قصص القرآن-منتخب از تفسير نمونه

قصص القرآن-منتخب از تفسير نمونه   0%

قصص القرآن-منتخب از تفسير نمونه   مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 667

قصص القرآن-منتخب از تفسير نمونه

مؤلف: حضرت آيت اللہ العظمى مكارم شيرازي
زمرہ جات:

صفحے: 667
مشاہدے: 269156
ڈاؤنلوڈ: 3649

تبصرے:

قصص القرآن-منتخب از تفسير نمونه
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 667 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 269156 / ڈاؤنلوڈ: 3649
سائز سائز سائز
قصص القرآن-منتخب از تفسير نمونه

قصص القرآن-منتخب از تفسير نمونه

مؤلف:
اردو

ميں نے ايك چيزخدا كے بھيجے ہوئے رسول كے آثار ميں سے لى اور پھر ميں نے اسے دور پھينك ديا اور ميرے نفس نے اس بات كو اسى طرح مجھے خوش نما كركے دكھايا''(۱)

اس بارے ميں كہ اس گفتگو سے سامرى كى كيا مراد تھي، مفسرين كے درميان دوتفسيريں مشہور ہيں : پہلى يہ كہ اس كا مقصد يہ تھا كہ فرعون كے لشكر كے دريائے نيل كے پاس آنے كے موقع پر ميں نے جبرئيل كو ايك سوارى پر سوار ديكھا كہ وہ لشكر كو دريا كے خشك شدہ راستوں پر ورود كےلئے تشويق دينے كى خاطران كے آگے آگے چل رہاتھا ميں نے كچھ مٹى ان كے پائوں كے نيچے سے ياان كى سوارى كے پائوں كے نيچے سے اٹھالى اور اسے سنبھال كر ركھا اور اسے سونے كے بچھڑے كے اندارڈالا اور يہ صدا اسى كى بركت سے پيدا ہوئي ہے _

دوسرى تفسير يہ ہے كہ ميں ابتداء ميں ميں خدا كے اس رسول (موسى )كے كچھ آثار پر ايمان لے آيا اس كے بعد مجھے اس ميں كچھ شك اور تردد ہوا لہذا ميں نے اسے دور پھينك ديا اور بت پرستى كے دين كى طرف مائل ہوگيا اور يہ ميرى نظر ميں زيادہ پسنديدہ اورزيبا ہے _

سامرى كى سزا

يہ بات صاف طور پر واضح اور روشن ہے كہ موسى كے سوال كے جواب ميں سامرى كى بات كسى طرح بھى قابل قبول نہيں تھي،لہذا حضرت موسى عليہ السلام نے اس كے مجرم ہونے كا فرمان اسى عدالت ميں صادر كر ديا اور اسے اس گوسالہ پرستى كے بارے ميں تين حكم ديئے_

پہلا حكم يہ كہ اس سے كہا'' تو لوگوں كے درميان سے نكل جا اور كسى كے ساتھ ميل ملاپ نہ كر اور تيرى باقى زندگى ميں تيرا حصہ صرف اتنا ہے كہ جو شخص بھى تيرے قريب آئے گا تو اس سے كہے گا '' مجھ سے مس نہ ہو'' _(۲)

____________________

(۱)سورہ طہ آيت۹۶

(۲)سورہ طہ آيت۹۷

۳۸۱

اس طرح ايك قاطع اور دوٹوك فرمان كے ذريعے سامرى كو معاشرے سے باہر نكال پھينكا اور اسے مطلق گوشہ نشينى ميں ڈال ديا _

بعض مفسرين نے كہا ہے كہ '' مجھ سے مس نہ ہو'' كا جملہ شريعت موسى عليہ السلام كے ايك فوجدارى قانون كى طرف اشارہ ہے كہ جو بعض ايسے افراد كے بارے ميں كہ جو سنگين جرم كے مرتكب ہوتے تھے صادر ہوتا تھا وہ شخص ايك ايسے موجود كى حيثيت سے كہ جو پليد ونجس وناپاك ہو، قرار پاجاتا تھا كوئي اس سے ميل ملاپ نہ كرے اور نہ اسے يہ حق ہوتا تھا وہ كسى سے ميل ملاپ ركھے _

سامرى اس واقعے كے بعد مجبور ہوگيا كہ وہ بنى اسرائيل اور ان كے شہر وديار سے باہر نكل جائے اور بيابانوں ميں جارہے اور يہ اس جاہ طلب انسان كى سزا ہے كہ جو اپنى بدعتوں كے ذريعے چاہتا تھا كہ بڑے بڑے گروہوں كو منحرف كركے اپنے گرد جمع كرے، اسے نا كام ہى ہونا چاہئے يہاں تك كہ ايك بھى شخص اس سے ميل ملاپ نہ ركھے اور اس قسم كے انسان كےلئے يہ مكمل بائيكاٹ موت اور قتل ہونے سے بھى زيادہ سخت ہے كيونكہ وہ ايك پليد اور آلودہ وجود كى صورت ميں ہر جگہ سے راندہ اور دھتكارا ہوا ہوتا ہے _

بعض مفسرين نے يہ بھى كہا ہے كہ سامرى كا بڑا جرم ثابت ہوجانے كے بعد حضرت موسى نے اس كے بارے ميں نفرين كى اور خدا نے اسے ايك پر اسرار بيمارى ميں مبتلا كرديا كہ جب تك وہ زندہ رہا كوئي شخص اسے چھو نہيں سكتا تھا اور اگر كوئي اسے چھوليتا تو وہ بھى بيمارى ميں گرفتار ہوجاتا _يايہ كہ سامرى ايك قسم كى نفسياتى بيمارى ميں جو ہر شخص سے وسواس شديد اور وحشت كى صورت ميں تھى ;گرفتار ہوگيا، اس طرح سے كہ جو شخص بھى اس كے نزديك ہوتا وہ چلاتا كہ'' مجھے مت چھونا''_سامرى كے لئے دوسرى سزا يہ تھى كہ حضرت موسى عليہ السلام نے اسے قيامت ميں ہونے والے عذاب كى بھى خبردى اور كہا تيرے آگے ايك وعدہ گاہ ہے، خدائي دردناك عذاب كا وعدہ كہ جس سے ہرگز نہيں بچ سكے گا ''(۱)

____________________

(۱)سورہ طہ ايت ۹۷

۳۸۲

تيسرا كام يہ تھا كہ جو موسى عليہ السلام نے سامرى سے كہا: '' اپنے اس معبود كو كہ جس كى تو ہميشہ عبادت كرتا تھا ذرا ديكھ اور نگاہ كر ہم اس كو جلا رہے ہيں اور پھر اس كے ذرات كو دريا ميں بكھيرديں گے ''(تاكہ ہميشہ كے لئے نابود ہوجائے)(۱)(۲)

گناہ عظيم اور كم نظير توبہ

حضرت موسى عليہ السلام كے اس شديد رد عمل نے اپنا اثر دكھايا او جن لوگوں نے گوسالہ پر ستى اختيار كى تھى اور ان كى تعداد اكثريت ميں تھى وہ اپنے كام سے پشيمان ہوئے ان كى شايد مذكورہ پشيمانى كافى تھي، قرآن نے يہ اضافہ كيا ہے :باقى رہتا ہے يہ سوال كہ اس '' غضب '' اور ذلت '' سے كيا مراد ہے؟ قرآن نے اس امر كى كوئي توضيح نہيں كى ہے صرف سربستہ كہہ كر بات آگے بڑھادى ہے_

____________________

(۱)سورہ طہ آيت۹۷

(۲)سامرى كون ہے ؟اصل لفظ '' سامري'' عبرانى زبان ميں '' شمرى '' ہے اور چونكہ يہ معمول ہے كہ جب عبرانى زبان كے الفاظ عربى زبان ميں آتے ہيں تو '' شين'' كا لفظ ''سين'' سے بدل جاتا ہے ، جيسا كہ '' موشى '' ''موسي'' سے اور '' يشوع'' '' يسوع'' سے تبديل ہوجاتاہے اس بناء پر سامرى بھى '' شمرون '' كى طرف منسوب تھا' اور'' شمرون'' '' يشاكر'' كا بيٹا تھا، جو يعقوب كى چوتھى نسل ہے _اسى سے يہ بات بھى واضح ہوجاتى ہے كہ بعض عيسائيوں كا قرآن پر يہ اعتراض بالكل بے بنيادہے كہ قرآن نے ايك ايسے شخص كو كہ جو موسى عليہ السلام كے زمانے ميں رہتا تھا اور وہ گوسالہ پرستى كا سر پرست بنا تھا ،شہر سامرہ سے منسوب ''سامري''كے طورپر متعارف كرايا ہے، جب كہ شہر سامرہ اس زمانے ميں بالكل موجود ہى نہيں تھا ،كيونكہ جيسا كہ ہم بيان كرچكے ہيں كہ ''سامرى '' شمرون كى طرف منسوب ہے نہ كر سامرہ شہر كى طرف _

بہرحال سامرى ايك خود خواہ اور منحرف شخص ہونے كے باوجود بڑا ہوشيار تھا وہ بڑى جرا ت اور مہارت كے ساتھ بنى اسرائيل كے ضعف كے نكات اور كمزورى كے پہلوئوں سے استفادہ كرتے ہوئے اس قسم كا عظيم فتنہ كھڑا كرنے پرقادر ہوگيا كہ جو ايك قطعى اكثريت كے بت پرستى كى طرف مائل ہونے كا سبب بنے اور جيسا كہ ہم نے ديكھا ہے كہ اس نے اپنى اس خود خواہى اور فتنہ انگيزى كى سزا بھى اسى دنيا ميں ديكھ لى _''

(۳)سورہ اعراف ايت ۱۵۲

۳۸۳

ليكن ممكن ہے اس سے ان بد بختيوں اور پريشانيوں كى جانب اشارہ مقصود ہوجو اس ماجرے كے بعد اور بيت المقدس ميں ان كى حكومت سے پہلے انہيں پيش آئيں _

يا اس سے مراد اللہ كا وہ حكم ہو جو اس گناہ كے بعد انہيں ديا گيا كہ وہ بطور پاداش ايك دوسرے كو قتل كريں _

قرآن اس كے بعد اس گناہ سے توبہ كے سلسلے ميں كہتا ہے:''اور ياد كرو اس وقت كو جب موسى نے اپنى قوم سے كہا :اے قوم تم نے بچھڑے كو منتخب كر كے اپنے اوپر ظلم كيا ہے ،اب جو ايسا ہوگيا ہے تو توبہ كرو اور اپنے پيدا كرنے والے كى طرف پلٹ آئو''_

''تمہارى توبہ اس طرح ہونى چاہيئے كہ تم ايك دوسرے كو قتل كرو_يہ كام تمہارے لئے تمہارے خالق كى بارگاہ ميں بہتر ہے_اس ماجرے كے بعد خدا نے تمہارى توبہ قبول كرلى جو تواب و ررحيم ہے''_(۱)

اس ميں شك نہيں كہ سامرى كے بچھڑے كى پرستش و عبادت كوئي معمولى بات نہ تھى وہ قوم جو خدا كى يہ تمام آيات ديكھ چكى تھى اور اپنے عظيم پيغمبر كے معجزات كا مشاہدہ كرچكى تھى ان سب كو بھول كر پيغمبر كى ايك مختصر سى غيبت ميں اصل توحيد اور آئين خداوندى كو پورے طور پر پائوں تلے رونددے اور بت پرست ہوجائے_

اب اگر يہ بات ان كے دماغ سے ہميشہ كے لئے جڑ سے نہ نكالى جاتى تو خطرناك حالت پيدا ہونے كا انديشہ تھا اور ہر موقعے كے بعدا ور خصوصاًحضرت موسى عليہ السلام كى زندگى كے بعد ممكن تھا ان كى دعوت كى تمام آيات ختم كردى جاتيں اور اس عظيم قوم كى تقدير مكمل طور پر خطرے سے دوچار ہوجاتي_

اكٹھا قتل

يہاں شدت عمل سے كام ليا گيا اور صرف پشيمانى اور زبان سے اظہار توبہ پر ہرگز قناعت نہ كى گئي_يہى وجہ ہے كہ خدا كى طرف سے ايسا سخت حكم صادر ہوا جس كى مثال تمام انبياء كى طويل تاريخ ميں كہيں

____________________

(۱)سورہ بقرہ آيت۵۴

۳۸۴

نہيں ملتى اور وہ يہ كہ توبہ اور توحيد كى طرف باز گشت كے سلسلے ميں گناہگاروں كے كثير گروہ كے لئے اكٹھا قتل كرنے كا حكم ديا گيا_يہ فرمان بھى ايك خاص طريقے سے جارى ہونا چاہيئےھا اور وہ يہ ہوا كہ وہ لوگ خود تلواريں ہاتھ ميں لے كر ايك دوسرے كو قتل كريں كہ ايك اس كا اپنا مارا جانا عذاب ہے اور دوسرا دوستوں اور شناسائوں كا قتل كرنا_

بعض روايات كے مطابق حضرت موسى عليہ السلام نے حكم ديا كہ ايك تاريك رات ميں وہ تمام لوگ جنہوں نے بچھڑے كى عبادت كى تھى غسل كريں كفن پہن ليں اور صفيں باندھ كر ايك دوسرے پرتلوار چلائيں _

ممكن ہے يہ تصور كيا جائے كہ يہ توبہ كيوں اتنى سختى سے انجام پذير ہوئي كيا يہ ممكن نہ تھاكہ خدا ان كى توبہ كو بغير اس خونريزى كے قبول كرليتا_

اس سوال كا جواب گذشتہ گفتگو سے واضح ہوجاتا ہے كيونكہ اصل توحيد سے انحراف اوربت پرستى كى طرف جھكائو كا مسئلہ اتنا سادہ اور آسان نہ تھا كہ اتنى آسانى سے درگذر كرديا جاتا اور وہ بھى ان واضح معجزات اور خدا كى بڑى بڑى نعمتوں كے مشاہدے كے بعد _ در حقيقت اديان آسمانى كے تمام اصولوں كو توحيد اور يگانہ پرستى ميں جمع كيا جاسكتا ہے_اس اصل كا متزلزل ہونا دين كى تمام بنيادوں كے خاتمے كے برابر ہے اگر گائو پرستى كے مسئلے كو آسان سمجھ ليا جاتا تو شايد آنے والے لوگوں كے لئے سنت بن جاتا_

خصوصاً بنى اسرائيل كے لئے جن كے بارے ميں تاريخ شاہد ہے كہ ضدى اور بہانہ باز لوگ تھے_ لہذا چاہئے تھا كہ ان كى ايسى گوشمالى كى جائے كہ اس كى چبھن تمام صديوں اور زمانوں تك باقى رہ جائے اور اس كے بعد كوئي شخص بت پرستى كى فكر ميں نہ پڑے_

خداكى آيات كو مضبوطى سے پكڑ لو

عظيم اسلامى مفسر مرحوم طبرسي،ابن زيد كا قول اس طرح نقل كرتے ہيں :جس وقت حضرت موسى عليہ السلام كوہ طور سے واپس آئے اور اپنے ساتھ توريت لائے تو اپنى قوم كو بتايا كہ ميں آسمانى كتاب لے كر آيا ہوں جو دينى احكام اور حلال و حرام پر مشتمل ہے_ يہ وہ احكام ہيں جنہيں خدا نے تمہارے لئے عملى پروگرام

۳۸۵

قرار ديا ہے_اسے لے كر اس كے احكام پر عمل كرو_ اس بہانے سے كہ يہ ان كے لے مشكل احكام ہيں ،يہودى نافرمانى اور سركشى پر تل گئے_ خدا نے بھى فرشتوں كو مامور كيا كہ وہ كوہ طور كا ايك بہت بڑا ٹكڑا ان كے سروں پر لاكر كھڑا كرديں ،اسى اثناء ميں حضرت موسى عليہ السلام نے انہيں خبردى كہ عہد وپيمان باندھ لو،احكام خداپر عمل كرو،سركشى و بغاوت سے توبہ كرو تو تم سے يہ عذاب ٹل جائے گا ورنہ سب ہلاك ہو جائوگے_

اس پر انہوں نے سر تسليم خم كرديا_ توريت كو قبول كيا اور خدا كے حضور ميں سجدہ كيا_جب كہ ہر لحظہ وہ كوہ طور كے اپنے سروں پر گرنے كے منتظر تھے ليكن بالآخر ان كى توبہ كى وجہ سے عذاب الہى ٹل گيا_

يہ نكتہ ياد ركھناضرورى ہے كہ كوہ طور كے بنى اسرائيل كے سروں پر مسلط ہونے كى كيفيت كے سلسلے ميں مفسرين كى ايك جماعت كا اعتقاد ہے كہ حكم خدا سے كوہ طور اپنى جگہ سے اكھڑ گيا اور سائبان كى طرح ان كے سروں پر مسلط ہوگيا_

جبكہ بعض دوسرے مفسرين يہ كہتے ہيں كہ پہاڑميں سخت قسم كا زلزلہ آيا ،پہار اس طرح لرزنے اور حركت كرنے لگا كہ كسى بھى وقت وہ ان كے سروں پر آگرے گا ليكن خدا كے لطف و كرم سے زلزلہ رك گيا اور پہاڑ اپنى جگہ پر قائم ہوگيا_

يہ احتمال بھى ہو سكتا ہے كہ پہاڑ كا ايك بہت بڑا ٹكڑا زلزلے اور شديد بجلى كے زير اثر اپنى جگہ سے اكھڑ كر ان كے سروں كے اوپر سے بحكم خدا اس طرح گزرا ہو كہ چند لحظے انہوں نے اسے اپنے سروں پر ديكھا ہو اور يہ خيال كيا ہو كہ وہ ان پر گرناچاہتا ہے ليكن يہ عذاب ان سے ٹل گيا اور وہ ٹكڑا كہيں دور جاگرا_(۱)

____________________

(۱)كيا اس عہد وپيمان ميں جبر كا پہلو ہے:اس سوال كے جواب ميں بعض كہتے ہيں كہ ان كے سروں پر پہاڑ كا مسلط ہونا ڈرانے دھمكانے كے طور پر تھا نہ كہ جبر و اضطرار كے طور پر ورنہ جبرى عہد و پيمان كى تو كوئي قدرو قيمت نہيں ہے_ليكن زيادہ صحيح يہى ہے كہ اس ميں كوئي حرج نہيں كہ سركش او رباغى افراد كو تہديد و سزا كے ذريعے حق كے سامنے جھكاديا جائے_يہ تہديد اور سختى جو وقتى طور پر ہے ان كے غرور كو توڑدے گي_ انہيں صحيح غور و فكر پر ابھارے گى اور اس راستے پر چلتے چلتے وہ اپنے ارادہ و اختيار سے اپنى ذمہ دارياں پورى كرنے لگيں گے_بہر حال يہ پيمان زيادہ تر عملى پہلوئوں سے مربوط تھا ورنہ عقائد كو تو جبرو اكراہ سے نہيں بدلا جاسكتا_

۳۸۶

ايئے _واقعہ كى تفصيل قرآن ميں پڑھتے ہيں كہ:''اور (وہ وقت كہ)جب ہم نے تم سے عہد ليا اور كوہ طور كو تمہارے سروں كے اوپر مسلط كرديا اور تمہيں كہا كہ،جو كچھ (آيات و احكام ميں )ہم نے تمہيں ديا ہے اسے مضبوطى سے تھامو اور جو كچھ اس ميں ہے اسے ياد ركھو (اور اس پر عمل كرو)شايد اس طرح تم پرہيزگار ہوجائو''_(۱)

اس كے بعد پھر تم نے روگردانى كى اور اگر تم پر خدا كا فضل و رحمت نہ ہوتا تو تم نقصان اٹھانے والوں ميں سے ہوتے''_(۲)

اس عہد و پيمان ميں يہ چيزيں شامل تھيں :

پروردگار كى توحيد پر ايمان ركھنا،ماں باپ، عزيز و اقارب،يتيم اور حاجتمندو ں سے نيكى كرنا اور خونريزى سے پرہيز كرنا_ يہ كلى طور پر ان صحيح عقائد اور خدائي پروگراموں كے بارے ميں عہد و پيمان تھا جن كا توريت ميں ذكر كيا گيا تھا_

كوہ طور

كوہ طورسے مراد يہاں اسم جنس ہے يا يہ مخصوص پہاڑ ہے_اس سلسلے ميں دو تفسيريں موجودہيں _بعض كہتے ہيں كہ طور اسى مشہور پہاڑ كى طرف اشارہ ہے جہاں حضرت موسى عليہ السلام پر وحى نازل ہوئي_

ليكن بعض كے نزديك يہ احتمال بھى ہے كہ طور لغوى معنى كے لحاظ سے مطلق پہاڑ ہے_ يہ وہى چيز ہے جسے سورہ اعراف كى آيہ۱۷۱ ميں ''جبل''سے تعبير كيا گيا ہے:

توريت كيا ہے

توريت عبرانى زبان كا لفظ ہے، اس كا معنى ہے''شريعت''اور''قانون''_يہ لفظ خداكى طرف سے

____________________

(۱)سورہ بقر آيت ۶۳

(۲)سورہ بقرہ آيت ۶۴

۳۸۷

حضرت موسى عليہ السلام بن عمران پر نازل ہونے والى كتاب كے لئے بولا جاتا ہے_نيز بعض اوقات عہد عتيق كى كتب كے مجموعے كے لئے اور كبھى كبھى توريت كے پانچوں اسفار كے لئے بھى استعمال ہوتا ہے_

اس كى وضاحت يہ ہے كہ يہوديوں كى كتب كے مجموعے كو عہد عتيق كہتے ہيں _اس ميں توريت اور چندديگر كتب شامل ہيں _

توريت كے پانچ حصے ہيں :

جنہيں سفر پيدائش ،سفر خروج،سفر لاويان،سفر اعداد اور سفر تثنيہ كہتے ہيں _ اس كے موضوعات يہ ہيں :

۱)كائنات،انسان اور ديگر مخلوقات كى خلقت_

۲)حضرت موسى (ع) بن عمران،گذشتہ انبياء اور بنى اسرائيل كے حالات وغيرہ_

۳)اس دين كے احكام كى تشريح_

عہد عتيق كى ديگر كتابيں در اصل حضرت موسى عليہ السلام كے بعد كے مو رخين كى تحرير كردہ ہيں _ ان ميں حضرت موسى (ع) بن عمران كے بعد كے نبيوں ،حكمرانوں اور قوموں كے حالات بيان كئے گئے ہيں _

يہ بات بغير كہے واضح ہے كہ توريت كے پانچوں اسفار سے اگرصرف نظر كرليا جائے تو ديگر كتب ميں سے كوئي كتاب بھى آسمانى كتاب نہيں ہے_ خود يہودى بھى اس كا دعوى نہيں كرتے_يہاں تك كہ حضرت داو د(ع) سے منسوب زبور جسے وہ ''مزامير'' كہتے ہيں ،حضرت داو د(ع) كے مناجات اور پندو نصائح كى تشريح ہے_

رہى بات توريت كے پانچوں سفروں كى تو ان ميں ايسے واضح قرائن موجود ہيں جو اس بات كى نشاندہى كرتے ہيں كہ وہ بھى آسمانى كتابيں نہيں ہيں بلكہ وہ تاريخى كتاب ہيں جو حضرت موسى عليہ السلام كے بعد لكھى گئي ہيں كيونكہ ان ميں حضرت موسى عليہ السلام كى وفات،ان كے دفن كى كيفيت اور ان كى وفات كے بعد كے كچھ حالات مذكور ہيں _

خصوصاً سفر تثنيہ كے آخرى حصے ميں يہ بات وضاحت سے ثابت ہوتى ہے كہ يہ كتاب حضرت موسى

۳۸۸

بن عمران عليہ السلام كى وفات سے كافى مدت بعد لكھى گئي ہے_

علاوہ ازيں ان كتب ميں بہت سى خرافات اور ناروا باتيں انبياء و مرسلين سے منسوب كردى گئي ہيں _بعض بچگانہ باتيں بھى ہيں جو ان كے خود ساختہ اور جعلى ہونے پر گواہ ہيں نيز بعض تاريخى شواہد بھى نشاندہى كرتے ہيں كہ اصلى توريت غائب ہوگئي اور پھر حضرت موسى (ع) بن عمران عليہ السلام كے پيروكاروں نے يہ كتابيں تحرير كيں _

۳۸۹

۵ انبياء عليهم السلام کے واقعات

حضرت خضر عليہ السلام

ابى بن كعب نے ابن عباس كى وساطت سے پيغمبر اكرم(ص) كى ايك حديث اس طرح نقل كى ہے:

''ايك دن موسى عليہ السلام بنى اسرائيل سے خطاب كررہے تھے_ كسى نے آپ(ع) سے پوچھا روئے زمين پر سب سے زيادہ علم كون ركھتا ہے_تو موسى عليہ السلام نے كہا مجھے اپنے آپ سے بڑھ كر كسى كے عالم ہونے كا علم نہيں _ اس وقت موسى عليہ السلام كو وحى ہوئي كہ ہمارا ايك بندہ مجمع البحرين ميں ہے كہ جو تجھ سے زيادہ عالم ہے_ اس قت موسى عليہ السلام نے درخواست كى كہ ميں اس عالم كى زيارت كرنا چاہتا ہوں _اس پر اللہ نے انہيں ان سے ملاقات كى راہ بتائي''_

يہ درحقيقت حضرت موسى عليہ السلام كو تنبيہ تھى كہ اپنے تمام تر علم و فضل كے باوجود اپنے آپ كو افضل ترين نہ سمجھيں _(۱)

____________________

(۱)ليكن يہاں يہ سوال سامنے آتا ہے كہ كيا ايك اولوالعزم صاحب رسالت و شريعت شخص كو اپنے زمانے كا سب سے بڑا عالم نہيں ہونا چاہئے؟ اس سوال كے جواب ميں ہم كہيں گے كہ اپنى ماموريت كى قلمرو ميں نظام تشريع ميں اسے سب سے بڑاعالم ہونا چاہيئےور حضرت موسى عليہ السلام اسى طرح تھے ليكن ان كى ماموريت كى قلمرو ان كے عالم دوست كى قلمرو سے الگ تھي_ ان كے عالم دوست كى ماموريت كا تعلق عالم بشريت سے نہ تھا_ دوسرے لفظوں ميں وہ عالم ايسے اسرار سے آگاہ تھے كہ جو دعوت نبوت كى بنياد نہ تھے. -->

۳۹۰

حضرت موسى عليہ السلام اور خضر عليہ السلام كہ جو اس زمانے كے بڑے عالم تھے ان كا واقعہ بھى عجيب ہے_يہ واقعہ نشاندہى كرتا ہے كہ حضرت موسى عليہ السلام جيسے اولو العزم پيغمبر كہ جو اپنے ماحول كے آگاہ ترين اور عالم ترين فرد تھے،بعض پہلوئوں سے ان كا علم بھى محدود تھا لہذا وہ استاد كى تلاش ميں نكلے تاكہ اس سے درس ليں ،استاد نے بھى ايسے درس ديئے كہ جن ميں سے ہر ايك دوسرے سے عجيب تر ہے_ اس داستان ميں بہت سے اہم نكات پوشيد ہ ہيں _

حضرت موسى ، جناب خضر كى تلاش ميں

حضرت موسى عليہ السلام كو كسى نہايت اہم چيزى كى تلاش تھي_وہ اس كى جستجو ميں دربدر پھر رہے تھے_وہ عزم بالجزم اور پختہ ارادے سے اسے ڈھونڈ رہے تھے_وہ ارادہ كئے ہوئے تھے كہ جب تك اپنا مقصود نہ پاليں چين سے نہيں بيٹھيں گے_

حضرت موسى عليہ السلام جس كى تلاش پر مامور تھے اس كا آپ(ع) كى زندگى پر بہت گہرا اثر ہوا اور اس نے آپ(ع) كى زندگى كا نيا باب كھول ديا_جى ہاں وہ ايك مرد عالم و دانشمند كى جستجو ميں تھے_ايسا عالم كہ جو حضرت موسى عليہ السلام كى آنكھوں كے سامنے سے بھى حجاب ہٹا سكتا تھا اور انہيں نئے حقائق سے روشناس كرواسكتا تھا اور ان كے لئے علوم و دانش كے تازہ باب كھول سكتا تھا_

اتفاقاً ايك حديث كہ جو امام صادق عليہ السلام سے منقول ہے اسميں صراحت كے ساتھ بتايا گيا ہے كہ حضرت موسى (ع) حضرت خضر(ع) سے زيادہ عالم تھے يعنى علم شريعت ميں _

شايد اس سوال كا جواب نہ پانے كى وجہ سے اور نسيان سے مربوط سوال كا جواب نہ پانے كے سبب بعض نے ان آيات ميں جن موسى عليہ السلام كا ذكر ہے اسے موسى بن عمران تسليم كرنے سے انكار كرديا ہے_

ايك حديث كہ جو حضرت على بن موسى رضا عليہ السلام سے نقل ہوئي ہے اس سے بھى يہ نكتہ معلوم ہوتا ہے كہ ان دونوں بزرگوں كا دائرہ كار اور قلمرو ايك دوسرے سے مختلف تھى اور ہر ايك دوسرے سے اپنے كام ميں زيادہ عالم تھا_

۳۹۱

ہم اس سلسلے ميں جلد پڑھيں گے كہ اس عالم بزرگ كى جگہ معلوم كرنے كے لئے حضرت موسى عليہ السلام كے پاس ايك نشانى تھى اور وہ اس نشانى كے مطابق ہى چل رہے تھے_

قرآن كہتا ہے :وہ وقت ياد كرو جب موسى نے اپنے دوست اور ساتھى جوان سے كہاكہ ميں تو كوشش جارى ركھوں گا جب تك''مجمع البحرين''تك نہ پہنچ جائوں ،اگر چہ مجھے يہ سفر لمبى مدت تك جارى ركھنا پڑے''_(۱)

مجمع البحرين كا مطلب ہے دو دريائوں كا سنگم_اس سلسلے ميں مفسرين ميں اختلاف ہے كہ ''بحرين''سے يہاں كون سے دو دريا ہيں _اس سلسلے ميں تين مشہور نظريئےيں :

۱_خليج عقبہ اور خليج سويز كے ملنے كى جگہ_ہم جانتے ہيں كہ بحيرہ احمر دو حصوں ميں تقسيم ہوجاتا ہے_ايك حصہ شمال مشرق كى طرف بڑھتا رہتا ہے اور دوسرا شمال مغرب كى طرف پہلے حصے كو خليج عقبہ كہتے ہيں اور دوسرے كو خليج سويز اور يہ دونوں خليجيں جنوب ميں پہنچ كر آپس ميں مل جاتى ہيں اور پھر بحيرہ احمر اپنا سفر جارى ركھتا ہے_

۲_اس سے بحر ہند اور بحيرہ احمر كے ملنے كى طرف اشارہ ہے كہ جو باب المندب پر جاملتے ہيں _

۳_يہ بحيرہ روم اور بحر اطلس كے سنگم كى طرف اشارہ ہے كہ جو شہر طنجہ كے پاس جبل الطارق كا تنگ دہانہ ہے_

تيسرى تفسير تو بہت ہى بعيد نظر آتى ہے كيونكہ حضرت موسى عليہ السلام جہاں رہتے تھے وہاں سے جبل الطارق كا فاصلہ اتنا زيادہ ہے كہ اس زمانے ميں حضرت موسى عليہ السلام اگر عام راستے سے وہاں جاتے تو كئي ماہ لگ جاتے_

دوسرى تفسير ميں جس مقام كى نشاندہى كى گئي ہے اس كا فاصلہ اگر چہ نسبتاًكم بنتا ہے ليكن اپنى حد تك وہ

____________________

(۱)سورہ كہف آيت ۶۰

۳۹۲

بھى زيادہ ہے كيونكہ شام سے جنوبى يمن ميں فاصلہ بھى بہت زيادہ ہے_

پہلا احتمال زيادہ صحيح معلوم ہوتاہے كيونكہ حضرت موسى عليہ السلام جہاں رہتے تھے وہاں سے يعنى شام سے خليج عقبہ تك كوئي زيادہ فاصلہ نہيں ہے_ويسے بھى قرآنى آيات سے معلوم ہوتا ہے كہ حضرت موسى عليہ السلام نے كوئي زيادہ سفر طے نہيں كيا تھا اگر چہ مقصد تك پہنچنے كے لئے بہت زيادہ سفركے لئے بھى تيار تھے_

عرصہ دراز تك جناب خضر عليہ السلام كى تلاش

بعض لوگوں نے جناب موسى عليہ السلام كے اس قول كے ،كہ انھوں نے كہا:''ميں اس وقت تك كوشش كروں گا بج تك اپنا مقصد حاصل نہ كرلوں ''كے بارے ميں كہا ہے :كہ لفظ''حقب'' ، ''عرصہ دراز''كے معنى ميں ہے_ بعض نے اس كى ۸۰ /سال سے تفسير كى ہے_ اس لفظ سے حضرت موسى عليہ السلام كا مقصد يہ تھا كہ مجھے جس كى تلاش ہے ميں اسے ڈھونڈھ كے رہوں گا چاہے اس مقصد كے لئے مجھے سالہا سال تك سفر جارى ركھنا پڑے_

''بہر حال جس وقت وہ ان دو دريائوں كے سنگم پر جاپہنچے تو ايك مچھلى كہ جو ان كے پاس تھى اسے بھول گئے''_(۱)

ليكن تعجب كى بات يہ ہے كہ'' مچھلى نے دريا ميں اپنى راہ لى اور چلتى بني''_(۲)

يہ مچھلى جو ظاہراً ان كے پا س غذا كے طور پر تھي_ كيا بھونى ہوئي تھى اور اسے نمك لگا ہوا تھا يا يہ تازہ مچھلى تھى كہ جو معجزانہ طور پر زندہ ہوكر اچھل كر پانى ميں جاكر تيرنے لگي_

اس سلسلے ميں مفسرين ميں اختلاف ہے_بعض كتب تفاسير ميں يہ بھى ہے كہ اس علاقے ميں آب حيات كا چشمہ تھا_ اس كے كچھ قطرات مچھلى پر پڑگئے جس سے مچھلى زندہ ہوگئي_

____________________

(۱)سورہ كہف آيت۶۱

(۲)سورہ كہف آيت ۶۱

۳۹۳

ليكن يہ احتمال بھى ہے كہ مچھلى ابھى پورى طرح مرى نہ تھى كيونكہ بعض مچھلياں ايسى بھى ہوتى ہيں جو پانى سے نكلنے كے بعد بہت دير تك نيم جاں صورت ميں رہتى ہيں اور اس مدت ميں پانى ميں گر جائيں تو ان كى معمول كى زندگى پھر شروع ہوجاتى ہے_

آخر كار موسى عليہ السلام اور ان كے ہمراہى دو دريائوں كے سنگم سے آگے نكل گئے تو لمبے سفر كے باعث انہيں خستگى كا احساس ہوا اور بھوك بھى ستانے لگي_ اس وقت موسى عليہ السلام كو ياد آيا كہ غذا تو ہم ہمراہ لائے تھے، لہذا انہوں نے اپنے ہمسفر دوست سے كہا: ہمارا كھانا لايئےس سفرنے تو بہت تھكا ديا ہے_(۱)

اس وقت ''ان كے ہمسفر نے انہيں خبردى كہ آپ كو ياد ہے كہ جب ہم نے اس پتھر كے پاس پناہ لى تھي(اور آرام كيا تھا)تو مجھے مچھلى كے بارے ميں بتانا ياد نہ تھا اور شيطان ہى تھا جس نے يہ بات مجھے بھلادى تھي_ ہوا يہ كہ مچھلى نے بڑے حيران كن طريقے سے دريا كى راہ لى اور پانى ميں چلتى بني''_(۲)

يہ معاملہ چونكہ موسى عليہ السلام كے لئے اس عالم بزرگ كو تلاش كرنے كے لئے نشانى كى حيثيت ركھتا تھا لہذا موسى عليہ السلام نے كہا:''يہى تو ہميں جاہئے تھا اور يہى چيزتو ہم ڈھونڈتے پھرتے تھے''_(۳)

''اور اس وقت وہ تلاش كرتے ہوئے اسى راہ كى طرف پلٹے''_(۴)

عظيم استاد كى زيارت

قرآن اس داستان كو آگے بڑھاتے ہوئے كہتا ہے:جس وقت موسى عليہ السلام اور ان كے ہمسفر دوست ''مجمع البحرين ''اور پتھر كے پاس پلٹ كر آئے تو'' اچانك ہمارے بندوں ميں سے ايك بندے سے ان كى ملاقات ہوگئي_ وہ بندہ كہ جس پر ہم نے اپنى رحمت كى تھى اور جسے ہم نے بہت سے علم و دانش سے نوازا تھا''_(۵)

____________________

(۱)سورہ كہف آيت ۶۲ (۲)سورہ كہف آيت ۶۳ (۳)سورہ كہف آيت۶۴

(۴)سورہ كہف آيت۶۴ (۵)سورہ كہف آيت۶۵

۳۹۴

اس وقت حضرت موسى عليہ السلام نے بڑے ادب سے اس عالم بزرگ كى خدمت ميں عرض كيا: ''كيا مجھے اجازت ہے كہ ميں آپ كى پيروى كروں تاكہ جو علم آپ كو عطا كيا گيا ہے اور جو باعث رشد و صلاح ہے،مجھے بھى تعليم ديں ''_(۱) ليكن بڑے تعجب كى بات ہے كہ اس عالم نے موسى عليہ السلام سے كہا:''تم ميرے ساتھ ہر گز صبر نہ كرسكوگے''_(۲) ساتھ ہى اس كى وجہ اور دليل بھى بيان كردى اور كہا:''تم اس چيز پر كيسے صبر كر سكتے ہو جس كے اسرار سے تم آگا ہى نہيں ركھتے''؟(۳) جيسا كہ ہم بعد ميں ديكھيں گے يہ عالم، اسرار و حوادث كے باطنى علوم پر دسترس ركھتا تھا جبكہ حضرت موسى عليہ السلام نہ باطن پر مامور تھے اور نہ ان كے بارے ميں زيادہ آگاہى ركھتے تھے_

ايسے مواقع پر ايسا بہت ہوتا ہے كہ حوادث كے ظاہر سے ان كا باطن مختلف ہوتا ہے، بعض اوقات كسى واقعے كا ظاہر احمقانہ اور ناپسنديدہ ہوتا ہے جبكہ باطن ميں بہت مقدس منطقى اور سوچا سمجھا ہوتا ہے ايسے مواقع پر جو شخص ظاہر كو ديكھتا ہے وہ اس پر صبرنہيں كرپاتا اور اس پر اعتراض كرتا ہے يا مخالفت كرنے لگتا ہے_

ليكن وہ استاد كہ جو اسرار دروں سے آگاہ ہے اور معاملے كے باطن پر نظر ركھتا ہے وہ بڑے اطمينان اور ٹھنڈے دل سے كام جارى ركھتا ہے اور اعتراض اور واويلاپر كان نہيں دھرتا بلكہ مناسب موقع كے انتظار ميں رہتا ہے تاكہ حقيقت امر بيان كرے جبكہ شاگرد بے تاب رہتا ہے ليكن جب اسرار اس پر كھل جاتے ہيں تو اسے پورى طرح سكون و قرار آجاتا ہے_

حضرت موسى عليہ السلام يہ بات سن كر پريشان ہوئے ،انہيں خوف تھا كہ اس عالم بزرگ كا فيض ان سے منقطع نہ ہو لہذا انہوں نے وعدہ كيا كہ تمام امور پر صبر كريں گے اور كہا انشاء اللہ آپ مجھے صابر پائيں گے اور ميں وعدہ كرتا ہوں كہ كسى كام ميں آپ كى مخالفت نہيں كروں گا_(۴)

____________________

(۱)سورہ كہف آيت۶۶

(۲)سورہ كہف آيت ۶۷

(۳)سورہ كہف آيت۶۸

(۴)سورہ كہف آيت۶۹

۳۹۵

يہ كہہ كر حضرت موسى عليہ السلام نے پھر انتہائي ادب و احترام اور خدا كى مرضى پر اپنے بھروسے كا اظہار كيا_

آپ نے اس عالم سے يہ نہيں كہا كہ ميں صابر ہوں بلكہ كہتے ہيں :انشاء اللہ آپ مجھے صابر پائيں گے_ليكن چونكہ ايسے واقعات پر صبر كرنا كہ جو ظاہراً ناپسنديدہ ہوں اور انسان جن كے اسرار سے آگاہ نہ ہوكوئي آسان كام نہيں اس لئے اس عالم نے حضرت موسى عليہ السلام كو خبردار كرتے ہوئے پھر عہد ليا ''اور كہا اچھا اگر تم ميرے پيچھے پيچھے آنا چاہتے ہو تو ديكھو خاموش رہنا اور كسى معاملے پر سوال نہ كرنا جب تك كہ مناسب موقع پر ميں خود تم سے بيان نہ كردوں ''_(۱)

جناب موسى (ع) نے پھر دوبارہ وعدہ كيا اور استادكے ساتھ ہولئے_

خدائي معلم اور يہ ناپسند يدہ كام ؟

''موسى (ع) اس عالم ربانى كے ساتھ چل پڑے _چلتے چلتے ايك كشتى تك پہنچے اور اس ميں سوار ہو گئے''_(۲)

يہاں سے ہم ديكھتے ہيں كہ اب قرآن تثنيہ كى ضمير استعمال كرنے لگا ہے_ يہ اشارہ ہے حضرت موسى عليہ السلام اور اس عالم بزرگوار كى طرف_ يہ امر نشاندہى كرتا ہے كہ حضرت موسى عليہ السلام كے ہمسفر يوشع(ع) كى ماموريت اس مقام پر ختم ہوگئي تھى اور وہ يہاں سے پلٹ گئے تھے يا پھر يہ ہے كہ وہ موجود تو تھے ليكن اس معاملے سے ان كا تعلق نہيں تھا لہذا انہيں يہاں نظرا نداز كرديا گيا ہے_ ليكن پہلا احتمال زيادہ قوى معلوم ہوتا ہے_

''بہرحال وہ دونوں كشتى پر سوار ہوگئے تو اس عالم نے كشتى ميں سوراخ كرديا ''_(۳)

حضرت موسى عليہ السلام چونكہ ايك طرف تو اللہ كے عظيم نبى بھى تھے ،الہذاانہيں لوگوں كى جان ومال

____________________

(۱)سورہ كہف ايت ۷۰

(۲)سورہ كہف ايت۷۱

(۳)سورہ كہف آيت ۷۱

۳۹۶

كا محافظ بھى ہونا چاہئے تھا او رانہيں امر بالمعروف اور نہى عن المنكر بھى كرنا چاہتے تھا اور دوسرى طرف ان كا انسانى ضمير اس بات كى اجازت نہيں ديتا تھا كہ وہ اس قسم كے غلط كام پر خاموشى اختيار كريں لہذا حضرت خضر كے ساتھ ان كا جو معاہدہ ہوا تھا اسے ايك طرف ركھا اور اس كام پر اعتراض كرديا اور ''كہا:

كيا آپ نے اہل كشتى كو غرق كرنے كے لئے اس ميں سوراخ كرديا ہے واقعاً آپ نے كس قدر برا كام انجام ديا ہے ''_(۱)

واقعا ًيہ كام كتنا حيرت انگيز ہے كہ كسى كشتى ميں بہت سے مسافر سوار ہوں اور اس ميں سوراخ كرديا جائے ؟

بعض روايات ميں ہے كہ اہل كشتى جلدہى متوجہ ہوگئے اور انہوں نے اس سوارخ كو كسى چيز كے ذريعے سے پركرديا ليكن اب وہ كشتى صحيح نہيں رہ گئي تھى _

اس وقت اس عالم نے بڑى متانت كے ساتھ موسى پر نگاہ ڈالى اور ''كہا: ميں نے نہيں كہا تھا كہ تم ميرے ساتھ ہرگز صبر نہيں كرسكو گے ''_(۲)

اس واقعے كى اہميت كے پيش نظر حضرت موسى كى عجلت اگرچہ فطرى تھى تاہم وہ پشيمان ہوئے انہيں اپنا معاہدہ ياد آيا لہذا معذرت آميز لہجے ميں استاد سے '' كہا اس بھول پر مجھ سے مواخذہ نہ كيجئے اور اس كام پرمجھ پر سخت گيرى نہ كيجئے ''_(۳)

كيوں اس بچے كو قتل كررہے ہو؟

ان كا دريائي سفر ختم ہوگيا وہ كشتى سے اتر آئے ،''سفر جارى تھا اثنائے راہ ميں انہيں ايك بچہ ملا ليكن اس عالم نے كسى تمہيد كے بغير ہى اس بچے كو قتل كرديا''_(۴)

____________________

(۱)سورہ كہف آيت ۷۱

(۲)سورہ كصف آيت ۷۲

(۳)سورہ كہف آيت ۷۳

(۴)سورہ كصف آيت ۷۴

۳۹۷

حضرت موسى (ع) سے پھر نہ رہاگيا يہ نہايت وحشتناك منظر تھا بلا جواز اور بےوجہ ايك بے گناہ بچے كا قتل ، ايسى چيز نہ تھى كہ حضرت موسى خاموش رہ سكتے آپ غصے سے آگ بگولہ ہوگئے غم واندوہ اور غصے كا يہ عالم تھا كہ آپ نے پھر اپنے معاہدے كو نظر انداز كرتے ہوئے اب كى شديد تراور واضح تر اعتراض كيا يہ واقعہ بھى پہلے واقعے كى نسبت زيادہ وحشتناك تھا وہ كہنے لگے :''كيا آپ نے ايك بے گناہ اور پاك انسان كو قتل كرديا ہے جبكہ اس نے كسى كو قتل نہيں كيا،واقعاً آپ نے كيسا برا كا م انجام دياہے_''(۱)(۲) اس عالم بزرگوار نے پھر اپنے خاص اطمينان اور نرم لہجے ميں وہى جملہ دہرايا : '' كہا: ميں نے تم سے نہ كہا تھا كہ تھا تم ہرگز ميرے ساتھ صبر نہ كر سكو گے''_(۳)

حضرت موسى عليہ السلام كو اپنا عہد ياد آگيا انہيں بہت احساس شرمندگى ہورہا تھا كيونكہ دومرتبہ يہ پيمان ٹوٹ چكا تھا چاہے بھول كرہى ايسا ہوا ہو انہيں خيال آرہا تھا كہ ہوسكتا ہے استاد كى بات صحيح ہو كہ انہوں نے تو پہلے ہى واضح كرديا تھا كہ ابتدا ميں ان كے كام موسى كے لئے ناقابل برداشت ہوں گے_

موسى (ع) نے پھر عذر خواہى كے لہجے ميں كہا كہ اس دفعہ بھى مجھ سے صرف نظر كيجئے اور ميرى بھول چوك كو نظر انداز كرديجئے اور'' اگر اس كے بعد ميں آپ كے كاموں كے بارے ميں وضاحت كا تقاضا كروں (اور آپ پر اعتراض كروں ) تو پھربے شك مجھے ساتھ نہ ركھيں اور اس صورت ميں آپ ميرى استادى سے معذور ہوں گے ''(۴)

____________________

(۱)سورہ كہف آيت ۷۴

(۲)لفظ'' غلام'' جو ان نورس كے معنى ميں ہے وہ حد بلوغ كو پہنچا ہو يا نہ پہنچا ہو _

جس نوجوان كو اس عالم نے قتل كيا تھا وہ حد بلوغ كو پہنچا ہوا تھا يا نہيں اس سلسلے ميں مفسرين ميں اختلاف ہے _

بعض نے '' نفسا زكية'' (پاك اور بے گناہ انسان ) كى تعبير كو اس بات كى دليل بنايا ہے كہ وہ بالغ تھا كيونكہ قصاص صرف بالغ سے ليا جاسكتا ہے _البتہ آيت كو مجموعى طور پر ديكھا جائے تو اس سلسلے ميں حتمى فيصلہ نہيں كيا جاسكتا _

(۳)سورہ كہف آيت ۷۵

(۴)سورہ كہف آيت۷۶

۳۹۸

يہ جملہ حضرت موسى (ع) كى انصاف پسندي، بلند نظرى اور اعلى ظرفى كى حكايت كرتا ہے اور نشاندہى كرتا ہے كہ وہ ايك حقيقت كے سامنے سرجھكادينے والے تھے اگرچہ وہ كتنى ہى تلخ كيوں نہ ہو _

دوسرے لفظوں ميں تين بار كى آزمائش سے يہ واضح ہوجائے گا كہ ان دونوں كى ماموريت الگ الگ ہے اور اس كا نباہ نہيں ہوسكتا _

اپنے كام كى مزدورى لے لو

اس گفتگو اور نئے معاہدے كے بعد ''موسى (ع) اپنے استاد كے ساتھ چل پڑے ،چلتے چلتے وہ ايك بستى ميں پہنچے انہوں نے اس بستى والوں سے كھانا مانگا ليكن بستى والوں نے انہيں مہمان بنانے سے انكار كرديا ''(۱)

اس ميں شك نہيں كہ حضرت موسى اور حضرت خضر(ع) كوئي ايسے افراد نہ تھے كہ اس بستى كے لوگوں پر بوجھ بننا چاہتے تھے،ايسا معلوم ہوتا ہے كہ وہ اپنا زاد وتوشہ راستے ميں كہيں دے بيٹھے تھے يا پھر ختم ہوگيا تھا لہذاوہ چاہتے تھے كہ بستى والوں كے مہمان ہوجائيں (يہ احتمال بھى ہے كہ اس عالم نے جان بوجھ كرلوگوں سے ايسا كہا ہوتاكہ حضرت موسى كو ايك اور درس ديا جاسكے)_(۲)

بہر حال مفسرين ميں اس سلسلے ميں اختلاف ہے كہ يہ شہر كو نسا تھا اور كہاں واقع تھا ابن عباس سے منقول ہے كہ يہ شہر ''انطاكيہ'' تھا_

بعض نے كہا ہے كہ يہاں '' ايلہ '' شہر مراد ہے كہ جو آج كل '' ايلات''نام كى مشہور بندرگاہ ہے اور بحيرہ احمر كے كنارے خليج عقبہ كے نزديك واقع ہے _

____________________

(۱)سورہ كہف آيت۷۷

(۲)اس نكتے كى ياد دہانى بھى ضرورى ہے كہ '' قرية'' قرآن كى زبان ميں ايك عام مفہوم ركھتا ہے اور ہر قسم كے شہر اور آبادى كے معنى ميں آيا ہے ليكن يہاں خصوصيت سے شہر مراد ہے كيونكہ چند آيات كے بعد اس كے لئے لفظ '' المدينہ''(يعنى شہر) آياہے _

۳۹۹

بعض دوسروں كا نظريہ ہے كہ اس سے '' ناصرہ''شہر مراد ہے كہ كہ جو فلسطين كے شمال ميں واقع ہے اور حضرت عيسى كى جائے پيدائش ہے_

مرحوم طبرسى نے اس مقام پر حضرت امام جعفرصادق عليہ السلام كى ايك حديث نقل كى ہے كہ جو آخرى احتمال كى تائيد كرتى ہے _

مجمع الجرين كے بارے ميں ہم كہہ چكے ہيں كہ اس سے مراد'' خليج عقبہ'' اور'' خليج سويز ''كا سنگم ہے اس سے واضح ہوتا ہے كہ شہر ناصرہ اور بندرگاہ ايلہ اس جگہ سے انطاكيہ كى نسبت زيادہ قريب ہيں _

بہرصورت جو كچھ حضرت موسى عليہ السلام اور ان كے استاد كے ساتھ اس شہر ميں پيش آيا اس سے معلوم ہوتا ہے كہ اس شہر كے رہنے والے بہت بخيل اور كم ظرف لوگ تھے پيغمبر اكرم (ص) سے اس شہر والو ں كے بارے ميں ايك حديث منقول ہے كہ آپ نے فرمايا :''وہ كمينے اور كم ظرف لوگ تھے ''_

قرآن كہتا ہے :'' اس كے باوجود انہوں نے اس شہر ميں ايك گرتى ہوئي ديوار ديكھى تو اس عالم نے اس كى مرمت شروع كردى اور اسے كھڑا كرديا _''(۱) اور اس كو ويرانى سے بچاليا_

حضرت موسى اس وقت تھكے ہوئے تھے انہيں بھوك بھى ستارہى تھي، كوفت الگ تھى وہ محسوس كررہے تھے اس آبادى كے نا سمجھ لوگوں نے ان كى اور ان كے استاد كى ہتك كى ہے دوسرى طرف وہ ديكھے رہے تھے ، اس بے احترامى كے باوجود حضرت خضر اس گرتى ہوئي ديوار كى تعمير ميں لگے ہوئے تھے جيسے ان كے سلوك كى مزدورى دے رہے ہوں وہ سوچ رہے تھے كہ كم از كم استاد يہ كام اجرت لے كر ہى كرتے تاكہ كھانا تو فراہم ہوجاتا _

لہذا وہ اپنے معاہدے كو پھر بھول گئے انہوں نے پھر اعتراض كيا ليكن اب لہجہ پہلے كى نسبت ملائم اور نرم تھا '' كہنے لگے: اس كام كى كچھ اجرت ہى لے ليتے ''(۲)

____________________

(۱)سورہ كہف آيت۷۷

(۲)سورہ كہف آيت۷۷

۴۰۰