قصص القرآن-منتخب از تفسير نمونه

قصص القرآن-منتخب از تفسير نمونه   0%

قصص القرآن-منتخب از تفسير نمونه   مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 667

قصص القرآن-منتخب از تفسير نمونه

مؤلف: حضرت آيت اللہ العظمى مكارم شيرازي
زمرہ جات:

صفحے: 667
مشاہدے: 269170
ڈاؤنلوڈ: 3649

تبصرے:

قصص القرآن-منتخب از تفسير نمونه
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 667 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 269170 / ڈاؤنلوڈ: 3649
سائز سائز سائز
قصص القرآن-منتخب از تفسير نمونه

قصص القرآن-منتخب از تفسير نمونه

مؤلف:
اردو

ليكن يوسف (ع) نے اس ہنسنے كے مقصد سے پردہ اٹھا يا اور سب كو عظيم در س ديا ،وہ كہنے لگے :

''ميں نہيں بھو لتا كہ ايك دن تم طاقتور بھا ئيوں ،تمہارے قوى بازووں اور بہت زيادہ جسمانى طاقت پر ميں نے نظر ڈالى تو ميں بہت خو ش ہوا اور ميں نے اپنے آپ سے كہا كہ جس كے اتنے دوست اور مدد گار ہوں اسے سخت حوادث كا كيا غم ہے اس دن ميں نے تم پر بھر وسہ كيا اور پناہ ليتا ہوں اور تم مجھے پناہ نہيں ديتے خدا نے تمہيں مجھ پر مسلط كيا ہے تا كہ ميں يہ درس سيكھ لوں كہ اس كے غير پر يہاں تك كہ بھائيوں پر بھى بھروسہ نہ كروں ''؟

اس كے آگے قران مزيدكہتا ہے:''اس وقت ہم نے يوسف (ع) كى طرف وحى بھيجى ،اسے تسلى دى اور اس كى دلجوئي كى اور اس سے كہا كہ غم نہ كھاو ''ايك دن ايسا ائے گا كہ تم انھيں ان تمام منحوس سازشوں اور منصوبوں سے اگاہ كروگے اور وہ تمہيں پہچان نہيں سكيں گے''_(۱)

وہ دن كہ جب تم تخت حكو مت پر تكيہ لگا ئے ہو گے اور تمہارے يہ بھائي تمہارى طرف دست نياز پھيلا ئيں گے اور ايسے تشنہ كامو ں كى طرح كہ جو چشمئہ خوش گواركى تلاش ميں تپتے ہوئے بيابان ميں سرگر داں ہوتے ہيں تمہارے پاس بڑے انكسار اور فروتنى سے آئيں گے ليكن تم اتنے بلند مقام پر پہنچے ہوں گے كہ انہيں خيال بھى نہ ہو گا كہ تم ان كے بھائي ہو اس روز تم ان سے كہو گے كہ كيا تم ہى تھے جنہوں نے اپنے چھو ٹے بھائي يو سف كے سا تھ يہ سلو ك كيا اور اس دن يہ كس قدر شرمسار اور پشيمان ہوں گے _(۲)

اس نكتہ كى طرف توجہ ضرورى ہے كہ انھوں نے اتفاق كيا كہ اسے كنويں كى مخفى جگہ پر ڈال ديں يہ جملہ اس بات كى دليل ہے كہ انھوں نے حضرت يوسف (ع) كو كنويں ميں پھينكا نہيں تھا بلكہ نيچے لے گئے تھے ،كنويں كي

____________________

(۱)سورہ يوسف آيت۱۵

(۲) سورہ يوسف كى آيت ۲۲ كے قرينے سے معلوم ہو تا ہے كہ يہ وحى الہى وحى نبوت نہ تھى بلكہ يو سف كے دل پر الہام تھا تا كہ وہ جان لے كہ وہ تنہا نہيں ہے اور اس كا ايك حافظ ونگہبان ہے، اس وحى نے قلب يو سف پر اميد كى ضيا پا شى كى اور يا س ونا اميد كى تاريكيو ں كو اس كى روح سے نكال ديا _

۱۸۱

تہ ميں ايك چبوترا سا نيچے جانے والوں كے لئے بنايا جاتا ہے اور سطح اب كے قريب ہوتا ہے انھوں نے حضرت يوسف (ع) كى كمر ميں طناب ڈال كر وہاں تك پہنچا يا اور وہاں چھوڑديا_

جناب يوسف(ع) بر ہنہ كنويں

ميں يہ نكتہ بھى قا بل تو جہ ہے كہ جس وقت حضرت يو سف كے بھا ئيو ں نے انہيں كنويں ميں پھينكا تو ان كا كرتہ اتار ليا اور ان كا بدن برہنہ ہو گيا تو يوسف(ع) نے بہت دادو فرياد كى كہ كم از كم مير ا كرتہ تو مجھے دے دو تا كہ اگر ميں زندہ رہو ں تو ميرا بدن ڈھا پنے اور اگر مر جائوں تو ميرا كفن بن جائے_ بھائي كہنے لگے :اسى سورج ،چاند اور ستاروں سے كہہ جنہيں خواب ميں ديكھا تھا، تقاضا كرو كہ اس كنويں ميں تيرے مونس وغمخوار ہو ں اور تجھے لباس پہنائيں _

يو سف(ع) كے بھا ئيوں نے جو منصوبہ بناركھا تھا اس پر انہوں نے اپنى خواہش كے مطا بق عمل كر ليا_ ليكن آخر كار انہيں واپس لوٹنے كے بارے ميں سوچنا تھا كہ جا كر كوئي ايسى بات كريں كہ باپ كو يقين آجائے كہ يو سف كسى سازش كے تحت نہيں بلكہ طبيعى طور پر وادى عدم ميں چلا گيا ہے اور اس طرح وہ باپ كى نوازشات كو اپنى جانب مو ڑسكيں _

ذليل كنندہ جھوٹ

قرآن كہتا ہے :''رات كے وقت بھائي روتے ہوئے ائے''_(۱)

ان كے جھوٹے آنسوئوں اور ٹسوے بہانے سے ظاہر ہو تا ہے كہ جھو ٹا رونا بھى ممكن ہے اور صرف روتى ہوئي آنكھ سے دھو كا نہيں كھانا چاہئے_

باپ جو بڑى بے تا بى اور بے قرارى سے اپنے فرزند دلبند يو سف كى واپسى كے انتظار ميں تھا اس نے جب انہيں واپس آتے ديكھا اور يوسف ان ميں دكھائي نہ ديا تو وہ لرز گئے اور كا نپ اٹھے _حالات پوچھے

____________________

(۱)سورہ يوسف آيت ۱۶

۱۸۲

تو انہوں نے كہا :''ابا جانہم گئے اور ہم (سوارى اورتير اندازى كے) مقابلوں ميں مشغول ہوگئے اور يوسف كہ چھوٹا تھا اور ہم سے مقا بلہ نہيں كر سكتا تھا ہم اسے اپنے سامان كے پاس چھوڑگئے ،اس كا م ميں ہم اتنے محو ہو گئے كہ ہر چيز يہا ں تك كہ بھا ئي كو بھى بھول گئے ،اس اثنا ميں ايك بے رحم بھيڑيا اس طرف آپہنچا اور اس نے اسے چير پھا ڑ كھا يا ''_(۱) ''ليكن ہم جانتے ہيں كہ تم ہر گز ہمارى باتوں كا يقين نہيں كرو گے اگر چہ ہم سچے ہوں كيو نكہ تم نے پہلے ہى اس قسم كى پيش بينى كى تھى لہذ ا اسے بہانہ سمجھو گے _''(۲)

بھائيوں كى با تيں بڑى سو چى سمجھى تھيں پہلى با ت يہ كہ انہوں نے باپ كو يا''اے ہمارے والد ''كے لفظ سے مخاطب كيا كہ جس ميں ايك جذباتى پہلو تھا _دو سرى بات يہ ہے كہ فطرى طورپر ايسى تفريح گاہ ميں طاقتور بھائي بھا گ دوڑ ميں مشغول ہوں گے اور چھو ٹے كو سامان كى نگہداشت پر مقرر كريں گے اور اس كے علاوہ انہوں نے باپ كو غفلت ميں ركھنے كے لئے ايك قدم اور آگے بڑ ھا يا اور روتى ہوئي آنكھوں سے كہا كہ تم ہر گز يقين نہيں كرو گے اگر چہ ہم سچ بول رہے ہوں نيز اس بنا ء پر كہ باپ كو ايك زند ہ نشا نى بھى پيش كريں ''وہ يو سف كى قميض كو جھوٹے خون ميں تر كئے ہو ئے تھے ''_(۳) (وہ خون انہوں نے بكرى يا بھيڑكے بچے يا ہرن كا لگا ركھا تھا )_''

ليكن ''درد غ گو حافظہ ندارد''اورايك حقيقى واقعہ كے مختلف پہلو ہو تے ہيں اور اس كے مختلف كو ائف اور مسائل ہوتے ہيں ،ايسا بہت كم ہو تا ہے كہ ان سب كو ايك فرضى كہانى ميں سمو يا جاسكے لہذا برادران يو سف بھى اس نكتے سے غا فل رہے كہ كم از كم يو سف كے كر تے كو چند جگہ سے پھاڑ ليتے تاكہ وہ بھيڑ ئے كے حملے كى دليل بن سكے وہ بھا ئي كى قميص كو اس كے بدن سے صحيح سالم اتار كر خون آلود كر كے با پ كے پاس لے آئے، سمجھدا ر اور تجربہ كا ر باپ كى جب اس كر تے پر نگاہ پڑى تو وہ سب كچھ سمجھ گئے اور كہنے لگے كہ تم جھوٹ بو لتے ہو ''بلكہ نفسا نى ہو او ر ہوس نے تمہا ر ے لئے يہ كا م پسند يد ہ بنادياہے ''_(۴) اور يہ شيطا نى سا زشيں ہيں _

____________________

(۱)سورہ يوسف آيت ۱۷

(۲)سورہ يوسف آيت ۱۷

(۳)سورہ يوسف آيت ۱۸

(۴)سورہ يوسف آيت ۱۸

۱۸۳

مہربان بھيڑيا

جناب يعقوب نے كرتہ اٹھايا اور اس كو الٹ پلٹ كر ديكھا اور كہا تو پھر اسميں بھيڑيئےے پنجوں اور دانتوں كے نشان كيوں نہيں ہيں _؟

ايك اور روايت كے مطابق :حضرت يقوب(ع) نے كر تہ اپنے منہ پر ڈال ليا ،فر يا د كرنے لگے اور آنسو بہا نے لگے ،اور كہہ رہے تھے :يہ كيسا مہربان بھيڑيا تھا جس نے ميرے بيٹے كو تو كھا ليا ليكن اس كے كر تے كو تو ذر ہ بھر نقصان نہ پہنچا يا؟ اس كے بعد وہ بے ہو ش ہو كر خشك لكڑى كى طرح زمين پر گر پڑے بعض بھائيوں نے فر ياد كى : اے وائے ہو ہم پر روز قيامت عد ل الہى كى عدالت ميں ہم بھا ئي بھى ہا تھ سے دے بيٹھے ہيں اور با پ كو بھى ہم نے قتل كرديا ہے ،ادھرباپ اسى طرح سحرى تك بے ہو ش رہے ليكن سحر گا ہى كى نسيم سرد كے جھونكے ان كے چہر ے پر پڑے تو وہ ہو ش ميں آگئے_

با وجود يكہ يعقوب كے دل ميں آگ لگى ہو ئي تھى ،ان كى روح جل رہى تھى ليكن زبان سے ہر گز ايسى بات نہ كہتے تھے جو نا شكرى ، ياس و نااميدى اور جزع وفزع كى نشانى ہو بلكہ كہا :ميں صبر كروں گا ،صبرجميل، ايسى شكيبا ئي جو شكر گزارى اور حمد خدا كے ساتھ ہو'' _(۱) اس كے بعدجناب يعقوب كہنے لگے ''جو كچھ تم كہتے ہو اس كے مقابلے ميں خدا سے مدد طلب كرتا ہوں ''(۲)

ميں اس سے چا ہتا ہوں كہ جام صبر كى تلخى ميرے حلق ميں شير يں زبان; نا درست اور غلط بات سے آلودہ نہ ہو _

انہوں نے يہ نہيں كہا كہ يوسف كى مو ت كى مصيبت پر مجھے شكيبائي دے كيو نكہ وہ جانتے تھے كہ يوسف قتل نہيں ہو ئے بلكہ كہا كہ جو كچھ تم كہتے ہو كہ جس كا نتيجہ بہر حال اپنے بيٹے سے ميرى جدا ئي ہے ،ميں صبر طلب كرتا ہوں _

____________________

(۱)سورہ يوسف آيت ۱۸

(۲)سورہ يوسف آيت ۱۸

۱۸۴

ايك ترك اولى كے بدلے

ابو حمزہ ثمالى نے ايك روايت امام سجاد عليہ السلام سے نقل كى ہے ابو حمزہ كہتے ہيں :

جمعہ كے دن ميں مدينہ منورہ ميں تھا نماز صبح ميں نے امام سجادعليہ السلام كے ساتھ پڑھى جس وقت امام نماز اور تسبيح سے فارغ ہوئے تو گھر كى طرف چل پڑے ميں آپ كے سا تھ تھا _

آپ نے خادمہ كو آوازدى اور كہا :

خيال ركھنا ، جو سائل اور ضرورت مند گھر كے دووازے سے گزرے اسے كھانا دينا كيو نكہ آج جمعہ كا دن ہے _

ابو حمزہ كہتے ہيں :

ميں نے كہا : ہر وہ شخص جو مدد كا تقاضا كرتا ہے مستحق نہيں ہو تا ، تو امام نے فرمايا :

ٹھيك ہے ، ليكن ميں اس سے ڈر تا ہوں كہ ان ميں مستحق افراد ہوں اور انہيں غذا نہ ديں اور اپنے گھر كے در واز ے سے دھتكار ديں تو كہيں ہمارے گھر والوں پر وہى مصيبت نہ آن پڑے جو يعقوب اور آل يعقوب پر آن پڑى تھى _

اس كے بعد اپ نے فرمايا :

ان سب كو كھا نا دو كہ ( كيا تم نے سنانہيں ہے كہ ) يعقوب كے لئے ہر روز ايك گو سفند ذبح كى جا تى تھى اس كا ايك حصہ مستحقين كو ديا جاتا تھا ايك حصہ وہ خود اور ان كى اولاد كھا تے تھے ايك دن ايك سائل آيا وہ مو من اور روزہ دار تھا خدا كے نزديك اس كى بڑى قدر ومنزلت تھى وہ شہر ( كنعا ن ) سے گزر ا شب جمعہ تھى افطار كے وقت وہ دروازہ يعقوب پر آيا اور كہنے لگا بچى كچى غذا سے مدد كے طالب غريب ومسافر بھو كے مہمان كى مدد كرو ،اس نے يہ بات كئي مر تبہ دہرائي انہوں نے سنا تو سہى ليكن اس كى بات كو باور نہ كيا جب وہ مايوس ہوگيا اور رات كى تاريكى ہر طرف چھا گئي تو وہ لوٹ گيا، جاتے ہو ئے اس كى آنكھوں ميں آنسو تھے اس نے

۱۸۵

بارگا ہ الہى ميں بھوك كى شكا يت كى رات اس نے بھوك ہى ميں گزارى اور صبح اسى طرح روزہ ركھا جب كہ وہ صبر كئے ہو ئے تھا اور خدا كى حمدد ثنا كر تا تھا ليكن حضرت يعقوب (ع) اور ان كے گھر والے مكمل طور پر سير تھے اور صبح كے وقت ان كا كچھ كھا نا بچا بھى رہ گيا تھا _

امام نے اس كے بعد مزيد فرمايا :خدا نے اسى صبح يعقوب كى طرف وحى بھيجى : اے يعقوب :تو نے ميرے بند ے كو خوار كيا ہے اور ميرے غضب كو بھڑكا يا ہے اور تو اور تيرى اولاد نزول سزا كى مستحق ہو گئي ہے اے يعقوب : ميں اپنے دوستوں كو زيادہ جلدى سر زنش كرتا اور سزا ديتا ہوں اور يہ اس لئے كہ ميں ان سے محبت كرتا ہوں _

يہ امر قابل توجہ ہے كہ اس حديث كے بعد ہے كہ ابو حمزہ ثما لى كہتے ہيں :

ميں نے امام سجاد سے پوچھا :كہ يو سف نے وہ خواب كس مو قع پر ديكھا تھا ؟

امام نے فرمايا :اسى رات _

اس حديث سے اچھى طرح معلوم ہو تا ہے كہ انبياء واولياء كے حق سے ايك چھو ٹى سى لغزش يا زيادہ صريح الفاظ ميں ايك ''ترك اولى '' كہ جو گنا ہ اور معصيت بھى شمار نہيں ہو تا تھا ( كيو نكہ اس سائل كى حالت حضرت يعقوب عليہ السلام پر واضح نہيں تھى ) بعض او قات خدا كى طرف سے ان كى تنبيہ كا سبب بنتا ہے اور يہ صرف اس لئے ہے كہ ان كا بلند وبا لا مقام تقاضا كرتا ہے كہ وہ ہميشہ اپنى چھوٹى سے چھوٹى بات اور عمل كى طرف متوجہ رہيں كيونكہ:''حسنات الا برار سيئا ت المقربين ''(۱)

وہ كام جو نيك لوگوں كے لئے نيكى شمار ہو تے ہيں مقر بين بارگا ہ الہى كے لئے برائي ہيں _

____________________

(۱) حضرت يوسف(ع) كى دلكش دعا روايات اہل بيت اور طرق اہل سنت ميں ہے كہ جس وقت حضرت يوسف عليہ السلام كنويں كى تہ ميں پہنچ گئے تو ان كى اميد ہر طرف سے منقطع ہو گئي اور ان كى تمام تر تو جہ ذات خدا كى طرف ہو گئي انہوں نے اپنے خدا سے مناجات كى اور جبرئيل كى تعليم سے رازونياز كرنے لگے كہ جو روايا ت ميں مختلف عبارتوں ميں منقول ہے _

۱۸۶

سر زمين مصر كى جانب

يوسف(ع) نے كنويں كى وحشت ناك تاريكى اور ہو لناك تنہائي ميں بہت تلخ گھڑ ياں گزاريں ليكن خداپر ايمان اور ايمان كے زير سايہ ايك اطمينان نے ان كے دل ميں نوراميد كى كرنيں روشن كرديں تھيں اور انہيں ايك توانائي بخشى تا كہ وہ اس ہو لناك تنہا ئي كو برداشت كريں اور آزمائش كى اس بھٹى سے كا ميابى كے ساتھ نكل آئيں ،اس حالت ميں وہ كتنے دن رہے ،يہ خدا جانتا ہے بعض مفسرين نے تين دن لكھے ہيں اور بعض نے دو دن ،بہر حال ''ايك قافلہ آپہنچا ''(۱)

اور اس قافلے نے وہيں نزديك ہى پڑا ئوڈالا ،واضح ہے كہ قافلے كى پہلى ضرورت يہى ہو تى ہے كہ

ايك روايت ميں ہے كہ آپ نے خدا سے يوں مناجات كى :

بارالہا : اے وہ جو غريب ومسافركا مو نس ہے اور تنہا ئي كا ساتھى ہے اے وہ جو ہر خائف كى پناہ گا ہ ہے ہر غم كو بر طرف كرنے والا ہے ، ہر فرياد سے آگاہ ہے ، ہر شكا يت كر نے والے كى آخرى اميد ہے اور ہر مجمع ميں مو جود ہے اے حى : اے قيوم : اے زندہ : اے سارى كا ئنا ت كے حافظ و نگہبان ميں تجھ سے چا ہتا ہوں كہ اپنى اميد ميرے دل ميں ڈ ال دے تا كہ تيرے علاوہ كو ئي فكر نہ ركھوں اور تجھ سے چاہتا ہوں كہ ميرے لئے اس عظيم مشكل سے راہ نجات پيدا كردے كہ تو ہر چيز پر قادر ہے

يہ امر جاذب نظر ہے كہ اس حديث كے ذيل ميں ہے كہ فرشتوں نے حضرت يو سف كى آواز سنى تو عر ض كيا :

''الهنا نسمع صوتا ودعا ء ، الصوت صوت صبى والد عا ء دعا ء البتى ''

(پر وردگار : ہم آواز اور دعا سن رہے ہيں آواز تو بچے كى ہے ليكن دعا نبى كى ہے _)

ايك روايت ميں امام صادق عليہ السلام سے منقول ہے كہ جناب جبرائيل (ع) نے حضرت يوسف كو يہ دعا تعليم كي:

پروردگارا : ميں تجھ سے دعا كرتا ہوں ،اے وہ كہ حمد و تعريف تير ے لئے ہے ، تيرے علاوہ كوئي معبود نہيں ، تو ہے جو بندوں كو نعمت بخشتا ہے ، آسمانوں اور زمين كا پيدا كرنے والا ہے صاحب جلا ل واكرام ہے ، ميں درخواست كرتا ہوں كہ محمد وآل محمد (ص) پر در ود بھيج اور جس ميں ميں ہوں اس سے مجھے كشا ئش و نجات عطا فرما

ليكن كو ئي مانع نہيں كہ حضرت يوسف عليہ السلام نے يہ دونوں دعائيں كى ہوں _

____________________

(۱)سورہ يوسف آيت ۱۹

۱۸۷

وہ پا نى حاصل كر ے اس لئے انہوں نے پانى پر مامور شخص كو پانى كى تلاش ميں بھيجا ''_(۱)

اس نے اپنا ڈول كنويں كى تہ ميں ڈالاجس سے جناب يوسف(ع) كنويں كے اندرمتوجہ ہو ئے كہ كنو يں كے اوپر سے كو ئي آواز آرہى ہے سا تھ ہى ديكھا كہ ڈول اور رسى تيزى سے نيچے آرہى ہے انہوں نے مو قع غنيمت جا نا اور اس عطيئہ الہى سے فائدہ اٹھا يا اور فور اً اس سے لپٹ گئے بہشتى نے محسوس كيا كہ اس كاڈول اندازے سے زيادہ بھا رى ہے جب اس نے زور لگا كر اسے اوپر كھينچا تو اچا نك اس كى نظر ايك چاند سے بچے پر پڑى وہ چلايا : خو شخبرى ہو :'' يہ تو پانى كے بجا ئے بچہ ہے''(۲) آہستہ آہستہ قافلے ميں سے چند لوگوں كو اس بات كا پتہ چل گيا ليكن اس بنا ء پر كہ دوسروں كو پتہ نہ چلے اور يہ خود ہى مصر ميں اس خوبصورت بچے كو ايك غلام كے طور پر بيچ ديں ''اسے انہوں نے ايك اچھا سرمايہ سمجھتے ہو ئے دوسروں سے مخفى ركھا ''(۳)

جناب يوسف(ع) كو كم داموں ميں بيچنا

''آخر كار انہوں نے يو سف كو تھوڑى سى قيمت پر بيچ ديا ،اور وہ اس كے بيچنے كے سلسلے ميں بے رغبت تھے (تا كہ ان كا راز فاش نہ ہوں )''_

(۴) اگر چہ يوسف(ع) كو بيچنے والے كون لوگ تھے ،بعض لوگوں نے ان كو برادران يوسف(ع) بتايا ہے، ليكن قران سے ايساظاہر ہوتا ہے كہ قافلہ والوں نے يوسف (ع) كو بيچا تھا _(۵)

____________________

(۱)سورہ يوسف آيت ۱۹

(۲)سورہ يوسف آيت ۱۹

(۳) سورہ يوسف آيت ۱۹

(۴)سورہ يوسف آيت ۲۰

(۵)يہاں يہ سوال سامنے اتا ہے كہ انھوں نے حضرت يوسف (ع) كو تھوڑى سى قيمت پر كيوں بيچ ديا،قران نے اے ''ثمن بخس''سے تعبير كيا ہے كيونكہ حضرت يوسف (ع) كم از كم ايك قيمتى غلام سمجھے جاسكتے تھے

ليكن يہ معمول كى بات ہے كہ ہميشہ چوريا ايسے افرا دجن كے ہاتھ كوئي اہم سرمايہ بغير كسى زحمت كے اجائے تو وہ اس خوف سے كہ كہيں دوسروں كو معلوم نہ ہو جائے اسے فوراً بيچ ديتے ہيں اور يہ فطرى بات ہے كہ اس جلد بازى ميں وہ زيادہ قيمت حاصل نہيں كر سكتے

۱۸۸

اس بارے ميں كہ انہوں نے حضرت يوسف كو كتنے داموں ميں بيچا اور پھر يہ رقم آپس ميں كس طرح تقسيم كى ، اس سلسلے ميں بھى مفسرين ميں اختلاف ہے بعض نے يہ رقم ۲۰ /درہم ، بعض نے ۲۲ /درہم ، بعض نے ۴۰/ درہم اور بعض نے ۱۸/ درہم لكھى ہے اور اس طرف تو جہ كرتے ہوئے كہ بيچنے والوں كى تعداد دس بيان كى جاتى ہے ، اس نا چيز رقم ميں سے ہر ايك كا حصہ واضح ہو جا تا ہے _

عزيز مصر كے محل ميں

حضرت يوسف (ع) كى داستان جب يہاں تك پہنچى كہ بھا ئي انہيں كنويں ميں پھينك چكے تو بہر صورت بھا ئيوں كے سا تھ والا مسئلہ ختم ہو گيا اب اس ننھے بچے كى زندگى كا ايك نيا مر حلہ مصر ميں شروع ہوا اس طرح سے كہ آخر كار يو سف مصر لائے گئے وہاں انہيں فروخت كے لئے پيش كيا گيا چو نكہ يہ ايك نفيس تحفہ تھا لہذا معمول كے مطابق ''عزيز مصر '' كو نصيب ہوا كہ جو درحقيقت فرعونوں كى طرف سے وزير اعظم تھا اور ايسے ہى لوگ ''تمام پہلوئوں سے ممتا ز اس غلام '' كى زيادہ قيمت دے سكتے تھے، اب ديكھتے ہيں كہ عزيز مصر كے گھر يوسف پر كيا گزر تى ہے _

قرآن كہتا ہے :'' جس نے مصر ميں يو سف كو خريدا اس نے اپنى بيوى سے اس كى سفارش كى اور كہا كہ اس غلام كى منزلت كا احترام كرنا اور اسے غلاموں والى نگاہ سے نہ ديكھنا كيو نكہ ہميں اميد ہے كہ مستقبل ميں ہم اس غلام سے بہت فائدہ اٹھا ئيں گے يا اسے فرزند كے طور پر اپنا ليں گے_''( ۱)

اس جملے سے معلوم ہو تا ہے كہ عزيز مصر كى كو ئي اولاد نہ تھى اور وہ بيٹے كے شوق ميں زند گى بسر كر رہا تھا جب اس كى آنكھ اس خوبصورت اور آبرومند بچے پر پڑى تو اس كے دل ميں آيا كہ يہ اس كے بيٹے كے طور پر ہو _

اس كے بعد قرآن مجيد كہتا ہے :''اس طرح اس سر زمين ميں ہم نے يوسف كو متمكن اور صا حب نعمت و اختيار كيا،ہم نے يہ كام كيا تا كہ ان كو تعبير خواب كا علم عطا ہو_''(۲)

____________________

(۱)سورہ يوسف آيت ۲۱

(۲)سورہ يوسف آيت ۲۱

۱۸۹

جناب يوسف (ع) كى پاكيز گى كا انعام

يہاں پرايك سوال يہ پيدا ہو تا ہے كہ علم تعبير خواب اور عز يز مصر كے محل ميں حضرت يو سف كى مو جود گى كا كيا ربط ہے كہ اسے كس طرف ''لنعلمہ'' كى ''لام ''كہ جو لام غايت ہے كہ ذريعے اشارہ كيا گيا ہے _

ليكن اگر ہم اس نكتے كى طرف تو جہ ديں تو ہو سكتا ہے مذكورہ سوال كا جواب واضح ہو جا ئے كہ خداوندعالم بہت سى علمى نعمتيں اورعنا يا ت; گناہ سے پر ہيز اور سر كش ہوا وہوس كے مقابلے ميں استقامت كى وجہ سے بخشتا ہے دوسرے لفظوں ميں يہ نعمات كہ جو دل كى نورا نيت كا ثمر ہ ہيں ، ايك انعام ہيں كہ جو خدا اس قسم كے اشخاص كو بخشتا ہے _

''ابن سيرين'' تعبير خواب جاننے ميں بڑے مشہور ہيں انكے حالات ميں لكھا ہے كہ وہ كپڑا بيچا كرتے تھے اور بہت ہى خوبصورت تھے ايك عورت انہيں اپنا دل دے بيٹھى بڑے حيلے بہانے كر كے انہيں اپنے گھر ميں لے گئي اور دروازے بند كر لئے ، ليكن انہوں نے عورت كى ہوس كے سامنے سر تسليم خم نہ كيا اور مسلسل اس عظيم گناہ كے مفا سد اس كے سا منے بيان كرتے رہے ليكن اس عورت كى ہو س كى آگ اس قدر سر كش تھى كہ وعظ و نصيحت كا پانى اسے نہيں بجھا سكتا تھا _

''ابن سيرين'' كو اس چنگل سے نجات پانے كے لئے ايك تد بير سو جھى وہ اٹھے اور اپنے بدن كو اس گھر ميں مو جود گند ى چيزوں سے اس طرح كثيف ،آلودہ اور نفرت انگيز كر ليا كہ جب عورت نے يہ منظر ديكھا توان سے متنفر ہو گئي اور انہيں گھر سے باہر نكال ديا _

كہتے ہيں اس واقعے كے بعد ابن سير ين كو تعبير خواب كے بارے ميں بہت فراست نصيب ہو ئي اور ان كى تعبير سے متعلق كتابوں ميں عجيب وغريب واقعات لكھے ہو ئے ہيں كہ جو اس سلسلے ميں ان كى گہرى معلومات كى خبر ديتے ہيں _اس بنا ء پر ممكن ہے كہ يہ خا ص علم وآگاہى حضرت يو سف كو عزيز مصر كى بيوى كى انتہائي قوت جزب كے مقا بلے ميں نفس پر كنڑول ركھنے كى بنا ء پر حاصل ہو ئي ہو _

جى ہاں : انہوں نے بہت سى چيزيں اس شور وغل كے ماحول ميں سيكھيں ان كے دل ميں ہميشہ غم

۱۹۰

واندوہ كا ايك طوفان مو جز ن ہو تا تھا كيو نكہ ان حالات ميں وہ كچھ نہيں كر سكتے تھے ،اس دور ميں وہ مسلسل خود سازى اور تہذيب نفس ميں مشغول تھے _

قرآن كہتا ہے :'' جب وہ بلوغ اور جسم وروح كے تكامل كے مرحلے ميں پہنچا اور انوار وحى قبول كرنے كے قابل ہو گيا ، تو ہم نے اسے حكم (نبوت)اور علم ديا_''( ۱)

عزيز مصر كى بيوى كا عشق سوزاں

حضرت يوسف(ع) نے اپنے خو بصورت ، پر كشش اور ملكو تى چہرے سے نہ صرف عزيز مصر كو اپنى طرف جذب كرليا بلكہ عزيز كى بيوى بھى بہت جلد آپ كى گرويدہ ہو گئي آ پ كا عشق اس كى روح كى گہرائيوں ميں اتر گيا جو ں جوں وقت گزر تا گيا اس كے عشق كى حدت ميں اضافہ ہو تا چلا گيا ليكن يو سف كہ جو پاكيز ہ اور پرہيزگا ر انسا ن تھے انہيں خدا كے علاوہ كسى كى كو ئي فكر اور سو چ نہ تھى ان كے دل نے عشق سو زاں كو اور بھڑكا ديا

ايك تو اسے اولاد ہو نے كا ارمان تھا ،دوسرا اس كى رنگينيوں سے بھر پور اشراف كى زند گى تھى ، تيسرا داخلى زندگى ميں اسے كو ئي پريشانى اور مسئلہ نہ تھا جيسا كہ اشراف اور نا زو نعمت ميں پلنے والوں كى زندگى ہو تى ہے اور چوتھا در بار مصر ميں كسى قسم كى كو ئي پا بندى اور قدغن نہ تھى ان حالات ميں وہ عورت كہ جوايمان و تقوى سے بھى بے بہر ہ تھى شيطا نى وسوسوں كى مو جوں ميں غوطہ زن ہو گئي يہا ں تك كہ اس نے ارادہ كر ليا كہ اپنے دل كا راز يوسف سے بيان كرے اور اپنے دل كى تمنا ان سے پورا كر نے كا تقاضا كرے _

اپنے مقصد كے حصول كى خاطر اس نے ہر ذر يعہ اور ہر طورطريقہ اختيار كيا اور بڑى خواہش كے ساتھ كو شش كى كہ ان كے دل كو متا ثر كرے جيسا كہ قرآن كہتا ہے :''جس عورت كے گھر يو سف تھے اس نے اپنى آرزو پو رى كرنے كے لئے پيہم ان سے تقاضا كيا _''(۲)

آخر كار جو آخرى راستہ اسے نظر آيايہ تھا كہ ايك دن انھيں تنہا اپنى خلوت گاہ ميں پھنسالے اور ان

____________________

(۱)سورہ يوسف آيت ۲۲

(۲)سورہ يوسف آيت ۲۳

۱۹۱

كے جذبات ابھارنے كے لئے تمام وسائل سے كام لے جاذب تر ين لباس پہنے ، بہتر ين بنائوسنگھار كرے بہت مہك دارعطر لگا ئے اور اس طرح سے آرائش وزيبائش كرے كہ يو سف جيسے قوى انسان كو گھٹنے ٹيكنے پر مجبور كردے _

قرآن كہتا ہے :'' اس نے سارے دروازوں كو اچھى طرح بند كر ليا اور كہا آئو ميں تمہارے لئے حاضر ہوں ''(۱)

زليخا نے ساتوں دروازے بند كر دئے

اس نے تمام دروازے مضبوطى سے بند كئے اس سے ظاہر ہو تا ہے كہ وہ يو سف كو محل كى ايسى جگہ پرلے گئي كہ جہاں كمرے بنے ہوئے تھے اور جيسا كہ بعض روايات ميں آيا ہے اس نے سات درواز ے بند كئے تا كہ يو سف كے لئے فرار كى كو ئي راہ باقى نہ رہے _

علاوہ ازيں شايد وہ اس طرح حضرت يو سف كو سمجھا نا چاہتى تھى كہ وہ راز فاش ہو نے سے پريشان نہ ہوں كيو نكہ ان بنددروازوں كے ہو تے ہوئے كسى شخص كے بس ميں نہيں كہ وہ اندرآسكے _

جب حضرت يو سف (ع) نے ديكھا كہ تمام حالات لغزش وگناہ كى حما يت ميں ہيں اور ان كے لئے كوئي راستہ باقى نہيں رہ گيا تو انہوں نے زليخا كو بس يہ جواب ديا :''ميں خداسے پناہ ما نگتا ہوں ''_(۲)

اس طرح حضرت يو سف نے زوجہء عزيز كى خواہش كو قطعى وحتمى طور پر رد ّكرديا اور اسے سمجھاياكہ وہ ہر گز اس كے سامنے سر تسليم خم نہيں كر يں گے آپ نے ضمناً اسے اور تمام افراد كو يہ حقيقت سمجھا دى كہ ايسے سخت اور بحرانى حالات ميں شيطا نى وسو سو ں اور ان سے كہ جو شيطانى اخلاق وعادات ركھتے ہيں نجات كيلئے ايك ہى راستہ ہے اور وہ يہ كہ خدا كى طرف پناہ لى جائے ،وہ خدا جس كے لئے خلوت اور بزم ايك سى ہے اور جس كے ارادے كے سامنے كوئي چيز نہيں ٹھہر سكتى _

____________________

(۱)سورہ يوسف آيت۲۳

(۲)سورہ يوسف آيت ۲۳

۱۹۲

اس مختصر سے جملے سے انہوں نے عقيدے اور عمل كے لحاظ سے خدا كى وحدا نيت كا اعتراف كيا اس كے بعد مزيد كہا كہ ''تمام چيزوں سے قطع نظر ميں اس خواہش كے سامنے كس طرح سے سرتسليم خم كرلوں جبكہ ميں عزيز مصر كے گھرميں رہتا ہوں اس كے دستر خوان پر ہوں او ر اس نے مجھے بہت احترام سے ركھا ہوا ہے''_(۱)

''كيا يہ واضح ظلم اور خيانت نہ ہوگى يقيناستمگار فلاح نہيں پائيں گے_''(۲)

حضرت يوسف(ع) كے دل ميں ايك طوفان

يہاں يو سف اور زوجہ عزيز كا معا ملہ نہايت باريك مر حلے اور انتہائي حساس كيفيت تك پہنچ جاتا ہے جس كے متعلق قرآن بہت معنى خيز انداز ميں گفتگو كرتا ہے :'' عزيز مصر كى بيوى نے اس كا قصد كيا اور اگر يوسف بھى بر ہان پر ور دگار نہ ديكھتا تو ايسا ارادہ كرليتا _''(۳)(۴)

اس جگہ ايك بت تھا كہ جو زوجہ عزيز كا معبود شما ر ہو تا تھا اچا نك اس عورت كى نگاہ اس بت پر پڑى اسے يوں محسوس ہوا جيسے وہ اسے گھور رہا ہے اور اس كى خيانت آميز حركات كو غيض وغضب كى نگاہ سے ديكھ رہا ہے وہ اٹھى اور اس بت پر كپڑا ڈال ديا يو سف نے يہ منظر ديكھا تو ان كے دل ميں ايك طوفان اٹھ كھڑا ہو،ا وروہ لرز گئے اور كہنے لگے:

تو تو ايك بے عقل ،بے شعور ،بے حس ، وبے تشخيص عارى بت سے شرم كر تى ہے ،كيسے ممكن ہے كہ ميں اپنے پروردگار سے شرم نہ كروں جو تمام چيزوں كو جا نتا ہے اور تمام مخفى امور اور خلوت گا ہوں سے با خبر ہے_

____________________

(۱)(۲)سورہ يوسف آيت ۲۳

(۳)سورہ يوسف آيت ۲۴

(۴)اس جملہ كے بارے ميں بہت زيادہ اختلاف ہے ،اسى طرح وہ برہان پروردگار جس كے ذريعہ سے جناب يوسف بچ گئے ،كے بارے ميں اختلاف ہےرجوع كريں تفسير نمونہ ج۵/۴۱۳

۱۹۳

اس احساس نے يو سف كو ايك نئي توانائي اور قوت بخشى اور شديد جنگ كہ جوان كى روح كى گہرائيوں ميں جذ بات اور عقل كے درميان جارى تھى اس ميں ان كى مدد كى تاكہ وہ جذ بات كى سر كش موجوں كو پيچھے ڈھكيل سكيں _(۱)

قران مجيد كہتا ہے :ہم نے يوسف (ع) كو اپنى ايسى برہان پيش كى تاكہ بدى اور فحشاء كو اس سے دور كريں ،كيونكہ وہ ہمارے بر گزيدہ اور مخلص بندوں ميں سے تھا_(۲) يہ اس طرف اشارہ ہے كہ ہم نے جو اس كے لئے غيبى اور روحا نى مدد بھيجى تا كہ وہ بدى اور گناہ سے رہائي پا ئے ،تو يہ بے دليل نہيں تھا وہ ايك ايسا بند ہ تھا جس نے اپنے آپ كومعرفت، ايمان پرہيز گارى اور پاكيز ہ عمل سے آراستہ كيا ہوا تھا اور اس كا قلب وروح شرك كى تاريكيوں سے پاك اور خالص تھا اسى لئے وہ ايسى خدائي امدا د كى اہليت وليا قت ركھتا تھا_ اس دليل كا ذكر نشاندہى كرتا ہے كہ ايسى خدائي امداد جو طغيانى وبحرانى لمحات ميں يوسف جيسے نبى كو ميسر آئي تھى ان سے مخصوص نہ تھى بلكہ جو شخص بھى خدا كے خالص بندوں اور ''عباد اللہ المخلصين'' كے زمرے ميں آتا ہو ايسى نعمات كے لائق ہے_(۳)

____________________

(۱)وہ بے بنيا د روايات جو مفسرين نے نقل كى ہے كہ جن كے مطابق حضرت يوسف نے گناہ كا ارادہ كر ليا تھا اچانك حالت مكاشفہ ميں جبرئيل يا حضرت يعقوب (ع) كو ديكھا جو اپنى انگلى دانتوں سے كاٹ رہے تھے انھيں ديكھا تو يوسف پيچھے ہٹ گئے، ايسى روايات كى كوئي معتبر سند نہيں ہے،يہ اسرائيليات كى طرح ہيں اور كوتاہ فكر انسانوں كے دماغوں كى پيدا وار ہيں جنھوں نے مقام انبياء كو بالكل نہيں سمجھا_

(۲)سورہ يوسف ايت ۲۴

(۳)متين و پاكيزہ كلام :قران كے عجيب و غريب پہلوو ں ميں سے ايك يہ بھى ہے كہ جو اعجاز كى ايك نشانى ہے بھى ہے،يہ ہے كہ اس ميں كوئي چھپنے والى ،ركيك،ناموزوں ،متبذل اور عفت و پاكيزگى سے عارى تعبير نہيں ہے اور كسى عام ،ان پڑھ جہالت كے ماحول ميں پرورش پانے والے كا كلام طرز كا نہيں ہو سكتا كيونكہ ہر شخص كى باتيں اس كے افكار اور ماحول سے ہم اہنگ ہوتى ہيں قران كى بيان كردہ تمام داستانوں ميں ايك حقيقى عشقيہ داستان موجود ہے اور يہ حضرت يوسف اور عزيز مصر كى بيوى كى داستان ہے _ ايك خوبصورت اور ہوس الود عورت كے ايك زيرك اور پاك دل نوجوان سے شعلہ ور عشق كى داستان ہے _ كہنے والے اور لكھنے والے جب ايسے مناظر تك پہنچتے ہيں تو وہ مجبور ہو جاتے ہيں كہ يا تو ہيرو اور اس واقعے كے اصلى مناظر كى تصوير كشى كے لئے قلم كھلا چھوڑ ديں اور بزبان اصطلاح حق سخن ادا كرديں اگر چہ اس ميں ہزار ہا تحريك اميز چبھنے والے اور غير اخلاقى لفظ اجائيں _ يا وہ مجبور ہو جاتے ہيں كہ زبان و قلم كى نزاكت و عفت كى حفاظت كے لئے كچھ مناظر كو پردہ ابہام ميں لپيٹ ديں اور سامعين و قارئين كو سر بستہ طورپر بات بتائيں _ كہنے والا اور لكھنے والا كتنى بھى مہارت ركھتا ہو اكثر اوقات ان ميں سے كسى ايك مشكل سے دوچار ہو جاتاہے _ كيا يہ باور كيا سكتا ہے كہ ايك ان پڑھ شخص ايسے شور ا نگيز عشق كے نہايت حساس لمحات كى دقيق اور مكمل تصورى كشى بھى كرے ليكن بغير اس كے كہ اس ميں معمولى سى تحريك اميز اور عفت سے عارى تعبير استعمال ہو _ ليكن قراان اس داستان كے حسا س ترين مناظر كى تصوير كشى شگفتہ انداز ميں متانت و عفت كے ساتھ كرتا ہے ،بغير اس كے كہ اس ميں كوئي واقعہ چھوٹ جائے اور اظہار عجز ہو جب كہ تمام اصول اخلاق و پاكيزگى بيان بھى ہے _ ہم جانتے ہيں كہ اس داستان كے تمام مناظر ميں سے زيادہ حساس ''خلوت گاہ عشق''كا ماجرا ہے جسے زوجہ عزيز مصر كى بيقرارى اور ہوا و ہوس نے وجود بخشا _ قران اس واقعے كى وضاحت ميں تمام كہنے كى باتيں بھى كہہ گيا ہے ليكن پاكيزہ اور عفت كے اصول سے ہٹ كر اس نے تھوڑى سے بات بھى نہيں كي.

۱۹۴

زوجہ عزيز مصر كى رسوائي

يوسف كى انہتا ئي استقامت نے زوجہء عزيز كوتقريبا'' مايوس كرديا يوسف اس معر كہ ميں اس نا زوا دا والى اور سر كش ہوا وہو س والى عورت كے مقابلے ميں كا مياب ہو گئے تھے انہوں نے محسوس كيا كہ اس لغزش گا ہ ميں مزيد ٹھہر نا خطر ناك ہے انہوں نے اس محل سے نكل جانے كا ارادہ كيا لہذا وہ تيزى سے قصر كے دروازے كى طرف بھا گے تاكہ دروازہ كھول كر نكل جائيں زوجہ ء عزيزبھى بے اعتنا نہ رہى وہ بھى يوسف كے پيچھے دروازے كى طرف بھاگى تا كہ يوسف كو باہر نكلنے سے روكے اس نے اس مقصد كے لئے يوسف كى قميص پيچھے سے پكڑلى اور اسے اپنى طرف كھينچا اس طرح سے كہ قميص پيچھے سے لمبائي كے رخ پھٹ گئي _''(۱) ليكن جس طرح بھى ہوا يوسف درواز ے تك پہنچ گئے اور در وازہ كھول ليا اچانك عزيز مصر كو دروازے كے پيچھے ديكھاجيسا كہ قرآن كہتا ہے:''ان دونوں نے اس عورت كے آقا كو دروازے پر پايا_''(۲) اب جبكہ زوجہ عزيز نے ايك طرف اپنے كورسوائي كے آستا نے پر ديكھا اور دوسرى طر ف انتقام كى آگ اس كى روح ميں بھڑك اٹھى تو پہلى بات جو اسے سو جھى يہ تھى كہ اس نے اپنے آپ كو حق بجا نب ظاہر كرتے ہو ئے اپنے شو ہر كى طرف رخ كيا اور يوسف پر تہمت لگائي:اس نے پكا ر كر كہا : ''جو شخض تيرى اہليہ سے خيا نت كا ارادہ كرے اس كى سزا زندان يا در د نا ك عذاب كے سوا اوركيا ہو سكتى ہے_ ''(۳)

يہ امر قابل توجہ ہے كہ اس خيانت كار عورت نے جب تك اپنے آپ كو رسوائي كے آستا نے پر نہيں ديكھا تھا ، بھول چكى تھى كہ وہ عزيز مصر كى بيوى ہے ليكن اس مو قع پر اس نے ''اہلك ''(تيرى گھر والى ) كا لفظ استعمال كركے عزيز كى غيرت كو ابھارا كہ ميں تيرے سا تھ مخصوص ہو ں لہذا كسى دوسرے كو ميرى طرف حرص كى آنكھ سے نہيں ديكھنا چاہئے_

دوسرا قابل توجہ نكتہ يہ ہے كہ عزيز مصر كى بيوى نے يہ ہر گز نہيں كہا كہ يوسف ميرے بارے ميں برا ارادہ ركھتا تھا بلكہ عزيز مصر سے اس كى سزا كے بارے ميں بات كى اس طرح سے كہ اصل مسئلہ مسلم ہے اور بات صرف اس كى سزا كے بارے ميں ہے ايسے لمحے ميں جب وہ عورت اپنے آپ كو بھول چكى تھى اس كى يہ جچى تلى گفتگو اس كى انتہائي حيلہ گرى كى نشانى ہے _

____________________

(۱)سورہ يوسف آيت ۲۵ (۲)سورہ يوسف آيت ۲۵ (۳) سورہ يوسف آيت ۲۵

۱۹۵

پھر يہ كہ پہلے وہ قيد خانے كے بارے ميں بات كرتى ہے اور بعد ميں گو يا وہ قيد پر بھى مطمئن نہيں ہے ايك قدم اور آگے بڑھا تى ہے اور ''عذاب اليم ''كا ذكر كر تى ہے كہ جو سخت جسما نى سزا اور قتل تك بھى ہو سكتى ہے _

اس مقام پر حضرت يوسف نے خا مو شى كو كسى طور پر جائز نہ سمجھا اور صرا حت سے زوجہ عزيز مصر كے عشق سے پر دہ اٹھا يا انہوں نے كہا : ''اس نے مجھے اصرار اور التما س سے اپنى طرف دعوت دى تھي_''(۱)

واضح ہے اس قسم كے موقع پر ہر شخص ابتدا ء ميں بڑى مشكل سے يہ باور كر سكتا ہے كہ ايك نو خيز جوان غلام كہ جو شادى شدہ نہيں ،بے گنا ہ ہو اور ايك شوہر دارعو رت كہ جو ظاہر ا ًباوقار ہے گنہگار ہو ،اس بنا ء پرزيادہ الزام زوجہ عزيز كى نسبت يوسف كے دامن پر لگتا تھا _

شاہد گواہى ديتا ہے

ليكن چو نكہ خدا نيك اور پاك افراد كا حامى ومدد گار ہے وہ اجا زت نہيں ديتا كہ يہ نيك اور پار سا مجا ہد نو جوان تہمت كے شعلو ں كى لپيٹ ميں آئے، لہذا قرآن كہتا ہے: اس مو قع اس عورت كے اہل خاندان ميں سے ايك گواہ نے گواہى دى كہ اصلى مجرم كى پہچان كے لئے اس واضح دليل سے استفادہ كيا جا ئے كہ اگر يوسف كا كر تہ آگے كى طرف سے پھٹا ہے تو وہ عورت سچ كہتى ہے اور يوسف جھو ٹا ہے '' اور اگر اس كا كرتہ پيچھے سے پھٹا ہے تو وہ عورت جھوٹى اور يوسف سچا ہے _''(۲)

اس سے زيا دہ مضبوط دليل اور كيا ہو گى ،كيو نكہ زوجہ عزيز كى طرف سے تقا ضا تھا تو وہ يوسف كے پيچھے دو ڑى ہے اور يوسف اس سے بھا گ رہے تھے كہ وہ ان كے كر تے سے لپٹى ہے ، تو يقينا وہ پيچھے سے پھٹا ہے اور اگر يوسف نے عزيز كى بيوى پر حملہ كيا ہے اور وہ بھا گى ہے يا سا منے سے اپنا دفاع كيا ہے تو يقينا يوسف كا كر تہ آگے سے پھٹا ہے ،يہ امر كس قدر جاذب نظر ہے كہ كر تہ پھٹنے كا سا دہ سا مسئلہ بے گناہى كا تعين كرديتا

____________________

(۱) سورہ يوسف آيت ۲۶

(۲)سورہ يوسف آيت ۲۷

۱۹۶

ہے ،يہى چھوٹى سى چيز ان كى پاكيز گى كى سند اور مجرم كى رسوائي كا سبب ہو گئي _

عزيز مصر نے يہ فيصلہ كہ جو بہت ہى جچا تلا تھا بہت پسند كيا يوسف كى قميص كو غور سے ديكھا ''اور جب اس نے ديكھا كہ ان كى قميص پيچھے سے پھٹى ہے ( خصوصا اس طرف تو جہ كر تے ہو ئے كہ اس دن تك اس نے كبھى يوسف سے كو ئي جھو ٹ نہيں سنا تھا )

اس نے اپنى بيوى كى طرف رخ كيا اور كہا :

''يہ كام تم عو ر توں كے مكر و فريب ميں سے ہے ، بے شك تم عورتوں كا مكر وفريب عظيم ہے_ ''(۱)

اس وقت عزيز كو خو ف ہوا كہ يہ رسو اكن واقعہ ظاہر نہ ہو جا ئے اور مصر ميں اس كى آبرو نہ جا تى رہے اس نے بہتر سمجھا كہ معا ملے كو سميٹ كر دبا ديا جا ئے اس نے يوسف كى طرف رخ كيا اور كہا :

'' اے يوسف تم صر ف نظر كر و اور اس واقعے كے بارے ميں كو ئي با ت نہ كہو''( ۲)

پھر اس نے بيوى كى جا نب رخ كيا اور كہا :''تم بھى اپنے گناہ سے استغفار كرو كہ تم خطا كا روں ميں سے تھي''(۳)

شاہد كون تھا ؟

شاہد كون تھا كہ جس نے يوسف اور عزيز مصر كى فائل اتنى جلد ى درست كر دى اور مہرلگادى اور بے گناہ كو، گہنگار سے الگ كر دكھا يا،اس بارے ميں مفسر ين كے درميان اختلاف ہے _

بعض نے كہا ہے كہ وہ عزيز مصر كى بيوى كے رشتہ داروں ميں سے تھا اور قاعد تاً ايك حكيم ، دانش مند اور سمجھدار شخص تھا ، اس واقعے ميں كہ جس كا كو ئي عينى شا ہد نہ تھا اس نے شگا ف پيرا ہن سے حقيقت معلو م كرلي، كہتے ہيں كہ يہ شخص عزيز مصر كے مشيروں ميں سے تھا اور اس وقت اس كے ساتھ تھا _

____________________

(۱)سورہ يوسف آيت ۲۸

(۲) سورہ يوسف آيت۲۹

(۳)سورہ يوسف آيت۲۹

(۴) لفظ (من اهلها ) اس پر گواہ ہے _سورہ يوسف ايت ۲۶

۱۹۷

دوسرى تفسير يہ ہے كہ وہ شير خوار بچہ تھا يہ بچہ عزيز مصر كى بيوى كے رشتہ داروں ميں سے تھا اس وقت يہ بچہ وہيں قريب تھا يوسف نے عزيز سے خواہش كى اس سے فيصلہ كروا لو، عزيزكو پہلے تو بہت تعجب ہوا كہ كيا ايسا ہو سكتا ہے ليكن جب وہ شير خوار حضرت عيسى كى طرح گہوارے ميں بول اٹھا اور اس نے گنہگا ر كو بے گنا ہ سے الگ كر كے معيار بتا يا تو وہ متوجہ ہوا كہ يوسف ايك غلام نہيں بلكہ نبى ہے يا نبى جيسا ہے _(۱)

زوجہ عزيز مصر كى ايك اور سازش

زوجہ عزيز كے اظہا ر عشق كا معاملہ مذ كورہ داستان ميں اگر چہ خاص لوگوں تك تھا اور خود عزيز نے بھى اسے چھپا نے كى تاكيد كى تھى تاہم ايسى باتيں چھپا ئے نہيں چھپتيں خصوصاً بادشا ہوں اور اہل دولت واقتدار كے تو محلوں كى ديوار يں بھى سنتى ہيں بہر حال آخر كا ر يہ راز قصر سے باہر نكل گيا اور جيسا كہ قرآن كہتا ہے شہر كى كچھ عور تيں اس بارے ميں ايك دوسرے سے باتيں كرتى تھيں اور اس بات كا چر چا كر تى تھيں '' كہ عزيز كى بيوى نے اپنے غلام سے راہ ورسم پيدا كر لى ہے اور اسے اپنى طرف دعوت ديتى ہے''(۲) ''اور غلام كا عشق تو اس كے دل كى گہرائيوں ميں اتر گيا ہے''(۳)

پھر وہ يہ كہہ كر اس پر تنقيد كر تيں كہ ''ہمارى نظر ميں تو وہ واضح گمراہى ميں ہے ''(۴)

واضح ہے كہ ايسى باتيں كرنے والى مصر كے طبق ہ امر ا ء كى عور تيں تھيں جن كے لئے فرعونيوں اورمستكبرين كے محلات كى گھٹيا كہا نياں بہت دلچسپ ہو تى تھيں اور وہ ہميشہ ان كى ٹوہ ميں لگى رہتى تھيں _

اشراف كى يہ عور تيں كہ جو خود بھى زوجہ عزيز كى نسبت ہو س رانى ميں كسى طرح كم نہ تھيں ان كى چو نكہ يوسف تك رسائي نہيں تھى لہذا بقو لے ''جانماز آب مى كشيد ند ''مكر وفريب ميں لگى ہو ئي تھيں اور زوجہ ء عزيز كو

____________________

(۱)حضرت امام صاد ق عليہ السلام سے ايك روايت منقول ہے :

''شہادت دينے والا گہوارہ ميں ايك چھوٹا بچہ تھا''ليكن توجہ رہے كہ اس حديث كى كوئي محكم سند نہيں ہے

(۲)سورہ يوسف آيت ۳۰

(۳ )سورہ يوسف آيت۳۰

(۴)سورہ يوسف ۳۰

۱۹۸

اس كے عشق پر واضح گمراہى ميں قرار ديتى تھيں ، يہاں تك كہ بعض مفسرين نے يہ احتمال بھى ذكر كيا ہے كہ يہ رازبعض زنان مصر نے ايك سا زش كے تحت پھيلا يا وہ چا ہتى تھيں كہ زوجہ ء عزيز مصر اپنى بے گنا ہى ثابت كرنے كے لئے انہيں اپنے محل ميں دعوت دے تاكہ وہ خود وہاں يوسف كو ديكھ سكيں ان كا خيا ل تھا كہ وہ يوسف كے سامنے ہوں تو ہو سكتا ہے اس كى نظر ان كى طرف مائل ہو جا ئے كہ جو شايد زوجہ عزيز مصر سے بھى بڑھ كر حسين تھيں اور پھر يوسف كے لئے ان كا جمال بھى نيا تھا اور پھر يوسف كے لئے عزيز كى بيوى ما ں يا مولى يا ولى نعمت كا مقام ركھتى تھى اور ايسى كو ئي صورت ان كے لئے نہ تھى لہذا وہ سمجھتى تھيں كہ زوجہ عزيز كى نسبت ان كے اثر كا احتمال زيادہ ہے _

يہ نكتہ بھى قابل تو جہ ہے كہ كس شخص نے يہ راز فاش كيا تھا ، زوجہ ء عزيز تو يہ رسوا ئي ہر گز گوارا نہ كر تى تھى اور عزيز نے تو خود اسے چھپا نے كى تاكيد كى تھى رہ گيا وہ حكيم ودانا كہ جس نے اس كا فيصلہ كيا تھا ، اس سے تو ويسے ہى يہ كا م بعيدنظر آتا ہے بہر حال جيسا كہ ہم نے كہا كہ خرابيوں سے پُران محلات ميں ايسى كوئي چيز نہيں كہ جسے مخفى ركھا جا سكے اور آخر كا ر ہر بات نا معلوم افراد كى زبانوں سے درباريوں تك اور ان سے باہر كى طرف پہنچ جاتى ہے اور يہ فطرى امر ہے كہ لو گ اسے زيب داستان كے لئے اور بڑھا چڑھا كر دوسروں تك پہنچا تے ہيں _

جنا ب يوسف(ع) كے پاس مصر كی عور تيں

''زوجہ عزيز كومصر كى حيلہ گر عورتوں كے بارے ميں پتہ چلا تو پہلے وہ پريشان ہو ئي پھر اسے ايك تدبير سو جھى اس نے انہيں ايك دعوت پر مد عو كيا فر ش سجايا اور قيمتى گا ئو تكئے لگا ديئے وہ آبيٹھيں تو ہر ايك كے ہاتھ ميں پھل كا ٹنے كے لئے چھرى تھمادي''_(۱) (يہ چھر يا ں پھل كا ٹنے كى ضرورت سے زيادہ تيز تھيں )

يہ كا م خود اس امر كى دليل ہے كہ وہ اپنے شوہر كى پرواہ نہ كر تى تھى اور گزشتہ رسوائي سے اس نے كوئي سبق نہ سيكھا تھا _

____________________

(۱)سورہ يوسف ۳۱

۱۹۹

اس كے بعد اس نے يوسف كو حكم ديا كہ'' اس مجلس ميں داخل ہو تا''_(۱)

كہ تنقيد كرنے والى عورتيں اس كے حسن وجمال كو ديكھ كر اسے اس كے عشق پر ملامت نہ كريں ''_(۲)

زوجہ عزيز نے حضرت يوسف كو كہيں باہر نہيں بٹھا ركھا تھا بلكہ اندر كے كسى كمرے ميں كہ غالبا جہاں غذا اور پھل ركھا گيا تھا مشغول ركھا تھا تا كہ وہ محفل ميں داخل ہو نے والے درواز ے سے نہ آئيں بلكہ با لكل غير متو قع طور پر اور اچا نك آئيں _

مصر كى عورتوں نے اپنے ہاتھ كا ٹ لئے

زنان مصر جو بعض روايات كے مطا بق دس يا اس سے زيادہ تھيں جب انہوں نے زيبا قا مت اور نورانى چہرہ ديكھا اور ان كى نظر يوسف كے دلربا چہر ے پر پڑى تو انہيں يوں لگا جيسے اس محل ميں آفتاب اچا نك بادلوں كى اوٹ سے نكل آيا ہے اور آنكھو ں كو خير ہ كر رہا ہے_

وہ اس قدر حيران اور دم بخود ہوئيں كہ انھيں ہاتھ اور پائو ں ميں اور ہاتھ اور تر نج بين ميں فرق بھول گئيں انہوں نے يوسف كو ديكھتے ہى كہا يہ تو غير معمولى ہے، وہ خود سے قدر بے خود ہوئيں كہ ( ترنج بين كى بجائے ) اپنے ہاتھ كا ٹ لئے اور جب انہوں نے ديكھا كہ ان كى دلكش آنكھوں ميں تو عفت وحيا كا نورضو فشاں ہے اور ان كے معصوم رخسار شر م وحيا سے گلگوں ہيں تو ''سب پكار اٹھيں كہ نہيں يہ جوان ہر گز گناہ سے آلودہ نہيں ہے يہ تو كوئي بزرگوارآسمانى فرشتہ ہے''(۳)(۴)

____________________

(۱)سورہ يوسف ۳۱

(۲)سورہ يوسف ۳۱

(۳)سورہ يوسف آيت ۳۱

(۴)اس بارے ميں كہ زنان مصر نے اس وقت اپنے ہاتھوں كى كتنى مقدار كاٹى تھى ،مفسرين كے درميان اختلاف ہے بعض نے يہ بات مبالغہ اميز طورپر نقل كى ہے ليكن قران سے اجمالاً يہى معلوم ہوتا ہے كہ انھوں نے ہاتھ كاٹ لئے تھے

۲۰۰