قصص القرآن-منتخب از تفسير نمونه

قصص القرآن-منتخب از تفسير نمونه   5%

قصص القرآن-منتخب از تفسير نمونه   مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 667

قصص القرآن-منتخب از تفسير نمونه
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 667 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 334571 / ڈاؤنلوڈ: 6148
سائز سائز سائز
قصص القرآن-منتخب از تفسير نمونه

قصص القرآن-منتخب از تفسير نمونه

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

ايسے لوگ چاہتے ہيں كہ تمام كاميابياں انھيں اتفاقا ًاور معجزانہ طور پر ہى حاصل ہوجائيں يعنى لقمہ بھى كوئي اٹھاكران كے منہ ميں ڈال دے وہ حضرت موسى عليہ السلام سے كہنے لگے :'' آپ جانتے ہيں كہ اس علاقے ميں ايك جابر اور جنگجو گروہ رہتاہے جب تك وہ اسے خالى كركے باہر نہ چلاجائے ہم تو اس علاقے ميں قدم تك نہيں ركھيں گے اسى صورت ميں ہم آپ كى اطاعت كريں گے اور سرزمين مقدس ميں داخل ہوں گے ''_(۱)

بنى اسرائيل كا يہ جواب اچھى طرح نشاندہى كرتا ہے كہ طويل فرعونى استعمارنے ان كى نسلوں پر كيسا اثر چھوڑا تھا لفظ'' لن '' جود ائمى پر دلالت كرتا ہے اس سے ظاہر ہوتا ہے كہ وہ لوگ سرزمين مقدس كى آزادى كے لئے مقابلے سے كس قدر خوف زدہ تھے _

چاہئے تو يہ تھا كہ بنى اسرائيل سعى وكوشش كرتے، جہادو قربانى كے جذبے سے كام اور سرزمين مقدس پر قبضہ كرليتے اگر فرض كريں كہ سنت الہى كے برخلاف بغير كسى اقدام كے ان كے تمام دشمن معجزانہ طور پر نابود ہوجاتے اور بغير كوئي تكليف اٹھائے وہ وسيع علاقے كے وارث بن جاتے تو اس كانظام چلانے اور اس كى حفاظت ميں بھى ناكام رہتے بغير زحمت سے حاصل كى ہوئي چيز كى حفاظت سے انھيں كيا سروكار ہوسكتا تھا نہ وہ اس كے لئے تيار ہوتے اور نہ اہل _

جيسا كہ تواريخ سے ظاہر ہوتا ہے آيت ميں قوم جبار سے مراد قوم ''عمالقہ'' ہے يہ لوگ سخت جان اور بلند قامت تھے يہاں تك كہ ان كى بلند قامت كے بارے ميں بہت مبالغے ہوئے اور افسانے تراشے گئے اس سلسلے ميں مضحكہ خيز باتيں گھڑى گئيں جن كے لئے كوئي عملى دليل نہيں ہے _(۲)

____________________

(۱)سورہ مائدہ آيت ۲۲

(۲)خصوصاً '' عوج'' كے بارے ميں خرافات سے معمور ايسى كہانياں تاريخوں ميں ملتى ہيں _اس سے معلوم ہوتا ہے كہ ايسے افسانے جن ميں سے بعض اسلامى كتب ميں بھى آگئے ہيں ، دراصل بنى اسرائيل كے گھڑے ہوئے ہيں انھيں عام طورپر '' اسرائيليات''كہا جاتا ہے اس كى دليل يہ ہے كہ خود موجودہ توريت كے متن ميں ايسے افسانے دكھائي ديتے ہيں _

۳۶۱

اس كے بعد قرآن كہتا ہے :''اس وقت اہل ايمان ميں سے دوافراد ايسے تھے جن كے دل ميں خوف خدا تھا اور اس بنا پر انھيں عظيم نعمتيں ميسر تھيں ان ميں استقامت وشجاعت بھى تھى ، وہ دور انديش بھى تھے اور اجتماعى اور فوجى نقطہ نظر سے بھى بصيرت ركھتے تھے انھوں نے حضرت موسى عليہ السلام كى دفاعى تجويز كى حمايت كى اور بنى اسرائيل سے كہنے لگے : تم شہر كے دروازے سے داخل ہوجائو اور اگر تم داخل ہوگئے تو كامياب ہوجائو گے ''_

ليكن ہر صورت ميں تمہيں روح ايمان سے مدد حاصل كرنا چاہئے اور خدا پر بھروسہ كروتاكہ اس مقصد كو پالو _''(۱)

اس بارے ميں كہ يہ دو آدمى كون تھے ؟اكثر مفسرين نے لكھا ہے كہ وہ'' يوشع بن نون'' اور'' كالب بن يوفنا''(''يفنہ ''بھى لكھتے ہيں ) تھے جو بنى اسرائيل كے نقيبوں ميں سے تھے _

جب كامياب ہو جاو تو ہميں بھى خبركرنا

بنى اسرائيل نے يہ تجويز قبول نہ كى اور ضعف وكمزورى جوان كى روح پر قبضہ كرچكى تھي، كے باعث انھوں نے صراحت سے حضرت موسى عليہ السلام سے كہا:'' جب تك وہ لوگ اس سرزمين ميں ہيں ہم ہرگز داخل نہيں ہوں گے، تم اور تمہارا پروردگار جس نے تم سے كاميابى كا وعدہ كيا ہے،جائو اور عمالقہ سے جنگ كرو اور جب كامياب ہوجائو تو ہميں بتادينا ہم يہيں بيٹھے ہيں _(۲)

بنى اسرائيل نے اپنے پيغمبر كے ساتھ جسارت كى انتہاكردى تھي، كيونكہ پہلے تو انھوں نے لفظ ''لن'' اور'' ابداً'' استعمال كركے اپنى صريح مخالفت كا اظہار كيا اورپھر يہ كہا كہ تم اور تمہارا پروردگار جائو اور جنگ كرو، ہم تو يہاں بيٹھے ہيں ،انھوں نے حضرت موسى عليہ السلام اور ان كے وعدوں كي، تحقير كى يہاں تك كہ خدا كے ان دوبندوں كى تجويز كى بھى پرواہ نہيں كى اور شايد انھيں تو كوئي مختصر سا جواب تك نہيں ديا_

____________________

(۱)سورہ مائدہ آيت ۲۳

(۲)سورہ مائدہ آيت۲۴

۳۶۲

يہ امر قابل توجہ ہے كہ موجودہ توريت سفر اعداد باب ۱۴/ ميں بھى اس داستان كے بعض اہم حصے موجود ہيں _

حضرت موسى عليہ السلام ان لوگوں سے بالكل مايوس ہوگئے اور انھوں نے دعا كے لئے ہاتھ اٹھا ديئے اور ان سے عليحدگى كے لئے يوں تقاضا كيا : ''پروردگارميرا تو صرف اپنے آپ پر اور اپنے بھائي پر بس چلتا ہے : خدايا ہمارے اور اس فاسق وسركش گروہ ميں جدائي ڈال دے''_(۱)

بنى اسرائيل بيابان ميں سرگرداں

آخركار حضرت موسى عليہ السلام كى دعا قبول ہوئي اور بنى اسرائيل اپنے ان برے اعمال كے انجام سے دوچار ہوئے خدا كى طرف سے حضرت موسى عليہ السلام كو وحى ہوئي :''يہ لوگ اس مقدس سرزمين سے چاليس سال تك محروم رہيں گے جو طرح طرح كى مادى اورر وحانى نعمات سے مالامال ہے''_(۲)

علاوہ ازيں ان چاليس سالوں ميں انھيں اس بيابان ميں سرگرداں رہنا ہوگا اس كے بعد حضرت موسى عليہ السلام سے فرمايا گيا ہے : ''اس قوم كے سرپر جو كچھ بھى آئے وہ صحيح ہے، ان كے اس انجام پر كبھى غمگين نہ ہونا ''_(۳)

آخرى جملہ شايد اس لئے ہو كہ جب بنى اسرائيل كے لئے يہ فرمان صادر ہوا كہ وہ چاليس سال تك سزا كے طور پر بيابان ميں سرگرداں رہيں حضرت موسى عليہ السلام كے دل ميں جذب ہ مہربانى پيدا ہوا ہو اور شايد انھوں نے درگاہ خداوندى ميں ان كے لئے عفوودر گذر كى درخواست بھى كى ہوجيسا كہ موجودہ توريت ميں بھى ہے_

ليكن انھيں فوراً جواب ديا گيا كہ وہ اس سزا كے مستحق ہيں نہ كہ عفوودرگذركے، كيونكہ جيسا كہ قرآن ميں ہے كہ وہ فاسق اور سركش لوگ تھے اور جو ايسے ہوں ان كے لئے يہ انجام حتمى ہے _

____________________

(۱)سورہ مائدہ آيت۲۵

(۲)سورہ مائدہ آيت۲۶

(۳)سورہ مائدہ آيت

۳۶۳

توجہ رہے كہ ان كے لئے چاليس سال كى يہ محروميت انتقامى جذبے سے نہ تھى (جيسا كہ خدا كى طرف سے كوئي سزا بھى ايسى نہيں ہوتى بلكہ وہ يا اصلاح كے لئے ہوتى ہے اور يا عمل كا نتيجہ)درحقيقت اس كا ايك فلسفہ تھا اور وہ يہ كہ بنى اسرائيل ايك طويل عرصے تك فرعونى استعمار كى ضربيں جھيل چكے تھے،اس عرصے ميں حقارت آميز رسومات،اپنے مقام كى عدم شناخت اور احساسات ذلت كا شكار ہو چكے تھے اور حضرت موسى عليہ السلام جيسے عظيم رہبر كى سر پرستى ميں اس تھوڑے سے عرصے ميں اپنى روح كو ان خاميوں سے پاك نہيں كرسكے تھے اور وہ ايك ہى جست ميں افتخار،قدرت اور سربلندى كى نئي زندگى كے لئے تيار نہيں ہو پائے تھے_

حضرت موسى عليہ السلام نے انھيں مقدس سرزمين كے حصول كے لئے جہاد آزادى كا جو حكم ديا تھا اس پر عمل نہ كرنے كے لئے انھوں نے جو كچھ كہا وہ اس حقيقت كى واضح دليل ہے لہذا ضرورى تھا كہ وہ ايك طويل مدت وسيع بيابانو ں ميں سرگرداں رہيں اور اس طرح ان كى ناتواں اور غلامانہ ذہنيت كى حامل موجودہ كمزور نسل آہستہ آہستہ ختم ہوجائے اور نئي نسل حريت و آزادى كے ماحول ميں اورخدائي تعليمات كى آغوش ميں پروان چڑھے تاكہ وہ اس قسم كے جہاد كے لئے اقدام كرسكے او راس طرح سے اس سرزمين پر حق كى حكمرانى قائم ہو سكے_

بنى اسرائيل كا ايك گروہ پشيمان ہوا

بنى اسرارئيل كا ايك گروہ اپنے كئے پر سخت پشيمان ہوا_انہوں نے بارگاہ خدا كا رخ كيا_خدا نے دوسرى مرتبہ بنى اسرائيل كو اپنى نعمتوں سے نوازا جن ميں سے بعض كى طرف قرآن ميں اشارہ كيا گيا ہے_

''ہم نے تمہارے سر پر بادل سے سايہ كيا''_(۱) سر خط وہ مسافر جو صبح سے غروب تك سورج كى گرمى ميں بيابان ميں چلتا ہے وہ ايك لطيف سائے سے كيسى راحت پائے گا(وہ سايہ جو بادل كا ہو جس سے انسان كے لئے نہ تو فضا محدود ہوتى ہو اور نہ جو ہوا چلنے سے مانع ہو)_

____________________

(۱)سورہء بقر آيت۵۷

۳۶۴

يہ صحيح ہے كہ بادل كے سايہ فگن ٹكڑوں كا احتمال ہميشہ بيابان ميں ہوتا ہے ليكن قرآن واضح طور پر كہہ رہا ہے كہ بنى اسرئيل كے ساتھ ايسا عام حالات كى طرح نہ تھا بلكہ وہ لطف خدا سے اكثر اس عظيم نعمت سے بہرہ ور ہوتے تھے_

دوسرى طرف اس خشك اور جلادينے والے بيابان ميں چاليس سا ل كى طويل مدت سرگرداں رہنے والوں كے لئے غذا كى كافى و وافى ضرورت تھي،اس مشكل كو بھى خداوند عالم نے ان كے لئے حل كرديا ،جيسا كہ اشاد ہوتا ہے:ہم نے'' من وسلوى '' جو لذيذ اور طاقت بخش غذا ہے تم پر نازل كيا_

ان پاكيزہ غذائوں سے جو تمہيں روزى كے طور پر دى گئي ہيں كھائو(اور حكم خدا كى نافرمانى نہ كرو اور اس كى نعمت كا شكر اداكرو_)

ليكن وہ پھر بھى شكر گزارى كے دروازے ميں داخل نہيں ہوئے(تاہم)''انہوں نے ہم پر كوئي ظلم نہيں كيا بلكہ اپنے اوپر ہى ظلم كيا ہے''_(۱)

منّ و سلوى كيا ہے؟

نبى اكرم (ص) سے منقول ايك روايت كے مطابق،آپ نے فرمايا:

''كھمبى كى قسم كى ايك چيز تھى جو اس زمين ميں اُگتى تھي''_پس معلوم ہوا كہ ''منّ''ايك ''قارچ''تھى جو اس علاقہ ميں پيدا ہوتى تھي_(۲)

____________________

(۱)سورہ بقر آيت۵۷

(۲)توريت ميں ہے كہ ''منّ''دھنيے كے دانوں جيسى كوئي چيزہے جو رات كو اس سر زمين پر آگرتى تھي،بنى اسرائيل اسے اكٹھا كركے پيس ليتے اور اس سے روٹى پكاتے تھے جس كا ذائقہ روغنى روٹى جيسا ہوتا تھا_

۳۶۵

ايك احتمال اور بھى ہے كہ بنى اسرائيل كى سرگردانى كے زمانے ميں خدا كے لطف وكرم سے جو نفع بخش بارشيں برستى تھيں ان كے نتيجے ميں درختوں سے كوئي خاص قسم كا صمغ اور شيرہ نكلتا تھا اور بنى اسرائيل اس سے مستفيد ہوتے تھے_

بعض نے كہا ہے كہ'' منّ'' سے مراد وہ تمام نعمتيں جو خدانے بنى اسرائيل كو عطا فرمائي تھيں اور سلوى وہ تمام عطيات ہيں جو ان كى راحت و آرام اور اطمينان كا سبب تھے_

''سلوى ''اگر چہ بعض مفسرين نے اسے شہد كے ہم معنى ليا ہے ليكن دوسرے تقريباًسب مفسرين نے اسے پرندے كى ايك قسم قرار ديا ہے_يہ پرندہ اطراف اور مختلف علاقوں سے كثرت سے اس علاقے ميں آتا تھا اور بنى اسرائيل اس كے گوشت سے استفادہ كرتے تھے_عہدين پر لكھى گئي تفسير ميں بھى اس نظريہ كى تائيد دكھائي ديتى ہے_(۱)

البتہ بنى اسرائيل كى سرگردانى كے دنوں ميں ان پر خدا كا يہ خاص لطف وكرم تھا كہ يہ پرندہ وہاں كثرت سے ہوتا تھا تا كہ وہ اس سے استفادہ كرسكيں _ورنہ تو عام حالات ميں اس طرح كى نعمت كا وجود مشكل تھا_

بعض ديگر حضرات كے نزديك''من''ايك قسم كا طبيعى شہد ہے اور بنى اسرائيل اس بيابان ميں طويل مدت تك چلتے پھرتے رہنے سے شہد كے مخزنوں تك پہنچ جاتے تھے كيونكہ ''بيابان تيہ ''كے كناروں پر پہاڑ اور سنگلاخ علاقہ تھا جس ميں كافى طبيعى شہد نظر آجاتا تھا_

عہدين(توريت اور انجيل)پر لكھى گئي تفسير سے اس تفسير كى تائيد ہوتى ہے جس ميں ہے كہ مقدس سر زمين قسم قسم كے پھولوں اور شگوفوں كى وجہ سے مشہور ہے اسى لئے شہد كى مكھيوں كے جتھے ہميشہ پتھروں كے سوراخوں ،درختوں كى شاخوں اور لوگوں كے گھروں پر جا بيٹھتے ہيں اس طرح سے بہت فقير و مسكين لوگ بھى شہد كھا سكتے تھے_

____________________

(۱)اس ميں لكھا ہے معلوم ہونا چاہيے كہ بہت بڑى تعداد ميں سلوى افريقہ سے چل كے شمال كو جاتے ہيں _''جزيرہ كاپري'' ميں ايك فصل ميں ۱۶ہزار كى تعداد ميں ان كا شكار كيا گيا _يہ پرندہ بحيرہ قلزم كے راستے سے آتا ہے_ خليج عقبہ اور رسويز كو عبور كرتا ہے_ ہفتے كو جزيرہ سينا ميں داخل ہوتا ہے اور راستے ميں اس قدر تكان و تكليف جھيلنے كى وجہ سے آسانى سے ہاتھ سے پكڑا جا سكتا ہے، اور جب پرواز كرتا ہے تو زمين كے قريب ہوتا ہے_اس حصے كے متعلق(توريت كے)سفر خروج اور سفر اعداد ميں گفتگو ہوئي ہے_

اس تحرير سے بھى واضح ہوتا ہے كہ سلوى سے مراد وہى پر گوشت پرندہ ہے جو كبوتر كے مشابہ اور اس كے ہم وزن ہوتا ہے اور يہ پرندہ اس سر زمين ميں مشہور ہے _

۳۶۶

بيابانوں ميں چشمہ ابلنا

بنى اسرائيل پر كى گئي ايك اور نعمت كى نشاندہى كرتے ہوئے اللہ فرماتا ہے:''ياد كرو اس وقت كو جب موسى عليہ السلام نے(اس خشك اورجلانے والے بيا بان ميں جس وقت بنى اسرائيل پانى كى وجہ سے سخت تنگى ميں مبتلا تھے)پانى كى درخواست كي''_(۱) تو خدا نے اس درخواست كو قبول كيا جيسا كہ قرآن كہتا ہے:ہم نے اسے حكم ديا كہ اپنا عصا مخصوص پتھر پر مارو اس سے اچانك پانى نكلنے لگا اور پانى كے بارہ چشمے زور و شور سے جارى ہوگئے_(۲) بنى اسرائيل كے قبائيل كى تعداد كے عين مطابق جب يہ چشمے جارى ہوئے تو ايك چشمہ ايك قبيلے كى طرف جھك جاتا تھا جس پر بنى اسرائيل كے لوگوں ''اور قبيلوں ميں سے ہر ايك نے اپنے اپنے چشمے كو پہچان ليا_(۳) يہ پتھر كس قسم كا تھا،حضرت موسى عليہ السلام كس طرح اس پر عصا مارتے تھے اور پانى اس ميں سے كيسے جارى ہوجاتا تھا_اس سلسلے ميں بہت كچھ گفتگو كى گئي ہے_قرآن جو كچھ اس بارے ميں كہتا ہے وہ اس سے زيا دہ نہيں كہ موسى عليہ السلام نے اس پر عصا مارا تو اس سے بارہ چشمے جارى ہوگئے_ بعض مفسرين كہتے ہيں كہ يہ پتھر ايك كوہستانى علاقے كے ايك حصے ميں واقع تھا جو اس بيابان كى طرف جھكا ہوا تھا_ سورہ اعراف آيہ۱۶۰كى تعبيراس بات كى نشاندہى كرتى ہے كہ ابتداء ميں اس پتھر سے تھوڑا تھوڑا پانى نكلا ،بعد ميں زيادہ ہوگيا،يہاں تك كہ بنى اسرائيل كا ہر قبيلہ ان كے جانور جو ان كے ساتھ تھے اور وہ كھيتى جو انہوں نے احتمالاً اس بيابان كے ايك حصے ميں تيار كى تھى سب اس سے سيراب ہوگئے،يہ كوئي تعجب كى بات نہيں كہ كوہستانى علاقے ميں پتھر كے ايك حصے سے پانى جارى ہوا البتہ يہ مسلم ہے كہ يہ سب معجزے سے رونما ہوا_(۴)

____________________

(۱)سورہ بقرہ آيت۶۰

(۲)سورہ بقرہ ايت ۶۰

(۳)سورہ بقرہ آيت۶۰

(۴)توريت كى سترھويں فصل ميں سفر خروج كے ذيل ميں بھى يوں لكھا ہے:

''خدا نے موسى عليہ السلام سے كہا:قوم كے آگے آگے رہو اور اسرائيل كے بعض بزرگوں كو ساتھ لے لو اور وہ عصا جسے نہر پر مارا تھا ہاتھ ميں لے كر روانہ ہو جائو_ ميں وہاں تمہارے سامنے كوہ حوريب پر كھڑا ہوجائوں گا_ اور اسے پتھر پر مارو،اس سے پانى جارى ہوجائےگا ،تاكہ قوم پى لے اور موسى عليہ السلام نے اسرائيل كے مشائخ اور بزرگوں كے سامنے ايسا ہى كيا''_

۳۶۷

بہر حال ايك طرف خداوند عالم نے ان پر من و سلوى نازل كيا اور دوسرى طرف انہيں فراوان پانى عطا كيا اور ان سے فرمايا:''خدا كى دى ہوئي روزى سے كھائو پيو ليكن زمين ميں خرابى اور فساد نہ كرو''_(۱)

گويا انہيں متوجہ كيا گياہے كہ كم از كم ان عظيم نعمتوں كى شكر گزارى كے طور پر ضدى پن،ستمگري،انبياء كى ايذا رسانى اور بہانہ بازى ترك كردو_

مختلف كھانوں كى تمنا

ان نعمات فراوان كى تفصيل كے بعد جن سے خدا نے بنى اسرائيل كو نوازا تھا_ قرآن ميں ان عظيم نعمتوں پر ان كے كفران اور ناشكر گزارى كى حالت كو منعكس كيا گيا ہے_اس ميں اس بات كى نشاندہى ہے كہ وہ كس قسم كے ہٹ دھرم لوگ تھے_شايد تاريخ دنيا ميں ايسى كوئي مثال نہ ملے گى كہ كچھ لوگوں پر اس طرح سے الطاف الہى ہو ليكن انہوں نے اس طرح سے اس كے مقابلے ميں ناشكر ى اور نا فرمانى كى ہو_

پہلے فرمايا گيا ہے:

''ياد كرو اس وقت كو جب تم نے كہا :اے موسى ہم سے ہر گز يہ نہيں ہوسكتا كہ ايك ہى غذا پر قناعت كرليں ،(من و سلوى كتنى ہى لذيذ غذا ہو، ہم مختلف قسم كى غذا چاہتے ہيں _)(۲)

''لہذا خدا سے خواہش كرو كہ وہ زمين سے جو كچھ اگايا كرتا ہے ہمارے لئے بھى اگائے سبزيوں ميں سے،ككڑي،لہسن،مسور اور پياز''_(۳)

ليكن موسى عليہ السلام نے ان سے كہا:''كيا تم بہتر كے بجائے پست تر غذا پسند كرتے ہو''_(۴)

''جب معاملہ ايسا ہى ہے تو پھر اس بيابان سے نكلو اور كسى شہر ميں داخل ہونے كى كوشش كروكيونكہ جو كچھ تم چاہتے ہو وہ وہاں ہے''_(۵) يعنى تم لوگ اس وقت اس بيابان ميں خود سازى اور امتحان كى منزل ميں ہو،يہاں مختلف كھانے نہيں مل سكتے ،جاو شہر ميں جاو تاكہ يہ چيزيں تمہيں مل جائيں ،ليكن يہ خود سازى كا پروگرام وہاں نہيں ہے_ اس كے بعد قرآن مزيد كہتا ہے كہ خدا نے ان كى پيشانى پر ذلت و فقر كى مہر لگاديااور وہ دوبارہ غضب الہى ميں گرفتار ہوگئے

____________________

(۱)سورہ بقرہ آيت۶۰ (۲)سورہ بقرہ آيت۶۱ (۳)سورہ بقرہ آيت۶۱

(۴)سورہ بقرہ آيت۶۱ (۵)سورہ بقرہ آيت۶۱

۳۶۸

_ يہ اس لئے ہوا كہ وہ آيات الہى كا انكار كرتے تھے اور ناحق انبياء كو قتل كرتے تھے _ يہ سب اس لئے تھا كہ وہ گناہ،سركشى اور تجاوز كے مرتكب ہوتے تھے_(۱)

عظيم وعدہ گاہ

قرآن ميں بنى اسرائيل كى زندگى كا ايك اور منظر بيان كيا گيا ہے_ ايك مرتبہ پھر حضرت موسى عليہ السلام كو اپنى قوم سے جھگڑنا پڑا ہے،حضرت موسى عليہ السلام كا خدا كے مقام وعدہ پر جانا،وحى كے ذريعے احكام توريت لينا،خدا سے باتيں كرنا،كچھ بزرگان بنى اسرائيل كو ميعاد گاہ ميں ان واقعات كے مشاہدہ كے لئے لانا،اس بات كا اظہار ہے كہ خدا كو ان آنكھوں سے ہر گز نہيں ديكھا جاسكتا_ پہلے فرمايا گيا ہے:''ہم نے موسى سے تيس راتوں (پورے ايك مہينہ)كا وعدہ كيا،اس كے بعد مزيد دس راتيں بڑھا كر اس وعدہ كى تكميل كي، چنانچہ موسى سے خدا كا وعدہ چاليس راتوں ميں پورا ہوا''_(۲)

اس كے بعد اس طرح بيان كيا گيا ہے:''موسى نے اپنے بھائي ہارون سے كہا:ميرى قوم ميں تم ميرے جانشين بن جائو اور ان كى اصلاح كى كوشش كرو اور كبھى مفسدوں كى پيروى نہ كرنا''_(۳)(۴)

____________________

(۱)سورہ بقرہ آيت۶۱ (۲)سورہ اعراف آيت ۱۴۲ (۳)سورہ اعراف آيت۱۴۳

(۴)پہلا سوال يہ پيدا ہوتا ہے كہ خدا نے پہلے ہى سے چاليس راتوں كا وعدہ كيوں نہ كيا بلكہ پہلے تيس راتوں كا وعدہ كيا اس كے بعد دس راتوں كا اور اضافہ كرديا_

مفسرين كے درميان اس تفريق كے بارے ميں بحث ہے، ليكن جو بات بيشتر قرين قياس ہے،نيز روايات اہل بيت عليہم السلام كے بھى موافق ہے وہ يہ ہے كہ يہ ميعاد اگر چہ واقع ميں چاليس راتوں كا تھا ليكن خدا نے بنى اسرائيل كى آزمائش كرنے كے لئے پہلے موسى عليہ السلام كو تيس راتوں كى دعوت دى پھر اس كے بعد اس كى تجديد كردى تا كہ منافقين مومنين سے الگ ہوجائيں _اس سلسلے ميں امام محمد باقر عليہ السلام سے نقل ہوا ہے كہ آپ(ع) نے فرمايا: جس وقت حضرت موسى عليہ السلام وعدہ گاہ الہى كى طرف گئے تو انہوں نے بنى اسرائيل سے يہ كہہ ركھا تھا كہ ان كى غيبت تيس روز سے زيادہ طولانى نہ ہوگى ليكن جب خدا نے اس پر دس دنوں كا اضافہ كرديا تو بنى اسرائيل نے كہا:موسى عليہ السلام نے اپنا وعدہ توڑ ديا اس كے نتيجہ ميں انہوں نے وہ كام كئے جو ہم جانتے ہيں (يعنى گوسالہ پرستى ميں مبتلا ہوگئے_) رہا يہ سوال كہ يہ چاليس روز يا چاليس راتيں ،اسلامى مہينوں ميں سے كونسا زمانہ تھا؟ بعض روايات سے معلوم ہوتا ہے كہ يہ مدت ذيقعدہ كى پہلى تاريخ سے لے كر ذى الحجہ كى دس تاريخ تك تھي_ قرآن ميں چاليس راتوں كا ذكر ہے نہ كہ چاليس دنوں كا_ تو شايد اس وجہ سے ہے كہ حضرت موسى عليہ السلام كى اپنے رب سے جو مناجاتيں تھيں وہ زيادہ تر رات ہى كے وقت ہوا كرتى تھيں _ اس كے بعد ايك اور سوال سامنے آتا ہے،وہ يہ كہ حضرت موسى عليہ السلام نے كسطرح اپنے بھائي ہارون(ع) سے كہا كہ:قوم كى اصلاح كى كوشش كرنا اور مفسدوں كى پيروى نہ كرنا،جبكہ حضرت ہارون(ع) ايك نبى برحق اور معصوم تھے وہ بھلا مفسدوں كى پيروى كيوں كرنے لگے؟ اس كا جواب يہ ہے كہ:يہ درحقيقت اس بات كى تاكيد كے لئے تھا كہ حضرت ہارون(ع) كو اپنى قوم ميں اپنے مقام كى اہميت كا احساس رہے اور شايد اس طرح سے خود بنى اسرائيل كو بھى اس بات كا احساس دلانا چاہتے تھے كہ وہ ان كى غيبت ميں حضرت ہارون(ع) كى رہنمائي كا اچھى طرح اثر ليں اور ان كا كہنا مانيں اور ان كے اوامر ور نواہي(احكامات)كو اپنے لئے سخت نہ سمجھيں ،اس سے اپنى تحقير خيال نہ كريں اور انكے سامنے اس طرح مطيع و فرمانبرداررہيں جس طرح وہ خود حضرت موسى عليہ السلام كے فرمانبردار تھے_

۳۶۹

ديدار پرودگار كى خواہش

قرآن ميں بنى اسرائيل كى زندگى كے بعض ديگر مناظر پيش كئے گئے ہيں _ان ميں سے ايك يہ ہے كہ بنى اسرائيل كے ايك گروہ نے حضرت موسى عليہ السلام سے بڑے اصرار كے ساتھ يہ خواہش كى كہ وہ خدا كو ديكھيں گے_ اگر ان كى يہ خواہش پورى نہ ہوئي تو وہ ہر گز ايمان نہ لائيں گے_ چنانچہ حضرت موسى عليہ السلام نے ان كے ستر آدميوں كا انتخاب كيا اور انہيں اپنے ہمراہ پروردگار كى ميعادگاہ كى طرف لے گئے، وہاں پہنچ كر ان لوگوں كى درخواست كو خدا كى بارگاہ ميں پيش كيا_ خدا كى طرف سے اس كا ايسا جواب ملا جس سے بنى اسرائيل كے لئے يہ بات اچھى طرح سے واضح ہوگئي_

ارشاد ہوتا ہے:'' جس وقت موسى ہمارى ميعادگاہ ميں آئے اور ان كے پروردگار نے ان سے باتيں كيں تو انہوں نے كہا:اے پروردگار خود كو مجھے دكھلادے تاكہ ميں تجھے ديكھ لوں ''_(۱) ليكن موسى عليہ السلام نے فوراًخدا كى طرف سے يہ جواب سنا: تم ہز گز مجھے نہيں ديكھ سكتے _ ليكن پہاڑ كى حانب نظر كرو اگر وہ اپنى جگہ پر ٹھہرا رہا تب مجھے ديكھ سكو گے_

جس وقت خدا نے پہاڑ پر جلوہ كيا تو اسے فنا كرديا اور اسے زمين كے برابر كرديا_

موسى عليہ السلام نے جب يہ ہولناك منظر ديكھا تو ايسا اضطراب لاحق ہوا كہ بے ہوش ہو كر زمين پر گرپڑے_اور جب ہوش ميں آئے تو خدا كى بارگاہ ميں عرض كى پروردگاراتو منزہ ہے،ميں تيرى طرف پلٹتا ہوں ،اور توبہ كرتا ہوں اور ميں پہلا ہوں مومنين ميں سے_(۲)

حضرت موسى عليہ السلام نے رويت كى خواہش كيوں كي؟

حضرت موسى عليہ السلام جيسے اولوالعزم نبى كو اچھى طرح معلوم تھا كہ ذات خداوندى قابل ديد نہيں ہے كيونكہ نہ تو وہ جسم ہے،نہ اس كے لئے كوئي مكان و جہت ہے اس كے باوجود انہوں نے ايسى خواہش كيسے كردى جو فى الحقيقت ايك عام انسان كى شان كے لئے بھى مناسب نہيں ہے؟

سب سے واضح جواب يہ ہے كہ جضرت موسى عليہ السلام نے يہ خواہش در اصل اپنى قوم كى طرف سے كى تھى كيونكہ بنى اسرائيل كے جہلاء كے ايك گروہ كا يہ اصرار تھا كہ وہ خدا كو كھلم كھلا ديكھيں گے تب ايمان لائيں گے_

____________________

(۱)سورہ اعراف ۱۴۳

(۲)سورہ اعراف آيت۱۴۳

۳۷۰

حضرت موسى عليہ السلام كو اللہ كى جانب سے يہ حكم ملا كہ وہ اس درخواست كو خدا كى بارگاہ ميں پيش كريں تا كہ سب اس كا جواب سن ليں ،كتاب عيون اخبار الرضا ميں امام رضا عليہ السلام سے جو حديث مروى ہے وہ بھى اس مطلب كى تائيد كرتى ہے_(۱)

الواح توريت

آخر كار اس عظيم ميعادگاہ ميں اللہ نے موسى عليہ السلام پر اپنى شريعت كے قوانين نازل فرمائے_پہلے ان سے فرمايا:''اے موسى ميں نے تمہيں لوگوں پر منتخب كيا ہے،اور تم كو اپنى رسالتيں دى ہيں ،اور تم كو اپنے ساتھ گفتگو كا شرف عطا كيا ہے''_(۲)

____________________

(۱)حضرت موسى عليہ السلام نے كس چيز سے توبہ كى ؟اس بارے ميں جوسوال سامنے آتا ہے يہ ہے كہ جب حضرت موسى عليہ السلام ہوش ميں آئے تو انہوں نے كيوں كہا :''ميں تو بہ كر تا ہوں ''

حالانكہ انہوں نے كوئي خلاف ورزى نہيں كى تھي_كيونكہ اگر انہوں نے يہ درخواست اپنى امت كى طرف سے كى تھى تو اس ميں ان كا كيا قصور تھا،اللہ كى اجازت سے انہوں نے يہ درخواست خدا كے سامنے پيش كى اور اگر اپنے لئے شہود باطنى كى تمنا كى تھى تو يہ بھى خدا كے حكم كى مخالفت نہ تھي،لہذا توبہ كس بات كى تھي؟دوطرح سے اس سوال كا جواب ديا جا سكتا ہے:

اول:يہ كہ حضرت موسى عليہ السلام نے بنى اسرائيل كى نمائندگى كے طور پر خداسے يہ سوال كيا تھا،اس كے بعد جب خدا كى طرف سے سخت جواب ملا جس ميں اس سوال كى غلطى كو بتلايا گيا تھا تو حضرت موسى عليہ السلام نے توبہ بھى انہيں كى طرف سے كى تھي_

دوم:يہ كہ حضرت موسى عليہ السلام كو اگر چہ يہ حكم ديا گيا تھا كہ وہ بنى اسرائيل كى درخواست كو پيش كريں ليكن جس وقت پروردگار كى تجلى كا واقعہ رونما ہوا اور حقيقت آشكار ہوگئي تو حضرت موسى عليہ السلام كى يہ ماموريت ختم ہوچكى تھى اب حضرت موسى عليہ السلام كو چاہيئے پہلى حالت(يعنى قبل از ماموريت)كى طرف پلٹ جائيں اور اپنے ايمان كا اظہار كريں تاكہ كسى كے لئے جائے شبہ باقى نہ رہے،لہذا اس حالت كا اظہار موسى عليہ السلام نے اپنى توبہ اور اس جملہ ''انى تبت اليك وانا اول المو منين''سے كيا_

(۲)سورہ اعراف۱۴۴

۳۷۱

اب جبكہ ايسا ہے تو''جو ميں نے تم كو حكم ديا ہے اسے لے لو اور ہمارے اس عطيہ پر شكر كرنے والوں ميں سے ہوجائو''_(۱)

اس كے بعد اضافہ كيا گيا ہے كہ :ہم نے جو الواح موسى عليہ السلام پر نازل كى تھيں ان پر ہر موضوع كے بارے ميں كافى نصيحتيں تھيں اورضرورت كے مسائل كى شرح اور بيان تھا_

اس كے بعد ہم نے موسى عليہ السلام كو حكم ديا كہ''بڑى توجہ اور قوت ارادى كے ساتھ ان فرامين كو اختيار كرو_''(۲) اور اپنى قوم كو بھى حكم دو كہ ان ميں جو بہترين ہيں انہيں اختيار كريں _

اور انہيں خبردار كردوكہ ان فرامين كى مخالفت اور ان كى اطاعت سے فرار كرنے كا نتيجہ دردناك ہے اوراس كا انجام دوزخ ہے اور ''ميں جلد ہى فاسقوں كى جگہ تمہيں دكھلادوں گا_''(۳)(۴)

____________________

(۱)سورہ اعراف۱۴۴

(۲)سورہ اعراف آيت ۱۴۵

(۳)سورہ اعراف آيت۱۴۵

(۴)يہاں پردو چيزوں كى طرف توجہ كرنا ضرورى ہے:

۱_الواح كس چيز كى بنى ہوئي تھيں :اس آيت كا ظاہر يہ ہے كہ خداوند كريم نے حضرت موسى عليہ السلام پر جو الواح نازل كى تھيں ان ميں توريت كى شريعت اور قوانين لكھے ہوئے تھے ،ايسا نہ تھا كہ يہ لوحيں حضرت موسى عليہ السلام كے ہاتھ ميں تھيں اور اس ميں فرامين منعكس ہوگئے تھے_ اب رہا يہ سوال كہ يہ لوحيں كيسى تھيں ؟كس چيز كى بنى ہوئي تھيں ؟ قرآن نے اس بات كى كوئي وضاحت نہيں كى ہے صرف كلمہ''الواح'' سربستہ طور پر آيا ہے_جو در اصل''لاح يلوح''كے مادہ سے ماخوذ ہے جس كے معنى ظاہر ہونے اور چمكنے كے ہيں _چونكہ صفحہ كے ايك طرف لكھنے سے حروف نماياں ہوجاتے ہيں اور مطلب آشكار ہوجاتے ہيں ،اس لئے صفحہ كو جس پر كچھ لكھا جائے''لوح''كہتے ہيں _ليكن روايات و اقوال مفسرين ميں ان الواح كى كيفيت كے بارے ميں اور ان كى جنس كے بارے ميں گوناگوں احتمالات ذكر كئے گئے ہيں _ چونكہ ان ميں سے كوئي بھى يقينى نہيں ہے اس لئے ان كے ذكر سے ہم اعراض كرتے ہيں _

۲_كلام كيسے ہوا:قرآن كريم كى مختلف آيات سے استفادہ ہوتا ہے كہ خداوندمتعال نے حضرت موسى عليہ السلام سے كلام كيا،خدا كا موسى عليہ السلام سے كلام كرنا اس طرح تھا كہ اس نے صوتى امواج كو فضا ميں يا كسى جسم ميں پيدا كرديا تھا_ كبھى يہ امواج صوتي''شجرہ وادى ايمن ''سے ظاہر ہوتى تھيں اور كبھي''كوہ طور'' سے حضرت موسى عليہ السلام كے كان ميں پہنچتى تھيں _ جن لوگوں نے صرف الفاظ پر نظر كى ہے اور اس پر غور نہيں كيا كہ يہ الفاظ كہاں سے نكل سكتے ہيں انہوں نے يہ خيال كيا كہ خدا كا كلام كرنا اس كے تجسم كى دليل ہے_حالانكہ يہ خيال بالكل بے بنياد ہے_

۳۷۲

يہوديوں ميں گوسالہ پرستى كاآغاز

قرآن ميں افسوسناك اور تعجب خيز واقعات ميں سے ايك واقعہ كا ذكر ہوا ہے جو حضرت موسى عليہ السلام كے ميقات كى طرف جانے كے بعد بنى اسرائيل ميں رونما ہوا_وہ واقعہ ان لوگوں كى گوسالہ پرستى ہے_ جو ايك شخص بنام''سامري''نے زيور و آلات بنى اسرائيل كے ذريعے شروع كيا_

سامرى كو چونكہ اس بات كا احساس تھاكہ قوم موسى عليہ السلام عرصہ دراز محرومى اور مظلومى كى زندگى بسر كررہى تھى اس وجہ سے اس ميں ماد ہ پرستى پائي جاتى تھى اور حب زر كا جذبہ بدرجہ اتم پايا جاتا تھا_ جيسا كہ آج بھى ان كى يہى صفت ہے لہذا اس نے يہ چالاكى كى كہ وہ مجسمہ سونے كا بناياكہ اس طرح ان كى تو جہ زيادہ سے زيادہ اس كى طرف مبذول كراسكے_

اب رہا يہ سوال كہ اس محروم و فقير ملت كے پاس اس روز اتنى مقدارميں زروزيور كہاں سے آگيا كہ اس سے يہ مجسمہ تيار ہوگيا؟اس كا جواب روايات ميں اس طرح ملتا ہے كہ بنى اسرائيل كى عورتوں نے ايك تہوار كے موقع پر فرعونيوں سے زيورات مستعار لئے تھے يہ اسوقت كى بات ہے جس كے بعد ان كى غرقابى عمل ميں آئي تھي_اس كے بعد وہ زيورات ان عورتوں كے پاس باقى رہ گئے تھے_

اتنا ضرور ہے كہ يہ حادثہ مثل ديگر اجتماعى حوادث كے بغير كسى آمادگى اور مقدمہ كے وقوع پذيز نہيں ہوا بلكہ اس ميں متعدد اسباب كار فرما تھے،جن ميں سے بعض يہ ہيں :

بنى اسرائيل عرصہ دراز سے اہل مصر كى بت پرستى ديكھتے آرہے تھے_

جب دريائے نيل كو عبور كيا تو انہوں نے ايك قوم كو ديكھا جو بت كى پرستش كرتى تھي_ جيسا كہ قرآن نے بھى اس كا ذكر كيا ہے اور گذشتہ ميں بھى اس كا ذكر گزرا كہ بنى اسرائيل نے حضرت موسى عليہ السلام سے ان كى طرح كا بت بنانے كى فرمائش كى جس پر حضرت موسى عليہ السلام نے انہيں سخت سرزنش كي_

حضرت موسى عليہ السلام كے ميقات كاپہلے تيس راتوں كا ہونا اس كے بعد چاليس راتوں كا ہوجانا اس سے بعض منافقوں كو يہ موقع ملاكہ حضرت موسى عليہ السلام كى وفا ت كى افواہ پھيلا ديں _

۳۷۳

قوم موسى عليہ السلام ميں بہت سے افرادكا جہل و نادانى سے متصف ہونا اس كے مقابلے ميں سامرى كى مكارى و مہارت كيونكہ اس نے بڑى ہوشيارى سے بت پرستى كے پروگرام كو عملى جامہ پہنايا، بہر حال ان تمام باتوں نے اكٹھا ہوكر اس بات كے اسباب پيدا كئے كہ بنى اسرائيل كى اكثريت بت پرستى كو قبول كرے اور''گوسالہ''كے چاروں طرف اس كے ماننے والے ہنگامہ برپاكرديں _

دودن ميں چھ لاكھ گوسالہ پرست بن گئے

سب سے بڑھ كرعجيب بات يہ ہے كہ بعض مفسرين نے يہ بيان كيا ہے كہ بنى اسرائيل ميں يہ انحرافى تبديلياں صرف گنتى كے چند دنوں كے اندر واقع ہوگئيں جب موسى عليہ السلام كو ميعاد گاہ كى طرف گئے ہوئے ۳۵/دن گزر گئے تو سامرى نے اپنا كام شروع كرديا اور بنى اسرائيل سے مطالبہ كيا كہ وہ تمام زيورات جو انہوں نے فرعونيوں سے عاريتاًلئے تھے اور ان كے غرق ہوجانے كے بعد وہ انھيں كے پاس رہ گئے تھے انہيں جمع كريں چھتيسويں ، سنتيسويں اور اڑ تيسويں دن انہيں ايك كٹھائي ميں ڈالااور پگھلاكر اس سے گوسالہ كا مجسمہ بنا ديا اور انتاليسويں دن انہيں اس كى پرستش كى دعوت دى اور ايك بہت بڑى تعداد (كچھ روايات كى بناء پر چھ لاكھ افراد) نے اسے قبول كرليااور ايك روز بعد يعنى چاليس روز گزرنے پر موسى عليہ السلام واپس آگئے _

قرآن اس طرح فرماتا ہے:

''قوم موسى نے موسى كے ميقات كى طرف جانے كے بعد اپنے زيوارات وآلات سے ايك گوسالہ بنايا جو ايك بے جان جسد تھا جس ميں سے گائے كى آواز آتى تھي_(۱)

اسے انہوں نے اپنے واسطے انتخاب كيا ''

اگرچہ يہ عمل سامرى سے سرزد ہوا تھا_(۲)

ليكن اس كى نسبت قوم موسى كى طرف دى گئي ہے اس كى وجہ يہ ہے كہ ان ميں سے بہت سے لوگوں

____________________

(۱)سورہ اعراف آيت ۱۴۸

(۲)جيسا كہ سورہ طہ كى آيات ميں آياہے

۳۷۴

نے اس كام ميں سامرى كى مدد كى تھى اور وہ اس كے شريك جرم تھے اس كے علاوہ ان لوگوں كى بڑى تعداد اس كے فعل پر راضى تھى _

قرانى گفتگو كاظاہر يہ ہے كہ تمام قوم موسى اس گوسالہ پرستى ميں شريك تھى ليكن اگردوسرى ايت پر نظر كى جائے جس ميں آيا ہے كہ :

''قوم موسى ميں ايك امت تھى جو لوگوں كو حق كى ہدايت كرتى تھى اور اسى كى طرف متوجہ تھي''_(۱)

اس سے معلوم ہوگا كہ اس سے مراد تمام امت موسى نہيں ہے بلكہ اس كى اكثريت اس گوسالہ پرستى كى تابع ہوگئي تھي، جيسا كہ آئندہ آنے والا ہے كہ وہ اكثريت اتنى زيادہ تھى كہ حضرت ہارون عليہ السلام مع اپنے ساتھيوں كے ان كے مقالے ميں ضعيف وناتواں ہوگئے تھے _

گوسالہ پرستوں كے خلاف شديد رد عمل

يہاں پر قرآن ميں اس كشمكش اور نزاع كا ماجرا بيان كيا گيا ہے جو حضرت موسى عليہ السلام اور گوسالہ پرستوں كے درميان واقع ہوئي جب وہ ميعادگاہ سے واپس ہوئے جس كى طرف گذشتہ ميں صرف اشارہ كيا گيا تھا يہاں پر تفصيل كے ساتھ حضرت موسى عليہ السلام كے اس رد عمل كو بيان كيا گيا ہے جو اس گروہ كے بيدار كرنے كے لئے ان سے ظاہر ہوا _

پہلے ارشاد ہوتا :'' جس وقت موسى غضبناك ورنجيدہ اپنى قوم كى طرف پلٹے اور گوسالہ پرستى كانفرت انگيز منظر ديكھا تو ان سے كہا كہ تم لوگ ميرے بعد برے جانشين نكلے تم نے ميرا آئين ضائع كرديا ''_(۲)

يہاں سے صاف معلوم ہوتا ہے كہ حضرت موسى عليہ السلام ميعاد گاہ پروردگار سے پلٹتے وقت قبل اس كے كہ بنى اسرائيل سے ملتے، غضبناك اور اندو ہگين تھے، اس كى وجہ يہ تھى كہ خدا نے ميعادگاہ ميں انہيں اس كى خبردے دى تھى _

____________________

(۱) سورہ اعراف آيت ۱۵۹

(۲)سورہ اعراف آيت۱۵۰

۳۷۵

جيسا كہ قرآن كہتا ہے :ميں نے تمہارے پيچھے تمہارى قوم كى آزمائش كى ليكن وہ اس آزمائش ميں پورى نہ اترى اور سامرى نے انہيں گمراہ كر ديا_

اس كے بعد موسى عليہ السلام نے ان سے كہا:'' آيا تم نے اپنے پروردگار كے فرمان كے بارے ميں جلدى كى ''_(۱)

تم نے خدا كے اس فرمان، كہ اس نے ميعاد كا وقت تيس شب سے چاليس شب كرديا ، جلدى كى اور جلد فيصلہ كرديا ، ميرے نہ آنے كو ميرے مرنے يا وعدہ خلافى كى دليل سمجھ ليا، حالانكہ لازم تھا كہ تھوڑا صبر سے كام ليتے ، چند روز اور انتظار كرليتے تاكہ حقيقت واضح ہوجاتى _

اس وقت جبكہ حضرت موسى عليہ السلام بنى اسرائيل كى زندگى كے ان طوفانى وبحرانى لمحات سے گزر رہے تھے، سرسے پيرتك غصہ اور افسوس كى شدت سے بھڑك رہے تھے ،ايك عظيم اندوہ نے ان كے وجود پر سايہ ڈال ديا تھا اور انہيں بنى اسرائيل كے مستقبل كے بارے ميں بڑى تشويش لاحق تھي، كيونكہ تخريب اور تباہ كارى آسانى سے ہوجاتى ہے كبھى صرف ايك انسان كے ذريعے بہت بڑى خرابى اور تباہى واقع ہوجاتى ہے ليكن اصلاح اور تعمير ميں دير لگتى ہے _

خاص طور پر جب كسى نادان متعصب اورہٹ دھر م قوم كے درميان كوئي غلط سازبجاديا جائے تو اس كے بعد اس كے برے اثرات كا زائل كرنا بہت مشكل ہوتا ہے _

بے نظير غصہ

اس موقع پر حضرت موسى عليہ السلام كو غصہ كرنا چاہئے تھا اور ايك شديد ردّ عمل ظاہر كر ناچا ہئے تھا تاكہ بنى اسرائيل كے فاسد افكار كى بنياد گر اكر اس منحرف قوم ميں انقلاب برپا كرديں ،ورنہ تو اس قوم كو پلٹانا مشكل تھا_

____________________

(۱)سورہ اعراف آيت ۱۵۰

۳۷۶

قرآن نے حضرت موسى عليہ السلام كا وہ شديد ردّ عمل بيان كيا ہے جو اس طوفانى و بحرانى منظركو ديكھنے كے بعد ان سے ظاہر ہوا ،موسى عليہ السلام نے بے اختيار نہ طور پر اپنے ہاتھ سے توريت كى الواح كو زمين پر ڈال ديا اور اپنے بھائي ہارون عليہ السلام كے پاس گئے اور ان كے سر اور داڑھى كے بالوں كو پكڑكر اپنى طرف كھينچا''(۱)

حضرت موسى عليہ السلام نے اس كے علاوہ ہارون عليہ السلام كو بڑى شدت سے سرزنش كى اور بآواز بلند چيخ كرپكارے:

كيا تم نے بنى اسرائيل كے عقائدكى حفاظت ميں كوتاہى كى اور ميرے فرمان كى مخالفت كى ؟''(۲)

درحقيقت حضرت موسى عليہ السلام كا يہ ردّ عمل ايك طرف تو ان كى اس واردات قلبي، بے قرارى اور شديد ناراضى كى حكايت كرتا ہے تاكہ بنى اسرائيل كى عقل ميں ايك حركت پيدا ہو اور وہ اپنے اس عمل كى قباحت كى طرف متوجہ ہوجائيں _

بنابريں اگرچہ بالفرض الواح توريت كا پھينك دينا قابل اعتراض معلوم ہوتا ہو، اور بھائي كى شديد سرنش نادرست ہو ليكن اگرحقيقت كى طرف توجہ كى جائے كہ اگر حضرت موسى عليہ السلام اس شديد اور پرہيجانى ردّ عمل كا اظہار نہ كرتے تو ہر گز بنى اسرائيل اپنى غلطى كى سنگينى اور اہميت كا اندازہ نہيں كرسكتے تھے ،ممكن تھا كہ اس بت پرستى كے آثاربدان كے ذہنوں ميں باقى رہ جاتے لہذا حضرت موسى عليہ السلام نے جو كچھ كيا وہ نہ صرف غلط نہ تھا بلكہ امر لازم تھا_

حضرت موسى عليہ السلام اس واقعہ سے اس قدر ناراض ہوئے كہ تاريخ بنى اسرائيل ميں كبھى اس قدر ناراض نہ ہوئے تھے كيونكہ ان كے سامنے بدترين منظر تھا يعنى بنى اسرائيل خدا پرستى كو چھوڑ كر گوسالہ پرستى اختيار كرچكے تھے جس كى وجہ سے حضرت موسى عليہ السلام كى وہ تمام زحمتيں جو انہوں نے بنى اسرائيل كى ہدايت كے لئے كى تھيں سب برباد ہورہى تھيں _

____________________

(۱)سورہ اعراف ۱۵۰

(۲)سورہ طہ آيت ۱۵۰

-

۳۷۷

لہذا ايسے موقع پر الواح كا ہاتھوں سے گرجانا اور بھائي سے سخت مواخذہ كرنا ايك طبعى امر تھا_

اے ميرى ماں كے بيٹے ميں بے گناہ ہوں

اس شديد رد عمل اور غيظ وغضب كے اظہارنے بنى اسرائيل پر بہت زيادہ تربيتى اثر مرتب كيا اور منظر كو بالكل پلٹ ديا جبكہ اگر حضرت موسى عليہ السلام نرم زبان استعمال كرتے تو شايد اس كا تھوڑا سا اثر بھى مرتب نہ ہوتا _

اس كے بعد قرآن كہتا ہے : ہارون عليہ السلام نے موسى عليہ السلام كى محبت كو برانگيختہ كرنے كے لئے اور اپنى بے گناہى بيان كرنے كے لئے كہا:

''اے ميرے ماں جائے:اس نادان امت كے باعث ہم اس قدر قليل ہوگئے كہ نزديك تھا كہ مجھے قتل كرديں لہذا ميں بالكل بے گناہ ہوں لہذا آپ كوئي ايسا كام نہ كريں كہ دشمن ہنسى اڑائيں اور مجھے اس ستمگر امت كى صف ميں قرار نہ ديں ''_(۱)

قرآن ميں جو '' ابن ام'' كى تعبير آئي ہے جس كے معنى (اے ميرى ماں كے بيٹے،كے ہيں )حالانكہ موسى عليہ السلام اورہارون عليہ السلام دونوں ايك والدين كى اولاد تھے يہ اس لئے تھا كہ حضرت ہارون چاہتے تھے كہ حضرت موسى كا جذبہ محبت بيدار كريں بہر حال حضرت موسى عليہ السلام كى يہ تدبير كار آمد ہوئي اور بنى اسرائيل كو اپنى غلطى كا احساس ہوا اور انہوں نے توبہ كى خواہش كا اظہار كيا _''

اب حضرت موسى عليہ السلام كى آتش غضب كم ہوئي اور وہ درگاہ خداواندى كى طرف متوجہ ہوئے اور عرض كى :

''پروردگارا مجھے اور ميرے بھائي كو بخش دے اور ہميں اپنى رحمت بے پاياں ميں داخل كردے، تو تمام مہربانوں سے زيادہ مہربان ہے''_(۲)

____________________

(۱)سورہ اعراف آيت ۱۵۱

(۲)سورہ اعراف آيت ۱۵۰

۳۷۸

اپنے لئے اور اپنے بھائي كے لئے بخشش طلب كرنا اس بناپر نہيں تھا كہ ان سے كوئي گناہ سرزد ہوا تھا بلكہ يہ پروردگار كى بارگاہ ميں ايك طرح كا خضوع وخشوع تھا اور اس كى طرف بازگشت تھى اور بت پرستوں كے اعمال زشت سے اظہار تنفر تھا _(۱)

____________________

(۱)قران اور موجود ہ توريت كا ايك موازنہ

جيسا كہ آيات سے معلوم ہوتا ہے كہ '' گوسالہ '' كو نہ تو بنى اسرائيل نے بنايا تھا نہ حضرت ہارون عليہ السلام نے ،بلكہ بنى اسرائيل ميں سے ايك شخص سامرى نے يہ حركت كى تھي، جس پر حضرت ہارون عليہ السلام جو حضرت موسى عليہ السلام كے بھائي اور ان كے معاون تھے خاموش نہ بيٹھے بلكہ انہوں نے اپنى پورى كوشش صرف كي، انہوں نے اتنى كوشش كى كہ نزديك تھا كہ لوگ انہيں قتل كرديتے _ ليكن عجيب بات يہ ہے كہ موجودہ توريت ميں گوسالہ سازى اور بت پرستى كى طرف دعوت كو حضرت ہارون عليہ السلام كى طرف نسبت دى گئي ہے، چنانچہ توريت كے سفر خروج كى فصل ۳۲ ميں يہ عبارت ملتى ہے: جس وقت قوم موسى نے ديكھا كہ موسى كے پہاڑسے نيچے اترنے ميں دير ہوئي تو وہ ہارون كے پاس اكٹھا ہوئے اور ان سے كہا اٹھو اور ہمارے لئے ايسا خدا بنائو جوہمارے آگے آگے چلے كيونكہ يہ شخص موسى جو ہم كو مصر سے نكال كريہاں لايا ہے نہيں معلوم اس پر كيا گذري، ہارون نے ان سے كہا: طلائي بندے (گوشوارے) جو تمہارى عورتوں اور بچوں كے كانوں ميں ہيں انہيں ان كے كانوں سے اتار كر ميرے پاس لاو ،پس پورى قوم ان گوشواروں كو كانوں سے جدا كر كے ہارون كے پاس لائي، ہارون نے ان گوشواروں كو ان لوگوں كے ہاتھوں سے ليا اور كندہ كرنے كے ايك آلہ كے ذريعے تصوير بنائي اور اس سے ايك گوسالہ كا مجسمہ ڈھالااور كہا كہ اے بنى اسرائيل يہ تمہارا خدا ہے جو تمہيں سرزمين مصر سے باہر لايا ہے '' اسى كے ذيل ميں ان مراسم كوبيان كيا گيا ہے جوحضرت ہارون نے اس بت كے سامنے قربانى كرنے كے بارے ميں بيان كئے تھے _

جو كچھ سطور بالا ميں بيان ہوا يہ بنى اسرائيل كى گوسالہ پرستى كى داستان كا ايك حصہ ہے جو توريت ميں مذكورہے اس كى عبارت بعينہ نقل كى گئي ہے حالانكہ خود توريت نے حضرت ہارون كے مقام بلندكومتعدد فصول ميں بيان كيا ہے ان ميں سے ايك يہ ہے كہ حضرت موسى عليہ السلام كے معجزات حضرت ہارون عليہ السلام كے ذريعے ظاہر ہوئے تھے (فصل ۸ از سفر خروج توريت ) اور ہارون عليہ السلام كا حضرت مو سى عليہ السلام كے ايك رسول كى حيثيت سے تعارف كروايا گيا ہے_ (فصل ۸ از سفر خروج) بہركيف حضرت ہارون عليہ السلام جو حضرت موسى عليہ السلام كے جانشين برحق تھے اور ان كى شريعت كے سب سے بڑے عالم وعارف تھے توريت ان كے لئے مقام بلند كى قائل ہے اب ذراان خرافات كو بھى ديكھ ليجئے كہ انہيں ايك بت سازہى نہيں بلكہ ايك مئوسس بت پرستى كى حيثيت سے روشناس كرايا ہے بلكہ ''عذر گناہ بد تراز گناہ'' كے مقولہ كے مطابق ان كى جانب سے ايك غلط عذر پيش كيا كيونكہ جب حضرت موسى عليہ السلام نے ان پر اعتراض كيا تو انہوں نے يہ عذر پيش كيا كہ چونكہ يہ قوم بدى كى طرف مائل تھى اس لئے ميں نے بھى اسے اس راہ پرلگاديا جبكہ قرآن ان دونوں بلند پايہ پيغمبروں كو ہر قسم كے شرك اور بت پرستى سے پاك وصاف سمجھتا ہے _ صرف يہى ايك مقام نہيں جہاں قرآن تاريخ انبياء ومرسلين كى پاكى وتقدس كا مظہرہے جبكہ موجودہ توريت كى تاريخ انبياء ومرسلين كى ساحت قدس كے متعلق انواع واقسام كى خرافات سے بھرى ہوئي ہے ہمارے عقيدہ كے مطابق حقانيت واصالت قرآن اور موجودہ توريت وانجيل كى تحريف كو پہچاننے كا ايك طريقہ يہ بھى ہے كہ ان دونوں ميں انبياء كى جو تاريخ بيان كى گئي ہے اس كا موازنہ كرليا جائے اس سے اپنے آپ پتہ چل جائيگا كہ حق كيا ہے اور باطل كيا ہے ؟

۳۷۹

طلائي گوسالہ سے كس طرح آواز پيدا ہوئي؟

سامرى جو كہ ايك صاحب فن انسان تھا اس نے اپنى معلومات سے كام لے كر طلائي گوسالہ كے سينے ميں كچھ مخصوص نل ( PIPE ) اس طرح مخفى كرديئے جن كے اندر سے دبائو كى وجہ سے جب ہوا نكلتى تھى تو گائے كى آواز آتى تھى _

كچھ كاخيال ہے كہ گوسالہ كا منہ اس طرح كا پيچيدہ بنايا گيا تھا كہ جب اسے ہوا كے رخ پرركھا جاتاہے تھا تو اس كے منہ سے يہ آوازنكلتى تھي_

قرآن ميں پڑھتے ہيں كہ جناب موسى نے سامرى سے بازپرس شروع كى اور كہا :''يہ كيا كام تھا كہ جوتونے انجام ديا ہے اور اے سامرى : تجھے كس چيزنے اس بات پر آمادہ كيا_

اس نے جواب ميں كہا :''ميں كچھ ايسے مطالب سے آگاہ ہوا كہ جو انہوں نے نہيں ديكھے اور وہ اس سے آگاہ نہيں ہوئے ''_

۳۸۰

ميں نے ايك چيزخدا كے بھيجے ہوئے رسول كے آثار ميں سے لى اور پھر ميں نے اسے دور پھينك ديا اور ميرے نفس نے اس بات كو اسى طرح مجھے خوش نما كركے دكھايا''(۱)

اس بارے ميں كہ اس گفتگو سے سامرى كى كيا مراد تھي، مفسرين كے درميان دوتفسيريں مشہور ہيں : پہلى يہ كہ اس كا مقصد يہ تھا كہ فرعون كے لشكر كے دريائے نيل كے پاس آنے كے موقع پر ميں نے جبرئيل كو ايك سوارى پر سوار ديكھا كہ وہ لشكر كو دريا كے خشك شدہ راستوں پر ورود كےلئے تشويق دينے كى خاطران كے آگے آگے چل رہاتھا ميں نے كچھ مٹى ان كے پائوں كے نيچے سے ياان كى سوارى كے پائوں كے نيچے سے اٹھالى اور اسے سنبھال كر ركھا اور اسے سونے كے بچھڑے كے اندارڈالا اور يہ صدا اسى كى بركت سے پيدا ہوئي ہے _

دوسرى تفسير يہ ہے كہ ميں ابتداء ميں ميں خدا كے اس رسول (موسى )كے كچھ آثار پر ايمان لے آيا اس كے بعد مجھے اس ميں كچھ شك اور تردد ہوا لہذا ميں نے اسے دور پھينك ديا اور بت پرستى كے دين كى طرف مائل ہوگيا اور يہ ميرى نظر ميں زيادہ پسنديدہ اورزيبا ہے _

سامرى كى سزا

يہ بات صاف طور پر واضح اور روشن ہے كہ موسى كے سوال كے جواب ميں سامرى كى بات كسى طرح بھى قابل قبول نہيں تھي،لہذا حضرت موسى عليہ السلام نے اس كے مجرم ہونے كا فرمان اسى عدالت ميں صادر كر ديا اور اسے اس گوسالہ پرستى كے بارے ميں تين حكم ديئے_

پہلا حكم يہ كہ اس سے كہا'' تو لوگوں كے درميان سے نكل جا اور كسى كے ساتھ ميل ملاپ نہ كر اور تيرى باقى زندگى ميں تيرا حصہ صرف اتنا ہے كہ جو شخص بھى تيرے قريب آئے گا تو اس سے كہے گا '' مجھ سے مس نہ ہو'' _(۲)

____________________

(۱)سورہ طہ آيت۹۶

(۲)سورہ طہ آيت۹۷

۳۸۱

اس طرح ايك قاطع اور دوٹوك فرمان كے ذريعے سامرى كو معاشرے سے باہر نكال پھينكا اور اسے مطلق گوشہ نشينى ميں ڈال ديا _

بعض مفسرين نے كہا ہے كہ '' مجھ سے مس نہ ہو'' كا جملہ شريعت موسى عليہ السلام كے ايك فوجدارى قانون كى طرف اشارہ ہے كہ جو بعض ايسے افراد كے بارے ميں كہ جو سنگين جرم كے مرتكب ہوتے تھے صادر ہوتا تھا وہ شخص ايك ايسے موجود كى حيثيت سے كہ جو پليد ونجس وناپاك ہو، قرار پاجاتا تھا كوئي اس سے ميل ملاپ نہ كرے اور نہ اسے يہ حق ہوتا تھا وہ كسى سے ميل ملاپ ركھے _

سامرى اس واقعے كے بعد مجبور ہوگيا كہ وہ بنى اسرائيل اور ان كے شہر وديار سے باہر نكل جائے اور بيابانوں ميں جارہے اور يہ اس جاہ طلب انسان كى سزا ہے كہ جو اپنى بدعتوں كے ذريعے چاہتا تھا كہ بڑے بڑے گروہوں كو منحرف كركے اپنے گرد جمع كرے، اسے نا كام ہى ہونا چاہئے يہاں تك كہ ايك بھى شخص اس سے ميل ملاپ نہ ركھے اور اس قسم كے انسان كےلئے يہ مكمل بائيكاٹ موت اور قتل ہونے سے بھى زيادہ سخت ہے كيونكہ وہ ايك پليد اور آلودہ وجود كى صورت ميں ہر جگہ سے راندہ اور دھتكارا ہوا ہوتا ہے _

بعض مفسرين نے يہ بھى كہا ہے كہ سامرى كا بڑا جرم ثابت ہوجانے كے بعد حضرت موسى نے اس كے بارے ميں نفرين كى اور خدا نے اسے ايك پر اسرار بيمارى ميں مبتلا كرديا كہ جب تك وہ زندہ رہا كوئي شخص اسے چھو نہيں سكتا تھا اور اگر كوئي اسے چھوليتا تو وہ بھى بيمارى ميں گرفتار ہوجاتا _يايہ كہ سامرى ايك قسم كى نفسياتى بيمارى ميں جو ہر شخص سے وسواس شديد اور وحشت كى صورت ميں تھى ;گرفتار ہوگيا، اس طرح سے كہ جو شخص بھى اس كے نزديك ہوتا وہ چلاتا كہ'' مجھے مت چھونا''_سامرى كے لئے دوسرى سزا يہ تھى كہ حضرت موسى عليہ السلام نے اسے قيامت ميں ہونے والے عذاب كى بھى خبردى اور كہا تيرے آگے ايك وعدہ گاہ ہے، خدائي دردناك عذاب كا وعدہ كہ جس سے ہرگز نہيں بچ سكے گا ''(۱)

____________________

(۱)سورہ طہ ايت ۹۷

۳۸۲

تيسرا كام يہ تھا كہ جو موسى عليہ السلام نے سامرى سے كہا: '' اپنے اس معبود كو كہ جس كى تو ہميشہ عبادت كرتا تھا ذرا ديكھ اور نگاہ كر ہم اس كو جلا رہے ہيں اور پھر اس كے ذرات كو دريا ميں بكھيرديں گے ''(تاكہ ہميشہ كے لئے نابود ہوجائے)(۱)(۲)

گناہ عظيم اور كم نظير توبہ

حضرت موسى عليہ السلام كے اس شديد رد عمل نے اپنا اثر دكھايا او جن لوگوں نے گوسالہ پر ستى اختيار كى تھى اور ان كى تعداد اكثريت ميں تھى وہ اپنے كام سے پشيمان ہوئے ان كى شايد مذكورہ پشيمانى كافى تھي، قرآن نے يہ اضافہ كيا ہے :باقى رہتا ہے يہ سوال كہ اس '' غضب '' اور ذلت '' سے كيا مراد ہے؟ قرآن نے اس امر كى كوئي توضيح نہيں كى ہے صرف سربستہ كہہ كر بات آگے بڑھادى ہے_

____________________

(۱)سورہ طہ آيت۹۷

(۲)سامرى كون ہے ؟اصل لفظ '' سامري'' عبرانى زبان ميں '' شمرى '' ہے اور چونكہ يہ معمول ہے كہ جب عبرانى زبان كے الفاظ عربى زبان ميں آتے ہيں تو '' شين'' كا لفظ ''سين'' سے بدل جاتا ہے ، جيسا كہ '' موشى '' ''موسي'' سے اور '' يشوع'' '' يسوع'' سے تبديل ہوجاتاہے اس بناء پر سامرى بھى '' شمرون '' كى طرف منسوب تھا' اور'' شمرون'' '' يشاكر'' كا بيٹا تھا، جو يعقوب كى چوتھى نسل ہے _اسى سے يہ بات بھى واضح ہوجاتى ہے كہ بعض عيسائيوں كا قرآن پر يہ اعتراض بالكل بے بنيادہے كہ قرآن نے ايك ايسے شخص كو كہ جو موسى عليہ السلام كے زمانے ميں رہتا تھا اور وہ گوسالہ پرستى كا سر پرست بنا تھا ،شہر سامرہ سے منسوب ''سامري''كے طورپر متعارف كرايا ہے، جب كہ شہر سامرہ اس زمانے ميں بالكل موجود ہى نہيں تھا ،كيونكہ جيسا كہ ہم بيان كرچكے ہيں كہ ''سامرى '' شمرون كى طرف منسوب ہے نہ كر سامرہ شہر كى طرف _

بہرحال سامرى ايك خود خواہ اور منحرف شخص ہونے كے باوجود بڑا ہوشيار تھا وہ بڑى جرا ت اور مہارت كے ساتھ بنى اسرائيل كے ضعف كے نكات اور كمزورى كے پہلوئوں سے استفادہ كرتے ہوئے اس قسم كا عظيم فتنہ كھڑا كرنے پرقادر ہوگيا كہ جو ايك قطعى اكثريت كے بت پرستى كى طرف مائل ہونے كا سبب بنے اور جيسا كہ ہم نے ديكھا ہے كہ اس نے اپنى اس خود خواہى اور فتنہ انگيزى كى سزا بھى اسى دنيا ميں ديكھ لى _''

(۳)سورہ اعراف ايت ۱۵۲

۳۸۳

ليكن ممكن ہے اس سے ان بد بختيوں اور پريشانيوں كى جانب اشارہ مقصود ہوجو اس ماجرے كے بعد اور بيت المقدس ميں ان كى حكومت سے پہلے انہيں پيش آئيں _

يا اس سے مراد اللہ كا وہ حكم ہو جو اس گناہ كے بعد انہيں ديا گيا كہ وہ بطور پاداش ايك دوسرے كو قتل كريں _

قرآن اس كے بعد اس گناہ سے توبہ كے سلسلے ميں كہتا ہے:''اور ياد كرو اس وقت كو جب موسى نے اپنى قوم سے كہا :اے قوم تم نے بچھڑے كو منتخب كر كے اپنے اوپر ظلم كيا ہے ،اب جو ايسا ہوگيا ہے تو توبہ كرو اور اپنے پيدا كرنے والے كى طرف پلٹ آئو''_

''تمہارى توبہ اس طرح ہونى چاہيئے كہ تم ايك دوسرے كو قتل كرو_يہ كام تمہارے لئے تمہارے خالق كى بارگاہ ميں بہتر ہے_اس ماجرے كے بعد خدا نے تمہارى توبہ قبول كرلى جو تواب و ررحيم ہے''_(۱)

اس ميں شك نہيں كہ سامرى كے بچھڑے كى پرستش و عبادت كوئي معمولى بات نہ تھى وہ قوم جو خدا كى يہ تمام آيات ديكھ چكى تھى اور اپنے عظيم پيغمبر كے معجزات كا مشاہدہ كرچكى تھى ان سب كو بھول كر پيغمبر كى ايك مختصر سى غيبت ميں اصل توحيد اور آئين خداوندى كو پورے طور پر پائوں تلے رونددے اور بت پرست ہوجائے_

اب اگر يہ بات ان كے دماغ سے ہميشہ كے لئے جڑ سے نہ نكالى جاتى تو خطرناك حالت پيدا ہونے كا انديشہ تھا اور ہر موقعے كے بعدا ور خصوصاًحضرت موسى عليہ السلام كى زندگى كے بعد ممكن تھا ان كى دعوت كى تمام آيات ختم كردى جاتيں اور اس عظيم قوم كى تقدير مكمل طور پر خطرے سے دوچار ہوجاتي_

اكٹھا قتل

يہاں شدت عمل سے كام ليا گيا اور صرف پشيمانى اور زبان سے اظہار توبہ پر ہرگز قناعت نہ كى گئي_يہى وجہ ہے كہ خدا كى طرف سے ايسا سخت حكم صادر ہوا جس كى مثال تمام انبياء كى طويل تاريخ ميں كہيں

____________________

(۱)سورہ بقرہ آيت۵۴

۳۸۴

نہيں ملتى اور وہ يہ كہ توبہ اور توحيد كى طرف باز گشت كے سلسلے ميں گناہگاروں كے كثير گروہ كے لئے اكٹھا قتل كرنے كا حكم ديا گيا_يہ فرمان بھى ايك خاص طريقے سے جارى ہونا چاہيئےھا اور وہ يہ ہوا كہ وہ لوگ خود تلواريں ہاتھ ميں لے كر ايك دوسرے كو قتل كريں كہ ايك اس كا اپنا مارا جانا عذاب ہے اور دوسرا دوستوں اور شناسائوں كا قتل كرنا_

بعض روايات كے مطابق حضرت موسى عليہ السلام نے حكم ديا كہ ايك تاريك رات ميں وہ تمام لوگ جنہوں نے بچھڑے كى عبادت كى تھى غسل كريں كفن پہن ليں اور صفيں باندھ كر ايك دوسرے پرتلوار چلائيں _

ممكن ہے يہ تصور كيا جائے كہ يہ توبہ كيوں اتنى سختى سے انجام پذير ہوئي كيا يہ ممكن نہ تھاكہ خدا ان كى توبہ كو بغير اس خونريزى كے قبول كرليتا_

اس سوال كا جواب گذشتہ گفتگو سے واضح ہوجاتا ہے كيونكہ اصل توحيد سے انحراف اوربت پرستى كى طرف جھكائو كا مسئلہ اتنا سادہ اور آسان نہ تھا كہ اتنى آسانى سے درگذر كرديا جاتا اور وہ بھى ان واضح معجزات اور خدا كى بڑى بڑى نعمتوں كے مشاہدے كے بعد _ در حقيقت اديان آسمانى كے تمام اصولوں كو توحيد اور يگانہ پرستى ميں جمع كيا جاسكتا ہے_اس اصل كا متزلزل ہونا دين كى تمام بنيادوں كے خاتمے كے برابر ہے اگر گائو پرستى كے مسئلے كو آسان سمجھ ليا جاتا تو شايد آنے والے لوگوں كے لئے سنت بن جاتا_

خصوصاً بنى اسرائيل كے لئے جن كے بارے ميں تاريخ شاہد ہے كہ ضدى اور بہانہ باز لوگ تھے_ لہذا چاہئے تھا كہ ان كى ايسى گوشمالى كى جائے كہ اس كى چبھن تمام صديوں اور زمانوں تك باقى رہ جائے اور اس كے بعد كوئي شخص بت پرستى كى فكر ميں نہ پڑے_

خداكى آيات كو مضبوطى سے پكڑ لو

عظيم اسلامى مفسر مرحوم طبرسي،ابن زيد كا قول اس طرح نقل كرتے ہيں :جس وقت حضرت موسى عليہ السلام كوہ طور سے واپس آئے اور اپنے ساتھ توريت لائے تو اپنى قوم كو بتايا كہ ميں آسمانى كتاب لے كر آيا ہوں جو دينى احكام اور حلال و حرام پر مشتمل ہے_ يہ وہ احكام ہيں جنہيں خدا نے تمہارے لئے عملى پروگرام

۳۸۵

قرار ديا ہے_اسے لے كر اس كے احكام پر عمل كرو_ اس بہانے سے كہ يہ ان كے لے مشكل احكام ہيں ،يہودى نافرمانى اور سركشى پر تل گئے_ خدا نے بھى فرشتوں كو مامور كيا كہ وہ كوہ طور كا ايك بہت بڑا ٹكڑا ان كے سروں پر لاكر كھڑا كرديں ،اسى اثناء ميں حضرت موسى عليہ السلام نے انہيں خبردى كہ عہد وپيمان باندھ لو،احكام خداپر عمل كرو،سركشى و بغاوت سے توبہ كرو تو تم سے يہ عذاب ٹل جائے گا ورنہ سب ہلاك ہو جائوگے_

اس پر انہوں نے سر تسليم خم كرديا_ توريت كو قبول كيا اور خدا كے حضور ميں سجدہ كيا_جب كہ ہر لحظہ وہ كوہ طور كے اپنے سروں پر گرنے كے منتظر تھے ليكن بالآخر ان كى توبہ كى وجہ سے عذاب الہى ٹل گيا_

يہ نكتہ ياد ركھناضرورى ہے كہ كوہ طور كے بنى اسرائيل كے سروں پر مسلط ہونے كى كيفيت كے سلسلے ميں مفسرين كى ايك جماعت كا اعتقاد ہے كہ حكم خدا سے كوہ طور اپنى جگہ سے اكھڑ گيا اور سائبان كى طرح ان كے سروں پر مسلط ہوگيا_

جبكہ بعض دوسرے مفسرين يہ كہتے ہيں كہ پہاڑميں سخت قسم كا زلزلہ آيا ،پہار اس طرح لرزنے اور حركت كرنے لگا كہ كسى بھى وقت وہ ان كے سروں پر آگرے گا ليكن خدا كے لطف و كرم سے زلزلہ رك گيا اور پہاڑ اپنى جگہ پر قائم ہوگيا_

يہ احتمال بھى ہو سكتا ہے كہ پہاڑ كا ايك بہت بڑا ٹكڑا زلزلے اور شديد بجلى كے زير اثر اپنى جگہ سے اكھڑ كر ان كے سروں كے اوپر سے بحكم خدا اس طرح گزرا ہو كہ چند لحظے انہوں نے اسے اپنے سروں پر ديكھا ہو اور يہ خيال كيا ہو كہ وہ ان پر گرناچاہتا ہے ليكن يہ عذاب ان سے ٹل گيا اور وہ ٹكڑا كہيں دور جاگرا_(۱)

____________________

(۱)كيا اس عہد وپيمان ميں جبر كا پہلو ہے:اس سوال كے جواب ميں بعض كہتے ہيں كہ ان كے سروں پر پہاڑ كا مسلط ہونا ڈرانے دھمكانے كے طور پر تھا نہ كہ جبر و اضطرار كے طور پر ورنہ جبرى عہد و پيمان كى تو كوئي قدرو قيمت نہيں ہے_ليكن زيادہ صحيح يہى ہے كہ اس ميں كوئي حرج نہيں كہ سركش او رباغى افراد كو تہديد و سزا كے ذريعے حق كے سامنے جھكاديا جائے_يہ تہديد اور سختى جو وقتى طور پر ہے ان كے غرور كو توڑدے گي_ انہيں صحيح غور و فكر پر ابھارے گى اور اس راستے پر چلتے چلتے وہ اپنے ارادہ و اختيار سے اپنى ذمہ دارياں پورى كرنے لگيں گے_بہر حال يہ پيمان زيادہ تر عملى پہلوئوں سے مربوط تھا ورنہ عقائد كو تو جبرو اكراہ سے نہيں بدلا جاسكتا_

۳۸۶

ايئے _واقعہ كى تفصيل قرآن ميں پڑھتے ہيں كہ:''اور (وہ وقت كہ)جب ہم نے تم سے عہد ليا اور كوہ طور كو تمہارے سروں كے اوپر مسلط كرديا اور تمہيں كہا كہ،جو كچھ (آيات و احكام ميں )ہم نے تمہيں ديا ہے اسے مضبوطى سے تھامو اور جو كچھ اس ميں ہے اسے ياد ركھو (اور اس پر عمل كرو)شايد اس طرح تم پرہيزگار ہوجائو''_(۱)

اس كے بعد پھر تم نے روگردانى كى اور اگر تم پر خدا كا فضل و رحمت نہ ہوتا تو تم نقصان اٹھانے والوں ميں سے ہوتے''_(۲)

اس عہد و پيمان ميں يہ چيزيں شامل تھيں :

پروردگار كى توحيد پر ايمان ركھنا،ماں باپ، عزيز و اقارب،يتيم اور حاجتمندو ں سے نيكى كرنا اور خونريزى سے پرہيز كرنا_ يہ كلى طور پر ان صحيح عقائد اور خدائي پروگراموں كے بارے ميں عہد و پيمان تھا جن كا توريت ميں ذكر كيا گيا تھا_

كوہ طور

كوہ طورسے مراد يہاں اسم جنس ہے يا يہ مخصوص پہاڑ ہے_اس سلسلے ميں دو تفسيريں موجودہيں _بعض كہتے ہيں كہ طور اسى مشہور پہاڑ كى طرف اشارہ ہے جہاں حضرت موسى عليہ السلام پر وحى نازل ہوئي_

ليكن بعض كے نزديك يہ احتمال بھى ہے كہ طور لغوى معنى كے لحاظ سے مطلق پہاڑ ہے_ يہ وہى چيز ہے جسے سورہ اعراف كى آيہ۱۷۱ ميں ''جبل''سے تعبير كيا گيا ہے:

توريت كيا ہے

توريت عبرانى زبان كا لفظ ہے، اس كا معنى ہے''شريعت''اور''قانون''_يہ لفظ خداكى طرف سے

____________________

(۱)سورہ بقر آيت ۶۳

(۲)سورہ بقرہ آيت ۶۴

۳۸۷

حضرت موسى عليہ السلام بن عمران پر نازل ہونے والى كتاب كے لئے بولا جاتا ہے_نيز بعض اوقات عہد عتيق كى كتب كے مجموعے كے لئے اور كبھى كبھى توريت كے پانچوں اسفار كے لئے بھى استعمال ہوتا ہے_

اس كى وضاحت يہ ہے كہ يہوديوں كى كتب كے مجموعے كو عہد عتيق كہتے ہيں _اس ميں توريت اور چندديگر كتب شامل ہيں _

توريت كے پانچ حصے ہيں :

جنہيں سفر پيدائش ،سفر خروج،سفر لاويان،سفر اعداد اور سفر تثنيہ كہتے ہيں _ اس كے موضوعات يہ ہيں :

۱)كائنات،انسان اور ديگر مخلوقات كى خلقت_

۲)حضرت موسى (ع) بن عمران،گذشتہ انبياء اور بنى اسرائيل كے حالات وغيرہ_

۳)اس دين كے احكام كى تشريح_

عہد عتيق كى ديگر كتابيں در اصل حضرت موسى عليہ السلام كے بعد كے مو رخين كى تحرير كردہ ہيں _ ان ميں حضرت موسى (ع) بن عمران كے بعد كے نبيوں ،حكمرانوں اور قوموں كے حالات بيان كئے گئے ہيں _

يہ بات بغير كہے واضح ہے كہ توريت كے پانچوں اسفار سے اگرصرف نظر كرليا جائے تو ديگر كتب ميں سے كوئي كتاب بھى آسمانى كتاب نہيں ہے_ خود يہودى بھى اس كا دعوى نہيں كرتے_يہاں تك كہ حضرت داو د(ع) سے منسوب زبور جسے وہ ''مزامير'' كہتے ہيں ،حضرت داو د(ع) كے مناجات اور پندو نصائح كى تشريح ہے_

رہى بات توريت كے پانچوں سفروں كى تو ان ميں ايسے واضح قرائن موجود ہيں جو اس بات كى نشاندہى كرتے ہيں كہ وہ بھى آسمانى كتابيں نہيں ہيں بلكہ وہ تاريخى كتاب ہيں جو حضرت موسى عليہ السلام كے بعد لكھى گئي ہيں كيونكہ ان ميں حضرت موسى عليہ السلام كى وفات،ان كے دفن كى كيفيت اور ان كى وفات كے بعد كے كچھ حالات مذكور ہيں _

خصوصاً سفر تثنيہ كے آخرى حصے ميں يہ بات وضاحت سے ثابت ہوتى ہے كہ يہ كتاب حضرت موسى

۳۸۸

بن عمران عليہ السلام كى وفات سے كافى مدت بعد لكھى گئي ہے_

علاوہ ازيں ان كتب ميں بہت سى خرافات اور ناروا باتيں انبياء و مرسلين سے منسوب كردى گئي ہيں _بعض بچگانہ باتيں بھى ہيں جو ان كے خود ساختہ اور جعلى ہونے پر گواہ ہيں نيز بعض تاريخى شواہد بھى نشاندہى كرتے ہيں كہ اصلى توريت غائب ہوگئي اور پھر حضرت موسى (ع) بن عمران عليہ السلام كے پيروكاروں نے يہ كتابيں تحرير كيں _

۳۸۹

۵ انبياء عليهم السلام کے واقعات

حضرت خضر عليہ السلام

ابى بن كعب نے ابن عباس كى وساطت سے پيغمبر اكرم(ص) كى ايك حديث اس طرح نقل كى ہے:

''ايك دن موسى عليہ السلام بنى اسرائيل سے خطاب كررہے تھے_ كسى نے آپ(ع) سے پوچھا روئے زمين پر سب سے زيادہ علم كون ركھتا ہے_تو موسى عليہ السلام نے كہا مجھے اپنے آپ سے بڑھ كر كسى كے عالم ہونے كا علم نہيں _ اس وقت موسى عليہ السلام كو وحى ہوئي كہ ہمارا ايك بندہ مجمع البحرين ميں ہے كہ جو تجھ سے زيادہ عالم ہے_ اس قت موسى عليہ السلام نے درخواست كى كہ ميں اس عالم كى زيارت كرنا چاہتا ہوں _اس پر اللہ نے انہيں ان سے ملاقات كى راہ بتائي''_

يہ درحقيقت حضرت موسى عليہ السلام كو تنبيہ تھى كہ اپنے تمام تر علم و فضل كے باوجود اپنے آپ كو افضل ترين نہ سمجھيں _(۱)

____________________

(۱)ليكن يہاں يہ سوال سامنے آتا ہے كہ كيا ايك اولوالعزم صاحب رسالت و شريعت شخص كو اپنے زمانے كا سب سے بڑا عالم نہيں ہونا چاہئے؟ اس سوال كے جواب ميں ہم كہيں گے كہ اپنى ماموريت كى قلمرو ميں نظام تشريع ميں اسے سب سے بڑاعالم ہونا چاہيئےور حضرت موسى عليہ السلام اسى طرح تھے ليكن ان كى ماموريت كى قلمرو ان كے عالم دوست كى قلمرو سے الگ تھي_ ان كے عالم دوست كى ماموريت كا تعلق عالم بشريت سے نہ تھا_ دوسرے لفظوں ميں وہ عالم ايسے اسرار سے آگاہ تھے كہ جو دعوت نبوت كى بنياد نہ تھے. -->

۳۹۰

حضرت موسى عليہ السلام اور خضر عليہ السلام كہ جو اس زمانے كے بڑے عالم تھے ان كا واقعہ بھى عجيب ہے_يہ واقعہ نشاندہى كرتا ہے كہ حضرت موسى عليہ السلام جيسے اولو العزم پيغمبر كہ جو اپنے ماحول كے آگاہ ترين اور عالم ترين فرد تھے،بعض پہلوئوں سے ان كا علم بھى محدود تھا لہذا وہ استاد كى تلاش ميں نكلے تاكہ اس سے درس ليں ،استاد نے بھى ايسے درس ديئے كہ جن ميں سے ہر ايك دوسرے سے عجيب تر ہے_ اس داستان ميں بہت سے اہم نكات پوشيد ہ ہيں _

حضرت موسى ، جناب خضر كى تلاش ميں

حضرت موسى عليہ السلام كو كسى نہايت اہم چيزى كى تلاش تھي_وہ اس كى جستجو ميں دربدر پھر رہے تھے_وہ عزم بالجزم اور پختہ ارادے سے اسے ڈھونڈ رہے تھے_وہ ارادہ كئے ہوئے تھے كہ جب تك اپنا مقصود نہ پاليں چين سے نہيں بيٹھيں گے_

حضرت موسى عليہ السلام جس كى تلاش پر مامور تھے اس كا آپ(ع) كى زندگى پر بہت گہرا اثر ہوا اور اس نے آپ(ع) كى زندگى كا نيا باب كھول ديا_جى ہاں وہ ايك مرد عالم و دانشمند كى جستجو ميں تھے_ايسا عالم كہ جو حضرت موسى عليہ السلام كى آنكھوں كے سامنے سے بھى حجاب ہٹا سكتا تھا اور انہيں نئے حقائق سے روشناس كرواسكتا تھا اور ان كے لئے علوم و دانش كے تازہ باب كھول سكتا تھا_

اتفاقاً ايك حديث كہ جو امام صادق عليہ السلام سے منقول ہے اسميں صراحت كے ساتھ بتايا گيا ہے كہ حضرت موسى (ع) حضرت خضر(ع) سے زيادہ عالم تھے يعنى علم شريعت ميں _

شايد اس سوال كا جواب نہ پانے كى وجہ سے اور نسيان سے مربوط سوال كا جواب نہ پانے كے سبب بعض نے ان آيات ميں جن موسى عليہ السلام كا ذكر ہے اسے موسى بن عمران تسليم كرنے سے انكار كرديا ہے_

ايك حديث كہ جو حضرت على بن موسى رضا عليہ السلام سے نقل ہوئي ہے اس سے بھى يہ نكتہ معلوم ہوتا ہے كہ ان دونوں بزرگوں كا دائرہ كار اور قلمرو ايك دوسرے سے مختلف تھى اور ہر ايك دوسرے سے اپنے كام ميں زيادہ عالم تھا_

۳۹۱

ہم اس سلسلے ميں جلد پڑھيں گے كہ اس عالم بزرگ كى جگہ معلوم كرنے كے لئے حضرت موسى عليہ السلام كے پاس ايك نشانى تھى اور وہ اس نشانى كے مطابق ہى چل رہے تھے_

قرآن كہتا ہے :وہ وقت ياد كرو جب موسى نے اپنے دوست اور ساتھى جوان سے كہاكہ ميں تو كوشش جارى ركھوں گا جب تك''مجمع البحرين''تك نہ پہنچ جائوں ،اگر چہ مجھے يہ سفر لمبى مدت تك جارى ركھنا پڑے''_(۱)

مجمع البحرين كا مطلب ہے دو دريائوں كا سنگم_اس سلسلے ميں مفسرين ميں اختلاف ہے كہ ''بحرين''سے يہاں كون سے دو دريا ہيں _اس سلسلے ميں تين مشہور نظريئےيں :

۱_خليج عقبہ اور خليج سويز كے ملنے كى جگہ_ہم جانتے ہيں كہ بحيرہ احمر دو حصوں ميں تقسيم ہوجاتا ہے_ايك حصہ شمال مشرق كى طرف بڑھتا رہتا ہے اور دوسرا شمال مغرب كى طرف پہلے حصے كو خليج عقبہ كہتے ہيں اور دوسرے كو خليج سويز اور يہ دونوں خليجيں جنوب ميں پہنچ كر آپس ميں مل جاتى ہيں اور پھر بحيرہ احمر اپنا سفر جارى ركھتا ہے_

۲_اس سے بحر ہند اور بحيرہ احمر كے ملنے كى طرف اشارہ ہے كہ جو باب المندب پر جاملتے ہيں _

۳_يہ بحيرہ روم اور بحر اطلس كے سنگم كى طرف اشارہ ہے كہ جو شہر طنجہ كے پاس جبل الطارق كا تنگ دہانہ ہے_

تيسرى تفسير تو بہت ہى بعيد نظر آتى ہے كيونكہ حضرت موسى عليہ السلام جہاں رہتے تھے وہاں سے جبل الطارق كا فاصلہ اتنا زيادہ ہے كہ اس زمانے ميں حضرت موسى عليہ السلام اگر عام راستے سے وہاں جاتے تو كئي ماہ لگ جاتے_

دوسرى تفسير ميں جس مقام كى نشاندہى كى گئي ہے اس كا فاصلہ اگر چہ نسبتاًكم بنتا ہے ليكن اپنى حد تك وہ

____________________

(۱)سورہ كہف آيت ۶۰

۳۹۲

بھى زيادہ ہے كيونكہ شام سے جنوبى يمن ميں فاصلہ بھى بہت زيادہ ہے_

پہلا احتمال زيادہ صحيح معلوم ہوتاہے كيونكہ حضرت موسى عليہ السلام جہاں رہتے تھے وہاں سے يعنى شام سے خليج عقبہ تك كوئي زيادہ فاصلہ نہيں ہے_ويسے بھى قرآنى آيات سے معلوم ہوتا ہے كہ حضرت موسى عليہ السلام نے كوئي زيادہ سفر طے نہيں كيا تھا اگر چہ مقصد تك پہنچنے كے لئے بہت زيادہ سفركے لئے بھى تيار تھے_

عرصہ دراز تك جناب خضر عليہ السلام كى تلاش

بعض لوگوں نے جناب موسى عليہ السلام كے اس قول كے ،كہ انھوں نے كہا:''ميں اس وقت تك كوشش كروں گا بج تك اپنا مقصد حاصل نہ كرلوں ''كے بارے ميں كہا ہے :كہ لفظ''حقب'' ، ''عرصہ دراز''كے معنى ميں ہے_ بعض نے اس كى ۸۰ /سال سے تفسير كى ہے_ اس لفظ سے حضرت موسى عليہ السلام كا مقصد يہ تھا كہ مجھے جس كى تلاش ہے ميں اسے ڈھونڈھ كے رہوں گا چاہے اس مقصد كے لئے مجھے سالہا سال تك سفر جارى ركھنا پڑے_

''بہر حال جس وقت وہ ان دو دريائوں كے سنگم پر جاپہنچے تو ايك مچھلى كہ جو ان كے پاس تھى اسے بھول گئے''_(۱)

ليكن تعجب كى بات يہ ہے كہ'' مچھلى نے دريا ميں اپنى راہ لى اور چلتى بني''_(۲)

يہ مچھلى جو ظاہراً ان كے پا س غذا كے طور پر تھي_ كيا بھونى ہوئي تھى اور اسے نمك لگا ہوا تھا يا يہ تازہ مچھلى تھى كہ جو معجزانہ طور پر زندہ ہوكر اچھل كر پانى ميں جاكر تيرنے لگي_

اس سلسلے ميں مفسرين ميں اختلاف ہے_بعض كتب تفاسير ميں يہ بھى ہے كہ اس علاقے ميں آب حيات كا چشمہ تھا_ اس كے كچھ قطرات مچھلى پر پڑگئے جس سے مچھلى زندہ ہوگئي_

____________________

(۱)سورہ كہف آيت۶۱

(۲)سورہ كہف آيت ۶۱

۳۹۳

ليكن يہ احتمال بھى ہے كہ مچھلى ابھى پورى طرح مرى نہ تھى كيونكہ بعض مچھلياں ايسى بھى ہوتى ہيں جو پانى سے نكلنے كے بعد بہت دير تك نيم جاں صورت ميں رہتى ہيں اور اس مدت ميں پانى ميں گر جائيں تو ان كى معمول كى زندگى پھر شروع ہوجاتى ہے_

آخر كار موسى عليہ السلام اور ان كے ہمراہى دو دريائوں كے سنگم سے آگے نكل گئے تو لمبے سفر كے باعث انہيں خستگى كا احساس ہوا اور بھوك بھى ستانے لگي_ اس وقت موسى عليہ السلام كو ياد آيا كہ غذا تو ہم ہمراہ لائے تھے، لہذا انہوں نے اپنے ہمسفر دوست سے كہا: ہمارا كھانا لايئےس سفرنے تو بہت تھكا ديا ہے_(۱)

اس وقت ''ان كے ہمسفر نے انہيں خبردى كہ آپ كو ياد ہے كہ جب ہم نے اس پتھر كے پاس پناہ لى تھي(اور آرام كيا تھا)تو مجھے مچھلى كے بارے ميں بتانا ياد نہ تھا اور شيطان ہى تھا جس نے يہ بات مجھے بھلادى تھي_ ہوا يہ كہ مچھلى نے بڑے حيران كن طريقے سے دريا كى راہ لى اور پانى ميں چلتى بني''_(۲)

يہ معاملہ چونكہ موسى عليہ السلام كے لئے اس عالم بزرگ كو تلاش كرنے كے لئے نشانى كى حيثيت ركھتا تھا لہذا موسى عليہ السلام نے كہا:''يہى تو ہميں جاہئے تھا اور يہى چيزتو ہم ڈھونڈتے پھرتے تھے''_(۳)

''اور اس وقت وہ تلاش كرتے ہوئے اسى راہ كى طرف پلٹے''_(۴)

عظيم استاد كى زيارت

قرآن اس داستان كو آگے بڑھاتے ہوئے كہتا ہے:جس وقت موسى عليہ السلام اور ان كے ہمسفر دوست ''مجمع البحرين ''اور پتھر كے پاس پلٹ كر آئے تو'' اچانك ہمارے بندوں ميں سے ايك بندے سے ان كى ملاقات ہوگئي_ وہ بندہ كہ جس پر ہم نے اپنى رحمت كى تھى اور جسے ہم نے بہت سے علم و دانش سے نوازا تھا''_(۵)

____________________

(۱)سورہ كہف آيت ۶۲ (۲)سورہ كہف آيت ۶۳ (۳)سورہ كہف آيت۶۴

(۴)سورہ كہف آيت۶۴ (۵)سورہ كہف آيت۶۵

۳۹۴

اس وقت حضرت موسى عليہ السلام نے بڑے ادب سے اس عالم بزرگ كى خدمت ميں عرض كيا: ''كيا مجھے اجازت ہے كہ ميں آپ كى پيروى كروں تاكہ جو علم آپ كو عطا كيا گيا ہے اور جو باعث رشد و صلاح ہے،مجھے بھى تعليم ديں ''_(۱) ليكن بڑے تعجب كى بات ہے كہ اس عالم نے موسى عليہ السلام سے كہا:''تم ميرے ساتھ ہر گز صبر نہ كرسكوگے''_(۲) ساتھ ہى اس كى وجہ اور دليل بھى بيان كردى اور كہا:''تم اس چيز پر كيسے صبر كر سكتے ہو جس كے اسرار سے تم آگا ہى نہيں ركھتے''؟(۳) جيسا كہ ہم بعد ميں ديكھيں گے يہ عالم، اسرار و حوادث كے باطنى علوم پر دسترس ركھتا تھا جبكہ حضرت موسى عليہ السلام نہ باطن پر مامور تھے اور نہ ان كے بارے ميں زيادہ آگاہى ركھتے تھے_

ايسے مواقع پر ايسا بہت ہوتا ہے كہ حوادث كے ظاہر سے ان كا باطن مختلف ہوتا ہے، بعض اوقات كسى واقعے كا ظاہر احمقانہ اور ناپسنديدہ ہوتا ہے جبكہ باطن ميں بہت مقدس منطقى اور سوچا سمجھا ہوتا ہے ايسے مواقع پر جو شخص ظاہر كو ديكھتا ہے وہ اس پر صبرنہيں كرپاتا اور اس پر اعتراض كرتا ہے يا مخالفت كرنے لگتا ہے_

ليكن وہ استاد كہ جو اسرار دروں سے آگاہ ہے اور معاملے كے باطن پر نظر ركھتا ہے وہ بڑے اطمينان اور ٹھنڈے دل سے كام جارى ركھتا ہے اور اعتراض اور واويلاپر كان نہيں دھرتا بلكہ مناسب موقع كے انتظار ميں رہتا ہے تاكہ حقيقت امر بيان كرے جبكہ شاگرد بے تاب رہتا ہے ليكن جب اسرار اس پر كھل جاتے ہيں تو اسے پورى طرح سكون و قرار آجاتا ہے_

حضرت موسى عليہ السلام يہ بات سن كر پريشان ہوئے ،انہيں خوف تھا كہ اس عالم بزرگ كا فيض ان سے منقطع نہ ہو لہذا انہوں نے وعدہ كيا كہ تمام امور پر صبر كريں گے اور كہا انشاء اللہ آپ مجھے صابر پائيں گے اور ميں وعدہ كرتا ہوں كہ كسى كام ميں آپ كى مخالفت نہيں كروں گا_(۴)

____________________

(۱)سورہ كہف آيت۶۶

(۲)سورہ كہف آيت ۶۷

(۳)سورہ كہف آيت۶۸

(۴)سورہ كہف آيت۶۹

۳۹۵

يہ كہہ كر حضرت موسى عليہ السلام نے پھر انتہائي ادب و احترام اور خدا كى مرضى پر اپنے بھروسے كا اظہار كيا_

آپ نے اس عالم سے يہ نہيں كہا كہ ميں صابر ہوں بلكہ كہتے ہيں :انشاء اللہ آپ مجھے صابر پائيں گے_ليكن چونكہ ايسے واقعات پر صبر كرنا كہ جو ظاہراً ناپسنديدہ ہوں اور انسان جن كے اسرار سے آگاہ نہ ہوكوئي آسان كام نہيں اس لئے اس عالم نے حضرت موسى عليہ السلام كو خبردار كرتے ہوئے پھر عہد ليا ''اور كہا اچھا اگر تم ميرے پيچھے پيچھے آنا چاہتے ہو تو ديكھو خاموش رہنا اور كسى معاملے پر سوال نہ كرنا جب تك كہ مناسب موقع پر ميں خود تم سے بيان نہ كردوں ''_(۱)

جناب موسى (ع) نے پھر دوبارہ وعدہ كيا اور استادكے ساتھ ہولئے_

خدائي معلم اور يہ ناپسند يدہ كام ؟

''موسى (ع) اس عالم ربانى كے ساتھ چل پڑے _چلتے چلتے ايك كشتى تك پہنچے اور اس ميں سوار ہو گئے''_(۲)

يہاں سے ہم ديكھتے ہيں كہ اب قرآن تثنيہ كى ضمير استعمال كرنے لگا ہے_ يہ اشارہ ہے حضرت موسى عليہ السلام اور اس عالم بزرگوار كى طرف_ يہ امر نشاندہى كرتا ہے كہ حضرت موسى عليہ السلام كے ہمسفر يوشع(ع) كى ماموريت اس مقام پر ختم ہوگئي تھى اور وہ يہاں سے پلٹ گئے تھے يا پھر يہ ہے كہ وہ موجود تو تھے ليكن اس معاملے سے ان كا تعلق نہيں تھا لہذا انہيں يہاں نظرا نداز كرديا گيا ہے_ ليكن پہلا احتمال زيادہ قوى معلوم ہوتا ہے_

''بہرحال وہ دونوں كشتى پر سوار ہوگئے تو اس عالم نے كشتى ميں سوراخ كرديا ''_(۳)

حضرت موسى عليہ السلام چونكہ ايك طرف تو اللہ كے عظيم نبى بھى تھے ،الہذاانہيں لوگوں كى جان ومال

____________________

(۱)سورہ كہف ايت ۷۰

(۲)سورہ كہف ايت۷۱

(۳)سورہ كہف آيت ۷۱

۳۹۶

كا محافظ بھى ہونا چاہئے تھا او رانہيں امر بالمعروف اور نہى عن المنكر بھى كرنا چاہتے تھا اور دوسرى طرف ان كا انسانى ضمير اس بات كى اجازت نہيں ديتا تھا كہ وہ اس قسم كے غلط كام پر خاموشى اختيار كريں لہذا حضرت خضر كے ساتھ ان كا جو معاہدہ ہوا تھا اسے ايك طرف ركھا اور اس كام پر اعتراض كرديا اور ''كہا:

كيا آپ نے اہل كشتى كو غرق كرنے كے لئے اس ميں سوراخ كرديا ہے واقعاً آپ نے كس قدر برا كام انجام ديا ہے ''_(۱)

واقعا ًيہ كام كتنا حيرت انگيز ہے كہ كسى كشتى ميں بہت سے مسافر سوار ہوں اور اس ميں سوراخ كرديا جائے ؟

بعض روايات ميں ہے كہ اہل كشتى جلدہى متوجہ ہوگئے اور انہوں نے اس سوارخ كو كسى چيز كے ذريعے سے پركرديا ليكن اب وہ كشتى صحيح نہيں رہ گئي تھى _

اس وقت اس عالم نے بڑى متانت كے ساتھ موسى پر نگاہ ڈالى اور ''كہا: ميں نے نہيں كہا تھا كہ تم ميرے ساتھ ہرگز صبر نہيں كرسكو گے ''_(۲)

اس واقعے كى اہميت كے پيش نظر حضرت موسى كى عجلت اگرچہ فطرى تھى تاہم وہ پشيمان ہوئے انہيں اپنا معاہدہ ياد آيا لہذا معذرت آميز لہجے ميں استاد سے '' كہا اس بھول پر مجھ سے مواخذہ نہ كيجئے اور اس كام پرمجھ پر سخت گيرى نہ كيجئے ''_(۳)

كيوں اس بچے كو قتل كررہے ہو؟

ان كا دريائي سفر ختم ہوگيا وہ كشتى سے اتر آئے ،''سفر جارى تھا اثنائے راہ ميں انہيں ايك بچہ ملا ليكن اس عالم نے كسى تمہيد كے بغير ہى اس بچے كو قتل كرديا''_(۴)

____________________

(۱)سورہ كہف آيت ۷۱

(۲)سورہ كصف آيت ۷۲

(۳)سورہ كہف آيت ۷۳

(۴)سورہ كصف آيت ۷۴

۳۹۷

حضرت موسى (ع) سے پھر نہ رہاگيا يہ نہايت وحشتناك منظر تھا بلا جواز اور بےوجہ ايك بے گناہ بچے كا قتل ، ايسى چيز نہ تھى كہ حضرت موسى خاموش رہ سكتے آپ غصے سے آگ بگولہ ہوگئے غم واندوہ اور غصے كا يہ عالم تھا كہ آپ نے پھر اپنے معاہدے كو نظر انداز كرتے ہوئے اب كى شديد تراور واضح تر اعتراض كيا يہ واقعہ بھى پہلے واقعے كى نسبت زيادہ وحشتناك تھا وہ كہنے لگے :''كيا آپ نے ايك بے گناہ اور پاك انسان كو قتل كرديا ہے جبكہ اس نے كسى كو قتل نہيں كيا،واقعاً آپ نے كيسا برا كا م انجام دياہے_''(۱)(۲) اس عالم بزرگوار نے پھر اپنے خاص اطمينان اور نرم لہجے ميں وہى جملہ دہرايا : '' كہا: ميں نے تم سے نہ كہا تھا كہ تھا تم ہرگز ميرے ساتھ صبر نہ كر سكو گے''_(۳)

حضرت موسى عليہ السلام كو اپنا عہد ياد آگيا انہيں بہت احساس شرمندگى ہورہا تھا كيونكہ دومرتبہ يہ پيمان ٹوٹ چكا تھا چاہے بھول كرہى ايسا ہوا ہو انہيں خيال آرہا تھا كہ ہوسكتا ہے استاد كى بات صحيح ہو كہ انہوں نے تو پہلے ہى واضح كرديا تھا كہ ابتدا ميں ان كے كام موسى كے لئے ناقابل برداشت ہوں گے_

موسى (ع) نے پھر عذر خواہى كے لہجے ميں كہا كہ اس دفعہ بھى مجھ سے صرف نظر كيجئے اور ميرى بھول چوك كو نظر انداز كرديجئے اور'' اگر اس كے بعد ميں آپ كے كاموں كے بارے ميں وضاحت كا تقاضا كروں (اور آپ پر اعتراض كروں ) تو پھربے شك مجھے ساتھ نہ ركھيں اور اس صورت ميں آپ ميرى استادى سے معذور ہوں گے ''(۴)

____________________

(۱)سورہ كہف آيت ۷۴

(۲)لفظ'' غلام'' جو ان نورس كے معنى ميں ہے وہ حد بلوغ كو پہنچا ہو يا نہ پہنچا ہو _

جس نوجوان كو اس عالم نے قتل كيا تھا وہ حد بلوغ كو پہنچا ہوا تھا يا نہيں اس سلسلے ميں مفسرين ميں اختلاف ہے _

بعض نے '' نفسا زكية'' (پاك اور بے گناہ انسان ) كى تعبير كو اس بات كى دليل بنايا ہے كہ وہ بالغ تھا كيونكہ قصاص صرف بالغ سے ليا جاسكتا ہے _البتہ آيت كو مجموعى طور پر ديكھا جائے تو اس سلسلے ميں حتمى فيصلہ نہيں كيا جاسكتا _

(۳)سورہ كہف آيت ۷۵

(۴)سورہ كہف آيت۷۶

۳۹۸

يہ جملہ حضرت موسى (ع) كى انصاف پسندي، بلند نظرى اور اعلى ظرفى كى حكايت كرتا ہے اور نشاندہى كرتا ہے كہ وہ ايك حقيقت كے سامنے سرجھكادينے والے تھے اگرچہ وہ كتنى ہى تلخ كيوں نہ ہو _

دوسرے لفظوں ميں تين بار كى آزمائش سے يہ واضح ہوجائے گا كہ ان دونوں كى ماموريت الگ الگ ہے اور اس كا نباہ نہيں ہوسكتا _

اپنے كام كى مزدورى لے لو

اس گفتگو اور نئے معاہدے كے بعد ''موسى (ع) اپنے استاد كے ساتھ چل پڑے ،چلتے چلتے وہ ايك بستى ميں پہنچے انہوں نے اس بستى والوں سے كھانا مانگا ليكن بستى والوں نے انہيں مہمان بنانے سے انكار كرديا ''(۱)

اس ميں شك نہيں كہ حضرت موسى اور حضرت خضر(ع) كوئي ايسے افراد نہ تھے كہ اس بستى كے لوگوں پر بوجھ بننا چاہتے تھے،ايسا معلوم ہوتا ہے كہ وہ اپنا زاد وتوشہ راستے ميں كہيں دے بيٹھے تھے يا پھر ختم ہوگيا تھا لہذاوہ چاہتے تھے كہ بستى والوں كے مہمان ہوجائيں (يہ احتمال بھى ہے كہ اس عالم نے جان بوجھ كرلوگوں سے ايسا كہا ہوتاكہ حضرت موسى كو ايك اور درس ديا جاسكے)_(۲)

بہر حال مفسرين ميں اس سلسلے ميں اختلاف ہے كہ يہ شہر كو نسا تھا اور كہاں واقع تھا ابن عباس سے منقول ہے كہ يہ شہر ''انطاكيہ'' تھا_

بعض نے كہا ہے كہ يہاں '' ايلہ '' شہر مراد ہے كہ جو آج كل '' ايلات''نام كى مشہور بندرگاہ ہے اور بحيرہ احمر كے كنارے خليج عقبہ كے نزديك واقع ہے _

____________________

(۱)سورہ كہف آيت۷۷

(۲)اس نكتے كى ياد دہانى بھى ضرورى ہے كہ '' قرية'' قرآن كى زبان ميں ايك عام مفہوم ركھتا ہے اور ہر قسم كے شہر اور آبادى كے معنى ميں آيا ہے ليكن يہاں خصوصيت سے شہر مراد ہے كيونكہ چند آيات كے بعد اس كے لئے لفظ '' المدينہ''(يعنى شہر) آياہے _

۳۹۹

بعض دوسروں كا نظريہ ہے كہ اس سے '' ناصرہ''شہر مراد ہے كہ كہ جو فلسطين كے شمال ميں واقع ہے اور حضرت عيسى كى جائے پيدائش ہے_

مرحوم طبرسى نے اس مقام پر حضرت امام جعفرصادق عليہ السلام كى ايك حديث نقل كى ہے كہ جو آخرى احتمال كى تائيد كرتى ہے _

مجمع الجرين كے بارے ميں ہم كہہ چكے ہيں كہ اس سے مراد'' خليج عقبہ'' اور'' خليج سويز ''كا سنگم ہے اس سے واضح ہوتا ہے كہ شہر ناصرہ اور بندرگاہ ايلہ اس جگہ سے انطاكيہ كى نسبت زيادہ قريب ہيں _

بہرصورت جو كچھ حضرت موسى عليہ السلام اور ان كے استاد كے ساتھ اس شہر ميں پيش آيا اس سے معلوم ہوتا ہے كہ اس شہر كے رہنے والے بہت بخيل اور كم ظرف لوگ تھے پيغمبر اكرم (ص) سے اس شہر والو ں كے بارے ميں ايك حديث منقول ہے كہ آپ نے فرمايا :''وہ كمينے اور كم ظرف لوگ تھے ''_

قرآن كہتا ہے :'' اس كے باوجود انہوں نے اس شہر ميں ايك گرتى ہوئي ديوار ديكھى تو اس عالم نے اس كى مرمت شروع كردى اور اسے كھڑا كرديا _''(۱) اور اس كو ويرانى سے بچاليا_

حضرت موسى اس وقت تھكے ہوئے تھے انہيں بھوك بھى ستارہى تھي، كوفت الگ تھى وہ محسوس كررہے تھے اس آبادى كے نا سمجھ لوگوں نے ان كى اور ان كے استاد كى ہتك كى ہے دوسرى طرف وہ ديكھے رہے تھے ، اس بے احترامى كے باوجود حضرت خضر اس گرتى ہوئي ديوار كى تعمير ميں لگے ہوئے تھے جيسے ان كے سلوك كى مزدورى دے رہے ہوں وہ سوچ رہے تھے كہ كم از كم استاد يہ كام اجرت لے كر ہى كرتے تاكہ كھانا تو فراہم ہوجاتا _

لہذا وہ اپنے معاہدے كو پھر بھول گئے انہوں نے پھر اعتراض كيا ليكن اب لہجہ پہلے كى نسبت ملائم اور نرم تھا '' كہنے لگے: اس كام كى كچھ اجرت ہى لے ليتے ''(۲)

____________________

(۱)سورہ كہف آيت۷۷

(۲)سورہ كہف آيت۷۷

۴۰۰

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667