قصص القرآن-منتخب از تفسير نمونه

قصص القرآن-منتخب از تفسير نمونه   8%

قصص القرآن-منتخب از تفسير نمونه   مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 667

قصص القرآن-منتخب از تفسير نمونه
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 667 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 335302 / ڈاؤنلوڈ: 6151
سائز سائز سائز
قصص القرآن-منتخب از تفسير نمونه

قصص القرآن-منتخب از تفسير نمونه

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

ہم نے جو وقت طے کیا تھا ،اسی کے مطابق ہم اس کمرے میں داخل ہو گئے اور ہم نے بڑے آرام  سے کھال پر لکھی گئی قدیم توریت کی زیارت کی اور اس کا مطالعہ کیا۔اس میں ایک صفحہ مخصوص طور پر لکھا گیا تھا جو کہ بہت جاذب نظر تھا ۔جب ہم نے اس پر غور کیا تو ہم نے دیکھا کہ اس میں لکھا ہوا تھا''آخر ی زمانے میں عربوں میں ایک پیغمبر مبعوث ہو گا ''اس میں ان کی تمام خصوصیات اور اوصاف حسب و نسب کے لحاظ سے بیان کی گئیں تھیں نیز اس پیغمبر کے بارہ اوصیاء کے نام بھی لکھے گئے تھے ۔ میں نے اپنے بھائی سے کہا:بہتر یہ ہے کہ ہم یہ ایک صفحہ لکھ لیں اور اس پیغمبر کی جستجو کریں ۔ہم نے وہ صفحہ لکھ لیا اور ہم اس پیغمبر کے فریفتہ ہو گئے۔

اب ہماراذہن صرف خدا کے اسی پیغمبر کو تلاش کرنے کے بارے میں سوچتا تھا ۔لیکن  چونکہ ہمارے علاقے سے لوگوں کی کوئی آمد و رفت نہیں تھی اور رابطہ کرنے کا بھی کوئی انتظام نہیں تھا اس لئے ہمیں کوئی چیز بھی حاصل نہ ہوئی یہاں تک کہ کچھ مسلمان تاجر خرید و فروخت کے لئے ہمارے شہر آئے ۔

میں نے چھپ کر ان میں سے ایک شخص سے کچھ سوال پوچھے ،اس نے رسول اکرم(ص) کے جو حالات اورنشانیاں بیان کیں وہ بالکل ویسی ہی تھیں جیسی ہم نے توریت میں دیکھیں تھیں۔آہستہ آہستہ ہمیں دین اسلام کی حقانیت کا یقین ہونے لگا ۔لیکن ہم میں اس کے اظہار کرنے کی جرأت نہیں تھی ۔امید کا صرف ایک ہی راستہ تھا کہ ہم اس دیار سے فرار کر جائیں۔

میں نے اور میرے بھائی نے وہاں سے بھاگ جانے کے بارے میں بات چیت کی ۔ہم نے ایک دوسرے سے کہا:مدینہ یہاں سے نزدیک ہے ہو سکتا ہے کہ یہودی ہمیں گرفتار کر لیں بہتر یہ ہے کہ ہم مسلمانوں کے کسی دوسرے شہر کی طرف بھاگ جائیں۔

۱۲۱

ہم نے موصل و بغداد کا نام سن رکھا تھا ۔میرا باپ کچھ عرصہ پہلے ہی فوت ہوا تھا  اور انہوں نے اپنی اولاد کے لئے وصی اور وکیل معین کیا تھا ۔ہم ان کے وکیل کے پاس گئے اور ہم نے اس سے دو سواریاں اور کچھ نقدی پیسے لے لئے۔ہم سوار ہوئے اور جلدی سے عراق کا سفر طے کرنے لگے ۔ہم نے موصل کا پتہ پوچھا ۔لوگوں نے ہمیں اس کا پتہ بتایا ۔ہم شہر میں داخل ہوئے اور رات مسافروں کی قیامگاہ میں گزاری۔

جب صبح ہوئی تو اس شہر کے کچھ لوگ ہمارے پاس آئے اور انہوں نے کہا:کیا تم لوگ اپنی سواریاں فروخت کرو گے ؟ہم نے کہا :نہیں کیونکہ ابھی تک اس شہر  میں ہماری کیفیت معلوم نہیں ہے ۔ ہم نے ان کا تقاضا ردّ کر دیا۔آخر کار انہوں  نے کہا:اگر تم یہ فروخت نہیں کرو گے تو  ہم تم سے زبردستی لے لیں گے۔ہم مجبور ہو گئے اور ہم نے وہ سواریاں فروخت کر دیں۔ہم نے کہا یہ شہر رہنے کے قابل نہیں ،چلو بغداد چلتے ہیں۔

لیکن بغداد جانے کے لئے ہمارے دل میں ایک خوف سا تھا ۔کیونکہ ہمارا ماموں جو کہ یہودی اور ایک نامور تاجر تھا ،وہ بغداد ہی میں تھا ۔ہمیں یہ خوف تھاکہ کہیں اسے ہمارے بھاگ جانے کی اطلاع نہ مل چکی ہو  اور وہ ہمیں ڈھونڈ نہ لے۔

بہ ہر حال ہم بغداد میں داخل ہوئے اور ہم نے رات کو کاروان سرا میں قیام کیا ۔اگلی صبح ہوئی تو کاروان سرا کا مالک کمرے میں داخل ہوا ۔وہ ایک ضعیف شخص تھااس نے ہمارے بارے میں پوچھا ۔ ہم نے مختصر طور پر اپنا واقعہ بیان کیا اور ہم  نے اسے بتایا کہ ہم خیبر کے یہودیوں میں سے ہیں  اور ہم اسلام کی طرف مائل ہیں ہمیں کسی مسلمان عالم دین کے پاس لے جائیں جو آئین اسلام کے بارے میں ہماری رہنمائی کرے۔

۱۲۲

اس ضعیف العمر شخص کے ہونٹوں پر ہلکی سی مسکراہٹ نمودار ہوئی اور اس نے اپنے دونوں ہاتھ اپنی آنکھوں پر رکھتے ہوئے کہا:اطاعت،چلو بغداد کے قاضی کے گھر چلتے ہیں۔ہم اس کے ساتھ بغداد کے قاضی سے ملنے کے لئے چلے گئے ۔مختصر تعارف کے بعد ہم نے اپنا واقعہ ا ن سے بیان کیا اور ہم نے ان سے تقاضا کیا کہ وہ ہمیں اسلام کے احکامات سے روشناس کرئیں۔

انہوں نے کہا:بہت خوب؛پھر انہوں نے توحید اور اثبات توحید کے کچھ دلائل بیان کئے ۔پھر انہوں ے پیغمر اکرم(ص) کی رسالت اور آپ(ص) کے خلیفہ اور اصحاب کا تذکرہ کیا۔

انہوں نے کہا:آپ(ص)کے بعدعبداللہ بن ابی قحافہ آنحضرت(ص) کے خلیفہ ہیں۔

میں نے کہا:عبداللہ کون  ہیں؟میں نے توریت میں جو کچھ پڑھا یہ نام اس کے مطابق نہیں ہے!!

بغداد کے قاضی نے کہا:یہ وہ ہیں کہ جن کی بیٹی رسول اکرم(ص) کی زوجہ ہیں۔

ہم نے کہا:ایسے نہیں ہے؛کیونکہ ہم نے توریت میں پڑھا ہے کہ پیغمبر(ص) کا جانشین وہ ہے کہ رسول(ص) کی بیٹی جن کی زوجہ ہے۔

جب ہم نے اس سے یہ بات کہی توقاضی کے چہرے کا رنگ بدل گیا اور وہ قہر و غضب کے ساتھ کھڑا ہوا  اور اس نے کہا:اس رافضی کو یہاں سے نکالو۔انہوں نے مجھے اور میرے بھائی کو مارا اور وہاں سے نکال دیا ۔ہم کاروان سرا واپس آگئے ۔وہاں کا مالک بھی اس بات پر خفا تھا اور اس نے بھی ہم سے بے رخی اختیار کر لی۔

اس ملاقات اور قاضی سے ہونے والی گفتگو اور اس کے رویّہ کے بعد ہم بہت حیران ہوئے ۔ہمیں یہ معلوم نہیں تھا کہ کلمہ''رافضی''کیاہے؟رافضی کسے کہتے ہیں اور قاضی نے ہمیں کیوں رافضی کہا اور وہاں سے نکال دیا؟

۱۲۳

میرے اور میرے بھائی کے درمیان ہونے والی یہ گفتگو آدھی رات تک جاری رہی  اور کچھ دیر کے لئے غمگین حالت میں سو گئے ۔ہم نے کاروانسرا کے مالک کو  آواز دی کہ وہ ہمیں اس ابہام سے نجات دے ۔شاید ہم قاضی کی بات نہیں سمجھے اور قاضی ہماری  بات نہیں سمجھ پائے۔

اس نے کہا:اگر تم لوگ حقیقت میں  آئین اسلام کے طلبگار ہو تو جو کچھ قاضی کہے اسے قبول کر لو۔

ہم نے کہا:یہ کیسی  بات ہے؟ہم اسلام کے لئے اپنا مال  ،گھر ،رشتہ دار سب کچھ چھوڑ چھاڑ کے آئے ہیں۔ہماری اس کے علاوہ ہمارا اورکوئی غرض نہیں ہے ۔

اس نے کہا:چلو میں  ایک بار پھرتمہیںقاضی کے پاس  لے جاتا ہوں۔لیکن کہیں اس کی رائے کے برخلاف کوئی بات نہ کہہ دینا۔ہم پھر قاضی کے گھر چلے گئے۔

ہمارے اس دوست نے کہا:آپ جو کہیں گے یہ قبول کریں گے۔

قاضی نے بات کرنا شروع کی  اور موعظہ و نصیحت کی ۔میںنے کہا:ہم دو بھائی اپنے وطن میں ہی مسلمان ہو گئے تھے  اور ہم اتنی دور دیار غیر میں اس لئے آئے ہیں تا کہ ہم اسلام کے احکامات سے آشنا ہو سکیں۔اس  کے علاوہ ہمارا اور کوئی مقصد نہیں  ہے۔اگر آپ اجازت دیں تو ہمارے کچھ سوال ہیں؟قاضی نے کہا:جو پوچھنا چاہو پوچھو۔

میں نے کہا:ہم نے صحیح اور قدیم توریت پڑھی ہے  اور اب میں جو باتیں کہنے لگا ہوں ہم نے یہ اسی کتاب سے ہی لکھی ہیں۔ہم نے پیغمبر آخر الزمان (ص)  اور آنحضرت(ص) کے خلفاء اور جانشینوں کے تمام نام،صفات  اور نشانیاںوہیں سے ہی لکھی ہیں۔جو ہمارے پاس ہے۔لیکن اس میں عبداللہ بن ابی قحافہ کے نام جیسا کوئی نام نہیں ہے۔

۱۲۴

قاضی نے کہا: پھر اس توریت میں کن اشخاص کے نام لکھیں ہیں؟

میں نے کہا:پہلے خلیفہ پیغمبر(ص) کے داماد اور آپ کے چچا زاد بھائی ہیں۔ابھی تک میری بات پوری نہیں ہوئی تھی کہ اس نے ہماری بدبختی کا طبل بجایا۔یہ بات سنتے ہی قاضی اپنی جگہ سے اٹھا   اور جہاں تک ہو سکا اس نے  اپنے جوتے سے میرے سر اور چہرے پر مارا اور میں مشکل سے جان چھڑا کر  وہاں سے بھاگا۔میرا بھائی مجھ سے بھی پہلے وہاں سے بھاگ نکلا۔

میں بغداد کی گلیوں میں راستہ بھول گیا ۔میں نہیں جانتا تھا کہ میں اپنے خون آلود سر اور چہرے کے ساتھ کہاں جاتا۔کچھ دیر میں چلتا گیا  یہاں تک کہ میں دریائے دجلہ کے کنارے پہنچاکچھ دیر کھڑا رہا لیکن میں  نے دیکھاکہ میرے پاؤں میں کھڑے رہنے کی ہمت نہیں ہے ۔میں بیٹھ گیااور اپنی مصیبت ، غربت،بھوک،خوف اور دوسری طرف سے اپنی تنہائی پررو رہا تھا اور افسوس کر رہا تھا۔

اچانک ایک جوان ہاتھ میں دو کوزے پکڑے ہوئے دریا سے پانی لینے کے لئے آیااس کے سر پر سفید عمامہ تھاوہ میرے پاس دریا کے کنارے بیٹھ گیا جب اس جوان نے میری حالت دیکھی تو انہوں  نے مجھ سے پوچھا:تمہیں کیا ہواہے؟میں نے کہا:میں مسافر ہوں اور یہاں مصیبت میں گرفتار ہو گیا ہوں ۔

انہوں  نے فرمایا:تم اپنا پورا واقعہ بتاؤ؟

میں نے کہا:میں خیبر کے یہودیوں میں سے تھا۔میں نے اسلام قبول کیا اور اپنے بھائی کے ساتھ ہزار مصیبتیں اٹھا کر یہاں آیا۔ہم اسلام کے احکام سیکھنا چاہتے تھے ۔لیکن انہوں نے مجھے یہ صلہ دیا اور پھر میں  نے اپنے زخمی سر اور چہرے کی طرف اشارہ کیا۔

۱۲۵

انہوں نے فرمایا:میں تم سے یہ پوچھتا ہوں کہ یہودیوں کے کتنے فرقے ہیں؟

میںنے کہا:بہت سے فرقے ہیں۔

انہوں نے فرمایا:اکہتر فرقے ہو چکے ہیں ۔کیا ان میں سے سب حق پر ہیں؟

میں نے کہا:نہیں

انہوںنے فرمایا:نصاریٰ کے کتنے فرقے ہیں؟

میں نے کہا:ان کے بھی مختلف فرقے ہیں۔

انہوںے فرمایا:بہتر فرقے ہیں ۔کیا ان میں سے بھی سب حق پر ہیں؟

میں نے کہا:نہیں

پھر انہوں نے فرمایا:اسی طرح اسلام کے بھی متعدد فرقے ہیں۔ان کے تہتر فرقے ہو چکے ہیں لیکں ان میں سے سے صرف ایک فرقہ حق پر ہے ۔

میں نے کہا:میں اسی فرقہ کی جستجو کر رہا ہوں اس کے لئے مجھے کیا کرنا  چاہئے؟

انہوں نے فرمایا: انہوں نے اپنے مغرب کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ اس طرف سے کاظمین جاؤ  اور پھر فرمایا:تم شیخ محمد حسن آل یاسین کے پاس جاؤ وہ تمہاری حاجت پوری کر دیں گے۔میں وہاں سے روانہ ہوا اور اسی لمحہ وہ جوان بھی وہاں سے غائب ہو گیا ۔ میں نے انہیں ادھر ادھردیکھنے کی کوشش کی لیکن وہ دکھائی نہ دیئے ۔ مجھے بہت تعجب ہوا ۔میں نے خود سے کہا:یہ جوان کون تھا اور کیا تھا؟کیونکہ گفتگو کے دوران  میں  نے توریت میں لکھی ہوئی پیغمبر اور ان کے اولیاء کے اوصاف کے بارے میں بات کی تو انہوں نے فرمایا:کیا تم یہ چاہتے ہو کہ میں تمہارے لئے وہ اوصاف بیان کروں؟

۱۲۶

میں نے عرض کیا: آپ ضرور بیان فرمائیں۔انہوں نے وہ اوصاف بیان کرنا شروع کیں  اور میرے دل میں یہ خیال آیا کہ جیسے خیبر  میں موجود وہ قدیم توریت انہوں نے ہی  لکھی ہو۔جب وہ میری نظروں سے اوجھل ہوئے تو میں سمجھ گیا کہ وہ کوئی الٰہی شخص ہیں  وہ کوئی عام انسان نہیں ہیں ۔لہذا مجھے ہدایت کا یقین ہو گیا۔

مجھے اس سے بہت تقویت ملی اور میں اپنے بھائی کو تلاش کرنے نکل پڑا ۔  بالآخر وہ مجھے مل گیا ۔ میں بار بار کاظمین اور شیخ محمد حسن آل یاسین کا نام دہرا رہا تھا تا کہ میں ان کا نام بھول نہ جاؤں ۔  میرے بھائی نے مجھ سے پوچھا کہ یہ کون سی دعا ہے جو تم پڑھ رہے ہو؟میں نے کہا:یہ کوئی دعا نہیںہے  اور پھر میں نے اسے سارا واقعہ بتایا ۔وہ بھی بہت خوش ہوا۔

 آخر کار ہم لوگوں سے پوچھ پاچھ کے کاظمین پہنچ  گئے اور شیخ محمد حسن کے گھر چلے گے ۔ہم نے شروع سے آخر تک سارا وقعہ ان سے بیان کیا ۔وہ  شیخ کھڑے ہوئے اور بہت گریہ و زاری کی میری آنکھوں کو چوما اور کہا:ان آنکھوں سے تم نے حضرت ولی عصر عجل اللہ فرجہ الشریف کے جمال کی زیارت کی؟....( 1 )

وہ کچھ مدت تک شیخ محمد حسن کے مہمان رہے اور شیعیت کے حیات بخش عقائد سے آشنا ہوئے۔

جی ہاں!وہ اپنے پورے ذوق و شوق اور رغبت سے حق کی جستجو کے لئے نکلے جس کے لئے انہوں نے بہت تکلیفیں برداشت کیں ،اپنا گھر  اور وطن چھوڑا لیکن انہوں نے اپنی کوشش و جستجو کو جاری رکھا اور آخر کارانہیں حضرت امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشریف کی عنایات سے منزل مل گئی۔اب بھی بہت سے افراد حقیقت تشیع اور اس کی حقانیت سے آگاہ ہیں لیکن کچھ دوسرے خیالی امور کی وجہ سے وہ لوگ صادقانہ طور پر پرچم تشیع کے زیر سایہ نہیں آ تے اور اپنے مذہب سے دور رہتے ہیں ۔ہم نے یہ جو واقعہ ذکر کیا ہے یہ ایسے ہی افراد کے لئے ایک نمونہ ہے ۔انہیں یہ بات بھی جان لینی چاہئے:

--------------

[3]۔ معجزات و کرامات آئمہ اطہار علیھم السلام:175 (مرحوم آیت اللہ سید ہادی خراسانی)

۱۲۷

نابردہ  رنج گنج  میّسر  نمی  شود

مزد آن گرفت جان برادر کہ کار کرد

اگر وہ حقیقت کے متلاشی ہوں  تو انہیں ہر قسم کی زحمتیں اٹھانا ہوں گی اور مشکلات کو برداشت کرنا پڑے گا اور کل کے انتظار اور مستقبل کی  آرزو میں ہی نہ بیٹھے رہیں۔

مولائے کائنات حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں:

''اِیّٰاکُمْ وَالْاِیْکٰالُ بِالْمُنٰی فَاِنَّهٰا مِنْ بَضٰائِعِ الْعَجْزَةِ'' ( 1 )

اس کام سے  پرہیز کرو کہ اپنا کام آرزؤں کے سپرد کر دو ۔کیونکہ آرزؤں کی وجہ سے کام کو چھوڑ دینے کا سرمایہ عجز و ناتوانی ہے۔

ھر کہ دانہ نقشاند بہ زمستان درخاک

نا امیدی بود از دخل بہ تابستانش

اس بناء پر اہلبیت اطہار علیھم السلام کے حیات بخش مکتب کے عاشق اپنی امیدوں اور آرزؤں کو چھوڑکر حقیقت تک پہنچنے کے لئے جستجو اور کوشش کریں ۔  کیونکہ سعی وکوشش عظیم لوگوں کا عملی نعرہ اور حقیقی اسلام کی نشانی ہے۔

کام اور کوشش کے ذریعے اپنے ارادہ کو پختہ اور مضبوط کریں ۔ آپ کی کوشش آپ کی شخصیت اور ارادے کو بیان کرتی ہے ۔ کام اورکوشش کریں تا کہ بیکاری کے نتیجہ میں توہمات اور شیاطین کے نفوذ سے بچ سکیں۔

--------------

[1]۔ امالی شیخ طوسی:ج۲ص۱۹۳،بحار الانوار: ج۷۱ ص۱۸۸

۱۲۸

 آگاہانہ طور پر کام شروع کریں

امامت و ولایت کی پہلی کڑی حضرت امام علی علیہ السلام کام اور فعالیت کو علم و آگاہی کی بنیادی شرط قرار دیتے ہیں اور امت کی ہدایت کے لئے اپنے فرامین میں ارشاد فرماتے ہیں:انسان بصیر اور آگاہ دل کے ذریعہ ابتداء ہی سے یہ جان لیتاہے کہ اس کام کا نتیجہ اس کے نفع میں ہے یا یہ اس کے لئے نقصان کا باعث ہے ۔آنحضرت نے حقیقت یوں بیان فرمائی ہے:

''فَالنّٰاظِرُ بِالْقَلْبِ اَلْعٰامِلُ بِالْبَصَرِ ،یَکُوْنُ مُبْتَدَئُ عَمَلِهِ أَنْ یَعْلَمَ أَعْمُلُهُ عَلَیْهِ أَمْ لَهُ'' (1)

جو دل کے ذریعے دیکھیں اور بصیرت سے عمل کریں !وہ کام کے آغاز ہی سے جانتے ہیں کہ یہ کام ان نے لئے مضر ہے یا مفید ہے۔

چہ نیکو متاعی است کار آگہی     کزین نقد عالم مبادا تھی

ز عالم کسی سر بر آرد  بلند      کہ در کار عالم بود ھوشمند

--------------

[1]۔ نہج البلاغہ، خطبہ:154

۱۲۹

  کام کے شرائط اور اس کے موانع کو مدنظر رکھیں

اپنی فعالیت کےنتیجہ تک  پہنچنے کے لئے کام کے شرائط و اسباب کو آمادہ کریں اور اس کے لازمی امور کو انجام دیں ۔ پھر اپنی فعالیت کے نتیجہ اور ہدف تک پہنچنے کے لئے ثابت قدم رہیں ۔کیونکہ حضرت امیر المؤمنین علی علیہ السلام فرماتے ہیں:

''وَمَنْ لاٰ بَدَ الْاُمُوْرَ عَطِبَ'' (1)

جو کوئی بھی کام کے اسباب فراہم کئے بغیر سختیوں کو برداشت کرے ، وہ ہلاک  ہو جائے گا۔

ہر مفید پروگرام کو انجام دینے کے لئے اس کے شرائط و اسباب کو فراہم کرنے کے علاوہ  اس کے موانع سے آگاہ ہونا بھی ضروری ہے تاکہ موانع ہدف تک پہنچنے کی راہ میں حائل نہ ہوسکیں۔

اس بناء پر کام اور کوشش سے نتیجہ اخذ کرنے  کے لئے ایسے امور کو اپنی راہ سے نکال دیں جو آپ کے کام ،کوشش اور آپ کی فعالیت کے نتیجہ کو نیست و نابود کر دیں ۔ ورنہ ممکن ہے کہ کوئی ایک غلطی آپ کی ساری محنت پر پانی پھیر دے ۔ بہت سے افراد اپنے مقصد تک پہنچنے کے لئے طاقت طلب کام اور اہم ریاضتیں انجام دیتے ہیں

--------------

[1]۔ تحف العقول:88، بحار الانوار:ج۷۷ص۲۳۸

۱۳۰

لیکن اس کے باوجود انہیں اپنے کام میں رنج و مصیبت کے سوا کچھ نہیں ملتا۔

امیر المؤمنین حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں:

''رُبَّ سٰاعٍ فِیْمٰا یَضُرُّهُ'' (2)

بعض اوقات کوئی کسی کام میں کوشش کرتاہے لیکن اسے نقصان پہنچتا ہے۔

اگر ہم یہ چاہتے ہیں کہ ہم نے جو کام انجام دیا ہے وہ نتیجہ مند ہو اور اس کام کو انجام دینے کے لئے ہم نے جو تکالیف برداشت کی ہیں ، وہ بے نتیجہ نہ ہوں تو ہمیں اس کام کی راہ میں حائل رکاوٹوں اور موانع سے آگاہ ہونا چاہئے ۔ اب ہم بطور نمونہ اہم امور کی راہ میں حائل موانع میں سے دو اہم موانع بیان کرتے ہیں۔

--------------

[2]۔ نہج البلاغہ، مکتوب:31

۱۳۱

 کام اور کوشش کے موانع

1۔ بے ارزش کاموں کی عادت

کام اور کوشش کے موانع  میں سے ایک مورد  گذشتہ کاموں  کی عادت کا غلبہ ہے ۔یہ مؤثر کاموں کے نتیجہ بخش ہونے کی راہ میں بہت بڑی آفت کے طور پر شمار کیا جاتاہے  اور اس کے  بہت زیادہ تخریبی اثرات ہیں۔

اس لئے حضرت علی علیہ ا لسلام اسے ریاضتوں کی آفت اورفعالیت کو نابود کرنے والاسمجھتے ہیں اور فرماتے ہیں:

''آفَةُ الرِّیٰاضَةِ غَلَبَةُ الْعٰادَةِ'' (1)

عادت کا غلبہ پا جانا ریاضت کی آفت ہے۔

برے کاموں کی عادت مختلف امور کے لئے کام ا ور کوشش کے اثرات کو نیست ونابود کر دیتی ہے۔ جس طرح مختلف قسم کے بیکٹیریا اور جراثیم انسان کے بدن اور صحت کے لئے بہت نقصان دہ ہوتے ہیں اسی طرح ناپسندیدہ اور برے کاموں کی عادت اہم امور کے اثرات و نتائج کو نابود کردیتی ہے۔

ہمیں مختلف کاموں کے نتائج تک پہنچنے  اور اپنے کام اور کوشش کے نتیجہ بخش ہونے کے لئے نہ صرف فعالیت کرنی چاہئے بلکہ اپنی کوششوں کوبے ثمر کرنے والی بری عادتوں پر بھی غلبہ پانا چاہئے۔ اسی لئے حضرت امام علی بن ابیطالب علیہ السلام فرماتے ہیں:''اَلْفَضِیْلَةُ غَلَبَةُ الْعٰادَةِ'' (2) عادت پر غلبہ پانا ،فضیلت ہے۔

--------------

[1]۔ شرح غرر الحکم: ج3 ص104

[2]۔ شرح غرر الحکم:ج۱ص۹۷

۱۳۲

اس بناء پر انسانی فضیلتوں کے حصول کے لئے نہ صرف کام اور کوشش کرنی چاہئے بلکہ بری اور فضول عادتوں پر بھی غلبہ پانا چاہئے۔اگر کسی گندے پانی کے حوض میں کوئی صاف پانی ڈالا جائے تو صاف پانی ڈالنے سے گندے پانی کا حوض صاف  پانی میںتبدیل نہیں ہو گامگر یہ کہ اس میں اس قدر پانی ڈالا جائے کہ جو گندے پانی پر غلبہ پاجائے اور گندے پانی کو حوض سے نکال دیاجائے۔اس صورت میں حوض کا پانی صاف ہو جائے گا۔

بری عادتیں بھی اسی گندے پانی کی طرح ہیں جو انسان کے وجود کو گندہ کر دیتی ہیں  اور جب انسان صاحب فضیلت بن جائے تو وہ  اپنے وجود سےبری عادتوں کو پاک کرے اور ان پر غالب آئے ۔لیکن اگر اس پر  ناپسندیدہ عادتیں غالب آجائیں تو پھر نیک کام گندے پانی کے حوض میں  اسی صاف پانی کی طرح ہوں گے  جو اس پانی کی گندگی کو ختم نہیں کر سکتے۔بلکہ اس سے صاف پانی بھی گندہ ہو جائے گا۔پانی کی گندی کو ختم کرنے کے لئے اس میں اتنا صاف پانی ڈالا جائے تا کہ وہ گندے  پانی پر غلبہ پا جائے۔

ناپسندیدہ عادتوں کو برطرف کرنے کے لئے اس قدر اچھے کام انجام دیئے جائیں تا کہ خودسے بری عادتوں کا خاتمہ ہو جائے ورنہ اچھے اور پسندیدہ کاموں کا کوئی خاطر خواہ نتیجہ حاصل نہیں ہوگا۔

اس بناء پر اپنے کام اور فعالیت سے مثبت نتیجہ حاصل کرنے کے لئے اس کے موانع کو برطرف کریں  اور ان کے موانع میں سے ایک بے ارزش اور غلط کاموں کی عادت ہے۔

مذکورہ قصہ میں خیبر کے دو جوان اپنی گذشتہ حالت کی عادت سے دستبردار ہوئے  جس کی وجہ سے انہوں نے فضیلت کی راہ پر قدم رکھا اور وہ سعادت مند ہوئے۔

۱۳۳

2۔ تھکاوٹ اور بے حالی

کاموں کو انجام دینے کی راہ میں دوسرا مانع تھکاوٹ ہے۔ ہمیں تھکاوٹ کی وجہ  سے کام کو چھوڑ نہیں دینا چاہئے کیونکہ بہت سے موارد میں تھکاوٹ جھوٹی ہوتی ہے نہ کہ واقعی۔ایسے موارد میں ہوشیاری سے تھکاوٹ کو ختم کرنا چاہئے اور جب حقیقت میں تھک جائیں تو کام میں تبدیلی کر سکتے ہیں لیکن بیکار نہیں بیٹھنا چاہئے۔

مولائے کائنات حضرت علی بن ابیطالب  علیہ السلام اپنی وصیت میں حضرت امام حسین علیہ السلام سے فرماتے ہیں:

''بُنََّاُوْصِیْکَ.....بِالْعَمَلِ فِی النَّشٰاطِ وَالْکَسْلِ'' (1)

 اے میرے بیٹے! میں تمہیں  نشاط اور کسالت میں کام کرنے کی وصیت کرتا ہوں ۔

اس وصیت سے یہ استفادہ کیا جاتا ہے کہ اگر انسان کسی کام سے تھک جائے تو اسے تھکاوٹ کی وجہ سے بیکار نہیں بیٹھناچاہئے بلکہ اسے اس وقت کوئی دوسراکام کرنا چاہئے کیونکہ کام میں تبدیلی کے   باعث انسان کی تھکن دور ہو جاتی ہے ۔

اس بناء پر تھکاوٹ کی وجہ سے بیکار بیٹھ جانے کے بجائے کام میں تحوّل ، تبدیلی اور تنوع سے اپنے کام اور فعالیت کو جاری رکھیں اور خود سے تھکاوٹ کو دور کریں۔

--------------

[1]۔ تحف العقول:88، بحار الانوار: ج77 ص238

۱۳۴

پس مولا امیر المؤمنین حضرت امام علی علیہ السلام کے فرمان سے استفادہ کرتے ہوئے تھکاوٹ کا بہانہ بنا کر کام کو چھوڑ نہیں دینا چاہئے۔

بہ رنج اندرست ای خرد مند گنج          نیابد کسی گنج نابردہ رنج

چو کاھل بود مردِ  بُرنا  بہ  کار             از او سیر گردد دل روز گار

حضرت امام علی بن ابیطالب علیہ السلام کے کلام سے ایک اوربہترین نکتہ بھی استفادہ ہوتاہے  اور وہ یہ ہے کہ تھکاوٹ جیسی بھی ہو(چاہے وہ مسلسل ایک ہی کام کی وجہ سے ہو یا کام کی سختی کی وجہ سے ہو یا پھر لوگوں کی عدم توجہ کی وجہ سے ہو) اسے کام کو ترک کرنے کا بہانہ قرار نہیں دے سکتے کیونکہ ہم نے جو کام منتخب کیا ہے اگر وہ دین کے لحاظ سے صحیح اور پسندیدہ ہو تو اسے لوگوں کی باتوں کی وجہ سے چھوڑ کر ناامید نہیں بیٹھنا چاہئے بلکہ اس کے رنگ کو بدل دیں اور اسے ایک نئی  شکل دیں۔

دیکھئے کہ مرحوم محدث نوری نے کس طرح لوگوں کی باتوں پر کان نہیں دھرے اور کتابوں کے دو قلمی نسخوں کے لئے اپنی تلاش کو جاری رکھا۔

۱۳۵

 دو قلمی نسخوں کے لئے تلاش اور توسل

مرحوم سید اسد اللہ اصفہانی کہتے ہیں:ایک دن میں محدث نوری کے ساتھ کربلا کی زیارت سے مشرّف ہوا ۔ راستہ میں محدث نوری نے دو کتابوں کے نام  لئے اور فرمایا:مجھے یہ دونوں کتابیں بہت پسند ہیں لیکن اب تک اپنی تمام تر کوشش کے باوجود مجھے یہ دونوں کتابیں نہیں ملیں  لیکن اس سفر میںمجھے وہ کتابیں سید الشہداء حضرت امام حسین علیہ السلام سے مل جائیں گی۔

انہوں نے یہ بات چند مرتبہ تکرار کی یہاں تک کہ ہم کربلا میں داخل ہو گئے ۔ہم حضرت امام حسین علیہ  السلام کے حرم کی زیارت سے مشرّف ہوئے ۔زیارت کے بعد ہم باہر آئے تو عورتوں والی جگہ کے پاس ہم نے ایک عورت کو دیکھا ۔اس کے ہاتھ میں دو کتابیں تھیں ۔

محدث نوری نے کہا :یہ دونوں کتابیں کون سی ہیں؟اس عورت نے کہا:یہ دونوں برائے فروخت ہیں۔ہم نے ان کتابوں کو دیکھا تو وہ وہی دو کتابیں تھیں جن کی ہمیں تلاش تھی۔

محدث نوری نے پوچھا:ان کتابوں کا ہدیہ کتنا ہے؟

اس عورت نے کہا:بائیس قران۔

محدث نوری نے مجھ سے کہا:تمہارے پاس جتنے پیسے ہیں دے دو۔ہمارے پاس ملا کے چھ قران سے زیادہ نہ ہوئے ۔ہم نے وہ پیسے اس عورت کو دے دئیے ۔

۱۳۶

میں نے خود سے کہا:ہم ابھی آئے اور اب تک کھانا بھی نہیں کھایا اورسارے پیسے ان کتابوں کے لئے دے دیئے ہیںلیکن اب ہم کتابوں کے بقیہ پیسے کہاں سے دیں گے؟

پھر انہوں نے اس عورت سے کہا:ہمارے ساتھ آؤ ۔ہم بازار گئے انہوں نے اپنا عمامہ ،عبا اور قبا بیچ ڈالی !لیکن اسکے باوجود بھی پیسے کم تھے ۔پھر انہوں نے اپنا جوتا بھی بیچ دیا ۔بالآخر بائیس قران پورے ہو گئے اور ہم نے وہ پیسے اس عورت کو دیئے

اب اس بزرگوار کیپاس قمیض شلوار اور زیر جامہ کے سوا کچھ بھی نہیں تھا !میں  نے کہا:مولانا آپ نے اپنا یہ کیا حال کر لیا؟ انہوں  نے فرمایا:یہ بہت آسان ہے ہم تو درویش ہیں !ہم اسی حالت میں صحن میں داخل ہوئے اورہماری کچھ دوستوں سے ملاقات ہوئی ۔وہ گئے اور لباس لے کر آئے اور انہوں نے وہ لباس پہنا۔

مرحوم محدث نوری بزرگ شیعہ علماء میں سے ہیں جو بہت صاحب جلال تھے ۔تلاش اور توسل کے ذریعے حاصل ہونے والی ان  دو نایاب کتابوں کے حصول کے لئے  وہ گلیوں اور بازاروں میں عبا  اور عمامہ کے بغیر چلنے کو بھی تیار تھے اور انہوں نے اسے اپنے جاہ و جلال کے منافی نہیں سمجھا۔(1)

--------------

[1]۔ معجزات و کرامات آئمہ اطہار علیھم السلام:72

۱۳۷

 غور و فکرسے کام کرنا

سعی و کوشش،جستجو اور زیادہ کام کرنا مومنوں کی خصوصیات میں سے ہے۔وہ ایمان اور یقین کامل کی وجہ سے کبھی فارغ نہیں بیٹھتے  بلکہ ہمیشہ کام اور فعالیت کے ذریعے اپنے مقصد تک پہنچنے کے لئے کوشاں رہتے ہیں۔

امیر المؤمنین حضرت علی علیہ السلام اس حقیقت کو بیان کرنے والے ایک مقام پر فرماتے ہیں:

''اَلْمُؤْمِنُ قَلِیْلُ الزَّلَلِ کَثِیْرُ الْعَمَلِ'' (1)

مومن کم غلطی کرتا ہے لیکن وہ بہت زیادہ کام انجام دیتاہے۔

باایمان شخص زیادہ کام کرنے کے باوجودبھی بہت کم خطاؤں کا مرتکب ہوتاہے اور اس سے بہت کم لغزش سرزد ہوتی ہیں ۔یہ چیز خود اس حقیقت کی گواہ ہے کہ مومن شخص میںتدبّر کی قوت زیادہ ہوتی ہے۔

حضرت امام علی مرتضٰی علیہ السلام اپنے ایک کلام میں فرماتے ہیں:

''اَلتَّدْبِیْرُ قَبْلَ الْفِعْلِ یُؤْمِنُ الْعِثٰارَ'' (2)

کام کو انجام دینے سے پہلیاس کے بارے میں تدبّر انسان کو خطاؤں سے محفوظ رکھتاہے۔

--------------

[1]۔ شرح غرر الحکم: ج1ص383

[2]۔ شرح غرر الحکم: ج1ص384

۱۳۸

ایک دوسری روایت میں آنحضرت انسانوں کو ہوشیار کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

''اِیّٰاکَ وَ أَنْ تَعْمَلْ عَمَلاًبِغَیْرِ تَدْبِیْرٍ وَ عِلْمٍ'' (1)

کسی کام کو تدبیر اور آگاہی کے بغیر انجام دینے سے پرہیز کرو۔

آپ اجتماعی کاموں کے بارے میں یوں فرماتے ہیں:

''اِجْعَلْ لِکُلِّ اِنْسٰانٍ مِنْ خَدَمِکَ عَمَلاً تَأْخُذُهُ بِهِ،فَاِنَّهُ اَحْریٰ اَلاّٰ یَتَوٰاکَلُوا فِیْ خِدْمَتِکَ'' (2)

اپنے خدمت کرنے والوں میں  سے ہر ایک کے لئے کام معین کرو  اور اس سے وہی کام لو، کیونکہ ایسا کرنا اس لئے مناسب ہے کہ وہ تمہاری خدمت کرنے میں ایک دوسرے پر بھروسہ نہ کریں۔

اس حدیث میں غور کرنے سے معلوم ہو جاتا ہے کہ اجتماعی کاموں میں تدبّر اور غور و فکرکے لئے ہر ایک فرد کے لئے اس کے کام کو معین کر دیا جائے اور اس سے وہی کام لیاجائے تاکہ ان کے پاس اپنا کام دوسروں کے کندھوں پر ڈالنے کا کوئی بہانہ باقی نہ رہے۔

لیکن انسان کو غور کرنا چاہئے کہ اگر انسان کو توفیق ملے تو اس میں خودبینی ایجاد نہیں ہونی چاہئے  اور وہ یہ نہ سوچے کہ وہ جو بھی کام انجام دے رہا ہے وہ اس کی اپنی توانائی ،قدرت اور شخص ارادے کی وجہ سے ہے ۔کیونکہ انسان میں ارادہ ،خدا کی توفیق سے ہی پیدا  ہوتاہے۔

--------------

[1]۔ شرح غرر الحکم: ج2ص220

[2]۔ بحار الانوار: ج74ص143، نہج البلاغہ ،مکتوب:31

۱۳۹

اس بارے میں حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:

''فَاجْتَهِدُوا فِی طٰاعَةِ اللّٰهِ اِنْ سَرَّکُمْ اَنْ تَکُوْنُوا مُؤْمِنِیْنَ حَقًّا حَقًّا وَ لاٰ قُوَّّةَ اِلاّٰ بِاللّٰهِ'' (1)

اگر تم واقعاً چاہتے ہوکہ تمہارا شمار حقیقی مومنوں میں ہو تو خدا کی اطاعت کی کوشش کرو اور اس کام کی  قوت فقط خدا کے وسیلے سے ہی ملتی ہے۔

اگر انسان کو بہت زیادہ توفیق میسر ہو تو اسے زیادہ سے زیادہ نیک اور مشکل کام انجام دینے چاہئیں اور کبھی غرور و تکبر نہیں کرنا چاہئے  اور یہ نہیں سمجھنا چاہئے کہ اس نے جو عبادات انجام دی ہیں وہ اس کی اپنی توانائی ہی تھی۔کیونکہ جس طرح حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:

''لاٰ قُوَّةَ اِلاّٰ بِاللّٰهِ''

یعنی کاموں کو انجام دینے کی قدرت وتوانائی نہیں ہے مگر خدا کے وسیلہ سے۔

پس یہ خدا کا لطف ہے جو کہ حقیقی مومنوں اور اولیاء خدا کے شامل حال ہے  اور وہ توفیق کی وجہ ہی سے سخت عبادی کاموں کو آسانی سے انجام دیتے ہیں  نہ کہ ان کی شخصی توانائی عبادت کو انجام دینے کی قدرت کا سبب بنی۔

قرآن مجید میں ارشاد رب العزت ہے:"مَّا أَصَابَکَ مِنْ حَسَنَةٍ فَمِنَ اللّٰهِ وَمَا أَصَابَکَ مِن سَیِّئَةٍ فَمِن نَّفْسِکَ" (2)

تم تک جو بھی اچھائی اور کامیابی پہنچی ہے وہ اللہ کی طرف سے ہے اور جو بھی برائی پہنچی ہے وہ خود تمہاری طرف سے ہے ۔کیونکہ جس طرح تمام خوبیوں کا اصلی منشاء خداوند عالم ہے  اور تمام برائیوں کا سرچشمہ انسان کا نفس ہے جو خواہشات نفس اور شیطانی وسوسوں کے ذریعہ انسان کو گمراہ کرتاہے۔

--------------

 [1]۔ بحار الانوار: ج78ص200

[2]۔ سورۂ نساء، آیت:79

 نتیجۂ بحث

سعی و کوشش بلند اہداف و مقاصد تک پہنچنے کا ایک ذریعہ ہے ۔کامیابی کے حصول کے لئے اپنے نفس کو اپنی عقل کا تابع قرار دے کر  ایسے امور انجام دینے کی جستجو اور کوشش کریں کہ جو آپ کو سعادت و کامیابی تک پہنچانے کا باعث بنیں۔اپنے کام آگاہانہ طور پر شروع کریں اور تدبّر کے ذریعے ان کے مستقبل کی جانچ پڑتال کریں۔

کام کے ضروری مقدمات مہیا کریں اور اس کے موانع کو برطرف کریں۔

اگر آپ نے یہ ارادہ کیاہے کہ آپ کا مستقبل بھی بزرگ شخصیات کی طرح روشن ہو تو یقین کیجئے گذشتہ زندگی کی عادت آپ کے اہداف کی راہ میں حائل سب سے بڑی رکاوٹ ہے ۔آپ کو اپنی گذشتہ تمام بری عادتیں ختم کرنی چاہئیں تا کہ آپ اپنے ارادے کے ذریعے بہتر طریقے سے کام انجام دے سکیں۔دوجہد اور کوشش کریں اور اگر خدا نے چاہا تو آپ ضرور اپنی منزل اور اپنے مقصد تک  پہنچ جائیں گے۔

چہ کوشش نباشد  تن  زور مند           نیارد  سر  از  آرزوھا  بلند

کہ اندر جھان سود بی رنج نیست          کسی را کہ کاھل بود گنج نیست

۱۴۰

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

جادو گروں كے دل ميں ايمان كى چمك ليكن موسى عليہ السلام نے اس كيفيت كو زيادہ دير نہيں پنپنے ديا وہ آگے بڑھے اور اپنے عصا كو زمين پردے مارا تو وہ اچانك ايك ادہے كى شكل ميں بتديل ہوكر جادو گروں كے ان كر شموں كو جلدى نگلنے لگا اور انھيں ايك ايك كركے كھاگيا _(۱)(۲)

____________________

(۱)سورہ طہ ، آيت۶۶

(۲)كيا عصاكا اژدھابن جانا ممكن ہے ؟

اس ميں كوئي شك نہيں كہ عصا كا ازدہا بن جانا ايك بيّن معجزہ ہے جس كى توجيہ مادى اصول سے نہيں كى جاسكتي، بلكہ ايك خدا پرست شخص كو اس سے كوئي تعجب بھى نہ ہوگا كيونكہ وہ خدا كو قادر مطلق اور سارے عالم كے قوانين كو ارادہ الہى كے تابع سمجھتا ہے لہذا اس كے نزديك يہ كوئي بڑى بات نہيں كہ لكڑى كا ايك ٹكڑا حيوان كى صورت اختيار كرلے كيونكہ ايك مافوق طبيعت قدرت كے زير اثر ايسا ہوناعين ممكن ہے _

ساتھ ہى يہ بات بھى نہ بھولنا چاہئے كہ اس جہان طبيعت ميں تمام حيوانات كى خلقت خاك سے ہوئي ہے نيز لكڑى و نباتات كى خلقت بھى خاك سے ہوئي ہے ليكن مٹى سے ايك بڑا سانپ بننے كے لئے عادتاًشايد كروڑوں سال كى مدت دركار ہے،ليكن اعجاز كے ذريعے يہ طولانى مدت اس قدر كوتاہ ہوگئي كہ وہ تمام انقلابات ايك لحظہ ميں طے ہوگئے جن كى بنا پر مٹى سے سانپ بنتا ہے ،جس كى وجہ سے لكڑى كا ايك ٹكڑا جو قوانين طبيعت كے زير اثر ايك طولانى مدت ميں سانپ بنتا،چند لحظوں ميں يہ شكل اختيار كرگيا_

اس مقام پر كچھ ايسے افراد بھى ہيں جو تمام معجزات انبياء كى طبيعى اور مادى توجيہات كرتے ہيں جس سے ان كے اعجازى پہلوں كى نفى ہوتى ہے،اور ان كى يہ سعى ہوتى ہے كہ تمام معجزات كو معمول كے مسائل كى شكل ميں ظاہر كريں ،ہر چند وہ كتب آسمانى كى نص اور الفاظ صريحہ كے خلاف ہو،ايسے لوگوں سے ہمارا يہ سوال ہے كہ وہ اپنى پوزيشن اچھى طرح سے واضح كريں _كيا وہ واقعاً خدا كى عظيم قدرت پر ايمان ركھتے ہيں اور اسے قوانين طبيعت پر حاكم مانتے ہيں كہ نہيں ؟ اگر وہ خدا كو قادر و توانا نہيں سمجھتے توان سے انبياء كے حالات اور ان كے معجزات كى بات كرنا بالكل بے كار ہے اور اگر وہ خدا كو قادر جانتے ہيں تو پھر ذرا تا مل كريں كہ ان تكلف آميز توجيہوں كى كيا ضرورت ہے جو سراسر آيات قرآنى كے خلاف ہيں (اگر چہ زير بجث آيت ميں ميرى نظر سے نہيں گزرا كہ كسى مفسر نے جس كا طريقہ تفسير كيسا ہى مختلف كيوں نہ ہو اس آيت كى مادى توجيہہ كى ہو،تا ہم جو كچھ ہم نے بيان كيا وہ ايك قاعدہ كلى كے طور پر تھا_

۳۲۱

اس موقع پر لوگوں پر يكدم سكوت طارى ہوگيا حاضرين پر سناٹا چھاگيا،تعجب كى وجہ سے ان كے منہ كھلے كے كھلے رہ گئے آنكھيں پتھرا گئي گويا ان ميں جان ہى نہيں رہى ليكن بہت جلد تعجب كے بجائے وحشت ناك چيخ و پكار شروع ہوگئي،كچھ لوگ بھاگ كھڑے ہوئے كچھ لوگ نتيجے كے انتظار ميں رك گئے اور كچھ لوگ بے مقصد نعرے لگارہے تھے ليكن جادوگرں كے منہ تعجب كى وجہ سے كھلے ہوئے تھے_

اس مرحلے پر سب كچھ تبديل ہوگيا جو جادوگر اس وقت تك شيطانى رستے پر گامزن ،فرعون كے ہم ركاب اور موسى عليہ السلام كے مخالف تھے يك دم اپنے آپے ميں آگئے اور كيونكہ جادو كے ہر قسم كے ٹونے ٹوٹكے او رمہارت اور فن سے واقف تھے اس لئے انھيں يقين آگيا كہ ايسا كام ہر گز جادو نہيں ہوسكتا، بلكہ يہ خدا كا ايك عظيم معجزہ ہے ''لہذا اچانك وہ سارے كے سارے سجدے ميں گر پڑے ''_(۱)

دلچسپ بات يہ ہے كہ قرآن نے يہاں پر ''القي''كا استعمال كيا ہے جس كا معنى ہے گراديئے گئے يہ اس بات كى طرف اشارہ ہے كہ وہ جناب موسى عليہ السلام كے معجزے سے اس قدر متا ثر ہوچكے تھے كہ بے اختيار زمين پر سجدے ميں جاپڑے _

اس عمل كے ساتھ ساتھ جو ان كے ايمان كى روشن دليل تھا ;انھوں نے زبان سے بھى كہا:''ہم عالمين كے پروردگار پر ايمان لے آئے''_(۲)

اور ہر قسم كا ابہام وشك دور كرنے كے لئے انھوں نے ايك اور جملے كابھى اضافہ كيا تاكہ فرعون كے لئے كسى قسم كى تاويل باقى نہ رہے،انھوں نے كہا:''موسى اور ہارون كے رب پر'' _(۳)

اس سے معلوم ہوتا ہے كہ عصازمين پر مارنے اور ساحرين كے ساتھ گفتگو كرنے كا كام اگرچہ موسى عليہ السلام نے انجام ديا ليكن ان كے بھائي ہارون عليہ السلام ان كے ساتھ ساتھ ان كى حمايت اور مدد كررہے تھے_

____________________

(۱)سورہ شعراء آيت ۴۶

(۲)سورہ شعراء آيت۴۷

(۳)سورہ شعراء آيت ۴۸

۳۲۲

يہ عجيب وغريب تبديلى جادوگروں كے دل ميں پيدا ہوگئي اور انھوں نے ايك مختصر سے عرصے ميں مطلق تاريكى سے نكل كر روشنى اور نور ميں قدم ركھ ديا اور جن جن مفادات كا فرعون نے ان سے وعدہ كيا تھا ان سب كو ٹھكراديا ،يہ بات تو آسان تھي، انھوں نے اس اقدام سے اپنى جانوں كو بھى خطرے ميں ڈال ديا،يہ صرف اس وجہ سے تھا كہ ان كے پاس علم و دانش تھا جس كے باعث وہ حق اور باطل ميں تميز كرنے ميں كامياب ہوگئے اور حق كا دامن تھام ليا_

كيا ميرى اجازت كے بغير موسى عليہ السلام پر ايمان لے آئے؟

اس موقع پر اس طرف تو فرعون كے اوسان خطا ہوچكے تھے اور دوسرے اسے اپنا اقتدار بلكہ اپنا وجود خطرے ميں دكھائي دے رہا تھا خاص طور پر وہ جانتا تھا كہ جادوگرو ں كا ايمان لانا حاضرين كے دلوں پر كس قدر مو ثر ہوسكتا ہے اور يہ بھى ممكن ہے كہ كافى سارے لوگ جادوگروں كى ديكھا ديكھى سجدے ميں گر جائيں ، لہذا اس نے بزعم خود ايك نئي اسكيم نكالى اور جادوگروں كى طرف منہ كركے كہا:''تم ميرى اجازت كے بغير ہى اس پر ايمان لے آئے ہو''_(۱)

چونكہ وہ سالہا سال سے تخت استبداد پر براجمان چلاآرہا تھا لہذا اسے قطعاً يہ اميد نہيں تھى كہ لوگ اس كى اجازت كے بغير كوئي كام انجام ديں گے بلكہ اسے تو يہ توقع تھى كہ لوگوں كے قلب و عقل اور اختيار اس كے قبضہ قدرت ميں ہيں ،جب تك وہ اجازت نہ دے وہ نہ تو كچھ سوچ سكتے ہيں اور نہ فيصلہ كرسكتے ہيں ،جابر حكمرانوں كے طريقے ايسے ہى ہوا كرتے ہيں _

ليكن اس نے اسى بات كو كافى نہيں سمجھا بلكہ دو جملے اور بھى كہے تا كہ اپنے زعم باطل ميں اپنى حيثيت اور شخصيت كو برقرار ركھ سكے اور ساتھ ہى عوام كے بيدار شدہ افكار كے آگے بند باندھ سكے اور انھيں دوبارہ خواب غفلت ميں سلادے_

____________________

(۱)سورہ شعراء آيت ۴۹

۳۲۳

اس نے سب سے پہلے جادوگروں سے كہا:تمھارى موسى سے يہ پہلے سے لگى بندھى سازش ہے ،بلكہ مصرى عوام كے خلاف ايك خطرناك منصوبہ ہے اس نے كہا كہ وہ تمہارا بزرگ اور استاد ہے جس نے تمہيں جادو كى تعليم دى ہے اور تم سب نے جادوگر ى كى تعليم اسى سے حاصل كى ہے_ ''(۱)

تم نے پہلے سے طے شدہ منصوبہ كے تحت يہ ڈرامہ رچايا ہے تا كہ مصر كى عظيم قوم كو گمراہ كركے اس پر اپنى حكومت چلائو اور اس ملك كے اصلى مالكوں كو ان كے گھروں سے بے گھر كردو اور ان كى جگہ غلاموں اور كنيزوں كو ٹھہرائو_

ليكن ميں تمہيں كبھى اس بات كى اجازت نہيں دوں گا كہ تم اپنى سازش ميں كامياب ہوجائو،ميں اس سازش كو پنپنے سے پہلے ہى ناكام كردوں گا''تم بہت جلد جان لوگے كہ تمہيں ايسى سزادوں گا جس سے دوسرے لوگ عبرت حاصل كريں گے تمہارے ہاتھ اور پائوں كو ايك دوسرے كى مخالف سمت ميں كاٹ ڈالوں گا(داياں ہاتھ اور باياں پائوں ،يا باياں ہاتھ اور داياں پائوں )اور تم سب كو (كسى استثناء كے بغير)سولى پر لٹكادوں گا''_(۲)

يعنى صرف يہى نہيں كہ تم سب كو قتل كردوں گا بلكہ ايسا قتل كروں گا كہ جس ميں دكھ،درد،تكليف اور شكنجہ بھى ہوگا اور وہ بھى سرعام كھجور كے بلند درختوں پركيونكہ ہاتھ پائوں كے مخالف سمت كے كاٹنے سے احتمالاًانسان كى دير سے موت واقع ہوتى ہے اور وہ تڑپ تڑپ كر جان ديتا ہے_

ہميں اپنے محبوب كى طرف پلٹادے

ليكن فرعون يہاں پر سخت غلط فہمى ميں مبتلا تھا كيونكہ كچھ دير قبل كے جادوگر اور اس وقت كے مومن افراد نور ايمان سے اس قدر منور ہوچكے تھے اور خدائي عشق كى آگ ان كے دل ميں اس قدر بھڑك چكى تھى كہ انھوں نے فرعون كى دھمكيوں كو ہر گز ہرگز كوئي وقعت نہ دى بلكہ بھرے مجمع ميں اسے دو ٹوك جواب دے كر اس

____________________

(۱)سورہ شعراء آيت ۴۹

(۲)سورہ شعراء آيت۴۹

۳۲۴

كے تمام شيطانى منصوبوں كو خاك ميں ملاديا_

انھوں نے كہا:''كوئي بڑى بات نہيں اس سے ہميں ہر گز كوئي نقصان نہيں پہنچے گا تم جو كچھ كرنا چاہتے ہو كر لو، ہم اپنے پروردگار كى طرف لوٹ جائيں گے''_(۱)

اس كام سے نہ صرف يہ كہ تم ہمارا كچھ بگاڑ نہ سكوگے بلكہ ہميں اپنے حقيقى معشوق اور معبود تك بھى پہنچادوگے،تمھارى يہ دھمكياں ہمارے لئے اس دقت مو ثر تھيں جب ہم نے خود كو نہيں پہچانا تھا،اپنے خدا سے نا آشنا تھے اور راہ حق كو بھلاكے زندگى كے بيابان ميں سرگردان تھے ليكن آج ہم نے اپنى گمشدہ گراں بہا چيز كو پاليا ہے جو كرنا چاہو كرلو_

انھوں نے سلسلہ كلام آگے بڑھاتے ہوئے كہا: ہم ماضى ميں گناہوں كا ارتكاب كرچكے ہيں اور اس ميدان ميں بھى اللہ كے سچے رسول جناب موسى عليہ السلام كے ساتھ مقابلے ميں پيش پيش تھے اور حق كے ساتھ لڑنے ميں ہم پيش قدم تھے ليكن''ہم اميد ركھتے ہيں كہ ہمارا پروردگار ہمارے گناہ معاف كردے گا كيونكہ ہم سب سے پہلے ايمان لانے والے ہيں ''_(۲)

ہم آج كسى چيز سے نہيں گھبراتے، نہ تو تمھارى دھمكيوں سے اور نہ ہى بلند و بالا كھجور كے درختوں كے تنوں پر سولى پر لٹك جانے كے بعد ہاتھ پائوں مارنے سے_

اگر ہميں خوف ہے تو اپنے گزشتہ گناہوں كا اور اميد ہے كہ وہ بھى ايمان كے سائے اور حق تعالى كى مہربانى سے معاف ہوجائيں گے_

يہ كيسى طاقت ہے كہ جب كسى انسان كے دل ميں پيدا ہوجاتى ہے تو دنيا كى بڑى سے بڑى طاقت بھى اس كى نگاہوں ميں حقير ہوجاتى ہے اوروہ سخت سے سخت شكنجوں سے بھى نہيں گھبراتا اور اپنى جان ديدينا اس كے لئے كوئي بات ہى نہيں رہتي_

____________________

(۱)سورہ شعراء آيت۴۹

(۲)سورہ شعراء آيت ۵۱

۳۲۵

يقينا يہ ايمانى طاقت ہوتى ہے_

يہ عشق كے روشن ودرخشاں چراغ كا شعلہ ہوتا ہے جو شہادت كے شربت كو انسان كے حلق ميں شہد سے بھى زيادہ شيريں بناديتا ہے اور محبوب كے وصال كو انسان كا ارفع و اعلى مقصد بنا ديتا ہے_

بہر حال يہ منظر فرعون اور اس كے اركان سلطنت كے لئے بہت ہى مہنگا ثابت ہوا ہر چند كہ بعض روايات كے مطابق اس نے اپنى دھمكيوں كو عملى جامہ بھى پہنايا اور تازہ ايمان لانے والے جادوگروں كو شہيد كرديا ليكن عوام كے جو جذبات موسى عليہ السلام كے حق ميں اور فرعون كے خلاف بھڑك اٹھے تھے وہ انھيں نہ صرف دبا نہ سكا بلكہ اور بھى بر انگيختہ كرديا_

اب جگہ جگہ اس خدائي پيغمبر كے تذكرے ہونے لگے اور ہر جگہ ان با ايمان شہداء كے چرچے تھے بہت سے لوگ اس وجہ سے ايمان لے آئے_جن ميں فرعون كے كچھ نزديكى لوگ بھى تھے حتى كہ خود اس كى زوجہ ان ايمان لانے والوں ميں شامل ہوگئي_

فرعون كى زوجہ ايمان لے آئي

فرعون كى بيوى كا نام آسيہ اور باپ كا نام مزاحم تھا_كہتے ہيں كہ جب اس نے جادوگروں كے مقابلہ ميں موسى عليہ السلام كے معجزے كو ديكھا تو اس كے دل كى گہرائياں نور ايمان سے روشن ہوگئيں ،وہ اسى وقت موسى عليہ السلام پر ايمان لے آئي _وہ ہميشہ اپنے ايمان كو پوشيدہ ركھتى تھي_ ليكن ايمان اور خدا كا عشق ايسى چيز نہيں ہے جسے ہميشہ چھپايا جاسكے_جب فرعون كو اس كے ايمان كى خبر ہوئي تو اس نے اسے بارہا سمجھايا اور منع كيا اور يہ اصرار كيا كہ موسى كے دين سے دستبردار ہوجائے اور اس كے خدا كو چھوڑدے،ليكن يہ با استقامت خاتون فرعون كى خواہش كے سامنے ہر گز نہ جھكي_

آخر كار فرعون نے حكم ديا كہ اس كے ہاتھ پائوں ميخوں ساتھ جكڑ كر اسے سورج كى جلتى ہوئي دھوپ ميں ڈال ديا جائے اور ايك بہت بڑا پتھر اس كے سينہ پر ركھ ديں _جب وہ خاتون اپنى زندگى كے آخرى لمحے گزار رہى تھى تو اس كى دعا يہ تھي:

۳۲۶

''پروردگاراميرے لئے جنت ميں اپنے جوار رحمت ميں ايك گھر بنادے_ مجھے فرعون اور اس كے عمال سے رہائي بخش اور مجھے اس ظالم قوم سے نجات دے''_

خدا نے بھى اس پاكباز اور فدار كار مومنہ خاتون كى دعا قبول كى اور اسے مريم(ع) جيسى دنيا كى بہترين خاتون جناب مريم(ع) كے ہم رديف قرار پائي ہے_

ايك روايت ميں رسول خدا(ص) سے منقول ہے:

''اہل جنت ميں افضل ترين اور برترين عورتيں چارہيں _ خويلد كى بيٹى خديجہ(ع) ،محمد(ص) كى بيٹى فاطمہ(ع) اور عمران كى بيٹى مريم(ع) اور مزاحم كى بيٹى آسيہ(ع) جو فرعون كى بيوى تھي''_

قابل توجہ بات يہ ہے كہ فرعون كى بيوى اپنى اس بات سے فرعون كے عظيم قصر كى تحقير كررہى ہے،اور اسے خدا كے جوار رحمت ميں گھر،كے مقابلہ ميں كوئي اہميت نہيں ديتي_اس گفتگو كے ذريعہ ان لوگوں كے جو اسے يہ نصيحت كرتے تھے كہ ان تمام نماياں وسائل و امكانات كو جو ملكہ مصر ہونے كى وجہ سے تيرے قبضہ و اختيار ميں ہيں ، موسى عليہ السلام جيسے چرواہے پر ايمان لاكر ہاتھ سے نہ دے_ جواب ديتى ہے:

اور''نجى من فرعون و عملہ'' كے جملہ كے ساتھ خود فرعون سے اور اس كے مظالم اور جرائم سے بيزارى كا اعلان كرتى ہے_

اور( نجى من القوم الظالمين ) كے جملہ سے اس آلودہ ماحول سے اپنى على حدگي،اور ان كے جرائم سے اپنى بيگانگى كا اظہار كرتى ہے_

مسلمہ طور پر فرعون كے دربار سے بڑھ كرز رق برق اور جلال و جبروت موجود نہيں تھا_اسى طرح فرعون جيسے جابر و ظالم كے شكنجوں سے بڑھ كر فشار اور شكنجے موجود نہيں تھے_ ليكن نہ تو وہ زرق برق اور نہ ہى وہ فشار اور شكنجے اس مومنہ عورت كے گھٹنے جھكا سكے_ اس نے رضائے خدا ميں اپنا سفر اسى طرح سے جارى ركھا_يہاں تك كہ اپنى عزيز جان اپنے حقيقى محبوب كى راہ ميں فدا كردي_

قابل توجہ بات يہ ہے كہ وہ يہ استدعا كرتى ہے كہ اے خدا جنت ميں اوراپنے جوار ميں اس كے لئے

۳۲۷

ايك گھر بنادے جس كا جنت ميں ہونا تو جنبہ جسمانى ہے اور خدا كے جوار رحمت ميں ہونا جنبہ روحانى ہے_ اس نے ان دونوں كو ايك مختصر سى عبارت ميں جمع كرديا ہے_

جناب موسى عليہ السلام كے قتل كا حكم

ايك طرف موسى عليہ السلام اور ان كے پيروكاروں كے درميان باہمى نزاع،اور دوسرى طرف فرعون اور اس كے ہم نوائوں كے ساتھ لڑائي جھگڑا كافى حد تك بڑھ گيا اوراس دوران ميں بہت سے واقعات رونما ہوچكے،جنہيں قرآن نے اس مقام پر ذكر نہيں كيا بلكہ ايك خاص مقصد كو جسے ہم بعد ميں بيان كريں گے پيش نظر ركھ كر ايك نكتہ بيان كيا گيا ہے كہ حالات بہت خراب ہوگئے تو فرعون نے حضرت موسى عليہ السلا م كى انقلابى تحريك كو دبانے بلكہ ختم كرنے كے لئے ان كے قتل كى ٹھان لى ليكن ايسا معلوم ہوتا ہے كہ گويا اس كے مشيروں اور درباريوں نے اس كے اس فيصلے كى مخالفت كى _چنانچہ قرآن كہتا ہے:

''فرعون نے كہا مجھے چھوڑدوتاكہ ميں موسى كو قتل كر ڈالوں اور وہ اپنے پروردگار كو بلائے تاكہ وہ اسے اس سے نجات دے''_(۱)

اس سے يہ بات سمجھنے ميں مدد ملتى ہے كہ اس كے اكثر يا كم از كم كچھ مشير موسى عليہ السلام كے قتل كے مخالف تھے وہ يہ دليل پيش كرتے تھے كہ چونكہ موسى كے كام معجزانہ اور غير معمولى ہيں لہذا ہوسكتا ہے كہ وہ ہمارے لئے بددعا كردے تو اس كا خدا ہم پر عذاب نازل كردے ليكن كبر و غرور كے نشے ميں مست فرعون كہنے لگا:ميں تواسے ضرور قتل كروں گا جو ہوگا ديكھا جائے گا_

يہ بات تو معلوم نہيں ہے كہ فرعون كے حاشيہ نشينوں اور مشيروں نے كس بناء پر اسے موسى عليہ السلام كے قتل سے باز ركھا البتہ يہاں پر چند ايك احتمال ضرور ہيں اور ہوسكتا ہے وہ سب كے سب صحيح ہوں _

ايك احتمال تو يہ ہے كہ ممكن ہے خدا كى طرف سے عذاب نازل ہوجائے_

____________________

(۱)سورہ مومن آيت ۲۶

۳۲۸

دوسرا احتمال ان كى نظر ميں يہ ہوسكتا ہے كہ موسى عليہ السلام كے مارے جانے كے بعد حالات يكسردگر گوں ہوجائيں گے كيونكہ وہ ايك شہيد كا مقام پاليں گے اور انہيں ہيروكا درجہ مل جائے گا اس طرح سے ان كا دين بہت سے مو من،ہمنوا،طرفدار اور ہمدرد پيدا كرلے گا _

خلاصہ كلام انہيں اس بات كا يقين ہوگياكہ بذات خود موسى ان كے لئے ايك عظيم خطرہ ہيں ليكن اگر ان حالات ميں انہيں قتل كرديا جائے تو يہ حادثہ ايك تحريك ميں بدل جائے گا جس پر كنٹرول كرنا بھى مشكل ہوجائے گااور اس سے جان چھڑانى مشكل تر ہوجائے گي_

فرعون كے كچھ دربارى ايسے بھى تھے جو قلبى طور پر فرعون سے راضى نہيں تھے_وہ چاہتے تھے كہ موسى عليہ السلام زندہ رہيں اورفرعون كى كى تمام تر توجہ انہى كى طرف مبذول رہے، اس طرح سے وہ چار دن آرام كے ساتھ بسر كرليں اور فرعون كى آنكھوں سے اوجھل رہ كر ناجائز مفاد اٹھاتے رہيں كيونكہ يہ ايك پرانا طريقہ كار ہے كہ بادشاہوں كے دربارى اس بات كى فكر ميں رہتے ہيں كہ ہميشہ ان كى توجہ دوسرے امور كى طرف مبذول رہے تا كہ وہ آسودہ خاطر ہوكر اپنے ناجائز مفادات كى تكميل ميں لگے رہيں _اسى لئے تو بعض اوقات وہ بيرونى دشمن كو بھى بھڑكاتے ہيں تاكہ بادشاہ كى فارغ البالى كے شر سے محفوظ رہيں _

كہيں موسى تمہارا مذہب نہ بدل دے

بہر حال فرعون نے حضرت موسى عليہ السلام كو قتل كے منصوبے كى توجيہہ كرتے ہوئے اپنے درباريوں كے سامنے اس كى دودليليں بيان كيں _ايك كا تعلق دينى اور روحانى پہلو سے تھا اور دوسرى كا دنياوى اور مادى سے ،وہ كہنے لگا:مجھے اس بات كا خوف ہے كہ وہ تمہارے دين كو تبديل كردے گا اور تمہارے باپ دادا كے دين كو دگر گوں كردے گا،يا يہ كہ زمين ميں فساد اور خرابى برباد كردے گا_(۱)

اگر ميں خاموشى اختيار كرلوں تو موسى بہت جلد مصر والوں ميں اتر جائے گا اور بت پرستى كا''مقدس

____________________

(۱)سورہ مومن آيت ۲۶

۳۲۹

دين''جو تمہارى قوميت اور مفادات كا محافظ ہے ختم ہوجائے گااور اس كى جگہ توحيد پرستى كا دين لے لے گا جو يقينا تمہارے سوفيصد خلاف ہوگا_

اگر ميں آج خاموشى ہوجائوں اور كچھ عرصہ بعد موسى سے مقابلہ كرنے كے لئے اقدام كروں تو اس دوران ميں وہ اپنے بہت سے دوست اور ہمدرد پيدا كرلے گا جس كى وجہ سے زبردست لڑائي چھڑجائے گى جو ملكى سطح پر خونريزي، گڑ بڑاور بے چينى كا سبب بن جائے گى اسى لئے مصلحت اسى ميں ہے كہ جتنا جلدى ہوسكے اسے موت كے گھاٹ اتار ديا جائے _

اب ديكھنا يہ ہے كہ اس گفتگو سے موسى عليہ السلام نے كس رد عمل كا اظہار كيا جو اس مجلس ميں تشريف فرمابھى تھے، قرآن كہتا ہے :موسى نے كہا : ''ميں اپنے پروردگار اور تمہارے پروردگار كى ہر اس متكبر سے پناہ مانگتا ہوں جو روز حساب پر ايمان نہيں لاتا ''_(۱)

موسى عليہ السلام نے يہ باتيں بڑے سكون قلب اور اطمينان خاطر سے كيں جوان كے قوى ايمان اور ذات كردگار پر كامل بھروسے كى دليل ہيں اور اس طرح سے ثابت كرديا كہ اس كى اس دھمكى سے وہ ذرہ بھر بھى نہيں گھبرائے _

حضرت موسى عليہ السلام كى اس گفتگو سے ثابت ہوتا ہے كہ جن لوگوں ميں مندرجہ ذيل دوصفات پائي جائيں وہ نہايت ہى خطر ناك افراد ہيں ايك '' تكبر'' اور دوسرے '' قيامت پر ايمان نہ ركھنا'' اور اس قسم كے افراد سے خدا كى پناہ مانگنى چاہئے _

آيا كسى كو خدا كى طرف بلانے پر بھى قتل كرتے ہيں ؟

يہاں سے موسى عليہ السلام اور فرعون كى تاريخ كا ايك اور اہم كردار شروع ہوتا ہے اور وہ ہے ''مئومن آل فرعون '' جو فرعون كے رشتہ داروں ميں سے تھا حضرت موسى عليہ السلام كى دعوت توحيد قبول كرچكا

____________________

(۱)سورہ مومن آيت ۲۷

۳۳۰

تھا،ليكن اپنے اس ايمان كو ظاہر نہيں كرتا تھا كيونكہ وہ اپنے آپ كو خاص طريقے سے موسى عليہ السلام كى حمايت كا پابند سمجھتا تھا جب اس نے ديكھا كہ فرعون كے غيظ وغضب سے موسى عليہ السلام كى جان كو خطرہ پيدا ہوگيا ہے تو مردانہ وار آگے بڑھا اور اپنى دل نشين اور موثر گفتگو سے قتل كى اس سازش كو ناكام بناديا _

قرآن ميں فرمايا گيا ہے :'' آل فرعون ميں سے ايك شخص نے جو اپنے ايمان كو چھپائے ہوئے تھا كہا:

''كياكسى شخص كو صرف اس بناء پر قتل كرتے ہوكہ وہ كہتا ہے كہ ميرا رب اللہ ہے ؟''(۱)

''حالانكہ وہ تمہارے ربّ كى طرف سے معجزات اور واضح دلائل اپنے ساتھ لايا ہے _''(۲)

آيا تم اس كے عصا اور يدبيضاء جيسے معجزات كا انكار كرسكتے ہو ؟ كيا تم نے اپنى آنكھوں سے اس كے جادو گروں پر غالب آجانے كا مشاہدہ نہيں كيا ؟ يہاں تك كہ جادوگروں نے اس كے سامنے اپنے ہتھيار ڈال ديئےور ہمارى پرواہ تك نہ كى اور نہ ہى ہمارى دھمكيوں كو خاطر ميں لائے اور موسى كے خدا پر ايمان لاكر اپنا سراس كے آگے جھكاديا، ذرا سچ بتائو ايسے شخص كو جادوگر كہا جاسكتا ہے،؟ خوب سوچ سمجھ كر فيصلہ كرو، جلد بازى سے كام نہ لو اور اپنے اس كام كے انجام كو بھى اچھى طرح سوچ لوتاكہ بعد ميں پشيمان نہ ہونا پڑے _

ان سب سے قطع نظر يہ دوحال سے خالى نہيں '' اگر وہ جھوٹا ہے تو جھوٹ اس كا خود ہى دامن گير ہوگا اور اگر سچا ہے تو كم ازكم جس عذاب سے تمہيں ڈرايا گيا ہے وہ كچھ نہ كچھ تو تمہارے پاس پہنچ ہى جائےگا''_(۳)

يعنى اگر وہ جھوٹا ہے جھوٹ كے پائوں نہيں ہوتے ، آخركار ايك نہ ايك دن اس كا پول كھل جائے گا اور وہ اپنے جھوٹ كى سزا پالے گا ليكن يہ امكان بھى تو ہے كہ شايد وہ سچا ہو اور خدا كى جانب سے بھيجا گيا ہو تو پھر ايسى صورت ميں اس كے كئے ہوئے وعدے كسى نہ كسى صورت ميں وقوع پذير ہوكررہيں گے لہذا اس كا قتل كرنا عقل وخرد سے كو سوں دورہے _

____________________

(۱)سورہ مومن آيت۲۸

(۲)سورہ مومن آيت ۲۸

(۳)سورہ مومن ۲۸

۳۳۱

اس سے يہ نتيجہ نكلا، ''االلہ تعالى مسرف اور جھوٹے كى ہدا يت نہيں فرماتا''_(۱)

اگر حضرت موسى تجاوزو اسراف ودروغ كو اختيار كرتے تو يقينااللہ تعالى كى ہدايت حاصل نہ كرتے اور اگر تم بھى ايسے ہى ہوگئے تو اس كى ہدايت سے محروم ہوجائوگے _

مومن آل فرعون نے اس پر ہى اكتفاء نہيں كى بلكہ اپنى گفتگو كو جارى ركھا، دوستى اور خير خواہى كے انداز ميں ان سے يوں گويا ہوا : اے ميرى قوم آج مصر كى طويل وعريض سرزمين پر تمہارى حكومت ہے اور تم ہر لحاظ سے غالب اور كامياب ہو، اس قدر بے انداز نعمتوں كا كفران نہ كرو، اگر خدائي عذاب ہم تك پہنچ گيا تو پھر ہمارى كون مدد كرے گا ''_(۲)

ظاہر اً اس كى يہ باتيں '' فرعون كے ساتھيوں '' كے لئے غير موثر ثابت نہيں ہوئيں انہيں نرم بھى بنا ديا اور ان كے غصے كو بھى ٹھنڈا كرديا _

ليكن يہاں پر فرغون نے خاموشى مناسب نہ سمجھى اس كى بات كاٹتے ہوئے كہا: بات وہى ہے جو ميں نے كہہ دى ہے_''جس چيز كا ميں معتقد ہوں اسى كا تمہيں بھى حكم ديتا ہوں ميں اس بات كا معتقد ہوں كہ ہر حالت ميں موسى كو قتل كردينا چاہئے اس كے علاوہ كوئي اور راستہ نہيں ہے اور ميں تو صرف تمہيں صحيح راستہ كى طرف راہنمائي كرتا ہوں ''_(۳)

ميں تمہيں خبردار كرتا ہوں

اس دور ميں مصر كے لوگ ايك حدتك متمدن اور پڑھے لكھے تھے انہوں نے قوم نوح، عاد اور ثمود جيسى گزشتہ اقوام كے بارے ميں مو رخين كى باتيں بھى سن ركھى تھيں اتفاق سے ان اقوام كے علاقوں كا اس علاقے سے زيادہ فاصلہ بھى نہيں تھا يہ لوگ ان كے دردناك انجام سے بھى كم وبيش واقفيت ركھتے تھے _

لہذا مو من آل فرعون نے موسى عليہ السلام كے قتل كے منصوبے كى مخالفت كى اس نے ديكھا كہ

____________________

(۱)سورہ مومن آيت ۲۸

(۲)سورہ مومن آيت۲۹

(۳)سورہ مومن آيت۲۹

۳۳۲

فرعون كو زبردست اصرار ہے كہ وہ موسى كے قتل سے باز نہيں آئے گا، اس مرد مو من نے پھر بھى ہمت نہ ہارى اور نہ ہى ہارنى چاہئے تھى لہذا اب كہ اس نے يہ تدبير سوچى كہ اس سركش قوم كو گزشتہ اقوام كى تاريخ اور انجام كى طرف متوجہ كرے شايد اس طرح سے يہ لوگ بيدارہوں اور اپنے فيصلے پر نظر ثانى كريں قرآن كے مطابق اس نے اپنى بات يوں شروع كى اس باايمان شخص نے كہا:'' اے ميرى قوم ، مجھے تمہارے بارے ميں گزشتہ اقوام كے عذاب كے دن كى طرح كا خوف ہے _''(۱)

پھر اس بات كى تشريح كرتے ہوئے كہا :''ميں قوم نوح(ع) ، عاد، ثمود اور ان كے بعد آنے والوں كى سى برى عادت سے ڈرتا ہوں ''_(۲)

ان قوموں كى عادت شرك،كفر اور طغيان وسركشى تھى اور ہم ديكھ چكے ہيں كہ ان كا كيا انجام ہوا ؟ كچھ تو تباہ كن طوفانوں كى نذر ہوگئيں ، كچھ وحشت ناك جھگڑوں كى وجہ سے برباد ہوئيں ، كچھ كو آسمانى بجلى نے جلاكر راكھ كرديا اور كچھ زلزلوں كى بھينٹ چڑھ كر صفحہ ہستى سے مٹ گئيں _كيا تم يہ نہيں سمجھتے كہ كفراور طغيان پر اصراركى وجہ سے تم بھى مذكورہ عظيم بلائوں ميں سے كسى ايك كا شكار ہوسكتے ہو؟ لہذا مجھے كہنے دو كہ مجھے تمہارے بارے ميں بھى اس قسم كے خطرناك مستقبل كا انديشہ ہے _ آيا تمہارے پاس اس بات كا كوئي ثبوت ہے كہ تمہارے كردار اور افعال ان سے مختلف ہيں ؟ آخران لوگوں كا كيا قصور تھا كہ وہ اس طرح كے بھيانك مستقبل سے دوچار ہوئے كيا اس كے سوا كچھ اور تھا كہ انھوں نے خدا كے بھيجے ہوئے پيغمبر وں كى دعوت كے خلاف قيام كيا، ان كى تكذيب كى بلكہ انہيں قتل كرڈالا_

ليكن يادركھو جو مصيبت بھى تم پر نازل ہوگى خود تمہارے كئے كى سزا ہوگى كيونكہ '' خدا اپنے بندوں پر ظلم نہيں كرنا چاہتا_''(۳) پھر كہتا ہے : اے ميرى قوم ميں تمہاريے لئے اس دن سے ڈرتا ہوں جس دن لوگ ايك دوسرے كو پكاريں گے ليكن كوئي مدد نہيں كرے گا''_(۴)

____________________

(۱)سورہ مومن آيت ۳۱

(۲)سورہ مومن آيت ۳۱

(۳)سورہ مومن آيت۳۱

(۴)سورہ مومن آيت۳۲

۳۳۳

ان بيانات كے ذريعے مومن آل فرعون نے جو كچھ كرنا تھا كردكھايا اس نے فرعون كو جناب موسى كے قتل كى تجويز بلكہ فيصلے كے بارے ميں ڈانواڈول كرديا يا كم از كم اسے ملتوى كرواديا اسى التواء سے قتل كا خطرہ ٹل گيا اور يہ تھا اس ہوشيار، زيرك اور شجاع مرد خدا كا فريضہ جو اس نے كماحقہ ادا كرديا جيسا كہ بعد كى گفتگوسے معلوم ہوگا كہ اس سے اس كى جان كے بھى خطرے ميں پڑنے كا انديشہ ہوگيا تھا _

آخرى بات

پانچويں اور آخرى مرحلے پر مومن آل فرعون نے تمام حجاب الٹ ديئے اور اس سے زيادہ اپنے ايمان كو نہ چھپاسكا ،وہ جو كچھ كہنا چاہتا تھا كہہ چكا اور فرعون والوں نے بھى ،جيسا كہ آگے چل كر معلوم ہوگا، اس كے بارے ميں بڑا خطرناك فيصلہ كيا _ خداوند عالم نے بھى اپنے اس مومن اور مجاہد بندے كو تنہا نہيں چھوڑا جيسا كہ قران نے بيان كياہے : ''خدا نے بھى اسے ان كى ناپاك چالوں اور سازشوں سے بچاليا ''_(۱)

اس كى تعبير سے واضح ہوتا ہے كہ فرعونيوں نے اس كے بارے ميں مختلف سازشيں اور منصوبے تيار كرركھے تھے _

ليكن وہ منصوبے كيا تھے ؟ قرآن نے اس كى تفصيل بيان نہيں كي، ظاہر ہے كہ مختلف قسم كى سزائيں اذيتيں اور آخركار قتل اور سزائے موت ہوسكتى ہے ليكن خداوندعالم كے لطف وكرم نے ان سب كو ناكام بناديا _

چنانچہ بعض تفسيروں ميں ہے كہ وہ ايك مناسب موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے موسى عليہ السلام تك پہنچ گيا اور اس نے بنى اسرائيل كے ہمرا ہ دريائے نيل كو عبور كيا، نيز يہ بھى كہا گيا ہے كہ جب اس كے قتل كا منصوبہ بن چكا تو اس نے اپنے آپ كو ايك پہاڑ ميں چھپاليا اور نگاہوں سے اوجھل ہوگيا _

يہ دونوں روايات آپس ميں مختلف نہيں ہيں كيونكہ ممكن ہے كہ پہلے وہ شہر سے مخفى ہوگيا ہو اور پھر بنى اسرائيل سے جا ملاہو _

____________________

(۱)سورہ مومن آيت۴۵

۳۳۴

موسى كے خدا كى خبرلاتا ہوں

اگرچہ مومن آل فرعون كى باتوں نے فرعون كے دل پر اس قدر اثر كيا كہ وہ موسى عليہ السلام كے قتل سے تو باز آگيا ليكن پھر بھى غرور كى چوٹى سے نيچے نہ اترا اور اپنى شيطنت سے بھى بازنہ آيا اور نہ ہى حق بات قبول كرنے پر آمادہ ہوا كيونكہ فرعون كے پاس اس بات كى نہ توصلاحيت تھى اور نہ ہى لياقت لہذا اپنے شيطنت آميز اعمال كو جارى ركھتے ہوئے اس نے ايك نئے كام كى تجويز پيش كى اور وہ ہے آسمانوں پر چڑھنے كے لئے ايك بلندو بالابرج كى تعمير تاكہ اس پر چڑھ كر موسى كے خدا كى خبر لے آئے _

فرعون نے كہا: اے ہامان : ميرے لئے ايك بلند عمارت تيار كروتاكہ ميں اسباب وذرائع تك پہنچ سكوں ايسے اسباب وذرائع جو مجھے آسمانوں تك لے جاسكيں تاكہ ميں موسى كے خدا سے باخبر ہوسكوں ہر چند كہ ميں گمان كرتاہوں كہ وہ جھوٹاہے _

جى ہاں اس قسم كے برے اعمال فرعون كى نظر ميں مزين كرديئے گئے تھے اور انھوں نے اسے راہ حق سے روك ديا تھا ،ليكن فرعون كى سازش اور چالوں كا انجام نقصان اور تباہى كے سوا كچھ نہيں ''_(۱)

سب سے پہلى چيز جو يہاں پر نظر آتى ہے وہ يہ ہے كہ آخر اس كام سے فرعون كا مقصد كيا تھا؟ آياوہ واقعاً اس حدتك احمق تھا كہ گمان كرنے لگا كہ موسى كا خدا آسمان ميں ہے ؟ بالفرض اگر آسمان ميں ہو بھى تو آسمان سے باتيں كرنے والے پہاڑوں كے ہوتے ہوئے اس عمارت كے بنانے كى كيا ضرورت تھى جو پہاڑوں كى اونچائي كے سامنے بالكل ناچيز تھي؟ اور كيا اس طرح سے وہ آسمان تك پہنچ بھى سكتا تھا؟

يہ بات تو بہت ہى بعيد معلوم ہوتى ہے كيونكہ فرعون مغرور اور متكبر ہونے كے باوجود سمجھ دار اور سياستداں شخص تو ضرورتھا جس كى وجہ سے اس نے ايك عظيم ملت كو اپنى زنجيروں ميں جكڑا تھا اور بڑے زور دار طريقے سے اس پر حكومت كرتارہا لہذا اس قسم كے افراد كى ہر ہر بات اور ہر ہر حركت شيطانى حركات

____________________

(۱)سورہ مومن آيت۳۷

۳۳۵

وسكنات كى آئينہ دار ہوتى ہيں لہذا سب سے پہلے اس كے اس شيطانى منصوبے كا تجزيہ وتحليل كرنا چاہئے كہ آخر ايسى عمارت كى تعمير كا مقصد كيا تھا ؟

بظاہر يہ معلوم ہوتا ہے كہ فرعون نے ان چند مقاصد كے پيش نظر ايسا اقدام كيا :

۱_وہ چاہتا تھا كہ لوگوں كى فكر كو مصروف ركھے موسى عليہ السلام كى نبوت اور بنى اسرائيل كے قيام كے مسئلہ سے ان كى توجہ ہٹانے كے لئے اس نے يہ منصوبہ تيار كيا، بعض مفسرين كے بقول يہ عمارت ايك نہايت ہى وسيع وعريض زمين ميں كھڑى كى گئي جس پر پچاس ہزار مزدور كام كرنے لگے اس تعميرى منصوبے نے دوسرے تمام مسائل كو بھلاديا جوں جوں عمارت بلند ہوتى جاتى تھى توں توں لوگوں كى توجہ اس كى طرف زيادہ مبذول ہوتى تھى ہر جگہ اور ہر محفل ميں نئي خبر كے عنوان سے اس كے چرچے تھے اس نے وقتى طور پر جادو گروں پر موسى عليہ السلام كى كاميابى كو جو كہ فرعون اور فرعونيوں كے پيكر پر ايك كارى ضرب تھى لوگوں كے ذہنوں سے فراموش كرديا _

۲_ وہ چاہتا تھا كہ اس طرح سے زحمت كش اور مزوور طبقے كى جزوى مادى اور اقتصادى امداد كرے اور عارضى طور پر ہى سہى بيكار لوگوں كے لئے كام مہيا كرے تاكہ تھوڑاسا اس كے مظالم كو فراموش كرديں اور اس كے خزانے كى لوگوں كو زيادہ سے زيادہ احتياج محسوس ہو _

۳_پروگرام يہ تھا كہ جب عمارت پايہ تكميل كو پہنچ جائے، تو وہ اس پر چڑھ كر آسمان كى طرف نگاہ كرے اور شايد چلہ كمان ميں ركھ كر تير چلائے اور وہ واپس لوٹ آئے تو لوگوں كو احمق بنانے كے لئے كہے كہ موسى كا خدا جو كچھ بھى تھا آج اس كا خاتمہ ہو گيا ہے اب ہر شخص بالكل مطمئن ہوكر اپنے اپنے كام ميں مصروف ہوجائے _

وگرنہ فرعون كے لئے تو صاف ظاہر تھا كہ اس كى عمارت جتنى بھى بلند ہو چند سو ميڑسے زيادہ تو اونچى نہيں جاسكتى تھى جبكہ آسمان اس سے كئي گنا بلند اور اونچے تھے، پھريہ كہ اگر بلند ترين مقام پر بھى كھڑے ہوكر آسمان كى طرف ديكھا جائے تو اس كا منظر بغير كسى كمى بيشى كے ويسے ہى نظر آتا ہے جيسے سطح زمين سے _

۳۳۶

يہ بات بھى قابل توجہ ہے كہ فرعون نے يہ بات كركے درحقيقت موسى عليہ السلام كے مقابلے سے ايك قسم كى پسپائي اختيار كى جبكہ اس نے كہا كہ ميں موسى كے خدا كے بارے ميں تحقيق كرنا چاہتاہوں '' فاطلع الى الہ موسى '' اور ساتھ ہى يہ بھى كہتا ہے كہ'' ہر چند كہ ميں اسے جھوٹا گمان كرتا ہوں '' اس طرح سے وہ يقين كى منزل سے ہٹ كر شك اور گمان كے مرحلے تك نيچے آجاتاہے _

اس مسئلے ميں مفسرين كے ايك گروہ نے (مثلاً فخر رازى اور آلوسى نے ) يہ سوال بھى اٹھايا ہے كہ آيا : فرعون نے اپنا مجوزہ بلند مينار تعمير كرايا تھا يانہيں ؟

ان مفسرين كا ذہن اس طرف اس لئے منتقل ہوا كہ مينار كى تعمير كا كام كسى طرح بھى عاقلانہ نہ تھا كيا اس عہد كے لوگ كبھى بلند پہاڑوں پر نہيں چڑھے تھے ؟ اور انھوں نے آسمان كے منظر كو ويسا ہى نہيں ديكھا تھا جيسا كہ وہ زمين سے نظرآتا ہے ؟كيا انسان كا بنايا ہوا مينار پہاڑسے زيادہ اونچا ہوسكتا ہے ؟ كيا كوئي احمق بھى يہ يقين كرسكتا ہے كہ ايسے مينار پر چڑھ كر آسمان كو چھوا جاسكتا ہے ؟

ليكن وہ مفسرين جنہوں نے يہ اشكا لات پيدا كئے ہيں ان كى توجہ ان نكات كى طرف نہيں گئي كہ اول تو ملك مصر كو ہستانى نہيں دوم يہ كہ انہوں نے اس عہد كے لوگوں كى سادہ لوحى كو فراموش كرديا كہ ان سيدھے سادھے لوگوں كو ايسے ہى مسائل سے غافل كيا جاسكتا تھا يہاں تك كہ خود ہمارے زمانے جسے عصر علم ودانش كہا جاتاہے، لوگوں كى توجہ اصل مسائل سے ہٹانے كے لئے كيسے كيسے مكرو فريب اور حيلہ سازياں كى جاتى ہيں _

پچاس ہزار معمار برج بناتے ہيں

بہر كيف _بعض تواريخ كے بيان كے مطابق، ہامان نے حكم ديا كہ ايسا محل اور برج بنانے كے لئے زمين كا ايك وسيع قطعہ انتخاب كريں اور اس كى تعمير كے لئے پچاس ہزار معمار اور مزدور روانہ كردے اور اس عمارت كے واسطے مٹيريل فراہم كرنے كے لئے ہزاروں آدمى مقرر كئے گئے اس نے خزانہ كا منہ كھول ديا اور اس مقصد كے لئے كثير رقم خرچ كى يہاں تك كہ تمام ملك مصر ميں اس عظيم برج كى تعمير كى شہرت ہوگئي _

۳۳۷

يہ عمارت جس قدر بھى بلند سے بلندتر، ہوتى جاتى تھى لوگ اتنے ہى زيادہ اسے ديكھنے آتے تھے اور منتظر تھے كہ ديكھئے فرعون يہ عمارت بنا كر كيا كرتا ہے ؟

يہ عمارت اتنى بلند ہوگئي كہ اس سے دوردور تك اطراف وجوانب كا ميدان نظر آنے لگا بعض مو رخين نے لكھا ہے كہ معماروں نے اس كى مارپيچ سيڑھياں ايسى بنائي تھيں كہ آدمى گھوڑے پر سوار ہوكر اس پر چڑھ سكتا تھا _

ميں نے موسى عليہ السلام كے خدا كو مارا ڈالا

جب وہ عمارت پايہ تكميل كو پہنچ گئي اور اسے مزيد بلند كرنے كا كوئي امكان نہ رہا تو ايك روز فرعون پورى شان وشوكت سے وہاں آيا اور بذات خود برج پر چڑھ گيا جب وہ برج كى چوٹى پر پہنچا اور آسمان كى طرف نظر اٹھائي تو اسے آسمان ويسا ہى نظر آيا جيسا كہ وہ زمين سے ديكھا كرتا تھا اس منظر ميں ذرا بھى تغيرو تبديلى نہ تھى _

مشہور يہ ہے كہ اس نے مينار پر چڑھ كے كمان ميں تير جوڑا اور آسمان كى طرف پھنكا يا تووہ تير كسى پرندے كے لگايا پہلے سے كوئي سازش كى گئي تھى كہ تير خون آلود واپس آيا تب فرعون وہاں سے نيچے اترآيا اور لوگوں سے كہا :جائو، مطمئن رہو اور كسى قسم كى فكر نہ كرو ميں نے موسى كے خدا كو مارڈالاہے _

يہ بات حتمى طور پر كہى جاسكتى ہے كہ سادہ لوحوں اور اندھى تقليد كرنے والوں كے ايك گروہ نے او ران لوگوں نے جن كى آنكھيں اور كان حكومت وقت كے پروپيگنڈے سے بند ہوگئے تھے، فرعون كے اس قول كا يقين كرليا ہوگا اور ہر جگہ اس خبر كو عام كيا ہوگا اور مصر كى رعايا كو غافل ركھنے كا ايك اور سبب پيدا ہوگا _

مفسرين نے يہ بھى لكھا ہے كہ يہ عمارت دير تك قائم نہيں رہى (اور اسے رہنا بھى نہ چاہئے تھا) تباہ ہوگئي بہت سے لوگ اس كے نيچے دب كے مرگئے اس سلسلے ميں اہل قلم نے اور بھى طرح طرح كى داستانيں لكھى ہيں ليكن ان كى صحت كى تحقيق نہ ہوسكى اس لئے انھيں قلم زد كرديا گيا ہے _

۳۳۸

بيدار كرنے والى سزائيں

ايك كلى قانون تمام پيغمبروں كے لئے يہ تھا كہ جب ان كو لوگوں كى مخالفت كا سامنا ہو اور وہ كسى طرح سے راہ راست پر نہ آئيں تو خدا ان كو بيدار كرنے كے لئے مشكلات ومصائب ميں گرفتار كرتا تھا تاكہ وہ اپنے ميں نياز مندى اور محتاجى كا احساس كريں ، اور ان كى فطرت توحيد جو آرام وآسائش كى وجہ سے غفلت كے پردوں ميں چلى گئي ہے دوبارہ ابھر آئے اوران كو اپنى ضعف وناتوانى كا اندازہ ہو اور اس قادر وتوانا ہستى كى جانب متوجہ ہوں جو ہر نعمت و نقمت كا سر چشمہ ہے _

قرآن ميں اس مطلب كى طرف اشارہ فرمايا گيا ہے : ہم نے آل فرعون كو قحط، خشك سالى اور ثمرات كى كمى ميں مبتلا كيا كہ شاہد متوجہ اور بيدار ہوجائيں(۱)

باوجود يكہ قحط سالى نے فرعونيوں كو گھير ليا تھا ليكن مذكورہ بالابيان ميں صرف فرعون كے مخصوصين كا ذكر كيا گيا ہے مقصد يہ ہے كہ اگر يہ بيدار ہوگئے تو سب لوگ بيدار ہوجائيں گے كيونكہ تمام لوگوں كى نبض انہى كے ہاتھوں ميں ہے يہ چاہيں تو بقيہ افراد كو گمراہ كريں يا ہدايت كريں _

اس نكتہ كو بھى نظر انداز نہيں كرنا چاہئے كہ خشك سالى اہل مصر كے لئے ايك بلائے عظيم شمار ہوتى تھى كيونكہ مصر پورے طور سے ايك زرعى مملكت تھى اس بناء پر اگر زراعت نہ ہوتو اس كا اثر ملك كے تمام افراد پر پڑتا ہے ليكن مسلمہ طور پر فرعون اور اس كے افراد چونكہ ان زمينوں كے مالك اہلى تھے اس لئے فى الحقيقت وہ سب سے زيادہ اس سے متاثر ہوئے تھے _

ضمناً يہ بھى معلوم ہوا كہ يہ خشك سالى كئي سال تك باقى رہى كيونكہ'' سنين'' جمع كا صيغہ ہے _

ليكن آل فرعون، بجائے اس كے كہ ان الہى تنبيہوں سے نصيحت ليتے اور خواب خرگوش سے بيدار ہوتے انہوں نے اس سے سوء استفادہ كيا اور ان حوادث كى من مانى تفسير كي، جب حالات ان كے

____________________

(۱)سورہ اعراف ۱۳۰

۳۳۹

منشا كے مطابق ہوتے تھے تو وہ راحت وآرام ميں ہوتے تھے اور كہتے كہ يہ حالات ہمارى نيكى ولياقت كى وجہ سے ہيں : ''فى الحقيقت ہم اس كے اہل ولائق ہيں ''_

ليكن جس وقت وہ مشكل ومصيبت ميں گرفتار ہوتے تھے تو اس كو فوراً موسى عليہ السلام اور ان كے ساتھيوں كے سرباندھ ديتے تھے'' اور كہتے تھے كہ يہ ان كى بد قدمى كى وجہ سے ہوا ہے _

ليكن قرآن كريم ان كے جواب ميں كہتا ہے : '' ان كى بدبختيوں اور تكليفوں كا سر چشمہ خدا كى طرف سے ہے خدا نے يہ چاہا ہے كہ اس طرح ان كو ان كے اعمال بد كى وجہ سے سزادے ليكن ان ميں سے اكثر اس كو نہيں جانتے ''_(۱)

مختلف اور پيہم بلائوں كا نزول

قرآن ميں ان بيدار كنندہ درسوں كا ايك اور مرحلہ بيان كيا گيا ہے جو خدا نے قوم فرعون كو ديئے جب مرحلہ اول يعنى قحط، خشك سالى اور مالى نقصانات نے ان كو بيدار نہ كيا تو دوسرے مرحلہ كى نوبت پہنچى جو پہلے مرحلہ سے شديد تر تھا اس مرتبہ خدا نے ان كو پے درپے ايسى بلائوں ميں جكڑا جو ان كو اچھى طرح سے كچلنے والى تھيں مگر افسوس ان كى اب بھى آنكھيں نہ كھليں _

پہلے ان بلائوں كے نزول كے مقدمہ كے طور پر فرمايا گيا ہے : انہوں نے موسى كى دعوت كے مقابلے ميں اپنے عناد كو بدستور باقى ركھا اور ''كہا كہ تم ہر چند ہمارے لئے نشانياں لائو اوران كے ذريعے ہم پر اپنا جادو كرو ہم كسى طرح بھى تم پر ايمان نہيں لائيں گے''_(۲)

لفظ''آيت '' شايد انہوں نے ازراہ تمسخر استعمال كيا تھا ، كيونكہ حضرت موسى نے اپنے معجزات كو آيات الہى قرار ديا تھا ليكن انہوں نے سحر قرار ديا_

آيات كا لہجہ اور ديگر قرائن اس بات كے مظہر ہيں كہ فرعون كے پروپيگنڈوں كا محكمہ جو اپنے زمانے

____________________

(۱)سورہ اعراف ۱۳۱

(۲)سورہ اعراف آيت ۱۳۲

۳۴۰

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667