قصص القرآن-منتخب از تفسير نمونه

قصص القرآن-منتخب از تفسير نمونه   5%

قصص القرآن-منتخب از تفسير نمونه   مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 667

قصص القرآن-منتخب از تفسير نمونه
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 667 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 336311 / ڈاؤنلوڈ: 6157
سائز سائز سائز
قصص القرآن-منتخب از تفسير نمونه

قصص القرآن-منتخب از تفسير نمونه

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

اور چونكہ محبوب نے ان كے سامنے پہلى مرتبہ يوں اپنا دروازہ كھولا تھا لہذا وہ اپنے محبوب سے باتيں جارى ركھنا اور انہيں طول دينا چاہتے تھے اور اس وجہ سے بھى كہ شايد وہ يہ سوچ رہے تھے كہ ميرا صرف يہ كہنا كہ يہ ميرا عصا ہے، كافى نہ ہو بلكہ اس سوال كا مقصد اس عصا كے آثار و فوائد كو بيان كرنا مقصودہو، لہذا مزيد كہا : ''ميں اس پرٹيك لگاتاہوں ، اور اس سے اپنى بھيڑوں كے لئے درختوں سے پتے جھاڑتا ہوں ،اس كے علاوہ اس سے دوسرے كام بھى ليتا ہوں ''_(۱)

البتہ يہ بات واضح اور ظاہر ہے كہ عصا سے كون كون سے كام ليتے ہيں كبھى اس سے موذى جانوروں اور دشمنوں كا مقابلہ كرنے كے لئے ايك دفاعي، ہتھيار كے طور پر كام ليتے ہيں كبھى اس كے ذريعے بيابان ميں سائبان بنا ليتے ہيں ، كبھى اس كے ساتھ برتن باندھ كر گہرى نہرسے پانى نكالتے ہيں _

بہرحال حضرت موسى عليہ السلام ايك گہرے تعجب ميں تھے كہ اس عظيم بارگاہ سے يہ كس قسم كا سوال ہے اور ميرے پاس اس كا كيا جواب ہے ، پہلے جو فرمان ديئےئے تھے وہ كيا تھے ، اور يہ پرسش كس لئے ہے ؟

موسى سے كہا گيا كہ : اپنے عصا كو زمين پرڈال دو '' چنانچہ موسى عليہ السلام نے عصا كو پھينك ديا اب كيا ديكھتے ہيں كہ وہ عصا سانپ كى طرح تيزى سے حركت كررہا ہے يہ ديكھ كر موسى عليہ السلام ڈرے اور پيچھے ہٹ گئے يہاں تك كہ مڑكے بھى نہ ديكھا '' _(۲)

جس دن حضرت موسى عليہ السلام نے يہ عصا ليا تھا تاكہ تھكن كے وقت اس كا سہارا لے ليا كريں ،اور بھيڑوں كے لئے اس سے پتے جھاڑليا كريں ، انھيں يہ خيال بھى نہ تھا كہ قدرت خدا سے اس ميں يہ خاصيت بھى چھپى ہوئي ہوگى اور يہ بھيڑوں كو چرانے كى لاٹھى ظالموں كے محل كو ہلادے گى _

موجودات عالم كا يہى حال ہے كہ وہ بعض اوقات ہمارى نظر ميں بہت حقير معلوم ہوتى ہيں مگرا ن ميں بڑى بڑى استعداد چھپى ہوتى ہے جو كسى وقت خدا كے حكم سے ظاہر ہوتى ہے _

____________________

(۱)سورہ طہ آيت۱۸

(۲) سورہ قصص آيت ۳۱

۳۰۱

اب موسى عليہ السلام نے دوبارہ آواز سنى جو ان سے كہہ رہى تھى :'' واپس آ اور نہ ڈر توامان ميں ہے''_(۱)(۲)

بہرحال حضرت موسى عليہ السلام پر يہ حقيقت آشكار ہوگئي كہ درگاہ رب العزت ميں مطلق امن وامان ہے اور كسى قسم كے خوف وخطر كا مقام نہيں ہے_

انذار و بشارت

حضرت موسى عليہ السلام كو جو معجزات عطا كئے گئے ان ميں سے پہلا معجزہ خوف كى علامت پر مشتمل تھا اس كے بعد موسى كو حكم ديا گيا كہ اب ايك دوسرا معجزہ حاصل كرو جو نورواميد كى علامت ہوگا اور يہ دونوں معجزہ گويا ''انذار اوربشارت'' تھے_

موسى عليہ السلام كو حكم ديا گيا كہ'' اپنا ہاتھ اپنے گريبان ميں ڈالو اور باہر نكا،لو موسى عليہ السلام نے جب گريبان ميں سے ہاتھ باہر نكالا تو وہ سفيد تھا اور چمك رہا تھا اور اس ميں كوئي عيب اور نقص نہ تھا ''_(۳)

حضرت موسى عليہ السلام كے ہاتھ ميں يہ سفيدى اور چمك كسى بيمارى (مثلا ''برص يا كوئي اس جيسى چيز) كى وجہ سے نہ تھى بلكہ يہ نور الہى تھا جو بالكل ايك نئي قسم كا تھا_

جب حضرت موسى عليہ السلام نے اس سنسان كو ہسار اور اس تاريك رات ميں يہ دوخارق عادت

____________________

(۱)سورہ قصص آيت۳۱

(۲) البتہ قرآن كى بعض دوسرى آيات ميں '' ثعبان مبين'' (واضح ادھا) بھى كہا گيا ہے _(اعراف ۱۰۷ شعراء ۳۲)

ہم نے قبل ازيں كہا ہے كہ اس سانپ كے لئے جو يہ دوالفاظ استعمال ہوئے ہيں ممكن ہے اس كى دو مختلف حالتوں كے لئے ہوں كہ ابتدا ميں وہ چھوٹا سا ہو اور پھر ايك بڑا ادھا بن گيا ہو اس مقام پر يہ احتمال بھى ہوسكتا ہے كہ موسى نے جب واوي طور ميں اسے پہلى بار ديكھا تو چھوٹا سا سانپ تھا، رفتہ رفتہ وہ بڑا ہوگيا _

(۳)سورہ قصص آيت۳۱

۳۰۲

اور خلاف معمول چيزيں ديكھيں تو ان پر لرزہ طارى ہوگيا، چنانچہ اس لئے كہ ان كا اطمينان قلب واپس اجائے انھيں حكم ديا گيا كہ'' اپنے سينے پر اپنا ہاتھ پھريں تاكہ دل كو راحت ہوجائے ''_(۱)

اس كے بعد موسى عليہ السلام نے پھروہى صدا سنى جو كہہ رہى تھى :'' خدا كى طرف سے تجھے يہ دودليليں فرعون اور اس كے ساتھيوں كے مقابلے كے لئے دى جارى ہيں كيونكہ وہ سب لوگ فاسق تھے اور ہيں ''_(۲)

جى ہاں يہ لوگ خدا كى طاعت سے نكل گئے ہيں اور سركشى كى انتہا تك جاپہنچے ہيں تمہارا فرض ہے كہ انھيں نصيحت كرو اور راہ راست كى تبلغ كرو اور اگر وہ تمہارى بات نہ مانيں تو ان سے جنگ كرو_

كاميابى كے اسباب كى درخواست

موسى عليہ السلام اس قسم كى سنگين مامورريت پر نہ صرف گھبرائے نہيں ،بلكہ معمولى سى تخفيف كےلئے بھى خدا سے درخواست نہ كي، اور كھلے دل سے اس كا استقبال كيا ،زيادہ سے زيادہ اس ماموريت كے سلسلے ميں كاميابى كے وسائل كى خدا سے درخواست كى اور چونكہ كاميابى كا پلااور ذريعہ، عظيم روح، فكر بلند اور عقل توانا ہے، اور دوسرے لفظوں ميں سينہ كى كشاد گى وشرح صدر ہے لہذا ''عرض كيا ميرے پروردگار ميرا سينہ كشادہ كردے ''_(۳)

ہاں ، ايك رہبر انقلاب كا سب سے اولين سرمايہ ، كشادہ دلى ، فراوان حوصلہ، استقامت وبرد بارى اور مشكلات كے بوجھ كو اٹھاناہے _

اور چونكہ اس راستے ميں بے شمار مشكلات ہيں ، جو خدا كے لطف وكرم كے بغير حل نہيں ہوتيں ، لہذا خدا سے دوسرا سوال يہ كيا كہ ميرے كاموں كو مجھ پر آسان كردے اور مشكلات كو راستے سے ہٹادے آپ نے عرض كيا : ''ميرے كام كو آسان كردے ''_(۴)

____________________

(۱) سورہ قصص آيت ۳۲

(۲)سورہ قصص آيت ۳۲

(۳)سورہ طہ آيت۲۳

(۴)سورہ طہ آيت۲۷

۳۰۳

اس كے بعد جناب موسى عليہ السلام نے زيادہ سے زيادہ قوت بيان كا تقاضا كيا كہنے لگے:'' ميرى زبان كى گرہ كھول دے'' _(۱)

يہ ٹھيك ہے كہ شرح صدر كا ہونا بہت اہم بات ہے ، ليكن يہ سرمايہ اسى صورت ميں كام دے سكتا ہے جب اس كو ظاہر كرنے كى قدرت بھى كامل طور پر موجود ہو، اسى بناء پر جناب موسى عليہ السلام نے شرح صدر اور ركاوٹوں كے دور ہونے كى در خواستوں كے بعد يہ تقاضا كيا كہ خدا ان كى زبان كى گرہ كھول دے _

اور خصوصيت كے ساتھ اس كى علت يہ بيان كى :'' تاكہ وہ ميرى باتوں كو سمجھيں ''_(۲)

يہ جملہ حقيقت ميں پہلى بات كى تفسير كرر ہاہے اس سے يہ بات واضح ہورہى ہے كہ زبان كى گرہ كے كھلنے سے مراد يہ نہ تھى كہ موسى عليہ السلام كى زبان ميں بچپنے ميں جل جانے كى وجہ سے كوئي لكنت آگئي تھى (جيسا كہ بعض مفسرين نے ابن عباس سے نقل كيا ہے)بلكہ اس سے گفتگو ميں ايسى ركاوٹ ہے جو سننے والے كے لئے سمجھنے ميں مانع ہوتى ہے يعنى ميں ايسى فصيح وبليغ اور ذہن ميں بيٹھ جانے والى گفتگو كروں گہ ہر سننے والا ميرا مقصد اچھى طرح سے سمجھ لے _

ميرا بھائي ميراناصر ومددگار

بہرحال ايك كامياب رہبر ورہنما وہ ہوتا ہے كہ جو سعي ، فكر اور قدرت روح كے علاووہ ايسى فصيح وبليغ گفتگو كرسكے كہ جو ہر قسم كے ابہام اور نارسائي سے پاك ہو _

نيز اس بار سنگين كے لئے _ يعنى رسالت الہي، رہبرى بشر اور طاغوتوں اور جابروں كے ساتھ مقابلے كے لئے يارومددگار كى ضرورت ہے اور يہ كام تنہاانجام دينا ممكن نہيں ہے لہذا حضرت موسى (ع) نے پروردگار سے جو چوتھى درخواست كى :

''خداونداميرے لئے ميرے خاندان ميں سے ايك وزيراور مددگار قراردے''_(۳)

____________________

(۱)سورہ طہ آيت۲۷

(۲)سورہ طہ آيت۲۸

(۳)سورہ طہ آيت۲۹

۳۰۴

البتہ يہ بات كہ حضرت موسى عليہ السلام تقاضا كررہے ہيں كہ يہ وزير ان ہى كے خاندان سے ہو، اس كى دليل واضح ہے چونكہ اس كے بارے ميں معرفت اور شناخت بھى زيادہ ہوگى اور اس كى ہمدردياں بھى دوسروں كى نسبت زيادہ ہوں گى كتنى اچھى بات ہے كہ انسان كسى ايسے شخص كو اپنا شريك كار بنائے كہ جو روحانى اور جسمانى رشتوں كے حوالے سے اس سے مربوط ہو_

اس كے بعد خصوصى التماس كے بعد خصوصى طور پر اپنے بھائي كى طرف اشارہ كرتے ہوئے عرض كيا : ''يہ ذمہ دارى ميرے بھائي ہارون كے سپرد كردے ''_(۱)

ہارون بعض مفسرين كے قول كے مطابق حضرت موسى عليہ السلام كے بڑے بھائي تھے اور ان سے تين سال بڑے تھے بلند قامت فصيح البيان اور اعلى علمى قابليت كے مالك تھے، انہوں نے حضرت موسى عليہ السلام كى وفات سے تين سال پہلے رحلت فرمائي _(۲)

اور وہ نور اور باطنى روشنى كے بھى حامل تھے، اور حق وباطل ميں خوب تميز بھى ركھتے تھے _(۳)

آخرى بات يہ ہے كہ وہ ايك ايسے پيغمبر تھے جنہيں خدا نے اپنى رحمت سے موسى عليہ السلام كو بخشا تھا_(۴)

وہ اس بھارى ذمہ دارى كى انجام دہى ميں اپنے بھائي موسى عليہ السلام كے دوش بدوش مصروف كار ہے _

يہ ٹھيك ہے كہ موسى عليہ السلام نے اس اندھيرى رات ميں ، اس وادي مقدس كے اندر، جب خدا سے فرمان رسالت كے ملنے كے وقت يہ تقاضا كيا ، تو وہ اس وقت دس سال سے بھى زيادہ اپنے وطن سے دور

____________________

(۱)سورہ طہ آيت۳۱

(۲)جيسا كہ سورہ مومنون كى آيہ ۴۵ ميں بيان ہوا ہے : (ثم ارسلنا موسى واخاه هارون بايا تنا وسلطان مبين )

(۳) جيسا كہ سورہ انبياء كى آيہ ۴۸ ميں بيان ہوا ہے : (ولقد اتينا موسى وهارون الفرقان وضيائ )

(۴) (وو هبناله من رحمتنا اخاه هارون نبيا ) (سورہ مريم آيت ۵۳)

۳۰۵

گزار كر آرہے تھے، ليكن اصولى طور پر اس عرصہ ميں بھى اپنے بھائي كے ساتھ ان كارابطہ كامل طور پر منقطع نہ ہو، اسى لئے اس صراحت اور وضاحت كے ساتھ ان كے بارے ميں بات كررہے ہيں ، اور خدا كى درگاہ سے اس عظيم مشن ميں اس كى شركت كے لئے تقاضا ركرہے ہيں _

اس كے بعد جناب موسى عليہ السلام ہارون كو وزارت ومعاونت پر متعين كرنے كےلئے اپنے مقصد كو اس طرح بيان كرتے ہيں : ''خداوندا ميرى پشت اس كے ذريعے مضبوط كردے''_(۱)

اس مقصد كى تكميل كے لئے يہ تقاضا كرتے ہيں : '' اسے ميرے كام ميں شريك كردے_''(۲)

وہ مرتبہ رسالت ميں بھى شريك ہو اور اس عظيم كام كو رو بہ عمل لانے ميں بھى شريك رہيں ، البتہ حضرت ہارون ہر حال ميں تمام پروگراموں ميں جناب موسى عليہ السلام كے پيرو تھے او رموسى عليہ السلام ان كے امام و پيشوا كى حيثيت ركھتے تھے_

آخر ميں اپنى تمام درخواستوں كا نتيجہ اس طرح بيان كرتے ہيں : '' تاكہ ہم تيرى بہت بہت تسبيح كريں اور تجھے بہت بہت ياد كريں ، كيونكہ تو ہميشہ ہى ہمارے حالات سے آگاہ رہا ہے_''(۳)

تو ہمارى ضروريات و حاجات كو اچھى طرح جانتا ہے اور اس راستہ كى مشكلات سے ہر كسى كى نسبت زيادہ آگاہ ہے، ہم تجھ سے يہ چاہتے ہيں كہ تو ہميں اپنے فرمان كى اطاعت كى قدرت عطا فرمادے اور ہمارے فرائض، ذمہ داريوں اور فرائض انجام دينے كے لئے ہميں توفيق اور كاميابى عطا فرما_

چونكہ جناب موسى عليہ السلام كا اپنے مخلصانہ تقاضوں ميں سوائے زيادہ سے زيادہ اور كامل تر خدمت كے اور كچھ مقصد نہيں تھا لہذا خداوندعالم نے ان كے تقاضوں كو اسى وقت قبول كرليا،'' اس نے كہا: اے موسى تمہارى درخواستيں قبول ہيں _''(۴)

____________________

(۱) سورہ طہ آيت ۳۱

(۲) سورہ طہ آيت ۳۲

(۳) سورہ طہ آيت ۳۳ تا۳۵

(۴) سورہ طہ آيت ۳۶

۳۰۶

حقيقت ميں ان حساس اور تقدير ساز لمحات ميں چونكہ موسى عليہ السلام پہلى مرتبہ خدائے عظيم كى بساط مہمانى پر قدم ركھ رہے تھے،لہذا جس جس چيز كى انہيں ضرورت تھى ان كا خدا سے اكٹھا ہى تقاضا كرليا،اور اس نے بھى مہمان كا انتہائي احترام كيا،اور اس كى تمام درخواستوں اور تقاضوں كو ايك مختصر سے جملے ميں حيات بخش ندا كے سا تھ قبول كرليا اور اس ميں كسى قسم كى قيدو شرط عائد نہ كى اور موسى عليہ السلام كا نام مكرر لا كر،ہر قسم كے ابہام كو دور كرتے ہوئے اس كى تكميل كر دى ،يہ بات كس قدر شوق انگيز اور افتخار آفرين ہے كہ بندے كا نام مولا كى زبان پر بار بار آئے_

فرعون سے معركہ آرا مقابلہ

حضرت موسى عليہ السلام كى ماموريت كا پہلا مرحلہ ختم ہوا جس ميں بتايا گيا ہے كہ انھيں وحى اور رسالت ملى اور انھوں نے اس عظيم مقصد كو حاصل كرنے كے ليے وسائل كے حصول كى درخواست كى _

اس كے ساتھ ہى زير نظر دوسرے مرحلے كے بارے ميں گفتگو ہوتى ہے يعنى فرعون كے پاس جانا اور اس كے ساتھ گفتگو كرنا چنانچہ ان كے درميان جو گفتگو ہوئي ہے اسے يہاں پر بيان كيا جارہا ہے_

سب سے پہلے مقدمے كے طور پر فرمايا گيا ہے:اب جبكہ تمام حالات ساز گار ہيں تو تم فرعون كے پاس جائو ''اور اس سے كہو كہ ہم عالمين كے پروردگار كے رسول ہيں ''_(۱)

اور اپنى رسالت كا ذكر كرنے كے بعد بنى اسرائيل كى آزادى كا مطالبہ كيجئے اور كہيئے''كہ ہميں حكم ملا ہے كہ تجھ سے مطالبہ كريں كہ تو بنى اسرائيل كو ہمارے ساتھ بھيج دے''_(۲)

وہ مصر ميں گئے اور اپنے بھائي ہارون كو مطلع كيا اور وہ رسالت جس كے ليے آپ(ع) مبعوث تھے،اس كا پيغام اسے پہنچايا_پھر يہ دونوں بھائي فرعون سے ملاقات كے ارادے سے روانہ ہوئے_ آخر بڑى مشكل سے اس كے پاس پہنچ سكے_اس وقت فرعون كے وزراء اور مخصوص لوگ اسے گھيرے ہوئے تھے_

____________________

(۱)سورہ شعراء آيت۱۶

(۲)سورہ شعراء آيت۱۷

۳۰۷

حضرت موسى عليہ السلام نے ان كو خدا كا پيغام سنايا_

اس مقام پر فرعون نے زبان كھولى اور شيطنت پر مبنى چند ايك جچے تلے جملے كہے جس سے ان كى رسالت كى تكذيب كرنا مقصود تھا_ وہ حضرت موسى عليہ السلام كى طرف منہ كركے كہنے لگا:''آيا بچپن ميں ہم نے تجھے اپنے دامن محبت ميں پروان نہيں چڑھايا ''_(۱)

ہم نے تجھے دريائے نيل كى ٹھاٹھيں مارتى ہوئي خشمگين موجوں سے نجات دلائي وگرنہ تيرى زندگى خطرے ميں تھي_تيرے ليے دائيوں كو بلايا اور ہم نے اولاد بنى اسرائيل كے قتل كردينے كا جو قانون مقرر كر ركھا تھا اس سے تجھے معاف كرديا اور امن و سكون اور نازونعمت ميں تجھے پروان چڑھايا_

اور اس كے بعد بھى ''تو نے اپنى زندگى كے كئي سال ہم ميں گزارے''_(۲)

پھر وہ موسى عليہ السلام پر ايك اعتراض كرتے ہوئے كہتا ہے:تو نے وہ اہم كام كيا ہے_(فرعون كے حامى ايك قبطى كو قتل كيا ہے)_(۳)

يہ اس بات كى طرف اشارہ ہے كہ ايسا كام كرنے كے بعد تم كيونكررسول بن سكتے ہو؟

ان سب سے قطع نظر كرتے ہوئے ''تو ہمارى نعمتوں سے انكار كررہا ہے''_(۴)

تو كئي سالوں تك ہمارے دسترخوان پر پلتا رہا ہے،ہمارا نمك كھانے كے بعد نمك حلالى كا حق اس طرح ادا كررہا ہے؟اس قدر كفران نعمت كے بعد تو كس منہ سے نبوت كا دعوى كررہاہے؟

در حقيقت وہ بزعم خود اس طرح كى منطق سے ان كى كردار كشى كركے موسى عليہ السلام كو خاموش كرنا چاہتا تھا_

جناب موسى عليہ السلام نے فرعون كى شيطنت آميز باتيں سن كر اس كے تينوں اعتراضات كے

____________________

(۱)سورہ شعراء آيت ۱۸

(۲)سورہ شعراء آيت ۱۸

(۳)سورہ شعراء آيت۱۹

(۴)سورہ شعراء آيت۱۹

۳۰۸

جواب دينا شروع كيے_ليكن اہميت كے لحاظ سے فرعون كے دوسرے اعتراض كا سب سے پہلے جواب ديا(يا پہلے اعتراض كو بالكل جواب كے لائق ہى نہيں سمجھا كيونكہ كسى كا كسى كى پرورش كرنا اس بات كى دليل نہيں بن جاتا كہ اگر وہ گمراہ ہوتو اسے راہ راست كى بھى ہدايت نہ كى جائے)_

بہر حال جناب موسى عليہ السلام نے فرمايا:''ميں نے يہ كام اس وقت انجام ديا جب كہ ميں بے خبر لوگوں ميں سے تھا''_(۱)

يعنى ميں نے اسے جو مكا مارا تھا وہ اسے جان سے ماردينے كى غرض نہيں بلكہ مظلوم كى حمايت كے طور پر تھا ،ميں تو نہيں سمجھتا تھا كہ اس طرح اس كى موت واقع ہوجائے گي_

پھر موسى عليہ السلام فرماتے ہيں :''اس حادثے كى وجہ سے جب ميں نے تم سے خوف كيا تو تمہارے پاس سے بھاگ گيا اور ميرے پروردگارنے مجھے دانش عطا فرمائي اور مجھے رسولوں ميں سے قرار ديا''_(۲)

پھر موسى عليہ السلام اس احسان كا جواب ديتے ہيں جو فرعون نے بچپن اور لڑكپن ميں پرورش كى صورت ميں ان پر كيا تھادو ٹوك انداز ميں اعتراض كى صورت ميں فرماتے ہيں :''تو كيا جو احسان تو نے مجھ پر كيا ہے يہى ہے كہ تو بنى اسرائيل كو اپنا غلام بنالے''_(۳)

يہ ٹھيك ہے كہ حوادث زمانہ نے مجھے تيرے محل تك پہنچاديا اور مجھے مجبوراًتمھارے گھر ميں پرورش پانا پڑى اور اس ميں بھى خدا كى قدرت نمائي كار فرما تھى ليكن ذرا يہ تو سوچو كہ آخر ايسا كيوں ہوا؟كيا وجہ ہے كہ ميں نے اپنے باپ كے گھر ميں اور ماں كى آغوش ميں تربيت نہيں پائي؟ آخر كس ليے؟

كيا تو نے بنى اسرائيل كو غلامى كى زنجيروں ميں نہيں جكڑ ركھا؟يہاں تك كہ تو نے اپنے خودساختہ قوانين كے تحت ان كے لڑكوں كو قتل كرديا اور ان كى لڑكيوں كو كنيز بنايا_

____________________

(۱)سورہ شعراء آيت۲۰

(۲)سورہء شعراء آيت۲۱

(۳)سورہ شعراء آيت۲۲

۳۰۹

تيرے بے حدوحساب مظالم اس بات كا سبب بن گئے كہ ميرى ماں اپنے نو مولود بچے كى جان بچانے كى غرض سے مجھے ايك صندوق ميں ركھ كر دريائے نيل كى بے رحم موجوں كے حوالے كردے اور پھر منشائے ايزدى يہى تھا كہ ميرى چھوٹى سى كشتى تمھارے محل كے نزديك لنگر ڈال دے_ہاں تو يہ تمہارے بے اندازہ مظالم ہى تھے جن كى وجہ سے مجھے تمھارا مرہون منت ہونا پڑا اور جنھوں نے مجھے اپنے باپ كے مقدس اور پاكيزہ گھر سے محروم كركے تمھارے آلودہ محل تك پہنچاديا_

ديوانگى كى تہمت

جب موسى عليہ السلام نے فرعون كو دوٹوك اور قاطع جواب دے ديا جس سے وہ لا جواب اور عاجز ہوگيا تو اس نے كلام كا رخ بدلا اور موسى عليہ السلام نے جو يہ كہا تھا''ميں رب العالمين كا رسول ہوں ''تو اس نے اسى بات كو اپنے سوال كا محور بنايا اور كہا يہ رب العالمين كيا چيز ہے؟(۱)

بہت بعيد ہے كہ فرعون نے و اقعاًيہ بات مطلب كے لئے كى ہو بلكہ زيادہ تر يہى لگتا ہے كہ اس نے تجاہل عارفانہ سے كام ليا تھا اور تحقير كے طور پر يہ بات كہى تھي_

ليكن حضرت موسى عليہ السلام نے بيدار اور سمجھ دارافراد كى طرح اس كے سوا اور كوئي چارہ نہ ديكھا كہ گفتگو كو سنجيدگى پر محمول كريں اور سنجيدہ ہوكر اس كا جواب ديں اور چونكہ ذات پروردگار عالم انسانى افكار كى دسترس سے باہر ہے لہذا انھوں نے مناسب سمجھا كہ اس كے آثار كے ذريعے استدلال قائم كريں لہذا انھوں نے آيات آفاقى كا سہارا ليتے ہوئے فرمايا:''(خدا)آسمانوں اور زمين اور جو كچھ ان دونوں كے درميان ہے سب كا پر وردگار ہے اگر تم يقين كا راستہ اختيار كرو''_(۲)

اتنے وسيع و عريض اور باعظمت آسمان و زمين اور كائنات كى رنگ برنگى مخلوق جس كے سامنے تو اور تيرے چاہنے اور ماننے والے ايك ذرہ ناچيز سے زيادہ كى حيثيت نہيں ركھتے، ميرے پروردگار كى آفرينش

____________________

(۱)سورہ شعراء آيت ۲۳

(۲)سورہ شعراء آيت ۲۴

۳۱۰

ہے اور ان اشياء كا خالق ومدبر اور ناظم ہى عبادت كے لائق ہے نہ كہ تيرے جيسى كمزور اور ناچيز سى مخلوق_

ليكن عظيم آسمانى معلم كے اس قدر محكم بيان اورپختہ گفتگو كے بعد بھى فرعون خواب غفلت سے بيدار نہ ہوا اس نے انپے ٹھٹھے مذاق اور استہزاء كو جارى ركھا اور مغرور مستكبرين كے پرانے طريقہ كار كو اپناتے ہوئے ''اپنے اطراف ميں بيٹھنے والوں كى طرف منہ كركے كہا: كيا سن نہيں رہے ہو(كہ يہ شخص كيا كہہ رہا ہے)''_(۱)

معلوم ہے كہ فرعون كے گردكون لوگ بيٹھے ہيں اسى قماش كے لوگ تو ہيں _صاحبان زوراور زرہيں يا پھرظالم اور جابر كے معاون _

وہاں پر فرعون كے اطراف ميں پانچ سوآدمى موجود تھے،جن كا شمار فرعون كے خواص ميں ہوتا تھا_

اس طرح كى گفتگو سے فرعون يہ چاہتا تھا كہ موسى عليہ السلام كى منطقى اور دلنشين گفتگو اس گروہ كے تاريك دلوں ميں ذرہ بھر بھى اثر نہ كرے اور لوگوں كو يہ باور كروائے كہ انكى باتيں بے ڈھنگى اور ناقابل فہم ہيں _

مگر جناب موسى عليہ السلام نے اپنى منطقى اور جچى تلى گفتگو كو بغير كسى خوف وخطر كے جارى ركھتے ہوئے فرمايا:''تمہارا بھى رب ہے اور تمھارے آباء واجداد كا رب ہے''_(۲)

درحقيقت بات يہ ہے كہ جناب موسى عليہ السلام نے پہلے تو آفاقى آيات كے حوالے سے استدلال كيا اب يہاں پر'' آيات انفس''اور خود انسان كے اپنے وجود ميں تخليق خالق كے اسرار اور انسانى روح اور جسم ميں خداوند عالم كى ربوبيت كے آثار كى طرف اشارہ كررہے ہيں تاكہ وہ عاقبت نا انديش مغرور كم از كم اپنے بارے ميں تو كچھ سوچ سكيں خود كو اور پھر اپنے خدا كو پہچان سكيں _

ليكن فرعون اپنى ہٹ دھرمى سے پھر بھى باز نہ آيا،اب استہزاء اور مسخرہ پن سے چند قدم آگے بڑھ

____________________

(۱)سورہ شعراء آيت ۳۵

(۲)سورہ شعراء آيت ۲۶

۳۱۱

جاتا ہے اور موسى عليہ السلام كو جنون اور ديوانگى كا الزام ديتا ہے چنانچہ اس نے كہا:''جو پيغمبر تمھارى طرف آيا ہے بالكل ديوانہ ہے''_(۱)

وہى تہمت جو تاريخ كے ظالم اور جابر لوگ خدا كے بھيجے ہوئے مصلحين پر لگاتے رہتے تھے_

يہ بھى لائق توجہ ہے كہ يہ مغرور فريبى اس حد تك بھى روادارنہ تھا كہ كہے''ہمارا رسول''اور'' ہمارى طرف بھيجا ہوا ''بلكہ كہتا ہے''تمہارا پيغمبر''اور ''تمھارى طرف بھيجا ہوا'' كيونكہ''تمہارا پيغمبر''ميں طنز اور استہزاء پايا جاتا ہے او رساتھ ہى اس ميں غرور اور تكبر كا پہلو بھى نماياں ہے كہ ميں اس بات سے بالا تر ہوں كہ كوئي پيغمبر مجھے دعوت دينے كے لئے آئے اور موسى عليہ السلام پر جنون كى تہمت لگانے سے اس كا مقصد يہ تھا كہ جناب موسى عليہ السلام كے جاندار دلائل كو حاضرين كے اذہان ميں بے اثر بنايا جائے_

ليكن يہ ناروا تہمت موسى عليہ السلا م كے بلند حوصلوں كو پست نہيں كر سكى اور انھوں نے تخليقات عالم ميں آثار الہى اور آفاق و انفس كے حوالے سے اپنے دلائل كو برابر جارى ركھا اور كہا:''وہ مشرق ومغرب اور جو كچھ ان دونوں كے درميان ہے سب كا پروردگار ہے اگر تم عقل وشعور سے كام لو''_(۲)

اگر تمہارے پاس مصر نامى محدود سے علاقے ميں چھوٹى سى ظاہرى حكومت ہے توكيا ہوا؟ميرے پروردگار كى حقيقى حكومت تو مشرق و مغرب اور اس كے تمام درميانى علاقے پر محيط ہے اور اس كے آثار ہر جگہ موجودات عالم كى پيشانى پر چمك رہے ہيں اصولى طور پر خود مشرق و مغرب ميں آفتاب كا طلوع و غروب اور كائنات عالم پر حاكم نظام شمسى ہى اس كى عظمت كى نشانياں ہيں ، ليكن عيب خود تمہارے اندر ہے كہ تم عقل سے كام نہيں ليتے بلكہ تمہارے اندر سوچنے كى عادت ہى نہيں ہے_(۳)

درحقيقت يہاں پر حضرت موسى عليہ اسلام نے اپنى طرف جنون كى نسبت كا بڑے اچھے انداز ميں جواب ديا ہے_ دراصل وہ يہ كہنا چاہتے ہيں كہ ديوانہ ميں نہيں ہوں بلكہ ديوانہ اور بے عقل وہ شخص ہے جو

____________________

(۱)سورہ شعراء آيت۲۷

(۲)سورہ شعراء آيت۲۸

(۳)سورہ شعراء آيت۲۸

۳۱۲

اپنے پروردگار كے ان تمام آثار اور نشانات كو نہيں ديكھتا _

عالم وجود كے ہر دروديوار پر ذات پروردگار كے اس قدر عجيب وغريب نقوش موجود ہيں پھر بھى جو شخص ذات پروردگار كے بارے ميں نہ سوچے اسے خود نقش ديوار ہوجانا چاہئے _

ان طاقتور دلائل نے فرعون كو سخت بوكھلاديا، اب اس نے اسى حربے كا سہارا ليا جس كا سہارا ہربے منطق اور طاقتور ليتا ہے اور جب وہ دلائل سے عاجزہوجاتاہے تو اسے آزمانے كى كوشش كرتاہے_

'' فرعون نے كہا: اگر تم نے ميرے علاوہ كسى اور كو معبود بنايا تو تمہيں قيديوں ميں شامل كردوں گا''_(۱) ميں تمہارى اور كوئي بات نہيں سننا چاہتا ميں تو صرف ايك ہى عظيم الہ اور معبوے كو جانتاہوں اور وہ ميں خود ہوں اگر كوئي شخص اس كے علاوہ كہتا ہے تو بس سمجھ لے كہ اس كى سزا يا تو موت ہے يا عمر قيد جس ميں زندگى ہى ختم ہوجائے_

درحقيقت فرعون چاہتا تھا كہ اس قسم كى تيزوتند گفتگو كركے موسى عليہ السلام كو ہراساں كرے تاكہ وہ ڈركر چپ ہوجائيں كيونكہ اگر بحث جارى رہے گى تو لوگ اس سے بيدار ہوں گے اور ظالم وجابر لوگوں كے لئے عوام كى بيدارى اور شعور سے بڑھ كر كوئي اور چيز خطر ناك نہيں ہوتى _

تمہارا ملك خطرے ميں ہے

گزشتہ صفحات ميں ہم نے ديكھ ليا ہے كہ جناب موسى عليہ السلام نے منطق اور استدلال كى روسے فرعون پر كيونكر اپنى فوقيت اوربر ترى كا سكہ منواليا اور حاضرين پر ثابت كرديا كہ ان كا خدائي دين كس قدر عقلى ومنطقى ہے اور يہ بھى واضح كرديا كہ فرعون كے خدائي دعوے كس قدر پوچ اور عقل وخردسے عار ى ہيں كبھى تو وہ استہزاء كرتا ہے ،كبھى جنون اور ديوانگى كى تہمت لگاتاہے اور آخر كار طاقت كے نشے ميں آكر قيدوبند اور موت كى دھمكى ديتا ہے _

____________________

(۱)سورہ شعراء آيت۲۹

۳۱۳

اس موقع پر گفتگو كارخ تبديل ہوجاتاہے اب جناب موسى كو ايسا طريقہ اختيار كرنا چاہئے تھا جس سے فرعون كى ناتوانى ظاہر ہوجائے _

موسى عليہ السلام كو بھى كسى طاقت كے سہارے كى ضرورت تھى ايسى خدائي طاقت جس كے معجزانہ اندازہوں ، چنانچہ آپ فرعون كى طرف منہ كركے فرماتے ہيں :'' آيا اگر ميں اپنى رسالت كے لئے واضح نشانى لے آئوں پھر بھى تو مجھے زندان ميں ڈالے گا ''_(۱)

اس موقع پر فرعون سخت مخمصے ميں پڑگيا، كيونكہ جناب موسى عليہ السلام نے ايك نہايت ہى اہم اور عجيب وغريب منصوبے كى طرف اشارہ كركے حاضرين كى توجہ اپنى طرف مبذول كرالى تھى اگر فرعون ان كى باتوں كو ان سنى كر كے ٹال ديتا تو سب حاضرين اس پر اعتراض كرتے اور كہتے كہ موسى كو وہ كام كرنے كى اجازت دى جائے اگر وہ ايسا كرسكتا ہے تو معلوم ہوجائے گا اور اس سے مقابلہ نہيں كيا جاسكے گا اور اگر ايسا نہيں كرسكتا تو بھى اس كى شخيى آشكار ہوجائے گى بہرحال موسى عليہ السلام كے اس دعوے كو آسانى سے مسترد نہيں كيا جاسكتا تھا آخركار فرعون نے مجبور ہوكر كہا'' اگر سچ كہتے ہو تو اسے لے آئو''(۲)

''اسى دوران ميں موسى عليہ السلام نے جو عصا ہاتھ ميں ليا ہوا تھا زمين پر پھينك ديا اور وہ (خدا كے حكم سے ) بہت بڑا اور واضح سانپ بن گيا''_(۳)

''پھر اپنا ہاتھ آستين ميں لے گئے اور باہر نكالا تو اچانك وہ ديكھنے والوں كے لئے سفيد اور چمك دار بن چكا تھا''_(۴) در حقيقت يہ دو عظيم معجزے تھے ايك خوف كا مظہر تھا تو دوسرا اميد كا مظہر، پہلے ميں انذار كا پہلو تھا تو دوسرے ميں بشارت كا ،ايك خدائي عذاب كى علامت تھى تو دوسرا نور اور رحمت كى نشانى ،كيونكہ معجزے كو پيغمبر خدا كى دعوت كے مطابق ہونا چاہئے_

____________________

(۱)سورہ شعراء آيت ۳۱

(۲)سورہ شعراء آيت ۳۱

(۳)سورہ شعراء آيت ۳۲

(۴)سورہ شعراء آيت ۳۳

۳۱۴

فرعون نے جب صورت حال ديكھى تو سخت بوكھلا گيا اور وحشت كى گہرى كھائي ميں جاگرا ،ليكن اپنے شيطانى اقتدار كو بچانے كے لئے جو موسى عليہ السلام كے ظہور كے ساتھ متزلزل ہوچكا تھا اس نے ان معجزات كى توجيہ كرنا شروع كردى تاكہ اس طرح سے اطراف ميں بيٹھنے والوں كے عقائد محفوظ اور ان كے حوصلے بلند كرسكے اس نے پہلے تو اپنے حوارى سرداروں سے كہا: ''يہ شخص ماہر اور سمجھ دار جادو گر ہے''_(۱)

جس شخص كو تھوڑى دير پہلے تك ديوانہ كہہ رہا تھا اب اسے '' عليم'' كے نام سے ياد كررہا ہے، ظالم اور جابر لوگوں كا طريقہ كار ايسا ہى ہوتا ہے كہ بعض اوقات ايك ہى محفل ميں كئي روپ تبديل كرليتے ہيں اور اپنى انا كى تسكين كے لئے نت نئے حيلے تراشتے رہتے ہيں _

اس نے سوچا چونكہ اس زمانے ميں جادوكادور دورہ ہے لہذا موسى عليہ السلام كے معجزات پر جادو كا ليبل لگا ديا جائے تاكہ لوگ اس كى حقانيت كو تسليم نہ كريں _

پھر اس نے لوگوں كے جذبات بھڑكانے اور موسى عليہ السلام كے خلاف ان كے دلوں ميں نفرت پيدا كرنے كے لئے كہا : ''وہ اپنے جادو كے ذريعے تمہيں تمہارے ملك سے نكالنا چاہتا ہے،تم لوگ اس بارے ميں كيا سوچ رہے ہو اور كيا حكم ديتے ہو ''_(۲)

يہ وہى فرعون ہے جو كچھ دير پہلے تك تمام سرزمين مصر كو اپنى ملكيت سمجھ رہا تھا'' كيا سرزمين مصر پر ميرى حكومت اور مالكيت نہيں ہے ؟''اب جبكہ اسے اپنا راج سنگھا سن ڈوبتا نظرآرہا ہے تو اپنى حكومت مطلقہ كو مكمل طور پر فراموش كر كے اسے عوامى ملكيت كے طور پر ياد كركے كہتا ہے '' تمہارا ملك خطرات ميں گھر چكا ہے اسے بچانے كى سوچو''_وہى فرعون جو ايك لحظہ قبل كسى كى بات سننے پر تيار نہيں تھا بلكہ ايك مطلق العنان آمر كى حيثيت سے تخت حكومت پر براجمان تھا اب اس حد تك عاجز اور درماندہ ہوچكا ہے كہ اپنے اطرافيوں سے درخواست كررہا ہے كہ تمہارا كيا حكم ہے نہايت ہى عاجز اور كمزور ہوكر التجا كررہا ہے _

____________________

(۱)سورہ شعراء آيت۳۴

(۲)سورہ شعراء آيت۳۵

۳۱۵

قرآن سے معلوم ہوتا ہے كہ اس كے دربارى باہمى طور پر مشور ہ كرنے ميں لگ گئے وہ اس قدر حواس باختہ ہوچكے تھے كہ سوچنے كى طاقت بھى ان سے سلب ہوگئي تھى ہر كوئي دوسرے كى طرف منہ كركے كہتا :

''تمہارى كيا رائے ہے ؟''(۱)

بہرحال كافى صلاح مشورے كے بعد درباريوں نے فرعون سے كہا :'' موسى اور اس كے بھائي كو مہلت دو اور اس بارے ميں جلدى نہ كرو اور تمام شہروں ميں ہركارندے روانہ كردو،تاكہ ہر ماہر اور منجھے ہوئے جادو گر كو تمہارے پاس لے آئيں ''_(۲)

در اصل فرعون كے دربارى يا تو غفلت كا شكار ہوگئے يا موسى عليہ السلام پر فرعون كى تہمت كو جان بوجھ كر قبول كرليا اور موسى كو'' ساحر'' (جادوگر) سمجھ كر پروگرام مرتب كيا كہ ساحر كے مقابلے ميں '' سحار'' يعنى ماہر اور منجھے ہوئے جادو گروں كو بلايا جائے چنانچہ انھوں نے كہا : ''خوش قسمتى سے ہمارے وسيع وعريض ملك (مصر) ميں فن جادو كے بہت سے ماہر استاد موجود ہيں اگر موسى ساحر ہے تو ہم اس كے مقابلے ميں سحار لاكھڑا كريں گے اور فن سحر كے ايسے ايسے ماہرين كو لے آئيں گے جو ايك لمحہ ميں موسى كا بھرم كھول كر ركھ ديں گے''_

ہر طرف سے جادو گر پہنچ گئے

فرعون كے درباريوں كى تجويز كے بعد مصر كے مختلف شہروں كى طرف ملازمين روانہ كرديئےئے اورانھوں نے ہر جگہ پر ماہر جادو گروں كى تلاش شروع كردى '' آخر كار ايك مقررہ دن كى ميعادكے مطابق جادو گروں كى ايك جماعت اكٹھا كرلى گئي ''(۳)

دوسرے لفظوں ميں انھوں نے جادوگروں كو اس روزكے لئے پہلے ہى سے تيار كرليا تاكہ ايك مقرر دن مقابلے كے لئے پہنچ جائيں _

____________________

(۱)سورہ اعراف آيت ۱۱۰

(۲) سورہ شعراء ۳۶ تا ۳۶

(۳)سورہ شعراء آيت ۳۸

۳۱۶

''يوم معلوم '' سے كيا مراد ہے ؟جيسا كہ سورہ اعراف كى آيات سے معلوم ہوتا ہے مصريوں كى كسى مشہور عيد كا دن تھا جسے موسى عليہ السلام نے مقابلے كے لئے مقرر كيا تھا اور اس سے ان كا مقصد يہ تھا كہ اس دن لوگوں كو فرصت ہوگى اور وہ زيادہ سے زيادہ تعداد ميں شركت كريں گے كيونكہ انھيں اپنى كاميابى كا مكمل يقين تھا اور وہ چاہتے تھے كہ آيات خداوندى كى طاقت اور فرعون اور اس كے ساتھيوں كى كمزورى اور پستى پورى دنيا پر آشكار ہوجائے ''اور زيادہ سے زيادہ لوگوں سے كہا گيا كہ آيا تم بھى اس ميدان ميں اكٹھے ہوگے؟(۱)

اس طرزبيان سے معلوم ہوتا ہے كہ فرعون كے كارندے اس سلسلے ميں سوچى سمجھى ا سكيم كے تحت كام كررہے تھے انھيں معلوم تھا كہ لوگوں كو زبردستى ميدان ميں لانے كى كوشش كى جائے تو ممكن ہے كہ اس كا منفى رد عمل ہو، كيونكہ ہر شخص فطرى طور پر زبردستى كو قبول نہيں كرتا لہذا انھوں نے كہا اگر تمہارى جى چاہے تو اس اجتماع ميں شركت كرو اس طرح سے بہت سے لوگ اس اجتماع ميں شريك ہوئے _

لوگوں كو بتايا گيا'' مقصد يہ ہے كہ اگر جادو گر كامياب ہوگئے كہ جن كى كاميابى ہمارے خدائوں كى كاميابى ہے تو ہم ان كى پيروى كريں گے ''(۲) اور ميدان كو اس قدر گرم كرديں گے كہ ہمارے خدائوں كا دشمن ہميشہ ہميشہ كے لئے ميدان چھوڑجائے گا _

واضح ہے كہ تماشائيوں كا زيادہ سے زيادہ اجتماع جو مقابلے كے ايك فريق كے ہمنوا بھى ہوں ايك طرف توان كى دلچسپى كا سبب ہوگا اور ان كے حوصلے بلند ہوں گے اور ساتھ ہى وہ كاميابى كے لئے زبردست كوشش بھى كريں گے اوركاميابى كے موقع پر ايسا شور مچائيں گے كہ حريف ہميشہ كے لئے گوشئہ گمنامى ميں چلاجائے گا اور اپنى عددى كثرت كى وجہ سے مقابلے كے آغاز ميں فريق مخالف كے دل ميں خوف وہراس اور رعب ووحشت بھى پيدا كرسكيں گے_

____________________

(۱)سورہ شعراء آيت ۳۹

(۲)سورہ شعراء آيت۴۰

۳۱۷

يہى وجہ ہے كہ فرعون كے كارندے كوشش كررہے تھے كہ لوگ زيادہ سے زيادہ تعداد ميں شركت كريں موسى عليہ السلام بھى ايسے كثيراجتماع كى خدا سے دعا كررہے تھے تاكہ اپنا مدعا اور مقصد زيادہ سے زيادہ لوگوں تك پہنچا سكيں _

يہ سب كچھ ايك طرف، ادھر جب جادو گر فرعون كے پاس پہنچے اور اسے مشكل ميں پھنسا ہوا ديكھا تو موقع مناسب سمجھتے ہوئے اس سے زيادہ سے زيادہ فائدہ اٹھانے اور بھارى انعام وصول كرنے كى غرض سے اس سے كہا :'' اگر ہم كامياب ہوگئے تو كيا ہمارے لئے كوئي اہم صلہ بھى ہوگا ؟''(۱)

فرعون جو برى طرح پھنس چكا تھا اور اپنے لئے كوئي راہ نہيں پاتاتھا انھيں زيادہ سے زيادہ مراعات اور اعزاز دينے پر تيار ہوگيا اس نے فورا ًكہا: : ''ہاں ہاں جو كچھ تم چاہتے ہوميں دوں گا اس كے علاوہ اس صورت ميں تم ميرے مقربين بھى بن جائوگے''_(۲)

در حقيقت فرعون نے ان سے كہا :تم كيا چاہتے ہو؟ مال ہے يا عہدہ: ميں يہ دونوں تمہيں دوں گا _

اس سے معلوم ہوتا ہے كہ اس ماحول اورزمانے ميں فرعون كا قرب كس حد تك اہم تھا كہ وہ ايك عظيم انعام كے طور پر اس كى پيش كش كررہا تھا درحقيقت اس سے بڑھ كر اور كوئي صلہ نہيں ہوسكتا كہ انسان اپنے مطلوب كے زيادہ نزديك ہو_

جادو گروں كا عجيب وغريب منظر

جب جادوگروں نے فرعون كے ساتھ اپنى بات پكى كرلى اور اس نے بھى انعام، اجرت اور اپنى بارگاہ كے مقرب ہونے كا وعدہ كركے انھيں خوش كرديا اور وہ بھى مطمئن ہوگئے تواپنے فن كے مظاہرے اور اس كے اسباب كى فراہمى كے لئے تگ ودوكرنى شروع كردي، فرصت كے ان لمحات ميں انھوں نے بہت سى رسياں اور لاٹھياں اكٹھى كرليں اور بظاہر ان كے اندر كو كھوكھلاكر كے ان ميں ايسا كوئي كيميكل مواد (پارہ وغيرہ

____________________

(۱)سورہ شعراء آيت ۴۱

(۲)سورہ شعراء آيت ۴۲

۳۱۸

كى مانند)بھر ديا جس سے وہ سورج كى تپش ميں ہلكى ہوكر بھاگنے لگتى _

آخركاروعدے كا دن پہنچ گيا اور لوگوں كا اكثير مجمع ميدان ميں جمع ہوگيا تاكہ وہ اس تاريخى مقابلے كو ديكھ سكيں ،فرعون اور اس كے درباري، جادوگر اور موسى عليہ السلام اور ان كے بھائي ہارون عليہ السلام سب ميدان ميں پہنچ گئے _

ليكن حسب معمول قرآن مجيد اس بحث كو خدف كركے اصل بات كو بيان كرتا ہے _

يہاں پر بھى اس تاريخ ساز منظر كى تصوير كشى كرتے ہوئے كہتا ہے :''موسى نے جادو گروں كى طرف منہ كركے كہا :جو كچھ پھينكنا چاہتے ہو پھينكو اور جو كچھ تمہارے پاس ہے ميدان ميں لے آئو ''_(۱)

قرآن سے معلوم ہوتا ہے كہ جناب موسى عليہ السلام نے يہ بات اس وقت كى جب جادوگروں نے ان سے كہا:'' آپ پيش قدم ہوكر اپنى چيز ڈاليں گے يا ہم ؟''(۲)

موسى عليہ السلام كى يہ پيش كش درحقيقت انھيں اپنى كاميابى پر يقين كى وجہ سے تھى اوراس بات كى مظہر تھى كہ فرعون كے زبردست حاميوں اور دشمن كے انبوہ كثير سے وہ ذرہ برابر بھى خائف نہيں ،چنانچہ يہ پيش كش كركے آپ نے جادوگروں پر سب سے پہلا كامياب وار كيا جس سے جادو گروں كو بھى معلوم ہوگيا كہ موسى عليہ السلام ايك خاص نفسياتى سكون سے بہرہ مند ہيں اور وہ كسى ذات خاص سے لولگائے ہوئے ہيں كہ جوان كا حوصلہ بڑھارہى ہے _

جادو گر تو غرور ونخوت كے سمندر ميں غرق تھے انھوں نے اپنى انتہائي كوششيں اس كام كے لئے صرف كردى تھيں اور انھيں اپنى كاميابى كا بھى يقين تھا'' لہذانھوں نے اپنى رسياں اور لاٹھياں زمين پر پھينك ديں اور كہافرعون كى عزت كى قسم ہم يقينا كامياب ہيں ''_(۳)

جى ہاں :انھوں نے دوسرے تمام چاپلوسيوں خوشامديوں كى مانند فرعون كے نام سے شروع كيا اور

____________________

(۱)سورہ شعراء آيت ۴۳

(۲)سورہ اعراف آيت۱۱۵

(۳)سورہ شعراء آيت۴۴

۳۱۹

اس كے كھوكھلے اقتدار كا سہاراليا _

جيسا كہ قرآن مجيد ايك اور مقام پر كہتا ہے :

'' اس موقع پر انھوں نے جب رسياں اور لاٹھياں زمين پر پھينكيں تو وہ چھوٹے بڑے سانپوں كى طرح زمين پر حركت كرنے لگيں ''_(۱)

انھوں نے اپنے جادو كے ذرائع ميں سے لاٹھيوں كا انتخاب كيا ہوا تھا تاكہ وہ بزعم خود موسى كى عصا كى برابرى كرسكيں اور مزيد برترى كے لئے رسيوں كو بھى ساتھ شامل كرليا تھا _

اسى دوران ميں حاضرين ميں خوشى كى لہر دوڑگئي اور فرعون اور اس كے درباريوں كى آنكھيں خوشى كے مارے چمك اٹھيں اور وہ مارے خوشى كے پھولے نہيں سماتے تھے يہ منظر ديكھ كر ان كے اندر وجدو سرور كى كيفيت پيدا ہوگئي اور وہ جھوم رہے تھے _ چنانچہ بعض مفسرين كے قول كے مطابق ان ساحروں كى تعداد كئي ہزار تھى نيز ان كے وسائل سحر بھى ہزاروں كى تعداد ميں تھے چونكہ اس زمانے ميں مصر ميں سحرو ساحرى كا كافى زور تھا اس بناپر اس بات پر كوئي جائے تعجب نہيں ہے _

خصوصاً جيسا كہ قران(۲) كہتا ہے كہ :

وہ منظر اتنا عظيم ووحشتناك تھا كہ حضرت موسى نے بھى اس كى وجہ سے اپنے دل ميں كچھ خوف محسوس كيا _

اگرچہ نہج البلاغہ ميں اس كى صراحت موجود ہے كہ حضرت موسى كو اس بات كا خوف لاحق ہو گيا تھا كہ ان جادوگروں كو ديكھ كر لوگ اس قدر متاثر نہ ہوجائيں كہ ان كو حق كى طرف متوجہ كرنا دشوار ہوجائے بہرصورت يہ تمام باتيں اس بات كى مظہر ہيں كہ اس وقت ايك عظيم معركہ درپيش تھا جسے حضرت موسى عليہ السلام كو بفضل الہى سركرنا تھا_

____________________

(۱)سورہ طہ آيت ۶۶

(۲) سورہ طہ اايت ۶۷

۳۲۰

جادو گروں كے دل ميں ايمان كى چمك ليكن موسى عليہ السلام نے اس كيفيت كو زيادہ دير نہيں پنپنے ديا وہ آگے بڑھے اور اپنے عصا كو زمين پردے مارا تو وہ اچانك ايك ادہے كى شكل ميں بتديل ہوكر جادو گروں كے ان كر شموں كو جلدى نگلنے لگا اور انھيں ايك ايك كركے كھاگيا _(۱)(۲)

____________________

(۱)سورہ طہ ، آيت۶۶

(۲)كيا عصاكا اژدھابن جانا ممكن ہے ؟

اس ميں كوئي شك نہيں كہ عصا كا ازدہا بن جانا ايك بيّن معجزہ ہے جس كى توجيہ مادى اصول سے نہيں كى جاسكتي، بلكہ ايك خدا پرست شخص كو اس سے كوئي تعجب بھى نہ ہوگا كيونكہ وہ خدا كو قادر مطلق اور سارے عالم كے قوانين كو ارادہ الہى كے تابع سمجھتا ہے لہذا اس كے نزديك يہ كوئي بڑى بات نہيں كہ لكڑى كا ايك ٹكڑا حيوان كى صورت اختيار كرلے كيونكہ ايك مافوق طبيعت قدرت كے زير اثر ايسا ہوناعين ممكن ہے _

ساتھ ہى يہ بات بھى نہ بھولنا چاہئے كہ اس جہان طبيعت ميں تمام حيوانات كى خلقت خاك سے ہوئي ہے نيز لكڑى و نباتات كى خلقت بھى خاك سے ہوئي ہے ليكن مٹى سے ايك بڑا سانپ بننے كے لئے عادتاًشايد كروڑوں سال كى مدت دركار ہے،ليكن اعجاز كے ذريعے يہ طولانى مدت اس قدر كوتاہ ہوگئي كہ وہ تمام انقلابات ايك لحظہ ميں طے ہوگئے جن كى بنا پر مٹى سے سانپ بنتا ہے ،جس كى وجہ سے لكڑى كا ايك ٹكڑا جو قوانين طبيعت كے زير اثر ايك طولانى مدت ميں سانپ بنتا،چند لحظوں ميں يہ شكل اختيار كرگيا_

اس مقام پر كچھ ايسے افراد بھى ہيں جو تمام معجزات انبياء كى طبيعى اور مادى توجيہات كرتے ہيں جس سے ان كے اعجازى پہلوں كى نفى ہوتى ہے،اور ان كى يہ سعى ہوتى ہے كہ تمام معجزات كو معمول كے مسائل كى شكل ميں ظاہر كريں ،ہر چند وہ كتب آسمانى كى نص اور الفاظ صريحہ كے خلاف ہو،ايسے لوگوں سے ہمارا يہ سوال ہے كہ وہ اپنى پوزيشن اچھى طرح سے واضح كريں _كيا وہ واقعاً خدا كى عظيم قدرت پر ايمان ركھتے ہيں اور اسے قوانين طبيعت پر حاكم مانتے ہيں كہ نہيں ؟ اگر وہ خدا كو قادر و توانا نہيں سمجھتے توان سے انبياء كے حالات اور ان كے معجزات كى بات كرنا بالكل بے كار ہے اور اگر وہ خدا كو قادر جانتے ہيں تو پھر ذرا تا مل كريں كہ ان تكلف آميز توجيہوں كى كيا ضرورت ہے جو سراسر آيات قرآنى كے خلاف ہيں (اگر چہ زير بجث آيت ميں ميرى نظر سے نہيں گزرا كہ كسى مفسر نے جس كا طريقہ تفسير كيسا ہى مختلف كيوں نہ ہو اس آيت كى مادى توجيہہ كى ہو،تا ہم جو كچھ ہم نے بيان كيا وہ ايك قاعدہ كلى كے طور پر تھا_

۳۲۱

اس موقع پر لوگوں پر يكدم سكوت طارى ہوگيا حاضرين پر سناٹا چھاگيا،تعجب كى وجہ سے ان كے منہ كھلے كے كھلے رہ گئے آنكھيں پتھرا گئي گويا ان ميں جان ہى نہيں رہى ليكن بہت جلد تعجب كے بجائے وحشت ناك چيخ و پكار شروع ہوگئي،كچھ لوگ بھاگ كھڑے ہوئے كچھ لوگ نتيجے كے انتظار ميں رك گئے اور كچھ لوگ بے مقصد نعرے لگارہے تھے ليكن جادوگرں كے منہ تعجب كى وجہ سے كھلے ہوئے تھے_

اس مرحلے پر سب كچھ تبديل ہوگيا جو جادوگر اس وقت تك شيطانى رستے پر گامزن ،فرعون كے ہم ركاب اور موسى عليہ السلام كے مخالف تھے يك دم اپنے آپے ميں آگئے اور كيونكہ جادو كے ہر قسم كے ٹونے ٹوٹكے او رمہارت اور فن سے واقف تھے اس لئے انھيں يقين آگيا كہ ايسا كام ہر گز جادو نہيں ہوسكتا، بلكہ يہ خدا كا ايك عظيم معجزہ ہے ''لہذا اچانك وہ سارے كے سارے سجدے ميں گر پڑے ''_(۱)

دلچسپ بات يہ ہے كہ قرآن نے يہاں پر ''القي''كا استعمال كيا ہے جس كا معنى ہے گراديئے گئے يہ اس بات كى طرف اشارہ ہے كہ وہ جناب موسى عليہ السلام كے معجزے سے اس قدر متا ثر ہوچكے تھے كہ بے اختيار زمين پر سجدے ميں جاپڑے _

اس عمل كے ساتھ ساتھ جو ان كے ايمان كى روشن دليل تھا ;انھوں نے زبان سے بھى كہا:''ہم عالمين كے پروردگار پر ايمان لے آئے''_(۲)

اور ہر قسم كا ابہام وشك دور كرنے كے لئے انھوں نے ايك اور جملے كابھى اضافہ كيا تاكہ فرعون كے لئے كسى قسم كى تاويل باقى نہ رہے،انھوں نے كہا:''موسى اور ہارون كے رب پر'' _(۳)

اس سے معلوم ہوتا ہے كہ عصازمين پر مارنے اور ساحرين كے ساتھ گفتگو كرنے كا كام اگرچہ موسى عليہ السلام نے انجام ديا ليكن ان كے بھائي ہارون عليہ السلام ان كے ساتھ ساتھ ان كى حمايت اور مدد كررہے تھے_

____________________

(۱)سورہ شعراء آيت ۴۶

(۲)سورہ شعراء آيت۴۷

(۳)سورہ شعراء آيت ۴۸

۳۲۲

يہ عجيب وغريب تبديلى جادوگروں كے دل ميں پيدا ہوگئي اور انھوں نے ايك مختصر سے عرصے ميں مطلق تاريكى سے نكل كر روشنى اور نور ميں قدم ركھ ديا اور جن جن مفادات كا فرعون نے ان سے وعدہ كيا تھا ان سب كو ٹھكراديا ،يہ بات تو آسان تھي، انھوں نے اس اقدام سے اپنى جانوں كو بھى خطرے ميں ڈال ديا،يہ صرف اس وجہ سے تھا كہ ان كے پاس علم و دانش تھا جس كے باعث وہ حق اور باطل ميں تميز كرنے ميں كامياب ہوگئے اور حق كا دامن تھام ليا_

كيا ميرى اجازت كے بغير موسى عليہ السلام پر ايمان لے آئے؟

اس موقع پر اس طرف تو فرعون كے اوسان خطا ہوچكے تھے اور دوسرے اسے اپنا اقتدار بلكہ اپنا وجود خطرے ميں دكھائي دے رہا تھا خاص طور پر وہ جانتا تھا كہ جادوگرو ں كا ايمان لانا حاضرين كے دلوں پر كس قدر مو ثر ہوسكتا ہے اور يہ بھى ممكن ہے كہ كافى سارے لوگ جادوگروں كى ديكھا ديكھى سجدے ميں گر جائيں ، لہذا اس نے بزعم خود ايك نئي اسكيم نكالى اور جادوگروں كى طرف منہ كركے كہا:''تم ميرى اجازت كے بغير ہى اس پر ايمان لے آئے ہو''_(۱)

چونكہ وہ سالہا سال سے تخت استبداد پر براجمان چلاآرہا تھا لہذا اسے قطعاً يہ اميد نہيں تھى كہ لوگ اس كى اجازت كے بغير كوئي كام انجام ديں گے بلكہ اسے تو يہ توقع تھى كہ لوگوں كے قلب و عقل اور اختيار اس كے قبضہ قدرت ميں ہيں ،جب تك وہ اجازت نہ دے وہ نہ تو كچھ سوچ سكتے ہيں اور نہ فيصلہ كرسكتے ہيں ،جابر حكمرانوں كے طريقے ايسے ہى ہوا كرتے ہيں _

ليكن اس نے اسى بات كو كافى نہيں سمجھا بلكہ دو جملے اور بھى كہے تا كہ اپنے زعم باطل ميں اپنى حيثيت اور شخصيت كو برقرار ركھ سكے اور ساتھ ہى عوام كے بيدار شدہ افكار كے آگے بند باندھ سكے اور انھيں دوبارہ خواب غفلت ميں سلادے_

____________________

(۱)سورہ شعراء آيت ۴۹

۳۲۳

اس نے سب سے پہلے جادوگروں سے كہا:تمھارى موسى سے يہ پہلے سے لگى بندھى سازش ہے ،بلكہ مصرى عوام كے خلاف ايك خطرناك منصوبہ ہے اس نے كہا كہ وہ تمہارا بزرگ اور استاد ہے جس نے تمہيں جادو كى تعليم دى ہے اور تم سب نے جادوگر ى كى تعليم اسى سے حاصل كى ہے_ ''(۱)

تم نے پہلے سے طے شدہ منصوبہ كے تحت يہ ڈرامہ رچايا ہے تا كہ مصر كى عظيم قوم كو گمراہ كركے اس پر اپنى حكومت چلائو اور اس ملك كے اصلى مالكوں كو ان كے گھروں سے بے گھر كردو اور ان كى جگہ غلاموں اور كنيزوں كو ٹھہرائو_

ليكن ميں تمہيں كبھى اس بات كى اجازت نہيں دوں گا كہ تم اپنى سازش ميں كامياب ہوجائو،ميں اس سازش كو پنپنے سے پہلے ہى ناكام كردوں گا''تم بہت جلد جان لوگے كہ تمہيں ايسى سزادوں گا جس سے دوسرے لوگ عبرت حاصل كريں گے تمہارے ہاتھ اور پائوں كو ايك دوسرے كى مخالف سمت ميں كاٹ ڈالوں گا(داياں ہاتھ اور باياں پائوں ،يا باياں ہاتھ اور داياں پائوں )اور تم سب كو (كسى استثناء كے بغير)سولى پر لٹكادوں گا''_(۲)

يعنى صرف يہى نہيں كہ تم سب كو قتل كردوں گا بلكہ ايسا قتل كروں گا كہ جس ميں دكھ،درد،تكليف اور شكنجہ بھى ہوگا اور وہ بھى سرعام كھجور كے بلند درختوں پركيونكہ ہاتھ پائوں كے مخالف سمت كے كاٹنے سے احتمالاًانسان كى دير سے موت واقع ہوتى ہے اور وہ تڑپ تڑپ كر جان ديتا ہے_

ہميں اپنے محبوب كى طرف پلٹادے

ليكن فرعون يہاں پر سخت غلط فہمى ميں مبتلا تھا كيونكہ كچھ دير قبل كے جادوگر اور اس وقت كے مومن افراد نور ايمان سے اس قدر منور ہوچكے تھے اور خدائي عشق كى آگ ان كے دل ميں اس قدر بھڑك چكى تھى كہ انھوں نے فرعون كى دھمكيوں كو ہر گز ہرگز كوئي وقعت نہ دى بلكہ بھرے مجمع ميں اسے دو ٹوك جواب دے كر اس

____________________

(۱)سورہ شعراء آيت ۴۹

(۲)سورہ شعراء آيت۴۹

۳۲۴

كے تمام شيطانى منصوبوں كو خاك ميں ملاديا_

انھوں نے كہا:''كوئي بڑى بات نہيں اس سے ہميں ہر گز كوئي نقصان نہيں پہنچے گا تم جو كچھ كرنا چاہتے ہو كر لو، ہم اپنے پروردگار كى طرف لوٹ جائيں گے''_(۱)

اس كام سے نہ صرف يہ كہ تم ہمارا كچھ بگاڑ نہ سكوگے بلكہ ہميں اپنے حقيقى معشوق اور معبود تك بھى پہنچادوگے،تمھارى يہ دھمكياں ہمارے لئے اس دقت مو ثر تھيں جب ہم نے خود كو نہيں پہچانا تھا،اپنے خدا سے نا آشنا تھے اور راہ حق كو بھلاكے زندگى كے بيابان ميں سرگردان تھے ليكن آج ہم نے اپنى گمشدہ گراں بہا چيز كو پاليا ہے جو كرنا چاہو كرلو_

انھوں نے سلسلہ كلام آگے بڑھاتے ہوئے كہا: ہم ماضى ميں گناہوں كا ارتكاب كرچكے ہيں اور اس ميدان ميں بھى اللہ كے سچے رسول جناب موسى عليہ السلام كے ساتھ مقابلے ميں پيش پيش تھے اور حق كے ساتھ لڑنے ميں ہم پيش قدم تھے ليكن''ہم اميد ركھتے ہيں كہ ہمارا پروردگار ہمارے گناہ معاف كردے گا كيونكہ ہم سب سے پہلے ايمان لانے والے ہيں ''_(۲)

ہم آج كسى چيز سے نہيں گھبراتے، نہ تو تمھارى دھمكيوں سے اور نہ ہى بلند و بالا كھجور كے درختوں كے تنوں پر سولى پر لٹك جانے كے بعد ہاتھ پائوں مارنے سے_

اگر ہميں خوف ہے تو اپنے گزشتہ گناہوں كا اور اميد ہے كہ وہ بھى ايمان كے سائے اور حق تعالى كى مہربانى سے معاف ہوجائيں گے_

يہ كيسى طاقت ہے كہ جب كسى انسان كے دل ميں پيدا ہوجاتى ہے تو دنيا كى بڑى سے بڑى طاقت بھى اس كى نگاہوں ميں حقير ہوجاتى ہے اوروہ سخت سے سخت شكنجوں سے بھى نہيں گھبراتا اور اپنى جان ديدينا اس كے لئے كوئي بات ہى نہيں رہتي_

____________________

(۱)سورہ شعراء آيت۴۹

(۲)سورہ شعراء آيت ۵۱

۳۲۵

يقينا يہ ايمانى طاقت ہوتى ہے_

يہ عشق كے روشن ودرخشاں چراغ كا شعلہ ہوتا ہے جو شہادت كے شربت كو انسان كے حلق ميں شہد سے بھى زيادہ شيريں بناديتا ہے اور محبوب كے وصال كو انسان كا ارفع و اعلى مقصد بنا ديتا ہے_

بہر حال يہ منظر فرعون اور اس كے اركان سلطنت كے لئے بہت ہى مہنگا ثابت ہوا ہر چند كہ بعض روايات كے مطابق اس نے اپنى دھمكيوں كو عملى جامہ بھى پہنايا اور تازہ ايمان لانے والے جادوگروں كو شہيد كرديا ليكن عوام كے جو جذبات موسى عليہ السلام كے حق ميں اور فرعون كے خلاف بھڑك اٹھے تھے وہ انھيں نہ صرف دبا نہ سكا بلكہ اور بھى بر انگيختہ كرديا_

اب جگہ جگہ اس خدائي پيغمبر كے تذكرے ہونے لگے اور ہر جگہ ان با ايمان شہداء كے چرچے تھے بہت سے لوگ اس وجہ سے ايمان لے آئے_جن ميں فرعون كے كچھ نزديكى لوگ بھى تھے حتى كہ خود اس كى زوجہ ان ايمان لانے والوں ميں شامل ہوگئي_

فرعون كى زوجہ ايمان لے آئي

فرعون كى بيوى كا نام آسيہ اور باپ كا نام مزاحم تھا_كہتے ہيں كہ جب اس نے جادوگروں كے مقابلہ ميں موسى عليہ السلام كے معجزے كو ديكھا تو اس كے دل كى گہرائياں نور ايمان سے روشن ہوگئيں ،وہ اسى وقت موسى عليہ السلام پر ايمان لے آئي _وہ ہميشہ اپنے ايمان كو پوشيدہ ركھتى تھي_ ليكن ايمان اور خدا كا عشق ايسى چيز نہيں ہے جسے ہميشہ چھپايا جاسكے_جب فرعون كو اس كے ايمان كى خبر ہوئي تو اس نے اسے بارہا سمجھايا اور منع كيا اور يہ اصرار كيا كہ موسى كے دين سے دستبردار ہوجائے اور اس كے خدا كو چھوڑدے،ليكن يہ با استقامت خاتون فرعون كى خواہش كے سامنے ہر گز نہ جھكي_

آخر كار فرعون نے حكم ديا كہ اس كے ہاتھ پائوں ميخوں ساتھ جكڑ كر اسے سورج كى جلتى ہوئي دھوپ ميں ڈال ديا جائے اور ايك بہت بڑا پتھر اس كے سينہ پر ركھ ديں _جب وہ خاتون اپنى زندگى كے آخرى لمحے گزار رہى تھى تو اس كى دعا يہ تھي:

۳۲۶

''پروردگاراميرے لئے جنت ميں اپنے جوار رحمت ميں ايك گھر بنادے_ مجھے فرعون اور اس كے عمال سے رہائي بخش اور مجھے اس ظالم قوم سے نجات دے''_

خدا نے بھى اس پاكباز اور فدار كار مومنہ خاتون كى دعا قبول كى اور اسے مريم(ع) جيسى دنيا كى بہترين خاتون جناب مريم(ع) كے ہم رديف قرار پائي ہے_

ايك روايت ميں رسول خدا(ص) سے منقول ہے:

''اہل جنت ميں افضل ترين اور برترين عورتيں چارہيں _ خويلد كى بيٹى خديجہ(ع) ،محمد(ص) كى بيٹى فاطمہ(ع) اور عمران كى بيٹى مريم(ع) اور مزاحم كى بيٹى آسيہ(ع) جو فرعون كى بيوى تھي''_

قابل توجہ بات يہ ہے كہ فرعون كى بيوى اپنى اس بات سے فرعون كے عظيم قصر كى تحقير كررہى ہے،اور اسے خدا كے جوار رحمت ميں گھر،كے مقابلہ ميں كوئي اہميت نہيں ديتي_اس گفتگو كے ذريعہ ان لوگوں كے جو اسے يہ نصيحت كرتے تھے كہ ان تمام نماياں وسائل و امكانات كو جو ملكہ مصر ہونے كى وجہ سے تيرے قبضہ و اختيار ميں ہيں ، موسى عليہ السلام جيسے چرواہے پر ايمان لاكر ہاتھ سے نہ دے_ جواب ديتى ہے:

اور''نجى من فرعون و عملہ'' كے جملہ كے ساتھ خود فرعون سے اور اس كے مظالم اور جرائم سے بيزارى كا اعلان كرتى ہے_

اور( نجى من القوم الظالمين ) كے جملہ سے اس آلودہ ماحول سے اپنى على حدگي،اور ان كے جرائم سے اپنى بيگانگى كا اظہار كرتى ہے_

مسلمہ طور پر فرعون كے دربار سے بڑھ كرز رق برق اور جلال و جبروت موجود نہيں تھا_اسى طرح فرعون جيسے جابر و ظالم كے شكنجوں سے بڑھ كر فشار اور شكنجے موجود نہيں تھے_ ليكن نہ تو وہ زرق برق اور نہ ہى وہ فشار اور شكنجے اس مومنہ عورت كے گھٹنے جھكا سكے_ اس نے رضائے خدا ميں اپنا سفر اسى طرح سے جارى ركھا_يہاں تك كہ اپنى عزيز جان اپنے حقيقى محبوب كى راہ ميں فدا كردي_

قابل توجہ بات يہ ہے كہ وہ يہ استدعا كرتى ہے كہ اے خدا جنت ميں اوراپنے جوار ميں اس كے لئے

۳۲۷

ايك گھر بنادے جس كا جنت ميں ہونا تو جنبہ جسمانى ہے اور خدا كے جوار رحمت ميں ہونا جنبہ روحانى ہے_ اس نے ان دونوں كو ايك مختصر سى عبارت ميں جمع كرديا ہے_

جناب موسى عليہ السلام كے قتل كا حكم

ايك طرف موسى عليہ السلام اور ان كے پيروكاروں كے درميان باہمى نزاع،اور دوسرى طرف فرعون اور اس كے ہم نوائوں كے ساتھ لڑائي جھگڑا كافى حد تك بڑھ گيا اوراس دوران ميں بہت سے واقعات رونما ہوچكے،جنہيں قرآن نے اس مقام پر ذكر نہيں كيا بلكہ ايك خاص مقصد كو جسے ہم بعد ميں بيان كريں گے پيش نظر ركھ كر ايك نكتہ بيان كيا گيا ہے كہ حالات بہت خراب ہوگئے تو فرعون نے حضرت موسى عليہ السلا م كى انقلابى تحريك كو دبانے بلكہ ختم كرنے كے لئے ان كے قتل كى ٹھان لى ليكن ايسا معلوم ہوتا ہے كہ گويا اس كے مشيروں اور درباريوں نے اس كے اس فيصلے كى مخالفت كى _چنانچہ قرآن كہتا ہے:

''فرعون نے كہا مجھے چھوڑدوتاكہ ميں موسى كو قتل كر ڈالوں اور وہ اپنے پروردگار كو بلائے تاكہ وہ اسے اس سے نجات دے''_(۱)

اس سے يہ بات سمجھنے ميں مدد ملتى ہے كہ اس كے اكثر يا كم از كم كچھ مشير موسى عليہ السلام كے قتل كے مخالف تھے وہ يہ دليل پيش كرتے تھے كہ چونكہ موسى كے كام معجزانہ اور غير معمولى ہيں لہذا ہوسكتا ہے كہ وہ ہمارے لئے بددعا كردے تو اس كا خدا ہم پر عذاب نازل كردے ليكن كبر و غرور كے نشے ميں مست فرعون كہنے لگا:ميں تواسے ضرور قتل كروں گا جو ہوگا ديكھا جائے گا_

يہ بات تو معلوم نہيں ہے كہ فرعون كے حاشيہ نشينوں اور مشيروں نے كس بناء پر اسے موسى عليہ السلام كے قتل سے باز ركھا البتہ يہاں پر چند ايك احتمال ضرور ہيں اور ہوسكتا ہے وہ سب كے سب صحيح ہوں _

ايك احتمال تو يہ ہے كہ ممكن ہے خدا كى طرف سے عذاب نازل ہوجائے_

____________________

(۱)سورہ مومن آيت ۲۶

۳۲۸

دوسرا احتمال ان كى نظر ميں يہ ہوسكتا ہے كہ موسى عليہ السلام كے مارے جانے كے بعد حالات يكسردگر گوں ہوجائيں گے كيونكہ وہ ايك شہيد كا مقام پاليں گے اور انہيں ہيروكا درجہ مل جائے گا اس طرح سے ان كا دين بہت سے مو من،ہمنوا،طرفدار اور ہمدرد پيدا كرلے گا _

خلاصہ كلام انہيں اس بات كا يقين ہوگياكہ بذات خود موسى ان كے لئے ايك عظيم خطرہ ہيں ليكن اگر ان حالات ميں انہيں قتل كرديا جائے تو يہ حادثہ ايك تحريك ميں بدل جائے گا جس پر كنٹرول كرنا بھى مشكل ہوجائے گااور اس سے جان چھڑانى مشكل تر ہوجائے گي_

فرعون كے كچھ دربارى ايسے بھى تھے جو قلبى طور پر فرعون سے راضى نہيں تھے_وہ چاہتے تھے كہ موسى عليہ السلام زندہ رہيں اورفرعون كى كى تمام تر توجہ انہى كى طرف مبذول رہے، اس طرح سے وہ چار دن آرام كے ساتھ بسر كرليں اور فرعون كى آنكھوں سے اوجھل رہ كر ناجائز مفاد اٹھاتے رہيں كيونكہ يہ ايك پرانا طريقہ كار ہے كہ بادشاہوں كے دربارى اس بات كى فكر ميں رہتے ہيں كہ ہميشہ ان كى توجہ دوسرے امور كى طرف مبذول رہے تا كہ وہ آسودہ خاطر ہوكر اپنے ناجائز مفادات كى تكميل ميں لگے رہيں _اسى لئے تو بعض اوقات وہ بيرونى دشمن كو بھى بھڑكاتے ہيں تاكہ بادشاہ كى فارغ البالى كے شر سے محفوظ رہيں _

كہيں موسى تمہارا مذہب نہ بدل دے

بہر حال فرعون نے حضرت موسى عليہ السلام كو قتل كے منصوبے كى توجيہہ كرتے ہوئے اپنے درباريوں كے سامنے اس كى دودليليں بيان كيں _ايك كا تعلق دينى اور روحانى پہلو سے تھا اور دوسرى كا دنياوى اور مادى سے ،وہ كہنے لگا:مجھے اس بات كا خوف ہے كہ وہ تمہارے دين كو تبديل كردے گا اور تمہارے باپ دادا كے دين كو دگر گوں كردے گا،يا يہ كہ زمين ميں فساد اور خرابى برباد كردے گا_(۱)

اگر ميں خاموشى اختيار كرلوں تو موسى بہت جلد مصر والوں ميں اتر جائے گا اور بت پرستى كا''مقدس

____________________

(۱)سورہ مومن آيت ۲۶

۳۲۹

دين''جو تمہارى قوميت اور مفادات كا محافظ ہے ختم ہوجائے گااور اس كى جگہ توحيد پرستى كا دين لے لے گا جو يقينا تمہارے سوفيصد خلاف ہوگا_

اگر ميں آج خاموشى ہوجائوں اور كچھ عرصہ بعد موسى سے مقابلہ كرنے كے لئے اقدام كروں تو اس دوران ميں وہ اپنے بہت سے دوست اور ہمدرد پيدا كرلے گا جس كى وجہ سے زبردست لڑائي چھڑجائے گى جو ملكى سطح پر خونريزي، گڑ بڑاور بے چينى كا سبب بن جائے گى اسى لئے مصلحت اسى ميں ہے كہ جتنا جلدى ہوسكے اسے موت كے گھاٹ اتار ديا جائے _

اب ديكھنا يہ ہے كہ اس گفتگو سے موسى عليہ السلام نے كس رد عمل كا اظہار كيا جو اس مجلس ميں تشريف فرمابھى تھے، قرآن كہتا ہے :موسى نے كہا : ''ميں اپنے پروردگار اور تمہارے پروردگار كى ہر اس متكبر سے پناہ مانگتا ہوں جو روز حساب پر ايمان نہيں لاتا ''_(۱)

موسى عليہ السلام نے يہ باتيں بڑے سكون قلب اور اطمينان خاطر سے كيں جوان كے قوى ايمان اور ذات كردگار پر كامل بھروسے كى دليل ہيں اور اس طرح سے ثابت كرديا كہ اس كى اس دھمكى سے وہ ذرہ بھر بھى نہيں گھبرائے _

حضرت موسى عليہ السلام كى اس گفتگو سے ثابت ہوتا ہے كہ جن لوگوں ميں مندرجہ ذيل دوصفات پائي جائيں وہ نہايت ہى خطر ناك افراد ہيں ايك '' تكبر'' اور دوسرے '' قيامت پر ايمان نہ ركھنا'' اور اس قسم كے افراد سے خدا كى پناہ مانگنى چاہئے _

آيا كسى كو خدا كى طرف بلانے پر بھى قتل كرتے ہيں ؟

يہاں سے موسى عليہ السلام اور فرعون كى تاريخ كا ايك اور اہم كردار شروع ہوتا ہے اور وہ ہے ''مئومن آل فرعون '' جو فرعون كے رشتہ داروں ميں سے تھا حضرت موسى عليہ السلام كى دعوت توحيد قبول كرچكا

____________________

(۱)سورہ مومن آيت ۲۷

۳۳۰

تھا،ليكن اپنے اس ايمان كو ظاہر نہيں كرتا تھا كيونكہ وہ اپنے آپ كو خاص طريقے سے موسى عليہ السلام كى حمايت كا پابند سمجھتا تھا جب اس نے ديكھا كہ فرعون كے غيظ وغضب سے موسى عليہ السلام كى جان كو خطرہ پيدا ہوگيا ہے تو مردانہ وار آگے بڑھا اور اپنى دل نشين اور موثر گفتگو سے قتل كى اس سازش كو ناكام بناديا _

قرآن ميں فرمايا گيا ہے :'' آل فرعون ميں سے ايك شخص نے جو اپنے ايمان كو چھپائے ہوئے تھا كہا:

''كياكسى شخص كو صرف اس بناء پر قتل كرتے ہوكہ وہ كہتا ہے كہ ميرا رب اللہ ہے ؟''(۱)

''حالانكہ وہ تمہارے ربّ كى طرف سے معجزات اور واضح دلائل اپنے ساتھ لايا ہے _''(۲)

آيا تم اس كے عصا اور يدبيضاء جيسے معجزات كا انكار كرسكتے ہو ؟ كيا تم نے اپنى آنكھوں سے اس كے جادو گروں پر غالب آجانے كا مشاہدہ نہيں كيا ؟ يہاں تك كہ جادوگروں نے اس كے سامنے اپنے ہتھيار ڈال ديئےور ہمارى پرواہ تك نہ كى اور نہ ہى ہمارى دھمكيوں كو خاطر ميں لائے اور موسى كے خدا پر ايمان لاكر اپنا سراس كے آگے جھكاديا، ذرا سچ بتائو ايسے شخص كو جادوگر كہا جاسكتا ہے،؟ خوب سوچ سمجھ كر فيصلہ كرو، جلد بازى سے كام نہ لو اور اپنے اس كام كے انجام كو بھى اچھى طرح سوچ لوتاكہ بعد ميں پشيمان نہ ہونا پڑے _

ان سب سے قطع نظر يہ دوحال سے خالى نہيں '' اگر وہ جھوٹا ہے تو جھوٹ اس كا خود ہى دامن گير ہوگا اور اگر سچا ہے تو كم ازكم جس عذاب سے تمہيں ڈرايا گيا ہے وہ كچھ نہ كچھ تو تمہارے پاس پہنچ ہى جائےگا''_(۳)

يعنى اگر وہ جھوٹا ہے جھوٹ كے پائوں نہيں ہوتے ، آخركار ايك نہ ايك دن اس كا پول كھل جائے گا اور وہ اپنے جھوٹ كى سزا پالے گا ليكن يہ امكان بھى تو ہے كہ شايد وہ سچا ہو اور خدا كى جانب سے بھيجا گيا ہو تو پھر ايسى صورت ميں اس كے كئے ہوئے وعدے كسى نہ كسى صورت ميں وقوع پذير ہوكررہيں گے لہذا اس كا قتل كرنا عقل وخرد سے كو سوں دورہے _

____________________

(۱)سورہ مومن آيت۲۸

(۲)سورہ مومن آيت ۲۸

(۳)سورہ مومن ۲۸

۳۳۱

اس سے يہ نتيجہ نكلا، ''االلہ تعالى مسرف اور جھوٹے كى ہدا يت نہيں فرماتا''_(۱)

اگر حضرت موسى تجاوزو اسراف ودروغ كو اختيار كرتے تو يقينااللہ تعالى كى ہدايت حاصل نہ كرتے اور اگر تم بھى ايسے ہى ہوگئے تو اس كى ہدايت سے محروم ہوجائوگے _

مومن آل فرعون نے اس پر ہى اكتفاء نہيں كى بلكہ اپنى گفتگو كو جارى ركھا، دوستى اور خير خواہى كے انداز ميں ان سے يوں گويا ہوا : اے ميرى قوم آج مصر كى طويل وعريض سرزمين پر تمہارى حكومت ہے اور تم ہر لحاظ سے غالب اور كامياب ہو، اس قدر بے انداز نعمتوں كا كفران نہ كرو، اگر خدائي عذاب ہم تك پہنچ گيا تو پھر ہمارى كون مدد كرے گا ''_(۲)

ظاہر اً اس كى يہ باتيں '' فرعون كے ساتھيوں '' كے لئے غير موثر ثابت نہيں ہوئيں انہيں نرم بھى بنا ديا اور ان كے غصے كو بھى ٹھنڈا كرديا _

ليكن يہاں پر فرغون نے خاموشى مناسب نہ سمجھى اس كى بات كاٹتے ہوئے كہا: بات وہى ہے جو ميں نے كہہ دى ہے_''جس چيز كا ميں معتقد ہوں اسى كا تمہيں بھى حكم ديتا ہوں ميں اس بات كا معتقد ہوں كہ ہر حالت ميں موسى كو قتل كردينا چاہئے اس كے علاوہ كوئي اور راستہ نہيں ہے اور ميں تو صرف تمہيں صحيح راستہ كى طرف راہنمائي كرتا ہوں ''_(۳)

ميں تمہيں خبردار كرتا ہوں

اس دور ميں مصر كے لوگ ايك حدتك متمدن اور پڑھے لكھے تھے انہوں نے قوم نوح، عاد اور ثمود جيسى گزشتہ اقوام كے بارے ميں مو رخين كى باتيں بھى سن ركھى تھيں اتفاق سے ان اقوام كے علاقوں كا اس علاقے سے زيادہ فاصلہ بھى نہيں تھا يہ لوگ ان كے دردناك انجام سے بھى كم وبيش واقفيت ركھتے تھے _

لہذا مو من آل فرعون نے موسى عليہ السلام كے قتل كے منصوبے كى مخالفت كى اس نے ديكھا كہ

____________________

(۱)سورہ مومن آيت ۲۸

(۲)سورہ مومن آيت۲۹

(۳)سورہ مومن آيت۲۹

۳۳۲

فرعون كو زبردست اصرار ہے كہ وہ موسى كے قتل سے باز نہيں آئے گا، اس مرد مو من نے پھر بھى ہمت نہ ہارى اور نہ ہى ہارنى چاہئے تھى لہذا اب كہ اس نے يہ تدبير سوچى كہ اس سركش قوم كو گزشتہ اقوام كى تاريخ اور انجام كى طرف متوجہ كرے شايد اس طرح سے يہ لوگ بيدارہوں اور اپنے فيصلے پر نظر ثانى كريں قرآن كے مطابق اس نے اپنى بات يوں شروع كى اس باايمان شخص نے كہا:'' اے ميرى قوم ، مجھے تمہارے بارے ميں گزشتہ اقوام كے عذاب كے دن كى طرح كا خوف ہے _''(۱)

پھر اس بات كى تشريح كرتے ہوئے كہا :''ميں قوم نوح(ع) ، عاد، ثمود اور ان كے بعد آنے والوں كى سى برى عادت سے ڈرتا ہوں ''_(۲)

ان قوموں كى عادت شرك،كفر اور طغيان وسركشى تھى اور ہم ديكھ چكے ہيں كہ ان كا كيا انجام ہوا ؟ كچھ تو تباہ كن طوفانوں كى نذر ہوگئيں ، كچھ وحشت ناك جھگڑوں كى وجہ سے برباد ہوئيں ، كچھ كو آسمانى بجلى نے جلاكر راكھ كرديا اور كچھ زلزلوں كى بھينٹ چڑھ كر صفحہ ہستى سے مٹ گئيں _كيا تم يہ نہيں سمجھتے كہ كفراور طغيان پر اصراركى وجہ سے تم بھى مذكورہ عظيم بلائوں ميں سے كسى ايك كا شكار ہوسكتے ہو؟ لہذا مجھے كہنے دو كہ مجھے تمہارے بارے ميں بھى اس قسم كے خطرناك مستقبل كا انديشہ ہے _ آيا تمہارے پاس اس بات كا كوئي ثبوت ہے كہ تمہارے كردار اور افعال ان سے مختلف ہيں ؟ آخران لوگوں كا كيا قصور تھا كہ وہ اس طرح كے بھيانك مستقبل سے دوچار ہوئے كيا اس كے سوا كچھ اور تھا كہ انھوں نے خدا كے بھيجے ہوئے پيغمبر وں كى دعوت كے خلاف قيام كيا، ان كى تكذيب كى بلكہ انہيں قتل كرڈالا_

ليكن يادركھو جو مصيبت بھى تم پر نازل ہوگى خود تمہارے كئے كى سزا ہوگى كيونكہ '' خدا اپنے بندوں پر ظلم نہيں كرنا چاہتا_''(۳) پھر كہتا ہے : اے ميرى قوم ميں تمہاريے لئے اس دن سے ڈرتا ہوں جس دن لوگ ايك دوسرے كو پكاريں گے ليكن كوئي مدد نہيں كرے گا''_(۴)

____________________

(۱)سورہ مومن آيت ۳۱

(۲)سورہ مومن آيت ۳۱

(۳)سورہ مومن آيت۳۱

(۴)سورہ مومن آيت۳۲

۳۳۳

ان بيانات كے ذريعے مومن آل فرعون نے جو كچھ كرنا تھا كردكھايا اس نے فرعون كو جناب موسى كے قتل كى تجويز بلكہ فيصلے كے بارے ميں ڈانواڈول كرديا يا كم از كم اسے ملتوى كرواديا اسى التواء سے قتل كا خطرہ ٹل گيا اور يہ تھا اس ہوشيار، زيرك اور شجاع مرد خدا كا فريضہ جو اس نے كماحقہ ادا كرديا جيسا كہ بعد كى گفتگوسے معلوم ہوگا كہ اس سے اس كى جان كے بھى خطرے ميں پڑنے كا انديشہ ہوگيا تھا _

آخرى بات

پانچويں اور آخرى مرحلے پر مومن آل فرعون نے تمام حجاب الٹ ديئے اور اس سے زيادہ اپنے ايمان كو نہ چھپاسكا ،وہ جو كچھ كہنا چاہتا تھا كہہ چكا اور فرعون والوں نے بھى ،جيسا كہ آگے چل كر معلوم ہوگا، اس كے بارے ميں بڑا خطرناك فيصلہ كيا _ خداوند عالم نے بھى اپنے اس مومن اور مجاہد بندے كو تنہا نہيں چھوڑا جيسا كہ قران نے بيان كياہے : ''خدا نے بھى اسے ان كى ناپاك چالوں اور سازشوں سے بچاليا ''_(۱)

اس كى تعبير سے واضح ہوتا ہے كہ فرعونيوں نے اس كے بارے ميں مختلف سازشيں اور منصوبے تيار كرركھے تھے _

ليكن وہ منصوبے كيا تھے ؟ قرآن نے اس كى تفصيل بيان نہيں كي، ظاہر ہے كہ مختلف قسم كى سزائيں اذيتيں اور آخركار قتل اور سزائے موت ہوسكتى ہے ليكن خداوندعالم كے لطف وكرم نے ان سب كو ناكام بناديا _

چنانچہ بعض تفسيروں ميں ہے كہ وہ ايك مناسب موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے موسى عليہ السلام تك پہنچ گيا اور اس نے بنى اسرائيل كے ہمرا ہ دريائے نيل كو عبور كيا، نيز يہ بھى كہا گيا ہے كہ جب اس كے قتل كا منصوبہ بن چكا تو اس نے اپنے آپ كو ايك پہاڑ ميں چھپاليا اور نگاہوں سے اوجھل ہوگيا _

يہ دونوں روايات آپس ميں مختلف نہيں ہيں كيونكہ ممكن ہے كہ پہلے وہ شہر سے مخفى ہوگيا ہو اور پھر بنى اسرائيل سے جا ملاہو _

____________________

(۱)سورہ مومن آيت۴۵

۳۳۴

موسى كے خدا كى خبرلاتا ہوں

اگرچہ مومن آل فرعون كى باتوں نے فرعون كے دل پر اس قدر اثر كيا كہ وہ موسى عليہ السلام كے قتل سے تو باز آگيا ليكن پھر بھى غرور كى چوٹى سے نيچے نہ اترا اور اپنى شيطنت سے بھى بازنہ آيا اور نہ ہى حق بات قبول كرنے پر آمادہ ہوا كيونكہ فرعون كے پاس اس بات كى نہ توصلاحيت تھى اور نہ ہى لياقت لہذا اپنے شيطنت آميز اعمال كو جارى ركھتے ہوئے اس نے ايك نئے كام كى تجويز پيش كى اور وہ ہے آسمانوں پر چڑھنے كے لئے ايك بلندو بالابرج كى تعمير تاكہ اس پر چڑھ كر موسى كے خدا كى خبر لے آئے _

فرعون نے كہا: اے ہامان : ميرے لئے ايك بلند عمارت تيار كروتاكہ ميں اسباب وذرائع تك پہنچ سكوں ايسے اسباب وذرائع جو مجھے آسمانوں تك لے جاسكيں تاكہ ميں موسى كے خدا سے باخبر ہوسكوں ہر چند كہ ميں گمان كرتاہوں كہ وہ جھوٹاہے _

جى ہاں اس قسم كے برے اعمال فرعون كى نظر ميں مزين كرديئے گئے تھے اور انھوں نے اسے راہ حق سے روك ديا تھا ،ليكن فرعون كى سازش اور چالوں كا انجام نقصان اور تباہى كے سوا كچھ نہيں ''_(۱)

سب سے پہلى چيز جو يہاں پر نظر آتى ہے وہ يہ ہے كہ آخر اس كام سے فرعون كا مقصد كيا تھا؟ آياوہ واقعاً اس حدتك احمق تھا كہ گمان كرنے لگا كہ موسى كا خدا آسمان ميں ہے ؟ بالفرض اگر آسمان ميں ہو بھى تو آسمان سے باتيں كرنے والے پہاڑوں كے ہوتے ہوئے اس عمارت كے بنانے كى كيا ضرورت تھى جو پہاڑوں كى اونچائي كے سامنے بالكل ناچيز تھي؟ اور كيا اس طرح سے وہ آسمان تك پہنچ بھى سكتا تھا؟

يہ بات تو بہت ہى بعيد معلوم ہوتى ہے كيونكہ فرعون مغرور اور متكبر ہونے كے باوجود سمجھ دار اور سياستداں شخص تو ضرورتھا جس كى وجہ سے اس نے ايك عظيم ملت كو اپنى زنجيروں ميں جكڑا تھا اور بڑے زور دار طريقے سے اس پر حكومت كرتارہا لہذا اس قسم كے افراد كى ہر ہر بات اور ہر ہر حركت شيطانى حركات

____________________

(۱)سورہ مومن آيت۳۷

۳۳۵

وسكنات كى آئينہ دار ہوتى ہيں لہذا سب سے پہلے اس كے اس شيطانى منصوبے كا تجزيہ وتحليل كرنا چاہئے كہ آخر ايسى عمارت كى تعمير كا مقصد كيا تھا ؟

بظاہر يہ معلوم ہوتا ہے كہ فرعون نے ان چند مقاصد كے پيش نظر ايسا اقدام كيا :

۱_وہ چاہتا تھا كہ لوگوں كى فكر كو مصروف ركھے موسى عليہ السلام كى نبوت اور بنى اسرائيل كے قيام كے مسئلہ سے ان كى توجہ ہٹانے كے لئے اس نے يہ منصوبہ تيار كيا، بعض مفسرين كے بقول يہ عمارت ايك نہايت ہى وسيع وعريض زمين ميں كھڑى كى گئي جس پر پچاس ہزار مزدور كام كرنے لگے اس تعميرى منصوبے نے دوسرے تمام مسائل كو بھلاديا جوں جوں عمارت بلند ہوتى جاتى تھى توں توں لوگوں كى توجہ اس كى طرف زيادہ مبذول ہوتى تھى ہر جگہ اور ہر محفل ميں نئي خبر كے عنوان سے اس كے چرچے تھے اس نے وقتى طور پر جادو گروں پر موسى عليہ السلام كى كاميابى كو جو كہ فرعون اور فرعونيوں كے پيكر پر ايك كارى ضرب تھى لوگوں كے ذہنوں سے فراموش كرديا _

۲_ وہ چاہتا تھا كہ اس طرح سے زحمت كش اور مزوور طبقے كى جزوى مادى اور اقتصادى امداد كرے اور عارضى طور پر ہى سہى بيكار لوگوں كے لئے كام مہيا كرے تاكہ تھوڑاسا اس كے مظالم كو فراموش كرديں اور اس كے خزانے كى لوگوں كو زيادہ سے زيادہ احتياج محسوس ہو _

۳_پروگرام يہ تھا كہ جب عمارت پايہ تكميل كو پہنچ جائے، تو وہ اس پر چڑھ كر آسمان كى طرف نگاہ كرے اور شايد چلہ كمان ميں ركھ كر تير چلائے اور وہ واپس لوٹ آئے تو لوگوں كو احمق بنانے كے لئے كہے كہ موسى كا خدا جو كچھ بھى تھا آج اس كا خاتمہ ہو گيا ہے اب ہر شخص بالكل مطمئن ہوكر اپنے اپنے كام ميں مصروف ہوجائے _

وگرنہ فرعون كے لئے تو صاف ظاہر تھا كہ اس كى عمارت جتنى بھى بلند ہو چند سو ميڑسے زيادہ تو اونچى نہيں جاسكتى تھى جبكہ آسمان اس سے كئي گنا بلند اور اونچے تھے، پھريہ كہ اگر بلند ترين مقام پر بھى كھڑے ہوكر آسمان كى طرف ديكھا جائے تو اس كا منظر بغير كسى كمى بيشى كے ويسے ہى نظر آتا ہے جيسے سطح زمين سے _

۳۳۶

يہ بات بھى قابل توجہ ہے كہ فرعون نے يہ بات كركے درحقيقت موسى عليہ السلام كے مقابلے سے ايك قسم كى پسپائي اختيار كى جبكہ اس نے كہا كہ ميں موسى كے خدا كے بارے ميں تحقيق كرنا چاہتاہوں '' فاطلع الى الہ موسى '' اور ساتھ ہى يہ بھى كہتا ہے كہ'' ہر چند كہ ميں اسے جھوٹا گمان كرتا ہوں '' اس طرح سے وہ يقين كى منزل سے ہٹ كر شك اور گمان كے مرحلے تك نيچے آجاتاہے _

اس مسئلے ميں مفسرين كے ايك گروہ نے (مثلاً فخر رازى اور آلوسى نے ) يہ سوال بھى اٹھايا ہے كہ آيا : فرعون نے اپنا مجوزہ بلند مينار تعمير كرايا تھا يانہيں ؟

ان مفسرين كا ذہن اس طرف اس لئے منتقل ہوا كہ مينار كى تعمير كا كام كسى طرح بھى عاقلانہ نہ تھا كيا اس عہد كے لوگ كبھى بلند پہاڑوں پر نہيں چڑھے تھے ؟ اور انھوں نے آسمان كے منظر كو ويسا ہى نہيں ديكھا تھا جيسا كہ وہ زمين سے نظرآتا ہے ؟كيا انسان كا بنايا ہوا مينار پہاڑسے زيادہ اونچا ہوسكتا ہے ؟ كيا كوئي احمق بھى يہ يقين كرسكتا ہے كہ ايسے مينار پر چڑھ كر آسمان كو چھوا جاسكتا ہے ؟

ليكن وہ مفسرين جنہوں نے يہ اشكا لات پيدا كئے ہيں ان كى توجہ ان نكات كى طرف نہيں گئي كہ اول تو ملك مصر كو ہستانى نہيں دوم يہ كہ انہوں نے اس عہد كے لوگوں كى سادہ لوحى كو فراموش كرديا كہ ان سيدھے سادھے لوگوں كو ايسے ہى مسائل سے غافل كيا جاسكتا تھا يہاں تك كہ خود ہمارے زمانے جسے عصر علم ودانش كہا جاتاہے، لوگوں كى توجہ اصل مسائل سے ہٹانے كے لئے كيسے كيسے مكرو فريب اور حيلہ سازياں كى جاتى ہيں _

پچاس ہزار معمار برج بناتے ہيں

بہر كيف _بعض تواريخ كے بيان كے مطابق، ہامان نے حكم ديا كہ ايسا محل اور برج بنانے كے لئے زمين كا ايك وسيع قطعہ انتخاب كريں اور اس كى تعمير كے لئے پچاس ہزار معمار اور مزدور روانہ كردے اور اس عمارت كے واسطے مٹيريل فراہم كرنے كے لئے ہزاروں آدمى مقرر كئے گئے اس نے خزانہ كا منہ كھول ديا اور اس مقصد كے لئے كثير رقم خرچ كى يہاں تك كہ تمام ملك مصر ميں اس عظيم برج كى تعمير كى شہرت ہوگئي _

۳۳۷

يہ عمارت جس قدر بھى بلند سے بلندتر، ہوتى جاتى تھى لوگ اتنے ہى زيادہ اسے ديكھنے آتے تھے اور منتظر تھے كہ ديكھئے فرعون يہ عمارت بنا كر كيا كرتا ہے ؟

يہ عمارت اتنى بلند ہوگئي كہ اس سے دوردور تك اطراف وجوانب كا ميدان نظر آنے لگا بعض مو رخين نے لكھا ہے كہ معماروں نے اس كى مارپيچ سيڑھياں ايسى بنائي تھيں كہ آدمى گھوڑے پر سوار ہوكر اس پر چڑھ سكتا تھا _

ميں نے موسى عليہ السلام كے خدا كو مارا ڈالا

جب وہ عمارت پايہ تكميل كو پہنچ گئي اور اسے مزيد بلند كرنے كا كوئي امكان نہ رہا تو ايك روز فرعون پورى شان وشوكت سے وہاں آيا اور بذات خود برج پر چڑھ گيا جب وہ برج كى چوٹى پر پہنچا اور آسمان كى طرف نظر اٹھائي تو اسے آسمان ويسا ہى نظر آيا جيسا كہ وہ زمين سے ديكھا كرتا تھا اس منظر ميں ذرا بھى تغيرو تبديلى نہ تھى _

مشہور يہ ہے كہ اس نے مينار پر چڑھ كے كمان ميں تير جوڑا اور آسمان كى طرف پھنكا يا تووہ تير كسى پرندے كے لگايا پہلے سے كوئي سازش كى گئي تھى كہ تير خون آلود واپس آيا تب فرعون وہاں سے نيچے اترآيا اور لوگوں سے كہا :جائو، مطمئن رہو اور كسى قسم كى فكر نہ كرو ميں نے موسى كے خدا كو مارڈالاہے _

يہ بات حتمى طور پر كہى جاسكتى ہے كہ سادہ لوحوں اور اندھى تقليد كرنے والوں كے ايك گروہ نے او ران لوگوں نے جن كى آنكھيں اور كان حكومت وقت كے پروپيگنڈے سے بند ہوگئے تھے، فرعون كے اس قول كا يقين كرليا ہوگا اور ہر جگہ اس خبر كو عام كيا ہوگا اور مصر كى رعايا كو غافل ركھنے كا ايك اور سبب پيدا ہوگا _

مفسرين نے يہ بھى لكھا ہے كہ يہ عمارت دير تك قائم نہيں رہى (اور اسے رہنا بھى نہ چاہئے تھا) تباہ ہوگئي بہت سے لوگ اس كے نيچے دب كے مرگئے اس سلسلے ميں اہل قلم نے اور بھى طرح طرح كى داستانيں لكھى ہيں ليكن ان كى صحت كى تحقيق نہ ہوسكى اس لئے انھيں قلم زد كرديا گيا ہے _

۳۳۸

بيدار كرنے والى سزائيں

ايك كلى قانون تمام پيغمبروں كے لئے يہ تھا كہ جب ان كو لوگوں كى مخالفت كا سامنا ہو اور وہ كسى طرح سے راہ راست پر نہ آئيں تو خدا ان كو بيدار كرنے كے لئے مشكلات ومصائب ميں گرفتار كرتا تھا تاكہ وہ اپنے ميں نياز مندى اور محتاجى كا احساس كريں ، اور ان كى فطرت توحيد جو آرام وآسائش كى وجہ سے غفلت كے پردوں ميں چلى گئي ہے دوبارہ ابھر آئے اوران كو اپنى ضعف وناتوانى كا اندازہ ہو اور اس قادر وتوانا ہستى كى جانب متوجہ ہوں جو ہر نعمت و نقمت كا سر چشمہ ہے _

قرآن ميں اس مطلب كى طرف اشارہ فرمايا گيا ہے : ہم نے آل فرعون كو قحط، خشك سالى اور ثمرات كى كمى ميں مبتلا كيا كہ شاہد متوجہ اور بيدار ہوجائيں(۱)

باوجود يكہ قحط سالى نے فرعونيوں كو گھير ليا تھا ليكن مذكورہ بالابيان ميں صرف فرعون كے مخصوصين كا ذكر كيا گيا ہے مقصد يہ ہے كہ اگر يہ بيدار ہوگئے تو سب لوگ بيدار ہوجائيں گے كيونكہ تمام لوگوں كى نبض انہى كے ہاتھوں ميں ہے يہ چاہيں تو بقيہ افراد كو گمراہ كريں يا ہدايت كريں _

اس نكتہ كو بھى نظر انداز نہيں كرنا چاہئے كہ خشك سالى اہل مصر كے لئے ايك بلائے عظيم شمار ہوتى تھى كيونكہ مصر پورے طور سے ايك زرعى مملكت تھى اس بناء پر اگر زراعت نہ ہوتو اس كا اثر ملك كے تمام افراد پر پڑتا ہے ليكن مسلمہ طور پر فرعون اور اس كے افراد چونكہ ان زمينوں كے مالك اہلى تھے اس لئے فى الحقيقت وہ سب سے زيادہ اس سے متاثر ہوئے تھے _

ضمناً يہ بھى معلوم ہوا كہ يہ خشك سالى كئي سال تك باقى رہى كيونكہ'' سنين'' جمع كا صيغہ ہے _

ليكن آل فرعون، بجائے اس كے كہ ان الہى تنبيہوں سے نصيحت ليتے اور خواب خرگوش سے بيدار ہوتے انہوں نے اس سے سوء استفادہ كيا اور ان حوادث كى من مانى تفسير كي، جب حالات ان كے

____________________

(۱)سورہ اعراف ۱۳۰

۳۳۹

منشا كے مطابق ہوتے تھے تو وہ راحت وآرام ميں ہوتے تھے اور كہتے كہ يہ حالات ہمارى نيكى ولياقت كى وجہ سے ہيں : ''فى الحقيقت ہم اس كے اہل ولائق ہيں ''_

ليكن جس وقت وہ مشكل ومصيبت ميں گرفتار ہوتے تھے تو اس كو فوراً موسى عليہ السلام اور ان كے ساتھيوں كے سرباندھ ديتے تھے'' اور كہتے تھے كہ يہ ان كى بد قدمى كى وجہ سے ہوا ہے _

ليكن قرآن كريم ان كے جواب ميں كہتا ہے : '' ان كى بدبختيوں اور تكليفوں كا سر چشمہ خدا كى طرف سے ہے خدا نے يہ چاہا ہے كہ اس طرح ان كو ان كے اعمال بد كى وجہ سے سزادے ليكن ان ميں سے اكثر اس كو نہيں جانتے ''_(۱)

مختلف اور پيہم بلائوں كا نزول

قرآن ميں ان بيدار كنندہ درسوں كا ايك اور مرحلہ بيان كيا گيا ہے جو خدا نے قوم فرعون كو ديئے جب مرحلہ اول يعنى قحط، خشك سالى اور مالى نقصانات نے ان كو بيدار نہ كيا تو دوسرے مرحلہ كى نوبت پہنچى جو پہلے مرحلہ سے شديد تر تھا اس مرتبہ خدا نے ان كو پے درپے ايسى بلائوں ميں جكڑا جو ان كو اچھى طرح سے كچلنے والى تھيں مگر افسوس ان كى اب بھى آنكھيں نہ كھليں _

پہلے ان بلائوں كے نزول كے مقدمہ كے طور پر فرمايا گيا ہے : انہوں نے موسى كى دعوت كے مقابلے ميں اپنے عناد كو بدستور باقى ركھا اور ''كہا كہ تم ہر چند ہمارے لئے نشانياں لائو اوران كے ذريعے ہم پر اپنا جادو كرو ہم كسى طرح بھى تم پر ايمان نہيں لائيں گے''_(۲)

لفظ''آيت '' شايد انہوں نے ازراہ تمسخر استعمال كيا تھا ، كيونكہ حضرت موسى نے اپنے معجزات كو آيات الہى قرار ديا تھا ليكن انہوں نے سحر قرار ديا_

آيات كا لہجہ اور ديگر قرائن اس بات كے مظہر ہيں كہ فرعون كے پروپيگنڈوں كا محكمہ جو اپنے زمانے

____________________

(۱)سورہ اعراف ۱۳۱

(۲)سورہ اعراف آيت ۱۳۲

۳۴۰

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667