قصص القرآن-منتخب از تفسير نمونه

قصص القرآن-منتخب از تفسير نمونه   11%

قصص القرآن-منتخب از تفسير نمونه   مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 667

قصص القرآن-منتخب از تفسير نمونه
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 667 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 335026 / ڈاؤنلوڈ: 6149
سائز سائز سائز
قصص القرآن-منتخب از تفسير نمونه

قصص القرآن-منتخب از تفسير نمونه

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

سیف کی داستان کے نتائج

١۔ ایسے چار اصحاب کی تخلیق کرنا جو نمائندہ ہونے کا افتخار بھی رکھتے تھے!!

٢۔ پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کیلئے ایک ایسا صحابی خلق کرنا جوآپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا گماشتہ اور کارندہ بھی ہے!

٣۔ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی احادیث کے چار راوی خلق کرنا۔

٤۔ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے لئے تین روایتیں جعل کرنا۔

مختصر یہ کہ یہ سب سیف جھوٹ کے پوٹ ہیں جس پر زندیقی ہونے کا بھی الزام تھا!!

احادیث سیف کے مآخذ

عطیہ بن بلال نے اپنے باپ ( بلال بن ہلال) سے اس نے اپنے باپ (ہلال) سے کہ جنہیں سیف نے خلق کیا ہے۔اور ایک روایت کو اس کے جعل کئے گئے ایک صحابی سے نقل کیا ہے!!

سیف کی روایت کے راوی :

١۔ دار قطنی ( وفات ٣٨٥ھ ) نے ''مؤتلف '' میں '' اسد الغابہ '' اور '' اصابہ'' کے مؤلفین کے کہنے کے مطابق ، انہوں نے '' عبد اللہ بن زید، و عبدا للہ بن حکیم و حارث بن خضرامہ '' کے حالات کو اس سے نقل کیا ہے۔

٢۔ ابن شاہین ( وفات ٣٨٥ھ ) ابن اثیر او ر ابن حجر نے '' حلیس بن زید ، عبد اللہ بن حکیم ، حارث بن حکیم اور حر بن خضرامہ '' کی زندگی کے حالات کے بارے اس سے نقل کیا ہے۔

٤۔ ابن اثیر ( وفات ٦٣٠ھ) نے '' حارث بن حکیم ، حلیس بن زید اور حارث بن خضرامہ'' کے حالات کو اپنی کتاب '' اسد الغابہ'' میں درج کیا ہے۔

٥۔ ذہبی ( وفات ٧٤٨ ھ) نے اپنی کتاب '' تجرید'' میں '' حارث بن حکیم اور حلیس'' کے حالات کو درج کیا ہے۔

٦۔ ابن حجر ( وفات ٨٥٢ ھ ) نے '' اصابہ '' میں '' حارث بن حکیم ، حلیس بن زید اور حر بن خضرامہ '' کی زندگی کے حالات درج کئے ہیں ۔

۸۱

مصادر و مآخذ

عبد اللہ حکیم ضبّی کے حالات

١۔ ابن اثیر کی '' اسد الغابہ '' ( ٣ ١٤٥)

٢۔ ابن حجر کی '' اصابہ '' ( ٢ ٢٩٠) نمبر ٦٣٣ کے زیل میں ' ق/١

٣۔ ذہبی کی '' تجرید'' ( ١ ٣٢٨) نمبر: ٣١٤٦

حارث بن حکیم ضبیّ کے حالات :

١۔ ابن اثیر کی '' اسد الغابہ'' (١ ٣٢٥)

٢۔ ابن حجر کی '' اصابہ'' (٣٨٥١) نمبر : ٢٠٣٤ ق٤

٣۔ ذہبی کی '' تجرید'' ( ١ ١٠٥) نمبر ٩٢٥

عبد الحارث بن زید کے حالات اور رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ساتھ اس کی گفتگو:

١۔ ابن اثیر کی '' اسد الغابہ'' ( ٣ ١٦٧)

٢۔ ابن حجر کی '' اصابہ'' ( ٢ ٣٠٤) نمبر : ٤٦٨٧ ق ١

٣۔ ابن کلبی کی '' تلخیص جمہرہ '' ( ص ٨١) قلمی نسخہ، جو قم میں آیت اللہ مرعشی نجفی کی لائبرئری میں موجود ہے۔

٤۔ ابن حزم کی ''جمہرۂ انساب '' ( ص ٢٠٦)

عبد اللہ بن حارث کے حالات

١۔ ابن عبد البر کی '' استیعاب '' ( ١ ٣٤٤) نمبر: ١٤٧٩

٢۔ ابن اثیر کی '' اسد الغابہ'' ( ٣ ١٣٨)

٣۔ ابن حجر کی '' اصابہ'' (٣ ١٣٠) نمبر : ٦٥٨٨

۸۲

عبد اللہ بن زید بن صفوان کے حالات :

١۔ ابن اثیر کی '' اسد الغابہ'' ( ٣ ١٦٧)

٢۔ ابن حجر کی '' اصابہ'' ( ٢ ٣٠٤) نمبر: ٤٦٨٧۔

عبدا للہ بن حرث کے حالات:

١۔ ابن حجر کی '' اصابہ'' (٣ ١٣٠) نمبر: ٦٥٨٨و ٦٥٨٩

حلیس بن زید کے حالات:

١۔ ابن اثیر کی '' اسد الغابہ'' (٢ ٤٤)

٢۔ ابن حجر کی '' اصابہ'' (١ ٣٥٠) نمبر: ١٨١٠

٣۔ ذہبی کی '' تجرید'' ( ١ ١٤٧) نمبر: ١٣٢١

حارث بن خضرامہ کے حالات :

١۔ ابن اثیر کی '' اسد الغابہ'' (١ ٣٢٧)

حربن خضرامہ کے حالات اور رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ساتھ اس کی داستان

١۔ ابن حجر کی '' اصابہ'' (٣٢٢١) نمبر: ١٦٩١

۸۳

انتیسواں جعلی صحابی کبیس بن ہوذہ سدوسی

اس صحابی کا نام و نسب:

'' استیعاب'' ، '' اصابہ'' اور '' تجرید'' میں اس صحابی کا نام '' کبیس بن ھوذہ '' لکھا گیا ہے۔

ابن حجر اپنی کتاب '' اصابہ'' میں اسی نام کو درج کرتے ہوئے لکھتا ہے:

'' ابن شاہین'' کے ایک قدیمی نسخہ میں یہ نام '' کنیس'' ثبت ہوا ہے۔

ابن مندہ کی کتاب '' اسماء الصحابہ'' کے قلمی نسخہ میں یہ نام '' کبیش بن ہودہ '' درج ہوا ہے اور ابن اثیر نے بھی اپنی کتاب '' اسد الغابہ '' میں اسی نام کو قبول کرکے '' ابن مندہ کی پیروی کی ہے۔

اس صحابی کا نسب: '' اسماء الصحابہ'' ، '' اسد الغابہ '' اور '' اصابہ '' میں لکھا گیا ہے کہ سیف بن عمر نے اس صحابی کا تعارف ' ' خاندان ِ بنی بکر و ائل عدنانی '' کے قبیلۂ بنی حارث بن سدوس '' سے کرایا ہے۔

ابن حزم نے اپنی کتاب '' جمہرہ'' میں بنی حارث کے ایک گروہ کے حالات کی تشریح کی ہے ، لیکن ان میں '' کبیس'' یا '' کنیس''یا '' کبیش'' نام کا کوئی صحابی اور '' ھوذہ '' یا '' ھودہ'' نام کا کوئی باپ ۔

'' سمعانی'' نے بنی حارث بن سدوس کے ایک گروہ کا نام لفظ السدوسی '' میں لیا ہے لیکن ان باپ بیٹوں کا کہیں نام بھی نہیں لیا ہے۔

۸۴

کبیس بن ہوذہ کی داستان :

ابن عبدا لبر اپنی کتاب '' استیعاب '' میں اس صحابی کے بارے میں صرف اتنا لکھتا ہے کہ:

'' ایاد بن لقیط نے اس سے روایت کی ہے ''

اس کے بعد کسی چیز کا اضافہ نہیں کیا ہے اور اس کی سند بھی ذکر نہیں کی ہے ۔

ابن مندہ اپنی کتاب '' اسماء الصحابہ '' میں اپنے ہی اسناد سے لکھتا ہے:

سیف بن عمر نے عبد اللہ بن شبرمہ سے اس نے ایاد بن لقیط سدوسی سے اس نے بنی حارث بن سدوس کے ایک شخص کبیش بن ہوذہ سے روایت کی ہے کہ وہ بیش پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں پہنچا ، آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی بیعت کی اور رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے بھی اس کیلئے کچھ فرمان مرقوم فرمائے ہیں ۔

اس داستان کے آخرمیں ابن مندہ اظہار نظر کرتے ہوئے لکھتا ہے:

'' ابن شبرمہ کی یہ حدیث حیرت انگیز دکھائی دیتی ہے''

ابن اثیر اپنی کتاب '' اسد الغابہ '' میں مذکورہ داستان کو درج کیا ہے اور اس کے آخر میں یوں اضافہ کرتا ہے :

اس مطلب کو تین مصادر ( ب ۔ ع ۔ د ) ١

____________________

١۔ ''ب''کتاب ''استیعاب'' کے مصنف ابن عبدالبر ''ع'' : ابو نعیم ، کتاب '' معرفة الصحابہ '' کے مصنف ، ابو نعیم ، حافظ احمد بن عبد اﷲ بن احمد اصفہانی ( ٣٦٠ ۔ ٤٣٠ھ)

''د'' : ابن مندہ ، حافظ ابو عبد اللہ بن مندہ ،محمد بن اسحاق اصفہانی ، جس نے احادیث کی جستجو میں دنیا کے مختلف ممالک کا سفر کیا ہے ۔ اس کی تالیفات میں سے '' اسماء الصحابہ '' ہے جو خاص طور سے ابن اثیر کی توجہ کا مرکز تھی۔

۸۵

نے ذکر کیا ہے۔

ذہبی نے بھی اپنی کتاب '' تجرید '' میں لکھا ہے :

سیف نے '' ایاد بن لقیط '' سے نقل کیا ہے کہ '' کبیس'' اپنے قبیلہ کے نمائندہ کی حیثیت سے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں پہنچا ہے ۔( ب ۔ ع۔ د)ابن حجر نے بھی اپنی کتاب '' اصابہ '' میں لکھا ہے :

ابن شاہین ١ اور ابن مندہ نے سیف بن عمر سے اس نے عبدا اﷲبن شبرمہ سے اس نے ایاد بن لقیط سے اس نے کبیس بن ہوذہ سے روایت کی ہے کہ ( یہاں پر وہی مذکورہ داستان نقل کی ہے )

اس کے بعد ابن حجر اضافہ کرکے لکھتا ہے :

یہ داستان صرف اسی طریقہ سے پہنچی ہے اور ابن مندہ نے بھی کہا ہے کہ : ابن شبرمہ کی یہ داستان تعجب خیزہے !!!

خلاصہ :

سیف نے اس حدیث میں کبیس بن ہوذہ کو بنی حارث بن سدوس کے ان صحابیوں میں سے خلق کیا ہے جن کے ہمراہ اس نے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں پہنچ کر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی بیعت کی تھی اور رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے بھی اس کیلئے ایک فرمان مرقوم فرمایا تھا۔ یہیں سے اس قسم کا نام پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے صحابیوں کی

____________________

١۔ ابن شاہین ، حافظ ابو حفص بن شاہین ، عمر بن احمد بن عثمان بغدادی ( ٢٩٧ ۔ ٣٨٥) ہے ۔ اس کی تالیفات و تصنیفات کی تعداد چھتیس بتائی گئی ہے ، من جملہ کتاب '' معجم الشیوخ '' ہے جس میں سرکردہ روات حدیث شامل ہیں ۔ ابن حجر نے اپنی کتاب ' ' اصابہ '' میں اس کتاب سے نقل کیا ہے۔

۸۶

فہرست اور ''معجم الشیوخ '' کے سرکردہ راویوں میں قرار پاتا ہے اور اس کے نام رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا ایک خیالی خط ایک حقیقی اورمسلم سند کے طور پر کتاب '' مجموعة الوثائق السیاسیة '' میں درج کیا جاتا ہے !!

ہم نے اس نمائندہ صحابی کو پہچاننے کیلئے سیرت اور تاریخ کی کتابوں جیسے ، ابن سعد کی ''طبقات '' ابن ہشام کی '' سیرة'' بلاذری کی '' انساب الاشراف'' اور مقریزی کی '' امتاع الاسماع '' کے علاوہ دوسری کتابوں کا بھی مطالعہ کیا لیکن پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں پہنچنے والے مختلف وفود اور آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اصحاب میں کہیں بھی '' کبیس'' کا نام نہیں دیکھا اور آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے فرامین میں کبیس کے نام پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے کسی فرمان یا خط کا مشاہدہ نہیں کیا ! بلکہ ہم نے سیف کے اس خلق کردہ صحابی کو صرف سیف کی احادیث میں اور اس کے راویوں کے ہاں پایا۔

افسانۂ کبیس کے اسناد کی پڑتال

ہم نے کہا کہ کتاب '' استیعاب '' کے مصنف ابن عبد البر نے اس صحابی کے حالات کی تشریح میں اس کی سند کا ذکر نہیں کیا ہے۔

ابن مندہ نے کبیس کی داستان کو سیف سے نقل کرکے اور ابن اثیر نے اسے تین مآخذ '' ب ۔ ع، د'' کی علامت کے ساتھ درج کیا ہے ۔

ذہبی نے اپنی کتاب '' تجرید ''میں کبیس کی نمائندگی کو سیف کی روایت کے مطابق ایاد بن لقیط سے نقل کیا ہے اور آخر میں ابن اثیر کے مآخذ کی اختصاری علامت '' ب ، ع، د'' کی قید لگادی ہے۔

ابن حجر نے اپنی کتاب '' اصابہ'' میں داستان کبیس کو ابن مندہ اور ابن شاہین کے قول کے مطابق نقل کیا ہے۔

۸۷

دوسری طرف ہم نے دیکھا کہ ابن مندہ، ابن شبرمہ کی اس حدیث پر تعجب کا اظہار کرتا ہے اور ابن حجر نے بھی اعتراف کیا ہے کہ یہ داستان صرف اس سند کے علاوہ کسی اور راوی سے نہیں ملی ہے ، یعنی ابن شبرمہ تنہا شخص ہے جس نے یہ داستان بیان کی ہے۔ اس روایت کی تنہا سند '' ایاد بن لقیط '' ہے اور اس کا مرکزی کردار ''کبیس بن ہوذہ '' ہے !! یہی مسئلہ اس امر کا سبب بنتا ہے کہ مذکورہ دو دانشور ابن شبرمہ کی حدیث پر تعجب کا اظہار کریں جبکہ وہ اس امر سے غافل تھے کہ بیچارہ ابن شبرمہ کا کوئی قصور ہی نہیں ہے بلکہ اصلی مجرم اور قصوروار سیف بن عمر ہے جس نے جھوٹ گڑھ کر ابن شبرمہ کے سر تھوپا ہے !

کتاب '' تجرید'' میں ذہبی کی بات بھی ہمارے دعوے کو ثابت کرتی ہے جب وہ داستان کبیس بیان کرتے وقت کنایہ کے طور پر لکھتا ہے :

'' سیف کی روایت کی بناء پر ''

اس بنا پر سیف کی اس حدیث کے مآخذ حسب ذیل ہیں :

١۔ عبد اللہ بن شبرمۂ ضبی کوفی ( ٧٢ ۔ ١٤٤ ھ )جو ان علماء کے نزدیک ثقہ اور ایک قابل اعتماد شخص تھا۔

٢۔ ایاد بن لقیط سدوسی : اسے تابعین کے چوتھے در جے میں قرار دیا گیا ہے اور ان کی نظر میں ثقہ ہے۔

٣۔ بنی حرث بن سدوس سے خود کبیس بن ہوزہ ، چونکہ ہم نے اس کی داستان اور نام سیف اور اس کے راویوں کے علاوہ کہیں نہیں دیکھا لہذا اس کو سیف کے جعلی اصحاب اور راویوں میں شمار کرتے ہیں ۔

داستان کبیس کا نتیجہ

١۔ ایک نمائندہ صحابی ، جس کے حالات پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے حقیقی صحابیوں کی فہرست میں قرار دئیے گئے ہیں ۔

٢۔ پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حدیث شریف کا ایسا راوی جس کے حالات '' معجم الشیوخ'' کی روایتوں میں ملتے ہیں ۔

٣۔ پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا ایک خط، جس کا ذکر بعض متاخرین کے ذریعہ کتاب '' مجموعة الوثائق السیاسیہ'' میں کیا گیا ہے

ان سب کو سیف نے تن تنہا خلق کیا ہے اور اپنے اس جعلی صحابی اور دو نامور راویوں ۔۔ کہ ہم جن کی گردن پر ابن مندہ و ابن حجر کے برخلاف سیف کے جھوٹ کا گناہ ڈالنا نہیں چاہتے ۔۔ کی زبانی روایت نقل کی ہے ۔

۸۸

افسانۂ کبیس کی اشاعت کے ذرائع:

١۔ ابن شاہیں ( وفات ٣٨٥ ھ ) نے کتاب '' معجم الشیوخ'' میں ۔

٢۔ ابن مندہ ( وفات ٣٩٥ ھ ) نے کتاب '' اسماء الصحابہ میں ۔

٣۔ ابو نعیم ( وفات ٤٣٠ ھ ) نے کتاب '' معرفة الصحابہ '' میں ۔

٤۔ ابن عبد البر ( وفات ٤٦٣ ھ )نے کتاب '' الاستیعاب فی معرفة الصحابہ '' میں ۔

٥۔ ابن اثیر ( وفات ٦٣٠ ھ)نے کتاب '' اسد الغابہ فی معرفة الصحابہ '' میں ۔

٦۔ ذہبی ( وفات ٧٤٨ ھ ) نے کتاب '' تجرید اسماء الصحابہ '' میں ۔

٧۔ ابن حجر ( وفات ٨٥٢ ھ)نے کتاب '' الاصابة فی تمییز الصحابہ'' میں ابن شاہین سے نقل کرکے۔

٨۔ اور حال ہی میں محمد حمید اللہ نے کتاب '' مجموعة الوثائق السیاسیة '' میں ابن کثیر سے نقل کرکے اس نے لکھا ہے کہ: اس خط کا متن نقل نہیں ہوا ہے۔

مصادر و مآخذ

کبیس کا نسب ، اس کے حالات اور داستان :

١۔ ابن عبد البر کی '' استیعاب '' ( ١ ٢٢٧) نمبر : ٩٧٠

٢۔ ابن مندہ کی '' اسماء الصحابہ '' مدینۂ منورہ میں شیخ الاسلام لائبریری میں موجود قلمی نسخہ۔

٣۔ ابن اثیر کی '' اسد الغابہ '' ( ٤ ٢٣١)

٤۔ ذہبی کی '' تجرید '' ( ٢ ٢٩ )

٥۔ '' اصابہ'' (٣ ٢٧٠) نمبر : ٧٣٧٦

٦۔ سمعانی کی '' انساب '' لفظ '' السدوسی '' نمبر : ٢٩٤

٧۔ ابن حزم کی ''جمہرہ '' ( ص ٢٩٨۔ ٢٩٩)

۸۹

ابن شاہین کے حالات

١۔ ' ' تاریخ بغداد '' ( ١١ ٢٦٥ ) نمبر: ٦٠٢٨

٢۔ '' کشف الظنون '' ( ٢ ١٧٣٥)

٣۔ ''ھدیة العارفین '' (٢ ٧٨١)

٤۔ '' شذرات '' ( ٣ ١١٧)

٥۔ اعلام زرگلی ( ٥ ١٩٦)

٦۔ ''معجم المؤلفین '' ( ٧ ٢٧٣)

ابن مندہ کے حالات :

١۔ '' عبر ذہبی '' ( ٣ ٥٩)

٢۔ ''کشف الظنون'' (١ ٨٩)

٣۔ '' ھدیة العارفین'' ( ٢ ٥٧)

ابو نعیم کے حالات:

١۔ '' عبر ذہبی '' (٣ ١٧٠)

٢۔ ' ' کشف الظنون '' (٢ ١٧٣٩)

عبد اللہ شبرمہ کے حالات

١۔ تاریخ بخاری ٣ ق ( ١ ١١٧)

٢۔ '' جرح و تعدیل'' رازی ٢ ق ( ٢ ٨٢) اسی طرح تہذیب میں ۔

۹۰

ایاد بن لقیط کے حالات :

١۔ تاریخ بخاری ١ ق ( ٢ ٦٩)

٢۔ ابن عساکر کی '' تہذیب '' ( ١ ٣٨٦)

٣۔ '' الجمع بین رجال الصحیحین'' ( ١ ٥٢)

٤۔ '' تقریب'' (١ ٨٦)

ڈاکٹر محمد حمید اللہ کا نظریہ :

١۔ مجموعہ وثائق سیاسی ص ٩٩ نمبر : ٢٣٤ طبع قاہرہ ، انجمن تالیف و ترجمہ و نشر کتاب ١٩٤١ ئ

اسناد

١۔ معجم قبائل العرب '' رضا کحالہ ج٢ طبع ہاشمیۂ دمشق ١٩٤٩ ئ

٢۔ ابن درید کی '' اشتقاق ''

٣۔ نویری کی '' نہایة الارب ''

٤۔ ابن اثیر کی '' لباب الانساب''

۹۱

چوتھا حصہ

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور ابو بکر کے گماشتے اور کارگزار

*٣٠۔ عبید بن صخر بن لوذان انصاری ، سلمی

*٣١۔ صخر بن لوذان

*٣٢۔ عکاشہ بن ثور

*٣٣۔ عبد اللہ بن ثور

*٣٤۔ عبید اللہ بن ثور

۹۲

تیسواں جعلی صحابی عبید بن صخر

اس صحابی کے تعارف کے سلسلہ میں ہم کتاب '' استیعاب''میں یوں پڑھتے ہیں :

عبید بن صخر بن لوذان انصاری ان افراد میں سے ہے جسے پیغمبرخداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنے گماشتے اور گارگزار کی حیثیت سے یمن میں ممور فرمایا تھا۔

کتاب '' اسد الغابہ'' اور '' تجرید'' میں آیا ہے:

عبید ان افراد میں سے ہے جسے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے معاذ بن جبل ١کے ہمراہ یمن بھیجا ہے وہ

کتاب '' اصابہ'' میں بھی یوں لکھا ہے:

بغوی اور دوسروں نے اس ۔۔ عبید بن صخر ۔۔ کو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اصحاب میں شمار کیا ہے۔ ابن سکن کہتا ہے : کہا گیا ہے کہ اس نے پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی مصاحبت کا شرف حاصل کیا ہے۔ لیکن اس حدیث کے اسناد صحیح اور قابل اعتبار نہیں ہیں ۔

____________________

١۔ معاذ بن جبل انصاری ٢١ سالہ تھے جب انہوں نے جنگِ بدر میں شرکت کی تھی ۔ عمر ، دوسرے خلیفہ نے معاذ کی تعریف میں کہا ہے : '' عورتیں معاذ جیسے مرد کو جنم دینے میں بے بس ہیں '' معاذ نے ١٧ یا ١٨ ھ میں طاعون میں مبتلا ہونے کی وجہ سے وفات پائی ۔ '' اسد الغابہ (٣ ٤٠٦)

۹۳

اس صحابی کا نسب

طبری نے اپنی تاریخ میں سیف کی روایت سے استناد کرکے عبید کے نسب کو یوں بیان کیا ہے:

'' عبید بن صخر بن لوذان سلمی''

البتہ اس شجرۂ نسب کو سیف نے گھڑ لیا ہے اور طبری نے اسے اپنی کتاب میں درج کیا ہے۔جبکہ نہ مادۂ '' سلمی'' میں انصار کے زمرہ میں عبید بن صخر کا کہیں نام آیا ہے اور نہ بنی لوذان۔ یہ بات بھی کہہ دیں : جیسا کہ انساب کی کتابوں میں آیا ہے کہ '' لوذان'' اور '' سلمی'' ایک قبیلہ میں قابل جمع نہیں ہیں ، کیونکہ سلمی بنی تزید بن جشم بن خزرج کے سلسلۂ سلمة بن سعد'' کی طرف نسبت ہے ١

اب اگر لوذان '' اوسی'' ہو تو اس قبیلہ سے ہوگا : '' لوذان بن عمرو بن عوف ابن مالک بن اوس'' اس صورت میں واضح ہے کہ یہ قبیلہ سلمی خزرجی کے نسب سے وابستہ نہیں ہوسکتا ہے۔

لیکن اگر ''لوذان ''خزرجی ہو تو درج ذیل تین قبیلوں میں سے ایک میں قرار پائے گا:

١۔ لوذان بن سالم ، بنی عوف بن خزرج سے۔

٢۔ لوذان بن عامر ، بنی حارث بن خزرج سے ۔

____________________

١۔ کتاب لباب الانساب میں یہ نسب اس طرح آیا ہے ، ضمناً نحویوں نے '' سلمی '' کے ''لام'' کو مفتوح (زَبَر) اور محدثین نے مکسور ( زیر) پڑھا ہے۔

۹۴

٣۔ لوذان بن حارثہ ، بنی مالک بن زید مناة سے ، غضب بن جشم بن خزرج کے پوتوں میں سے۔

یہ سب ۔۔ لوذان١۔۔ عوف بن خزرج ، حارث بن خزرج اور غضب بن خزرج کے بیٹے ہیں جبکہ سلمیٰ کی اولاد بنی تزید بن جشم بن خزرج کے فرزند ہیں ۔

عبید بن صخر کی داستان

عبید کی یمن میں ماموریت : عبید کی داستان درج ذیل سات روایتوں کے ذریعہ معتبر مصادر میں ثبت ہوئی ہے:

١۔ '' تاریخ طبری'' میں سیف بن عمر سے روایت ہوئی ہے کہ اس نے کہا:

سہل بن یوسف نے اپنے باپ سے اس نے عبید بن صخر لوذان انصاری سلمی سے حکایت کی ہے کہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ١٠ ھ میں حجة الوداع کے مناسک انجام دینے کے بعد اپنے چند دیگر گماشتوں اور کارندوں کے ہمراہ عبید کو مموریت دی (یہاں تک کہ کہتا ہے) :

معاذ بن جبل کو بھی احکام اور قوانین اسلام کے معلم کے عنوان سے علاقہ حضرموت کی طرف روانہ فرمایا ۔

ابن حجر نے بھی اپنی کتاب '' اصابہ'' میں عبید کے حالات پر روشنی ڈالتے ہوئے اسی روایت کی طرف اشارہ کیا ہے۔

____________________

١۔'' لوذان'' کے بارے میں ابن حزم کی کتاب ''جمہرہ'' کی طرف رجوع فرمائیں ۔

۹۵

٢۔ طبری پھر اسی مذکورہ سند سے استناد کرکے لکھتا ہے : عبید بن صخر سے روایت ہوئی ہے کہ اس نے کہا:

جب ہم '' جَنَد'' ١ میں تھے اور وہاں کے باشندوں پر شائستہ صورت میں حکومت کرتے تھے ۔ ہمارے درمیان خطوط اور قراردادوں کا تبادلہ ہوتا تھا، اسی اثناء میں اسود کی طرف سے مندرجہ ذیل مضمون کا ایک خط ہمارے پاس آیا:

ہمارے اورپر مسلط ہوئے تم لوگوں کو میں خبردار کرتا ہوں کہ جو کچھ ہماری سرزمنیوں سے لے چکے ہو ، انہیں ہمارے لئے ایک جگہ جمع کردو کہ ہم ان چیزوں پر تم سے تصرف کا تم سے زیادہ حق رکھتے ہیں ....( یہاں تک کہ عبید کہتا ہے ) ہمیں اطلاع ملی ہے کہ ۔۔۔ اسود ۔۔ نے '' باذام'' ٢ کو قتل کرکے ایرانیوں کو وہاں سے بھگا دیا ہے اور صنعا پر قبضہ کرلیا ہے ۔ معاذ بن جبل نے بھی فرار کرکے ابو موسیٰ اشعری ٣ کے ہمراہ حضرموت میں پناہ لے لی ہے ۔ دوسرے گورنر اور علاقہ کے

____________________

١۔حموی کی '' معجم البلدان'' میں لفظ ''جَنَد'' کے بارے میں یوں آیا ہے : اسلام کے دور میں حکومتی لحاظ سے یمن تین علاقوں میں تقسیم ہوتا تھا۔ ان میں سے سب سے بڑا '' جَنَد'' نام کا علاقہ تھا ۔ یہ صنعا سے ٥٨ فرسخ کی دوری پر واقع ہے

٢۔ باذام یا باذان ایک ایران ی تھا جو جو گزشتہ زمانے میں ایران کے بادشاہ کی طرف سے یمن پر حکومت کرتا تھا ۔ ایران کے بادشاہ کے مرنے کے بعد باذام اسلام لایا اور مرتے دم تک یا مدعی پیغمبری '' اسود'' کے ہاتھوں قتل ہونے تک اسی حالت میں یمن میں زندگی بسر کرتا رہا '' اصابہ'' ابن حجر ( ١ ١٧١) '' فتح البلدان'' بلاذری ( ١٢٦)

٣۔ ابو موسیٰ اشعری ، اس کا نام عبد اللہ بن قیس ہے جو قبائل قحطان کے بنی اشعر سے ہے ابو موسیٰ مکہ آیا اور سعید بن عاص اموی سے عہد و پیمان کر کے پھر اسلام لایا۔ عمر نے اپنی خلافت کے زمانے میں اسے بصرہ کا گورنر منصوب کیا ۔ لیکن عثمان کے خلافت پر بیٹھنے کے بعد اسے معزول کیا گیا اور ایک بار پھر لوگوں کے مطالبے پر اسے کوفہ کا گورنر مقرر کیا اور امیر المؤمنین کی خلافت تک اسی عہدے پر فائز تھا ۔ امیر المؤمنین نے ابو موسیٰ کو کوفہ کی گورنر سے معزول کیا ۔ جب صفین کی جگں میں مسئلہ حکمیت پیش آیا تو عراق کے لوگوں نے امیر المؤمنین کی مرضی کے خلاف ابو موسی کو حَکَم کے عنوان سے انتخاب کیا ۔ ابو موسیٰ نے یہاں پر عمرو عاص سے دھوکہ کھایا او شرمندگی کی حالت میں مکہ چلا گیا اور وہیں پر ٤٢ یا ٤٤ یا ٥٢ میں وفات پائی ، '' استیعاب '' ، '' اسد الغابہ '' اور '' اصابہ '' میں اس کے حالات درج ہیں ۔

۹۶

گماشتے طاہر ابو ہالہ کے گرد جمع ہوئے ہیں ۔

ابن حجر بھی عبید کے حالات پر روشنی ڈالتے ہوئے اپنی کتاب '' اصابہ'' میں اس داستان کا آغاز کرتا ہے:

اور سیف نے اپنی کتاب '' فتوح'' میں ذکر کیا ہے ( مذکورہ داستان کو نقل کرتا ہے )

٣۔ طبری ایک دوسری جگہ پر اپنی کتاب میں اسی گزشتہ سند کے مطابق لکھتا ہے :

عبید بن صخر سے روایت ہوئی ہے کہ اس نے کہا: اسودعنسی کے کام میں آغاز سے انجام تک تین مہینے لگ گئے۔

طبری کے ہاں عبید کی یہی روایتیں تھی جو ہم نے بیان کیں ۔ لیکن دوسروں کے ہاں درجِ ذیل مطالب دیکھنے میں آتے ہیں :

٤۔ ابن مندہ نے اپنی کتاب '' اسماء الصحابہ ''میں اور ابن اثیر نے '' اسد الغابہ'' میں سیف بن عمر سے اس نے سہل بن یوسف بن سہل انصاری سے اس نے اپنے باپ سے اس نے عبید بن صخر بن لوذان انصاری سے نقل کرکے لکھا ہے:

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے یمن میں موجود اپنے تمام گماشتوں اور کارندوں کو یہ حکم دیا کہ : قرآن زیادہ پڑھیں ، ایک دوسرے کی مسلسل پند و نصیحت کریں ، کیونکہ مموریت کے علاقہ

میں گماشتوں اور کارندوں کیلئے وہ سب سے زیادہ طاقتور پشت پناہ ہے جو خدا کی

۹۷

مرضی کے مطابق عمل کرے۔دوسروں کی ملامت اور سرزنش سے خوفزدہ نہ ہونا اور جس خدا کی طرف پلٹنا ہے اسے مد نظر رکھنا۔

ابن حجر نے اپنی کتاب ''اصابہ'' میں اسی مطلب کو ابن سکن، بغوی اور طبری سے نقل کرکے درج کیا ہے جبکہ ہم نے تاریخ طبری کے نسخوں میں اس قسم کی حدیث کو نہیں پایا ۔

٥۔ ابن عبدا لبر '' استیعاب'' میں لکھتا ہے :

سیف نے سہل بن یوسف بن سہل سے اس نے اپنے باپ سے اور اس نے عبید بن صخر لوذان ١ انصاری سے روایت کی ہے کہ اس نے کہا:

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حکم دیا تھا کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے گماشتے اور کارندے یمن میں ہر تیس گائے میں سے ایک سالہ گائے کا ایک بچھڑا اور ہر چالیس گائے میں سے ایک گائے کو صدقات کے طور پر وصول کریں اور ان دو حد نصاب کے درمیان ادا کرنے والے پر کوئی اور چیز بعنوان زکات نہیں ہے۔

ابن اثیر اسی حدیث کو '' اسد الغابہ '' میں نقل کرتے ہوئے اضافہ کرتا ہے اس حدیث کو دیگر تین مصادر نے بھی نقل کیا ہے۔

ابن اثیر کی مراد یہ ہے کہ سیف کی اس حدیث کو ابن عبد البر نے'' استیعاب'' میں ابن مندہ نے '' اسماء الصحابہ'' میں اور ابو نعیم نے ''معجم الصحابہ'' میں نقل کیا ہے۔

٦۔ چند دانشوروں جیسے : بغوی نے اپنی کتاب '' معجم الصحابہ '' میں ،معاذبن جبل کے حالات

____________________

١۔ لوذان '' ک سلسلے میں ابن حزم کی ''جمہرۂ انساب '' مطالعہ کی جائے۔

۹۸

میں ابن قانع نے اپنی کتاب''معجم الصحابہ'' میں اور ابن مندہ نے اپنی کتاب '' اسماء الصحابہ'' میں عبید بن صخر کے حالات پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھا ہے :

سیف بن عمر نے سہل بن یوسف بن سہل سے ، اس نے اپنے باپ سے اس نے عبید بن صخر بن لوذان سے ۔۔ جو خود ان افراد میں سے تھا جسے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنے دیگر گماشتوں کے ہمراہ مموریت پر یمن بھیجا تھا۔۔۔ روایت کی ہے کہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے معاذ بن جبل کو یمن کی طرف بعنوان معلم روانہ کرتے وقت فرمایا :

میں دین میں تمہارے مقام و منزلت اور یہ کہ تم نے کس حدتک دین سے استفادہ کیا ہے ، جانتا ہوں ، میں نے '' تحفہ و تحائف '' تم پر حلال کردئے پس اگر تم نے تحفہ کے عنوان سے کوئی چیز دی جائے تو اسے قبول کرنا ! معاذ بن جبل جب یمن سے مدینہ واپس آرہے تھے ، تو تیس جانوروں کو اپنے ہمراہ لے آرہے تھے جو انہیں ہدیہ کے طور پر دئے گئے تھے!!

ابن حجر نے بھی اس حدیث کو عبید کے حالات کی تشریح میں ابن سکن اور طبری سے نقل کر کے اور معاذ کے حالات کی تشریح میں براہ راست سیف کی کتاب '' فتوح '' سے نقل کرکے اپنی کتاب '' اصابہ'' میں درج کیا ہے جب کہ ہم نے مذکورہ حدیث کو تاریخ طبری کے موجودہ نسخوں میں نہیں پایا۔

٧۔ ذہبی اپنی کتاب '' سیر اعلام النبلاء '' میں معاذ بن جبل کے حالات میں لکھتا ہے :

سیف بن عمر نے سہل بن یوسف بن سہل سے اس نے اپنے باپ سے اس نے عبید بن صخر سے روایت کی ہے کہ جب معاذ بن جبل رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی طرف سے مموریت پر صوب کی طرف روانہ ہورہے تھے تو رخصت کے وقت آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان سے فرمایا:

خدا تجھے ہر حادثہ کے مقابلے میں محفوظ رکھے اور تجھے جن و انسان کے شر سے بچائے ۔ جب معاذ چلے گئے تو رسول خدا نےصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم امکی ستائش میں فرمایا : وہ ایسی حالت میں دنیا سے اٹھے گا کہ اس کا مقام علماء و محققین سے بہت بلند ہوگا!!

۹۹

بغوی نے بھی اس حدیث کو چند الفاظ کے اختلاف کے ساتھ معاذ کی تشریح میں درج کیا ہے۔

جیسا کہ ہم نے دیکھا کہ جن دانشوروں نے عبید بن صخر کے حالات کی تشریح میں اس کو اصحاب کے زمرہ میں شمار کیا ہے انہوں نے سیف کی ان ہی سات احادیث پر اعتماد کیا ہے۔

ابن قدامہ نے بھی سیف کی پانچویں حدیث پر اعتماد کرکے اپنی کتاب '' انصاری اصحاب کا نسب 'میں عبید کے حالات کی تشریح کرتے ہوئے دو جگہوں پر یوں بیان کیا ہے ۔

١۔ کتاب کے آخر میں چند معروف و مشہور اصحاب کا تعارف کراتے ہوئے عبید کے حالات کی تشریح میں لکھتا ہے :

عبید بن صخر بن لوذان انصاری کو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنے گماشتے کے طور پر مموریت دی ہے ۔ یوسف بن سہل نے اس سے روایت کی ہے کہ اس نے کہا : پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حکم فرمایا تھا کہ آپ کے گماشتے ہر تیس گائے کے مقابلہ میں ایک سالہ گائے کا ایک پچھڑا اور ہر چالیس گائے کے مقابلے میں ایک گائے کو صدقات کے طور پر وصول کریں اور ان دو حدِ نصاب کے درمیان کسی چیز کا تعین نہیں ہوا ہے۔

٢۔ ''بنو مالک بن زید مناة'' کے باب میں بھی اس کے حالات کی تشریح کی گئی ہے ۔ ابن قدامہ نے عبید کے حالات کی وضاحت معروف و مشہور اصحاب کے باب میں کی ہے ، کیونکہ عبید کی روایت کا ماخذ صرف سیف تھا اور سیف نے بھی عبید ، اس کے باپ اور جد کے نام کے علاوہ کسی اور کا نام نہیں لیا ہے۔چونکہ '' ابن قدامہ '' کو سیف کے اس جعلی صحابی کے شجرۂ نسب کا کوئی پتا نہ ملا لہذا مجبور ہوکر اسے ان صحابیوں کے باب میں قرار دیا ہے جو اپنے نام سے پہچانے گئے ہیں ۔

'' ابن قدامہ '' نے عبید کے نام کو دوبارہ ' ' بنو مالک بن زید مناة'' کے باب میں ذکر کیا ہے ، کیونکہ اس نے یہ تصور کیا ہے کہ جس لوذان کو سیف نے عبید کے جد کے طورپر پہچنوایا ہے وہ وہی بنی مالک بن زید مناة کا لوذان بن حارثہ ہے لیکن وہ اس امر سے غافل رہا ہے کہ بنی مالک بن زید مناة ، بنی غضب بن جشم خزرج میں سے ہے اور وہ قبیلہ سلمی کے علاوہ ہیں کہ جس قبیلہ سے سیف نے اپنے عبید کو خلق کیا ہے۔

۱۰۰

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

يہاں تك كہ اس نے انھيں قتل كرنے كا ارادہ كرليا_ حضرت موسى عليہ السلام اس خطرے كو بھاپ گئے اوربھاگ كر شہر ميں آگئے_ يہاں وہ اس واقعے سے دوچار ہوئے كہ دو آدمى لڑرہے تھے جن ميں سے ايك قبطى اور ايك سبطى تھا_(۱)

موسى عليہ السلام مظلوموں كے مددگار كے طورپر

اب ہم حضرت موسى عليہ السلام كى نشيب و فراز سے بھرپور زندگى كے تيسرے دور كو ملاحظہ كر تے ہيں _

اس دور ميں ان كے وہ واقعات ہيں جو انھيں دوران بلوغ اور مصر سے مدين كو سفر كرنے سے پہلے پيش آئے اور يہ وہ اسباب ہيں جو ان كى ہجرت كا باعث ہوئے_

''بہر حال حضرت موسى عليہ السلام شہر ميں اس وقت داخل ہوئے جب تمام اہل شہر غافل تھے''_(۲)

يہ واضح نہيں ہے كہ يہ كونسا شہر تھا_ليكن احتمال قوى يہ ہے كہ يہ مصر كا پايہ تخت تھا_ بعض لوگوں كا قول ہے كہ حضرت موسى عليہ السلام كو اس مخالفت كى وجہ سے جو ان ميں فوعون اور اس كے وزراء ميں تھى اور بڑھتى جارہى تھي،مصر كے پايہ تخت سے نكال ديا گيا تھا_ مگر جب لوگ غفلت ميں تھے _ موسى عليہ السلام كو موقع مل گيا اور وہ شہر ميں آگئے_

اس احتمال كى بھى گنجائش ہے كہ حضرت موسى عليہ السلام فرعون كے محل سے نكل كر شہر ميں آئے ہوں كيونكہ عام طور پر فرعونيوں كے محلات شہر كے ايك كنارے پر ايسى جگہ بنائے جاتے تھے جہاں سے وہ شہر كى طرف آمدورفت كے راستوں كى نگرانى كرسكيں _

____________________

(۱)اس واقعہ كى تفصيل آئندہ آئے گي

(۲)سورہ قصص آيت ۱۸

۲۸۱

شہر كے لوگ اپنے مشاغل معمول سے فارغ ہوچكے تھے اور كوئي بھى شہر كى حالت كى طرف متوجہ نہ تھا_ مگر يہ كہ وہ وقت كونسا تھا؟بعض كا خيال ہے كہ''ابتدائے شب''تھي،جب كہ لوگ اپنے كاروبار سے فارغ ہوجاتے ہيں ،ايسے ميں كچھ تو اپنے اپنے گھروں كى راہ ليتے ہيں _كچھ تفريح اور رات كوبيٹھ كے باتيں كرنے لگتے ہيں _

بہر كيف حضرت موسى عليہ السلام شہر ميں آئے اور وہاں ايك ماجرے سے دوچار ہوئے ديكھا :'' دو آدمى آپس ميں بھڑے ہوئے ہيں اور ايك دوسرے كو مار رہے ہيں _ان ميں سے ايك حضرت موسى عليہ السلام كا طرف دار اور ان كا پيرو تھا اور دوسراان كا دشمن تھا''_(۱)

كلمہ ''شيعتہ'' اس امر كا غماز ہے كہ جناب موسى (ع) اور بنى اسرائيل ميں اسى زمانے سے مراسم ہوگئے تھے اور كچھ لوگ ان كے پيرو بھى تھے احتمال يہ ہوتا ہے كہ حضرت موسى عليہ السلام اپنے مقلدين اور شيعوں كى روح كو فرعون كى جابرانہ حكومت كے خلاف لڑنے كے لئے بطور ايك مركزى طاقت كے تيار كررہے تھے _

جس وقت بنى اسرائيل كے اس آدمى نے موسى عليہ السلام كو ديكھا:'' تو ان سے اپنے ،دشمن كے مقابلے ميں امداد چاہي''_(۲)

حضرت موسى عليہ السلام اس كى مدد كرنے كےلئے تيار ہوگئے تاكہ اسے اس ظالم دشمن كے ہاتھ سے نجات دلائيں بعض علماء كا خيال ہے كہ وہ قبطى فرعون كا ايك باورچى تھا اور چاہتاتھا كہ اس بنى اسرائيل كو بيكار ميں پكڑكے اس سے لكڑياں اٹھوائے'' حضرت موسى عليہ السلام نے اس فرعونى كے سينے پر ايك مكامارا وہ ايك ہى مكے ميں مرگيا اور زمين پر گر پڑا ''_(۳)

اس ميں شك نہيں كہ حضرت موسى كا اس فرعونى كو جان سے ماردينے كا ارادہ نہ تھا قرآن سے بھى يہ خوب واضح ہوجاتاہے ايسا اس لئے نہ تھا كہ وہ لوگ مستحق قتل نہ تھے بلكہ انھيں ان نتائج كا خيال تھا جو خود حضرت موسى اور بنى اسرائيل كو پيش آسكتے تھے _

____________________

(۱)سورہ قصص آيت ۱۵ (۲)سورہ قصص آيت۱۵ (۳) سورہ قصص آيت۱۵

۲۸۲

لہذا حضرت موسى عليہ السلام نے فوراً كہا:'' كہ يہ كام شيطان نے كرايا ہے كيونكہ وہ انسانوں كا دشمن اور واضح گمراہ كرنے والاہے ''_(۱)

اس واقعے كى دوسرى تعبير يہ ہے كہ حضرت موسى عليہ السلام چاہتے تھے كہ بنى اسرئيلى كا گريبان اس فرعونى كے ہاتھ سے چھڑا ديں ہر چند كہ وابستگان فرعون اس سے زيادہ سخت سلوك كے مستحق تھے ليكن ان حالات ميں ايسا كام كر بيٹھنا قرين مصلحت نہ تھا اور جيسا كہ ہم آگے ديكھيں گے كہ حضرت موسى اسى عمل كے نتيجے ميں پھر مصر ميں نہ ٹھہرسكے اور مدين چلے گئے _

پھر قرآن ميں حضرت موسى عليہ السلام كا يہ قول نقل كيا گيا ہے اس نے كہا:''پروردگار اميں نے اپنے اوپر ظلم كيا تو مجھے معاف كردے ،اور خدا نے اسے بخش ديا كيونكہ وہ غفورو رحيم ہے ''_(۲)

يقينا حضرت موسى عليہ السلام اس معاملے ميں كسى گناہ كے مرتكب نہيں ہوئے بلكہ حقيقت ميں ان سے ترك اولى سرزد ہوا كيونكہ انہيں ايسى بے احتياطى نہيں كرنى چاہيئے تھى جس كے نتيجے ميں وہ زحمت ميں مبتلا ہوں حضرت موسى نے اسى ترك اولى كے لئے خدا سے طلب عفو كيا اور خدا نے بھى انھيں اپنے لطف وعنايت سے بہرہ مند كيا _

حضرت موسى عليہ السلام نے كہا: خداوندا تيرے اس احسان كے شكرانے ميں كہ تونے ميرے قصور كو معاف كرديا اور دشمنوں كے پنجے ميں گرفتار نہ كيا اور ان تمام نعمتوں كے شكريہ ميں جو مجھے ابتداء سے اب تك مرحمت كرتا رہا،ميں عہد كرتا ہوں كہ ہر گز مجرموں كى مدد نہ كروں گا اور ظالموں كا طرف دار نہ ہوں گا ''_(۳)

بلكہ ہميشہ مظلومين اور ستم ديدہ لوگوں كا مددگارر ہوں گا _(۴)

____________________

(۱) سورہ قصص آيت۱۵

(۲)سورہ قصص آيت۱۵

(۳)سورہ قصص آيت ۱۷

(۴)كيا حضرت موسى عليہ السلام كا يہ كا م مقام عصمت كے خلاف نہيں ہے ؟

مفسرين نے ، اس قبطى اور بنى اسرائيل كى باہمى نزاع اور حضرت موسى كے ہاتھ سے مرد قبطى كے مارے جانے كے بارے ميں بڑى طويل بحثيں كى ہيں _

۲۸۳

درحقيقت يہ معاملہ كوئي اہم اور بحث طلب تھا ہى نہيں كيونكہ ستم پسند وابستگان فرعون نہايت بے رحم اور مفسد تھے انہوں نے بنى اسرائيل كے ہزاروں بچوں كے سرقلم كيے اور بنى اسرائيل پر كسى قسم كا ظلم كرنے سے بھى دريغ نہ كيا اس جہت سے يہ لوگ اس قابل نہ تھے كہ بنى اسرائيل كےلئے ان كا قتل احترام انسانيت كے خلاف ہو _

البتہ مفسرين كے لئے جس چيزنے دشوارياں پيدا كى ہيں وہ اس واقعے كى وہ مختلف تعبيرات ہيں جو خود حضرت موسى نے كى ہيں چنانچہ وہ ايك جگہ تو يہ كہتے ہيں :

''هذا من عمل الشيطان ''

''يہ شيطانى عمل ہے ''_

اور دوسرى جگہ يہ فرمايا:

''رب انى ظلمت نفسى فاغفرلى ''

''خداياميں نے اپنے نفس پر ظلم كيا تو مجھے معاف فرمادے ''_

جناب موسى عليہ السلام كى يہ دونوں تعبيرات اس مسلمہ حقيقت سے كيونكر مطابقت ركھتى ہيں كہ :

عصمت انبيا ء كا مفہوم يہ ہے كہ انبيا ء ماقبل بعثت اور ما بعد عطائے رسالت ہر دو حالات ميں معصوم ہوتے ہيں '' _

ليكن حضرت موسى عليہ السلام كے اس عمل كى جو توضيح ہم نے آيات فوق كى روشنى ميں پيش كى ہے ، اس سے ثابت ہوتا ہے كہ حضرت موسى سے جو كچھ سرزد ہوا وہ ترك اولى سے زيادہ نہ تھا انھوں نے اس عمل سے اپنے آپ كو زحمت ميں مبتلاكرليا كيونكہ حضرت موسى كے ہاتھ سے ايك قبطى كا قتل ايسى بات نہ تھى كہ وابستگان فرعون اسے آسانى سے برداشت كرليتے_

نيز ہم جانتے ہيں كہ ''ترك اولى ''كے معنى ايسا كام كرنا ہے جو بذات خود حرام نہيں ہے_ بلكہ اس كا مفہوم يہ ہے كہ ''عمل احسن ''ترك ہوگيا بغير اس كے كہ كوئي عمل خلاف حكم الہى سرزد ہوا ہو؟

۲۸۴

موسى عليہ السلام كى مخفيانہ مدين كى طرف روانگي

فرعونيوں ميں سے ايك آدمى كے قتل كى خبر شہر ميں بڑى تيزى سے پھيل گئي قرائن سے شايد لوگ يہ سمجھ گئے تھے كہ اس كا قائل ايك بنى اسرائيل ہے اور شايد اس سلسلے ميں لوگ موسى عليہ السلام كا نام بھى ليتے تھے_

البتہ يہ قتل كوئي معمولى بات نہ تھى اسے انقلاب كى ايك چنگارى يا اس كا مقدمہ شمار كيا جاتاتھا اورحكومت كى مشينرى اسے ايك معمولى واقعہ سمجھ كراسے چھوڑنے والى نہ تھى كہ بنى اسرائيل كے غلام اپنے آقائوں كى جان لينے كا ارادہ كرنے لگيں _

لہذا ہم قرآن ميں يہ پڑھتے ہيں كہ'' اس واقعے كے بعد موسى شہر ميں ڈررہے تھے اور ہر لحظہ انہيں كسى حادثے كا كھٹكا تھا اور وہ نئي خبروں كى جستجو ميں تھے ''_(۱)

ناگہاں انہيں ايك معاملہ پيش آيا آپ نے ديكھا كہ وہى بنى اسرائيلى جس نے گزشتہ روز ان سے مدد طلب كى تھى انھيں پھر پكاررہا تھا اور مدد طلب كررہاتھا (وہ ايك اور قبطى سے لڑرہا تھا) _

''ليكن حضرت موسى عليہ السلام نے اس سے كہا كہ تو آشكارا طور پر ايك جاہل اور گمراہ شخص ہے''_(۲)

توہر روز كسى نہ كسى سے جھگڑ پڑتا ہے اور اپنے لئے مصيبت پيدا كرليتا ہے اور ايسے كام شروع كرديتا ہے جن كا ابھى موقع ہى نہيں تھا كل جو كچھ گزرى ہے ميں تو ابھى اس كے عواقب كا انتظار كرہا ہوں اور تونے وہى كام از سر نو شروع كرديا ہے _

بہر حال وہ ايك مظلوم تھا جو ايك ظالم كے پنجے ميں پھنسا ہو تھا ( حواہ ابتداء اس سے كچھ قصور ہوا ہو يانہ ہوا ہو ) اس لئے حضرت موسى كے لئے يہ ضرورى ہوگيا كہ اس كى مدد كريں اور اسے اس قبطى كے رحم وكرم پر نہ چھوڑديں ليكن جيسے ہى حضرت موسى نے يہ اراداہ كيا كہ اس قبطى آدمى كو (جو ان دونوں كا دشمن تھا )پكڑ كر اس بنى اسرائيل سے جدا كريں وہ قبطى چلايا، اس نے كہا :

اے موسى : كيا تو مجھے بھى اسى طرح قتل كرنا چاہتا ہے جس طرح تو نے كل ايك شخص كو قتل كيا تھا''_(۳) ''تيرى حركات سے تو ايسا ظاہر ہوتا ہے كہ تو زمين پر ايك ظالم بن كررہے گا اور يہ نہيں چاہتا كہ مصلحين ميں سے ہو ''_(۴)

____________________

(۱)سورہ قصص آيت۱۵ (۲)سورہ قصص آيت۱۶ (۳)سورہ قصص آيت۱۹ (۴)سورہ قصص آيت ۱۹

۲۸۵

اس جملے سے يہ معلوم ہوتا ہے كہ حضرت موسى عليہ السلام نے فرعون كے محل اور اس كے باہر ہر دو جگہ اپنے مصلحانہ خيالات كا اظہار شروع كرديا تھا بعض روايات سے يہ بھى معلوم ہوتا ہے كہ اس موضوع پر ان كے فرعون سے اختلافات بھى پيدا ہوگئے تھے اسى لئے تو اس قبطى آدمى نے يہ كہا :

يہ كيسى اصلاح طلبى ہے كہ تو ہر روز ايك آدمى كو قتل كرتاہے ؟

حالانكہ اگر حضرت موسى كا يہ ارادہ ہوتا كہ اس اس ظالم كو بھى قتل كرديں تو يہ بھى راہ اصلاح ميں ايك قدم ہوتا _

بہركيف حضرت موسى كو يہ احساس ہوا كہ گزشتہ روز كا واقعہ طشت ازبام ہوگيا ہے اور اس خوف سے كہ اور زيادہ مشكلات پيدا نہ ہوں ، انھوں نے اس معاملے ميں دخل نہ ديا _

حضرت موسى عليہ السلام كے ليے سزا ئے موت

اس واقعے كى فرعون اور اس كے اہل دربار كو اطلاع پہنچ گئي انھوں نے حضرت موسى سے اس عمل كے مكرر سرزد ہونے كو اپنى شان سلطنت كے لئے ايك تہديد سمجھا _ وہ باہم مشورے كے لئے جمع ہوئے اور حضرت موسى كے قتل كا حكم صادر كرديا _

(جہاں فرعون اور اس كے اہل خانہ رہتے تھے)وہاں سے ايك شخص تيزى كے ساتھ حضرت موسى كے پاس آيا اور انھيں مطلع كيا كہ آپ كو قتل كرنے كا مشورہ ہورہا ہے ، آپ فورا شہرسے نكل جائيں ، ميں آپ كا خير خواہ ہوں _''(۱)

يہ آدمى بظاہر وہى تھا جو بعد ميں ''مومن آل فرعون ''كے نام سے مشہور ہوا ،كہا جاتاہے كہ اس كا نام حزقيل تھا وہ فرعون كے قريبى رشتہ داروں ميں سے تھا اور ان لوگوں سے اس كے ايسے قريبى روابط تھے كہ ايسے مشوروں ميں شريك ہوتا تھا _

____________________

(۱) سورہ قصص آيت ۱۹

۲۸۶

اسے فرعون كے جرائم اور اس كى كرتوتوں سے بڑا دكھ ہوتا تھا اور اس انتظار ميں تھا كہ كوئي شخص اس كے خلاف بغاوت كرے اور وہ اس كار خير ميں شريك ہوجائے _

بظاہر وہ حضرت موسى عليہ السلام سے يہ آس لگائے ہوئے تھا اور ان كى پيشانى ميں من جانب اللہ ايك انقلابى ہستى كى علامات ديكھ رہا تھا اسى وجہ سے جيسے ہى اسے يہ احساس ہوا كہ حضرت موسى خطرے ميں ہيں ، نہايت سرعت سے ان كے پاس پہنچا اور انھيں خطرے سے بچاليا _

ہم بعد ميں ديكھيں گے كہ وہ شخص صرف اسى واقعے ميں نہيں ، بلكہ ديگر خطرناك مواقع پر بھى حضرت موسى كے لئے بااعتماد اور ہمدرد ثابت ہواحضرت موسى عليہ السلام نے اس خبر كو قطعى درست سمجھا اور اس ايماندار آدمى كى خيرخواہى كو بہ نگاہ قدر ديكھا اور اس كى نصيحت كے مطابق شہر سے نكل گئے_''اس وقت آپ خوف زدہ تھے اور ہر گھڑى انہيں كسى حادثے كا كھٹكا تھا ''_(۱)

حضرت موسى عليہ السلام نے نہايت خضوع قلب كے ساتھ متوجہ الى اللہ ہوكر اس بلا كو ٹالنے كےلئے اس كے لطف وكرم كى درخواست كى :''اے ميرے پروردگار : تو مجھے اس ظالم قوم سے رہائي بخش ''_(۲)

ميں جانتاہوں كہ وہ ظالم اور بے رحم ہيں ميں تو مظلوموں كى مدافعت كررہاتھا اور ظالموں سے ميرا كچھ تعلق نہ تھا اور جس طرح سے ميں نے اپنى توانائي كے مطابق مظلوموں سے ظالموں كے شركو دور كيا ہے تو بھى اے خدائے بزرگ ظالموں كے شركو مجھ سے دور ركھ _

حضرت موسى عليہ السلام نے پختہ ارادہ كرليا كہ وہ شہرمدين كو چلے جائيں يہ شہر شام كے جنوب اور حجاز كے شمال ميں تھا اور قلم رو مصر اور فراعنہ كى حكومت ميں شامل نہ تھا _

مدين كہاں تھا؟

''مدين '' ايك شہر كانام تھا جس ميں حضرت شعيب اور ان كا قبيلہ رہتا تھا يہ شہر خليج عقبہ كے مشرق ميں

____________________

(۱)سورہ قصص آيت۲۱

(۲)سورہ قصص آيت۲۱

۲۸۷

تھا (يعنى حجاز كے شمال اور شامات كے جنوب ميں )وہاں كے باشندے حضرت اسماعيل (ع) كى نسل سے تھے وہ مصر، لبنان اور فلسطين سے تجارت كرتے تھے آج كل اس شہر كانام معان ہے(۱)

نقشے كو غور سے دبكھيں تو معلوم ہوتا ہے كہ اس شہر كا مصر سے كچھ زبادہ فاصلہ نہيں ہے،اسى لئے حضرت موسى عليہ السلام چند روز ميں وہاں پہنچ گئے_

ملك اردن كے جغرافيائي نقشہ ميں ، جنوب غربى شہروں ميں سے ايك شہر'' معان '' نام كا ملتا ہے ، جس كا محل وقوع ہمارے مذكورہ بالا بيان كے مطابق ہے _

ليكن وہ جوان جو محل كے اندار نازو نعم ميں پلا تھا ايك ايسے سفر پر روانہ ہو رہا تھا جيسے كہ سفر اسے كبھى زندگى بھر پيش نہ آيا تھا_

اس كے پاس نہ زادراہ تھا، نہ توشہ سفر، نہ كوئي سوارى ، نہ رفيق راہ اور نہ كوئي راستہ بتانے والا ،ہردم يہ خطرہ لاحق تھا_

كہ حكومت كے اہلكار اس تك پہنچ جائيں اور پكڑكے قتل كرديں اس حالت ميں ظاہر ہے كہ حضرت موسى عليہ السلام كا كيا حال ہوگا _

ليكن حضرت موسى عليہ السلام كے لئے يہ مقدر ہوچكا تھا كہ وہ سختى اور شدت كے دنوں كو پيچھے چھوڑديں اور قصرفرعون انھيں جس جال ميں پھنسانا چاہتا تھا_

اسے توڑكر باہر نكل آئيں اور وہ كمزور اور ستم ديدہ لوگوں كے پاس رہيں ان كے درد وغم كا بہ شدت احساس كريں ور مستكبرين كے خلاف ان كى منفعت كے لئے بحكم الہى قيام فرمائيں _

____________________

(۱) بعض لوگ كلمہ '' مدين '' كا اطلاق اس قوم پر كرتے ہيں جو خليج عقيہ سے كوہ سينا تك سكونت پذير تھى توريت ميں بھى اس قوم كو '' مديان ''كہا گيا ہے _

بعض اہل تحقيق نے اس شہر كى وجہ تسميہ بھى لكھى ہے كہ حضرت ابراہيم (ع) كا ايك بيٹا جس كا نام '' مدين '' تھا اس شہر ميں رہتا تھا_

۲۸۸

اس طويل ، بے زادو راحلہ اور بے رفيق ورہنما سفر ميں ايك عظيم سرمايہ ان كے پاس تھا اور وہ تھا ايمان اور توكل برخدا _

''لہذا جب وہ مدين كى طرف چلے تو كہا : خدا سے اميد ہے كہ وہ مجھے راہ راست كى طرف ہدايت كرے گا''_(۱)

ايك نيك عمل نے موسى (ع) پر بھلائيوں كے دروازے كھول ديئے

اس مقام پر ہم اس سرگزشت كے پانچوں حصے پر پہنچ گئے ہيں اور وہ موقع يہ ہے كہ حضرت موسى عليہ السلام شہرمدين ميں پہنچ گئے ہيں _

يہ جوان پاكباز انسان كئي روز تك تنہا چلتا رہا يہ راستہ وہ تھا جو نہ كبھى اس نے ديكھا تھا نہ اسے طے كيا تھا بعض لوگوں كے قول كے مطابق حضرت موسى عليہ السلام مجبور تھے كہ پابرہنہ راستہ طے كريں ، بيان كيا گيا ہے كہ مسلسل آٹھ روز تك چلتے رہے يہاں تك كہ چلتے چلتے ان كے پائوں ميں چھالے پڑگئے _

جب بھوك لگتى تھى تو جنگل كى گھاس اور درختوں كے پتے كھاليتے تھے ان تمام مشكلات اور زحمات ميں صرف ايك خيال سے ان كے دل كوراحت رہتى تھى كہ انھيں افق ميں شہرمدين كا منظر نظر آنے لگا ان كے دل ميں آسود گى كى ايك لہر اٹھنے لگى وہ شہر كے قريب پہنچے انہوں نے لوگوں كا ايك انبوہ ديكھا وہ فورا سمجھ گئے كہ يہ لوگ چرواہے ہيں كہ جو كنويں كے پاس اپنى بھيڑوں كو پانى پلانے آئے ہيں _

''جب حضرت موسى عليہ السلام كنويں كے قريب آئے تو انھوں نے وہاں بہت سے آميوں كو ديكھا جو كنويں سے پانى بھر كے اپنے چوپايوں كو پلارہے تھے،انھوں نے اس كنويں كے پاس دو عورتوں كو ديكھا كہ وہ اپنى بھيڑوں كو لئے كھڑى تھيں مگر كنويں كے قريب نہيں آتى تھيں ''_(۲)

ان باعفت لڑكيوں كى حالت قابل رحم تھى جو ايك گوشے ميں كھڑى تھيں اور كوئي آدمى بھى ان كے

____________________

(۱) سورہ قصص آيت ۲۲

(۲)سورہ قصص آيت۲۳

۲۸۹

ساتھ انصاف نہيں كرتا تھا چرواہے صرف اپنى بھيڑوں كى فكر ميں تھے اور كسى اور كو موقع نہيں ديتے تھے حضرت موسى عليہ السلام نے ان لڑكيوں كى يہ حالت ديكھى تو ان كے نزديك آئے اور پوچھا :

'' تم يہاں كيسے كھڑى ہو''_(۱)

تم آگے كيوں نہيں بڑھتيں اور اپنى بھيڑوں كو پانى كيوں نہيں پلاتيں ؟

حضرت موسى عليہ السلام كے لئے يہ حق كشى ، ظلم وستم ، بے عدالتى اور مظلوموں كے حقوق كى عدم پاسدارى جو انھوں نے شہر مدين ميں ديكھي، قابل برداشت نہ تھى _

مظلوموں كو ظالم سے بچانا ان كى فطرت تھى اسى وجہ سے انھوں نے فرعون كے محل اور اس كى نعمتوں كو ٹھكراديا تھا اور وطن سے بے وطن ہوگئے تھے وہ اپنى اس روش حيات كو ترك نہيں كرسكتے تھے اور ظلم كو ديكھ كر خاموش نہيں رہ سكتے تھے _

لڑكيوں نے حضرت موسى عليہ السلام سے جواب ميں كہا :'' ہم اس وقت تك اپنى بھيڑوں كو پانى نہيں پلاسكتے، جب تك تمام چرواہے اپنے حيوانات كو پانى پلاكر نكل نہ جائيں ''_(۲)

ان لڑكيوں نے اس بات كى وضاحت كے لئے كہ ان باعفت لڑكيوں كے باپ نے انھيں تنہا اس كام كے لئے كيوں بھيج ديا ہے يہ بھى اضافہ كيا كہ ہمارا باپ نہايت ضعيف العمرہے _

نہ تو اس ميں اتنى طاقت ہے كہ بھيڑوں كو پانى پلاسكے اور نہ ہمارا كوئي بھائي ہے جو يہ كام كرلے اس خيال سے كہ كسى پر بارنہ ہوں ہم خود ہى يہ كام كرتے ہيں _

حضرت موسى عليہ السلام كو يہ باتيں سن كر بہت كوفت ہوئي اور دل ميں كہا كہ يہ كيسے بے انصاف لوگ ہيں كہ انھيں صرف اپنى فكر ہے اور كسى مظلوم كى ذرا بھى پرواہ نہيں كرتے _

وہ آگے آئے ،بھارى ڈول اٹھايا اور اسے كنوئيں ميں ڈالا، كہتے ہيں كہ وہ ڈول اتنا بڑا تھا كہ چند

____________________

(۱) سورہ قصص آيت ۲۳

(۲)سورہ قصص آيت ۲۴

۲۹۰

آدمى مل كر اسے كھينچ سكتے تھے ليكن حضرت موسى عليہ السلام نے اپنے قوى بازوئوں سے اسے اكيلے ہى كھينچ ليا اور ان دونوں عورتوں كى بھيڑوں كو پانى پلاديا ''_(۱)

بيان كيا جاتاہے كہ جب حضرت موسى عليہ السلام كنويں كے قريب آئے اورلوگوں كو ايك طرف كيا تو ان سے كہا:'' تم كيسے لوگ ہو كہ اپنے سوا كسى اور كى پرواہ ہى نہيں كرتے ''_

يہ سن كر لوگ ايك طرف ہٹ گئے اور ڈول حضرت موسى كے حوالے كركے بولے :

'' ليجئے، بسم اللہ، اگرآپ پانى كھينچ سكتے ہيں ،انھوں نے حضرت موسى عليہ السلام كو تنہاچھوڑ ديا،ليكن حضرت موسى عليہ السلام اس وقت اگرچہ تھكے ہوئے تھے،اور انھيں بھوك لگ رہى تھى مگر قوت ايمانى ان كى مدد گار ہوئي ، جس نے ان كى جسمانى قوت ميں اضافہ كرديا اور كنويں سے ايك ہى ڈول كھينچ كر ان دنوں عورتوں كى بھيڑوں كو پانى پلاديا _

اس كے بعد حضرت موسى عليہ السلام سائے ميں آبيٹھے اور بارگاہ ايزدى ميں عرض كرنے لگے :'' خداوند اتو مجھے جو بھى خيراور نيكى بخشے ، ميں اس كا محتاج ہوں ''_(۲)

حضرت موسى عليہ السلام ( اس وقت ) تھكے ہوئے اور بھوكے تھے اس شہر ميں اجنبى اور تنہاتھے اور ان كے ليے كو ئي سرچھپانے كى جگہ بھى نہ تھى مگر پھر بھى وہ بے قرار نہ تھے آپ كا نفس ايسا مطمئن تھا كہ دعا كے وقت بھى يہ نہيں كہا كہ'' خدايا تو ميرے ليے ايسا ياويسا كر'' بلكہ يہ كہا كہ : تو جو خير بھى مجھے بخشے ميں اس كا محتاج ہوں '' _

يعنى صرف اپنى احتياج اور نياز كو عرض كرتے ہيں اور باقى امور الطاف خداوندى پر چھوڑديتے ہيں _

ليكن ديكھو كہ كار خير كيا قدرت نمائي كرتا ہے اور اس ميں كتنى عجيب بركات ہيں صرف ''لوجہ اللہ'' ايك قدم اٹھانے اور ايك نا آشنا مظلوم كى حمايت ميں كنويں سے پانى كے ايك ڈول كھيچنے سے حضرت موسى كي

____________________

(۱) سورہ قصص آيت۲۴

(۲) سورہ قصص آيت ۲۴

۲۹۱

زندگى ميں ايك نياباب كھل گيا اور يہ عمل خيران كے ليے بركات مادى اور روحانى دنيا بطور تحفہ لايا اور وہ ناپيدا نعمت (جس كے حصول كےلئے انھيں برسوں كوشش كرنا پڑتى ) اللہ نے انھيں بخش دى حضرت موسى عليہ السلام كے لئے خوش نصيبى كا دور اس وقت شروع ہوا جب انھوں نے يہ ديكھا كہ ان دونوں بہنوں ميں سے ايك نہايت حياسے قدم اٹھاتى ہوئي آرہى ہے اس كى وضع سے ظاہر تھا كہ اسكوايك جوان سے باتيں كرتے ہوئے شرم آتى ہے وہ لڑكى حضرت موسى عليہ السلام كے قريب آئي اور صرف ايك جمكہ كہا : ميرے والد صاحب آپ كو بلاتے ہيں تاكہ آپ نے ہمارى بكريوں كے لئے كنويں سے جو پانى كھينچا تھا ، اس كا معاوضہ ديں ''_(۱)

يہ سن كر حضرت موسى عليہ السلام كے دل ميں اميد كى بجلى چمكى گوياانھيں يہ احساس ہوا كہ ان كے لئے ايك عظيم خوش نصيبى كے اسباب فراہم ہورہے ہيں وہ ايك بزرگ انسان سے مليں گے وہ ايك ايسا حق شناس انسان معلوم ہوتا ہے جو يہ بات پسند نہيں كرتا كہ انسان كى كسى زحمت كا، يہاں تك كہ پانى كے ايك ڈول كھيچنے كا بھى معاوضہ نہ دے يہ ضرور كوئي ملكوتى اور الہى انسان ہوگا يا اللہ يہ كيسا عجيب اور نادر موقع ہے ؟

بيشك وہ پير مرد حضرت شعيب(ع) پيغمبر تھے انہوں نے برسوں تك اس شہر كے لوگوں كو'' رجوع الى اللہ''كى دعوت دى تھى وہ حق پرستى اور حق شناسى كا نمونہ تھے _

جب انھيں كل واقعے كا علم ہوا تو انھوں نے تہيہ كرليا كہ اس اجنبى جوان كو اپنے دين كى تبليغ كريں گے _

حضرت موسى (ع) جناب شعيب(ع) كے گھر ميں

چنانچہ حضرت موسى عليہ السلام اس جگہ سے حضرت شعيب كے مكان كى طرف روانہ ہوئے _

بعض روايات كے مطابق وہ لڑكى رہنمائي كے لئے ان كے آگے چل رہى تھى اور حضرت موسى عليہ السلام اس كے پيچھے چل رہے تھے اس وقت تيز ہوا سے اس لڑكى كا لباس اڑرہا تھا اور ممكن تھا كہ ہوا كى تيزي

____________________

(۱) سورہ قصص آيت ۲۵

۲۹۲

لباس كو اس كے جسم سے اٹھادے حضرت موسى (ع) كى پاكيزہ طبيعت اس منظر كو ديكھنے كى اجازت نہيں ديتى تھي،اس لڑكى سے كہا:ميں آگے آگے چلتا ہوں ،تم راستہ بتاتے رہنا_

جب جناب موسى عليہ السلام حضرت شعيب عليہ السلام كے گھر پہنچ گئے ايسا گھر جس سے نور نبوت ساطع تھا اور اس كے ہر گوشے سے روحانيت نماياں تھى انھوں نے ديكھا كہ ايك پير مرد، جس كے بال سفيد ہيں ايك گوشے ميں بيٹھا ہے اس نے حضرت موسى عليہ السلام كو خوش آمديد كہا اور پوچھا:

'' تم كون ہو ؟ كہاں سے آرہے ہو ؟ كيا مشغلہ ہے ؟ اس شہر ميں كيا كرتے ہو ؟ اور آنے كا مقصد كيا ہے ؟ تنہا كيوں ہو ؟

حضرت موسى عليہ السلام نے حضرت شعيب عليہ السلام كے پاس پہنچے اور انھيں اپنى سرگزشت سنائي تو حضرت شعيب عليہ السلام نے كہا مت ڈرو، تمہيں ظالموں كے گروہ سے نجات مل گئي ہے _''(۱)

ہمارى سرزمين ان كى حدود سلطنت سے باہر ہے يہاں ان كا كوئي اختيار نہيں چلتا اپنے دل ميں ذرہ بھر پريشانى كو جگہ نہ دينا تم امن وامان سے پہنچ گئے ہو مسافرت اور تنہائي كا بھى غم نہ كرو يہ تمام مشكلات خدا كے كرم سے دور ہوجائيں گى _ حضرت مو سى عليہ السلام فورا ًسمجھ گئے كہ انھيں ايك عالى مرتبہ استاد مل گيا ہے، جس كے وجود سے روحانيت ، تقوى ، معرفت اور زلال عظيم كے چشمے پھوٹ رہے ہيں اور يہ استاد ان كى تشنگى تحصيل علم ومعرفت كو سيراب كرسكتا ہے _

حضرت شعيب عليہ السلام نے بھى يہ سمجھ ليا كہ انھيں ايك لائق اور مستعد شاگرد مل گيا ہے، جسے وہ اپنے علم ودانش اور زندگى بھر كے تجربات سے فيض ياب كرسكتے ہيں _

يہ مسلم ہے كہ ايك شاگرد كو ايك بزرگ اور قابل استاد پاكر جتنى مسرت ہوتى ہے استاد كو بھى ايك لائق شاگرد پاكر اتنى ہى خوشى ہوتى ہے_

____________________

(۱) سورہ قصص آيت ۲۵

۲۹۳

جناب موسى عليہ السلام حضرت شعيب (ع) كے داماد بن گئے

اب حضرت موسى عليہ السلام كى زندگى كے چھٹے دور كا ذكر شروع ہوتا ہے حضرت موسى عليہ السلام جناب شعيب عليہ السلام كے گھر آگئے يہ ايك سادہ ساديہاتى مكان تھا، مكان صاف ستھرا تھا اور روحانيت سے معمور تھا جب حضرت موسى عليہ السلام نے جناب شعيب عليہ السلام كو اپنى سرگزشت سنائي تو ان كى ايك لڑكى نے ايك مختصر مگر پر معنى عبارت ميں اپنے والد كے سامنے يہ تجويز پيش كى كہ موسى عليہ السلام كو بھيڑوں كى حفاظت كے لئے ملازم ركھ ليں وہ الفاظ يہ تھے :

اے بابا : آپ اس جوان كو ملازم ركھ ليں كيونكہ ايك بہترين آدمى جسے آپ ملازم ركھ سكتے ہيں وہ ايسا ہونا چاہئے جو قوى اور امين ہو اور اس نے اپنى طاقت اور نيك خصلت دونوں كا امتحان دے ديا ہے'' _(۱)

جس لڑكى نے ايك پيغمبر كے زيرسايہ تربيت پائي ہوا سے ايسى ہى مو دبانہ اور سوچى سمجھى بات كہنى چاہئے نيز چاہئے كہ مختصر الفاظ اور تھوڑى سى عبارت ميں اپنا مطلب ادا كردے _

اس لڑكى كو كيسے معلوم تھا كہ يہ جوان طاقتور بھى ہے اور نيك خصلت بھى كيونكہ اس نے پہلى باركنويں پر ہى اسے ديكھا تھا اور اس كى گزشتہ زندگى كے حالات سے وہ بے خبر تھي؟

اس سوال كا جواب واضح ہے اس لڑكى نے اس جوان كى قوت كو تو اسى وقت سمجھ ليا تھا جب اس نے ان مظلوم لڑكيوں كا حق دلانے كے لئے چرواہوں كو كنويں سے ايك طرف ہٹايا تھا اور اس بھارى ڈول كو اكيلے ہى كنويں سے كھينچ ليا تھا اور اس كى امانت اور نيك چلنى اس وقت معلوم ہوگئي تھى كہ حضرت شعيب عليہ السلام كے گھر كى راہ ميں اس نے يہ گوارا نہ كيا كہ ايك جوان لڑكى اس كے آگے آگے چلے كيونكہ ممكن تھا كہ تيز ہوا سے اس كا لباس جسم سے ہٹ جائے _

علاوہ بريں اس نوجوان نے اپنى جو سرگزشت سنائي تھى اس كے ضمن ميں قبطيوں سے لڑائي كے ذكر

____________________

(۱)سورہ قصص ايت ۲۶

۲۹۴

ميں اس كى قوت كا حال معلوم ہوگيا تھا اور اس امانت وديانت كى يہ شہادت كافى تھى كہ اس نے ظالموں كى ہم نوائي نہ كى اور ان كى ستم رانى پر اظہار رضا مندى نہ كيا _

حضرت شعيب عليہ السلام نے اپنى بيٹى كى تجويز كو قبول كرليا انھوں نے موسى (ع) كى طرف رخ كركے يوں كہا :''ميرا ارادہ ہے كہ اپنى ان دولڑكيوں ميں سے ايك كا تيرے ساتھ نكاح كردوں ، اس شرط كے ساتھ كہ تو آٹھ سال تك ميرى خدمت كرے ''_(۱)

اس كے بعد يہ اضافہ كيا:'' اگر تو آٹھ سال كى بجائے يہ خدمت دس سال كردے تو يہ تيرا احسان ہوگا مگر تجھ پر واجب نہيں ہے :''(۲)

بہرحال ميں يہ نہيں چاہتا كہ تم سے كوئي مشكل كام لوں انشاء اللہ تم جلد ديكھو گے كہ ميں صالحين ميں سے ہوں ، اپنے عہدوپيمان ميں وفادار ہوں تيرے ساتھ ہرگز سخت گيرى نہ كروں گا اور تيرے ساتھ خيراور نيكى كا سلوك كروں گا _(۳)

حضرت موسى عليہ السلام نے اس تجويزاور شرط سے موافقت كرتے ہوئے اور عقد كو قبول كرتے ہوئے كہا : '' ميرے اور آپ كے درميان يہ عہد ہے '' _ البتہ'' ان دومدتوں ميں سے (آٹھ سال يا دس سال ) جس مدت تك بھى خدمت كروں ، مجھ پر كوئي زيادتى نہ ہوگى اور ميں اس كے انتخاب ميں آزاد ہوں ''_(۴)

عہد كو پختہ اور خدا كے نام سے طلب مدد كے لئے يہ اضافہ كيا : ''جو كچھ ہم كہتے ہيں خدا اس پر شاہد ہے ''_(۵)

اوراس اسانى سے موسى عليہ السلام داماد شعيب(ع) بن گئے حضرت شعيب عليہ السلام كى لڑكيوں كا نام '' صفورہ ''( يا صفورا ) اور '' ليا ''بتايا جاتاہے حضرت موسى عليہ السلام كى شادى '' صفورہ '' سے ہوئي تھى _

____________________

(۱) سورہ قصص آيت ۲۷

(۲)سورہ قصص آيت ۲۷

(۳)سورہ قصص آيت ۲۷

(۴) سورہ قصص آيت ۲۸

(۵)سورہ قصص آيت ۲۸

۲۹۵

حضرت موسى عليہ السلام كى زندگى كے بہترين ايام

كوئي آدمى بھى حقيقتاً يہ نہيں جانتا كہ ان دس سال ميں حضرت موسى عليہ السلام پر كيا گزرى ليكن بلاشك يہ دس سال حضرت موسى عليہ السلام كى زندگى كے بہترين سال تھے يہ سال دلچسپ، شيريں اور آرام بخش تھے نيز يہ دس سال ايك منصب عظيم كى ذمہ دارى كے لئے تربيت اور تيارى كے تھے _

درحقيقت اس كى ضرورت بھى تھى كہ موسى عليہ السلام دس سال كا عرصہ عالم مسافرت اور ايك بزرگ پيغمبر كى صحبت ميں بسر كريں اور چرواہے كاكام كريں تاكہ ان كے دل ودماغ سے محلول كى ناز پروردہ زندگى كا اثر بالكل محوہوجائے حضرت موسى كو اتنا عرصہ جھونپڑيوں ميں رہنے والوں كے ساتھ گزارنا ضرورى تھا تاكہ ان كى تكاليف اور مشكلات سے آگاہ ہوجائے اور ساكنان محلول كے ساتھ جنگ كرنے كے لئے آمادہ ہوجائيں _

ايك اور بات يہ بھى ہے كہ حضرت موسى عليہ السلام كو اسرار آفرينش ميں غور كرنے اور اپنى شخصيت كى تكميل كے لئے بھى ايك طويل وقت كى ضرورت تھى اس مقصد كے لئے بيابان مدين اور خانہ شعيب سے بہتر اور كو نسى جگہ ہوسكتى تھى _

ايك اولوالعزم پيغمبر كى بعثت كوئي معمولى بات نہيں ہے كہ يہ مقام كسى كو نہايت آسانى سے نصيب ہوجائے بلكہ يہ كہہ سكتے ہيں كہ پيغمبر اسلام (ص) كے بعد تمام پيغمبروں ميں سے حضرت موسى عليہ السلام كى ذمہ دارى ايك لحاظ سے سب سے زيادہ اہم تھى اس لئے كہ :

روئے زمين كے ظالم ترين لوگوں سے مقابلہ كرنا، ايك كثير الا فراد قوم كى مدت اسيرى كو ختم كرنا _

اور ان كے اندر سے ايام اسيرى ميں پيدا ہوجانے والے نقائص كو محو كرنا كوئي آسان كام نہيں ہے _

حضرت شعيب عليہ السلام نے موسى عليہ السلام كى مخلصانہ خدمات كى قدر شناسى كے طور پر يہ طے كرليا تھا كہ بھيڑوں كے جو بچے ايك خاص علامت كے ساتھ پيداہوں گے، وہ موسى عليہ السلام كو ديديں گے،اتفاقاًمدت مو عود كے آخرى سال ميں جبكہ موسى عليہ السلام حضرت شعيب عليہ السلام سے رخصت ہو كر

۲۹۶

مصر كو جانا چاہتے تھے تو تمام يا زيادہ تر بچے اسى علامت كے پيدا ہوئے اور حضرت شعيب عليہ السلام نے بھى انھيں بڑى محبت سے موسى عليہ السلام كو دےديا _

يہ امر بديہى ہے كہ حضرت موسى عليہ السلام اپنى سارى زندگى چرواہے بنے رہنے پر قناعت نہيں كرسكتے تھے ہر چند ان كے لئے حضرت شعيب عليہ السلام كے پاس رہنا بہت ہى غنيمت تھا مگر وہ اپنا يہ فرض سمجھتے تھے كہ اپنى اس قوم كى مدد كے لئے جائيں جو غلامى كى زنجيروں ميں گرفتارہے اور جہالت نادانى اور بے خبرى ميں غرق ہے _

حضرت موسى عليہ السلام اپنا يہ فرض بھى سمجھتے تھے كہ مصر ميں جو ظلم كا بازار گرم ہے اسے سرد كريں ،طاغوتوں كو ذليل كريں اور توفيق الہى سے مظلوموں كو عزت بخشيں ان كے قلب ميں يہى احساس تھا جو انھيں مصر جانے پر آمادہ كررہا تھا _

آخركار انھوں نے اپنے اہل خانہ، سامان واسباب اور اپنى بھيڑوں كو ساتھ ليا اوراس وقت موسى عليہ السلام كے ساتھ ان كى زوجہ كے علاوہ ان كا لڑكا يا كوئي اور اولاد بھى تھي، اسلامى روايات سے بھى اس كى تائيد ہوتى ہے تو ريت كے '' سفر خروج '' ميں بھى ذكر مفصل موجود ہے علاوہ ازيں اس وقت ان كى زوجہ اميد سے تھى _

وحى كى تابش اول

جب حضرت موسى عليہ السلام مدين سے مصر كو جارہے تھے تو راستہ بھول گئے يا غالبا ًشام كے ڈاكوئوں كے ہاتھ ميں گرفتار ہوجانے كے خوف سے بوجہ احتياط رائج راستے كو چھوڑكے سفر كررہے تھے _

بہركيف قرآن شريف ميں يہ بيان اس طور سے ہے كہ :''جب موسى عليہ السلام اپنى مدت كو ختم كرچكے اور اپنے خاندان كو ساتھ لے كر سفر پر روانہ ہوگئے تو انھيں طور كى جانب سے شعلہ آتش نظر آيا _

حضرت موسى عليہ السلام نے اپنے اہل خاندان سے كہا :'' تم يہيں ٹھہرو'' مجھے آگ نظر آئي ہے ميں

۲۹۷

جاتاہوں شايد تمہارے لئے وہاں سے كوئي خبرلائوں يا آگ كا ايك انگارالے آئوں تاكہ تم اس سے گرم ہوجائو''_(۱)

''خبر لائوں '' سے يہ معلوم ہوتا ہے كہ وہ راستہ بھول گئے تھے اور ''گرم ہوجائو''يہ اشارہ كررہاہے كہ سرد اور تكليف دہ رات تھى _

قرآن ميں حضرت موسى عليہ السلام كى زوجہ كى حالت كا كوئي ذكر نہيں ہے مگر تفاسير اور روايات ميں مذكورہے كہ وہ اميد سے تھيں اور انہيں دروازہ ہورہا تھا اس لئے موسى عليہ السلام پريشان تھے _

حضرت موسى عليہ السلام جس وقت آگ كى تلاش ميں نكلے تو انھوں نے ديكھا كہ آگ تو ہے مگر معمول جيسى آگ نہيں ہے، بلكہ حرارت اور سوزش سے خالى ہے وہ نور اور تابندگى كا ايك ٹكڑا معلوم ہوتى تھى ،حضرت موسى عليہ السلام اس منظر سے نہايت حيران تھے كہ ناگہاں اس بلندو پُر بركت سرزمين ميں وادى كے دا ھنى جانب سے ايك درخت ميں سے آواز آئي: ''اے موسى ميں اللہ رب العالمين ہوں ''_(۲)

اس ميں شك نہيں كہ يہ خدا كے اختيار ميں ہے كہ جس چيز ميں چاہے قوت كلام پيدا كردے يہاں اللہ نے درخت ميں يہ استعداد پيدا كردى كيونكہ اللہ موسى عليہ السلام سے باتيں كرنا چاہتا تھا ظاہر ہے كہ موسى عليہ السلام گوشت پوست كے انسان تھے، كان ركھتے تھے اور سننے كے لئے انہيں امواج صوت كى ضروت تھى البتہ انبياء عليہم السلام پر اكثر يہ حالت بھى گزرى ہے كہ وہ بطور الہام درونى پيغام الہى كو حاصل كرتے رہے ہيں ،اسى طرح كبھى انھيں خواب ميں بھى ہدايت ہوتى رہى ہے مگر كبھى وہ وحى كو بصورت صدا بھى سنتے رہے ہيں ، بہر كيف حضرت موسى عليہ السلام نے جو آواز سنى اس سے ہم ہرگز يہ نتيجہ نہيں نكال سكتے كہ خدا جسم ركھتا ہے _

اے موسى جوتى اتاردو

موسى عليہ السلام جب آگ كے پاس گئے اور غور كيا توديكھا كہ درخت كى سبز شاخوں ميں آگ

____________________

(۱)سورہ قصص ايت۲۹

(۲)سورہ قصص آيت ۳۰

۲۹۸

چمك رہى ہے اور لحظہ بہ لحظہ اس كى تابش اور درخشندگى بڑھتى جاتى ہے جو عصا ان كے ہاتھ ميں تھا اس كے سہارے جھكے تاكہ اس ميں سے تھوڑى سى آگ لے ليں تو آگ موسى عليہ السلام كى طرف بڑھى موسى عليہ السلام ڈرے اور پيچھے ہٹ گئے اس وقت حالت يہ تھى كہ كبھى موسى عليہ السلام آگ كى طرف بڑھتے تھے اور كبھى آگ ان كى طرف، اسى كشمكش ميں ناگہاں ايك صدا بلند ہوئي ،اور انھيں وحى كى بشارت دى گئي _

اس طرح ناقابل انكار قرائن سے حضرت موسى عليہ السلام كو يقين ہوگيا كہ يہ آواز خدا ہى كى ہے، كسى غير كى نہيں ہے _

''ميں تيرا پروردگار ہوں ، اپنے جوتے اتاردے كيونكہ تو مقدس سرزمين ''طوى ''ميں ہے ''_(۱)

موسى عليہ السلام كو اس مقدس سرزمين كے احترام كا حكم ديا گيا كہ اپنے پائوں سے جوتے اتاردے اور اس وادى ميں نہايت عجزوانكسارى كے ساتھ قدم ركھے حق كو سنے اور فرمان رسالت حاصل كرے _

موسى عليہ السلام نے يہ آوازكہ '' ميں تيرا پروردگار ہوں '' سنى تو حيران رہ گئے اور ايك ناقابل بيان پر كيف حالت ان پر طارى ہوگئي، يہ كون ہے ؟ جو مجھ سے باتيں كررہا ہے ؟ يہ ميرا پروردگارہے، كہ جس نے لفظ'' ربك '' كے ساتھ مجھے افتخار بخشا ہے تاكہ يہ ميرے لئے اس بات كى نشاندہى كرے كہ ميں نے آغاز بچپن سے لے كر اب تك اس كى آغوش رحمت ميں پرورش پائي ہے اور ايك عظيم رسالت كے لئے تياركيا گيا ہوں _''

حكم ملاكہ پائوں سے اپنا جوتا اتار دو، كيونكہ تو نے مقدس سرزمين ميں قدم ركھا ہے وہ سرزمين كہ جس ميں نور الہى جلوہ گرہے ، وہاں خدا كا پيغام سننا ہے ، اور رسالت كى ذمہ دارى كو قبول كرنا ہے، لہذا انتہائي خضوع اور انكسارى كے ساتھ اس سرزمين ميں قدم ركھو ،يہ ہے دليل پائوں سے جوتا اتارنے كى _

ايك حديث ميں امام صادق عليہ السلام سے ،حضرت موسى عليہ السلام كى زندگى كے اس واقعہ سے

____________________

(۱) سورہ طہ آيت ۱۲

۲۹۹

متعلق ايك عمدہ مطلب نقل ہوا ہے ،آپ فرماتے ہيں :

جن چيزوں كى تمہيں اميد نہيں ہے ان كى ان چيزوں سے بھى زيادہ اميد ركھو كہ جن كى تمہيں اميد ہے كيونكہ موسى بن عمران ايك چنگارى لينے كے لئے گئے تھے ليكن عہدہ نبوت ورسالت كے ساتھ واپس پلٹے يہ اس بات كى طرف اشارہ ہے كہ اكثر ايسا ہوتا ہے كہ انسان كسى چيز كى اميد ركھتا ہے مگر وہ اسے حاصل نہيں ہوتى ليكن بہت سى اہم ترين چيزيں جن كى اسے كوئي اميد نہيں ہوتى لطف پروردگار سے اسے مل جاتى ہيں _

موسى عليہ السلام كا عصا اور يد بيضا

اس ميں شك نہيں كہ انبياء عليہم السلام كو اپنے خدا كے ساتھ ربط ثابت كرنے كے لئے معجزے كى ضرورت ہے ، ورنہ ہر شخص پيغمبر ى كا دعوى كرسكتا ہے اس بناء پر سچے انبياء عليہم السلام كا جھوٹوں سے امتياز معجزے كے علاوہ نہيں ہوسكتا، يہ معجزہ خود پيغمبر كى دعوت كے مطالب اور آسمانى كتاب كے اندر بھى ہوسكتا ہے اور حسى اور جسمانى قسم كے معجزات اوردوسرے امور ميں بھى ہوسكتے ہيں علاوہ ازيں معجزہ خود پيغمبر كى روح پر بھى اثرانداز ہوتا ہے اور وہ اسے قوت قلب، قدرت ايمان اور استقامت بخشتا ہے _

بہرحال حضرت موسى عليہ السلام كو فرمان نبوت ملنے كے بعد اس كى سند بھى ملنى چاہئے، لہذا اسى پُر خطر رات ميں جناب موسى عليہ السلام نے دو عظيم معجزے خدا سے حاصل كئے _

قرآن اس ماجرے كو اس طرح بيان كرتا ہے :

''خدا نے موسى سے سوال كيا : اے موسى يہ تيرے دائيں ہاتھ ميں كيا ہے ''؟_(۱)

اس سادہ سے سوال ،ميں لطف ومحبت كى چاشنى تھى ، فطرتاً موسى عليہ السلام، كى روح ميں اس وقت طوفانى لہريں موجزن تھيں ايسے ميں يہ سوال اطمينان قلب كے لئے بھى تھا اورايك عظيم حقيقت كو بيان كرنے كى تمہيد بھى تھا _''موسى عليہ السلام نے جواب ميں كہا: يہ لكڑى ميرا عصا ہے ''_(۲)

____________________

(۱)سورہ طہ آيت ۱۷

(۲)سورہ طہ آيت ۱۸

۳۰۰

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667