قصص القرآن-منتخب از تفسير نمونه

قصص القرآن-منتخب از تفسير نمونه   8%

قصص القرآن-منتخب از تفسير نمونه   مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 667

قصص القرآن-منتخب از تفسير نمونه
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 667 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 335789 / ڈاؤنلوڈ: 6152
سائز سائز سائز
قصص القرآن-منتخب از تفسير نمونه

قصص القرآن-منتخب از تفسير نمونه

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

مسلمان تاریخ نویسوں کی نظر میں عبدالله بن سبا کی داستان

۱ سید رشید رضا(۱)

متاخرین میں سے سید رشید رضا نے یوں کہاہے :

” چوتھے خلیفہ علی ابن ابیطالب علیہ السلام کے نام پر شیعیت ، امت محمدی میں دینی اور سیاسی اختلاف کا آغاز تھا ، پہلا شخص جس نے تشیع کے اصول گڑھے ہیں ، وہ عبد الله بن سبا نامی ایک یہودی تھا جس نے مکر و فریب کی بنا پر اسلام کا اظہار کیا تھا ۔ وہ لوگوں کو علی علیہ السلام کے بارے میں غلو کرنے کی دعوت دیتا تھا تا کہ اس طرح امت میں اختلاف اور تفرقہ پھیلا کر اسے تباہ و برباد کرے(۲)

سید رشید رضا اس داستان کو اپنی کتاب کے چھٹے صفحہ تک جاری رکھتے ہوئے اس پر اپنا خاطر خواہ حاشیہ لگایا ہے ، جب ہم اس سے اس خیالی داستان کے ثبوت اور مصادر کے بارے میں پوچھتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ داستان کو نقل کرنے کے بعد یوں لکھاہے :

” اگر کوئی تاریخ ابن اثیر کی تیسری جلد کے صفحہ ۹۵ ۔ ۱۰۳ پر جنگ جمل کے واقعہ کی

____________________

۱۔ متولد ۱۳۶۵ھ

۲۔ سید رشید رضا کی الشیعہ و السنة ،ص ۶۔۴۔

۴۱

خبر کا مطالعہ کرے تو اسے بخوبی معلوم ہوگا کہ ” سبائیوں “ نے کس حد تک اختلاف اندازی کی ہے اور نہایت ذہانت اور چالاکی سے اپنی مہارت کا اظہار کیا ہے اور صلح کی راہ میں کتنی روکاوٹیں ڈالی ہیں ، اس بنا پر معلوم ہوتا ہے کہ سید رشید رضا نے اس داستان کو ” تاریخ ابن اثیر “ پر بھروسہ کرکے نقل کیا ہے ۔

۲ ابو الفدء

ابو الفداء جس نے ۷۳۲ ھ میں وفات پائی ہے ، ” المختصر “ نامی اپنی تاریخ میں چند دوسری غیر صحیح داستانوں کے ساتھ ضمیمہ کرکے اپنی کتاب کے دیباچہ میں اس داستان کے ایک حصہ کو یوں لکھا ہے :

” میں نے اس کتاب کو شیخ عز الدین علی معروف بہ ابن اثیر جزری کی تالیف ’ ’ تاریخ کامل “ سے لیا ہے اور ابن اثیر کے مطالب کو خلاصہ کے طورپرمیں نے اپنی اِس کتاب میں درج کیا ہے “

۳ ابن اثیر

ابن اثیر وفات ۶۳۰ ھ ئنے اس داستان کو ۳۰ ۔ ۳۶ ء کے حوادث کے ضمن میں مکمل طور پر نقل کیا ہے، لیکن اس بات کی طرف کسی قسم کا اشارہ نہیں کیا ہے کہ اس نے اس داستان کو کس مآخذ سے نقل کیا ہے ، صرف کتاب کے دیباجہ میں(۱)

____________________

۱۔ صفحہ ۵ ،طبع مصر ۱۳۴۸ھ ۔

۴۲

جس کا پورا نام ” الکامل فی التاریخ “ ذکر کیا ہے لکھا ہے :

” میں نے اس کتاب کے مطالب کو ابتداء میں امام ابو جعفر محمد طبری کی تالیف ” تاریخ الامم و الملوک “ سے نقل کیا ہے ، کیونکہ وہ تنہا کتاب ہے جو عام لوگوں کی نظروں میں قابل اعتماد ہے اور اگر کبھی کوئی اختلاف پیدا ہوجائے تو اس اختلاف کو دور کرنے کیلئے اس کتاب کی طرف رجوع کیا جاتا ہے ، لہذا میں نے بھی اس کتاب کی روایتوں کو کسی دخل و تصرف کے بغیر من و عن نقل کیا ہے ، فرق صرف اتنا ہے کہ اس نے اکثر واقعات کے بارے میں متعد روایتیں ذکر کی ہیں لیکن میں نے ان تمام روایتوں کے مطالب کو جمع کرکے ایک جگہ بیان کیا ہے ، نتیجہ کے طور پر جو کچھ اس نے ایک واقعہ کے بارے میں نقل کیا ہے اور اسے مختلف مآخذ کے حوالہ سے بیان کیا ہے ، میں نے اُسے ایک روایت کی شکلمیں ذکر کیا ہے “

یہاں تک کہ کہتا ہے :

” لیکن اصحاب رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اختلافات کے بارے میں جو کچھ تھا اسے میں نے مذکورہ تاریخ سے من و عن نقل کرکے درج کیا ہے اور اس میں کسی قسم کا تصرف نہیں کیا ہے ، صرف مطالب کی وضاحت کی ہے یا اشخاص کے نام ذکر کئے ہیں اور یا خلاصہ کے طور پر ان کی تشریح اس طرح کی ہے کہ کسی صحابی کی بے احترامی نہ ہو“

اس لحاظ سے ابن اثیر، (جس سے ابو الفداء اور سید رشید رضا نے نقل کیا ہے)نے اس داستان کو تاریخ طبری سے نقل کیا ہے چونکہ یہ داستانیں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اصحاب کے درمیان رونما ہوئے حوادث کی تفصیلات سے مربوط جعل کی گئی ہیں ، لہذ اابن اثیر کے کہنے کے مطابق اس نے طبری کے نقل کردہ مطالب پر کسی چیز کا اضافہ نہیں کیا ہے ۔

۴ ابن کثیر

ابن کثیر ---(وفات ۷۷۴ ھ)نے بھی اس داستان کو اپنی تاریخ ” البدایة و النہایة “ کی ساتویں جلد میں طبری سے نقل کیا ہے اور اس کتاب کے صفحہ ۱۶۷ میں لکھاہے :

سیف بن عمر نے کہا ہے کہ عثمان کے خلافمختلف پارٹیوں کی بغاوت کا سبب یہ تھا کہ ” عبدا للہ بن سبا “ نامی ایک شخص نے ظاہری طور پر اسلام لانے کے بعد مصر میں جاکر خود کچھ عقائد اور تعلیمات گڑھ کر وہاں کے لوگوں میں ان عقائد کو پھیلای“

۴۳

اس کے بعد عبداللہ بن سبا نے مربوط داستانوں کو تمام خصوصیات کے ساتھ اپنی کتاب کے صفحہ نمبر ۲۴۶ تک نقل کرتا ہے اور اس کے بعد لکھتا ہے :

” یہ اس کا ایک خلاصہ ہے جو کچھ ابو جعفر بن جریر طبری نے نقل کیا ہے “۔

اس لئے معلوم ہوتا ہے کہ اس نے بھی مذکورہ داستان کو ” تاریخ طبری “ سے نقل کیا ہے ۔

۵ ابن خلدون

عبد الرحمان بن محمد بن خلدون نے بھی ” المبتداء و الخبر “ نامی اپنی تاریخ میں ابن اثیر اور ابن کثیر کے ہی طریقہ کار کو اپناتے ہوئے عبداللہ بن سبا کی داستان کو قتل عثمان اور جنگ جمل کے واقعہ میں ذکر کیا ہے پھر اسی کتاب کی جلد(۲) صفحہ ۴۲۵ میں جنگ جمل کا واقعہ درج کرنے کے بعد لکھا ہے :

یہ ہے جنگ جمل کا واقعہ جسے میں نے خلاصہ کے طور پر ابو جعفر طبری کی کتاب سے نقل کیا ہے، طبری اس لحاظ سے قابل اعتماد ہے کہ وہ باوثوق ہے اور اس کی کتاب ، ابن قتیبہ اور دوسرے مؤرخین کے یہاں موجود مطالب کی نسبت صحیح و سالم ہے “

اور صفحہ نمبر ۴۵۷ پر لکھاہے :

میں نے جو کچھ اس کتاب میں اسلامی خلافت کے موضوع، مرتدوں کے بارے میں فتوحات ، جنگوں اور اس کے بعد مسلمانوں کے اتحاد و اجتماع (امام حسن اور معاویہ کے درمیان صلح) کے بارے میں درج کیا ہے ، وہ سب امام ابو جعفر طبری کی عظیم تاریخ سے خلاصہ کے طور پر نقل کیا ہے ، چونکہ یہ تاریخ دیگر تواریخ کی نسبت قابل اعتمادہے اور ا سمیں ا یسے مطالب درج کرنے سے پرہیز کیا گیا ہے جو اس امت کے بزرگوں ، اصحاب اور تابعین کی بے احترامی کا سبب بنیں “

۴۴

۶ فرید وجدی

فرید وجدی نے بھی اپنے” دائرة المعارف “ میں لغت ” عثم “ ، جنگ جمل اور حضرت علی ابن ابیطالب علیہ السلام کے حالات بیان کرنے کے ضمن میں ان داستانوں میں سے بعض کا ذکر کیا ہے اور اسی کتاب کے صفحہ ۱۶۰ ، ۱۶۸ ، اور ۱۶۹ میں اشارہ کیا ہے کہ اس کا مآخذ ” تاریخ طبری “ ہے ۔

۷ بستانی

بستانی(وفات ۱۳۰۰ ھ)نے عبدا لله ابن سبا کی داستان کو ”تاریخ ابن کثیر “ سے نقل کرکے اپنے دائرة المعارف میں مادہ ” عبد اللہ “ کے تحت ذکر کیا ہے اور ” خطط مقریزی “(۱) کے بیان کا خلاصہ بیان کرتے ہوئے اپنی بات تمام کی ہے ۔

۸ احمد امین

عصر حاضر کے مصنفین ، جوتاریخی حوادث کو تجزیہ و تحلیل کے طریقے سے لکھنا چاہتے ہیں اور ہر حادثہ کے سرچشمہ پر نظر رکھتے ہیں ، ان میں سے ایک احمد امین مصری ہیں ۔جنھوں نے ” فجر الاسلام “ نامی اپنی کتاب میں ایرانیوں اور اسلام پر ان کے اثر انداز ہونے کے بارے میں بحث کرتے ہوئے اس کے صفحہ نمبر ۱۰۹ سے ۱۱۱ تک ” مسلمانون پر زرتشت عقائد و افکار کے اثرات “ کے باب میں ” مزدک “ کے

____________________

۱۔ یہ احمد بن علی مقریزی وفات ۸۴۸ ھ ہے

۴۵

بارے میں بیان کیا ہے ۔ اس سلسلے میں ان کی بات کا خلاصہ حسب ذیل ہے(۱) ” مزدک کی اہم دعوت اس کا اشتراکی نظام مقصد تھا ، مزدک کہتا تھا

” لوگ مساوی طور پر دنیا میں آئے ہیں اور انھیں مساوی زندگی بسر کرنی چاہئے ، اہم ترین چیز جس میں لوگوں کو مساوات کا لحاظ رکھنا چاہئے ، دولت اور عورت ہے ، کیونکہ یہی دو چیزیں لوگوں کے درمیان دشمنی اور جنگ کا سبب بنتی ہیں ، لہذا لوگوں کو ان دو چیزوں میں ایک دوسرے کا شریک ہونا چاہئے تا کہ دشمنی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا جائے “

وہ دولتمندوں کی دولت کو محتاجوں اور فقیروں میں تقسیم کرنا واجب جانتا تھا ، لہذا حاجتمندوں نے فرصت کو غنیمت سمجھتے ہوئے اس کے اس اعتقاد سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اس کی حمایت کی اور اس طرح وہ اس قدر قوی ہوگیا کہ کوئی اس کی مخالفت کی جرات نہیں کرسکتا تھا ، لوگوں کے گھروں پر حملہ کرکے ان کے مال و ناموس کو لوٹ لیتا تھا ، اس طرح ایسے حالات رونما ہوئے کہ نہ کوئی باپ اپنے بیٹے کو پہچان سکتا تھا اور نہ بیٹا باپ کو جانتا تھا اور نہ کسی کی دولت باقی رہی تھی “

اس کے بعد احمد امین لکھتے ہیں کہ یہ دین اسلام کے پھیلنے کے زمانے اور بنی امیہ کی خلافت کے آخری ایام تک ایران کے بعض دیہاتی باشندوں میں موجود تھا ۔

اس مطلب کو بیان کرنے کے بعد لکھتے ہیں :

____________________

۱۔ احمد امین سے پہلے رشید رضا نے اپنی کتاب ” الشیعہ و السنة “ میں یہی بات کہی ہے ۔

۴۶

” ہم مالی امور کے سلسلے میں ا بوذر کے نظریہ اور مزدک کے نظریہ میں شباہت پاتے ہیں ، کیونکہ طبری کہتا ہے ابوذر نے شام میں انقلاب کرکے یہ نعرہ بلند کیا تھا کہ ” اے دولتمندو حاجتمندوں کی مدد و یاری کرو“ اور یہ کہتا تھا : <اَلَّذِینَ یکنزون الذهب و الفضة و لا ینفقونها فی سبیل الله فبشّرهم بعذابٍ الیم >(۱)

اس نعرہ کو اس قدر دہرایا کہ تنگدستوں نے اسے اپنا منشور قرارد یا اور مساوات کو ثروتمندوں پر واجب سمجھنے لگے ، یہاں تک کہ دولتمندوں نے تنگ آکر شکایت کی اور معاویہ نے اس ڈر سے کہ کہیں ابوذر شام کے لوگوں کو اس کے خلاف بغاوت پر نہ اکسائےں ، اسے عثمان کے پاس مدینہ بھیج دیا۔

عثمان نے ابو ذر سے پوچھا : کیوں لوگ تیری زبان درازی پر تجھ سے شکایت کرتے ہیں ؟ ابوذر نے جواب میں کہا : دولتمند سزاوار نہیں ہیں کہ وہ اپنے مال کو جمع کریں !

اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مال اور دولت کے بارے میں ابوذر کا طرز تفکر مزدک کے نظریہ سے بہت نزدیک تھا یہاں پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ابوذر نے نظریہ کہاں سے سیکھا تھا؟

ہم اس سوال کے جواب کو طبری کی تحریر میں پاتے ہیں جب وہ یہ کہتا ہے : ابن سوداء عبداللہ بن سبا نے ابوذر سے ملاقات کرکے اسے ایسا کرنے پر مجبور کیا ہے ، البتہ عبداللہ بن سبا ابود رداء اور عبادہ بن صامت(۲) کے پاس بھی گیا تھا لیکن وہ اس کے فریب میں نہیں آئے تھے ، حتی عبادة بن

____________________

۱۔ مال و دولت کو جمع کرکے راہ خدا میں خرچ نہ کرنے والو ں کو خبردار کرو کہ ان کی پیشانی اور پہلو کو داغ کرنے کیلئے اوزار آمادہ ہے ۔

۲۔یہ دونو ں پیغمبر خدا کے اصحاب ہیں ، اس کتاب کے آخر میں ان کے حالات پر روشنی ڈالی جائے گی۔

۴۷

صامت نے ابن سوداء کے گریبان پکڑ کر اسے معاویہ کے پاس لے گیا اور معاویہ سے کہا: خدا کی قسم یہ وہ شخص ہے جس نے ابوذر کو تیرے خلاف اکسایا ہے(۱)

اس کے بعد احمد امین بیان کو اس طرح جاری رکھتے ہوئے لکھتے ہیں :

ہم جانتے ہیں کہ عبداللہ بن سبا صنعاء کا رہنے و الا ایک یہودی شخص تھا ، اس نے عثمان کے زمانے میں ظاہری طور پر اسلام قبول کیا تھا تا کہ اسلام کو نابود کردے ، اس لئے اس نے مختلف شہروں میں اپنے گمراہ کن اور مضر افکار کو پھیلادیا جن کے بارے میں بعد میں ہم اشارہ کریں گے۔

چونکہ ابن سبا نے حجاز ، بصرہ ، کوفہ ، شام اور مصر جیسے بہت سے شہروں کا سفر کیا تھا ا س لئے اس کا قوی امکان ہے کہ اس نے اس طرز تفکر کو عراق یا یمن کے مزدکیوں سے حاصل کیا ہوگا اور ابوذر نے اس سے حسن نیت رکھنے کی بنا پر اس نظریہ کو قبول کیا ہوگا“

اور حاشیہ میں لکھا ہے :

____________________

۱” تاریخ طبری کا حصہ پنجم ملاحظہ ہو “

وہ اس بحث کو جاری رکھتے ہوئے اپنی کتاب کے صفحہ ۱۱۲ میں اس طرح نتیجہ اخذ کرتے ہیں :

” مزدک و مانی وہ سرچشمہ تھے جن سے رافضیوں -(شیعوں) نے اپنے عقائد اخذ کئے ہیں ، انہوں نے علی علیہ السلام اور آل علی علیہ السلام کے بارے میں شیعوں کا عقیدہ اپنے ایرانی اسلام کے اس عقیدہ سے لیا ہے جو وہ ساسانی بادشاہوں کے بارے میں رکھتے تھے ، کیونکہ وہ پادشاہوں کی پادشاہی کو ایک قسم کا خدائی حق جانتے تھے ۔

۴۸

احمد امین نے وعدہ کیا تھا کہ ” مختلف شہروں میں ان گمراہ کن اور مضر عقیدوں و و افکار کو پھیلنے کے بارے میں بعد میں اشارہ کریں گے “ وہ اس وعدہ کو پورار کرتے ہوئے اپنی کتاب کے صفحہ ۲۵۴ پر اسلامی فرقوں کے بارے میں بحث کرتے ہوئے اس طرح لکھتے ہیں :

عثمان کی خلافت کے آخری ایام میں بعض گروہ مخفی طور پر جگہ جگہ پھیل گئے اور لوگوں کو عثمان کا تختہ الٹنے، اس کی جگہ پر دوسروں کو بٹھانے کی ترغیب دلانے لگے ۔

ان فرقوں میں سے بعض فرقے علی علیہ السلام کے حق میں پروپگنڈہ کرتے تھے ، ان کے سرغنوں میں سب سے مشہور شخص عبداللہ بن سبا تھا ، جو یمن کا ایک یہودی تھا اور اس نے ظاہری طور پر اسلام قبول کیا تھا اور بصرہ ، شام و مصر کے شہروں کا دورہ کرتا تھا اور لوگوں سے کہتا تھا : ہر پیغمبر کا ایک وصی تھا اور محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے وصی، علی علیہ السلام ہیں اس سے بڑھ کر ظالم کون ہوسکتا ہے جو رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی وصیت پر عمل نہ کرے اور ا س کے وصی کے خلاف بغاوت کرے ؟ ابن سبا ان معروف افراد میں سے تھا جس نے لوگوں کو عثمان کے خلاف بغاوت پر اکسایا “

اس کے بعد صفحہ ۲۵۵ پر لکھتے ہیں :

” یہ اس تاریخ کا خلاصہ ہے جس کو نقل کرنے پر میں مجبور تھا ، کیونکہ مسلمانوں کے سب سے بڑے تین فرقے اسی کی بناء پر وجود میں آئے ہیں جو عبارت ہیں ، شیعہ اور “

اپنی کتاب کے ۲۶۶ ۔ ۲۷۸ پر شیعوں سے مربوط فصل میں ایسے مطالب کو واضح تر صورت میں بیان کیا ہے ۔ وہ صفحہ ۲۷۰ پر رقم طراز ہیں :

رجعت کے عقیدہ کو ابن سبا نے مذہب یہود سے لیا ہے کیونکہ وہ لوگ اس امر کے معقتد ہیں کہ الیاس پیغمبر نے آسمان کی طرف عروج کیا ہے اور وہ واپس آئیں گے اس عقیدہ نے شیعوں کو ائمہ کے غائب ہونے او رمھدی منتظر کے اعتقاد رکھنے پر مجبور کیا ہے(۱) اپنی کتاب کے صفحہ نمبر ۲۷۶ پر مذکورہ مقدمات کا حسب ذیل نتیجہ اخذ کرتے ہیں :’ ’ حقیقت میں تشیع ایسے لوگوں کی پناہ گاہ تھی جو اسلام کے ساتھ دشمنی اور کینہ رکھنے کی بناء پر اسے نابود کرنا چاہتے تھے ۔ جو بھی گروہ اپنے اسلام یعنی یہودی ، عیسائی اور زردشتی دین کو اسلام میں داخل کرنا چاہتا تھا ، اس نے اہل بیت پیغمبر کی دوستی

____________________

۱۔ مؤلف نے مصری عالم شیخ محمود ابوریہ کے نام لکھے گئے اپنے خط میں مھدی موعود (عج) کے بارے میں شیعو ں کے عقیدہ کے سلسلہ میں کچھ دلائل لکھے ہیں ، اس خط کا ایک حصہ مذکورہ عالم کی کتاب ” اضواء علی السنة المحمدیہ “ میں درج ہوا ہے ، طبع صور لبنا ں ۱۳۸۳ ھ ء ملاحظہ ہو۔

۴۹

کو وسیلہ قرار دیا اور اس آڑ میں جو بھی چاہا انجام دیا ، شیعوں نے رجعت کے عقیدہ کو یہودیوں سے سیکھا ہے(۱)

اور صفحہ ۲۷۷ پریوں تحریک کرتے ہیں :

ولھاوزن کا عقیدہ یہ ہے کہ تشیع ایرانیوں کے دین کی بہ نسبت ،دین یہود سے زیادہ متاثر ہے اور اس کی دلیل یہ ہے کہ تشیع کا بانی عبداللہ بن سبا نامی ایک یہودی شخص تھا ۔“

احمد امین کے بیان کا خلاصہ یہ ہے کہ شیعوں نے رجعت اور امامت کے عقیدہ کو عبدا للہ بن سبا سے لیاہے اور ائمہ کی عصمت اور غیبت مھدی (عج) کے عقیدہ کا سرچشمہ بھی یہی ہے اور ابوذر نے جو اشتراک کی تبلیغ کی ہے یہ تبلیغات اور تعلیمات بھی عبداللہ بن سبا سے سیکھی ہے اور ابن سبا نے بھی رجعت کے عقیدہ کو دین یہود سے لیا ہے اور اشتراکی نظریہ کو مزدک کے دین سے اخذ کیا ہے اور عبدا لله بن سبا نے یہ کام علی علیہ السلام کے حق کے مطالبہ کی آڑ میں انجام دیا ہے اور اس طرح اسلام میں شیعہ عقیدہ کو ایجاد کیا ہے ، اس طرح یہاں سے نتیجہ نکلتا ہے کہ حب اہل بیت دشمنان اسلام کے لئے وسیلہ قرار پایا ہے اور شیعیت کے روپ میں یہود وغیرہ کی تعلیمات اسلام میں داخل ہوئی ہیں !!!

احمد امین کے ان تمام مفروضوں کا منبع اور دلیل ابن سبا کے افسانے ہیں اور مآخذ تاریخ طبری ہے اس نے صرف ایک جگہ پر ولھاوزن سے نقل کیا ہے ، ہم ثابت کریں گے کہ ولھاوزن نے بھی طبری

____________________

۱۔ کتاب ” فجر اسلام “ اور ” تاریخ الاسلام السیاسی “ دنیا کی یونیورسٹیوں میں تاریخی مآخذمیں جانی جاتی ہیں یہ شیعہ تاریخ یونیورسٹیوں میں یوں پڑھا ئی جاتی ہے تو کیاصحیح تاریخ سمجھانے کا کوئی وسیلہ موجود ہے ؟

۵۰

سے نقل کیا ہے ۔

اگر چہ احمد امین نے اس افسانہ کو علمی تجزیہ و تحلیل کے طریقے پر پیش کیا ہے ، لیکن اس میں ذرہ برابر شک و شبہہ نہیں کہ شیعوں کے بارے میں ان کے بغض و کینہ نے انھیں ان مفروضوں کے سلسلہ میں کوسوں دور پھینک دیا ہے نہ کہ علمی ا ور تحقیقی روش نے

۹ حسن ابراہیم

معاصر کے مصنفین میں سے ایک اور شخص جس نے ان داستانوں کو تجزیہ و تحلیل کے ساتھ پیش کیا ہے وہ مصر کی یونیورسٹی کے شعبہ تار یخ اسلام کے استادپروفیسر ڈاکٹر حسن ابراہیم ہیں ، انھوں نے ” تاریخ الاسلام السیاسی “ نامی اپنی کتاب کے صفحہ نمبر ۳۴۷ پر خلافت عثمان کے آخری ایام میں مسلمانوں کے حالات کا ذکر کرتے ہوئے یوں لکھا ہے :

” یہ ماحول مکمل طور پر عبد اللہ بن سبا اور اس کے پیرکاروں ،اور اس کے اثر ات قبول کر نے والوں کا تھا، رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ایک دیرینہ صحابی ، ابوذر غفاری (جو تقوی اورپرہیزگاری میں مشہور تھے اور خود ائمہ حدیث کی عظیم شخصیتوں میں شمار ہوتے تھے)نے فتنہ کی آگ کو بھڑکادیا ، اس نے صنعا کے رہنے والے ایک شخص عبد اللہ بن سبا کے کئے گئے زبردست پروپگنڈے کے اثر میں آکر عثمان اور اس کے شام میں مقرر کردہ گورنر معاویہ کی سیاست کی مخالفت کی ، عبد اللہ بن سبا ایک یہودی تھا جس نے اسلام قبول کرکے مختلف شہروں کا دورہ کیا اس نے اپنے دورے کو حجاز سے شروعکیا اور کوفہ ، شام اور مصر تک چھان ڈالا “

۵۱

اس نے اس صفحہ کے حاشیہ پر تاریخ طبری(۱) کو اپنا مآخذ قرار دیا ہے اور کتاب کے صفحہ نمبر ۳۴۹ پر یوں لکھا ہے :

” عبداللہ بن سبا سب سے پہلا شخص ہے جس نے عثمان کے خلاف عوام میں نفرت پھیلائی اور عثمان کا تختہ الٹنے کی راہ ہموار کی “

کتاب کے حاشیہ پر تاریخ طبری کے صفحات کی طرف چار بار اشارہ کرتا ہے کہ اس خبر کو میں نے اس سے نقل کیا ہے اور اسی طرح داستان کو ص ۳۵۲ تک جاری رکھتا ہے اور بارہ دفعہ اس داستان کے تنہا مآخذ تاریخ طبری کے صفحات کی طرف اشارہ کرتا ہے اس کے باوجود کہ جنگِ جمل کے بارے میں طبری کی نقل کردہ بات کو بیان کرنے سے گریز کرتا ہے ، جبکہ ابن سبا دونوں داستانوں میں موجود ہے، اور دونوں قصے ایک ہی داستان پر مشتمل ہیں اور داستان گڑھنے والا بھی ایک ہی شخص ہے!!!

۱۰ ابن بدران

ابن بدران (وفات ۳۴۶ ھ ء) نے تاریخ ابن عساکر کا خلاصہ لکھا ہے اور اس کا نام ” تہذیب ابن عساکر “ رکھاہے اس نے اپنی اس کتاب میں اکثر روایتوں کو راوی کا نام لئے بغیر نقل کیا ہے ۔ اس

____________________

۱۔ طبری طبع یورپ حصہ اول صف ۲۸۵۹

۵۲

نے ابن سبا کے افسانے کے بعض حصوں کو نقل کیا ہے اس نے بعض جگہوں پر اس کے راوی سیف بن عرم کا نام لیا ہے اور بعض جگہوں پر راوی کا ذکر کئے بغیر افسانہ نقل کیا ہے اور بعض مواقع پر سیف کی روایتوں کو تاریخ طبری سے نقل کیا ہے چنانچہ اس سے زیادہ ا بن ابیہ کے حالات بیان کرتے ہوئے سیف کی روایتوں کو اس کی کتاب سے نقل کیا ہے(۱)

لہذا معلوم ہوتا ہے کہ سبائیوں کی داستان نقل کرنے میں اسلام کے مؤرخین کا مآخذ و مدرک ” تاریخ طبری “ تھا۔

۱۱ سعید افغانی

سعید افغانی نے ” عائشہ و السیاسة “ نامی اپنی کتاب میں ابن سبا کے افسانہ سے کچھ حصے، ” عثمان کااحتجاج “ ابن سبا مرموز اور خطرناک ہیرو ، سازش و دسیسہ کاری پر نظر “‘ کے عنوا ن کے تحت بیان کیا ہے ، اس نے اپنی کتاب کے دوسرے حصوں میں ان افسانوں کے چند اقتباسات درج کئے ہیں ۔

اس کا مآخذ ، پہلے درجہ پر تاریخ طبری ، دوسرے درجہ پر تاریخ ابن عساکر اور اس کی تہذیب اور تیسرے درجہ پر تمہید ابن ابی بکر(۱) ہے ، وہ اپنی کتاب کے صفحہ نمبر ۵ پر طبری کے او پر اکثر اعتماد کرنے کا سبب یوں بیان کرتا ہے :۔

میں نے بیشتر اعتماد تاریخ طبری پر کیا ہے ، کیونکہ یہ کتاب دوسرے تمام مصادر سے حقیقت کے نزدیک تر اور اس کا مصنف دوسروں سے امین تر اور اس کے بعد آنے والے ہر با اعتبارر مؤرخ نے اس پر اعتماد کیا ہے ۔

میں نے اس کے الفاط میں کسی قسم کے رد و بدل کے بغیر اپنی کتاب میں درج کرنے کی حتی المقدور کوشش کی ہے ۔

____________________

۱۔ ص ۴۳ اور ۴۵ پر تاریخ ابن عساکر ، صفحہ ۴۲ ، ۴۹، ۵۲ اور ۱۸۷ پر تہذیب ابن عساکر سے اور صفحہ ۳۴ اور ۳۵ میں تمہید سے استفادہ کیا ہے ۔

۵۳

غیر مسلم مؤرخین کی نظر میں عبدللہ بن سبا کی داستانیں

۱ فان فلوٹن

وہ ایک مستشرق ہے وہ اپنی کتاب ”السیاسة العربیة و الشیعة و الاسرائیلیات فی عهد بنی امیة “ ترجمہ ڈاکٹر حسن ابراہیم و محمد زکی ابراہیم طبع اول ، مصر ۱۹۳۴ ءء کے صفحہ ۷۹ پر شیعہ فرقہ کے بارے میں نقل کرتے ہوئے، یوں لکھتا ہے :

” امام ،سبائی ، عبداللہ بن سبا کے پیرو ، ہیں نیز ان افراد میں ہیں جو عثمان کے پورے دو ر خلافت میں علی علیہ السلام کو خلافت کےلئے سزاوار جانتے تھے “

اس نے اپنی کتاب کے صفحہ نمبر ۸۰ کے حاشیہ پر تاریخ طبری کو اپنے مآخذ و مدرک کے طور پر پیش کیا ہے ۔

۲ نکلسن

نکلسن اپنی کتا ب” تاریخ الادب العربیّ“ طبع کمبریج کے صفحہ نمبر ۲۱۵ پر لکھتا ہے :

” عبدا للہ بن سبا ،سبائیوں کے گروہ کا بانی ہے ، وہ یمن کے شہر صنعا کا باشندہ تھا ،کہا جاتا ہے کہ وہ یہودی تھا اور عثمان کے زمانے میں اسلام لایا تھا اور ایک سیاح مبلغ تھا ، مؤرخین اس کے بارے میں یوں کہتے ہیں : وہ ہمیشہ ایک جگہ سے دوسری جگہ سفر میں رہا کرتا تھا تا کہ مسلمانوں کو گمراہ کرکے ان میں اختلاف پیدا کرے ، سب سے پہلے وہ حجاز میں نمودار ہوا اس کے بعد بصرہ اور کوفہ اس کے بعد شام اور آخر کار مصر پہنچا ، وہ لوگوں کو رجعت کے اعتقاد کی دعوت دیتا تھا ، ابن سبا کہتا تھا : بے شک تعجب کا مقام ہے کہ کوئی شخص حضرت عیسیٰ کے پھر سے اس دنیا میں آنے کا معتقد ہو لیکن حضرت محمد کی رجعت کے بارے میں اعتقاد نہ رکھتا ہو جبکہ قرآن مجید نے اس کا واضح طور پر ذکر کیا ہے اس کے علاوہ ہزاروں پیغمبر آئے اور ان میں سے ہر ایک کا ایک وصی و جانشین تھا ، محمد کا بھی ایک وصی ہے جو علی علیہ السلام ہے ، چونکہ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم آخری پیغمبر اور خاتم الانبیاء ہیں اس لئے علی علیہ السلام بھی آخری وصی اور ان کے جانشین ہیں “

اس نے بھی اپنا مآخذ کو تاریخ طبری کو قرار دیکر مذکورہ بیانات کے حاشیہ میں اس کی وضاحت کی ہے ۔

۵۴

۳ اسلامی دائرة المعارف لکھنے والے مستشرقین

ہو تسمن ، ولاینسنگ ، اورنلڈ ، برونسال ، ھیونک ، شادہ ، پاسیہ ، ہارٹمان اور کیب جیسے مشرق شناس استادوں کے ایک گروہ کے تصنیف کردہ اسلامی دائرة المعارف میں یہ داستان حسب ذیل درج ہوئی ہے :(۱)

____________________

۱۔ اسلامی دائرة المعارف ج۱/ ۲۹ طبع لندن

۵۵

” اگر ہم صرف طبری اورمقریزی کی بات پر اکتفا کریں تو ہمیں کہنا چاہئے کہ جن چیزوں کی طرف عبد اللہ بن سبا دعوت دیتا تھا ، ان میں رجعت محمد بھی تھی وہ کہتا تھا : ہر پیغمبر کا ایک جانشین ہے اور علی علیہ السلام محمد کے جانشین ہیں ۔ لہذا ہر مؤمن کا فرض ہے کہ اپنے کردار و گفتار سے علی علیہ السلام کے حق کی حمایت کرے “ کہا جاتا ہے کہ عبد اللہ نے اس طرز تفکر کی تبلیغ کےلئے بعض افراد کو معین کیا تھا اور خود بھی ان میں شامل تھا، وہ شوال ۱۵ ھ مطابق اپریل ۶۵۶ ءء میں مصر سے مدینہ کی طرف روانہ ہو “

ہم نے یہاں پر وہ مطلب درج کیا جسے مذکورہ دائرة المعارف نے طبری سے نقل کیا ہے چونکہ یہ حوادث مقریزی سے ۸۰۰ سال قبل رونما ہوئے ہیں ، اس لئے اس طولانی فاصلہ زمان کے پیش نظر اور اس کے علاوہ مقریزی نے مآخذکا ذکر بھی نہیں کیا ہے یا جس کتاب سے نقل کیاہے اس کا نام بھی نہیں لیا ہے اسلئے مقریزی کے نقل پر اعتبار نہیں کیا جاسکتا ہے جبکہ طبری اس داستان کی سند کو اس کے راوی تک پہنچاتا ہے اور وہ خود بھی مقریزی سے تقریباً پانچ سو سال پہلے گذراہے، اس حالت میں یہ صحیح نہیں ہے کہ ہم مقریزی کی تحریر کو تاریخ طبری کے برابر قرار دیں اس کے باوجود ہم کتاب کے آخر میں مقریزی کی روایت پر بحث کریں گے ۔

۴ڈوایت ، ایم، ڈونالڈسن

ڈوایت ، ایم ، ڈونالڈسن ، ‘” عقیدہ الشیعہ “ نامی اپنی کتاب کے صفحہ ۵۸ پر یوں رقمطراز ہے:

” قدیم روایتین ہمیں اس امر کی طرف رہنمائی کرتی ہیں کہ علی علیہ السلام جس خلافت کا دعویٰ کرتے تھے اس کی ان کے حامیوں اور شیعوں کی نظر میں صرف سیاسی اہمیت نہیں تھی بلکہ وہ اسے ایک الہی حق سمجھتے تھے اور ان عقائد و افکار کے پھیلانے میں تاریخ اسلام کے ایک مرموز شخص کی ریشہ دوانیوں کا اہم رول تھا ۔ کیونکہ عثمان کی خلافت کے دوران عبداللہ بن سبا نامی ایک شخص پیدا ہوا جس نے وسیع تعلیمات کو پھیلانے کا اقدام کیا ، اس نے ان عقائد کو پھیلانے کیلئے اسلامی ممالک کے شہروں کا ایک طولا نی دورہ کیا ، طبری کا کہنا ہے کہ اس کا مقصد اسلام کو نابود کرنا تھ“

۵۶

جیسا کہ کتاب کے صفحہ نمبر ۵۹ کے حاشیہ سے معلوم ہوتا ہے کہ ” عقیدہ الشیعہ “ نامی کتاب کے مصنف نے اس داستان کو براہ راست طبری سے نقل نہیں کیا ہے بلکہ اس نقل میں اس نے دو کتابوں سے بھی استفادہ کیا ہے :

۱ ۔ گذشتہ اشارہ کئے گئے مستشرقین کے دائرة المعارف کا مادہ ” عبداللہ “

۲ ۔ نیکلسن کی تالیف کردہ کتاب ” تاریخ الادب العربی “ ص ۳۱۵ ۔

جیسا کہ ہم نے اس سے پہلے بھی کہا ہے کہ مذکورہ دونوں کتابوں میں جو کچھ عبداللہ بن سبا کے بارے میں لکھا گیا ہے وہ تاریخ طبری سے نقل کیا گیا ہے ۔

۵ ولھاوزن

ولھاوزں اپنی کتاب ”الدولة العربیة و سقوطها “ کے صفحہ نمبر ۵۶ اور ۵۷ پر لکھتا ہے :

” سبائیوں نے اسلام میں تبدیلی ایجاد کی ، قرآن مجید کے بر عکس اعتقاد رکھتے تھے کہ روح خدا نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے جسم میں حلول کیا ہے اور ان کی وفات کے بعد اس روح نے علی علیہ السلام اور آل علی علیہ السلام میں حلول کیا ہے ان کی نظر میں علی علیہ السلام ، ابو بکر اور عمر کے ہم پلہ خلیفہ نہیں تھے بلکہ وہ ان دونوں کو علی علیہ السلام کا حق غصب کرنے والے جانتے تھے اور ان کا عقیدہ یہ تھا کہ اس مقدس روح نے علی علیہ السلام کے اندر حلول کیاہے “

۵۷

اس کے بعد لکھتا ہے :

” کہا جاتا ہے کہ سبائی عبداللہ بن سبا سے منسوب تھے وہ یمن کا رہنے والا ایک یہودی تھا “

ولھاوزن نے یہاں پر اپنے مآخذ کا ذکر نہیں کیا ہے ، لیکن اپنی کتاب کے ۳۹۶ سے ۳۹۹ تک مطلب کو تفصیل کے ساتھ بیان کرکے اپنے مآخذ کا بھی ذکر کیا ہے اور لکھتا ہے :

” سیف کہتا ہے : سبائی پہلے ہی دن سے شر پسند اور بد نّیت تھے ، انہوں نے عثمان کوقتل کرکے مسلمانوں کے اندر افراتفری اور جنگ کے شعلے بھڑکادیئے ان میں اکثر لوگ موالی اور غیر عرب تھے ۔

سبائی عبد اللہ بن سبا کی پیروی کرتے ہوئے اعتقاد رکھتے تھے کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم رجعت کریں گے اور آپ اپنے اہل بیت کے بدن میں حلول کرتے ہیں چونکہ علی علیہ السلام کی اولاد جو پیغمبر کی بیٹی فاطمہ سے تھی ، نے اسلام اورعربی نسل سے منہ نہیں موڑا اور سبائیوں کو مسترد کردیا اسلئے وہ علی علیہ السلام کے دوسرے بیٹے محمد بن حنفیہ سے منسلک ہوگئے ۔

محمد کی وفات کے بعد ان کا بیٹا ابو ہاشم ---جو اپنے باپ کی طرح بے قدر تھا ---ان کا امام بنا ، ابو ہاشم نے اپنے بعد محمد بن علی عباسی کو اپنا وصی اور جانشین مقرر کیا اور یہاں سے خلافت بنی عباس میں منتقل ہوگئی ۔ سیف کی روایت کے مطابق بنی عباس کا خروج سبائیوں کے خروج کے مانند تھا ، دونوں گروہوں کی دعوت کا مرکز شہر کوفہ تھا ور ان کے پیرو ایرانی تھے اور دونوں گروہوں نے عرب مسلمانوں کے خلاف خروج کیا تھا “

یہ ان مطالب کا خلاصہ تھا جنہیں ولھاوزن نے سیف سے نقل کرتے ہوئے وضاحت کے ساتھ دوبار اس کے نام کی تکرار کی ہے ، کتاب کے مقدمہ میں جہاں پر وہ سیف کی ستائش کرتا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس نے سیف کی روایتوں کو طبری سے نقل کیا ہے ۔

اس بناء پر ولھاوزن کا مآخذ بھی تاریخ طبری ہے اور طبری کے ہی واسطہ سے اس نے اس افسانہ کو نقل کیا ہے ۔

جیسا کہ معلوم ہوا ، ا بن سبا کا افسانہ عجیب شہرت کاحامل ہوا جیسا کہ مشاہدہ ہورہا ہے، کہ جنہوں نے بھی اس افسانہ کو نقل کیا ہے ان سب کی روایتیں بلاواسطہ یا ایک یا اس سے زیادہ واسطوں سے طبری پر ختم ہوتی ہیں ۔

۵۸

وہ لوگ جنہوں نے عبد اللہ بن سباکی داستان کو ،مآخذ کا اشارہ کئے بغیر نقل کیا ہے ۔

مؤرخین اور مصنفین کا ایک ایسا گروہ بھی ہے جنہوں نے نہ اپنی روایت کے مآخذ کو لکھا ہے اور نہ اس کتاب کا ذکر کیا ہے جس سے انہوں نے روایت نقل کی ہے ، لیکن اس کے باوجود جہاں بھی اجمالی طور پر ان کی کتابوں کے مصادر کا ذکر آتا ہے ، طبری ایسی کتابیں نظر آتی ہیں جن میں طبری سے روایت نقل کی گئی ہے ، جیسے :

۱ میر خواند:

اس نے عبداللہ بن سبا کی داستان کو اپنی کتاب ” روضة الصفا“ میں درج کیا ہے ، لیکن اس کی سند اور مآخذ کا ذکر نہیں کیا ہے ۔ لیکن تحقیق و مطابقت سے معلوم ہوتا ہے کہ اس نے بھی اس داستان کو طبری سے نقل کیا ہے ۔

۲ غیاث الدین

غیاث الدین فرزند میرخواند (وفات ۹۴۰ ھ) نے اپنی کتاب ” حبیب السیر “ میں عبداللہ بن سبا کی داستان اپنے باپ کی کتاب ” روضة الصفا“ سے نقل کیا ہے لیکن اس کی سند و مآخذ کی طرف اشارہ نہیں کیا ہے ۔

عبداللہ بن سبا کی داستان کے اسناد

جیسا کہ ذکر ہوا ، تاریخ طبری قدیمی ترین کتاب ہے جس میں عبداللہ بن سبا کی داستانیں تفصیل کے ساتھ بیان کی گئی ہیں اور ساتھ ہی اس داستان کے راوی کو بھی معین و مشخص کیا گیا ہے ۔ اس کے بعد لکھی جانے والی تمام کتابوں میں ، ابن سبا کی داستان اور سبائیوں کے افسانہ کو طبری سے نقل کیا گیا ہے ۔

۵۹

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

تو پھر يوسف سے عشق ميں مجھے كيوں ملامت كرتى ہو ؟

اس وقت مصر كى عورتيں پورى بازى ہار چكى تھيں ان كے زخمى ہا تھوں سے خون بہہ رہا تھا پر يشا نى كے عالم ميں وہ بے روح مجسمے كى طرح اپنى جگہ چپكى سى بيٹھى تھيں ان كى حالت كہہ رہى تھى كہ وہ بھى نے زوجہ عزيزسے كچھ كم نہيں ہيں ، كيا اس نے اس مو قع كو غنيمت سمجھا اور كہا :'' يہ ہے وہ شخص جس كے عشق پر تم مجھے طعنے ديتى تھيں ''(۱)

گو يا زوجہ عزيز چاہتى تھى كہ ان سے كہے كہ تم نے تو يوسف كو ايك مر تبہ ديكھا ہے اور يوں اپنے ہوش وحواس گنوا بيٹھى ہو تو پھر مجھے كيو نكر ملا مت كرتى ہو جبكہ ميں صبح وشام اس كے سا تھ اٹھتى بيٹھى ہوں ،زوجہ عزيز نے جو منصو بہ بنايا تھا اس ميں اپنى كا ميابى پر وہ بہت مغرور اور پورى صراحت كے سا تھ اپنے گناہ كا اعترف كيا اور كہا : جى ہاں : ''ميں نے اسے اپنى آرزو پورا كرنے كے لئے دعوت دى تھى ليكن يہ بچا رہا_''(۲)

اس كے بعد بجائے اس كے كہ اپنے گناہ پر اظہا ر ندامت كر تى يا كم از كم مہمانو ں كے سا منے كچھ پردہ پڑا رہنے ديتى اس نے بڑى بے اعتنائي اور سخت انداز ميں كہ جس سے اس كا قطعى ارا دہ ظاہر ہو تا تھا ، صراحت كے سا تھ اعلان كيا :'' اگر اس (يوسف ) نے ميرا حكم نہ ما نا اور ميرے عشق سوزاں كے سامنے سر نہ جھكا يا تو يقينا اسے قيد ميں جانا پڑے گا ''(۳) ''نہ صر ف يہ كہ ميں اسے زندان ميں ڈال دوں گى بلكہ قيد خا نے كے اندر بھى ذليل و خوار ہو گا_''(۴) فطرى امر ہے كہ جب عزيز مصر نے اس واضح خيانت پر اپنى زوجہ سے فقط يہى كہنے پر قنا عت كى كہ'' اپنے گناہ پر استغفار كر'' تو اس كى بيوى رسوائي كى اس منزل تك آپہنچى اصولى طور پر جيسا كہ ہم نے كہا ہے مصر كے فرعون اور عزيزوں كے در بار ميں ايسے مسائل كو ئي نئي بات نہ تھى _

____________________

(۱)سورہ يوسف آيت ۳۲

(۲)سورہ يوسف ۳۲

(۳)سورہ يوسف ايت ۳۲

(۴)سورہ يوسف آيت۳۲

۲۰۱

اے يوسف(ع) قبول كر لو

بعض نے تو اس مو قع پر ايك تعجب انگيز روايت نقل كى ہے وہ يہ كہ چند زنان مصر جو اس دعوت ميں مو جود تھيں وہ زوجہ عزيز كى حمايت ميں اٹھ كھڑى ہو ئيں اور اسے حق بجا نب قرارديا وہ يوسف كے گرد جمع ہو گئيں اور ہر ايك نے يوسف كو رغبت دلانے كے لئے مختلف بات كى _

ايك نے كہا : اے جوان : يہ اپنے آپ كو بچا نا ، يہ نا زو نخرے آخر كس لئے ؟ كيوں اس عاشق دلدادہ پر رحم نہيں كرتے ؟ اس خيرہ كن جمال دل آرا كو نہيں ديكھتے ؟ كيا تمہارے سينے ميں دل نہيں ہے ؟ كيا تم جوان نہيں ہو ؟ كيا تمہيں عشق وزيبا ئي سے كو ئي رغيبت نہيں اور كيا تم پتھر اور لكڑى كے بنے ہوئے ہو _

دوسرى نے كہا : ميں حيران ہوں چونكہ حسن وعشق كى وجہ سے ميرى سمجھ ميں كچھ نہيں آتا ليكن كيا تم سمجھتے نہيں ہو كہ وہ عزيز مصر اور اس ملك كے صاحب اقتدا ر كى بيوى ہے ؟ كيا تم يہ نہيں سو چتے كہ اس كا دل تمہارے ہا تھ ميں ہو تو يہ سارى حكومت تمہارے قبضے ميں ہو گى اور تم جو مقام چا ہو تمہيں مل جائے گا ؟

تيسرى نے كہا : ميں حير ان ہوں كہ نہ تم اس كے جمال زيبا كى طرف مائل ہو اور نہ اس كے مقام ومال كى طرف ليكن كيا تم يہ بھى نہيں جا نتے كہ وہ ايك خطر ناك انتقام جو عورت ہے اور انتقام لينے كى طاقت بھى پورى طرح اس كے ہاتھ ميں ہے ؟ كيا تمہيں اس كے وحشتنا ك اور تاريك زندان كا كو ئي خوف نہيں ؟ كيا تم اس قيد تنہا ئي كے عالم غربت وبيچا ر گى كے بارے ميں غور وفكر نہيں كرتے ؟

زندان كى تمنا

ايك طرف عزيز كى دھمكى اور ان آلودہ گناہ عور توں كا وسوسہ تھا كہ جو اس وقت دلالى كا كھيل كھيل رہيں تھيں اور دوسرى طرف يوسف كے لئے ايك شديد بحرانى لمحہ تھا ،ہر طرف سے مشكلات كے طوفان نے انہيں گھير ركھا تھا ليكن وہ تو پہلے سے اپنے آپ كو اسلحہ سے آراستہ كئے ہو ئے تھے نور ايمان ' پاكيز گى اور تقوى نے ان كى روح ميں ايك خاص اطمينان پيدا كر ركھا تھا وہ بڑى شجاعت اور عزم سے اپنے موقف پر اڑے

۲۰۲

رہے بغير اس كے كہ وہ ان ہوس باز اور ہو س ران عورتوں سے باتوں ميں الجھتے ،انہوں نے پرور گار كى بارگاہ كا رخ كيا اور اس طرح سے ان دعا كرنے لگے : بارالہا پر ور دگار : ''جس كى طرف يہ عورتيں مجھے دعوت ديتى ہيں اس كى نسبت قيد خانہ اپنى تمام تر سختيوں كے باوجود مجھے زيادہ محب ہے'' _(۱)

اس كے بعد چو نكہ وہ جانتے تھے كہ تمام حالات ميں خصوصاً مشكلات ميں لطف الہى كے سوا كو ئي راہ نجات نہيں كہ جس پر بھر وسہ كيا جائے ، انہوں نے اپنے آپ كو خدا كے سپر د كيا اور اس سے مدد ما نگى اور پكارے: پر ور دگارا :''اگر تو مجھے ان عور توں كے مكر اور خطر ناك منصوبوں سے نہ بچا ئے تو ميرا دل ان كى طرف مائل ہو جائے گا اور ميں جاہلوں ميں سے ہو جائوں ''(۲)

خدا وندا : ميں تيرے فرمان كا احترام كرتے ہوئے اور اپنى پاكدامنى كى حفاظت كرتے ہو ئے اس وحشت ناك قيد خا نے كا استقبال كرتا ہوں وہ قيد خانہ كہ جس ميں ميرى روح آزاد ہے اور ميرا دامن پاك ہے اس كے بدلے ميں اس ظاہر ى آزادى كوٹھوكر مارتا ہوں كہ جس ميں ميرى روح كو زندا ن ہو س نے قيد كرركھا ہو اور جو ميرے دامن كو آلودہ كرسكتى ہے _ خدا يا : ميرى مدد فرما ، مجھے قوت بخش ،اور ميرى عقل ،ايمان اور تقوى كى طاقت ميں اضافہ فر ماتا كہ ميں ان شيطانى وسو سوں پر كا ميا بى حاصل كروں _

اور چو نكہ خداوندعالم كا ہميشہ سے وعدہ ہے كہ وہ مخلص مجاہد ين كى ( چاہے وہ نفس كے خلاف برسر پيكا ر ہوں يا ظاہرى دشمن كے خلاف ) مدد كرے گا ، اس نے يوسف كو اس عالم ميں تنہا نہ چھوڑا حق تعالى كا لطف وكرم اس كى مدد كو آگے بڑھا، جيسا كہ قرآن كہتا ہے:'' اس كے پروردگا ر نے اس كى اس مخلصا نہ دعا كو قبول كيا، ان كے مكر اور سازشوں كو پلٹا ديا،كيو نكہ وہ سننے اور جاننے والا ہے_''( ۳)

وہ بندوں كى دعا بھى سنتا ہے اور ان كے اندر ونى اسرار سے بھى آگاہ ہے اور انہيں مشكلات سے بچا نے كى راہ سے بھى واقف ہے _

____________________

(۱)سورہ يوسف آيت ۳۳

(۲)سورہ يوسف ۳۳

(۳)سورہ يوسف ۳۴

۲۰۳

بے گنا ہى كے پاداش ميں قيد

قصر عزيز ميں يوسف كى موجود گى ميں زنان مصر كى حيران كن محفل اس شور وغو غا كے عالم ميں تمام ہوئي ،فطرى بات تھى كہ يہ خبر عزيز كے كان تك پہنچ گئي ان تمام واقعات سے واضح ہو گيا كہ يوسف كوئي معمولى انسان نہيں ہے اور اس قدر پاكيزہ ہے كہ كوئي طاقت اسے گنا ہ پر ابھار نہيں سكتى مختلف حوالوں سے اس كى پاكيزگى كى نشا نيا ں واضح ہوگئيں _

يوسف(ع) كى قميص كا پيچھے سے پھٹا ہو نا ، زنان مصر كے وسوسے كے مقابلے ميں استقامت كا مظاہرہ كرنا ، قيد خانے ميں جانے كے لئے آمادہ ہونااور زوجہ عزيز كى طرف سے قيد اور دردناك عذاب كى دھمكيوں كے سامنے سر نہ جھكا نا يہ سب اس كى پاكيز گى كى دليليں تھيں يہ ايسے دلائل تھے كہ كوئي شخص نہ اسے چھپاسكتا تھا نہ ان كا انكار كر سكتا تھا ان كا لازمى نتيجہ زوجہ عزيز مصر كى نا پا كى اور جرم تھا يہ جرم ثابت ہو نے كے بعد عوام ميں خاندان عزيز كى جنسى حوالے سے رسوائي كا خوف بڑھ رہا تھا عزيز مصر اور اس كے مشيروں كو اس كے لئے صرف يہى چارہ دكھا ئي ديا كہ يوسف كو منظر سے ہٹا ديا جا ئے ، اس طرح سے كہ لوگ اسے اور اس كے نام كوبھول جائيں اس كے لئے ان كى نظر ميں بہتر ين راستہ اسے تاريك قيد خانے ميں بھيجنا تھا كہ جسے يوسف كو بھلا بھى ديا جائے گا اور وہ يہ بھى سمجھيں گے كہ اصلى مجرم يوسف تھا اسى لئے قرآن كہتا ہے :

''جب انہوں نے ( يوسف كى پا كيز گى كى ) نشا نيا ں ديكھ ليں تو پختہ ارادہ كرليا كہ اسے ايك مدت تك قيد ميں ڈال دياجائے ''_(۱)

پہلے اس كے بارے ميں ان كا كو ئي ارادہ نہ تھا اور پہلى مر تبہ زوجہ عزيز نے يہ بات احتمال كے طور پر پيش كى تھى ، بہر حال اس طرح يوسف پاكدامنى كے گناہ ميں قيد خانے ميں پہنچ گئے اور يہ پہلى مر تبہ نہ تھا كہ ايك قابل اور لائق انسان پاكيز گى كے جرم ميں زندان ميں گيا _

____________________

(۱)سورہ يوسف ۳۵

۲۰۴

زندان كے واقعات

''يوسف كے ساتھ زندان ميں داخل ہو نے والوں ميں دو جوان بھى تھے'' _(۱)

جب انسان كسى معمول كے طريقے سے خبر وں تك رسائي حاصل نہ كر سكے تو اس كے لئے دوسرے احساسات كو استعمال كرتا ہے تاكہ حوادث كا اندازہ لگا سكے، خواب بھى اس مقصد كے لئے كا ر آمد ہو سكتا ہے _

اسى بنا ء پر دونوں جوان كہ جن كے بارے ميں كہا جاتا ہے كہ ايك بادشا ہ كے گھر مشروبات پر ما مور تھا اور دوسرا باورچى خا نے كا كنٹرولر دشمنوں كى چغلخورى اور بادشاہ كو زہر دينے كے الزام ميں قيد تھا ، ايك روز يوسف كے پاس آئے دونوں نے اپنا گزشتہ شب كا خواب سنا يا جو كہ ان كے لئے عجيب تھا ايك نے كہا :

'' ميں نے خواب ميں ديكھا ہے كہ شراب بنا نے كے لئے انگور نچوڑ رہا ہوں _''(۲)

''دوسرے نے كہا كہ ميں نے خواب ميں ديكھا ہے كہ ميں نے كچھ روٹيا ں سر پر اٹھا ركھى ہيں اور آسمان كے پرندے آتے ہيں اور ان ميں سے كھا تے ہيں _''(۳)

اس كے بعد انہوں نے مزيد كہا :

'' ہميں ہمارے خواب كى تعبير بتائو ، كيو نكہ ہم ديكھ رہے ہيں كہ تم نيكو كاروں ميں سے ہو_''(۴)

قيد خانہ يا مر كز تربيت

حضرت يوسف نے قيد خانے ميں آتے ہى اپنے نيك اطوار ، حسن اخلاق اور قيديوں كى دلجوئي ، خدمت اور بيمار وں كى عيادت سے يہ ظاہر كر ديا تھا كہ وہ ايك نيك اور گرہ كشا انسان ہيں اسى لئے قيدى مشكلات ميں انہى كى پنا ہ لينے تھے اور ان سے مدد ما نگتے تھے _

____________________

(۱)سورہ يوسف ۳۶

(۲)سورہ يوسف ۳۶

(۳)سورہ يوسف آيت ۳۶

(۴)سورہ يوسف آيت ۳۶

۲۰۵

بہر حال وہ يوسف كہ جو قيديوں كى ہدايت اور راہنما ئي كا كو ئي مو قع ہاتھ سے نہ جانے ديتے تھے انہوں نے ان دو قيد يوں كى طرف سے تعبير خواب كے لئے رجو ع كر نے كو غنيمت جا نا اور اس بہانے سے ايسے اہم حقا ئق بيا ن كئے جو ان كے تعبير خواب سے متعلق اپنى آگاہى كے بارے ميں كہ جوان دو قيديوں كے لئے بہت اہميت ركھتے تھے ، اور تمام انسانوں كے لئے راستہ كھو لنے والے تھے آپ نے پہلے تو ان كا اعتماد حاصل كرنے كے لئے ان سے كہا : تمہارے كھا نے كا را شن آنے سے پہلے وہ ان كے خواب كى تعبير بتاديں گے_''(۱)

اس كے بعد با ايمان اور خدا پر ست يوسف كہ جن كے وجود كى گہرائيوں ميں تو حيد پورى وسعت سے جڑپكڑ چكى تھى ، نے يہ واضح كرنے كے لئے كہ امر الہى كے بغير كو ئي چيز حقيقت كا روپ اختيار نہيں كر تى ، اپنى بات كو اسى طرح سے جارى ركھا :''تعبير خواب كے متعلق ميرا يہ علم ودا نش ان امور ميں سے ہے كہ جن كى تعليم مجھے مير ے پر وردگا نے دى ہے''(۲)

نيز اس بناء پر كہ وہ يہ خيال نہ كريں كہ خدا كو ئي چيز بغير كسى بنياد كے بخش ديتا ہے ، آپ نے مزيد فرمايا: ''ميں نے ان لوگوں كا دين ومذہب ترك كرركھا ہے كہ جو خدا پر ايمان نہيں ركھتے اور آخرت كے منكر ہيں اور اس نور ايمان اور تقوى نے مجھے اس نعمت كے لائق بنايا ہے''(۳)

اس قوم وملت سے مصر كے بت پر ست لو گ يا كنعا ن كے بت پرست مراد ہيں مجھے ايسے عقائد سے الگ ہى ہو نا چا ہيئےيو نكہ يہ انسان كى پاك فطرت كے خلاف ہيں ،علاوہ ازيں ميں نے ايسے خاندان ميں پر ورش پائي ہے كہ جو وحى ونبوت كا خاندان ہے _'' ميں نے اپنے آبا ء واجداد اور بزرگوں ابراہيم (ع) ، اسحاق (ع) اور يعقوب (ع) كے دين كى پيروى كى ہے_''(۴)

____________________

(۱)سورہ يوسف آيت۳۷

(۲)سورہ يوسف آيت ۳۷

(۳) سورہ يوسف آيت ۳۷

(۴)سورہ يوسف آيت ۳۸

۲۰۶

شايد يہ پہلا مو قعہ تھا كہ حضرت يوسف نے قيد يوں سے اپنا تعارف كروايا تا كہ انہيں معلوم ہو جا ئے كہ وہ وحى ونبوت كے گھر انے سے ہيں اور ديگر بہت سے قيديوں كى طرح كہ جو طا غوتى نظا موں ميں قيد ہوتے ہيں ، بے گناہ زندان ميں ڈالے گئے ہيں _

قيديوں كى تعبير خواب

جس وقت حضرت يوسف نے گذ شتہ گفتگو كے بعد ان قيد يو ں كے دلوں كو حقيقت تو حيد قبول كرنے كے لئے آمادہ كرليا تو ان كى طرف روئے سخن كرتے ہوئے كہا :'' اے ميرے قيدى سا تھيو : كيا منتشر خدا اور متفرق معبود بہتر ہيں يا يگا نہ ويكتا اور قہار اور ہر چيز پر قدر ت ركھنے والا خدا''(۱)

گو يا يوسف انہيں سمجھا نا چا ہتے تھے كہ كيوں تم فقط عالم خواب ميں آزادى كو ديكھتے ہو بيدارى ميں كيوں نہيں ديكھتے ، آخر ايسا كيوں ہے ؟ كيا اس كا سبب تمہارا انتشار ، تفر قہ بازى اور نفاق نہيں كہ جس كا سر چشمہ شرك ، بت پرستى اور ارباب متفر ق ہيں جن كى وجہ سے ظالم طاغوت تم پر غالب آگئے ہيں تم لوگ پر چم توحيد كے تلے كيوں جمع نہيں ہو تے اور ''الله واحد قھار ،، كا دامن پر ستش كيوں نہيں تھا متے تا كہ ان خودغرض ستمگروں كو اپنے معاشرے سے نكال باہر كرو كہ جو تمہيں بے گناہ اور صرف الزام كى بنيا د پر قيد ميں ڈال ديتے ہيں _

اپنے دو قيدى سا تھيوں كو رہبر ى وارشاد اور انہيں حقيقت تو حيد كى طرف مختلف پہلوئوں كے حوالے سے دعوت دينے كے بعد حضرت يوسف عليہ السلام نے ان كے خواب كى تعبير بيان كى كيو نكہ وہ دونوں اسى مقصد كے لئے آپ كے پاس آئے تھے اور آپ نے بھى انہيں وعدہ ديا تھا كہ انہيں ان كے خوابوں كى تعبير بتائيں گے ليكن آپ نے مو قع غنيمت جا نا اور تو حيد كے بارے ميں اور شرك كے خلا ف واضح اور زنداہ دلا ئل كے سا تھ گفتگو كي_

____________________

(۱)سورہ يوسف آيت ۳۹

۲۰۷

اس كے بعد آپ نے ان دو قيدى سا تھيوں كى طرف رخ كر كے كہا :'' اے ميرے قيدى سا تھيوں : تم ميں سے ايك آزاد ہو جائے گا اور اپنے ''ارباب '' كو شراب پلانے پر ما مور ہوگا_''(۱)

'' ليكن دوسرا سولى پر لٹكا يا جا ئے گا اور اتنى دير تك اس كى لاش لٹكائي جائے گى كہ آسمانى پر ند ے اس كے سر كو نوچ نوچ كر كھا ئيں گے_ ''(۲)

ان دونوں ميں سے ايك لٹكا يا جا ئے گا ليكن حضرت يوسف نے نہ چا ہا كہ يہ نا گوار خبر اس سے زيادہ صراحت سے بيان كريں لہذا آپ نے 'تم ميں سے ايك '' كہہ كر گفتگو كى اس كے بعد اپنى بات كى تا ئيد كے لئے مزيد كہا: ''يہ معاملہ جس كے بارے ميں تم نے مجھ سے سوال كيا ہے اور مسئلہ پو چھا ہے حتمى اور قطعى ہے_''(۳)

يہ اس طرف اشارہ تھا كہ يہ خواب كى كو ئي معمولى سى تعبير نہيں ہے بلكہ ايك غيبى خبر ہے جسے ميں نے الہى تعليم سے حاصل كيا ہے لہذا اس مقام پر تردد وشك اور چون وچر ا كى كو ئي گنجائش نہيں _

جب دوسرے شخص نے يہ نا گوار خبر سنى تو وہ اپنى بات كى تكذيب كرنے لگا اور كہنے لگا : ميں نے جھوٹ بولا تھا ' ميں نے ايسا كو ئي خواب نہيں ديكھا تھا ' ميں نے مذاق كيا تھا اس كا خيا ل تھا كہ اگر وہ اپنے خواب كى ترديد كر دے گا تو اس كى سر نوشت تبديل ہو جائے گى لہذا حضر ت يوسف نے سا تھ ہى يہ بات كہہ دى كہ جس چيز كے بارے ميں تم نے دريا فت كيا وہ نا قابل تغير ہے _

يہ احتمال بھى ہے كہ حضرت يوسف كو اپنى تعبير خواب پر اس قدر يقين تھا كہ انہوں نے يہ جملہ تا كيد كے طور پر كہا _

بادشاہ كے سا منے مجھے ياد كرنا

ليكن جس وقت آپ نے محسوس كيا كہ يہ دونوں عنقريب ان سے جدا ہو جائيں گے لہذا ہو سكتا ہے

____________________

(۱)سورہ يوسف آيت ۴۱

(۲)سورہ يوسف آيت ۴۱

(۳)سورہ يوسف آيت ۴۱

۲۰۸

كہ ان كے ذريعے آزادى كا كو ئي در يچہ كھل جائے اور روشنى كى كوئي كرن پھو ٹے اور جس گناہ كى آپ كى طرف نسبت دى گئي تھى اس سے اپنے آپ كو بے گناہ ثا بت كريں ''آپ نے ان دو قيدى ساتھيوں ميں سے جس كے بارے ميں جانتے تھے كہ وہ آزاد ہوں گے، اس سے فرمائش كى كہ اپنے مالك وصاحب اختيار ( بادشاہ ) كے پاس ميرے متعلق بات كرنا_ ''(۱) تاكہ وہ تحقيق كرے اور ميرى بے گناہى ثابت ہو جائے'' _

ليكن اس فرامو ش كا رغلام نے يوسف كا مسئلہ با لكل بھلا ديا جيسا كہ كم ظرف لوگوں كا طريقہ ہے كہ جب نعمت حاصل كر ليتے ہيں تو صاحب نعمت كو فراموش كر ديتے ہيں البتہ قرآن نے بات يوں بيان كى ہے : ''جب وہ اپنے مالك كے پاس پہنچا تو شيطان نے اس كے دل سے يوسف كى ياد بھلا دي_''(۲)

اور اس طرح يوسف فراموش كرديئے گئے ''اور چند سال مزيد قيد خانے ميں رہے _'' ( ۳)(۴)

پيغمبر اكرم صلى اللہ عليہ وآلہ وسلم سے ايك روايت ميں ہے كہ آپ نے فرمايا :مجھے اپنے بھائي يوسف پر تعجب ہو تا ہے كہ انہوں نے كيونكر خالق كے بجائے مخلوق كى پناہ لى اور اس سے مدد طلب كى _

ايك اور روايت ميں امام صادق عليہ السلام سے منقول ہے :

اس واقعے كے بعد جبرئيل يوسف (ع) كے پاس آئے اور كہا : كس نے تمہيں سب لو گوں سے زيا دہ حسين بنا يا ؟ كہنے لگے : ميرے پرور دگار نے _كہا : كس نے قافلے كو تمہارى طرف بھيجا تا كہ وہ تمہيں كنويں سے نجات دے ؟

____________________

(۱)سورہ يوسف آيت ۴۲

(۲)سورہ يوسف آيت ۴۲

(۳)سورہ يوسف آيت ۴۲

(۴)البتہ زندان يا ديگر مشكلات سے نجات كے لئے ايسى كوشش عام افراد كے لئے كوئي اہم مسئلہ نہيں ہے اور طبيعى اسباب سے كام لينے كے ضمن ميں ہے ليكن ايسے افراد كے لئے جو نمونہ ہوں اور ايمان و توحيد كى بلند سطح پر فائز ہوں ان كے لئے اشكال سے خالى نہيں ہو سكتى ،شايد اسى بناء پر خدا نے يوسف كے اس ''ترك اولى ''كو نظر انداز نہيں كيا اور اس كى وجہ سے ان كى قيد چند سال مزيد جارى رہي

۲۰۹

بولے : ميرے پرور دگار نے _

كہا : كس نے مصر كى عور توں كے مكر وفريب سے تمہيں دور ركھا ؟

كہنے لگے : ميرے پر ور د گار نے _

اس پر جبرئيل نے كہا : تمہارا پرور دگار كہہ رہا ہے كس چيز كے سبب تم اپنى حاجت مخلوق كے پاس لے گئے ہو اور ميرے پاس نہيں لائے ہو لہذاتمہيں چند سال اورزندان ميں رہنا چاہئے _

باد شاہ مصر كا خواب

حضرت يوسف عليہ السلام سات برس تك قيد خانے ميں تنگى وسختى ميں ايك فراموش شدہ انسان كى طرح رہے وہ خود سازى ' قيديوں كو ارشاد وہدايت ' بيماروں كى عيادت اور در د مند وں كى دلجو ئي ميں مصر وف رہے يہا ں تك كہ ايك ظاہر اً چھوٹا سا واقعہ رونما ہوا جس نے نہ صرف ان كى بلكہ مصر اور اس كے اطراف ميں رہنے والوں كى سر نوشت كو بدل كے ركھ ديا _

بادشاہ مصر كہ جس كا نام كہا جاتا ہے كہ وليدبن ريان تھا ( اور عزيز مصر اس كا وزير تھا ) اس نے ايك خواب ديكھا يہ ظاہر ا ًايك پريشا ن كن خواب تھا،دن چڑھا تو اس نے خواب كى تعبير بتانے والوں اور اپنے ساتھيوں كو جمع كيا اور كہنے لگا ميں نے خوب ميں ديكھا ہے كہ'' سات كمزورسى اور سات مو ٹى تازى گائيں ہيں اور دبلى پتلى گا ئيں ان پر حملہ آور ہو ئي ہيں اور انہيں كھا رہى ہيں نيز سات ہرے بھرے اور سات خشك شدہ گچھے ہيں اور خشك شدہ گچھے سبزگچھوں پر لپٹ گئے ہيں اور انہيں ختم كرديا ہے''( ۱)

اس كے بعد اس نے ان كى طرف روئے سخن كيا اور كہنے لگا : ''اے قوم كے سردارو : ميرے خواب كے بارے ميں اپنا نقطئہ نظر بيان كرو اگر تم خواب كى تعبير بتا سكتے ہو ''(۲) ليكن سلطان كے حواريوں نے فورا ًكہا كہ :يہ خواب پريشان ہيں اور ہم لوگ ايسے خوابوں كى تعبير نہيں جانتے ''( ۳)

____________________

(۱)سورہ يوسف آيت ۴۳

(۲) سورہ يوسف آيت ۴۴

(۳)سورہ يوسف آيت ۴۴

۲۱۰

يہاں يہ سوال پيش آتا ہے كہ انہوں نے كس طرح جرا ت كى 'شاہ مصر كے سا منے اس رائے كا اظہار كريں كہ وہ اسے پريشان خواب ديكھنے كا الزام ديں ،جبكہ ان حاشيہ نشينوں كا معمول يہ ہے كہ وہ ان كى ہر چھو ٹى بڑى اور بے معنى حركت كے لئے كو ئي فلسفہ گھڑتے ہيں اور بڑى معنى خيز تفسير يں كرتے ہيں ،يہ ہو سكتا ہے كہ يہ اس لئے ہو كہ انہوں نے ديكھا تھا كہ بادشاہ يہ خواب ديكھ كر پريشان ومضطرب ہے اور وہ پريشانى ميں حق بجانب بھى تھا كيو نكہ اس نے خواب ميں ديكھا تھا كہ كمزور اور لاغر گائيں تو انا اور موٹى تازى گائوں پر حملہ آور ہوتى ہيں اور انہيں كھا رہى ہيں اور يہى صورت خشك گچھوں كى تھى ،كيا يہ اس بات كى دليل ہے كہ كمزور لوگ اچانك اس كے ہاتھ سے حكو مت چھين ليں گے لہذا انہوں نے بادشاہ كے دل كا اضطراب دور كرنے كے لئے اس سے كہا كہ خواب كسى چيز كى دليل نہيں ہو تے _

بادشاہ كے ساقى نے جناب يوسف كو ياد كيا

اس مو قع پر بادشاہ كا سا قى كہ جو چند سال قبل قيد خانے سے آزاد ہو ا تھا ' اسے قيد خانے كا خيال آيا اسے ياد آيا كہ يوسف اس خواب كى تعبير بيان كر سكتے ہيں اس نے بادشاہ كے حاشيہ نشينوں كى طرف رخ كر كے كہا:'' ميں تمہيں اس خواب كى تعبير بتا سكتا ہو ں مجھے اس كا م كے ماہر استاد كے پاس بھيجو كہ جو زندان ميں پڑا ہے تاكہ تمہيں بالكل سچ خبر لاكر دوں ''(۱)

جى ہاں اس گوشئہ زنداں ميں ايك روشن ضمير ' صاحب ايمان اور پاك دل انسان زند گى كے دن گزار ہا ہے كہ جس كا دل، حوادث آئندہ كا آئينہ ہے ، وہ ہے كہ جو اس راز سے پردہ اٹھا سكتا ہے اور اس خواب كى تعبير بيان كر سكتا ہے _

اس كى اس بات نے محفل كى كيفيت ہى بدل دى ،سب كى آنكھيں سا قى پر لگ گئيں آخر كار اسے اجازت ملى اور حكم ملا كہ جتنى جلدى ہو سكے اس كام كے لئے نكل كھڑا ہوا اور جلد نتيجہ پيش كر ے ساقى زندان ميں

____________________

(۱) سورہ يوسف ۴۵

۲۱۱

آيا اور اپنے پرانے دوست يوسف(ع) كے پاس پہنچا، وہى دوست جس نے بڑى بے وفائي كى تھى ليكن اس كى عظمت سے تو قع نہيں كہ وہ د فتر شكا يت كھول بيٹھے _اس نے حضرت يوسف سے مخاطب ہو تے ہو ئے كہا : ''يوسف اے سرا پا صداقتاس خواب كے بارے ميں تم كيا كہتے ہو كہ كسى نے ديكھا ہے كہ سات لا غر گا ئيں مو ٹى تازى كو كھا رہى ہيں نيز سات ہر ے گچھے ہيں اور سات خشك شدہ ہيں ( كہ جن ميں سے دوسرا پہلے سے لپٹ گيا ہے اور اسے نابود كر ديا ہے '')'' شايد ميں اس طرح ان لوگوں كے پاس لو ٹ كے جائوں تو وہ اس خواب كے اسرار سے آگاہ ہو سكيں ''_(۱)

بہر حال حضرت يوسف عليہ السلام نے بغير كسى شرط كے اور بغير كسى صلہ كے تقاضے كے فوراً خواب كى واضح اور نہا يت اعلى تعبير بيان كى اس ميں آپ نے كچھ چھپا ئے بغير در پيش تاريك مستقبل كے بارے ميں بتايا ساتھ ہى اس كے لئے راہنما ئي كردى اور ايك مر تب پروگرام بتا ديا آپ نے كہا:''سات سال پيہم محنت سے كا شت كا رى كرو كيونكہ ان سات برسوں ميں بارش خو ب ہو گى ليكن جو فصل كا ٹو اسے خوشوں سميت انباروں كى صورت ميں جمع كر لو سوائے كھا نے كے لئے جو تھوڑ ى سى مقدار ضرورى ہو'' _(۲)

ليكن جان لوكہ ان سات برسوں كے بعد سات برس خشك سالى ، بارش كى كمى اور سختى كے آئيں گے كہ جن ميں صرف اس ذخيرے سے استفا دہ كرنا ہو گا جو گزشتہ سالوں ميں تمام ذخير،كيا ہوگا ورنہ ہلاك ہوجائوگے البتہ خيال رہے كہ خشكى اور قحط كے ان سات سالو ں ميں تمام ذخيرہ شدہ گندم نہ كھا جا نا ''بلكہ كچھ مقدار بيج كے طور پر آئندہ كا شت كيلئے ركھ چھوڑنا كيونكہ بعد كا سال اچھا ہو گا''( ۳)

اگر خشك سالى اور سختى كے يہ سال تم سو چے سمجھے پر گرام اور پلان كے تحت ايك ايك كركے گزار لو تو پھر تمہيں كوئي خطرہ نہيں ''اس كے بعد ايك ايسا سال آئے گا كہ خوب باران رحمت ہو گى اور لوگ اس آسمانى نعمت سے خوب بہرہ مند ہوں گے ''( ۴)

____________________

(۱)سورہ يوسف آيت ۴۶

(۲)سورہ يوسف ۴۷

(۳)سورہ يوسف آيت ۴۸

(۲)سورہ يوسف آيت ۴۸

۲۱۲

اس سے نہ صرف زراعت اور اناج كا مسئلہ حل ہو جا ئے گا بلكہ رس دار پھل اور روغن داردا نے بھى فراواں ہو ں گے ''كہ لوگ جن سے رس اور روغن حاصل كريں گے ''( ۱)

مصر كا قيدى يا بہترين رہبر

حضرت يوسف عليہ السلام نے خواب كى جو تعبير بيان كى وہ كس قدر جچى تلى تھى قديمى كہا نيوں ميں گائے سال كا سنبل سمجھى جا تى تھى اور اس كا توانا ہو نا فراواں نعمت كى دليل ہے جبكہ لاغر ہو نا مشكلات اور سختى كى دليل ہے سات لاغر گا ئيں سات تو انا گا ئو ں پر حملہ آور ہو ئيں تو يہ اس بات كى دليل ہے كہ سختى كے سات سالوں ميں قبل كے سالوں كے ذخائر سے فائدہ اٹھا نا چاہئے اور سات خشك شدہ خوشہ يا گچھے جو سات سبز خوشوں سے لپٹ گئے تو يہ فراوانى نعمت اور خشك سالى كے دو مختلف ادوار كے لئے ايك اور دليل تھى اس ميں اس نكتہ كا اضا فہ تھا كہ اناج كو خو شوں كى شكل ميں ذخيرہ كيا جانا چا ہئے تاكہ جلد خراب نہ ہو اور سات برس تك چل سكے _ نيز يہ كہ لاغر گا ئيں اور خشك شدہ خو شوں كے سات سے زيادہ نہ تھے يہ امر اس بات كى نشاندہى كر تا ہے كہ ان سخت سات سالوں كے بعد يہ كيفيت ختم ہو جا ئے گى اور فطرى طور پر بيج كى فكربھى كر نا چاہئے اور ذخيرے كا كچھ حصہ اس كے لئے محفوظ ركھنا چا ہئے_

حضرت يوسف(ع) درحقيقت كہ عام تعبير خواب بيان كرنے والے شخص نہ تھے بلكہ ايك رہبر تھے كہ جو گوشئہ زندان ميں بيٹھے ايك ملك كے مستقبل كے لئے منصوبہ بندى كر رہے تھے اور انہيں كم از كم پند رہ برس كے لئے مختلف مراحل پر مشتمل ايك پلان دے رہے تھے اور جيسا كہ ہم ديكھيں گے كہ يہ تعبير جو ائندہ كے لئے منصوبہ بندى اور راہنمائي پر مشتمل تھي;نے جابر بادشاہ اور اس كے حواريوں كو ہلا كے ركھ ديا اور اہل مصر كے ہلاكت خيز قحط سے نجات كا سبب بنى اور اسى كے سبب حضرت يوسف كو زندا ن سے اور حكومت كو بھى خود غرض اور خود سر لوگوں سے نجات مل گئي _

____________________

(۱)سورہ يوسف آيت ۴۹

۲۱۳

يوسف ہر الزام سے برى ہو گئے

جيسا كہ ہم كہہ چكے ہيں كہ حضرت يوسف عليہ السلام نے شا ہ مصر كے خواب كى جو تعبير بيان كى وہ اس قدر جچى تلى اور منطقى تھى كہ اس نے بادشاہ اور اس كے حاشيہ نشينوں كو جذب كرليا بادشاہ نے ديكھا كہ ايك غير معروف سے قيدى نے كسى مفاد كى تو قع كے بغير اس خواب كى مشكل تعبير كس بہتر ين طريقہ سے بيان كر دى ہے اور ساتھ ہى آئندہ كے لئے نہايت جچا تلا پر وگرام بھى پيش كر ديا ہے _ اجمالا ًاس نے سمجھ ليا كہ يہ كو ئي غلام قيدى نہيں ہے بلكہ غير معمولى شخصيت ہے كہ جو كسى پر اسرار ماجر ے كے باعث قيد ميں ڈالا گيا ہے لہذا اسے اس كے ديدار كا اشتياق پيدا ہوا ليكن ايسا نہيں كہ سلطنت كا غرور ايك طرف ركھ كر وہ ديد ار يوسف كے لئے چل پڑے بلكہ'' اس نے حكم ديا كہ اسے ميرے پاس لے آئو ''(۱)

ليكن جب اس كا فرستا دہ يوسف كے پاس آيا تو بجا ئے اس كے كہ يوسف اس خوشى ميں پھولے نہ سماتے كہ سالہا سال قيدخانے كے گڑھے ميں رہنے كے بعد اب نسيم آزادى چل رہى ہے 'آپ نے بادشاہ كے نمائندہ كو منفى جواب ديا اور كہا كہ ميں اس وقت تك زندان سے باہر نہيں آئوں گا،''جب تك كہ تو اپنے مالك كے پاس جاكر اس سے يہ نہ پوچھے كہ وہ عورتيں جنھوں نے تيرے وزير( عزيز مصر كے محل ميں اپنے ہاتھ كا ٹ لئے تھے ان كاما جرا كيا تھا'' _(۲)

وہ نہيں چاہتے تھے كہ ايسے ہى جيل سے رہا ہو جا ئيں اور شاہ كى طرف سے معين كئے گئے ايك مجرم يا كم از كم ايك ملزم كى صورت ميں زندگى بسر كريں وہ چاہتے تھے كہ سب سے پہلے ان كى قيد كے سبب كے بارے ميں تحقيق ہو اور ان كى بے گناہى اور پاكدامنى پورى طرح درجہء ثبوت كو پہنچ جائے اور برائت كے بعد وہ سر بلندى سے آزاد ہوں اور ضمناً حكومت مصر كى مشينرى كى آلود گى بھى ثابت ہو جا ئے اور يہ ظاہر ہو جا ئے كہ اس كے وزير كے در بار ميں كيا گزرتى ہے _

____________________

(۱) سورہ يوسف آيت ۵۰

(۲)سورہ يوسف آيت ۵۰

۲۱۴

جى ہاں : وہ اپنے عزو شرف كو آزادى سے زيادہ اہميت ديتے تھے اور يہى ہے حر يت پسند وں كا راستہ ہے_

يہ امر جاذب تو جہ ہے كہ حضرت يوسف نے اپنى گفتگو ميں اس قدر عظمت كا مظاہر ہ كيا كہ يہاں تك تيار نہ ہو ئے كہ عزيز مصر كى بيوى كا نام ليں كہ جو ان پر الزام لگا نے اور جيل بھجنے كا اصلى عامل تھى بلكہ مجمو عى طور پر زنان مصر كے ايك گروہ كى طرف اشارہ كيا كہ جو اس ما جرا ميں دخيل تھيں _

اس كے بعد آپ نے مزيد كہا : اگر چہ اہل مصر نہ جانيں اور يہا ں تك در بار سلطنت بھى بے خبر ہو كہ مجھے قيد كئے جا نے كا منصوبہ كيا تھا اور كن افراد كى وجہ سے پيش آيا ليكن '' ميرا پر وردگار ان كے مكر وفريب اور منصوبہ سے آگاہ ہے ''(۱)

شاہ كا خاص نما ئندہ اس كے پاس لوٹ آيا اور يوسف كى تجويز كہ جس سے اعلى ظرفى اور بلند نظرى جھلكتى تھى ، بادشاہ نے سنى تو وہ يوسف كى بزرگوارى سے بہت زيا دہ متا ثر ہوا لہذا اس نے فوراً اس ما جر ے ميں شريك عورتوں كو بلا بھيجا وہ حاضر ہو ئيں تو ان سے مخا طب ہو كر كہنے لگا : ''بتائو ميں ديكھوں كہ جب تم نے يوسف سے اپنى خواہش پورا كرنے كا تقاضا كيا تو اصل معا ملہ كيا تھا ''(۲)

سچ كہنا ، حقيقت بيان كرنا كہ كيا تم نے اس ميں كو ئي عيب تقصير اور گنا ہ ديكھا ہے ؟

ان كے خوابيدہ ضمير اس سوال پر اچا نك بيدار ہو گئے'' اور سب نے متفقہ طورپر يوسف كى پاكدا منى كى گواہى دى اور كہا : منزہ ہے خدا ' ہم نے يوسف ميں كو ئي گنا ہ نہيں ديكھا ''(۳)

زليخا كا اعتراف

عزيز مصر كى بيوى وہاں مو جو د تھى بادشاہ اور زنان مصر كى باتيں سن رہى تھى بغير اس كے كہ كوئي اس سے سوال كر ے، ضبط نہ كر سكى ' اس نے محسوس كيا كہ اب وہ مو قعہ آگيا ہے كہ ضمير كى سالہا سال كى شرمند گى كي

____________________

(۱)سورہ يوسف آيت ۵۰

(۲)سورہ يوسف آيت ۵۱

(۳) سورہ يوسف آيت ۵۱

۲۱۵

يوسف كى پاكيز گى اور اپنى گنہگارى كے ذريعہ تلافى كرے ،خصوصاًجب كہ اس نے يوسف(ع) كى بے نظير عظمت كو اس پيغام ميں ديكھ ليا تھا جوانہوں نے بادشا ہ كو بھيجا تھا ديكھ ليا كہ اپنے پيغام ميں انہوں نے اس كے بارے ميں تھوڑى سى بات بھى نہيں كى اور اشارتا ًصرف زنان مصر كے بارے ميں بات كى ہے اس كے اندار گويا ايك ہلچل مچ گئي ''وہ چيخ اٹھى : اب حق آشكارہو گيا ہے ميں نے اس سے خواہش پورى كرنے كا تقا ضا كيا تھا وہ سچا ہے''_(۱) اور ميں نے اس كے بارے ميں اگر كوئي بات كى ہے تو وہ جھوٹ تھى ، بالكل جھوٹ تھي''(۲)

زوجہ عزيز نے اپنى بات جارى ركھتے ہو ئے كہا : ميں نے يہ صريح اعتراف اس بناء پر كيا ہے ''تا كہ يوسف كو معلوم ہو جائے كہ ميں نے اس كى غيبت ميں اس كے بارے ميں خيانت نہيں كى ''( ۳)

كيونكہ اتنى مدت ميں اور اس سے حاصل ہو نے والے تجربات كے بعد ميں نے سمجھ ليا ہے'' كہ خدا خيانت كر نے والوں كے مكر و فريب كوچلنے نہيں ديتا ''(۴)

در حقيقت(۵) اس نے يوسف كى پاكيز گى اور اپنى گنہگار ى كے صر يح اعتراف كے لئے دو دليليں قائم كيں : پہلى يہ كہ اس كا ضميراور احتما لا يوسف سے اس باقى ما ندہ لگا ئو اسے اجا زت نہيں ديتا اور اسى لئے محلوں كى پر خواب زندگى كے پر دے آہستہ آہستہ اس كى آنكھوں كے سا منے سے ہٹ گئے اور وہ زندگى كى حقيقتوں كو سمجھنے لگى كے خصو صا عشق ميں شكست نے اس كے افسانوى غرور پر جو ضرب لگا ئي اس سے اس كى نگاہ حقيقت اور كھل گئي _

اس حالت ميں تعجب كى بات نہيں كہ وہ اس طرح كا صريح اعتراف كر ے_ اس نے اپنى بات جارى ركھتے ہوئے مزيد كہا : ''ميں ہر گز اپنے نفس كى برائت كا اعلان نہيں كر تى كيو نكہ ميں جانتى ہوں كہ يہ نفس امارہ مجھے برائيوں كا حكم ديتا ہے،مگر يہ كہ ميرا پروردگار رحم كرے ''_(۶)

____________________

(۱)(۲)سورہ يوسف آيت ۵۱

(۳) سورہ يوسف آيت ۵۲

(۴)سورہ يوسف آيت ۵۲

(۵)اگر چہ يہ جملہ عزيز مصر كى بيوى كا ہے ' جيسا كہ ظاہر عبارت كا تقاضا ہے

(۶)سورہ يوسف آيت ۳۵

۲۱۶

اور اس كى حفاظت اور نصرت ومدد كے باعث بچ جائوں (۱ ) بہر حال اس گنا ہ پر ميں اس سے عفو وبخشش كى اميد ركھتى ہوں ''كيو نكہ ميرا پر ور د گا ر غفور ورحيم ہے ''(۲)

يوسف (ع) ،مصر كے خزانہ دار كى حيثيت سے

''بادشا ہ نے حكم ديا كہ اسے ميرے پاس لے آئوتاكہ ميں اسے اپنا مشير اور نما ئندہ خاص بنائوں ''_(۳) اور اپنى مشكلا ت حل كر نے كے لئے اس كے علم ودا نش اور انتظامى صلا حيت سے مدد لوں _

با د شا ہ كا پر جوش پيام لے كر اس كا خاص نما ئند ہ قيد خا نے ميں يوسف كے پا س پہنچا _اس نے بادشا ہ كى طرف سے سلام ودعاپہنچا يا اور بتايا كہ اسے آپ سے شديد لگا و ہو گيا ہے _اس نے مصر كى عورتوں كے بارے ميں تحقيق سے متعلق آپ كى در خواست كو عملى جا مہ پہنا يا ہے اور سب نے كھل كر آپ كى پاكدا منى اور بے گنا ہى كى گواہى دى ہے لہذا اب تا خير كر نے كى گنجا ئش نہيں رہى اٹھيے تا كہ ہم اس كے پا س چليں حضرت يوسف باد شا ہ كے پاس تشريف لائے ''ان كى آپس ميں بات چيت ہو ئي بادشا ہ نے ان كى گفتگو سنى اور آپ كى پر مغزاور نہا يت اعلى باتيں سنيں اس نے ديكھا كہ آپ كى باتيں انتہائي علم ودانش اور دانا ئي سے معمو ر ہيں اور ہما رے نزديك قابل اعتما د رہيں گے ''( ۴)

آج سے اس ملك كے اہم كا م آپ كے سپر د ہيں اور آپ كو امور كى اصلاح كے لئے كمر ہمت باندھ لينا چا ہئے كيو نكہ ميرے خواب كى جو تعبير آپ نے بيان كى ہے اس كے مطا بق اس ملك كو شديد اقتصادى بحر ان در پيش ہے اور ميں سمجھتا ہوں كہ اس بحران پر صرف آ پ ہى قابو پاسكتے ہيں _ ''حضرت يوسف نے تجويز پيش كى مجھے اس علاقے كے خزا نوں كى ذمہ دارى سونپ دى جائے كيونكہ ميں خواب كے اسرار سے بھى واقف ہوں _''(۵)

____________________

(۱)سورہ يوسف آيت ۵۳

(۲)سورہ يوسف آيت ۵۳

(۳)سورہ يوسف آيت ۵۴

(۴) سورہ يوسف آيت ۵۴

(۵) سورہ يوسف آيت ۵۵

۲۱۷

حضرت يوسف اچھى طرح جانتے تھے كہ ظلم سے بھر ے اس معا شر ے كى پر يشانيوں كى ايك اہم بنياد اس كے اقتصا دى مسائل ہيں لہذا انہوں نے سو چا كہ اب جب كہ انہيں مجبور اً آپ كى طرف آنا پڑا ہے تو كيا ہى اچھا ہے كہ مصر كى اقتصا ديات كو اپنے ہاتھ ميں لے ليں اور محروم و مستضعف عوام كى مدد كے لئے آگے بڑ ھيں اور جتنا ہو سكے طبقاتى تفاوت اور او نچ نيچ كو كم كريں مظلوموں كا حق ظالموں سے ليں اور اس وسيع ملك كى بد حالى كو دور كريں _

آپ كى نظر ميں تھا كہ خاص طور پر زرعى مسائل اس ملك ميں زيادہ اہم ہيں اس بات پر بھى توجہ ركھنا ہو گى كہ چند سا ل فراوانى كے ہوں گے اور پھر خشكى كے سال در پيش ہوں گے لہذا لوگوں كو زيادہ سے زيادہ غلہ پيدا كر نے اور پھر انہيں احتياط سے محفوظ ركھنے اور نہا يت كم خر چ كرنے پر آمادہ كرنا ہوگا تا كہ قحط سالى كے لئے غلہ ذخيرہ كيا جاسكے،لہذا اس مقصد كے لئے آپ كو يہى بہتر معلوم ہوا كہ آپ مصر كے خزانوں كواپنى سر پرستى ميں لينے كى تجويز پيش كريں _ بعض نے لكھا ہے كہ اس سال بادشاہ سخت مشكلا ت ميں گھراہو ا تھا اور كسى طرح ان سے نجات چاہتا تھا لہذا اس نے تمام امور كى باگ ڈور حضرت يوسف كے ہاتھ ميں دے دى اور خود كنار ہ كشى اختيار كرلى _

بعض دوسروں كا كہنا ہے كہ اس نے عزيز مصر كى جگہ حضرت يوسف كو اپنا وزير اعظم بناليا _يہ احتمال بھى ہے كہ(۱) وہ صر ف مصر كے خزا نہ دار بنے ہوں _(۲) بہر حال اس مقام پر خدا كہتا ہے: ''اور اس طرح ہم نے يوسف كو سرزمين مصر پر قدرت عطا كى كہ وہ جيسے چاہتا تھا اس ميں تصرف كرتا تھا''(۳)

____________________

(۱)سورہ يوسف ايت ۵۵كے ظاہر ى مفہوم كے مطابق

ليكن سورہ يوسف آيت ۱۰۰ ،اور ۱۰۱، اس امر كى دليل ہيں كہ آخر كار آپ بادشاہ ہوگے اور تمام امور مملكت كى باگ ڈور آپ كے ہاتھ آگئي اگر چہ آيت ۸۸، ميں ہے كہ يوسف كے بھا ئيوں نے ان سے كہا : (يا ايھا العزيز )_

يہ اس امر كى دليل ہے كہ آپ نے عزيز مصر كا منصب سنبھا لا مگر اس ميں كوئي مانع نہيں كہ آپ نے يہ منصب تدريجا ًحاصل كئے ہوں پہلے وزير خزانہ ہو ئے ہوں ، پھر وزير اعظم اور پھر بادشا ہ _

(۲)(۳)سورہ يوسف آيت ۵۶

۲۱۸

جى ہاں :''ہم اپنى رحمت اور ما دى ورو حا نى نعمتيں جسے چا ہتے ہيں اور اہل پاتے ہيں عطا كر تے ہيں ''(۱) اور ہم نيكوں كا اجر ہر گز ضا ئع نہيں كريں گے ''_اگر چہ اس ميں تا خير ہو جا ئے تا ہم آخر كار جوكچھ ان كہ لائق ہوانھيں ديں گے_'' كيو نكہ ہم كسى نيك كام كو فراموش نہيں كرتے ''( ۲)

ليكن اہم بات يہ ہے كہ ہم صر ف دنيادى اجرہى نہيں ديں گے بلكہ ''جو اجر انہيں آخرت ميں ملے گا وہ اہل ايمان اور صاحبان تقوى كے لے زيادہ اچھا ہے ''( ۳)

سات سال بر كت اورسات سال قحط

آخر كار جيسا كہ پيشين گوئي ہوئي تھى سات سال پے در پے بارش ہو نے كے سبب اور دريا ئے نيل كے پانى ميں اضافہ كے باعث مصر كى زرعى پيدا وار خوب تسلى بخش ہو گئي مصر كا خزانہ اور اقتصادى امور حضرت يوسف كے زير نظر تھے آپ نے حكم ديا كہ غذا ئي اجنا س كو خراب ہو نے سے بچانے كے لئے چھو ٹے بڑے گودام بنائے جائيں آپ نے عوام كو حكم ديا كہ پيدا وار سے اپنى ضرورت كے مطا بق ركھ ليں اور باقى حكمومت كو بيچ ديں اس طرح گودام غلے سے بھر گئے _

نعمت وبر كت كى فرا وانى كے يہ سات سال گزر گئے اور خشك سالى كا منحوس دور شروع ہوا يوں لگتا تھا جيسے آسمان زمين كے لئے بخيل ہو گيا ہے كھيتياں اور نخلستان خشك ہو گئے عوام كو غلے كى كمى كا سامنا كر نا پڑا ليكن وہ جانتے تھے كہ حكومت نے غلے كے ذخائر جمع كر ركھے ہيں لہذا وہ اپنى مشكلات حكومت ہى كے ذر يعے دور كرتے تھے حضر ت يوسف بھى پورى منصوبہ بندى اور پرو گرام كے تحت غلہ فروخت كر تے تھے اور عاد لا نہ طور پر ان كى ضرورت پورى كر تے _

يہ بات جاذب نظر ہے كہ حضرت يوسف (ع) نے مصر كے لوگوں ميں طبقاتى تفاوت اور لوٹ گھسوٹ كو ختم كرنے كے لئے قحط كے سالوں سے استفادہ كيا ،اپ نے زيادہ پيدا وار كے عرصے ميں لوگوں سے غذائي

____________________

(۱)سورہ يوسف آيت ۵۶

(۲) سورہ يوسف آيت ۵۶

(۳)سورہ يوسف۵۷

۲۱۹

مواد خريد ليا اورا س كے لئے تيار كئے گئے بڑے بڑے گوداموں ميں اسے ذخيرہ كر ليا ،جب يہ سال گزر گئے اور قحط كے سال شروع ہوئے تو پہلے سال اجناس كو درہم و دينا ر كے بدلے بيچا ،اس طرح كرنسى كا ايك بڑا حصہ جمع كر ليا ،دوسرے سال اسباب زينت اور جواہرات كے بدلے اجناس كو بيچا ،البتہ جن كے پاس يہ چيزيں نہ تھيں انھيں مستثنى ركھا تيسرے برس چوپايوں كے بدلے ،چوتھے برس غلاموں اور كنيزوں كے عوض، پانچويں برس عمارت كے بدلے ،چھٹے برس زرعى زمينوں اور پانى كے عوض اور ساتويں سال خود مصر كے لوگوں كے بدلے اجناس ديں ،پھر يہ سب چيز يں انھيں (عادلانہ طورپر)واپس كر ديں اور كہا كہ ميرا مقصد يہ تھا كہ عوام كو بلا و مصيبت اور بے سروسامانى سے نجات دلاو ں _

برادران يوسف (ع) مصر پہونچے

يہ خشك سالى صرف مصر ہى ميں نہ تھى ،بلكہ اطراف كے ملكوں كا بھى يہى حال تھا فلسطين اور كنعا ن مصر كے شمال مشر ق ميں تھے وہاں كے لو گ بھى انہى مشكلات سے دوچارتھے حضر ت يعقوب كا خاندان بھى اسى علاقے ميں سكو نت پذ ير تھا وہ بھى غلہ كى كمى سے دوچار ہو گيا حضر ت يعقوب (ع) نے ان حالات ميں مصمم ارادہ كيا كہ بنيا مين كے علاوہ باقى بيٹوں كو مصر كى طرف بھيجيں يوسف كى جگہ اب بنيا مين ہى ان كے پاس تھا بہر حال وہ لوگ مصر كى طرف جانے والے قافلے كے ہمر اہ ہولئے اور بعض مفسرين كے بقول اٹھا رہ دن كى مسافت كے بعدمصر پہنچے _

جيسا كہ تو اريخ ميں ہے ، ضرورى تھا كہ ملك كے باہر سے انے والے افراد مصر ميں داخل ہو تے وقت اپنى شناخت كروائيں تاكہ مامور ين حضرت يوسف كو مطلع كريں جب مامورين نے فلسطين كے قافلے كى خبر دى تو حضرت يوسف نے ديكھا كہ غلے كى درخواست كر نے والوں ميں ان كے بھائيوں كے نام بھى ہيں آپ انھيں پہچان گئے اور يہ ظاہر كئے بغير كہ وہ اپ كے بھا ئي ہيں ، اپ نے حكم ديا كہ انہيں حاضر كيا جا ئے اور جيسا كہ قران كہتا ہے : ''يوسف كے بھائي ائے اور ان كے پاس پہنچے يوسف نے انہيں پہچا ن ليا ليكن

۲۲۰

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667