قصص القرآن-منتخب از تفسير نمونه

قصص القرآن-منتخب از تفسير نمونه   8%

قصص القرآن-منتخب از تفسير نمونه   مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 667

قصص القرآن-منتخب از تفسير نمونه
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 667 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 335039 / ڈاؤنلوڈ: 6149
سائز سائز سائز
قصص القرآن-منتخب از تفسير نمونه

قصص القرآن-منتخب از تفسير نمونه

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

گويا اسے خيال تھا كہ آگ،خاك سے بہتر و افضل ہے،يہ ابليس كى ايك بڑى غلط فہمى تھي،شايد اسے غلط فہمى بھى نہ تھى بلكہ جان بوجھ كر جھوٹ بول رہا تھا_

ليكن شيطان كى داستان اسى جگہ ختم نہيں ہوتي،بلكہ اس نے جب يہ ديكھا كہ وہ درگاہ خداوندى سے نكال ديا گيا ہے او اس كى سركشى اور ہٹ دھرمى ميں اور اضافہ ہوگيا_ چنانچہ اس نے بجائے شرمندگى اور توبہ كے اور بجائے اس كے كہ وہ خدا كى طرف پلٹے اور اپنى غلطى كا اعتراف كرے،اس نے خدا سے صرف اس بات كى درخواست كى كہ : ''خدايا مجھے رہتى دنيا تك كے لئے مہلت عطا فرمادے اور زندگى عطا كر''_(۱)

اس كى يہ درخواست قبول ہوگئي اور اللہ تعالى نے فرمايا:''تجھے مہلت دى جاتى ہے''_(۲)

اگر چہ قران ميں اس بات كى صراحت نہيں كى گئي كہ ابليس كى درخواست كس حدتك منظور ہوئي_ارشادہوا: ''تجھ كو اس روز معين تك كے لئے مہلت دى گئي''_(۳)

يعنى اس كى پورى درخواست منظور نہيں ہوئي بلكہ جس مقدار ميں خدانے چاہا اتنى مہلت عطا كي_

ليكن اس نے جو يہ مہلت حاصل كى وہ اس لئے نہيں تھى كہ اپنى غلطى كا تدارك كرے بلكہ اس نے اس طولانى عمر كے حاصل كرنے كا مقصد اس طرح بيان كيا:

''اب جبكہ تو نے مجھے گمراہ كرديا ہے،تو ميں بھى تيرے سيدھے راستے پر تاك لگا كر بيٹھوں گا(مورچہ بنائوں گا)اور ان(اولاد آدم)كو راستے سے ہٹادوں گا،تاكہ جس طرح ميں گمراہ ہوا ہوں اسى طرح وہ بھى گمراہ ہوجائيں _''(۴)

اس كے بعد شيطا ن نے اپنى بات كى مزيد تائيد و تاكيد كے لئے يوں كہا:''ميں نہ صرف يہ كہ ان كے راستہ پر اپنا مورچہ قائم كروں گا بلكہ ان كے سامنے سے،پيچھے سے،دا ھنى جانب سے،بائيں جانب سے گويا

____________________

(۱) سورہ اعراف آيت۱۴

(۲) سورہ اعراف ايت ۱۵

(۳) سورہ حجر آيت۳۸

(۴) سورہ اعراف آيت۱۶

۲۱

چاروں طرف سے ان كے پاس آئوں گا جس كے نتيجہ ميں تو ان كى اكثريت كو شكر گزار نہ پائے گا_''(۱)(۲)

شروع ميں اس كا گناہ صرف يہ تھا كہ اس نے خدا كا حكم ماننے سے انكار كرديا تھا،اسى لئے اس كے خروج كا حكم صادر ہوا، اس كے بعد اس نے ايك اور بڑا گناہ يہ كيا كہ خدا كے سامنے بنى آدم كو بہكانے كا عہد كيا اور ايسى بات كہى گويا وہ خدا كو دھمكى دے رہا تھا،ظاہر ہے كہ اس سے بڑھ كر اور كونسا گناہ ہوسكتا ہے_ لہذا خدا نے اس سے فرمايا:اس مقام سے بد ترين ننگ و عار كے ساتھ نكل جا اور ذلت و خوارى كے ساتھ نيچے اتر جا_

اور فرمايا:''ميں بھى قسم كھاتاہوں كہ جو بھى تيرى پيروى كرے گا ميں جہنم كو تجھ سے اور اس سے بھردوں گا_''(۳)(۴)

____________________

(۱)سوہ اعراف آيت۱۶

(۲)مذكورہ بالا تعبير سے مراد يہ ہو سكتى كہ شيطان ہر طرف سے انسان كا محاصرہ كرے گا اور اسے گمراہ كرنے كے لئے ہر وسيلہ اختيار كرے گا اور يہ تعبير ہمارى روز مرہ كى گفتگو ميں بھى ملتى ہے جيسا كہ ہم كہتے ہيں كہ''فلاں شخص چاروں طرف سے قرض ميں يا مرض ميں گھر گيا ہے_''

اوپر اور نيچے كا ذكر نہيں ہوا اس كى وجہ يہ ہے كہ انسان كى زيادہ تر اور عموماًفعاليت ان چار طرف ہوتى ہے_

ليكن ايك روايت جو امام محمد باقر عليہ السلام سے وارد ہوئي ہے،اس ميں ان''چاروں جہت''كى ايك گہرى تفسير ملتى ہے اسميں ايك جگہ پر حضرت(ع) فرماتے ہيں : ''شيطان جو آگے سے آتا ہے اس سے مراد يہ ہے كہ وہ آخرت كو جو انسان كے آگے ہے اس كى نظر ميں سبك كرديتا ہے،اور پيچھے سے آنے كے معنى يہ ہيں كہ;شيطان انسان كو مال جمع كرنے اور اولاد كى خاطر بخل كرنے كے لئے ورغلاتا ہے،اور''داہنى طرف''سے آنے كا يہ مطلب ہے كہ وہ انسان كے دل ميں شك و شبہ ڈال كر اس كے امور معنوى كو ضائع كرديتا ہے اور بائيں طر ف سے آنے سے مراد يہ ہے ك شيطا ن انسان كى نگاہ ميں لذات مادى و شہوات دنيوى كو حسين بنا كر پيش كرتا ہے_

(۳)سورہ اعراف ايت ۱۸

(۴)سجدہ خدا كے لئے تھا ياآدم كے لئے ؟ اس ميں كوئي شك نہيں كہ ''سجدہ ''جس كا معنى عبادت وپرستش ہے صرف خدا كے لئے ہے كيونكہ عالم ميں خدا كے علاوہ كو ئي معبود نہيں اور توحيد عبادت كے معين يہى ہيں كہ خدا كے علاوہ كسى كى عبادت نہ

۲۲

بہشت ميں قيام

بہرحال اس واقعہ اور فرشتوں كے امتحان كے بعد آدم اور حوا كو حكم ديا گيا كہ وہ بہشت ميں سكونت اختيار كريں چنانچہ قرآن كہتا ہے :''ہم نے آدم سے كہا كہ تم اور تمہارى بيوى بہشت ميں رہو اوراس كى فراوان نعمتوں ميں سے جو چاہو كھا ئو ليكن اس مخصوص درخت كے نزديك نہ جانا ورنہ ظالموں ميں سے ہوجائوگے_''(۱)

آيات قرآنى سے ظاہر ہو تا ہے كہ آدم زندگى گزار نے كے لئے اسى عام زمين پر پيدا ہوئے تھے ليكن ابتداء ميں خدا وند عالم نے انہيں بہشت ميں سكونت دى جو اسى جہان كا ايك سرسبز وشاداب اور نعمتوں سے مالامال باغ تھا وہ ايسى جگہ تھى جہاں آدم نے كسى قسم كى تكليف نہيں ديكھى شايد اس كا سبب يہ ہوكہ آدم زمين ميں پر زندگى گزارنے سے آشنائي نہ ركھتے تھے اوربغير كسى تمہيد كے زحمات وتكليف اٹھا نا ان كے لئے مشكل تھا اور زمين ميں زندگى گزارنے كے لئے يہاں كے كر دارورفتار كى كيفيت سے آگاہيت ضرورى تھى لہذا مختصر مدت كے لئے بہشت كے اندر ضرورى تعليمات حاصل كرليں كيونكہ زمين كى زندگى پروگراموں ، تكليفوں اور ذمہ داريوں سے معمور ہے جس كا انجام صحيح سعادت ،تكامل اور بقائے نعمت كا سبب ہے اور ان سے روگردانى كرنا رنج ومصيبت كا باعث ہے _

اور يہ بھى جان ليں كہ اگر چہ انہيں چاہئے كہ زمين كى كچھ چيزوں سے چشم پو شى كريں نيز يہ جان لينا

كريں ،لہذا اس ميں شك و شبہ نہيں كہ ملائكہ نے آدم كے لئے سجدہ عبادت نہيں كيا بلكہ يہ سجدہ خدا كے لئے تھا،ليكن اس عجيب و غريب مخلوق كى وجہ سے يايہ كہ سجدہ آدم كے لئے تھا ليكن وہ خضوع وتعظيم كا سجدہ تھا نہ كہ عبادت وپرستش كا_

كتاب عيون الاخبارميں امام على بن موسى رضا عليہ السلام سے اسى طرح كى روايت ہے جس ميں اپ نے فرمايا: ''فرشتوں كا سجدہ ايك طرف سے خدا كى عبادت تھى اور دوسرى طرف آدم كا اكرام واحترام كيونكہ ہم صلب آدم ميں موجود تھے ''

____________________

(۱) سورہ بقرہ آيت۳۵

۲۳

بھى ضرورى تھاكہ اگر خطاولغزش دامن گير ہو توايسا نہيں كہ سعادت وخوش بختى كے دروازے ہميشہ كےلئے بند ہوجائيں گے بلكہ انہيں پلٹ كردوبارہ عہد وپيمان كرنا چاہيئے كہ وہ حكم خدا كے خلاف كوئي كام انجام نہيں ديں گے تاكہ دوبارہ نعمات الہى سے مستفيد ہوسكيں ، يہ بھى تھا كہ وہ اس ماحول ميں رہ كر كچھ پختہ ہوجائيں اور اپنے دوست اور دشمن كو پہچان ليں اور زمين ميں زندگى گزارنے كى كيفيت سے آشنا ہوجائيں يقينا يہ سلسلہ تعليمات ضرورى تھا تاكہ وہ اسے يادركھيں اور اس تيارى كے ساتھ روئے زمين پر قدم ركھيں _

يہ ايسے مطالب تھے كہ حضرت آدم اور ان كى اولاد آئندہ زندگى ميں ان كى محتاج تھى لہذا اس كے باوجود كہ آدم كو زمين كى خلافت كے لئے پيدا كيا گيا تھا ايك مدت تك بہشت ميں قيام كرتے ہيں اورانہيں كئي ايك حكم دئے جاتے ہيں جوشايد سب تمرين وتعليم كے پہلوسے تھا _

شيطان كا وسوسہ

اس مقام پر آدم نے اس فرمان الہى كو ديكھا جس ميں آپ كو ايك درخت كے بارے ميں منع كيا گيا تھا ادھر شيطان نے بھى قسم كھا ركھى تھى كہ آدم اور اولاد آدم كو گمراہ كرنے سے باز نہ آئے گا وہ وسوسے پيدا كرنے ميں مشغول ہوگيا جيسا كہ باقى آيات قرآنى سے ظاہر ہوتا ہے اس نے آدم كو اطمينا ن دلايا كہ اگراس درخت سے كچھ ليں تو وہ اوران كى بيوى فرشتے بن جائيں گے اور ہميشہ ہميشہ كے لئے جنت ميں رہيں گے يہاں تك كہ اس نے قسم كھائي كہ ميں تمہارا خير خواہ ہوں _''(۱)

اس طرح اس نے فرمان خدا كو ان كى نظر ميں ايك دوسرے رنگ ميں پيش كيا اور انہيں يہ تصور دلانے كى كوشش كى كہ اس '' شجرہ ممنوعہ'' سے كھالينا نہ صرف يہ كہ ضرر رساں نہيں بلكہ عمر جاوداں يا ملائكہ كا مقام ومرتبہ پالينے كا موجب ہے_ اس بات كى تائيد اس جملے سے بھى ہوتى ہے شيطان كى زبانى وارد ہوا ہے: اے آدم: ''كيا تم چاہتے ہوكہ ميں تمہيں زندگانى جاودانى اور ايسى سلطنت كى رہنمائي كروں جو كہنہ نہ ہوگي؟ ''(۲)

____________________

(۱) سورہ اعراف آيت۲۰

(۲)سورہ طہ آيت ۱۲۰

۲۴

ايك روايت جو '' تفسير قمي'' ميں امام جعفرصادق عليہ السلام سے اور''عيون اخبار الرضا'' ميں امام على بن موسى رضا عليہ السلام سے مروى ہے;ميں وارد ہوا ہے : ''شيطان نے آدم سے كہا كہ اگر تم نے اس شجرہ ممنوعہ سے كھاليا تو تم دونوں فرشتے بن جائوگے ،اور پھر ہميشہ كے لئے بہشت ميں رہوگے، ورنہ تمہيں بہشت سے باہر نكال ديا جائے گا ''_

آدم نے جب يہ سنا تو فكر ميں ڈوب گئے ليكن شيطان نے اپنا حربہ مزيد كار گر كرنے كے لئے سخت قسم كھائي كہ ميں تم دونوں كا خيرخواہ ہوں _(۱)

حضرت آدم عليہ السلام كو آب حيات كى تمنا

آدم ، جنہيں زندگى كا ابھى كافى تجربہ نہ تھا ، نہ ہى وہ ابھى تك شيطان كے دھوكے، جھوٹ اور نيرنگ ميں گرفتار ہوئے تھے ،انہيں يہ يقين نہيں ہوسكتا تھا كہ كوئي اتنى بڑى جھوٹى قسم بھى كھا سكتا ہے اور اس طرح كے جال، دوسرے كو گرفتار كرنے كےلئے پھيلا سكتا ہے، آخركار وہ شيطان كے فريب ميں آگئے اور آب حيات وسلطنت جاودانى حاصل كرنے كے شوق ميں مكر ابليسى كى بوسيدہ رسى كو پكڑكے اس كے وسوسہ كے كنويں ميں اتر گئے رسى ٹوٹ گئي اور انہيں نہ صرف آب حيات ہاتھ نہ آيا بلكہ خدا كى نافرمانى كے گرداب ميں گرفتار ہوگئے ان تمام مطالب كو قرآن كريم نے اپنے ايك جملے ميں خلاصہ كرديا ہے ارشاد ہوتا ہے:''اس طرح سے شيطان نے انہيں دھوكا ديا اور اس نے اپنى رسى سے انہيں كنويں ميں اتار ديا ''_(۲)

ادم كو چاہئے تھا كہ شيطان كے سابقہ دشمنى اور خدا كى وسيع حكمت ورحمت كے علم كى بناپر اس كے جال كو پارہ پارہ كرديتے اور اس كے كہنے ميں نہ آتے ليكن جو كچھ نہ ہونا چاہئے تھا وہ ہوگيا _

''بس جيسے ہى آدم وحوانے اس ممنوعہ درخت سے چكھا، فوراً ہى ان كے كپڑے ان كے بدن سے نيچے گرگئے اور ان كے اندام ظاہرہوگئے''_(۳)

____________________

(۱)سورہ اعراف ايت ۲۱

(۲)سورہ اعراف آيت ۲۲

(۳)سورہ اعراف آيت ۲۲

۲۵

مذكورہ بالا جملے سے يہ بخوبى ظاہر ہوتا ہے كہ درخت ممنوع سے چكھنے كے ساتھ ہى فوراً اس كابرا اثر ظاہر ہوگيا اور وہ اپنے بہشتى لباس سے جوفى الحقيقت خدا كى كرامت واحترام كا لباس تھا، محروم ہو كر برہنہ ہوگئے _

اس جملہ سے اچھى طرح ظاہر ہوتا ہے كہ آدم وحوايہ مخالفت كرنے سے پہلے برہنہ نہ تھے بلكہ كپڑے پہنے ہوئے تھے ، اگر چہ قرآن ميں ان كپڑوں كى كوئي تفصيل بيان نہيں كى گئي ليكن جو كچھ بھى تھا وہ آدم وحوا كے وقار كے مطابق اور ان كے احترام كے لئے تھا ،جو ان كى نافرانى كے باعث ان سے واپس لے ليا گيا _

ليكن خود ساختہ توريت ميں اس طرح سے ہے :

آدم وحوا اس موقع پربالكل برہنہ تھے ليكن اس برہنگى كى زشتى كو نہيں سمجھتے تھے، ليكن جس وقت انہوں نے اس درخت سے كھايا جو درحقيقت '' علم ودانش'' كا درخت تھا تو ان كى عقل كى آنكھيں كھل گئيں اور اب وہ اپنے كو برہنہ محسوس كرنے لگے اور اس حالت كى زشتى سے آگاہ ہوگئے_

جس '' آدم '' كا حال اس خود ساختہ توريت ميں بيان كيا گيا ہے، وہ فى الحقيقت آدم واقعى نہ تھا بلكہ وہ تو كوئي ايسا نادان شخص تھا جو علم ودانش سے اس قدر دور تھا كہ اسے اپنے ننگا ہونے كا بھى احساس نہ تھا ليكن جس '' آدم ''كا تعارف قرآن كراتا ہے وہ نہ صرف يہ كہ اپنى حالت سے باخبر تا بلكہ اسرار آفرينش (علم اسما) سے بھى آگاہ تھا اور اس كا شمار معلم ملكوت ميں ہوتا تھا، اگر شيطان اس پر اثرانداز بھى ہوا تويہ اس كى نادانى كى وجہ سے نہ تھا، بلكہ اس نے ان كى پاكى اور صفائے نيت سے سوئے استفادہ كيا _

اس بات كى تائيد كلام الہى كے اس قول سے بھى ہوتى ہے:

''اے اولاد آدم : كہيں شيطان تمہيں اس طرح فريب نہ دے جس طرح تمہارے والدين (آدم وحوا) كو دھوكا دے كر بہشت سے باہر نكال ديا اور ان كا لباس ان سے جدا كرديا ''_(۱)

____________________

(۱)سورہ اعراف آيت ۲۷

۲۶

اگرچہ بعض مفسرين اسلام نے يہ لكھا ہے كہ آغاز ميں حضرت آدم برہنہ تھے تو واقعاً يہ ايك واضح اشتباہ ہے جو توريت كى تحريركى وجہ سے پيدا ہوا ہے_

بہرحال اس كے بعد قرآن كہتا ہے : '' جس وقت آدم وحوا نے يہ ديكھاتو فوراًبہشت كے درختوں كے پتوں سے اپنى شرم گاہ چھپانے لگے _

اس موقع پر خدا كى طرف سے يہ ندا آئي:'' كيا ميں نے تم دونوں كو اس درخت سے منع نہيں كيا تھا كيا ميں نے تم سے يہ نہيں كہا تھا كہ شيطان تمہارا كھلا دشمن ہے، تم نے كس لئے ميرے حكم كو بھلاديا اور اس پست گرداب ميں گھر گئے ؟(۱)

شجرہ ممنوعہ كونسادرخت تھا؟

قرآن كريم ميں بلا تفصيل اور بغير نام كے چھ مقام پر'' شجرہ ممنوعہ'' كا ذكر ہوا ہے ليكن كتب اسلامى ميں اس كى تفسير دوقسم كى ملتى ہے ايك تو اس كى تفسير مادى ہے جو حسب روايات '' گندم '' ہے _

اس بات كى طرف توجہ رہنا چاہئے كہ عرب لفظ '' شجرہ ''كا اطلاق صرف درخت پر نہيں كرتے بلكہ مختلف نباتات كو بھى '' شجرہ '' كہتے ہيں چاہے وہ جھاڑى كى شكل ميں ہوں يابيل كى صورت ميں _

دوسرى تفسير معنوى ہے جس كى تعبير روايات اہل بيت عليہم السلام ميں '' شجرہ حسد'' سے كى گئي ہے ان روايات كا مفہوم يہ ہے كہ آدم نے جب اپنا بلند ودرجہ رفيع ديكھا تو يہ تصور كيا كہ ان كا مقام بہت بلند ہے ان سے بلند كوئي مخلوق اللہ نے نہيں پيدا كى اس پر اللہ نے انہيں بتلا يا كہ ان كى اولاد ميں كچھ ايسے اولياء الہى (پيغمبر اسلام اور ان كے اہل بيت عليہم السلام ) بھى ہيں جن كا درجہ ان سے بھى بلند وبالا ہے اس وقت آدم ميں ايك حالت حسد سے مشابہ پيدا ہوئي اور يہى وہ '' شجرہ ممنوعہ'' تھا جس كے نزديك جانے سے آدم كو روكا گيا تھا_

حقيقت امر يہ ہے كہ آدم نے (ان روايات كى بناپر)دو درختوں سے تناول كيا ايك درخت تو وہ تھا

____________________

(۱)سورہ اعراف آيت ۲۲

۲۷

جو ان كے مقام سے نيچے تھا، اور انہيں مادى دنيا ميں لے جاتا تھا اور وہ '' گندم'' كا پودا تھا دوسرا درخت معنوى تھا ،جو مخصوص اوليائے الہى كا درجہ تھا اور يہ آدم كے مقام ومرتبہ سے بالاتر تھا آدم نے دونوں پہلوئوں سے اپنى حد سے تجاوز كيا اس لئے انجام ميں گرفتار ہوئے_

ليكن اس بات كى طرف توجہ رہے كہ يہ ''حسد'' حسد حرام كى قسم سے نہ تھا يہ صرف ايك نفسانى احساس تھا جبكہ انہوں نے اس طرف قطعاً كوئي اقدام نہيں كيا تھا جيسا كہ ہم نے بارہاكہا ہے كہ آيات قرانى چونكہ متعدد معانى ركھتى ہيں لہذا اس امر ميں كوئي مانع نہيں كہ '' شجرہ '' سے دونوں معنى مراد لے لئے جائيں _

اتفاقاًكلمہ '' شجرہ '' قرآن ميں دونوں معنى ميں آياہے ، كبھى تو انہى عام درختوں(۱) كے معنى ميں استعمال ہوتا ہے، اور كبھى شجرہ معنوى كے معنى ميں استعمال ہوا ہے_(۲)

ليكن يہاں پر ايك نكتہ ہے جس كى طرف توجہ دلانا مناسب ہے اور وہ يہ ہے كہ موجودہ خود ساختہ توريت ميں ، جو اس وقت كے تمام يہود ونصارى كى قبول شدہ ہے اس شجرہ ممنوعہ كى تفسير '' شجرہ علم ودانش اور شجرہ حيات وزندگى '' كى گئي ہے توريت كہتى ہے:

''قبل اس كے آدم شجرہ علم ودانش سے تناول كريں ،وہ علم ودانش سے بے بہرہ تھے حتى كہ انہيں اپنى برہنگى كا بھى احساس نہ تھا جب انہوں نے اس درخت سے كھايا اس وقت وہ واقعى آدم بنے اور بہشت سے نكال ديئے گئے كہ مبادا درخت حيات وزندگى سے بھى كھاليں اور خدائوں كى طرح حيات جاويدانى حاصل كرليں _''(۳)

يہ عبارت اس بات كى كھلى ہوئي دليل ہے كہ موجودہ توريت آسمانى كتاب نہيں ہے بلكہ كسى ايسے كم

____________________

(۱) جيسے (وَشَجَرَةً تَخرُجُ من طُور سَينَائَ تَنبُتُ بالدُّهن )جس سے مراد زيتون كادرخت ہے_

(۲)جيسے :(وَالشَّجَرَةَ المَلعُونَةَ فى القُرآن ) جس سے مراد مشركين يا يہودى يا دوسرى باغى قوميں (جيسے بنى اميہ ) ہيں

(۳) سفر تكوين فصل دوم نمبر ۱۷

۲۸

اطلاع انسان كى ساختہ ہے جو علم و دانش كو آدم كے لئے معيوب سمجھتا ہے، اور آدم كو علم ودانش حاصل كرنے كے جرم ميں خدا كى بہشت سے نكالے جانے كا مستحق سمجھتا تھا، گويا بہشت فہميدہ انسان كے لئے نہيں ہے_(۱)

جنت سے اخراج

قران داستان حضرت ادم عليہ السلام كو اگے بڑھاتے ہوئے كہا ہے، بالآخر شيطان نے ان دونوں كو پھسلاديا اور جس بہشت ميں وہ رہتے تھے اس سے باہر نكال ديا_(۲)

اس بہشت سے جو اطمينان و آسائش كا مركز تھي، اور رنج و غم سے دور تھى شيطان كے دھوكے ميں آكر نكالے گئے، جيسا كہ قرآن كہتا ہے:

____________________

(۱) قابل توجہ بات يہ ہے كہ ڈاكٹر وليم ميلر (جسے عہدين خصوصاً انجيل كا ايك مقتدر مفسر مانا گيا ہے) اپنى كتاب ''مسيحيت چيست'' (مسيحيت كيا ہے) ميں رقمطراز ہے:

''شيطان ايك سانپ كى شكل ميں باغ كے اندر داخل ہوا اور اس نے حوا كو اس بات پر آمادہ كرليا كہ اس درخت كے ميوہ ميں سے كھاليں چنانچہ حوّانے خود بھى كھايا اور آدم كو كھانے كو ديا اور انہوں نے بھى كھايا، ہمارے اولين والدين كا يہ عمل ايك معمولى اشتباہ پر مبنى نہ تھا يا ايك بے سوچى سمجھى خطا بھى نہ تھى بلكہ اپنے خالق كے بر خلاف ايك جانا بوجھا عصيان تھا دوسرے لفظوں ميں وہ يہ چاہتے تھے كہ وہ خود'' خدا'' بن جائيں وہ اس بات كےلئے آمادہ نہ تھے كہ خدا كے ارادہ كے مطيع بنيں بلكہ يہ چاہتے تھے كہ اپنى خواہش كو پاي ہ تكميل تك پہنچائيں نتيجہ كيا ہوا؟ خدا نے ان كى شدت سے سرزنش كى اور باغ (فردوس ) سے باہر نكال دياتاكہ دردورنج سے بھرى دنيا ميں زندگى بسر كريں _

توريت وانجيل كے اس مفسرنے درحقيقت يہ چاہاہے كہ '' شجرہ ممنوعہ '' كى توجيہ كرے، ليكن اس كى بجائے عظيم ترين گناہ يعنى خدا سے جنگ كى نسبت آدم كى طرف دے دى كيا اچھا ہوتا كہ بجائے اس طرح كى كھوكھلى تفسيروں كے كم از كم اپنى '' كتب مقدسہ'' ميں تحريف كے قائل ہوجاتے

(۲) سورہ اعراف آيت ۲۰،۲۱

۲۹

''اور ہم نے انھيں حكم ديا كہ زمين پر اُترو ، جہاں تم ايك دوسرے كے دشمن ہوجائو گے ( آدم و حوا ايك طرف اور شيطان دوسرى طرف)

مزيد فرمايا گيا:'' تمہارے لئے ايك مدت معين تك زمين ميں قرار گاہ ہے، جہاں سے تم نفع اندوز ہوسكتے ہو''(۱)

يہ وہ مقام تھا كہ آدم متوجہ ہوئے كہ انہوں نے اپنے اوپر ظلم كيا ہے اور بہشت كے آرام دہ اور نعمتوں سے مالا مال ماحول سے شيطانى وسوسے كے سامنے سر جھكانے كے نتيجے ميں باہر نكا لے جارہے ہيں اور اب زحمت ومشقت كے ماحول ميں جاكر رہيں گے يہ صحيح ہے ،كہ آدم نبى تھے اور گناہ سے معصوم تھے ليكن جيسا كہ ہم آئندہ چل كربيان كريں گے كہ كسى پيغمبر سے جب ترك اولى سرزد ہوجاتا ہے تو خدا وند عالم اس سے اس طرح سخت گيرى كرتا ہے جيسے كسى عام انسان سے گناہ سرزد ہونے پر سختى كرتا ہے _

آدم عليہ السلام كونسى جنت ميں تھے

اس سوال كے جواب ميں اس نكتے كى طرف متوجہ رہنا چاہئے كہ اگر چہ بعض نے كہا ہے كہ يہ وہى جنت تھى جو نيك اور پاك لوگوں كى وعدہ گاہ ہے ليكن ظاہر يہ ہے كہ يہ وہ بہشت نہ تھى بلكہ زمين كے سرسبز علاقوں ميں نعمات سے مالا مال ايك روح پر ورمقام تھا كيونكہ_

اوّل تو وہ بہشت جس كا وعدہ قيامت كے ساتھ ہے وہ ہميشگى اور جاودانى نعمت ہے جس كى نشاند ہى بہت سى آيات ميں كى گئي ہے اور اس سے باہر نكلنا ممكن نہيں _

دوّم يہ كہ غليظ اور بے ايمان ابليس كے لئے اس بہشت ميں جانے كى كوئي راہ نہ تھى وہاں نہ وسوسہ شيطانى ہے اور نہ خدا كى نافرمانى _

سوم يہ كہ اہل بيت سے منقول روايات ميں يہ موضوع صراحت سے نقل ہوا ہے _

____________________

(۱) سورہ بقرہ آيت ۳۶

۳۰

ايك راوى كہتا ہے : ميں نے امام صادق عليہ السلام سے آدم كى بہشت كے متعلق سوال كيا امام نے جواب ميں فرمايا :

''دنيا كے باغوں ميں سے ايك باغ تھاجس پر آفتاب وماہتاب كى روشنى پڑتى تھى اگر آخرت كى جنتوں ميں سے ہو تى تو كبھى بھى اس سے باہر نہ نكالے جاتے''_

يہاں سے يہ واضح ہو جاتا ہے كہ آدم كے ہبوط ونزول سے مراد نزول مقام ہے،نہ كہ نزول مكان يعنى اپنے اس بلند مقام اور سرسبز جنت سے نيچے آئے _

بعض لوگوں كے نزديك يہ احتمال بھى ہے كہ يہ جنت كسى آسمانى كرہ ميں تھى اگر چہ وہ ابدى جنت نہ تھى ،بعض اسلامى روايات ميں بھى اس طرف اشارہ ہے كہ يہ جنت آسمان ميں تھى ليكن ممكن ہے لفظ ''سماء ً(آسمان ) ان روايات ميں مقام بلند كى طرف اشارہ ہو _

تاہم بے شمار شواہد نشاندہى ہيں كرتے ہيں كہ يہ جنت آخرت والى جنت نہ تھى كيونكہ وہ تو انسان كى سير تكامل كى آخرى منزل ہے اور يہ اس كے سفر كى ابتداء تھى اور اس كے اعمال اور پروگرام كى ابتداء تھى اور وہ جنت اس كے اعمال و پروگرام كا نتيجہ ہے_(۱)

____________________

(۱)آدم كا گناہ كيا تھا :واضح ہے كہ آدم اس مقام كے علاوہ جو خدا نے قران مجيد ميں ان كے لئے بيان كيا ہے معرفت وتقوى كے لحاظ سے بھى بلند مقام پر فائز تھے وہ زمين ميں خدا كے نمائند ے تھے وہ فرشتوں كے معلم تھے وہ عظيم ملائكہ الہى كے مسجود تھے اوريہ مسلم ہے كہ آدم امتيازات وخصوصيات كے ہو تے ہوئے گناہ نہيں كر سكتے تھے علاوہ ازيں ہميں معلوم ہے كہ وہ پيغمبر تھے اور ہرپيغمبر معصوم ہو تا ہے لہذا يہ سوال پيدا ہوتا ہے كہ آدم سے جو كچھ سرزد ہوا وہ كيا تھا؟ اس سوا ل كے جواب ميں تين تفاسير موجود ہيں :

۱_ آدم سے جو كچھ سرزد ہوا وہ ترك اولى تھا دوسرے لفظوں ميں ان كى حيثيت اور نسبت سے وہ گناہ تھا ليكن گناہ مطلق نہ تھا، گناہ مطلق وہ گناہ ہوتا ہے جو كسى سے سرزد ہو اور اس كے لئے سزا معين ہو (مثلا شرك،كفر ،ظلم اور تجاوز وغير ہ)اور نسبت كے اعتبار سے گناہ كا مفہوم يہ ہے كہ بعض اوقات بعض مباح اعمال بلكہ مستحب بھى بڑے لوگوں كے مقام كے لحاظ سے مناسب نہيں

۳۱

خدا كى طرف آدم عليہ السلام كى باز گشت

وسوسئہ ابليس اور آدم كے جنت سے نكلنے كے حكم جيسے واقعات كے بعد آدم متوجہ ہوئے كہ واقعاً انہوں نے اپنے اوپر ظلم كيا ہے اور اس اطمينان بخش اور نعمتوں سے مالا مال جنت سے شيطانى فريب كى وجہ سے نكلنا پڑا اور اب زحمت مشقت سے بھرى ہوئي زمين ميں رہيں گے اس وقت آدم اپنى غلطى كى تلافى كى فكر ميں پڑے اور مكمل جان ودل سے پروردگار كى طرف متوجہ ہوئے ايسى توجہ جو ندامت وحسرت كا ايك پہاڑساتھ لئے ہوئے تھى اس وقت خداكا لطف وكرم بھى ان كى مدد كے لئے آگے بڑھا اورجيسا كہ قرآن ميں خدا وندعالم كہتا ہے:

'' آدم نے اپنے پروردگار سے كچھ كلمات حاصل كئے جو بہت مو ثر اور انقلاب خيز تھے ،ان كے ساتھ توبہ كى خدا نے بھى ان كى توبہ قبول كرلى كيونكہ وہ تواب والرّحيم ہے ''_(۱)

يہ صحيح ہے كہ حضرت آدم نے حقيقت ميں كوئي فعل حرا م انجام نہيں ديا تھا ليكن يہى ترك اولى ان كے

انہيں چا ہئے كہ ان اعمال سے گريز كريں اور اہم كام بجالائيں ورنہ كہا جائے گا كہ انہوں نے ترك اولى كيا ہے ہم جو نماز پڑھتے ہيں اس كا كچھ حصہ حضور قلب سے ہوتا ہے كچھ بغير اس كے، يہ امر ہمارے مقام كے لئے تو مناسب ہے ليكن حضرت رسول اسلام(ص) اور حضرت على (ع) كے شايان شان نہيں ان كى سارى نماز خداكے حضور ميں ہو نى چاہئے اور اگر ايسا نہ ہو توكسى فعل حرام كا ارتكاب تو نہيں تاہم ترك اولى ہے _

۲_ خدا كى نہى يہاں ''نہى ارشادي'' ہے جيسے ڈاكڑكہتا ہے فلاں غذا نہ كھائو ورنہ بيمار پڑجائو گے خدا نے بھى آدم سے فرمايا كہ اگر درخت ممنوعہ سے كچھ كھا ليا تو بہشت سے باہر جانا پڑے گااور رنج وتكليف ميں مبتلا ہونا پڑے گا ،لہذا ادم عليہ السلام نے حكم خدا كى مخالفت نہيں كى بلكہ ''نہى ارشادي''كى مخالفت كى ہے _

۳_جنت بنيادى طور پر جائے تكليف نہ تھى بلكہ وہ ادم عليہ السلام كے زمين پر انے كے لئے ايك ازمائش اور تيارى كا زمانہ تھا،اور يہ نہيں صرف ازمائش كا پہلو ركھتى تھي_

____________________

(۱)سورہ بقرہ ايت ۳۷

۳۲

لئے نافرمانى شمار ہوتا ہے، حضرت ادم فوراً اپنى كيفيت وحالت كى طرف متوجہ ہوئے اوراپنے پروردگار كى طرف پلٹے _

بہرحال جو كچھ نہيں ہونا چاہئے تھايا ہونا چاہئے تھا وہ ہو اور باوجود يكہ آدم كى توبہ قبول ہوگئي ليكن اس كا اثروضعى يعنى زمين كى طرف اترنايہ متغير نہ ہوا _

خدا نے جو كلمات آدم عليہ السلام پر القاكئے وہ كيا تھے ؟

توبہ كے لئے جو كلمات خدا نے آدم عليہ السلام كو تعليم فرمائے تھے اس سلسلے ميں مفسرين كے درميان اختلاف ہے _

مشہور ہے كہ وہ جملے يہ تھے:

( قالا ربنا ظلمنا انفسنا و ان لم تغفرلنا و ترحمنا لنكونن من الخاسرين )

''ان دونوں نے كہا خدا يا ہم نے اپنے اوپر ظلم كيا ہے اگر تونے ہميں نہ بخشا اور ہم پررحم نہ كيا تو ہم زياں كاروں اور خسارے ميں رہنے والوں ميں سے ہوجائيں گے _''(۱)

كئي ايك روايات جو طرق اہل بيت عليہم السلام سے منقول ہيں ،ان ميں ہے كہ كلمات سے مراد خدا كى بہترين مخلوق كے ناموں كى تعليم تھى يعنى محمد ،على ،فاطمہ ، حسن اور حسين عليہم السلام اور آدم نے ان كلمات كے وسيلے سے درگاہ الہى سے بخشش چاہى اور خدا نے انہيں بخش ديا _(۲)

____________________

(۱) سورہ ا عراف آيت ۲۳

(۲)يہ تين قسم كى تفاسير ايك دوسرے سے اختلاف نہيں ركھتيں كيونكہ ممكن ہے كہ حضرت آدم كو ان سب كلمات كى تعليم دى گئي ہو كہ ان كلمات كى حقيقت اور باطنى گہرائي پر غور كرنے سے آدم ميں مكمل طور پر انقلاب روحانى پيدا ہو اور خدا انہيں اپنے لطف وہدايت سے نوازے _

۳۳

ادم عليہ السلام كا ماجرا اور اس جہان پر ايك طائرانہ نظر

اگر چہ بعض ايسے مفسرين نے جو افكار غرب سے بہت زيادہ متاثر ہيں ،اس بات كى كوشش كى ہے كہ حضرت ادم عليہ السلام اور ان كى زوجہ كى داستان كو اول سے لے كر اخر تك تشبيہ ،مجاز اور كنايہ كا رنگ ديں اور اج كى اصطلاح ميں يوں كہيں كہ يہ ايك سمبولك ( SIMBOLIC ) تھا لہذاانھوں نے اس پورى بحث كو ظاہرى مفہوم كے خلاف ليتے ہوئے معنوى كنايہ مراد ليا ہے_

ليكن اس بات ميں كوئي شك و شبہ نہيں كہ ان ايات كا ظاہر ايك ايسے واقعى اور حقيقى ''قصہ''پر مشتمل ہے جو ہمارے اولين ماں باپ كے لئے پيش ايا تھا چونكہ اس پورى داستان ميں ايك مقام بھى ايسانہيں ہے جو ظاہرى عبارت سے ميل نہ كھاتا ہو يا عقل كے خلاف ہو ،اس لئے اس بات كى كوئي ضروت نہيں كہ اس كے ظاہرى مفہوم پر يقين نہ كيا جائے يا جو اس كے حقيقى معنى ہيں ان سے پہلو تہى كيا جائے_

ليكن دراين حال اس حسى و عينى واقعہ ميں انسان كى ائندہ زندگى كے متعلق بھى اشارے ہوسكتے ہيں _(۱)

____________________

(۱)يعني:انسان كى اس پر جنجال زندگى ميں بہت سے ايسے واقعات پيش اسكتے ہيں جو قصہ ادم عليہ السلام و حوا سلام اللہ عليہا سے مشابہت ركھتے ہيں ،اس كى مثال يوں سمجھنا چاہئے كہ ايك طرف تو وہ انسان ہے جو قوت ،عقل اور ہوا و ہوس سے مركب ہے ، يہ دونوں طاقتيں اسے مختلف جتھوں ميں كھينچ رہى ہيں ،دوسرى طرف كچھ ايسے جھوٹے رہبر ہيں جن كا ماضى شيطان كى طرح جانا پہچانا ہے اور وہ انسان كو اس بات پر اكسا رہے ہيں كہ عقل پر پردہ ڈال كر ہوا وہوس كو اختيار كر لو تاكہ يہ بے چارہ انسان پانى كى اميد ميں ''سراب''كو اب سمجھ كر ريگستانوں ميں بھٹك كر اپنى جان گنوا بيٹھے_

ايسے شيطانوں كے بہكانے ميں اجانے كا پہلا نتيجہ يہ نكلتا ہے كہ انسان كے جسم سے''لباس تقوى ''گر جاتا ہے اور اس كے اندرونى عيوب ظاہر و اشكار اہوجاتے ہيں ،دوسرا نتيجہ يہ نكلتا ہے كہ مقام قرب الہى سے دور ہو جاتا ہے اور انسان اپنے بلندمقام سے گر جاتا ہے اور سكون و اطمينان كى بہشت سے نكل كر حيات مادى كى مشكلات و افات كے جنگلوں ميں گھر جاتا ہے اس موقع پر بھى عقل كى طاقت اس كى مدد كر سكتى ہے اور اسے اس نقصان كى تلافى كا موقع فراہم كر سكتى ہے اور اسے خدا كى بارگاہ ميں

۳۴

زمين پرسب سے پہلا قتل

قرآن مجيد ميں حضرت آدم عليہ السلام كے بيٹوں كا نام نہيں ليا گيا ہے ،نہ اس جگہ اور نہ كسى اور مقام پر ،ليكن اسلامى روايات كے مطابق ايك كا نام ہابيل ہے اور دوسرے كا قابيل تھا،موجود ہ تو ريت كے سفر تكوين كے چوتھے باب ميں ايك كانام ''قائن'' اور دوسرے كا نام '' ہابيل''تھا جيسا كہ مفسر معروف ''ابولفتوح رازي'' كہتے ہيں كہ ان دونوں ناموں كى مختلف لغت ہيں پہلے كا نام ''ہابيل ''يا''ہابن''تھا_دوسرے كا نام ''قابيل ''يا ''قابين'' يا ''قابل'' يا''قابن''يا ''قبن'' تھا_

بہرحال اسلامى روايات كے متن اور توريت ميں قابيل كے نام كے بارے ميں اختلاف لغت كى طرف بازگشت ہے اور يہ كوئي اہم بات نہيں ہے _(۱)

يہاں پرحضرت آدم عليہ السلام كے بيٹوں كا ذكر ہے ان ميں سے ايك كے ہاتھوں دوسرے كے قتل كے بارے ميں داستان بيان كى گئي ہے پہلے فرمايا: ''اے پيغمبر :انھيں آدم كے دوبيٹوں كا حقيقى قصہ سنا ديجئے''_(۲)

دوبارہ بھيج سكتى ہے تاكہ جرا ت و صراحت كے ساتھ اپنے گناہ كا اعتراف كرے ،ايسا اعتراف جو اس كى زندگى كى تعمير نو كا ضامن ہو اور اس كى زندگى كا ايك نيا موڑ بن جائے، يہى وہ موقع ہوتا ہے جب كہ دست رحمت الہى بار ديگر اس كى طرف دراز ہوتا ہے تاكہ اسے ہميشہ كے انحطاط اور تنزل سے نجات دے ،اگر چہ اپنے گذشتہ گناہ كا تلخ مزہ اس كے كام و دہن ميں باقى رہ جاتا ہے جو اس كا ثر وضعى ہے ،ليكن يہ ماجرا ،اس كے لئے درس عبرت بن جاتا ہے كيونكہ وہ اس كے شكست كے تجربہ سے اپنى حيات ثانيہ كى بنياد مستحكم كر سكتا ہے اور اس كے نقصان و زيان كے ذريعے سرورائندہ فراہم كر سكتا ہے _

____________________

(۱)تعجب كى بات ہے كہ ايك عيسائي عالم نے اس لفظ كو قرآن پراعترض كى بنيادبناليا ہے كہ قرآن نے''قائن ''كو ''قابيل ''كيوں كہا ہے حا لانكہ اول تويہ اختلاف لغت ہے اور لغت ميں ناموں كے بارے ميں بہت زيادہ اختلاف ہے مثلا توريت ''ابراہيم ''كو ''ابراہام ''لكھتى ہے قرآن اسے ''ابراہيم ''لكھا ہے ثانياً بنيادى طور پر ''ہابيل ''كے نام قرآن ميں مذكور ہى نہيں يہ اسماء تو اسلامى روايات ميں آئے ہيں _

(۲)سورہ مائدہ ايت ۲۷

۳۵

اس كے بعد واقعہ بيان كرتے ہوئے فرمايا گيا ہے :''جب ہر ايك نے تقرب پروردگار كے لئے ايك كام انجام ديا تو ايك كا عمل توقبول كرليا ليكن دوسرے كا قبول نہ ہوا ''_(۱)

مگرجو كام ان دونوں بھائيوں نے انجام ديا اس تذكرہ كا قرآن ميں وجود نہيں ہے بعض اسلامى روايات اور توريت كے سفر تكوين باب چہارم ميں جو كچھ مذكورہے ا س سے ظاہر ہوتا ہے كہ ہابيل كے پاس چونكہ پالتو جانور تھے اس نے ان ميں سے ايك بہترين پلاہوا مينڈھامنتخب كيا، قابيل كسان تھا اس نے گندم كا گھٹيا حصہ ياگھٹياآٹا اس كے لئے منتخب كيا _

سوال يہ پيدا ہوتا ہے كہ فرزندان آدم كو كيسے پتہ چلاكہ ايك كا عمل بارگا ہ ايزدى ميں قبول ہوگيا ہے اور دوسرے كا عمل ردّكرديا گيا ہے قرآن ميں اسكى بھى وضاحت نہيں ہے البتہ بعض اسلامى روايات سے پتہ چلتاہے كہ وہ دونوں اپنى مہيا شدہ چيزيں پہاڑ كى چوٹى پر لے گئے قبوليت كے اظہار كے طور پر بجلى نے ہابيل كى قربانى كھاليا اور اسے جلا ديا ليكن دوسرى اپنى جگہ پر باقى ر ہى اور يہ نشانى پہلے سے رائج تھى _

بعض مفسرين كا خيال ہے كہ ايك عمل كى قبوليت اوردوسرے كى ردّ حضرت آدم عليہ السلام كو وحى كے ذريعے بتايا گيا اور اس كى وجہ سوائے اس كے كچھ نہ تھى كہ ہابيل ايك باصفا ،باكرداراور راہ خدا ميں سب كچھ كرگذرنے والاشخص تھا جبكہ قابيل تا ريك دل ،حاسد اور ہٹ دھرم تھا، قرآن نے دونوں بھائيوں كى جوگفتگو بيان كى ہے اس سے ان كى روحانى كيفت اچھى طرح سے واضح ہوجاتى ہے اسى وجہ سے جس كا عمل قبول نہ ہوا تھا ''اس نے دوسرے بھائي كو قتل كى دہمكى دى اور قسم كھا كر كہا كہ ميں تجھے قتل كردوں گا _''(۲)

ليكن دوسرے بھائي نے اسے نصيحت كى اور كہا كہ اگر يہ واقعہ پيش آيا ہے تو اس ميں ميراكوئي گناہ نہيں ہے، بلكہ اعتراض توتجھ پرہونا چاہيے كيونكہ تيرے عمل ميں تقو ى شامل نہيں تھا اور خدا تو صرف پرہيزگاروں كا عمل قبول كرتا ہے''_(۳)

____________________

(۱)سورہ مائدہ ايت ۲۷

(۲)سورہ مائدہ ايت۲۷

(۳)سورہ مائدہ ايت ۲۷

۳۶

مزيد كہا كہ'' حتى اگر تم اپنى دھمكى كو عملى جامہ پہنائواور ميرے قتل كے لئے ہاتھ بڑھا ئو تو ميں ہرگز ايسا نہيں كروں گا اور تمہارے قتل كے لئے ہاتھ نہيں بڑھائوں گا،كيونكہ ميں توخدا سے ڈرتا ہوں اور ايسے گناہ سے ہرگزاپنے ہاتھ آلودہ نہيں كروں گا_''(۱)

قر ان ميں حضرت آدم كے بٹيوں كا واقعہ ،ايك بھائي كا دوسرے كے ہاتھوں قتل اور قتل كے بعد كے حالات بيان كيے گئے ہيں ،پہلے فرمايا : ''سركش نفس نے بھائي كے قتل كے لئے اسے پختہ كرديا اور اس نے اسے قتل كرديا''_(۲)

اس جملے سے معلوم ہوتا ہے كہ ہابيل كا عمل قبول ہوجانے كے بعد قابيل كے دل ميں ايك طوفان پيدا ہوگيا ايك طرف دل ميں ہر وقت حسد كى آگ بھڑكتى رہتى اوراسے انتقام پر ابھارتى اور دوسرى طرف بھا ئي كا رشتہ، انسانى جذبہ گناہ ،ظلم ،بے انصافى اور قتل نفس سے ذاتى تنفراسے اس جرم سے بازركھنے كى كوشش كرتا ،ليكن آخركار سركش نفس آہستہ آہستہ روكنے والے عوامل پر غالب آگيا اور اس نے اس كے بيداروجدان كو مطمئن كرديا اور اسے جكڑديا اور بھائي كو قتل كرنے پر آمادہ كرديا ''_(۳)

ظلم كى پردہ پوشي

قابيل نے جب اپنے بھائي كو قتل كرديا تو اس كى لاش اس نے صحرا ميں ڈال ركھى تھى اور اسے نہيں معلوم تھا كہ اسے كيا كرنا چاہئے زيادہ دير نہ گذرى كہ درندے ہابيل كے جسم كى طرف آنے لگے قابيل ضمير كے شديد دبائو كاشكار تھا بھائي كے جسم كو بچانے كے لئے وہ لاش كو ايك مدت تك كندھے پرلئے پھرتا رہا كچھ پرندوں نے پھر بھى اسے گھيرركھا تھا اور وہ اس انتظار ميں تھے كہ وہ كب اسے زمين پر پھينكتا ہے تاكہ وہ لاش پر جھپٹ پڑيں _

جيساكہ قرآن كہتا ہے اس موقع پر خدا تعالى نے ايك كواّبھيجا، مقصديہ تھا كہ وہ زمين كھودے اوراس

____________________

(۱)سورہ مائدہ ايت۲۸

(۲)سورہ مائدہ ايت ۳۰

(۳)سورہ مائدہ ايت۳۰

۳۷

ميں دوسرے مردہ كوّے كا جسم چھپادے يا اپنے كھانے كى چيزوں كو زمين ميں چھپادے جيسا كہ كوے كى عادت ہے تاكہ قابيل سمجھ سكے كہ وہ اپنے بھائي كى لاش كس طرح سپر د خاك كرے _

البتہ اس بات ميں كوئي تعجب نہيں كہ انسان كوئي چيز كسى پرندے سے سيكھے كيونكہ تاريخ اور تجربہ شاہد ہيں كہ بہت سے جانور طبعى طور پر بعض معلومات ركھتے ہيں اور انسان نے اپنى پورى تاريخ ميں جانوروں سے بہت كچھ سيكھا ہے يہاں تك كہ ميڈيكل كى بعض كتب ميں ہے كہ انسان اپنى بعض طبيّ معلومات ميں حيوانات كا مرہون منت ہے ،

افسوس اپنے اوپر

اس كے بعد قرآن مزيد كہتا ہے:'' اس وقت قابيل اپنى غفلت اور جہالت سے پريشان ہوگيا اور چيخ اٹھا كہ وائے ہومجھ پر ،كيا ميں اس كوے سے بھى زيادہ ناتواں اور عاجز ہوں ،مجھ سے اتنا بھى نہ ہوسكا كہ ميں اس كى طرح اپنے بھائي كا جسم دفن كردوں ، بہرحال وہ اپنے كيے پرنادم وپشيمان ہوا''_(۱)

كيا اس كى پشيمانى اس بناپر تھى كہ اس كاگھٹيا اور براعمل آخركار اس كے ماں باپ پر اور احتمالى طورپر دوسرے بھائيوں پر آشكار ہوجائےگا اوروہ اسے بہت سرزنش كريں گے يا كيا يہ پشيمانى اس بناپر تھى كہ كيوں ميں ايك مدت تك بھائي كى لاش كندھے پر لئے پھرتا رہا اور اسے دفن نہ كيااور يا پھركيايہ ندامت اس وجہ سے تھى كہ اصولى طور پر انسان ہربراكام انجام دے لينے كے بعد اپنے دل ميں ہرطرح كى پريشانى اور ندامت محسوس كرتا ہے ليكن واضح ہے كہ اس كى ندامت كى جوبھى وجہ ہووہ اس كے گناہ سے توبہ كى دليل نہيں ہے كيونكہ توبہ يہ ہے كہ ندامت خوف خدا كے باعث اورعمل كے براہونے كے احساس كى بنا پر ہوا، اور يہ احساس اسے اس بات پر آمادہ كرے كہ وہ آيندہ ہرگز ايسا كام نہيں كرے گا ،قرآن ميں قابيل كى ايسى كسى توبہ كى نشاندہى نہيں كى گئي بلكہ شايد قران ميں ايسى توبہ كے نہ ہو نے كى طرف ہى اشارہ ہے _

____________________

(۱)سورہ مائدہ ايت ۳۱

۳۸

پيغمبر اسلام (ص) سے ايك حديث منقول ہے ،آپ نے فرمايا :

''جس كسى انسان كا بھى خون بہايا جاتا ہے اس كى جوابدہى كا ايك حصہ قابيل كے ذمہ ہوتا ہے جس نے انسان كُشى كى اس برى سنت كى دنياميں بنيادركھى تھي''_

اس ميں شك نہيں كہ حضرت آدم عليہ السلام كے بيٹوں كا يہ واقعہ ايك حقيقى واقعہ ہے اس كے علاوہ كہ آيات قرآن اور اسلامى روايت كا ظاہر ى مفہوم اس كى واقعيت كو ثابت كرتا ہے اس كے ''بالحق '' كى تعبير بھى جوقر آن ميں آئي ہے اس بات پر شاہدہے، لہذا جولوگ قران ميں بيان كئے گئے واقعہ كو تشبيہ ،كنايہ يا علامتى ( SIMBOLIC )داستان سمجھتے ہيں ،بغيردليل كے ايسا كرتے ہيں _(۱)

____________________

(۱)اس كے باوجود اس بات ميں كوئي مضائقہ نہيں كہ يہ حقيقى واقعہ اس جنگ كے لئے نمونہ كے طورپر بيان كيا گيا ہو جو ہميشہ سے مردان پاكباز ،صالح ومقبول بارگا ہ خدا انسانوں اور آلودہ ،منحرف ،كينہ پرور، حاسد اور ناجائزہٹ دھرمى كرنے والوں كے درميان جارى رہى ہے وہ لوگ كتنے پاكيزہ اور عظيم ہيں جنھوں نے ايسے برے لوگوں كے ہاتھوں جام شہادت نوش كيا _

آخركار يہ برے لوگ اپنے شرمناك اور برے اعمال كے انجام سے آگاہ ہو جاتے ہيں اور ان پر پردہ ڈالنے اور انھيں دفن كرنے كے درپے ہوجاتے ہيں اس مو قع پر ان كى آرزوئيں ان كى مدد كو لپكتى ہيں ،كوّا ان آرزوئوں كا مظہر ہے جو جلدى سے پہنچتا ہے اور انھيں ان كے جرائم پرپر دہ پوشى كى دعوت ديتا ہے ليكن آخر كار انھيں خسارے ،نقصان اور حسرت كے سوا كچھ نصيب نہيں ہوتا _

۳۹

حضرت ادريس عليہ السلام

بہت سے مفسرين كے قول كے مطابق ادريس عليہ السلام،نوح عليہ السلام كے دادا تھے ان كا نام توريت ميں ''اخنوخ''اور عربى ميں ادريس(ع) ہے جسے بعض''درس''كے مادہ سے سمجھتے ہيں ،كيونكہ وہ پہلے شخص تھے جنہوں نے قلم كے ساتھ خط لكھا،مقام نبوت كے علاوہ وہ علم نجوم علم ہئيت ميں بھى ماہر تھے وہ پہلے شخص تھے جنہوں نے انسان كو لباس سينے كاطريقہ سكھايا_

اس عظيم پيغمبر كے بارے ميں قرآن ميں صرف دو مرتبہ،وہ بھى مختصر سے اشاروں كے ساتھ بيان آيا ہے،ايك تو يہى سورہ مريم ايت ۵۶ ميں اور دوسرا سورہ انبياء كى آيات ۸۵سے۸۶/ميں ، مختلف روايات ميں ان كى زندگى كے بارے ميں تفصيلى طور پر بيان كيا گيا ہے كہ جسے ہم پورے كا پورا معتبر نہيں سمجھ سكتے_اسى وجہ سے ہم مذكورہ اشارے پر قناعت كرتے ہوئے اس بحث كو ختم كرتے ہيں _

۴۰

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

( وماأَرسلنا من رسول الابلسان قومه لیبیّن لهم ) ...)( ۱ )

ہم نے ہر پیغمبر کو اسی کی زبان میں مبعوث کیا تاکہ انہیں سمجھا سکے اور وضاحت کرسکے۔

نیز سورۂ اعراف اور ہود میں فرماتا ہے:( و الیٰ عاد اخاه هودا ) اور قوم عاد کی طرف '' نوح کے بھائی ہود'' کو بھیجا نیز سورۂ اعراف ، ہود اور نمل میں فرماتا ہے : و الیٰ ثمود اخاہ صالحاً میں نے قوم ہود کی طرف '' ان کے بھائی صالح'' کو بھیجا اور سورۂ اعراف، ہود اور عنکبوت میں فرماتا ہے :( والیٰ مدین اخاه شعیبا ) ؛ مدین کی طرف ''ان کے بھائی شعیب'' کو مبعوث کیا ۔

اس انتخاب کی حکمت بھی واضح ہے، کیونکہ خد اکا رسول اپنی قوم کے درمیان اپنے خاندان اور رشتہ داروں کی وجہ سے قوی اور مضبوط ہوتا ہے اور تبلیغی وظائف کی انجام دہی میں مدد ملتی ہے ، جیساکہ خد اوند عالم نے سورۂ ہود میں قوم شعیب کی داستان بیان کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ ان کی قوم نے ان سے کہا:( ولو لا رهطک لرجمناک ) اگر تمہارے عزیز و اقارب نہ ہوتے تو ہم تمہیں سنگسار کر دیتے۔خد اپیغمبروں کو لوگوںکی ہدایت اور ان پر حجت تمام کرنے کے لئے بھیجتا ہے جیسا کہ سورۂ نساء میں فرمایا:

( ورسلاً مبشرین و منذرین لئلا یکون للناس علٰی الله حجة بعد الرسل )

ایسے رسول جو بشارت دینے والے اور ڈرانے والے تھے، تاکہ ان پیغمبروںکے بعد لوگوں کے لئے خدا پر کوئی حجت نہ رہ جائے اور سورۂ اسراء میں فرماتا ہے:( ۲ )

( وما کنا معذبین حتیٰ نبعث رسولاً )

ہم اس وقت تک عذاب نہیںکرتے ہیں جب تک کہ کوئی رسول نہ بھیج دیں۔( ۳ )

اورسورۂ یونس میں فرماتا ہے :

( ولکل امة رسول فاذا جاء رسولهم قضی بینهم بالقسط وهم لا یظلمون ) ( ۴ )

ہر امت کے لئے ایک پیغمبر ہوگا، جب ان کے درمیان پیغمبر آجائے گا تو عدل و انصاف کے ساتھ فیصلہ ہوگا اور ان پر ظلم نہیں ہوگا۔

جو امتیں پیغمبر کی نافرمانی کرتی ہیں وہ دنیاوی اور اخروی عذاب کی مستحق ہوجاتی ہیں جیسا کہ خداوند عالم فرعون اور اس سے پہلے والی امت کی خبر دیتے ہوئے سورۂ حاقہ میں فرماتا ہے :

____________________

(۱)ابراہیم۵(۲)نسائ۱۶۵(۳)اسرائ۱۵(۴)یونس۴۷

۲۰۱

( فعصوا رسول ربهم فأخذهم أخذةرابیة )

انہوں نے اپنے رب کے رسول کی نافرمانی کی تو خدا وند عالم نے انہیں دردناک عذاب میں مبتلا کیا۔( ۱ )

پیغمبر کی نافرمانی بعینہ خدا کی نافرمانی ہے ، جیسا کہ سورۂ جن میں ارشاد فرماتا ہے:

( ومن یعص الله و رسوله فان له نار جهنم خالدین فیها ابداً )

جو بھی خد ااور اس کے رسول کی نافرمانی کرتا ہے اس کے لئے جہنم کی آگ ہے اور وہ اس میں ہمیشہ رہے گا۔( ۲ )

خدا وند عالم نے رسولوں کو انبیاء کے درمیان سے منتخب کیا اور ہمیشہ رسولوں کی تعداد انبیاء سے کم ہے جیسا کہ ابوذر کی روایت میں ہے کہ انہوںنے کہا:

و قلت یا رسول الله :''کم هو عدد الانبیائ، قال : ماة الف و اربعة و عشرون الفاً الرسل من ذلک ثلاثمأة و خمسة عشر جما غفیراً ۔''

ابوذر نے کہا: یا رسول اللہ: انبیائ(ع) کی تعداد کتنی ہے ؟ فرمایا: ایک لاکھ چوبیس ہزار ، اس میں سے تین سو پندرہ رسول ہیں ان کی مجموعی تعداد یہی ہے ۔( ۳ )

جو میں نے بیان کیا اس اعتبار سے ہر رسول نبی ہے لیکن ہر نبی رسول نہیں ہے ، جیسا کہ ''یسع'' رسول نہیں تھے لیکن نبی اور موسیٰ کلیم اللہ کے وصی تھے۔

بعض پیغمبر جو شریعت لیکر آئے، انہوں نے بعض گز شتہ شریعت کے مناسک کو نسخ کر دیا جیساکہ حضرت موسیٰ کی شریعت اپنے ما قبل شریعتوں کے لئے ایسی ہی تھی، بعض پیغمبر کچھ ایسی شریعت لیکر آئے جو سابق شریعت کی تجدید کرنے اور کامل کرنے والی تھی، جس طرح حضرت خاتم الانبیاء کی شریعت ابراہیم خلیل کے آئین حنیف کی نسبت، خدا وند سورۂ نحل میں فرماتا ہے :

( ثم اوحینا الیک ان اتبع ملة ابراهیم حنیفاً )

پھر ہم نے تمہاری طرف وحی کی کہ حضرت ابراہیم کے خالص آئین کا اتباع کرو...( ۴ )

اور سورۂ مائدہ میں ارشاد ہوتا ہے :

____________________

(۱)حاقہ۱۰(۲)جن۲۳

(۳)مسند احمد، ج۵، ص ۲۶۵۔۲۶۶، معانی الاخبار، صدوق ص ۳۴۲، خصال، طبع مکتبہ صدوق، ج۲ ص ۵۳۳، بحار الانوار، ج۱۱، ص ۳۲، حدیث ۲۴، مذکورہ روایت کی عبارت مسند احمد سے اخذ کی گئی ہے ۔ (۴) نحل۱۲۳

۲۰۲

( الیوم اکملت لکم دینکم و أتممت علیکم نعمتی و رضیت لکم الاسلام دیناً ) ( ۱ )

آج تمہارے لئے دین کو کامل کیا اور اپنی نعمت تم پر تمام کر دی اور اسلام کو تمہارے لئے آئین کے عنوان سے پسند کیا۔

آئندہ بحث میں انبیاء کے وصیوں کی خبروں کی تحقیق کریں گے۔

ج۔ وصی و وصیت

وصی کتاب اور سنت میں ، ایک ایسا انسان ہے جس سے دوسرے لوگ وصیت کرتے ہیں تاکہ اس کے مرنے کے بعد ان کی نظر میں قابل توجہ امور پر اقدام کرے خواہ، اس لفظ اور عبارت میں ہو کہ '' میں تمہیں وصیت کر رہا ہوں کہ میرے بعد تم ایسا کرو گے ، یاان الفاظ میں ہو: میں تم سے عہد لیتا ہوں اور تمہارے حوالے کرتا ہوں کہ میرے بعد ایسا ایسا کرو گے اس میں ، کوئی فرق نہیں ہے ، جس طرح سے وصیت کے بارے میں دوسروں کو خبر دینے میں بھی لفظ وصی اور وصیت وغیرہ میں کوئی فرق نہیں ہے اور اگر یہ کہے : فلاں میرے بعد میر اوصی ہے ، یا کہے : فلاں میرے بعد ایسا ایسا کرے گا یا جو بھی عبارت وصیت کا مفہوم ادا کرے اور اس پر دلالت کرے کافی ہے۔

نبی کا وصی بھی ،وہ انسان ہے جس سے پیغمبر نے عہد و پیمان لیا ہو تاکہ اس کے مرنے کے بعد امور شریعت اور امت کی ذمہ داری اپنے ذمے لے اور اسے انجام دے۔( ۲ )

انبیاء کے وصیوں کے بارے میں جملہ اخبار میں سے ایک یہ ہے جسے طبری نے ابن عباس سے نقل کیا ہے جس کا خلاصہ یہہے : جناب حوا نے حضرت آدم کی صلب سے ''ھبة اللہ'' کوجو کہ عبرانی زبان میں ''شیث'' ہے جنم دیا تو حضرت آدم نے انہیں اپنا وصی قرار دیا، حضرت شیث سے بھی ''انوش'' نامی فرزند پیدا ہوا اور انہوں نے اسے بیماری کے وقت اپنا وصی بنایا اور دنیا سے رحلت کر گئے ، پھر اس کے بعد'' انوش'' کی اولاد ''قینان'' اور دیگر افراد دنیا میں آئے کہ اپنے باپ کے وصی ' 'قینان'' بنے، قینان سے بھی ''مھلائیل الیرد'' اور دیگر گروہ وجود میں آئے کہ جس میں وصیت ''یرد'' کے ذمہ قرار پائی، یرد سے بھی ''خنوخ'' کہ جن کو ادریس کہا جاتا ہے، دیگر فرزندوں کے ساتھ پیدا ہوئے اور جناب ادریس اپنے باپ کے وصی بنے اور ادریس سے ''متوشلخ'' اور کچھ دیگر افراد پیدا ہوئے اور وصیت ان کے ذمہ قرار پائی۔

____________________

(۱) سورۂ مائدہ ۳(۲)مزید تفصیل کیلئے،''فرہنگ دو مکتب در اسلام''، ج۱ ص بحث وصی کی طرف رجوع کریں۔

۲۰۳

ابن سعد نے اپنی کتاب '' طبقات'' میں جناب ادریس کے بارے میں ابن عباس سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے کہا: سب سے پہلے پیغمبر جو آدم کے بعد مبعوث ہوئے ادریس تھے اور وہ ''خنوخ بن یرد'' ہیں۔

اور خنوخ سے بھی 'متوشلخ'' اور کچھ دیگر اولاد پیدا ہوئی اور وصیت ان کے ذمہ قرار پائی اور متوشلخ سے ''لمک'' اور کچھ دیگر اولاد پیدا ہوئی اور وہ اپنے باپ کے وصی ہو گئے اور لمک سے حضرت ''نوح'' پیداہوئے۔( ۱ )

مسعودی نے ''اخبار الزمان'' میں ایک روایت ذکر کی ہے جس کا خلاصہ یہ ہے :

خد اوند عالم نے جب حضرت آدم کی روح قبض کرنی چاہی ، تو انہیں حکم دیا کہ اپنے فرزند شیث کو اپنا ''وصی'' قرار دیں اور ان علوم کی انہیں تعلیم دیں جو اللہ نے انہیں دیا ہے تو انہوںنے ایسا ہی کیا اور نقل کیا ہے : شیث نے اپنے بیٹے قینان کو صحف کی تعلیم دی زمین کے محاسن اچھائیوں اور ذخائر کو بیان کیااس کے بعد انہیں اپنا وصی بنایا اور نماز قائم کرنے،زکوٰة دینے ، حج کرنے اور قابیل کی اولاد سے جہاد کرنے کا حکم دیا ۔ انہوںنے اپنے باپ کے حکم کی تعمیل کی اور سات سو بیس سال کے سن میں دنیا سے رخصت ہوئے۔

قینان نے اپنے فرزند ''مہلائیل'' کو وصی بنایا اور انہیں جس کی خود انہیں وصیت کی گئی تھی وصیت کی مہلائیل کی عمر۸۷۵ سال تھی، انہوںنے بھی اپنے فرزند ''بوادر'' کو وصی بنایاانہیں صحف کی تعلیم دی اور زمین کے ذخیروں او رآئندہ رونما ہونے والے حوادث سے آگاہ کیا او ''سرِّ ملکوت'' نامی کتاب انہیں سپرد کی، یعنی وہ کتاب جسے مہلائیل فرشتے نے حضرت آدم کو تعلیم دی تھی اور اسے سربستہ اور دیکھے بغیر ،ایک دوسرے سے وراثت میں پاتے تھے، بوارد سے ''خنوخ'' نامی فرزند پیدا ہو ایہ وہی ادریس نبی ہیں کہ خد اوند عالم نے انہیں عالی مقام بنایا انہیں ادریس اس لئے کہتے ہیں کہ انہوںنے خدا وند عز و جل کی کتابوں اور دین کی سنتوں کو بہت پڑھا اور اس پر عمل کیا ہے ، خدا وند عالم نے ان پر تیس عدد صحیفے نازل کئے کہ ان کو ملاکر اس زمانے میں نازل ہونے والے صحیفے کامل ہوئے۔''یوارد'' نے اپنے فرزند ''خنوخ'' (ادریس) کو اپنا وصی بنایا اور اپنے باپ کی وصیت ان کے حوالے کی اور جو علوم ان کے پاس تھے ان کی تعلیم دی اور'' مصحف سر'' اُن کے حوالے کیا...۔

یعقوبی نے اخبار اوصیاء کو سلسلہ وار اور طبری و ابن اثیر سے زیادہ بسط و تفصیل سے نقل کیا ہے اس کے علاوہ دوسرے کی اخبار بھی وصیت کے سلسلہ میں ذکر کئے ہیں ، مثال کے طور پر کہتا ہے : حضرت آدم کی

____________________

(۱)تاریخ طبری، طبع یورپ، ج۱ ص ۱۵۳۔۱۶۵، ۱۶۶، تاریخ ابن اثیر، ج۱ ص ۱۹، ۲۰، شیث بن آدم کے بارے میں ، طبقات ابن سعد، ج۱ ص ۱۶، ابن کثیر نے بھی اپنی تاریخ میں حضرت آدم کی وصیت کا ،جو انہوں نے اپنے شیث کو کی تھی، ذکر کیا ہے ۔

۲۰۴

وفات کے وقت ان کے فرزند شیث اوردوسرے بیٹے،پوتے ان کے پاس آئے تو انہوںنے ان پر درود بھیجا اور ان کے لئے خداسے برکت اور کثرت طلب کی اور اپنے بیٹے شیث کو اپنا وصی بنایا اور ذکر کیا ہے :

حضرت آدم کی موت کے بعد آپ کے فرزند شیث آ گے بڑھے اور اپنی قوم کو تقوای الٰہی اور عمل صالح کا حکم دیا...یہاں تک کہ شیث کی وفات کے وقت ان کے فرزند اور پوتے کہ اس دن انوش، قینان، مہلائیل یرد اور خنوخ تھے اور ان کے بچے اور بیویاں ان کے قریب آئیں اور شیث نے ان پر درود بھیجا اور خدا وند عالم سے ان کے لئے برکت ، ترقی اور زیادتی کی درخواست کی اور ان کی طرف مخاطب ہو کر انہیں قسم دی کہ.... قابیل ملعون کی اولاد سے معاشرت نہیں کریں گے اور فرزند انوش کو وصی بنایا۔

یعقوبی اس طرح سے سلسلہ وار اوصیاء کی خبروں کو ان کے زمانہ کے وقایع کے ذکر کے ساتھ حضرت نوح کی خبر وصیت تک پہنچ کر کہتاہے : حضرت نوح کی وفات کے وقت آپ کے تینوں بیٹے سام، حام اور یافث اور ان کی اولاد ان کے پاس جمع ہوگئی پھر حضرت نوح کی وصیت کی تشریح کرتا ہے اور اسی طرح انبیاء کے اوصیاء کے تسلسل کوبنی اسرائیل اور ان کے اوصیاء تک ذکر کیا ہے کہ ہم یہاں تک اسی خلاصہ پر اکتفا کرتے ہیں۔

حضرت نوح کے زمانے میں قابیل کے فرزندوں کے درمیان بتوں کی عبادت رائج تھی۔

ادریس نے اپنے فرزند متوشلخ کو اپنا وصی بنایا، کیونکہ خدا وند متعال نے انہیں وحی کی کہ وصیت کو اپنے فرزند متوشلخ میں قرار دو کیونکہ ہم عنقریب ان کی صلب سے پسندیدہ کردار نبی پید اکریں گے۔ خد اوند عالم نے حضرت ادریس کو اپنی طرف آسمان پر بلا لیا اور ان کے بعد وحی کا سلسلہ رک گیا اور شدید اختلاف اور زبردست تنازعہ کھڑا ہو گیا اور ابلیس نے مشہور کر دیا کہ وہ مر گئے ہیں، اس لئے کہ وہ کاہن تھے وہ چاہتے تھے کہ فلک کی بلندی تک جائیںکہ وہ آگ میں جل گئے ہیں حضرت آدم کی اولاد چونکہ اس دین کی پابند تھی لہٰذا سخت غمگین ہوئی، ابلیس نے کہا ان کے بڑے بُت نے انہیں ہلاک کر دیا ہے ، پھر تو بت پرستوں نے بتوںکی عبادت میں زیادتی کر دی اور ان پر زیورات نثار کرنا شروع کر دئیے اور قربانی کی اور ایسی عید کا جشن منایا کہ سب اس میں شریک تھے وہ لوگ اس زمانے میں یغوث، یعوق، نسر، ودّ اور سواع نامی بت رکھتے تھے۔

۲۰۵

جب متوشلخ کی موت کا وقت قریب آیا ، تو اپنے فرزند'' لمک'' کو وصی بنایا( لمک جامع کے معنی میں ہے) اور ان سے عہد و پیمان لیا اور جناب ادریس کے صحیفے اور ان کی مہر کردہ کتابیں ان کے حوالے کیں اس وقت متوشلخ کی عمر ۹۰۰ سال تھی، وصیت لمک تک منقل ہوئی ( وہ جناب نوح کے والد تھے) انہوں نے ایک بار اچانک دیکھا کہ ان کے دہن سے ایک آگ نکلی اور تمام عالم کو جلا گئی۔ اوردوبارہ دیکھا کہ گویا وہ دریا کے درمیان ایک درخت پر ہیں اور کوئی دوسری چیز نہیں ہے ، حضرت نوح بڑے ہوئے خدا وند عالم نے انہیں ۵۰ سال کے سن میں بلند مقام اور نبوت بخشی اور انہیں ان کی قوم کی طرف کہ جوبت کی پوجا کرتی تھی بھیجا، وہ اولوالعزم رسولوں میں سے ایک تھے۔

بعض اخبار میں آپ کی عمر ۱۲۵۰ سال ذکر کی گئی ہے،وہ جیسا کہ خدا وند متعال نے فرمایا ہے: اپنی قوم کے درمیان ۹۵۰ سال رہے اور انہیں ایمان کی دعوت دی،ان کی شریعت: توحید ، نماز، روزہ، حج اور دشمنان خد اقابیل کے فرزندوں سے جہاد تھی، وہ حلال کے لئے مامور اور حرام سے ممنوع کئے گئے تھے اور ان کو حکم دیا گیا تھا کہ لوگوں کو خدا وند متعال کی طرف دعوت دیں اور اس کے عذاب سے ڈرائیں اور خدا کی نعمتوں کو یاد دلائیں۔

مسعودی کا کہنا ہے: خدا وند عالم نے ریاست اور انبیاء کی کتابیں سام بن نوح کے لئے قرار دیں اور نوح کی وصیت بھی ان کے فرزندوں سے مخصوص ہوئی نہ کہ ان کے بھائیوں سے ۔( ۱ )

یہاں تک جو کچھ مسعودی کی کتاب اخبار الزمان سے ہمارے پاس تھا تمام ہوا، مسعودی نے اسی طرح کتاب ''اثبات الوصیة''( ۲ ) میں اوصیاء کے سلسلہ کو حضرت آدم سے حضرت خاتمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم تک بیان کیا ہے ، یہ وہ چیز ہے جو اسلامی مدارک کی بحثوں میں رسولوں اور ان کے جانشینوں کے بارے میں بیان ہوا ہے، آئندہ بحث میں ، رسولوںاور ان کے اوصیاء کی خبروں کوکتاب عہدین (توریت اور انجیل) سے بیان کریں گے۔

____________________

(۱) اخبار الزمان ، مسعودی، طبع بیروت، ۱۳۸۶ ھ،ص ۷۵، ۱۰۲(۲)ہم نے اس کتاب کی دوسری جلد میں ،مسعودی کی طرف اثبات الوصیة کی نسبت کے متعلق فصل : عصر فترت ،باب : پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے آباء و اجداد میں وضاحت کر دی ہے۔

۲۰۶

۲۔ کتب عہدین میں ا وصیاء کی بعض خبریں

کتب عہدین سے اخبار اوصیاء کے نقل کے بارے میں ہم صرف تین وصیت پر اکتفا کریں گے:

الف۔ حضرت موسی کلیم کی خدا کے نبی یوشع کو وصیت

''قاموس کتاب مقدس '' نامی کتاب میں مادہ ''یوشع'' کے ذیل میں توریت کے حوالے سے ذکر ہوا ہے :

یوشع بن نون حضرت موسیٰ کے ساتھ کو ہ سینا پر تھے اور ہارون کے زمانے میں گوسالہ پرستی میں ملوث نہیں ہوئے۔( ۱ )

اورسفر اعداد کے ستائیسویں باب کے آخر میں خد اکی جانب سے موسیٰ کی تعیین وصیت کے بارے میں ذکر ہوا ہے:

موسیٰ نے خدا وند عالم کی بارگاہ میں عرض کی کہ یہوہ تمام ارواح بشر کا خدا کسی کو اس گروہ پرمقرر کرے جو کہ ان کے آگے نکلے اور ان کے آگے داخل ہو اور انہیںباہر لے جائے اور ان کو داخل کرے تاکہ خد اکی جماعت بے چرواہے کے گوسفندوں کی طرح نہ رہے، خداوند عالم نے موسیٰ سے کہا: یوشع بن نون کہ جو صاحب روح انسان ہیںان پر اپنا ہاتھ رکھو اور ''العازار کاہن''اور تمام لوگوں کے سامنے کھڑاکرکے وصیت کرو اور انہیں عزت اور احترام دو،تاکہ تمام بنی اسرائیل ان کی اطاعت کریں اوروہ ''العاذار کاہن'' کے سامنے کھڑے ہوں تاکہ ان کے لئے ''اوریم'' کے حکم کے مطابق خدا سے سوال کرے اور اس

کے حکم سے وہ اور تمام بنی اسرائیل ان کے اور پوری جماعت کے ساتھ باہر جائیں اور ان کے حکم سے داخل ہوں لہٰذا موسی ٰنے خد اکے حکم کے مطابق عمل کیا اور یوشع بن نون کو پکڑکر

____________________

(۱)''قاموس کتاب مقدس'' ترجمہ و تالیف مسٹر ھاکس امریکی، مطبع امریکی، بیروت، ۱۹۲۸ء ص ۹۷۰

۲۰۷

'' العازار کاہن ''اور تمام جماعت کے سامنے لا کر کھڑا کر دیا اپنے ہاتھوں کو ان کے اوپر رکھا اور انہوں نے خدا کے بتائے ہوئے حکم کے مطابق وصیت کی ۔( ۱ )

نیز اموربنی اسرائیل کو چلانے اور ان کی جنگوںکی داستان تیئیسویں باب سفر یوشع بن نون میں مذکورہے ۔( ۲ )

ب۔ حضرت داؤد نبی کی حضرت سلیمان کو وصیت

بادشاہوں کی کتاب اول کے باب دوم میں مذکور ہے ۔( ۳ )

اور جب حضرت داؤد کا یوم وفات قریب آیا اپنے بیٹے سلیمان کو وصیت کی اور کہا :میں تمام اہل زمین کے راستہ (موت ) کی طرف جا رہا ہوں لہٰذا تم دلیرانہ طور پراپنے خدا یہوہ کی وصیتوں کو محفوظ رکھتے ہوئے اس کے طریقہ پر گامزن رہنا اور اس کے فرائض ، اوامر، احکام و شہادات جس طرح موسیٰ کی کتاب توریت میں مکتوب ہیں اسے محفوظ رکھنا تاکہ جو کام بھی کرو اور جہاں بھی رہو کامیاب رہو ۔( ۴ )

ج۔حضرت عیسی کی حواری شمعون بطرس کو وصیت

انجیل متی کے دسویں باب میں سمعون کے بارے میں کہ ان کانام توریت میں شمعون ہے، ذکر ہوا ہے :

انہوں نے پھر اپنے بارہ شاگردوں کو بلا کر خبیث ارواح پر تسلط عطا کیا کہ انہیں باہر کرا دیں

اورہر مرض اور رنج کا مداوا کریں بارہ رسولوں ( نمائندوں)کے یہ اسماء ہیں: اول شمعون جو پطرس کے نام سے مشہور ہیں تھے۔

انجیل یوحنا کے اکیسویں، باب ۱۸۔۱۵ شمارہ میں ذکر ہے :

عیسیٰ نے انہیں ( شمعون کو) اپنا وصی بنایا اور ان سے کہا: میری گوسفندوں کو چرائو ''یعنی مجھ

پر ایمان لانے والوں کی حفاظت کرو''۔

____________________

(۱) کتاب مقدس ، عہد عتیق ( توریت )ص ۲۵۴، کلدانی اور عبرانی یونانی زبان سے فارسی ترجمہ ، طبع ۳. دار السلطنت لندن ۱۹۳۲ ء

(۲)کتاب مقدس ، عہد عتیق ( توریت کلدانی اور عبرانی یونانی زبان سے فارسی ترجمہ ، طبع دار السلطنت لندن ۱۹۳۲ ء ص ۳۷۰، ۳۳۳.

(۳) وہی ماخذ.

(۴) وہی ماخذ.

۲۰۸

''قاموس کتاب مقدس'' میں بھی ذکر ہو اہے : مسیح نے انہیں (شمعون کو) کلیسا(عبادت خانہ) کی ہدایت کے لئے معین فرمایا۔( ۱ )

پہلی خبر میں ہم نے ملاحظہ کیا کہ بنی خدا، موسیٰ بن عمران نے اپنے بعد خدا کے نبی یوشع(جوقرآن کریم میں الیسع کے نام سے مشہورہیں)کو وصی بنایا۔

اور دوسری خبر میں خدا کے نبی دائود نے حضرت سلیمان کو وصیت کی کہ وہ خدا کے نبی اور رسول موسیٰ بن عمران کی شریعت پر عمل کریں۔

تیسری خبر میں عیسی روح اللہ نے اپنے حواری کواس بات کی وصیت کی کہ لوگوں کی ہدایت کریں۔

قرآن کریم میں رسولوں اور اوصیاء کی خبریں

خدا وند سبحان نے قرآن کریم میں جن ۲۶ انبیاء کی ان کے اسماء کے ذکر کے ساتھ داستان بیان کی ہے وہ یہ ہیں:

آدم، نوح، ادریس، ہود، صالح، ابراہیم ، لوط، ایوب، الیسع، ذو الکفل، الیاس، یونس، اسمعیل، اسحق، یعقوب، یوسف، شعیب، موسیٰ، ہارون، دائود، سلیمان، زکریا، یحییٰ، اسماعیل صادق الوعد، عیسیٰ اور محمد مصطفی ۔

ان میں سے بعض ایسے صاحب شریعت تھے کہ جو گز شتہ شریعت کے متمم اور مکمل تھے ، جیسے حضرت نوح کی شریعت جوکہ حضر ت آدم کی شریعت کو کامل کرنے والی تھی اور حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی شریعت کہ جو حضرت ابراہیم خلیل اللہ کی شریعت کو کامل اور تمام کرنے والی تھی،ان میں سے بعض ایسی شریعتوں کے مالک تھے کہ جو گزشتہ شریعت کے لئے ناسخ تھے جیسے حضرت موسیٰ اورحضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ۔

ان میں سے بعض بنی بھی تھے اور وصی بھی اور اپنے ما قبل رسول کی شریعت کے محافظ و نگہبان بھی جیسے یوشع بن نون کہ جو موسیٰ بن عمران کے وصی تھے۔

چونکہ جو شخص پروردگار عالم کی طرف سے لوگوں کی ہدایت کے لئے مبعوث ہوتا ہے پیغمبر ہو یا اس کا وصی، اس کے لئے خداداد نشانی ضروری ہے تاکہ اس کے مدعا کی صداقت پر شاہد و گواہ رہے نیز اس کے خدا کی جانب سے بھیجے جانے پر دلیل ہو ، آئندہ بحث میں اس موضوع یعنی ''معجزہ'' کی تحقیق کریں گے۔

____________________

(۱)قاموس کتاب مقدس ، مادہ : پطرس حواری

۲۰۹

۳۔ آیت اور معجزہ

آیت، لغت میں اس نشانی کو کہتے ہیں جو کسی چیز پر دلالت کرتی ہے ، وہ بھی اس طرح سے کہ جب کبھی وہ نشانی ظاہر ہو تو اس چیز کا وجود نمایاں ہو جائے۔

لیکن ہم اسلامی اصطلاح میں دو طرح کی آیت اور نشانی رکھتے ہیں، ایک وہ جو خالق کے وجود پر دلالت کرتی ہے اور دوسری وہ جو اس کی کسی ایک صفت (یعنی اسما ئے حسنی الٰہی میں سے کسی ایک کی طرف) اشارہ کرتی ہے وہ دونوں نشانیاں درج ذیل ہیں:

الف۔ وہ نشانیاں جو اپنے متقن اور سنجیدہ وجود کے ساتھ اپنے خالق حکیم کے محکم اور استوارنظام پر دلالت کرتی ہیں اور اس طرح ظاہر کرتی ہیں کہ اس پوری کائنات کا کوئی پروردگار حکیم ہے کہ جو خلق کے امور کو ایک محکم اور استوار نظام کے ساتھ چلا رہا ہے اورہم اسے ''کائنات میں خد اکی سنتیں'' کہتے ہیں۔

پہلی مثال، جیسے خدا سورۂ غاشیہ میں فرماتا ہے :

( أفلا ینظرون الیٰ الأبل کیف خلقت٭و الیٰ السماء کیف رفعت٭ و الیٰ الجبال کیف نصبت )

کیا وہ لوگ اونٹ کو نہیں دیکھتے کہ کیسے خلق کیا گیا ہے اور آسمان کو کہ کس طرح رفعت دی گئی ہے اور پہاڑوں کو کہ کیسے نصب کیا گیاہے ؟!( ۱ )

اورسورۂ عنکبوت میں فرماتا ہے:

( خلق الله السمٰوات و الارض بالحق ان فی ذلک لآیة للمومنین )

خدا وند عالم نے زمین و آسمان کو حق کے ساتھ خلق کیا یقینا اس میں مومنین کے لئے نشانی ہے۔( ۲ )

خدا وند عالم نے اس طرح کی قرآنی آیات میں کچھ مخلوقات کا تذکرہ کیا ہے جو اپنے وجود سے اپنے خالق کے وجود کا پتہ دیتی ہیں، اسی لئے انہیں آیات اور نشانیاںکہا گیا ہے ۔

____________________

(۱) غاشیہ ۱۷۔۲۰

(۲)عنکبوت۴۴

۲۱۰

دوسری مثال: خدا وند عالم سورۂ نحل میں فرماتا ہے:

( هو الذی انزل من السماء ما ئً لکم منه شراب ومنه شجر فیه تسیمون٭ ینبت لکم به الزرع و الزیتون و النخیل و الاعناب ومن کل الثمرات ان فی ذلک لآیة لقوم یتفکرون٭ وسخر لکم اللیل و النهار و الشمس و القمر و النجوم مسخرات بأمره ان فی ذلک لآیات لقوم یعقلون٭وما ذرأ لکم فی الارض مختلفا الوانه ان فی ذلک لآیة لقوم یذکرون )

وہ خداجس نے تمہارے پینے کے لئے آسمان سے پانی نازل کیا اور اس سے سر سبز درختوں کو پیدا کیا جس سے تم اپنے حیوانات کے چارہ کا انتظام کرتے ہوخدا وند عالم اس ''پانی'' سے تمہارے لئے کھیتی، زیتون کھجور، انگور اور تمام انواع و اقسام کے میوے اگاتا ہے یقینا اس میں دانشوروںکیلئے واضح نشانی ہے اس نے شب و روز ،ماہ و خورشید کو تمہار اتابع بنایا نیز ستارے بھی اس کے حکم سے تمہارے تابع ہیں، یقینا اس میں صاحبان عقل کے لئے نشانیاں ہیں اور گونا گوں اور رنگا رنگ مخلوقات کو تمہارا تابع بنا کر خلق کیا، بیشک اس میں واضح نشانی ہے ان کے لئے جو نصیحت حاصل کرتے ہیں۔( ۱ )

خدا وند عالم ان جیسی قرآنی آیات میں ان انواع نظام ہستی کو بیان کرتا ہے جو مدبر اور حکیم پروردگار کے وجود پر دلالت کرتی ہیں اور کبھی کبھی ان آیات اور نشانیوں کو جو ''عزیز خالق'' اور'' حکیم، مدبراور رب'' کے وجودپر دلالت کرتی ہیں یکجا بیان کیا ہے جیسا کہ سورۂ بقرہ میں ارشاد فرماتا ہے :

( ان فی خلق السمٰوات و الارض و اختلاف اللیل و النهار و الفلک التی تجری فی البحر بما ینفع الناس وما انزل الله من السماء من مائٍ فأحیا به الارض بعد موتها و بث فیها من کل دابة و تصریف الریاح و السحاب المسخر بین السماء و الارض لآیات لقوم یعقلون)

یقینا زمین و آسمان کا تخلیق کرنا اور روز و شب کو گردش دینا اور لوگوں کے فائدہ کے لئے دریا میں کشتیوں کو رواں دواں کرنا اور خدا کا آسمان سے پانی برسانانیز زمین کو اس کے مردہ ہونے کے بعد زندہ کرنا اور ہر قسم کے متحرک جانوروں کو اس میں پھیلانا نیز زمین و آسمان کے درمیان ہوائوں اور بادلوں کو مسخر کرنا اسلئے ہے کہ ان سب میں صاحبان عقل کے لئے نشانیاں ہیں۔( ۲ )

خدا نے اس آیت کی ابتدا میں آسمانوں اور زمین کی خلقت کو بیان کیا ہے اس کے بعد نظام کائنات کی

____________________

(۱)نحل۱۰۔۱۳

(۲)بقرہ۱۶۴

۲۱۱

نشانیوں کا ذکر کیاہے ، ایسا نظام جس کو پروردگار نے منظم کیا ہے اور ہم اسے '' کائنات کی سنتیں '' کہتے ہیں ۔

ب۔ وہ آیات جنہیں پروردگار عالم انبیاء کے حوالے کرتا ہے ، جیسے نظام ہستی پر ولایت وہ بھی اس طرح سے کہ جب مشیت الٰہی کا اقتضا ہو تو پیغمبر، خدا کی اجازت سے اس نظام کو جس کو خدا نے عالم ہستی پر حاکم بنایا ہے بدل سکتا ہے ،جیساکہ خد اوند متعال حضرت عیسیٰ کی توصیف میں فرماتا ہے۔

( ورسولاً الیٰ بنی اسرائیل انی قد جئتکم بآیة من ربکم انی اخلق لکم من الطین کهیئة الطیر فانفخ فیه فیکون طیراً بأِذن الله )

حضرت عیسیٰ کو بنی اسرائیل کی طرف رسول بنا کر بھیجا ( انہوں نے ان سے کہا:)میں تمہارے پروردگار کی ایک نشانی لیکر آیا ہوں، میں مٹی سے تمہارے لئے پرندے کے مانند ایک شیء بنائوں گا اور پھر اس میں پھونک ماروں گا تو وہ خد اکے حکم سے پرندہ بن جائے گا۔( ۱ )

اس طرح کی آیات الٰہی کو اسلامی عرف میں ''معجزہ'' کہتے ہیں، اس لئے کہ دیگر افراد بشر اس طرح کی چیزوں کے پیش کرنے سے عاجز ہیں اور وہ خارق عادت ہے نیز تخلیقی نظام طبیعی کے برعکس ہے ، جیسے حضرت عیسیٰ کا معجزہ کہ مٹی سے خد اکے اذن سے ایک پرندہ خلق کر دیا تاکہ اس بات پر دلیل ہو :

۱۔ یہ دنیا کا پروردگار ہے کہ جس نے اشیاء کو خاصیت اور طبیعی نظام عطا کیاہے اور جب اس کی حکمت کا اقتضا ہو کہ کسی چیز کی خاصیت کو اس سے سلب کر لے ، تو ایسی قدرت کا مالک ہے جس طرح کہ آگ کی گرمی سلب کر کے حضرت ابراہیم کو جلنے سے بچا لیا اور جب اس کی حکمت تقاضاکرے کہ اس نظام طبیعی کو جو اپنی بعض مخلوقات کے لئے قرار دیا ہے بدل دے تو وہ اس پر قادر اور توانا ہے ، جیسے مٹی سے حضرت عیسیٰ کے ہاتھ پرندہ بن جانا بجائے اس کے کہ اپنے نر جنس کی آمیزش سے پرندہ کی ماں اسے جنے جو کہ طبیعی نظام خلقت کے مطابق ہے اور اسے جانداروں کی خلقت کے لئے معین کیاہے ۔

انبیاء کے معجزات جیسا کہ ہم نے بیان کیاہے خارق العادة اور طبیعی نظام کے برخلاف ہیںاور انتقال مادہ کے مراحل طے کرنے، یعنی ایک حال سے دوسرے حال اور ایک صورت سے دوسری صورت میں آخری شکل تک تبدیل ہونے کی پیروی نہیں کرتے اس لئے کہ پرندہ کا مٹی سے تخلیق کے مراحل کا طے کرنا( جیساکہ بعض فلاسفہ کے کلام سے سمجھ میں آتا ہے) نور کی سرعت رفتار کے مانندتھا کہ جن کو خدا وند عالم نے

____________________

(۱)آل عمران۴۹

۲۱۲

طبیعی مدت اور دورہ انتقال سے بہت تیزپیغمبر کے لئے طے کیا ہے۔

معجزہ سحر نہیں ہے ، اس لئے کہ سحر ایک قسم کی باطل اور غیر واقعی خیال آفرینی کے سوا کچھ نہیں ہے، مثال کے طور پر ایک ساحر و جادو گرایسا محسوس ہوتا ہے کہ مرغ کونگل جاتا ہے ، یاا ونٹ کے منھ سے داخل ہو کر اس کے مخرج سے نکل آتا ہے یا شیشہ کے برتنوں کو چکنا چور کر کے دوبارہ اسے پہلی حالت میں پلٹادیتاہے در حقیقت اس نے ان امور میں سے کسی ایک کوبھی انجام نہیں دیا ہے بلکہ صرف اورصرف دیکھنے والوں اور تماشائیوں کی نگاہوں پر سحر کر دیا ہے (جسے نظر بندی کہتے ہیں) اور ان لوگوں نے مذکورہ امور کو اپنے خیال میں دیکھا ہے اسی لئے جب سحر کا کام تما م ہو جاتا ہے تو حاضرین تمام چیزوں کو اس کی اصلی حالت اور ہیئت میں بغیر کسی تبدیلی اور تغیر کے دیکھتے ہیں، لیکن معجزہ نظام طبیعت کو در حقیقت بدل دیتا ہے جیسے وہ کام جو حضرت موسیٰ کے عصا نے انجام دیا: ایک زبردست سانپ بن کر جو کچھ ساحروں نے اس عظیم میدان میں پیش کیا تھا سب کویکبار گی نگل گیا اور جب حضرت موسیٰ کے ہاتھ میں آکر دوبارہ عصا بنا، تو جوکچھ ساحروں نے اس میدان میں مہیا کیا تھا اس کا کوئی اثر باقی نہیں رہا ،یہی وجہ تھی کہ جادوگر سجدہ میں گر پڑے اور بولے : ہم پروردگار عالم پر ایمان لائے ، جوموسیٰ اور ہارون کا پروردگار کیونکہ وہ لوگ جادو گری میں تبحر رکھتے تھے اور ایک عجیب مہارت کے مالک تھے۔ انہوں نے درک کیا کہ یہ سحر کا کام نہیں ہے بلکہ خدا وند متعال کی آیات اور نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے ۔

معجزہ کا محال امر سے تعلق نہیں ہوتا جس بات کو علم منطق میں اجتماع نقیضین سے تعبیر کرتے ہیں جیسے یہ کہ کوئی چیز ایک وقت میں ایک جگہ ہے اور نہیں بھی ہے یہ بھی اثر معجزہ کی شمولیت سے خارج ہے ۔

پیغمبروں کے معجزوں کی حقیقت ، وہ آیتیں ہیں جن کوپروردگاران کے ہاتھوں سے ظاہر کرتا ہے ، وہ نشانیاںکہ جن و انس جن کو پیش کرنے سے عاجز اور ناتواں ہیں خواہ بعض بعض کی مدد ہی کیوں نہ کریں جبکہ جنات میں بعنوان مثال ایسے افراد بھی پائے جاتے ہیں جو اس بات پر قادر ہیں کہ ملک یمن سے تخت بلقیس حضرت سلیمان کے اپنی جگہ سے اٹھنے سے پہلے ہی بیت المقدس حاضر کر دیں کیونکہ فضا میں جن کی سرعت رفتار نور سے ملتی جلتی ہے ۔

یہی وجہ ہے کہ جن کبھی دور دراز کی خبر بھی اپنے سے مربوط کاہن کو لا کر دے سکتا ہے ، لیکن یہی جن و انس مٹی سے پرندہ نہیں بنا سکتے کہ بغیر اللہ کی اجازت کے حقیقی پرندہ بن جائے۔

۲۱۳

ہندوستان میں ریاضت کرنے والے ''مرتاض''کبھی ٹرین کو حرکت کرنے سے روک سکتے ہیں، لیکن وہ اور ان کے علاوہ افراد کہ جن کو خدا نے اجازت نہیں دی ہے یہ نہیں کر سکتے کہ پتھر پر عصا ماریں تو بارہ چشمے پھوٹ پڑیں۔

کیونکہ پروردگارعالم آیات ومعجزات اس لئے ا پنے انبیاء و مرسلین کو عطا کرتا ہے تاکہ امتیں ان کے دعوے کی صداقت پر یقین کریں اور سمجھیں کہ یہ لوگ خدا کے فرستادہ ہیں، حکمت کا مقتضا یہ ہے کہ یہ معجزات ایسے امور سے متعلق ہوں کہ جس امت کے لئے پیغمبر مبعوث ہوا ہے اسے پہچانیں ، جیساکہ حضر ت امام علی بن موسیٰ الرضانے ایک سائل کے جواب میں کہاجب اس نے سوال کیا: کیوں خدا نے حضرت موسیٰ بن عمران کو ید بیضا اور عصا کے ساتھ مبعوث کیااور حضرت عیسیٰ کو طب اور حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو کلام و سخن کے ساتھ؟

امام نے جواب دیا:

جس وقت خدا وند عالم نے حضرت موسیٰ کو مبعوث کیا تھا اس زمانے میں سحر و جادو نما یاں فن شمار ہوتا تھا لہٰذا وہ بھی خدا وند عز و جل کی طرف سے ایسی چیز کے ساتھ ان کے پاس گئے کہ اس کی مثال ان کے بس میں نہیں تھی، ایسی چیز کہ جس نے ان کے جادو کو باطل کر دیا اور اس طرح سے ان پر حجت تمام کی۔

خدا وند عالم نے حضرت عیسیٰ کوایسے زمانے میں مبعوث کیا جب مزمن اور دائمی بیماریوں کا دور دورہ تھااور لوگوں کوطب کی ضرورت تھی تو وہ خدا کی طرف سے ان کے لئے ایسی چیز لیکر آئے کہ اس جیسی چیز ان کے درمیان نا پید تھی، یعنی جو چیز ان کے لئے مردوں کو زندہ کر دیتی تھی، اندھے اور سفید داغ والے کو شفا دیتی تھی لہٰذا اس کے ذریعہ ان پر حجت تمام کی۔

خدا وند متعال نے حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بھی اس وقت مبعوث کیا جب غالب فن خطابت اور سخنوری تھا، راوی کہتا ہے میرے خیال میں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے کہا: اور شعر تھا، آنحضرت نے خدا وند عز و جل کی کتاب اور اس کے موعظوں اور احکام سے ان کے لئے ایسی چیز پیش کی کہ ان کی تمام باتوں کو باطل کر دیا اور ان پر حجت تمام کر دی۔

سائل نے کہا: خدا کی قسم، آج جیسا دن کبھی میں نے نہیں دیکھا ہے : پھر بولا: ہمارے زمانے کے لوگوں پر حجت کیا ہے ؟ امام نے کہا: عقل ؛ اس کے ذریعہ خدا پر سچ بولنے والے کی صداقت پہچا نوگے اوراس کی تصدیق کروگے اور خدا کی طرف جھوٹی نسبت دینے والے کوتشخیص دوگے اور اسے جھٹلا ئو گے ۔

سائل نے کہا: خدا کی قسم، صحیح، جواب یہی ہے اور بس۔( ۱ )

____________________

(۱)بحار، ج۱۱ ، ص ۷۰۔۷۱ بحوالہ ٔ علل الشرائع ، ص ۵۲. اور عیون الاخبار، ص ۲۳۴

۲۱۴

پیغمبروں کے خارق العادة معجزے کہ جو اشیاء کے بعض طبیعی نظام کے مخالف ہیں ،وہ خود انسانی معاشرے میں پروردگار عالم کی تکوینی سنتوں میں سے ایک سنت ہیں ایسا سماج اور معاشرہ جس میں خدا وند عالم نے انبیاء بھیجے، اسی وجہ سے امتوں نے اپنے پیغمبروں سے معجزے طلب کئے تاکہ ان کے دعویٰ کی صحت پر دلیل ہو، جیساکہ خدا وند عالم نے سورۂ شعراء میں قوم ثمود کی گفتگو پیش کی کہ انہوں نے اپنے پیغمبر صالح سے کہا:

( ما أنت الا بشر مثلنا فات بآیة ان کنت من الصادقین٭ قال هذه ناقة لها شرب و لکم شرب یوم معلوم٭ولا تمسوها بسوء فیأخذ کم عذاب یوم عظیم )

تم صرف ہمارے جیسے ایک انسان ہو ، اگر سچ کہتے ہو تو کوئی آیت اور نشانی پیش کرو! کہا: یہ ناقہ ہے ( اللہ کی آیت )پانی کا ایک حصہ اس کااور ایک حصہ تمہاراہے معین دن میں ،ہر گز اسے کوئی گزندنہ پہنچانا کہ عظیم دن کے عذاب میں گرفتار ہو جائو۔( ۱ )

بہت سی امتوں کااپنے پیغمبر سے معجزہ دیکھنے کے بعدعناد شدید تر ہوجاتا تھااور ان سے دشمنی کرنے لگتے تھے ۔ اور ایمان لانے سے انکار کر دیتے ،جیسا کہ خدا وند عالم نے قوم ثمود کے بارے میں ناقہ دیکھنے کے بعد فرمایا :

( فعقروها فأصبحوا نادمین )

آخر کار اس ناقہ کو پے کر دیااس کے بعد اپنے کرتوت پر نادم ہوئے۔( ۲ )

خدا کی سنت یہ رہی ہے کہ اگر امتوں نے اپنے پیغمبر وںسے معجزہ کی درخواست کی اور معجزہ آیا لیکن وہ اس پر ایمان نہیں لائے تو وہ زجر و توبیخ اور عذاب کے مستحق بنے اور خدا وند عالم نے انہیں عذاب سے دوچار کیا۔

جیسا کہ اسی سورۂ میں قوم ثمود کے انجام کی خبر دیتے ہوئے فرماتا ہے :

( فأخذهم العذاب ان فی ذلک لآیة وما کان اکثرهم مؤمنین )

پس ان کو اللہ کے عذاب نے گھیر لیا یقینا اس میں آیت اور نشانی ہے لیکن ان میں سے اکثر مومن نہیں تھے۔( ۳ )

انبیاء کا معجزہ پیش کرنا حکمت کے مقتضیٰ کے مطابق ہے ، حکمت کا تقاضا یہ ہے کہ معجزہ اس حد میں ہونا چاہئے کہ پیغمبر کے دعوے کی حقانیت کا، اس شخص کے لئے جو اس پر ایمان لانا چاہتا ہے اثبات کرسکے ، آیت

____________________

(۱) سورۂ شعرا ۱۵۶، ۱۵۴(۲) سورۂ شعرا ۱۵۷(۳) سورۂ شعرا ۱۵۸

۲۱۵

الٰہی ان سرکشوں کی مرضی اور مردم آزاروں کی طبیعت کے مطابق نہیں ہے جو خدا اور رسول پر ایمان لانے سے بہر صورت انکار کرتے ہیں کہ جو چاہیں ہو جائے، نیز جیسا کہ گز ر چکاہے کہ معجزہ امرمحال سے بھی تعلق نہیں رکھتاہے ، چنانچہ یہ دونوںباتیں ،رسول سے قریش کی خواہش میں موجود تھیں جبکہ خدا نے عرب کے مخصوص معجزے ''فصیح وبلیغ گفتگو'' کو انہیں عطا کیا خدا نے سورۂ بقرہ میں انہیں مخاطب کرتے ہوئے فرماتا ہے :

( وان کنتم فی ریب مما نزلنا علیٰ عبدنا فأتو بسورة من مثله و ادعوا شهدائکم من دون الله ان کنتم صادقین٭فأِن لم تفعلوا و لن تفعلوا فاتقوا النار التی و قودها الناس و الحجارة اُعدت للکافرین )

ہم نے جو اپنے بندہ پر نازل کیا ہے اگر اس کے بارے میں شک و تردید میں مبتلا ہو تو اس کے مانند ایک ہی سورہ لے آئو اورخدا کے علاوہ اس کام کے لئے اپنے گواہ پیش کر و ،اگر سچے ہوپھر اگر ایسا نہیں کر سکتے اور ہر گز نہیں کر سکتے تو اس آگ سے ڈرو! جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہیں اور جو کافروں کے لئے آمادہ کی گئی ہے۔( ۱ )

قریش کے سر برآوردہ افراد جو ایمان لانے کو کا قصد ہی نہیں رکھتے تھے اپنی شدت اور ایذا رسانی میں اضافہ کرتے گئے اور رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو زحمت میں ڈالنے اور انہیں عاجز اور بے بس بنانے کے لئے گونا گوں درخواستیں کرتے حتی کہ امر محال کا بھیمطالبہ کرتے تھے ، خداوند عالم سورۂ اسراء میں ان کی ہر طرح کی سرکشی اورمزاحمت کی خبر دیتے ہوئے فرماتا ہے :

( قل لئن اِجتمعت الانس و الجن علیٰ ان یأتو بمثل هذا القرآن لا یأتون بمثله ولو کان بعضهم لبعض ظهیراً٭ ولقد صرفنا للناس فی هذا القرآن من کل مثل فأبیٰ اکثر الناس الاکفورا٭ و قالوا لن نؤمن لک حتیٰ تفجر من الارض ینبوعا٭ او تکون لک جنة من نخیل و عنب فتفجر الانهار خلالها تفجیرا٭ او تسقط السماء کما زعمت علینا کسفاً او تأتی بالله و الملائکة قبیلا٭ او یکون لک بیت من زخرف او ترقیٰ فی السماء و لن نؤمن لرقیک حتی تنزل علینا کتاباً نقرؤه قل سبحان ربی هل کنت الا بشراً رسولا٭ و ما منع الناس ان یومنوا اذ جائهم الهدی الا ان قالوا ابعث الله بشراً رسولا، قل لو کان فی الارض ملائکة یمشون مطمئنین لنزلنا علیهم من السماء ملکاً رسولاً قل کفیٰ بالله شهیداً بینی و بینکم انه کان بعباده خبیراً بصیرا )

____________________

(۱)سورۂ بقرہ۲۳۔۲۴

۲۱۶

کہو: اگر تمام جن و انس یکجا ہو کر اس قرآن کے مانند لانا چاہیں تو نہیں لا سکتے ہر چند ایک دوسرے کی اس امر میں مدد کریں، ہم نے اس قرآن میں ہر چیز کا نمونہ پیش کیا ہے لیکن اکثرلوگوں نے ناشکری کے علاوہ کوئی کام نہیں کیا اور کہا: ہم اس وقت تک تم پر ایمان نہیں لائیں گے جب تک کہ اس سرزمین سے ہمارے لئے چشمہ جاری نہ کرو، یا کھجور اور انگور کا تمہارے لئے باغ ہو اور ان کے درمیان جا بجا نہریں جاری ہوں، یا آسمان کے ٹکڑوںکو جس طرح تم خیال کرتے ہو ہمارے سر پر گرا دو؛ یا خدا اور فرشتوں کو ہمارے سامنے حاضر کر دو؛یا کوئی زرین نقش و نگار کا تمہارے لئے گھر ہو، یا آسمان کی بلندی پر جائو اور اس وقت تک تمہارے اوپر جانے کی تصدیق نہیں کریں گے جب تک کہ وہاں سے کوئی نوشتہ ہمارے لئے نہ لائو جسے ہم پڑھیں!

کہو: میرا پروردگار منزہ اور پاک ہے ، کیا میں ایک فرستادہ ( رسول)انسان کے علاوہ بھی کچھ ہوں؟! صرف اور صرف جو چیز ہدایت آنے کے بعد بھی لوگوں کے ایمان لانے سے مانع ہوئی یہ تھی کہ وہ کہتے تھے: آیا خدا نے کسی انسان کو بعنوان رسول بھیجا ہے ؟!

ان سے کہو: اگر روئے زمین پر فرشتے آہستہ آہستہ قدم اٹھائے سکون و وقار سے راستہ طے کرتے، تو ہم بھی ایک فرشتہ کو بعنوان رسول ان کے درمیان بھیجتے ! کہو! اتنا ہی کافی ہے کہ ہمارے اور تمہارے درمیان خدا گواہ ہے ؛ کیونکہ وہ بندوں کی بہ نسبت خبیرو بصیر ہے ۔( ۱ )

پروردگار خالق نے اہل قریش پر اپنی حجت تمام کر دی اور فرمایا: اگر جو کچھ میں نے اپنے بندہ پر نازل کیا ہے اس کے بارے میں شک و تردید رکھتے ہو، تو اس کے جیسا ایک سورہ ہی لے آئو اور خدا کے علاوہ کوئی گواہ پیش کرونیز خبر دی کہ اگر تمام جن و انس مل کر اس کے مانند لانا چاہیں تو قرآن کے مانند نہیں لا سکتے،خواہ ایک دوسرے کی مدد ہی کیوں نہ کریں اور اس کی تاکید کرتے ہوئے فرمایا: کبھی اس کے جیسا نہیں لا سکتے اور آج تک اسلام دشمن عناصر اپنی کثرت، بے پناہ طاقت اور رنگا رنگ قدرت کے باوجود ایک سورہ بھی اس کے مانند پیش نہیں کر سکے قرآن کی اس اعلانیہ تحدی اور چیلنج کے بعد کہ یہ ایک ایسا معجزہ ہے کہ اس کے مقابل جن و انس عاجز اور ناتواںہیں، جب مشرکین قریش نے خود کوذلیل اور بے بس پایا تو پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے خواہش کی کہ مکہ کی طبیعت اور اس کی ہوا کو بدل دیں او رسونے کا ایک گھر ہو، یاخدا اور ملائکہ کو ایک صف میں ان کے سامنے حاضر کر دیں، یا آسمان کی بلندی پر جائیں اور ہم ان کے جانے کی اس وقت تصدیق کریں گے جب وہاں

____________________

(۱)اسرائ۹۶۔۸۸

۲۱۷

سے ہمارے لئے کوئی نوشتہ لائیں جسے ہم پڑھیں، جیسا کہ واضح ہے کہ ان کی در خواستیںامر محال سے بھی متعلق تھیں اور وہ خدا اور ملائکہ کو ان کے سامنے حاضر کرنا ہے ، یقینا خدا کا مقام اس سے کہیں بلند و بالا ہے جو یہ ظالم کہتے ہیں۔ دوسرے یہ کہ ان کی بعض خواہشیں پیغمبرں کے بھیجنے کے بارے میں سنت الٰہی کے مخالف تھیں ، جیسے ان کے سامنے آسمان کی بلندی پر جانا اور کتاب لانا کہ یہ سب خدا وند عالم نے اپنے نمائندے فرشتوں سے مخصوص کیا ہے اوریہ انسان کا کام نہیں ہے ۔

وہ لوگ اس بات کے منکر تھے کہ خدا کسی انسان کو پیغمبری کے لئے مبعوث کرے گا جبکہ حکمت کا مقتضا یہ ہے کہ انسان کی طرف بھیجا ہواپیغمبر خود اسی کی جنس سے ہو، تاکہ رفتار و گفتار، سیرت وکردار میں ان کیلئے نمونہ ہو، ان کی بقیہ تمام خواہشیں بھی حکمت کے مطابق نہیں تھیں ، جیسے یہ کہ عذاب کی درخواست کی، اسی لئے خداوندنے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے فرمایا کہ ان کے جواب میں کہو: میرا خدا منزہ ہے آیا میں خدا کی طرف سے فرستادہ (رسول )انسان کے علاوہ بھی کچھ ہوں؟!

گزشتہ بیان کا خلاصہ: حکمت خدا وندی کا تقاضاہے کہ اس کا فرستادہ اپنے پروردگار کی طرف سے اپنے دعویٰ کی درستگی اور صداقت کیلئے معجزہ پیش کرے اور اس کے ذریعہ لوگوں پر اپنی حجت تمام کرے، ایسے حال میں جو چاہے ایمان لے آئے اور جو چاہے انکار کر دے ،جیسا کہ حضرت موسیٰ اور ہارون کی قوم کا حال ایسا ہی تھا کہ معجزہ دیکھنے کے بعد جادو گروں نے ایمان قبول کیا اور فرعون اور اس کے درباریوں نے انکار کیا، تو خدا وند عالم نے انہیں غرق کر کے ذلیل و خوار کر دیا اور خدا کی طرف سے اس کے پیغمبر جو بھی آیت پیش کریں اسے معجزہ کہتے ہیں۔

مذکورہ باتوں کے علاوہ جن لوگوں کو خدا نے زمین کا پیشوا اور لوگوں کا ہادی بنایا ہے وہ صاحب شریعت پیغمبر ہوںیا ان کے وصی، ان کے مخصوص صفات ہیںجو انھیں دوسروںسے ممتا ز کرتے ہیں اور ہم آئندہ بحث میں خدا کی توفیق اور تائید سے اس کا ذکر کریں گے ۔

۲۱۸

۷

الٰہی مبلغین کے صفات ،گناہوں سے عصمت

۱۔ ابلیس زمین پر خدا کے جانشینوںپر غالب نہیں آسکتا ۔

۲۔ عمل کا اثر اور اس کا دائمی ہونا اور برکت کا سرایت کرنا اور زمان اور مکان پر اعمال کی نحوست۔

۳۔ الٰہی جانشینوںکا گناہ سے محفوظ ہونا ( عصمت)اس کے مشاہد ہ کی وجہ سے ہے ۔

۴۔وہ جھوٹی روایتیں جو خدا کے نبی داؤد پر اور یا کی بیوہ سے ازدواج کے بارے میں گڑھی گئیں اور حضرت خاتم الانبیاء سے متعلق آنحضرت کے منھ بولے فرزند زید، کی مطلقہ بیوی زینب سے ازدواج کی نسبت دی اور ان دونوں ازدواج کی حکمت۔

۵۔ جن آیات کی تاویل میں لوگ غلط فہمی کا شکار ہوئے۔

۱۔ ابلیس روئے زمین پر خدا کے جانشینوں پر غالب نہیں آ سکتا

خدا وند سبحان نے سورۂ حجر میں اپنے اور ابلیس کے درمیان گفتگو کی خبر دی کہ ، ابلیس اس کے مخلص بندوں پر تسلط نہیں رکھتا ، وہ گفتگو اس طرح ہے :( قال رب بما اغویتنی لأزینّن لهم فی الارض ولأغوینهم اجمعین الا عبادک منهم المخلصین٭قال...ان عبادی لیس لک علیهم سلطان الا من اتبعک من الغاوین )

ابلیس نے کہا: خدایا ؛ جو تونے مجھے گمراہ کیا ہے اس کی وجہ سے زمین میں ان کے لئے زینت اور جلوے بخشوں گا اور سب کو گمراہ کر دوں گاسواتیرے مخلص بندوں کے ۔فرمایا: تو میرے بندوںپر قابو اور تسلط نہیں رکھتا، جز ان لوگوں کے جو تیرا اتباع کرتے ہیں۔( ۱ ) اور یوسف اور زلیخا کی داستان کے بیان میں ،مخلَصین کی خدا نے کس طرح شیطانی وسوسوں سے محافظت کی اس طرح بیان کرتا ہے :( ولقد همت به و هم بها لو لا أن رء أ برهان ربه کذلک لنصرف عنه السوء و الفحشاء أنّه من عبادنا المخلصین )

اس عورت نے ان کا قصدکیا اوروہ بھی اس کا قصد کر بیٹھتے اگر اپنے رب کی دلیل و برہان نہیں دیکھتے!ہم نے ایسا کیا تاکہ اس سے برائی اور فحشاء کو دور کریں ،کیونکہ وہ ہمارے مخلص بندوں میں سے تھے۔( ۲ ) ہم مذکورہ وصف یعنی: عصمت اور ابلیس کے غالب نہ ہونے کو ، سورۂ بقرہ میں خدا وند سبحان اور ابراہیم خلیل کے درمیان ہونے والی گفتگو میں ، امامت کے شرائط کے عنوان سے ملاحظہ کرتے ہیں، جیساکہ فرمایا:

____________________

(۱) سورۂ حجر ۴۲۔۳۹(۲)یوسف ۲۴

۲۱۹

( و اذابتلیٰ ابراهیم ربه بکلمات فأتمهن قال انی جاعلک للناس أِماما قال و من ذریتی قال لا ینال عهدی الظالمین )

جب خدا وند عالم نے ابراہیم کا گونا گوں طریقوں سے امتحان لے لیا اور وہ خیر و خوبی کے ساتھ کامیاب ہوگئے، تو خدا وند سبحان نے کہا: میں نے تمہیں لوگوں کا پیشوا اور امام بنایا، ابراہیم نے کہا:اور میری ذریت میں سے بھی ! فرمایا: میرا عہدہ ظالموں کو نہیں پہنچے گا۔( ۱ )

سورۂ انبیاء میں ذکر ہوا ہے : جن کو خدا نے لوگوں کا پیشوا بنایا وہ خدا کے حکم سے ہدایت کرتے ہیں:( وجعلنا هم أئمة یهدون بأمرنا ) اورہم نے ان لوگوں کو پیشوا بنایا جوہمارے فرمان سے ہدایت کرتے ہیں۔( ۲ )

اسی سورہ میں بعض کا نام کے ساتھ ذکر فرمایا ہے ، جیسے نوح، ابراہیم ، لوط، اسماعیل، ایوب، ذوالکفل، یونس، موسیٰ ، ہارون، دائود، سلیمان ، زکریا، یحیٰی اور عیسیٰ علیہم السلام۔

جن لوگوں کو خدا وند عالم نے اس سورہ میں منصب امامت کے ساتھ یاد کیا ہے ان کے درمیان بنی، رسول، وزیر اور وصی سبھی پائے جاتے ہیں، اس بنا پر ہم پر واضح ہوتا ہے کہ خدا وند عالم نے ایسی شرط ذکر کی ہے کہ جسے امام بنائے گا وہ ظالم نہ ہو.

خدا وند عالم نے امام کو روئے زمین پر اپنا خلیفہ شمار کیا ہے ، چنانچہ سورۂ ص میں داؤد سے خطاب کرتے ہوئے فرماتا ہے :( یا داود اَنَّا جعلناک خلیفة فی الارض )

اے دائود! ہم نے تم کو زمین پر خلیفہ بنایا۔( ۳ )

اور حضرت آدم ـکے متعلق فرشتوں سے سورہ ٔ بقرہ میں فرمایاہے :

( و أِذ قال ربک للملائکة أِنی جاعل فی الارض خلیفة )

اور جب تمہارے رب نے فرشتوں سے کہا: میں روئے زمین پر خلیفہ بنائوں گا۔( ۴ )

کلمات کی تشریح

۱۔اغویتنی، ولأغوینهم، و الغاوین ۔

____________________

(۱)بقرہ ۱۲۴(۲)انبیائ ۷۳(۳) ص ۲۶(۴) بقرہ ۳۹۔

۲۲۰

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667