قصص القرآن-منتخب از تفسير نمونه

قصص القرآن-منتخب از تفسير نمونه   8%

قصص القرآن-منتخب از تفسير نمونه   مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 667

قصص القرآن-منتخب از تفسير نمونه
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 667 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 334589 / ڈاؤنلوڈ: 6149
سائز سائز سائز
قصص القرآن-منتخب از تفسير نمونه

قصص القرآن-منتخب از تفسير نمونه

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

نتیجہ مساوی نکلا،دونوں راضی ہوگئےاخر جواب تو وہی نکلا جو بابا اور نانا نے دیا تھااور ہم نہیں چاہتے تھے کہ اپ کا یہ دانہ توڑ دیںتو مادر گرامی نے فرمایا: اسے تم نے نہیں توڑا بلکہ خدا کے حکم سے جبرئیل امین ؑنے دوبرابر حصہ کیااور جسے خدا نے توڑا ہو وہ اس جیسے لاکھ دانے سے بہتر ہے

بچوّں کے درمیان مساوات

نعمان بن بشیر کہتا ہے کہ ایک دن میرے والد نے مجھے ایک تحفہ دیا،لیکن دوسرے بھائیوں کو نہیں دیا تو میری ماں(عمرہ بنت رواحہ )نے میرے باپ پر اعتراض کرتے ہوئے کہا: میں اس برتاؤ پر راضی نہیں ہوں جب تک تیرے اس عمل کی رسول خدا (ص) تائید نہ کریںمیرے باپ نے عاجزانہ طور پر ماجرابیان کیا:تو اپﷺ نے فرمایا: کیا سب کو دیدیے؟ کہا نہیںتو اپﷺ نے فرمایا: پس خدا سے ڈرواور اولادوں کیساتھ مساوات و برابری سے پیش اؤمیں اس ظالمانہ رفتار پر گواہی نہیں دیتا(1)

والدین نظم و حقوق کا خیال رکھیں

امیر المؤمنین(ع) فرماتے ہیں کہ ایک دن پیغمبر اسلام(ص)میرے گھر پر ارام فرمارہے تھے، امام حسن (ع)نے پانی مانگا اپ اٹھے اور کچھ دودھ لے کر ائے اور امام حسن (ع)کو پیش کیا،امام حسین (ع)نے اپنا ہاتھ بڑھایا اور کاسہ خود لے کر پینا چاہا پیغمبر اسلام (ص)نے امام حسن(ع) کی حمایت کی اور امام حسین(ع) کو نہیں دیایہ منظر حضرت زہرا(س) دیکھ رہی تھیں،کہنے لگیں: یا رسول اللہ(ص)!کیا حسن(ع)سے زیادہ محبت ہے؟تو فرمایا:نہیں بلکہ اس لئے حسن(ع) کا دفاع کررہا ہوں کہ اس نے پہلے پانی مانگا تھامیں نے اس کی نوبت کا خیال کیا ہے

--------------

(1):- بحار الانوار ،ج23،ص273

۴۱

ایک شخص رسول خداﷺ کی خدمت میں اپنے دو بچوّں کیساتھ حاضر ہوا،ایک بچےّ کو پیار کیا دوسرے سے کوئی محبت کا اظہار نہیں کیا تو اپ نے فرمایا: یوں اپنے بچوّں میں غیر عادلانہ رفتار نہ کرو،بلکہ ان کے ساتھ اسی طرح مساوات اوربرابری کا رویہ اختیار کرو جس طرح دوسرے تمہارے ساتھ رویہ اختیار کرنا چاہتے ہیں(1)

بچےّ کو خدا شناسی کا درس دیں

بیٹے کے حقوق  کے بارے میں فرماتے ہیں کہ: 

وَ امَّا حَقُّ وَلَدِكَ فَانْ تَعْلَمَ انَّهُ مِنْكَ وَ مُضَافٌ الَيْكَ فِي عَاجِلِ الدُّنْيَا بِخَيْرِهِ وَ شَرِّهِ وَ انَّكَ مَسْئُولٌ عَمَّا وَلِيتَهُ مِنْ حُسْنِ الْادَبِ وَ الدَّلَالَةِ عَلَ ی رَبِّهِ عَزَّ وَ جَلَّ وَ الْمَعُونَةِ عَلَ ی طَاعَتِهِ فَاعْمَلْ فِي امْرِهِ عَمَلَ مَنْ يَعْلَمُ انَّهُ مُثَابٌ عَلَ ی الْاحْسَانِ الَيْهِ مُعَاقَبٌ عَلَ ی الْاسَاءَةِ الَيْه‏ (2)

یعنی بیٹے کا حق باپ پر یہ ہے کہ وہ اسے اپنی اولاد سمجھے اور اس دنیا میں اس کی نیکی اور بدی کو تمہاری طرف نسبت دی جائے گی،اور تم ہی اس کا ولی ہوگا، اور تم پر لازم ہے کہ اسے با ادب بناؤ اسے اصول دین کا سبق سکھاؤ اور خدا کی اطاعت اور بندگی کی راہ پر لگاؤ اور اس سلسلے میں اس کی مدد کرو تاکہ خدا کے نزدیک تم سرخ رو ہو سکے اور اجر پا سکو، اگر ان امور میں سستی کی تو تم نے عذاب الہٰی کو اپنے لئے  امادہ کیا ہے، پس ضروری ہے کہ اسے  کچھ اس طرح تربیت دو کہ تیرے مرنے کے بعد جب لوگ اسے دیکھیں تو تمہیں اچھے نام سے یاد کریں، اور تم بھی خداکے سامنے جواب دہ ہو اور اجر وثواب پا سکو

شیخ شوشتری(رض) جو اپنے زمانے کے نامور عرفاء میں سے تھے 80 سال کی عمر میں 283ھ میں وفات پاچکے ہیں، کہتے ہیں: میں تین سال کا تھا کہ دیکھا میرے ماموں محمد بن سواد رات کے وقت نماز شب میں مصروف ہیںمجھ سے کہا بیٹا کیا اپنے خدا کو یاد نہیں کروگے جس نے تمہیں پیدا کیا ہے؟ میں نے کہا: کیسے اسے یاد کروں؟ تو جواب دیا جب سونے کا وقت ائے تو 3بار دل سے کہو:

--------------

(1):- بحار الانوار ،ج23،ص113

(2):-من‏ل ايحضره‏ الفقيه    ج2 ، ص 621  ، حقوق اسل امی،ص ۱۵۶

۴۲

(خدا میرے ساتھ ہے جو مجھے دیکھ رہا ہے اور میں اس کے حضور میں ہوں)

کچھ راتیں گزر گئیں پھر مجھ سے کہا اس جملے کو سوتے وقت 7 مرتبہ پڑھ لیا کرومیں نے ایسا کیا تو اس ذکر کی لذت اور مٹھاس کو میں محسوس کرنے لگاایک سال کے بعد مجھ سے کہا اسے اپنی پوری زندگی پڑھا کرویہی ذکر تمیںس دنیا و اخرت دونوںمیں سرخ رو کریگااس طرح میرے پورے وجود میں بچپنے میں ہی خدا پر ایمان مضبوط ہوگیا تھا(1)

کاشف الغطا اور بیٹے کی تربیت

حضرت ایةاللہ شیخ جعفر کاشف الغطاء(رح) اپنے بچےّ کی تربیت کرنے کے لئے ایک مؤثر طریقہ اپناتے ہیں، وہ یہ ہے: اپ چاہتے ہیں کہ اپ کا بیٹا بھی سحر خیزی اور نماز شب کا عادی ہوجائےاور اخر عمر تک اس عمل کو انجام دیتا رہےایک رات اذان صبح سے پہلے بیٹے کے بستر کے قریب ائے اور بالکل ارام سے اسے بیدار کرنے لگے اور کہا عزیزم !اٹھو حرم مولا علی (ع)چلیں

بیٹے نے کہا:بابا اپ جائیں میں بعد میں اؤں گا کہا نہیں بیٹا میں منتظر رہوں گابیٹا اٹھا اور حرم کی طرف وضو کرکے روانہ ہوئےایک فقیرحرم مطہر کے سامنے بیٹھ کر لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلا رہا تھا

اس وقت ایةاللہ کاشف الغطاء (رح) نے کہا: بیٹا ! یہ شخص کس لئے یہاں بیٹاا ہے؟

کہا: بھیک مانگنے کے لئے

کہا:اسے  کتنے درہم ملتے ہونگے؟

بیٹا:شاید کچھ رقم ملتی ہوگی اور واپس جاتا ہوگا

کیا یقینا اسے دینار ملتا ہوگا؟

بیٹا:البتہ یقینا تو پیش بینی نہیں کرسکتا لیکن کچھ نہ کچھ تو ضرور ملتا ہوگا یا ممکن ہے خالی ہاتھ بھی جاتا ہوگا

--------------

(1):-  الگوہای تربیت کودکان ونوجوانان،ص49

۴۳

یہاں جس نکتے کی طرف اپ بچےّ کو متوجہ کرانا چاہتے تھے ٹھیک اسی جگہ پر اگئے اوراپنا مطلب کے لئے زمینہ فراہم ہوگیااور فرمایا: بیٹا دیکھ یہ گدا گر کمانے کے لئے سویرے سویرے یہاں اتا ہے جبکہ اسے سوفیصد  یقین تونہیں پھر بھی اتنی جلدی نیند سے بیدار ہوکر اتا ہے؛ لیکن تیںر  تو اس ثواب پر پورا پورا یقین ہے کہ جو خدا تعالیٰٰ نے سحر خیزی کے لئے معین کیا ہے اور ائمہ طاہرین (ع)کے فرامین پر بھی یقین رکھتے ہو، پس کیوں سستی کرتے ہو؟!!

اس خوبصورت تمثیل نے اتنا اثر کیا کہ بیٹے نے زندگی کے اخری لمحات تک نماز شب کو ترک نہیں کیا(1)

ہمیں بھی یہی درس ملتا ہے کہ اگر ہم چاہتے ہںد کہ ہمارے بچےّ بھی سحر خیز ہوں تو پہلے ہم خود اس پر عمل پیرا ہوںچنانچہ رسول اللہ(ص)کے پاس ایک ماں  اپنے بیٹے کو لے ائی کہ اسے نصیحت کریں کہ وہ خرما نہ کھائےکیونکہ حکیموں نے اس کے لئے  منع کیا ہےیا رسول اللہ (ص) اسے نبوت کی مبارک زبان سے سمجھائیں ممکن ہے وہ باز اجائےاپ نے فرمایا:بہت اچھا اج اسے لے جائیں کل لے ائیںدوسرے دن جب ائی تو بڑی نرمی سے نصیحت کی: بیٹا ماں کی باتوں کو سنا کرو اور کھجور کھانے سے پرہیز کرو تاکہ تمہاری بیماری ٹھیک ہوجائے اور بعد میں تم زیادہ  کھجور کھا سکواور زیادہ کھیل کود کر سکواور خوش وخرم زندگی بسر کرسکو اور تمہاری ماں بھی تم پر راضی ہوسکےبچےّ نے اپ(ص) کی باتوں کو قبول کرلیا اور کہا: اب بات سمجھ میں ائی کہ کیوں کھجور نہ کھاؤںاب میں دلیل سمجھ گیا جب باتیں ختم ہوئیں تو ماں نے تشکر بھرے لہجے میں کہا:یا رسول اللہ (ص)یہی باتیں کل بھی تو اپ بتا سکتے تھے

فرمایا: کیونکہ کل میں خود کھجور کھا چکا تھا اچھی بات اس وقت مؤثر ہوتی ہے جب خود اس پر عمل کرو(2)

--------------

(1):- الگوہای تربیت کودکان ونوجوانان ،ص208

(2):- الگوہای تربیت کودکان ونوجوانان ،ص316

۴۴

امام خمینی اور بچوّں کی تربیت

امام خمینی ؒ کی بیٹی نقل کرتی ہے کہ امام خمینی(رح) بچوّں پر بہت مہربان تھےہم گھر میں بڑے مہر ومحبت  کیساتھ رہتے تھے لیکن ہم جب کوئی برا کام کرتے تو سختی سے منع کرتے تھےعملی طور پر ہمیں سمجھادیا گیا تھا کہ کوئی کام ان کی مرضی کے خلاف نہیں کریں گےہم بھی فروعی کاموں میں ازاد لیکن اصولی کاموں میں سخت پابند تھےہم میں سے کسی کی مجال نہیں تھی کہ مخالفت کرےہمیشہ ہمیں پابند رکھتے تھے کہ کوئی گناہ نہ کریں اوراداب اسلامی کی پابندی کریںاس کے علاوہ ہم جتنا شوروغل مچائیں کچھ نہیں کہتے تھے اور نہ کوئی اعتراض کرتےہاں اگر کسی پڑوسی کی طرف سے کوئی شکایت اتی  تو سختی سے اعتراض کرتے تھےہم گھر کے صحن میں کھیل کود میں مصروف ہوتے تھےنماز کے وقت بھی اگر کھیلتے تو کبھی نہیں کہتے،بچو اذان کا وقت ہوگیا ہے اؤ وضو کریں نماز پڑھیںبلکہ خود اذان سے ادھا گھنٹہ پہلے مصلّی پر کھڑے ہو جاتے تھے اوراپ کو دیکھ کر ہم بھی نماز کے لئے تیار ہوجاتےاور جب بھی ہمیں کسی کام سے روکتے تھے زندگی بھر میں  وہ کام انہیں انجام دیتے ہوئے ہم نے نہیں دیکھا،حجاب اور پردے کے بارے میں سخت حساس تھے، اور گھر میں کوئی بھی غیر اخلاقی باتیں جیسے غیبت،جھوٹ،کسی بڑے کی بے احترامی یا کسی مسلمان کی توہین نہیں کرنے دیتے تھے اپ معتقد تھے کہ بچےّ ازادانہ کھیل کود کریںفرماتے تھے اگر بچےّ شرارت نہ کریں تو وہ بیمار ہیں ان کا علاج کرنا چاہئے

اپ کے بیٹے سید احمد خمینی(رح) سے جب انٹرویو لیا گیا تو فرمایا: میری بیوی گھریلو عادت کے مطابق بچی کو میٹھی اور گہری  نیند سے نماز صبح کے لئے اٹھایا کرتی تھیجب امام خمینیؓ کو یہ معلوم ہوا تو پیغام بھیجا کہ: اسلام کی مٹھاس کو بچےّ کے لئے تلخ نہ کرو! یہ بات اس قدر مؤثر تھی کہ میری بیٹی اس دن کے بعد خود تاکید کرتی تھی کہ انہیں نماز صبح کے لئے ضرور جگایا کریں اس وقت میں نے لااکراہ فی الدین  کو سمجھا(1)

--------------

(1):- خاطرات فریدہ خانم مصطفوی ،پابہ پای افتاب،100

۴۵

بچوّں کومستحبات پر مجبور نہ کریں

والدین کو چاہئے کہ ان پر سختی نہ کریں اور مستحبات پر مجبور نہ کریں، کیونکہ اس کا نتیجہ منفی ہوگا جیسا کہ اس مسیحی کا قصہ مشہور ہے کہ مسلمان بھائی نے اسے صبح سے لے کر رات تک مسجد میں قید رکھا،دوسرے دن جب اسے جگانے گیا تو اس نے کہا: بھائی مجھے بال بچےّ بھی پالنا ہے تم کسی اور بے کار ادمی کو تلاش کرو اس طرح وہ دوبارہ مسیحیت کی طرف چلاگیا

ایک جوان کہتا ہے کہ ہمارے والد صاحب ہم تمام بہن بھائیوں کو نماز شب کے لئے جگایا کرتے تھےمیں بہت چھوٹا تھا نیند سے اٹھنا میرے لئے سخت ہوتاتھا، جب مجھے اواز دیتے تھے، حسن اٹھوتو میں بستر میں لیٹ کر ہی زور سے ولا الضالین کہتا تھا(1)

بچوّں کی تربتت اور والدین کی رفتار

یہ بھی واضح ہے کہ بچوّں کے لئے سب سے نزدیک ترین عملی نمونہ اس کے والدین ہیں، بچوّں کو زبان سے نصیحت کرنے، زبانی تعلیم دینے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ اپنے والدین کی رفتار سے وہ ادب سیکھتے ہیں اور یہی بہترین روش تعلیم بھی ہے:

عَنْ ابِي عَبْدِ اللهِ ع انَّهُ قَالَ كُونُوا دُعَاةَ النَّاسِ بِاعْمَالِكُمْ وَ لَا تَكُونُوا دُعَاةً بِالْسِنَتِكُم‏ (2)

 امام صادق نے فرمایا:لوگو! تم ،لوگوں کو اپنے کردار کے ذریعے نیکی کی طرف دعوت دو نہ کہ  زبانی

شاعر کہتا ہے:اولاد بداخلاق ہو یا خوش اخلاق،یہ استاد اور معلم کے سکھانے اور تربیت دینے کی وجہ سے نہیں بلکہ یہ ماں  کی تربیت گاہ سے اسے ورثے میں ملا ہےاور یہ بھی معلوم ہے کہ اچھی اولاد کی تربیت نادان ماں کے لئے ممکن نہیں اسی طرح عورت اگر پاک دامن اور خوش خلق ہو تو یہ تاریک راتوں میں چمکنے والے درخشان ستاروں کی مانند ہے فرزندان ملت کی خوش بختی اور سعادت ایسی باشعور ماؤں کے ہاتھ میں ہے

--------------

(1):- قصص العلما،ص185

(2):-بح ار ال انو ار     5 ،ص198  ب اب 7- الهد اية و ال اضل ال و التوفيق

۴۶

کودک ہر انچہ دارد از اغوش مادر است             زشتخوی باشد و گر نیک محضر است

در دفتر معلم و اموزگار نیست             ان تربیت کہ زادہ دامان مادر است

فرزند خوب، مادر نادان نپرورد             این نکتہ نزد مردم دانا مقرّر است

زن چون عفیف باشد و دانا و نیکخوی             در تیرگی جہل چو تابندہ اختر است

در دست مادرانِ خردمندِ و باہنر             خوشبختی و سعادت ابناء کشور

بچوّں کےحضور میں دعا مانگیں

والدین کا بچوّں کے لئے نمونہ بننے کے لئے صرف برے کاموں سے بچنا کافی  نہیں ہے بلکہ اچھے اور نیک کاموں کو انجام دینا بھی ضروری ہے کیونکہ نیک کاموں کے بہت سارے نمونے اور مصداق ہیں،جیسے نماز پڑھنا کہ اگر ہم جلدی جلدی پڑھیں تو ہمارے بچےّ بھی جلدی جلدی پڑھیں گےاور اگر ہم اہستہ اہستہ پڑھیں تو وہ بھی اہستہ پڑھیں گے اسی طرح ہم صرف اپنی مشکلات کی دوری کے لئے دعا کرتے ہیں یا دوسروں کے لئے بھی دعا کرتے ہیں اس میں بھی نمونہ بن سکتے ہیں چنانچہ روایت ہے:

 عَنِ الْحُسَيْنِ بْنِ عَلِيٍّ عَنْ اخِيهِ الْحَسَنِ قَالَ رَايْتُ امِّي فَاطِمَةَ ع قَامَتْ فِي مِحْرَابِهَا لَيْلَةَ جُمُعَتِهَا فَلَمْ تَزَلْ رَاكِعَةً سَاجِدَةً حَتَّ ی اتَّضَحَ عَمُودُ الصُّبْحِ وَ سَمِعْتُهَا تَدْعُو لِلْمُؤْمِنِينَ وَ الْمُؤْمِنَاتِ وَ تُسَمِّيهِمْ وَ تُكْثِرُ الدُّعَاءَ لَهُمْ وَ لَا تَدْعُو لِنَفْسِهَا بِشَيْ‏ءٍ فَقُلْتُ لَهَا يَا امَّاهْ لِمَ لَا تَدْعُوِنَّ لِنَفْسِكِ كَمَا تَدْعُوِنَّ لِغَيْرِكِ فَقَالَتْ يَا بُنَيَّ الْجَارُ ثُمَّ الدَّارُ (1)

امام حسن(ع) فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ  شب جمعہ کو میں نے اپنی مادر گرامی کو دیکھا کہ محراب عبادت میں اپ کھڑی ہیں مسلسل نمازیں پڑھی جارہی ہیں یہاں تک کہ صبح کا وقت اگیا اپ مؤمنین مردوں اور عورتوں کے حق میں نام لے لے کر دعا مانگتی رہیں لیکن اپنے لئے کوئی دعا نہیں مانگںا میں نے عرض کیا مادر گرامی !اپ نے کیوں اپنے لئے دعا نہیں  مانگںک؟ تو میری ماں نے کہا: بیٹا پہلے پڑوسی پھر اہل خانہ

--------------

(1):-وس ائل‏ الشيعة، 7،ص112، ب اب استحب اب اختي ار ال انس ان الدع

۴۷

یہ ایک درس اور نمونہ ہے ہمارے لئے جو امام حسن مجتبیٰ (ع)کے ذریعے جناب فاطمہ(س) ہمیں دے رہی ہیں اور ہمیں بھی چاہئے کہ اپنی اولاد کے لئے ایسا درس دیں جو اپنی دعاؤں میں دوسرے مؤمنین کو بھی یاد کریں تاکہ لاکھوں گنازیادہ ثواب زیادہ ملے

چنانچہ روایت میں ہے کہ اگر کوئی اپنے کسی مؤمن بہن اور بھائی کے لئے ان کی غیر موجودگی میں دعا کرے، اس کے لئے پہلے اسمان سے ندا ائے گی کہ اے بندہ خدا اس کے عوض میں  اللہ تعالیٰٰ نے تمہیں ایک لاکھ کے برابر اجر عطا کیا، دوسرے اسمان سے اواز ائے گی دو برابر اجر عطا کیا ، تیسرے اسمان سے ندا ائے گی تین لاکھ کےبرابر اسی طرح ساتویں اسمان سے ندا ائے گی سات لاکھ  کے برابر اجر عطا کیا

بچوّں کی تربیت میں معلم کا کردار

ابوسفیان کا بیٹا معاویہ نے 41ھ میں مسند خلافت پر انے کے بعد یہ ٹھان لی کہ علی (ع)کو لوگوں کے سامنے منفورترین ادمی کے طور پر  تعارف کرائے اس مکروہ ہدف کے حصول کے لئے علی (ع)کے دوستوں کو تلوار اور نیزوں کے ذریعے فضائل علی (ع)بیان کرنے سے منع کیا گیا، دوسری طرف علی (ع)کے دشمنوں کو بیت المال میں سے جی بھر کے مال و زر دیا گیا تاکہ اپ کے خلاف پیغمبر(ص) کی طرف سے احادیث گڑم لیںاس کے علاوہ پورے عالم اسلام میں یہ حکم جاری کردیا گیاکہ نمازجمعہ کے بعد ہر مسجد سے ان پر لعن کیا جائےیہ عملی بھی ہوا اور بچےّ باتوں باتوں میں اپ پر لعن کرنے لگےعمر بن عبد العزیز جو اموی خلفاء میں سے ہے،بچپن میں دوسرے بچوّں کے ساتھ علی(ع) پر لعن کر رہا تھا اس وقت وہاں سے اس کے استاد جو ایک مؤمن اور صالح انسان تھے کا گزر ہواوہاں سے تو خاموش نکل گیا،لیکن جب مدرسہ کا وقت ہوا اور عمر ایا تو استاد نماز میں مشغول ہوا نماز کو طول دینا شروع کیا، عمر سمجھ گیا کہ نماز تو صرف بہانہ ہے

عمر نے پوچھا:حضرت استاد کیا میں ناراضگی کی علت دریافت کر سکتا ہوں؟

تو استاد نے کہا: بیٹا کیا اج تم نے علی پر لعن کاا؟

کہا: ہاں

۴۸

کب سے تمہیں معلوم ہوا کی اہل بدر پر خدا غضبناک ہوا ہے؟ جبکہ ان پر خدا راضی ہےکیا علی اہل بدر میں سے نہیں تھے؟

 کہا: کیا بدر اور اہل بدر کے لئے ان کے صالح اعمال کے سوا کوئی اور چیزباعث افتخار ہے؟

عمر نے کہا:میں اپ کے ساتھ وعدہ کرتا ہوں کہ اج کے بعد زندگی بھر ان پرلعن نہیں کرونگا کئی سال اسی طرح گزر گئےایک دن اس کا والد جو حاکم مدینہ تھا نماز جمعہ کا خطبہ فصیح وبلیغ انداز میں دے رہا تھالیکن جب علی پر لعن کرنے کا وقت ایا تو اس کی زبان میں لکنت پیدا ہوئی جس سے عمر کو بہت تعجب ہوا

کہا:بابا جان! میں نہیں جانتا کہ کیوں کر اپ کی فصاحت وبلاغت ادھر اکر ماند پڑ گئی اور زبان بند ہوگئی ؟!

کہا:میرے بیٹے! اس پر تم متوجہ ہوا؟!

بیٹے نے کہا:جی ہاں

باپ نے کہا:میرے بیٹے صرف تمہیں اتنا بتادوں کہ اگر اس مردالٰہی (علی(ع)) کے فضائل میں سے جتنا میں جانتا ہوں ان لوگوں کو پتہ چل جائے تو یہ سب ان کی اولادوں کے پروانے بن جائیں گے اور ہمارے پیچھے کوئی نہیں ائیں گے

جب عمر بن عبدالعزیز نے یہ سنا تو اپنے استاد کی نصیحت پربھی یقین ہوگیااس وقت اس نے یہ عدں کرلیا کہ اگر کبھی برسر اقتدار ایا تو ضرور اس نازیبا عمل کو روک دوں گا اور جب 99ھ میں یہ برسر اقتدار ایا تو سب سے پہلا کام یہی کیا کہ علی ؑپر لعن طعن کو ممنوع قرار دیا اس لعن کے بدلےانّ الله یأمر بالعدل والاحسان کی تلاوت کرنے  کا حکم دیا

دینی تعلیم دینا واجب

روایت میں ہے کہ رسول اکرم(ص) نے فرمایا: افسوس ہواخری زمانے کی اولادوں پر کہ ان کے والدین انہیں دینی تعلیم نہیں دیں گے، کسی نے سوال کیا اپ کی مراد مشرک والدین ہے ؟ فرمایا: نہیں، بلکہ میری مراد مؤمن والدین ہیں جو اپنے بچوّں کو دینی تعلیم نہیں دلائیں گے اور اگر بچےّ کوئی چیز سیکھنا چاہیں تو منع کریں گے اور دنیا کی معمولی چیز انہیں دے کر اپنے اوپر راضی رہیں گے، میں ایسے والدین سے بیزار ہوں

۴۹

بچوّں کو تعلیم دینے کا ثواب

پیغمبر اسلامﷺ نے فرمایا: جب استاد بچےّ کو تعلیم دیتے ہوئے بسم اللہ الرحمن الرحیم کہلاتا ہے تو اس وقت خدا وند اس بچےّ اور اس کے والدین اور معلّم کو اتش جہنم سے رہائی کا پروانہ عطا کرتا ہے(1) امام صادق (ع)نے رسول خداﷺسے روایت کی ہے: ایک دن حضرت عیسی ٰ(ع) ایک قبر کے قریب سے گزرے اس صاحب قبر پر عذاب ہورہا تھا دوسرے سال جب وہاں سے گزرے تو عذاب ٹل چکا تھا

سوال کیا پروردگارا!کیا ماجراہے؟

وحی ائی اس کے بیٹے نے ایک راستے کی مرمت کی اور ایک یتیم کو پناہ دی، اس نیک عمل کی وجہ سے اسے عذاب سے نجات مل گئی

امام حسین(ع) اور معلم کی قدردانی

عبد الرحمن سلمی نے امام حسین(ع)  کے بیٹے کو سورۂ حمد یاد کرایا تو امام  نے معلم کی قدر دانی کرتے ہوئے  اسےکچھ جواہرات ، اورکپڑے دیے  تو وہاں پر موجود لوگوں نے تعجب کیساتھ کہا: اتنا زیادہ انعام؟!تو امامؑ  نے فرمایا: کہاں یہ مالی انعام اس معلم کی عطا (تعلیم)کے برابر ہوسکتا ہے؟(2)

والدین سے زیادہ استاد کا حق

سکندر اپنے استاد کا بہت زیادہ احترام کرتا تھا، جب اس سے وجہ پوچھی تو کہا: میرےباپ نے مجھے عالم ملکوت سے زمین پر لایا اور استاد نے زمین سے اٹھا کراسمان پر لے گیا(3)

--------------

(1):-   جامع احادیث شیعہ،ج15،ص9    (2):- مستدرک الوسائل،ج1،ص290

(3):- کشکول شیخ بہائی،ص27

۵۰

امام سجاد (ع)فرماتے ہیں: تیرے استاد کا تجھ پر یہ حق ہے کی تو اسے محترم سمجھے اور مجالس میں اس کا احترام کرے اس کی باتیں غور سے سنے اور ان پر توجہ دے اپنی اواز ان کی اواز  سے زیادہ اونچی نہ کرے اور اگر کوئی شخص ان سے کچھ پوچھے تو تم جواب نہ دے اور لوگوں کو اس سے استفادہ کرنے دے اس کے پاس کسی کی غیبت نہ کرے اور جب کوئی تیرے سامنے اس کی برائی کرے توتم اس کا دفاع کرے، تم  ان کے عیوب پر پردہ ڈالے اور ان کی اچھائیاں ظاہر کرے ان کے دشمنوں کے ساتھ مل کر نہ بیٹھے اور ان کے دوستوں سے دشمنی کا اغاز نہ کرے  اگر تو ا یسا کرے گا تو خدا تعالیٰٰ کے فرشتے گواہی دینگے کہ تم نے ان کی  جانب توجہ دی ہے اور تم نے علم لوگوں کی توجہ مبذ ول کرانے کے لئے نہیں بلکہ خدا کے لئے حاصل کیا ہےاور شاگردوں کا حق تجھ پر یہ ہے کہ تم یہ جان لے کہ خدا تعالیٰٰ نے تجھے جو علم بخشا ہے اور اس کی جو راہیں تجھ پر کھولی ہیں اس کے سلسلے میں تجھے ان کا سرپرست قرار دیا ہے لہذا اگر تو انہیں اچھی  طرح پڑھائے اور نہ انہیں ڈرائے اور نہ ہی ان پر غضبناک ہو تو خدا تعالیٰٰ اپنے فضل سے تیرا علم بڑھائے گا اور اگر تو لوگوں کو اپنے علم سے دور رکھے اور جب وہ تجھ سے اس کی خواہش کریں تو انہیں ڈرائے او ران پر غضبناک ہو تو عین مناسب ہوگا کہ خدا تعالیٰٰ تجھ سے علم کی روشنی چھین لے اور لوگوں کے دلوں میں تیری حیثیت گھٹادے(1)

والدین کی ظلم وستم اور فراری بچےّ

یہ ایک ستم رسیدہ بچی کا خط ہے جواس نے  اپنے باپ کے ظلم وستم سے دل برداشتہ ہوکر گھر سے فرار ہونے سے پہلے لکھا تھا:بابا یہ پہاہ اور اخری خط ہے جسے غور سے پڑھ لو تو شاید اپ کا ضمیر جو مردہ ہوچکا ہے بیدا ر ہوجائے اور سمجھ لو کہ کس قدر خود خواہ اور پست فطرت انسان ہو!بابا میں تم سے متنفر ہوں دوبارہ تیرا منحوس چہرہ نہیں دیکھوں گی، تم اس قابل نہیں کہ تمہیں باپ کہہ کر پکاروںبلکہ یہ کہنا مناسب ہوگا کہ تو باپ ہونے کے لئے کبھی پیدا نہیں ہواتم ایک پلید اور کثیف بلا ہوتم نے مجھے بچپن سے لے کر اب تک ساری چیزوں سے محروم رکھا،

--------------

(1):- مکارم الاخلاق،ص484

۵۱

میری پیاری ماں کو طلاق دیکر خوشی اور نشاط کا دروازہ مجھ پر بند کردیاجبکہ میرے لئے میری ماں کے علاوہ کوئی نہ تھا ایک بیٹی کے لئے ماں سے بڑھ کر اور کون دل سوز ہوسکتا ہے؟ میں کبھی بھی اس دن کو فراموش نہیں کروں گی جس دن تم نے میری ماں کو طلاق دی اور وہ مجھے اخری بار اپنی اغوش میں لے کرگرم انسؤں سے میرے چہرے کو تر کرکے چلی گئی اور مجھے یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کہاں چلی گئی  وہ زندہ ہے یا مردہ؟لیکن اس دن جب تم نے مجھے اواز دی بیٹی میں تیرے لئے خوش خبری لایا ہوں، کہ تیری ماں مر گئی ہےیہ کہہ کر قہقہہ لگانا شروع کیا اس دن ماں سے ملنے کی امید بالکل ختم ہوگئی اور جب میں اپنی ماں کی جدائی میں رونے لگی تو تم نے مجھے ٹھوکر ماری اور میں بیہوش ہوگئی اور میں نہ جان سکی کہ میں کہاں کھڑی ہوں؟!بابا کیا مجھے ماں کی جدائی میں رونے کا بھی حق نہ تھا؟ ارے بابا !اب میں وہ نو سالہ نہیں رہی اب میں تمہارا اس وحشی رویے کو برداشت اور تحمل نہیں کرسکتی یہ رات کے ساڑھے گیارہ  بج چکے ہیں جب کہ تم اور تمہاری بیوی ابھی تک فلم ہال سے گھر واپس نہیں لوٹے کل صبح میں اس جہنم سے ہمیشہ کے لئے نکل جاؤں گیاور دنیا والوں کو بتادوں گی کہ ایسے ظالم،بے رحم اور سنگدل باپ بھی دنیا میں موجود ہیں مگر لوگوں کو یقین نہیں ائے گا(1)

اولاد صالح  خدا کی بہترین نعمت

حسن بن سعید کہتاہے کہ خدا نے ہمارے دوستوں میں سے ایک دوست کو بیٹی عطا کی تو وہ بہت افسردہ حالت میں امام صادق (ع) کی خدمت میں ایاامام(ع)نے فرمایا:کیوں غمگین ہو؟اگر خداتعالیٰٰ تجھ پر وحی نازل کرے اور کہے کہ میں تمہارے بارے میں فیصلہ کروں یا تم فیصلہ کروگے؟ تو تم کیا جواب دوگے؟اس نے عرض کیا: میں کہوں گا بار خدایا! جو تو انتخاب کرے وہی میرے لئے ٹھیک ہےامامؑ نے قران کی اس ایہ کی تلاوت فرمائی جس میں حضرت خضر(ع) کی داستان ذکر ہوئی ہے، کہ حضرت خضر (ع) نے ایک لڑکے کو پکڑ کر مارڈالا جس پر حضرت موسی (ع)نے سخت اعتراض کیا تھا،جس کی علت یوں بتائی:فَارَدْنَا ان يُبْدِلَهُمَا رَبُّهُمَا خَيْرًا مِّنْهُ زَكَاةً وَاقْرَبَ رُحْمًا (2)

--------------

(1):-  الگوئی تربیت کودکان و نوجوانان،ص248

(2):-  الکہف،81

۵۲

"تو میں نے چاہا کہ ان کا پروردگار انہیں اس کے بدلے ایسا فرزند دیدے جو پاکیزگی اور  صلئہ رحم میں بھی اس سے بہترہو"

خدا تعالیٰٰ نے اس بیٹے کے بدلے میں انہیں ایک بیٹی عطا کی جس کی نسل سے (70)ستّر پیغمبران الٰہی وجود میں ائے(1)

دوران جاہلیت میں بچیوں کی ولادت پر ماں باپ بہت غمگین ہوجاتے تھےایک دن امیر اسحاق بن محمد کو خبر ملی کہ ان کے ہاں بیٹی ہوئی ہے،تو وہ بہت غمگین ہوگیا اور کھانا پینا بھی چھوڑ دیابہلول عاقل نے جب یہ خبر سنی تو کہا: اے امیر! کیا خدا نے سالم اور بے عیب ونقص بیٹی عطا کی اس لےں تم غمگین ہوگئے ہو؟!کیا تمہارا دل چاہتا تھا کہ مجھ جیسا ایک پاگل بچہ تجھے عطا ہوجاتا؟!اسحاق بے اختیار ان حکیمانہ باتوں کو سن کرمسکرانے لگا اور خواب غفلت سے بیدار ہوا(2)

 بیٹی کی عظمت

رسول خدا(ص)نے فرمایا:جو بھی بازار جائے اور کوئی تحفہ اپنے گھر والوں کے لئے خریدے تو ایسا ہے کہ مستحق افراد میں صدقہ دیا ہواس تحفہ کو تقسیم کرتے وقت بیٹیوں کو بیٹوں پر مقدم رکھےکیونکہ جو بھی اپنی بیٹی کو خوش کرے تو ایسا ہے جیسے اولاد اسماعیل(ع) میں سے ایک غلام ازاد کیا ہواور اگر بچےّ کو خوش کیا تو خوف خدا میں گریہ کرنے کا ثواب ہےاور جو بھی خوف خدا میں روئے وہ بہشتی ہے(3)

--------------

(1):-   سفينة البح ار،ج1،ص108   

(2):- مجموعہ قصص و حکایات بہلول عاقل

(3):- اثار الصادقین،ج15،ص310

۵۳

اسی لئے بیٹے سے زیادہ بیٹی کو اسلام نے  توجہ کا مرکز قرار دیا ہے:شاعر کہتا ہے:

بیٹا ہوسکتا نہیں بیٹی سے خدمت میں سوا     ہے یہ تاریخ کے صفحات پہ اب تک لکھا

بیٹوں نے زر کے لئے باپ کا کاٹا ہے گلا    ہاتھ سے بیٹی کے چھوٹا نہیں دامان وفا

پھوڑدیں بیٹوں نے جب شاہجہاں کی انکھیں    بیٹی ہی بن گئی اس سوختہ جاں کی انکھیں

ہوئی سو بار جہاں میں یہ حقیقت روشن   بیٹی کردیتی ہے ماں باپ کی تربت روشن

کون کہتا ہے  کہ بے وزن وبہا ہے بیٹی    ادمیت کے لئے حق کی عطا ہے بیٹی

کیا خبر کتنے نبیوں کی دعا ہے بیٹی   شمع اغوش رسول دوسرا ہے بیٹی

جس کے دامن میں یہ غنچہ ہو اسی سے پوچھو

قیمت اس گل کی رسول عربیﷺ سے پوچھو

بیٹی کیا چیز ہے یہ قلب نبی سے پوچھو     جذبہء الفت شاہ مدنی سے پوچھو

فاطمہ اور نہ خاتون جنان  کہتے تھے    اپنی بیٹی کو نبی پیار سے ماں کہتے تھے(1)

بچوّں پر  والدین کے حقوق

اللہ تعالیٰٰٰ نے انسانوں بلکہ ہر ذی روح کے لئے دنیا  میں  ماں  باپ سے زیادہ مہربان اور دلسوز مولمق کو  وجود نہیں بخشا خصوصا بنی نوع انسان  کے لئے ماں باپ کی محبت اور شفقت جو خدا تعالیٰٰٰ نے ان کے دلوں میں  ڈالی ہے، ناقابل بیان ہے، یعنی اسے  بیان کرنے سے زبان قاصر  ہے اب چونکہ یہ اپنی اولاد کے لئے اپنا ارام وسکون کھو بیٹھتے ہیں ؛ تو اس کے مقابلے میں اولاد پر بھی(هل جزاء الاحسان الّا الاحسان) کے مطابق  خدا وند حکیم نے  ان کا احترام واجب قرار دیاہے  بلکہ اپنی عبادت اور بندگی کا حکم دینے کے فورا بعد والدین پر احسان کرنے کا حکم دیاہے

--------------

(1):- کتاب والفجر،ص۱۴۰

۵۴

والدین کا چہرہ دیکھنا عبادت

اس بارے میں رسول گرامی اسلام ﷺ سے روایت ہے:

قَالَ رَسُولُ اللهِ ص مَا مِنْ رَجُلٍ يَنْظُرُ الَ ی وَالِدَيْهِ نَظَرَ رَحْمَةٍ الَّا كَتَبَ اللهُ لَهُ بِكُلِّ نَظْرَةٍ حَجَّةً مَبْرُورَةً قِيلَ يَا رَسُولَ اللهِ وَ انْ نَظَرَ الَيْهِ فِي الْيَوْمِ مِائَةَ مَرَّةٍ قَالَ وَ انْ نَظَرَ الَيْهِ فِي الْيَوْمِ مِائَةَ الْفِ مَرَّةٍ (1)

ابن عباس روایت کرتے ہیں کہ رسول خدا ﷺ نے فرمایا: جو شخص اپنے  والدین کے چہرے  پر مہربان اور احسان کے ساتھ نظررحمت کرے گا، اس کے لئے  خدا تعالیٰٰٰ ہر  ایک نگاہ  کے بدلے  ایک مقبول حج لکھ  دیتا ہے کسی نے سوال کیا اے اللہ کے رسول ﷺ! اگر دن میں سو مرتبہ  نظر کرے  تب بھی؟! تو اپ ﷺ نے فرمایا: اگر ایک لاکھ مرتبہ دیکھے تو  بھی ایک لاکھ حج مقبول اس کے لئے لکھ دیگا

بچوّں پر باپ کے حقوق

وَ امَّا حَقُّ ابِيكَ فَانْ تَعْلَمَ انَّهُ اصْلُكَ فَانَّكَ لَوْلَاهُ لَمْ تَكُنْ فَمَهْمَا رَايْتَ مِنْ نَفْسِكَ مَا يُعْجِبُكَ فَاعْلَمْ انَّ ابَاكَ اصْلُ النِّعْمَةِ عَلَيْكَ فِيهِ فَاحْمَدِ اللهَ وَ اشْكُرْهُ عَلَ ی قَدْرِ ذَلِكَ وَ لَا قُوَّةَ الَّا بِالله (2)

اولاد پر باپ کا حق یہ ہےکہ جان لو وہ تمہاری اصل اور جڑ ہے اور تم اس کی فرع اورشاخ اگر وہ نہ ہوتے تو تم بھی نہ ہوتے اور خدا کی تھک پر نعمتوں کے موجب وہ تھے، اس نعمت پر خدا کا شکر ادا کرو

--------------

(1):-مستدرك‏ الوس ائل،ج 15 ، ص 204    جملة من حقوق الو الدين

(2):-من‏ل ايحضره‏ الفقيه،ج2 ، ص621ب اب الحقوق ،ص 618

۵۵

اور کوئی بھی طاقت خدا  کی طاقت سے زیادہ نہیں  ہے اور یہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہے کہ ہر انسان یہ شعور رکھتا ہے کہ اس کے مہربان باپ نے اسے بہت ساری مشکلات اور سختیوں سے نجات دلائی ہے اور محفوظ رکھا ہے، ہمارے بچپنے کازمانہ لیجئے کہ ہماری جسمانی طور پر پرورش  کرنے کے لئےہمارے والدین  دن رات زحمتیں اٹھاتےہیں اور اپنا سکون اور چین کھو دیتے ہیںاسی لئے ہمیں چاہئے کہ خدا کی عبادت اور شکر گزاری کے بعد والدین کی شکر گزاری  بھی ضرور کریںلیکن حدیث شریف کی روشنی میں پھر بھی کما حقّہ ان کا شکر ادا نہیں کرسکتے:

عَنْ حَنَانِ بْنِ سَدِيرٍ عَنْ ابِيهِ قَالَ قُلْتُ لِابِي جَعْفَرٍ ع هَلْ يَجْزِي الْوَلَدُ وَالِدَهُ فَقَالَ لَيْسَ لَهُ جَزَاءٌ الَّا فِي خَصْلَتَيْنِ انْ يَكُونَ الْوَالِدُ مَمْلُوكا فَيَشْتَرِيَهُ فَيُعْتِقَهُ اوْ يَكُونَ عَلَيْهِ دَيْنٌ فَيَقْضِيَهُ عَنْه (1)

حنان بن سدیر نے اپنے باپ سے نقل کیا ہے کہ امام محمد باقر (ع) سے سوال کیا کہ کیا بیٹا اپنے باپ کا حق ادا کرسکتا ہے یا نہیں؟! تو فرمایا: صرف دو صورتوں میں ممکن  ہے: پہلا یہ کہ اگر باپ کسی کا غلام ہو اور اسے بیٹا خرید کر ازاد کردے، یا اگر باپ کسی کا مقروض ہو اور بیٹا اس کا قرض ادا کرے

باپ کا احترام واجب

قران مجید کی ایتوں کے علاوہ روایات اسلامی میں بھی ماں باپ کے حقوق اور احترام کا تاکید کے ساتھ حکم دیا ہے، اور ساتھ ہی احترام کرنے کا ثواب اور اثر اوراحترام نہ کرنے کا گناہ اور برا اثر بھی جگہ جگہ ملتا ہے: 

عَنْ ابِي عَبْدِ اللهِ قَالَ انَّ يُوسُفَ لَمَّا قَدِمَ عَلَيْهِ الشَّيْخُ يَعْقُوبُ دَخَلَهُ عِزُّ الْمُلْكِ فَلَمْ يَنْزِلْ الَيْهِ فَهَبَطَ جَبْرَئِيلُ فَقَالَ يَا يُوسُفُ ابْسُطْ رَاحَتَكَ فَخَرَجَ مِنْهَا نُورٌ سَاطِعٌ فَصَارَ فِي جَوِّ السَّمَاءِ فَقَالَ يُوسُفُ يَا جَبْرَئِيلُ مَا هَذَا النُّورُ الَّذِي خَرَجَ مِنْ رَاحَتِي فَقَالَ نُزِعَتِ النُّبُوَّةُ مِنْ عَقِبِكَ عُقُوبَةً لِمَا لَمْ تَنْزِلْ الَ ی الشَّيْخِ يَعْقُوبَ فَلَا يَكُونُ مِنْ عَقِبِكَ نَبِيٌّ  (2)

---------------

(1):-  بحار الانوار ، ج ۱۷، ص ۶۶

(2):-الك افي ، ج 2 ، ص 311    

۵۶

چنانچہ امام صادق(ع) سے منقول ہے کہ جب حضرت یعقوب (ع) مصر میں وارد ہوئے تو حضرت یوسف (ع)بھی بہت سارے لوگوں کے ساتھ ان کے استقبال کے لئے نکلے جب نزدیک ہوئے تو مرتبہ و جلالت شہنشاہی سبب بنی کہ اپ سواری سے نیچے نہیں اترے(اگرچہ یہ بعید نظر اتا ہے کہ خدا کا نبی ایسا کرے ! بہرحال روایت کے صحیح ہونے یا نہ ہونے  میں تحقیق کرنے کی ضرورت ہے) تو جبرئیل امین (ع)نے کہا: اے یوسفؑ!  ہاتھ کھولیےاور جب یوسفؑ نے اپنی مٹھی کھولی تو اس میں سے ایک نور اسمان کی طرف رہا ہونے لگاتو حضرت یوسف(ع)نے سوال کیا :جبرئیل یہ کیا ہے؟! جبرئیل نے کہا: یہ نبوت کا نور تھا کہ تیری نسل سے خارج ہوگیااور یہ اس لئے تیری نسل سے خارج ہوگیا کہ تم اپنے باپ کے احترام میں سواری سے نیچے نہیں اترےاسی لئے سلسلہ نبوت اپ کے بھائی کے صلب سے جاری ہوا پیغمبر اسلام ﷺ کے ایک قریبی رشتہ دار نے سوال کیا: میرے ماں باپ فوت ہوچکے ہیں اور ان کا میرے اوپر حق ہے کیسے اسے اتاروں؟ تو فرمایا: ان کے لئے نماز پڑھو، مغفرت طلب کرو، اور ان کی وصیت پر عمل کرو، اور ان کے دوستوں کا احترام کرو، اور ان کے رشتہ داروں کے ساتھ حسن سلوک رکھو،اور فرمایا: ماں کا حق باپ کےحقوق سے دوگنا زیادہ ہے(1)

فریضہ است زحق بر تو احترام پدر              پس از خداو پیمبر بُوَد مقام پدر

اگر چہ حرمت مادر نگاہ باید داشت             بحکم شرع بود واجب احترام پدر

بچوّں پر ماں کے حقوق

وَ امَّا حَقُّ امِّكَ فَانْ تَعْلَمَ انَّهَا حَمَلَتْكَ حَيْثُ لَا يَحْتَمِلُ احَدٌ احَدا وَ اعْطَتْكَ مِنْ ثَمَرَةِ قَلْبِهَا مَا لَا يُعْطِي احَدٌ احَدا وَ وَقَتْكَ بِجَمِيعِ جَوَارِحِهَا وَ لَمْ تُبَالِ انْ تَجُوعَ وَ تُطْعِمَكَ وَ تَعْطَشَ وَ تَسْقِيَكَ وَ تَعْرَ ی وَ تَكْسُوَكَ وَ تَضْحَ ی وَ تُظِلَّكَ وَ تَهْجُرَ النَّوْمَ لِاجْلِكَ وَ وَقَتْكَ الْحَرَّ وَ الْبَرْدَ لِتَكُونَ لَهَا فَانَّكَ لَا تُطِيقُ شُكْرَهَا الَّا بِعَوْنِ اللهِ وَ تَوْفِيقِه‏ (2)

--------------

(1):-ترجمه رس الة الحقوق،ص۱۳۹

(2):-من‏ل ايحضره‏ الفقيه ، ج2 ، ب اب الحقوق  ص621

۵۷

تیری ماں کا حق تجھ پر یہ ہے کہ تو جان لے کہ وہ تجھے اٹھاتی رہی کہ کوئی بھی کسی کو اس طرح نہیں اٹھاتااور اپنےدل کا پھل کھلاتی رہی  کہ اج تک کسی نے کسی کو نہیں کھلایااور وہ اپنی پوری طاقت اور پورے وجود کے ساتھ تمہاری حفاظت کرتی رہیاور اپنی بھوک اور پیاس کی پروانہیں کی لیکن تجھے وہ سیر اور سیراب کرتی رہیاور خود برہنہ رہی لیکن تیرے لباس کا بندوبست کرتی رہی اور خود کو دھوپ میں اورتجھے اپنی محبت کےسایہ میں رکھتی رہی،اور خود اپنی رات کی نیند اور ارام کی پروا نہیں لیکن تمہاری نیند اور ارام وسکون کا خیال ورتمہیں گرمی اور سردی سے بچاتی رہی، تاکہ تو اس کا بن کے رہے،  پس تم کسی بھی صورت میں اس کی شکرگزاری نہیں کرسکتےہو مگر یہ کہ خدا تجھے اس کی توفیق دے

امام سجاد(ع)کے کلام میں باپ کے حقوق  پر  ماں کے حقوق کو مقدم کیا گیاہے، شاید اس کی وجہ  یہ  ہوسکتی ہے کہ بیٹے کی شخصیت سازی میں ماں کا زیادہ  کردار ہوتا ہےاور وہ زیادہ زحمتیں اور مشقتیں  برداشت کرتی ہےاور یہ دین مبین اسلام کا طرّہ امتیاز ہے  وگرنہ  دوسرے  مکاتب فکر اور ادیان والے اتنی عظمت اور احترام کے قائل نہیں  ہیں

عورت کو ماں کی حیثیت سے جو حقوق اسلام نے دیا ہے وہ مغربی دنیا میں اس کا تصور بھی  نہیں کر سکتا وہاں جب بچہ قانونی طور پر حد بلوغ کو پہنچتا ہے تو گھر چھوڑ جاتا ہےاور ماں باپ سے بالکل الگ زندگی گزارنے کی فکر میں رہتا ہےاور ایسا رویہ گھریلو ماحول کو بالکل بے مہر و محبت ماحول میں تبدیل کر دیتا ہےکئی کئی سال گزرجاتے ہیں لیکن اولاد اپنے والدین کو دیکھنے اور ملنے بھی نہیں اتی اور حکومت بھی مجبور ہو جاتی ہے کہ ایسے والدین کو بوڑھوں کے گھر (old house)منتقل کریں

افسوس کیساتھ کہنا پڑتا ہے کہ بیگانوں کی اندھی تقلید نے اسلامی معاشرے میں بھی یہ حالت وکیفیت پیدا کردی ہےجہاں والدین گھر کے چشم و چراغ ہیں وہاں اہستہ اہستہ انہیں گھر سے دور اور الگ کرتے جارہے ہیںاور بوڑھوں کے گھر بھیجنا شروع کر دیا ہے

قران مجید نے اس غلط ثقافت پر مہر بطلان لگادی ہے اور ماں باپ کے حقوق کے بارے میں سختی سے تاکید کی ہے یہاں تک کہ اپنی عبادت کا حکم دینے کیساتھ ساتھ ماں باپ پر احسان اور نیکی کرنے کا حکم دیا ہےیعنی اللہ کی عبادت کے فورا بعد والدین کے حقوق کا خیال کرنے کا حکم دیا گیا ہےان حقوق کو ہم چند قسموں میں بیان کریں گے

۵۸

حق احسان

متعدد ایات میں یکتا پرستی کی طرف دعوت کیساتھ ساتھ ماں باپ پر احسان کرنے کا بھی حکم ایا ہے:

وَاعْبُدُوا اللهَ وَلا تُشْرِكُوا بِهِ شَيْئًا وَبِالْوَالِدَيْنِ احْسَانًا(1)

 خدا کی عبادت کرو اور اس کیساتھ کسی چیز کو شریک نہ ٹھرھاؤ اور والدین کیساتھ احسان کرودوسری جگہ فرمایا:

قُلْ تَعَالَوْا اتْلُ مَا حَرَّمَ رَبُّكُمْ عَلَيْكُمْ الا تُشْرِكُوا بِهِ شَيْئًا وَبِالْوَالِدَيْنِ احْسَانًا (2)

 کہہ دیجئے کہ اؤ ہم تمہیں بتائیں کہ تمہارے پروردگار نے کیا کیا حرام کیا ہےخبردار کسی کو اس کا شریک نہ بنانا اور ماں باپ کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنا

وَاذْ اخَذْنَا مِيثَاقَ بَنِي اسْرَائِيلَ لا تَعْبُدُونَ الا اللهَ وَبِالْوَالِدَيْنِ احْسَانا وَذِي الْقُرْبَی وَالْيَتَامَی وَالْمَسَاكِينِ(3)

"اس وقت کو یاد کرو جب ہم نے بنی اسرائیل سے عہد لیا کہ خبردار خدا کے علاوہ کسی کی عبادت نہ کرنا اور ماں باپ قرابتداروں، یتیموں اور مسکینوں کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنا"

اور احسان سے مراد کچھ محدود چیزیں نہیں بلکہ سب نیک اور شائستہ کام مراد ہیں جو انسان کسی دوسرے کے لئے انجام دیتا ہےاولاد پر والدین  کا بہت بڑا حق ہے

احسان کرنابہترین عبادت

قَالَ قُلْتُ لِابِي عَبْدِ اللهِ ع ايُّ الْاعْمَالِ افْضَلُ قَالَ الصَّلَاةُ لِوَقْتِهَا وَ بِرُّ الْوَالِدَيْنِ وَ الْجِهَادُ فِي سَبِيلِ اللهِ (4)

--------------

(1):- نساء ۳۶

 (2):- انعام ۱۵۱

(3):- بقرہ ۸۳

(4):-وس ائل‏ الشيعة    ،ج  15، ص 19

۵۹

راوی کہتا ہے کہ میں نے امام صادق (ع)سے سوال کیا: کون سا عمل سب سے افضل ہے ؟ تو  امام نے فرمایا:نماز کا اول وقت  پر  پڑھنا، والدین کے ساتھ نیکی کرنا  اور  خدا  کی راہ  میں  جہاد  کرنا

کافروالدین پربھی احسان!

عَنِ الْفَضْلِ بْنِ شَاذَانَ عَنِ الرِّضَا ع فِي كِتَابِهِ الَ ی الْمَامُونِ قَالَ وَ بِرُّ الْوَالِدَيْنِ وَاجِبٌ وَ انْ كَانَا مُشْرِكَيْنِ وَ لَا طَاعَةَ لَهُمَا فِي مَعْصِيَةِ الْخَالِقِ وَ لَا لِغَيْرِهِمَا فَانَّهُ لَا طَاعَةَ لِمَخْلُوقٍ فِي مَعْصِيَةِ الْخَالِقِ (1)

فضل بن شاذان ؓ امام رضا (ع)سے روایت کرتے ہیں کہ اپ نے مامون کو خط لکھا جس میں والدین کی اطاعت کو واجب قرار دیا، اگرچہ وہ مشرک ہی کیوں نہ ہو ؛ سوائےمعصیت خدا  کے کیونکہ معصیت الہٰی  میں مخلوق  کی اطاعت جائز نہیں ہے

عَنْ ابِي جَعْفَرٍ ع قَالَ ثَلَاثٌ لَمْ يَجْعَلِ اللهُ لِاحَدٍ فِيهِنَّ رُخْصَةً ادَاءُ الْامَانَةِ الَ ی الْبَرِّ وَ الْفَاجِرِ وَ الْوَفَاءُ بِالْعَهْدِ لِلْبَرِّ وَ الْفَاجِرِ وَ بِرُّ الْوَالِدَيْنِ بَرَّيْنِ كَانَا اوْ فَاجِرَيْنِ (2)

امام صادق (ع)سے روایت ہے کہ تین چیزیں ایسی ہیں کہ جن میں خدا نے کسی کے لئے بھی رخصت نہیں دی ہے:

1.  امانت کا واپس کرنا اگرچہ انسان فاسق ہو یا نیک ہو 2.   وعدہ وفا کرنا خواہ اچھا انسان ہو یا برا

3.  والدین کے ساتھ احسان کرنا، خواہ اچھے ہوں یا برے ہوں

 خصوصا  ماں کا حق اولاد کے اوپر زیادہ ہے جیسا کہ  امام صادق(ع) فرماتے ہیں: ایک شخص رسول خدا (ص)کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ میں ایک ایسا جوان ہوں جو خدا کی راہ میں جہاد کرنے کی خواہش رکھتا ہوں لیکن میری ماں اس کام کی طرف ہرگز مائل نہیںرسول اکرم(ص) نے فرمایا: واپس جاؤ اور اپنی ماں کے پاس رہو اس خدا کی قسم جس نے مجھے حق پر مبعوث فرمایا ہے ایک رات ماں کی خدمت کرنا خدا کی راہ میں ایک سال جہاد کرنے سے بہتر ہے(3)

--------------

(1):-وس ائل‏ الشيعة    ، ج 16 ، ص 155

(2):-وس ائل‏ الشيعة    ، ج 21 ، ص490

(3):- جامع السعادات،ج2،ص261

۶۰

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

اس جملے سے حضرت شعيب يہ كہنا چاہتے ہيں كہ اس كام ميں ميراصرف روحانى ، انسانى اور تربيتى مقصدہے ميں ايسے حقائق كو جانتا ہوں جنہيں تم نہيں جانتے اور انسان ہميشہ اس چيز كا دشمن ہوتاہے جسے نہيں جانتا ہے _

اس كے بعد يہ عظيم پيغمبر مزيد كہتے ہيں :يہ گمان نہ كرنا كہ ميں تمہيں كسى چيز سے منع كروں اور پھر خود اسى كى جستجو ميں لگ جائوں ''_(۱)

تمہيں كہوں كم فروشى نہ كرو اور دھوكا بازى اور ملاوٹ نہ كرو ليكن ميں خود يہ اعمال انجام دوں كہ دولت و ثروت اكھٹا كرنے لگوں يا تمہيں تو بتوں كى پرستش سے منع كروں مگر خودان كے سامنے سر تعظيم خم كروں نہيں ايسا ہرگز نہيں ہے _

اس جملے سے يہ معلوم ہوتا ہے كہ وہ حضرت شعيب پر الزام لگاتے تھے كہ خود يہ فائدہ اٹھانے كا ارادہ ركھتا ہے لہذا وہ صراحت سے اس امر كى نفى كرتے ہيں _

آخر ميں ان سے كہتے ہيں :

''ميرا صرف ايك ہدف اور مقصد ہے اور وہ ہے اپنى قدرت واستطاعت كے مطابق تمہارى اور تمہارے معاشرے كى اصلاح ''_(۲)

يہ وہى ہدف ہے جو تمام پيغمبروں كے پيش نطر رہا ہے ،يعنى عقيدے كى اصلاح، اخلاق كى اصلاح، عمل كى اصلاح ، روابط اور اجتماعى نطاموں كى اصلاح _

''اور اس ہدف تك پہنچنے كے لئے صرف خدا سے توفيق طلب كرتا ہوں ''(۳)

مشكلات كے حل كے لئے اس كى مدد پر بھروسہ كرتے ہوئے كو شش كرتاہوں اور اس راہ ميں سختياں گوارا كرنے كےلئے اس كى طرف رجوع كرتا ہوں _

____________________

(۱)سورہ ہود آيت۸۸

(۲)سورہ ہود آيت۸۸

(۳)سورہ ہود آيت ۸۸

۲۶۱

اس كے بعد انہيں ايك اخلاقى نكتے كى طرف متوجہ كيا گيا ہے اور وہ يہ كہ اكثر ايسا ہوتا ہے كہ انسان كسى سے بغض وعداوت كى بناء پر يا تعصب اور ہٹ دھرمى سے اپنے تمام مصالح نظر انداز كرديتا ہے اور انجام كو فراموش كرديتا ہے ،چنانچہ حضرت شعيب نے ان سے فرمايا : ''اے ميرى قوم ايسا نہ ہوكہ ميرى دشمنى اور عداوت تمہيں گناہ، عصياں اور سركشى پر ابھارے اور كہيں ايسانہ ہو كہ وہى بلائيں ، مصيبتيں ، تكليفيں عذاب اور سزائيں جو قوم نوح ، قوم ہود يا قوم صالح كو پہنچيں وہ تمہيں بھى آليں ،يہاں تك كہ قوم لوط كے شہروں كا زير وزبر ہونا اور ان پر سنگبارى كا واقعہ تم سے كوئي دور نہيں ہے''_(۱)

نہ ان كا زمانہ تم سے كوئي دور ہے اور نہ ان كے علاقے تم سے دور ہيں اور نہ ہى تمہارے اعمال اور گناہ ان لوگوں سے كچھ كم ہيں _''مدين'' كہ جو قوم شعيب كا مركز تھا وہ قوم لوط كے علاقے سے كوئي زيادہ فاصلے پر نہيں تھا_ كيونكہ دونوں شامات كے علاقوں ميں تھے_زمانے كے لحاظ سے اگر چہ كچھ فاصلہ تھاتا ہم اتنا نہيں كہ ان كى تاريخ فراموش ہوچكى ہوتي_باقى رہا عمل كے لحاظ سے تو اگر چہ قوم لوط كے جنسى انحرافات نماياں تھے اور قوم شعيب كے اقتصادى انحرافات زيادہ تھے_ اور ظاہراًبہت مختلف تھے ليكن دونوں معاشرے ميں فساد پيدا كرنے،اجتماعى نظام خراب كرنے،اخلاقى فضائل كو نابود كرنے اور برائي پھيلانے ميں ايك دوسرے سے مشابہت ركھتے تھے_

ايك دوسرے كو دھمكياں

يہ عظيم پيغمبرحضرت شعيب كہ انتہائي جچے تلے،بليغ اور دلنشين كلام كى وجہ سے جن كا لقب،''خطيب الانبياء ''ہے،ان كا كلام ان لوگوں كے لئے روحانى ومادى زند گى كى راہيں كھولنے والاتھا_انہوں نے بڑے صبر،حوصلے،متانت اور دلسوزى كے ساتھ ان سے تمام باتيں كيں ليكن ہم ديكھ رہے ہيں كہ اس گمراہ قوم نے انہيں كس طرح سے جواب ديا_

____________________

(۱) سورہ ہود آيت ۸۹

۲۶۲

انہوں نے چار جملوں ميں كہ جو ڈھٹائي،جہالت اور بے خبرى كا مظہر تھے آپ(ع) كو جواب ديا:

پہلے وہ كہنے لگے:''اے شعيب(ع) تمہارى زيادہ تر باتيں ہمارى سمجھ ميں نہيں آتيں ''_(۱)

بنيادى طور پر تيرى باتوں كا كوئي سر پير نہيں ،ان ميں كوئي خاص بات اور منطق ہى نہيں كہ ہم ان پر كوئي غوروفكر كريں _ لہذا ان ميں كوئي ايسى چيز نہيں جس پر ہم عمل كريں اس ليے تم اپنے آ پ كو زيادہ نہ تھكائو اور دوسرے لوگوں كے پيچھے جائو_

''دوسرا يہ كہ ہم تجھے اپنے مابين كمزور پاتے ہيں ''_(۲)

لہذا گر تم يہ سوچتے ہو كہ تم اپنى بے منطق باتيں طاقت كے بل پر منوالوگے تو يہ بھى تمہارى غلط فہمى ہے_

يہ گمان نہ كروں كہ اگر ہم تم سے پوچھ گچھ نہيں كرتے تو يہ تمہارى طاقت كے خوف سے ہے_اگر تيرى قوم و قبيلہ كا احترام پيش نظر نہ ہوتا تو ہم تجھے بد ترين طريقے سے قتل كرديتے اور تجھے سنگسار كرتے_(۳)

آخر ميں انہوں نے كہا:

''تو ہمارے ليے كوئي طاقتور اور ناقابل شكست نہيں ہے''_(۴)

اگر چہ تو اپنے قبيلے كے بزرگوں ميں شمار ہوتا ہے ليكن جو پروگرام تيرے پيش نظر ہے اس كى وجہ سے ہمارى نگاہ ميں كوئي وقعت اور منزلت نہيں ہے_

حضرت شعيب(ع) ان باتوں كے نشتروں اور توہين آميز رويّے سے(سيخ پا ہوكر)اٹھ كرنہيں گئے بلكہ آپ(ع) نے اس طرح انہيں پر منطق اور بليغ پيرائے ميں جواب ديا:''اے قومميرے قبيلے كے يہ چند افراد تمہارے نزديك خدا سے زيادہ عزيز ہيں _''(۵)

____________________

(۱)سورہ ہود آيت۹۱ (۲)سورہ ھود آيت ۹۱

(۳)سورہ شعيب آيت۹۱ (۴)سورہ ھود آيت۹۱

(۵)سورہ ھودآيت۹۲

۲۶۳

تم ميرے خاندان كى خاطر كہ جو تمہارے بقول چند نفر سے زيادہ نہيں ہے ،مجھے آزار نہيں پہنچاتے ہو،توكيوں خدا كے ليے تم ميرى باتوں كو قبول نہيں كرتے ہو_ كيا عظمت خدا كے سامنے چندافرادكى كوئي حيثيت ہے؟

كيا تم خدا كے لئے كسى احترام كے قائل ہو''جبكہ اسے اور اس كے فرمان كو تم نے پس پشت ڈال ديا ہے_''(۱)

آخر ميں حضرت شعيب(ع) كہتے ہيں :'' يہ خيال نہ كرو كہ خدا تمہارے اعمال كو نہيں ديكھتا اور تمہارى باتيں نہيں سنتا_ يقين جانو كہ ميرا پروردگار ان تمام اعمال پر محيط ہے جو تم انجام ديتے ہو''_(۲)

بليغ سخن ور وہ ہے كہ جو اپنى باتوں ميں مدمقابل كى تمام تنقيدوں كا جواب دے_قوم شعيب(ع) كے مشركين نے چونكہ اپنى باتوں كے آخر ميں ضمناًانہيں سنگسار كرنے كى دھمكى دى تھى اور ان كے سامنے اپنى طاقت كا اظہار كيا تھا لہذا ان كى دھمكى كے جواب ميں حضرت شعيب(ع) نے اپنے موقف كواس طرح سے بيان كيا:

اے ميرى قومجو كچھ تمہارے بس ميں ہے كر گزرواور اس ميں كوتاہى نہ كرو اور جو كچھ تم سے ہو سكتا ہے اس ميں رورعايت نہ كرو_ميں بھى اپنا كام كروں گا_ليكن تم جلد سمجھ جائو گے كہ كون رسوا كن عذاب ميں گرفتار ہوتا ہے اور كون جھوٹا ہے ميں يا تم _

اور اب جبكہ معاملہ اس طرح ہے تو تم بھى انتظار كرو اور ميں بھى انتظار كرتا ہوں ،تم اپنى طاقت،تعداد،سرمائے اور اثرورسوخ سے مجھ پر كاميابى كے انتظار ميں رہو اور ميں بھى اس انتظار ميں ہوں كہ عنقريب دردناك عذاب الہى تم جيسى گمراہ قوم كے دامن گير ہو اور تمہيں صفحہ ہستى سے مٹادے_

مدين كے تباہ كاروں كا انجام

گزشتہ اقوام كى سرگزشت كے بارے ميں قرآن مجيد ميں ہم نے بارہا پڑھا ہے كہ پہلے مرحلے ميں

____________________

(۱)سورہء ھود آيت۹۲

(۲)سورہ ھودآيت۹۲

۲۶۴

انبياء انہيں خدا كى طرف دعوت دينے كے ليے قيام كرتے تھے اور ہر طرح سے تعليم و تربيت اور پند ونصيحت ميں كوئي گنجائش نہيں چھوڑتے تھے_ دوسرے مرحلے ميں جب ايك گروہ پر پند و نصائح كا كوئي اثر نہ ہوتا تو انہيں عذاب الہى سے ڈراتے تاكہ وہ آخرى افراد تسليم حق ہوجائيں جو قبوليت كى اہليت ركھتے ہيں اور راہ خدا كى طرف پلٹ آئيں نيز اتمام حجت ہو جائے_

تيسرے مرحلے ميں جب ان پركوئي چيز مو ثر نہ ہوتى تو روئے زمين كى ستھرائي اور پاك سازى كر ليے سنت الہى كے مطابق عذاب آجاتا اور راستے كے ان كانٹوں كو دور كرديتا _

قوم شعيب(ع) يعنى اہل مدين كا بھى آخر كار مرحلہ انجام آپہنچا_چنانچہ قرآن كہتا ہے: ''جب(اس گمراہ، ظالم اور ہٹ دھرم قوم كو عذاب ديئے جانے كے بارے ميں ) ہمارا فرمان آپہنچا تو ہم نے شعيب(ع) اور اس پر ايمان لانے والوں كو اپنى رحمت كى بركت سے نجات دي_''(۱) ''پھر آسمانى پكار اور مرگ آفريں عظيم صيحہ نے ظالموں اور ستمگروں كو اپنى گرفت ميں لے ليا_''(۲)

جيسا كہ ہم كہہ چكے ہيں _''صيحہ'' ہرقسم كى عظيم آواز اور پكار كے معنى ميں ہے، قرآن نے بعض قوموں كى نابودى صيحہ آسمانى كے ذريعے بتائي ہے_ يہ صيحہ احتمالاًصاعقہ كے ذريعے يا اس كى مانند ہوتى ہے اور جيسا كہ ہم نے قوم ثمود كى داستان ميں بيان كيا ہے كہ صوتى امواج بعض اوقات اس قدر قوى ہوسكتى ہيں كہ ايك گروہ كى موت كا سبب بن جائيں _

اس كے بعد فرمايا گيا ہے:''اس آسمانى صيحہ كے اثر سے قوم شعيب كے لوگ اپنے گھروں ميں منہ كے بل جاگرے اور مرگئے اور ان كے بے جان جسم درس عبرت بنے ہو ايك مدت تك وہيں پڑے رہے''_(۳)

ان كى زندگى كى كتاب اس طرح بندكردى گئي كہ ''گويا كبھى وہ اس سرزمين كے ساكن ہى نہ تھے''_

____________________

(۱)سورہ ھودآيت۹۴

(۲)سورہ ھود آيت۹۴

(۳)سورہ ھود آيت۹۴

۲۶۵

سات روز تك شدت كى گرمى پڑى اور ہوا بالكل نہ چلي، اس كے بعد اچانك آسمان پر بادل آئے، ہوا چلى ان كو گھروں سے نكال پھينكا، گرمى كى وجہ سے بادل كے سايہ كے نيچے چلے گئے_

اس وقت صاعقہ موت كا پيغام لے كر آئي خطرناك آواز، آگ كى بارش اور زمين ميں زلزلہ آگيا، اس طرح وہ سب نابود ہوگئے_

وہ تمام دولت وثروت كہ جس كى خاطر انہوں نے گناہ اور ظلم و ستم كيے نابود ہوگئي_ انكى زمينيں اور زرق برق زندگى ختم ہوگئي اور ان كا شور وغو غا خاموش ہوگيا اور آخر كار جيسا كہ قوم عادوثمود كى داستان كے آخر ميں بيان ہوا ہے فرمايا گيا ہے:دورہو سرزمين مدين لطف و رحمت پروردگار سے جيسے كہ قوم ثمود دور ہوئي_(۱)

''واضح ہے كہ يہاں ''مدين''سے مراد اہل مدين ہيں جو رحمت خدا سے دور ہوئے''_

____________________

(۱)سورہ ھود آيت۹۵

۲۶۶

حضرت موسى عليہ السلام

تمام پيغمبر كى نسبت قرآن ميں حضرت موسى (ع) كا واقعہ زيادہ آيا ہے_تيس سے زيادہ سورتوں ميں موسى (ع) و فرعون اور بنى اسرائيل كے واقعہ كى طرف سومرتبہ سے زيادہ اشارہ ہوا ہے_

اگر ہم ان آيتوں كى الگ الگ شرح كريں ااس كے بعد ان سب كو ايك دوسرے كے ساتھ ملا ديں تو بعض افراد كے اس توہم كے برخلاف كہ قرآن ميں تكرار سے كام ليا گيا ہے،ہم كو معلوم ہوگا كہ قرآن ميں نہ صرف تكرار نہيں ہے بلكہ ہر سورہ ميں جو بحث چھيڑى گئي ہے اس كى مناسبت سے اس سرگزشت كا ايك حصہ شاہد كے طور پر پيش كيا گيا ہے_

ضمناًيہ بات بھى ذہن ميں ركھنا چايئےہ اس زمانے ميں مملكت مصر نسبتاً وسيع مملكت تھي_وہاں كے رہنے والوں كا تمدن بھى حضرت نوح(ع) ،ہود(ع) اور شعيب(ع) كى اقوام سے زيادہ ترقى يافتہ تھا_ لہذا حكومت فراعنہ كى مقاومت بھى زيادہ تھي_

اسى بناء پر حضرت موسى (ع) كى تحريك اور نہضت بھى اتنى اہميت كى حامل ہوئي كہ اس ميں بہت زيادہ عبرت انگيز نكات پائے جاتے ہيں _بنابريں اس قرآن ميں حضرت موسى (ع) كى زندگى اور بنى اسرائيل كے حالات كے مختلف پہلوئوں پر روشنى ڈالى گئي ہے_

كلى طور پر اس عظيم پيغمبر(ع) كى زندگى كو پانچ ادوار ميں تقسيم كيا جاسكتا ہے_

۲۶۷

حضرت موسى عليہ السلام كى زندگى كے پانچ ادوار

۱_پيدائش سے لے كر آغوش فرعون ميں آپ(ع) كى پرورش تك كا زمانہ_

۲_مصر سے آپ(ع) كا نكلنا اور شہر مدين ميں حضرت شعيب(ع) كے پاس كچھ دقت گزارنا_

۳_آپ(ع) كى بعثت كا زمانہ اور فرعون اور اس كى حكومت والوں سے آپ(ع) كے متعدد تنازعے_

۴_فرعونيوں كے چنگل سے موسى (ع) اور بنى اسرائيل كى نجات اور وہ حوادث جو راستہ ميں اور بيت المقدس پہنچنے پر رونما ہوئے_

۵_حضرت موسى (ع) اور بنى اسرائيل كے درميان كشمكش كا زمانہ_

ولادت حضرت موسى عليہ السلام

حكومت فرعون نے بنى اسرئيل كے يہاں جو نومولود بيٹے ہوتے تھے انہيں قتل كرنے كا ايك وسيع پروگرام بنايا تھا_ يہاں تك كہ فرعون كى مقرر كردہ دائياں بنى اسرائيل كى باردار عورتوں كى نگرانى كرتى تھيں _

ان دائيوں ميں سے ايك والدہ موسى (ع) كى دوست بن گئي تھي_ (شكم مادر ميں موسى (ع) كا حمل مخفى رہا اوراس كے آثار ظاہر نہ ہوئے) جس وقت مادر موسى (ع) كو يہ احساس ہوا كہ بچے كى ولادت كا وقت قريب ہے تو آپ نے كسى كے ذريعہ اپنى دوست دائي كو بلانے بھيجا_جب وہ آگئي تو اس سے كہا:ميرے پيٹ ميں ايك فرزند ہے،آج مجھے تمہارى دوستى اور محبت كى ضرورت ہے_

جس وقت حضرت موسى عليہ السلام پيدا ہوگئے تو آپ كى آنكھوں ميں ايك خاص نور چمك رہا تھا،چنانچہ اسے ديكھ كر وہ دايہ كاپنے لگى اور اس كے دل كى گہرائي ميں محبت كى ايك بجلى سماگئي،جس نے اس كے دل كى تمام فضاء كو روشن كرديا_

يہ ديكھ كر وہ دايہ، مادر موسى (ع) سے مخاطب ہوكر بولى كہ ميرا يہ خيال تھا كہ حكومت كے دفتر ميں جاكے اس بچے كے پيدا ہونے كى خبر دوں تاكہ جلاد آئيں اور اسے قتل كرديں اور ميں اپنا انعام پالوں _ مگر ميں كيا كروں

۲۶۸

كہ ميں اپنے دل ميں اس نوزائيدہ بچے كى شديد محبت كا احساس كرتى ہوں _ يہاں تك كہ ميں يہ نہيں چاہتى كہ اس كا بال بھى بيكا ہو_اس كى اچھى طرح حفاظت كرو_ميرا خيال ہے كہ آخر كار يہى ہمارا دشمن ہوگا_

جناب موسى عليہ السلام تنور ميں

وہ دايہ مادر موسى (ع) كے گھر سے باہر نكلي_ تو حكومت كے بعض جاسوسوں نے اسے ديكھ ليا_ انھوں نے تہيہ كرليا كہ وہ گھر ميں داخل ہوجائيں گے_ موسى (ع) كى بہن نے اپنى ماں كو اس خطرے سے آگاہ كرديا ماں يہ سن كے گھبراگئي_ اس كى سمجھ ميں نہ آتا تھا كہ اب كيا كرے_

اس شديد پريشانى كے عالم ميں جب كہ وہ بالكل حواس باختہ ہورہى تھياس نے بچے كو ايك كپڑے ميں لپيٹا او رتنور ميں ڈال ديا_ اس دوران ميں حكومت كے آدمى آگئے_مگر وہاں انھوں نے روشن تنور كے سوا كچھ نہ ديكھا_ انھوں نے مادر موسى (ع) سے تفتيش شرو ع كردى _ پوچھا_دايہ يہاں كيا كررہى تھي_؟ موسى (ع) كى ماں نے كہا كہ وہ ميرى سہيلى ہے مجھ سے ملنے آئي تھى _حكومت كے كارندے مايوس ہوكے واپس ہوگئے_

اب موسى (ع) كى ماں كو ہوش آيا_ آپ نے اپنى بيٹى سے پوچھا كہ بچہ كہاں ہے؟ اس نے لاعلمى كا اظہار كيا_ ناگہاں تنور كے اندر سے بچہ كے رونے كى آواز آئي_ اب ماں تنور كى طرف دوڑى _كيا ديكھتى ہے كہ خدا نے اس كے لئے آتش تنور كو ''ٹھنڈا اور سلامتى كہ جگہ''بناديا ہے_ وہى خدا جس نے حضرت ابراھيم(ع) كے ليے آتش نمرود كو ''برد وسلام''بناديا تھا_ اس نے اپنا ہاتھ بڑھايا اور بچے كو صحيح وسالم باہر نكال ليا_

ليكن پھر بھى ماں محفوظ نہ تھي_كيونكہ حكومت كے كارندے دائيں بائيں پھرتے رہتے اور جستجو ميں لگے رہتے تھے_ كسى بڑے خطرے كے ليے يہى كافى تھا كہ وہ ايك نوزائيد بچے كے رونے كى آواز سن ليتے_

اس حالت ميں خدا كے ايك الہام نے ماں كے قلب كو روشن كرديا_وہ الہام ايسا تھا كہ ماں كو بظاہر ايك خطرناك كام پر آمادہ كررہا تھا_مگر پھر بھى ماں اس ارادے سے اپنے دل ميں سكون محسوس كرتى تھي_

۲۶۹

''ہم نے موسى (ع) كى ماں كى طرف وحى كى كہ اسے دودھ پلا اور جب تجھے اس كے بارے ميں كچھ خوف پيدا ہوتو اسے دريا ميں ڈال دينا اور ڈرنا نہيں اور نہ غمگين ہونا كيونكہ ہم اسے تيرے پاس لوٹا ديں گے اور اسے رسولوں ميں سے قرار ديں گے_(۱)

اس نے كہا: ''خدا كى طرف سے مجھ پريہ فرض عائد ہوا ہے_ ميں اسے ضرور انجام دوں گي''_اس نے پختہ ارادہ كرليا كہ ميں اس الہام كو ضرور عملى جامہ پہنائوں گى اور اپنے نوزائيدہ بچے كو دريائے نيل ميں ڈال دوں گي_

اس نے ايك مصرى بڑھئي كو تلاش كيا (وہ بڑھئي قبطى اور فرعون كى قوم ميں سے تھا)اس نے اس بڑھئي سے درخواست كى كہ ميرے ليے ايك چھوٹا سا صندوق بنادے_

بڑھئي نے پوچھا:جس قسم كا صندوقچہ تم بنوانا چاہتى ہو اسے كس كام ميں لائوگي؟

موسى (ع) كى ماں جو دروغ گوئي كى عادى نہ تھى اس نازك مقام پر بھى سچ بولنے سے باز نہ رہي_اس نے كہا:ميں بنى اسرائيل كى ايك عورت ہوں _ميرا ايك نوزائيد بچہ لڑكا ہے_ميں اس بچے كو اس صندوق ميں چھپانا چاہتى ہوں _

اس قبطى بڑھئي نے اپنے دل ميں يہ پختہ ارادہ كرليا كہ جلادوں كو يہ خبر پہنچادےگا_وہ تلاش كركے ان كے پاس پہنچ گيا_ مگر جب وہ انھيں يہ خبر سنانے لگاتو اس كے دل پر ايسى وحشت طارى ہوئي كہ اس كى زبان بند ہوگئي_ وہ صرف ہاتھوں سے اشارے كرتا تھا اور چاہتا تھا كہ ان علامتوں سے انھيں اپنا مطلب سمجھا دے_ حكومت كے كارندوں نے اس كى حركات ديكھ كر يہ سمجھا كہ يہ شخص ہم سے مذاق كررہا ہے_اس ليے اسے مارا اور باہر نكال ديا_

جيسے ہى وہ اس دفتر سے باہر نكلا اس كے ہوش و حواس يكجاہوگئے، وہ پھر جلادوں كے پاس گيا اور اپنى حركات سے پھر ماركھائي_

____________________

(۱)سورہ قصص آيت۷

۲۷۰

آخر اس نے يہ سمجھا كہ اس واقعے ميں ضرور كوئي الہى راز پوشيدہ ہے_چنانچہ اس نے صندوق بناكے حضرت موسى (ع) كى والدہ كو دےديا_

دريا كى موجيں گہوارے سے بہتر

غالباًصبح كا وقت تھا_ابھى اہل مصر محو خواب تھے_مشرق سے پو پھٹ رہى تھي_ماں نے نوزائيدہ بچے اور صندوق كو دريائے نيل كے كنارے لائي،بچے كو آخرى مرتبہ دودھ پلايا_پھر اسے،مخصوص صندوق ميں ركھا(جس ميں يہ خصوصيت تھى كہ ايك چھوٹى كشتى كى طرح پانى پر تيرسكے)پھر اس صندوق كو نيل كى موجوں كے سپرد كرديا_ نيل كى پر شور موجوں نے اس صندوق كوجلدہى ساحل سے دور كرديا_ماں كنارے كھڑى ديكھ رہى تھى _ معاًاسے ايسا محسوس ہوا كہ اس كا دل سينے سے نكل كر موجوں كے اوپر تيررہاہے_اس دقت،اگر الطاف الہى اس كے دل كو سكون و قرار نہ بخشتا تو يقينا وہ زور زور سے رونے لگتى اور پھر سارا راز فاش ہو جاتا،كسى آدمى ميں يہ قدرت نہيں ہے كہ ان حساس لمحات ميں ماں پر جو گزررہى تھي_الفاظ ميں اس كا نقشہ كھينچ سكے مگر _ ايك فارسى شاعرہ نے كسى حد تك اس منظر كو اپنے فصيح اور پر از جذبات اشعار ميں مجسم كيا ہے_

۱_مادر موسى (ع) چو موسى (ع) رابہ نيل ---درفگند از گفتہ رب جليل

۲_خودز ساحل كرد باحسرت نگاہ ---گفت كاى فرزند خرد بى گناہ

۳_گر فراموشت كند لطف خداى ---چون رہى زين كشتى بى ناخداي

۴_وحى آمد كاين چہ فكر باطل است ---رہرو ما اينك اندر منزل است

۵_ماگرفتيم آنچہ را انداختى ----دست حق را ديدى ونشاختي

۶_سطح آب از گاہوارش خوشتراست ---دايہ اش سيلاب و موجش مادراست

۷_رودھا از خودنہ طغيان مى كنند--- آنچہ مى گوئيم ما آن مى كنند

۲۷۱

۸_ما بہ دريا حكم طوفان مى دہيم

ما بہ سيل وموج فرماں مى دہيم

۹_نقش ہستى نقشى از ايوان ما است

خاك وباد وآب سرگردان ماست

۱۰_بہ كہ برگردى بہ ما بسپاريش

كى تو از ما دوسترمى داريش؟(۱)

۱_جب موسى (ع) كى ماں نے حكم الہى كے مطابق موسى (ع) كو دريائے نيل ميں ڈال ديا_

۲_وہ ساحل پركھڑى ہوئي حسرت سے ديكھ رہى تھى اور كہہ رہى تھى كہ اے ميرے بے گناہ ننھے بيٹے

۳_اگر لطف الہى تيرے شامل حال نہ ہو تو ،تو اس كشتى ميں كيسے سلامت رہ سكتا ہے جس كا كوئي نا خدا نہيں ہے_

۴_حضرت موسى عليہ السلام كى ماں كو اس وقت وحى ہوئي كہ تيرى يہ كيا خام خيالى ہے ہمارا مسافر تو سوئے منزل رواں ہے_

۵_تونے جب اس بچے كو دريا ميں ڈالاتھا تو ہم نے اسے اسى وقت سنبھال ليا تھا _ تو نے خدا كا ہاتھ ديكھا مگر اسے پہچانا نہيں _

۶_اس وقت پانى كى سطح(اس كے ليے)اس كے گہوارے سے زيادہ راحت بخش ہے_دريا كا سيلاب اس كى دايہ گيرى كررہا ہے اور اس كى موجيں آغوش مادر بنى ہوئي ہيں _

۷_ديكھوں دريائوں ميں ان كے ارادہ و اختيار سے طغيانى نہيں آتي_وہ ہمارے حكم كے مطيع ہيں وہ وہى كرتے ہيں جو ہمارا امر ہوتا ہے_

۸_ہم ہى سمندروں كو طوفانى ہونے كاحكم ديتے ہيں اور ہم ہى سيل دريا كو روانى اور امواج بحر كو تلاطم كا فرمان بھيجتے ہيں _

____________________

(۱)از ديوان پروين اعتصامي

۲۷۲

۹_ہستى كا نقش ہمارے ايوان كے نقوش ميں سے ايك نقش ہے جو كچھ ہے،يہ كائنات تو اس كامشتے ازخروارى نمونہ ہے_ اور خاك،پاني،ہوا اور آتش ہمارے ہى اشارے سے متحرك ہيں _

۱۰_بہتر يہى ہے كہ تو بچے كو ہمارے سپرد كردے اور خود واپس چلى جا_ كيونكہ تو اس سے ہم سے زيادہ محبت نہيں كرتي_

دلوں ميں حضرت مو سى عليہ السلام كى محبت

اب ديكھناچاہيئے فرعون كے محل ميں كيا ہورہا تھا؟

روايات ميں مذكور ہے كہ فرعون كى ايك اكلوتى بيٹى تھي_وہ ايك سخت بيمارى سے شديد تكليف ميں تھي_فرعون نے اس كا بہت كچھ علاج كرايا مگر بے سود_اس نے كاہنوں سے پوچھا_ انھوں نے كہا:''اے فرعون ہم پيشن گوئي كرتے ہيں كہ اس دريا ميں سے ايك آدمى تيرے محل ميں داخل ہوگا_اگر اس كے منہ كى رال اس بيمار كے جسم پر ملى جائے گى تو اسے شفا ہوجائيگي_

چنانچہ فرعون اور اس كى ملكہ آسيہ ايسے واقعے كے انتظار ميں تھے كہ ناگہاں ايك روز انھيں ايك صندوق نظر آيا جو موجوں كى سطح پر تير رہا تھا_فرعون نے حكم ديا كہ سركارى ملازمين فوراً ديكھيں كہ يہ صندوق كيسا ہے اور اسے پانى ميں سے نكال ليں _ديكھيں كہ اس ميں كيا ہے؟

نوكروں نے وہ عجيب صندوق فرعون كے سامنے لاكے ركھ ديا_ كسى كو اس كا ڈھكنا كھولنے كى ہمت نہ ہوئي_ مطابق مشيت الہي،يہ لازمى تھا كہ حضرت موسى (ع) كى نجات كے ليے صندوق كا ڈھكنا فرعون ہى كے ہاتھ سے كھولا جائے،چنانچہ ايسا ہى ہوا_

جس وقت فرعون كى ملكہ نے اس بچے كو ديكھا تو اسے يوں محسوس ہواكہ ايك بجلى چمكى ہے جس نے اس كے دل كو منور كرديا ہے_

ان دونوں بالخصوص فرعون كى ملكہ كے دل ميں اس بچے كى محبت نے گھر بناليا اور جب اس بچے كا

۲۷۳

آب دہن اس كے ليے موجب شفا ہوگيا تو يہ محبت اور بھى زيادہ ہوگئي _

قرآن ميں يہ واقعہ اس طرح مذكور ہے كہ:_فرعون كے اہل خانہ نے موسى (ع) كو نيل كى موجوں كے اوپر سے پكڑ ليا_ تا كہ وہ ان كا دشمن اور ان كے ليے باعث اندوہ ہوجائے_(۱)

''يہ امر بديہى ہے كہ فرعون كے اہل خانہ نے اس بچے كے قنداقہ(وہ كپڑاجس ميں بچہ كو لپيٹتے ہيں )كو اس نيت سے دريا سے نہيں نكالا تھا كہ اپنے جانى دشمن كو اپنى گود ميں پاليں ،بلكہ وہ لوگ بقول ملكہ فرعون،اپنے ليے ايك نور چشم حاصل كرناچاہتے تھے_

ليكن انجام كار ايسا ہى ہوا،اس معنى و مراد كى تعبير ميں لطافت يہى ہے كہ خدا اپنى قدرت كا اظہار كرنا چاہتا ہے كہ وہ كس طرح اس گروہ كو جنھوں نے اپنى تمام قوتيں اور وسائل،بنى اسرائيل كى اولاد ذكور كو قتل كرنے كے ليے وقف كرديا تھا،اس خدمت پر مامور كرے كہ جس بچے كو نابود كرنے كے ليے انھوں نے يہ پروگرام بنايا تھا،اسى كوو وہ اپنى جان كى طرح عزيز ركھيں اور اسى كى پرورش كريں _

قرآن كى آيات سے يہ معلوم ہوتاہے كہ اس بچے كى بابت فرعون،اس كى ملكہ اور ديگر اہل خاندان ميں باہم نزاع اور اختلاف بھى ہوا تھا،كيونكہ قرآن شريف ميں يوں بيان ہے:فرعون كى بيوى نے كہا كہ يہ بچہ ميرى اور تيرى آنكھوں كا نور ہے_ اسے قتل نہ كرو_ ممكن ہے يہ ہمارے ليے نفع بخش ہو يا ہم اسے ہم اپنا بيٹابنا ليں _(۲)

ايسا معلوم ہوتا ہے كہ فرعون بچے كے چہرے اور دديگر علامات سے،من جملہ ان كے اسے صندوق ميں ركھنے اور دريائے نيل ميں بہادينے سے يہ سمجھ گيا تھا كہ يہ بنى اسرائيل ميں سے كسى كا بچہ ہے_

يہ سمجھ كر ناگہاں ،بنى اسرائيل ميں سے ايك آدمى كى بغاوت اور اس كى سلطنت كے زوال كا كابوس اس كى روح پر مسلط ہوگيا اور وہ اس امر كا خواہاں ہوا كہ اس كا وہ ظالمانہ قانون،جو بنى اسرائيل كے تمام نوزاد اطفال كے ليے جارى كيا گيا تھا اس بچے پر بھى نافذ ہو_

____________________

(۱)سورہ قصص آيت ۸

(۲)قصص آيت ۹

۲۷۴

فرعون كے خوشامدى درباريوں او ررشتہ داروں نے بھى اس امر ميں فرعون كى تائيد و حمايت كى اور كہا اس كى كوئي دليل نہيں ہے كہ يہ بچہ قانون سے مستثنى رہے_

ليكن فرعون كى بيوى آسيہ جس كے بطن سے كوئي لڑكا نہ تھا اور اس كا پاك دل فرعون كے درباريوں كى مانند نہ تھا،اس بچے كے ليے محبت كا كان بن گيا تھا_ چنانچہ وہ ان سب كى مخالفت پرآمادہ ہوگئي اور چونكہ اس قسم كے گھريلو اختلافات ميں فتح ہميشہ عورتوں كى ہوتى ہے،وہ بھى جيت گئي_

اگر اس گھريلو جھگڑے پر،دختر فرعون كى شفايابى كے واقعے كا بھى اضافہ كرليا جائے تواس اختلاف باہمى ميں آسيہ كى فتح كا امكان روشن تر ہو جاتا ہے_

قرآن ميں ايك بہت ہى پر معنى فقرہ ہے:''وہ نہيں جانتے تھے كہ كيا كررہے ہيں :''(۱)

البتہ وہ بالكل بے خبر تھے كہ خدا كا واجب النفوذ فرمان اور اس كى شكست ناپذير مشيت نے يہ تہيہ كرليا ہے كہ يہ طفل نوزاد انتہائي خطرات ميں پرورش پائے _ اور كسى آدمى ميں بھى ارادہ و مشيت الہى سے سرتابى كى جرا ت اور طاقت نہيں ہے''_

اللہ كى عجيب قدرت

اس چيز كانام قدرت نمائي نہيں ہے كہ خداآسمان و زمين كے لشكروں كو مامور كركے كسى پُرقوت اور ظالم قوم كو نيست و نابود كردے_

بلكہ قدرت نمائي يہ ہے كہ ان ہى جباران مستكبر سے يہ كا م لے كر وہ اپنے آپ كو خود ہى نيست و نابود كرليں اور ان كے دل و دماغ ميں ايسے خيالات پيدا ہوجائيں كہ بڑے شوق سے لكڑياں جمع كريں اور اس كى آگ ميں جل مريں ،اپنے ليے خودہى قيدخانہ بنائيں اور اسميں اسير ہوكے جان دے ديں ، اپنے ليے خود ہى صليب كھڑى كريں اور اس پر چڑھ مرجائيں _

____________________

(۱)سورہ قصص آيت ۹

۲۷۵

فرعون اوراسكے زور منداور ظالم ساتھيوں كے ساتھ بھى يہى پيش آيا_ چنانچہ تمام مراحل ميں حضرت موسى (ع) كى نجات اور پرورش انہى كے ہاتھوں سے ہوئي،حضرت موسى (ع) كى دايہ قبطيوں ميں سے تھي،صندوق موسى (ع) كو امواج نيل سے نكالنے اور نجات دينے والے متعلقين فرعون تھے،صندوق كا ڈھكنا كھولنے والا خود فرعون يا اس كى اہليہ تھي،اور آخر كا ر فرعون شكن اور مالك غلبہ و اقتدار موسى (ع) كے ليے امن و آرام اور پرورش كى جگہ خود فرعون كا محل قرار پايا_ يہ ہے پروردگار عالم خدا كى قدرت_

موسى عليہ السلام پھر آغوش مادر ميں

حضرت موسى عليہ السلام كى ماں نے اس طرح سے جيسا كہ ہم نے پيشتر بيان كيا ہے،اپنے فرزند كو دريائے نيل كى لہروں كے سپرد كرديا_ مگر اس عمل كے بعد اس كے دل ميں جذبات كا يكايك شديد طوفان اٹھنے لگا،نوزائيدہ بيٹے كى ياد،جس كے سوا اس كے دل ميں كچھ نہ تھا،اس كے احساسات پر غالب آگئي تھي،قريب تھا كہ وہ دھاڑيں مار كر رونے لگے اور اپنا راز فاش كردے،قريب تھا كہ چيخ مارے اور اپنے بيٹے كى جدائي ميں نالے كرے_

ليكن عنايت خداوندى اس كے شامل حال رہى جيسا كہ قرآن ميں مذكور ہے:''موسى عليہ السلام كى ماں كا دل اپنے فرزند كى ياد كے سوا ہر چيز سے خالى ہوگيا،اگر ہم نے اس كا دل ايمان اور اميد كے نور سے روشن نہ كيا ہوتا تو قريب تھا كہ وہ راز فاش كرديتي_ ليكن ہم نے يہ اس ليے كيا تاكہ وہ اہل ايمان ميں سے رہے''_(۱)

يہ قطعى فطرى امر ہے كہ: ايك ماں جو اپنے بچے كو اس صورت حال سے اپنے پاس سے جدا كرے وہ اپنى اولاد كے سوا ہر شے كو بھول جائے گي_ اور اس كے حواس ايسے باختہ ہو جائيں گے كہ ان خطرات كا لحاظ

____________________

(۱)سورہ قصص آيت۱۰

۲۷۶

كيے بغير جو اس كے اور اس كے بيٹے دونوں كے سر پر منڈلارہے تھے فرياد كرے اور اپنے دل كا راز فاش كردے_

ليكن وہ خدا جس نے اس ماں كے سپرد يہ اہم فريضہ كيا تھا،اسى نے اس كے دل كو ايسا حوصلہ بھى بخشا كہ وعدہ الہى پر اس كا ايمان ثابت رہے اور اسے يہ يقين رہے كہ اس كا بچہ خدا كے ہاتھ ميں ہے آخر كار وہ پھر اسى كے پاس آجائے گا اور پيغمبر بنے گا_

اس لطف خداوندى كے طفيل ماں كے دل كا سكون لوٹ آيامگر اسے آرزورہى كہ وہ اپنے فرزندكے حال سے باخبر رہے'' اس لئے اس نے موسى عليہ السلام كى بہن سے كہاكہ جا تو ديكھتى رہ كہ اس پر كيا گزرتى ہے''_(۱)

موسى عليہ السلام كى بہن ماں كا حكم بجالائي اور اتنے فاصلہ سے جہاں سے سب كچھ نظر آتا تھا ديكھتى رہى _ اس نے دور سے ديكھا كہ فرعون كے عمال اس كے بھائي كے صندوق كو پانى ميں سے نكال رہے ہيں اور موسى عليہ السلام كو صندوق ميں سے نكال كر گود ميں لے رہے ہيں _

''مگر وہ لوگ اس بہن كى ا س كيفيت حال سے بے خبر تھے_''_(۲)

بہر حال ارادہ الہى يہ تھا كہ يہ طفل نوزاد جلد اپنى ماں كے پاس واپس جائے اور اس كے دل كو قرار آئے_اس ليے فرمايا گيا ہے :''ہم نے تمام دودھ پلانے والى عورتوں كو اس پر حرام كرديا تھا''_(۳)

يہ طبيعى ہے كہ شير خوار نوزاد چندگھنٹے گزرتے ہى بھوك سے رونے لگتا ہے اور بے تاب ہوجاتا ہے_ درين حال لازم تھا كہ موسى عليہ السلام كو دودھ پلانے كے ليے كسى عورت كى تلاش كى جاتي_ خصوصاً جبكہ ملكہ مصر اس بچے سے نہايت دل بستگى ركھتى تھى اور اسے اپنى جان كے برابر عزيز ركھتى تھي_

محل كے تمام خدام حركت ميں آگئے اور دربدر كسى دودھ پلانے والى كو تلاش كرنے لگے_مگر يہ عجيب بات تھى كہ وہ كسى كا دودھ پيتا ہى نہ تھا_

____________________

(۱)سورہ قصص آيت۱۱

(۲)سورہ قصص آيت۱۱

(۳)سورہ قصص آيت۱۲

۲۷۷

ممكن ہے كہ وہ بچہ ان عورتوں كى صورت ہى سے ڈرتا ہو اور ان كے دودھ كا مزہ(جس سے وہ آشنا نہ تھا) اسے اس كا ذائقہ ناگوار اور تلخ محسوس ہوتا ہو_اس بچے كا طور كچھ اس طرح كا تھا گويا كہ ان (دودھ پلانے والي)عورتوں كى گود سے اچھل كے دورجاگرے در اصل يہ خدا كى طرف سے''تحريم تكويني''تھى كہ اس نے تمام عورتوں كو اس پر حرام كرديا تھا_

بچہ لحظہ بہ لحظہ زيادہ بھوكا اور زيادہ بيتاب ہوتا جاتا تھا_ بار بار رورہا تھا اور اس كى آواز سے فرعون كے محل ميں شور ہورہا تھا_ اور ملكہ كا دل لرز رہا تھا_

خدمت پرمامور لوگوں نے اپنى تلاش كو تيز تر كرديا_ ناگہاں قريب ہى انھيں ايك لڑكى مل جاتى ہے_ وہ ان سے يہ كہتى ہے:ميں ايك ايسے خاندان كو جانتى ہوں جو اس بچے كى كفالت كرسكتا ہے_ وہ لوگ اس كے ساتھ اچھا سلوك كريں گے_

''كيا تم لوگ يہ پسند كروگے كہ ميں تمہيں وہاں لے چلوں ''؟(۱)

ميں بنى اسرائيل ميں سے ايك عورت كو جانتى ہوں جس كى چھاتيوں ميں دودھ ہے اور اس كا دل محبت سے بھرا ہوا ہے_ اس كا ايك بچہ تھا وہ اسے كھو چكى ہے_ وہ ضرور اس بچے كو جو محل ميں پيدا ہوا ہے،دودھ پلانے پر آمادہ ہوجائے گي_

وہ تلاش كرنے والے خدام يہ سن كر خوش ہوگئے اور موسى عليہ السلام كى ماں كو فرعون كے محل ميں لے گئے_ اس بچے نے جونہى اپنى ماں كى خوشبو سونگھى اس كا دودھ پينے لگا_ اور اپنى ماں كا روحانى رس چوس كر اس ميں جان تازہ آگئي_اسكى آنكھوں ميں خوشى كا نور چمكنے لگا_

اس وقت وہ خدام جو ڈھونڈ ڈھونڈ كے تھك گئے تھے_ بہت ہى زيادہ خوش و خرم تھے_ فرعون كى بيوى بھى اس وقت اپنى خوشى كو نہ چھپا سكي_ممكن ہے اس وقت لوگوں نے كہا ہوكہ تو كہاں چلى گئي تھي_ہم تجھے ڈھونڈ ڈھونڈ كے تھك گئے _ تجھ پر اورتيرے شير مشكل كشا پر آفرين ہے_

____________________

(۱)سورہ قصص آيت۱۲

۲۷۸

صرف تيرا ہى دودھ كيوں پيا

جس وقت حضرت موسى عليہ السلام ماں كا دودھ پينے لگے،فرعون كے وزير ہامان نے كہا: مجھے لگتا ہے كہ تو ہى اسكى ماں ہے_ بچے نے ان تمام عورتوں ميں سے صرف تيرا ہى دودھ كيوں قبول كرليا؟

ماں نے كہا:اس كى وجہ يہ ہے كہ ميں ايسى عورت ہوں جس كے دودھ ميں سے خوشبو آتى ہے_ ميرا دودھ نہايت شيريں ہے_ اب تك جو بچہ بھى مجھے سپرد كيا گيا ہے_ وہ فوراً ہى ميرا دودھ پينے لگتا ہے_

حاضرين دربار نے اس قول كى صداقت كو تسليم كرليا اور ہر ايك نے حضرت موسى عليہ السلام كى ماں كو گراں بہا ہديے اور تحفے ديے_

ايك حديث جو امام باقر عليہ السلام سے مروى ہے اس ميں منقول ہے كہ:''تين دن سے زيادہ كا عرصہ نہ گزرا تھا كہ خدانے كے بچے كواس كى ماں كے پاس لوٹا ديا''_

بعض اہل دانش كا قول ہے كہ حضرت موسى عليہ السلام كے ليے يہ''تحريم تكويني''(يعنى دوسرى عورتوں كا حرام كيا جانا)اس سبب سے تھاكہ خدا يہ نہيں چاہتا تھا كہ ميرا فرستادہ پيغمبر ايسا دودھ پيئے جو حرام سے آلودہ ہو اور ايسا مال كھاكے بنا ہو جو چوري،نا جائز ذرائع،رشوت اور حق الناس كو غصب كركے حاصل كيا گيا ہو_

خدا كى مشيت يہ تھى كہ حضرت موسى عليہ السلام اپنى صالحہ ماں كے پاك دودھ سے غذا حاصل كريں _تاكہ وہ اہل دنيا كے شر كے خلاف ڈٹ جائيں اور اہل شروفساد سے نبردآزمائي كرسكيں _

''ہم نے اس طرح موسى عليہ السلام كو اس كى ماں كے پاس لوٹا ديا_تاكہ اس كى آنكھيں روشن ہوجائيں اور اس كے دل ميں غم واندوہ باقى نہ رہے اور وہ يہ جان لے كہ خدا كا وعدہ حق ہے_ اگر چہ اكثر لوگ يہ نہيں جانتے''_(۱)

____________________

(۱)سورہ قصص آيت ۱۳

۲۷۹

اس مقام پر ايك سوال پيدا ہوتا ہے اور وہ يہ ہے كہ:كيا وابستگان فرعون نے موسى عليہ السلام كو پورے طور سے ماں كے سپرد كرديا تھا كہ وہ اسے گھر لے جائے اور دودھ پلايا كرے اور دوران رضاعت روزانہ يا كبھى كبھى بچے كو محل ميں لايا كرے تا كہ ملكہ مصر اسے ديكھ ليا كرے يا يہ كہ بچہ محل ہى ميں رہتا تھا اور موسى عليہ السلام كى ماں معين اوقات ميں آكر اسے دودھ پلاجاتى تھي؟

مذكورہ بالا دونوں احتمالات كے ليے ہمارے پاس كوئي واضح دليا نہيں ہے_ ليكن احتمال اول زيادہ قرين قياس ہے_

ايك اور سوال يہ ہے كہ:

آيا عرصہ شير خوارگى كے بعد حضرت موسى عليہ السلام فرعون كے محل ميں چلے گئے يا ان كا تعلق اپنى ماں اور خاندان كے ساتھ باقى رہا اور محل سے وہاں آتے جاتے رہے؟

اس مسئلے كے متعلق بعض صاحبان نے يہ كہا ہے كہ شير خوار گى كے بعد آپ كى ماں نے انھيں فرعون اور اس كى بيوى آسيہ كے سپرد كرديا تھا اور حضرت موسى عليہ السلام ان دونوں كے پاس پرورش پاتے رہے_

اس ضمن ميں راويوں نے فرعون كے ساتھ حضرت موسى عليہ السلام كى طفلانہ(مگر با معنى )باتوں كا ذكر كيا ہے كہ اس مقام پر ہم ان كو بعذر طول كلام كے پيش نظر قلم انداز كرتے ہيں _ ليكن فرعون كا يہ جملہ جے اس نے بعثت موسى عليہ السلام كے بعد كہا:

''كيا ہم نے تجھے بچپن ميں پرورش نہيں كيا اور كيا تو برسوں تك ہمارے درميان نہيں رہا''_(۱)

اس جملے سے معلوم ہوتا ہے كہ جناب موسى عليہ السلام چند سال تك فرعون كے محل ميں رہتے تھے_

على ابن ابراھيم كى تفسير سے استفادہ ہوتا ہے كہ حضرت موسى عليہ السلام تازمانہ بلوغ فرعون كے محل ميں نہايت احترام كے ساتھ رہے_مگر ان كى توحيد كے بارے ميں واضح باتيں فرعون كو سخت ناگوار ہوتى تھيں _

____________________

(۱)سورہ شعراء آيت۱۸

۲۸۰

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667