قصص القرآن-منتخب از تفسير نمونه

قصص القرآن-منتخب از تفسير نمونه   8%

قصص القرآن-منتخب از تفسير نمونه   مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 667

قصص القرآن-منتخب از تفسير نمونه
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 667 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 335815 / ڈاؤنلوڈ: 6153
سائز سائز سائز
قصص القرآن-منتخب از تفسير نمونه

قصص القرآن-منتخب از تفسير نمونه

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

قعقاع ،ایران کی جنگوں میں

اعجزت الاخوات ان یلدن مثلک یا قعقاع ! (بارق۔قعقاع کاماموں )

(سیف کا بیان)

بہر سیر کی فتح

طبری ،سیف سے نقل کرتے ہوئے فتح بہر سیر کی داستان کو حسب ذیل صورت میں بیان کرتاہے:

''ابو مفزر تمیمی نے ایران کے بادشاہ کے مأمور اور ایلچی سے ایک ایسی بات کہی جو ایرانیوں کے فرار کاسبب بنی''۔

اس قصہ کی تفصیل ابو مفزر تمیمی جو سیف کے جعلی اصحاب میں سے ایک ہے کی

زندگی کے حالات پر بحث کے دوران بیان ہوگی۔

حمیری ''روض المعطار ''میں جب مدائن کی تشریح کرنے پر پہنچتا ہے تو اس شہر کو تسخیر کئے جانے کے سلسلہ میں سیف کی روایت بیان کرتے ہوئے اس کے آخر میں لکھتاہے:

''اور قعقاع بن عمرو نے اس سلسلے میں یہ شعر کہے ہیں :ہم نے بہر سیر کو شجع وقافیہ سے مزین اس حق بات کے ذریعہ فتح کیا جو ہماری زبان پر جاری ہوئی ۔ہمارے خوف سے ان کے دل ہل گئے اور وہ ہماری ننگی اورتیز تلواروں کے سامنے آنے سے ڈرگئے''۔

۲۰۱

مدائن کی فتح

سیف روایت کرتاہے کہ:

''قعقاع کی کمانڈ میں فوجی دستہ کانام خرساء (خموشان)اور اس کے بھائی عاصم کی کمانڈ میں فوجی دستہ کانام اہوال (وحشت)تھا''۔

ان دو دستوں کے دریائے دجلہ سے عبور کی تفصیلات ہم عاصم سیف کے افسانوی صحابی کی سوانح حیات پر بحث کے دوران بیان کریں گے۔

بہر حال سیف اپنی ایک روایت کے ضمن میں کہتاہے:

''دریائے دجلہ کو عبور کرنے کے دوران سپاہیوں میں غرقدہ نام کے ایک شخص کے علاوہ کوئی شخص غرق نہیں ہوا۔غرقدہ دریا کو عبور کرتے ہوئے اچانک گھوڑے کی پیٹھ سے پھسل کر پانی مین جاگرا۔قعقاع بن عمرو متوجہ ہوا،اس نے ہاتھ بڑھایااور غرقدہ کا ہاتھ پکڑ کر دریائے دجلہ پار کرکے اسے ساحل تک پہنچادیا۔غرقدہ چونکہ ایک قوی پہلوان تھا اور قعقاع کی والدہ بھی خاندان بارق سے تعلق رکھتی تھی ،اس لئے غرقدہ نے قعقاع کی والدہ کی طرف اشارہ کرکے اس لشکر شکن پہلوان سے خطاب کرکے کہا:اے قعقاع! میری بہنیں پھر کبھی تجھ جیسا پہلوان پیدا نہیں کرسکتیں ''

سپاہیوں کے مدائن میں داخل ہونے کے سلسلے میں سیف لکھتاہے :

''سب سے پہلا فوجی دستہ جو شہر مدائن میں داخل ہوا،اہوال فوجی دستہ تھا جس کی کمانڈ عاصم بن عمرو کررہاتھا۔اس کے بعد خرساء فوجی دستہ مدائن میں داخل ہوا ۔ سپاہیوں نے اس شہر کی گلی کو چوں میں کسی فوجی کو نہیں پایا،کیونکہ سبوں نے سفید محل میں پناہ لے رکھی تھی۔اسلامی فوجیوں نے سفیدمحل کو اپنے محاصرے میں لے لیا اور انھیں ہتھیار ڈالنے کوکہا۔انھوں نے مجبور ہوکر ہتھیار ڈال دئے اور جزیہ دینا قبول کیا''۔

۲۰۲

بادشاہوں کا اسلحہ ،غنیمت میں

سیف نے حسب ذیل روایت کی ہے:

''مدائن کے فتح ہونے کے دن ،قعقاع شہر سے باہر نکلا اور تلاش و جستجو میں مشغول ہوا، اسی دوران اس کی ایک ایرانی سے مڈبھیڑ ہوئی جو دو چوپایوں کے اوپر ایک بھاری بوجھ لے کرجا رہا تھا ۔اور لوگ چاروں طرف سے اس کی حفاظت کر رہے تھے قعقاع نے اس شخص پر حملہ کیا اور اسے قتل کر ڈالا اور ان دونوں چوپایوں کو اپنے قبضہ میں لے لیا جب ان پر لدے ہوئے سامان کی جستجو کی تو ان میں سے ایک کے اندر کسریٰ ،ہرمز ،قباد ،فیروز ،ہراکلیوس ،ترکمنستان کے بادشاہ خاقان ،ہندوستان کے بادشاہ داہر ،بہرام سیاوش اور نعمان جیسے بادشاہوں کی تلواریں موجود تھیں دوسرے صندوق میں کسریٰ کی زرہ ،کلاہ اس کے پائوں اور ہاتھوں کی حفاظتی سپر اور ہراکلیوس ، خاقان اور داہر کی زرہ سیاوش کی زرہ اور نعمان کی زرہ جو جنگ میں ان سے غنیمت کے طور پر لی گئی تھی موجود تھیں ۔اس کے علاوہ بہرام چوبین اور نعمان کے وہ اسلحہ بھی اس میں موجود تھے جو ان سے اس وقت غنیمت میں لئے گئے تھے جب وہ کسریٰ کی بغاوت کرکے اس سے جدا ہوئے تھے ۔

قعقاع نے یہ سب غنائم یکہ و تنہا اپنے قبضہ میں لینے کے بعد انھیں سپہ سالار اعظم سعد وقاص کی خدمت میں پیش کیا سعد نے تجویز کی کہ ان میں سے ایک تلوار قعقاع اپنے لئے انتخاب کرے ۔قعقاع نے ہر اکلیوس کی تلوار کا انتخاب کیا اس کے علاوہ سعد نے بہرام چو بین کی زرہ بھی اسے بخش دی اور کسریٰ و نعمان کی تلواروں کو جن کے بارے میں عربوں میں کافی شہرت تھی خلیفہ عمر کی خدمت میں مدینہ بھیج دیا کہ مسلمان اسے دیکھ لیں اور باقی غنائم خرساء فوجی دستہ کے سپاہیوں کو بخش دئے ''

یہ سب روایتیں افسانہ سازی کے بہادر اور ماہر سیف بن عمر تمیمی کی ہیں ۔اس داستان کی ، دریائے دجلہ سے سپاہیوں کے عبور کرتے وقت ،عاصم بن عمر و کی سوانح حیات بیان کرتے وقت اور فتح بہرسیر کے واقعہ کے بارے میں ابو مفزر اسود بن قطبہ کے حالات پر روشنی ڈالتے وقت مزید وضاحت کی جائے گی ۔

۲۰۳

سند کی پڑتال:

سیف نے اس داستان کو اپنے دو جعلی راوی محمد اور مہلب سے نقل کیا ہے کہ حقیقت مین ان کا کہیں وجود نہیں ہے ۔

ا ن کے علاوہ عصمة بن حارث کو بھی راوی کے طور پر ذکر کیا ہے کہ یہ بھی سیف بن عمر کے جعلی روایوں میں سے ایک ہے اور اس کی زندگی کے حالات مناسب جگہ پر بیان کئے جائیں گے ۔

مزید بر آں نضر بن السری نام کا ایک اور راوی سیف نے پیش کیا ہے کہ اس کے ذریعہ طبری میں چوبیس روایات نقل ہوئی ہیں ۔دو اور راوی رفیل اور ابن رفیل ہیں جن سے طبری نے سیف سے بیس روایتیں نقل کی ہیں ۔

ان سب راویوں کو بھی ہم نے سیف کی روایتوں کے علاوہ کسی اور کتاب میں نہیں پایا ۔

دلچسب بات یہ ہے کہ سیف کے مندرجہ بالا جعلی راویوں کے علاوہ اس داستان کے چند دیگر راوی ایک شخص !قبیلہ ٔحارث کا ایک شخص کے عنوان سے بھی ذکر کئے گئے ہیں ۔کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ ان دوافراد کے نام کیا تھے تاکہ ہم انھیں راویوں کی فہرست میں تلاش کریں !!

جیسا کہ ہم بتا چکے ہیں کہ سیف کی باتیں سنجیدہ اور بھاری بھرکم ہونے کے بجائے بیشتر لچر اور مضحکہ خیز ہوتی ہیں ،خاص کر جب وہ اپنے افسانوں کے راویوں کو ایک شخص ،یا قبیلہ حارث کا ایک شخص یا ابن رفیل وغیرہ کے عنوان سے ذکر کرتا ہے ۔

ستم ظریفی کی حد ہے کہ ان واضح جھوٹ ،بہتان اور افسانوں پر مشتمل داستان کو سیف نے گڑھاہے اور امام المورخین طبری نے انھیں بے چوں وچرا نقل کرکے اپنی گراں قدر اور معتبر کتاب میں درج کیا ہے اور دوسرے تاریخ دانوں نے بھی اس کے بعد انہی مطالب کو طبری سے نقل کیا ہے ۔

۲۰۴

اس داستان کی تحقیق اور اس کے فوائد :

جو کچھ اس بحث و تحقیق سے حاصل ہوتا ہے وہ یہ کہ سیف نے دو تمیمی بھائیوں کی کمانڈ میں ''خاموش '' و ''وحشت'' نامی دو افسانوی فوجی دستے مشخص کئے ہیں اور ایک روایت کے ذریعہ ثابت کیا ہے کہ دریائے دجلہ کو پار کرکے مدائن میں داخل ہونے والے فوجیوں میں یہ دو دستے پیش پیش تھے اور یہ افتخار صرف خاندان تمیم کے ناقابل شکست دو سورمائوں یعنی قعقاع ابن عمرو تمیمی و عاصم ابن عمر و تمیمی کو حاصل ہوا ہے ۔اس کے علاوہ اس بے مثال پہلوان بارقی جو آسانی کے ساتھ کسی کی تعریف نہیں کرتا تھا کی زبانی یہ کہلوایا ہے کہ : '' اے قعقاع !دنیا کی عورتیں کبھی تم جیسا سورما جنم نہیں دے سکتیں !''

یہاں پر بھی قعقاع تمیمی ہی ہے جو فرار کرنے والے سپاہیوں کا پیچھا کرکے غنائم کے محافظین کو قتل کر ڈالتا ہے اور اس قدر غنائم پر قبضہ کرتا ہے ۔ان غنائم میں ایرانی بادشاہوں : کسریٰ ،ہرمز ،قباد ، فیروز اور بہرام چوبین کے علاوہ ہندوستان کے بادشاہ داہر ،روم کے بادشاہ ہراکلیوس اور عرب قحطانی یمانی سلطان نعمان کے اسلحے اور جنگی ساز وسامان شامل تھا ۔اس افتخار سے بڑھ کر مضر خاندان کے عظیم پہلوان اور ناقابل شکست سورما قعقاع بن عمرو تمیمی کے لئے کون سا فخر ہو سکتا ہے کہ اس نے تمام دنیا کے بادشاہوں سے باج لے کر خاندان تمیم کے سرپر فضیلت کا تاج رکھ دیا ہے !!

شاباش ہو سیف پر !جس نے خاندانی تعصب کی بنیاد پر تمام اصولوں کو پائمال کرتے ہوئے خاندان تمیم کے پیروں تلے ایک لڑکھڑاتی سیڑھی قرار دے کر اسے بلند سے بلند لے جانے کی ہر ممکن کوشش کی ہے چاہے اس کا یہ کام کسی ملت یا اسلام کی تاریخ کے نابود ہونے کا سبب کیوں نہ بن جائے !!

۲۰۵

جلولا ء کی فتح

طبری نے سیف سے روایت کی ہے :

''خلیفہ عمر نے سپہ سالار اعظم سعد و قاص کو حکم دیا کہ ایرانیوں سے جنگ کرنے کے لئے ہاشم کو جلولاء بھیج دے اور قعقاع بن عمرو تمیمی کو اس کے ماتحت ہر اول دستہ کے سردار کی حیثیت سے مقرر کرے ۔خدا کی طرف سے ایرانیوں کو شکست اور مسلمانوں کی فتحیابی کے بعد عراق اور ایران کے سرحدی علاقوں کی حکومت قعقاع کے سپرد کی جائے ۔

جب ہاشم ،جلولاء پہنچا تو اسے معلوم ہوا کہ ایرانیوں نے اپنے چاروں طرف ایک خندق کھودی ہے اور خود اس میں مخفی ہو گئے ہیں خندق کے اطراف میں تیز دھار والے لوہے کے ٹکڑے اور جنگی سازوسامان کے ٹوٹے پھوٹے آلات پھیلا کے رکھے گئے تھے تاکہ اپنی پناہ گاہ میں داخل ہونے سے اسلامی فوج کے لئے رکاوٹیں کھڑی کر سکیں انھوں نے اپنی پناہ گاہ کے چاروں طرف ایسی رکاوٹیں کھڑی کی تھیں کہ اسلامی فوج کے لئے کسی صورت میں اس کے اندر داخل ہونا ممکن نہیں تھا اس کے برعکس ایرانی جب چاہتے ان تما م رکاوٹوں کے باوجود آسانی کے ساتھ اس پناہ گاہ میں رفت و آمد کر سکتے تھے ۔

مسلمان اس معرکہ میں اسّی (٨٠) دن تک مشرکین پر حملہ کرتے رہے لیکن تقریبا تین ماہ کی اس مدت کے دوران کوئی خاص پیش قدمی نہ کر سکے ۔

ان حالات کے پیش نظر قعقاع ،وہ معروف شہسوار اور ناقابل شکست پہلوان اس تنہا راستہ پر قبضہ کرنے کے لئے مناسب فرصت کی تلاش میں تھا ،جسے مشرکین نے اپنے فوجیوں کی رفت و آمد کے لئے بنا رکھا تھا جب اسے مناسب موقع ملا تو اس نے یکہ و تنہا اس جگہ پر حملہ کیا اور اسے اپنے قبضے میں لے لیا اور پکار کر کہا : اے مسلمانو!تمھارا سپہ سالار اس وقت دشمن کے مورچے کے اندر ہے حملہ کرو!'' قعقاع نے اس لئے یہ جھوٹ بولا تاکہ اسلامی فوج کے حوصلے بلند ہو جائیں اور وہ دشمن پر ٹوٹ پڑیں ۔

قعقاع کی یہ چال کامیاب ہوئی اور اسلامی فوج نے اجتماعی طور پر مشرکین پر حملہ کردیا اس یورش کے دوران انھیں یہ یقین تھا کہ ان کا سپہ سالار ہاشم دشمن کے مورچوں کے اندر گھس گیا ہے ،لیکن اس کے بر عکس قعقاع ابن عمر وتمیمی کو پایا جس نے دشمنوں کی گزرگاہ پر قبضہ کر رکھا تھا۔

۲۰۶

اس کے بعد گھمسان کی جنگ چھڑ گئی اور ایرانی جان کے لالے پڑ نے کی وجہ سے اندھا دھند بھاکتے ہوئے خود اسی جال میں پھنس کر ہلاک ہو گئے جسے انھوں نے اپنے دشمن کے لئے رکاوٹ کے طور پر بچھا رکھا تھا ۔ اس طرح ان کے مرنے والوں کی تعداد ایک لاکھ تک پہنچ گئی اور لاشوں سے زمین بھر گئی ۔اسی لئے اس جگہ کی جنگ کو ''جنگ جلولاء ''(۱) کہتے ہیں !!

قعقاع نے فراریوں کا خانقین تک پیچھا کیا بعض کو قتل کیا اور بعض کو اسیر بنایا ۔ ایرانی فوج کے سردار مہران کو بھی موت کے گھاٹ اتار دیا ۔اس کے بعد قعقاع قصر شرین کی طرف بڑھا اور حلوان سے ایک فرسخ کے فاصلہ پر پہنچا ۔حلوان کا سرحد بان قعقاع کی پیش قدمی کو روکنے کے لئے مقابلے میں آیا ،لیکن اس جنگ کے نتیجہ میں قعقاع کے ہاتھوں مارا گیا اور مسلمانوں نے حلوان پر بھی قبضہ کر لیا۔

سپہ سالار اعظم سعد وقاص کے مدائن سے کوفہ واپس آنے تک قعقاع بن عمر و ،تسخیر شدہ سرحدی علاقوں اور ان کے اطراف کا حاکم رہا جب وہ سعد وقاص سے ملنے کے لئے کوفہ کی طرف روانہ ہوا تو قباد خراسانی کو سرحد بان کی حیثیت سے مقرر کیا ۔

حموی ،جلولاء کی تشریح کرتے ہوئے لکھتا ہے:

''ایک دریا ہے جو بعقوبہ تک پھیلا ہوا ہے اس کے دونوں کناروں پر اس علاقہ کے باشندوں کے گھر بنے ہیں ۔وہاں پر ١٦ھ میں مسلمانوں اور ایرانیوں کے درمیان ایک گھمسان اور مشہور جنگ واقع ہوئی ہے کہ اس میں ایرانیوں کو سخت ہزیمت اٹھانا پڑی ۔میدان جنگ لاشوں سے بھر گیا اور زمین ان لاشوں سے ڈھک گئی تھی ،اسی سبب سے اسے '' جلولاء و قیعہ '' کے نام سے یاد کیا گیا ہے جیسے کہ سیف کہتا ہے : خدائے تعالیٰ نے جنگ جلولاء میں مشرکین کے ایک لاکھ افراد کو ہلاک کر دیا اور ان کی لاشوں سے زمین بھر گئی ،اسی لئے اسے جنگ جلولاء کے نام سے یاد کیا جاتا ہے ۔ قعقاع ابن عمر ونے جنگ جلولاء میں شعر کہے :

____________________

۱)۔ جللہ ۔یعنی ایسا پردہ اس پر رکھا گیا جس نے اسے پوری طرح ڈھانپ لیا سیف کا کہنا ہے کہ اس زمین کو خون نے پوری طرح ڈھانپ لیا تھا ،اس لئے اسے '' جلولاء '' کہا گیا ۔یعنی خون سے ڈھکی ہوئی زمین۔

۲۰۷

'' ہم نے جلولاء میں ''اثابر'' اور ''مہران'' کو موت کے گھاٹ اتار دیا جب ان کے لئے راستے بند ہوگئے اس وقت ہماری فوجوں نے ایرانیوں کو محاصرے میں لے لیا اور ایرانی نسل نابود ہو کر رہ گئی :

اس جنگ کے بارے میں کہے گئے اشعار بہت زیادہ ہیں :

حموی نے حلوان کی تشریح کرتے ہوئے اس کے بارے میں لکھا ہے :

'' یہ جگہ ١٩ھ میں مسلمانوں کے ہاتھوں فتح ہوئی ''

جب کہ سیف بن عمر نے اپنی کتاب میں اسے ١٦ھ لکھا ہے ۔اور قعقاع بن عمر وتمیمی نے حلوان کی فتح کے بارے میں شعر کہے ہیں :

'' کیا تمھیں یاد ہے کہ ہم اور تم نے کسریٰ کے گھروں میں پڑائو ڈالا ؟ ہم نے حلوان کی جنگ میں تمھاری مدد و حمایت کی اور بالاخر ہم سب وہاں ایک ساتھ اترے ۔اور عورتوں اور کنیزوں کے کسریٰ کے اوپر نالہ و شیون کرنے کے بعد ہم نے حلوان میں فتح پائی ''

سیف کی روایت کا دوسروں کی روایت سے موازنہ :

طبری نے فتح جلولاء اور فتح حلوان کے بارے میں اپنی کتاب میں سیف بن عمر تمیمی کی روایت کے علاوہ کسی اور کی روایت کے بارے مین کوئی ذکر نہیں کیا ہے جب کہ یہ داستانیں دینوری اور بلاذری کی کتابوں میں درج کئے گئے واقعات کے بر عکس ہیں ۔دینوری اور بلاذری نے لکھا ہے :

''جلو لاء میں مسلمانوں کا حملہ ایک ہی دن شروع ہوا اور اس دن شام تک جنگ جاری رہی۔افق پر سرخی نمودار ہوتے ہی مسلما نوں کی کا میابی کے آثار نظر آنے لگے اور دشمن بھاگنے پر مجبور ہوگئے اور شام ہوتے ہی جنگ ختم ہوئی ۔دشمن کے چھوٹے بڑے خیموں پر مسلما نوں نے قبضہ کرلیا۔''

۲۰۸

جب کہ سیف کہتا ہے:

''مسلما نوں کا حملہ او ر ان کی پیش قدمی اسّی دن تک جاری رہی۔''

وہ مزید کہتا ہے :

''سر حدی علاقوں کے ایک حصہ کی حکومت قعقاع بن عمرو تمیمی کو دیدی گئی ۔''

جب کہ بلا ذری اور دینوری نے لکھا ہے :

''جرید بن عبداللہ بجلی قحطانی یمانی نے چار ہزار سپاہیوں کی سر کردگی میں جلولاء کی حکومت اپنے ہاتھ میں لے لی اور اسی نے حلوان کو بھی فتح کیا ہے ۔''

نہ کہ بقول سیف قعقاع بن عمرو تمیمی نے !!

سند کی جانچ :

سیف نے اس داستان کو بھی محمد اور مھلب سے نقل کیا ہے جب کہ یہ دونوں اس کے جعلی راوی ہیں ۔

اسی طرح سیف نے اس روایت کے راوی کے طور پر عبداللہ محفز کا ذکر کیا ہے جس نے اپنے باپ سے رو ایت کی ہے ۔عبداللہ محفز سے مجموعی طور پر چھہ احادیث تاریخ طبری میں سیف کے ذریعہ درج ہوئی ہیں ۔

سیف کی نظر میں اس روایت کا ایک اور راوی مستنیر بن یزید ہے کہ تاریخ طبری میں سیف کے ذریعہ اس سے اٹھارہ روایتیں نقل ہوئی ہیں ۔

اس کے علاوہ بطان بن بشیر ہے ،جس سے سیف کی تاریخ طبری میں صرف ایک روایت نقل ہوئی ہے اور حماد بن فلان !!البرجمی ہے جس نے اپنے باپ سے روایت کی ہے ۔اس سے سیف کے ذریعہ طبری میں دو روایتیں نقل ہوئی ہیں ۔

ہم نے سیف کے مذکورہ بالا راویوں کو راویوں کا فہرست اور طبقات میں بہت تلاش کیا لیکن ان کا کہیں کوئی نام و نشان نہیں پایا ۔صرف سیف کے یہا ں ان کا سراغ ملتا ہے چونکہ گزشتہ تجربے کی روشنی میں جا ن گئے ہیں کہ سیف اشخاص کو جعل کرنے میں ماہر ہے ،اس لئے ہم سمجھ گئے کہ یہ راوی بھی اس کے تخیلات کی تخلیق اور جعلی ہیں ۔

۲۰۹

اس کے علاوہ ہم نے اس سے پہلے بھی اشارہ کیا ہے کہ سیف کی روایتیں سنجیدہ ہونے کے بجائے مضحکہ خیز ہوتی ہیں ،خاص کر جب وہ اپنے افسانوں کے لئے کسی راوی کو حماد بن فلان !!کے نام سے ذکر کرتا ہے جس نے جناب فلاں سے روایت کی ہے !!

سیف کی روایت کا دوسروں کی روایات سے موازنہ:

ہم نے مشاہدہ کیا کہ طبری نے سیف سے جلولاء کی جنگ ،اس کی وجہ تسمیہ اور اس جنگ میں مقتولین کی تعداد کے بارے میں مطالب ذکر کئے ہیں جو سب کے سب اس کے بر عکس ہیں جن کا دوسروں نے ذکر کیا ہے ۔

حموی نے داستان سیف کے ایک حصہ کو سیف کے قعقاع سے نسبت دئے گئے اشعار کو جلولاء کی تشریح میں اپنے مطالب کی دلیل کے طور پر درج کرتے ہوئے تاکید کی ہے کہ جلولاء اور حلوان کے بارے میں سیف کی کتاب میں بہت سے اشعار موجود ہیں ۔

لیکن طبری نے اپنی عادت کے مطابق ان تمام اشعار میں سے ایک شعر بھی اپنی کتاب میں درج نہیں کیا ہے ۔ وہ سیف سے نقل کرتے ہوئے عراق وایران کے سر حدی علاقوں کی حکومت قعقاع بن عمرو تمیمی کے ہاتھ میں ہونا بیان کرتا ہے اور حلوان کا فاتح بھی اسی کو ٹھہرا تا ہے ۔جب کہ حقیقت یہ ہے کہ اس علاقے کی حکومت جریر بن عبداللہ بجلی قحطانی یمانی کے ہاتھ میں تھی اور یہی جریر یمانی ہے جس نے حلوان کو کرمانشاہ تک فتح کیا ہے ،نہ کہ قعقاع نے !

اور یہ نکتہ ہم نے گزشتہ بحثوں میں مکرر کہا ہے کہ طبری نے اس داستان کو براہ راست سیف سے نقل کرکے اپنی تاریخ میں درج کیا ہے اور دیگر مورخین ،جیسے ابن کثیر ،ابن اثیر ،ابن خلدون اور میر خواند،سبوں نے طبری سے نقل کرکے اسے اپنی تاریخ کی کتابوں میں درج کیا ہے ۔

۲۱۰

اس حدیث کے نتائج :

١۔ناقابل تسخیر مورچہ پر قبضہ کرنے کی صورت میں قعقاع کے افتخارات میں ایک اور فخر کا اضافہ کرنا۔

٢۔ خاندان تمیم کے افسانوی سورما قعقاع کے ہاتھوں ایرانی سپہ سالار مہر ان کا قتل ہونا۔

٣۔ حلوان کی فتح اور اس کے سرحدبان کا قتل ہونا۔

٤۔ تسخیر شدہ سرحدی علاقوں پر خاندان تمیم کے ناقابل شکست بہادر قعقاع کی حکومت جتلا کر خاندان تمیم کے سر پر فضیلت کا تاج رکھنا۔

٥۔ اور آخر کار جنگ جلولاء میں ایک لاکھ انسانوں کے قتل عام کا مسلمانوں کی دوسری جنگوں

میں کئے گئے انسانی قتل عام میں اضافہ کرکے ان لوگوں کے لئے ایک اور سند فراہم کرنا ،جو یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ اسلام تلوار سے پھیلا ہے ۔

یہاں تک ہم نے قعقاع کی ایران میں فتوحات کے سلسلے میں سیف کی روایات کا جائزہ لیا اگلی فصل میں ہم ان دیگر فتوحات کے بارے میں تحقیق کریں گے جن کو سیف نے ایران کی فتح کے بعد دوبارہ شام میں اس افسانوی سورما قعقاع کے لئے جعل کیا ہے۔

۲۱۱

قعقاع دوبارہ شام میں

یدعون قعقاعا لکل کریهة

فیجیب قعقاع دعاء الهاتف

ہر خطر ناک حادثہ میں قعقاع سے مددکی درخواست کی جاتی ہے اور وہ بھی فریاد رس بن کر تیزی سے دوڑتا ہے ۔

حمص کی فتح :

طبری نے سیف سے نقل کرتے ہوئے ١٧ھ کے حوادث کے ضمن میں لکھا ہے :

'' ابو عبید ہ جراح خلیفہ عمر کی طرف سے شام میں مامور تھا ،اس نے خلیفہ سے مدد طلب کی خلیفہ نے سعد وقاص کو لکھا کہ ابو عبیدہ دشمن کے محاصرہ میں ہے میرے اس خط کے ملتے ہی قعقاع بن عمر و کو ایک لشکر کے ہمراہ اس کی مدد کے لئے روانہ کرو کیوں کہ ابوعبیدہ کو دشمن نے گھیرلیا ہے ۔

قعقاع خلیفہ کا حکم ملتے ہی حکم کی تعمیل میں اسی روز چار ہزار سپاہیوں کے ہمراہ شام کی طرف روانہ ہوا ،جوں ہی مشرکین کو پتا چلا کہ ابوعبیدہ کے لئے فوجی کمک پہنچ رہی ہے انھوں نے محاصرہ کھول دیا اور منتشر ہوگئے ۔اس طرح خدا ئے تعالیٰ نے قعقاع کے وجود کی برکت سے شہر حمص کو ابوعبیدہ کے ہاتھوں فتح کیا ۔

قعقاع اپنے سپاہیوں کی قیادت میں فتح حمص کے واقعہ کے تین دن بعد ابو عبیدہ سے ملحق ہوا ۔ ابوعبیدہ نے فتح حمص کے موضوع اور تین دن گزرنے کے بعد قعقاع اور اس کی فوج کے اس سے ملحق ہونے کے بارے میں خلیفہ عمر کو رپورٹ دی اور جنگی غنائم کی تقسیم کے سلسلے میں دریافت کیا ،عمر نے ابو عبیدہ کو لکھا کہ جنگی غنائم میں قعقاع اور اس کے ساتھیوں کو اپنے ساتھ شریک قرار دے ،کیوں کہ وہ تیری مدد کے لئے آئے ہیں اور انہی کے سبب دشمن نے تم پر سے محاصرہ اٹھالیا تھا ۔اور اپنے خط کے آخر میں حسب ذیل اضافہ کیا:

'' خدا ئے تعالیٰ کو فیوں کو نیک جزاء دے کیوں کہ وہ اپنے وطن کا خیال رکھتے ہیں اور دوسرے شہر یوں کی مدد بھی کرتے ہیں ''

۲۱۲

سیف کی روایت کا دوسروں سے موازنہ :

ابن عساکر نے قعقاع کی زندگی کے حالات میں حمص کی داستان کو سیف سے نقل کیا ہے اور اس کے ضمن میں لکھتا ہے :

'' قعقاع بن عمرو حمص کی جنگ کے بارے میں اپنے شعر میں یوں تشریح کرتا ہے ''

''قعقاع کو ہر سختی اور مشکل سے مقابلہ کرنے کے لئے طلب کرتے ہیں اور وہ بھی مدد طلب کرنے والوں کی طرف فریاد رس کی حیثیت سے دوڑ تا ہے ۔

ہم دشمن سے مقابلہ کرنے کے لئے حمص کی طرف اس طرح دوڑپڑے جیسے کوئی کسی بے چارہ کی مدد کرنے کے لئے فریاد رس کی حیثیت سے بڑھتا ہے ۔

جب ہم دشمن کے نردیک پہنچے تو خدائے تعالیٰ نے ہماری ہیبت سے ان کو شکست دے دی اور وہ فرار کر گئے ۔

میں نے صحرائوں اور درّوں میں دشمن پر پے در پے تیر اندازی کی ،حتیٰ حمص کو اپنے تیروں ،نیزوں اور زور و غلبہ سے اپنے قبضہ میں لے لیا ''

ابن حجر نے ''الاصابہ '' میں اس قصیدہ کے پہلے شعر کو قعقاع کے حالات میں سیف کی روایت سے نقل کیا ہے ۔لیکن طبری نے اپنی روش کے مطابق اسے حذف کیا ہے اور صرف سیف سے روایت کرکے واقعات کی تشریح پر اکتفا کی ہے ۔

حموی نے حمص کی جنگ کے بارے میں سیف کی حدیث سے بالکل چشم پوشی کی ہے اور اس کی داستان اور اشعار کو اپنی کتاب میں درج نہیں کیا ہے ۔حموی کے علاوہ جن لوگوں نے بھی حمص کی فتح کے بارے میں ذکر کیا ہے صرف سیف بن عمر کی روایت کا حوالہ دیا ہے کیوں کہ ہم اس سے پہلے بھی اشارہ کر چکے ہیں کہ تمام مورخین اس بات پرمتفق ہیں کہ فتوحات شام میں خاندان تمیم میں سے کسی ایک فرد نے بھی شرکت نہیں کی ہے ۔

بہر حال جیسا کہ بیان ہوا ،اس داستان کو طبری نے سیف سے نقل کرکے اپنی تاریخ میں درج کیا ہے اور دوسرے(۱) مورخوں نے جو طبری کے بعد آئے ہیں اپنے مطالب کو طبری سے نقل کرکے اپنی کتابوں میں درج کیا ہے ۔

____________________

۱) ۔طبری کے بعد دوسرے مورخین سے خاص طور پر ہمارا مقصود ابن اثیر ،ابن کثیر اور ابن خلدون ہے ۔ گزشتہ صفحات میں ہم نے اشارہ کیا ہے کہ انھوں نے تاکید کرتے ہوئے کہا کہ پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بعد والے واقعات اور رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اصحاب کے بارے میں انھوں نے تاریخ طبری سے ہی استناد کیا ہے ہم نے فہرست مصادر میں ان کی کتابوں کے صفحات کے نمبر بھی حوالہ کے طور پر درج کئے ہیں ۔

۲۱۳

سند کی پڑتال :

سیف نے اس داستان کی سند کے طور پر محمد اور مہلب کا نام لیا ہے ان کے بارے میں پہلے ہی معلوم ہو چکا ہے کہ یہ سیف کے تخیلات کی پیداوار ہیں اور حقیقت میں وجود نہیں رکھتے ۔

اس جانچ کا نتیجہ :

فتح حمص کے بارے میں سیف کی روایت اور اس کا دوسروں کی روایت سے موازنہ کرنے کے بعد واضح ہو جاتا ہے کہ سیف بن عمر تنہا وہ شخص ہے جس نے حمص کی داستان کی دوبارہ روایت کی ہے اور اس سلسلے میں اتفاقات و واقعات بیان کئے ہیں جب کہ ابن اسحاق اور بلاذری نے ایسی کوئی چیز درج نہیں کی ہے ۔

اس روایت کا نتیجہ

اب ہم دیکھتے ہیں کہ سیف نے اس داستان کو گڑھ کے کیا ثابت کیا ہے اور کیا پایا ہے :

١۔قعقاع بن عمرو تمیمی اور اس کے ہم وطن کوفیوں کے لئے فضیلت فراہم کرنا۔کیونکہ صرف قعقاع اور اس کے کوفی لشکر کی آمد کی خبر نے ہی دشمن کی بنیادوں کو متزلزل کردیااور اسی ہیبت نے دشمن کو منتشر کرکے مسلمانوں کو فتح عطا کی ۔

٢۔خلیفہ عمر کا بیان اور اس کی یہ گواہی کہ:''خدا کوفیوں کو نیک جزا دے ،کیونکہ وہ اپنے وطن کاخیال رکھتے ،ہیں اور دوسرے شہر یوں کی مدد بھی کرتے ہیں ''۔خلیفہ عمر ابن خطاب جیسی شخصیت کی طرف سے اس قسم کی گواہی اور تائید اس غیر معمولی جھوٹے افسانہ ساز سیف بن عمر کے اپنے شیطانی مقاصد کے حصول کی راہ میں انتہائی بیش قیمت اور گراں قدر ہے۔

٣۔قعقاع کی رجز خوانی اور رزمیہ شاعری ،خود اس بات کی تائید کرتی ہے کہ اسے ہمیشہ مشکل اور بڑے کاموں کے لئے بلایاجاتا تھا،کیونکہ وہ مشکل کشا اور ہر میدان کا رزار کا بے مثال فاتح ہے۔اور وہ بھی اپنی بہادری کی بناء پر ہمیشہ اس قسم کے مسائل ومشکلات کو حل کرتارہاہے۔اس کے ثبوت کے لئے خلیفہ کابیان بھی جو یہ کہتے ہیں :یہ کوفی ہیں جو اپنے وطن کی بہتر صورت میں حفاظت کرتے ہیں اور مشکلات وسختیوں میں دوسرے شہریوں کی مدد بھی کرتے ہیں ۔

۲۱۴

قعقاع ،نہاوند کی جنگ میں

قتل من الفرس ما طبق ارض المعرکة

نہاوند کی جنگ میں اتنے ایرانی مارے گئے کہ ان کی لاشوں سے زمین بھر گئی اور ان کے خون سے زمین پھسلنی بن گئی ۔

(سیف بن عمر)

جنگ نہاوند کی داستان:

قعقاع ،کوفی سپاہیوں کے ہمراہ دوبارہ عراق لوٹتاہے،لیکن کب،کیسے اور کیوں ؟۔ہم نے اس سلسلہ میں نہ طبری سے اور نہ سیف کے دیگر راویوں سے کہ اس مطلب کے جوابگو ہوں کچھ نہیں پایا اور یہ بھی معلوم نہ ہوسکا کہ سیف نے اس سلسلے میں کیا خیال بندی کی ہے۔

بہر حال ،نہاوند کی جنگ کے بارے میں طبری،سیف سے نقل کرتے ہوئے لکھتاہے:

''نہاوند کی جنگ ١٨ ھ میں واقع ہوئی ۔ایرانیوں نے نہاوند کے قلعہ میں پناہ لے لی تھی،اپنی ضرورت اور مصلحت کے بغیر اس سے باہر نہیں نکلتے تھے کبھی کبھی جنگ کے لئے باہر نکلتے تھے ۔مسلمانوں نے اس قلعہ کو اپنے محاصرہ میں لے لیا اور یہ محاصرہ طولانی مدّت تک جاری رہا ۔مسلمانوں کے لشکر کا سپہ سالار اعظم نعمان بن مقرن تھا۔نعمان نے قعقاع بن عمرو کو مأمور کیا کہ کسی صورت سے ایرانیوں کو قلعہ سے باہر نکال کر میدان کارزار میں کھینچ لائے۔قعقاع بن عمرو (خاندان تمیم کا افسانوی پہلوان ) ہراول دستہ کے سوار فوجیوں کا سردار تھا۔اس نے ایک تدبیر سوچی اور میدان کارزار میں داخل ہوا۔اس نے اپنے سپاہیوں کے ساتھ قلعہ پر حملہ کیا،ایرانی مقابلہ کے لئے آگے بڑھے ،قعقاع نے اپنی فوج کو پیچھے ہٹنے کا حکم دیا ۔اسی طرح جنگ وگریز کی حالت میں وہ پیچھے ہٹتا گیا ۔ایرانیوں نے یہ خیال کیا کہ مسلمان ہزیمت اٹھارہے ہیں ،اس لئے ان کا کام تمام کرنے کی غرض سے قلعہ اور مورچوں سے باہر آگئے اور دور تک مسلمان سپاہیوں کا پیچھا کیا ۔جب قلعہ کے محافظوں کے علاوہ تمام ایرانی قلعہ سے باہر آگئے تو مسلمان اسی چیز کا انتظار کررہے تھے ،اس لئے فرصت کو غنیمت سمجھ کر مسلمان سپہ سالار نے واقعی حملہ کا حکم دیا اور گھمسان کی جنگ چھڑ گئی ۔اس معرکہ میں اتنے ایرانی مارے گئے کہ زمین پر کشتوں کے پشتے لگ گئے اور ان کے خون سے زمین اتنی پھسلنی بن گئی کہ سوار اور پیادہ اس پر پھسل جاتے تھے ۔

۲۱۵

شام ہونے سے پہلے ہی مشرکین بھاگنے پر مجبور ہوگئے اور حیرانی و پریشانی کے عالم میں چاروں طرف بھاگنے لگے۔ان میں ایسی بھگدڑمچ گئی کہ راہ وچاہ میں فرق نہیں سمجھ سکے۔اسی سبب سے قلعہ اور پناہ گاہوں کی طرف بھاگنے کے بجائے دشمن کے لئے کھودی گئی اپنی ہی خندق جس میں انھوں نے دشمن کے لئے آگ لگا رکھی تھی کی طرف بھاگے اور ان خوفناک آگ کے شعلوں میں گرتے گئے۔اس خندق میں گرتا ہوا ہر سپاہی فارسی زبان میں چیخ کر کہتاتھا ''وائے خرد!!''۔اسی لئے وہ سرزمین ''وائے خرد!''کے نام سے مشہور ہوگئی اور آج تک اسی نام سے معروف ہے۔ جن ایرانی سپاہیوں نے اس دہکتی ہوئی آگ میں گر کر جان دی ان کی تعداد ایک لاکھ تک بلکہ اس سے زیادہ تک پہنچ گئی ۔مقتولین کی یہ تعدادان بے شمار کشتو ں کے علاوہ تھی جو میدان کار زار میں کام آئے تھے ۔بہت کم ایسے لوگ تھے جو اس معرکہ سے زندہ بچ کر نکلے ۔فرار کرنے والوں میں ایرانی فوج کا کمانڈ ر فیروزان بھی تھا جو بڑی چالاکی سے اس معرکہ سے زندہ بچ نکلنے میں کامیاب ہوا تھا اور ہمدان کی طرف بھاگ گیا تھا قعقاع بن عمرو نے فیروزان کا پیچھا کیا اور درۂ ہمدان میں اس کے نزدیک پہنچ گیا ۔

اس وقت وہ گزرگاہ ایسے چوپایوں سے کھچا کھچ بھری تھی جن کی پیٹھ پر شہد لدا ہوا تھا ۔ان چوپائوں کی کثرت کی وجہ سے اس تنگ گزرگاہ سے فیروزان کے لئے گزرنا مشکل ہو گیا ۔اس لئے وہ مجبور ہو کر گھوڑے سے اترا اور بڑی تیز ی کے ساتھ پہاڑ پر چڑھنے لگا ۔اسی اثنا میں اس کا پیچھا کرنے والا قعقاع بھی وہاں پہنچ گیا اور اس نے پہاڑ کی طرف بھاگتے ہوئے فیروزان کا پیچھا کیا ۔آخر کار پہاڑکی بلندی پر اس پر قابو پا لیا اور وہیں پر اسے قتل کر ڈالا ۔اسی سبب سے اس دن کے بعد اس گزر گاہ کا نام '' گزر گاہ عسل'' (یعنی شہد کی گزرگاہ) پڑ ا ۔اس امر کے پیش نظر کہ اس گزر گاہ پر شہد کی وجہ سے مسلمانوں کو یہ کامیابی حاصل ہوئی تھی اس لئے اسلام کے سپاہیوں نے وہاں پر یہ جملہ کہا :'' خدا کے پاس شہد کی فوج بھی ہے '' ۔

دوسری طرف ایرانی فوج کے فراری سپاہی دوڑتے بھاگتے ہمدان پہنچ گئے ۔ان کا پیچھا کرنے والے مسلمانوں نے ہمدان کا محاصرہ کیا اور اس کے اطراف کو اپنے قبضے میں لے لیا ۔ہمدان کے باشندوں نے جب یہ حالت دیکھی تو وہ سمجھ گئے کہ اسلامی فوج سے مقابلہ نہیں کر سکتے ،اس لئے مجبور ہو کر امان چاہی اور ان کی درخواست منظور کرکے انھیں امان دے دی گئی۔

۲۱۶

جب ہمدان کے زوال اور تسخیر ہونے کی خبر ماہان کے باشندوں کو پہنچی ،اور انھیں اطلاع ملی کہ نعیم بن مقر ن اور قعقاع بن عمر و نے ہمدان کو فتح کر لیا ہے تو ماہان کے باشندوں نے بھی ہمدان کے باشندوں کی طرح امان کی درخواست کی اور انھیں بھی امان دے دی گئی ۔ماہان کے باشندوں کے امان نامے کے آخر میں قعقاع بن عمرو تمیمی نے تائید کی اور گواہ کے طور پر دستخط کئے ۔اس فتح ،یعنی فتح نہاوند کو '' فتح الفتوح '' کا نام دیا گیا ہے ۔

سیف کی روایت کا دوسروں سے موازنہ:

نہاوند کی فتح کے سلسلہ میں طبری کی سیف سے کی گئی روایت کا یہ ایک خلاصہ ہے طبری کے بعد آنے والے مورخین(۱) نے ان ہی مطالب کو طبری سے نقل کرکے اپنی کتابوں میں درج کیا ہے

لیکن حموی نے فتح نہاوند کی اس داستان کو '' نہاوند '' ''وائے خرد !''اور ''ماہان ''کی لفظوں کی تشریح کے ضمن میں پراگندہ حالت میں درج کیا ہے ۔اس سلسلے میں وہ نہاوند کے بارے میں لکھتاہے

مسلمانوں نے نہاوند کی فتح کا نام '' فتح الفتوح '' رکھا ہے اس مناسبت سے قعقاع بن عمرو نے یہ شعر کہے ہیں :

'' جو بلا سبب کسی خاندان کی بدگوئی کرے خدا اسے ایسی بلا میں مبتلا کرے ،جس کے

____________________

۱)۔ دیگر مورخین سے ہمارا مقصود خاص کر ابن اثیر ،ابن کثیر اور ابن خلدون ہے ہم نے مناسب جگہوں پر ان کے عین متن جوان کے تمام مطالب کو طبری کی کتاب سے نقل کرنے کی دلیل ہے کو درج کیا ہے ،ہم مصادر کتاب درج کرتے ہوئے ان کتابوں کے صفحات کا نمبر بھی الگ الگ درج کریں گے تاکہ خواہشمند حضرات اور محققین کے لئے ان کی طرف رجوع کرنا آسان ہو جائے ۔

۲۱۷

عذاب سے اس کے سر کے بال سفید ہو جائیں ،پس تم بھی اپنی شماتت کی زبان مجھ سے دور رکھو ،کہ میں دشمن کے مقابلے میں اپنی شرافت کا دفاع کرتا ہوں کیوں کہ جب ہم نہاوند کے پانی میں داخل ہوئے تو اس سے سیراب ہو کر نکلے جب کہ دشمن بے بسی کے عالم میں اپنی جگہ پر پیاسے ہی کھڑے تھے''

وہ مزید کہتا ہے :

'' نہاوند سے پوچھ لو کہ ہمارے حملے کیسے تھے ؟ جب ہم اس کے درودیوار سے دشمنوں پر بلائیں اور مصیبتیں برسا رہے تھے !''

جب عجم پر منحوس ترین راتیں گزر رہی تھیں ،ہم نے نہاوند کے تمام مقامات پراپنے گھوڑے ٹھہرائے تھے اور تمام علاقوں میں پھیل گئے تھے ،ہم ان کے لئے موت کا تلخ پیغام تھے ۔حقیقت میں نہاوند کا دن انتہائی سخت دنوں میں سے تھا جو ان پر گزرا۔ ہم نے دہکتے آگ کے شعلوں والی خندق کو ان کے سوار اور پیدل سپاہیوں کی لاشوں سے بھر دیا اور پہاڑوں کی صاف اور کھلی گزر گاہوں نے بھی فراری فیروزان کے لئے راہ تنگ کردی تھی اور اس کے لئے بھاکنے کی کوئی گنجائش باقی نہ رکھی تھی''

وہ لفظ '' وائے خرد!'' کے بارے میں لکھتا ہے :

نہاوند کے نزدیک ''وائے خرد '' نام کی ایک خندق ہے کہ ایرانی فوج شکست کھا کر اس میں گرتے ہوئے فریا د بلند کرتے تھے '' وائے خرد'' اور اسی سبب اس جگہ کا نام ''وائے خرد '' پڑا ہے اس مطلب کو کتاب ''فتوح'' کے مولف سیف بن عمر تمیمی نے لکھا ہے... اور قعقاع بن عمرو نے اس کے بارے میں یوں کہا ہے :

'' جب ''وائے خرد !'' میں وہ سر کے بل گر گئے ،تو صبح کے وقت گدھ اور لاش خور ان کی ملاقات کے لئے آئے ۔ہم نے ان کے اتنے لوگوں کو قتل کیا کہ جس خندق میں انھوں نے آگ سلگائی تھی ،وہ لاشوں سے بھر گئی''

۲۱۸

پھر چند دیگر اشعار کے ضمن میں اس طرح کہا ہے :

''میں نے نہاوند کی جنگ میں کسی خوف و ہراس کے بغیر شرکت کی ۔ اس دن تمام عرب قبیلوں نے جنگ میں شجاعت کے جوہر دکھائے ،شام کے وقت جب فیروزان ہماری ننگی تلواروں کی ہیبت سے اپنی جان بچانے کے لئے پہاڑ کی طرف بھاگ گیا تو ہمارے ایک شجاع اور جوان مرد جنگجو نے اس کا پیچھا کیا اور چوپایوں کے نزدیک اسے موت کے گھاٹ اتار دیا ۔دشمنوں کی لاشیں ''وائے خرد '' میں پڑی ہیں تاکہ وحشی بھیڑیے ان کی ملاقات کے لئے آئیں اور ان کے مہمان بنیں ''

وہ ہامان کے بارے میں لکھتا ہے :

عرب اسے لفظ جمع کی شکل میں ''وماہات''کہتے ہیں ...اور قعقاع بن عمرو نے ماہان کے بارے میں یوں کہا ہے:

'' ہم نے ماہات میں اس وقت ایرانیوں کی ناک رگڑ کے رکھ دی جب ان کے فرزندوں کو جو شیر کے بچے کہلاتے تھے موت کے گھاٹ اتار دیا اور ان کے گھروں کو مسمار کرکے رکھ دیا ،اسی روز جب میں ان سے لڑنے کے لئے نکلا تھا اور جو بھی میرے مقابلے میں آئے گا اس کا یہی انجام ہوگا''

یہ وہ مطالب ہیں جنھیں سیف نے درج کیا ہے اور ان کی کوئی حقیقت نہیں ہے ،کیوں کہ :

١۔ بلاذری اور دینوری نے روایت کی ہے کہ ایرانی فوج کا سپہ سالار شاہ ذوالحاجب تھا نہ فیروزان۔

٢۔دینوری نے ایرانیوں کو پناہ گاہ سے باہر لانے کا طریقہ یوں بیان کیا ہے :

'' عمر بن معد یکرب نے اسلامی فوج کے سپہ سالار نعمان بن مقرن کی خدمت میں تجویز پیش کی کہ خلیفہ عمر کی وفات کا اعلان کریں اور اپنے پورے لشکر کے ساتھ عراق کی طرف پیچھے ہٹیں اور اس طرح ایرانیوں کو فریب دیں ۔نعمان نے اس تجویز کو پسند کیا اور اس کوعملی جامہ پہنایا۔ ایرانیوں نے جب فریب میں آکر اس خبر کو نوید کے طور پر ایک دوسرے تک پہنچایا اور وہ مسلمانوں کا پیچھا کرنے کے لئے باہر نکلے تو مسلمانوں نے اچانک مڑکر ان پر حملہ کر دیا ...''

۲۱۹

٣۔ طبری نے لکھا ہے کہ سیف ابن عمر نے نہاوند کی فتح کی تاریخ ١٨ھ روایت کی ہے جب کہ دیگر مورخین اسے ٢١ھ درج کیا ہے ۔

٤۔ بلاذری نے ایرانی سپہ سالار اعظم مردان شاہ کے قتل ہونے کے طریقہ کے بارے میں یوں لکھا ہے :

'' وہ اس خچر سے نیچے گر گیا ،جس پر سوار تھا اس کا پیٹ پھٹ گیا اور اسی کے سبب وہ مرگیا''

٥۔بلاذری نے کہا ہے کہ :

'' ہمدان ،جریر بجلی قحطانی کے ذریعہ فتح ہوا ہے نہ قعقاع بن عمر وتمیمی کے ہاتھوں ''

٦۔اس موضوع ''خدا کے پاس شہد کی فوج بھی ہے '' کے بارے میں کتاب ''معجم البدان '' میں بعلبک کی تشریح میں درج ہے کہ : مشہور یہ ہے کہ یہ جملہ معاویہ ابن ابو سفیان سے مربوط ہے ،جب اس نے مالک اشترہمدانی کو فریب سے شہد میں ملائے ہوئے زہر کے ذریعہ قتل کرایا۔

ابن کثیر بھی کہتا ہے کہ ،معاویہ اور عمر و عاص دونوں نے یہ جملہ ' ' خدا کے پاس شہد کی فوج بھی ہے '' اس وقت کہا جب مالک اشتر شہد میں ملائے ہوئے زہر کے سبب قتل ہوئے ۔

طبری بھی کہتا ہے کہ ،عمرو عاص نے شہد میں ملائے ہوئے زہر کے سبب مالک اشتر کے قتل ہونے کے بعد یہ جملہ کہا۔(۱)

____________________

الف )۔ ملاحظہ ہو تاریخ ابن کثیر ج٨ص٢١٢،تاریخ طبری ٣٢٤٢١

۲۲۰

انہوں نے يوسف كو نہيں پہچانا ''( ۱)

وہ يوسف كو نہ پہچا ننے ميں حق بجا نب تھے كيو نكہ ايك طرف تو تيس سے چا ليس سال تك كا عر صہ بيت چكا تھا ( اس دن سے لے كر جب انہوں نے حضرت يوسف كو كنويں ميں پھينكا تھا ان كے مصر ميں انے تك ) اور دوسرى طرف وہ سوچ بھى نہ سكتے تھے كہ ان كا بھا ئي عزيز مصر ہو گيا ہے يہا ں تك كہ اگر وہ اسے اپنے بھا ئي سے مشا بہ بھى پا تے تو اسے ايك اتفاق ہى سمجھتے ان تمام امور سے قطع نظر حضر ت يوسف كے لباس كا اندازبھى بالكل بدل چكا تھا انہيں مصر يوں كے نئے لباس ميں پہچا ننا كو ئي اسان نہيں تھا بلكہ يوسف كے ساتھ جو كچھ ہو گزرا تھا اس كے بعد ان كى زندگى كا احتمال بھى ان كے لئے بہت بعيد تھا _

بہر حال انہوں نے اپنى ضرورت كا غلہ خريد ا اور اس كى قيمت نقدى كى صورت ميں اور يا مو زے ، جوتے يا كچھ اور اجناس كى صورت ميں ادا كى كہ جو وہ كنعان سے مصر لا ئے تھے _

جناب يوسف (ع) نے اپنے بھا ئيوں سے ايك پيشكش كي

حضرت يوسف (ع) نے اپنے بھا ئيوں سے بہت محبت كا برتائو كيا اور ان سے بات چيت كرنے لگے بھائيوں نے كہا :ہم دس بھائي ہيں اور حضرت يعقوب كے بيٹے ہيں ہمارے والد خدا كے عظيم پيغمبر ابراہيم خليل كے پوتے ہيں اگر اپ ہمارے باپ كو پہچا نتے ہو تے تو ہمارا بہت احترام كرتے ہمارا بوڑھا باپ انبياء الہى ميں سے ہے ليكن ايك نہا يت گہرے غم نے اس كے پورے وجود كو گھير ركھا ہے _

حضرت يوسف نے پوچھا :يہ غم كس بناء پر ہے _انہوں نے كہا :

ان كا ايك بيٹا تھا جس سے وہ بہت محبت كر تے تھے ،عمر ميں وہ ہم سے بہت چھوٹا تھا ايك دن وہ ہمارے سا تھ شكار اور تفريح كے لئے صحرا ميں گيا ہم اس سے غافل ہو گئے تو ايك بھيڑيا اسے چير پھاڑ ا گيا اس دن سے لے كر اج تك باپ اس كے لئے گرياں اورغمگين ہيں _

____________________

(۱)سورہ يوسف آيت ۵۸

۲۲۱

حضرت يوسف (ع) كى عادت تھى كہ ايك شخص كو ايك اونٹ كے بارسے زيادہ غلہ نہيں بيچتے تھے حضرت يوسف كے يہ بھا ئي چو نكہ دس تھے لہذا انہيں غلے كے دس بار ديئے گئے _

انہوں نے كہا : ہمارا بوڑ ھا باپ ہے اور ايك چھو ٹا بھا ئي ہے جو وطن ميں رہ گيا ہے باپ غم واندوہ كى شدت كى وجہ سے سفر نہيں كر سكتا اور چھوٹا بھائي خدمت كے لئے اور مانوسيت كى وجہ سے اس كے پاس رہ گيا ہے لہذا ان دونوں كا حصہ بھى ہميں دے ديجئے _

حضرت يوسف (ع) نے حكم ديا كہ دو او نٹوں كے باركا اضا فہ كيا جائے پھر حضرت يوسف ان كى طرف متوجہ ہو ئے اور كہا : ميں ديكھ رہا ہوں كہ تم ہوشمند اور مو دب افراد ہوا ور يہ جو تم كہتے ہو كہ تمہارے باپ كو تمہارے سب سے چھوٹے بھا ئي سے لگا ئو ہے اس سے معلوم ہوتا ہے كہ وہ غير معمولى اور عام بچوں سے ہٹ كر ہے ميرى خواہش ہے كہ تمہارے ايندہ سفر ميں ميں اسے ضرور ديكھوں اس كے علاوہ يہاں كے لوگوں كو تمہارے بارے ميں كئي بدگمانيا ں ہيں كيو نكہ تم ايك دوسرے ملك سے تعلق ركھتے ہو لہذا بدگمانى كى اس فضا ء كو دور كرنے كے لئے ايندہ سفر ميں چھو ٹے بھائي كو نشانى كے طور پر ساتھ لے انا _

يہا ں قران كہتا ہے :

'' جب يوسف نے ان كے بارتيار كئے تو ان سے كہا : تمہارا بھائي جو باپ كى طرف سے ہے اسے ميرے پاس لے ائو''_(۱)

اس كے بعد مزيد كہا :

''كيا تم ديكھتے نہيں ہو كہ ميں پيما نہ كا حق ادا كرتا ہوں اور بہترين ميزبان ہوں '' _(۲)

اس تشويق اور اظہار محبت كے بعد انہيں يوں تہديد بھى كى :'' اگر اس بھا ئي كو ميرے پاس نہ لائے تو نہ تمہيں ميرے پاس سے غلہ ملے گا اور نہ تم خود ميرے پاس پھٹكنا_ ''(۳)

____________________

(۱)سورہ يوسف آيت ۵۹

(۲) سورہ يوسف آيت ۵۹

(۳) سورہ يوسف آيت ۶۰

۲۲۲

حضرت يوسف چاہتے تھے كہ جيسے بھى ہو بنيا مين كو اپنے پاس بلائيں اس كے لئے كبھى وہ لطف و محبت كا طريقہ اختيا ر كر تے اور كبھى تہديد كا _ ان تعبيرات سے ضمنى طور پر واضح ہو تا ہے كہ مصر ميں غلاّت كى خريدو فروخت تو ل كر نہيں ہو تى تھى بلكہ پيما نے سے ہو تى تھى _ نيز يہ بھى واضح ہو تا ہے كہ حضرت يوسف اپنے بھا ئيوں اور دوسرے مہمانوں كى بہت اچھے طريقے سے پذير ائي كر تے تھے اور ہر حوا لے سے مہمان نواز تھے _ بھائيوں نے ان كے جواب ميں كہا :'' ہم اس كے باپ سے بات كريں گے اور كو شش كريں گے كہ وہ رضا مند ہو جائيں اور ہم يہ كام ضرور كريں گے ''(۱)

اس مو قع پر ان كى ہمدردى اور توجہ كو زيادہ سے زيادہ اپنى طرف مبذول كر نے كے لئے ''حضر ت يوسف نے اپنے كا رندوں سے كہا كہ ان كى نظر بچا كروہ اموال ان كے غلے ميں ركھ ديں جو انہوں نے غلہ اس كے بدلے ميں ديئےھے تا كہ جب وہ واپس اپنے خاندان ميں جاكر اپنا سامان كھوليں تو انہيں پہچان ليں اور دو بارہ مصر كى طرف لوٹ ائيں ''_( ۲)(۳)

____________________

(۱)سورہ يوسف آيت ۶۱

(۲)سورہ يوسف آيت ۶۲

(۳) حضرت يوسف(ع) نے بھائيوں سے اپنا تعارف كيوں نہ كر وايا : مندر جہ بالا واقعہ كے مطالعہ سے جو پہلا سوال سامنے اتا ہے وہ يہ ہے كہ حضرت يوسف نے بھائيوں سے اپنا تعارف كيوں نہ كروايا كہ وہ جلداز جلد اپ كو پہچان ليتے اور باپ كے پاس واپس جا كر انہيں ا پ كى جدائي كے جانكاہ غم سے نكالتے ؟

يہ سوال زيادہ وسيع حوالہ سے بھى سامنے اسكتا ہے اور وہ يہ كہ جس وقت حضرت يوسف كے بھا ئي اپ كے پاس ائے اس وقت اپ كى زندان سے رہائي كو كو ئي اٹھ سال گزر چكے تھے كيو نكہ گزشتہ سات سال فراوان نعمتوں پر مشتمل گزر چكے تھے جن كے دوران اپ قحط سالى كے عر صہ كے لئے اناج ذخير ہ كر نے ميں مشغول رہے اٹھويں سال قحط كا دور شرع ہوا اس سال يا اس كے بعد اپ كے بھا ئي غلہ لينے كے لئے مصر ائے ،كيا چا ہئے نہ تھا كہ ان اٹھ سالوں ميں اپ كو ئي قاصد كنعان كى طرف بھيجتے اور اپنے والد كو اپنے حالات سے اگاہ كر تے اور انہيں شديد غم سے نجات دلاتے ؟

بہت سے مفسر ين نے مثلاً طبرسى نے مجمع البيان ميں ، علامہ طباطبائي نے الميزان ميں اور قرطبى نے الجامع الا حكام القران ميں اس سوال كا جواب ديا ہے اور اس سلسلے ميں كئي جوابات پيش كئے ہيں ان ميں سے زيادہ بہتر يہ نظر اتا ہے كہ حضرت يوسف كو خدا تعالى كى طرف سے اس كى اجازت نہ تھى كيو نكہ فراق يو سف ديگر پہلوئوں كے علاوہ يعقوب كے لئے بھى ايك امتحان بھى تھا،اور ضرورى تھا كہ آزمائش كى يہ دور فرمان الہى سے ختم ہوتا،اور اس سے پہلے حضرت يوسف(ع) خبردينے كے مجا ز نہ تھے _

اس كے علاوہ اگر حضرت يو سف فوراً ہى اپنے بھا ئيوں كو اپنا تعارف كرو اديتے تو ممكن تھا كہ اس كا نتيجہ اچھا نہ ہو تا اور ہو سكتا تھا كہ وہ اس سے ايسے وحشت زدہ ہو تے كہ پھر لوٹ كر اپ كے پاس نہ اتے كيونكہ انہيں يہ خيال پيدا ہو تا كہ ممكن ہے يوسف ان كے گزشتہ رويہ كا انتقام ليں

۲۲۳

اخر كار باپ راضى ہو گيا

حضرت يو سف(ع) كے بھا ئي ما لامال ہو كر خو شى خو شى كنعان واپس ائے ليكن ايند ہ كى فكر تھى كہ اگر باپ چھو ٹے بھا ئي ( بنيا مين ) كو بھيجنے پر راضى نہ ہوئے تو عزيز مصر ان كى پذيرائي نہيں كرے گا اور انہيں غلے كا حصہ نہيں دے گا _ اسى لئے قران كہتا ہے :

''جب وہ باپ كے پاس لوٹ كر ائے تو انہوں نے كہا : ابا جان حكم ديا گيا ہے كہ ايندہ ہميں غلے كا حصہ نہ ديا جائے اور پيمانہ ہم سے روك ديا جا ئے، '' اب جب يہ صورت در پيش ہے تو ہمارے بھا ئي كو ہمارے ساتھ بھيج ديں تا كہ ہم پيمانہ حاصل كرسكيں ،''اور اپ مطمئن رہيں ہم اس كى حفا ظت كر يں گے'' _(۱)

باپ كہ جو يو سف كو ہر گز نہيں بھو لتا تھا يہ بات سن كر پريشا ن ہو گيا ،ان كى طرف رخ كر كے اس نے كہا :'' كيا ميں تم پر اس بھا ئي كے بارے ميں بھروسہ كر لوں جب كہ اس كے بھائي يو سف كے بارے ميں گزشتہ زمانے ميں تم پر بھروسہ كيا تھا ''(۲)

____________________

(۱) سورہ يوسف آيت ۶۳

(۲) سورہ يوسف آيت ۶۴

۲۲۴

يعنى جب تمہارا ايسا برا ما ضى ہے جو بھولنے كے قابل نہيں تو تم كس طرح تو قع ركھتے ہو كہ دوبارہ تمہارى فرمائش مان لوں اور اپنے فرزند دل بند كو تمہارے سپرد كر دوں اور وہ بھى ايك دور درازسفر اور پرا ئے ديس كے لئے ،اس كے بعد اس نے مزيد كہا :'' ہر حالت ميں خدا بہتر ين محا فظ اور''ارحم الرحمين'' ہے_(۱)

''پھر ان بھا ئيوں نے جب اپنا سامان كھولا تو انہوں نے بڑے تعجب سے ديكھا كہ وہ تمام چيز يں جو انہوں نے غلے كى قيمت كے طور پر عزيز مصر كو دى تھيں سب انہيں لوٹادى گئي ہيں اور وہ ان كے سامان ميں موجود ہيں ''_(۲) جب انہوں نے ديكھا كہ يہ تو ان كى گفتگو پر سند قاطع ہے تو باپ كے پاس ائے اور كہنے لگے: ''اباجا ن ہميں اس سے بڑھ كر اور كيا چا ہيے ، ديكھئے انہوں نے ہمارا تمام مال ومتاع ہميں واپس كر ديا ہے''_(۳) كيا اس سے بڑھ كر كوئي عزت واحترام اور مہر بانى ہو سكتى ہے كہ ايك غير ملك كا سربراہ ايسے قحط اور خشك سالى ميں ہميں اناج بھى دے اور اس كى قيمت بھى واپس كر دے ، وہ بھى ايسے كہ ہم سمجھ ہى نہ پائيں اور شرمندہ نہ ہو ں ؟ اس سے بڑھ كر ہم كيا تصور كر سكتے ہيں ؟

ابا جا ن اب كسى پر يشا نى كى ضرورت نہيں ہمارے بھا ئي كو ہما رے ساتھ بھيج ديں ہم اپنے گھر والوں كے لئے اناج لے آئيں گے،اور اپنے بھائي كى حفاظت كى كو شش كر يں گے _نيز اس كى وجہ سے ايك اونٹ كا بار بھى زيادہ لا ئيں گے _ اور عزيز مصر جيسے محترم ، مہربان اور سخى شخص كے لئے كہ جسے ہم نے ديكھا ہے ''ايك آسان اور معمولى كا م ہے ''_(۴)

ان تمام امور كے باوجود حضرت يعقوب اپنے بيٹے بنيا مين كو ان كے ساتھ بھيجنے كے لئے راضى نہ تھے ليكن دوسرى طرف ان كا اصرار تھا جو واضح منطق كى بنياد پرتھا يہ صور ت حال انھيں آمادہ كرتى تھى كہ وہ ان

____________________

(۱) سورہ يوسف آيت ۶۴

(۲) سورہ يوسف آيت ۶۵

(۳) سورہ يوسف آيت ۶۵

(۴)سورہ يوسف آيت ۶۵

۲۲۵

كى تجويز قبول كرليں آخر كار انہوں نے ديكھا كہ اس كے بغير چارہ نہيں كہ مشروط طور پر بيٹے كو بھيج ديا جا ئے لہذا آپ نے ان سے اس طرح سے كہا : ''ميں اسے ہر گز تمہارے ساتھ نہيں بھيجوں گا ، جب تك كہ تم ايك خدائي پيمان نہ دو اور كو ئي ايسا كا م نہ كرو كہ جس سے مجھے اعتماد پيدا ہو جا ئے كہ تم اسے واپس لے كر آئو گے مگر يہ موت يا دوسرے عوامل كى وجہ سے يہ امر تمہارے بس ميں نہ رہے''_(۱)

''وثيقہ الہي'' سے مراد وہى قسم ہے جو خدا كے نام كے ساتھ ہے_

بہر حال يوسف(ع) كے بھائيوں نے باپ كى شرط قبول كرلي،اور جب انھوں نے اپنے باپ سے عہد و پيمان باندھاتو يعقوب(ع) نے كہا:خدا شاہد،ناظر اورمحافظ ہے اس بات پر كہ جو ہم كہتے ہيں _(۲)

____________________

(۱)سورہ يوسف آيت ۶۶

(۲) حضرت يعقوب كيسے راضى ہو گئے : مند رجہ بالاو اقعہ كے سلسلے ميں جو پہلا سوال ذہن ميں آتا ہے يہ ہے كہ حضرت يعقوب بنيا مين كو ان كے سپر د كرنے پر كيسے آمادہ ہوگئے جب كہ ان كے بھائي ،يو سف (ع) كے بارے ميں سلوك كى وجہ سے پہلے برے كردا ركے شمار ہو تے تھے حالا نكہ ہم جانتے ہيں كہ وہ صر ف يو سف كے بارے ميں اپنے دل ميں كينہ وحسد نہيں ركھتے تھے بلكہ وہ يہى احساسات اگر چہ نسبتا خفيف ہى سہى بنيا مين كے لئے بھى ركھتے تھے جيسا كہ شروع داستان ميں پڑھا_''انہوں نے كہا كہ يوسف اوراس كا بھائي باپ كے نزديك ہم سے زيادہ محبوب ہے جب كہ ہم زيادہ طاقتور ہيں ''_

اس نكتہ كى طرف تو جہ كر نے سے اس سوال كا جواب واضح ہو جا تا ہے كہ حضرت يوسف والے حا دثے كو تيس سے چاليس سال تك كا عر صہ بيت چكا تھا اور حضر ت يو سف كے جو ان بھا ئي بڑھا پے كو پہنچ گئے تھے اور فطر تا ان كا ذہن پہلے زما نے كى نسبت پختہ ہو چكا تھا اس كے علاوہ گھر كے ما حول پر اور اپنے مضطرب وجدان پر اپنے برے ارادے كے اثرات وہ اچھى طرح سے محسوس كر تے تھے اور تجربے نے ان پر ثابت كر ديا كہ يوسف كے فقدان سے نہ صرف يہ كہ ان كے لئے باپ كى محبت ميں اضا فہ نہ ہوا بلكہ مزيد بے مہر ى اور بے التفاتى پيدا ہو گئي _ان سب باتوں سے قطع نظر يہ تو ايك زندگى كا مسئلہ ہے ،قحط سالى ميں ايك گھر انے كے لئے اناج مہياكر نا ايك بہت بڑى چيز تھى اور يہ سيرو تفريح كا معا ملہ نہ تھا جيسا كہ انہوں نے ماضى ميں حضرت يو سف كے متعلق فر ما ئش كى تھى _ان تمام پہلوئوں كے پيش نظر حضرت يعقوب (ع) نے ان كى بات مان لي، ليكن اس شرط كے سا تھ وہ كہ آپ سے عہد وپيمان باندھيں كہ وہ اپنے بھا ئي بنيامين كو صحيح وسالم آپ كے پاس واپس لے آئيں گے _

۲۲۶

ايك دروازے سے داخل نہ ہو نا

آخر كار حضر ت يو سف كے بھائي باپ كى رضا مندى كے بعد اپنے چھوٹے بھائي كو ہمراہ لے كر دوسرى مر تبہ مصر جانے كو تيار ہو ئے تو اس موقع پر باپ نے انہيں نصيحت كى ''اس نے كہا : ميرے بيٹو تم ايك درواز ے سے داخل نہ ہو نا بلكہ مختلف در وازوں سے داخل ہو نا _''(۱)

اس ميں شك نہيں كہ اس زمانے ميں دوسرے شہروں كى طرح مصر كے دارالخلافت كے گرد اگر د بھى فصيل تھى اس كے بھى برج وبار تھے اور اس كے متعدد دروازے تھے _

رہا يہ سوال كہ حضرت يعقوب نے كيوں نصيحت كى كہ ان كے بيٹے ايك دروازے سے داخل نہ ہوں بلكہ مختلف حصوں ميں تقسيم ہو كر مختلف دروازوں سے شہر ميں داخل ہوں ، اس كى وجہ قرآن ميں مذ كور نہيں ہے بعض مفسرين كہتے ہيں كہ حضر ت يو سف كے بھا ئي ايك تو بہت حسين وجميل تھے ( اگر چہ وہ يو سف نہ تھے مگر يوسف كے بھا ئي تو تھے ) ان كا قد وقامت بہت اچھا تھا_

لہذا ان كے باپ پريشان تھے كہ گيا رہ افراد اكھٹے جن كے چہرے مہرے سے معلوم ہو كہ وہ مصر كے علاوہ كسى اور ملك سے آئے ہيں ، لوگ ان كى طرف متوجہ نہ ہوں وہ نہيں چا ہتے تھے كہ اس طرح انہيں نظربد لگ جائے _

حضرت يعقوب كے اس حكم كے بارے ميں جو دوسرى علت بيان كى گئي ہے وہ يہ ہے كہ ہو سكتا ہے جب اونچے لمبے چوڑے چكلے مضبوط جسموں والے اكٹھے چليں تو حاسدوں كو انہيں ديكھ كر حسد پيدا ہواور وہ ان كے بارے ميں حكومت سے كو ئي شكايت كرنے لگيں اور ان كے متعلق يہ بدگمانى كر يں كہ وہ فتنہ وفساد كا ارادہ ركھتے ہيں اس لئے باپ نے انہيں حكم ديا كہ مختلف در وازوں سے داخل ہوں تاكہ لوگ ان كى طرف متوجہ نہ ہوں _

____________________

(۱) سورہ يوسف آيت ۶۷

۲۲۷

بعض مفسرين نے اس كى ايك عرفانى تفسير بھى كى ہے وہ يہ كہ حضرت يعقوب راہنما ئے راہ كے حوالے سے اپنے بيٹوں كو ايك باہم معا شرتى مسئلہ سمجھا نا چاہتے تھے اور وہ يہ كہ كھو ئي ہو ئي چيز كو صر ف ايك ہى راستے سے تلاش نہ كر يں بلكہ ہردروازے سے داخل ہو كر اسے ڈھونڈيں كيونكہ اكثر ايساہوتا ہے كہ انسان ايك مقصد تك پہنچنے كے لئے صرف ايك ہى راہ كا انتخاب كر تا ہے اور جب آگے راستہ بند پاتا ہے تو مايوس ہو كر بيٹھ جاتا ہے ليكن اگر وہ اس حقيقت كى طرف متوجہ ہو كہ گمشدہ افراد اور چيز يں عمو ماً ايك ہى راستے پر جانے سے نہيں ملتيں بلكہ مختلف راستوں سے ان كى جستجو كر نا چا ہيے تو عام طور پر كامياب ہو جاتاہے _

برادر ان يو سف (ع) روانہ ہو ئے اور كنعان ومصر كے در ميان طويل مسا فت طے كر نے كے بعد سر زمين مصر ميں داخل ہو گئے _

بھا ئي كو روكنے كى كو شش

آخر كار بھائي، يو سف (ع) كے پاس پہنچے اور انہيں بتايا كہ ہم نے آپ كے حكم كى تعميل كى ہے اور باوجود اس كے ہمارے والد پہلے چھو ٹے بھا ئي كو ہمارے ساتھ بھيجنے پر راضى نہ تھے ليكن ہم نے اصرار كر كے اسے راضى كيا ہے تا كہ آپ جان ليں كہ ہم نے قول وقرا ر پورا كيا ہے _

حضرت يو سف (ع) نے بڑى عزت واحترام سے ان كى پذيرائي كي، انہيں مہمان بلايا اور حكم ديا كہ دستر خوان يا طبق كے پا س دو دو افراد آئيں ، انہوں نے ايسا ہى كيا اس مو قع پر بنيا مين جو تنہارہ گيا تھا رونے لگا اوركہنے لگا كہ ميرا بھائي يو سف زندہ ہو تا تو مجھے اپنے ساتھ ايك دسترخوان پر بٹھا تا كيونكہ ہم پدر ى بھائي تھے_ پھر حكم ديا كہ دو دو افراد كے لئے ايك ايك كمرہ سونے كے لئے تيار كيا جا ئے بنيا مين پھر اكيلا رہ گيا تو حضرت يوسف نے فرمايا : اسے ميرے پاس بھيج دو اس طرح حضرت يو سف (ع) نے اپنے بھا ئي كو اپنے يہاں جگہ دى ليكن ديكھا كہ وہ بہت دكھى اور پريشان ہے اور ہميشہ اپنے كھوئے ہوئے بھائي يوسف(ع) كى ياد ميں رہتا ہے كہ ايسے ميں يو سف كے صبر كا پيمانہ لبر يز ہو گيا اور آپ نے حقيقت كے چہرے سے پر دہ ہٹا ديا ، جيسا كہ قرآن كہتا ہے :''

۲۲۸

جب يوسف (ع) كے پاس پہنچے تو اس نے اپنے بھا ئي كو اپنے يہا ں جگہ دى اوركہا كہ ميں وہى تمہارا بھائي يو سف ہوں ، غمگين نہ ہو اور اپنے دل كو دكھى نہ كر اور ان كے كسى كا م سے پر يشا ن نہ ہو ''_(۱)

بھا ئيوں كے كا م كہ جو بنيا مين كو دكھى اور پريشان كر تے تھے ان سے مرادان كى وہ نامہر بانيا ں او ر بے التفا تياں تھيں جو وہ اس كے اور يو سف كے لئے رواركھتے تھے اور وہ سازشيں كہ جو اسے گھر والوں سے دور كرنے كے لئے انجام ديتے تھے ،حضرت يوسف(ع) كى مراد يہ تھى كہ تم ديكھ رہے ہو كہ ان كى كار ستانيوں سے مجھے كو ئي نقصان نہيں پہنچا بلكہ وہ ميرى تر قى اور بلندى كا ذريعہ بن گئيں لہذا اب تم بھى اس بارے ميں اپنے دل كو دكھى نہ كرو _

اے اہل قافلہ تم چو رہو

اس مو قع پر حضرت يوسف (ع) نے اپنے بھائي بنيامين سے كہا:كيا تم پسند كر تے ہو كہ ميرے پاس رہ جائو ،اس نے كہا : ہا ں ميں تو راضى ہوں ليكن بھائي ہر گز راضى نہيں ہوں گے كيو نكہ انہوں نے باپ سے قول وقرار كيا ہے اور قسم كھا ئي ہے كہ مجھے ہر قيمت پر اپنے ساتھ واپس لے جائيں گے _

حضر ت يوسف(ع) نے كہا :تم فكر نہ كرو ميں ايك منصوبہ بناتا ہوں جس سے وہ مجبور ہو جائيں گے كہ تمہيں ميرے پاس چھوڑجائيں _ ''غلاّت كے بارتيار ہو گئے تو حكم ديا كہ مخصوص قيمتى پيمانہ بھائي كے بارميں ركھ ديں ''_(۲) ( كيو نكہ ہرشخص كے لئے غلے كا ايك بار ديا جاتا تھا _

البتہ يہ كام مخفى طور پر انجام پايا اور شايد اس كا علم مامور ين ميں سے فقط ايك شخص كو تھا _

جب اناج كو پيما نے سے دينے والوں نے ديكھا كہ مخصوص قيمتى پيما نے كا كہيں نام ونشان نہيں ہے حالانكہ پہلے وہ ان كے پاس موجود تھا لہذا جب قافلہ چلنے لگا ''تو كسى نے پكار كر كہا : اے قافلے والو : تم چور ہو''_(۳)

____________________

(۱) سورہ يوسف آيت ۶۹

(۲)سورہ يوسف آيت ۷۰

(۱) سورہ يوسف آيت ۷۰

۲۲۹

يو سف كے بھائيوں نے جب يہ جملہ سنا تو سخت پريشان ہو ئے اورو حشت زدہ ہوگئے كيو نكہ ان كے ذہن ميں تو اس كا خيال بھى نہ آسكتا تھا كہ اس احترام واكرم كے بعد ان پر چورى كا الزام لگا يا جائے گا لہذا انہوں نے ان كى طرف رخ كر كے كہا :'' تمہارى كو نسى چيز چورى ہو گئي ہے''_(۱)

''انہوں نے كہا ہم سے بادشاہ كا پيمانہ گم ہو گيا ہے اور ہميں تمہارے بارے ميں بد گمانى ہے'' _(۲)

پيمانہ چو نكہ گراں قيمت ہے اور بادشاہ كو پسند ہے لہذا '' وہ جس شخص كو ملے اور وہ اسے لے آئے تو اسے ايك اونٹ كا باربطور انعام ديا جائے گا ''_(۳)

پھر بات كہنے والے نے مزيد تاكيد كے لئے كہا:''اور ميں ذاتى طور پر اس انعام كا ضامن ہوں ''_(۴)

بھائي يہ بات سن كر سخت پريشان ہوئے اور حواس باختہ ہوگئے، وہ نہيں سمجھتے تھے كہ معاملہ كيا ہے،ان كى طرف رخ كر كے انھوں نے كہا:

''انھوں نے كہا:خدا كى قسم تم جانتے ہو كہ ہم يہاں اس لئے نہيں آئے ہيں كہ فتنہ و فساد كريں اور ہم كبھى بھى چور نہيں تھے ''_(۵)

يہ سن كر وہ ان كى طرف متوجہ ہو ئے اور ''كہا : ليكن اگر تم جھوٹے ہو ئے تو اس كى سزا كيا ہوگي؟(۶)

انہوں نے جواب ميں كہا :'' اس كى سزا يہ ہے كہ جس شخص كے بارميں سے بادشاہ كا پيمانہ مل جائے اسے روك لو اور اسے اس كے بدلے ميں لے لو ''_(۷) ''جى ہاں : ہم اسى طرح ظالموں كو سزا ديتے ہيں _''(۸)

____________________

(۱) سورہ يوسف آيت ۷۱ (۲) سورہ يوسف آيت ۷۲ (۳) سورہ يوسف آيت ۷۲

(۴)سورہ يوسف آيت۷۲ (۵)سورہ يوسف آيت۷۳ (۶) سورہ يوسف آيت ۷۴

(۷) سورہ يوسف آيت ۷۵ (۸) سورہ يوسف آيت ۷۵

۲۳۰

اس مو قع پرحضرت يوسف نے حكم ديا كہ ان كے غلات كے باركھولے جائيں اور ايك ايك كى جانچ پڑتال كى جائے البتہ اس بناء پر كہ ان كے اصلى منصوبے كا كسى كو پتہ نہ چلے ،'' اپنے بھائي بنيا مين كے بارسے پہلے دوسروں كے سامان كى پڑتال كى اور پھر وہ مخصوص پيمانہ اپنے بھائي كے بار سے برآمد كر ليا''(۱)

اے بنيا مين تم نے ہميں ذليل كر ديا

پيمانہ بر آمد ہوا تو تعجب سے بھائيوں كے منہ كھلے كے كھلے رہ گئے گويا غم واندوہ كا پہاڑان كے سروں پر آگرا اور انہيں يوں لگا جيسے وہ ايك عجيب مقام پر پھنس گئے ہيں كہ جس كے چاروں طرف كے راستے بند ہو گئے ہيں ايك طرف ان كا بھائي ظاہر ًا ايسى چورى كا مر تكب ہوا جس سے ان كے سرندامت سے جھك گئے اور دوسرى طرف ظاہراً عزيز مصر كى نظروں ميں ان كى عزت وحيثيت خطرے ميں جاپڑى كہ اب آيندہ كے لئے اس كى حمايت حاصل كرنا ان كے لئے ممكن نہ رہا اور ان تمام باتو ں سے قطع نظر انہوں نے سوچا كہ باپ كو كيا جواب ديں گے اور وہ كيسے يقين كر ے گا كہ اس ميں ان كا كوئي قصور نہيں ہے _

بعض مفسرين نے لكھا ہے كہ اس مو قع پربھائيوں نے بنيامين كى طرف رخ كر كے كہا : اے بے خبر : تو نے ہميں رسوا كرديا ہے اور ہمارا منہ كالا كرديا ہے تو نے يہ كيساغلط كام انجام ديا ہے ؟(نہ تو نے اپنے آپ پر رحم كيا ،نہ ہم پر اور نہ خاندان يعقوب (ع) پر كہ جو خاندان نبوت ہے ) آخر ہميں بتا تو سہى كہ تو نے كس وقت پيمانہ اٹھا يا اور اپنے بار ميں ركھ ليا؟ بنيامين نے جو معاملے كى اصل اور قضيے كے باطن كو جانتا تھا ٹھنڈے دل سے جواب ديا كہ يہ كام اسى شخص نے كيا ہے جس نے تمہارى دى ہوئي قيمت تمہارے بارميں ركھ دى تھى ليكن بھائيوں كو اس حادثے نے اس قدر پريشان كر ركھا تھا كہ انھيں پتہ نہيں چلا كہ وہ كيا كہہ رہا ہے_

پھر قرآن مزيد كہتا ہے:'' ہم نے اس طرح يوسف (ع) كے لئے ايك تدبير كي''_(۲) ( تاكہ وہ اپنے

____________________

(۱) سورہ يوسف آيت ۷۶

(۲) سورہ يوسف ايت۷۶

۲۳۱

بھائي كو دوسرے بھائيوں كى مخالفت كے بغير روك سكيں )(۱) اسى بناء پر قرآن كہتا ہے:'' يوسف ملك مصر كے قانون كے مطا بق اپنے بھائي كو نہيں لے سكتے تھے اور اپنے پاس نہيں ركھ سكتے تھے_''(۲)

____________________

(۱) سورہ يوسف آيت ۷۶

(۲)يہاں پر دو سوال پيدا ہوتے ہيں :

۱_بے گناہ پر چورى كا الزام ؟

كيا جائز تھا كہ ايك بے گناہ شخص پر چورى كا اتہام لگايا جائے،ايسا اتہام كہ جس كے بُرے اثار نے باقى بھائيوں كو بھى كسى حد تك اپنى لپٹ ميں لے ليا؟

اس سوال كا جواب بھى خود واقعے ميں موجود ہے اور وہ يہ كہ يہ معاملہ خودبنيامين كى رضا مندى سے انجام پايا تھا ،كيونكہ حضرت يوسف نے پہلے اپنے اپ كو اس سے متعارف كروايا تھا اور وہ جانتا تھا كہ يہ منصوبہ خود اس كى حفاظت كے لئے بنايا گيا ہے،نيز اس سے بھائيوں پر بھى كوئي تہمت نہيں لگى البتہ انھيں اضطراب و پريشانى ضرور ہوئي جس ميں كہ ايك اہم امتحان كى وجہ سے كوئي ہرج نہ تھا _

۲_چورى كى نسبت سب كى طرف كيوں دى گئي ؟

كيا (انكم اسارقون )''يعنى تم چور ہو ''كہہ كر سب كى طرف چورى كى نسبت نہيں دينا جھوٹ نہ تھا اور اس جھوٹ اور تہمت كا كيا جواز تھا ؟ ذيل كے تجزيے سے اس سوال كا جواب واضح ہو جا ئے گا : اولاً يہ معلوم نہيں كہ يہ بات كہنے والے كو ن لو گ تھے قرآن ميں صرف اس قدر ہے ''قالوا ''يعنى انہوں نے كہا'' ہوسكتا ہے يہ بات كہنے والے حضرت يوسف كے كچھ كار ندے ہوں كہ جب انہوں نے ديكھا كہ مخصوص پيمانہ نہيں ہے يقين كر ليا كہ كنعان كے قافلے ميں سے كسى شخص نے اسے چراليا ہے اور يہ معمول ہے كہ اگر كوئي چيز ايسے افراد ميں چورى ہو جائے كہ جو ايك ہى گروہ كى صورت ميں متشكل ہو اور اصل چور پہچا نا نہ جائے تو سب كو مخاطب كر تے ہيں اور كہتے ہيں كہ تم نے يہ كام كيا ہے يعنى تم ميں سے ايك نے يا تم ميں سے بعض نے ايسا كيا ہے_

ثانيا ًاس بات كا اصلى نشانہ بنيامين تھا جو كہ اس نسبت پر راضى تھا كيونكہ اس منصوبے ميں ظاہرا تو اس پر چورى كى تہمت لگى تھى ليكن درحقيقت وہ اس كے اپنے بھائي يو سف كے پاس رہنے كے لئے مقدمہ تھى اور يہ جو سب پر الزام آيا يہ ايك بالكل عارضى سى بات تھى جو صرف برادران يو سف كے سامان كى تلاشى پر ختم ہو گيا اور جودر حقيقت مراد تھا يعنى ''بنيامين ''وہ پہچان لياگيا_

۲۳۲

قرآن سے معلوم ہوتا ہے كہ مصريوں اور كنعان كے باشندوں ميں چورى كى سزا مختلف تھي_ حضرت يوسف عليہ السلام كے بھائيوں اور احتمالاً اہل كنعان ميں اس عمل كى سزا يہ تھى كہ چور كو اس چورى كے بدلے ميں (ہميشہ كے ليے يا وقتى طور پر)غلام بناليا جاتا _ليكن مصريوں ميں يہ سزارائج نہ تھى بلكہ چوروں كو دوسرے ذرائع سے مثلاً مار پيٹ سے اور قيد و بند وغيرہ سے سزا ديتے تھے_

علامہ طبرسى نے مجمع البيان ميں نقل كيا ہے كہ اس زمانے ميں ايك گروہ ميں يہ طريقہ رائج تھا كہ وہ چور كو ايك سال كے ليے غلام بناليتے تھے_ نيز يہ بھى نقل كيا گيا ہے كہ خاندان يعقوب عليہ السلام ميں چورى كى مقدار كے برابر غلامى كى مدت معين كى جاتى تھى (تا كہ وہ اسى كے مطابق كام كرے)_

يوسف نے بھى چورى كى تھي

آخر كار بھائيوں نے يقين كر ليا كہ ان كے بھا ئي بنيامين نے ايسى قبيح اور منحوس چورى كى ہے اور اس طرح اس نے عزيز مصر كى نظروں ميں ان كا سا بقہ ريكار ڈسارا خراب كرديا ہے لہذا اپنے آپ كو برى الذمہ كرنے كے لئے انہوں نے كہا : ''اگر اس لڑكے نے چورى كى ہے تو يہ كوئي تعجب كى بات نہيں كيو نكہ اس كا بھائي يوسف بھى پہلے ايسے كا م كا مرتكب ہو چكا ہے ''_(۱) اور يہ دونوں ايك ہى ماں اور باپ سے ہيں اور ہم جو دوسرى ماں سے ہيں ہمارا حساب كتاب ان سے الگ ہے _

اس طرح سے انہوں نے اپنے اور بنيا مين كے درميان ايك حد فاصل قائم كر نا چاہى اور كا تعلق يوسف سے جوڑديا _

يہ بات سن كر يو سف بہت دكھى اور پريشان ہوئے اور ''اسے دل ميں چھپا ئے ركھا اور ان كے سامنے اظہار نہ كيا ''_(۲)

____________________

(۱) سورہ يوسف آيت ۷۷

(۲) سورہ يوسف آيت ۷۷

۲۳۳

كيو نكہ وہ جانتے تھے كہ يہ بات كہہ كر انہوں نے ايك بہت بڑا بہتان باندھا ہے ليكن انہوں نے اس كا كو ئي جواب نہ ديا بس اجمالى طور پر اتنا كہا كہ جس كى طرف تم يہ نسبت ديتے ہو تم اس سے بد تر ہو يا ميرے نزديك مقام و منزلت كے لحاظ سے تم بد ترين لوگ ہو_''(۱)

اس كے بعد مزيد كہا :'' جو كچھ تم كہتے ہو خدا اس كے بارے ميں زيادہ جاننے والا ہے ''_(۲)

يہ ٹھيك ہے كہ يوسف كے بھائيوں نے ان بحرانى لمحوں ميں اپنے آپ كو برى الذمہ ثابت كر نے كے لئے اپنے بھائي يو سف پر ايك نا روا تہمت باندھى تھي_

ليكن پھر بھى اس كا م كے لئے كو ئي بہا نہ اور سند ہو نا چا ہيے جس كى بناء پر وہ يو سف كى طرف ايسى نسبت ديں _

اس سلسلے ميں مفسرين كا وش وزحمت ميں پڑے ہيں اور گذشتہ لو گوں كى تواريخ سے انہوں نے تين روايات نقل كى ہيں _

پہلى يہ كہ يو سف اپنى ما ں كى وفات كے بعد اپنى پھوپھى كے پاس رہا كرتے تھے اور انہيں يو سف سے بہت زيا دہ پيار تھا جب آپ بڑے ہوگئے اور حضرت يعقوب (ع) نے انہيں ان كى پھوپھى سے واپس لينا چاہا تو ان كى پھوپھى نے ايك منصوبہ بنايا اور وہ يہ كہ كمر بند يا ايك خاص شال جو حضرت اسحاق (ع) كى جانب سے ان كے خاندان ميں بطور ياد گار چلى آرہى تھى يو سف كى كمر سے باندھ دى اور دعوى كيا كہ يو سف اسے چھپا لے جانا چا ہتا تھا ايسا انہوں نے اس لئے كيا تا كہ اس كمر بند يا شال كے بدلے يو سف كو اپنے پاس ركھ ليں _

دوسرى روايت يہ ہے كہ حضرت يو سف كے مادرى رشتہ داروں ميں سے ايك كے پاس ايك بت تھا جسے يو سف نے اٹھا كر توڑ ديا اور اسے سٹرك پر لاپھينكا لہذا انہوں نے حضرت يوسف پر چورى كا الزام لگا ديا حالا نكہ اس ميں تو كوئي گناہ نہيں تھا _

____________________

(۱) سورہ يوسف آيت ۷۷

(۲) سورہ يوسف آيت ۷۷

۲۳۴

تيسرى روايت يہ ہے كہ كبھى كبھا روہ دستر خوان سے كچھ كھانا لے كر مسكينوں اور حاجت مندوں كو دے ديتے تھے لہذا بہا نہ تراش بھائيوں نے اسے بھى چورى كا الزام دينے كے لئے سند بنا ليا حالانكہ ان ميں سے كو ئي چيز گناہ كے زمرے ميں نہيں تھا _

اگر ايك شخص كسى كو كوئي لباس پہنا دے اور پہننے والا نہ جانتا ہو كہ يہ كسى دوسرے كا مال ہے تو كيا اسے چورى كا الزام دينا صحيح ہے _ اسى طرح كيا كسى بت كو اٹھاكر پٹخ دينا گناہ ہے _ نيز انسان كو ئي چيز اپنے باپ كے دستر خوان سے اٹھا كر مسكينوں كو دے دے جب كہ اسے يقين ہو كہ اس كا باپ اس پر راضى ہے تو كيا اسے گناہ قرار ديا جاسكتا ہے _

برادران يو سف كى فداكا رى كيوں قبول نہ ہوئي

بھا ئيوں نے ديكھا كہ ان كے چھوٹے بھائي بنيامين كو اس قانون كے مطابق عزيز مصر كے پاس رہنا پڑے گا جسے وہ خو د قبول كر چكے ہيں اور دوسرى طرف انہوں نے باپ سے پيمان باند ھا تھا كہ بنيامين كى حفاظت اور اسے واپس لانے كے لئے اپنى پورى كو شش كريں گے ايسے ميں انہوں نے يوسف كى طرف رخ كيا جسے ابھى تك انہوں نے پہچانا نہيں تھا اور كہا : ''اے عزيز مصر : اے بزر گور صاحب اقتدار : اس كا باپ بہت بوڑھا ہے اور وہ اس كى جدا ئي كو برداشت كر نے كى طاقت نہيں ركھتا ہم نے آپ كے اصرار پر اسے باپ سے جدا كيا اور باپ نے ہم سے تاكيد ى وعدہ ليا كہ ہم ہر قيمت پر اسے واپس لائيں گے اب ہم پر احسان كيجئے اور اس كے بدلے ميں ہم ميں سے كسى ايك كو ركھ ليجئے ، ''كيونكہ ديكھ رہے ہيں كہ آپ نيكوكاروں ميں سے ہيں ''_(۱)

اور يہ پہلا مو قع نہيں كہ آپ نے ہم پر لطف وكرم اور مہرومحبت كى ہے ، مہر بانى كر كے اپنى كر م نوازيوں كى تكميل كيجئے _

____________________

(۱)سورہ يوسف آيت ۷۸

۲۳۵

حضرت يو سف (ع) نے اس تجويز كى شدت سے نفى كى ''اور كہا :پناہ بخدا : يہ كيسے ہو سكتا ہے كہ جس كے پاس سے ہمارا مال ومتا ع برآمد ہوا ہے ہم اس كے علاوہ كسى شخص كو ركھ ليں ''كبھى تم نے سنا ہے كہ ايك منصف مزاج شخص نے كسى بے گناہ كو دوسرے كے جرم ميں سزا دى ہو _(۱) '' اگر ہم ايسا كريں تو يقينا ہم ظالم ہوں گے''_(۲) يہ امر قابل توجہ ہے كہ حضرت يوسف نے اپنى اس گفتگو ميں بھائي كى طرف چورى كى كوئي نسبت نہيں دى بلكہ كہتے ہيں كہ ''جس شخص كے پاس سے ہميں ہمارامال ومتا ع ملا ہے ''اور يہ اس امر كى دليل ہے كہ وہ اس امر كى طرف سنجيد گى سے متوجہ تھے كہ اپنى پورى زندگى ميں كبھى كوئي غلط بات نہ كريں _

بھا ئي سر جھكا ئے باپ كے پاس پہنچے

بھا ئيوں نے بنيا مين كى رہائي كے لئے اپنى آخرى كو شش كرڈالى ليكن انہوں نے اپنے سا منے راستے بند پا ئے ايك طرف تو اس كام كو كچھ اس طرح سے انجام ديا گيا تھا كہ ظاہرا بھائي كى برائت ممكن نہ تھى اور دوسرى طرف عزيز مصر نے اس كى جگہ كسى اور فرد كو ركھنے كى تجويز قبول نہ كى لہذا وہ مايو س ہوگئے يو ں انہوں نے كنعان كى طرف لوٹ جا نے اور باپ سے سارا ماجر ا بيان كر نے كا ارادہ كر ليا قرآن كہتا ہے : ''جس وقت وہ عزيز مصر سے يا بھائي كى نجات سے مايوس ہو گئے ،تو ايك طرف كو آئے دوسروں سے الگ ہو گئے اور سر گوشى كرنے لگے'' _( ۳)

بہر حال سب سے بڑے بھا ئي نے اس خصوصى ميٹنگ ميں ان سے'' كہا : كيا تم جا نتے نہيں ہو كہ تمہارے باپ نے تم سے الہى پيمان ليا ہے كہ بنيامين كو ہر ممكنہ صورت ميں ہم واپس لائيں گے ''_(۴) '' اور تمہيں نے اس سے پہلے بھى يو سف كے بارے ميں كو تا ہى كى ''اور باپ كے نزديك تمہارا گزشتہ كر داربرا ہے''_(۵)

____________________

(۱)(۲)سورہ يوسف آيت ۷۹

(۳)سورہ يوسف آيت ۸۰

(۴) سورہ يوسف آيت ۸۰

(۵) سورہ يوسف آيت ۸۰

۲۳۶

''اب جبكہ معاملہ يو ں ہے تو ميں اپنى جگہ سے ( ياسر زمين مصر سے ) نہيں جائوں گا اور يہيں پڑائو ڈالوں گا ، مگر يہ كہ مير ا باپ مجھے اجازت دے دے يا خدا ميرے متعلق كو ئي فرمان صادر كرے جو كہ بہتر ين حاكم وفرماں روا ہے'' _( ۱)

پھر بڑے بھا ئي نے دوسرے بھائيوں كو حكم ديا كہ ''تم باپ كے پاس لوٹ جائو اور كہو : اباجان آپ كے بيٹے نے چورى كى ہے ، اور يہ جو ہم گواہى دے رہے ہيں اتنى ہى ہے جتنا ہميں علم ہوا ہے'' _(۲) بس ہم نے اتنا ديكھا كہ بادشا ہ كا پيمانہ ہمارے بھائي كے بار سے برآمد ہو ا جس سے ظاہر ہو تا تھا كہ اس نے چورى كى ہے، باقى رہا امر باطن تو وہ خدا جانتا ہے ،'' اور ہميں غيب كى خبر نہيں '' _( ۳)

ممكن ہے يہ احتمال بھى ہے كہ بھيا ئيوں كا مقصد يہ ہو كہ وہ باپ سے كہيں كہ اگر ہم نے تيرے پاس گواہى دى اور عہد كيا كہ ہم بھائي كو لے جائيں گے اور واپس لے آئيں گے تو يہ اس بناء پر تھا كہ ہم اس كے باطن سے باخبر نہ تھے اور غيب سے آگاہ نہ تھے كہ اس كا انجام يہ ہوگا ،پھر اس بناء پر كہ باپ سے ہر طرح كى بدگمانى دور كريں اور اسے مطمئن كريں كہ ماجر ا اسى طرح ہے نہ اس سے كم اور نہ اس سے زيادہ ، انہوں نے كہا:''مزيد تحقيق كے لئے اس شہر سے سوال كر ليں جس ميں ہم تھے ،اسى طرح اس قافلہ سے پوچھ ليں ''_(۴)

بہرحال ''آپ مطمئن رہيں كہ ہم اپنى بات ميں سچے ہيں اور حقيقت كے سواكچھ نہيں كہتے''_(۵) اس سارى گفتگو سے معلوم ہو تا ہے كہ بنيا مين كى چورى كا واقعہ مصر ميں مشہور ہو چكا تھا يہ بات شہرت پاچكى تھى كہ كنعان سے ايك قافلہ يہاں آيا ہے اس ميں سے ايك شخص بادشاہ كا پيمانہ اپنے ساتھ لے جانا چاہتا تھا بادشاہ كے مامور ين بروقت پہنچ گئے اور انہوں نے اس شخص كو روك ليا ،شايد بھائيوں نے جويہ كہا كہ مصر كے علاقے سے پو چھ ليں يہ اس طرف كنايہ ہو كہ يہ واقعہ اس قدر مشہور ہو چكا ہے كہ درو ديوار كو اس كا علم ہے _

____________________

(۱) سورہ يوسف آيت ۸۰

(۲) سورہ يوسف آيت ۸۱

(۳) سورہ يوسف آيت ۸۱

(۴) سورہ يوسف آيت ۸۲

(۵) سورہ يوسف آيت ۸۲

۲۳۷

ميں وہ الطاف الہى جانتا ہوں جو تم نہيں جانتے

بھائي مصر سے چل پڑے سب سے بڑے اور سب سے چھوٹے بھائي كو وہاں چھوڑآئے اور پريشان وغم زدہ كنعان پہنچے باپ كى خدمت ميں حاضر ہوئے اس سفر سے واپسى پر باپ نے جب گز شتہ سفر كے برعكس واندوہ كے اثار ان كے چہروں پر ديكھے تو سمجھ گئے كہ كوئي ناگوار خبر لائے ہيں خصوصاً جب كہ بنيا مين اور سب سے بڑا بھائي ان كے ہمرا ہ نہ تھا جب بھائيوں نے بغير كسى كمى بيشى كے سارى آپ بيتى كہہ دى تو يعقوب بہت حيران ہوئے اور ان كى طرف رخ كر كے كہنے لگے :'' تمہارى نفسا نى خواہشات نے يہ معاملہ تمہارے سامنے اس طرح سے پيش كيا ہے اور اسے اس طرح سے مزين كياہے '' _(۱) اس كے بعد يعقوب اپنى جانب متوجہ ہوئے اور ''كہنے لگے كہ ميں صبر كا دامن اپنے ہاتھ سے نہيں چھوڑوں گا'' اور ميں اچھا صبر كروں گا كہ جو كفر ان سے خالى ہو_''( ۲)

''مجھے اميد ہے كہ خدا ان سب كو ( يو سف ، بنيامين اور ميرے بڑے بيٹے كو ) ميرى طرف پلٹا دے گا'' _( ۳) كيونكہ ميں جانتاہوں كہ ''وہ ان سب كے دل كى داخلى كيفيات سے باخبر ہے ، اس كے علاوہ، وہ حكيم بھى ہے ،''اور وہ كوئي كا م بغير كسى حساب كتاب كے نہيں كر تا_ ''(۴) اس وقت يعقوب رنج وغم ميں ڈوب گئے بنيامين كہ ان كے دل كى ڈھارس تھا واپس نہ آيا تو انہيں اپنے پيارے يو سف كى ياد آگئي انہيں خيال آيا كہ اے كا ش آج وہ آبرومند ، باايمان اور حسين وجميل بيٹا ان كى آغوش ميں ہو تا اور اس كى پيار ى خو شبو ہر لمحہ باپ كو ايك حيات نو بخشتى ليكن آج نہ صرف يہ كہ اس كا نام و نشان نہيں بلكہ اس كا جانشين بنيا مين بھى اس كى طرح ايك درد ناك معاملے ميں گر فتا ر ہو گيا ہے ''اس وقت انہوں نے اپنے بيٹوں سے رخ پھير ليا اور كہا : ہائے يو سف ''_(۵)

____________________

(۱) سورہ يوسف آيت ۸۳

(۲)سورہ يوسف آيت ۸۳

(۳) سورہ يوسف آيت ۸۳

(۴) سورہ يوسف آيت ۸۳

(۵) سورہ يوسف آيت ۸۴

۲۳۸

برادران يوسف شر مند ہ اور حضرت يعقوب نابينا ہو گئے

بھا ئي جو پہلے ہى بنيا مين كے ماجرے پر باپ كے سامنے شرمندہ تھے يوسف كا نام سن كر فكر ميں ڈوب گئے ان كے ماتھے پر عرق ندامت كے قطرے چمكنے لگے _''حزن وملال اتنا بڑھا كہ يعقوب كى آنكھوں سے بے اختيار اشكوں كا سيلاب بہہ نكلا يہاں تك كہ ان كى آنكھيں درد وغم سے سفيد اور نابينا ہوگئيں ''_(۱) ليكن اس كے باوجود وہ كو شش كر تے تھے كہ ضبط كريں اور اپنا غم وغصہ پى جائيں اورر ضائے حق كے خلاف كو ئي بات نہ كہيں ''وہ باحوصلہ اور جواں مرد تھے اور انہيں اپنے غصہ پر پورا كنٹرول تھا ''_(۲)

ظاہرقرآن سے اندازہ ہو تاہے كہ حضرت يعقوب كى اس وقت تك نابينا نہيں ہوئے تھے ليكن جب كہ رنج و غم كئي گناہ بڑھ گيا اور آپ مسلسل گريہ و زارى كرتے رہے اورآپ كے آنسوتھمنے نہ پائے تو آپ كى بينا ئي ختم ہوگئي اور جيسا كہ ہم وہاں بھى اشارہ كر چكے ہيں كہ يہ كوئي اختيارى چيز نہ تھى كہ جو صبر جميل كے منافى ہو_

بھائي كہ جو ان تمام واقعات سے بہت پريشا ن تھے ، ايك طرف تو ان كا ضمير حضرت يو سف كے واقعے كى بناء پر انہيں عذاب ديتا اور دوسرى طرف وہ بنيامين كى وجہ سے اپنے آپ كو ايك نئے امتحان كى چو كھٹ پر پاتے اور تيسرى طرف باپ كا اتنا غم اور دكھ ان پر بہت گراں تھا، لہذا انہوں نے پريشانى اور بے حوصلگى كے ساتھ باپ سے ''كہا : بخدا تو اتنا يو سف يوسف كر تا ہے كہ بيمار ہو جائے گا اور موت كے كنارے پہنچ جا ئے گا يا ہلاك ہو جائے گا''_( ۳) ليكن كنعان كے اس مرد بزرگ اور روشن ضمير پيغمبر نے ان كے جواب ميں كہا : ''ميں نے تمہارے سامنے اپنى شكا يت پيش نہيں كى جو اس طرح كى باتيں كر تے ہو ، ميں اپنا درد وغم بارگا ہ الہى ميں پيش كر تا ہوں اور اس كے يہاں اپنى شكايت پيش كر تاہوں ،اور اپنے خدا كى طرف سے مجھے معلوم ہے كہ جن سے غم بے خبر ہوا''_(۴)

____________________

(۱) سورہ يوسف آيت ۸۴

(۲) سورہ يوسف آيت ۸۴

(۳) سورہ يوسف آيت ۸۵

(۴) سورہ يوسف آيت ۸۶

۲۳۹

كوشش كرو اور مايوس نہ ہو،كيونكہ مايوسى كفر كى نشانى ہے

مصر اور اطراف مصر جس ميں كنعان بھى شامل تھا ;ميں قحط ظلم ڈھا رہا تھا _انا ج بالكل ختم ہو گيا توحضرت يعقوب نے دو بارہ اپنے بيٹوں كو مصر كى طرف جا نے اور غلہ حاصل كر نے كا حكم ديا ليكن اس مر تبہ اپنى آرزئوں كى بنياد يوسف اور ان كے بھا ئي بنيا مين كى تلاش كو قرار ديا ''اور كہا : ميرے بيٹو جائو اور يو سف اور اسكے بھا ئي كو تلاش كرو ''_(۱)

حضرت يعقوب كے بيٹے چو نكہ اس بارے ميں تقريبا مطمئن تھے كہ يو سف مو جود ہى نہيں اس لئے وہ باپ كى اس نصيحت اور تا كيد پر تعجب كرتے تھے ،يعقوب ان كے گو ش گزار كر رہے تھے : ''رحمت الہى سے كبھى ما يو س نہ ہو نا '' كيو نكہ اس كى قدرت تمام مشكلوں اور سختيوں سے ما فوق ہے _(۲) ''كيو نكہ صر ف يہ كا فرہى ہيں كہ جو قدرت خدا سے بے خبر ہيں اس كى رحمت سے مايوس ہو تے ہيں '' _( ۳)

بہر حال فرزندان يعقوب نے اپنا مال واسباب باندھا اور مصر كى طرف چل پڑے اور اب كے وہ تيسرى مرتبہ داستا نو ں سے معمو ر اس سر زمين پر پہنچے گزشتہ سفر وں كے بر خلاف اس سفر ميں ان كى روح كو ايك احساس ندا مت كچوكے لگا رہا تھا كيو نكہ مصر ميں اور عزيز مصر كے نزديك ان كا سابقہ كر دار بہت برا تھا اور وہ بد نام ہو چكے تھے اور اند يشہ تھا كہ شا يد بعض لو گ انہيں ''كنعان كے چور '' كے عنوان سے پہچا نيں دوسرى طرف ان كے پاس گندم اور دوسرے اناج كى قيمت دينے كے لئے در كا رمال ومتاع موجود نہيں تھا اور ساتھ ہى بھائي بنيا مين كے كھو جا نے اور باپ كى انتہا ئي پر يشانى نے ان كى مشكلات ميں اضافہ كر ديا تھا _ گويا تلوار ان كے حلقوم تك پہنچ گئي تھى بہت سارى مشكلات اور روح فرسا پريشانيوں نے انہيں گھير ليا تھا ايسے ميں جوچيز ان كے تسكين قلب كا باعث تھى وہ صرف باپ كا اخرى جملہ تھا جس ميں اپ نے فرماياتھا كہ كبھى خدا كى رحمت سے مايوس نہ ہوناكيو نكہ اس كے لئے ہر مشكل آساں ہے_

____________________

(۱) سورہ يوسف آيت ۸۷

(۲) سورہ يوسف آيت ۸۷

(۳) سورہ يوسف آيت ۸۷

۲۴۰

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667