا ہے كہ ہم كيا چاہتے ہيں _''(۱)

يہ وہ مقام تھا كہ اس بزر گوار پيغمبر نے اپنے آپ كو ايك محاصرے ميں گھراہوا پايا اور انہوں نے ناراحتى وپريشانى كے عالم ميں فرياد كى :اے كاش : مجھ ميں اتنى طاقت ہوتى كہ ميں اپنے مہمانوں كا دفاع كر سكتا اورتم جيسے سر پھروں كى سركوبى كرسكتا ''_(۲)

يا كوئي مستحكم سہارا ہوتا ، كوئي قوم و قبيلہ ميرے پيروكارں ميں سے ہوتا اور ميرے كوئي طاقتور ہم پيمان ہوتے كہ جن كى مدد سے تم منحرف لوگوں كا مقابلہ كرتا_(۳)

اے لوط(ع) آپ پريشان نہ ہويئے

آخر كار پروردگار كے رسولوں نے حضرت لوط كى شديد پريشانى ديكھى اور ديكھا كہ وہ روحانى طور پر كس اضطراب كا شكار ہيں تو انہوں نے اپنے اسرار كار سے پردہ اٹھايا اور ان سے كہا :'' اے لوط(ع) : ہم تيرے پروردگار كے بھيجے ہوئے ہيں ، پريشان نہ ہومطم ن رہو كہ وہ ہرگز تجھ پر دسترس حاصل نہيں كرسكيں گے''_(۴)

قران ميں دوسرى جگہ پر ہے :(۵)

يہ آيت نشاندہى كرتى ہے كہ اس وقت حملہ آورقوم پروردگار كے ارادے سے اپنى بينائي كھوبيٹھى تھي

____________________

(۱)سورہ ہودآيت ۷۹

(۲)سورہ ہود آيت ۸۰

(۳)سورہ ہود آيت۸۰

(۴)سورہ ہود آيت ۸۱

(۵)وہ لوط عليہ السلام كے مہمانوں كے بارے ميں تجاوز كا ارادہ ركھتے تھے ليكن ہم نے ان كى آنكھيں اندھى كرديں _

۱۶۲

اور حملے كى طاقت نہيں ركھتى تھى بعض روايات ميں بھى ہے كہ ايك فرشتے نے مٹھى بھر خاك ان كے چہروں پر پھينكى جس سے وہ نابينا ہوگئے _

بہرحال جب لوط اپنے مہمانوں كے بارے ميں ان كى ماموريت كے بارے ميں آگاہ ہوئے تو يہ بات اس عظيم پيغمبر كے جلتے ہوئے دل كے لئے ٹھنڈك كى مانند تھي، ايك دم انہوں نے محسوس كيا كہ ان كے دل سے غم كا بار گراں ختم ہوگيا ہے اور ان كى آنكھيں خوشى سے چمك اٹھيں ، ايسا ہوا جيسے ايك شديد بيمارى كى نظر مسيحاپر جاپڑے، انہوں نے سكھ كا سانس ليا اور سمجھ گئے كہ غم واندوہ كا زمانہ ختم ہورہاہے اور اس بے شرم حيوان صفت قوم كے چنگل سے نجات پانے كا اور خوشى كا وقت آپہنچا ہے _

مہمانوں نے فوراً لوط عليہ السلام كو حكم ديا : تم تاريكى شب ميں اپنے خاندان كو اپنے ساتھ لے لو اور اس سرزمين سے نكل جائو ليكن يہ پابندى ہے كہ '' تم ميں سے كوئي شخص پس پشت نہ ديكھے_ ''(۱)

اس حكم كى خلاف ورزى فقط تمہارى معصيت كار بيوى كرے گى كہ جو تمہارى گنہگار قوم كو پہنچنے والى مصيبت ميں گرفتار ہوگى _''(۲)

____________________

(۱)''ولا يلتفت منكم احد''_ كى تفسير ميں مفسيرين نے چند احتمال ذكر كيے ہيں :

پہلا يہ كوئي شخص اپنى پس پشت نہ ديكھے _

دوسرا يہ كہ شہر ميں سے مال اور وسائل لے جانے كى فكر نہ كرے بلكہ صرف اپنے آپ كو اس ہلاكت سے نكال لے جائے _

تيسرايہ كہ اس خاندان كے اس چھوٹے سے قافلہ ميں سے كوئي شخص پيچھے نہ رہ جائے_

چوتھا يہ كہ تمہارے نكلنے كے وقت زمين ہلنے لگے كى اور عذاب كے آثار نماياں ہوجائيں گے لہذا اپنے پس پشت نگاہ نہ كرنا اور جلدى سے دور نكل جانا_

البتہ كوئي مانع نہيں ہے كہ يہ سب احتمالات اس آيت كے مفہوم ميں جمع ہوں

(۲)سورہ ہود آيت ۸۱

۱۶۳

كيا صبح قريب نہيں ہے؟

بالآخر انھوں نے لوط سے آخرى بات كہي: ''نزول عذا ب كا لمحہ اور وعدہ كى تكميل كا موقع صبح ہے اور صبح كى پہلى شعاع كے ساتھ ہى اس قوم كى زندگى غروب ہوجائے گى _''(۱)

ابھى اٹھ كھڑے ہو اور جتنا جلدى ممكن ہو شہر سے نكل جائو''كيا صبح نزديك نہيں ہے _''(۲)

بعض روايات ميں ہے كہ جب ملائكہ نے كہا كہ عذاب كے وعدہ پر عمل درآمدصبح كے وقت ہوگا توحضرت لوط عليہ السلام كو جو اس آلودہ قوم سے سخت ناراحت اور پريشان تھے، وہى قوم كہ جس نے اپنے شرمناك اعمال سے ان كا دل مجروح كرركھا تھا اور ان كى روح كو غم واندوہ سے بھرديا تھا، فرشتوں سے خواہش كى كہ اب جب كہ ان كو نابودہى ہونا ہے تو كيا ہى اچھا ہو كہ جلدى ايسا ہو ليكن انہوں نے حضرت لوط كى دلجوئي اور تسلى كے لئے كہا : كياصبح نزديك نہيں ہے ؟

آخركار عذاب كا لمحہ آن پہنچا اور لوط پيغمبر عليہ السلام كے انتظاركے لمحے ختم ہوئے ، جيسا كہ قرآن كہتا ہے :

''جس وقت ہمارا فرمان آن پہنچا تو ہم نے اس زمين كو زيروزبر كرديا اور ان كے سروں پر مٹيلے پتھروں كى پيہم بارش برسائي _''(۳)

پتھروں كى يہ بارش اس قدر تيز اور پے درپے تھى كہ گويا پتھرايك دوسرے پر سوار تھے _ليكن يہ معمولى پتھرنہ تھے بلكہ تيرے پروردگار كے يہاں معين اور مخصوص تھے ''مسومة عند ربك ''_ البتہ يہ تصور نہ كريں كہ يہ پتھر قوم لوط كے ساتھ ہى مخصوص تھے بلكہ'' يہ كسى ظالم قوم اور جمعيت سے دور نہيں ہيں _ ''(۴)

اس بے راہ روااور منحرف قوم نے اپنے اوپر بھى ظلم كيا اور اپنے معاشرے پر بھى وہ اپنى قوم كى تقدير

____________________

(۱)سورہ ہود آيت ۸۱

(۲)سورہ ہود آيت ۸۱

(۳)سورہ ہود آيت ۸۲

(۴)سورہ ہود آيت ۸۳

۱۶۴

سے بھى كھيلے اور انسانى ايمان واخلاق كا بھى مذاق اڑايا ،جب ان كے ہمدرد رہبر نے داد وفرياد كى تو انہوں نے كان نہ دھرے اور تمسخركيا اعلى ڈھٹائي ، بے شرمى اور بے حيائي يہاں تك آپہنچى كہ وہ اپنے رہبر كے مہمانوں كى حرمت وعزت پر تجاوز كے لئے بھى اٹھ كھڑے ہوئے _

يہ وہ لوگ تھے كہ جنہوں نے ہر چيز كو الٹ كر ركھ ديا ان كے شہروں كو بھى الٹ جانا چاہئے تھا فقط يہى نہيں كہ ان كے شہرتباہ وبرباد ہوجاتے بلكہ ان پر پتھروں كى بارش بھى ہونا چاہئے تھى تاكہ ان كے آخرى آثار حيات بھى درہم وبرہم ہوجائيں اور وہ ان پتھروں ميں دفن ہوجائيں اس سے كہ ان كا نام ونشان اس سرزمين ميں نظر نہ آئے، صرف وحشت ناك ، تباہ وبرباد بيابان ، خاموش قبرستان اور پتھروں ميں دبے ہو ئے مردوں كے علاوہ ان ميں كچھ باقى نہ رہے _

كيا صرف قوم لوط(ع) كو يہ سزا ملنى چاہئے نہيں ، يقينا ہر گز نہيں بلكہ ہر منحرف گروہ اور ستم پيشہ قوم كے لئے ايسا ہى انجام انتظار ميں ہے كبھى سنگريزوں كى بارش كے نيچے ، كبھى آگ اگلتے بموں كے نيچے اور كبھى معاشرے كے لئے تباہ كن اختلافات كے تحت خلاصہ يہ كہ ہر ستمگر كو كسى نہ كسى صورت ميں ايسے عذاب سے دوچار ہونا پڑے گا _

صبح كے وقت نزول عذاب كيوں ؟

يہاں پر ذہن ميں يہ سوال پيدا ہوتاہے كہ نزول عذاب كےلئے صبح كا وقت كيوں منتخب كيا گيا رات كے وقت ہى عذاب كيوں نازل نہيں ہوا ؟

ايسا اس لئے تھا كہ جب حضرت لوط(ع) كے گھر پر چڑھ آنے والے افراد اندھے ہوگئے اور قوم كے پاس لوٹ كر گئے اور واقعہ بيان كيا تو وہ كچھ غور وفكر كرنے لگے، معاملہ كيا ہے خدانے صبح تك انہيں مہلت دى كہ شايد بيدار ہوجائيں اور اس كى بارگاہ كى طرف رجوع كريں اور توبہ كريں يا يہ كہ خدا نہيں چاہتا تھا كہ رات كى تاريكى ميں ان پر شب خون مارا جائے اسى بناء پر حكم ديا كہ صبح تك مامور عذاب سے ہاتھ روكے ركھيں _تفاسير ميں اس كے بارے ميں تقريباً كچھ نہيں لكھا گيا ليكن جو كچھ ہم نے اوپر ذكر كيا ہے وہ اس سلسلے

۱۶۵

ميں پند قابل مطالعہ احتمالات ہيں _

زيرو زبركيوں كيا گيا

ہم كہہ چكے ہيں كہ چكے ہيں كہ عذاب كى گناہ سے كچھ نہ كچھ مناسبت ہونا چاہئے، اس قوم نے انحراف جنسى كے ذريعہ چونكہ ہر چيز كوالٹ پلٹ كرديا تھا لہذا خدا نے بھى ان شہروں كو زيرو زبر كرديا اور چونكہ روايات كے مطابق ان كے منہ سے ہميشہ ركيك اور گندى گندگى كى بارش ہوتى تھى لہذا خدانے بھى ان پر پتھروں كى بارش برسائي _

جس نكتے كا ہم آخر ميں ذكر ضرورى سمجھتے ہيں وہ يہ ہے كہ جنسى انحراف كى طرف افراد كے ميلان كے بہت سے علل واسباب ہيں يہاں تك كہ بعض اوقات ماں باپ كا اپنى اولاد سے سلوك يا ہم جنس اولاد كى نگرانى نہ كرنا ، ان كے طرز معاشرت اور ايك ہى جگہ پر سونا وغيرہ بھى ہوسكتا ہے اس آلودگى كا ايك عامل بن جائے _

بعض اوقات ممكن ہے كہ اس انحراف سے ايك اور اخلاقى انحراف جنم لے لے، يہ امر قابل توجہ ہے كہ قوم لوط كے حالات ميں ہے كہ ان كے اس گناہ ميں آلودہ ہونے كا ايك سبب يہ تھا كہ وہ بخيل اور كنجوس لوگ تھے اور چونكہ ان كے شہر شام جانے والے قافلوں كے راستے ميں پڑتے تھے اور وہ نہيں چاہتے تھے كہ مہمانوں اور مسافروں كى پذيرائي كريں لہذا ابتداء ميں وہ اس طرح ظاہر كرتے تھے كہ وہ چاہتے تھے كہ مہمانوں اور مسافروں كو اپنے سے دور بھگائيں ليكن تدريجاًيہ عمل ان كى عادت بن گيا اور انحراف جنسى كے ميلانات آہستہ آہستہ ان كے وجود ميں بيدار ہوگئے اور معاملہ يہاں تك جاپہنچا كہ وہ سرسے لے كر پائوں تك اس ميں آلودہ ہوگئے _(۱)

____________________

(۱) يہاں تك كے فضول قسم كا مذاق جو كبھى كبھى لڑكوں كے درميان اپنے ہم جنسوں كے بارے ميں ہوتا ہے بعض اوقات ان انحرافات كى طرف كھينچ لے جانے كا سبب بن جاتاہے _

۱۶۶

قوم لوط(ع) كا اخلاق

اسلامى روايات وتواريخ ميں جنسى انحراف كے ساتھ ساتھ قوم لوط(ع) كے برے اور شرمناك اعمال اور گھٹيا كردار بھى بيان ہواہے _

كہا گيا ہے كہ ان كى مجالس اور بيٹھكيں طرح طرح كے منكرات اور برے اعمال سے آلودہ تھيں وہ آپس ميں ركيك جملوں ، فحش كلامى اور پھبتيوں كا تبادلہ كرتے تھے ايك دوسرے كى پشت پر مكے مارتے تھے قمار بازى كرتے تھے بچوں والے كھيل كھيلتے تھے گزرنے والوں كو كنكرياں مارتے تھے طرح طرح كے آلات موسيقى استعمال كرتے تھے او رلوگوں كے سامنے برہنہ ہو جاتے تھے اور اپنى شرمگاہوں كو ننگاكرديتے تھے _

واضح ہے كہ اس قسم كے گندے ماحول ميں ہر روز انحراف اور بدى نئي شكل ميں رونما ہوتى ہے اور وسيع سے وسيع تر ہوتى چلى جاتى ہے ايسے ماحول ميں اصولى طور پر برائي كا تصور ختم ہوجاتاہے اور لوگ اس طرح سے اس راہ پر چلتے ہيں كہ كوئي كام ان كى نظر ميں برا اور قبيح نہيں رہتا ان سے زيادہ بد بخت وہ قوميں ہيں جو علم كى پيش رفت كے زمانے ميں انہى راہوں پر گا مزن ہيں ،بعض اوقات تو ان كے اعمال اس قدر شرمناك اور رسوا كن ہوتے ہيں كہ قوم لوط كے اعمال بھول جاتے ہيں _

حضرت لوط (ع) كى بيوى كافروں كے لئے مثال

قرآن مجيد ميں ارشاد ہوتا ہے ''خدا نے كافروں كے لئے ايك مثال بيان كى ہے'' نوح عليہ السلام كى بيوى كى مثال اور لوط عليہ السلام كى بيوى كى مثال ''وہ دونوں ہمارے دوصالح بندوں كے ما تحت تھيں ليكن انہوں نے ان سے خيانت كي، ليكن ان دو عظيم پيغمبر وں سے ان كے ارتباط نے عذاب الہى كے مقابلہ ميں انھيں كوئي نفع نہيں ديا اور ان سے كہا گيا كہ تم بھى آگ ميں داخل ہونے والے لوگوں كے ساتھ آگ ميں داخل ہوجائو_ ''(۱)

____________________

(۱) سورہ تحريم آيت ۱۰

۱۶۷

حضرت نوح كى بيوى كا نام ''والھہ'' اور حضرت لوط كى بيوى كا نام ''والعة''تھا ۱ اور بعض نے اس كے برعكس لكھا ہے يعنى نوح كى بيوى كانام''والعة'' اورلوط كى بيوى كا نام ''والھہ'' يا ''واہلہ'' كہا ہے_

بہرحال ان دونوں عورتوں نے ان دونوں عظيم پيغمبروں كے ساتھ خيانت كى ،البتہ ان كى خيانت جائدہ عفت سے انحراف ہرگزنہيں تھا كيونكہ كسى پيغمبر كى بيوى ہرگز بے عفتى سے آلودہ نہيں ہوتى جيسا كہ پيغمبر اسلام سے ايك حديث ميں صراحت كے ساتھ بيان ہواہے :

''كسى بھى پيغمبر كى بيوى ہرگز منافى عفت عمل سے آلودہ نہيں ہوئي''_

حضرت لوط كى بيوى كى خيانت يہ تھى كہ وہ اس پيغمبر كے دشمنوں كے ساتھ تعاون كرتى تھى اور ان كے گھر كے راز انھيں بتاتى تھى اور حضرت نوح (ع) كى بيوى بھى ايسى ہى تھى _

۱۶۸

حضرت يوسف اور يعقوب (عليہماالسلام)

داستان عشق يا پاكيزگى كا بہترين سبق

حضرت يوسف (ع) كے واقعہ كو بيان كرنے سے پہلے چند چيزوں كا بيان كرنا ضرورى ہے:

۱_ بے ہدف داستان پردازوں يا پست اور غليظ مقاصد ركھنے والوں نے اس اصلاح كنندہ واقعہ كو ہوس بازوں كے لئے ايك عاشقانہ داستان بنانے اور حضرت يوسف عليہ السلام او ران كے واقعات كے حقيقى چہرے كو مسخ كرنے كى كوشش كى ہے،يہاں تك كہ انھوں نے اسے ايك رومانى فلم بناكر پردہ سيميں پر پيش كرنا چاہا ہے ،ليكن قرآن مجيد نے كہ جس كى ہر چيز نمونہ اور اسوہ ہے اس واقعے كے مختلف مناظرسے پيش كرتے ہوئے اعلى ترين عفت وپاكدامني، خوداري، تقوى ،ايمان اور ضبط نفس كے درس دئے ہيں اس طرح سے كہ ايك شخص اسے جتنى مرتبہ بھى پڑھے ان قوى جذبوں سے متاثر ہوئے بغير نہيں رہ سكتا_

اسى بنا پر قرآن نے اسے ''احسن القصص'' (بہترين داستان) جيسا خوبصورت نام ديا ہے اور اس ميں صاحبان فكرونظر كے لئے متعدد عبرتيں بيان كى ہيں _

قہرمان پاكيزگي

۲_اس واقعہ ميں غوروفكر سے يہ حقيقت واضح ہو تى ہے كہ قرآن تمام پہلو ئوں سے معجزہ ہے اور اپنے واقعات ميں جو ہيرو پيش كرتا ہے وہ حقيقى ہيرو ہو تے ہيں نہ كہ خيا لى _كہ جن ميں سے ہر ايك اپنى نو عيت كے

۱۶۹

اعتبار سے بے نظير ہو تا ہے _

حضرت ابراہيم ،وہ بت شكن ہيرو ،جن كى روح بلند تھى اور جو طاغوتيوں كى كسى سازش ميں نہ آئے _

حضرت نو ح،طويل اور پر بر كت عمرميں _صبر واستقا مت،پا مردى اور دلسوزى كے ہيرو بنے_

حضرت مو سى وہ ہير و كہ جنہوں نے ايك سركش اور عصيان گر طاغوت كے مقابلے كے لئے ايك ہٹ دھرم قوم كو تيار كرليا _

حضرت يوسف ;ايك خوبصورت ،ہو س باز اور حيلہ گر عورت كے مقابلے ميں پاكيز گى ، پارسائي اور تقوى كے ہيرو بنے_

علاوہ ازيں اس واقعے ميں قرآنى وحى كى قدرت بيان اس طرح جھلكتى ہے كہ انسان حيرت زدہ ہو جاتا ہے كيونكہ جيسا كہ ہم جانتے ہيں كئي مواقع پر يہ واقعہ عشق كے بہت ہى باريك مسائل تك جا پہنچتاہے اور قرآن انہيں چھوڑ كر ايك طرف سے گزر ے بغير ان تمام مناظر كو ان كى بار يكيوں كے سا تھ اس طرح سے بيان كرتا ہے كہ سا مع ميں ذرہ بھر منفى اور غير مطلوب احساس پيدا نہيں ہوتا _قرآن تمام واقعات كے تن سے گزر تا ہے ليكن تمام مقامات پر تقوى وپاكيزگى كى قوى شعاعوں نے مباحث كا احا طہ كيا ہوا ہے _

حضرت يوسف(ع) كا واقعہ اسلام سے پہلے اور اسلام كے بعد

۳_ اس ميں شك نہيں كہ قبل از اسلام بھى داستان يوسف لوگوں ميں مشہور تھى كيو نكہ تو ريت ميں سفر پيد ائش كى چو دہ فصلوں (فصل ۳۷تا ۵۰) ميں يہ واقعہ تفصيل سے مذكورہے _البتہ ان چودہ فصلوں كا غور سے مطا لعہ كيا جا ئے تو يہ بات ظاہر ہو تى ہے كہ توريت ميں جو كچھ ہے وہ قرآن سے بہت ہى مختلف ہے _ان اختلافات كے موازنے سے معلوم ہو تا ہے كہ جو كچھ قرآن ميں آيا ہے وہ كس حد تك پيراستہ اور ہر قسم كے خرافات سے پاك ہے_ يہ جو قرآن پيغمبر سے كہتا ہے :''اس سے پہلے آپ كو علم نہيں تھا ،،اس عبرت انگيز داستا ن كى خالص واقعيت سے ان كى عدم آگہى كى طرف اشارہ ہے_ (اگر احسن القصص سے مراد واقعہ يوسف ہو ) _

۱۷۰

موجود ہ توريت سے ايسا معلوم ہوتا ہے كہ حضرت يعقوب نے جب حضرت يوسف كى خون آلود قميص ديكھى تو كہا :''يہ ميرے بيٹے كى قبا ہے جسے جانور نے كھا ليا ہے يقينا يوسف چير پھاڑڈالا گيا ہے _''

پھر يعقوب نے اپنا گريبان چا ك كيا ٹاٹ اپنى كمر سے باند ھا اور مدت دراز تك اپنے بيٹے كے لئے گريہ كرتے رہے، تمام بيٹوں اور بيٹيوں نے انہيں تسلى دينے ميں كسراٹھا نہ ركھى ليكن انہيں قرار نہ آيا اور كہا كہ ميں اپنے بيٹے كے ساتھ اسى طرح غمزدہ قبر ميں جائوں گا _

جبكہ قرآن كہتا ہے كہ حضرت يعقوب عليہ السلام اپنى فراست سے بيٹوں كے جھوٹ كو بھانپ گئے اور انہوں نے اس مصيبت ميں داد وفرياد نہيں كى اور نہ اضطراب دكھا يا بلكہ جيسا كہ انبياء عليہم السلام كى سنت ہے اس مصيبت كا بڑے صبر سے سا منا كيا اگر چہ ان كا دل جل رہا تھا، آنكھيں اشكبار تھيں ، فطر ى طور پر كثرت گريہ سے ان كى بينا ئي جاتى رہى _ليكن قرآن كى تعبير كے مطابق انہوں نے صبر جميل كا مظاہرہ كيا اور اپنے اوپر قابو ركھا (كظيمہ) انہوں نے گريبان چاك كر نے ، دادو فرياد كرنے اور پھٹے پرا نے كپڑے پہنے سے گريز كيا جو كہ عزادارى كى مخصوص علامات تھيں _

بہر حال اسلام كے بعد بھى يہ واقعہ مشرق مغرب كے مو رخين كى تحريروں ميں بعض اوقات حاشيہ آرائي كے ساتھ آيا ہے فارسى اشعار ميں سب سے پہلے ''يوسف زليخا ،،كے قصے كى نسبت فردوسى كى طرف دى جاتى ہے اس كے بعد شہاب الدين عمق اور مسعودى قمى كى ''يوسف زليخا''ہے اور ان كے بعد نويں صدى كے مشہور شاعر عبدالرحمن جامى كي'' يوسف زليخا ''ہے _

احسن القصص

۴_قران ميں داستان يوسف كو شروع كرتے ہوئے خدافرماتا ہے:''ہم اس قران كے ذريعہ (جو اپ پر وحى ہوتى ہے )،كے ذريعہ ''احسن القصص ''بيان كرتے ہيں ''_(۱)

____________________

(۱)سورہ يوسف آيت۳

۱۷۱

يہ واقعہ كيسے بہترين نہ ہو جب كہ اس كے ہيجان انگيز پيچ وخم ميں زندگى كے اعلى تر ين دروس كى تصوير كشى كى گئي ہے _اس واقعے ميں ہر چيز پر خدا كے اراد ے كى حاكميت كا ہم اچھى طرح مشاہدہ كرتے ہيں _

حسد كرنے والوں كا منحوس انجام ہم اپنى آنكھوں سے ديكھتے ہيں اوران كى سازشوں كونقش بر آب ہو تے ہو ئے ديكھتے ہيں _

بے عفتى كى عارو ننگ اور پارسا ئي وتقوى كى عظمت وشكوہ اس كى سطور ميں ہم مجسم پاتے ہيں كنويں كى گہرائي ميں ايك ننھے بچے كى تنہائي، زندان كى تاريك كو ٹھرى ميں ايك بے گناہ قيدى كے شب وروز ، ياس ونا اميدى كے سياہ پردوں كے پيچھے نو ر اميد كى تجلى اور آخر كار ايك وسيع حكو مت كى عظمت وشكوہ كہ جو آگاہ ہى وامانت كا نتيجہ ہے يہ تمام چيز يں اس داستان ميں انسان كى آنكھوں كے سامنے سا تھ سا تھ گزر تى ہيں _

وہ لمحے كہ جب ايك معنى خيز خواب سے ايك قوم كى سر نوشت بدل جاتى ہے _

وہ وقت كہ جب ايك قوم كى زندگى ايك بيدا ر خدا ئي زمام دار كے علم وآگہى كے زير سا يہ نابودى سے نجات پاليتى ہے _

اور ايسے ہى دسيوں درس ، جس داستا ن ميں مو جود ہوں وہ كيوں نہ ''احسن القصص''ہو _

البتہ يہى كافى نہيں كہ حضرت يوسف عليہ السلام كى داستان ''احسن القصص'' ہے اہم بات يہ ہے كہ ہم ميں يہ لياقت ہو كہ يہ عظيم درس ہمارى روح ميں اتر جائے_

بہت سے ايسے لوگ ہيں جو حضرت يوسف (ع) كے واقعہ كو ايك اچھے رومانوى واقعہ كے عنوان سے ديكھتے ہيں ، ان جا نو روں كى طرح جنھيں ايك سر سبز وشاداب اور پھل پھو ل سے لدے ہوئے باغ ميں صرف كچھ گھا س نظر پڑتى ہے كہ جو ان كى بھو ك كو زائل كردے _

ابھى تك بہت سے ايسے لوگ ہيں كہ جو اس داستا ن كو جھو ٹے پر وبال دے كر كوشش كرتے ہيں كہ اس سے ايك سيكسى ( sexsi )داستان بنا ليں جب كہ اس واقعہ كے لئے يہ بات نا شائستہ ہے اور اصل داستان ميں تمام اعلى انسا نى قدر يں جمع ہيں آئند ہ صفحات ميں ہم ديكھيں گے كہ اس واقعہ كے جامع خو

۱۷۲

بصورت پيچ وخم كو نظر انداز كر كے نہيں گزرا جاسكتا ايك شاعر شيريں سخن كے بقول :

''كبھى كبھى اس داستان كے پر كشش پہلوئوں كى مہك انسا ن كو اس طرح سر مست كر ديتى ہے كہ وہ بے خود ہو جاتا ہے_''

اميد كى كرن او ر مشكلات كى ابتدا ء

حضرت يوسف عليہ السلام كے واقعے كا آغاز قرآن ان كے عجيب اور معنى خيز خواب سے كرتا ہے كيونكہ يہ خواب دراصل حضرت يوسف كى تلا طم خيز زندگى كا پہلاموڑ شمار ہو تا ہے _

ايك دن صبح سوير ے آپ بڑے شوق اور وار فتگى سے باپ كے پاس آئے اور انہيں ايك نيا واقعہ سنا يا جو ظا ہر اً كو ئي زيادہ اہم نہ تھا ليكن درحقيقت ان كى زندگى ميں ايك تازہ با ب كھلنے كا پتہ دے رہا تھا _

''يو سف نے كہا :ابا جان :

''ميں نے كل رات گيا رہ ستاروں كو ديكھا كہ وہ آسمان سے نيچے اتر ئے سورج اور چاندان كے ہمراہ تھے ' سب كے سب ميرے پاس آئے اور مير ے سامنے سجدہ كيا _''(۱)

حضرت يوسف (ع) نے يہ خواب شب جمعہ ديكھا تھا كہ جو شب قدر بھى تھى (وہ رات جو مقدرات كے تعين كى رات ہے ) _

يہاں پر سوال يہ پيد ا ہوتا ہے كہ حضرت يوسف نے جب يہ خواب ديكھا اس وقت آپ كى عمر كتنے سال تھى 'اس سلسلے ميں بعض نے نو سال' بعض نے بارہ سال اور بعض نے سات سال عمر لكھى ہے جو بات مسلم ہے وہ يہ ہے كہ اس وقت آپ بہت كم سن تھے _

اس ہيجان انگيز اور معنى خيز خواب پر خدا كے پيغمبر يعقوب فكر ميں ڈوب گئے كہ سورج ،چاند اور آسمان كے گيارہ ستارے ،وہ گيا رہ ستارہ نيچے اترے اور ميرے بيٹے يوسف كے سامنے سجدہ ريز ہو گئے _

____________________

(۱) سورہ يوسف آيت ۴

۱۷۳

يہ كس قدر معنى آفر يں ہے يقينا سورج اور چاند ميں اور اس كى ماں (يامَيں اور اس كى خالہ ) ہيں اور گيارہ ستارے اس كے بھائي ہيں ميرے بيٹے كى قدر ومنزلت اور مقام اس قدر بلند ہو گا كہ آسمان كے ستارے ، سورج اور چاند اس كے آستا نہ پر جبيں سائي كريں گے يہ بار گاہ الہى ميں اس قدر عزيز اور باوقار ہو گا كہ آسمان والے بھى اس كے سامنے خضوع كريں گے كتنا پر شكوہ اور پر كشش خواب ہے _ لہذا پريشانى اور اضطراب كے انداز ميں كہ جس ميں ايك مسرت بھى تھى ،اپنے بيٹے سے كہنے لگے ''ميرے بيٹے :اپنا يہ خواب بھائيوں كو نہ بتانا،كيو نكہ وہ تيرے خلا ف خطر ناك سازش كريں گے ،ميں جانتا ہوں كہ شيطان انسا ن كا كھلا دشمن ہے _( ۲) وہ مو قع كى تاڑميں ہے تا كہ اپنے وسوسو ں كا آغاز كرے ، كينہ وحسد كى آگ بھڑ كا ئے يہا ں تك كہ بھا ئيوں كو ايك دوسرے كا دشمن بنادے_ ليكن يہ خواب صرف مستقبل ميں يو سف كے مقام كى ظاہرى ومادى عظمت بيان نہيں كرتا تھا بلكہ نشا ندہى كرتا تھا كہ وہ مقام نبوت تك بھى پہچنيں گے كيونكہ آسمان والو ں كا سجدہ كرنا آسمانى مقام كے بلند ى پر پہنچنے كى دليل ہے اسى لئے تو ان كے پدر بزر گوار حضرت يعقوب نے مزيد كہا : اور اس طر ح تير ا پرور دگار تجھے منتخب كرے گا _'' اور تجھے تعبير خواب كا علم دے گا اور اپنى نعمت تجھ پر اور آل يعقوب(ع) پر تمام كرے گا ،جيسے اس نے قبل از يان تيرے باپ ابراہيم عليہ السلام اور اسحاق(ع) پر تمام كى ہاں تيرا پروردگار عالم ہے اور حكمت كےمطابق كام كرتاہے_''(۳)

بھائيوں كى سازش

يہاں سے يوسف(ع) كے بھائيوں كى يوسف(ع) كے خلاف سازش شروع ہو تى ہے ،قران ميں ان بہت سے اصلا حى دروس كى طرح اشارہ كيا گيا ہے جو اس داستا ن ميں موجود ہيں ،ارشاد ہوتا ہے :''يقينا يوسف اور اس كے بھائيوں كى داستا ن ميں سوال كرنے والوں كے لئے نشانياں تھيں _''(۴)

____________________

(۱)سورہ يوسف آيت ۵

(۲)سورہ يوسف آيت ۵

(۳)سورہ يوسف آيت ۶

(۴)سورہ يوسف آيت ۷

۱۷۴

اس سے بڑھ كر اوركيا درس ہوگا كہ چند طاقتور افراد ايك سو چے سمجھے منصوبے كے تحت كہ جس كا سر چشمہ حسد تھا'ظاہراً ايك كمزور اور تنہا شخص كو نابود كرنے كے لئے اپنى تمام تر كو شش صرف كرتے ہيں مگر اس كام سے انہيں خبر نہيں ہو تى كہ وہ اسے ايك حكومت كے تخت پر بٹھا رہے ہيں اور ايك وسيع مملكت كا فرماں روا بنا رہے ہيں اور آخر كا وہ سب اس كے سامنے سر تعظيم وتسليم خم كرتے ہيں يہ امر نشاند ہى كرتا ہے كہ جب خدا كسى كام كا ارادہ كرتا ہے تو وہ اتنى طاقت ركھتا ہے كہ اس كا م كو اس كے مخالفين كے ہا تھوں پايہ تكميل تك پہنچا دے تا كہ يہ واضح ہوجائے گا كہ ايك پاك اور صاحب ايمان انسان اكيلا نہيں ہے اور اگر سارا جہان اس كى نا بودى پر كمر باند ھ لے ليكن خدا نہ چاہے تو كوئي اس كا بال بھى بيكا نہيں كرسكتا _

حضرت يعقوب(ع) كے بارہ بيٹے تھے ان ميں يو سف اور بنيا مين ايك ماں سے تھے ان كى والدہ كا نام ''راحيل'' تھا يعقوب (ع) ان دونوں بيٹوں سے خصوصاًيو سف سے زيا دہ محبت كرتے تھے كيونكہ ايك تو يہ ان كے چھوٹے بيٹے تھے لہذا فطرتاً زيادہ تو جہ اور محبت كے محتاج تھے اور دوسرا ان كى والدہ ''راحيل''فوت ہو چكى تھيں اس بنا ء پر بھى انہيں زيادہ تو جہ اور محبت كى ضرورت تھى علاوہ ازيں خصوصيت كے سا تھ حضرت يوسف ميں نا بغہ اور غير معمولى شخصيت ہونے كے آثار نمايا ں تھے؟ مجمو عى طور پر ان سب باتو ں كى بنا ء پر حضرت يعقوب واضح طور پر ان سے زيادہ پيار محبت كا برتائو كرتے تھے _

حاسد بھا ئيوں كى تو جہ ان پہلوئوں كى طرف نہيں تھى اور وہ اس پر بہت نا راحت اور ناراض تھے_ خصوصاًشايد مائوں كے الگ الگ ہونے كى وجہ سے بھى فطر تاً ان ميں رقابت مو جود تھى لہذا وہ اكٹھے ہو ئے اور كہنے لگے : يو سف اور اس كے بھا ئي كو باپ ہم سے زيادہ پيار كرتا ہے حالانكہ ہم طاقتور اور مفيد لوگ ہيں _''(۱)

اور باپ كے امور كو بہتر طور پر چلا سكتے ہيں اس لئے اسے ان چھوٹے بچوں كى نسبت ہم سے زيادہ محبت كرنا چاہئے جب كہ ان سے تو كچھ بھى نہيں ہو سكتا ،اس طرح يك طرفہ فيصلہ كرتے ہو ئے انہوں نے اپنے باپ كے خلاف كہا كہ'' ہمارا باپ واضح گمراہى ميں ہے_''( ۲)

____________________

(۱)سورہ يوسف آيت ۸

(۲)سورہ يوسف آيت ۸

۱۷۵

حسد اور كينے كى آگ نے انہيں اجازت نہ دى كہ وہ معا ملے كے تمام اطراف پر غور وفكر كرتے اور ان دو بچوں سے اظہار محبت پر باپ كے دلائل معلوم كرتے كيو نكہ ہميشہ ذاتى مفادات ہر شخص كى فكر پر پر دہ ڈال ديتے ہيں اور اسے يك طرفہ فيصلوں پر آمادہ كرديتے ہيں كہ جن كا نتيجہ حق وعدا لت كے راستے سے گمراہى ہے_البتہ ان كى مراد دين ومذہب كے اعتبار سے گمراہى نہ تھى كيو نكہ بعد ميں آنے والى گفتگو نشاندہى كرتى ہيں كہ اپنے باپ كى عظمت او رنبوت پر ان كا عقيدہ تھا اور انہيں صرف ان كے طرز معا شر ت پر اعتراض تھا _

يوسف (ع) كو قتل كر ديا جائے

بغض ،حسد اور كينے كے جذبات نے آخر كار بھا ئيوں كو ايك منصوبہ بنا نے پر آمادہ كيا وہ ايك جگہ جمع ہو ئے اور دو تجاو يزاان كے سامنے تھيں كہنے لگے :''يا يوسف كو قتل كردو يا اسے دور دراز كے كسى علاقے ميں پھينك آئو تا كہ باپ كى محبت كا پورا رخ ہما رى طرف ہو جائے ''_(۱)

يہ ٹھيك ہے كہ اس كا م پر تمہيں احساس گناہ ہو گا اور وجدان كى ندامت ہو گى كيو نكہ اپنے چھو ٹے بھا ئے پر يہ ظلم كرو گے ليكن اس گناہ كى تلافى ممكن ہے ،تو بہ كر لينا'' اور اس كے بعد صالح جمعيت بن جانا ''_(۲)

ليكن بھائيوں ميں سے ايك بہت سمجھدار تھا يا اس كا ضمير نسبتاًزيادہ بيدارتھا اسى لئے اس نے يوسف(ع) كو قتل كرنے كے منصوبے كى مخالفت كى اور اسى طرح كسى دور دراز علاقے ميں پھينك آنے كى تجويز پيش كي،كيونكہ اس منصوبے ميں يوسف(ع) كى ہلاكت كا خطرہ تھا_ اس نے ايك تيسرا منصبوبہ پيش كيا،وہ كہنے لگا:''اگر تمہيں ايسا كا م كرنے پر اصرار ہى ہے تو يوسف(ع) كو قتل نہ كرو بلكہ اسے كسى كنويں ميں پھينك دو(اس طرح سے كہ وہ زندہ رہے)تا كہ راہ گزاروں كے كسى قافلے كے ہاتھ لگ جائے اور وہ اسے اپنے ساتھ لے جائيں اور اس طرح يہ ہمارى اور باپ كى آنكھوں سے دور ہو جائے _(۳)

____________________

(۱)سورہ يوسف آيت ۹

(۲)سورہ يوسف آيت ۹

(۳)سورہ يوسف آيت۱۰

۱۷۶

منحوس سازش

يوسف (ع) كے بھائيوں نے جب يوسف كو كنويں ميں ڈالنے كى آخرى سازش پر اتفاق كرليا تو يہ سوچنے لگے كہ يوسف كو كس طرح لے كر جائيں لہذا اس مقصد كے لئے انہوں نے ايك اور منصوبہ تيار كيا اس كے لئے وہ باپ كے پاس آئے اور اپنے حق جتا نے كے انداز ميں ، نرم ونازك لہجے ميں محبت بھرے شكو ے كى صورت ميں كہنے لگے :''ابا جان :آپ يو سف كو كيوں كبھى اپنے سے جدا نہيں كرتے اور ہما رے سپر د نہيں كر تے آپ ہميں بھائي كے بارے ميں امين كيوں نہيں سمجھتے حالا نكہ ہم يقينا اس كے خير خوا ہ ہيں ''_(۱)

آيئے :جس كا آپ ہميں متہم سمجھتے ہيں اسے جانے ديجئے ،علا وہ ازيں ہمارا بھائي نو عمر ہے، اس كا بھى حق ہے 'اسے بھى شہر سے باہر كى آزاد فضا ميں گھو منے پھر نے كى ضرورت ہے 'اسے گھر كے اندر قيد كردينا درست نہيں ،كل اسے ہمارے سا تھ بھيجئے تا كہ يہ شہر سے باہر نكلے ،چلے پھر ے، درختوں كے پھل كھا ئے ،كھيلے كو دے اور سير و تفريح كرے ''_(۲)

اور اگر آپ كو اس كى سلامتى كا خيال ہے اور پريشانى ہے ''تو ہم سب اپنے بھائي كے محا فظ ونگہبان ہوں گے ''_(۳)

كيو نكہ آخر يہ ہمارا بھائي ہے اور ہمارى جان كے برابر ہے _اس طرح انہو ں نے بھائي كو باپ سے جدا كرنے كا بڑاماہر انہ منصوبہ تيار كيا ،ہو سكتا ہے انہوں نے يہ باتيں يوسف كے سا منے كى ہوں تا كہ وہ بھى باپ سے تقاضا كريں اور ان سے صحرا كى طرف جا نے كى اجازت لے ليں _

اس منصوبہ ميں ايك طرف باپ كے لئے انہوں نے يہ مشكل پيدا كر دى تھى كہ اگر وہ يوسف كو ہمارے سپر د نہيں كرتے تو يہ اس امر كى دليل ہے كہ ہميں متہم سمجھتے ہيں اور دوسرى طرف كھيل كو د اور سير وتفريح كے لئے شہر سے باہر جانے كى يوسف كے لئے تحريك تھى _

____________________

(۱)سورہ يوسف آيت ۱۱

(۲)سورہ يوسف آيت ۱۲

(۳)سورہ يوسف آيت ۱۲

۱۷۷

كنعان كے بھيڑئے

حضرت يعقوب عليہ السلام نے برادران يو سف كى باتوں كے جواب ميں بجائے اس كے كہ انہيں برے ارادے كا الزام ديتے، كہنے لگے كہ ميں جو تمہارے ساتھ يوسف كو بھيجنے پر تيار نہيں ہوں تو اس كى دو وجوہ ہيں :''پہلى يہ كہ يوسف كى جدا ئي مير ے لئے غم انگيز ہے ''_(۱) اور دوسرى يہ كہ ہو سكتا ہے كہ ان كے ارد گرد كے بيابانوں ميں خو نخوار بھيڑئے ہوں ''اور مجھے ڈر ہے كہ مبادا كوئي بھيڑيا ميرے فرزند دلبند كو كھا جائے اور تم اپنے كھيل كود ،سير و تفريح اور دوسرے كامو ں ميں مشغول رہو'' _(۲)

يہ بالكل فطرى امر تھا كہ اس سفر ميں بھائي اپنے آپ ميں مشغول ہوں اور اپنے چھو ٹے بھا ئي سے غافل ہوں اور بھيڑ يوں سے بھرے اس بيابان ميں كوئي بھيڑيا يوسف كو اٹھائے البتہ بھائيوں كے پا س باپ كى پہلى دليل كا كوئي جواب نہ تھا كيو نكہ يو سف كى جدا ئي كا غم ايسى چيز نہ تھى كہ جس كى وہ تلافى كر سكتے بلكہ شايد اس بات نے بھا ئيوں كے دل ميں حسد كى آگ كو اور بھڑكا ديا ہو _

دوسرى طرف بيٹے كو باہر لے جانے كے بارے ميں باپ كى دليل كا جواب تھا كہ جس كے ذكر كى چندا ں ضرورت نہ تھى اور وہ يہ كہ آخر كار بيٹے كو نشوو نما اور تر بيت كے لئے چاہتے يا نہ چاہتے ہوئے باپ سے جدا ہو نا ہے اور اگر وہ ''نورستہ ''كے پودے كى طرح ہميشہ باپ كے زير سايہ رہے تو نشوو نما نہيں پاسكے گا اور بيٹے كے تكا مل وار تقا ء كے لئے باپ مجبور ہے كہ يہ جدا ئي بردا شت كرے آج كھيل كو د ہے كل تحصيل علم و دانش ہے پر سوں زندگى كے لئے كسب وكار اور سعى وكو شش ہے اخر كا ر جدا ئي ضرورى ہے _

لہذا اصلاً انہوں نے اس كا جواب نہيں ديا بلكہ دوسرى دليل كا جواب شروع كيا كہ جو ان كى نگاہ ميں اہم اور بنيا دى تھى اور كہنے لگے : ''كيسے ممكن ہے كہ ہمارے بھائي كو بھيڑ يا كھاجائے حالانكہ ہم طا قتور لوگ ہيں اگر ايسا ہو جائے تو ہم زياں كا روبد بخت ہوں گے ''(۳)

____________________

(۱)سورہ يوسف آيت ۱۳

(۲)سورہ يوسف آيت ۱۳

(۳)سورہ يوسف آيت ۱۴

۱۷۸

يعنى كيا ہم مردہ ہيں كہ بيٹھ جائيں اور ديكھتے رہيں گے اور بھيڑ يا ہمارے بھائي كو كھا جائےگا ،بھا ئي كو بھائي سے جو تعلق ہو تا ہے اس كے علاوہ جو بات اس كى حفاظت پر ہميں ابھارتى ہے يہ ہے كہ ہمارى لوگوں ميں عزت وآبرو ہے ،لوگ ہمارے متعلق كيا كہيں گے ،يہى نا كہ طاقتور مو ٹى گر دنوں والے بيٹھے رہے اور اپنے بھائي پر بھيڑئے كو حملہ كرتے ديكھتے رہے كيا پھر ہم لوگوں ميں جينے كے قابل رہيں گے _(۱)

انہوں نے ضمناً باپ كى اس بات كا بھى جواب ديا كہ ہو سكتا ہے تم كھيل كود ميں لگ جائو اور يوسف سے غافل ہو جائواور وہ يہ كہ يہ مسئلہ گو يا سارى دولت اور عزت وآبرو كے ضا ئع ہو نے كا ہے ايسا مسئلہ نہيں ہے كہ كھيل كود ہميں غافل كردے كيو نكہ اس صورت ميں ہم لوگ بے وقعت ہوجائيں گے اور ہمارى كوئي قدر وقيمت نہيں ہو گى _

بہر حال انہوں نے بہت حيلے كئے خصو صا ًحضر ت يو سف كے معصوم جذ بات كو تحريك كيااور انہيں شوق دلا يا كہ وہ شہر سے باہر تفر يح كے لئے جائيں اور شايد يہ ان كے لئے پہلا مو قع تھا كہ وہ باپ كو اس كے لئے راضى كريں اور بہر صورت اس كام كے لئے ان كى رضا مندى حاصل كريں _

يہ احتمال بھى ذكر كيا گيا ہے كہ حضرت يعقوب (ع) نے كنائے كى زبان ميں بات كى تھى اور ان كى نظر بھيڑيا صفت انسانوں كى طرف تھى ،جيسے يوسف كے بعض بھائي تھے

____________________

(۱)يہاں يہ سوال سامنے اتا ہے كہ تمام خطرات ميں سے حضرت يعقو ب (ع) نے صرف بھيڑئے كے حملے كے خطرے كى نشاندہى كيوں كى تھى _

بعض كہتے ہيں كہ كنعان كا بيابان بھيڑيوں كا مركز تھا ،اس لئے زيادہ خطرہ اسى طرف سے محسوس ہوتا تھا _

بعض ديگر كہتے ہيں كہ يہ ايك خواب كى وجہ سے تھا كہ جو حضرت يعقوب عليہ السلام نے پہلے ديكھاتھا كہ بھيڑيوں نے ان كے بيٹے يوسف پر حملہ كر ديا ہے _

۱۷۹

روتے ہوئے جناب يوسف(ع) كو وداع كيا

آخركا ربھائي كامياب ہوگئے_انہوں نے باپ كو راضى كرليا كہ وہ يوسف(ع) كو ان كے ساتھ بھيج دے_ وہ رات انہوں نے اس خوش خيالى كے ساتھ گزارى كہ كل يوسف(ع) كے بارے ميں ان كا منصوبہ عملى شكل اختيار كرے گا اور راستے كى ركاوٹ اس بھائي كو ہميشہ كے لئے راستے سے ہٹاديں گے_پريشانى انہيں صرف يہ تھى كہ باپ پشيمان نہ ہور اور اپنى بات واپس نہ لے لے_

صبح سويرے وہ باپ كے پاس گئے اور يوسف(ع) كى حفاظت كے بارے ميں باپ نے ہدايات دہرائيں _ انہوں نے بھى اظہار اطاعت كيا_ باپ كے سامنے اسے بڑى محبت و احترام سے اٹھايا اور چل پڑے_

كہتے ہيں شہر كے دروازے تك باپ ان كے ساتھ آئے اور آخرى دفعہ يوسف(ع) كو ان سے لے كر اپنے سينے سے لگايا_ آنسو ان كى آنكھوں سے برس رہے تھے_ پھر يوسف(ع) كو ان كے سپرد كركے ان سے جدا ہوگئے ليكن حضرت يعقوب(ع) كى آنكھيں اسى طرح بيٹوں كے پيچھے تھيں _ جہاں تك باپ كى آنكھيں كام كرتى تھيں وہ بھى يوسف(ع) پر نوازش اور محبت كرتے رہے ليكن جب انہيں اطمينان ہوگيا كہ اب باپ انہيں نہيں ديكھ سكتا تو اچانك انہوں نے آنكھيں پھير ليں _ سالہاسال سے حسد كى وجہ سے جو ان كے اندرتہ بہ تہ بغض و كينہ موجود تھا وہ حضرت يوسف(ع) پر نكلنے لگا_ ہر طرف سے اسے مارنے لگے وہ ايك سے بچ كر دوسرے كى پناہ ليتے ليكن كوئي انہيں پناہ نہ ديتا_

يوسف كى ہنسى اور ان كا رونا

ايك روايت ميں ہے كہ اس طوفان بلاء ميں حضرت يوسف آنسوبہار ہے تھے اور جب وہ انہيں كنويں ميں پھينكنے لگے تواچانك حضرت يوسف ہنسنے لگے ،بھا ئيوں كو بہت تعجب ہوا يہ ہنسنے كا كو نسا مقام ہے گو يا يوسف نے اس مسئلے كو مذاق سمجھا ہے اور بات سے بے خبر ہے كہ سياہ وقت اور بدبختى اس كے انتظار ميں ہے

۱۸۰

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

سیف نے اسود بن عبس سے اسود بن ربیعہ کا نام اقتباس کرنے میں اس کی داستان میں وہی کام انجام دیا ہے جو اس نے زربن عبد اللہ و غیرہ کے سلسلے میں کیا ہے ۔

سیف اپنے کام کو مستحکم کرنے کے لئے اسود بن ربیعہ حنظلی کی روایت کے ایک حصہ کو حنظلی نام کے ایک راوی سے نقل کرتا ہے تاکہ روایت کو صحیح ثابت کر سکے ۔ کیوں کہ حنظلی نام کا یہ راوی اپنے قبیلہ کی روایتوں کے بارے میں دوسروں سے آگاہ تر ہے ۔ معروف ضرب المثل '' رب البیت ادریٰ بما فی البیت '' ( گھر کا مالک بہتر جانتا ہے کہ گھر میں کیا ہے ) اس پر صادق آتی ہے ۔ جب کہ یہ دونوں خواہ صحابی حنظلی یا راوی حنظلی سیف بن عمر تمیمی جس پر جھوٹ اور زندیقی ہونے کا الزام ہے کی تخلیق ہیں ۔

حدیث کے اسناد کی تحقیق

زر اور اسود اور ان کی نمائندگی ، زر کے ذریعہ نہاوند کا محاصرہ اور جندی شاپور کے بارے میں سیف کی احادیث کے اسناد میں حسب ذیل نام نظر آتے ہیں :

محمد ، مہلب ، ابو سفیان عبد الرحمن ۔ ان کے بارے میں پہلے ہی معلوم ہوا ہے کہ یہ سیف کے خیالات کی تخلیق ہیں ۔

'' ابلہ '' کی روایت کے بارے میں سیف کی سند حنظلہ بن زیاد بن حنظلہ ہے سیف نے اسے اپنے جعلی صحابی زیاد کا بیٹا تصور کیا ہے ؟

'' اسود بن ربیعہ '' اور اس کی داستان اور تمیم کے نمائندوں کے بارے میں روایت کی سند کے طور پر '' ورقاء بن عبد الرحمن حنظلی'' کا نام لیا ہے چوں کہ ہم نے اس نام کو سیف کی رو ایتوں کے علاوہ کہیں اور نہیں پایا اس لئے اس کو بھی سیف کے خیالی راویوں میں شمار کرتے ہیں ۔

اس کے علاوہ اس کے بعض روایت کے اسناد میں مجہول اشخاص کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ ایسے افراد کے بارے میں معلومات حاصل کرنا مشکل ہی نہیں بلکہ نا ممکن ہے ۔

کتاب '' التجرید'' میں ذہبی کی یہ بات قابل غور ہے ، جہاں پر وہ لکھتا ہے :

اسود بن حنظلی کانام ایک ایسی روایت میں آیا ہے جو مردود اور ناقابل قبول ہے ! اس ناقابل قبول روایت سے اس کا مقصود وہ روایت ہے جسے سیف بن عمر نے اسود کے بارے میں نقل کیا ہے جس کی تفصیل گزری ۔

۲۶۱

چھٹا حصہ

خاندان تمیم سے رسول خد اصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے منہ بولے بیٹے

* ٢١ ۔حارث بن ابی ہالہ تمیمی

* ٢٢۔زبیر بن ابی ہالہ تمیمی

* ٢٣۔طاہر بن ابی ہالہ تمیمی

۲۶۲

اکیسواں جعلی صحابی حارث بن ابی ہالہ تمیمی

حارث خدیجہ کا بیٹا

سیف کے سخت ، پیچیدہ اور دشوار کاموں میں سے ایک یہ ہے کہ وہ قارئین کو گمراہ کرنے کے لئے اپنی خیالی شخصیتوں کو تاریخ کی حقیقی شخصیتوں کے طور پر ایسے پیش کرتا ہے کہ ایک محقق کے لئے ، وہ بھی صدیاں گزر نے کے بعد حق کو باطل سے جدا کرنا مشکل ہی نہیں بلکہ بعض اوقات ناممکن

بن جاتا ہے ۔

شائد حارث ، زبیر اور طاہر جیسے سیف کے مہم جو جعلی اصحاب ، جنھیں اس نے ام المومنین حضرت خدیجہ کے پہلے شوہر ابو ہالہ تمیمی کی اولاد کے طور پر پیش کیا ہے ، اس کے اس قسم کی مخلوق ہیں ۔

حضرت خدیجہ پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے ازدواج کرنے سے پہلے ابوہالہ تمیمی کے عقد میں تھیں ۔ ابو ہالہ کون تھا ؟ یہ ایک اختلافی مسئلہ ہے ۔ بعضوں نے اسے ہند کچھ لوگوں نے زرارہ اور ایک گروہ نے اسے نباش نام دیا ہے ۔ بہر حال جو چیز واضح ہے ، وہ یہ ہے کہ اس کی کنیت اس کے نام کی نسبت معروف تر ہے اس لئے وہ اسی کنیت سے مشہور ہے ۔

حضرت خدیجہ سے ابو ہالہ کی اولاد کی تعداد کے بارے میں طبری نے لکھا ہے :

ابو ہالہ نے خویلد کی بیٹی سے ازدواج کیا ۔ خدیجہ نے پہلے ہند کو جنم دیا پھر ہالہ کو۔ البتہ ہالہ کا بچپن میں ہیانتقال ہو گیا...(یہاں تک کہ لکھتاہے )

۲۶۳

خدیجہ ابو ہالہ کے بعد رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے عقد میں آگئیں ، اس وقت ہند نامی ابوہالہ کا بیٹا ان کے ہمراہ تھا ۔

ہند نے اسلام کا زمانہ درک کیا ہے اور اسلام لایا ہے ، امام حسن ابن علی علیہ السلام نے اس سے روایت نقل کی ہے ۔ ١

ہیثمی نے بھی اپنی کتاب مجمع الزوائد ٥١٠ میں اسی سلسلے میں طبرانی سے نقل کرکے لکھا ہے :

ام المومنین خدیجہ رسول خد اصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے پہلے ابو ہالہ کی بیوی تھیں ۔ انھوں نے پہلے ہند کو اور پھر ہالہ کو جنم دیا ہے ۔ ابو ہالہ کی وفات کے بعد رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان سے ازدواج کیا ۔

ابن ماکولا نے زبیر بن بکار سے نقل کرکے لکھا ہے :

خدیجہ نے پہلے ہند اس کے بعد ہالہ کو جنم دیا ہے ۔

ابو ہالہ کے نواسہ ، یعنی ہند بن ہند نے جنگ جمل میں حضرت علی علیہ السلام کی نصرت کرتے ہوئے شرکت کی اور شہید ہوا ہے ۔

سیف کی نظر میں اسلام کا پہلا شہید

ابن کلبی سے روایت ہوئی ہے کہ ابو ہالہ کا نواسہ ہند بن ہند عبد اللہ بن زبیر کی معیت میں قتل ہوا اور اس کی کوئی اولاد باقی نہیں بچی ہے ۔ ٢

تمام مؤرخین ،جیسے ابن ہشام ، ابن درید ،ابن حبیب ،طبری ،بلاذری ابن سعد ،ابن ماکولا وغیرہ نے نقل کیا ہے کہ جس وقت حضرت خدیجہ نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے ازدواج کیا تو ،اپنے پہلے شوہر ابو ہالہ سے صرف ایک بیٹا ہند کو ہمراہ لے کر رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے گھر ہیں داخل ہوئیں ۔ حقیقت میں ہند کے علاوہ ابو ہالہ سے اس کی کوئی اور اولاد نہیں تھی ۔ ٣

ان حالات کے پیش نظر انتہائی حیرت اور تعجب کا مقام ہے کہ ابن حزم نے اپنی کتاب ''جمہرہ نساب عرب '' میں لکھا ہے :

خدیجہ نے اپنے پہلے شوہر ابو ہالہ سے ہند نامی ایک بیٹا کو جنم دیا اور اس کے بعد حارث نام کے ایک اور بیٹے کو جنم دیا ۔ کہا گیا ہے کہ وہ اسلام کا پہلا شہید تھا جو خانہ خدا میں رکن یمانی کے پاس شہید کیا گیا ہے۔

۲۶۴

حیرت کی بات ہے ! یہ کیسے ممکن ہے ایک ایسا اہم حادثہ رونما ہو جائے یعنی رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا پرورش یافتہ شخص اس عظمت و شان کے ساتھ خدا کے گھر میں رکن یمانی کے پاس قتل ہو کر اسلام کے پہلے شہید کا درجہ حاصل کرے اور تاریخ اس کے ساتھ اتنی بے انصافی اور ظلم کرے کہ وہ فراموشی اور بے اعتنائی کا شکار ہو جائے ؟!!

ہم نے اس سلسلے میں انتہائی تلاش و جستجو کی تاکہ یہ دیکھیں کہ انساب عرب کو پہچاننے والے اس ماہر شخص ابن حزم نے اس روایت کو کہاں سے نقل کیا ہے !!

اس حقیقت و تلاش کے دوران ہم نے اس مسئلہ کے جواب کو ابن حجر کے ہاں پا یا وہ اپنی کتاب '' الاصابہ '' میں حارث بن ابی ہالہ کی تشریح میں لکھتا ہے :

حارث بن ابی ہالہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا پرورش یافتہ اور ہند کا بھائی ہے ابن کلبی اور ابن حزم نے اس کے بارے میں لکھا ہے کہ وہ اسلام کا پہلا شہید ہے جو رکن یمانی کے پاس قتل ہوا ہے ۔

عسکری بھی کتاب '' اوائل '' میں لکھتا ہے :

جب خدا ئے تعالیٰ نے اپنے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو حکم دیا کہ جو کچھ انھیں امر ہوا ہے اسے اعلان فرمائیں تو پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مسجد الحرام میں کھڑے ہو گئے اور اپنی رسالت کا فریضہ انجام دیتے ہوئے بلند آواز میں لولے '' قولو ا لاالہ الا اللّٰہ تفلحوا'' '' یعنی خدا کی وحدانیت کی گواہی دو تاکہ کامیاب ہو جائو ! '' قریش کے کفار نے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر حملہ کیا ۔ شور و غل کی آواز آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے گھر تک پہنچی ْ حارث بن ابی ہالہ آپ کی مدد کے لئے دوڑکر آیا اور اس نے کفار پر حملہ کیا ۔ قریش نے پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کوچھوڑ کر حارث پر حملہ کیا اور اسے رکن یمانی کے پاس موت کے گھاٹ اتار دیا ۔حارث اسلام کا پہلا شہید ہے ۔ اس کے علاوہ سیف کی کتاب '' فتوح '' میں سہل بن یوسف نے اپنے باپ سے اس نے عثمان بن مظعون سے روایت کی ہے : سب سے پہلا حکم جو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ہمیں دیا ، اس وقت تھا جب ہماری تعداد چالیس افراد پر مشتمل تھی ۔ ہم سب رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے دین پر تھے ۔ مکہ میں ہمارے علاوہ کوئی ایسا نہیں تھا جو اس دین کا پابند ہو ۔ یہ وہ وقت تھا ،جب حارث بن ابی ہالہ شہید ہوا ۔ خدائے تعالیٰ نے اپنے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو حکم دیا کہ جو کچھ انھیں فرمان ہوا ہے (آخر تک ) ابن حجر کی بات کا خاتمہ ۔

۲۶۵

لہٰذا معلوم ہو ا کہ حارث بن ابی ہالہ کی داستان کا سر چشمہ سیف بن عمر تمیمی ہے ۔ ابن کلبی ، عسکری ،ابن حزم اور ابن حجر سبوں نے اس روایت کو اس سے نقل کیا ہے ۔ ان کے مقابلے میں '' استیعاب '' ، '' اسد الغابہ '' اور '' طبقات '' جیسی کتابوں کے مؤلفوں نے سیف کی باتوں پر اعتماد نہ کرتے ہوئے اس کی جعلی داستان کو اپنی کتابوں میں نقل نہیں کیا ہے۔

دوسرا قابل غور نکتہ یہ ہے کہ ابن حزم حارث کی شہادت کی داستان کو '' کہا گیا ہے '' کے جملہ سے آغاز کرتا ہے تاکہ اس روایت کے ضعیف ہونے کے بارے میں اشارہ کرے ۔ صاف ظاہر ہے کہ وہ خود حارث کی داستان کے صحیح ہونے کے سلسلے میں شک و شبہ میں تھا ۔

اس لحاظ سے ''حارث ابو ہالہ ''سیف اور ان لوگوں کے لئے اسلام کا پہلا شہید ہے جنھوں نے سیف کی بات پر اعتماد کرکے اس داستان کی اشاعت کی کوشش کی ہے ۔جب کہ عام تاریخ نویس اس بات پر متفق ہیں کہ اسلام کی پہلی شہید ''سمیہ ''عمار یاسر کی والدہ تھیں ۔

انھوں نے لکھا ہے کہ ''یاسر ''ان کا بیٹا ''عمار ''اور یاسر کی بیوی ''سمیہ ''وہ افراد تھے جنھیں راہ اسلام میں مختلف قسم کی جسمانی اذیتو ں کا سامنا کرنا پڑا ۔یہ ان پہلے سات افراد میں سے ہیں جنھوں نے مکہ میں اپنے دین کا کھل کر اظہار کیا ۔اور کفار قریش نے اس جرم میں ان کو لوہے کی زرہ پہنا کر تپتی دھوپ میں رکھا اور انھیں شدید جسمانی اذیتیں پہنچائیں ۔

ایسی ہی وحشتناک اذیت گاہوں میں سے ایک میں ''ابو جہل ''آگ بگولا حالت میں سمیہ کو برا بھلا کہتے ہوئے داخل ہوا اور آگے بڑھتے ہوئے اس نے نیزہ سمیہ کے قلب پر مار کر انھیں شہید کیا۔ اس لحاظ سے سمیہ راہ اسلام کی پہلی شہید ہیں نہ اور کوئی ۔

اس کے علاوہ لکھا ہے کہ اسی حالت میں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم وہا ں تشریف لائے اور فرمایا : اے خا ندان یا سر !صبر کرو ،بہشت تمھارے انتظارمیں ہے ۔

۲۶۶

ایک دوسری حدیث میں آیا ہے کہ عمار یاسر نے ان تمام درد و الم اور اذیتوں کی شکایت رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں بیان کرتے ہوئے عرض کی :

ہم پر کفار کی اذیت و آزار حد سے گزر گئی !

آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا :

صبر و شکیبایی سے کام لو !اس کے بعد ان کے حق میں دعا کرتے ہوئے فرمایا :

خداوندا !یاسر کے اہل خانہ میں سے کسی ایک کو عذاب نہ کرنا !

حدیث کا موازنہ اور قدر و قیمت

سیف نے لکھا ہے کہ راہ اسلام کے پہلے شہید ''حارث بن ابی ہالہ ''اور ''خدیجہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم قرشی مضری ''تھے ۔ ابن کلبی اور ابن حزم نے بھی اس روایت کو سیف سے نقل کرکے اپنی کتاب''جمہرہ '' میں درج کیا ہے ۔

ابن حجر نے بھی انہی مطالب کو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے حالات کی تشریح کے ضمن میں اپنی کتاب ''الاصابہ''میں درج کیا ہے ۔عسکری نے بھی اپنی کتا ب''اوائل ''میں حارث کو اسلام کے پہلے شہید کے طور پر پیش کیا ہے ۔جب کہ حقیقت میں اسلام کی پہلی شہید سمیہ تھیں اور ان کے بعد ان کے شوہر یاسر تھے ،اور اس مطلب کو ان دو شخصیتوں کی سوانح لکھنے والے سبھی علماء ،و محققین نے بیان کیا ہے ۔

سیف شدید طور پر خاندانی تعصب کا شکار تھا ،خاص کر قحطانیوں اور یمانیوں کے بارے میں اس کے اس تعصب کے آثار کا ہم نے مختلف مواقع پر مشاہدہ کیا ۔وہ اس تعصب کے پیش نظر ایک یمانی قحطانی شخص کو راہ اسلام میں پہلے شہید کا فخر حاصل کرنے کی حقیقت کو دیکھ کر آرام سے نہیں بیٹھ سکتا تھا !کیونکہ وہ تمام امور میں پہلا مقام حاصل کرنے کے فخر کا مستحق صرف اپنے قبیلہ تمیم ،خاص کر خاندان بنی عمرو کو جانتا ہے ۔غور فرمائیں کہ وہ خاندان تمیم کے بنی عمرو میں پہلا مقام حاصل کرنے کے سلسلے میں کیسے تشریح کرتا ہے :

۲۶۷

اس کا افسانوی سورما قعقاع پہلا شخص تھا جو دمشق کے قلعہ کی سر بفلک دیوار پر چڑھ کر قلعہ کے محافظوں کو اپنی تلوار سے موت کی گھاٹ اتار کر قلعہ کے د ر و ا ز و ں کو ا سلا می فو ج کے لئے کھول دیتا ہے !

کیا یہی اس کا افسانوی قعقاع کچھار کا پہلا شیر نہیں تھا جس نے یرموک کی جنگ میں سب سے پہلے جنگ کے شعلے بھڑکادئے ،قادسیہ کی جنگ میں لیلة الھریر کو وجود میں لایا ،پہلے پہلوان کی حیثیت سے دشمن کے جنگی ہاتھیوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا ؟وہ پہلا پہلوان تھا جس نے جلولا کی جنگ میں سب سے پہلے دشمن کے مورچوں پر قدم رکھا ،پہلا دلیر اور پہلا سورما اور

سیف اپنے افسانوی عاصم کے ''اہوال ''نامی فوجی دستہ کو پہلا فوجی دستہ بتا تا ہے کہ جس نے سب سے پہلے شہر مدائن میں قدم رکھا ہے !

کیا اسی سیف نے ''زیاد بن حنظلہ تمیمی''کو پہلے شہسوار کے طور پر خلق نہیں کیا ہے جس نے سب سے پہلے سرزمین ''رہا''پر قدم رکھا ۔حرملہ اور سلمی اس کے پہلے پہلوان ہیں جنھوں نے سب سے پہلے سرزمین ایران پر قدم رکھے ؟!

جب ہم سیف کے جھوٹ اور افسانوں میں قبیلہ تمیم کے لئے بے شمار فضیلتیں اور پہلا مقام حاصل کرنے کے موارد کا مشاہدہ کرتے ہیں تو کیا وجہ ہے کہ اسلام کے سب سے پہلے شہید کا افتخار بھی اسی خاندان کو نصیب نہ ہو ؟اور ''سمیہ''نام کی ایک کنیز اور اس کا قحطانی شوہر ''یاسر ''اس افتخار کے مالک بن جائیں اور اسلام کے پہلے شہید کی حیثیت سے پہچانے جائیں ؟!

سیف ،قحطانیوں کی ایسی فضیلت کو دیکھ کر ہرگز بے خیال نہیں بیٹھ سکتا ،لہٰذا ایک افسانہ گڑھتا ہے حضرت خدیجہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے لئے ابو ہالہ سے ایک بیٹا خلق کرکے اسے اسلام کے پہلے شہید کا افتخار بخش کر رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے گھر میں ذخیرہ کرتا ہے ۔

ہم راہ اسلام میں سیف کے اس پہلے شہید میں اس کے دوسرے افسانوی پہلوانوں کی شجاعتوں اور جاں نثار یوں کا واضح طور پر مشاہدہ کرتے ہیں ۔وہ کہتا ہے :

۲۶۸

قریش نے پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو قتل کرنے کی غرض سے حملہ کیا ،شور وغل کی آواز پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اہل خانہ تک پہنچی (رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے حامی اور حقیقی پشت و پناہ ابو طالب ،حمزہ ، جعفر اور بنی ہاشم کے دیگر سرداروں اور جوانوں کے بجائے )حارث تمیمی پہلا شخص تھا جو پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی مدد کرنے کے لئے اٹھا اور دوڑتے ہوئے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس پہنچا اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حفاظت اور دفاع میں آپ کے دشمنوں کے سامنے سینہ سپر ہوتے ہوئے کفار قریش پر حملہ کیا ،کفار نے پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو چھوڑ دیا اور حارث پر ٹوٹ پڑے اور سر انجام

اس طرح رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے لئے اپنے خاندان تمیم سے یاور و مدد گار جعل کرکے اسلام کے پہلے شہید کو خاندان تمیم سے خلق کرتا ہے اور اسے پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے تربیت یافتہ کے طور پر پہچنواتا ہے تا کہ خاندان تمیم میں ہر ممکن حد تک افتخارات کا اضافہ کرسکے ۔

حارث کے افسانے کا نتیجہ

سیف نے پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پالے ہوئے ایک صحابی کو خلق کیا ہے تا کہ مؤرخین پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے دوسرے حقیقی اصحاب کے ضمن میں اس کی زندگی کے حالات پر روشنی ڈالیں اور اس کے نام ونسب کو انساب کی کتابوں میں تفصیل سے لکھیں ۔

سیف نے اپنے تخیل کی مخلوق ،''حارث تمیمی''کو پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے چچا ،چچا زاد بھائی اور بنی ہاشم کی جوانوں کی موجودگی کے باوجود ،پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پہلے جاں نثار کے طور پر پیش کرکے خاندان تمیم ،خاص کر قبیلہ اسید کے افتخارات میں ایک اور فخر کا اضا فہ کیا ہے ۔

۲۶۹

حارث کے افسانہ کی تحقیق

سیف اسلام کے پہلے شہید کو خاندان تمیم سے خلق کرتا ہے تا کہ اسلام کی سب سے پہلی حقیقی شہید سمیہ قحطانی کی جگہ پر بٹھادے اور اس طرح اپنے خاندان تمیم کے افتخارات میں ایک اور افتخا ر کا اضافہ کرے۔

سیف نے حارث کی داستان کو سہل بن یوسف سلمی سے ،اس نے اپنے باپ سے نقل کیاہے ۔چونکہ ہم نے ان دو ر اویوں ۔ باپ بیٹے ۔ کانام سیف کے علاوہ کہیں اور نہیں پایا ،اس لئے ان کو سیف کے تخیل کی مخلوق سمجھتے ہیں ۔

حارث ابو ہالہ تمیمی کی داستان سیف سے نقل کرکے عسکری کی ''اوائل ''،ابن کلبی کی ''انساب ''،ابن حزم کی ''جمہرہ''اور ابن حجر کی کتا ب ''الاصا بہ ''میں درج کی گئی ہے اور ابن حجر نے اس داستان کو سیف سے نقل کرکے اس کی وضاحت کی ہے ۔

سیف کے جعلی صحابی حارث ابو ہالہ کا افسانہ اتنا ہی تھا جو ہم نے بیان کیا ۔لیکن سیف نے صرف اسی ایک افسانہ کو خلق کرنے پر اکتفا نہیں کی ہے بلکہ اسی ماں باپ سے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ایک اور پالے ہوئے کی تخلیق کرکے اس کانام ''زبیر بن ابی ہالہ ''رکھا ہے کہ انشاء اللہ اس کی داستا ن پر بھی نظر ڈالیں گے ۔

۲۷۰

بائیسواں جعلی صحابی زبیر بن ابی ہالہ

حضرت خدیجہ کادوسرابیٹا

دانشوروں نے اس زبیر کانام دوحدیثوں میں ذکرکیاہے۔ہم یہاں پران دوحدیثوں کے بارے میں بحث وتحقیق کریں گے۔

پہلی حدیث

نجیرمی(۱) (وفات ٤٥٠ھ)نے اپنی کتاب ''فوائد'' میں ابو حاتم(۲) (وفات ٢٧٧)سے نقل کرکے اس طرح لکھاہے:

سیف بن عمر سے اس نے وائل بن داودسے اس نے بہی بن یزید سے اوراس نے زبیر بن ابی ہالہ سے روایت کی ہے ،کہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا :

____________________

( ۱)۔ابو عثمان سعد بن احمد نیشابوری معروف بہ نجیرمی نے علم و دانش حاصل کرنے کے لئے بغداد ،گرگان اور دیگر شہروں کا سفر کیا ہے یہ نام اسی طرح لباب اللباب (٢١٦٣)میں ذکر ہوا ہے اور بصرہ میں واقع محلہ ''نجارم ''و ''نجیرم''کی ایک نسبت ہے ۔

(۲)۔محمد بن ادریس بن منذر حنظلی معروف بہ ابو حاتم رازی (١٩٥۔٢٧٧) ہے ۔اس کے حالات تذکرہ الحفاظ (٩٢و٥٦٧ )میں آئے ہیں ۔

۲۷۱

خداوندا !تو نے مجھے برکت والے اصحاب عطا فرمائے ۔لہٰذا اب میرے اصحاب کو ابو بکر کے وجود سے برکت فرما !اور ان سے اپنی برکت نہ چھین لینا ! انھیں ابوبکر کے گرد جمع کرنا !کیونکہ ابوبکر تیرے حکم کو اپنے ارادہ پر

ترجیح دیتا ہے ۔

خداوندا !عمربن خطاب کو سرداری عطا فرما !عثمان کو صبر وشکیبایی عطا فرما !اور علی بن ابیطالب علیہ السلام کو توفیق عطا فرما !زبیر کو ثابت قدمی عطا فرما !اور طلحہ کو مغفرت عطا فرما!سعد کو سلامتی عطا فرما !،اور عبد الرحمان کو کامیابی عطا فرما !

خداوندا !نیک و پیش قدم مہاجر و انصار اور میرے اصحاب کے تابعین کو مجھ سے ملحق فرما !تا کہ میرے لئے اور میری امت کے اسلاف کے لئے دعائے خیر کریں ۔ ہوشیار رہو کہ میں اور میری امت کے نیک افراد تکلف

سے بیزار ہیں ۔

نجیرمی کہتا ہے کہ ابو حاتم رازی نے کہا ہے :زبیر بن ابی ہالہ ،پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی زوجہ حضرت خدیجہ کا بیٹا تھا ۔

جیسا کہ ہم دیکھتے ہیں کہ اس حدیث کا آخری راوی زبیر ابو ہالہ ہے اور ابو حاتم رازی تاکید کرتاہے کہ یہ زبیر رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی زوجہ حضرت خدیجہ کا بیٹا ہے ۔

یہیں سے زبیر بن ابی ہالہ کا نام اسلامی مآخذ و مدارک میں پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے صحابی اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پالے ہوئے کے عنوان سے درج ہوا ہے ۔جب کہ یہی حدیث ابن جوزی کی کتا ب موضوعات(۱) میں یوں بیان ہوئی ہے :

____________________

الف )۔موضوعات یعنی جھوٹی اور جعلی احادیث ۔ابن جوزی کی کتاب موضوعات اسی سلسلے میں تالیف کی گئی ہے ۔

سیف نے اپنی کتاب ''فتوح ''میں وائل بن دائود سے اس نے بہی سے اور اس نے زبیر سے نقل کرکے لکھا ہے کہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا (حدیث کی آخر تک)

۲۷۲

ابن حجر نے مذکورہ حدیث کے آخر پر حسب ذیل اضافہ کیاہے :

اکثر نسخوں میں اس زبیر کو ''زبیر بن العوام ''لکھا گیا ہے ،خدا بہتر جانتا ہے !

گزشتہ مطالب کے پیش نظر اس حدیث کو ''ابو حاتم رازی ''نے سیف بن عمر سے نقل کیا ہے اور یہیں سے ''زبیر ابو ہالہ ''کانام حضرت خدیجہ کے بیٹے اور رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پروردہ کی حیثیت سے شہرت پاتا ہے ۔

لیکن ابن جوزی نے اسی حدیث کو سیف بن عمر سے اسی متن اور مآخذ کے ساتھ زبیر کے باپ کا نام لئے بغیر اپنی کتا ب ''موضوعات ''میں درج کیا ہے اور ابن حجر نے بھی مذکورہ حدیث کو زبیر کے باپ کانام لئے بغیر اس کے حالات کی وضا حت کرتے ہوئے ذکر کیا ہے اور آخرمیں اضافہ کرتا ہے کہ بہت سے نسخوں میں آیا ہے کہ یہ '' زبیر ' ' '' زبیر العوام '' ہے۔

اس اختلاف کے سلسلے میں ہماری نظر میں یہ احتمال قوی ہے کہ سیف بن عمر نے مذکورہ حدیث ایک بار زبیر بن ابی ہالہ کے نام سے روایت کی ہے ۔ اور مصنفین کی ایک جماعت نے اسی صورت میں اس حدیث کو سیف سے نقل کیا ہے ۔

سیف نے اسی حدیث کو دوسری جگہ پر زبیر کے باپ کا نام لئے بغیر ذکر کیا ہے ۔ مصنفین کے ایک گروہ نے بھی اس روایت کو اسی صورت میں نقل کیا ہے ۔ اس متأ خر گروہ نے اس زبیر کو زبیر بن العوام تصور کیا ہے ۔ یہی امر دانشوروں کے لئے حقیقت کے پوشیدہ رہنے کا سبب بنا ہے ۔

بہر حال ،جو بھی ہو، اہم یہ ہے کہ سیف کی حدیث میں حضرت خدیجہ کے بیٹے '' زبیر بن ابی ہالہ '' کا نام آیا ہے اور حدیث و تاریخ کی کتابوں میں اسے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے صحابی اور پروردہ کی حیثیت سے درج کیا گیا ہے۔

''زبیر ابو ہالہ '' کے بارے میں روایت کی گئی پہلی حدیث کی حالت یہ تھی ۔

لیکن دوسری حدیث کے بارے میں بحث شروع کرنے سے پہلے اس پہلی حدیث کے متن پر ایک سرسری نظرڈالنا دلچسپی سے خالی نہیں ہے ۔

۲۷۳

مذکورہ حدیث کی ترکیب بندی میں سیف کی مہارت ، چالاکی اور چابک دستی دلچسپ اور قابل غور ہے ، ملاحظہ ہو:

١۔ سیف اس حدیث میں شخصیات کا نام اسی ترتیب سے لیتا ہے جیسے کہ وہ مسند حکومت پر بیٹھے تھے : (ابوبکر ،عمر ، عثمان اور حضرت علی علیہ السلام )۔

٢۔ پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان میں سے ہر ایک کے حق میں جو دعا فرمائی ہے ، وہ ہرشخص کی حالت کے مطابق ہے ملاحظہ ہو :

ا)۔ ابو بکر کے لئے خدا سے چاہتے ہیں کہ لوگوں کو اس کے گرد جمع کرے اور یہ سقیفہ بنی ساعدہ میں مہاجرین و انصار کے درمیان زبر دست اختلاف کے بعد ابو بکر کی بیعت کے سلسلے میں متناسب ہے ۔

ب)۔ پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم عمر کے لئے خدا سے چاہتے ہیں کہ انھیں صاحب شہرت بنائے اور ان کی شان و شوکت میں افزائیش فرمائے ۔ یہ وہی چیز ہے جو سر زمین عربستان سے باہر اسلام کے سپاہیوں کی فتوحات کے نتیجہ میں دوسرے خلیفہ کو حاصل ہوئی ہے ۔

ج)۔ سیف کہتا ہے کہ رسول خد اصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے عثمان کے لئے دعا کرتے ہوئے رو نما ہونے والے واقعات اور فتنوں کے سلسلے میں ان کے لئے خدا ئے تعالیٰ سے صبر و شکیبائی کی درخواست کی ہے ۔

د)۔ پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدائے تعالیٰ سے قطعا ًچاہتے ہیں کہ امام علی علیہ السلام وقت کے تاریخی حوادث اور فتنوں کے مقابلے میں کامیاب و کامران ہو جائیں ۔ یا یہ کہ عبد الرحمن عوف کواپنے منظور نظر شخص ( عثمان ) کو خلافت کے امور سونپنے میں کامیابی عطا کرے ۔

ھ)۔ اور آخرمیں جنگ جمل میں میدان کا رزار سے بھاگنے والے زبیر کی ایک طعنہ زنی کے ذریعہ سرزنش فرماتے ہیں ۔ طلحہ کے لئے، مضری خلیفہ عثمان کے خلاف بغاوت کے آغاز سے محاصرہ اور پھر اسے قتل کئے جانے تک کی گئی اس کی خیانتوں کے بارے میں بارگاہ الٰہی میں عفو و بخشش کی درخواست کرتے ہیں ۔

۲۷۴

دوسری حدیث

ابو نعیم ( وفات ٤٣٠ھ ) کی کتاب '' معرفة الصحابہ ''میں سیف کی دوسری حدیث یوں بیان ہوئی ہے :

عیسیٰ ا بن یونس نے وائل بن دائود سے ، اس نے بہی سے اور اس نے زبیر سے یوں روایت کی ہے کہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے قریش کے ایک مرد کو موت کی سزا سنائی اور اس کے بعد فرمایا:آج کے بعد عثمان کے قاتل کے علاوہ کسی قرشی کو موت کی سزا نہ دینا ۔ اگر اسے ( عثمان کے قاتل کو ) قتل نہ کرو گے تو تمھاری عورتوں کو قتل کر ڈالیں گے۔

ابو نعیم نے اس حدیث کے ضمن میں یوں اضافہ کیا ہے :

ابو حاتم رازی مدعی ہے کہ یہ زبیر ، زبیر بن ابی ہالہ ہے ۔

کتاب اسد الغابہ کے مصنف نے بھی ابو مندہ اور ابو نعیم سے نقل کرکے اس حدیث کو زبیر بن ابی ہالہ کے حالات کی تشریح کرتے ہوئے درج کیا ہے لیکن اس فرق کے ساتھ کہ :'' رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جنگ بدر میں قریش کے ایک مرد کو موت کی سزا دی اور ....'' اور اس قرشی کے قتل ہونے کی جگہ بھی معین کی ہے اور آخر میں رازی کی بات کا یوں اضافہ کیا ہے : '' یہ زبیر ، زبیر بن ابی ہالہ ہے ''

کتاب '' التجرید '' کے مصنف نے اس حدیث کے سلسلے میں صرف ایک اشارہ پر اکتفا کی ہے ،اور اسے زبیر ابو ہالہ کے حالات کی تشریح میں یوں لکھا ہے : وائل نے بہی سے اور اس نے اس زبیر ابو ہالہ سے اس طرح نقل کیا ہے اور آخرمیں لکھتا ہے کہ : یہ حدیث صحیح نہیں ہے ۔ (د۔ع )

کتاب اسد الغابہ اور کتاب التجرید میں حرف ''د '' و حرف '' ع '' ترتیب سے '' ابو مندہ '' اور ''ابو نعیم '' کے بارے میں اشارہ ہے

کتاب الاصابہ کے مصنف نے بھی اس حدیث کو ابن مندہ سے نقل کیا ہے اور اس کے آخر پر لکھتا ہے :

ابن ابو حاتم رازی کہتا ہے کہ یہ حدیث سیف بن عمر تمیمی سے روایت ہوئی ہے ۔

۲۷۵

صاف نظر آتا ہے کہ دوسری حدیث میں بنیادی طور پر زبیر کے باپ کا نام نہیں لیا گیا ہے اور ابو حاتم رازی سے نقل کیا گیا ہے کہ یہ زبیر ابو ہالہ ہے اسی دانشور کے بیٹے یعنی ابن ابی حاتم رازی سے بھی نقل کیا گیا ہے کہ یہ حدیث سیف سے نقل کی گئی ہے ۔

لیکن پہلی حدیث سیف سے روایت ہوئی ہے ۔نہ دوسری حدیث !پہلی حدیث کی سندکے طورپرجو''زبیربن ہالہ''کانام آیا ہے ،اس کے بار ے میں ابوحاتم رازی نے کہاہے کہ یہ ''زبیر ابو ہالہ'' حضرت خدیجہ کابیٹاہے ۔دوسری حدیث کو سیف بن عمرسے نسبت دینے کی یہ غلط فہمی اوراس حدیث کے راوی زبیر کوابوہالہ سے منسوب کرناایک ایسا مطلب ہے جس کی ذیل میں وضاحت کی جائے گی۔

دونوں حدیثوں کے مآخذ کی تحقیق میں پہلاموضوع جو نظرآتاہے وہ یہ ہے کہ دونوں حدیثوں کے راویوں کاسلسلہ یکساں ہے (وائل بن داودنے بہی بن یزیدسے اور اس نے زبیر سے ) شائد اس حدیث کے راویوں کے سلسلے میں یہی وحدت اس غلط فہمی کے پیدا ہونے کا سبب بنی ہوگی ۔خاص طور پر ابو حاتم رازی باپ کہتا ہے :یہ زبیر ،خدیجہ کا بیٹا ہے ۔اور اس دانشور کا بیٹاابن ابی حاتم رازی بھی کہتا ہے:''زبیر ابو ہالہ ''کی حدیث ہم تک صرف سیف کے ذریعہ پہنچی ہے پہاں پرعلماء کو شبہ ہوا اور ان دونوں باتوں کو دونوں حدیثوں میں بیان کیا ہے ۔

بہرحال ،مطلب جو بھی ہو کوئی فرق نہیں پڑتا ،اہم یہ ہے کہ ''زبیر ابو ہالہ ''کا نام صرف سیف کی حدیث میں آیا ہے نہ دوسری جگہ پر ۔اس کے علاوہ اس حقیقت کے اعلان اور وضاحت کے بارے میں ''ابو حاتم رازی ''کی بات بڑی دلچسپ ہے ،وہ کہتا ہے :

''زبیر ابو ہالہ ''کا نام صرف سیف کی حدیث میں آیا ہے ،جو متروک ہے اور اس کی بات کا کوئی اعتبار نہیں ہے ۔اسی لئے نہ میں سیف کی روایت کو لکھتا ہوں اور نہ اس کے راوی کو !

ان مطالب کے پیش نظر قطعی نتیجہ یہ حاصل ہوتا ہے کہ ''زبیر ابو ہالہ ''کا نام صرف سیف کی حدیث میں آیا ہے اور اسی میں محدود ہے ۔

۲۷۶

بحث کا خلاصہ

''زبیر ابوہالہ'' کا نام صرف دو حدیثوں میں آیا ہے ، جو حسب ذیل ہیں :

١۔ پہلی حدیث میں سیف نے ''زبیر بن ابی ہالہ '' سے روایت کی ہے کہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنے آٹھ اصحاب کے لئے دعا کی ۔یہ دعا آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بعد ان اصحاب کے بارے میں رو نما ہونے والے واقعات اور اختلافات کے متناسب ہے ۔

جس حدیث میں '' زبیر بن ابی ہالہ ''راوی کی حیثیت سے ذکر ہوا ہے ابو حاتم رازی نے اسے سیف بن عمر سے نقل کیا ہے ۔ نجیرمی نے بھی اسے اسی حالت میں ابو حاتم رازی سے نقل کرکے اپنی کتاب میں درج کیا ہے ۔

اس کے مقابلے میں ابن جوزی اور ابن حجر نے اسی حدیث کو زبیر کے باپ ابو ہالہ کا نام لئے بغیر سیف کی زبانی نقل کرکے اپنی کتاب میں درج کیا ہے ۔

ہمیں یقین ہے کہ یہ اختلاف اس سبب سے پیدا ہوا ہے کہ سیف نے اس حدیث کو ایک بار زبیر بن ابی ہالہ کے باپ کانام لے کر اور دوسری جگہ پر اسی حدیث کو اس کے باپ کا نام لئے بغیر تنہا زبیر سے روایت کی ہے اور یہی دوسری حالت اس کی کتاب فتوح میں بھی درج کی گئی ہے ۔

٢۔ دوسری حدیث میں زبیر سے نقل کیا گیا ہے کہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے قریش کے ایک مرد کو موت کی سزا دی اور اس کے بعد عثمان کے قاتل کے علاوہ کسی بھی قریشی کو اس طرح موت کی سزا دینے سے منع فرمایا :

اس حدیث میں زبیر کے باپ کا نام نہیں لیا گیا ہے ۔ ضمناً یہ بھی معلوم نہیں ہے کہ یہ حدیث سیف بن عمر سے روایت کی گئی ہو ! اس حدیث کے آخر میں صرف اتنا کہا گیا ہے کہ ابو حاتم زاری نے لکھا ہے کہ یہ زبیر زبیر ابو ہالہ ہے !

اسی طرح روایت کی گئی ہے کہ ابن ابی حاتم رازی نے کہا ہے کہ یہ حدیث سیف سے روایت ہوئی ہے جب کہ دوسری حدیث ہر گز سیف سے روایت نہیں ہوئی ہے اور اس میں زبیر کے باپ کا نام ذکر نہیں ہوا ہے ۔ صرف پہلی حدیث ہے ، جسے سیف نے روایت کی ہے اور بعض جگہوں پر اس کی روایتوں میں زبیر کے باپ ابو ہالہ کا نام لیا گیا ہے ، اسی نام کے پیش نظر ابو حاتم رازی نے کہا کہ یہ زبیر رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی زوجہ حضرت خدیجہ کا بیٹا تھا !گویا یہ غلط فہمی اس لئے پیدا ہوئی کہ دونوں حدیثوں کے راویوں میں واضح اشتراک پایا جاتا ہے ( وائل نے بہی سے اور اس نے زبیر سے )

۲۷۷

مطلب جو بھی ہو کوئی فرق نہیں پڑتا ، اہم بات یہ ہے کہ زبیر ابو ہالہ کا نام صرف سیف بن عمر کی حدیث میں آیا ہے ،علماء کے نزدیک سیف کی روایت کی کوئی قدر و قیمت نہیں ہے ۔ شائد ذہبی نے '' التجرید '' میں اسی موضوع کی طرف اشارہ کرکے لکھا ہے : اس سیف کی بات صحیح نہیں ہے اور قابل اعتبار بھی نہیں ہے یعنی اس کی حدیث جھوٹی ہے ۔

فیروزآبادی نے بھی ان دو حدیثوں پر اعتبار کرکے اپنی کتاب '' قاموس '' میں لفظ '' زبر '' کی تشریح میں لکھا ہے :

زبیر بن و '' زبیر بن ابی ہالہ '' دونوں پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اصحاب تھے ۔

زبیدی نے بھی اپنی کتاب '' تاج العروس '' میں اسی حدیث کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھا ہے :

وائل بن دائود نے بہی سے اور اس نے زبیر سے نقل کیا ہے !

افسانہ ٔ زبیر کے مآخذ کی جانچ پڑتال

زبیر کا نام صرف دو حدیثوں میں آیا ہے :

ان میں سے ایک حدیث میں احتمال دے کر کہا گیا ہے کہ یہ زبیر وہی زبیر بن ابی ہالہ ہے اور اس کی زبیر ابو ہالہ کے طور پر تشریح کی گئی ہے جب کہ اس حدیث کا اس کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے اور اس حدیث کا زبیر ابو ہالہ کے بارے میں لکھنا بلا و جہ ہے ۔

دوسری حدیث کو خود سیف نے وائل سے ، اس نے بہی سے اور اس نے زبیر ابو ہالہ سے نقل کیا ہے یہاں پر روایت کا آخری مآخذ سیف کا خلق کردہ شخص زبیر ہے ۔ خلاصہ یہ کہ سیف اپنی مخلوق سے روایت کرتا ہے !! اس لحاظ سے جو حدیث افسانہ نگار سیف سے شروع ہو کر اس کی اپنی خیالی مخلوق پر ختم ہوتی ہو ،اس کی کیا قدر و قیمت ہو سکتی ہے ؟! ان حالات کے پیش نظر کیا اس بات کی گنجائش باقی رہتی ہے کہ حدیث میں ذکر ہوئے راویوں کے نام اور ان کے سلسلے کے صحیح یا عدم صحیح ہونے پر بحث و تحقیق کی جائے ؟! اس کے باوجود کہ ہم نے بارہا کہا ہے کہ ہم سیف کی دروغ بافی کا گناہ ان صحیح راویوں کی گردن پر نہیں ڈالیں گے جن کا نام سیف نے اپنی روایتوں میں لیا ہے ۔

۲۷۸

داستان کا نتیجہ

اس داستان سے سیف نے اپنے لئے مندرجہ ذیل نتائج حاصل کئے ہیں :

١۔ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پروردہ ایک صحابی کو خلق کیا ہے تاکہ وہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے حقیقی اصحاب کی فہرست میں قرا ر پائے ۔

ٍ ٢۔ خاندان تمیم کے ایک مرد کو پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی احادیث کے راویوں کی فہرست میں قرار دیتا ہے ۔

٣۔ پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے ایک ایسی حدیث نقل کرتا ہے جو صحابہ کے فضائل و مناقب کے دلدادوں اور قبائل نزار کے متعصب افراد کو خوشحال کرے کیوں کہ اس حدیث میں صرف خاندان قریش سے تعلق رکھنے والے اصحاب کا نام لیا گیا ہے اور یمانی قحطانی انصار کا کہیں ذکر تک نہیں ہے ۔

سر انجام سیف نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے دو پروردہ اور خدیجہ و ابو ہالہ تمیمی کے بیٹے خلق کرکے خاندان تمیم خاص کر اسید کو ایک بڑا افتخار بخشا ہے ۔ اور اس طرح قبائل نزار کے لئے یہ سب افتخار و برکتیں سیف کی احادیث کی وجہ سے حاصل ہوئی ہیں ۔

راویوں کا سلسلہ

زبیر ابو ہالہ کے افسانہ کے راویوں کا سلسلہ حسب ذیل ہے :

١۔ سیف نے اپنی پہلی حدیث اپنے ہی خلق کردہ راوی زبیر ابو ہالہ سے روایت کی ہے ۔

٢۔ دوری حدیث میں آخر ی راوی زبیر ہے چوں کہ دونوں احادیث میں راویوں میں یکجہتی اور اشتراک پایا جاتاہے اس لئے یہ خیال کیا گیا ہے کہ یہ زبیر بھی وہی زبیر ابو ہالہ ہے ۔ اسی لئے دوسری حدیث کو بھی زبیر ابو ہالہ کے حالات کی وضاحت میں ذکر کیا گیا ہے ۔

٣۔ ابو حاتم رازی نے زبیر ابو ہالہ کی حدیث کو سیف بن عمر سے نقل کیا ہے اسی دانشور کا بیٹا ابن ابی حاتم رازی (وفات ٣٢٧ھ) اپنی کتاب جرح و تعدیل میں تاکید کرتا ہے کہ زبیر ابوہالہ کی حدیث صرف سیف بن عمر سے نقل ہوئی ہے ۔

٤۔ ابن جوزی ( وفات ٥٩٧ھ) نے اپنی کتاب موضوعات میں سیف کی حدیث نقل کی ہے لیکن اس میں زبیر کے باپ کا نام نہیں لیا ہے ۔

۲۷۹

٥۔ ابن حجر ( وفات ٨٥٢ھ ) نے اپنی کتاب الاصابہ میں سیف کی حدیث ابن جوزی کی موضوعات سے نقل کی ہے ۔ لیکن اس میں زبیر کے باپ کا نام نہیں لیا ہے ۔

مندرجہ بالا علماء نے مذکورہ حدیث کو اپنی سند سے سیف سے نقل کیا ہے ۔

٦۔ نجیرمی ( وفات ٤٥١ھ ) نے اپنی کتاب فوائد میں سیف کی حدیث کو ابن ابی ہالہ کی وضاحت کرتے وقت رازی سے نقل کیا ہے ۔

چوں کہ تصور یہ کیا گیا ہے کہ کہ دوسری حدیث میں زبیر وہی زبیر ابو ہالہ ہے لہٰذا درج ذیل علماء نے دوسری حدیث زبیر ابو ہالہ کے حالات کے سلسلے میں درج کی ہے :

٧۔ ابن مندہ ( وفات ٣٩٥ھ) نے کتاب '' اسماء الصحابہ '' میں ۔

٨۔ ابو نعیم ( وفات ٤٣٠ھ) نے کتاب '' معرفة الصحابہ'' میں ۔

٩۔ ابن اثیر ( وفات ٦٠٣ھ) نے کتاب اسد الغابہ میں ۔

١٠۔ ذہبی ( وفات ٧٤٨ھ) نے کتاب التجرید میں ۔

١١۔ ابن حجر ( وفات ٨٥٢ھ) نے کتاب الاصابہ میں ۔

١٢۔ فیروز آبادی ( وفات ٨١٧ھ) نے کتاب قاموس میں ۔

١٣۔ زبیدی ( وفات ١٢٠٥ھ) نے اپنی کتاب تاج العروس میں ۔

۲۸۰

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667