قصص القرآن-منتخب از تفسير نمونه

قصص القرآن-منتخب از تفسير نمونه   5%

قصص القرآن-منتخب از تفسير نمونه   مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 667

قصص القرآن-منتخب از تفسير نمونه
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 667 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 334560 / ڈاؤنلوڈ: 6147
سائز سائز سائز
قصص القرآن-منتخب از تفسير نمونه

قصص القرآن-منتخب از تفسير نمونه

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

ميں نے ايك چيزخدا كے بھيجے ہوئے رسول كے آثار ميں سے لى اور پھر ميں نے اسے دور پھينك ديا اور ميرے نفس نے اس بات كو اسى طرح مجھے خوش نما كركے دكھايا''(۱)

اس بارے ميں كہ اس گفتگو سے سامرى كى كيا مراد تھي، مفسرين كے درميان دوتفسيريں مشہور ہيں : پہلى يہ كہ اس كا مقصد يہ تھا كہ فرعون كے لشكر كے دريائے نيل كے پاس آنے كے موقع پر ميں نے جبرئيل كو ايك سوارى پر سوار ديكھا كہ وہ لشكر كو دريا كے خشك شدہ راستوں پر ورود كےلئے تشويق دينے كى خاطران كے آگے آگے چل رہاتھا ميں نے كچھ مٹى ان كے پائوں كے نيچے سے ياان كى سوارى كے پائوں كے نيچے سے اٹھالى اور اسے سنبھال كر ركھا اور اسے سونے كے بچھڑے كے اندارڈالا اور يہ صدا اسى كى بركت سے پيدا ہوئي ہے _

دوسرى تفسير يہ ہے كہ ميں ابتداء ميں ميں خدا كے اس رسول (موسى )كے كچھ آثار پر ايمان لے آيا اس كے بعد مجھے اس ميں كچھ شك اور تردد ہوا لہذا ميں نے اسے دور پھينك ديا اور بت پرستى كے دين كى طرف مائل ہوگيا اور يہ ميرى نظر ميں زيادہ پسنديدہ اورزيبا ہے _

سامرى كى سزا

يہ بات صاف طور پر واضح اور روشن ہے كہ موسى كے سوال كے جواب ميں سامرى كى بات كسى طرح بھى قابل قبول نہيں تھي،لہذا حضرت موسى عليہ السلام نے اس كے مجرم ہونے كا فرمان اسى عدالت ميں صادر كر ديا اور اسے اس گوسالہ پرستى كے بارے ميں تين حكم ديئے_

پہلا حكم يہ كہ اس سے كہا'' تو لوگوں كے درميان سے نكل جا اور كسى كے ساتھ ميل ملاپ نہ كر اور تيرى باقى زندگى ميں تيرا حصہ صرف اتنا ہے كہ جو شخص بھى تيرے قريب آئے گا تو اس سے كہے گا '' مجھ سے مس نہ ہو'' _(۲)

____________________

(۱)سورہ طہ آيت۹۶

(۲)سورہ طہ آيت۹۷

۳۸۱

اس طرح ايك قاطع اور دوٹوك فرمان كے ذريعے سامرى كو معاشرے سے باہر نكال پھينكا اور اسے مطلق گوشہ نشينى ميں ڈال ديا _

بعض مفسرين نے كہا ہے كہ '' مجھ سے مس نہ ہو'' كا جملہ شريعت موسى عليہ السلام كے ايك فوجدارى قانون كى طرف اشارہ ہے كہ جو بعض ايسے افراد كے بارے ميں كہ جو سنگين جرم كے مرتكب ہوتے تھے صادر ہوتا تھا وہ شخص ايك ايسے موجود كى حيثيت سے كہ جو پليد ونجس وناپاك ہو، قرار پاجاتا تھا كوئي اس سے ميل ملاپ نہ كرے اور نہ اسے يہ حق ہوتا تھا وہ كسى سے ميل ملاپ ركھے _

سامرى اس واقعے كے بعد مجبور ہوگيا كہ وہ بنى اسرائيل اور ان كے شہر وديار سے باہر نكل جائے اور بيابانوں ميں جارہے اور يہ اس جاہ طلب انسان كى سزا ہے كہ جو اپنى بدعتوں كے ذريعے چاہتا تھا كہ بڑے بڑے گروہوں كو منحرف كركے اپنے گرد جمع كرے، اسے نا كام ہى ہونا چاہئے يہاں تك كہ ايك بھى شخص اس سے ميل ملاپ نہ ركھے اور اس قسم كے انسان كےلئے يہ مكمل بائيكاٹ موت اور قتل ہونے سے بھى زيادہ سخت ہے كيونكہ وہ ايك پليد اور آلودہ وجود كى صورت ميں ہر جگہ سے راندہ اور دھتكارا ہوا ہوتا ہے _

بعض مفسرين نے يہ بھى كہا ہے كہ سامرى كا بڑا جرم ثابت ہوجانے كے بعد حضرت موسى نے اس كے بارے ميں نفرين كى اور خدا نے اسے ايك پر اسرار بيمارى ميں مبتلا كرديا كہ جب تك وہ زندہ رہا كوئي شخص اسے چھو نہيں سكتا تھا اور اگر كوئي اسے چھوليتا تو وہ بھى بيمارى ميں گرفتار ہوجاتا _يايہ كہ سامرى ايك قسم كى نفسياتى بيمارى ميں جو ہر شخص سے وسواس شديد اور وحشت كى صورت ميں تھى ;گرفتار ہوگيا، اس طرح سے كہ جو شخص بھى اس كے نزديك ہوتا وہ چلاتا كہ'' مجھے مت چھونا''_سامرى كے لئے دوسرى سزا يہ تھى كہ حضرت موسى عليہ السلام نے اسے قيامت ميں ہونے والے عذاب كى بھى خبردى اور كہا تيرے آگے ايك وعدہ گاہ ہے، خدائي دردناك عذاب كا وعدہ كہ جس سے ہرگز نہيں بچ سكے گا ''(۱)

____________________

(۱)سورہ طہ ايت ۹۷

۳۸۲

تيسرا كام يہ تھا كہ جو موسى عليہ السلام نے سامرى سے كہا: '' اپنے اس معبود كو كہ جس كى تو ہميشہ عبادت كرتا تھا ذرا ديكھ اور نگاہ كر ہم اس كو جلا رہے ہيں اور پھر اس كے ذرات كو دريا ميں بكھيرديں گے ''(تاكہ ہميشہ كے لئے نابود ہوجائے)(۱)(۲)

گناہ عظيم اور كم نظير توبہ

حضرت موسى عليہ السلام كے اس شديد رد عمل نے اپنا اثر دكھايا او جن لوگوں نے گوسالہ پر ستى اختيار كى تھى اور ان كى تعداد اكثريت ميں تھى وہ اپنے كام سے پشيمان ہوئے ان كى شايد مذكورہ پشيمانى كافى تھي، قرآن نے يہ اضافہ كيا ہے :باقى رہتا ہے يہ سوال كہ اس '' غضب '' اور ذلت '' سے كيا مراد ہے؟ قرآن نے اس امر كى كوئي توضيح نہيں كى ہے صرف سربستہ كہہ كر بات آگے بڑھادى ہے_

____________________

(۱)سورہ طہ آيت۹۷

(۲)سامرى كون ہے ؟اصل لفظ '' سامري'' عبرانى زبان ميں '' شمرى '' ہے اور چونكہ يہ معمول ہے كہ جب عبرانى زبان كے الفاظ عربى زبان ميں آتے ہيں تو '' شين'' كا لفظ ''سين'' سے بدل جاتا ہے ، جيسا كہ '' موشى '' ''موسي'' سے اور '' يشوع'' '' يسوع'' سے تبديل ہوجاتاہے اس بناء پر سامرى بھى '' شمرون '' كى طرف منسوب تھا' اور'' شمرون'' '' يشاكر'' كا بيٹا تھا، جو يعقوب كى چوتھى نسل ہے _اسى سے يہ بات بھى واضح ہوجاتى ہے كہ بعض عيسائيوں كا قرآن پر يہ اعتراض بالكل بے بنيادہے كہ قرآن نے ايك ايسے شخص كو كہ جو موسى عليہ السلام كے زمانے ميں رہتا تھا اور وہ گوسالہ پرستى كا سر پرست بنا تھا ،شہر سامرہ سے منسوب ''سامري''كے طورپر متعارف كرايا ہے، جب كہ شہر سامرہ اس زمانے ميں بالكل موجود ہى نہيں تھا ،كيونكہ جيسا كہ ہم بيان كرچكے ہيں كہ ''سامرى '' شمرون كى طرف منسوب ہے نہ كر سامرہ شہر كى طرف _

بہرحال سامرى ايك خود خواہ اور منحرف شخص ہونے كے باوجود بڑا ہوشيار تھا وہ بڑى جرا ت اور مہارت كے ساتھ بنى اسرائيل كے ضعف كے نكات اور كمزورى كے پہلوئوں سے استفادہ كرتے ہوئے اس قسم كا عظيم فتنہ كھڑا كرنے پرقادر ہوگيا كہ جو ايك قطعى اكثريت كے بت پرستى كى طرف مائل ہونے كا سبب بنے اور جيسا كہ ہم نے ديكھا ہے كہ اس نے اپنى اس خود خواہى اور فتنہ انگيزى كى سزا بھى اسى دنيا ميں ديكھ لى _''

(۳)سورہ اعراف ايت ۱۵۲

۳۸۳

ليكن ممكن ہے اس سے ان بد بختيوں اور پريشانيوں كى جانب اشارہ مقصود ہوجو اس ماجرے كے بعد اور بيت المقدس ميں ان كى حكومت سے پہلے انہيں پيش آئيں _

يا اس سے مراد اللہ كا وہ حكم ہو جو اس گناہ كے بعد انہيں ديا گيا كہ وہ بطور پاداش ايك دوسرے كو قتل كريں _

قرآن اس كے بعد اس گناہ سے توبہ كے سلسلے ميں كہتا ہے:''اور ياد كرو اس وقت كو جب موسى نے اپنى قوم سے كہا :اے قوم تم نے بچھڑے كو منتخب كر كے اپنے اوپر ظلم كيا ہے ،اب جو ايسا ہوگيا ہے تو توبہ كرو اور اپنے پيدا كرنے والے كى طرف پلٹ آئو''_

''تمہارى توبہ اس طرح ہونى چاہيئے كہ تم ايك دوسرے كو قتل كرو_يہ كام تمہارے لئے تمہارے خالق كى بارگاہ ميں بہتر ہے_اس ماجرے كے بعد خدا نے تمہارى توبہ قبول كرلى جو تواب و ررحيم ہے''_(۱)

اس ميں شك نہيں كہ سامرى كے بچھڑے كى پرستش و عبادت كوئي معمولى بات نہ تھى وہ قوم جو خدا كى يہ تمام آيات ديكھ چكى تھى اور اپنے عظيم پيغمبر كے معجزات كا مشاہدہ كرچكى تھى ان سب كو بھول كر پيغمبر كى ايك مختصر سى غيبت ميں اصل توحيد اور آئين خداوندى كو پورے طور پر پائوں تلے رونددے اور بت پرست ہوجائے_

اب اگر يہ بات ان كے دماغ سے ہميشہ كے لئے جڑ سے نہ نكالى جاتى تو خطرناك حالت پيدا ہونے كا انديشہ تھا اور ہر موقعے كے بعدا ور خصوصاًحضرت موسى عليہ السلام كى زندگى كے بعد ممكن تھا ان كى دعوت كى تمام آيات ختم كردى جاتيں اور اس عظيم قوم كى تقدير مكمل طور پر خطرے سے دوچار ہوجاتي_

اكٹھا قتل

يہاں شدت عمل سے كام ليا گيا اور صرف پشيمانى اور زبان سے اظہار توبہ پر ہرگز قناعت نہ كى گئي_يہى وجہ ہے كہ خدا كى طرف سے ايسا سخت حكم صادر ہوا جس كى مثال تمام انبياء كى طويل تاريخ ميں كہيں

____________________

(۱)سورہ بقرہ آيت۵۴

۳۸۴

نہيں ملتى اور وہ يہ كہ توبہ اور توحيد كى طرف باز گشت كے سلسلے ميں گناہگاروں كے كثير گروہ كے لئے اكٹھا قتل كرنے كا حكم ديا گيا_يہ فرمان بھى ايك خاص طريقے سے جارى ہونا چاہيئےھا اور وہ يہ ہوا كہ وہ لوگ خود تلواريں ہاتھ ميں لے كر ايك دوسرے كو قتل كريں كہ ايك اس كا اپنا مارا جانا عذاب ہے اور دوسرا دوستوں اور شناسائوں كا قتل كرنا_

بعض روايات كے مطابق حضرت موسى عليہ السلام نے حكم ديا كہ ايك تاريك رات ميں وہ تمام لوگ جنہوں نے بچھڑے كى عبادت كى تھى غسل كريں كفن پہن ليں اور صفيں باندھ كر ايك دوسرے پرتلوار چلائيں _

ممكن ہے يہ تصور كيا جائے كہ يہ توبہ كيوں اتنى سختى سے انجام پذير ہوئي كيا يہ ممكن نہ تھاكہ خدا ان كى توبہ كو بغير اس خونريزى كے قبول كرليتا_

اس سوال كا جواب گذشتہ گفتگو سے واضح ہوجاتا ہے كيونكہ اصل توحيد سے انحراف اوربت پرستى كى طرف جھكائو كا مسئلہ اتنا سادہ اور آسان نہ تھا كہ اتنى آسانى سے درگذر كرديا جاتا اور وہ بھى ان واضح معجزات اور خدا كى بڑى بڑى نعمتوں كے مشاہدے كے بعد _ در حقيقت اديان آسمانى كے تمام اصولوں كو توحيد اور يگانہ پرستى ميں جمع كيا جاسكتا ہے_اس اصل كا متزلزل ہونا دين كى تمام بنيادوں كے خاتمے كے برابر ہے اگر گائو پرستى كے مسئلے كو آسان سمجھ ليا جاتا تو شايد آنے والے لوگوں كے لئے سنت بن جاتا_

خصوصاً بنى اسرائيل كے لئے جن كے بارے ميں تاريخ شاہد ہے كہ ضدى اور بہانہ باز لوگ تھے_ لہذا چاہئے تھا كہ ان كى ايسى گوشمالى كى جائے كہ اس كى چبھن تمام صديوں اور زمانوں تك باقى رہ جائے اور اس كے بعد كوئي شخص بت پرستى كى فكر ميں نہ پڑے_

خداكى آيات كو مضبوطى سے پكڑ لو

عظيم اسلامى مفسر مرحوم طبرسي،ابن زيد كا قول اس طرح نقل كرتے ہيں :جس وقت حضرت موسى عليہ السلام كوہ طور سے واپس آئے اور اپنے ساتھ توريت لائے تو اپنى قوم كو بتايا كہ ميں آسمانى كتاب لے كر آيا ہوں جو دينى احكام اور حلال و حرام پر مشتمل ہے_ يہ وہ احكام ہيں جنہيں خدا نے تمہارے لئے عملى پروگرام

۳۸۵

قرار ديا ہے_اسے لے كر اس كے احكام پر عمل كرو_ اس بہانے سے كہ يہ ان كے لے مشكل احكام ہيں ،يہودى نافرمانى اور سركشى پر تل گئے_ خدا نے بھى فرشتوں كو مامور كيا كہ وہ كوہ طور كا ايك بہت بڑا ٹكڑا ان كے سروں پر لاكر كھڑا كرديں ،اسى اثناء ميں حضرت موسى عليہ السلام نے انہيں خبردى كہ عہد وپيمان باندھ لو،احكام خداپر عمل كرو،سركشى و بغاوت سے توبہ كرو تو تم سے يہ عذاب ٹل جائے گا ورنہ سب ہلاك ہو جائوگے_

اس پر انہوں نے سر تسليم خم كرديا_ توريت كو قبول كيا اور خدا كے حضور ميں سجدہ كيا_جب كہ ہر لحظہ وہ كوہ طور كے اپنے سروں پر گرنے كے منتظر تھے ليكن بالآخر ان كى توبہ كى وجہ سے عذاب الہى ٹل گيا_

يہ نكتہ ياد ركھناضرورى ہے كہ كوہ طور كے بنى اسرائيل كے سروں پر مسلط ہونے كى كيفيت كے سلسلے ميں مفسرين كى ايك جماعت كا اعتقاد ہے كہ حكم خدا سے كوہ طور اپنى جگہ سے اكھڑ گيا اور سائبان كى طرح ان كے سروں پر مسلط ہوگيا_

جبكہ بعض دوسرے مفسرين يہ كہتے ہيں كہ پہاڑميں سخت قسم كا زلزلہ آيا ،پہار اس طرح لرزنے اور حركت كرنے لگا كہ كسى بھى وقت وہ ان كے سروں پر آگرے گا ليكن خدا كے لطف و كرم سے زلزلہ رك گيا اور پہاڑ اپنى جگہ پر قائم ہوگيا_

يہ احتمال بھى ہو سكتا ہے كہ پہاڑ كا ايك بہت بڑا ٹكڑا زلزلے اور شديد بجلى كے زير اثر اپنى جگہ سے اكھڑ كر ان كے سروں كے اوپر سے بحكم خدا اس طرح گزرا ہو كہ چند لحظے انہوں نے اسے اپنے سروں پر ديكھا ہو اور يہ خيال كيا ہو كہ وہ ان پر گرناچاہتا ہے ليكن يہ عذاب ان سے ٹل گيا اور وہ ٹكڑا كہيں دور جاگرا_(۱)

____________________

(۱)كيا اس عہد وپيمان ميں جبر كا پہلو ہے:اس سوال كے جواب ميں بعض كہتے ہيں كہ ان كے سروں پر پہاڑ كا مسلط ہونا ڈرانے دھمكانے كے طور پر تھا نہ كہ جبر و اضطرار كے طور پر ورنہ جبرى عہد و پيمان كى تو كوئي قدرو قيمت نہيں ہے_ليكن زيادہ صحيح يہى ہے كہ اس ميں كوئي حرج نہيں كہ سركش او رباغى افراد كو تہديد و سزا كے ذريعے حق كے سامنے جھكاديا جائے_يہ تہديد اور سختى جو وقتى طور پر ہے ان كے غرور كو توڑدے گي_ انہيں صحيح غور و فكر پر ابھارے گى اور اس راستے پر چلتے چلتے وہ اپنے ارادہ و اختيار سے اپنى ذمہ دارياں پورى كرنے لگيں گے_بہر حال يہ پيمان زيادہ تر عملى پہلوئوں سے مربوط تھا ورنہ عقائد كو تو جبرو اكراہ سے نہيں بدلا جاسكتا_

۳۸۶

ايئے _واقعہ كى تفصيل قرآن ميں پڑھتے ہيں كہ:''اور (وہ وقت كہ)جب ہم نے تم سے عہد ليا اور كوہ طور كو تمہارے سروں كے اوپر مسلط كرديا اور تمہيں كہا كہ،جو كچھ (آيات و احكام ميں )ہم نے تمہيں ديا ہے اسے مضبوطى سے تھامو اور جو كچھ اس ميں ہے اسے ياد ركھو (اور اس پر عمل كرو)شايد اس طرح تم پرہيزگار ہوجائو''_(۱)

اس كے بعد پھر تم نے روگردانى كى اور اگر تم پر خدا كا فضل و رحمت نہ ہوتا تو تم نقصان اٹھانے والوں ميں سے ہوتے''_(۲)

اس عہد و پيمان ميں يہ چيزيں شامل تھيں :

پروردگار كى توحيد پر ايمان ركھنا،ماں باپ، عزيز و اقارب،يتيم اور حاجتمندو ں سے نيكى كرنا اور خونريزى سے پرہيز كرنا_ يہ كلى طور پر ان صحيح عقائد اور خدائي پروگراموں كے بارے ميں عہد و پيمان تھا جن كا توريت ميں ذكر كيا گيا تھا_

كوہ طور

كوہ طورسے مراد يہاں اسم جنس ہے يا يہ مخصوص پہاڑ ہے_اس سلسلے ميں دو تفسيريں موجودہيں _بعض كہتے ہيں كہ طور اسى مشہور پہاڑ كى طرف اشارہ ہے جہاں حضرت موسى عليہ السلام پر وحى نازل ہوئي_

ليكن بعض كے نزديك يہ احتمال بھى ہے كہ طور لغوى معنى كے لحاظ سے مطلق پہاڑ ہے_ يہ وہى چيز ہے جسے سورہ اعراف كى آيہ۱۷۱ ميں ''جبل''سے تعبير كيا گيا ہے:

توريت كيا ہے

توريت عبرانى زبان كا لفظ ہے، اس كا معنى ہے''شريعت''اور''قانون''_يہ لفظ خداكى طرف سے

____________________

(۱)سورہ بقر آيت ۶۳

(۲)سورہ بقرہ آيت ۶۴

۳۸۷

حضرت موسى عليہ السلام بن عمران پر نازل ہونے والى كتاب كے لئے بولا جاتا ہے_نيز بعض اوقات عہد عتيق كى كتب كے مجموعے كے لئے اور كبھى كبھى توريت كے پانچوں اسفار كے لئے بھى استعمال ہوتا ہے_

اس كى وضاحت يہ ہے كہ يہوديوں كى كتب كے مجموعے كو عہد عتيق كہتے ہيں _اس ميں توريت اور چندديگر كتب شامل ہيں _

توريت كے پانچ حصے ہيں :

جنہيں سفر پيدائش ،سفر خروج،سفر لاويان،سفر اعداد اور سفر تثنيہ كہتے ہيں _ اس كے موضوعات يہ ہيں :

۱)كائنات،انسان اور ديگر مخلوقات كى خلقت_

۲)حضرت موسى (ع) بن عمران،گذشتہ انبياء اور بنى اسرائيل كے حالات وغيرہ_

۳)اس دين كے احكام كى تشريح_

عہد عتيق كى ديگر كتابيں در اصل حضرت موسى عليہ السلام كے بعد كے مو رخين كى تحرير كردہ ہيں _ ان ميں حضرت موسى (ع) بن عمران كے بعد كے نبيوں ،حكمرانوں اور قوموں كے حالات بيان كئے گئے ہيں _

يہ بات بغير كہے واضح ہے كہ توريت كے پانچوں اسفار سے اگرصرف نظر كرليا جائے تو ديگر كتب ميں سے كوئي كتاب بھى آسمانى كتاب نہيں ہے_ خود يہودى بھى اس كا دعوى نہيں كرتے_يہاں تك كہ حضرت داو د(ع) سے منسوب زبور جسے وہ ''مزامير'' كہتے ہيں ،حضرت داو د(ع) كے مناجات اور پندو نصائح كى تشريح ہے_

رہى بات توريت كے پانچوں سفروں كى تو ان ميں ايسے واضح قرائن موجود ہيں جو اس بات كى نشاندہى كرتے ہيں كہ وہ بھى آسمانى كتابيں نہيں ہيں بلكہ وہ تاريخى كتاب ہيں جو حضرت موسى عليہ السلام كے بعد لكھى گئي ہيں كيونكہ ان ميں حضرت موسى عليہ السلام كى وفات،ان كے دفن كى كيفيت اور ان كى وفات كے بعد كے كچھ حالات مذكور ہيں _

خصوصاً سفر تثنيہ كے آخرى حصے ميں يہ بات وضاحت سے ثابت ہوتى ہے كہ يہ كتاب حضرت موسى

۳۸۸

بن عمران عليہ السلام كى وفات سے كافى مدت بعد لكھى گئي ہے_

علاوہ ازيں ان كتب ميں بہت سى خرافات اور ناروا باتيں انبياء و مرسلين سے منسوب كردى گئي ہيں _بعض بچگانہ باتيں بھى ہيں جو ان كے خود ساختہ اور جعلى ہونے پر گواہ ہيں نيز بعض تاريخى شواہد بھى نشاندہى كرتے ہيں كہ اصلى توريت غائب ہوگئي اور پھر حضرت موسى (ع) بن عمران عليہ السلام كے پيروكاروں نے يہ كتابيں تحرير كيں _

۳۸۹

۵ انبياء عليهم السلام کے واقعات

حضرت خضر عليہ السلام

ابى بن كعب نے ابن عباس كى وساطت سے پيغمبر اكرم(ص) كى ايك حديث اس طرح نقل كى ہے:

''ايك دن موسى عليہ السلام بنى اسرائيل سے خطاب كررہے تھے_ كسى نے آپ(ع) سے پوچھا روئے زمين پر سب سے زيادہ علم كون ركھتا ہے_تو موسى عليہ السلام نے كہا مجھے اپنے آپ سے بڑھ كر كسى كے عالم ہونے كا علم نہيں _ اس وقت موسى عليہ السلام كو وحى ہوئي كہ ہمارا ايك بندہ مجمع البحرين ميں ہے كہ جو تجھ سے زيادہ عالم ہے_ اس قت موسى عليہ السلام نے درخواست كى كہ ميں اس عالم كى زيارت كرنا چاہتا ہوں _اس پر اللہ نے انہيں ان سے ملاقات كى راہ بتائي''_

يہ درحقيقت حضرت موسى عليہ السلام كو تنبيہ تھى كہ اپنے تمام تر علم و فضل كے باوجود اپنے آپ كو افضل ترين نہ سمجھيں _(۱)

____________________

(۱)ليكن يہاں يہ سوال سامنے آتا ہے كہ كيا ايك اولوالعزم صاحب رسالت و شريعت شخص كو اپنے زمانے كا سب سے بڑا عالم نہيں ہونا چاہئے؟ اس سوال كے جواب ميں ہم كہيں گے كہ اپنى ماموريت كى قلمرو ميں نظام تشريع ميں اسے سب سے بڑاعالم ہونا چاہيئےور حضرت موسى عليہ السلام اسى طرح تھے ليكن ان كى ماموريت كى قلمرو ان كے عالم دوست كى قلمرو سے الگ تھي_ ان كے عالم دوست كى ماموريت كا تعلق عالم بشريت سے نہ تھا_ دوسرے لفظوں ميں وہ عالم ايسے اسرار سے آگاہ تھے كہ جو دعوت نبوت كى بنياد نہ تھے. -->

۳۹۰

حضرت موسى عليہ السلام اور خضر عليہ السلام كہ جو اس زمانے كے بڑے عالم تھے ان كا واقعہ بھى عجيب ہے_يہ واقعہ نشاندہى كرتا ہے كہ حضرت موسى عليہ السلام جيسے اولو العزم پيغمبر كہ جو اپنے ماحول كے آگاہ ترين اور عالم ترين فرد تھے،بعض پہلوئوں سے ان كا علم بھى محدود تھا لہذا وہ استاد كى تلاش ميں نكلے تاكہ اس سے درس ليں ،استاد نے بھى ايسے درس ديئے كہ جن ميں سے ہر ايك دوسرے سے عجيب تر ہے_ اس داستان ميں بہت سے اہم نكات پوشيد ہ ہيں _

حضرت موسى ، جناب خضر كى تلاش ميں

حضرت موسى عليہ السلام كو كسى نہايت اہم چيزى كى تلاش تھي_وہ اس كى جستجو ميں دربدر پھر رہے تھے_وہ عزم بالجزم اور پختہ ارادے سے اسے ڈھونڈ رہے تھے_وہ ارادہ كئے ہوئے تھے كہ جب تك اپنا مقصود نہ پاليں چين سے نہيں بيٹھيں گے_

حضرت موسى عليہ السلام جس كى تلاش پر مامور تھے اس كا آپ(ع) كى زندگى پر بہت گہرا اثر ہوا اور اس نے آپ(ع) كى زندگى كا نيا باب كھول ديا_جى ہاں وہ ايك مرد عالم و دانشمند كى جستجو ميں تھے_ايسا عالم كہ جو حضرت موسى عليہ السلام كى آنكھوں كے سامنے سے بھى حجاب ہٹا سكتا تھا اور انہيں نئے حقائق سے روشناس كرواسكتا تھا اور ان كے لئے علوم و دانش كے تازہ باب كھول سكتا تھا_

اتفاقاً ايك حديث كہ جو امام صادق عليہ السلام سے منقول ہے اسميں صراحت كے ساتھ بتايا گيا ہے كہ حضرت موسى (ع) حضرت خضر(ع) سے زيادہ عالم تھے يعنى علم شريعت ميں _

شايد اس سوال كا جواب نہ پانے كى وجہ سے اور نسيان سے مربوط سوال كا جواب نہ پانے كے سبب بعض نے ان آيات ميں جن موسى عليہ السلام كا ذكر ہے اسے موسى بن عمران تسليم كرنے سے انكار كرديا ہے_

ايك حديث كہ جو حضرت على بن موسى رضا عليہ السلام سے نقل ہوئي ہے اس سے بھى يہ نكتہ معلوم ہوتا ہے كہ ان دونوں بزرگوں كا دائرہ كار اور قلمرو ايك دوسرے سے مختلف تھى اور ہر ايك دوسرے سے اپنے كام ميں زيادہ عالم تھا_

۳۹۱

ہم اس سلسلے ميں جلد پڑھيں گے كہ اس عالم بزرگ كى جگہ معلوم كرنے كے لئے حضرت موسى عليہ السلام كے پاس ايك نشانى تھى اور وہ اس نشانى كے مطابق ہى چل رہے تھے_

قرآن كہتا ہے :وہ وقت ياد كرو جب موسى نے اپنے دوست اور ساتھى جوان سے كہاكہ ميں تو كوشش جارى ركھوں گا جب تك''مجمع البحرين''تك نہ پہنچ جائوں ،اگر چہ مجھے يہ سفر لمبى مدت تك جارى ركھنا پڑے''_(۱)

مجمع البحرين كا مطلب ہے دو دريائوں كا سنگم_اس سلسلے ميں مفسرين ميں اختلاف ہے كہ ''بحرين''سے يہاں كون سے دو دريا ہيں _اس سلسلے ميں تين مشہور نظريئےيں :

۱_خليج عقبہ اور خليج سويز كے ملنے كى جگہ_ہم جانتے ہيں كہ بحيرہ احمر دو حصوں ميں تقسيم ہوجاتا ہے_ايك حصہ شمال مشرق كى طرف بڑھتا رہتا ہے اور دوسرا شمال مغرب كى طرف پہلے حصے كو خليج عقبہ كہتے ہيں اور دوسرے كو خليج سويز اور يہ دونوں خليجيں جنوب ميں پہنچ كر آپس ميں مل جاتى ہيں اور پھر بحيرہ احمر اپنا سفر جارى ركھتا ہے_

۲_اس سے بحر ہند اور بحيرہ احمر كے ملنے كى طرف اشارہ ہے كہ جو باب المندب پر جاملتے ہيں _

۳_يہ بحيرہ روم اور بحر اطلس كے سنگم كى طرف اشارہ ہے كہ جو شہر طنجہ كے پاس جبل الطارق كا تنگ دہانہ ہے_

تيسرى تفسير تو بہت ہى بعيد نظر آتى ہے كيونكہ حضرت موسى عليہ السلام جہاں رہتے تھے وہاں سے جبل الطارق كا فاصلہ اتنا زيادہ ہے كہ اس زمانے ميں حضرت موسى عليہ السلام اگر عام راستے سے وہاں جاتے تو كئي ماہ لگ جاتے_

دوسرى تفسير ميں جس مقام كى نشاندہى كى گئي ہے اس كا فاصلہ اگر چہ نسبتاًكم بنتا ہے ليكن اپنى حد تك وہ

____________________

(۱)سورہ كہف آيت ۶۰

۳۹۲

بھى زيادہ ہے كيونكہ شام سے جنوبى يمن ميں فاصلہ بھى بہت زيادہ ہے_

پہلا احتمال زيادہ صحيح معلوم ہوتاہے كيونكہ حضرت موسى عليہ السلام جہاں رہتے تھے وہاں سے يعنى شام سے خليج عقبہ تك كوئي زيادہ فاصلہ نہيں ہے_ويسے بھى قرآنى آيات سے معلوم ہوتا ہے كہ حضرت موسى عليہ السلام نے كوئي زيادہ سفر طے نہيں كيا تھا اگر چہ مقصد تك پہنچنے كے لئے بہت زيادہ سفركے لئے بھى تيار تھے_

عرصہ دراز تك جناب خضر عليہ السلام كى تلاش

بعض لوگوں نے جناب موسى عليہ السلام كے اس قول كے ،كہ انھوں نے كہا:''ميں اس وقت تك كوشش كروں گا بج تك اپنا مقصد حاصل نہ كرلوں ''كے بارے ميں كہا ہے :كہ لفظ''حقب'' ، ''عرصہ دراز''كے معنى ميں ہے_ بعض نے اس كى ۸۰ /سال سے تفسير كى ہے_ اس لفظ سے حضرت موسى عليہ السلام كا مقصد يہ تھا كہ مجھے جس كى تلاش ہے ميں اسے ڈھونڈھ كے رہوں گا چاہے اس مقصد كے لئے مجھے سالہا سال تك سفر جارى ركھنا پڑے_

''بہر حال جس وقت وہ ان دو دريائوں كے سنگم پر جاپہنچے تو ايك مچھلى كہ جو ان كے پاس تھى اسے بھول گئے''_(۱)

ليكن تعجب كى بات يہ ہے كہ'' مچھلى نے دريا ميں اپنى راہ لى اور چلتى بني''_(۲)

يہ مچھلى جو ظاہراً ان كے پا س غذا كے طور پر تھي_ كيا بھونى ہوئي تھى اور اسے نمك لگا ہوا تھا يا يہ تازہ مچھلى تھى كہ جو معجزانہ طور پر زندہ ہوكر اچھل كر پانى ميں جاكر تيرنے لگي_

اس سلسلے ميں مفسرين ميں اختلاف ہے_بعض كتب تفاسير ميں يہ بھى ہے كہ اس علاقے ميں آب حيات كا چشمہ تھا_ اس كے كچھ قطرات مچھلى پر پڑگئے جس سے مچھلى زندہ ہوگئي_

____________________

(۱)سورہ كہف آيت۶۱

(۲)سورہ كہف آيت ۶۱

۳۹۳

ليكن يہ احتمال بھى ہے كہ مچھلى ابھى پورى طرح مرى نہ تھى كيونكہ بعض مچھلياں ايسى بھى ہوتى ہيں جو پانى سے نكلنے كے بعد بہت دير تك نيم جاں صورت ميں رہتى ہيں اور اس مدت ميں پانى ميں گر جائيں تو ان كى معمول كى زندگى پھر شروع ہوجاتى ہے_

آخر كار موسى عليہ السلام اور ان كے ہمراہى دو دريائوں كے سنگم سے آگے نكل گئے تو لمبے سفر كے باعث انہيں خستگى كا احساس ہوا اور بھوك بھى ستانے لگي_ اس وقت موسى عليہ السلام كو ياد آيا كہ غذا تو ہم ہمراہ لائے تھے، لہذا انہوں نے اپنے ہمسفر دوست سے كہا: ہمارا كھانا لايئےس سفرنے تو بہت تھكا ديا ہے_(۱)

اس وقت ''ان كے ہمسفر نے انہيں خبردى كہ آپ كو ياد ہے كہ جب ہم نے اس پتھر كے پاس پناہ لى تھي(اور آرام كيا تھا)تو مجھے مچھلى كے بارے ميں بتانا ياد نہ تھا اور شيطان ہى تھا جس نے يہ بات مجھے بھلادى تھي_ ہوا يہ كہ مچھلى نے بڑے حيران كن طريقے سے دريا كى راہ لى اور پانى ميں چلتى بني''_(۲)

يہ معاملہ چونكہ موسى عليہ السلام كے لئے اس عالم بزرگ كو تلاش كرنے كے لئے نشانى كى حيثيت ركھتا تھا لہذا موسى عليہ السلام نے كہا:''يہى تو ہميں جاہئے تھا اور يہى چيزتو ہم ڈھونڈتے پھرتے تھے''_(۳)

''اور اس وقت وہ تلاش كرتے ہوئے اسى راہ كى طرف پلٹے''_(۴)

عظيم استاد كى زيارت

قرآن اس داستان كو آگے بڑھاتے ہوئے كہتا ہے:جس وقت موسى عليہ السلام اور ان كے ہمسفر دوست ''مجمع البحرين ''اور پتھر كے پاس پلٹ كر آئے تو'' اچانك ہمارے بندوں ميں سے ايك بندے سے ان كى ملاقات ہوگئي_ وہ بندہ كہ جس پر ہم نے اپنى رحمت كى تھى اور جسے ہم نے بہت سے علم و دانش سے نوازا تھا''_(۵)

____________________

(۱)سورہ كہف آيت ۶۲ (۲)سورہ كہف آيت ۶۳ (۳)سورہ كہف آيت۶۴

(۴)سورہ كہف آيت۶۴ (۵)سورہ كہف آيت۶۵

۳۹۴

اس وقت حضرت موسى عليہ السلام نے بڑے ادب سے اس عالم بزرگ كى خدمت ميں عرض كيا: ''كيا مجھے اجازت ہے كہ ميں آپ كى پيروى كروں تاكہ جو علم آپ كو عطا كيا گيا ہے اور جو باعث رشد و صلاح ہے،مجھے بھى تعليم ديں ''_(۱) ليكن بڑے تعجب كى بات ہے كہ اس عالم نے موسى عليہ السلام سے كہا:''تم ميرے ساتھ ہر گز صبر نہ كرسكوگے''_(۲) ساتھ ہى اس كى وجہ اور دليل بھى بيان كردى اور كہا:''تم اس چيز پر كيسے صبر كر سكتے ہو جس كے اسرار سے تم آگا ہى نہيں ركھتے''؟(۳) جيسا كہ ہم بعد ميں ديكھيں گے يہ عالم، اسرار و حوادث كے باطنى علوم پر دسترس ركھتا تھا جبكہ حضرت موسى عليہ السلام نہ باطن پر مامور تھے اور نہ ان كے بارے ميں زيادہ آگاہى ركھتے تھے_

ايسے مواقع پر ايسا بہت ہوتا ہے كہ حوادث كے ظاہر سے ان كا باطن مختلف ہوتا ہے، بعض اوقات كسى واقعے كا ظاہر احمقانہ اور ناپسنديدہ ہوتا ہے جبكہ باطن ميں بہت مقدس منطقى اور سوچا سمجھا ہوتا ہے ايسے مواقع پر جو شخص ظاہر كو ديكھتا ہے وہ اس پر صبرنہيں كرپاتا اور اس پر اعتراض كرتا ہے يا مخالفت كرنے لگتا ہے_

ليكن وہ استاد كہ جو اسرار دروں سے آگاہ ہے اور معاملے كے باطن پر نظر ركھتا ہے وہ بڑے اطمينان اور ٹھنڈے دل سے كام جارى ركھتا ہے اور اعتراض اور واويلاپر كان نہيں دھرتا بلكہ مناسب موقع كے انتظار ميں رہتا ہے تاكہ حقيقت امر بيان كرے جبكہ شاگرد بے تاب رہتا ہے ليكن جب اسرار اس پر كھل جاتے ہيں تو اسے پورى طرح سكون و قرار آجاتا ہے_

حضرت موسى عليہ السلام يہ بات سن كر پريشان ہوئے ،انہيں خوف تھا كہ اس عالم بزرگ كا فيض ان سے منقطع نہ ہو لہذا انہوں نے وعدہ كيا كہ تمام امور پر صبر كريں گے اور كہا انشاء اللہ آپ مجھے صابر پائيں گے اور ميں وعدہ كرتا ہوں كہ كسى كام ميں آپ كى مخالفت نہيں كروں گا_(۴)

____________________

(۱)سورہ كہف آيت۶۶

(۲)سورہ كہف آيت ۶۷

(۳)سورہ كہف آيت۶۸

(۴)سورہ كہف آيت۶۹

۳۹۵

يہ كہہ كر حضرت موسى عليہ السلام نے پھر انتہائي ادب و احترام اور خدا كى مرضى پر اپنے بھروسے كا اظہار كيا_

آپ نے اس عالم سے يہ نہيں كہا كہ ميں صابر ہوں بلكہ كہتے ہيں :انشاء اللہ آپ مجھے صابر پائيں گے_ليكن چونكہ ايسے واقعات پر صبر كرنا كہ جو ظاہراً ناپسنديدہ ہوں اور انسان جن كے اسرار سے آگاہ نہ ہوكوئي آسان كام نہيں اس لئے اس عالم نے حضرت موسى عليہ السلام كو خبردار كرتے ہوئے پھر عہد ليا ''اور كہا اچھا اگر تم ميرے پيچھے پيچھے آنا چاہتے ہو تو ديكھو خاموش رہنا اور كسى معاملے پر سوال نہ كرنا جب تك كہ مناسب موقع پر ميں خود تم سے بيان نہ كردوں ''_(۱)

جناب موسى (ع) نے پھر دوبارہ وعدہ كيا اور استادكے ساتھ ہولئے_

خدائي معلم اور يہ ناپسند يدہ كام ؟

''موسى (ع) اس عالم ربانى كے ساتھ چل پڑے _چلتے چلتے ايك كشتى تك پہنچے اور اس ميں سوار ہو گئے''_(۲)

يہاں سے ہم ديكھتے ہيں كہ اب قرآن تثنيہ كى ضمير استعمال كرنے لگا ہے_ يہ اشارہ ہے حضرت موسى عليہ السلام اور اس عالم بزرگوار كى طرف_ يہ امر نشاندہى كرتا ہے كہ حضرت موسى عليہ السلام كے ہمسفر يوشع(ع) كى ماموريت اس مقام پر ختم ہوگئي تھى اور وہ يہاں سے پلٹ گئے تھے يا پھر يہ ہے كہ وہ موجود تو تھے ليكن اس معاملے سے ان كا تعلق نہيں تھا لہذا انہيں يہاں نظرا نداز كرديا گيا ہے_ ليكن پہلا احتمال زيادہ قوى معلوم ہوتا ہے_

''بہرحال وہ دونوں كشتى پر سوار ہوگئے تو اس عالم نے كشتى ميں سوراخ كرديا ''_(۳)

حضرت موسى عليہ السلام چونكہ ايك طرف تو اللہ كے عظيم نبى بھى تھے ،الہذاانہيں لوگوں كى جان ومال

____________________

(۱)سورہ كہف ايت ۷۰

(۲)سورہ كہف ايت۷۱

(۳)سورہ كہف آيت ۷۱

۳۹۶

كا محافظ بھى ہونا چاہئے تھا او رانہيں امر بالمعروف اور نہى عن المنكر بھى كرنا چاہتے تھا اور دوسرى طرف ان كا انسانى ضمير اس بات كى اجازت نہيں ديتا تھا كہ وہ اس قسم كے غلط كام پر خاموشى اختيار كريں لہذا حضرت خضر كے ساتھ ان كا جو معاہدہ ہوا تھا اسے ايك طرف ركھا اور اس كام پر اعتراض كرديا اور ''كہا:

كيا آپ نے اہل كشتى كو غرق كرنے كے لئے اس ميں سوراخ كرديا ہے واقعاً آپ نے كس قدر برا كام انجام ديا ہے ''_(۱)

واقعا ًيہ كام كتنا حيرت انگيز ہے كہ كسى كشتى ميں بہت سے مسافر سوار ہوں اور اس ميں سوراخ كرديا جائے ؟

بعض روايات ميں ہے كہ اہل كشتى جلدہى متوجہ ہوگئے اور انہوں نے اس سوارخ كو كسى چيز كے ذريعے سے پركرديا ليكن اب وہ كشتى صحيح نہيں رہ گئي تھى _

اس وقت اس عالم نے بڑى متانت كے ساتھ موسى پر نگاہ ڈالى اور ''كہا: ميں نے نہيں كہا تھا كہ تم ميرے ساتھ ہرگز صبر نہيں كرسكو گے ''_(۲)

اس واقعے كى اہميت كے پيش نظر حضرت موسى كى عجلت اگرچہ فطرى تھى تاہم وہ پشيمان ہوئے انہيں اپنا معاہدہ ياد آيا لہذا معذرت آميز لہجے ميں استاد سے '' كہا اس بھول پر مجھ سے مواخذہ نہ كيجئے اور اس كام پرمجھ پر سخت گيرى نہ كيجئے ''_(۳)

كيوں اس بچے كو قتل كررہے ہو؟

ان كا دريائي سفر ختم ہوگيا وہ كشتى سے اتر آئے ،''سفر جارى تھا اثنائے راہ ميں انہيں ايك بچہ ملا ليكن اس عالم نے كسى تمہيد كے بغير ہى اس بچے كو قتل كرديا''_(۴)

____________________

(۱)سورہ كہف آيت ۷۱

(۲)سورہ كصف آيت ۷۲

(۳)سورہ كہف آيت ۷۳

(۴)سورہ كصف آيت ۷۴

۳۹۷

حضرت موسى (ع) سے پھر نہ رہاگيا يہ نہايت وحشتناك منظر تھا بلا جواز اور بےوجہ ايك بے گناہ بچے كا قتل ، ايسى چيز نہ تھى كہ حضرت موسى خاموش رہ سكتے آپ غصے سے آگ بگولہ ہوگئے غم واندوہ اور غصے كا يہ عالم تھا كہ آپ نے پھر اپنے معاہدے كو نظر انداز كرتے ہوئے اب كى شديد تراور واضح تر اعتراض كيا يہ واقعہ بھى پہلے واقعے كى نسبت زيادہ وحشتناك تھا وہ كہنے لگے :''كيا آپ نے ايك بے گناہ اور پاك انسان كو قتل كرديا ہے جبكہ اس نے كسى كو قتل نہيں كيا،واقعاً آپ نے كيسا برا كا م انجام دياہے_''(۱)(۲) اس عالم بزرگوار نے پھر اپنے خاص اطمينان اور نرم لہجے ميں وہى جملہ دہرايا : '' كہا: ميں نے تم سے نہ كہا تھا كہ تھا تم ہرگز ميرے ساتھ صبر نہ كر سكو گے''_(۳)

حضرت موسى عليہ السلام كو اپنا عہد ياد آگيا انہيں بہت احساس شرمندگى ہورہا تھا كيونكہ دومرتبہ يہ پيمان ٹوٹ چكا تھا چاہے بھول كرہى ايسا ہوا ہو انہيں خيال آرہا تھا كہ ہوسكتا ہے استاد كى بات صحيح ہو كہ انہوں نے تو پہلے ہى واضح كرديا تھا كہ ابتدا ميں ان كے كام موسى كے لئے ناقابل برداشت ہوں گے_

موسى (ع) نے پھر عذر خواہى كے لہجے ميں كہا كہ اس دفعہ بھى مجھ سے صرف نظر كيجئے اور ميرى بھول چوك كو نظر انداز كرديجئے اور'' اگر اس كے بعد ميں آپ كے كاموں كے بارے ميں وضاحت كا تقاضا كروں (اور آپ پر اعتراض كروں ) تو پھربے شك مجھے ساتھ نہ ركھيں اور اس صورت ميں آپ ميرى استادى سے معذور ہوں گے ''(۴)

____________________

(۱)سورہ كہف آيت ۷۴

(۲)لفظ'' غلام'' جو ان نورس كے معنى ميں ہے وہ حد بلوغ كو پہنچا ہو يا نہ پہنچا ہو _

جس نوجوان كو اس عالم نے قتل كيا تھا وہ حد بلوغ كو پہنچا ہوا تھا يا نہيں اس سلسلے ميں مفسرين ميں اختلاف ہے _

بعض نے '' نفسا زكية'' (پاك اور بے گناہ انسان ) كى تعبير كو اس بات كى دليل بنايا ہے كہ وہ بالغ تھا كيونكہ قصاص صرف بالغ سے ليا جاسكتا ہے _البتہ آيت كو مجموعى طور پر ديكھا جائے تو اس سلسلے ميں حتمى فيصلہ نہيں كيا جاسكتا _

(۳)سورہ كہف آيت ۷۵

(۴)سورہ كہف آيت۷۶

۳۹۸

يہ جملہ حضرت موسى (ع) كى انصاف پسندي، بلند نظرى اور اعلى ظرفى كى حكايت كرتا ہے اور نشاندہى كرتا ہے كہ وہ ايك حقيقت كے سامنے سرجھكادينے والے تھے اگرچہ وہ كتنى ہى تلخ كيوں نہ ہو _

دوسرے لفظوں ميں تين بار كى آزمائش سے يہ واضح ہوجائے گا كہ ان دونوں كى ماموريت الگ الگ ہے اور اس كا نباہ نہيں ہوسكتا _

اپنے كام كى مزدورى لے لو

اس گفتگو اور نئے معاہدے كے بعد ''موسى (ع) اپنے استاد كے ساتھ چل پڑے ،چلتے چلتے وہ ايك بستى ميں پہنچے انہوں نے اس بستى والوں سے كھانا مانگا ليكن بستى والوں نے انہيں مہمان بنانے سے انكار كرديا ''(۱)

اس ميں شك نہيں كہ حضرت موسى اور حضرت خضر(ع) كوئي ايسے افراد نہ تھے كہ اس بستى كے لوگوں پر بوجھ بننا چاہتے تھے،ايسا معلوم ہوتا ہے كہ وہ اپنا زاد وتوشہ راستے ميں كہيں دے بيٹھے تھے يا پھر ختم ہوگيا تھا لہذاوہ چاہتے تھے كہ بستى والوں كے مہمان ہوجائيں (يہ احتمال بھى ہے كہ اس عالم نے جان بوجھ كرلوگوں سے ايسا كہا ہوتاكہ حضرت موسى كو ايك اور درس ديا جاسكے)_(۲)

بہر حال مفسرين ميں اس سلسلے ميں اختلاف ہے كہ يہ شہر كو نسا تھا اور كہاں واقع تھا ابن عباس سے منقول ہے كہ يہ شہر ''انطاكيہ'' تھا_

بعض نے كہا ہے كہ يہاں '' ايلہ '' شہر مراد ہے كہ جو آج كل '' ايلات''نام كى مشہور بندرگاہ ہے اور بحيرہ احمر كے كنارے خليج عقبہ كے نزديك واقع ہے _

____________________

(۱)سورہ كہف آيت۷۷

(۲)اس نكتے كى ياد دہانى بھى ضرورى ہے كہ '' قرية'' قرآن كى زبان ميں ايك عام مفہوم ركھتا ہے اور ہر قسم كے شہر اور آبادى كے معنى ميں آيا ہے ليكن يہاں خصوصيت سے شہر مراد ہے كيونكہ چند آيات كے بعد اس كے لئے لفظ '' المدينہ''(يعنى شہر) آياہے _

۳۹۹

بعض دوسروں كا نظريہ ہے كہ اس سے '' ناصرہ''شہر مراد ہے كہ كہ جو فلسطين كے شمال ميں واقع ہے اور حضرت عيسى كى جائے پيدائش ہے_

مرحوم طبرسى نے اس مقام پر حضرت امام جعفرصادق عليہ السلام كى ايك حديث نقل كى ہے كہ جو آخرى احتمال كى تائيد كرتى ہے _

مجمع الجرين كے بارے ميں ہم كہہ چكے ہيں كہ اس سے مراد'' خليج عقبہ'' اور'' خليج سويز ''كا سنگم ہے اس سے واضح ہوتا ہے كہ شہر ناصرہ اور بندرگاہ ايلہ اس جگہ سے انطاكيہ كى نسبت زيادہ قريب ہيں _

بہرصورت جو كچھ حضرت موسى عليہ السلام اور ان كے استاد كے ساتھ اس شہر ميں پيش آيا اس سے معلوم ہوتا ہے كہ اس شہر كے رہنے والے بہت بخيل اور كم ظرف لوگ تھے پيغمبر اكرم (ص) سے اس شہر والو ں كے بارے ميں ايك حديث منقول ہے كہ آپ نے فرمايا :''وہ كمينے اور كم ظرف لوگ تھے ''_

قرآن كہتا ہے :'' اس كے باوجود انہوں نے اس شہر ميں ايك گرتى ہوئي ديوار ديكھى تو اس عالم نے اس كى مرمت شروع كردى اور اسے كھڑا كرديا _''(۱) اور اس كو ويرانى سے بچاليا_

حضرت موسى اس وقت تھكے ہوئے تھے انہيں بھوك بھى ستارہى تھي، كوفت الگ تھى وہ محسوس كررہے تھے اس آبادى كے نا سمجھ لوگوں نے ان كى اور ان كے استاد كى ہتك كى ہے دوسرى طرف وہ ديكھے رہے تھے ، اس بے احترامى كے باوجود حضرت خضر اس گرتى ہوئي ديوار كى تعمير ميں لگے ہوئے تھے جيسے ان كے سلوك كى مزدورى دے رہے ہوں وہ سوچ رہے تھے كہ كم از كم استاد يہ كام اجرت لے كر ہى كرتے تاكہ كھانا تو فراہم ہوجاتا _

لہذا وہ اپنے معاہدے كو پھر بھول گئے انہوں نے پھر اعتراض كيا ليكن اب لہجہ پہلے كى نسبت ملائم اور نرم تھا '' كہنے لگے: اس كام كى كچھ اجرت ہى لے ليتے ''(۲)

____________________

(۱)سورہ كہف آيت۷۷

(۲)سورہ كہف آيت۷۷

۴۰۰

درحقيقت حضرت موسى عليہ السلام يہ سوچ رہے تھے كہ يہ عدل تو نہيں كہ انسان ان لوگوں سے ايثار كا سلوك كرے كہ جو اس قدر فرومايہ اور كم ظرف ہوں _دوسرے لفظوں ميں نيكى اچھى چيز ہے مگر جب محل پر ہو، يہ ٹھيك ہے كہ برائي كے جواب ميں نيكى كرنا مردان خدا كا طريقہ ہے ليكن وہاں كہ جہاں بروں كے لئے برائي كى تشويق كا باعث نہ ہو ''

فراق دوست ،زندگى كے سخت ترين ايام

اس موقع پر اس عالم بزرگوار نے حضرت موسى سے آخرى بات كہى كيونكہ گزشتہ تمام واقعات كى بناء پر انہيں يقين ہوگيا تھا كہ موسى ان كے كاموں كو برداشت نہيں كرسكتے لہذا فرمايا :'' لواب تمہارے اور ميرے درميان جدائي كا وقت آگيا ہے جلد ميں تمہيں ان امور كے اسرار سے آگاہ كروں گا كہ جن پر تم صبر نہ كرسكے''_(۱)

حضرت موسى نے بھى اس پر كوئي اعترا ض نہ كيا كيونكہ گزشتہ واقعے ميں يہى بات وہ خود تجويز كر چكے تھے يعنى خود حضرت موسى پر يہ حقيقت ثابت ہوچكى تھى كہ ان كا نباہ نہيں ہوسكتا ليكن پھر بھى جدائي كى خبر موسى كے دل پر ہتھوڑے كى ضرب كى طرح لگى ايسے استاد سے جدائي كہ جس كا سينہ مخزن اسرار ہو، جس كى ہمراہى باعث بركت ہو اور جس كى ہر بات ايك درس ہو، جس كا طرز عمل الہام بخش ہو، جس كى پيشانى سے نور خدا ضوفشاں ہو اور جس كا دل علم الہى كا گنجينہ ہو ايسے رہبر سے جدائي باعث رنج وغم تھى ليكن يہ ايك ايسى تلخ حقيقت تھى جو موسى كو بہرحال قبول كرنا تھى _

مشہور مفسر''ابوالفتوح رازي'' كہتے ہيں كہ ايك روايت منقول ہے :

لوگوں نے حضرت موسى سے پوچھا: آپ كى زندگى ميں سب سے بڑى مشكل كونسى تھي؟

حضرت موسى (ع) نے كہا : ميں نے بہت سختياں جھيلى ہيں (فرعون كے دور كى سختياں اور پھر بنى اسرائيل

____________________

(۱)سورہ كہف آيت ۷۸

۴۰۱

كے دور كى مشكلات كى طرف اشارہ ہے ) ليكن كسى مشكل اور رنج نے ميرے دل كو اتنا رنجور نہيں كيا جتنا حضرت خضرسے جدائي كى خبر نے _

ان واقعات كاراز

جب حضرت موسى اور حضرت خضر كا جدا ہونا طے پاگيا تو ضرورى تھا كہ يہ الہى استاد اپنے ان كاموں كے اسرار ظاہر كرے كہ حضرت موسى جنھيں گوارانہيں كرپائے تھے درحقيقت ان سے ہمراہى كا فائدہ حضرت موسى عليہ السلام كے لئے يہى تھا كہ وہ ان تين عجيب واقعات كا راز سمجھ ليں اور يہى راز بہت سے مسائل كى تفہيم كے لئے كليدبن سكتا تھا اور مختلف سوالوں كا جواب اس ميں پنہاں تھا _

حضرت خضر(ع) نے كشتى والے واقعے سے بات شروع كى اور كہنے لگے : ''ہاں ، تووہ كشتى والى بات يہ تھى كہ وہ چند غريب ومسكين افرادكى ملكيت تھى وہ اس سے دريا ميں كام كرتے تھے ميں نے سوچا كہ اس ميں كوئي نقص ڈال دوں كيونكہ ميں جانتا تھا كہ ايك ظالم بادشاہ ان كے پيچھے ہے اور وہ ہر صحيح سالم كشتى كو زبردستى ہتھياليتا ہے''_(۱)

گويا كشتى ميں سوارخ كرنا ظاہرا تو برالگتا تھا ليكن اس كام ميں ايك اہم مقصد پوشيدہ تھا اور وہ تھا كشتى كے غريب مالكوں كو ايك غاصب بادشاہ كے ظلم سے بچانا كيونكہ اس كے نزديك عيب دار كشتياں اس كے كام كى نہ تھيں اور ايسى كشتيوں پروہ قبضہ نہيں جماتا تھا خلاصہ يہ كہ يہ كام چند مسكينوں كے مفاد كى حفاظت كے لئے تھا اور اسے انجام پاناہى چاہئے تھا _

اس كے بعد حضرت خضر(ع) لڑكے قتل كے مسئلے كى طرف آتے ہيں كہتے ہيں : ''رہاوہ لڑكا، تو اس كے ماں باپ صاحب ايمان تھے ہميں يہ بات اچھى نہ لگى كہ وہ اپنے ماں باپ كو راہ ايمان سے بھٹكادے اور سركشى وكفر پر ابھارے _''(۲)

____________________

(۱)سورہ كہف آيت۷۹

(۲)سورہ كہف آيت۸۰

۴۰۲

بہرحال اس عالم نے اس لڑكے كو قتل كرديا اور اس لڑكے كے زندہ رہنے كى صورت ميں اس كے ماں باب كو آئندہ جو ناگوار واقعات پيش آنے والے تھے انہيں اس قتل كى دليل قرار ديا _

اس كے بعد مزيد فرمايا گيا ہے : ''ہم نے چاہا كہ ان كارب ان كو اس كے بدلے زيادہ پاك اور زيادہ پر محبت اولاد عطا فرمائے _''(۱)

آخرى اور تيسرے كام يعنى ديوار بنانے كے واقعے كا جواب ہے ،اس عالم نے اس واقعے كے راز سے پردہ اٹھاتے ہوئے كہا: رہى ديواركى بات _تو وہ اس شہر كے دو يتيم بچوں كى تھى اس ديوار كے نيچے ان كا خزانہ چھپا ہوا تھا اور ان كا باپ ايك نيك اور صالح شخص تھا ،تيرا پروردگار چاہتا تھا كہ وہ بالغ ہوجائيں اور اپنا خزانہ نكال ليں ،يہ تو تيرے رب كى طرف سے رحمت تھے_

اور ان كے نيك ماں باپ كى وجہ سے ميں مامور تھا كہ اس ديوار كو تعمير كروں كہ كہيں وہ گرنہ جائے اور خزانہ ظاہر ہوكر خطرے سے دوچار نہ ہوجائے_(۲)

لہذا انہوں نے كہا : اور ميں نے يہ كام خود سے نہيں كئے بلكہ اللہ كے حكم تحت انجام ديئے _(۳)

جى ہاں : يہ تھے ان كاموں كے راز كہ جن پرصبر كى تم ميں تاب نہيں تھى _(۴)(۵)

____________________

(۱)سورہ كہف آيت ۸۱

(۲)سورہ كہف آيت۸۲

(۳)سورہ كہف آيت۸۲

(۴)سورہ كہف آيت۸۲

(۵)خضر كى ماموريت تشريعى تھى يا تكوينى ؟

يہ وہ اہم ترين مسئلہ ہے جس نے بزرگ علماء كو اپنى طرف متوجہ كيا ہے تين واقعات كہ جو اس عالم كے ہاتھوں انجام پائے ان پر حضرت موسى نے اعتراض كيا كيونكہ وہ باطن امر سے آگاہ نہ تھے ليكن بعد ميں استاد نے وضاحت كى تو مطمئن ہوگئے _ سوال يہ ہے كہ كيا واقعاً كسى كے مال ميں اس كى اجازت كے بغير نقص پيدا كيا جاسكتا ہے، كہ غاصب اسے لے نہ جائے _ اور كيا كسى لڑكے كو اس كام پر سزادى جاسكتى ہے جو وہ آئندہ ميں انجام دے گا؟ اور كيا ضرورى ہے كہ كسى كے مال كى حفاظت كے لئے ہم مفت زحمت برداشت كريں _؟

۴۰۳

ان سوالات كے جواب ميں ہمارے سامنے دوراستے ہيں : پہلايہ كہ ان امور كو ہم فقہى احكام اور شرعى قوانين كى روشنى ميں ديكھيں _بعض مفسرين نے يہى راستہ اختيا ر كيا ہے _ انہوں نے پہلے واقعے كو اہم اور اہم تر قوانين پر سمجھا ہے اور كہا ہے كہ مسلم ہے كہ سارى كشتى اور پورى كشتى كى حفاظت اہم كام تھا جبكہ جزوى نقص سے حفاظت زيادہ اہم نہيں تھا دوسرے لفظوں ميں حضرت خضر (ع) نے كم نقصان كے ذريعے زيادہ نقصان كو روكا، فقہى زبان ميں '' افسد كو فاسد سے دفع كيا'' خصوصا ًجبكہ يہ بات ان كے پيش نظر تھى كہ كشتى والوں كى باطن رضا مندى انہيں حاصل ہے كيونكہ اگر وہ اصل صورت حال سے آگاہ ہوجاتے تو اس كام پر راضى ہوجاتے (فقہى تعبير كے مطابق حضرت خضر (ع) كو اس مسئلے ميں '' اذن فحوى '' حاصل تھا)_ اس لڑكے كے بارے ميں مفسرين كا اصرار ہے كہ يقيناً وہ بالغ تھا اور وہ مرتد يا فاسد تھا لہذا وہ اپنے موجودہ اعمال كى وجہ سے جائز القتل تھا اور يہ جو حضرت خضراپنے اقدام كے لئے اس كے آئندہ جرائم كو دليل بناتے ہيں تو وہ اس بناء پر ہے كہ وہ كہنا چاہتے ہيں كہ يہ مجرم نہ صرف يہ كہ اس وقت اس كام ميں مبتلا ہے بلكہ آئندہ بھى اس سے بڑھ كر جرائم كا مرتكب ہوگا لہذا اس كاقتل قوانين شريعت كے مطابق تھا اور وہ اپنے افعال اورخود كردہ گناہوں كى وجہ سے جائز القتل تھا _ رہا تيسرا واقعہ تو كوئي شخص كسى پر يہ اعتراض نہيں كرسكتا كہ تم دوسرے كے لئے كيوں ايثار كرتے ہو اور اس كے اموال كو بچانے كے لئے كيوں بيگار اٹھاتے ہو،ہوسكتا ہے يہ ايثار واجب نہ ہو ليكن مسلم ہے كہ يہ اچھا كام ہے اور لائق تحسين ہے بلكہ ہوسكتا ہے كہ بعض مواقع پر سرحد وجوب تك پہنچ جائے مثلاً كسى يتيم بچے كا بہت سامال ضائع ہو رہا ہو اور تھوڑى سى زحمت كركے اسے بچايا جاسكے تو بعيد نہيں ہے كہ ايسے موقع پريہ كام واجب ہو _ دوسرا راستہ اس بنياد پر ہے كہ مذكورہ بالا تو ضيحات اگرچہ خزانے اور ديوار كے بارے ميں لائق اطمينان ہوں ليكن جو جوان مارا گيا اس كے بارے ميں مذكورہ وضاحتيں ظاہر قرآنى گفتگو سے مناسبت نہيں ركھتيں كيونكہ اس كے قتل كا قصدظاہرا اس كے آئندہ كا عمل قرار ديا گيا ہے نہ كہ موجودہ عمل _ كشتى كے بارے ميں بھى مذكورہ وضاحت كسى حدتك قابل بحث ہے _

لہذا ضرورى ہے كہ كوئي اور راہ اختيار كى جائے اور وہ يہ ہے :

اسى جہان ميں ہميں دو نظاموں سے سابقہ پڑتا ہے ايك نظام تكوين ہے اور دوسرا نظام تشريع يہ دونوں نظام اگرچہ كلى اصول ميں تو ہم آہنگ ہيں ليكن كبھى ايسا ہوتا ہے كہ جزئيات ميں ايك دوسرے سے مختلف ہوتے ہيں _

مثلا اللہ تعالى اپنے بندوں كى آزمائش خوف، اموال وثمرات كے نقصان ، اپنى اور عزيزوں كى موت اور قتل كے ذريعے كرتا ہے تاكہ يہ معلوم ہوكہ كون شخص ان حوادث ومصائب پر صبر وشكيبائي اختيار كرتا ہے _

تو كيا كوئي فقيہ بلكہ كوئي پيغمبر ايسا كرسكتا ہے _يعنى اموال ونفوس، ثمرات اور امن كو ختم كركے لوگوں كو آزمائے ؟

يا كبھى ايسا ہوتا ہے كہ اللہ تعالى اپنے بعض نبيوں اور صالح بندوں كو خبر دار كرنے اور انہيں تنبيہ كرنے كے لئے كسى ترك اولى پر بڑى مصيبتوں ميں گرفتار كرتاہے جيسا كہ حضرت يعقوب مصيبت ميں گرفتار ہوئے اس بات پر كہ انہوں نے بعض مساكين كى طرف كم توجہ دى يا حضرت يونس كو ايك معمولى ترك اولى پر مصيبت ميں گرفتار ہونا پڑا تو كيا كوئي حق ركھتا ہے كہ كسى كو سزا كے طور پر ايسا كرے يا يہ كہ ہم ديكھتے ہيں كبھى اللہ تعالى كسى انسان كى ناشكرى كى وجہ سے اس سے كوئي نعمت چھين ليتا ہے مثلاً كوئي شخص مال ملنے پر شكر ادا نہيں كرتا تو اس كا مال دريا ميں غرق ہوجاتاہے يا صحت پر شكر ادا نہيں كرتا تو اللہ تعالى اس سے صحت لے ليتا ہے تو كيا فقہى اور شرعى قوانين كى رو سے كوئي ايسا كرسكتا ہے كہ ناشكرى كى وجہ سے كسى كا مال ضائع كردے اور اس كى مثاليں مجموعى طور پر ظاہر كرتى ہيں كہ جہان آفرينش خصوصا خلقت انسان اس احسن نظام پر استوار ہے كہ اللہ نے انسان كو كمال تك پہنچا نے كے لئے كچھ تكوينى قوانين بنائے ہيں كہ جن كى خلاف ورزى سے مختلف نتائج مرتب ہوتے ہيں حالانكہ قانوں شريعت كے لحاظ سے ہم ان قوانين پر عمل نہيں كرسكتے _

۴۰۴

مثلاً كسى انسان كى انگلى ڈاكڑ اس لئے كاٹ سكتا ہے كہ زہراس كے دل كى طرف سرايت نہ كرجائے ليكن كيا كوئي شخص كسى انسان ميں صبر پيدا كرنے كے لئے يا كفران نعمت كى وجہ سے اس كى انگلى كاٹ سكتا ہے ؟(جبكہ يہ بات مسلم ہے كہ خدا ايسا كرسكتا ہے كيونكہ ايسا كرنا نظام احسن كے مطابق ہے )

اب جبكہ ثابت ہوگيا كہ ہم دو نظام ركھتے ہيں اور اللہ تعالى دونوں نظاموں پر حاكم ہے تو كوئي چيز مانع نہيں ہے كہ اللہ ايك گروہ كو نظام تشريعى كو عملى شكل دينے پر مامور كرے اورفرشتوں كے ايك گروہ يا بعض انسانوں كو (مثلا حضرت خضر كو )نظام تكوين كو عملى شكل دينے پر مامور كرے _

اللہ تعالى كے نظام تكوين كے لحاظ سے كوئي مانع نہيں كہ وہ كسى نابالغ بچے كو بھى كسى حادثے ميں مبتلا كر دے اور اس ميں اس كى جان چلى جائے كيونكہ ہوسكتا ہے اس كا وجود مستقبل كے لئے بہت بڑے خطرات كاباعث ہو، نيز كوئي مانع نہيں كہ اللہ مجھے آج كسى سخت بيمارى ميں مبتلا كردے ، اس طرح سے كہ ميں گھرسے باہر نہ نكل سكوں كيونكہ وہ چاہتا ہے _

۴۰۵

حضرت خضر كون تھے؟

جيسا كہ ہم نے ديكھا ہے كہ حضرت خضر(ع) كانام صراحت كے ساتھ قرآن ميں نہيں ليا گيا اور حضرت موسى كے دوست اور استاد كا ذكر ان الفاظ ميں كيا گيا ہے :''ہمارے بندوں ميں سے ايك بندہ جسے ہم نے اپنى رحمت عطا كى اور جسے ہم نے اپنے علم سے نوازا''_اس تعارف ميں ان كے مقام عبوديت كا تذكرہ ہے اور ان كے خاص علم كو واضح كيا گيا ہے لہذا ہم نے بھى عالم كے طور پر ان كا زيادہ ذكر كيا ہے_

ليكن متعدد روايات ميں اس عالم كا نام''خضر''بتايا گيا ہے_بعض روايات سے معلوم ہوتا ہے كہ ان كا اصلى نام''بليا ابن ملكان''تھا اور''خضر''ان كا لقب تھاكيونكہ وہ جہاں كہيں قدم ركھتے ان كے قدموں كى بدولت زمين سر سبز ہوجاتى تھي_

دوسرے لفظوں ميں اس عالم ميں مامورين كا ايك گروہ باطن پر مامور ہے اور ايك گروہ ظاہر پر مامور ہے جو باطن پر مامور ہيں ان كے لئے اپنے اصول وضوابط اور پروگرام ہيں اور جو ظاہر پر مارمور ہيں ان كے لئے اپنے خاص اصول وضوابط ہے_

يہ ٹھيك ہے كہ ان دونوں پر وگراموں كا اصلى اور كلى مقصد انسان كو كمال كى طرف لے جانا ہے اس لحاظ سے دونوں ہم آہنگ ہيں ، شك نہيں كہ ان دونوں طريقوں ميں سے كسى ميں بھى كوئي خود سرى سے كوئي اقدام نہيں كرسكتا بلكہ ضرورى ہے كہ وہ حقيقى مالك وحاكم كى طرف سے مجاز ہو لہذا حضرت خضر عليہ السلام نے صراحت كے ساتھ اس حقيقت كو بيان كيا اور كہا:

ميں نے يہ كام حكم الہى كے مطابق اور اسى كے ضابطے اور طريقے كے مطابق انجام ديئےيں اس طرح ان اقدامات ميں جو ظاہرى تضاد نظر آتا ہے وہ ختم ہوجاتاہے _اور يہ ہم ديكھ رہے ہيں كہ حضرت موسى حضرت خضر كے كاموں كو برداشت نہيں كرپاتے تھے تو يہ اسى بناء پر تھا كہ ان كى ماموريت اور ذمہ دارى كا طريقہ جناب خضر(ع) كى ذمہ دارى كے راستے سے الگ تھا لہذا جب انہوں نے حضرت خضر كاكام ظاہراً شرعى قوانين كے خلاف ديكھا تو اس پر اعتراض كيا ليكن خضر نے ٹھنڈے دل سے اپنا كام جارى ركھا اور چونكہ يہ دو عظيم خدائي رہبر مختلف ذمہ داريوں كى بناء پر ہميشہ كے لئے اكٹھے نہيں رہ سكتے تھے لہذا حضرت خضرا نے كہا :

''يہ اب ميرے اور تمہارے جدا ہونے كا مرحلہ آگيا ہے ''_

۴۰۶

بعض نے يہ احتمال بھى ذكر كيا ہے كہ اس عالم كا نام''اليا(ع) س''ہے يہى سے يہ تصور پيدا ہوا كہ ہوسكتا ہے''الياس''اور''خضر''ايك ہى شخص كے دو نام ہوں ليكن مشہور و معروف مفسرين اور راويوں نے پہلى بات ہى بيان كى ہے_

واضح ہے كہ يہ بات كوئي خاص اہميت نہيں ركھتى كہ اس شخض كا نام كيا ہے_اہم بات يہ ہے كہ وہ ايك عالم ربانى تھے اور پروردگار كى خاص رحمت ان كے شامل حال تھي_وہ باطن اور نظا م تكوينى پر مامور تھے اور كچھ اسرار سے آگاہ تھے اور ايك لحاظ سے موسى (ع) بن عمران كے معلم تھے اگر چہ حضرت موسى عليہ السلام كئي لحاظ سے ان پر مقدم تھے_

يہ كہ وہ پيغمبر تھے يا نہيں _اس سلسلے ميں روايات مختلف ہيں _اصول كافى جلد اول ميں متعدد روايات ہيں كہ جو اس بات پر دلالت كرتى ہيں كہ وہ پيغمبر نہيں تھے بلكہ وہ''ذوالقرنين''اور''آصف ابن برخيا''كى طرح ايك عالم تھے_

جبكہ كچھ اور روايات ايسى بھى ہيں كہ جن سے معلوم ہوتا ہے كہ وہ مقام نبوت كے حامل تھے اور زير نظر روايات ميں بھى بعض تعبيرات كا ظاہرى مفہوم بھى يہى ہے_كيونكہ ايك موقع پروہ كہتے ہيں :

''ميں نے يہ كام اپنى طرف سے نہيں كيا''_

ايك اور مقام پر كہتے ہيں :

''ہم چاہتے تھے كہ ايسا ہو''_

نيز بعض روايات سے معلوم ہوتا ہے كہ وہ ايك لمبى عمر كے حامل تھے_(۱)

____________________

(۱)يہاں ايك سوال سامنے آتا ہے_ وہ يہ كہ كيا اس عالم بزرگوار كا واقعہ يہوديوں اور عيسائيوں كى كتابوں ميں بھى ہے؟

سوال كا جواب يہ ہے:

اگر كتب سے مراد كتب عہدين(توريت و انجيل)ہيں ،تو ان ميں تو نہيں ہے ليكن بعض يہودى علماء كى كتابيں كہ جو گيارہويں صدى عيسوى ميں مدون ہوئي ہيں ،ان ميں ايك داستان نقل ہوئي ہے كہ جو حضرت موسى عليہ السلام كى مذكورہ داستان سے كچھ مشابہت ركھتى ہے_اگر چہ اس داستان كے ہيرو''الياس''اور''يوشع بن لاوي''ہيں كہ جو تيسرى صدى عيسوى كے''تلمود''كے مفسرين ميں سے تھے_يہ داستان اور كئي پہلوئوں سے بھى موسى عليہ السلام و خضر عليہ السلام سے مختلف ہے_

مزيد وضاحت كے لئے تفسير نمونہ ج۷ص۱۷۱پر رجوع كريں

۴۰۷

خود ساختہ افسانے

حضرت موسى عليہ السلام اور حضرت خضر عليہ السلام كى داستان كى بنياد وہى ہے كہ جو كچھ قرآن ميں آيا ہے ليكن افسوس سے كہنا پڑتا ہے كہ اس سے منسلك كركے بہت سے افسانے گھڑلئے گئے ہيں _ ان افسانوں كو اس داستان كے ساتھ خلط ملط كرنے سے اصل داستان كى صورت بھى بگڑ جاتى ہے_ جاننا چاہئے كہ يہ كوئي پہلى داستان نہيں ہے كہ جس كے ساتھ يہ سلوك كيا گيا ہے اور بہت سى سچى داستانوں كے ساتھ يہى حال كيا گيا ہے_

لہذا حقيقت تك رسائي كے لئے قرآن كو بنياد قرار ديا جانا چاہئے جس ميں يہ داستا ن بيان ہوئي ہے_ يہاں تك كہ احاديث كو بھى اسى صورت ميں قبول كيا جاسكتا ہے جب وہ قرآن كے موافق ہوں _اگر كوئي حديث اس كے برخلاف ہو تو يقينا وہ قابل قبول نہيں ہے اور خوش قسمتى سے معتبر احاديث ميں ايسى كوئي حديث نہيں ہے_

علم موسى (ع) و خضر (ع) ،علم خدا كے مقابلہ ميں

پيغمبر اكرم (ص) سے منقول ہے:

''جس وقت موسى عليہ السلام خضر عليہ السلام سے ملے تو ايك پرندہ ان كے سامنے ظاہر ہوا_ اس نے پانى كا ايك قطرہ اپنى چونچ ميں ليا تو حضرت موسى عليہ السلام سے خضر عليہ السلام نے كہا:

جانتے ہو كہ پرندہ كيا كہتا ہے:

۴۰۸

موسى عليہ السلام نے كہا:كيا كہتا ہے؟

خضر عليہ السلام كہنے لگے: كہتا ہے:

''تيرا علم اور موسى كا علم، خدا كے علم كے مقابلے ميں اس قطرے كى طرح ہے جو ميں نے پانى سے چونچ ميں ليا ہے''_

وہ خزانہ كيا تھا؟

اس داستان كے بارے ميں ايك سوال اور بھى ہے اور وہ يہ كہ وہ خزانہ آخر كيا تھا جسے موسى عليہ السلام كے عالم دوست پوشيدہ ركھنا چاہتے تھے اور آخر اس با ايمان شخص يعنى يتيموں كے باپ نے يہ خزا نہ كيوں چھپا ديا تھا؟

بعض نے كہا ہے كہ وہ خزانہ مادى پہلو كى بجائے زيادہ معنوى پہلو ركھتا تھا_ بہت سى شيعہ سنى روايا ت كے مطابق وہ ايك تختى تھى جس پر حكمت آميز كلمات نقش تھے_ اس بارے ميں مفسرين ميں اختلاف ہے كہ وہ حكمت آميز كلمات كيا تھے_

كتاب كافى ميں امام صادق عليہ السلام سے منقول ہے كہ آپ(ع) نے فرمايا:

يہ سونے چاندى كا خزانہ نہيں تھا_ يہ تو صرف ايك تختى تھى جس پر چار جملے ثبت تھے_

اللہ كے سوا كوئي معبود نہيں _

جو موت پر يقين ركھتا ہے وہ(بے ہودہ)نہيں ہنستا_

اور جسے اللہ كى طرف سے حساب كا يقين ہے(اوراسے جو ابدہى كى فكر ہے)وہ خوش نہيں رہتا_

اور جسے تقدير الہى كا يقين ہے وہ اللہ كے سوا كسى سے نہيں ڈرتا_

۴۰۹

اوربنى اسرائيل كى نافرماني اصحاب سبت،سنيچر كى چھٹي بنى اسرائيل كا ايك گروہ جو ايك سمندر (بظاہر بحيرہ احمر جو فلسطين كے پاس ہے)كے كنارے شہر''ايلہ''(جسے آج كل''ايلات''كہتے ہيں )ميں رہتے تھے،ان كى آزمائش كے لئے اللہ نے انہيں حكم ديا تھا كہ ہفتہ كے روز مچھلى كا شكار نہ كريں ،سارے دنوں ميں شكار كريں صرف ايك دن تعطيل كرديا كريں ليكن ان لوگوں نے اس حكم كى صريحاًمخالفت كى جس كے نتيجے ميں وہ درد ناك عذاب ميں مبتلا ہوئے جس كى تفصيل قرآن ميں بيان كى گئي ہے_

قرآن ميں ارشاد ہوتا ہے:''جو يہودى تمہارے زمانہ ميں موجود ہيں ان سے اس شہر كے ماجرے كے متعلق سوال كرو جو سمندر كے كنارے آباد تھا''_اور انہيں وہ زمانہ ياددلائو جبكہ وہ ہفتہ كے روز قانون الہى كى مخالفت كرتے تھے_''(۱)

كيونكہ ہفتہ كے روز ان كى تعطيل كا دن تھا جس ميں ان كو يہ حكم ملا تھا كہ اس روز وہ اپنا كاروبار ترك كرديں اور عبادت خدا ميں مشغول ہوں ليكن انہوں نے اس حكم كى طرف كوئي توجہ نہ دي_

____________________

(۱)سورہ اعراف ۱۶۲

۴۱۰

اس كے بعد قرآن كريم اس جملے كى جو اجمالى طور پر پہلے گزر چكا ہے اس طرح شرح كرتاہے كہ ياد كرو:'' جب ہفتہ كے دن مچھلياں پانى كے اوپر ظاہر ہوتى تھيں اور دوسرے دنوں ميں وہ كم دكھلائي ديتى تھيں ''_(۱)

يہ بات واضح ہے كہ جو لوگ سمندر كے كنارے زندگى بسر كرتے تھے ان كى خوراك اور آمدنى كا بڑا ذريعہ مچھلى كاشكار ہوتا ہے،اور چونكہ ہفتہ كے روز مسلسل تعطيل ان كے درميان رائج تھي، لہذا اس روز مچھلياں امن محسوس كرتى تھيں اور وہ گروہ در گروہ پانى كى سطح پر ظاہر ہوتى تھيں ليكن دوسرے دنوں ميں چونكہ ان كا شكار كيا جاتا تھا اس لئے وہ گہرے پانى ميں بھاگ جاتى تھيں _ بہر حال يہ كيفيت چاہے كسى فطرى امر كے نتيجہ ميں ہو يا كوئي خلاف معمول الہى بات ہو اس سے ان لوگوں كى آزمائش مطلوب تھى جيسا كہ قرآن بيان كرتا ہے:

''ہم نے اس طرح ان لوگوں كى آزمائش كى اس چيز كے ذريعے جس كى وہ مخالفت كرتے تھے''_(۲)

جس وقت بنى اسرائيل اس بڑى آزمائش سے دوچار ہوئے جو ان كى زندگى كے ساتھ وابستہ تھى تو وہ تين گروہوں ميں بٹ گئے:

اول:جن كى اكثريت تھي،وہ لوگ تھے جنہوں نے اس فرمان الہى كى مخالفت پر كمر باندھ لي_

دوم:جو حسب معمولى ايك چھوٹى اقليت پر مشتمل تھا وہ گروہ اول كے مقابلے ميں امر بالمعروف اور نہى عن المنكر كى شرعى ذمہ دارى ادا كرتا تھا_

سوم:يہ وہ لوگ تھے جو ساكت اور غير جانبدار تھے_يہ نہ تو گنہگاروں كے ساتھ تھے اور نہ انہيں گناہوں سے منع كرتے تھے_

قرآن ميں اس گروہ نے دوسرے گروہ سے جو گفتگو كى ہے اسے نقل كيا گيا ہے_

____________________

(۱)سورہ اعراف آيت ۱۶۲

(۲)سورہ اعراف آيت ۱۶۳

۴۱۱

اس وقت كو ياد كرو جب ان ميں سے ايك گروہ نے دوسرے سے كہا:

تم ان لوگوں كو كيوں وعظ و نصيحت كرتے ہو جنہيں آخر كار خدا ہلاك كرنے والا ہے يا درد ناك عذاب ميں مبتلا كرنے والا ہے_

انہوں نے جواب ميں كہا:ہم اس لئے برائي سے منع كرتے ہيں كہ خدا كے سامنے اپنى ذمہ دارى كو ادا كرديں اور وہ اس بارے ہم سے كوئي باز پرس نہ كرے_

علاوہ ازيں شايد ان كے دلوں ميں ہمارى باتو ں كا كوئي اثر بھى ہوجائے اور وہ طغيان و سركشى سے ہاتھ اٹھاليں _(۱)

''آخر كار دنيا پرستى نے ان پر غلبہ كيا_اور انہوں نے خدا كے فرمان كو فراموش كرديا_ اس وقت ہم نے ان لوگوں كو جو لوگوں كو گناہ سے منع كرتے تھے،نجات دي،ليكن گناہگاروں كو ان كے گناہ كے سبب سخت عذاب ميں مبتلا كرديا''_(۲)

اس كے بعد انہيں سزاديئے جانے كى كيفيت اس طرح بيان فرمائي گئي ہے:''انہوں نے اس بات كے مقابلے ميں سركشى كى جس سے انہيں روكا گيا تھا_(لہذا)ہم نے ان سے كہا دھتكارے ہوئے بندروں كى شكل ميں ہوجائو''_(۳)

بنى اسرائيل نے كس طرح گناہ كيا تھا؟

اس امر ميں كہ بنى اسرائيل نے كس وقت قانون شكنى كي،مفسرين كے درميان بحث ہے_بعض روايات سے پتہ چلتا ہے كہ انہوں نے ايك حيلہ اختيار كيا،انہوں نے سمندر كے كنارے بہت سے حوض بنالئے تھے اور انہيں نہروں كے ذريعے سمندر سے ملا ديا تھا_ہفتہ كے روز ان حوضوں كے راستے كھول ديتے تھے پانى كے ساتھ مچھلياں ان حوضوں كے اندر آجاتى تھيں ،غروب كے وقت جب واپس جانا چاہتى تھيں تو

____________________

(۱)سورہ اعراف ۱۶۴

(۲)سورہ اعراف آيت ۱۶۵

(۳)سورہ اعراف آيت ۱۶۶

۴۱۲

واپسى كا راستہ بند كر ديتے تھے،جب اتوار كا دن ہوتا تھا تو پھر ان كا شكار كرليتے تھے اور يہ كہتے تھے كہ ہم نے ہفتہ كے روز شكار تھوڑى كيا ہے بلكہ ہم نے تو صرف انہيں حوضوں ميں محصور كرليا تھا اصل شكار تو اتواركے روز ہوا ہے_

بعض مفسرين نے يہ كہا ہے كہ وہ لوگ ہفتہ كے روز مچھلى پكڑنے كے كانٹوں كو دريا ميں ڈال ديتے تھے اس كے بعد جب اس ميں مچھلياں پھنس جاتى تھيں تو دوسرے روز انہيں نكال ليتے تھے اور اس حيلہ سے ان كا شكار كرتے تھے_

بعض روايات سے يہ بھى پتہ چلتا ہے كہ وہ بغير كسى حيلہ كے بروز شنبہ بڑى ڈھٹائي كے ساتھ شكار ميں مشغول ہوتے تھے_

ممكن ہے كہ يہ تمام روايات صحيح ہوں اس طرح كہ ابتدا ء ميں حوضوں يا قلابوں كے ذريعے حيلے سے شكار كرتے ہوں ،جب اس طرح سے ان كى نظر ميں گناہ كى اہميت كم ہوگئي ہو تو پھر انہوں نے اعلانيہ گناہ كرنا شروع كرديا ہو اور ہفتہ كے دن كى حرمت كو ضائع كركے مچھلى كى تجارت سے مالدار ہوگئے ہوں _(۱)

____________________

(۱)آيا يہ مسخ جسمانى تھايا روحاني؟

''مسخ''يا دوسرے لفظوں ميں ''انسانى شكل كا كسى حيوان كى شكل ميں تبديل ہو جانا''مسلمہ طور پر ايك خلاف معمول اور خلاف طبيعت بات ہے اگر چہ ميوٹيشن( mutation )بعض حيوانات كا دوسرے حيوانات كى شكل اختيار كرلينا نادر طور پر ديكھا گيا ہے اور سائنس ميں تكامل حيات كى بنياد بھى اس بات پر ركھى گئي ہے،ليكن ميوٹيشن( mutation )جہاں ديكھا گيا ہے وہ بہت نادر الموقع موارد ہيں ،وہ بھى حيوانات كى جزوى صفات ميں پايا جاتا ہے نہ كہ ان كى كلى صفات ميں ،بلكہ ايسا ہرگز نہيں ہواكہ ميوٹيشن( mutation )كى وجہ سے ايك حيوان اپنى نوع مثلاً بندر سے بكرى بن گيا ہو_ہاں يہ ممكن ہے كہ كسى حيوان كى خصوصيات دگر گوں ہو جائيں ،پھر يہ كہ يہ تبديلى اس كى نسل ميں پيدا ہوتى ہے نہ كہ جو حيوان پيدا ہوگيا ہے اس كى شكل يك بيك بدل گئي ہو،بنا بريں كسى انسان يا حيوان كى شكل كا بدل كر دوسرى نوع اختيار كرلينا ايك خلاف معمول بات ہے_

ہم نے بارہا يہ بات كہى ہے كہ كچھ مسائل ايسے بھى ہيں جو طبيعت اور عادت كے بر خلاف واقع ہوتے ہيں جو كبھى تو پيغمبروں كے معجزوں كى صورت ميں اور كبھى بعض خارق العادت كاموں كى صورت ميں بعض انسانوں سے ظاہر ہوتے ہيں ، -

۴۱۳

بنى اسرائيل كى گائے كا واقعہ

بنى اسرائيل ميں سے ايك شخص نا معلوم طور پر قتل ہو جاتا ہے _اس كے قاتل كا كسى طرح پتا نہيں چلتا_

تاريخ اور تفاسير سے جو كچھ ظاہر ہوتاہے وہ يہ ہے كہ قتل كا سبب مال تھا يا شادي_

بعض مفسرين كہتے ہيں كہ بنى اسرائيل ميں ايك ثروت مند شخص تھا_ اس كے پاس بے پناہ دولت تھي_اس دولت كا وارث اس كے چچا زاد بھائي كے علاوہ كوئي نہ تھا_وہ دولت مند كافى عمر رسيدہ ہوچكا تھا_اس كے چچازاد بھائي نے بہت انتظار كيا كہ وہ دنيا سے چلا جائے تاكہ اس كا وارث بن سكے ليكن اس كا انتظار بے نتيجہ رہا لہذا اس نے اسے ختم كردينے كا تہيہ كرليا _بالاخر اسے تنہائي ميں پاكر قتل كرديا اور اس كى لاش سڑك پر ركھ دى اور گريہ وزارى كرنے لگا اورحضرت موسى عليہ السلام كى بارگاہ ميں مقدمہ پيش كيا كہ بعض لوگوں نے ميرے چچا زاد بھائي كو قتل كرديا ہے_

۴۱۴

۴۱۵

۴۱۶

۴۱۷

سليمان (ع) اپنى فوجى طاقت كامظاہرہ ديكھتے ہيں

قرآن ميں موجود مختلف قرائن سے مجموعى طور پر نتيجہ نكلتا ہے كہ ايك روز حضرت سليمان(ع) اپنے تيز رفتار گھوڑوں كا معائنہ كررہے تھے كہ جنھيں ميدان جہاد كے لئے تيار كيا گيا تھا_ عصر كا وقت تھا_ مامورين مذكورہ گھوڑوں كے ساتھ مارچ كرتے ہوئے ان كے سامنے سے گزر رہے تھے_

ايك عادل اور با اثر حكمران كے لئے ضرورى ہے كہ اس كے پاس طاقتور فوج ہو اور اس زمانے ميں لشكر كے اہم ترين وسائل ميں سے تيز رفتار گھوڑے تھے لہذا حضرت سليمان(ع) كا مقام ذكر كرنے كے بعد نمونے كے طورپر گھوڑوں كا ذكر آيا ہے_

____________________

۴۱۸
۴۱۹

۴۲۰

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667