قصص القرآن-منتخب از تفسير نمونه

قصص القرآن-منتخب از تفسير نمونه   8%

قصص القرآن-منتخب از تفسير نمونه   مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 667

قصص القرآن-منتخب از تفسير نمونه
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 667 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 335800 / ڈاؤنلوڈ: 6152
سائز سائز سائز
قصص القرآن-منتخب از تفسير نمونه

قصص القرآن-منتخب از تفسير نمونه

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

چھٹا جعلی صحابی عفیف بن منذر تمیمی

عفیف اور قبائل تمیم کے ارتداد کا موضوع

ابن حجر نے اپنی کتاب ''اصابہ'' میں سیف کی کتاب ''فتوح '' سے نقل کرتے ہوئے عفیف بن منذر تمیمی کے حالات میں یوں لکھا ہے :

سیف نے اپنی کتاب '' فتوح '' میں لکھا ہے کہ عفیف بن منذر ،قبیلہ '' بنی عمر و بن تمیم'' کا ایک فرد ہے ۔

طبری نے بھی عفیف کی داستان کو سیف سے نقل کرکے اپنی کتاب میں درج کیا ہے .من جملہ ''تمیم '' و ''سباح''سے مربوط خبر جسے سیف نے صعب بن بلال سے اور اس نے اپنے باپ سے نقل کیا ہے کو یوں بیان کیا ہے:

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رحلت کے بعد قبائل تمیم کے افراد میں اختلاف و افتراق پیدا ہوا۔ ان میں سے کچھ لوگ اسلام پر باقی اور ثابت قدم رہے اور بعض نے مرتد ہوکر اسلام سے منہ موڑلیا۔ یہ امر قبائل تمیم کے آپسی جھگڑے کا سبب بنا۔ عفیف بن منذر تمیمی نے اس واقعہ کے بارے میں یوں کہا ہے:

خبر پھیلنے کے باوجود تمھیں خبر نہ ہوئی کہ خاندان تمیم کے بزرگوں پر کیا گزری؟

تمیم کے بعض سردار جو عظیم افراد اور شہرت کے مالک تھے ، ایک دوسرے کے ساتھ جنگ پر اتر آئے.

۱۰۱

بے پناہوں کو پناہ دینے والے ہی بیچارے ہوکر بیابانوں میں دربدر ہوگئے۔

زمین سے پانی کا ابلنا

طبری ، بحرین کے باشندوں کے مرتد ہونے کی خبر کو مذکورہ طریقے یعنی ''صعب بن عطیہ'' سے نقل کرکے لکھتا ہے:

ابوبکر نے ''علاء بن حضرمی'' کو سرزمین تمیم سے گزر کر بحرین کے لوگوں سے نبرد آزمائی کے لئے بھیجا۔ علاء اپنے سپاہیوں کے ہمراہ تمیم کی زمینوں کے ''دھنا '' نامی ریگستان جہاں پر ریت سات ٹیلے ہیں سے گزرا۔

جب علاء اپنے سپاہیوں کے ہمراہ اس تپتے اور خشک ریگستان کے بیچ میں پہنچا تو اس نے رات کو وہاں پر ٹھہرنے کا حکم دیا اور اپنے دوستوں کے ساتھ پڑاؤڈالا لیکن اسی حالت میں اچانک ان کے اونٹ رم کر گئے اور تمام بار اور سازو سامان لے کر بھاگ گئے ۔ اس طرح علاء اور اس کے سپاہیوں کو اس تپتے اور خشک ریگستان میں توشہ اور پانی سے محروم ہونا پڑا۔

اس حادثہ کی وجہ سے کہرام مچا ور ان پر ایسا غم و اندوہ چھا گیا کہ خدا کے علاوہ کوئی ان کے حال سے آگاہ نہ تھا ۔ وہ سب مرنے کے لئے آمادہ ہوکر ایک دوسرے کو وصیت کرنے لگے !

علاء کو جب اپنے ساتھیوں کی حالت معلوم ہوئی تو اس نے ان کو اپنے پاس بلاکر کہا: یہ کیسا غم و اندوہ تم لوگوں پر طاری ہوگیا ہے؟

انہوں نے جواب میں کہا؛ یہ ملامت کا موقع نہیں ، تم خود آگاہ ہوکہ ، ابھی صبح ہے اور آفتاب کی تمازت شروع نہیں ہوئی ہے ۔ ہمارے بارے میں اب یہاں پر ایک داستان کے سوا کچھ باقی بچنے والا نہیں ہے!!

علاء نے جواب میں کہا: نہ ڈرو! کیا تم لوگ مسلمان نہیں ہو، کیا تم لوگوں نے خدا کی راہ میں قدم نہیں رکھا ہے، کیاتم لوگ دین خدا کی نصرت کرنے کے لئے نہیں اٹھے ہو؟

۱۰۲

انہوں نے جواب میں کہا: جی ہاں ! ایسا ہی ہے۔

علاء نے کہا: اب جب کہ ایسا ہے تو میں تمھیں نوید دیتا ہوں کہ ہمت کرو، خدا کی قسم ! پروردگار تم جیسوں کو ہرگز اس حالت میں نہیں رکھے گا.

صبح ہوئی ، علاء کے منادی نے صبح کی اذان دی۔

راوی کہتا ہے :

علاء نے ہمارے ساتھ نماز پڑھی ، جب کہ ہم میں بعض لوگوں نے پانی نہ ہونے کی وجہ سے مجبور ہو کر تیمم کیا تھا اور بعض دیگر رات کے ہی وضو پر باقی تھے۔

علاء نماز پڑھنے کے بعد دو زانو بیٹھا ، لوگوں نے بھی اس کی پیروی کی، علاء نے دعا کے لئے اپنے ہاتھ اٹھائے ، سپاہیوں نے بھی ایسا ہی کرتے ہوئے دعا کے لئے ہاتھ بلند کئے۔

یہ حالت جاری تھی کہ سورج کی کرنوں کے سبب دور سے ایک سراب نظر آیا۔ علاء نے کہا: ایک آدمی جائے اور ہمارے لئے خبر لائے۔

سپاہیوں میں سے ایک آدمی اٹھ کے سراب کی طرف گیااور تھوڑی دیر کے بعد واپس آکر بولا: سراب ہے اور پانی کی کوئی خبر نہیں ہے۔

علاء نے پھر سے دعا کی۔ پھر ایک سراب نمایاں ہوا۔ پہلے کی طرح پھر سے ایک آدمی جا کرنا اُمیدی کے ساتھ واپس لوٹا۔

علاء نے دعاجاری رکھی ۔ تیسری بار پانی کی لہر یں دکھائی دینے لگیں اس دفعہ جانے والا آدمی پانی کی خوشخبری لے کر آیا!!

سب پانی کی طر ف دوڑ پڑے ، ہم نے پانی پیا نہائے دھوئے۔

ابھی پوری طرح سورج نہیں چڑھا تھا کہ صحرا میں ہمارے اونٹ نظر آئے اور دوڑتے ہوئے آکر ہمارے سامنے کھڑے ہو گئے ہم سے ہر ایک نے اپنے اونٹ کو صحیح و سالم بار کے سمیت حاصل کیا!!

۱۰۳

اس حیر ت انگیز واقعہ کے بعد ہم نے اپنے اونٹوں کو بھی پانی پلا یاا ور مشکیں پانی سے بھر کے وہاں سے روانہ ہوگئے۔

راوی آگے ،کہتا ہے:

''ابو ہریرہ '' سفر میں میرے ساتھ تھا، جب ہم تھوڑا آگے چلے اور پانی کا تالاب ہماری نظروں سے اوجھل ہوگیا تو ابوہریرہ نے مجھ سے مخاطب ہو کر پوچھا : کیا تم اس سرزمین اور تالاب کو پہنچانتے ہو؟

میں نے کہا: اس جگہ سے میرے برابر کوئی اور آشنا نہیں ہے ۔

ابو ہریرہ نے کہا : جب ایسا ہے تو آؤمیرے ساتھ ہم تالاب کے پاس جاتے ہیں

میں ابو ہریرہ کے ساتھ تالاب کی طرف لوٹا ، لیکن انتہائی حیرت کے عالم میں نہ ہم نے وہاں پر پانی دیکھا اور نہ تالاب کا کوئی نام و نشان تھا۔

میں نے ابو ہریرہ سے کہا: خدا کی قسم یہاں پر پانی کا نام و نشان موجود نہ ہونے کے باوجود یہ اسی تالاب کی جگہ ہے ۔ اگر چہ اس سے پہلے بھی یہاں پر کوئی تالاب نہ تھا۔

اُس وقت ہماری نظر پانی سے بھر ے ایک لوٹے پر پڑی جو زمین کے ایک کونے میں پڑا تھا۔

ابو ہریرہ نے کہا: صحیح ہے ، اور خدا کی قسم یہ وہی تالاب والی جگہ ہے۔میں نے خاص طور پر اپنے لوٹے کو پانی سے بھر کے تالاب کے کنار ے پر رکھ دیا تھا تا کہ تالاب کی جگہ کو تلاش کرنے میں مشکل پیش نہ آئے!!

راوی کہتا ہے:

ہم نے خدا کا شکر ادا کیا اور اپنے ساتھیوں کی طرف واپس پلٹ گئے۔

۱۰۴

سیف اس داستان کے ضمن میں کہتا ہے:

علاء اپنے سپاہیوں کے ساتھ چلتے ہوئے ''ہجر'' نام کی جگہ پر پہنچا۔ دونوں لشکروں نے ایکدوسرے کے مقابل مورچے سنھبالے۔ مشرکین کی فوج کی کمانڈ ''شریح بن ضیعہ'' نے سنھبالی تھی، وہ قبیلہ ''قیس'' کا سردا ر تھا اور اس کا اصلی نام ''حطم'' تھا۔ دشمن کے سپاہی آزادی کے ساتھ نقل و حرکت کرتے تھے۔ لیکن رات کو اسلام کے سپاہیوں کو اطلاع ملی کہ مشرکین شراب پی کر مست ہوگئے ہیں اوراپنے آپ سے بے خبر پڑے ہیں ۔ انھوں نے اس فرصت کو غنیمت سمجھ کر ان پر اچانک تلواروں سے حملہ کردیا ۔اسی حالت میں خاندان بنی عمرو تمیم کے ایک دلاور ''عفیف بن منذر'' نے تلوار کی ایک ضرب سے ''حطم'' کی ایک ٹانک کاٹ کر اسے چھوڑ دیا تا کہ وہ اسی درد کے مارے جان دیدے۔

اس برق رفتار حملے میں ''عفیف'' کے چند بھائی اور رشتہ داروں نے بھی اس کے ساتھ جنگ میں شرکت کی اور اس شب کی گیرودار میں مارے گئے۔اس جنگ میں اسلام کے ایک نامور دلاور ''قیس بن عاصم ''نے ''ابجر'' کی ٹانک پر تلوار سے وار کرکے اسے کاٹ دیا ۔ ''عفیف'' نے اس سلسلے میں مندرجہ ذیل اشار کہے ہیں :

اگر ٹوٹی ہوئی ٹانک ٹھیک بھی ہوجائے گی، عر ق النساء تو ہرگز ٹھیک نہیں ہوگا۔ تم لوگوں نے نہیں دیکھا کہ ہم قبیلہ بنی عمرو اور رباب کے بہادروں نے دشمن کے حامیوں کو کیسے تہس نہس کرکے رکھدیا؟!

اسی داستان کو جاری رکھتے ہوئے سیف کہتا ہے:

عفیف بن منذر ''حیرہ'' کے بادشاہ نعمان بن منذر کے بھائی ''غرور بن سواد'' کو اسیر بنا لیا۔ خاندان رباب کا خاندان تمیم کے ساتھ دوستی کا معاہدہ تھا اس طرح سے کہ '' غرور'' کا باپ ان کا بھانجہ محسوب ہوتا تھا ،لہٰذا انھوں نے عفیف کے پاس شفاعت کی تاکہ اسے قتل کرنے سے صرف نظر کرے ۔ ''عفیف''نے دوستوں کی شفاعت قبول کی اور اس طرح '' غرور'' قبیلہ رباب کی پناہ میں آگیا ۔لیکن '' غرور'' کے '' منذربن سوید'' نامی سوتیلے بھائی کا سر تن سے جدا کردیا گیا!

دوسرے دن صبح سویرے علاء نے مال غنیمت تقسیم کرتے ہوئے میدان کار زار کے دلاوروں کو بھی انعامات بانٹے اس طرح عفیف کے حصہ میں بھی انعام کے طور پر ایک لباس آیا،

۱۰۵

اسلام کے سپاہیوں کا پانی پر چلنا!

طبری نے اس افسانہ کے ضمن میں سیف سے نقل کرتے ہوئے لکھا ہے:

مشرکوں نے اپنے منتشر شدہ سپاہیوں کو ''دارین'' کے مقام پر جمع کیا ۔ان کے اور سپاہ اسلام کے درمیان ایک عظیم دریا تھا تیز رفتار کشتیوں کے ذریعہ اسے عبور کرنے میں ایک دن اور ایک رات کا وقت لگتا تھا ،علاء نے جب یہ حالت دیکھی تو اس نے اپنے سپاہیوں کو اپنے پاس بلاکر ان سے خطاب کیا:

خدائے تعالیٰ نے شیاطین کے گروہوں کو تم لوگوں کے لئے ایک جگہ جمع کیاہے اور تم لوگوں کے لئے ان کے ساتھ اس دریا میں جنگ کرنا مقرر فرمایا ہے ۔ریگستان کے تعجب آور معجزہ اور ''دھنا'' کی ریت کی کرامت کے ذریعہ خدا نے تم لوگوں کو اس دریا سے عبور کرنے کی ہمت دی ہے ،اب دشمنوں کی طرف آگے بڑھو اور سب لوگ دریا میں کود پڑو اور کسی خوف کے بغیر ان پر ٹوٹ پڑو ،خدا ئے تعالیٰ ان سب کو ایک جگہ پر تم لوگوں سے چنگل میں پھنسا دے گا! سپاہیوں نے علاء کے جواب میں ایک آواز ہوکر کہا: خدا کی قسم ،ہم قبول کرتے ہیں کہ ''دھنا'' کے معجزہ کے بعد ہم ہر گز خوف اور ڈر سے دو چار نہیں ہوئے ۔

علاء حضرمی نے اپنے سرداروں اور سپاہیوں کا جواب سننے کے بعد دریا کی طرف قدم بڑھا یا اور سپاہی بھی اس کے پیچھے پیچھے چلے اور دریا کے کنارے پر پہنچے ،یہاں پر سوار ،پیادہ ، گھوڑے ، خچر ، اونٹ اورگدھے سب دریا میں اتر گئے ۔

علاء اور اس کے ساتھی پانی پر قدم رکھتے ہوئے یہ دعا پڑھتے جاتے تھے :

اے بخشنے والے مہربان ،اے برد بار سخی ،اے بے مثال بے نیاز ،اے ہمیشہ زندہ ،اے مردوں کو زندہ کرنے والے ،اے حیّ وقیوم ،اے خدا کہ تیرے سوا کوئی پروردگار نہیں ہے اور اے ہمارے پروردگار !!

سیف کہتا ہے :

اسلام کے سپاہی اس دعا کو پڑھنے کے بعد خدا کی مدد سے صحیح و سالم اس وسیع و عریض دریا کو عبور کرگئے ۔اس وسیع اور عمیق دریا کا پانی اسلام کے سپاہیوں اور ان کے مرکبوں کے پیروں کے تلے ایسا تھا گویا وہ مرطوب ریت پر چل رہے تھے اور ان کے پیر تھوڑے سے تر ہوتے تھے کیوں کہ دریا کا پانی ان کے اونٹوں کے سموں تک پہنچتا تھا !

۱۰۶

علاء اور اس کے سپاہیوں نے ایک ایسے دریا کو عبور کیا جس کی مسافت کو ساحل سے ''دارین'' تک طے کرنے کے لئے کشتی کے ذریعہ ایک دن ایک رات سے زائد وقت لگتا تھا ۔وہ اس مسافت کو پانی کے اوپر چل کر طے کر گئے اور اپنے دشمنوں کے پاس پہنچ کر ان پر تلوار سے حملہ آور ہوئے اور ان کے ایسے کشتوں کے پشتے لگادئے کہ ان میں سے ایک مرد بھی زندہ نہ بچ سکا !

اس حملہ اور قتل عام کے بعد ان کے بچوں اور عورتوں کو اسیر بنایا گیا اور بہت سا مال و متاع غنیمت کے طور پر حاصل کیا گیا ۔اس کے بعد مال غنیمت لے کر وہ لوگ اسی راہ سے واپس ہوگئے ،جہاں سے آئے تھے ۔

عفیف بن منذر نے اس موضوع کی طرف اشارہ کرتے ہوئے یہ اشعار کہے ہیں :

کیا تم لوگوں نے نہیں دیکھا کہ خدائے تعالیٰ نے ہمارے لئے دریا کو کیسے مطیع اور آرام کر دیا اور کفار پر بڑی مصیبت نازل کی ۔

ہم نے بھی اسی خدا سے دعا مانگی جس نے موسیٰ کے لئے دریا میں شگاف ڈال دیا تھا اور اس نے بھی ہمارے لئے حیرت انگیز راہ مقرر فرمادی ۔

سیف اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے کہتا ہے :

''ہجر '' نامی جگہ کا رہنے والا ایک راہب جو مسلمانوں کا ہمسفر تھا،یہ سب معجزہ اور کرامتیں دیکھ کر مسلمان ہو گیا ،جب اس سے اسلام لانے کا سبب پوچھا گیا تو اس نے جواب میں کہا:

تین چیزوں نے مجھے اسلام قبول کرنے کی ترغیب دی اور مجھے ڈر لگا کہ اگر کفر پر باقی رہوں تو خدائے تعالیٰ مجھے مسخ کر ڈالے گا!

اول صحرا کے قلب اور '' دھنا'' کے ریگستان میں آب زلال کا پیدا ہونا ۔دوسرا اسلام کے سپاہیوں کے پیروں کے نیچے دریا کے پانی کا سخت ہو جانا اور تیسرا سبب ملائکہ کی وہ دعا ہے جسے میں نے صبح کے وقت فضا میں سنا ہے ۔

راہب سے پوچھا گیا کہ فرشتے اپنی دعا میں کیا کہتے تھے ؟

۱۰۷

راہب نے جواب دیا : فرشتے یہ دعا مانگ رہے تھے :

اے خدا !تو رحمان و رحیم ہے ،تیرے سوا کوئی معبود نہیں ہے ،تو ایسا پروردگار ہے کہ تجھ سے قبل کوئی خدا نہ تھا ،وہ ایسا پائیدار خدا ہے کہ کوئی چیز اس سے پوشیدہ نہیں ہے ،زندہ ہے کہ اس کے لئے ہرگز موت و نابودی نہیں ہے ،آشکار اور مخفیوں کا خدا ،وہ خدا جو ہر روز نئے نئے جلوے دکھاکر دنیا والوں کے سامنے جلوہ افروز ہوتا ہے ،اے خدا تو ہر چیز سے آگاہ ہے !یہی امر تھا کہ میں اس نتیجہ پر پہنچا کہ یہ لوگ حق پر ہیں اور فرشتے ان کی مدد کے لئے مأمور کئے گئے ہیں

سیف اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے کہتا ہے :

اس واقعہ کے بعد رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اصحاب اس تازہ مسلمان راہب کے سامنے بیٹھ کر یہ حیرت انگیز داستان اس سے سنتے تھے ۔

علاء نے مشرکین کے ساتھ اپنی جنگ کی فتحیابی کی اطلاع خلیفہ کو دیتے ہوئے ایک خط میں یوں لکھا :

اما بعد ،خدائے تبارک و تعالیٰ نے '' دھنا '' کے ریگستان میں ہمارے لئے آب زلال کے چشمے جاری کئے اور اپنی قدرت نمائی سے ہماری بصیرت کی آنکھوں کو کھول دیا ۔ہم اس کی حمد و ثنا بجا لاتے ہیں اور اس کی عظمت والی بارگاہ میں سر تسلیم خم کرتے ہیں ،آپ بھی خداسے اس کے سپاہیوں اور اس کے دین کی نصرت کرنے والوں کے لئے مدد کی دعا کیجئے ۔

ابوبکر نے خدا کا شکر ادا کیا اور علاء کے لئے دعا کرتے ہوئے کہا:

جہاں تک معلوم ہوا ہے ،عرب ،سرزمین ''دھنا'' کے بارے میں قصہ سناتے ہوئے کہتے ہیں ،جب لقمان سے اس سر زمین پر پانی کے لئے ایک کنواں کھودنے کی اجازت چاہی گئی تو لقمان نے جواب دیا کہ وہاں پر بالٹی اور رسی ہر گز پانی تک نہیں پہنچیں گے اور پانی پیدا نہیں ہوگا۔

۱۰۸

اب جب کہ ایسی سر زمین سے آب زلال ابل گیا ہے تو یہ بذات خود اس معجزہ اور آیات آسمانی کی عظمت کی علامت ہے جس کی مثال گزشتہ امتوں میں کہیں نہیں ملتی پس خدا وند ا !محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حرمت و عظمت کو محفوظ فرما!

یہ وہ مطالب ہیں جنھیں طبری نے سیف سے نقل کرکے جعلی صحابی عفیف تمیمی کے حالات میں اپنی تاریخ کے اندر درج کیا ہے ،اور ابو الفرج اصفہانی نے بھی اس داستان کو اس سے نقل کرکے اپنی کتاب '' اغانی'' (٤٥٤۔٤٧) میں درج کیا ہے ۔

ابن اثیر ،ابن کثیر اور ابن خلدون نے اسی داستان کو '' حطم و بحرین'' کے ارتداد کی خبر میں طبری سے نقل کرتے ہوئے اپنی تاریخ کی کتابوں میں ثبت کیا ہے ۔

لیکن ابن حجر نے اپنی کتاب '' اصابہ'' میں جہاں وہ عفیف بن منذر تمیمی کی بات کرتا ہے ان مطالب کو سیف کی کتاب '' فتوح '' سے نقل کرکے اس کی صراحت کی ہے ۔

حموی نے بھی لفظ ''دارین '' کے سلسلے میں اپنی کتاب '' معجم البلدان'' میں سیف کی اسی روایت سے استناد کرکے لکھا ہے :

سیف کی کتاب میں آیا ہے کہ مسلمانوں نے پانی کی سطح پر قدم رکھ کر دارین کی طرف قدم بڑھائے

یہاں تک کہ وہ کہتا ہے کہ :

'' عفیف بن منذر'' نے اس واقعہ میں یہ اشعار کہے ہیں :

کیا تم لوگوں نے نہیں دیکھا کہ خدائے تعالیٰ نے ہمارے لئے دریا کو کیسا مطیع بنایا...تاآخر

''عبد المؤمن نے'' بھی لفظ ''دارین'' کے بارے میں اپنے مطالب کو حموی سے نقل کرکے اپنی کتاب '' مرا صد الاطلاع '' میں درج کیا ہے ۔

حمیری نے بھی اپنی کتاب '' الروض المطار'' میں انہی مطالب کو ذکر کیا ہے اور ان کے آخر میں عفیف کے نام کے بجائے یوں لکھا ہے :

اسلامی فوج کے ایک سپاہی نے اس سلسلے میں یہ اشعار کہے ہیں :

یہاں پر اس نے وہی گزشتہ دو شعر ذکر کئے ہیں جو اس سے پہلے بیان ہوئے ،نہ روایت کے ماخذ کی طرف اشارہ کیا ہے اور نہ شاعر کا نام لیا ہے ۔

۱۰۹

بحث کا خلاصہ

جو کچھ اب تک بیان ہو ا ، اس سے صحابی اور تمیمی شاعر''عفیف بن منذر '' کے بارے میں سیف کی روایت کی مندرجہ ذیل تین بنیادی باتوں کی وضاحت ہوتی ہے :

١۔قبیلہ تمیم کے بعض افراد کا مرتد ہونا اور بعض دیگر کا دوسروں کو دخل اندازی کی اجازت دئے بغیر اسلام پر ثابت قدم رہنا،مذکورہ قبیلہ کے افراد کا ایک دوسرے کے خون کا پیاسا ہونا اور اس سلسلے میں ''عفیف بن منذر '' کا اشعار کہنا۔

٢۔''ہجر '' کے مقام پر خاندان'' قیس'' کے سردار ''حطم'' کا مرتد ہونا اور سپاہ اسلام کی اس کے ساتھ جنگ ،عفیف کا تلوار کی ایک کاری ضرب سے '' حطم'' کی ایک ٹانگ کاٹ دینا اور ''حیرہ'' کے بادشاہ '' نعمان منذر'' کے بھائی ''غرور بن سوید'' کو اسیر بنانا اور اس کے سوتیلے بھائی کا سر تن سے جدا کرنا ،اسلامی فوج کے سپہ سالار '' علاء حضرمی ''کا ''عفیف'' کو دیگر سپاہیوں کے ساتھ انعام و اکرام سے نوازنا۔

٣۔'' دھنا '' کے ریگستان میں اسلام کے سپاہیوں کے لئے آب زلال کا چشمہ ابلنا ، جنگ دارین کی طرف جاتے ہوئے دریا کے پانی کی کیفیت بدل کر علاء اور اسلام کے سپاہیوں کے پائوں تلے پانی کا سخت ہو جانا اور اس سلسلے میں عفیف کا اشعار کہنا۔

۱۱۰

سیف کی روایتوں کا دوسروں سے موازنہ

بہتر ہے کہ یہاں پر ہم قبائل تمیم، قیس اور بحرین کے ارتداد کے موضوع کے بارے میں دوسرے مورخین کی زبان سے بھی کچھ سنیں ۔

''بلاذری '' نے اپنی کتاب ''فتوح البلدان'' میں قبیلۂ تمیم کے ارتداد کی خبر دوصفحوں میں بیان کی ہے۔ اس کا خلاصہ حسب ذیل ہے:

''خالدبن ولید '' نے ''طلیحہ'' کی جنگ سے فارغ ہونے کے بعد قبائل تمیم کی سرزمینوں میں '' بعوضہ'' کے مقام پر پڑاؤڈالا۔ یہاں پر اس نے اپنے بعض فوجی دستوں کو مخالفین کی سر کوبی اورا نھیں پکڑلانے کے لئے علاقے کے اطراف میں بھیج دیا۔

ایک گشتی گروہ نے ''مالک نویرہ'' کو سرزمین ''بطاح'' میں پکڑ اور اس کے ہاتھ پاؤں باندھ کر خالد بن ولید کے پاس لایا۔ خالد نے اس کے قتل کا حکم دیا، جس کی داستان مشہور ہے۔

اس کے علاوہ سیف کی دیگر روایتوں اور افسانوں کے بارے میں بلاذری کی کتاب میں کوئی ذکر نہیں ملتا۔

لیکن سرزمین ''ہجر'' میں ''حطم '' کے ارتداد اور ''بحرین'' و ''دارین'' میں ابن منذر کی داستان کے بارے میں بلاذری نے اپنی کتاب ''فتوح البلدان'' میں یوں ذکر کیا ہے:

جب رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا کارگزار ''منذر بن ساوی عبدی'' رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی وفات کے بعد بحرین میں فوت ہوا، تو ایک طرف قبیلہ قیس کے ایک گروہ نے ''حطم'' کی قیادت میں اور دوسری جانب قبیلۂ ''ربیعہ'' کے چند افراد نے ''نعمان بن منذر'' کی اولاد میں سے ''منذر'' نام اور ''غرور'' کے عنوان سے معروف اس کے بیٹے کی قیادت میں بحرین میں بغاوت کی اور مرتد ہوگئے۔ ''حطم'' اپنے قبیلہ کے افراد سمیت ''ربیعہ'' کے ساتھ جاملا۔ علاء حضر می بھی ان سے مقابلہ کرنے کے لئے روانہ ہوا۔

۱۱۱

علاء اور بحرینی مرتدوں کے درمیان گھمسان کی جنگ ہوئی۔ سرانجام باغیوں نے مقابلے کی تاب نہ لاکر قلعہ'' جواثا''میں پناہ لی اور وہاں اپنے آپ کو چھپالیا۔علاء نے رات گئے تک قلعہ کو تہس نہس کرکے رکھدیا ایک شدید جنگ کے بعد قلعہ فتح ہوا اور علاء نے اس پر قبضہ کرلیا۔

یہ جنگ ١٢ھ میں ابوبکر کی خلافت کے دوران واقع ہوئی۔ اسی جنگ کی گیرودار کے دوران، مجوسیوں کی ایک جماعت کے افراد جزیہ دینے سے انکار کرکے بحرین کے ایک قصبہ ''زارہ'' میں قبیلہ تمیم کے بعض افراد سے جاملے تھے۔ علاء نے اپنے سپاہیوں کے ہمرا ہ ان کو بھی اپنے محاصرہ میں لے لیا اوران کا قافیہ تنگ کردیا۔ خلیفہ عمر کی خلافت کے اوائل میں ''زارہ'' کے باشندوں نے اس سے صلح کی اور قصبہ ''زارہ'' کے مال و متاع اور اثاثہ کا ایک تہائی حصہ اسے دیدیا۔علاء نے بھی ان سے محاصرہ اٹھا لیا اور اس سلسلے میں ایک معاہدہ لکھا گیا۔(اس معاہدہ میں ''دارین'' کا کہیں ذکر نہیں آیا ہے۔)

''دارین'' کوفتح کرنے کے لئے علاء حضرمی نے خلافتِ عمر کے زمانے میں اپنے سپاہیوں کے ساتھ ''کرازنکری''نام کے ایک شخص کی راہنمائی میں کم عمق والے حصہ سے خلیج کو عبور کیا اور مشرکین پر تین جانب سے تکبیر بلند کرتے ہوئے حملہ کیا۔ مشرکین نے علاء اور اس کے سپاہیوں کے ساتھ سخت جنگ کی ، لیکن سرانجام شکست کھا کرہتیار ڈالنے پر مجبور ہوئے۔

کلاعی نے بحرین کے باشندوں کے ارتداد اور علاء کی جنگی کاروائیوں کے بارے میں لکھا ہے:

۱۱۲

جب بحرین میں واقع قصبہ ''ہجر'' کے باشندے مرتد ہوگئے تو قبیلۂ عبد القیس کے سردار ''جارود'' نے اپنے خاندان کے افراد کو جمع کرکے ایک دلچسپ اور موثر تقریر کی اور پند و نصائح کے ذریعہ حتی الامکان کوشش کی کہ وہ اسلام سے منہ موڑ کر مرتد نہ ہو ں .اس قبیلہ ''عبد القیس '' کا کوئی بھی فرد مرتدنہیں ہوا۔

لیکن قبیلہ ''بکر بن وائل'' کے لوگ''منذر بن نعمان'' جو ''غرور'' کے نام سے مشہور تھا کو اپنا پادشاہ انتخاب کرنا چاہتے تھے۔ غرور فرار کرکے ایران کے بادشاہ کے ہاں پناہ لے چکاتھا۔ ایران کے بادشاہ کسریٰ نے جب یہ خبر سنی تو ان کے قبیلہ کے سردار اور بزرگوں کو جمع کرکے اسی ''منذر'' جسے ''مخارق'' بھی کہا جاتا تھا کو ان کے اوپر بادشاہ مقرر کیا اور بحرین کی طرف روانہ کیا تا کہ اس جگہ پر قبضہ کرلیں ور بجر بن جابر عجلی(۱) کو حکم دیا کہ فوج کے ایک تجربہ کار سوار دستہ کے ہمراہ فوراً ابن نعمان کی مدد کے لئے جائے۔

''منذر'' اپنی ماتحت فوج کے ساتھ روانہ ہوا اور بحرین میں ''شقر '' کے مقام پر پڑاؤڈالا۔ جو بحرین میں ایک مضبوط قلعہ تھا۔

جب یہ خبر خلیفہ ابوبکر کو پہنچی تو اس نے '' علاء حضرمی '' کو سولہ سواروں کے ہمراہ منذر کی سرکوبی کے لئے مامور کیا اور اسے حکم دیا کہ قبیلہ ٔ ''عبد القیس '' کے افراد سے ''منذر '' کو کچلنے میں مدد حاصل کرے ۔

____________________

۱)۔'' بجر بن وائل '' قبیلہ بکر بن وائل سے ہے ۔ملاحظہ ہو : جمہرة النساب عرب ( ٣١٠۔ ٣١٤)

۱۱۳

علاء اپنی ماموریت انجام دینے کے لئے روانہ ہوا یمامہ کی با اثر شخصیت اور فرماں روا ''ثمامہ اثال حنفی ''(۱) نے قبیلہ '' بنی سحیم '' کے چند افراد اس کی مدد کے لئے مقرر کر دئے ۔

علاء اپنے لئے فراہم کی گئی فوج کے ساتھ ''مخارق '' (نعمان بن منذر) کی طرف بڑھا ۔ اس کے ساتھ سخت جنگ کی اور اس کے بہت سے افراد کو موت کے گھاٹ اتار دیا ۔اس دوران قبیلہ ''عبدالقیس '' کے سردار'' جارود'' نے بھی ''خط'' کے علاوہ ۔ سیف بحرین۔ سے علاء کی مدد کے لئے چند منظم فوجی دستے محاذ جنگ کی طرف روانہ کئے ۔

'' منذر '' نے جب یہ حالت دیکھی تو ''حطم بن شریح'' نے ''خط'' کے ذریعہ مرزبان کے پاس پیغام بھیجا اور اس سے علاء کے خلاف لڑنے میں مدد طلب کی ،مرزبان نے بھی ایرانی نسل افراد پر

مشتمل ایک فوج کو منذر کی مدد کے لئے روانہ کیا اور '' جارود '' کو قیدی بنا لیا۔

''حطم ''اور''ابجر بن جابر عجلی''اپنے تحت افرادکے ہمراہ منذر کی مدد کے لئے پہنچ گئے اور ایک شدید جنگ کے نتیجہ میں علاء کا''جواثا'' کے قلعہ میں محاصرہ کرکے اس کا قافیہ تنگ کردیا۔

اس پیش آنے والی مصیبت اور سختی کے بارے میں قبیلہ بنی عامر صعصعہ کے ایک شخص عبداللہ حذف(۲) نے حسب ذیل اشعار کہے ہیں :

لوگو!ابوبکر اور تمام اہل مدینہ کو پیغام پہنچائو اور ان سے کہو : کیا تم لوگ ''جواثا '' کے محاصرہ میں پھنسے اس چھوٹے گروہ کی فکر میں ہو؟ یہ ان کا بے گناہ خون ہے جو ہرگڑھے میں جا ری ہے اور آفتاب کی کرنوں کی طرح آنکھوں کو

____________________

۱)۔'' ثمامہ'' و '' ھوذہ'' یمامہ کے د دباد شاہ تھے ہ رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے انھیں خط لکھا تھا اور انھیں اسلام کی دعوت دی تھی ،ثمامہ اسلام قبول کرکے اس پر ثابت قدم رہا ۔جب بنی حنیفہ کے افراد نے بغاوت کی اور '' مسیلمہ'' کذاب سے جاملے تو ثمامہ نے ان سے منہ موڑ لیا اور بحرین چلا گیا ۔ ملاحظہ ہو کتاب ''اصابہ'' و ''تاریخ زرہ''

۲)۔'' عبداللہ '' حذف کے حالات کے بارے میں جمہرہ انساب عرب (٢٧٣۔ ٢٧٥) ملاحظہ ہو

۱۱۴

چکاچوند ھکررہا ہے ۔

ان حالات کے باوجود ہم نے خدا پر توکل کیا ہے کیوں کہ ہم جانتے ہیں کہ خدا پر توکل کرنے والے ہی کامیاب ہوتے ہیں ،

علاء اور اس کے ساتھی بدستور محاصرہ میں پھنسے تھے ایک رات اچانک دشمن کے کیمپ سے شور وغل کی آواز بلند ہوئی عبداللہ حذف کو مامور کیا گیا کہ دشمن کے کیمپ میں جا کر معلوم کرے کہ اس شور و غل کا سبب کیا ہے ۔

عبداللہ نے ایک رسی کے ذریعہ اپنے آپ کو قلعہ کی بلندی سے نیچے پہنچا یا اور ہر طرف دشمن کی ٹوہ لینا شروع کی اس شور و ہنگامہ کا سبب جاننے کے بعد اس نے '' ابجرعجلی '' کے خیمہ میں قدم رکھا ۔ عبداللہ کی والدہ قبیلہ '' بنی عجل'' سے تعلق رکھتی تھی ،اس لئے '' ابجر '' کا رشتہ دار ہوتا تھا ۔جوں ہی ''ابجر''نے عبداللہ کو دیکھا تو چیخ کر اس سے پوچھا:

کس لئے آیا ہے ؟ خدا تجھے اندھا بنا دے !

عبد اللہ نے جواب دیا:

ماموں جان !بھوک ، مصیبت ، محاصرے کی سختی اور ہزاروں دوسری بدبختیوں نے مجھے یہاں تک پہنچایا ہے۔ میں اپنے قبیلہ کے پاس جانا چاہتا ہوں اور تمہاری مدد کا محتاج ہوں

ابجر نے کہا:

میں قسم کھاتا ہوں کہ تم جھوٹ بول رہے ہو!پھر بھی میں تمہاری مدد کروں گا۔

اس کے بعد عبد اللہ کو کچھ توشۂ راہ اور ایک جوڑا جوتے دیکر کیمپ سے باہرلے گیا تاکہ اسے روانہ کر دے ۔جب یہ لوگ کیمپ سے ذرا دور پہنچے تو '' ابجر'' نے عبداللہ سے کہا:

جائو خدا کی قسم تم آج رات میرے لئے بہت برے بھانجے تھے !

عبداللہ نے منذر کی سپاہ سے دور ہونے کے لئے قلعہ کا رخ نہیں کیا بلکہ مخالف سمت میں روانہ ہوا ۔لیکن جوں ہی اسے اطمینان ہو گیا کہ وہ '' ابجر '' کی نظروں سے اوجھل ہو گیا ہے تو فورا مڑ کر اپنے قلعہ کے پاس آپہنچا اور اسی رسی کے ذریعہ قلعہ کی دیوار پرچڑھ کر قلعہ کے اندر چلا گیا اور پوری تفصیل یوں بیان کی :

۱۱۵

ایک شراب فروش تاجر دشمن کی سپاہ کے کیمپ میں آیا تھا ۔تمام سپاہیوں نے اس سے شراب خرید کر پی ہے اور مست و مدہوش ہوکر عقل و ہوش کھو بیٹھے ہیں اور بے عقلی کے عالم میں یہ شور وغل مچارہے ہیں ۔

عبداللہ کی رپورٹ سننے کے بعد مسلمان ننگی تلوار لے کر قلعہ سے باہر آئے اور بجلی کی طرح دشمن پر ٹوٹ پڑے ۔

''حطم '' مستی کے عالم میں اپنی جگہ سے اٹھا اور رکاب میں پائوں رکھ کر بلند آواز سے بولا:

ہے کوئی جو مجھے سوار کرے ؟!

عبداللہ نے جب ''حطم '' کی فریاد سنی تو اس کے جواب میں کہا:

میں ہوں !

اس کے بعد اس کے سر پر تلوار مار کر اسے موت کے گھاٹ اتار دیا اس شبخون میں ''ابجر'' کی ٹانگ بھی کٹ گئی جس کے سبب وہ مرگیا۔

صبح سویرے غنیمت میں حاصل کیاہوا تمام مال و متاع مسلمانوں نے قلعہ ''جواثا'' کے اندر لے جاکر علاء کے سامنے رکھ دیا۔

علاء یوں ہی مشرکین کا پیجھا کرتا رہا اور وہ بھی بھاگتے ہوئے شہر کے دروازے تک پہنچ گئے مسلمانوں کے دبائو نے مشرکین کا قافیہ تنگ کر دیا تھا سرانجام ابن منذر نے علاء سے جنگ ترک کرکے صلح کی درخواست کی ۔علاء نے یہ درخواست اس شرط پر منظور کی کہ اس شہر کے اندر موجود اثاثے کی ایک تہائی اس کے حوالے کی جائے اور شہر کے باہر جو بھی ہے وہ بدستور مسلمانوں کے پاس رہے ۔علاء نے اس فتح کے بعد بہت سا مال و متاع مدینہ بھیج دیا ۔'' منذر نعمان'' جسے '' مخارق'' کہتے تھے ،جان بچا کر شام بھاگ گیا۔ وہاں پر خدا نے اس کے دل کو نورایمان سے منور کیا اور اس نے اسلام قبول کیا ۔اسلام قبول کرنے کے بعد اپنے آپ کو سرزنش کرتے ہوئے کہتا تھا : میں ''غرور'' نہیں بلکہ مغرور ہوں ۔

۱۱۶

فتح پانے کے بعد علاء علاقہ ''خط'' کی طرف واپس ہوا اور اس نے ساحل پر پڑائو ڈالا ۔ وہ دارین تک پہنچنے کی فکر میں تھا کہ اسی دوران ایک عیسائی شخص اس کی خدمت میں حاضر ہو ااور اس سے مخاطب ہو کر بولا:

اگر میں تمھارے سپاہیوں کو پانی کی کم گہری جگہ کی طرف راہنمائی کر دوں تو مجھے کیا دوگے ؟

چوں کہ علاء کے لئے یہ تجویز خلاف توقع تھی ،اس لئے فورا جواب میں کہا:

جو چاہو گے !

عیسائی نے کہا :

تم سے اور تمھارے سپاہیوں سے '' دارین '' میں ایک خاندان کے لئے امان چاہتا ہوں ۔

علاء نے جواب میں کہا:

میں قبول کرتا ہوں ،وہ تیرے اور تیری خدمات کے پیش نظر امان میں ہوں گے ۔

اس توافق کے نتیجہ میں علاء اور اس کے سوار اس عیسائی کی راہنمائی سے دریا عبور کرکے ''دارین'' پہنچ گئے ۔

علاء نے قہر و غلبہ سے '' دارین '' پر قبضہ کیا اور وہاں کے باشندوں کو قیدی بنا لیا اور غنیمت کے طور پر بہت سا مال و متاع اپنے ساتھ لے کر اپنے کیمپ کی طرف لوٹا۔

بحرین کے باشندے جب '' دارین '' کی سر نوشت سے آگاہ ہوئے اور علاء کی فتحیابی کا مشاہدہ کیا ،تو انھوں نے بھی تجویز پیش کی کہ '' ہجر '' کے باشندوں کی طرح صلح کا معاہدہ کرنے کے لئے آمادہ ہیں ۔

ہم نے سیف کی روایتوں کا دیگر مورخین کی روایتوں سے موازنہ کیا اور اس سلسلے میں ''کلاعی'' کی تمام روایتوں کو اور ''بلاذری'' کی روایتوں کا خلاصہ بیان کیا لیکن ان میں عفیف اور اس کے اشعار ،شجاعتوں اور رجز خوانیوں اور قبیلہ تمیم کی دلاوریوں کا کہیں نام و نشان نہیں ملتا۔

۱۱۷

سیف بن عمر کے یہاں '' غرور'' کا نام رکھنے اور اس کے شجرہ نسب کے بارے میں بھی دوسرے مولفین کے ساتھ اختلاف ملتا ہے ۔کیوں کہ سیف نے غرور کو منذر کے سوتیلے بھائی کے طور پر ذکر کیا ہے جب کہ دوسرے لکھتے ہیں کہ اس کا اصلی نام منذر بن نعمان تھا اور اس کا کوئی بھائی نہیں تھا

سیف تنہا فرد ہے جو لکھتا ہے کہ عفیف نے تلوار کی ایک ضرب سے ''حطم'' کی ٹانگ کاٹ دی اور''غروربن سوید'' کو قیدی بنا لیا اور خاندان رباب نے اس کی شفاعت کی جس کے نتیجہ میں عفیف نے '' غرور '' کو ان کے احترام میں بخش دیالیکن '''غرور'' کے بھائی ''منذر'' کا سر تن سے جدا کردیا۔

سیف تنہا شخص ہے جس نے ''دارین''کی فتح کو خلافت ابوبکر کے زمانے میں واقع ہونا لکھا ہے اور اس کی بڑے آب وتاب سے تشریح کی ہے ،اس میں کرامتوں اور غیر معمولی واقعات کی ملاوٹ کی ہے جب کہ دوسروں کا اعتقاد یہ ہے کہ ''دارین '' کو''کرازنکری'' نامی ایک عیسائی کی مدد اور راہنمائی سے خلیج کے کم عمق والی جگہ سے عبور کرکے فتح کیاگیا ہے اور یہ فتحیابی خلیفہ عمر کے زمانے میں واقع ہوئی ہے۔

یہ امر قابل ذکر ہے کہ ہم نے ''علاء حضرمی '' کے کرامات کے افسانہ کا سرچشمہ ''ابوہریرہ'' کی روایات میں پایا ،جہاں پر وہ کہتاہے :

علاء نے بحرین جاتے ہوئے ''دھنا'' کے صحرا میں دعا کی اور خدا ئے تعالیٰ نے اس تپتی سرزمین پر ان کے لئے پانی کے چشمے جاری کئے!جب وہ وہاں سے اٹھ کر چلے گئے اور کچھ فاصلہ چلنے کے بعد ان میں سے ایک آدمی کو یاد آیا کہ وہ اپنی چیز وہاں چھوڑ آیا ہے تو وہ دوبارہ اس جگہ کی طرف لوٹا اور وہاں پر اپنی چیز تو پائی لیکن پانی کا کہیں نام و نشان نہ دیکھا ۔

ابو ہریرہ نے مزید کہا ہے :

میں نے دارین کی جنگ میں دیکھا کہ علاء اپنے گھوڑے پر سوار ہو کر دریا سے عبور کرگیا۔

ایک اور روایت میں کہتا ہے:

۱۱۸

علاء اور اس کے سپاہی دریا کو عبور کر گئے جب کہ کسی کے اونٹ کا پائوں یا کسی چار پا حیوان کا سم تک تر نہیں ہوا تھا!!

یہ تھے صدر اسلام کے ایک راوی ابو ہریرہ کے بیانات جب کہ بلاذری تاکید کرتا ہے کہ ''کرازنکری'' نے اہنمائی کرکے علاء اور اس کے سپاہیوں کو ایک کم عمق والی جگہ سے دریا عبور کرایا اور دارین کی طرف راہنمائی کی ۔

یہ امر بھی قابل توجہ ہے کہ ابو ہریرہ اور دیگر لوگوں کے بیانات میں بھی عفیف کا کہیں نام و نشان نہیں ملتا ہے ۔

سیف کی روایتوں کا دوسروں سے موازنہ

ہم دیکھتے ہیں کہ سیف بن عمر کی نظر میں اس کے خاندان کے افراد کے مرتد ہو جانے اور اسلام سے منھ موڑ لینے کی ،ان کے مفاخر اور میدان جنگ میں ان کی شجاعتوں اور دلاوریوں کو ثابت کرنے کے مقابلے میں کوئی اہمیت نہیں ہے۔

چوں کہ تمیم کے بعض قبائل کے ارتداد کا مسئلہ نا قابل انکار حد تک واضح تھا، اس لئے سیف اپنے تعصب کی بناء پر یہ کوشش کرتا ہے کہ اسی موضوع سے اپنے قبیلہ کے حق میں استفادہ کرے، اس لئے اپنے خاندان کے افراد کے مرتد ہوجانے کا اعتراف کرتے ہوئے مسئلہ کو ایسے پیش کرتا ہے کہ اسی خاندان کے مسلمان اور ثابت قدم افراد تھے جو اپنے خاندان میں اسلام کے قوانین سے سرکشی کرنے والوں اور مرتد ہونے والوں کی خود تنبیہ اور گوش مالی کرتے تھے اور دوسرے قبائل اپنے معاملات میں دخل دینے اور ارتداد کے مسئلہ کو حل کرنے کی اجازت نہیں دیتے تھے۔

سیف''ہجر''میں ''حطم'' اور قبیلۂ قیس کے ارتداد کے بار ے میں بھی قبیلہ تمیم کے افتخارات میں ایک اور فخر کا اضافہ کرنے میں نہیں چوکتا، جیسا کہ ہم نے دیکھا وہ اپنے خیالی کردار ''عفیف'' کو مأمور کرتا ہے کہ قبیلہ قیس کے سردار ''حطم'' کی ٹانگ کو تلوار کی ایک ضرب سے کاٹ ڈالے ، شاہزادہ ربیعہ کو قیدی بنالے ، ''غرور'' کے بھائی''منذر'' کا سرتن سے جدا کرے اور ''غرور ''کو آزاد کرکے قبائل رباب پر احسان کرے۔

اس نے ''عفیف'' کو ایک ایسا بے باک بہادر اور دلاور بناکر پیش کیا کہ سپہ سالار نے اس پر مہربان ہوکر اسے انعام واکرام سے نوازا۔

۱۱۹

سیف،تاریخ کے حزانے سے چند افسانوی افراد کے لئے شجاعت پر مبنی بے بنیاد سخاوت کا اظہار کرتے وقت اپنے ہم معاہدہ قبیلۂ ''رباب'' کو فراموش نہیں کرتا ہے اور کہتا ہے کہ قبیلہ رباب کی شفاعت اور مداخلت سے غرور کو قتل نہیں کیا گیا اور اسے بخش دیا گیا کیونکہ غرور قبیلہ رباب کا بھانجا تھا، بہر صورت اپنے ہم معاہد کا احترام واجب ہے!توجہ فرمائیے کہ وہ عفیف کی زبانی درج ذیل اشعار میں کس طرح خاندان رباب کا نام لیتا ہے:

کیا تم لوگوں نے نہیں دیکھا کہ ہم تمیم کے سرداروں اور رباب کے بزرگوں نے کس طرح دشمن کے ہم پیمانوں کو تہس نہس کیا ذلیل و خوار کرکے رکھدیا۔

یعنی سیف نے اس مسئلہ کو ایسے پیش کیا ہے کہ قبیلہ رباب کو یہ حق تھا کہ وہ عفیف سے ''غرور'' کی آزادی کی اُمید رکھیں ۔

ہمارا عقیدہ یہ ہے کہ علاء اور اس کے سپاہیوں کے لئے ''دھنا '' کے صحراء میں بیٹھے اورشفاف پانی کے چشمے جاری ہونے کا افسانہ ابوہریرہ کی روایت کی وجہ سے دست بدست پھیلاہے۔ سیف نے خاص موقع شناسی کے پیش نظر فرصت سے فائدہ اٹھاکر اس روایت سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھایا ہے، روایت میں ابوہریرہ کی خالی چھوڑی گئی جگہوں کو پر کرکے اور داستان میں دست اندازی کرکے اسے زیبا اور پرکشش بنادیا ہے اور اسے ایک قطعی سند کے طور پر اپنی کتاب ''فتوح'' میں درج کیا ہے۔

لیکن ابوہریرہ کی روایت میں اپنے دیرینہ دشمن علاء جیسے ایک قحطانی یمانی شخص کے لئے کرامت اور غیر معمولی کارنامے دیکھ کر تاریخ میں مداخلت اور ہیر پھیر کرکے ابوہریرہ کے اس جھوٹے با افتخار میڈل کو بھی علاء کے سینہ سے نوچ کر پھینک دیتا ہے۔ملاحظہ فرمایئے سیف اپنے افسانہ کے ضمن میں فتوحات اور لشکر کشی میں علاء کی ''سعد وقاص مضر می '' اسے حاسدانہ دیکھا دیکھی بیان کرتے ہوئے کہتا ہے:

۱۲۰

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

حضرت ايوب عليہ السلام كى بيوى كا نام ايك روايت كے مطابق ''ليا'' بنت يعقوب تھا ،اس بارے ميں كہ اس سے كون سى غلطى ہوئي تھى مفسرين كے درميان بحث ہے _

مشہورترين مفسر ،ابن عباس سے نقل ہوا ہے كہ شيطان يا (كوئي شيطان صفت )ايك طبيب كى صورت ميں ايوب عليہ السلام كى بيوى كے پاس ايا اس نے كہا :ميں تيرے شوہر كا علاج كرتا ہوں صرف اس شرط پر كہ جس وقت وہ ٹھيك ہو جائے تو وہ مجھ سے يہ كہہ دے كہ صرف ميں نے اسے شفا ياب كيا ہے،اس كے علاوہ ميں اور كوئي اجرت نہيں چاہتا _ان كى بيوى نے جو ان كى مسلسل بيمارى كى وجہ سے سخت پريشان تھى اس شرط كو قبول كر ليا اور حضرت ايوب عليہ السلام كے سامنے يہ تجويز پيش كي،حضرت ايوب عليہ السلام جو شيطان كے جال كو سمجھتے تھے ،بہت ناراض ہوئے اور قسم كھائي كہ وہ اپنى بيوى كو سزا ديں گے_

بعض نے كہا ہے كہ جناب ايوب عليہ السلام نے اسے كسى كام كے لئے بھيجا تھا تو اس نے دير كردي، حضرت ايوب عليہ السلام چونكہ بيمارى سے تكليف ميں تھے ،بہت پريشان ہوئے اور اس طرح كى قسم كھائي_ بہر حال اگر وہ ايك طرف سے اس قسم كى سزا كى مستحق تھى تو دوسرى طرف اس طويل بيمارى ميں اس كى وفاداري، خدمت اور تيماردارى اس قسم كے عفو و در گذر كا استحقاق بھى ركھتى تھى _

يہ ٹھيك ہے كہ گندم كى شاخوں كے ايك دستہ يا خوشہ خرما كى لكڑيوں سے مارنا ان كى قسم كا واقعى مصداق نہيں تھا ليكن خدا كے نام كے احترام كى حفاظت اور قانون شكنى پھيلنے سے روكنے كے لئے انھوں نے يہ كام كيا اور يہ بات صرف اس صورت ميں ہے كہ كوئي مستحق عفو و در گذر ہو،اور انسان چاہے كہ عفو و درگذر كے باجود قانون كے ظاہر كو بھى محفوظ ركھے ورنہ ايسے مواقع پر جہاں استحقاق عفو و بخشش نہ ہو وہاں ہر گز اس كام كى اجازت نہيں ہے_قران ميں اس واقعہ كے اخرى جملے ميں جو اس داستان كى ابتداء و انتہاكا نچوڑ ہے ،فرمايا گيا ہے:''ہم نے اسے صابر و شكيبا پايا ،ايوب كتنا اچھا بندہ تھا جو ہمارى طر ف بہت زيادہ باز گشت كرنے والا تھا''_(۱)

____________________

(۱)سورہ ص ايت ۴۴

۴۴۱

يہ بات كہے بغير ہى ظاہر ہے كہ ان كا خدا كى بارگاہ ميں دعاكرنا اور شيطان كو وسوسوں اور درد ،تكليف اور بيمارى كے درو ہونے كا تقاضا كرنا،مقام صبر و شكيبائي كے منافى نہيں اور وہ بھى سات سال اور ايك روايت كے مطابق اٹھارہ سال تك بيمارى اور فقر و نادارى كے ساتھ نبھا نے اور شاكر رہنے كے بعد_

قابل توجہ بات يہ ہے كہ اس جملے ميں حضرت ايوب عليہ السلام كى تين اہم صفات كے ساتھ تو صيف كى گئي ہے كہ جو جس كسى ميں بھى پائي جائيں وہ ايك انسان كا مل ہوتا ہے _

۱_مقام عبوديت۲_صبر و استقامت۳_پے در پے خدا كى طرف باز گشت_

حضرت ايوب عليہ السلام قرآن اور توريت ميں

اس عظيم پيغمبر كا پاك چہرہ ،جو صبر و شكيبائي كا مظہر ہے ،يہاں تك كہ صبر ايوب عليہ السلام سب كے لئے ضرب المثل ہو گيا ہے ،قران مجيد ميں ہم نے ديكھ ليا ہے كہ خدا نے كس طرح سے اس داستان كى ابتدااور انتہا ميں ان كى تعريف كى ہے_

ليكن افسوس كے ساتھ كہنا پڑتا ہے كہ اس عظيم پيغمبر كى سر گزشت بھى جاہلوں يا دانا دشمنوں كى دستبرد سے محفوظ نہ رہى اور ايسے ايسے خرافات ان پر باندھے گئے جن سے ان كى مقدس و پاك شخصيت منزہ ہے ،ان ميں سے ايك يہ ہے كہ بيمارى كے وقت حضرت ايوب عليہ السلام كے بدن ميں كيڑے پڑگئے تھے اور ان ميں بدبو پيدا ہو گئي تھى كہ بستى والوں نے انھيں ابادى سے باہر نكال ديا _

بلا شك و شبہ اس قسم كى روايت جعلى اور من گھڑت ہے ،چاہے وہ حديث كى كتابوں كے اندر ہى كيوں نہ ذكر ہوئي ہوں ،كيونكہ پيغمبر وں كى رسالت كا تقاضا يہ ہے كہ لوگ ہر وقت اور ہر زمانے ميں ميل و رغبت كے ساتھ ان سے مل سكيں اور جو بات لوگوں كے تنفر و بے زارى اور افراد كے ان سے دور رہنے كا موجب بنے ،چاہے وہ تنفر بيمارياں ہوں يا عيوب جسمانى يا اخلاقى خشونت و سختى ،ان ميں نہيں ہوں گي،كيونكہ يہ چيزيں ان كے فلسفہ رسالت سے تضاد ركھتى ہيں _

۴۴۲

ليكن توريت ميں ايك مفصل قصہ ''ايوب''كے بارے ميں نظر اتا ہے جو ''مزامير داو د ''سے پہلے موجود ہے ،يہ كتاب ۴۲/فصل پر مشتمل ہے اور ہر فصل ميں تفصيلى بحث موجود ہے ،بعض فصول ميں تو انتہائي تكليف دہ مطالب نظر اتے ہيں ،ان ميں سے تيسرى فصل ميں ہے كہ :

ايوب عليہ السلام نے شكايت كے لئے زبان كھولى اور بہت زيادہ شكوہ كيا،جب كہ قران نے ان كى صبر وشكيبائي كى تعريف كى ہے _

۴۴۳

حضرت يونس عليہ السلام

''يونس ''''متي''كے فرزند ہيں ''ذوالنون''(مچھلى والا)اپ كا لقب ہے اور يہ لقب اس بناپر ہے كہ چونكہ ان كى سر گذشت ،جيسا كہ ہم بيان كريں گے،ايك مچھلى كے ساتھ تعلق ركھتى ہے ،اپ ان مشہور پيغمبروں ميں سے ہيں جو حضرت موسى عليہ السلام اور حضرت ہارون عليہ السلام كے بعد اس دنيا ميں ائے _

بعض نے انھيں حضرت ہود عليہ السلام كى اولاد ميں سے قرار دياہے اور ان كى ماموريت قوم ثمود كے باقى ماندہ لوگوں كى ہدايت قرار ديا ہے _

ان كے ظہور كا مقام عراق كا ايك علاقہ ہے جس كانام نينوا تھا_

بعض نے ان كا ظہور ۸۲۵ قبل مسيح لكھا ہے اور اب بھى كوفہ كے نزديك شط فرات كے كنارے ''يونس''كے نام كى معروف قبر موجود ہے_

بعض كتابوں نے لكھا ہے كہ اپ بنى اسرائيل كے ايك پيغمبر تھے جو حضرت سليمان عليہ السلام كے بعد اہل نينوا كى طرف مبعوث ہوئے_(۱)

____________________

(۱)كتاب ''يوناہ '' ميں جو عہد عتيق (توريت ) كى كتابوں ميں سے ہے _''يونس''كے بارے ميں تفصيلى ذكر''يوناہ بن متي''كے نام سے كيا گيا ہے _

اس كے مطابق وہ اس كے لئے مامور ہوئے تھے كہ عظيم شہر نينوا جائيں اور لوگوں كى شرارت كے خلاف قيام كريں ،

۴۴۴

يونس عليہ السلام امتحان كى بھٹى ميں

يونس(ع) نے بھى ديگر انبياء كى طرح اپنى دعوت كى ابتداء توحيد اور بت پرستى كے خلاف قيام سے شروع كي_اس كے بعد ان برائيوں كے خلاف نبرد آزمائي كى جو اس ماحول ميں رائج تھے_

ليكن وہ متعصب قوم،جو آنكھيں اور كان بند كركے،اپنے بوڑھوں كى تقليد كررہى تھي_ان كى دعوت كو تسليم كرنے پر آمادہ نہ ہوئي_

۴۴۵

۴۴۶

۴۴۷

۴۴۸

۴۴۹

۴۵۰

۴۵۱

قرآن ميں حضرت مريم(ع) سے فرشتوں كى گفتگو كى تفصيل بيان كى گئي ہے_ انہو ں نے حضرت مريم(ع) كو خدا كى طرف سے برگزيدہ ہونے كى بشارت دينے كے بعد كہا:''اب پروردگار كے حضور خضوع كرو اور سجدہ و قيام بجالائو''_(۱)

يہ درحقيقت اس عظيم نعمت پر شكرانہ تھا_

حضرت عيسى عليہ السلام كى ولادت كا سراغاز

قرآن حضرت عيسى عليہ السلام كى ولادت كے واقعہ كو اس طرح بيان كرتا ہے:

''آسمانى كتاب قرآن ميں مريم(ع) كى بات كرو كہ جس وقت اس نے اپنے گھروالوں سے جدا ہوكر مشرقى حصہ ميں قيام كيا''_(۲)

درحقيقت وہ ايك ايسى خالى اور فارغ جگہ چاہتى تھى جہاں پر كسى قسم كا كوئي شور و غل نہ ہوتا كہ وہ اپنے خدا سے راز و نياز ميں مشغول رہ سكے،اور كوئي چيز اسے ياد محبوب سے غافل نہ كرے،اسى مقصد كے لئے ا س نے عظيم عبادت گاہ بيت المقدس كى مشرقى سمت كو جو شايد زيادہ آرام و سكون كى جگہ تھى يا سورج كى روشنى كے لحاظ سے زيادہ پاك و صاف اور زيادہ مناسب تھي،انتخاب كيا_

اس وقت مريم(ع) نے''اپنے اور دوسروں كے درميان ايك پردہ ڈال ليا''_(۳)

تاكہ اس كى خلوت گاہ ہر لحاظ سے كامل ہوجائے_

____________________

۴۵۲

۷ ديگر قرآنى واقعات

ديگر قرآنى واقعات

۴۵۳

حضرت لقمان

حضرت لقمان كا نام سورہ لقمان كى دوايا ت ميں ايا ہے ،ايا وہ پيغمبر تھے يا صرف ايك دانا اور صاحب حكمت انسان تھے ؟قران ميں اس كى كوئي وضاحت نہيں ملتى ،ليكن ان كے بارے ميں قران كالب ولہجہ نشان دہى كرتا ہے كہ وہ پيغمبر نہيں تھے كيونكہ عام طور پر پيغمبروں كے بارے ميں جو گفتگو ہوتى ہے اس ميں رسالت; توحيد كى طرف دعوت ،شرك اور ماحول ميں موجود بے راہ روى سے نبر دازمائي ،رسالت كى ادائيگى كے سلسلہ ميں كسى قسم كى اجرت كا طلب نہ كرنا نيز امتوں كو بشارت و انذار كے مسائل وغيرہ ديكھنے ميں اتے ہيں ،جب كہ لقمان كے بارے ميں ان مسائل ميں سے كوئي بھى بيان نہيں ہوا، صرف انكے پند نصائح بيان ہوئے ہيں جو اگر چہ خصوصى طورپر تو ان كے اپنے بيٹے كے لئے ہيں ليكن ان كا مفہوم عمومى حيثيت كا حامل ہے اور يہى چيز اس بات پر گواہ ہے كہ وہ صرف ايك مرد حكيم و دانا تھے _

جو حديث پيغمبر گرامى اسلام (ص) سے نقل ہوئي ہے اس طرح درج ہے :

'' سچى بات يہ ہے كہ لقمان پيغمبر نہيں تھے بلكہ وہ اللہ كے ايسے بندے تھے جو زيادہ غور وفكر كيا كرتے ، ان كا ايمان و يقين اعلى درجے پر تھا، خدا كو دوست ركھتے تھے اور خدا بھى انھيں دوست ركھتا تھا اور اللہ نے انھيں اپنى نعمتوں سے مالا مال كرديا تھا ''_

بعض تواريخ ميں ہے لقمان مصر اور سوڈان كے لوگوں ميں سے سياہ رنگ كے غلام تھے باوجود يكہ ان كا چہرہ خوبصورت نہيں تھا ليكن روشن دل اور مصفا روح كے مالك تھے وہ ابتدائے زندگى سے سچ بولتے اورا

۴۵۴

مانت كو خيانت سے الودہ نہ كرتے اور جو امور ان سے تعلق نہيں ركھتے تھے ان ميں دخل اندازى نہيں كرتے تھے _

بعض مفسرين نے ان كى نبوت كا احتما ل ديا ہے ليكن جيسا كہ ہم كہہ چكے ہيں اس پر كوئي دليل موجود نہيں ہے بلكہ واضح شواہد اس كے خلاف موجود ہيں _

يہ تمام حكمت كہاں سے

بعض روايات ميں ايا ہے كہ ايك شخص نے لقمان سے كہا كيا ايسا نہيں ہے كہ اپ ہمارے ساتھ مل كر جانور چراياكرتے تھے ؟

اپ نے جواب ميں كہا ايسا ہى ہے اس نے كہا تو پھر اپ كو يہ سب علم و حكمت كہاں سے نصيب ہوئے ؟

لقمان نے فرمايا:اللہ كى قدر ت،امانت كى ادائيگى ،بات كى سچائي اور جو چيز مجھ سے تعلق نہيں ركھتى اس كے بارے ميں خاموشى اختيار كرنے سے

حديث بالا كے ذيل ميں انحضرت سے ايك روايت يوں بھى نقل ہوئي ہے كہ :

''ايك دن حضرت لقمان دوپہر كے وقت ارام فرمارہے تھے كہ اچانك انھوں نے ايك اواز سنى كہ اے لقمان كيا اپ چاہتے ہيں كہ خداوند عالم اپ كو زمين ميں خليفہ قرار دے تاكہ لوگوں كے درميان حق كے ساتھ فيصلہ كريں ؟

لقمان نے اس كے جواب ميں كہا كہ اگر ميرا پروردگار مجھے اختيار دےدے تو ميں عافيت كى راہ قبول كروں گا كيونكہ ميں جانتا ہوں كہ اگر اس قسم كى ذمہ دارى ميرے كندھے پر ڈال دے گا تو يقينا ميرى مدد بھى كرے گا اور مجھے لغزشوں سے بھى محفوظ ركھے گا _

فرشتوں نے اس حالت ميں كہ لقمان انھيں ديكھ رہے تھے كہا اے لقمان كيوں (ايسا نہيں كرتے؟)

تو انھوں نے كہا اس لئے كيونكہ لوگوں كے درميان فيصلہ كرنا سخت ترين منزل اور اہم ترين مرحلہ ہے

۴۵۵

اور ہر طرف سے ظلم و ستم كى موجيں اس كى طرف متوجہ ہيں اگر خدا انسان كى حفاظت كرے تو وہ نجات پاجائے گا ليكن اگر خطا كى راہ پر چلے تو يقينا جنت كى راہ سے منحرف ہوجائے گا اور جس شخص كا سر دنيا ميں جھكا ہوا اور اخرت ميں بلند ہو اس سے بہتر ہے كہ جس كا سر دنياميں بلند اور اخرت ميں جھكا ہو اہو اور جو شخص دنيا كو اخرت پر ترجيح دے تو نہ تو وہ دنيا كو پاسكے گا اور نہ ہى اخرت كو حاصل كر سكے گا _

فرشتے لقمان كى اس دلچسپ گفتگو اور منطقى باتوں سے متعجب ہوئے ،لقمان نے يہ بات كہى اور سوگئے اور خدانے نور حكمت ان كے دل ميں ڈال ديا جس وقت بيدار ہوئے تو ان كى زبان پر حكمت كى باتيں تھيں ''_

۴۵۶

اصحاب كہف

چند بيدار فكر اور باايمان نوجوان تھے ،وہ نازو نعمت كى زندگى بسر كر رہے تھے ،انھوں نے اپنے عقيدے كى حفاظت اور اپنے زمانے كے طاغوت سے مقابلے كے لئے ان سب نعمتوں كو ٹھوكر ماردى پہاڑ كے ايك ميں جا پناہ لى ،وہ جس ميں كچھ بھى نہ تھا ،يہ اقدام كر كے انھوں نے راہ ايمان ميں اپنى استقامت اور پا مردى ثابت كردى _

يہ بات لائق توجہ ہے كہ اس مقام پر قران فن فصاحت و بلاغت كے ايك اصول سے كام ليتے ہوئے پہلے ان افراد كى سر گزشت كو اجمالى طورپر بيان كرتا ہے تاكہ سننے والوں كا ذہن مائل ہو جائے ،اس سلسلے ميں چار ايات ميں واقعہ بيان كيا گيا ہے اور اس كے بعد ميں تفصيل بيان كى گئي ہے _

اصحاب كہف كى زندگى كا اجمالى جائزہ

پہلے فرمايا گيا ہے :''كيا تم سمجھتے ہو كہ اصحاب كہف و رقيم ہمارى عجيب ايات ميں سے تھے ''_(۱)

زمين و اسمان ميں ہمارى بہت سى عجيب ايا ت ہيں كہ جن ميں سے ہر ايك عظمت تخليق كا ايك نمونہ ہے ،خود تمہارى زندگى ميں عجيب اسرار موجود ہيں كہ جن ميں سے ہر ايك تمہارى دعوت كى حقانيت كى نشانى ہے اور اصحاب كہف كى داستان مسلما ً ان سے عجيب تر نہيں ہے _

____________________

(۱)سورہ كہف ايت ۹

۴۵۷

''اصحاب كہف''(اصحاب )كو يہ نام اس لئے ديا گيا ہے كيونكہ انھوں نے اپنے جان بچانے كے لئے ميں پناہ لى تھى جس كى تفصيل انكى زندگى كے حالات بيان كرتے ہوئے ائے گى _

ليكن ''رقيم ''دراصل ''رقم ''كے مادہ سے'' لكھنے ''كے معنى ميں ہے ،زيادہ تر مفسرين كا نظريہ ہے كہ يہ اصحاب كہف كا دوسرا نام ہے كيونكہ اخر كا ر اس كا نام ايك تختى پر لكھا گيا اور اسے كے دروزاے پر نصب كيا گيا _

بعض اسے اس پہاڑ كا نام سمجھتے ہيں كہ جس ميں يہ تھى اور بعض اس زمين كانام سمجھتے ہيں كہ جس ميں وہ پہاڑ تھا بعض كا خيال ہے كہ يہ اس شہر كانام ہے جس سے اصحاب كہف نكلے تھے ليكن پہلا معنى زيادہ صحيح معلوم ہوتا ہے _(۱)

اس كے بعد فرمايا گيا ہے :

''اس وقت كا سوچو جب چند جوانوں نے ايك ميں جاپناہ لي''_(۲)(۳)

____________________

(۱)رہا بعض كا يہ احتمال كہ اصحاب كہف اور تھے اور اصحاب رقيم اور تھے بعض روايت ميں ان كے بارے ميں ايك داستان بھى نقل كى گئي ہے ،يہ ظاہر ايت سے ہم اہنگ نہيں ہے كيونكہ زير قران كا ظاہرى مفہوم يہ ہے كہ اصحاب كہف و رقيم ايك ہى گروہ كا نام ہے يہى وجہ ہے كہ ان دو الفاظ كے استعمال كے بعد صرف ''اصحاب كہف ''كہہ كر داستان شروع كى گئي ہے اور انكے علاوہ ہر گز كسى دوسرے گروہ كا ذكر نہيں كيا گيا ،يہ صورت حال خود ايك ہى گروہ ہونے كى دليل ہے

(۲)سورہ كہف آيت۱۰

(۳)جيسا كہ قرآن ميں موجود ہے: ''اذا وى الفتية الى الكهف''

(فتية) فتى كى جمع ہے_در اصل يہ نوخيز و سرشار جوان كے معنى ميں ہے البتہ كبھى كبھار بڑى عمر والے ان افراد كے لئے بھى بولاجاتا ہے كہ جن كے جذبے جوان اور سرشار ہوں _اس لفظ ميں عام طورپر جوانمردى حق كے لئے ڈٹ جانے اور حق كے حضور سر تسليم خم كرنے كا مفہوم بھى ہوتا ہے_

اس امر كى شاہد وہ حديث ہے جو امام صادق عليہ السلام سے نقل ہوئي ہے_

امام(ع) نے اپنے ايك صحابى سے پوچھا:''فتى ''كس شخص كو كہتے ہيں ؟

۴۵۸

جب وہ ہر طرف سے مايوس تھے،انہوں نے بارگاہ خدا كا رخ كيا اور عرض كي:''پروردگاراہميں اپنى رحمت سے بہرہ ور كر''_(۱)

اور ہمارے لئے راہ نجات پيدا كردے_

ايسى راہ كہ جس سے ہميں اس تاريك مقام سے چھٹكارا مل جائے اور تيرى رضا كے قريب كردے_ ايسى راہ كہ جس ميں خير و سعادت ہو اور ذمہ دارى ادا ہوجائے_

ہم نے ان كى دعا قبو ل كي''ان كے كانوں پر خواب كے پردے ڈال ديئے اور وہ سالہا سال تك ميں سوئے رہے''_

''پھر ہم نے انہيں اٹھايا اور بيدار كيا تا كہ ہم ديكھيں كا ان ميں سے كون لوگ اپنى نيند كى مدت كا بہتر حساب لگاتے ہيں ''_(۲)

داستان اصحاب كہف كى تفصيل

جيسا كہ ہم نے كہا ہے اجمالى طور پر واقعہ بيا ن كرنے كے بعد ميں اس كى تفصيل بيان كى گئي ہے_ گفتگو كا آغازيوں كيا گياہے: ''ان كى داستان،جيسا كہ ہے،ہم تجھ سے بيان كرتے ہيں ''_(۳)

ہم اس طرح سے واقعہ بيان كرتے ہيں كہ وہ ہر قسم كى فضول بات بے بنياد چيزوں اور غلط باتو ں سے پاك ہوگا_

____________________

۴۵۹

۴۶۰

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667