قصص القرآن-منتخب از تفسير نمونه

قصص القرآن-منتخب از تفسير نمونه   11%

قصص القرآن-منتخب از تفسير نمونه   مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 667

قصص القرآن-منتخب از تفسير نمونه
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 667 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 334583 / ڈاؤنلوڈ: 6149
سائز سائز سائز
قصص القرآن-منتخب از تفسير نمونه

قصص القرآن-منتخب از تفسير نمونه

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

فدک کے مسئلہ میں کوئی ابہام نہیں تھا

ان تمام واضح اور روشن دلیلوں کے بعد، کیوں اور کس دلیل سے فدک کے بارے میں صحیح فیصلہ نہیں کیا گیا؟ خلیفۂ مسلمین کے لئے ضروری ہے کہ امت کے حقوق کی حفاظت اور ان کے منافع کی حمایت کرے، اگر حقیقت میں فدک عمومی مال میں سے تھا اور پیغمبر نے اسے وقتی طور پر اپنے خاندان کی ایک فرد کو دیا تھا تو ضروری تھا کہ پیغمبر کی رحلت کے بعد مسلمانوں کے رہبر کو دیدیا جاتا، تاکہ اس کے زیر نظر مسلمانوں کے صحیح امور میں خرچ ہوتا، اور یہ ایسی بات ہے جس پر سبھی متفق ہیں لیکن قوم کے حقوق کی حفاظت اور لوگوں کے عمومی منافع کی حمایت کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہے کہ کسی شخص کی فردی آزادی اورذاتی ملکیت کو نظر انداز کردیا جائے اور لوگوں کے ذاتی مال کو عمومی مال کے طور پر جمع کیا جائے اور پھر اسے عمومی مال قرار دیا جائے۔

اسلامی قانون جس طرح سے اجتماعی چیزوں کو محترم جانتا ہے اسی طرح کسی کے ذاتی و شخصی مال کو جو شرعی طریقے سے حاصل ہو اسے بھی محترم سمجھتا ہے ،اور خلیفہ جس طرح سے عمومی اموال کی حفاظت میں کوشاں رہتا ہے اسی طرح لوگوں کے ذاتی مال اور حقوق کی جن کا اسلام نے حکم دیاہے ان کی بھی حفاظت کرتا رہے کیونکہ جس طرح عمومی مصالح کی رعایت کے بغیر عمومی مال کو کسی شخص کو دینا لوگوں کے حقوق کے ساتھ ناانصافی ہے ، اسی طرح کسی کی ذاتی ملکیت کو جواسلامی قانون کے اعتبار سے مالک ہے اس سے چھین لینا لوگوں کے حقوق سے نا انصافی ہے اگر پیغمبر کی بیٹی کا اپنی ملکیت فدک کے بارے میں دعوی کرنا

قانون قضاوت کے مطابق تھا اور اپنے دعوے کو ثابت کرنے کے لئے گواہوں کو جمع کیا تھا اور عدالت کے قاضی کی نظر میں مسئلہ فدک میں کوئی نقص نہ تھا تو ایسی صورت میں قاضی کا صحیح نظریہ دینے سے پرہیز کرنا یا حقیقت مسئلہ کے برخلاف نظریہ پیش کرنا لوگوں کی مصلحتوں کے خلاف اقدام کرنا ہے اور یہ ہے ایسا سنگین جرم جس کی اسلامی قانون میں سخت مذمت کی گئی ہے۔

مسئلہ فدک کا بعض حصہ اس بات پر شاہد ہے کہ ا سکے اندر نقص نہ تھا اور اسلام کے قضائی قانون کی بنیاد پر خلیفہ پیغمبر کی بیٹی کے حق میں اپنا نظریہ پیش کرسکتا تھا، کیونکہ :

پہلے یہ کہ، مورخین کے نقل کے مطابق جیسا کہ گذر چکا ہے خلیفہ نے حضرت زہرا کی طرف سے گواہ پیش کرنے کے بعدچاہا کہ فدک کو اس کے حقیقی مالک کو واپس کردے اور اسی وجہ سے انہوں نے ایک کاغذ پر فدک کو حضرت زہرا کی ملکیت قرار دے کر ان کے سپرد کردیا، لیکن جب عمر اس بات سے آگاہ ہوے تو خلیفہ پر غصہ ہوئے اور نامہ لے کر پھاڑ ڈالا۔

۲۲۱

اگر حضرت زہرا کے گواہ ،مدعا کو ثابت کرنے کے لئے کافی نہ تھے ،اور فدک کی سند میں کوئی کمی تھی تو خلیفہ کبھی بھی ان کے حق میںرائے نہیں دیتا اور حقیقی طور پر ان کی ملکیت کی تصدیق نہ کرتا۔

دوسرے یہ کہ ، جن لوگوں نے پیغمبر کی بیٹی کی حقانیت پر گواہی دی تھی وہ یہ افراد تھے:

۱۔ حضرت امام امیر المومنین ۔

۲۔ حضرت امام حسن ۔

۳۔ حضرت امام حسین ۔

۴۔ رباح، پیغمبر کا غلام۔

۵۔ ام ایمن۔

۶۔ اسماء بنت عمیس۔

کیا ان افراد کی گواہی حضرت زہرا کے مدعا کو ثابت کرنے کے لئے کافی نہیں تھی؟

اگر فرض کریں کہ حضرت زہرا اپنے دعوے کو ثابت کرنے کے لئے سوائے حضرت علی اور ام ایمن کے کسی کو عدالت میں نہیں لائیں تو کیا ان دو افراد کی گواہی ان کے مدعا کو ثابت کرنے کے لئے کافی نہ تھی؟

ان دو گواہوں میں سے ا یک گواہ حضرت امیر المومنین ـ ہیں کہ جن کی عصمت و طہارت پر آیت تطہیر کی مہر لگی ہوئی ہے اور پیغمبر کے فرمان کے مطابق ''علی حق کے ساتھ ہیں اور حق علی کے ساتھ ہے اور وہ حق کا محور ہیں اور حق انہی کے اردگرد طواف کرتا ہے'' ان تمام چیزوں کے باوجو دخلیفہ نے امام کی گواہی کو یہ بہانہ بنا کر قبول نہیں کیا کہ ضروری ہے کہ دو آدمی یا ایک آدمی اور دو عورتیں گواہی دیں۔

تیسرے یہ کہ، اگر خلیفہ نے حضرت زہرا کی گواہی اس لئے قبول نہیں کیا کہ تعداد معین افراد سے کم تھی تو ایسی صورت میں قضاوت اسلام کا قانون یہ ہے کہ وہ مدعی سے قسم کا مطالبہ کرے کیونکہ اسلامی قوانین میں مال و دولت اور قرض کے مسئلوں میں ایک گواہ کی گواہی کو قسم کے ساتھ قبول کرکے فیصلہ کرسکتے ہیں ،تو پھر خلیفہ نے اس قانون کے جاری کرنے سے کیوں پرہیز کیا اور جھگڑے کو ختم نہیں کیا؟

۲۲۲

چوتھے یہ کہ، خلیفہ نے ایک طرف حضرت زہرا کی گفتگو اور ان کے گواہوں (حضرت علی اور ام ایمن) کی تصدیق کی اور دوسری طرف عمر او رابوعبیدہ کی (ان لوگوں نے گواہی دیا تھا کہ پیغمبر نے فدک کی آمدنی کو مسلمانوں کے درمیان تقسیم کردیا تھا) تصدیق کی۔ اور پھر فیصلہ کرنے کے لئے اٹھے او رکہا کہ سب کے سب صحیح اور سچے ہیں، کیونکہ فدک عمومی مال میں سے تھا اور پیغمبر اس کی آمدنی سے اپنے خاندان کی زندگی کی ضرورتوں کو پورا کرتے تھے اور باقی اموال کو مسلمانوں کے درمیان تقسیم کرتے تھے جب کہ ضروری تھا کہ خلیفہ عمر او رابوعبیدہ کی گفتگو پر سنجیدگی سے غور کرتے کیونکہ ان دونوں نے یہ گواہی نہیں دی تھی کہ فدک عمومی مال میں سے تھا بلکہ صرف اس بات کی گواہی دی تھی کہ پیغمبر نے بقیہ اموال کو مسلمانوں کے درمیان تقسیم کیا تھا، اور یہ بات حضرت زہرا کے مالک ہونے کے ذرہ برابر بھی مخالف نہ تھی کیونکہ پیغمبر اسلام کواپنی بیٹی کی طرف سے اجازت تھی کہ بقیہ اموال کو مسلمانوں کے درمیان تقسیم کردیں۔

خلیفہ کا وقت سے پہلے فیصلہ اورفدک لینے کا اس کا باطنی رجحان سبب بنا کہ خلیفہ ان دونوں کی اس گواہی کے بہانے کہ پیغمبر اسلام بقیہ مال مسلمانوں کے درمیان تقسیم کرتے تھے حضرت زہرا کی ملکیت ہونے سے انکار کردے جب کہ ان دونوں کی گواہی پیغمبر کی بیٹی کے دعوے کے مخالف نہیں تھی۔

اہمبات یہ کہ خلیفہ نے حضرت فاطمہ زہرا(س) سے وعدہ کیا تھا کہ فدک کے سلسلے میں ہمارا طریقہ وہی رہے گا جو پیغمبر کا طریقہ تھا اگر حقیقت میں فدک عمومی مال میں سے تھا تو پھر کیوں انہوں نے حضرت زہرا سے رضایت چاہی؟ اور اگر ذاتی ملکیت تھی یعنی پیغمبر کی بیٹی کی ملکیت تھی تو اس طرح کا وعدہ جب کہ مالک اپنی ملکیت سپردکرنے سے ا نکار کرے اس میں تصرف کے جواز باعث نہیں بن سکتا۔

ان تمام چیزوں کے علاوہ اگر فرض کریں کہ خلیفہ کے پاس یہ اختیارات نہیں تھے مگر وہ مہاجرین اور انصار سے رائے مشورہ اور ان کی رضایت حاصل کرنے کے بعد فدک پیغمبر کی بیٹی کے حوالے کرسکتا تھا، توکیوں انہوں نے یہ کام نہیں کیا اور حضرت زہرا کے شعلہ ور غضب کا اپنے کو مستحق قرار دیا؟

۲۲۳

پیغمبر کی زندگی میں بھی ایسا ہی واقعہ پیش آیاتھا اور پیغمبر نے مسلمانوں کی رضایت کو حاصل کر کے مشکل کو حل کردیاتھا جنگ بدر میں پیغمبر کا داماد ابو العاص (جو پیغمبر کی پروردہ بیٹی زینب کا شوہر تھا:مترجم) گرفتار ہوا تو مسلمانوں نے اس کے علاوہ اس کے ستر افراد کو بھی گرفتار کرلیا، پیغمبر کی طرف سے اعلان ہوا کہ جن کے رشتہ دار گرفتار ہوئے ہیں وہ کچھ رقم دے کر اپنے اسیروں کو آزاد کرسکتے ہیں۔ ابو العاص ایک شریف انسان اور مکہ کا تاجر تھا او رزمانہ جاہلیت میں اس کی شادی پیغمبر کی پروردہ بیٹی سے ہوئی تھی، لیکن بعثت کے بعد اپنی بیوی کے برخلاف اسلام قبول نہیں کیا اور جنگ بدر میں مسلمانوں کے مقابلے میں شریک ہوااور گرفتار ہوگیا اس کی بیوی ان دنوں مکہ میں تھی زینب نے اپنے شوہر کی رہائی کے لئے اپنے اس ہار کو فدیہ قرار دیا جو آپ کی(پرورش کرنے والی ) ماں خدیجہ نے شادی کی رات دیا تھا جب پیغمبر کی نظر زینب کے ہار پر پڑی تو بہت زیادہ گریہ کیا اور ان کی ماں خدیحہ کی فدا کاری و قربانی یاد آگئی جنھوں نے سخت مشکلات کے زمانے میں آپ کی مدد کی تھی اور اپنی تمام دولت کو اسلام کی کامیابی و ترقی کے لئے خرچ کیا تھا۔

پیغمبر اسلام (ص) عمومی اموال کے احترام کی رعایت کرنے کے لئے اپنے صحابیوں کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: یہ ہار تمہارا ہے اور اس پر تمہارا ہی اختیار ہے اگر دل چاہے تو اس ہار کو واپس کردو اور ابوالعاص کو بغیر فدیہ لئے ہوئے رہا کردو آپ کے صحابیوں نے آپ کی درخواست کو قبول کرلیا۔

ابن ابی الحدید لکھتے ہیں:(۱)

''میں نے زینب کے واقعہ کو اپنے استاد ابوجعفر بصری علوی کے سامنے پڑھا تو انھوں نے اس کی

______________________

شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید، ج۱۴، ص ۱۶۱۔

۲۲۴

تصدیق کی اور کہا:کیا فاطمہ کی عظمت و منزلت زینب سے زیادہ نہ تھی ؟کیا بہتر نہیں تھا کہ خلیفہ فاطمہ کو فدک واپس کر کے ان کے قلب کو خوشحال کردیتا؟اگرچہ فدک تمام مسلمانوں کا مال تھا۔

ابن ابی الحدید مزید لکھتے ہیں:

میں نے کہا کہ فدک اس روایت کے مطابق کہ ''گروہ انبیاء بطور میراث کچھ نہیں چھوڑتے'' مسلمانوں کا مال تھا تو کس طرح ممکن تھا کہ مسلمانوں کا مال حضرت زہرا کو دیدیتے؟

استاد نے کہا: کیا زینب کا وہ ہار جو اس نے اپنے شوہر ابوالعاص کی رہائی کے لئے بھیجا تھا وہ مسلمانوں کا مال نہ تھا؟ میں نے کہا:

پیغمبر صاحب شریعت تھے اور تمام امور کے نفاذ او راجراء کا حکم ان کے ہاتھوں میںتھا لیکن خلفاء کے پاس یہ اختیار نہیں تھا۔

استاد نے میرے جواب میں کہا: میں یہ نہیں کہتا کہ خلفاء زبردستی مسلمانوں سے فدک چھین لیتے اور فاطمہ کے ہاتھوں میں دیدیتے، بلکہ میراکہنا یہ ہے کہ کیوں حاکم وقت نے فدک دینے کے لئے مسلمانوں کو راضی نہیں کیا؟ کیوں پیغمبر کی طرح نہ اٹھے اوران کے اصحاب کے درمیان نہیں کہا کہ اے لوگو! زہرا تمہارے نبی کی بیٹی ہیں وہ چاہتی ہیں کہ پیغمبر کے زمانے کی طرح فدک کا نخلستان (کھجور کا باغ) ان کے ہاتھ میں رہے کیا تم لوگ خود اپنی مرضی سے راضی ہو کہ فدک فاطمہ کے حوالے کردیا جائے ؟

آخر میں ابن ابی الحدید لکھتے ہیں:

ہمارے پاس استاد کی باتوں کا جواب نہ تھا اور صرف بطور تائید کہا: ابوالحسن عبد الجبار بھی خلفاء کے بارے میں ایساہی اعتراض رکھتا ہے اور کہتا ہے کہ اگرچہ ان کاطور طریقہ شرع کے مطابق تھا لیکن جناب زہرا کا احترام اور ان کی عظمت کا پاس و لحاظ نہیں رکھا گیا ۔

۲۲۵

چھٹیں فصل

کیاانبیاء میراث نہیں چھوڑتے؟

اس بارے میں قرآن کا نظریہ

ابوبکر نے پیغمبر کی بیٹی کو میراث نہ دینے کے لئے ایک حدیث کا سہارالیاجس کا مفہوم خلیفہ کی نظر میں یہ تھا کہ پیغمبران خدا بطور میراث کوئی چیز نہیں چھوڑ تے اور ان کی وفات کے بعد ان کی چھوڑی ہوئی چیزیں صدقہ ہوتی ہیں۔ قبل اس کے کہ اس حدیث کے متن کو نقل کریں جس سے خلیفہ نے استناد کیا ہے، ضروری ہے کہ اس مسئلے کو قرآن سے حل کریں کیونکہ قرآن مجید حدیث صحیح کو حدیث باطل سے پہچاننے کا بہترین ذریعہ ہے اور اگر قرآن نے اس موضوع کی تصدیق نہیں کیا تو اس حدیث کو (اگرچہ ابوبکر ناقل ہوں) صحیح حدیث شمار نہیں کیا جائے گا بلکہ اسے من گھڑت او رباطل حدیث شمار کیاجائے گا۔

قرآن کریم کی نظر میں اور اسلام میں میراث کے احکام کی روسے پیغمبروں کی اولاد یا ان کے وارثوں کو مستثنیٰ کرنا قانون میراث کے مطابق غیر منطقی بات ہے اور جب تک قطعی دلیل ان آیات ارث کو تخصیص نہ دے میراث کے تمام قوانین تمام افراد کو کہ انہی میں پیغمبر کی تمام اولادیں اور وارثین ہی شامل ہیں۔

اس جگہ سوال کرنا چاہیئے کہ کیوں پیغمبر کی اولاد میراث نہیں لے سکتی؟ ان کی رحلت کے بعد ان کا گھر اور تمام زندگی کے اسباب ان سے کیوں لے لیا جائے؟ آخر پیغمبر کے وارث کس گناہ کے مرتکب ہوئے ہیں کہ ان کے مرنے کے بعد تمام لوگ گھر سے باہر نکال دیئے جائیں؟

اگرچہ پیغمبر کے وارثوں کو میراث سے محروم کرنا عقلا بعید ہے لیکن اگر وحی کی طرف سے قطعی اور صحیح دلیل موجود ہو کہ تمام انبیاء کوئی چیز بعنوان میرا ث نہیں چھوڑتے اور ان کا ترکہ عمومی مال شمار ہوتا ہے تو ایسی صورت میں''اٰمَنَّا وَصَدَّقْنَا'' حدیث کو قبول کریں گے اور غلط فہمی کو دور کردیں گے او رمیراث سے مربوط آیتوں کو صحیح حدیث کے ذریعے تخصیص دیں گے، لیکن اہم بات یہ ہے کہ کیا اس طرح کی حدیثیں پیغمبر سے وارد ہوئی ہیں؟

۲۲۶

وہ حدیث جو خلیفہ نے نقل کی ہے اس کو پہچاننے کے لئے بہترین راستہ یہ ہے کہ حدیث کے مفہوم کو قرآن کی آیتوں سے ملائیں اگر قرآن کے مطابق ہو تو قبول کریں گے اور اگر قرآن کے مطابق نہ ہوتو اسے رد کردیں گے۔ جب ہم قرآنی آیتوں کی طرف رجوع کرتے ہیں تو ہمیں ملتا ہے کہ قرآن نے دو جگہوں پر پیغمبر کی اولادکی میراث کا تذکرہ کیاہے اور ان کے میراث لینے کو ایک مسلّم حق بیان کیا ہے وہ آیتیں جو اس مطلب کو بیان کرتی ہیں یہ ہیں:

۱۔ یحییٰ نے زکریا سے میراث پائی

( وَانِّی خِفْتُ الْمَوَالِیَ مِنْ وَرَائِی وَکَانَتْ امْرَاتِی عَاقِرًا فَهَبْ لِی مِنْ لَدُنْکَ وَلِیًّا یَرِثُنِی وَیَرِثُ مِنْ آلِ یَعْقُوبَ وَاجْعَلْهُ رَبِّ رَضِیًّا ) (سورۂ مریم، آیت ۵، ۶)

اور میں اپنے (مرنے کے) بعد اپنے وارثوں(چچا زاد بھائیوں) سے ڈرجاتا ہوں(کہ مبادا دین کو برباد کریں) اور میری بی بی (ام کلثوم بنت عمران) بانجھ ہے پس تو مجھ کو اپنی بارگاہ سے ایک جانشین (فرزند) عطا فرما، جو میری او ریعقوب کی نسل کی میراث کا مالک ہو اور اسے میرے پروردگار او را س کو اپنا پسندیدہ بنا۔

اس آیت کو ا گر ہر اس شخص کے سامنے پڑھایا جائے جو لڑائی جھگڑوں سے دور ہو تو وہ یہی کہے گا کہ حضرت زکریا نے خداوند عالم سے ایک بیٹا طلب کیا تھا جو ان کا وارث ہو کیونکہ ان کو اپنے دوسرے وارثوں سے خطرہ اور خوف محسوس ہو رہا تھا اور آپ نہیں چاہتے تھے کہ آپ کی دولت و ثروت ان لوگوں تک پہونچے، وہ کیوں خوف محسوس کر رہے تھے اس کی وضاحت بعد میں کریں گے۔

آیت میں ''یرثنی'' سے مراد میراث میں سے مال لینا ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ یہ لفظ مال کی وراثت کے علاوہ دوسری چیزوں میں استعمال نہیں ہوتا مثلاً نبوت اور علوم کا وارث ہونا، بلکہ اس سے مراد یہ ہے کہ جب تک دوسرے والے معنی کے ساتھ کوئی قرینہ موجود نہ ہو اس وقت تک یہ مال سے میراث لینا مراد ہوگا نہ کہ علم اور نبوت سے میراث لینا۔(۱)

_____________________

(۱) جی ہاں، کبھی کبھی یہی لفظ کسی خاص قرینے کی وجہ سے میراث علم میں استعمال ہوتا ہے مثلا''ثم اورثنا الکتاب الذین اصطفینا من عبادنا'' (فاطر، آیت ۳۲) یعنی ہم نے اس کتاب کو اس گروہ سے جس کو نے چنا ہے ان کو میراث میں دیا، یہاں پر لفظ ''کتاب'' واضح و روشن قرینہ ہے کہ یہاں مال میں میراث مراد نہیں ہے بلکہ قرآن کے حقائق سے آگاہی کی میراث مراد ہے۔

۲۲۷

یہاں ہم ان قرینوں کو پیش کر رہے ہیں جو اس بات کی تائید کرتے ہیں کہ ''یرثنی و یرث من آل یعقوب'' سے مراد مال میں میراث ہے نہ کہ علم و نبوت میں میراث لینا۔

۱۔ لفظ ''یرثنی'' اور ''یرث'' سے یہ ظاہر ہے کہ اس سے مراد وہی مال میں میراث ہے نہ کہ غیرمیں، اور جب تک اس کے برخلاف کوئی قطعی دلیل نہ ہو جب تک اس کو اس معنی سے خارج نہیں کرسکتے، اگر آپ قرآن میں اس لفظ کے تما م مشتقات کو غور سے دیکھیں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ یہ لفظ پورے قرآن میں (سوائے سورۂ فاطر آیت ۳۲ کے) مال میں وراثت کے متعلق استعمال ہوا ہے اور یہ خود بہترین دلیل ہے کہ ان دو لفظوں کو اس کے اسی معروف و مشہور معنی میں استعمال کریں۔

۲۔ نبوت اور امامت خداوند عالم کا فیض ہے جو مسلسل مجاہدت ، فداکاری اور ایثار کے ذریعے باعظمت انسان کو نصیب ہوتا ہے اور یہ فیض بغیر کسی ملاک کے کسی کو دیا نہیں جاتا اس لئے یہ قابل میراث نہیں ہے بلکہ ایک ایسے باعظمت و مقدس گروہ میں ہے کہ ملاک نہ ہونے کی صورت میں ہرگز کسی کو دیا نہیں جاتا اگرچہ پیغمبر کا بیٹا ہی کیوں نہ ہو۔یہی وجہ تھی کہ زکریا نے پروردگار عالم سے بیٹے کی درخواست نہیں کی جو نبوت و رسالت کا وارث ہو اور اس بات کی تائید قرآن مجید میں ہے کہ:

( اَللهُ اَعْلَمُ حَیْثُ یَجْعَلُ رِسَالَتَه ) (۱)

خداوند عالم سب سے زیادہ جانتا ہے کہ اپنی رسالت کو کہاں قرار دے۔

۳۔ حضرت زکریا نے صرف خدا سے بیٹے کی تمنا ہی نہیں کی بلکہ کہا کہ پروردگار اسے میرا پاک و پاکیزہ اور پسندیدہ وارث قرار دے اگر اس سے مراد مال میں میراث ہو تو صحیح ہے کہ حضرت زکریا اس کے حق میں دعا کریں کہ ''و اجعلہ رب رضیاً'' (خدایا) اسے مورد پسند قرار دے ۔کیونکہ ممکن ہے کہ مال کا وارث کوئی غیر سالم شخص ہو، لیکن اگر اس سے مراد نبوت و رسالت کا وارث ہو، تو اس طرح سے دعا کرنا صحیح نہیں ہوگا اور یہ بالکل ایسا ہی ہے کہ ہم خدا سے دعا کریں کہ خدایا ایک علاقہ کے لئے پیغمبر بھیج دے اور اسے پاک و مورد پسند قرار دے۔ یہ بات بالکل واضح ہے کہ

______________________

(۱) سورۂ انعام ، آیت ۱۲۴۔

۲۲۸

ایسی دعا پیغمبر کے بارے میں جو خداوند عالم کی جانب سے مقام رسالت و نبوت پر فائز ہو باطل ہو جائے گی۔

۴۔ حضرت زکریا اپنی دعا میں کہتے ہیں کہ ''میں اپنے عزیزوں اور چچازاد بھائیوں سے خوف محسوس کرتا ہوں'' لیکن ابتدا میں زکریا کے ڈرنے کی کیا وجہ تھی؟

کیا انھیں اس بات کا خوف تھا کہ ان کے بعد رسالت و نبوت کا منصب ان نا اہلوں تک پہونچ جائے گا اسی لئے انھوں نے اپنے لئے خدا سے ایک بیٹے کی تمنا کی؟ یہ احتمال بالکل بے جا ہے کیونکہ خداوند عالم نبوت و رسالت کے منصب کو ہرگز نااہلوں کو نہیں دیتا کہ ان کو اس بات کا خوف ہو۔ یا حضرت زکریا کو اس بات کا ڈر تھا کہ ان کے بعد دین اور اس کے قوانین ختم ہو جائیں گے اور ان کی قوم الگ الگ گروہوں میں ہو جائے گی؟ اس طرح کا خوف بھی انھیں نہیں تھا کیونکہ خداوند عالم اپنے بندوں کو ایک لمحہ کے لئے بھی اپنی ہدایت کے فیض سے محروم نہیں کرتا اور مسلسل اپنی حجت ان کی رہبری کے لئے بھیجتا ہے اور ان لوگوں کو بھی بغیر رہبر کے نہیں چھوڑتا۔

اس کے علاوہ اگر مراد یہی تھی تو ایسی صورت میں زکریا کو بیٹے کی دعا نہیں کرنی چاہئیے تھی، بلکہ صرف اتنا ہی کافی تھا کہ دعا کرتے کہ پروردگار ا ان لوگوں کے لئے پیغمبر بھیج دے (چاہے ان کی نسل سے ان کا وارث ہو چاہے دوسرے کی نسل سے) تاکہ ان کو جاہلیت کے دور سے نجات دیدے حالانکہ زکریا نے وارث کے نہ ہونے پر خوف محسوس کیا۔

دو سوالوں کا جواب

مورد بحث آیت کے سلسلے میں دواعتراض ذکر ہوا ہے جس کی طرف اہلسنت کے بعض دانشمندوں نے اشارہ کیا ہے یہاں پر ہم دونوں سوالوں کا جائزہ لے رہے ہیں

الف: حضرت یحییٰ اپنے والد کے زمانے میں منصب نبوت پر فائز ہوئے لیکن ہرگز ان کے مال سے میراث نہیں لی کیونکہ اپنے والد سے پہلے ہی شہید ہوگئے اس لئے ضروری ہے کہ لفظ ''یرثنی'' کو نبوت میں وارث کے عنوان سے تفسیر کریں نہ کہ مال میں وراثت سے۔

۲۲۹

جواب:

ہر حالت میں اس اعتراض کا جواب دینا ضروری ہے چاہے اس سے مراد مال کا وارث ہو یا نبوت کا وارث ہو، چونکہ نبوت میں وارث ہونے سے مراد یہ ہے کہ وہ اپنے باپ کے بعد منصب نبوت پر فائز ہو۔ یہی وجہ ہے کہ آیت کی تفسیر میں دونوں نظریوں پر اشکال ہوا ہے اور تفسیر، مال میں وارث ہونے سے مخصوص نہیں ہے لیکن اس کا جواب یہ ہے کہ یحییٰ کا زکریا سے میراث پانا صرف ان کی دعاؤں کی وجہ سے نہ تھا بلکہ ان کی دعا صرف یہ تھی کہ خداوند عالم انھیں صالح بیٹا عطا کرے اور بیٹے کی تمنا کرنے کا مقصد یہ تھا کہ وہ زکریا کا وارث بنے، خدا نے ان کی دعا کو قبول کرلیا اگرچہ حضرت زکریا نے جو اس بیٹے کی تمنا کی اس مقصد (یحییٰ کا ان سے میراث لینا) میں کامیاب نہ ہوئے۔

مورد بحث آیت میں تین جملے استعمال ہوئے ہیں جن کی ہم وضاحت کر رہے ہیں:

( فَهَبْ لِیْ مِنْ لَدُنْکَ وَلِیًّا ) پروردگارا! مجھے ایک بیٹا عطا کر۔

( یَرِثُنِی وَ یَرِثُ مِنْ آلِ یَعْقُوْب ) میرا اور یعقوب کے خاندان کا وارث ہو۔

''وَاجْعَلْهُ رَبِّ رَضِیّاً'' پروردگارا! اسے مورد پسند قرار دے۔ان تین جملوں میں پہلا اور تیسرا جملہ بطور درخواست استعمال ہوا ہے جو حضرت زکریا کی دعا کو بیان کرتاہے یعنی انھوں نے خدا سے یہ دعا کی کہ مجھے لائق و پسندیدہ بیٹا عطا کر، لیکن غرض اور مقصد یا دوسرے لفظوں میں علت غائی، مسئلہ وراثت تھا۔جب کہ مسئلہ وراثت دعا کا جزء نہ تھا اور جس چیز کی جناب زکریا نے خدا سے دراخواست کی تھی وہ پوری ہوگئی اگرچہ ان کی غرض و مقصد پورا نہ ہوا او ران کا بیٹا ان کے بعد موجود نہ رہا کہ ان کے مال یا نبوت کا وراث ہوتا۔(۱) وراثت جزء دعا نہ تھی بلکہ امید تھی جو اس درخواست پر اثر انداز ہوئی، اس بات پر بہترین گواہیہ ہے کہ دعا کی عبارت اور زکریا کی درخواست دوسرے سورہ میں اس طرح وارد ہوئی ہے ،اور وہاں پر اصلاً وراثت کا تذکرہ نہیں ہے۔

______________________

(۱) بعض قاریوں نے '' یرثنی '' کو جزم کے ساتھ پڑھا ہے اور اسے جواب یا '' ھَب ''(کہ جو صیغہ امر ہے) کی جزا جانا ہے یعنی'' ان تهب ولیاً یرثنی '' اگر بیٹا عطا کرے گا تو وہ میرا وارث ہوگا۔

۲۳۰

( هُنَالِکَ دَعَا زَکَرِیَّا رَبَّهُ قَالَ رَبِّ هَبْ لِی مِنْ لَدُنْکَ ذُرِّیَّةً طَیِّبَةً انَّکَ سَمِیعُ الدُّعَاء ) (۱)

اس وقت زکریا نے اپنے پروردگار کی بارگاہ میں دعا کی پروردگارا! مجھے اپنی جانب سے ایک صالح اور پاکیزہ بیٹا عطا فرما اور تو اپنے بندوں کی دعا کو سننے والا ہے۔ اب آپ اس آیت میں ملاحظہ کرسکتے ہیں کہ اس درخواست میں وراثت دعا کا حصہ نہیں ہے بلکہ درخواست میں پاکیزہ نسل کا تذکرہ ہے اور سورۂ مریم میں ''ذریت'' کی جگہ پر لفظ ''ولیاً'' اور ''طیبة'' کی جگہ پر لفظ ''رضیاًّ'' استعمال ہوا ہے۔

ب: مورد بحث آیت میں ضروری ہے کہ زکریا کا فرزند دو آدمیوں سے میراث لے ایک زکریا سے دوسرے یعقوب کے خاندان سے جیسا کہ ارشاد قدرت ہے: ''یرثنی و یرث من آل یعقوب'' یعقوب کے خاندان کی تمام وراثت ، نبوت کی وراثت کا حصہ نہیں بن سکتی۔

جواب: آیت کا مفہوم یہ نہیں ہے کہ زکریا کا فرزند، خاندان یعقوب کے تمام افراد کا وارث ہو ، بلکہ آیت کا مفہوم لفظ ''مِن'' سے جو کہ تبعیض کا فائدہ دیتی ہے ،یہ ہے کہ اس خاندان کے بعض افراد سے میراث حاصل کرے نہ کہ تمام افراد سے، اور اس بات کے صحیح ہونے کے لئے بس اتنا ہی کافی ہے کہ وہ اپنی ماں سے یعقوب کے خاندان کے کسی فرد سے میراث حاصل کریں. اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس یعقوب سے مراد کون ہے کیا وہی یعقوب بن اسحاق مراد ہیں یا کوئی دوسرا فی الحال مشخص نہیں ہے۔

۲: سلیمان نے داؤد سے میراث پائی

( وَوَرِثَ سُلَیْمَانُ دَاوُود ) (۲)

سلیمان نے داؤد سے میراث پائی۔

اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ اس آیت سے مراد یہ ہے کہ سلیمان نے مال و سلطنت کو حضرت داؤد سے بطور میراث حاصل کیا اور یہ خیال کرنا کہ اس سے مراد علم کا وارث ہونا تھا دولحاظ سے باطل ہے۔

______________________

(۱) سورۂ آل عمران، آیت ۳۸۔------(۲) سورۂ نمل، آیت ۱۶۔

۲۳۱

۱۔ اصطلاح میں کلمہ ''ورث'' کے معنی مال سے میراث لینا ہے اور علم کی وراثت مراد لینا تفسیر کے برخلاف ہے جو قرینہ قطعی کے بغیر صحیح نہیں ہوگا۔

۲۔ چونکہ اکتسابی علم استاد سے شاگرد کی طرف منتقل ہوتا ہے اور مجازاً یہ کہنا صحیح ہے کہ '' فلاں شخص اپنے استاد کے علم کا وارث ہے'' لیکن مقام نبوت اور علوم الہی وہبی ہیں اور اکتسابی اور موروثی نہیں ہیں اور خدا جسے چاہتا ہے اسے عطا کرتاہے لہٰذا وراثت کی تفسیر اس طریقے کے علوم و معارف اور مقامات او رمنصبوں سے اس وقت تک صحیح نہیں ہے جب تک قرینہ موجود نہ ہو کیونکہ بعد میں آنے والے پیغمبر نے نبوت اور علم کو خدا سے لیا ہے نہ کہ اپنے والد سے۔

اس کے علاوہ اس آیت سے پہلے والی آیت میں خداوند عالم داؤد اور سلیمان کے بارے میں فرماتا ہے:

( وَلَقَدْ آتَیْنَا دَاوُودَ وَسُلَیْمَانَ عِلْمًا وَقَالاَالْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِی فَضَّلَنَا عَلَی کَثِیرٍ مِنْ عِبَادِهِ الْمُؤْمِنِینَ ) (۱)

اور اس میں شک نہیں کہ ہم نے داؤد اور سلیمان کو علم عطا کیا اوردونوں نے (خوش ہو کر) کہا خدا کا شکر جس نے ہم کو اپنے بہتیرے ایماندار بندوں پر فضیلت دی۔

کیا آیت سے یہ ظاہر نہیں ہے کہ خداوند عالم نے دونوں کو علم و دانش عطا کیا او رسلیمان کا علم وہبی تھا نہ کہ موروثی؟

سورۂ نمل اور سورۂ مریم کی آیتوں کی روشنی میں یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ شریعت الہی کا پچھلے پیغمبروں کے بارے میں یہ ارادہ نہیں تھا کہ ان کی اولادیںان کی میراث نہ لیں، بلکہ ان کی اولادیں بھی دوسرں کی اولادوں کی طرح ایک دوسرے سے میراث حاصل کریں۔یہی وجہ ہے کہ صریحی طور پر وہ آیتیں جو یحییٰ اور سلیمان کی اپنے والد سے میراث لینے کے متعلق ہیں انہیں حضرت فاطمہ نے اپنے خطبہ میں جو آپ نے پیغمبر کے بعد مسجد نبوی میں ارشاد فرمایا تھا بیان کیا اور ان دونوں آیتوں سے استناد کرتے ہوئے اس فکر کے غلط ہونے پر استدلال کیا اور فرمایا:

______________________

(۱) سورۂ نمل، آیت ۱۵۔

۲۳۲

''هذا کتاب الله حکماً عدلاً و ناطقاً فصلاً یقول ''یرثنی و یرث من آل یعقوب '' و ورث سلیمان داؤد'' (۱)

یہ کتاب خدا حاکم اور عادل و گویا ہے اور بہترین فیصلہ کرنے والی ہے جس کا بیان یہ ہے کہ (یحییٰ نے) مجھ (زکریاسے) اور یعقوب کے خاندان سے میراث پائی (پھر کہا) سلیمان نے داؤد سے میراث پائی۔

______________________

(۱) احتجاج طبرسی، ج۱، ص ۱۴۵، (مطبوعہ نجف اشرف)

۲۳۳

پیغمبر(ص) سے منسوب حدیث

گذشتہ بحث میں قرآن کی آیتوں نے یہ ثابت کردیا کہ پیغمبروں کے وارث ،پیغمبروں سے میراث پاتے تھے اور ان کے بعد ان کی چھوڑی ہوئی چیزیں (میراث) غریبوں اور محتاجوں میں بعنوان صدقہ تقسیم نہیں ہوتی تھیں، اب اس وقت ہم ان روایتوں کی تحقیق کریں گے جنہیں اہلسنت کے علماء نے نقل کیا ہے اور خلیفہ اول کے اس عمل کی توجیہ کی ہے جو انھوں نے حضرت زہرا کو ان کے باپ کی میراث لینے سے محروم کردیاتھا۔

ابتدا میں ہم ان حدیثوں کو نقل کررہے ہیں جو حدیث کی کتابوںمیں وارد ہوئی ہیں پھر ان کے معنٰی کو بیان کریں گے ۔

۱۔'' نَحْنُ مَعَاشِرُا لْاَنْبِیَائِ لَانُوْرِثُ ذَهْبًا وَلَا فِضَّةً وَلَا اَرْضًا وَلَا عِقَاراً وَلَا دَاراً وَلٰکِنَّا نُوَرِّثُ الْاِیْمَانَ وَالْحِکْمَةَ وَالْعِلْمَ وَالسُّنَّةَ''

ہم گروہ انبیاء سونا، چاندی، زمین اور گھر وغیرہ بطور میراث نہیں چھوڑتے، بلکہ ہم ایمان ، حکمت ، علم او رحدیث بعنوان میراث چھوڑتے ہیں۔

۲۔'' اِنَّ الْاَنْبِیَائَ لَایُوْرثون''

بے شک انبیاء کوئی چیز بھی بعنوان میراث نہیں چھوڑتے (یا ان کی چیزیں میراث واقع نہیں ہوتیں)

۳۔'' اِنَّ النَّبِیَّ لَایُوْرثُ''

بے شک پیغمبر کوئی چیز میراث نہیں چھوڑتے (یا میراث واقع نہیں ہوتی)

۴۔'' لَانُوْرث، مَا تَرَکْنَاه صَدْقَةً''

ہم کوئی چیز میراث نہیں چھوڑتے بلکہ جو چیز ہمارے بعد باقی رہتی ہے وہ صدقہ ہے۔

۲۳۴

یہ ان تمام حدیثوں کی اصلی عبارتیں ہیں جنھیں اہلسنت نے نقل کیا ہے خلیفہ اول نے حضرت زہرا کو ان کے باپ کی میراث نہ دینے کے لئے چوتھی حدیث کا سہارا لیا، اس سلسلے میں پانچویں حدیث بھی ہے جسے ابوہریرہ نے نقل کیا ہے لیکن چونکہ معلوم ہے کہ ابوہریرہ صاحب نے یہ حدیث گڑھی ہے جیسا کہ (خود ابوبکر جوہری کتاب ''السقیفہ'' کے مولف نے اس حدیث کے متن کی غرابت کا اعتراف کیا ہے)(۱)

اس لئے ہم نے اسے نقل کرنے سے پرہیز کیا ہے اب ہم ان چاروں حدیثوں کا تجزیہ و تحلیل کرتے ہیں۔

پہلی حدیث کے سلسلے میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ اس حدیث سے مراد یہ نہیں ہے کہ انبیاء کوئی چیز میراث میں نہیں چھوڑتے ، بلکہ مراد یہ ہے کہ پیغمبروں کی شان یہ نہیں ہے کہ وہ اپنی عمر کو سونے چاندی ، مال و دولت کے جمع کرنے میں خرچ کریں اور اپنے وارثوں کے لئے مال و دولت چھوڑیں اور ان کی جو یادگاریں باقی ہیں وہ سونا چاندی نہیں ہیں، بلکہ علم و حکمت اور سنت ہیں،اسکا مطلب یہ نہیں کہ اگر پیغمبرنے اپنی پوری زندگی لوگوں کی ہدایت و رہبری میں صرف کی اور تقوی اور زہد کے ساتھ زندگی بسر کی تو ان کے انتقال کے بعد اس حکم کی بناء پر کہ پیغمبر کوئی چیز بطور میراث میں نہیں چھوڑتے، ان کے وارثوں سے فورا ان کا ترکہ لے کر صدقہ دیدیں۔

واضح لفظوں میں اس حدیث کا مقصد یہ ہے کہ پیغمبروں کی امتیں یا ان کے ورثاء ا س بات کے منتظر نہ رہیں کہ وہ اپنے بعد مال ودولت بطور میراث چھوڑیں گے، کیونکہ وہ لوگ اس کا م کے لئے نہیں آئے تھے،بلکہ وہ اس لئے بھیجے گئے تھے کہ لوگوں کے درمیان دین و شریعت، علم و حکمت کو پھیلائیں اور انہی

______________________

(۱) شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدیدج۱۶ ص ۲۲۰۔

۲۳۵

چیزوں کو اپنی یادگار چھوڑیں، شیعہ دانشمندوں نے اسی مضمون میں ایک حدیث امام صادق سے نقل کی ہے اور یہ اس بات پر گواہ ہے کہ پیغمبر کا مقصد یہی تھا۔

امام جعفر صادق فرماتے ہیں:

''انَّ الْعُلَمَائَ وَرَثَةُ الْاَنْبِیَائِ َوذَالِکَ اَنَّ الْاَنْبِیَائَ لَمْ یُوَرِّثُوْا دِرْهَماً وَلَادِیْنَاراً وَاِنَّمَا وُرِثُوْا اَحٰادِیْثَ مِنْ اَحَادِیْثِهِمْ'' (۱)

علماء انبیاء کے وارث ہیں کیونکہ پیغمبروں نے درہم و دینار ورثہ میں نہیں چھوڑا ہے بلکہ (لوگوں کے لئے) اپنی حدیثوں میں سے حدیث کو یادگار چھوڑا ہے

اس حدیث اور اس سے مشابہ حدیث کامراد یہ ہے کہ پیغمبروں کی شان مال کو جمع کر کے میراث میں چھوڑ نا نہیں ہے ،بلکہ ان کی عظمت و شان کا تقاضا یہ ہے کہ اپنی امت کے لئے علم و ایمان کو بطور میراث چھوڑیں، لہذا یہ تعبیر اس بات کو ثابت نہیں کرتی کہ اگر پیغمبر کوئی چیز میراث میں چھوڑ دیںتو ضروری ہے کہ ان کے وارثوں سے لے لیا جائے۔اس بیان سے یہ با ت واضح ہوتی ہے کہ دوسری اور تیسری حدیثوں کا مقصد بھی یہی ہے اگرچہ مختصر اور غیر واضح نقل ہوئی ہیں۔ حقیقت میں جو پیغمبر نے فرمایا: وہ صرف ایک ہی حدیث ہے جس میں کتر بیونت کر کے مختصرا نقل کیا گیا ہے ۔اب تک ہم نے شروع کی تین حدیثوں کی بالکل صحیح تفسیر کی ہے اوران کے قرآن سے اختلافات کو جو پیغمبروں کی اولادوں کے وارث ہونے بتاتاہے، اسے برطرف کردیا۔

مشکل چوتھی حدیث میں ہے، کیونکہ مذکورہ توجیہ اس میں جاری نہیں ہوگی،کیونکہ حدیث میں صراحتاً موجود ہے کہ پیغمبریا پیغمبروں کا ترکہ صدقہ کے عنوان سے لے لینا چاہئے۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر اس حدیث کا مقصد یہی ہے کہ یہ حکم تمام پیغمبروں کے لئے ہے تو اس صورت میں اس کا مفہوم قرآن کے مخالف ہوگا اور پھر معتبر نہیں ہو گی، اور اگر اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ یہ حکم صرف پیغمبر اسلام کے لئے نافذ ہے اور تمام پیغمبروں کے درمیان صرف وہ اس خصوصیت کے

______________________

(۱)مقدمۂ معالم ص۱ منقول از کلینی ۔

۲۳۶

حامل ہیں، تو ایسی صورت میں اگرچہ کلی طور پر قرآن مجید کے مخالف نہیں ہے، لیکن قرآن مجید کی متعدد آیتوں کے مقابلے میں عمل کرنا خصوصاً میراث اور اس کے وارثوں کے درمیان تقسیم کرنا، جو کلی و عمومی ہے پیغمبر اسلام کو بھی شامل کرتی ہے بشرطیکہ یہ حدیث اس قدر صحیح و معتبر ہو کہ ان قرآنی آیتوں کی تخصیص کردے، لیکن افسوس کہ یہ حدیث کہ جس پر خلیفہ اول نے اعتماد کیا ہے اس قدر غیر معتبر ہے جس کوہم یہاںبیان کر رہے ہیں۔

۱۔ پیغمبر کے صحابیوں میں سے کسی نے بھی اس حدیث کو نقل نہیں کیا ہے اور صرف اس کو نقل کرنے میں خلیفہ اول فردفرید ہیں۔

اور ہم نے جو یہ کہا ہے کہ حدیث نقل کرنے میں صرف وہی ہیں تو یہ غلط عبات نہیں ہے بلکہ یہ مطلب تاریخ کے دامن میں تحریر ہے اور مسلمات میں سے ہے چنانچہ ابن حجر نے تنہا اس حدیث کے نقل کرنے کی بنا پر ان کی اعلمیت کا اعتراف کیا ہے۔(۱)

جی ہاں، صرف تاریخ میں جو چیز بیان کی گئی ہے وہ یہ ہے کہ حضرت علی علیہ السلام اور عباس کے درمیان پیغمبر کی میراث کے بارے میں جواختلاف تھا۔(۲) عمر نے دونوں کے درمیان فیصلہ کرنے کے لئے اسی حدیث کا سہارا لیا جسے خلیفہ اول نے نقل کیا تھا اور اس مجمع میں سے پانچ لوگوںنے اس کے صحیح ہونے پر گواہی دی۔(۳) ابن ابی الحدید لکھتے ہیں:

پیغمبر کی رحلت کے بعد صرف ابوبکر نے اس حدیث کو نقل کیا تھا ،ان کے علاوہ کسی نے اس

حدیث کو نقل نہیں کیا اور کبھی کبھی یہ کہا جاتا ہے کہ مالک بن اوس نے بھی اس حدیث کو نقل کیا ہے۔ البتہ، عمر کی خلافت کی زمانے میں بعض مہاجرین نے اس کے صحیح ہونے کی گواہی دی ہے۔(۴)

______________________

(۱) صواعق محرقہ ص ۱۹۔

(۲) حضرت علی علیہ السلام کا عباس سے اختلاف جس طرح سے اہلسنت کی کتابوں میں نقل ہوا ہے وہ محققین شیعہ کی نظر میں غیر قابل قبول ہے۔

(۳) شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج۱۶ ص ۲۲۹، صواعق محرقہ ص ۲۱۔

(۴) شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج ۱۶ ص ۲۲۷۔

۲۳۷

ایسی صورت میں کیا یہ صحیح ہے کہ خلیفہ جو کہ خود بھی مدعی ہے ایسی حدیث کو بطور گواہ پیش کرے کہ اس زمانے میں اس کے علاوہ کسی کو بھی اس حدیث کی اطلاع نہ ہو؟

ممکن ہے کہ کوئی یہ کہے کہ قاضی فیصلہ کرتے وقت اپنے علم پر عمل کرسکتا ہے اوراپنے کینہ اپنے علم و آگاہی کی بنیاد پر فیصلہ کرے، اور چونکہ خلیفہ نے اس حدیث کو پیغمبر سے سنا تھا لہٰذااپنے علم کی بنیادپر اولاد کی میراث کے سلسلے میں جو آیتیں ہیں انہیں تخصیص دیدیں،اور پھر اسی اساس پر فیصلہ کریں، لیکن افسوس، خلیفہ کامتضادکردار اور فدک دینے میں کشمکش کا شکار ہونا اور پھر دوبارہ فدک واپس کرنے سے منع کرنا (جس کی تفصیل گذر چکی ہے) اس بات کو ثابت کرتا ہے کہ انہیں حدیث کے صحیح ہونے پر یقین و اطمینان نہ تھا۔

اس بناء پر ہم کس طرح کہہ سکتے ہیں کہ خلیفہ نے پیغمبر کی بیٹی کو ان کے باپ کی میراث نہ دینے میں اپنے علم کے مطابق عمل کیا ہے اور قرآن مجیدکی آیتوں کو اس حدیث سے جو پیغمبر سے سنا تھا مخصوص کردیا ہے؟

۲۔اگر خداوند عالم کا پیغمبر کے ترکہ کے بارے یہ حکم تھا کہ ان کا مال عمومی ہے اور مسلمانوں کے امور میں صرف ہو، تو کیوں پیغمبر نے اپنے تنہا وارث سے یہ بات نہیں بتائی؟ کیا یہ بات معقول ہے کہ پیغمبر اپنی بیٹی سے اس حکم الہی کو جو خود ان سے مربوط تھا پوشیدہ رکھیں؟ یا یہ کہ ان کو باخبر کردیں مگر وہ اسے نظر انداز کردیں؟

نہیں ۔ یہ ایساہرگز ممکن نہیں ہے ،کیونکہ پیغمبرکی عصمت اور آپ کی بیٹی کا گناہ سے محفوظ رہنا اس چیز کے لئے مانع ہے کہ اس طرح کا احتمال ان کے بارے میں دیا جائے؛ بلکہ ضروری ہے کہ حضرت فاطمہ کے انکار کواس بات پر گواہ سمجھیں کہ ان چیزوں کی کوئی حقیقت نہیں ہے اور یہ حدیث ان لوگوںکی من گھڑت ہے جن لوگوں نے سیاسی طور پر یہ ارادہ کیا کہ پیغمبر کے حقیقی وراث کو ان کے شرعی حق سے محروم کردیں۔

۳۔ وہ حدیث جس کو خلیفہ نے نقل کیا تھا اگر واقعاً وہ صحیح تھی تو پھر کیوں فدک مختلف سیاستوںکا شکار رہااور ہر نئے خلیفہ اپنے دوران حکومت میںمتضاد کردار اداکیا؟ تاریخ کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ فدک خلفاء کے زمانے میں ایک آدمی کے پاس نہ تھا کبھی فدک ان کے حقیقی مالکوں کو واپس کیا گیا تو کبھی حکومت کے قبضے میں رہا، بہرحال ہر زمانے میں فدک ایک حساس مسئلہ اور اسلام کے

۲۳۸

پیچیدہ مسائل کے طور پر تھا۔(۱) جیسا کہ پہلے بھی ذکر ہوچکا ہے کہ عمر کی خلافت کے دور میں فدک علی علیہ السلام اور عبا س کو واپس کر دیا گیا تھا(۲) خلافت عثمان کے زمانے میں مروان کی جاگیر تھا معاویہ کے خلافت کے دور میں اور امام حسن بن علی کی شہادت کے بعد فدک تین آدمیوں کے درمیان (مروان، عمر وبن عثمان، یزید بن معاویہ) تقسیم ہوا پھر مروان کی خلافت کے دوران تمام فدک اسی کے اختیار میں تھا اور مروان نے اسے اپنے بیٹے عبد العزیز کو دے دیا، اور خود اس نے بھی اپنے بیٹے عمر کے نام ہبہ کردیا۔عمر بن عبد العزیز نے اپنی حکومت کے زمانے میں حضرت زہرا کی اولادوں کے حوالے کردیا اور جب یزید بن عبدالملک نے حکومت کی باگ ڈور سنبھالی تو فدک کو حضرت فاطمہ کے بچوں سے واپس لے لیا اور کافی عرصے تک بنی مروان کے خاندان میں ایک دوسرے کے ہاتھوں میں جاتارہایہاں تک کہ ان کی حکومت کا زمانہ ختم ہوگیا۔

بنی عباس کی خلافت کے زمانے میں بھی فدک مختلف لوگوں کے پاس رہا، ابو العباس سفاح نے اسے عبد اللہ بن حسن بن علی کے حوالے کردیا، ابو جعفر منصور نے اسے واپس لے لیا ، مہدی عباسی نے اسے اولاد فاطمہ کو واپس کردیا موسی بن مہدی اوراس کے بھائی نے اسے واپس لے لیا یہاں تک خلافت مامون تک پہونچی اور اس نے فدک اس کے حقیقی مالک کو واپس کردیا اور جب متوکل خلیفہ ہوا تواس نے فدک کو اس کے حقیقی مالک سے چھین لیا۔(۳) اگر پیغمبر کے فرزندوں کو پیغمبر کے ترکہ سے محروم کرنے والی حدیث صحیح اور مسلّم ہوتی تو فدک کبھی بھی دربدر کی ٹھوکر نہ کھاتی۔

۴۔ پیغمبر اسلام نے فدک کے علاوہ دوسری چیزیں بھی ورثہ میں چھوڑیں، لیکن خلیفہ اول نے تمام

______________________

(۱) اس سلسلے میں مزید معلومات کے لئے کتاب الغدیر مطبوعہ نجف ج۷ ص ۱۵۶ تا ۱۹۶ ، پڑھ سکتے ہیں۔

(۲) یہ عبارت امام ـ کی اس نامہ سے سازگار نہیں ہے جو آپ نے عثمان بن حنیف کو لکھا تھا آپ وہاں لکھتے ہیں:''کانت فی ایدنا فدک من کل ما اظلته السماء فشحت علیها نفوس قوم و سخت عنها نفوس قوم آخرین و نعم الحکم لله'' یعنی وہ چیز جس پر آسمان نے اپنا سایہ کیا ہے اس میں سے صرف فدک میرے اختیار میں ہے جب کہ بعض گروہ نے اسے لالچ کی نگاہ سے دیکھا اور دوسری گروہ نے اسے نظر انداز کردیاواہ کیاخوب ہے خدا کا فیصلہ۔

(۳) شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج۱۶ ص ۲۱۷۔ ۲۱۶۔

۲۳۹

ورثے میں سے صرف فدک کو ہی زبردستی چھین لیا اور باقی تمام مال رسول خدا کی بیویوں کے گھر میں موجود تھا اور بالکل اسی طرح ان کے ہاتھوں میں باقی رہا اور خلیفہ نے کبھی بھی ان کی طرف رخ نہیں کیا اور کسی کو بھی اس کے لئے نہ بھیجا کہ جاکر گھروں کے حالات معلوم کرے کہ کیا وہ خود پیغمبر کی ملکیت ہے یا حضرت نے اپنی زندگی ہی میں اپنی بیویوں کو دیدیا تھا۔

ابوبکر نے نہ یہ کہ اس سلسلے میں تحقیق نہیں کیا بلکہ پیغمبر کے جوار میں دفن ہونے کے لئے اپنی بیٹی عائشہ سے اجازت مانگی ،کیونکہ وہ اپنی بیٹی کو پیغمبر کا وارث مانتے تھے۔

انہوں نے نہ یہ کہ ازدواج پیغمبر کے گھروںکو نہیں لیا بلکہ رسول خدا کی انگوٹھی، عمامہ، تلوار، سواری، لباس وغیرہ جو حضرت علی کے ہاتھ میں تھے توواپس نہیں لیا اورا س سلسلے میں کبھی کوئی گفتگو بھی نہیں کی۔

ابن ابی الحدید معتزلی اس تبعیض کودیکھ کر اتنا مبہوت ہوگئے کہ وہ چاہتے تھے کہ خود اپنی طرف سے اس کی توجیہ کریں لیکن ان کی توجیہ اتنی بے اساس اور غیر معقول ہے کہ وہ نقل اورتنقید کے لائق نہیں ہے(۱)

کیا میراث سے محروم ہونا صرف پیغمبر کی بیٹی سے مخصوص تھا ،یاان میں تمام ورثاء بھی شامل تھے، یا اصلاً محرومیت کی بات ہی نہ تھی صرف سیاسی مسئلہ تھا اور وہ یہ کہ حضرت فاطمہ زہرا کو ان کی میراث سے محروم کردیا جائے؟

۵۔ اگر شریعت اسلامی میں پیغمبر کے وارثوں کا ان کی میراث سے محروم ہونا یقینی امر تھا تو کیوں پیغمبر کی بیٹی نے جن کی عصمت پر آیت تطہیر کا پہرہ ہے اپنے شعلہ ور خطبہ میں اس طرح فرمایا:

''یابن ابی قحافة أفی کتاب الله ان ترث أباک و لاارث ابی؟ لقد جئت شیئاً فریاًّ افعلی عمد ترکتم کتاب الله فنبذتموه وراء ظهورکم و و زعمتم ان لا خطَّ لی و لاارث من ابی و لارحم بیننا؟ افخصّکم الله بآیة اخرج ابی منها ام هل تقولون: ان اهل ملتین لایتوارثان؟ او لست أنا و ابی من اهل ملة واحدة ام أنتم اعلم بخصوص القرآن و عمومه من ابی و ابن عمّی؟ فدونکها مخطومة مرحولة تلقاک یوم حشرک

_____________________

(۱) شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج۱۶ ص۲۶۱۔

۲۴۰

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

اس جملے سے حضرت شعيب يہ كہنا چاہتے ہيں كہ اس كام ميں ميراصرف روحانى ، انسانى اور تربيتى مقصدہے ميں ايسے حقائق كو جانتا ہوں جنہيں تم نہيں جانتے اور انسان ہميشہ اس چيز كا دشمن ہوتاہے جسے نہيں جانتا ہے _

اس كے بعد يہ عظيم پيغمبر مزيد كہتے ہيں :يہ گمان نہ كرنا كہ ميں تمہيں كسى چيز سے منع كروں اور پھر خود اسى كى جستجو ميں لگ جائوں ''_(۱)

تمہيں كہوں كم فروشى نہ كرو اور دھوكا بازى اور ملاوٹ نہ كرو ليكن ميں خود يہ اعمال انجام دوں كہ دولت و ثروت اكھٹا كرنے لگوں يا تمہيں تو بتوں كى پرستش سے منع كروں مگر خودان كے سامنے سر تعظيم خم كروں نہيں ايسا ہرگز نہيں ہے _

اس جملے سے يہ معلوم ہوتا ہے كہ وہ حضرت شعيب پر الزام لگاتے تھے كہ خود يہ فائدہ اٹھانے كا ارادہ ركھتا ہے لہذا وہ صراحت سے اس امر كى نفى كرتے ہيں _

آخر ميں ان سے كہتے ہيں :

''ميرا صرف ايك ہدف اور مقصد ہے اور وہ ہے اپنى قدرت واستطاعت كے مطابق تمہارى اور تمہارے معاشرے كى اصلاح ''_(۲)

يہ وہى ہدف ہے جو تمام پيغمبروں كے پيش نطر رہا ہے ،يعنى عقيدے كى اصلاح، اخلاق كى اصلاح، عمل كى اصلاح ، روابط اور اجتماعى نطاموں كى اصلاح _

''اور اس ہدف تك پہنچنے كے لئے صرف خدا سے توفيق طلب كرتا ہوں ''(۳)

مشكلات كے حل كے لئے اس كى مدد پر بھروسہ كرتے ہوئے كو شش كرتاہوں اور اس راہ ميں سختياں گوارا كرنے كےلئے اس كى طرف رجوع كرتا ہوں _

____________________

(۱)سورہ ہود آيت۸۸

(۲)سورہ ہود آيت۸۸

(۳)سورہ ہود آيت ۸۸

۲۶۱

اس كے بعد انہيں ايك اخلاقى نكتے كى طرف متوجہ كيا گيا ہے اور وہ يہ كہ اكثر ايسا ہوتا ہے كہ انسان كسى سے بغض وعداوت كى بناء پر يا تعصب اور ہٹ دھرمى سے اپنے تمام مصالح نظر انداز كرديتا ہے اور انجام كو فراموش كرديتا ہے ،چنانچہ حضرت شعيب نے ان سے فرمايا : ''اے ميرى قوم ايسا نہ ہوكہ ميرى دشمنى اور عداوت تمہيں گناہ، عصياں اور سركشى پر ابھارے اور كہيں ايسانہ ہو كہ وہى بلائيں ، مصيبتيں ، تكليفيں عذاب اور سزائيں جو قوم نوح ، قوم ہود يا قوم صالح كو پہنچيں وہ تمہيں بھى آليں ،يہاں تك كہ قوم لوط كے شہروں كا زير وزبر ہونا اور ان پر سنگبارى كا واقعہ تم سے كوئي دور نہيں ہے''_(۱)

نہ ان كا زمانہ تم سے كوئي دور ہے اور نہ ان كے علاقے تم سے دور ہيں اور نہ ہى تمہارے اعمال اور گناہ ان لوگوں سے كچھ كم ہيں _''مدين'' كہ جو قوم شعيب كا مركز تھا وہ قوم لوط كے علاقے سے كوئي زيادہ فاصلے پر نہيں تھا_ كيونكہ دونوں شامات كے علاقوں ميں تھے_زمانے كے لحاظ سے اگر چہ كچھ فاصلہ تھاتا ہم اتنا نہيں كہ ان كى تاريخ فراموش ہوچكى ہوتي_باقى رہا عمل كے لحاظ سے تو اگر چہ قوم لوط كے جنسى انحرافات نماياں تھے اور قوم شعيب كے اقتصادى انحرافات زيادہ تھے_ اور ظاہراًبہت مختلف تھے ليكن دونوں معاشرے ميں فساد پيدا كرنے،اجتماعى نظام خراب كرنے،اخلاقى فضائل كو نابود كرنے اور برائي پھيلانے ميں ايك دوسرے سے مشابہت ركھتے تھے_

ايك دوسرے كو دھمكياں

يہ عظيم پيغمبرحضرت شعيب كہ انتہائي جچے تلے،بليغ اور دلنشين كلام كى وجہ سے جن كا لقب،''خطيب الانبياء ''ہے،ان كا كلام ان لوگوں كے لئے روحانى ومادى زند گى كى راہيں كھولنے والاتھا_انہوں نے بڑے صبر،حوصلے،متانت اور دلسوزى كے ساتھ ان سے تمام باتيں كيں ليكن ہم ديكھ رہے ہيں كہ اس گمراہ قوم نے انہيں كس طرح سے جواب ديا_

____________________

(۱) سورہ ہود آيت ۸۹

۲۶۲

انہوں نے چار جملوں ميں كہ جو ڈھٹائي،جہالت اور بے خبرى كا مظہر تھے آپ(ع) كو جواب ديا:

پہلے وہ كہنے لگے:''اے شعيب(ع) تمہارى زيادہ تر باتيں ہمارى سمجھ ميں نہيں آتيں ''_(۱)

بنيادى طور پر تيرى باتوں كا كوئي سر پير نہيں ،ان ميں كوئي خاص بات اور منطق ہى نہيں كہ ہم ان پر كوئي غوروفكر كريں _ لہذا ان ميں كوئي ايسى چيز نہيں جس پر ہم عمل كريں اس ليے تم اپنے آ پ كو زيادہ نہ تھكائو اور دوسرے لوگوں كے پيچھے جائو_

''دوسرا يہ كہ ہم تجھے اپنے مابين كمزور پاتے ہيں ''_(۲)

لہذا گر تم يہ سوچتے ہو كہ تم اپنى بے منطق باتيں طاقت كے بل پر منوالوگے تو يہ بھى تمہارى غلط فہمى ہے_

يہ گمان نہ كروں كہ اگر ہم تم سے پوچھ گچھ نہيں كرتے تو يہ تمہارى طاقت كے خوف سے ہے_اگر تيرى قوم و قبيلہ كا احترام پيش نظر نہ ہوتا تو ہم تجھے بد ترين طريقے سے قتل كرديتے اور تجھے سنگسار كرتے_(۳)

آخر ميں انہوں نے كہا:

''تو ہمارے ليے كوئي طاقتور اور ناقابل شكست نہيں ہے''_(۴)

اگر چہ تو اپنے قبيلے كے بزرگوں ميں شمار ہوتا ہے ليكن جو پروگرام تيرے پيش نظر ہے اس كى وجہ سے ہمارى نگاہ ميں كوئي وقعت اور منزلت نہيں ہے_

حضرت شعيب(ع) ان باتوں كے نشتروں اور توہين آميز رويّے سے(سيخ پا ہوكر)اٹھ كرنہيں گئے بلكہ آپ(ع) نے اس طرح انہيں پر منطق اور بليغ پيرائے ميں جواب ديا:''اے قومميرے قبيلے كے يہ چند افراد تمہارے نزديك خدا سے زيادہ عزيز ہيں _''(۵)

____________________

(۱)سورہ ہود آيت۹۱ (۲)سورہ ھود آيت ۹۱

(۳)سورہ شعيب آيت۹۱ (۴)سورہ ھود آيت۹۱

(۵)سورہ ھودآيت۹۲

۲۶۳

تم ميرے خاندان كى خاطر كہ جو تمہارے بقول چند نفر سے زيادہ نہيں ہے ،مجھے آزار نہيں پہنچاتے ہو،توكيوں خدا كے ليے تم ميرى باتوں كو قبول نہيں كرتے ہو_ كيا عظمت خدا كے سامنے چندافرادكى كوئي حيثيت ہے؟

كيا تم خدا كے لئے كسى احترام كے قائل ہو''جبكہ اسے اور اس كے فرمان كو تم نے پس پشت ڈال ديا ہے_''(۱)

آخر ميں حضرت شعيب(ع) كہتے ہيں :'' يہ خيال نہ كرو كہ خدا تمہارے اعمال كو نہيں ديكھتا اور تمہارى باتيں نہيں سنتا_ يقين جانو كہ ميرا پروردگار ان تمام اعمال پر محيط ہے جو تم انجام ديتے ہو''_(۲)

بليغ سخن ور وہ ہے كہ جو اپنى باتوں ميں مدمقابل كى تمام تنقيدوں كا جواب دے_قوم شعيب(ع) كے مشركين نے چونكہ اپنى باتوں كے آخر ميں ضمناًانہيں سنگسار كرنے كى دھمكى دى تھى اور ان كے سامنے اپنى طاقت كا اظہار كيا تھا لہذا ان كى دھمكى كے جواب ميں حضرت شعيب(ع) نے اپنے موقف كواس طرح سے بيان كيا:

اے ميرى قومجو كچھ تمہارے بس ميں ہے كر گزرواور اس ميں كوتاہى نہ كرو اور جو كچھ تم سے ہو سكتا ہے اس ميں رورعايت نہ كرو_ميں بھى اپنا كام كروں گا_ليكن تم جلد سمجھ جائو گے كہ كون رسوا كن عذاب ميں گرفتار ہوتا ہے اور كون جھوٹا ہے ميں يا تم _

اور اب جبكہ معاملہ اس طرح ہے تو تم بھى انتظار كرو اور ميں بھى انتظار كرتا ہوں ،تم اپنى طاقت،تعداد،سرمائے اور اثرورسوخ سے مجھ پر كاميابى كے انتظار ميں رہو اور ميں بھى اس انتظار ميں ہوں كہ عنقريب دردناك عذاب الہى تم جيسى گمراہ قوم كے دامن گير ہو اور تمہيں صفحہ ہستى سے مٹادے_

مدين كے تباہ كاروں كا انجام

گزشتہ اقوام كى سرگزشت كے بارے ميں قرآن مجيد ميں ہم نے بارہا پڑھا ہے كہ پہلے مرحلے ميں

____________________

(۱)سورہء ھود آيت۹۲

(۲)سورہ ھودآيت۹۲

۲۶۴

انبياء انہيں خدا كى طرف دعوت دينے كے ليے قيام كرتے تھے اور ہر طرح سے تعليم و تربيت اور پند ونصيحت ميں كوئي گنجائش نہيں چھوڑتے تھے_ دوسرے مرحلے ميں جب ايك گروہ پر پند و نصائح كا كوئي اثر نہ ہوتا تو انہيں عذاب الہى سے ڈراتے تاكہ وہ آخرى افراد تسليم حق ہوجائيں جو قبوليت كى اہليت ركھتے ہيں اور راہ خدا كى طرف پلٹ آئيں نيز اتمام حجت ہو جائے_

تيسرے مرحلے ميں جب ان پركوئي چيز مو ثر نہ ہوتى تو روئے زمين كى ستھرائي اور پاك سازى كر ليے سنت الہى كے مطابق عذاب آجاتا اور راستے كے ان كانٹوں كو دور كرديتا _

قوم شعيب(ع) يعنى اہل مدين كا بھى آخر كار مرحلہ انجام آپہنچا_چنانچہ قرآن كہتا ہے: ''جب(اس گمراہ، ظالم اور ہٹ دھرم قوم كو عذاب ديئے جانے كے بارے ميں ) ہمارا فرمان آپہنچا تو ہم نے شعيب(ع) اور اس پر ايمان لانے والوں كو اپنى رحمت كى بركت سے نجات دي_''(۱) ''پھر آسمانى پكار اور مرگ آفريں عظيم صيحہ نے ظالموں اور ستمگروں كو اپنى گرفت ميں لے ليا_''(۲)

جيسا كہ ہم كہہ چكے ہيں _''صيحہ'' ہرقسم كى عظيم آواز اور پكار كے معنى ميں ہے، قرآن نے بعض قوموں كى نابودى صيحہ آسمانى كے ذريعے بتائي ہے_ يہ صيحہ احتمالاًصاعقہ كے ذريعے يا اس كى مانند ہوتى ہے اور جيسا كہ ہم نے قوم ثمود كى داستان ميں بيان كيا ہے كہ صوتى امواج بعض اوقات اس قدر قوى ہوسكتى ہيں كہ ايك گروہ كى موت كا سبب بن جائيں _

اس كے بعد فرمايا گيا ہے:''اس آسمانى صيحہ كے اثر سے قوم شعيب كے لوگ اپنے گھروں ميں منہ كے بل جاگرے اور مرگئے اور ان كے بے جان جسم درس عبرت بنے ہو ايك مدت تك وہيں پڑے رہے''_(۳)

ان كى زندگى كى كتاب اس طرح بندكردى گئي كہ ''گويا كبھى وہ اس سرزمين كے ساكن ہى نہ تھے''_

____________________

(۱)سورہ ھودآيت۹۴

(۲)سورہ ھود آيت۹۴

(۳)سورہ ھود آيت۹۴

۲۶۵

سات روز تك شدت كى گرمى پڑى اور ہوا بالكل نہ چلي، اس كے بعد اچانك آسمان پر بادل آئے، ہوا چلى ان كو گھروں سے نكال پھينكا، گرمى كى وجہ سے بادل كے سايہ كے نيچے چلے گئے_

اس وقت صاعقہ موت كا پيغام لے كر آئي خطرناك آواز، آگ كى بارش اور زمين ميں زلزلہ آگيا، اس طرح وہ سب نابود ہوگئے_

وہ تمام دولت وثروت كہ جس كى خاطر انہوں نے گناہ اور ظلم و ستم كيے نابود ہوگئي_ انكى زمينيں اور زرق برق زندگى ختم ہوگئي اور ان كا شور وغو غا خاموش ہوگيا اور آخر كار جيسا كہ قوم عادوثمود كى داستان كے آخر ميں بيان ہوا ہے فرمايا گيا ہے:دورہو سرزمين مدين لطف و رحمت پروردگار سے جيسے كہ قوم ثمود دور ہوئي_(۱)

''واضح ہے كہ يہاں ''مدين''سے مراد اہل مدين ہيں جو رحمت خدا سے دور ہوئے''_

____________________

(۱)سورہ ھود آيت۹۵

۲۶۶

حضرت موسى عليہ السلام

تمام پيغمبر كى نسبت قرآن ميں حضرت موسى (ع) كا واقعہ زيادہ آيا ہے_تيس سے زيادہ سورتوں ميں موسى (ع) و فرعون اور بنى اسرائيل كے واقعہ كى طرف سومرتبہ سے زيادہ اشارہ ہوا ہے_

اگر ہم ان آيتوں كى الگ الگ شرح كريں ااس كے بعد ان سب كو ايك دوسرے كے ساتھ ملا ديں تو بعض افراد كے اس توہم كے برخلاف كہ قرآن ميں تكرار سے كام ليا گيا ہے،ہم كو معلوم ہوگا كہ قرآن ميں نہ صرف تكرار نہيں ہے بلكہ ہر سورہ ميں جو بحث چھيڑى گئي ہے اس كى مناسبت سے اس سرگزشت كا ايك حصہ شاہد كے طور پر پيش كيا گيا ہے_

ضمناًيہ بات بھى ذہن ميں ركھنا چايئےہ اس زمانے ميں مملكت مصر نسبتاً وسيع مملكت تھي_وہاں كے رہنے والوں كا تمدن بھى حضرت نوح(ع) ،ہود(ع) اور شعيب(ع) كى اقوام سے زيادہ ترقى يافتہ تھا_ لہذا حكومت فراعنہ كى مقاومت بھى زيادہ تھي_

اسى بناء پر حضرت موسى (ع) كى تحريك اور نہضت بھى اتنى اہميت كى حامل ہوئي كہ اس ميں بہت زيادہ عبرت انگيز نكات پائے جاتے ہيں _بنابريں اس قرآن ميں حضرت موسى (ع) كى زندگى اور بنى اسرائيل كے حالات كے مختلف پہلوئوں پر روشنى ڈالى گئي ہے_

كلى طور پر اس عظيم پيغمبر(ع) كى زندگى كو پانچ ادوار ميں تقسيم كيا جاسكتا ہے_

۲۶۷

حضرت موسى عليہ السلام كى زندگى كے پانچ ادوار

۱_پيدائش سے لے كر آغوش فرعون ميں آپ(ع) كى پرورش تك كا زمانہ_

۲_مصر سے آپ(ع) كا نكلنا اور شہر مدين ميں حضرت شعيب(ع) كے پاس كچھ دقت گزارنا_

۳_آپ(ع) كى بعثت كا زمانہ اور فرعون اور اس كى حكومت والوں سے آپ(ع) كے متعدد تنازعے_

۴_فرعونيوں كے چنگل سے موسى (ع) اور بنى اسرائيل كى نجات اور وہ حوادث جو راستہ ميں اور بيت المقدس پہنچنے پر رونما ہوئے_

۵_حضرت موسى (ع) اور بنى اسرائيل كے درميان كشمكش كا زمانہ_

ولادت حضرت موسى عليہ السلام

حكومت فرعون نے بنى اسرئيل كے يہاں جو نومولود بيٹے ہوتے تھے انہيں قتل كرنے كا ايك وسيع پروگرام بنايا تھا_ يہاں تك كہ فرعون كى مقرر كردہ دائياں بنى اسرائيل كى باردار عورتوں كى نگرانى كرتى تھيں _

ان دائيوں ميں سے ايك والدہ موسى (ع) كى دوست بن گئي تھي_ (شكم مادر ميں موسى (ع) كا حمل مخفى رہا اوراس كے آثار ظاہر نہ ہوئے) جس وقت مادر موسى (ع) كو يہ احساس ہوا كہ بچے كى ولادت كا وقت قريب ہے تو آپ نے كسى كے ذريعہ اپنى دوست دائي كو بلانے بھيجا_جب وہ آگئي تو اس سے كہا:ميرے پيٹ ميں ايك فرزند ہے،آج مجھے تمہارى دوستى اور محبت كى ضرورت ہے_

جس وقت حضرت موسى عليہ السلام پيدا ہوگئے تو آپ كى آنكھوں ميں ايك خاص نور چمك رہا تھا،چنانچہ اسے ديكھ كر وہ دايہ كاپنے لگى اور اس كے دل كى گہرائي ميں محبت كى ايك بجلى سماگئي،جس نے اس كے دل كى تمام فضاء كو روشن كرديا_

يہ ديكھ كر وہ دايہ، مادر موسى (ع) سے مخاطب ہوكر بولى كہ ميرا يہ خيال تھا كہ حكومت كے دفتر ميں جاكے اس بچے كے پيدا ہونے كى خبر دوں تاكہ جلاد آئيں اور اسے قتل كرديں اور ميں اپنا انعام پالوں _ مگر ميں كيا كروں

۲۶۸

كہ ميں اپنے دل ميں اس نوزائيدہ بچے كى شديد محبت كا احساس كرتى ہوں _ يہاں تك كہ ميں يہ نہيں چاہتى كہ اس كا بال بھى بيكا ہو_اس كى اچھى طرح حفاظت كرو_ميرا خيال ہے كہ آخر كار يہى ہمارا دشمن ہوگا_

جناب موسى عليہ السلام تنور ميں

وہ دايہ مادر موسى (ع) كے گھر سے باہر نكلي_ تو حكومت كے بعض جاسوسوں نے اسے ديكھ ليا_ انھوں نے تہيہ كرليا كہ وہ گھر ميں داخل ہوجائيں گے_ موسى (ع) كى بہن نے اپنى ماں كو اس خطرے سے آگاہ كرديا ماں يہ سن كے گھبراگئي_ اس كى سمجھ ميں نہ آتا تھا كہ اب كيا كرے_

اس شديد پريشانى كے عالم ميں جب كہ وہ بالكل حواس باختہ ہورہى تھياس نے بچے كو ايك كپڑے ميں لپيٹا او رتنور ميں ڈال ديا_ اس دوران ميں حكومت كے آدمى آگئے_مگر وہاں انھوں نے روشن تنور كے سوا كچھ نہ ديكھا_ انھوں نے مادر موسى (ع) سے تفتيش شرو ع كردى _ پوچھا_دايہ يہاں كيا كررہى تھي_؟ موسى (ع) كى ماں نے كہا كہ وہ ميرى سہيلى ہے مجھ سے ملنے آئي تھى _حكومت كے كارندے مايوس ہوكے واپس ہوگئے_

اب موسى (ع) كى ماں كو ہوش آيا_ آپ نے اپنى بيٹى سے پوچھا كہ بچہ كہاں ہے؟ اس نے لاعلمى كا اظہار كيا_ ناگہاں تنور كے اندر سے بچہ كے رونے كى آواز آئي_ اب ماں تنور كى طرف دوڑى _كيا ديكھتى ہے كہ خدا نے اس كے لئے آتش تنور كو ''ٹھنڈا اور سلامتى كہ جگہ''بناديا ہے_ وہى خدا جس نے حضرت ابراھيم(ع) كے ليے آتش نمرود كو ''برد وسلام''بناديا تھا_ اس نے اپنا ہاتھ بڑھايا اور بچے كو صحيح وسالم باہر نكال ليا_

ليكن پھر بھى ماں محفوظ نہ تھي_كيونكہ حكومت كے كارندے دائيں بائيں پھرتے رہتے اور جستجو ميں لگے رہتے تھے_ كسى بڑے خطرے كے ليے يہى كافى تھا كہ وہ ايك نوزائيد بچے كے رونے كى آواز سن ليتے_

اس حالت ميں خدا كے ايك الہام نے ماں كے قلب كو روشن كرديا_وہ الہام ايسا تھا كہ ماں كو بظاہر ايك خطرناك كام پر آمادہ كررہا تھا_مگر پھر بھى ماں اس ارادے سے اپنے دل ميں سكون محسوس كرتى تھي_

۲۶۹

''ہم نے موسى (ع) كى ماں كى طرف وحى كى كہ اسے دودھ پلا اور جب تجھے اس كے بارے ميں كچھ خوف پيدا ہوتو اسے دريا ميں ڈال دينا اور ڈرنا نہيں اور نہ غمگين ہونا كيونكہ ہم اسے تيرے پاس لوٹا ديں گے اور اسے رسولوں ميں سے قرار ديں گے_(۱)

اس نے كہا: ''خدا كى طرف سے مجھ پريہ فرض عائد ہوا ہے_ ميں اسے ضرور انجام دوں گي''_اس نے پختہ ارادہ كرليا كہ ميں اس الہام كو ضرور عملى جامہ پہنائوں گى اور اپنے نوزائيدہ بچے كو دريائے نيل ميں ڈال دوں گي_

اس نے ايك مصرى بڑھئي كو تلاش كيا (وہ بڑھئي قبطى اور فرعون كى قوم ميں سے تھا)اس نے اس بڑھئي سے درخواست كى كہ ميرے ليے ايك چھوٹا سا صندوق بنادے_

بڑھئي نے پوچھا:جس قسم كا صندوقچہ تم بنوانا چاہتى ہو اسے كس كام ميں لائوگي؟

موسى (ع) كى ماں جو دروغ گوئي كى عادى نہ تھى اس نازك مقام پر بھى سچ بولنے سے باز نہ رہي_اس نے كہا:ميں بنى اسرائيل كى ايك عورت ہوں _ميرا ايك نوزائيد بچہ لڑكا ہے_ميں اس بچے كو اس صندوق ميں چھپانا چاہتى ہوں _

اس قبطى بڑھئي نے اپنے دل ميں يہ پختہ ارادہ كرليا كہ جلادوں كو يہ خبر پہنچادےگا_وہ تلاش كركے ان كے پاس پہنچ گيا_ مگر جب وہ انھيں يہ خبر سنانے لگاتو اس كے دل پر ايسى وحشت طارى ہوئي كہ اس كى زبان بند ہوگئي_ وہ صرف ہاتھوں سے اشارے كرتا تھا اور چاہتا تھا كہ ان علامتوں سے انھيں اپنا مطلب سمجھا دے_ حكومت كے كارندوں نے اس كى حركات ديكھ كر يہ سمجھا كہ يہ شخص ہم سے مذاق كررہا ہے_اس ليے اسے مارا اور باہر نكال ديا_

جيسے ہى وہ اس دفتر سے باہر نكلا اس كے ہوش و حواس يكجاہوگئے، وہ پھر جلادوں كے پاس گيا اور اپنى حركات سے پھر ماركھائي_

____________________

(۱)سورہ قصص آيت۷

۲۷۰

آخر اس نے يہ سمجھا كہ اس واقعے ميں ضرور كوئي الہى راز پوشيدہ ہے_چنانچہ اس نے صندوق بناكے حضرت موسى (ع) كى والدہ كو دےديا_

دريا كى موجيں گہوارے سے بہتر

غالباًصبح كا وقت تھا_ابھى اہل مصر محو خواب تھے_مشرق سے پو پھٹ رہى تھي_ماں نے نوزائيدہ بچے اور صندوق كو دريائے نيل كے كنارے لائي،بچے كو آخرى مرتبہ دودھ پلايا_پھر اسے،مخصوص صندوق ميں ركھا(جس ميں يہ خصوصيت تھى كہ ايك چھوٹى كشتى كى طرح پانى پر تيرسكے)پھر اس صندوق كو نيل كى موجوں كے سپرد كرديا_ نيل كى پر شور موجوں نے اس صندوق كوجلدہى ساحل سے دور كرديا_ماں كنارے كھڑى ديكھ رہى تھى _ معاًاسے ايسا محسوس ہوا كہ اس كا دل سينے سے نكل كر موجوں كے اوپر تيررہاہے_اس دقت،اگر الطاف الہى اس كے دل كو سكون و قرار نہ بخشتا تو يقينا وہ زور زور سے رونے لگتى اور پھر سارا راز فاش ہو جاتا،كسى آدمى ميں يہ قدرت نہيں ہے كہ ان حساس لمحات ميں ماں پر جو گزررہى تھي_الفاظ ميں اس كا نقشہ كھينچ سكے مگر _ ايك فارسى شاعرہ نے كسى حد تك اس منظر كو اپنے فصيح اور پر از جذبات اشعار ميں مجسم كيا ہے_

۱_مادر موسى (ع) چو موسى (ع) رابہ نيل ---درفگند از گفتہ رب جليل

۲_خودز ساحل كرد باحسرت نگاہ ---گفت كاى فرزند خرد بى گناہ

۳_گر فراموشت كند لطف خداى ---چون رہى زين كشتى بى ناخداي

۴_وحى آمد كاين چہ فكر باطل است ---رہرو ما اينك اندر منزل است

۵_ماگرفتيم آنچہ را انداختى ----دست حق را ديدى ونشاختي

۶_سطح آب از گاہوارش خوشتراست ---دايہ اش سيلاب و موجش مادراست

۷_رودھا از خودنہ طغيان مى كنند--- آنچہ مى گوئيم ما آن مى كنند

۲۷۱

۸_ما بہ دريا حكم طوفان مى دہيم

ما بہ سيل وموج فرماں مى دہيم

۹_نقش ہستى نقشى از ايوان ما است

خاك وباد وآب سرگردان ماست

۱۰_بہ كہ برگردى بہ ما بسپاريش

كى تو از ما دوسترمى داريش؟(۱)

۱_جب موسى (ع) كى ماں نے حكم الہى كے مطابق موسى (ع) كو دريائے نيل ميں ڈال ديا_

۲_وہ ساحل پركھڑى ہوئي حسرت سے ديكھ رہى تھى اور كہہ رہى تھى كہ اے ميرے بے گناہ ننھے بيٹے

۳_اگر لطف الہى تيرے شامل حال نہ ہو تو ،تو اس كشتى ميں كيسے سلامت رہ سكتا ہے جس كا كوئي نا خدا نہيں ہے_

۴_حضرت موسى عليہ السلام كى ماں كو اس وقت وحى ہوئي كہ تيرى يہ كيا خام خيالى ہے ہمارا مسافر تو سوئے منزل رواں ہے_

۵_تونے جب اس بچے كو دريا ميں ڈالاتھا تو ہم نے اسے اسى وقت سنبھال ليا تھا _ تو نے خدا كا ہاتھ ديكھا مگر اسے پہچانا نہيں _

۶_اس وقت پانى كى سطح(اس كے ليے)اس كے گہوارے سے زيادہ راحت بخش ہے_دريا كا سيلاب اس كى دايہ گيرى كررہا ہے اور اس كى موجيں آغوش مادر بنى ہوئي ہيں _

۷_ديكھوں دريائوں ميں ان كے ارادہ و اختيار سے طغيانى نہيں آتي_وہ ہمارے حكم كے مطيع ہيں وہ وہى كرتے ہيں جو ہمارا امر ہوتا ہے_

۸_ہم ہى سمندروں كو طوفانى ہونے كاحكم ديتے ہيں اور ہم ہى سيل دريا كو روانى اور امواج بحر كو تلاطم كا فرمان بھيجتے ہيں _

____________________

(۱)از ديوان پروين اعتصامي

۲۷۲

۹_ہستى كا نقش ہمارے ايوان كے نقوش ميں سے ايك نقش ہے جو كچھ ہے،يہ كائنات تو اس كامشتے ازخروارى نمونہ ہے_ اور خاك،پاني،ہوا اور آتش ہمارے ہى اشارے سے متحرك ہيں _

۱۰_بہتر يہى ہے كہ تو بچے كو ہمارے سپرد كردے اور خود واپس چلى جا_ كيونكہ تو اس سے ہم سے زيادہ محبت نہيں كرتي_

دلوں ميں حضرت مو سى عليہ السلام كى محبت

اب ديكھناچاہيئے فرعون كے محل ميں كيا ہورہا تھا؟

روايات ميں مذكور ہے كہ فرعون كى ايك اكلوتى بيٹى تھي_وہ ايك سخت بيمارى سے شديد تكليف ميں تھي_فرعون نے اس كا بہت كچھ علاج كرايا مگر بے سود_اس نے كاہنوں سے پوچھا_ انھوں نے كہا:''اے فرعون ہم پيشن گوئي كرتے ہيں كہ اس دريا ميں سے ايك آدمى تيرے محل ميں داخل ہوگا_اگر اس كے منہ كى رال اس بيمار كے جسم پر ملى جائے گى تو اسے شفا ہوجائيگي_

چنانچہ فرعون اور اس كى ملكہ آسيہ ايسے واقعے كے انتظار ميں تھے كہ ناگہاں ايك روز انھيں ايك صندوق نظر آيا جو موجوں كى سطح پر تير رہا تھا_فرعون نے حكم ديا كہ سركارى ملازمين فوراً ديكھيں كہ يہ صندوق كيسا ہے اور اسے پانى ميں سے نكال ليں _ديكھيں كہ اس ميں كيا ہے؟

نوكروں نے وہ عجيب صندوق فرعون كے سامنے لاكے ركھ ديا_ كسى كو اس كا ڈھكنا كھولنے كى ہمت نہ ہوئي_ مطابق مشيت الہي،يہ لازمى تھا كہ حضرت موسى (ع) كى نجات كے ليے صندوق كا ڈھكنا فرعون ہى كے ہاتھ سے كھولا جائے،چنانچہ ايسا ہى ہوا_

جس وقت فرعون كى ملكہ نے اس بچے كو ديكھا تو اسے يوں محسوس ہواكہ ايك بجلى چمكى ہے جس نے اس كے دل كو منور كرديا ہے_

ان دونوں بالخصوص فرعون كى ملكہ كے دل ميں اس بچے كى محبت نے گھر بناليا اور جب اس بچے كا

۲۷۳

آب دہن اس كے ليے موجب شفا ہوگيا تو يہ محبت اور بھى زيادہ ہوگئي _

قرآن ميں يہ واقعہ اس طرح مذكور ہے كہ:_فرعون كے اہل خانہ نے موسى (ع) كو نيل كى موجوں كے اوپر سے پكڑ ليا_ تا كہ وہ ان كا دشمن اور ان كے ليے باعث اندوہ ہوجائے_(۱)

''يہ امر بديہى ہے كہ فرعون كے اہل خانہ نے اس بچے كے قنداقہ(وہ كپڑاجس ميں بچہ كو لپيٹتے ہيں )كو اس نيت سے دريا سے نہيں نكالا تھا كہ اپنے جانى دشمن كو اپنى گود ميں پاليں ،بلكہ وہ لوگ بقول ملكہ فرعون،اپنے ليے ايك نور چشم حاصل كرناچاہتے تھے_

ليكن انجام كار ايسا ہى ہوا،اس معنى و مراد كى تعبير ميں لطافت يہى ہے كہ خدا اپنى قدرت كا اظہار كرنا چاہتا ہے كہ وہ كس طرح اس گروہ كو جنھوں نے اپنى تمام قوتيں اور وسائل،بنى اسرائيل كى اولاد ذكور كو قتل كرنے كے ليے وقف كرديا تھا،اس خدمت پر مامور كرے كہ جس بچے كو نابود كرنے كے ليے انھوں نے يہ پروگرام بنايا تھا،اسى كوو وہ اپنى جان كى طرح عزيز ركھيں اور اسى كى پرورش كريں _

قرآن كى آيات سے يہ معلوم ہوتاہے كہ اس بچے كى بابت فرعون،اس كى ملكہ اور ديگر اہل خاندان ميں باہم نزاع اور اختلاف بھى ہوا تھا،كيونكہ قرآن شريف ميں يوں بيان ہے:فرعون كى بيوى نے كہا كہ يہ بچہ ميرى اور تيرى آنكھوں كا نور ہے_ اسے قتل نہ كرو_ ممكن ہے يہ ہمارے ليے نفع بخش ہو يا ہم اسے ہم اپنا بيٹابنا ليں _(۲)

ايسا معلوم ہوتا ہے كہ فرعون بچے كے چہرے اور دديگر علامات سے،من جملہ ان كے اسے صندوق ميں ركھنے اور دريائے نيل ميں بہادينے سے يہ سمجھ گيا تھا كہ يہ بنى اسرائيل ميں سے كسى كا بچہ ہے_

يہ سمجھ كر ناگہاں ،بنى اسرائيل ميں سے ايك آدمى كى بغاوت اور اس كى سلطنت كے زوال كا كابوس اس كى روح پر مسلط ہوگيا اور وہ اس امر كا خواہاں ہوا كہ اس كا وہ ظالمانہ قانون،جو بنى اسرائيل كے تمام نوزاد اطفال كے ليے جارى كيا گيا تھا اس بچے پر بھى نافذ ہو_

____________________

(۱)سورہ قصص آيت ۸

(۲)قصص آيت ۹

۲۷۴

فرعون كے خوشامدى درباريوں او ررشتہ داروں نے بھى اس امر ميں فرعون كى تائيد و حمايت كى اور كہا اس كى كوئي دليل نہيں ہے كہ يہ بچہ قانون سے مستثنى رہے_

ليكن فرعون كى بيوى آسيہ جس كے بطن سے كوئي لڑكا نہ تھا اور اس كا پاك دل فرعون كے درباريوں كى مانند نہ تھا،اس بچے كے ليے محبت كا كان بن گيا تھا_ چنانچہ وہ ان سب كى مخالفت پرآمادہ ہوگئي اور چونكہ اس قسم كے گھريلو اختلافات ميں فتح ہميشہ عورتوں كى ہوتى ہے،وہ بھى جيت گئي_

اگر اس گھريلو جھگڑے پر،دختر فرعون كى شفايابى كے واقعے كا بھى اضافہ كرليا جائے تواس اختلاف باہمى ميں آسيہ كى فتح كا امكان روشن تر ہو جاتا ہے_

قرآن ميں ايك بہت ہى پر معنى فقرہ ہے:''وہ نہيں جانتے تھے كہ كيا كررہے ہيں :''(۱)

البتہ وہ بالكل بے خبر تھے كہ خدا كا واجب النفوذ فرمان اور اس كى شكست ناپذير مشيت نے يہ تہيہ كرليا ہے كہ يہ طفل نوزاد انتہائي خطرات ميں پرورش پائے _ اور كسى آدمى ميں بھى ارادہ و مشيت الہى سے سرتابى كى جرا ت اور طاقت نہيں ہے''_

اللہ كى عجيب قدرت

اس چيز كانام قدرت نمائي نہيں ہے كہ خداآسمان و زمين كے لشكروں كو مامور كركے كسى پُرقوت اور ظالم قوم كو نيست و نابود كردے_

بلكہ قدرت نمائي يہ ہے كہ ان ہى جباران مستكبر سے يہ كا م لے كر وہ اپنے آپ كو خود ہى نيست و نابود كرليں اور ان كے دل و دماغ ميں ايسے خيالات پيدا ہوجائيں كہ بڑے شوق سے لكڑياں جمع كريں اور اس كى آگ ميں جل مريں ،اپنے ليے خودہى قيدخانہ بنائيں اور اسميں اسير ہوكے جان دے ديں ، اپنے ليے خود ہى صليب كھڑى كريں اور اس پر چڑھ مرجائيں _

____________________

(۱)سورہ قصص آيت ۹

۲۷۵

فرعون اوراسكے زور منداور ظالم ساتھيوں كے ساتھ بھى يہى پيش آيا_ چنانچہ تمام مراحل ميں حضرت موسى (ع) كى نجات اور پرورش انہى كے ہاتھوں سے ہوئي،حضرت موسى (ع) كى دايہ قبطيوں ميں سے تھي،صندوق موسى (ع) كو امواج نيل سے نكالنے اور نجات دينے والے متعلقين فرعون تھے،صندوق كا ڈھكنا كھولنے والا خود فرعون يا اس كى اہليہ تھي،اور آخر كا ر فرعون شكن اور مالك غلبہ و اقتدار موسى (ع) كے ليے امن و آرام اور پرورش كى جگہ خود فرعون كا محل قرار پايا_ يہ ہے پروردگار عالم خدا كى قدرت_

موسى عليہ السلام پھر آغوش مادر ميں

حضرت موسى عليہ السلام كى ماں نے اس طرح سے جيسا كہ ہم نے پيشتر بيان كيا ہے،اپنے فرزند كو دريائے نيل كى لہروں كے سپرد كرديا_ مگر اس عمل كے بعد اس كے دل ميں جذبات كا يكايك شديد طوفان اٹھنے لگا،نوزائيدہ بيٹے كى ياد،جس كے سوا اس كے دل ميں كچھ نہ تھا،اس كے احساسات پر غالب آگئي تھي،قريب تھا كہ وہ دھاڑيں مار كر رونے لگے اور اپنا راز فاش كردے،قريب تھا كہ چيخ مارے اور اپنے بيٹے كى جدائي ميں نالے كرے_

ليكن عنايت خداوندى اس كے شامل حال رہى جيسا كہ قرآن ميں مذكور ہے:''موسى عليہ السلام كى ماں كا دل اپنے فرزند كى ياد كے سوا ہر چيز سے خالى ہوگيا،اگر ہم نے اس كا دل ايمان اور اميد كے نور سے روشن نہ كيا ہوتا تو قريب تھا كہ وہ راز فاش كرديتي_ ليكن ہم نے يہ اس ليے كيا تاكہ وہ اہل ايمان ميں سے رہے''_(۱)

يہ قطعى فطرى امر ہے كہ: ايك ماں جو اپنے بچے كو اس صورت حال سے اپنے پاس سے جدا كرے وہ اپنى اولاد كے سوا ہر شے كو بھول جائے گي_ اور اس كے حواس ايسے باختہ ہو جائيں گے كہ ان خطرات كا لحاظ

____________________

(۱)سورہ قصص آيت۱۰

۲۷۶

كيے بغير جو اس كے اور اس كے بيٹے دونوں كے سر پر منڈلارہے تھے فرياد كرے اور اپنے دل كا راز فاش كردے_

ليكن وہ خدا جس نے اس ماں كے سپرد يہ اہم فريضہ كيا تھا،اسى نے اس كے دل كو ايسا حوصلہ بھى بخشا كہ وعدہ الہى پر اس كا ايمان ثابت رہے اور اسے يہ يقين رہے كہ اس كا بچہ خدا كے ہاتھ ميں ہے آخر كار وہ پھر اسى كے پاس آجائے گا اور پيغمبر بنے گا_

اس لطف خداوندى كے طفيل ماں كے دل كا سكون لوٹ آيامگر اسے آرزورہى كہ وہ اپنے فرزندكے حال سے باخبر رہے'' اس لئے اس نے موسى عليہ السلام كى بہن سے كہاكہ جا تو ديكھتى رہ كہ اس پر كيا گزرتى ہے''_(۱)

موسى عليہ السلام كى بہن ماں كا حكم بجالائي اور اتنے فاصلہ سے جہاں سے سب كچھ نظر آتا تھا ديكھتى رہى _ اس نے دور سے ديكھا كہ فرعون كے عمال اس كے بھائي كے صندوق كو پانى ميں سے نكال رہے ہيں اور موسى عليہ السلام كو صندوق ميں سے نكال كر گود ميں لے رہے ہيں _

''مگر وہ لوگ اس بہن كى ا س كيفيت حال سے بے خبر تھے_''_(۲)

بہر حال ارادہ الہى يہ تھا كہ يہ طفل نوزاد جلد اپنى ماں كے پاس واپس جائے اور اس كے دل كو قرار آئے_اس ليے فرمايا گيا ہے :''ہم نے تمام دودھ پلانے والى عورتوں كو اس پر حرام كرديا تھا''_(۳)

يہ طبيعى ہے كہ شير خوار نوزاد چندگھنٹے گزرتے ہى بھوك سے رونے لگتا ہے اور بے تاب ہوجاتا ہے_ درين حال لازم تھا كہ موسى عليہ السلام كو دودھ پلانے كے ليے كسى عورت كى تلاش كى جاتي_ خصوصاً جبكہ ملكہ مصر اس بچے سے نہايت دل بستگى ركھتى تھى اور اسے اپنى جان كے برابر عزيز ركھتى تھي_

محل كے تمام خدام حركت ميں آگئے اور دربدر كسى دودھ پلانے والى كو تلاش كرنے لگے_مگر يہ عجيب بات تھى كہ وہ كسى كا دودھ پيتا ہى نہ تھا_

____________________

(۱)سورہ قصص آيت۱۱

(۲)سورہ قصص آيت۱۱

(۳)سورہ قصص آيت۱۲

۲۷۷

ممكن ہے كہ وہ بچہ ان عورتوں كى صورت ہى سے ڈرتا ہو اور ان كے دودھ كا مزہ(جس سے وہ آشنا نہ تھا) اسے اس كا ذائقہ ناگوار اور تلخ محسوس ہوتا ہو_اس بچے كا طور كچھ اس طرح كا تھا گويا كہ ان (دودھ پلانے والي)عورتوں كى گود سے اچھل كے دورجاگرے در اصل يہ خدا كى طرف سے''تحريم تكويني''تھى كہ اس نے تمام عورتوں كو اس پر حرام كرديا تھا_

بچہ لحظہ بہ لحظہ زيادہ بھوكا اور زيادہ بيتاب ہوتا جاتا تھا_ بار بار رورہا تھا اور اس كى آواز سے فرعون كے محل ميں شور ہورہا تھا_ اور ملكہ كا دل لرز رہا تھا_

خدمت پرمامور لوگوں نے اپنى تلاش كو تيز تر كرديا_ ناگہاں قريب ہى انھيں ايك لڑكى مل جاتى ہے_ وہ ان سے يہ كہتى ہے:ميں ايك ايسے خاندان كو جانتى ہوں جو اس بچے كى كفالت كرسكتا ہے_ وہ لوگ اس كے ساتھ اچھا سلوك كريں گے_

''كيا تم لوگ يہ پسند كروگے كہ ميں تمہيں وہاں لے چلوں ''؟(۱)

ميں بنى اسرائيل ميں سے ايك عورت كو جانتى ہوں جس كى چھاتيوں ميں دودھ ہے اور اس كا دل محبت سے بھرا ہوا ہے_ اس كا ايك بچہ تھا وہ اسے كھو چكى ہے_ وہ ضرور اس بچے كو جو محل ميں پيدا ہوا ہے،دودھ پلانے پر آمادہ ہوجائے گي_

وہ تلاش كرنے والے خدام يہ سن كر خوش ہوگئے اور موسى عليہ السلام كى ماں كو فرعون كے محل ميں لے گئے_ اس بچے نے جونہى اپنى ماں كى خوشبو سونگھى اس كا دودھ پينے لگا_ اور اپنى ماں كا روحانى رس چوس كر اس ميں جان تازہ آگئي_اسكى آنكھوں ميں خوشى كا نور چمكنے لگا_

اس وقت وہ خدام جو ڈھونڈ ڈھونڈ كے تھك گئے تھے_ بہت ہى زيادہ خوش و خرم تھے_ فرعون كى بيوى بھى اس وقت اپنى خوشى كو نہ چھپا سكي_ممكن ہے اس وقت لوگوں نے كہا ہوكہ تو كہاں چلى گئي تھي_ہم تجھے ڈھونڈ ڈھونڈ كے تھك گئے _ تجھ پر اورتيرے شير مشكل كشا پر آفرين ہے_

____________________

(۱)سورہ قصص آيت۱۲

۲۷۸

صرف تيرا ہى دودھ كيوں پيا

جس وقت حضرت موسى عليہ السلام ماں كا دودھ پينے لگے،فرعون كے وزير ہامان نے كہا: مجھے لگتا ہے كہ تو ہى اسكى ماں ہے_ بچے نے ان تمام عورتوں ميں سے صرف تيرا ہى دودھ كيوں قبول كرليا؟

ماں نے كہا:اس كى وجہ يہ ہے كہ ميں ايسى عورت ہوں جس كے دودھ ميں سے خوشبو آتى ہے_ ميرا دودھ نہايت شيريں ہے_ اب تك جو بچہ بھى مجھے سپرد كيا گيا ہے_ وہ فوراً ہى ميرا دودھ پينے لگتا ہے_

حاضرين دربار نے اس قول كى صداقت كو تسليم كرليا اور ہر ايك نے حضرت موسى عليہ السلام كى ماں كو گراں بہا ہديے اور تحفے ديے_

ايك حديث جو امام باقر عليہ السلام سے مروى ہے اس ميں منقول ہے كہ:''تين دن سے زيادہ كا عرصہ نہ گزرا تھا كہ خدانے كے بچے كواس كى ماں كے پاس لوٹا ديا''_

بعض اہل دانش كا قول ہے كہ حضرت موسى عليہ السلام كے ليے يہ''تحريم تكويني''(يعنى دوسرى عورتوں كا حرام كيا جانا)اس سبب سے تھاكہ خدا يہ نہيں چاہتا تھا كہ ميرا فرستادہ پيغمبر ايسا دودھ پيئے جو حرام سے آلودہ ہو اور ايسا مال كھاكے بنا ہو جو چوري،نا جائز ذرائع،رشوت اور حق الناس كو غصب كركے حاصل كيا گيا ہو_

خدا كى مشيت يہ تھى كہ حضرت موسى عليہ السلام اپنى صالحہ ماں كے پاك دودھ سے غذا حاصل كريں _تاكہ وہ اہل دنيا كے شر كے خلاف ڈٹ جائيں اور اہل شروفساد سے نبردآزمائي كرسكيں _

''ہم نے اس طرح موسى عليہ السلام كو اس كى ماں كے پاس لوٹا ديا_تاكہ اس كى آنكھيں روشن ہوجائيں اور اس كے دل ميں غم واندوہ باقى نہ رہے اور وہ يہ جان لے كہ خدا كا وعدہ حق ہے_ اگر چہ اكثر لوگ يہ نہيں جانتے''_(۱)

____________________

(۱)سورہ قصص آيت ۱۳

۲۷۹

اس مقام پر ايك سوال پيدا ہوتا ہے اور وہ يہ ہے كہ:كيا وابستگان فرعون نے موسى عليہ السلام كو پورے طور سے ماں كے سپرد كرديا تھا كہ وہ اسے گھر لے جائے اور دودھ پلايا كرے اور دوران رضاعت روزانہ يا كبھى كبھى بچے كو محل ميں لايا كرے تا كہ ملكہ مصر اسے ديكھ ليا كرے يا يہ كہ بچہ محل ہى ميں رہتا تھا اور موسى عليہ السلام كى ماں معين اوقات ميں آكر اسے دودھ پلاجاتى تھي؟

مذكورہ بالا دونوں احتمالات كے ليے ہمارے پاس كوئي واضح دليا نہيں ہے_ ليكن احتمال اول زيادہ قرين قياس ہے_

ايك اور سوال يہ ہے كہ:

آيا عرصہ شير خوارگى كے بعد حضرت موسى عليہ السلام فرعون كے محل ميں چلے گئے يا ان كا تعلق اپنى ماں اور خاندان كے ساتھ باقى رہا اور محل سے وہاں آتے جاتے رہے؟

اس مسئلے كے متعلق بعض صاحبان نے يہ كہا ہے كہ شير خوار گى كے بعد آپ كى ماں نے انھيں فرعون اور اس كى بيوى آسيہ كے سپرد كرديا تھا اور حضرت موسى عليہ السلام ان دونوں كے پاس پرورش پاتے رہے_

اس ضمن ميں راويوں نے فرعون كے ساتھ حضرت موسى عليہ السلام كى طفلانہ(مگر با معنى )باتوں كا ذكر كيا ہے كہ اس مقام پر ہم ان كو بعذر طول كلام كے پيش نظر قلم انداز كرتے ہيں _ ليكن فرعون كا يہ جملہ جے اس نے بعثت موسى عليہ السلام كے بعد كہا:

''كيا ہم نے تجھے بچپن ميں پرورش نہيں كيا اور كيا تو برسوں تك ہمارے درميان نہيں رہا''_(۱)

اس جملے سے معلوم ہوتا ہے كہ جناب موسى عليہ السلام چند سال تك فرعون كے محل ميں رہتے تھے_

على ابن ابراھيم كى تفسير سے استفادہ ہوتا ہے كہ حضرت موسى عليہ السلام تازمانہ بلوغ فرعون كے محل ميں نہايت احترام كے ساتھ رہے_مگر ان كى توحيد كے بارے ميں واضح باتيں فرعون كو سخت ناگوار ہوتى تھيں _

____________________

(۱)سورہ شعراء آيت۱۸

۲۸۰

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667