قصص القرآن-منتخب از تفسير نمونه

قصص القرآن-منتخب از تفسير نمونه   2%

قصص القرآن-منتخب از تفسير نمونه   مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 667

قصص القرآن-منتخب از تفسير نمونه
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 667 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 331942 / ڈاؤنلوڈ: 6113
سائز سائز سائز
قصص القرآن-منتخب از تفسير نمونه

قصص القرآن-منتخب از تفسير نمونه

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

حضرت ايوب عليہ السلام كى بيوى كا نام ايك روايت كے مطابق ''ليا'' بنت يعقوب تھا ،اس بارے ميں كہ اس سے كون سى غلطى ہوئي تھى مفسرين كے درميان بحث ہے _

مشہورترين مفسر ،ابن عباس سے نقل ہوا ہے كہ شيطان يا (كوئي شيطان صفت )ايك طبيب كى صورت ميں ايوب عليہ السلام كى بيوى كے پاس ايا اس نے كہا :ميں تيرے شوہر كا علاج كرتا ہوں صرف اس شرط پر كہ جس وقت وہ ٹھيك ہو جائے تو وہ مجھ سے يہ كہہ دے كہ صرف ميں نے اسے شفا ياب كيا ہے،اس كے علاوہ ميں اور كوئي اجرت نہيں چاہتا _ان كى بيوى نے جو ان كى مسلسل بيمارى كى وجہ سے سخت پريشان تھى اس شرط كو قبول كر ليا اور حضرت ايوب عليہ السلام كے سامنے يہ تجويز پيش كي،حضرت ايوب عليہ السلام جو شيطان كے جال كو سمجھتے تھے ،بہت ناراض ہوئے اور قسم كھائي كہ وہ اپنى بيوى كو سزا ديں گے_

بعض نے كہا ہے كہ جناب ايوب عليہ السلام نے اسے كسى كام كے لئے بھيجا تھا تو اس نے دير كردي، حضرت ايوب عليہ السلام چونكہ بيمارى سے تكليف ميں تھے ،بہت پريشان ہوئے اور اس طرح كى قسم كھائي_ بہر حال اگر وہ ايك طرف سے اس قسم كى سزا كى مستحق تھى تو دوسرى طرف اس طويل بيمارى ميں اس كى وفاداري، خدمت اور تيماردارى اس قسم كے عفو و در گذر كا استحقاق بھى ركھتى تھى _

يہ ٹھيك ہے كہ گندم كى شاخوں كے ايك دستہ يا خوشہ خرما كى لكڑيوں سے مارنا ان كى قسم كا واقعى مصداق نہيں تھا ليكن خدا كے نام كے احترام كى حفاظت اور قانون شكنى پھيلنے سے روكنے كے لئے انھوں نے يہ كام كيا اور يہ بات صرف اس صورت ميں ہے كہ كوئي مستحق عفو و در گذر ہو،اور انسان چاہے كہ عفو و درگذر كے باجود قانون كے ظاہر كو بھى محفوظ ركھے ورنہ ايسے مواقع پر جہاں استحقاق عفو و بخشش نہ ہو وہاں ہر گز اس كام كى اجازت نہيں ہے_قران ميں اس واقعہ كے اخرى جملے ميں جو اس داستان كى ابتداء و انتہاكا نچوڑ ہے ،فرمايا گيا ہے:''ہم نے اسے صابر و شكيبا پايا ،ايوب كتنا اچھا بندہ تھا جو ہمارى طر ف بہت زيادہ باز گشت كرنے والا تھا''_(۱)

____________________

(۱)سورہ ص ايت ۴۴

۴۴۱

يہ بات كہے بغير ہى ظاہر ہے كہ ان كا خدا كى بارگاہ ميں دعاكرنا اور شيطان كو وسوسوں اور درد ،تكليف اور بيمارى كے درو ہونے كا تقاضا كرنا،مقام صبر و شكيبائي كے منافى نہيں اور وہ بھى سات سال اور ايك روايت كے مطابق اٹھارہ سال تك بيمارى اور فقر و نادارى كے ساتھ نبھا نے اور شاكر رہنے كے بعد_

قابل توجہ بات يہ ہے كہ اس جملے ميں حضرت ايوب عليہ السلام كى تين اہم صفات كے ساتھ تو صيف كى گئي ہے كہ جو جس كسى ميں بھى پائي جائيں وہ ايك انسان كا مل ہوتا ہے _

۱_مقام عبوديت۲_صبر و استقامت۳_پے در پے خدا كى طرف باز گشت_

حضرت ايوب عليہ السلام قرآن اور توريت ميں

اس عظيم پيغمبر كا پاك چہرہ ،جو صبر و شكيبائي كا مظہر ہے ،يہاں تك كہ صبر ايوب عليہ السلام سب كے لئے ضرب المثل ہو گيا ہے ،قران مجيد ميں ہم نے ديكھ ليا ہے كہ خدا نے كس طرح سے اس داستان كى ابتدااور انتہا ميں ان كى تعريف كى ہے_

ليكن افسوس كے ساتھ كہنا پڑتا ہے كہ اس عظيم پيغمبر كى سر گزشت بھى جاہلوں يا دانا دشمنوں كى دستبرد سے محفوظ نہ رہى اور ايسے ايسے خرافات ان پر باندھے گئے جن سے ان كى مقدس و پاك شخصيت منزہ ہے ،ان ميں سے ايك يہ ہے كہ بيمارى كے وقت حضرت ايوب عليہ السلام كے بدن ميں كيڑے پڑگئے تھے اور ان ميں بدبو پيدا ہو گئي تھى كہ بستى والوں نے انھيں ابادى سے باہر نكال ديا _

بلا شك و شبہ اس قسم كى روايت جعلى اور من گھڑت ہے ،چاہے وہ حديث كى كتابوں كے اندر ہى كيوں نہ ذكر ہوئي ہوں ،كيونكہ پيغمبر وں كى رسالت كا تقاضا يہ ہے كہ لوگ ہر وقت اور ہر زمانے ميں ميل و رغبت كے ساتھ ان سے مل سكيں اور جو بات لوگوں كے تنفر و بے زارى اور افراد كے ان سے دور رہنے كا موجب بنے ،چاہے وہ تنفر بيمارياں ہوں يا عيوب جسمانى يا اخلاقى خشونت و سختى ،ان ميں نہيں ہوں گي،كيونكہ يہ چيزيں ان كے فلسفہ رسالت سے تضاد ركھتى ہيں _

۴۴۲

ليكن توريت ميں ايك مفصل قصہ ''ايوب''كے بارے ميں نظر اتا ہے جو ''مزامير داو د ''سے پہلے موجود ہے ،يہ كتاب ۴۲/فصل پر مشتمل ہے اور ہر فصل ميں تفصيلى بحث موجود ہے ،بعض فصول ميں تو انتہائي تكليف دہ مطالب نظر اتے ہيں ،ان ميں سے تيسرى فصل ميں ہے كہ :

ايوب عليہ السلام نے شكايت كے لئے زبان كھولى اور بہت زيادہ شكوہ كيا،جب كہ قران نے ان كى صبر وشكيبائي كى تعريف كى ہے _

۴۴۳

حضرت يونس عليہ السلام

''يونس ''''متي''كے فرزند ہيں ''ذوالنون''(مچھلى والا)اپ كا لقب ہے اور يہ لقب اس بناپر ہے كہ چونكہ ان كى سر گذشت ،جيسا كہ ہم بيان كريں گے،ايك مچھلى كے ساتھ تعلق ركھتى ہے ،اپ ان مشہور پيغمبروں ميں سے ہيں جو حضرت موسى عليہ السلام اور حضرت ہارون عليہ السلام كے بعد اس دنيا ميں ائے _

بعض نے انھيں حضرت ہود عليہ السلام كى اولاد ميں سے قرار دياہے اور ان كى ماموريت قوم ثمود كے باقى ماندہ لوگوں كى ہدايت قرار ديا ہے _

ان كے ظہور كا مقام عراق كا ايك علاقہ ہے جس كانام نينوا تھا_

بعض نے ان كا ظہور ۸۲۵ قبل مسيح لكھا ہے اور اب بھى كوفہ كے نزديك شط فرات كے كنارے ''يونس''كے نام كى معروف قبر موجود ہے_

بعض كتابوں نے لكھا ہے كہ اپ بنى اسرائيل كے ايك پيغمبر تھے جو حضرت سليمان عليہ السلام كے بعد اہل نينوا كى طرف مبعوث ہوئے_(۱)

____________________

(۱)كتاب ''يوناہ '' ميں جو عہد عتيق (توريت ) كى كتابوں ميں سے ہے _''يونس''كے بارے ميں تفصيلى ذكر''يوناہ بن متي''كے نام سے كيا گيا ہے _

اس كے مطابق وہ اس كے لئے مامور ہوئے تھے كہ عظيم شہر نينوا جائيں اور لوگوں كى شرارت كے خلاف قيام كريں ،

۴۴۴

يونس عليہ السلام امتحان كى بھٹى ميں

يونس(ع) نے بھى ديگر انبياء كى طرح اپنى دعوت كى ابتداء توحيد اور بت پرستى كے خلاف قيام سے شروع كي_اس كے بعد ان برائيوں كے خلاف نبرد آزمائي كى جو اس ماحول ميں رائج تھے_

ليكن وہ متعصب قوم،جو آنكھيں اور كان بند كركے،اپنے بوڑھوں كى تقليد كررہى تھي_ان كى دعوت كو تسليم كرنے پر آمادہ نہ ہوئي_

۴۴۵

۴۴۶

۴۴۷

۴۴۸

۴۴۹

۴۵۰

۴۵۱

قرآن ميں حضرت مريم(ع) سے فرشتوں كى گفتگو كى تفصيل بيان كى گئي ہے_ انہو ں نے حضرت مريم(ع) كو خدا كى طرف سے برگزيدہ ہونے كى بشارت دينے كے بعد كہا:''اب پروردگار كے حضور خضوع كرو اور سجدہ و قيام بجالائو''_(۱)

يہ درحقيقت اس عظيم نعمت پر شكرانہ تھا_

حضرت عيسى عليہ السلام كى ولادت كا سراغاز

قرآن حضرت عيسى عليہ السلام كى ولادت كے واقعہ كو اس طرح بيان كرتا ہے:

''آسمانى كتاب قرآن ميں مريم(ع) كى بات كرو كہ جس وقت اس نے اپنے گھروالوں سے جدا ہوكر مشرقى حصہ ميں قيام كيا''_(۲)

درحقيقت وہ ايك ايسى خالى اور فارغ جگہ چاہتى تھى جہاں پر كسى قسم كا كوئي شور و غل نہ ہوتا كہ وہ اپنے خدا سے راز و نياز ميں مشغول رہ سكے،اور كوئي چيز اسے ياد محبوب سے غافل نہ كرے،اسى مقصد كے لئے ا س نے عظيم عبادت گاہ بيت المقدس كى مشرقى سمت كو جو شايد زيادہ آرام و سكون كى جگہ تھى يا سورج كى روشنى كے لحاظ سے زيادہ پاك و صاف اور زيادہ مناسب تھي،انتخاب كيا_

اس وقت مريم(ع) نے''اپنے اور دوسروں كے درميان ايك پردہ ڈال ليا''_(۳)

تاكہ اس كى خلوت گاہ ہر لحاظ سے كامل ہوجائے_

____________________

۴۵۲

۷ ديگر قرآنى واقعات

ديگر قرآنى واقعات

۴۵۳

حضرت لقمان

حضرت لقمان كا نام سورہ لقمان كى دوايا ت ميں ايا ہے ،ايا وہ پيغمبر تھے يا صرف ايك دانا اور صاحب حكمت انسان تھے ؟قران ميں اس كى كوئي وضاحت نہيں ملتى ،ليكن ان كے بارے ميں قران كالب ولہجہ نشان دہى كرتا ہے كہ وہ پيغمبر نہيں تھے كيونكہ عام طور پر پيغمبروں كے بارے ميں جو گفتگو ہوتى ہے اس ميں رسالت; توحيد كى طرف دعوت ،شرك اور ماحول ميں موجود بے راہ روى سے نبر دازمائي ،رسالت كى ادائيگى كے سلسلہ ميں كسى قسم كى اجرت كا طلب نہ كرنا نيز امتوں كو بشارت و انذار كے مسائل وغيرہ ديكھنے ميں اتے ہيں ،جب كہ لقمان كے بارے ميں ان مسائل ميں سے كوئي بھى بيان نہيں ہوا، صرف انكے پند نصائح بيان ہوئے ہيں جو اگر چہ خصوصى طورپر تو ان كے اپنے بيٹے كے لئے ہيں ليكن ان كا مفہوم عمومى حيثيت كا حامل ہے اور يہى چيز اس بات پر گواہ ہے كہ وہ صرف ايك مرد حكيم و دانا تھے _

جو حديث پيغمبر گرامى اسلام (ص) سے نقل ہوئي ہے اس طرح درج ہے :

'' سچى بات يہ ہے كہ لقمان پيغمبر نہيں تھے بلكہ وہ اللہ كے ايسے بندے تھے جو زيادہ غور وفكر كيا كرتے ، ان كا ايمان و يقين اعلى درجے پر تھا، خدا كو دوست ركھتے تھے اور خدا بھى انھيں دوست ركھتا تھا اور اللہ نے انھيں اپنى نعمتوں سے مالا مال كرديا تھا ''_

بعض تواريخ ميں ہے لقمان مصر اور سوڈان كے لوگوں ميں سے سياہ رنگ كے غلام تھے باوجود يكہ ان كا چہرہ خوبصورت نہيں تھا ليكن روشن دل اور مصفا روح كے مالك تھے وہ ابتدائے زندگى سے سچ بولتے اورا

۴۵۴

مانت كو خيانت سے الودہ نہ كرتے اور جو امور ان سے تعلق نہيں ركھتے تھے ان ميں دخل اندازى نہيں كرتے تھے _

بعض مفسرين نے ان كى نبوت كا احتما ل ديا ہے ليكن جيسا كہ ہم كہہ چكے ہيں اس پر كوئي دليل موجود نہيں ہے بلكہ واضح شواہد اس كے خلاف موجود ہيں _

يہ تمام حكمت كہاں سے

بعض روايات ميں ايا ہے كہ ايك شخص نے لقمان سے كہا كيا ايسا نہيں ہے كہ اپ ہمارے ساتھ مل كر جانور چراياكرتے تھے ؟

اپ نے جواب ميں كہا ايسا ہى ہے اس نے كہا تو پھر اپ كو يہ سب علم و حكمت كہاں سے نصيب ہوئے ؟

لقمان نے فرمايا:اللہ كى قدر ت،امانت كى ادائيگى ،بات كى سچائي اور جو چيز مجھ سے تعلق نہيں ركھتى اس كے بارے ميں خاموشى اختيار كرنے سے

حديث بالا كے ذيل ميں انحضرت سے ايك روايت يوں بھى نقل ہوئي ہے كہ :

''ايك دن حضرت لقمان دوپہر كے وقت ارام فرمارہے تھے كہ اچانك انھوں نے ايك اواز سنى كہ اے لقمان كيا اپ چاہتے ہيں كہ خداوند عالم اپ كو زمين ميں خليفہ قرار دے تاكہ لوگوں كے درميان حق كے ساتھ فيصلہ كريں ؟

لقمان نے اس كے جواب ميں كہا كہ اگر ميرا پروردگار مجھے اختيار دےدے تو ميں عافيت كى راہ قبول كروں گا كيونكہ ميں جانتا ہوں كہ اگر اس قسم كى ذمہ دارى ميرے كندھے پر ڈال دے گا تو يقينا ميرى مدد بھى كرے گا اور مجھے لغزشوں سے بھى محفوظ ركھے گا _

فرشتوں نے اس حالت ميں كہ لقمان انھيں ديكھ رہے تھے كہا اے لقمان كيوں (ايسا نہيں كرتے؟)

تو انھوں نے كہا اس لئے كيونكہ لوگوں كے درميان فيصلہ كرنا سخت ترين منزل اور اہم ترين مرحلہ ہے

۴۵۵

اور ہر طرف سے ظلم و ستم كى موجيں اس كى طرف متوجہ ہيں اگر خدا انسان كى حفاظت كرے تو وہ نجات پاجائے گا ليكن اگر خطا كى راہ پر چلے تو يقينا جنت كى راہ سے منحرف ہوجائے گا اور جس شخص كا سر دنيا ميں جھكا ہوا اور اخرت ميں بلند ہو اس سے بہتر ہے كہ جس كا سر دنياميں بلند اور اخرت ميں جھكا ہو اہو اور جو شخص دنيا كو اخرت پر ترجيح دے تو نہ تو وہ دنيا كو پاسكے گا اور نہ ہى اخرت كو حاصل كر سكے گا _

فرشتے لقمان كى اس دلچسپ گفتگو اور منطقى باتوں سے متعجب ہوئے ،لقمان نے يہ بات كہى اور سوگئے اور خدانے نور حكمت ان كے دل ميں ڈال ديا جس وقت بيدار ہوئے تو ان كى زبان پر حكمت كى باتيں تھيں ''_

۴۵۶

اصحاب كہف

چند بيدار فكر اور باايمان نوجوان تھے ،وہ نازو نعمت كى زندگى بسر كر رہے تھے ،انھوں نے اپنے عقيدے كى حفاظت اور اپنے زمانے كے طاغوت سے مقابلے كے لئے ان سب نعمتوں كو ٹھوكر ماردى پہاڑ كے ايك ميں جا پناہ لى ،وہ جس ميں كچھ بھى نہ تھا ،يہ اقدام كر كے انھوں نے راہ ايمان ميں اپنى استقامت اور پا مردى ثابت كردى _

يہ بات لائق توجہ ہے كہ اس مقام پر قران فن فصاحت و بلاغت كے ايك اصول سے كام ليتے ہوئے پہلے ان افراد كى سر گزشت كو اجمالى طورپر بيان كرتا ہے تاكہ سننے والوں كا ذہن مائل ہو جائے ،اس سلسلے ميں چار ايات ميں واقعہ بيان كيا گيا ہے اور اس كے بعد ميں تفصيل بيان كى گئي ہے _

اصحاب كہف كى زندگى كا اجمالى جائزہ

پہلے فرمايا گيا ہے :''كيا تم سمجھتے ہو كہ اصحاب كہف و رقيم ہمارى عجيب ايات ميں سے تھے ''_(۱)

زمين و اسمان ميں ہمارى بہت سى عجيب ايا ت ہيں كہ جن ميں سے ہر ايك عظمت تخليق كا ايك نمونہ ہے ،خود تمہارى زندگى ميں عجيب اسرار موجود ہيں كہ جن ميں سے ہر ايك تمہارى دعوت كى حقانيت كى نشانى ہے اور اصحاب كہف كى داستان مسلما ً ان سے عجيب تر نہيں ہے _

____________________

(۱)سورہ كہف ايت ۹

۴۵۷

''اصحاب كہف''(اصحاب )كو يہ نام اس لئے ديا گيا ہے كيونكہ انھوں نے اپنے جان بچانے كے لئے ميں پناہ لى تھى جس كى تفصيل انكى زندگى كے حالات بيان كرتے ہوئے ائے گى _

ليكن ''رقيم ''دراصل ''رقم ''كے مادہ سے'' لكھنے ''كے معنى ميں ہے ،زيادہ تر مفسرين كا نظريہ ہے كہ يہ اصحاب كہف كا دوسرا نام ہے كيونكہ اخر كا ر اس كا نام ايك تختى پر لكھا گيا اور اسے كے دروزاے پر نصب كيا گيا _

بعض اسے اس پہاڑ كا نام سمجھتے ہيں كہ جس ميں يہ تھى اور بعض اس زمين كانام سمجھتے ہيں كہ جس ميں وہ پہاڑ تھا بعض كا خيال ہے كہ يہ اس شہر كانام ہے جس سے اصحاب كہف نكلے تھے ليكن پہلا معنى زيادہ صحيح معلوم ہوتا ہے _(۱)

اس كے بعد فرمايا گيا ہے :

''اس وقت كا سوچو جب چند جوانوں نے ايك ميں جاپناہ لي''_(۲)(۳)

____________________

(۱)رہا بعض كا يہ احتمال كہ اصحاب كہف اور تھے اور اصحاب رقيم اور تھے بعض روايت ميں ان كے بارے ميں ايك داستان بھى نقل كى گئي ہے ،يہ ظاہر ايت سے ہم اہنگ نہيں ہے كيونكہ زير قران كا ظاہرى مفہوم يہ ہے كہ اصحاب كہف و رقيم ايك ہى گروہ كا نام ہے يہى وجہ ہے كہ ان دو الفاظ كے استعمال كے بعد صرف ''اصحاب كہف ''كہہ كر داستان شروع كى گئي ہے اور انكے علاوہ ہر گز كسى دوسرے گروہ كا ذكر نہيں كيا گيا ،يہ صورت حال خود ايك ہى گروہ ہونے كى دليل ہے

(۲)سورہ كہف آيت۱۰

(۳)جيسا كہ قرآن ميں موجود ہے: ''اذا وى الفتية الى الكهف''

(فتية) فتى كى جمع ہے_در اصل يہ نوخيز و سرشار جوان كے معنى ميں ہے البتہ كبھى كبھار بڑى عمر والے ان افراد كے لئے بھى بولاجاتا ہے كہ جن كے جذبے جوان اور سرشار ہوں _اس لفظ ميں عام طورپر جوانمردى حق كے لئے ڈٹ جانے اور حق كے حضور سر تسليم خم كرنے كا مفہوم بھى ہوتا ہے_

اس امر كى شاہد وہ حديث ہے جو امام صادق عليہ السلام سے نقل ہوئي ہے_

امام(ع) نے اپنے ايك صحابى سے پوچھا:''فتى ''كس شخص كو كہتے ہيں ؟

۴۵۸

جب وہ ہر طرف سے مايوس تھے،انہوں نے بارگاہ خدا كا رخ كيا اور عرض كي:''پروردگاراہميں اپنى رحمت سے بہرہ ور كر''_(۱)

اور ہمارے لئے راہ نجات پيدا كردے_

ايسى راہ كہ جس سے ہميں اس تاريك مقام سے چھٹكارا مل جائے اور تيرى رضا كے قريب كردے_ ايسى راہ كہ جس ميں خير و سعادت ہو اور ذمہ دارى ادا ہوجائے_

ہم نے ان كى دعا قبو ل كي''ان كے كانوں پر خواب كے پردے ڈال ديئے اور وہ سالہا سال تك ميں سوئے رہے''_

''پھر ہم نے انہيں اٹھايا اور بيدار كيا تا كہ ہم ديكھيں كا ان ميں سے كون لوگ اپنى نيند كى مدت كا بہتر حساب لگاتے ہيں ''_(۲)

داستان اصحاب كہف كى تفصيل

جيسا كہ ہم نے كہا ہے اجمالى طور پر واقعہ بيا ن كرنے كے بعد ميں اس كى تفصيل بيان كى گئي ہے_ گفتگو كا آغازيوں كيا گياہے: ''ان كى داستان،جيسا كہ ہے،ہم تجھ سے بيان كرتے ہيں ''_(۳)

ہم اس طرح سے واقعہ بيان كرتے ہيں كہ وہ ہر قسم كى فضول بات بے بنياد چيزوں اور غلط باتو ں سے پاك ہوگا_

____________________

۴۵۹

۴۶۰

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667