قصص القرآن-منتخب از تفسير نمونه

قصص القرآن-منتخب از تفسير نمونه   5%

قصص القرآن-منتخب از تفسير نمونه   مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 667

قصص القرآن-منتخب از تفسير نمونه
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 667 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 334622 / ڈاؤنلوڈ: 6149
سائز سائز سائز
قصص القرآن-منتخب از تفسير نمونه

قصص القرآن-منتخب از تفسير نمونه

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

يہاں تك كہ اس نے انھيں قتل كرنے كا ارادہ كرليا_ حضرت موسى عليہ السلام اس خطرے كو بھاپ گئے اوربھاگ كر شہر ميں آگئے_ يہاں وہ اس واقعے سے دوچار ہوئے كہ دو آدمى لڑرہے تھے جن ميں سے ايك قبطى اور ايك سبطى تھا_(۱)

موسى عليہ السلام مظلوموں كے مددگار كے طورپر

اب ہم حضرت موسى عليہ السلام كى نشيب و فراز سے بھرپور زندگى كے تيسرے دور كو ملاحظہ كر تے ہيں _

اس دور ميں ان كے وہ واقعات ہيں جو انھيں دوران بلوغ اور مصر سے مدين كو سفر كرنے سے پہلے پيش آئے اور يہ وہ اسباب ہيں جو ان كى ہجرت كا باعث ہوئے_

''بہر حال حضرت موسى عليہ السلام شہر ميں اس وقت داخل ہوئے جب تمام اہل شہر غافل تھے''_(۲)

يہ واضح نہيں ہے كہ يہ كونسا شہر تھا_ليكن احتمال قوى يہ ہے كہ يہ مصر كا پايہ تخت تھا_ بعض لوگوں كا قول ہے كہ حضرت موسى عليہ السلام كو اس مخالفت كى وجہ سے جو ان ميں فوعون اور اس كے وزراء ميں تھى اور بڑھتى جارہى تھي،مصر كے پايہ تخت سے نكال ديا گيا تھا_ مگر جب لوگ غفلت ميں تھے _ موسى عليہ السلام كو موقع مل گيا اور وہ شہر ميں آگئے_

اس احتمال كى بھى گنجائش ہے كہ حضرت موسى عليہ السلام فرعون كے محل سے نكل كر شہر ميں آئے ہوں كيونكہ عام طور پر فرعونيوں كے محلات شہر كے ايك كنارے پر ايسى جگہ بنائے جاتے تھے جہاں سے وہ شہر كى طرف آمدورفت كے راستوں كى نگرانى كرسكيں _

____________________

(۱)اس واقعہ كى تفصيل آئندہ آئے گي

(۲)سورہ قصص آيت ۱۸

۲۸۱

شہر كے لوگ اپنے مشاغل معمول سے فارغ ہوچكے تھے اور كوئي بھى شہر كى حالت كى طرف متوجہ نہ تھا_ مگر يہ كہ وہ وقت كونسا تھا؟بعض كا خيال ہے كہ''ابتدائے شب''تھي،جب كہ لوگ اپنے كاروبار سے فارغ ہوجاتے ہيں ،ايسے ميں كچھ تو اپنے اپنے گھروں كى راہ ليتے ہيں _كچھ تفريح اور رات كوبيٹھ كے باتيں كرنے لگتے ہيں _

بہر كيف حضرت موسى عليہ السلام شہر ميں آئے اور وہاں ايك ماجرے سے دوچار ہوئے ديكھا :'' دو آدمى آپس ميں بھڑے ہوئے ہيں اور ايك دوسرے كو مار رہے ہيں _ان ميں سے ايك حضرت موسى عليہ السلام كا طرف دار اور ان كا پيرو تھا اور دوسراان كا دشمن تھا''_(۱)

كلمہ ''شيعتہ'' اس امر كا غماز ہے كہ جناب موسى (ع) اور بنى اسرائيل ميں اسى زمانے سے مراسم ہوگئے تھے اور كچھ لوگ ان كے پيرو بھى تھے احتمال يہ ہوتا ہے كہ حضرت موسى عليہ السلام اپنے مقلدين اور شيعوں كى روح كو فرعون كى جابرانہ حكومت كے خلاف لڑنے كے لئے بطور ايك مركزى طاقت كے تيار كررہے تھے _

جس وقت بنى اسرائيل كے اس آدمى نے موسى عليہ السلام كو ديكھا:'' تو ان سے اپنے ،دشمن كے مقابلے ميں امداد چاہي''_(۲)

حضرت موسى عليہ السلام اس كى مدد كرنے كےلئے تيار ہوگئے تاكہ اسے اس ظالم دشمن كے ہاتھ سے نجات دلائيں بعض علماء كا خيال ہے كہ وہ قبطى فرعون كا ايك باورچى تھا اور چاہتاتھا كہ اس بنى اسرائيل كو بيكار ميں پكڑكے اس سے لكڑياں اٹھوائے'' حضرت موسى عليہ السلام نے اس فرعونى كے سينے پر ايك مكامارا وہ ايك ہى مكے ميں مرگيا اور زمين پر گر پڑا ''_(۳)

اس ميں شك نہيں كہ حضرت موسى كا اس فرعونى كو جان سے ماردينے كا ارادہ نہ تھا قرآن سے بھى يہ خوب واضح ہوجاتاہے ايسا اس لئے نہ تھا كہ وہ لوگ مستحق قتل نہ تھے بلكہ انھيں ان نتائج كا خيال تھا جو خود حضرت موسى اور بنى اسرائيل كو پيش آسكتے تھے _

____________________

(۱)سورہ قصص آيت ۱۵ (۲)سورہ قصص آيت۱۵ (۳) سورہ قصص آيت۱۵

۲۸۲

لہذا حضرت موسى عليہ السلام نے فوراً كہا:'' كہ يہ كام شيطان نے كرايا ہے كيونكہ وہ انسانوں كا دشمن اور واضح گمراہ كرنے والاہے ''_(۱)

اس واقعے كى دوسرى تعبير يہ ہے كہ حضرت موسى عليہ السلام چاہتے تھے كہ بنى اسرئيلى كا گريبان اس فرعونى كے ہاتھ سے چھڑا ديں ہر چند كہ وابستگان فرعون اس سے زيادہ سخت سلوك كے مستحق تھے ليكن ان حالات ميں ايسا كام كر بيٹھنا قرين مصلحت نہ تھا اور جيسا كہ ہم آگے ديكھيں گے كہ حضرت موسى اسى عمل كے نتيجے ميں پھر مصر ميں نہ ٹھہرسكے اور مدين چلے گئے _

پھر قرآن ميں حضرت موسى عليہ السلام كا يہ قول نقل كيا گيا ہے اس نے كہا:''پروردگار اميں نے اپنے اوپر ظلم كيا تو مجھے معاف كردے ،اور خدا نے اسے بخش ديا كيونكہ وہ غفورو رحيم ہے ''_(۲)

يقينا حضرت موسى عليہ السلام اس معاملے ميں كسى گناہ كے مرتكب نہيں ہوئے بلكہ حقيقت ميں ان سے ترك اولى سرزد ہوا كيونكہ انہيں ايسى بے احتياطى نہيں كرنى چاہيئے تھى جس كے نتيجے ميں وہ زحمت ميں مبتلا ہوں حضرت موسى نے اسى ترك اولى كے لئے خدا سے طلب عفو كيا اور خدا نے بھى انھيں اپنے لطف وعنايت سے بہرہ مند كيا _

حضرت موسى عليہ السلام نے كہا: خداوندا تيرے اس احسان كے شكرانے ميں كہ تونے ميرے قصور كو معاف كرديا اور دشمنوں كے پنجے ميں گرفتار نہ كيا اور ان تمام نعمتوں كے شكريہ ميں جو مجھے ابتداء سے اب تك مرحمت كرتا رہا،ميں عہد كرتا ہوں كہ ہر گز مجرموں كى مدد نہ كروں گا اور ظالموں كا طرف دار نہ ہوں گا ''_(۳)

بلكہ ہميشہ مظلومين اور ستم ديدہ لوگوں كا مددگارر ہوں گا _(۴)

____________________

(۱) سورہ قصص آيت۱۵

(۲)سورہ قصص آيت۱۵

(۳)سورہ قصص آيت ۱۷

(۴)كيا حضرت موسى عليہ السلام كا يہ كا م مقام عصمت كے خلاف نہيں ہے ؟

مفسرين نے ، اس قبطى اور بنى اسرائيل كى باہمى نزاع اور حضرت موسى كے ہاتھ سے مرد قبطى كے مارے جانے كے بارے ميں بڑى طويل بحثيں كى ہيں _

۲۸۳

درحقيقت يہ معاملہ كوئي اہم اور بحث طلب تھا ہى نہيں كيونكہ ستم پسند وابستگان فرعون نہايت بے رحم اور مفسد تھے انہوں نے بنى اسرائيل كے ہزاروں بچوں كے سرقلم كيے اور بنى اسرائيل پر كسى قسم كا ظلم كرنے سے بھى دريغ نہ كيا اس جہت سے يہ لوگ اس قابل نہ تھے كہ بنى اسرائيل كےلئے ان كا قتل احترام انسانيت كے خلاف ہو _

البتہ مفسرين كے لئے جس چيزنے دشوارياں پيدا كى ہيں وہ اس واقعے كى وہ مختلف تعبيرات ہيں جو خود حضرت موسى نے كى ہيں چنانچہ وہ ايك جگہ تو يہ كہتے ہيں :

''هذا من عمل الشيطان ''

''يہ شيطانى عمل ہے ''_

اور دوسرى جگہ يہ فرمايا:

''رب انى ظلمت نفسى فاغفرلى ''

''خداياميں نے اپنے نفس پر ظلم كيا تو مجھے معاف فرمادے ''_

جناب موسى عليہ السلام كى يہ دونوں تعبيرات اس مسلمہ حقيقت سے كيونكر مطابقت ركھتى ہيں كہ :

عصمت انبيا ء كا مفہوم يہ ہے كہ انبيا ء ماقبل بعثت اور ما بعد عطائے رسالت ہر دو حالات ميں معصوم ہوتے ہيں '' _

ليكن حضرت موسى عليہ السلام كے اس عمل كى جو توضيح ہم نے آيات فوق كى روشنى ميں پيش كى ہے ، اس سے ثابت ہوتا ہے كہ حضرت موسى سے جو كچھ سرزد ہوا وہ ترك اولى سے زيادہ نہ تھا انھوں نے اس عمل سے اپنے آپ كو زحمت ميں مبتلاكرليا كيونكہ حضرت موسى كے ہاتھ سے ايك قبطى كا قتل ايسى بات نہ تھى كہ وابستگان فرعون اسے آسانى سے برداشت كرليتے_

نيز ہم جانتے ہيں كہ ''ترك اولى ''كے معنى ايسا كام كرنا ہے جو بذات خود حرام نہيں ہے_ بلكہ اس كا مفہوم يہ ہے كہ ''عمل احسن ''ترك ہوگيا بغير اس كے كہ كوئي عمل خلاف حكم الہى سرزد ہوا ہو؟

۲۸۴

موسى عليہ السلام كى مخفيانہ مدين كى طرف روانگي

فرعونيوں ميں سے ايك آدمى كے قتل كى خبر شہر ميں بڑى تيزى سے پھيل گئي قرائن سے شايد لوگ يہ سمجھ گئے تھے كہ اس كا قائل ايك بنى اسرائيل ہے اور شايد اس سلسلے ميں لوگ موسى عليہ السلام كا نام بھى ليتے تھے_

البتہ يہ قتل كوئي معمولى بات نہ تھى اسے انقلاب كى ايك چنگارى يا اس كا مقدمہ شمار كيا جاتاتھا اورحكومت كى مشينرى اسے ايك معمولى واقعہ سمجھ كراسے چھوڑنے والى نہ تھى كہ بنى اسرائيل كے غلام اپنے آقائوں كى جان لينے كا ارادہ كرنے لگيں _

لہذا ہم قرآن ميں يہ پڑھتے ہيں كہ'' اس واقعے كے بعد موسى شہر ميں ڈررہے تھے اور ہر لحظہ انہيں كسى حادثے كا كھٹكا تھا اور وہ نئي خبروں كى جستجو ميں تھے ''_(۱)

ناگہاں انہيں ايك معاملہ پيش آيا آپ نے ديكھا كہ وہى بنى اسرائيلى جس نے گزشتہ روز ان سے مدد طلب كى تھى انھيں پھر پكاررہا تھا اور مدد طلب كررہاتھا (وہ ايك اور قبطى سے لڑرہا تھا) _

''ليكن حضرت موسى عليہ السلام نے اس سے كہا كہ تو آشكارا طور پر ايك جاہل اور گمراہ شخص ہے''_(۲)

توہر روز كسى نہ كسى سے جھگڑ پڑتا ہے اور اپنے لئے مصيبت پيدا كرليتا ہے اور ايسے كام شروع كرديتا ہے جن كا ابھى موقع ہى نہيں تھا كل جو كچھ گزرى ہے ميں تو ابھى اس كے عواقب كا انتظار كرہا ہوں اور تونے وہى كام از سر نو شروع كرديا ہے _

بہر حال وہ ايك مظلوم تھا جو ايك ظالم كے پنجے ميں پھنسا ہو تھا ( حواہ ابتداء اس سے كچھ قصور ہوا ہو يانہ ہوا ہو ) اس لئے حضرت موسى كے لئے يہ ضرورى ہوگيا كہ اس كى مدد كريں اور اسے اس قبطى كے رحم وكرم پر نہ چھوڑديں ليكن جيسے ہى حضرت موسى نے يہ اراداہ كيا كہ اس قبطى آدمى كو (جو ان دونوں كا دشمن تھا )پكڑ كر اس بنى اسرائيل سے جدا كريں وہ قبطى چلايا، اس نے كہا :

اے موسى : كيا تو مجھے بھى اسى طرح قتل كرنا چاہتا ہے جس طرح تو نے كل ايك شخص كو قتل كيا تھا''_(۳) ''تيرى حركات سے تو ايسا ظاہر ہوتا ہے كہ تو زمين پر ايك ظالم بن كررہے گا اور يہ نہيں چاہتا كہ مصلحين ميں سے ہو ''_(۴)

____________________

(۱)سورہ قصص آيت۱۵ (۲)سورہ قصص آيت۱۶ (۳)سورہ قصص آيت۱۹ (۴)سورہ قصص آيت ۱۹

۲۸۵

اس جملے سے يہ معلوم ہوتا ہے كہ حضرت موسى عليہ السلام نے فرعون كے محل اور اس كے باہر ہر دو جگہ اپنے مصلحانہ خيالات كا اظہار شروع كرديا تھا بعض روايات سے يہ بھى معلوم ہوتا ہے كہ اس موضوع پر ان كے فرعون سے اختلافات بھى پيدا ہوگئے تھے اسى لئے تو اس قبطى آدمى نے يہ كہا :

يہ كيسى اصلاح طلبى ہے كہ تو ہر روز ايك آدمى كو قتل كرتاہے ؟

حالانكہ اگر حضرت موسى كا يہ ارادہ ہوتا كہ اس اس ظالم كو بھى قتل كرديں تو يہ بھى راہ اصلاح ميں ايك قدم ہوتا _

بہركيف حضرت موسى كو يہ احساس ہوا كہ گزشتہ روز كا واقعہ طشت ازبام ہوگيا ہے اور اس خوف سے كہ اور زيادہ مشكلات پيدا نہ ہوں ، انھوں نے اس معاملے ميں دخل نہ ديا _

حضرت موسى عليہ السلام كے ليے سزا ئے موت

اس واقعے كى فرعون اور اس كے اہل دربار كو اطلاع پہنچ گئي انھوں نے حضرت موسى سے اس عمل كے مكرر سرزد ہونے كو اپنى شان سلطنت كے لئے ايك تہديد سمجھا _ وہ باہم مشورے كے لئے جمع ہوئے اور حضرت موسى كے قتل كا حكم صادر كرديا _

(جہاں فرعون اور اس كے اہل خانہ رہتے تھے)وہاں سے ايك شخص تيزى كے ساتھ حضرت موسى كے پاس آيا اور انھيں مطلع كيا كہ آپ كو قتل كرنے كا مشورہ ہورہا ہے ، آپ فورا شہرسے نكل جائيں ، ميں آپ كا خير خواہ ہوں _''(۱)

يہ آدمى بظاہر وہى تھا جو بعد ميں ''مومن آل فرعون ''كے نام سے مشہور ہوا ،كہا جاتاہے كہ اس كا نام حزقيل تھا وہ فرعون كے قريبى رشتہ داروں ميں سے تھا اور ان لوگوں سے اس كے ايسے قريبى روابط تھے كہ ايسے مشوروں ميں شريك ہوتا تھا _

____________________

(۱) سورہ قصص آيت ۱۹

۲۸۶

اسے فرعون كے جرائم اور اس كى كرتوتوں سے بڑا دكھ ہوتا تھا اور اس انتظار ميں تھا كہ كوئي شخص اس كے خلاف بغاوت كرے اور وہ اس كار خير ميں شريك ہوجائے _

بظاہر وہ حضرت موسى عليہ السلام سے يہ آس لگائے ہوئے تھا اور ان كى پيشانى ميں من جانب اللہ ايك انقلابى ہستى كى علامات ديكھ رہا تھا اسى وجہ سے جيسے ہى اسے يہ احساس ہوا كہ حضرت موسى خطرے ميں ہيں ، نہايت سرعت سے ان كے پاس پہنچا اور انھيں خطرے سے بچاليا _

ہم بعد ميں ديكھيں گے كہ وہ شخص صرف اسى واقعے ميں نہيں ، بلكہ ديگر خطرناك مواقع پر بھى حضرت موسى كے لئے بااعتماد اور ہمدرد ثابت ہواحضرت موسى عليہ السلام نے اس خبر كو قطعى درست سمجھا اور اس ايماندار آدمى كى خيرخواہى كو بہ نگاہ قدر ديكھا اور اس كى نصيحت كے مطابق شہر سے نكل گئے_''اس وقت آپ خوف زدہ تھے اور ہر گھڑى انہيں كسى حادثے كا كھٹكا تھا ''_(۱)

حضرت موسى عليہ السلام نے نہايت خضوع قلب كے ساتھ متوجہ الى اللہ ہوكر اس بلا كو ٹالنے كےلئے اس كے لطف وكرم كى درخواست كى :''اے ميرے پروردگار : تو مجھے اس ظالم قوم سے رہائي بخش ''_(۲)

ميں جانتاہوں كہ وہ ظالم اور بے رحم ہيں ميں تو مظلوموں كى مدافعت كررہاتھا اور ظالموں سے ميرا كچھ تعلق نہ تھا اور جس طرح سے ميں نے اپنى توانائي كے مطابق مظلوموں سے ظالموں كے شركو دور كيا ہے تو بھى اے خدائے بزرگ ظالموں كے شركو مجھ سے دور ركھ _

حضرت موسى عليہ السلام نے پختہ ارادہ كرليا كہ وہ شہرمدين كو چلے جائيں يہ شہر شام كے جنوب اور حجاز كے شمال ميں تھا اور قلم رو مصر اور فراعنہ كى حكومت ميں شامل نہ تھا _

مدين كہاں تھا؟

''مدين '' ايك شہر كانام تھا جس ميں حضرت شعيب اور ان كا قبيلہ رہتا تھا يہ شہر خليج عقبہ كے مشرق ميں

____________________

(۱)سورہ قصص آيت۲۱

(۲)سورہ قصص آيت۲۱

۲۸۷

تھا (يعنى حجاز كے شمال اور شامات كے جنوب ميں )وہاں كے باشندے حضرت اسماعيل (ع) كى نسل سے تھے وہ مصر، لبنان اور فلسطين سے تجارت كرتے تھے آج كل اس شہر كانام معان ہے(۱)

نقشے كو غور سے دبكھيں تو معلوم ہوتا ہے كہ اس شہر كا مصر سے كچھ زبادہ فاصلہ نہيں ہے،اسى لئے حضرت موسى عليہ السلام چند روز ميں وہاں پہنچ گئے_

ملك اردن كے جغرافيائي نقشہ ميں ، جنوب غربى شہروں ميں سے ايك شہر'' معان '' نام كا ملتا ہے ، جس كا محل وقوع ہمارے مذكورہ بالا بيان كے مطابق ہے _

ليكن وہ جوان جو محل كے اندار نازو نعم ميں پلا تھا ايك ايسے سفر پر روانہ ہو رہا تھا جيسے كہ سفر اسے كبھى زندگى بھر پيش نہ آيا تھا_

اس كے پاس نہ زادراہ تھا، نہ توشہ سفر، نہ كوئي سوارى ، نہ رفيق راہ اور نہ كوئي راستہ بتانے والا ،ہردم يہ خطرہ لاحق تھا_

كہ حكومت كے اہلكار اس تك پہنچ جائيں اور پكڑكے قتل كرديں اس حالت ميں ظاہر ہے كہ حضرت موسى عليہ السلام كا كيا حال ہوگا _

ليكن حضرت موسى عليہ السلام كے لئے يہ مقدر ہوچكا تھا كہ وہ سختى اور شدت كے دنوں كو پيچھے چھوڑديں اور قصرفرعون انھيں جس جال ميں پھنسانا چاہتا تھا_

اسے توڑكر باہر نكل آئيں اور وہ كمزور اور ستم ديدہ لوگوں كے پاس رہيں ان كے درد وغم كا بہ شدت احساس كريں ور مستكبرين كے خلاف ان كى منفعت كے لئے بحكم الہى قيام فرمائيں _

____________________

(۱) بعض لوگ كلمہ '' مدين '' كا اطلاق اس قوم پر كرتے ہيں جو خليج عقيہ سے كوہ سينا تك سكونت پذير تھى توريت ميں بھى اس قوم كو '' مديان ''كہا گيا ہے _

بعض اہل تحقيق نے اس شہر كى وجہ تسميہ بھى لكھى ہے كہ حضرت ابراہيم (ع) كا ايك بيٹا جس كا نام '' مدين '' تھا اس شہر ميں رہتا تھا_

۲۸۸

اس طويل ، بے زادو راحلہ اور بے رفيق ورہنما سفر ميں ايك عظيم سرمايہ ان كے پاس تھا اور وہ تھا ايمان اور توكل برخدا _

''لہذا جب وہ مدين كى طرف چلے تو كہا : خدا سے اميد ہے كہ وہ مجھے راہ راست كى طرف ہدايت كرے گا''_(۱)

ايك نيك عمل نے موسى (ع) پر بھلائيوں كے دروازے كھول ديئے

اس مقام پر ہم اس سرگزشت كے پانچوں حصے پر پہنچ گئے ہيں اور وہ موقع يہ ہے كہ حضرت موسى عليہ السلام شہرمدين ميں پہنچ گئے ہيں _

يہ جوان پاكباز انسان كئي روز تك تنہا چلتا رہا يہ راستہ وہ تھا جو نہ كبھى اس نے ديكھا تھا نہ اسے طے كيا تھا بعض لوگوں كے قول كے مطابق حضرت موسى عليہ السلام مجبور تھے كہ پابرہنہ راستہ طے كريں ، بيان كيا گيا ہے كہ مسلسل آٹھ روز تك چلتے رہے يہاں تك كہ چلتے چلتے ان كے پائوں ميں چھالے پڑگئے _

جب بھوك لگتى تھى تو جنگل كى گھاس اور درختوں كے پتے كھاليتے تھے ان تمام مشكلات اور زحمات ميں صرف ايك خيال سے ان كے دل كوراحت رہتى تھى كہ انھيں افق ميں شہرمدين كا منظر نظر آنے لگا ان كے دل ميں آسود گى كى ايك لہر اٹھنے لگى وہ شہر كے قريب پہنچے انہوں نے لوگوں كا ايك انبوہ ديكھا وہ فورا سمجھ گئے كہ يہ لوگ چرواہے ہيں كہ جو كنويں كے پاس اپنى بھيڑوں كو پانى پلانے آئے ہيں _

''جب حضرت موسى عليہ السلام كنويں كے قريب آئے تو انھوں نے وہاں بہت سے آميوں كو ديكھا جو كنويں سے پانى بھر كے اپنے چوپايوں كو پلارہے تھے،انھوں نے اس كنويں كے پاس دو عورتوں كو ديكھا كہ وہ اپنى بھيڑوں كو لئے كھڑى تھيں مگر كنويں كے قريب نہيں آتى تھيں ''_(۲)

ان باعفت لڑكيوں كى حالت قابل رحم تھى جو ايك گوشے ميں كھڑى تھيں اور كوئي آدمى بھى ان كے

____________________

(۱) سورہ قصص آيت ۲۲

(۲)سورہ قصص آيت۲۳

۲۸۹

ساتھ انصاف نہيں كرتا تھا چرواہے صرف اپنى بھيڑوں كى فكر ميں تھے اور كسى اور كو موقع نہيں ديتے تھے حضرت موسى عليہ السلام نے ان لڑكيوں كى يہ حالت ديكھى تو ان كے نزديك آئے اور پوچھا :

'' تم يہاں كيسے كھڑى ہو''_(۱)

تم آگے كيوں نہيں بڑھتيں اور اپنى بھيڑوں كو پانى كيوں نہيں پلاتيں ؟

حضرت موسى عليہ السلام كے لئے يہ حق كشى ، ظلم وستم ، بے عدالتى اور مظلوموں كے حقوق كى عدم پاسدارى جو انھوں نے شہر مدين ميں ديكھي، قابل برداشت نہ تھى _

مظلوموں كو ظالم سے بچانا ان كى فطرت تھى اسى وجہ سے انھوں نے فرعون كے محل اور اس كى نعمتوں كو ٹھكراديا تھا اور وطن سے بے وطن ہوگئے تھے وہ اپنى اس روش حيات كو ترك نہيں كرسكتے تھے اور ظلم كو ديكھ كر خاموش نہيں رہ سكتے تھے _

لڑكيوں نے حضرت موسى عليہ السلام سے جواب ميں كہا :'' ہم اس وقت تك اپنى بھيڑوں كو پانى نہيں پلاسكتے، جب تك تمام چرواہے اپنے حيوانات كو پانى پلاكر نكل نہ جائيں ''_(۲)

ان لڑكيوں نے اس بات كى وضاحت كے لئے كہ ان باعفت لڑكيوں كے باپ نے انھيں تنہا اس كام كے لئے كيوں بھيج ديا ہے يہ بھى اضافہ كيا كہ ہمارا باپ نہايت ضعيف العمرہے _

نہ تو اس ميں اتنى طاقت ہے كہ بھيڑوں كو پانى پلاسكے اور نہ ہمارا كوئي بھائي ہے جو يہ كام كرلے اس خيال سے كہ كسى پر بارنہ ہوں ہم خود ہى يہ كام كرتے ہيں _

حضرت موسى عليہ السلام كو يہ باتيں سن كر بہت كوفت ہوئي اور دل ميں كہا كہ يہ كيسے بے انصاف لوگ ہيں كہ انھيں صرف اپنى فكر ہے اور كسى مظلوم كى ذرا بھى پرواہ نہيں كرتے _

وہ آگے آئے ،بھارى ڈول اٹھايا اور اسے كنوئيں ميں ڈالا، كہتے ہيں كہ وہ ڈول اتنا بڑا تھا كہ چند

____________________

(۱) سورہ قصص آيت ۲۳

(۲)سورہ قصص آيت ۲۴

۲۹۰

آدمى مل كر اسے كھينچ سكتے تھے ليكن حضرت موسى عليہ السلام نے اپنے قوى بازوئوں سے اسے اكيلے ہى كھينچ ليا اور ان دونوں عورتوں كى بھيڑوں كو پانى پلاديا ''_(۱)

بيان كيا جاتاہے كہ جب حضرت موسى عليہ السلام كنويں كے قريب آئے اورلوگوں كو ايك طرف كيا تو ان سے كہا:'' تم كيسے لوگ ہو كہ اپنے سوا كسى اور كى پرواہ ہى نہيں كرتے ''_

يہ سن كر لوگ ايك طرف ہٹ گئے اور ڈول حضرت موسى كے حوالے كركے بولے :

'' ليجئے، بسم اللہ، اگرآپ پانى كھينچ سكتے ہيں ،انھوں نے حضرت موسى عليہ السلام كو تنہاچھوڑ ديا،ليكن حضرت موسى عليہ السلام اس وقت اگرچہ تھكے ہوئے تھے،اور انھيں بھوك لگ رہى تھى مگر قوت ايمانى ان كى مدد گار ہوئي ، جس نے ان كى جسمانى قوت ميں اضافہ كرديا اور كنويں سے ايك ہى ڈول كھينچ كر ان دنوں عورتوں كى بھيڑوں كو پانى پلاديا _

اس كے بعد حضرت موسى عليہ السلام سائے ميں آبيٹھے اور بارگاہ ايزدى ميں عرض كرنے لگے :'' خداوند اتو مجھے جو بھى خيراور نيكى بخشے ، ميں اس كا محتاج ہوں ''_(۲)

حضرت موسى عليہ السلام ( اس وقت ) تھكے ہوئے اور بھوكے تھے اس شہر ميں اجنبى اور تنہاتھے اور ان كے ليے كو ئي سرچھپانے كى جگہ بھى نہ تھى مگر پھر بھى وہ بے قرار نہ تھے آپ كا نفس ايسا مطمئن تھا كہ دعا كے وقت بھى يہ نہيں كہا كہ'' خدايا تو ميرے ليے ايسا ياويسا كر'' بلكہ يہ كہا كہ : تو جو خير بھى مجھے بخشے ميں اس كا محتاج ہوں '' _

يعنى صرف اپنى احتياج اور نياز كو عرض كرتے ہيں اور باقى امور الطاف خداوندى پر چھوڑديتے ہيں _

ليكن ديكھو كہ كار خير كيا قدرت نمائي كرتا ہے اور اس ميں كتنى عجيب بركات ہيں صرف ''لوجہ اللہ'' ايك قدم اٹھانے اور ايك نا آشنا مظلوم كى حمايت ميں كنويں سے پانى كے ايك ڈول كھيچنے سے حضرت موسى كي

____________________

(۱) سورہ قصص آيت۲۴

(۲) سورہ قصص آيت ۲۴

۲۹۱

زندگى ميں ايك نياباب كھل گيا اور يہ عمل خيران كے ليے بركات مادى اور روحانى دنيا بطور تحفہ لايا اور وہ ناپيدا نعمت (جس كے حصول كےلئے انھيں برسوں كوشش كرنا پڑتى ) اللہ نے انھيں بخش دى حضرت موسى عليہ السلام كے لئے خوش نصيبى كا دور اس وقت شروع ہوا جب انھوں نے يہ ديكھا كہ ان دونوں بہنوں ميں سے ايك نہايت حياسے قدم اٹھاتى ہوئي آرہى ہے اس كى وضع سے ظاہر تھا كہ اسكوايك جوان سے باتيں كرتے ہوئے شرم آتى ہے وہ لڑكى حضرت موسى عليہ السلام كے قريب آئي اور صرف ايك جمكہ كہا : ميرے والد صاحب آپ كو بلاتے ہيں تاكہ آپ نے ہمارى بكريوں كے لئے كنويں سے جو پانى كھينچا تھا ، اس كا معاوضہ ديں ''_(۱)

يہ سن كر حضرت موسى عليہ السلام كے دل ميں اميد كى بجلى چمكى گوياانھيں يہ احساس ہوا كہ ان كے لئے ايك عظيم خوش نصيبى كے اسباب فراہم ہورہے ہيں وہ ايك بزرگ انسان سے مليں گے وہ ايك ايسا حق شناس انسان معلوم ہوتا ہے جو يہ بات پسند نہيں كرتا كہ انسان كى كسى زحمت كا، يہاں تك كہ پانى كے ايك ڈول كھيچنے كا بھى معاوضہ نہ دے يہ ضرور كوئي ملكوتى اور الہى انسان ہوگا يا اللہ يہ كيسا عجيب اور نادر موقع ہے ؟

بيشك وہ پير مرد حضرت شعيب(ع) پيغمبر تھے انہوں نے برسوں تك اس شہر كے لوگوں كو'' رجوع الى اللہ''كى دعوت دى تھى وہ حق پرستى اور حق شناسى كا نمونہ تھے _

جب انھيں كل واقعے كا علم ہوا تو انھوں نے تہيہ كرليا كہ اس اجنبى جوان كو اپنے دين كى تبليغ كريں گے _

حضرت موسى (ع) جناب شعيب(ع) كے گھر ميں

چنانچہ حضرت موسى عليہ السلام اس جگہ سے حضرت شعيب كے مكان كى طرف روانہ ہوئے _

بعض روايات كے مطابق وہ لڑكى رہنمائي كے لئے ان كے آگے چل رہى تھى اور حضرت موسى عليہ السلام اس كے پيچھے چل رہے تھے اس وقت تيز ہوا سے اس لڑكى كا لباس اڑرہا تھا اور ممكن تھا كہ ہوا كى تيزي

____________________

(۱) سورہ قصص آيت ۲۵

۲۹۲

لباس كو اس كے جسم سے اٹھادے حضرت موسى (ع) كى پاكيزہ طبيعت اس منظر كو ديكھنے كى اجازت نہيں ديتى تھي،اس لڑكى سے كہا:ميں آگے آگے چلتا ہوں ،تم راستہ بتاتے رہنا_

جب جناب موسى عليہ السلام حضرت شعيب عليہ السلام كے گھر پہنچ گئے ايسا گھر جس سے نور نبوت ساطع تھا اور اس كے ہر گوشے سے روحانيت نماياں تھى انھوں نے ديكھا كہ ايك پير مرد، جس كے بال سفيد ہيں ايك گوشے ميں بيٹھا ہے اس نے حضرت موسى عليہ السلام كو خوش آمديد كہا اور پوچھا:

'' تم كون ہو ؟ كہاں سے آرہے ہو ؟ كيا مشغلہ ہے ؟ اس شہر ميں كيا كرتے ہو ؟ اور آنے كا مقصد كيا ہے ؟ تنہا كيوں ہو ؟

حضرت موسى عليہ السلام نے حضرت شعيب عليہ السلام كے پاس پہنچے اور انھيں اپنى سرگزشت سنائي تو حضرت شعيب عليہ السلام نے كہا مت ڈرو، تمہيں ظالموں كے گروہ سے نجات مل گئي ہے _''(۱)

ہمارى سرزمين ان كى حدود سلطنت سے باہر ہے يہاں ان كا كوئي اختيار نہيں چلتا اپنے دل ميں ذرہ بھر پريشانى كو جگہ نہ دينا تم امن وامان سے پہنچ گئے ہو مسافرت اور تنہائي كا بھى غم نہ كرو يہ تمام مشكلات خدا كے كرم سے دور ہوجائيں گى _ حضرت مو سى عليہ السلام فورا ًسمجھ گئے كہ انھيں ايك عالى مرتبہ استاد مل گيا ہے، جس كے وجود سے روحانيت ، تقوى ، معرفت اور زلال عظيم كے چشمے پھوٹ رہے ہيں اور يہ استاد ان كى تشنگى تحصيل علم ومعرفت كو سيراب كرسكتا ہے _

حضرت شعيب عليہ السلام نے بھى يہ سمجھ ليا كہ انھيں ايك لائق اور مستعد شاگرد مل گيا ہے، جسے وہ اپنے علم ودانش اور زندگى بھر كے تجربات سے فيض ياب كرسكتے ہيں _

يہ مسلم ہے كہ ايك شاگرد كو ايك بزرگ اور قابل استاد پاكر جتنى مسرت ہوتى ہے استاد كو بھى ايك لائق شاگرد پاكر اتنى ہى خوشى ہوتى ہے_

____________________

(۱) سورہ قصص آيت ۲۵

۲۹۳

جناب موسى عليہ السلام حضرت شعيب (ع) كے داماد بن گئے

اب حضرت موسى عليہ السلام كى زندگى كے چھٹے دور كا ذكر شروع ہوتا ہے حضرت موسى عليہ السلام جناب شعيب عليہ السلام كے گھر آگئے يہ ايك سادہ ساديہاتى مكان تھا، مكان صاف ستھرا تھا اور روحانيت سے معمور تھا جب حضرت موسى عليہ السلام نے جناب شعيب عليہ السلام كو اپنى سرگزشت سنائي تو ان كى ايك لڑكى نے ايك مختصر مگر پر معنى عبارت ميں اپنے والد كے سامنے يہ تجويز پيش كى كہ موسى عليہ السلام كو بھيڑوں كى حفاظت كے لئے ملازم ركھ ليں وہ الفاظ يہ تھے :

اے بابا : آپ اس جوان كو ملازم ركھ ليں كيونكہ ايك بہترين آدمى جسے آپ ملازم ركھ سكتے ہيں وہ ايسا ہونا چاہئے جو قوى اور امين ہو اور اس نے اپنى طاقت اور نيك خصلت دونوں كا امتحان دے ديا ہے'' _(۱)

جس لڑكى نے ايك پيغمبر كے زيرسايہ تربيت پائي ہوا سے ايسى ہى مو دبانہ اور سوچى سمجھى بات كہنى چاہئے نيز چاہئے كہ مختصر الفاظ اور تھوڑى سى عبارت ميں اپنا مطلب ادا كردے _

اس لڑكى كو كيسے معلوم تھا كہ يہ جوان طاقتور بھى ہے اور نيك خصلت بھى كيونكہ اس نے پہلى باركنويں پر ہى اسے ديكھا تھا اور اس كى گزشتہ زندگى كے حالات سے وہ بے خبر تھي؟

اس سوال كا جواب واضح ہے اس لڑكى نے اس جوان كى قوت كو تو اسى وقت سمجھ ليا تھا جب اس نے ان مظلوم لڑكيوں كا حق دلانے كے لئے چرواہوں كو كنويں سے ايك طرف ہٹايا تھا اور اس بھارى ڈول كو اكيلے ہى كنويں سے كھينچ ليا تھا اور اس كى امانت اور نيك چلنى اس وقت معلوم ہوگئي تھى كہ حضرت شعيب عليہ السلام كے گھر كى راہ ميں اس نے يہ گوارا نہ كيا كہ ايك جوان لڑكى اس كے آگے آگے چلے كيونكہ ممكن تھا كہ تيز ہوا سے اس كا لباس جسم سے ہٹ جائے _

علاوہ بريں اس نوجوان نے اپنى جو سرگزشت سنائي تھى اس كے ضمن ميں قبطيوں سے لڑائي كے ذكر

____________________

(۱)سورہ قصص ايت ۲۶

۲۹۴

ميں اس كى قوت كا حال معلوم ہوگيا تھا اور اس امانت وديانت كى يہ شہادت كافى تھى كہ اس نے ظالموں كى ہم نوائي نہ كى اور ان كى ستم رانى پر اظہار رضا مندى نہ كيا _

حضرت شعيب عليہ السلام نے اپنى بيٹى كى تجويز كو قبول كرليا انھوں نے موسى (ع) كى طرف رخ كركے يوں كہا :''ميرا ارادہ ہے كہ اپنى ان دولڑكيوں ميں سے ايك كا تيرے ساتھ نكاح كردوں ، اس شرط كے ساتھ كہ تو آٹھ سال تك ميرى خدمت كرے ''_(۱)

اس كے بعد يہ اضافہ كيا:'' اگر تو آٹھ سال كى بجائے يہ خدمت دس سال كردے تو يہ تيرا احسان ہوگا مگر تجھ پر واجب نہيں ہے :''(۲)

بہرحال ميں يہ نہيں چاہتا كہ تم سے كوئي مشكل كام لوں انشاء اللہ تم جلد ديكھو گے كہ ميں صالحين ميں سے ہوں ، اپنے عہدوپيمان ميں وفادار ہوں تيرے ساتھ ہرگز سخت گيرى نہ كروں گا اور تيرے ساتھ خيراور نيكى كا سلوك كروں گا _(۳)

حضرت موسى عليہ السلام نے اس تجويزاور شرط سے موافقت كرتے ہوئے اور عقد كو قبول كرتے ہوئے كہا : '' ميرے اور آپ كے درميان يہ عہد ہے '' _ البتہ'' ان دومدتوں ميں سے (آٹھ سال يا دس سال ) جس مدت تك بھى خدمت كروں ، مجھ پر كوئي زيادتى نہ ہوگى اور ميں اس كے انتخاب ميں آزاد ہوں ''_(۴)

عہد كو پختہ اور خدا كے نام سے طلب مدد كے لئے يہ اضافہ كيا : ''جو كچھ ہم كہتے ہيں خدا اس پر شاہد ہے ''_(۵)

اوراس اسانى سے موسى عليہ السلام داماد شعيب(ع) بن گئے حضرت شعيب عليہ السلام كى لڑكيوں كا نام '' صفورہ ''( يا صفورا ) اور '' ليا ''بتايا جاتاہے حضرت موسى عليہ السلام كى شادى '' صفورہ '' سے ہوئي تھى _

____________________

(۱) سورہ قصص آيت ۲۷

(۲)سورہ قصص آيت ۲۷

(۳)سورہ قصص آيت ۲۷

(۴) سورہ قصص آيت ۲۸

(۵)سورہ قصص آيت ۲۸

۲۹۵

حضرت موسى عليہ السلام كى زندگى كے بہترين ايام

كوئي آدمى بھى حقيقتاً يہ نہيں جانتا كہ ان دس سال ميں حضرت موسى عليہ السلام پر كيا گزرى ليكن بلاشك يہ دس سال حضرت موسى عليہ السلام كى زندگى كے بہترين سال تھے يہ سال دلچسپ، شيريں اور آرام بخش تھے نيز يہ دس سال ايك منصب عظيم كى ذمہ دارى كے لئے تربيت اور تيارى كے تھے _

درحقيقت اس كى ضرورت بھى تھى كہ موسى عليہ السلام دس سال كا عرصہ عالم مسافرت اور ايك بزرگ پيغمبر كى صحبت ميں بسر كريں اور چرواہے كاكام كريں تاكہ ان كے دل ودماغ سے محلول كى ناز پروردہ زندگى كا اثر بالكل محوہوجائے حضرت موسى كو اتنا عرصہ جھونپڑيوں ميں رہنے والوں كے ساتھ گزارنا ضرورى تھا تاكہ ان كى تكاليف اور مشكلات سے آگاہ ہوجائے اور ساكنان محلول كے ساتھ جنگ كرنے كے لئے آمادہ ہوجائيں _

ايك اور بات يہ بھى ہے كہ حضرت موسى عليہ السلام كو اسرار آفرينش ميں غور كرنے اور اپنى شخصيت كى تكميل كے لئے بھى ايك طويل وقت كى ضرورت تھى اس مقصد كے لئے بيابان مدين اور خانہ شعيب سے بہتر اور كو نسى جگہ ہوسكتى تھى _

ايك اولوالعزم پيغمبر كى بعثت كوئي معمولى بات نہيں ہے كہ يہ مقام كسى كو نہايت آسانى سے نصيب ہوجائے بلكہ يہ كہہ سكتے ہيں كہ پيغمبر اسلام (ص) كے بعد تمام پيغمبروں ميں سے حضرت موسى عليہ السلام كى ذمہ دارى ايك لحاظ سے سب سے زيادہ اہم تھى اس لئے كہ :

روئے زمين كے ظالم ترين لوگوں سے مقابلہ كرنا، ايك كثير الا فراد قوم كى مدت اسيرى كو ختم كرنا _

اور ان كے اندر سے ايام اسيرى ميں پيدا ہوجانے والے نقائص كو محو كرنا كوئي آسان كام نہيں ہے _

حضرت شعيب عليہ السلام نے موسى عليہ السلام كى مخلصانہ خدمات كى قدر شناسى كے طور پر يہ طے كرليا تھا كہ بھيڑوں كے جو بچے ايك خاص علامت كے ساتھ پيداہوں گے، وہ موسى عليہ السلام كو ديديں گے،اتفاقاًمدت مو عود كے آخرى سال ميں جبكہ موسى عليہ السلام حضرت شعيب عليہ السلام سے رخصت ہو كر

۲۹۶

مصر كو جانا چاہتے تھے تو تمام يا زيادہ تر بچے اسى علامت كے پيدا ہوئے اور حضرت شعيب عليہ السلام نے بھى انھيں بڑى محبت سے موسى عليہ السلام كو دےديا _

يہ امر بديہى ہے كہ حضرت موسى عليہ السلام اپنى سارى زندگى چرواہے بنے رہنے پر قناعت نہيں كرسكتے تھے ہر چند ان كے لئے حضرت شعيب عليہ السلام كے پاس رہنا بہت ہى غنيمت تھا مگر وہ اپنا يہ فرض سمجھتے تھے كہ اپنى اس قوم كى مدد كے لئے جائيں جو غلامى كى زنجيروں ميں گرفتارہے اور جہالت نادانى اور بے خبرى ميں غرق ہے _

حضرت موسى عليہ السلام اپنا يہ فرض بھى سمجھتے تھے كہ مصر ميں جو ظلم كا بازار گرم ہے اسے سرد كريں ،طاغوتوں كو ذليل كريں اور توفيق الہى سے مظلوموں كو عزت بخشيں ان كے قلب ميں يہى احساس تھا جو انھيں مصر جانے پر آمادہ كررہا تھا _

آخركار انھوں نے اپنے اہل خانہ، سامان واسباب اور اپنى بھيڑوں كو ساتھ ليا اوراس وقت موسى عليہ السلام كے ساتھ ان كى زوجہ كے علاوہ ان كا لڑكا يا كوئي اور اولاد بھى تھي، اسلامى روايات سے بھى اس كى تائيد ہوتى ہے تو ريت كے '' سفر خروج '' ميں بھى ذكر مفصل موجود ہے علاوہ ازيں اس وقت ان كى زوجہ اميد سے تھى _

وحى كى تابش اول

جب حضرت موسى عليہ السلام مدين سے مصر كو جارہے تھے تو راستہ بھول گئے يا غالبا ًشام كے ڈاكوئوں كے ہاتھ ميں گرفتار ہوجانے كے خوف سے بوجہ احتياط رائج راستے كو چھوڑكے سفر كررہے تھے _

بہركيف قرآن شريف ميں يہ بيان اس طور سے ہے كہ :''جب موسى عليہ السلام اپنى مدت كو ختم كرچكے اور اپنے خاندان كو ساتھ لے كر سفر پر روانہ ہوگئے تو انھيں طور كى جانب سے شعلہ آتش نظر آيا _

حضرت موسى عليہ السلام نے اپنے اہل خاندان سے كہا :'' تم يہيں ٹھہرو'' مجھے آگ نظر آئي ہے ميں

۲۹۷

جاتاہوں شايد تمہارے لئے وہاں سے كوئي خبرلائوں يا آگ كا ايك انگارالے آئوں تاكہ تم اس سے گرم ہوجائو''_(۱)

''خبر لائوں '' سے يہ معلوم ہوتا ہے كہ وہ راستہ بھول گئے تھے اور ''گرم ہوجائو''يہ اشارہ كررہاہے كہ سرد اور تكليف دہ رات تھى _

قرآن ميں حضرت موسى عليہ السلام كى زوجہ كى حالت كا كوئي ذكر نہيں ہے مگر تفاسير اور روايات ميں مذكورہے كہ وہ اميد سے تھيں اور انہيں دروازہ ہورہا تھا اس لئے موسى عليہ السلام پريشان تھے _

حضرت موسى عليہ السلام جس وقت آگ كى تلاش ميں نكلے تو انھوں نے ديكھا كہ آگ تو ہے مگر معمول جيسى آگ نہيں ہے، بلكہ حرارت اور سوزش سے خالى ہے وہ نور اور تابندگى كا ايك ٹكڑا معلوم ہوتى تھى ،حضرت موسى عليہ السلام اس منظر سے نہايت حيران تھے كہ ناگہاں اس بلندو پُر بركت سرزمين ميں وادى كے دا ھنى جانب سے ايك درخت ميں سے آواز آئي: ''اے موسى ميں اللہ رب العالمين ہوں ''_(۲)

اس ميں شك نہيں كہ يہ خدا كے اختيار ميں ہے كہ جس چيز ميں چاہے قوت كلام پيدا كردے يہاں اللہ نے درخت ميں يہ استعداد پيدا كردى كيونكہ اللہ موسى عليہ السلام سے باتيں كرنا چاہتا تھا ظاہر ہے كہ موسى عليہ السلام گوشت پوست كے انسان تھے، كان ركھتے تھے اور سننے كے لئے انہيں امواج صوت كى ضروت تھى البتہ انبياء عليہم السلام پر اكثر يہ حالت بھى گزرى ہے كہ وہ بطور الہام درونى پيغام الہى كو حاصل كرتے رہے ہيں ،اسى طرح كبھى انھيں خواب ميں بھى ہدايت ہوتى رہى ہے مگر كبھى وہ وحى كو بصورت صدا بھى سنتے رہے ہيں ، بہر كيف حضرت موسى عليہ السلام نے جو آواز سنى اس سے ہم ہرگز يہ نتيجہ نہيں نكال سكتے كہ خدا جسم ركھتا ہے _

اے موسى جوتى اتاردو

موسى عليہ السلام جب آگ كے پاس گئے اور غور كيا توديكھا كہ درخت كى سبز شاخوں ميں آگ

____________________

(۱)سورہ قصص ايت۲۹

(۲)سورہ قصص آيت ۳۰

۲۹۸

چمك رہى ہے اور لحظہ بہ لحظہ اس كى تابش اور درخشندگى بڑھتى جاتى ہے جو عصا ان كے ہاتھ ميں تھا اس كے سہارے جھكے تاكہ اس ميں سے تھوڑى سى آگ لے ليں تو آگ موسى عليہ السلام كى طرف بڑھى موسى عليہ السلام ڈرے اور پيچھے ہٹ گئے اس وقت حالت يہ تھى كہ كبھى موسى عليہ السلام آگ كى طرف بڑھتے تھے اور كبھى آگ ان كى طرف، اسى كشمكش ميں ناگہاں ايك صدا بلند ہوئي ،اور انھيں وحى كى بشارت دى گئي _

اس طرح ناقابل انكار قرائن سے حضرت موسى عليہ السلام كو يقين ہوگيا كہ يہ آواز خدا ہى كى ہے، كسى غير كى نہيں ہے _

''ميں تيرا پروردگار ہوں ، اپنے جوتے اتاردے كيونكہ تو مقدس سرزمين ''طوى ''ميں ہے ''_(۱)

موسى عليہ السلام كو اس مقدس سرزمين كے احترام كا حكم ديا گيا كہ اپنے پائوں سے جوتے اتاردے اور اس وادى ميں نہايت عجزوانكسارى كے ساتھ قدم ركھے حق كو سنے اور فرمان رسالت حاصل كرے _

موسى عليہ السلام نے يہ آوازكہ '' ميں تيرا پروردگار ہوں '' سنى تو حيران رہ گئے اور ايك ناقابل بيان پر كيف حالت ان پر طارى ہوگئي، يہ كون ہے ؟ جو مجھ سے باتيں كررہا ہے ؟ يہ ميرا پروردگارہے، كہ جس نے لفظ'' ربك '' كے ساتھ مجھے افتخار بخشا ہے تاكہ يہ ميرے لئے اس بات كى نشاندہى كرے كہ ميں نے آغاز بچپن سے لے كر اب تك اس كى آغوش رحمت ميں پرورش پائي ہے اور ايك عظيم رسالت كے لئے تياركيا گيا ہوں _''

حكم ملاكہ پائوں سے اپنا جوتا اتار دو، كيونكہ تو نے مقدس سرزمين ميں قدم ركھا ہے وہ سرزمين كہ جس ميں نور الہى جلوہ گرہے ، وہاں خدا كا پيغام سننا ہے ، اور رسالت كى ذمہ دارى كو قبول كرنا ہے، لہذا انتہائي خضوع اور انكسارى كے ساتھ اس سرزمين ميں قدم ركھو ،يہ ہے دليل پائوں سے جوتا اتارنے كى _

ايك حديث ميں امام صادق عليہ السلام سے ،حضرت موسى عليہ السلام كى زندگى كے اس واقعہ سے

____________________

(۱) سورہ طہ آيت ۱۲

۲۹۹

متعلق ايك عمدہ مطلب نقل ہوا ہے ،آپ فرماتے ہيں :

جن چيزوں كى تمہيں اميد نہيں ہے ان كى ان چيزوں سے بھى زيادہ اميد ركھو كہ جن كى تمہيں اميد ہے كيونكہ موسى بن عمران ايك چنگارى لينے كے لئے گئے تھے ليكن عہدہ نبوت ورسالت كے ساتھ واپس پلٹے يہ اس بات كى طرف اشارہ ہے كہ اكثر ايسا ہوتا ہے كہ انسان كسى چيز كى اميد ركھتا ہے مگر وہ اسے حاصل نہيں ہوتى ليكن بہت سى اہم ترين چيزيں جن كى اسے كوئي اميد نہيں ہوتى لطف پروردگار سے اسے مل جاتى ہيں _

موسى عليہ السلام كا عصا اور يد بيضا

اس ميں شك نہيں كہ انبياء عليہم السلام كو اپنے خدا كے ساتھ ربط ثابت كرنے كے لئے معجزے كى ضرورت ہے ، ورنہ ہر شخص پيغمبر ى كا دعوى كرسكتا ہے اس بناء پر سچے انبياء عليہم السلام كا جھوٹوں سے امتياز معجزے كے علاوہ نہيں ہوسكتا، يہ معجزہ خود پيغمبر كى دعوت كے مطالب اور آسمانى كتاب كے اندر بھى ہوسكتا ہے اور حسى اور جسمانى قسم كے معجزات اوردوسرے امور ميں بھى ہوسكتے ہيں علاوہ ازيں معجزہ خود پيغمبر كى روح پر بھى اثرانداز ہوتا ہے اور وہ اسے قوت قلب، قدرت ايمان اور استقامت بخشتا ہے _

بہرحال حضرت موسى عليہ السلام كو فرمان نبوت ملنے كے بعد اس كى سند بھى ملنى چاہئے، لہذا اسى پُر خطر رات ميں جناب موسى عليہ السلام نے دو عظيم معجزے خدا سے حاصل كئے _

قرآن اس ماجرے كو اس طرح بيان كرتا ہے :

''خدا نے موسى سے سوال كيا : اے موسى يہ تيرے دائيں ہاتھ ميں كيا ہے ''؟_(۱)

اس سادہ سے سوال ،ميں لطف ومحبت كى چاشنى تھى ، فطرتاً موسى عليہ السلام، كى روح ميں اس وقت طوفانى لہريں موجزن تھيں ايسے ميں يہ سوال اطمينان قلب كے لئے بھى تھا اورايك عظيم حقيقت كو بيان كرنے كى تمہيد بھى تھا _''موسى عليہ السلام نے جواب ميں كہا: يہ لكڑى ميرا عصا ہے ''_(۲)

____________________

(۱)سورہ طہ آيت ۱۷

(۲)سورہ طہ آيت ۱۸

۳۰۰

اور چونكہ محبوب نے ان كے سامنے پہلى مرتبہ يوں اپنا دروازہ كھولا تھا لہذا وہ اپنے محبوب سے باتيں جارى ركھنا اور انہيں طول دينا چاہتے تھے اور اس وجہ سے بھى كہ شايد وہ يہ سوچ رہے تھے كہ ميرا صرف يہ كہنا كہ يہ ميرا عصا ہے، كافى نہ ہو بلكہ اس سوال كا مقصد اس عصا كے آثار و فوائد كو بيان كرنا مقصودہو، لہذا مزيد كہا : ''ميں اس پرٹيك لگاتاہوں ، اور اس سے اپنى بھيڑوں كے لئے درختوں سے پتے جھاڑتا ہوں ،اس كے علاوہ اس سے دوسرے كام بھى ليتا ہوں ''_(۱)

البتہ يہ بات واضح اور ظاہر ہے كہ عصا سے كون كون سے كام ليتے ہيں كبھى اس سے موذى جانوروں اور دشمنوں كا مقابلہ كرنے كے لئے ايك دفاعي، ہتھيار كے طور پر كام ليتے ہيں كبھى اس كے ذريعے بيابان ميں سائبان بنا ليتے ہيں ، كبھى اس كے ساتھ برتن باندھ كر گہرى نہرسے پانى نكالتے ہيں _

بہرحال حضرت موسى عليہ السلام ايك گہرے تعجب ميں تھے كہ اس عظيم بارگاہ سے يہ كس قسم كا سوال ہے اور ميرے پاس اس كا كيا جواب ہے ، پہلے جو فرمان ديئےئے تھے وہ كيا تھے ، اور يہ پرسش كس لئے ہے ؟

موسى سے كہا گيا كہ : اپنے عصا كو زمين پرڈال دو '' چنانچہ موسى عليہ السلام نے عصا كو پھينك ديا اب كيا ديكھتے ہيں كہ وہ عصا سانپ كى طرح تيزى سے حركت كررہا ہے يہ ديكھ كر موسى عليہ السلام ڈرے اور پيچھے ہٹ گئے يہاں تك كہ مڑكے بھى نہ ديكھا '' _(۲)

جس دن حضرت موسى عليہ السلام نے يہ عصا ليا تھا تاكہ تھكن كے وقت اس كا سہارا لے ليا كريں ،اور بھيڑوں كے لئے اس سے پتے جھاڑليا كريں ، انھيں يہ خيال بھى نہ تھا كہ قدرت خدا سے اس ميں يہ خاصيت بھى چھپى ہوئي ہوگى اور يہ بھيڑوں كو چرانے كى لاٹھى ظالموں كے محل كو ہلادے گى _

موجودات عالم كا يہى حال ہے كہ وہ بعض اوقات ہمارى نظر ميں بہت حقير معلوم ہوتى ہيں مگرا ن ميں بڑى بڑى استعداد چھپى ہوتى ہے جو كسى وقت خدا كے حكم سے ظاہر ہوتى ہے _

____________________

(۱)سورہ طہ آيت۱۸

(۲) سورہ قصص آيت ۳۱

۳۰۱

اب موسى عليہ السلام نے دوبارہ آواز سنى جو ان سے كہہ رہى تھى :'' واپس آ اور نہ ڈر توامان ميں ہے''_(۱)(۲)

بہرحال حضرت موسى عليہ السلام پر يہ حقيقت آشكار ہوگئي كہ درگاہ رب العزت ميں مطلق امن وامان ہے اور كسى قسم كے خوف وخطر كا مقام نہيں ہے_

انذار و بشارت

حضرت موسى عليہ السلام كو جو معجزات عطا كئے گئے ان ميں سے پہلا معجزہ خوف كى علامت پر مشتمل تھا اس كے بعد موسى كو حكم ديا گيا كہ اب ايك دوسرا معجزہ حاصل كرو جو نورواميد كى علامت ہوگا اور يہ دونوں معجزہ گويا ''انذار اوربشارت'' تھے_

موسى عليہ السلام كو حكم ديا گيا كہ'' اپنا ہاتھ اپنے گريبان ميں ڈالو اور باہر نكا،لو موسى عليہ السلام نے جب گريبان ميں سے ہاتھ باہر نكالا تو وہ سفيد تھا اور چمك رہا تھا اور اس ميں كوئي عيب اور نقص نہ تھا ''_(۳)

حضرت موسى عليہ السلام كے ہاتھ ميں يہ سفيدى اور چمك كسى بيمارى (مثلا ''برص يا كوئي اس جيسى چيز) كى وجہ سے نہ تھى بلكہ يہ نور الہى تھا جو بالكل ايك نئي قسم كا تھا_

جب حضرت موسى عليہ السلام نے اس سنسان كو ہسار اور اس تاريك رات ميں يہ دوخارق عادت

____________________

(۱)سورہ قصص آيت۳۱

(۲) البتہ قرآن كى بعض دوسرى آيات ميں '' ثعبان مبين'' (واضح ادھا) بھى كہا گيا ہے _(اعراف ۱۰۷ شعراء ۳۲)

ہم نے قبل ازيں كہا ہے كہ اس سانپ كے لئے جو يہ دوالفاظ استعمال ہوئے ہيں ممكن ہے اس كى دو مختلف حالتوں كے لئے ہوں كہ ابتدا ميں وہ چھوٹا سا ہو اور پھر ايك بڑا ادھا بن گيا ہو اس مقام پر يہ احتمال بھى ہوسكتا ہے كہ موسى نے جب واوي طور ميں اسے پہلى بار ديكھا تو چھوٹا سا سانپ تھا، رفتہ رفتہ وہ بڑا ہوگيا _

(۳)سورہ قصص آيت۳۱

۳۰۲

اور خلاف معمول چيزيں ديكھيں تو ان پر لرزہ طارى ہوگيا، چنانچہ اس لئے كہ ان كا اطمينان قلب واپس اجائے انھيں حكم ديا گيا كہ'' اپنے سينے پر اپنا ہاتھ پھريں تاكہ دل كو راحت ہوجائے ''_(۱)

اس كے بعد موسى عليہ السلام نے پھروہى صدا سنى جو كہہ رہى تھى :'' خدا كى طرف سے تجھے يہ دودليليں فرعون اور اس كے ساتھيوں كے مقابلے كے لئے دى جارى ہيں كيونكہ وہ سب لوگ فاسق تھے اور ہيں ''_(۲)

جى ہاں يہ لوگ خدا كى طاعت سے نكل گئے ہيں اور سركشى كى انتہا تك جاپہنچے ہيں تمہارا فرض ہے كہ انھيں نصيحت كرو اور راہ راست كى تبلغ كرو اور اگر وہ تمہارى بات نہ مانيں تو ان سے جنگ كرو_

كاميابى كے اسباب كى درخواست

موسى عليہ السلام اس قسم كى سنگين مامورريت پر نہ صرف گھبرائے نہيں ،بلكہ معمولى سى تخفيف كےلئے بھى خدا سے درخواست نہ كي، اور كھلے دل سے اس كا استقبال كيا ،زيادہ سے زيادہ اس ماموريت كے سلسلے ميں كاميابى كے وسائل كى خدا سے درخواست كى اور چونكہ كاميابى كا پلااور ذريعہ، عظيم روح، فكر بلند اور عقل توانا ہے، اور دوسرے لفظوں ميں سينہ كى كشاد گى وشرح صدر ہے لہذا ''عرض كيا ميرے پروردگار ميرا سينہ كشادہ كردے ''_(۳)

ہاں ، ايك رہبر انقلاب كا سب سے اولين سرمايہ ، كشادہ دلى ، فراوان حوصلہ، استقامت وبرد بارى اور مشكلات كے بوجھ كو اٹھاناہے _

اور چونكہ اس راستے ميں بے شمار مشكلات ہيں ، جو خدا كے لطف وكرم كے بغير حل نہيں ہوتيں ، لہذا خدا سے دوسرا سوال يہ كيا كہ ميرے كاموں كو مجھ پر آسان كردے اور مشكلات كو راستے سے ہٹادے آپ نے عرض كيا : ''ميرے كام كو آسان كردے ''_(۴)

____________________

(۱) سورہ قصص آيت ۳۲

(۲)سورہ قصص آيت ۳۲

(۳)سورہ طہ آيت۲۳

(۴)سورہ طہ آيت۲۷

۳۰۳

اس كے بعد جناب موسى عليہ السلام نے زيادہ سے زيادہ قوت بيان كا تقاضا كيا كہنے لگے:'' ميرى زبان كى گرہ كھول دے'' _(۱)

يہ ٹھيك ہے كہ شرح صدر كا ہونا بہت اہم بات ہے ، ليكن يہ سرمايہ اسى صورت ميں كام دے سكتا ہے جب اس كو ظاہر كرنے كى قدرت بھى كامل طور پر موجود ہو، اسى بناء پر جناب موسى عليہ السلام نے شرح صدر اور ركاوٹوں كے دور ہونے كى در خواستوں كے بعد يہ تقاضا كيا كہ خدا ان كى زبان كى گرہ كھول دے _

اور خصوصيت كے ساتھ اس كى علت يہ بيان كى :'' تاكہ وہ ميرى باتوں كو سمجھيں ''_(۲)

يہ جملہ حقيقت ميں پہلى بات كى تفسير كرر ہاہے اس سے يہ بات واضح ہورہى ہے كہ زبان كى گرہ كے كھلنے سے مراد يہ نہ تھى كہ موسى عليہ السلام كى زبان ميں بچپنے ميں جل جانے كى وجہ سے كوئي لكنت آگئي تھى (جيسا كہ بعض مفسرين نے ابن عباس سے نقل كيا ہے)بلكہ اس سے گفتگو ميں ايسى ركاوٹ ہے جو سننے والے كے لئے سمجھنے ميں مانع ہوتى ہے يعنى ميں ايسى فصيح وبليغ اور ذہن ميں بيٹھ جانے والى گفتگو كروں گہ ہر سننے والا ميرا مقصد اچھى طرح سے سمجھ لے _

ميرا بھائي ميراناصر ومددگار

بہرحال ايك كامياب رہبر ورہنما وہ ہوتا ہے كہ جو سعي ، فكر اور قدرت روح كے علاووہ ايسى فصيح وبليغ گفتگو كرسكے كہ جو ہر قسم كے ابہام اور نارسائي سے پاك ہو _

نيز اس بار سنگين كے لئے _ يعنى رسالت الہي، رہبرى بشر اور طاغوتوں اور جابروں كے ساتھ مقابلے كے لئے يارومددگار كى ضرورت ہے اور يہ كام تنہاانجام دينا ممكن نہيں ہے لہذا حضرت موسى (ع) نے پروردگار سے جو چوتھى درخواست كى :

''خداونداميرے لئے ميرے خاندان ميں سے ايك وزيراور مددگار قراردے''_(۳)

____________________

(۱)سورہ طہ آيت۲۷

(۲)سورہ طہ آيت۲۸

(۳)سورہ طہ آيت۲۹

۳۰۴

البتہ يہ بات كہ حضرت موسى عليہ السلام تقاضا كررہے ہيں كہ يہ وزير ان ہى كے خاندان سے ہو، اس كى دليل واضح ہے چونكہ اس كے بارے ميں معرفت اور شناخت بھى زيادہ ہوگى اور اس كى ہمدردياں بھى دوسروں كى نسبت زيادہ ہوں گى كتنى اچھى بات ہے كہ انسان كسى ايسے شخص كو اپنا شريك كار بنائے كہ جو روحانى اور جسمانى رشتوں كے حوالے سے اس سے مربوط ہو_

اس كے بعد خصوصى التماس كے بعد خصوصى طور پر اپنے بھائي كى طرف اشارہ كرتے ہوئے عرض كيا : ''يہ ذمہ دارى ميرے بھائي ہارون كے سپرد كردے ''_(۱)

ہارون بعض مفسرين كے قول كے مطابق حضرت موسى عليہ السلام كے بڑے بھائي تھے اور ان سے تين سال بڑے تھے بلند قامت فصيح البيان اور اعلى علمى قابليت كے مالك تھے، انہوں نے حضرت موسى عليہ السلام كى وفات سے تين سال پہلے رحلت فرمائي _(۲)

اور وہ نور اور باطنى روشنى كے بھى حامل تھے، اور حق وباطل ميں خوب تميز بھى ركھتے تھے _(۳)

آخرى بات يہ ہے كہ وہ ايك ايسے پيغمبر تھے جنہيں خدا نے اپنى رحمت سے موسى عليہ السلام كو بخشا تھا_(۴)

وہ اس بھارى ذمہ دارى كى انجام دہى ميں اپنے بھائي موسى عليہ السلام كے دوش بدوش مصروف كار ہے _

يہ ٹھيك ہے كہ موسى عليہ السلام نے اس اندھيرى رات ميں ، اس وادي مقدس كے اندر، جب خدا سے فرمان رسالت كے ملنے كے وقت يہ تقاضا كيا ، تو وہ اس وقت دس سال سے بھى زيادہ اپنے وطن سے دور

____________________

(۱)سورہ طہ آيت۳۱

(۲)جيسا كہ سورہ مومنون كى آيہ ۴۵ ميں بيان ہوا ہے : (ثم ارسلنا موسى واخاه هارون بايا تنا وسلطان مبين )

(۳) جيسا كہ سورہ انبياء كى آيہ ۴۸ ميں بيان ہوا ہے : (ولقد اتينا موسى وهارون الفرقان وضيائ )

(۴) (وو هبناله من رحمتنا اخاه هارون نبيا ) (سورہ مريم آيت ۵۳)

۳۰۵

گزار كر آرہے تھے، ليكن اصولى طور پر اس عرصہ ميں بھى اپنے بھائي كے ساتھ ان كارابطہ كامل طور پر منقطع نہ ہو، اسى لئے اس صراحت اور وضاحت كے ساتھ ان كے بارے ميں بات كررہے ہيں ، اور خدا كى درگاہ سے اس عظيم مشن ميں اس كى شركت كے لئے تقاضا ركرہے ہيں _

اس كے بعد جناب موسى عليہ السلام ہارون كو وزارت ومعاونت پر متعين كرنے كےلئے اپنے مقصد كو اس طرح بيان كرتے ہيں : ''خداوندا ميرى پشت اس كے ذريعے مضبوط كردے''_(۱)

اس مقصد كى تكميل كے لئے يہ تقاضا كرتے ہيں : '' اسے ميرے كام ميں شريك كردے_''(۲)

وہ مرتبہ رسالت ميں بھى شريك ہو اور اس عظيم كام كو رو بہ عمل لانے ميں بھى شريك رہيں ، البتہ حضرت ہارون ہر حال ميں تمام پروگراموں ميں جناب موسى عليہ السلام كے پيرو تھے او رموسى عليہ السلام ان كے امام و پيشوا كى حيثيت ركھتے تھے_

آخر ميں اپنى تمام درخواستوں كا نتيجہ اس طرح بيان كرتے ہيں : '' تاكہ ہم تيرى بہت بہت تسبيح كريں اور تجھے بہت بہت ياد كريں ، كيونكہ تو ہميشہ ہى ہمارے حالات سے آگاہ رہا ہے_''(۳)

تو ہمارى ضروريات و حاجات كو اچھى طرح جانتا ہے اور اس راستہ كى مشكلات سے ہر كسى كى نسبت زيادہ آگاہ ہے، ہم تجھ سے يہ چاہتے ہيں كہ تو ہميں اپنے فرمان كى اطاعت كى قدرت عطا فرمادے اور ہمارے فرائض، ذمہ داريوں اور فرائض انجام دينے كے لئے ہميں توفيق اور كاميابى عطا فرما_

چونكہ جناب موسى عليہ السلام كا اپنے مخلصانہ تقاضوں ميں سوائے زيادہ سے زيادہ اور كامل تر خدمت كے اور كچھ مقصد نہيں تھا لہذا خداوندعالم نے ان كے تقاضوں كو اسى وقت قبول كرليا،'' اس نے كہا: اے موسى تمہارى درخواستيں قبول ہيں _''(۴)

____________________

(۱) سورہ طہ آيت ۳۱

(۲) سورہ طہ آيت ۳۲

(۳) سورہ طہ آيت ۳۳ تا۳۵

(۴) سورہ طہ آيت ۳۶

۳۰۶

حقيقت ميں ان حساس اور تقدير ساز لمحات ميں چونكہ موسى عليہ السلام پہلى مرتبہ خدائے عظيم كى بساط مہمانى پر قدم ركھ رہے تھے،لہذا جس جس چيز كى انہيں ضرورت تھى ان كا خدا سے اكٹھا ہى تقاضا كرليا،اور اس نے بھى مہمان كا انتہائي احترام كيا،اور اس كى تمام درخواستوں اور تقاضوں كو ايك مختصر سے جملے ميں حيات بخش ندا كے سا تھ قبول كرليا اور اس ميں كسى قسم كى قيدو شرط عائد نہ كى اور موسى عليہ السلام كا نام مكرر لا كر،ہر قسم كے ابہام كو دور كرتے ہوئے اس كى تكميل كر دى ،يہ بات كس قدر شوق انگيز اور افتخار آفرين ہے كہ بندے كا نام مولا كى زبان پر بار بار آئے_

فرعون سے معركہ آرا مقابلہ

حضرت موسى عليہ السلام كى ماموريت كا پہلا مرحلہ ختم ہوا جس ميں بتايا گيا ہے كہ انھيں وحى اور رسالت ملى اور انھوں نے اس عظيم مقصد كو حاصل كرنے كے ليے وسائل كے حصول كى درخواست كى _

اس كے ساتھ ہى زير نظر دوسرے مرحلے كے بارے ميں گفتگو ہوتى ہے يعنى فرعون كے پاس جانا اور اس كے ساتھ گفتگو كرنا چنانچہ ان كے درميان جو گفتگو ہوئي ہے اسے يہاں پر بيان كيا جارہا ہے_

سب سے پہلے مقدمے كے طور پر فرمايا گيا ہے:اب جبكہ تمام حالات ساز گار ہيں تو تم فرعون كے پاس جائو ''اور اس سے كہو كہ ہم عالمين كے پروردگار كے رسول ہيں ''_(۱)

اور اپنى رسالت كا ذكر كرنے كے بعد بنى اسرائيل كى آزادى كا مطالبہ كيجئے اور كہيئے''كہ ہميں حكم ملا ہے كہ تجھ سے مطالبہ كريں كہ تو بنى اسرائيل كو ہمارے ساتھ بھيج دے''_(۲)

وہ مصر ميں گئے اور اپنے بھائي ہارون كو مطلع كيا اور وہ رسالت جس كے ليے آپ(ع) مبعوث تھے،اس كا پيغام اسے پہنچايا_پھر يہ دونوں بھائي فرعون سے ملاقات كے ارادے سے روانہ ہوئے_ آخر بڑى مشكل سے اس كے پاس پہنچ سكے_اس وقت فرعون كے وزراء اور مخصوص لوگ اسے گھيرے ہوئے تھے_

____________________

(۱)سورہ شعراء آيت۱۶

(۲)سورہ شعراء آيت۱۷

۳۰۷

حضرت موسى عليہ السلام نے ان كو خدا كا پيغام سنايا_

اس مقام پر فرعون نے زبان كھولى اور شيطنت پر مبنى چند ايك جچے تلے جملے كہے جس سے ان كى رسالت كى تكذيب كرنا مقصود تھا_ وہ حضرت موسى عليہ السلام كى طرف منہ كركے كہنے لگا:''آيا بچپن ميں ہم نے تجھے اپنے دامن محبت ميں پروان نہيں چڑھايا ''_(۱)

ہم نے تجھے دريائے نيل كى ٹھاٹھيں مارتى ہوئي خشمگين موجوں سے نجات دلائي وگرنہ تيرى زندگى خطرے ميں تھي_تيرے ليے دائيوں كو بلايا اور ہم نے اولاد بنى اسرائيل كے قتل كردينے كا جو قانون مقرر كر ركھا تھا اس سے تجھے معاف كرديا اور امن و سكون اور نازونعمت ميں تجھے پروان چڑھايا_

اور اس كے بعد بھى ''تو نے اپنى زندگى كے كئي سال ہم ميں گزارے''_(۲)

پھر وہ موسى عليہ السلام پر ايك اعتراض كرتے ہوئے كہتا ہے:تو نے وہ اہم كام كيا ہے_(فرعون كے حامى ايك قبطى كو قتل كيا ہے)_(۳)

يہ اس بات كى طرف اشارہ ہے كہ ايسا كام كرنے كے بعد تم كيونكررسول بن سكتے ہو؟

ان سب سے قطع نظر كرتے ہوئے ''تو ہمارى نعمتوں سے انكار كررہا ہے''_(۴)

تو كئي سالوں تك ہمارے دسترخوان پر پلتا رہا ہے،ہمارا نمك كھانے كے بعد نمك حلالى كا حق اس طرح ادا كررہا ہے؟اس قدر كفران نعمت كے بعد تو كس منہ سے نبوت كا دعوى كررہاہے؟

در حقيقت وہ بزعم خود اس طرح كى منطق سے ان كى كردار كشى كركے موسى عليہ السلام كو خاموش كرنا چاہتا تھا_

جناب موسى عليہ السلام نے فرعون كى شيطنت آميز باتيں سن كر اس كے تينوں اعتراضات كے

____________________

(۱)سورہ شعراء آيت ۱۸

(۲)سورہ شعراء آيت ۱۸

(۳)سورہ شعراء آيت۱۹

(۴)سورہ شعراء آيت۱۹

۳۰۸

جواب دينا شروع كيے_ليكن اہميت كے لحاظ سے فرعون كے دوسرے اعتراض كا سب سے پہلے جواب ديا(يا پہلے اعتراض كو بالكل جواب كے لائق ہى نہيں سمجھا كيونكہ كسى كا كسى كى پرورش كرنا اس بات كى دليل نہيں بن جاتا كہ اگر وہ گمراہ ہوتو اسے راہ راست كى بھى ہدايت نہ كى جائے)_

بہر حال جناب موسى عليہ السلام نے فرمايا:''ميں نے يہ كام اس وقت انجام ديا جب كہ ميں بے خبر لوگوں ميں سے تھا''_(۱)

يعنى ميں نے اسے جو مكا مارا تھا وہ اسے جان سے ماردينے كى غرض نہيں بلكہ مظلوم كى حمايت كے طور پر تھا ،ميں تو نہيں سمجھتا تھا كہ اس طرح اس كى موت واقع ہوجائے گي_

پھر موسى عليہ السلام فرماتے ہيں :''اس حادثے كى وجہ سے جب ميں نے تم سے خوف كيا تو تمہارے پاس سے بھاگ گيا اور ميرے پروردگارنے مجھے دانش عطا فرمائي اور مجھے رسولوں ميں سے قرار ديا''_(۲)

پھر موسى عليہ السلام اس احسان كا جواب ديتے ہيں جو فرعون نے بچپن اور لڑكپن ميں پرورش كى صورت ميں ان پر كيا تھادو ٹوك انداز ميں اعتراض كى صورت ميں فرماتے ہيں :''تو كيا جو احسان تو نے مجھ پر كيا ہے يہى ہے كہ تو بنى اسرائيل كو اپنا غلام بنالے''_(۳)

يہ ٹھيك ہے كہ حوادث زمانہ نے مجھے تيرے محل تك پہنچاديا اور مجھے مجبوراًتمھارے گھر ميں پرورش پانا پڑى اور اس ميں بھى خدا كى قدرت نمائي كار فرما تھى ليكن ذرا يہ تو سوچو كہ آخر ايسا كيوں ہوا؟كيا وجہ ہے كہ ميں نے اپنے باپ كے گھر ميں اور ماں كى آغوش ميں تربيت نہيں پائي؟ آخر كس ليے؟

كيا تو نے بنى اسرائيل كو غلامى كى زنجيروں ميں نہيں جكڑ ركھا؟يہاں تك كہ تو نے اپنے خودساختہ قوانين كے تحت ان كے لڑكوں كو قتل كرديا اور ان كى لڑكيوں كو كنيز بنايا_

____________________

(۱)سورہ شعراء آيت۲۰

(۲)سورہء شعراء آيت۲۱

(۳)سورہ شعراء آيت۲۲

۳۰۹

تيرے بے حدوحساب مظالم اس بات كا سبب بن گئے كہ ميرى ماں اپنے نو مولود بچے كى جان بچانے كى غرض سے مجھے ايك صندوق ميں ركھ كر دريائے نيل كى بے رحم موجوں كے حوالے كردے اور پھر منشائے ايزدى يہى تھا كہ ميرى چھوٹى سى كشتى تمھارے محل كے نزديك لنگر ڈال دے_ہاں تو يہ تمہارے بے اندازہ مظالم ہى تھے جن كى وجہ سے مجھے تمھارا مرہون منت ہونا پڑا اور جنھوں نے مجھے اپنے باپ كے مقدس اور پاكيزہ گھر سے محروم كركے تمھارے آلودہ محل تك پہنچاديا_

ديوانگى كى تہمت

جب موسى عليہ السلام نے فرعون كو دوٹوك اور قاطع جواب دے ديا جس سے وہ لا جواب اور عاجز ہوگيا تو اس نے كلام كا رخ بدلا اور موسى عليہ السلام نے جو يہ كہا تھا''ميں رب العالمين كا رسول ہوں ''تو اس نے اسى بات كو اپنے سوال كا محور بنايا اور كہا يہ رب العالمين كيا چيز ہے؟(۱)

بہت بعيد ہے كہ فرعون نے و اقعاًيہ بات مطلب كے لئے كى ہو بلكہ زيادہ تر يہى لگتا ہے كہ اس نے تجاہل عارفانہ سے كام ليا تھا اور تحقير كے طور پر يہ بات كہى تھي_

ليكن حضرت موسى عليہ السلام نے بيدار اور سمجھ دارافراد كى طرح اس كے سوا اور كوئي چارہ نہ ديكھا كہ گفتگو كو سنجيدگى پر محمول كريں اور سنجيدہ ہوكر اس كا جواب ديں اور چونكہ ذات پروردگار عالم انسانى افكار كى دسترس سے باہر ہے لہذا انھوں نے مناسب سمجھا كہ اس كے آثار كے ذريعے استدلال قائم كريں لہذا انھوں نے آيات آفاقى كا سہارا ليتے ہوئے فرمايا:''(خدا)آسمانوں اور زمين اور جو كچھ ان دونوں كے درميان ہے سب كا پر وردگار ہے اگر تم يقين كا راستہ اختيار كرو''_(۲)

اتنے وسيع و عريض اور باعظمت آسمان و زمين اور كائنات كى رنگ برنگى مخلوق جس كے سامنے تو اور تيرے چاہنے اور ماننے والے ايك ذرہ ناچيز سے زيادہ كى حيثيت نہيں ركھتے، ميرے پروردگار كى آفرينش

____________________

(۱)سورہ شعراء آيت ۲۳

(۲)سورہ شعراء آيت ۲۴

۳۱۰

ہے اور ان اشياء كا خالق ومدبر اور ناظم ہى عبادت كے لائق ہے نہ كہ تيرے جيسى كمزور اور ناچيز سى مخلوق_

ليكن عظيم آسمانى معلم كے اس قدر محكم بيان اورپختہ گفتگو كے بعد بھى فرعون خواب غفلت سے بيدار نہ ہوا اس نے انپے ٹھٹھے مذاق اور استہزاء كو جارى ركھا اور مغرور مستكبرين كے پرانے طريقہ كار كو اپناتے ہوئے ''اپنے اطراف ميں بيٹھنے والوں كى طرف منہ كركے كہا: كيا سن نہيں رہے ہو(كہ يہ شخص كيا كہہ رہا ہے)''_(۱)

معلوم ہے كہ فرعون كے گردكون لوگ بيٹھے ہيں اسى قماش كے لوگ تو ہيں _صاحبان زوراور زرہيں يا پھرظالم اور جابر كے معاون _

وہاں پر فرعون كے اطراف ميں پانچ سوآدمى موجود تھے،جن كا شمار فرعون كے خواص ميں ہوتا تھا_

اس طرح كى گفتگو سے فرعون يہ چاہتا تھا كہ موسى عليہ السلام كى منطقى اور دلنشين گفتگو اس گروہ كے تاريك دلوں ميں ذرہ بھر بھى اثر نہ كرے اور لوگوں كو يہ باور كروائے كہ انكى باتيں بے ڈھنگى اور ناقابل فہم ہيں _

مگر جناب موسى عليہ السلام نے اپنى منطقى اور جچى تلى گفتگو كو بغير كسى خوف وخطر كے جارى ركھتے ہوئے فرمايا:''تمہارا بھى رب ہے اور تمھارے آباء واجداد كا رب ہے''_(۲)

درحقيقت بات يہ ہے كہ جناب موسى عليہ السلام نے پہلے تو آفاقى آيات كے حوالے سے استدلال كيا اب يہاں پر'' آيات انفس''اور خود انسان كے اپنے وجود ميں تخليق خالق كے اسرار اور انسانى روح اور جسم ميں خداوند عالم كى ربوبيت كے آثار كى طرف اشارہ كررہے ہيں تاكہ وہ عاقبت نا انديش مغرور كم از كم اپنے بارے ميں تو كچھ سوچ سكيں خود كو اور پھر اپنے خدا كو پہچان سكيں _

ليكن فرعون اپنى ہٹ دھرمى سے پھر بھى باز نہ آيا،اب استہزاء اور مسخرہ پن سے چند قدم آگے بڑھ

____________________

(۱)سورہ شعراء آيت ۳۵

(۲)سورہ شعراء آيت ۲۶

۳۱۱

جاتا ہے اور موسى عليہ السلام كو جنون اور ديوانگى كا الزام ديتا ہے چنانچہ اس نے كہا:''جو پيغمبر تمھارى طرف آيا ہے بالكل ديوانہ ہے''_(۱)

وہى تہمت جو تاريخ كے ظالم اور جابر لوگ خدا كے بھيجے ہوئے مصلحين پر لگاتے رہتے تھے_

يہ بھى لائق توجہ ہے كہ يہ مغرور فريبى اس حد تك بھى روادارنہ تھا كہ كہے''ہمارا رسول''اور'' ہمارى طرف بھيجا ہوا ''بلكہ كہتا ہے''تمہارا پيغمبر''اور ''تمھارى طرف بھيجا ہوا'' كيونكہ''تمہارا پيغمبر''ميں طنز اور استہزاء پايا جاتا ہے او رساتھ ہى اس ميں غرور اور تكبر كا پہلو بھى نماياں ہے كہ ميں اس بات سے بالا تر ہوں كہ كوئي پيغمبر مجھے دعوت دينے كے لئے آئے اور موسى عليہ السلام پر جنون كى تہمت لگانے سے اس كا مقصد يہ تھا كہ جناب موسى عليہ السلام كے جاندار دلائل كو حاضرين كے اذہان ميں بے اثر بنايا جائے_

ليكن يہ ناروا تہمت موسى عليہ السلا م كے بلند حوصلوں كو پست نہيں كر سكى اور انھوں نے تخليقات عالم ميں آثار الہى اور آفاق و انفس كے حوالے سے اپنے دلائل كو برابر جارى ركھا اور كہا:''وہ مشرق ومغرب اور جو كچھ ان دونوں كے درميان ہے سب كا پروردگار ہے اگر تم عقل وشعور سے كام لو''_(۲)

اگر تمہارے پاس مصر نامى محدود سے علاقے ميں چھوٹى سى ظاہرى حكومت ہے توكيا ہوا؟ميرے پروردگار كى حقيقى حكومت تو مشرق و مغرب اور اس كے تمام درميانى علاقے پر محيط ہے اور اس كے آثار ہر جگہ موجودات عالم كى پيشانى پر چمك رہے ہيں اصولى طور پر خود مشرق و مغرب ميں آفتاب كا طلوع و غروب اور كائنات عالم پر حاكم نظام شمسى ہى اس كى عظمت كى نشانياں ہيں ، ليكن عيب خود تمہارے اندر ہے كہ تم عقل سے كام نہيں ليتے بلكہ تمہارے اندر سوچنے كى عادت ہى نہيں ہے_(۳)

درحقيقت يہاں پر حضرت موسى عليہ اسلام نے اپنى طرف جنون كى نسبت كا بڑے اچھے انداز ميں جواب ديا ہے_ دراصل وہ يہ كہنا چاہتے ہيں كہ ديوانہ ميں نہيں ہوں بلكہ ديوانہ اور بے عقل وہ شخص ہے جو

____________________

(۱)سورہ شعراء آيت۲۷

(۲)سورہ شعراء آيت۲۸

(۳)سورہ شعراء آيت۲۸

۳۱۲

اپنے پروردگار كے ان تمام آثار اور نشانات كو نہيں ديكھتا _

عالم وجود كے ہر دروديوار پر ذات پروردگار كے اس قدر عجيب وغريب نقوش موجود ہيں پھر بھى جو شخص ذات پروردگار كے بارے ميں نہ سوچے اسے خود نقش ديوار ہوجانا چاہئے _

ان طاقتور دلائل نے فرعون كو سخت بوكھلاديا، اب اس نے اسى حربے كا سہارا ليا جس كا سہارا ہربے منطق اور طاقتور ليتا ہے اور جب وہ دلائل سے عاجزہوجاتاہے تو اسے آزمانے كى كوشش كرتاہے_

'' فرعون نے كہا: اگر تم نے ميرے علاوہ كسى اور كو معبود بنايا تو تمہيں قيديوں ميں شامل كردوں گا''_(۱) ميں تمہارى اور كوئي بات نہيں سننا چاہتا ميں تو صرف ايك ہى عظيم الہ اور معبوے كو جانتاہوں اور وہ ميں خود ہوں اگر كوئي شخص اس كے علاوہ كہتا ہے تو بس سمجھ لے كہ اس كى سزا يا تو موت ہے يا عمر قيد جس ميں زندگى ہى ختم ہوجائے_

درحقيقت فرعون چاہتا تھا كہ اس قسم كى تيزوتند گفتگو كركے موسى عليہ السلام كو ہراساں كرے تاكہ وہ ڈركر چپ ہوجائيں كيونكہ اگر بحث جارى رہے گى تو لوگ اس سے بيدار ہوں گے اور ظالم وجابر لوگوں كے لئے عوام كى بيدارى اور شعور سے بڑھ كر كوئي اور چيز خطر ناك نہيں ہوتى _

تمہارا ملك خطرے ميں ہے

گزشتہ صفحات ميں ہم نے ديكھ ليا ہے كہ جناب موسى عليہ السلام نے منطق اور استدلال كى روسے فرعون پر كيونكر اپنى فوقيت اوربر ترى كا سكہ منواليا اور حاضرين پر ثابت كرديا كہ ان كا خدائي دين كس قدر عقلى ومنطقى ہے اور يہ بھى واضح كرديا كہ فرعون كے خدائي دعوے كس قدر پوچ اور عقل وخردسے عار ى ہيں كبھى تو وہ استہزاء كرتا ہے ،كبھى جنون اور ديوانگى كى تہمت لگاتاہے اور آخر كار طاقت كے نشے ميں آكر قيدوبند اور موت كى دھمكى ديتا ہے _

____________________

(۱)سورہ شعراء آيت۲۹

۳۱۳

اس موقع پر گفتگو كارخ تبديل ہوجاتاہے اب جناب موسى كو ايسا طريقہ اختيار كرنا چاہئے تھا جس سے فرعون كى ناتوانى ظاہر ہوجائے _

موسى عليہ السلام كو بھى كسى طاقت كے سہارے كى ضرورت تھى ايسى خدائي طاقت جس كے معجزانہ اندازہوں ، چنانچہ آپ فرعون كى طرف منہ كركے فرماتے ہيں :'' آيا اگر ميں اپنى رسالت كے لئے واضح نشانى لے آئوں پھر بھى تو مجھے زندان ميں ڈالے گا ''_(۱)

اس موقع پر فرعون سخت مخمصے ميں پڑگيا، كيونكہ جناب موسى عليہ السلام نے ايك نہايت ہى اہم اور عجيب وغريب منصوبے كى طرف اشارہ كركے حاضرين كى توجہ اپنى طرف مبذول كرالى تھى اگر فرعون ان كى باتوں كو ان سنى كر كے ٹال ديتا تو سب حاضرين اس پر اعتراض كرتے اور كہتے كہ موسى كو وہ كام كرنے كى اجازت دى جائے اگر وہ ايسا كرسكتا ہے تو معلوم ہوجائے گا اور اس سے مقابلہ نہيں كيا جاسكے گا اور اگر ايسا نہيں كرسكتا تو بھى اس كى شخيى آشكار ہوجائے گى بہرحال موسى عليہ السلام كے اس دعوے كو آسانى سے مسترد نہيں كيا جاسكتا تھا آخركار فرعون نے مجبور ہوكر كہا'' اگر سچ كہتے ہو تو اسے لے آئو''(۲)

''اسى دوران ميں موسى عليہ السلام نے جو عصا ہاتھ ميں ليا ہوا تھا زمين پر پھينك ديا اور وہ (خدا كے حكم سے ) بہت بڑا اور واضح سانپ بن گيا''_(۳)

''پھر اپنا ہاتھ آستين ميں لے گئے اور باہر نكالا تو اچانك وہ ديكھنے والوں كے لئے سفيد اور چمك دار بن چكا تھا''_(۴) در حقيقت يہ دو عظيم معجزے تھے ايك خوف كا مظہر تھا تو دوسرا اميد كا مظہر، پہلے ميں انذار كا پہلو تھا تو دوسرے ميں بشارت كا ،ايك خدائي عذاب كى علامت تھى تو دوسرا نور اور رحمت كى نشانى ،كيونكہ معجزے كو پيغمبر خدا كى دعوت كے مطابق ہونا چاہئے_

____________________

(۱)سورہ شعراء آيت ۳۱

(۲)سورہ شعراء آيت ۳۱

(۳)سورہ شعراء آيت ۳۲

(۴)سورہ شعراء آيت ۳۳

۳۱۴

فرعون نے جب صورت حال ديكھى تو سخت بوكھلا گيا اور وحشت كى گہرى كھائي ميں جاگرا ،ليكن اپنے شيطانى اقتدار كو بچانے كے لئے جو موسى عليہ السلام كے ظہور كے ساتھ متزلزل ہوچكا تھا اس نے ان معجزات كى توجيہ كرنا شروع كردى تاكہ اس طرح سے اطراف ميں بيٹھنے والوں كے عقائد محفوظ اور ان كے حوصلے بلند كرسكے اس نے پہلے تو اپنے حوارى سرداروں سے كہا: ''يہ شخص ماہر اور سمجھ دار جادو گر ہے''_(۱)

جس شخص كو تھوڑى دير پہلے تك ديوانہ كہہ رہا تھا اب اسے '' عليم'' كے نام سے ياد كررہا ہے، ظالم اور جابر لوگوں كا طريقہ كار ايسا ہى ہوتا ہے كہ بعض اوقات ايك ہى محفل ميں كئي روپ تبديل كرليتے ہيں اور اپنى انا كى تسكين كے لئے نت نئے حيلے تراشتے رہتے ہيں _

اس نے سوچا چونكہ اس زمانے ميں جادوكادور دورہ ہے لہذا موسى عليہ السلام كے معجزات پر جادو كا ليبل لگا ديا جائے تاكہ لوگ اس كى حقانيت كو تسليم نہ كريں _

پھر اس نے لوگوں كے جذبات بھڑكانے اور موسى عليہ السلام كے خلاف ان كے دلوں ميں نفرت پيدا كرنے كے لئے كہا : ''وہ اپنے جادو كے ذريعے تمہيں تمہارے ملك سے نكالنا چاہتا ہے،تم لوگ اس بارے ميں كيا سوچ رہے ہو اور كيا حكم ديتے ہو ''_(۲)

يہ وہى فرعون ہے جو كچھ دير پہلے تك تمام سرزمين مصر كو اپنى ملكيت سمجھ رہا تھا'' كيا سرزمين مصر پر ميرى حكومت اور مالكيت نہيں ہے ؟''اب جبكہ اسے اپنا راج سنگھا سن ڈوبتا نظرآرہا ہے تو اپنى حكومت مطلقہ كو مكمل طور پر فراموش كر كے اسے عوامى ملكيت كے طور پر ياد كركے كہتا ہے '' تمہارا ملك خطرات ميں گھر چكا ہے اسے بچانے كى سوچو''_وہى فرعون جو ايك لحظہ قبل كسى كى بات سننے پر تيار نہيں تھا بلكہ ايك مطلق العنان آمر كى حيثيت سے تخت حكومت پر براجمان تھا اب اس حد تك عاجز اور درماندہ ہوچكا ہے كہ اپنے اطرافيوں سے درخواست كررہا ہے كہ تمہارا كيا حكم ہے نہايت ہى عاجز اور كمزور ہوكر التجا كررہا ہے _

____________________

(۱)سورہ شعراء آيت۳۴

(۲)سورہ شعراء آيت۳۵

۳۱۵

قرآن سے معلوم ہوتا ہے كہ اس كے دربارى باہمى طور پر مشور ہ كرنے ميں لگ گئے وہ اس قدر حواس باختہ ہوچكے تھے كہ سوچنے كى طاقت بھى ان سے سلب ہوگئي تھى ہر كوئي دوسرے كى طرف منہ كركے كہتا :

''تمہارى كيا رائے ہے ؟''(۱)

بہرحال كافى صلاح مشورے كے بعد درباريوں نے فرعون سے كہا :'' موسى اور اس كے بھائي كو مہلت دو اور اس بارے ميں جلدى نہ كرو اور تمام شہروں ميں ہركارندے روانہ كردو،تاكہ ہر ماہر اور منجھے ہوئے جادو گر كو تمہارے پاس لے آئيں ''_(۲)

در اصل فرعون كے دربارى يا تو غفلت كا شكار ہوگئے يا موسى عليہ السلام پر فرعون كى تہمت كو جان بوجھ كر قبول كرليا اور موسى كو'' ساحر'' (جادوگر) سمجھ كر پروگرام مرتب كيا كہ ساحر كے مقابلے ميں '' سحار'' يعنى ماہر اور منجھے ہوئے جادو گروں كو بلايا جائے چنانچہ انھوں نے كہا : ''خوش قسمتى سے ہمارے وسيع وعريض ملك (مصر) ميں فن جادو كے بہت سے ماہر استاد موجود ہيں اگر موسى ساحر ہے تو ہم اس كے مقابلے ميں سحار لاكھڑا كريں گے اور فن سحر كے ايسے ايسے ماہرين كو لے آئيں گے جو ايك لمحہ ميں موسى كا بھرم كھول كر ركھ ديں گے''_

ہر طرف سے جادو گر پہنچ گئے

فرعون كے درباريوں كى تجويز كے بعد مصر كے مختلف شہروں كى طرف ملازمين روانہ كرديئےئے اورانھوں نے ہر جگہ پر ماہر جادو گروں كى تلاش شروع كردى '' آخر كار ايك مقررہ دن كى ميعادكے مطابق جادو گروں كى ايك جماعت اكٹھا كرلى گئي ''(۳)

دوسرے لفظوں ميں انھوں نے جادوگروں كو اس روزكے لئے پہلے ہى سے تيار كرليا تاكہ ايك مقرر دن مقابلے كے لئے پہنچ جائيں _

____________________

(۱)سورہ اعراف آيت ۱۱۰

(۲) سورہ شعراء ۳۶ تا ۳۶

(۳)سورہ شعراء آيت ۳۸

۳۱۶

''يوم معلوم '' سے كيا مراد ہے ؟جيسا كہ سورہ اعراف كى آيات سے معلوم ہوتا ہے مصريوں كى كسى مشہور عيد كا دن تھا جسے موسى عليہ السلام نے مقابلے كے لئے مقرر كيا تھا اور اس سے ان كا مقصد يہ تھا كہ اس دن لوگوں كو فرصت ہوگى اور وہ زيادہ سے زيادہ تعداد ميں شركت كريں گے كيونكہ انھيں اپنى كاميابى كا مكمل يقين تھا اور وہ چاہتے تھے كہ آيات خداوندى كى طاقت اور فرعون اور اس كے ساتھيوں كى كمزورى اور پستى پورى دنيا پر آشكار ہوجائے ''اور زيادہ سے زيادہ لوگوں سے كہا گيا كہ آيا تم بھى اس ميدان ميں اكٹھے ہوگے؟(۱)

اس طرزبيان سے معلوم ہوتا ہے كہ فرعون كے كارندے اس سلسلے ميں سوچى سمجھى ا سكيم كے تحت كام كررہے تھے انھيں معلوم تھا كہ لوگوں كو زبردستى ميدان ميں لانے كى كوشش كى جائے تو ممكن ہے كہ اس كا منفى رد عمل ہو، كيونكہ ہر شخص فطرى طور پر زبردستى كو قبول نہيں كرتا لہذا انھوں نے كہا اگر تمہارى جى چاہے تو اس اجتماع ميں شركت كرو اس طرح سے بہت سے لوگ اس اجتماع ميں شريك ہوئے _

لوگوں كو بتايا گيا'' مقصد يہ ہے كہ اگر جادو گر كامياب ہوگئے كہ جن كى كاميابى ہمارے خدائوں كى كاميابى ہے تو ہم ان كى پيروى كريں گے ''(۲) اور ميدان كو اس قدر گرم كرديں گے كہ ہمارے خدائوں كا دشمن ہميشہ ہميشہ كے لئے ميدان چھوڑجائے گا _

واضح ہے كہ تماشائيوں كا زيادہ سے زيادہ اجتماع جو مقابلے كے ايك فريق كے ہمنوا بھى ہوں ايك طرف توان كى دلچسپى كا سبب ہوگا اور ان كے حوصلے بلند ہوں گے اور ساتھ ہى وہ كاميابى كے لئے زبردست كوشش بھى كريں گے اوركاميابى كے موقع پر ايسا شور مچائيں گے كہ حريف ہميشہ كے لئے گوشئہ گمنامى ميں چلاجائے گا اور اپنى عددى كثرت كى وجہ سے مقابلے كے آغاز ميں فريق مخالف كے دل ميں خوف وہراس اور رعب ووحشت بھى پيدا كرسكيں گے_

____________________

(۱)سورہ شعراء آيت ۳۹

(۲)سورہ شعراء آيت۴۰

۳۱۷

يہى وجہ ہے كہ فرعون كے كارندے كوشش كررہے تھے كہ لوگ زيادہ سے زيادہ تعداد ميں شركت كريں موسى عليہ السلام بھى ايسے كثيراجتماع كى خدا سے دعا كررہے تھے تاكہ اپنا مدعا اور مقصد زيادہ سے زيادہ لوگوں تك پہنچا سكيں _

يہ سب كچھ ايك طرف، ادھر جب جادو گر فرعون كے پاس پہنچے اور اسے مشكل ميں پھنسا ہوا ديكھا تو موقع مناسب سمجھتے ہوئے اس سے زيادہ سے زيادہ فائدہ اٹھانے اور بھارى انعام وصول كرنے كى غرض سے اس سے كہا :'' اگر ہم كامياب ہوگئے تو كيا ہمارے لئے كوئي اہم صلہ بھى ہوگا ؟''(۱)

فرعون جو برى طرح پھنس چكا تھا اور اپنے لئے كوئي راہ نہيں پاتاتھا انھيں زيادہ سے زيادہ مراعات اور اعزاز دينے پر تيار ہوگيا اس نے فورا ًكہا: : ''ہاں ہاں جو كچھ تم چاہتے ہوميں دوں گا اس كے علاوہ اس صورت ميں تم ميرے مقربين بھى بن جائوگے''_(۲)

در حقيقت فرعون نے ان سے كہا :تم كيا چاہتے ہو؟ مال ہے يا عہدہ: ميں يہ دونوں تمہيں دوں گا _

اس سے معلوم ہوتا ہے كہ اس ماحول اورزمانے ميں فرعون كا قرب كس حد تك اہم تھا كہ وہ ايك عظيم انعام كے طور پر اس كى پيش كش كررہا تھا درحقيقت اس سے بڑھ كر اور كوئي صلہ نہيں ہوسكتا كہ انسان اپنے مطلوب كے زيادہ نزديك ہو_

جادو گروں كا عجيب وغريب منظر

جب جادوگروں نے فرعون كے ساتھ اپنى بات پكى كرلى اور اس نے بھى انعام، اجرت اور اپنى بارگاہ كے مقرب ہونے كا وعدہ كركے انھيں خوش كرديا اور وہ بھى مطمئن ہوگئے تواپنے فن كے مظاہرے اور اس كے اسباب كى فراہمى كے لئے تگ ودوكرنى شروع كردي، فرصت كے ان لمحات ميں انھوں نے بہت سى رسياں اور لاٹھياں اكٹھى كرليں اور بظاہر ان كے اندر كو كھوكھلاكر كے ان ميں ايسا كوئي كيميكل مواد (پارہ وغيرہ

____________________

(۱)سورہ شعراء آيت ۴۱

(۲)سورہ شعراء آيت ۴۲

۳۱۸

كى مانند)بھر ديا جس سے وہ سورج كى تپش ميں ہلكى ہوكر بھاگنے لگتى _

آخركاروعدے كا دن پہنچ گيا اور لوگوں كا اكثير مجمع ميدان ميں جمع ہوگيا تاكہ وہ اس تاريخى مقابلے كو ديكھ سكيں ،فرعون اور اس كے درباري، جادوگر اور موسى عليہ السلام اور ان كے بھائي ہارون عليہ السلام سب ميدان ميں پہنچ گئے _

ليكن حسب معمول قرآن مجيد اس بحث كو خدف كركے اصل بات كو بيان كرتا ہے _

يہاں پر بھى اس تاريخ ساز منظر كى تصوير كشى كرتے ہوئے كہتا ہے :''موسى نے جادو گروں كى طرف منہ كركے كہا :جو كچھ پھينكنا چاہتے ہو پھينكو اور جو كچھ تمہارے پاس ہے ميدان ميں لے آئو ''_(۱)

قرآن سے معلوم ہوتا ہے كہ جناب موسى عليہ السلام نے يہ بات اس وقت كى جب جادوگروں نے ان سے كہا:'' آپ پيش قدم ہوكر اپنى چيز ڈاليں گے يا ہم ؟''(۲)

موسى عليہ السلام كى يہ پيش كش درحقيقت انھيں اپنى كاميابى پر يقين كى وجہ سے تھى اوراس بات كى مظہر تھى كہ فرعون كے زبردست حاميوں اور دشمن كے انبوہ كثير سے وہ ذرہ برابر بھى خائف نہيں ،چنانچہ يہ پيش كش كركے آپ نے جادوگروں پر سب سے پہلا كامياب وار كيا جس سے جادو گروں كو بھى معلوم ہوگيا كہ موسى عليہ السلام ايك خاص نفسياتى سكون سے بہرہ مند ہيں اور وہ كسى ذات خاص سے لولگائے ہوئے ہيں كہ جوان كا حوصلہ بڑھارہى ہے _

جادو گر تو غرور ونخوت كے سمندر ميں غرق تھے انھوں نے اپنى انتہائي كوششيں اس كام كے لئے صرف كردى تھيں اور انھيں اپنى كاميابى كا بھى يقين تھا'' لہذانھوں نے اپنى رسياں اور لاٹھياں زمين پر پھينك ديں اور كہافرعون كى عزت كى قسم ہم يقينا كامياب ہيں ''_(۳)

جى ہاں :انھوں نے دوسرے تمام چاپلوسيوں خوشامديوں كى مانند فرعون كے نام سے شروع كيا اور

____________________

(۱)سورہ شعراء آيت ۴۳

(۲)سورہ اعراف آيت۱۱۵

(۳)سورہ شعراء آيت۴۴

۳۱۹

اس كے كھوكھلے اقتدار كا سہاراليا _

جيسا كہ قرآن مجيد ايك اور مقام پر كہتا ہے :

'' اس موقع پر انھوں نے جب رسياں اور لاٹھياں زمين پر پھينكيں تو وہ چھوٹے بڑے سانپوں كى طرح زمين پر حركت كرنے لگيں ''_(۱)

انھوں نے اپنے جادو كے ذرائع ميں سے لاٹھيوں كا انتخاب كيا ہوا تھا تاكہ وہ بزعم خود موسى كى عصا كى برابرى كرسكيں اور مزيد برترى كے لئے رسيوں كو بھى ساتھ شامل كرليا تھا _

اسى دوران ميں حاضرين ميں خوشى كى لہر دوڑگئي اور فرعون اور اس كے درباريوں كى آنكھيں خوشى كے مارے چمك اٹھيں اور وہ مارے خوشى كے پھولے نہيں سماتے تھے يہ منظر ديكھ كر ان كے اندر وجدو سرور كى كيفيت پيدا ہوگئي اور وہ جھوم رہے تھے _ چنانچہ بعض مفسرين كے قول كے مطابق ان ساحروں كى تعداد كئي ہزار تھى نيز ان كے وسائل سحر بھى ہزاروں كى تعداد ميں تھے چونكہ اس زمانے ميں مصر ميں سحرو ساحرى كا كافى زور تھا اس بناپر اس بات پر كوئي جائے تعجب نہيں ہے _

خصوصاً جيسا كہ قران(۲) كہتا ہے كہ :

وہ منظر اتنا عظيم ووحشتناك تھا كہ حضرت موسى نے بھى اس كى وجہ سے اپنے دل ميں كچھ خوف محسوس كيا _

اگرچہ نہج البلاغہ ميں اس كى صراحت موجود ہے كہ حضرت موسى كو اس بات كا خوف لاحق ہو گيا تھا كہ ان جادوگروں كو ديكھ كر لوگ اس قدر متاثر نہ ہوجائيں كہ ان كو حق كى طرف متوجہ كرنا دشوار ہوجائے بہرصورت يہ تمام باتيں اس بات كى مظہر ہيں كہ اس وقت ايك عظيم معركہ درپيش تھا جسے حضرت موسى عليہ السلام كو بفضل الہى سركرنا تھا_

____________________

(۱)سورہ طہ آيت ۶۶

(۲) سورہ طہ اايت ۶۷

۳۲۰

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667