قصص القرآن-منتخب از تفسير نمونه

قصص القرآن-منتخب از تفسير نمونه   8%

قصص القرآن-منتخب از تفسير نمونه   مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 667

قصص القرآن-منتخب از تفسير نمونه
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 667 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 336276 / ڈاؤنلوڈ: 6154
سائز سائز سائز
قصص القرآن-منتخب از تفسير نمونه

قصص القرآن-منتخب از تفسير نمونه

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

اس لحاظ سے امامت سے مربوط آیات کی بحث و تحقیق میں یہ آیہ کریمہ بھی نمایاں اور قابل توجہ ہے۔ اس آیہ شریفہ کے سلسلہ میں بحث و تحقیق چند محوروں پرمشتمل ہے:

۱ ۔آیت کے مفردات اور مفاہیم کی تحقیق۔

۲ ۔مذکورہ آیت کااس سے پہلے والی آیات سے ربط

۳ ۔اس آیت کامسئلہ رہبری سے ربطہ اور اس کے قرائن کی چھان بین پڑتال۔

۴ ۔علما ء ومفسرین کے بیانات

۵ ۔شیعہ،سنی احادیث وروایات

آیت کے بارے مفردات میں بحث

اس حصہ میں جن الفاظ کی تحقیق ضروری ہے وہ لفظ”صدق“اور”صادقین“ہیں۔اس سلسلہ میں پہلے ہم ان کے لغوی معنی پر ایک نظرڈالیں گے اور ان کے بعد اس کے قرآنی استعمالات پر بحث کریں گے۔

استعمالا ت لغوی

اس سلسلہ میں ہم دو اہل لغت کے بیانات کی طرف اشارہ کرتے ہیں:

۱ ۔ ابن منظور نے ”لسان العرب(۱) “ میں لفظ”صدق“کے مختلف استعمالات کویوں بیان کیاہے:

الصدق:نقیض الکذب،سچ،جھوٹ کی ضدہے۔

رجل صدق:نقیض رجل سوء ۔اچھاانسان برے انسان کی ضدہے۔یعنی اچھائی اور برائی کی صفتیں ایک دوسرے کی ضدہیں۔

وکذالک ثواب صدق وخمارصدق،اسی طرح کہا جاتا ہے اچھا لباس اوراچھابرقعہ۔

ویقال: رجل صدق،مضاف بکسرالصادومعناه نعم الرجل هو نیزاسی

____________________

۱۔لسان العرب ،ج۱۰،ص۳۰۹۔۳۰۷

۱۶۱

طرح حالت اضا فت میں صاد کے کسرے کے ساتھ استعمال ہو تا ہے”رجل صدق“یعنی وہ ایک اچھا مردہے۔

رجل صدق اللقاء وصدق النظر، خوش اخلاق مرداور خوش بین انسان۔

والصّدق:بالفتح الصلب من الرماح وغیرها، ورمح صدق:مستو،وکذالک سیف صدق :

صاف اورسیدھا نیزہ ،اوراسی طرح سیدھی تلوارکو بھی صدق کہتے ہیں۔

عن ابن درستویہ:قال إنّما لصدق الجامع للاوصاف المحمودة۔ابن درستویہ کا کہنا ہے کہ”صدق“اس شخص کوکہاجاتاہے جس میں تمام پسندیدہ اوصاف موجودہوں۔

قال الخلیل:الصدق:الکامل کلّ شیءٍ ۔خلیل نے کہاہے کہ ہرمکمل چیزکو”صدق“کہتے ہیں۔

۲ ۔”مفردات قرآن(۱) “ میں راغب کاکہناہے:ویعبّرعن کل فعل فاضل ظاهراًوباطناًًبا لصدق،فیضاف إلیه ذٰلک الفعل الّذی یوصف به نحو قوله ۔۔۔“ہروہ کام جوظاہروباطن کے اعتبارسے اچھا اور پسندیدہ ہو اسے”صدق“ سے تعبیر کیا جاتا ہے اوراس کے موصوف کی”صدق“کی نسبت )اضافت) دی جاتی ہے۔استعما لات قرآ نی کے وقت ہم اس کے شاہدپیش کریں گے۔

استعمالات قرآنی

قرآن مجید میں ہمیں بہت سی ایسی آیات نظر آتی ہیں جن میں لفظ”صدق“کوایسی چیزوں کی صفت قرار دیا گیاہے جوگفتگووکلام کے مقولہ نہیں ہےں۔نمونہ کے طور پر درج ذیل آیات ملاحظ ہوں:

____________________

۱۔مفردات فی القرآن،ص۲۷۷،دارالمعرفة،بیروت

۱۶۲

( وبشّرالّذین آمنوا اٴنّ لهم قدم صدق عندربّهم )

(سورہ یونس/ ۲)

اس آیہء شریفہ میں ’ صدق“،”قدم“کی صفت واقع ہے۔

ولقدبوّاٴنا بنی اسرائیل مبوّاٴصدق )سورئہ یونس/ ۹۳)

اس آیہء شریفہ میں ”صدق“کو”جگہ“کی صفت قرار دیا گیاہے۔

وقل ربّ اٴدخلنی مدخل صدق واٴخرجنی مخرج صدق سورئہ اسراء/ ۸۰)

اس آیہء شریفہ میں ”مدخل“ و ”مخرج“ یااسم مکان)داخل اورخارج کرنے کی جگہ) ہیں یا مصدر) خودکوداخل کرنایاخارج کرنا)ہیں۔بہرحال کسی طرح بھی مقولہ کلام سے نہیں ہے۔

فی مقعد صدق عند ملیک مقتدر (سورئہ قمر/ ۵۰)

اس آیہ شریفہ میں ”صدق“،”مقعد“)جگہ اوربیٹھنے)کی صفت ہے۔

( لیس البرّاٴن ُتوَلّوُاوجوهکم قبل المشرق والمغرب ولکنّ البرّمن آمن باللّٰه والیوم الآخروالملائکة والکتاب والنبیّین وآتی المال علی حبّه ذوی القربی والیتامیٰ والمساکین وابن السبیل والسائلین وفی الرقاب واقام الصلوة وآتی الزکوةوالموفون بعهدهم إذاعاهدواوالصابرین فی الباٴسائ والضرّاء وحین الباٴس اولئک الّذین صدقواواٴُولئک هم المتّقون ) )سورئہ بقرہ/ ۱۷۷)

اس آیہء شریفہ میں خداوندمتعال نے پہلے نیکیوں کوعقائد کے شعبہ میں یعنی خدا،قیامت،فرشتوں،آسمانی کتابوں اورانبیاء پرایمان کے سلسلہ میں اس کے بعدعمل کے شعبہ میں یعنی اپنے رشتہ داروں،محتاجوں،ابن سبیل اورسائلوں کوانفاق کرنا،خداکی راہ میں بندوں کو آزادکرنانیزایفائے عہدکرنا وغیرہ وغیرہ کی طرف اشارہ کیاہے۔اس کے بعداخلاقی شعبہ میں یعنی مشکلات و پریشاں نیوں میں صبروتحمل استقامت و پائیداری کا مظا ہرہ کر نے کی طرف اشارہ کرتا ہے۔اورمذکورہ تینوں شعبوں میں نیکیاں کرنے والوںصد ق وتقویٰ کے ذریعہ تعریف کرتاہے۔

۱۶۳

لغت اورآیات کریمہ میں مذکورہ استعمالات کے پیش نظرواضح ہوجاتاہے کہ”صدق“کاایک ایساوسیع مفہوم ہے کہ جس کا دائرہ صرف مقولہء،کلام،وعدہ وخبرتک محدود نہیں ہے،بلکہ یہ فکرواندیشہ عقا ئد و اخلا قیات نیزانسانی رفتارجیسے دیگر مواردپربھی اطلاق کرتا ہے اوراس کااستعمال ان موا رد میں حقیقی ہے۔

اس آیت کا گزشتہ آیات سے ربط

اس آیت سے پہلی والی آیت )جیساکہ تفسیر وحدیث کی کتابوں میں آیا ہے )ان مومنین کے بارے میں ہے کہ جنہوں نے پیغمبراسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ہمراہ جنگ تبوک میں جانے سے انکار کیا تھا اوراس کے بعدنادم اورپشیمان ہوکرانھوں نے توبہ کرلی تھی،مسلمانوں نے پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے حکم سے ان کے ساتھ اپنے رشتہ نا طے توڑ دئے تھے،یہاں تک کہ ان کی بیویوں نے بھی ان سے بات کرنا چھوڑدی تھی۔

انہوں نے جب شہر سے باہرنکل کربارگاہ الٰہی میں التماس والتجا کی اور خدا کی بار گاہ میں توبہ کی تو خدا وند متعال نے ان کی توبہ قبول کی اوروہ پھرسے اپنے لوگوں اوراپنے خانوادوں میں واپس لوٹے۔

بعد والی آیت میں بھی خدا وند متعال فرماتا ہے”اہل مدینہ اوراس کے اطراف کے لوگوں کو نہیں چا ہئیے کہ پیغمبر خدا (ص)کی مخالفت اوران سے رو گردانی کریں۔ اس کے بعد خدا کی راہ میں مشکلات و پریشا نیاں،بھوک وپیاس کی سختیاں برداشت کرنے کی قدرواہمیت کی طرف بھی اشارہ کرتاہے۔

اس آیہء شریفہ)زیر بحث آیت)میں مؤمنین کومخاطب کرکے انھیں تقویٰ و پر ہیز گاری کا حکم دیا گیا ہے،اورانھیں اس بات کا پیغام دیا گیا ہے کہ وہ”صادقین“کے ساتھ ہوجائیں۔اب دیکھنا یہ ہے کہ آیہء شریفہ میں ”صادقین“سے مراد کون لوگ ہیں؟

۱۶۴

اس آیت کا ائمہ معصومین(ع)کی امامت سے ربط

ابتدائی نظر میں )جیسا کہ”صدق“ کا مفہوم بیان کرتے ہوئے اشارہ کیا گیا ) ایسالگتاہے کہ جملہ کونوامع الصادقین سے مرادسچوں کے ساتھ ہونے کاحکم ہے۔

قابل غور بات اورجو چیز ضروری ہے وہ سچ بولنااورجھوٹ بولنے سے پر ہیز کر نا ہے۔ لیکن سچ بولنے والوں کے ساتھ ہونا یہ شر عی واجبات میں سے نہیں ہے،جبکہ سچوں کے ساتھ ہونے کا یہ آیہ شریفہ میں حکم ہواہے اور یہ امروجوبی ہے اور جملہ( کونوامع الصادقین ) کا وقوع”إ تقوااللّٰہ“کے سیاق میں ہے کہ جس میں تقوائے الٰہی کا حکم تھالہذایہ بیشک وجوب کے لئے ہے اوراس سے وجوب کی مزیدتاکیدہوتی ہے۔

مفہوم صدق کی وسعت کے پیش نظرمقولہ کلا م و گفتگو تک محدودیت نہیں ہے بلکہ اس کا دائرہ فکرو عقائد،اخلاق وکردار نیزرفتار و عمل تک پھیلا ہواہے کہ جس میں صادقین سے ہونے کو آیہء کریمہ میں واجب قرار دیا گیاہے،ہم اس نتیجہ پرپہنچتے ہیں کہ صادقین کے ساتھ ہونے سے مرادجسمانی معیت اورہمراہی نہیں ہے بلکہ ہمراہی ہراس چیز میں ہے جس میں صحت وسچائی پا ئی جاتی ہو اورآیہء کریمہ میں صادقین سے مرادوہ لوگ ہیں جوصدق مطلق کے مالک ہیں نہ مطلق صدق کے۔او رصدق مطلق وہ ہے جوہر جہت سے سچااورصحیح ہواورفکروعقائد،گفتاروکرداراور اخلاقیات کے لحاظ سے کسی طرح کا انحراف نہ رکھتاہو۔اس طرح کا شخص معصوم کے علاوہ کوئی اور نہیں ہوسکتاہے۔اس طرح کے انسان کے ساتھ ہونے کامطلب اس کے افکار و عقائد، کردارواخلاق کی پیروی کر نا ہے۔

۱۶۵

چونکہ مسلمانوں کااس بات پراجماع ہے کہ چودہ معصومین علیہم السلام کے علاوہ کوئی صاحب عصمت اور صدق مطلق کا مالک نہیں ہے،اس لئے”صادقین“ سے مرادپیغمبراکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ائمہ معصومین علیہم السلام ہوں گے۔

علماء ومفسرین کے بیانات کی تحقیق

اس سلسلہ میں ہم صرف دوبزرگ علماء کے بیانات کی طرف اشارہ کرتے ہیں:

علامہ بہبہانی کا قول:

پہلا قول شیعہ امامیہ کی ایک عظیم شخصیت وبزرگ عالم دین،گراں قدرمفکرمرحوم علامہ محقق سید علی بہبہانی کاہے۔وہ اپنی عظیم کتاب”مصباح الھدایہ“)کہ جوواقعاًامامت کے بارے میں ایک بے نظیرکتاب ہے )میں آیہء شریفہ کی تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

”وقداستفاضت الروایات من طریقناوطریق العامةاٴنّ الصادقین هم اٴهل بیت النبیّی المطهّرون“وقد ذکرفی غایة المرام عشرةخبارمن طریقنا وسبعة اٴخبار من طریق العامة(۱)

اٴقول:ویدّل علی اختصاص الصادقین فی الآیةالکریمه فی الاٴئمّة المعصومین الطبّین من آل محمد( ص) وعدم إرادة مطلق الصادقین منهکمادلّت علیه الروایات المستفیضة من الطر فین:اٴنّه لوکان المراد بالصدق مطلق الصدقالشامل لکلّ مرتبة منه المطلوب من کلّ مؤ من،وبالصادقین المعنی العام الشامل

____________________

۱۔نمایة المرام ،ص۲۴۸

۱۶۶

لکلّ من اتّصف بالصدق فی اٴیّ مرتبة کان،،لوجب اٴن یعبّرمکان”مع“ بکلمة”من“ضرورةاٴنّه یجب علی کلّ مؤمن اٴن یتحرزعن الکذب و یکون مع الصادقینفالعدول عن کلمة ”من“إلی”مع“ یکشف عن اٴن المراد ”باالصدق“مرتبةمخص صةو”باالصادقین“ طائفة معینةومن المعلوم اٴنّ هذه المرتبة مرتبة کاملة،بحیث یستحقالمتصفون بها اٴن یتبعهم سائر المؤمنین جمیعاً،وهذاالمرتبة الکاملة التی تکون بهذه المثا بة لیست إلاّ العصمة والطهارة التی لم یتطرّق معها کذب فی القول والفعل،إذفی الاٴمّة من طهّره اللّٰه تعالی واٴذهب عنه الرجس!وهم اٴهل بیت النبیّی بنصّایة التطهیرواتّفاق جمیع المسلمین

فلواٴُرید من الصّادقین غیر المعصومین لزم اٴن یکون المعصومون ماٴمورین بمتا بعة غیر المعصومین المتطرّق فیهم الکذب و لو جهلاً اٴو سهواً و هو قبیح عقلاً ، و تعیّن اٴن یکون المراد الصادقین المطهّرین الحائزین جمیع مراتب الصدق قولاً و فعلاً،ولا یصدق ذلک إلاّ علی اٴهل بیت النبیّیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم الّذین اٴذهب اللّٰٰه عنهم الرجس و طهرَّهم تطهیراً، و إلیه یشیر قول مولانا الرضا( علیه السلام) ”هم الاٴئمّة الصدیقون بطا عتهم“(۱)

و یدلّ علی کونهم اٴئمّة کمانبّه علیه مولانا الرضا( علیه السلام) فی هذه الروایة اٴمره سبحانه وتعالی جمیع المؤ منین بعد اٴمرهم بالاٴتّقاء عن محارمه باٴن یکونوا مع الصادقین، و لا یصدق الکون

___________________

۱۔فی المصدر:”والصدیقون بطا عتہم “فراجع

۱۶۷

معهم إلا باٴن یکونوا تحت طاعتهم ،متحرّزین عن مخا لفتهم ولیس للإمامة معنی إلاّافتراض طاعة الإمام علی الماٴموم من قبله تعالی،بل لا تعبیراٴقرب إلی معنی الإمامة من اٴمر المؤمنین باٴن یکونوامعه،إذ حقیقة الإئتمام عبارة عن متابعة الماٴموم إمامه وعدم مفارقته عنه ۔(۱)

شیعہ اور اہل سنّت سے مستفیض(۲) روایتیں نقل ہوئی ہیں کہ آیہء شریفہ میں صادقین سے مراد)پیغمبراسلام (ص))کے اہل بیت علیہم السلام ہیں۔مرحوم بحرانی نے اپنی کتاب ”غایة المرام“ میں شیعہ طریقہ سے دس احادیث اورسنی طریقہ سے سات احادیث نقل کی ہیں۔

آیہء کریمہ میں ”صادقین“سے مراد)جیساکہ فریقین کی احادیثوں میں ایاہے )ائمہء معصومین علیہم السلام ہیں اس کی دلیل یہ ہے کہ اگر ”صدق“)سچائی)کہ جو”صادقین“کے عنوان میں ماخوذہے،اس سے مرادمطلق سچائی ہے کہ جوہرمرتبہ کو شامل ہے اور”صادقین“کے زمرے میں ہروہ شخص شامل ہوکہ جو صفت صدق کے کسی بھی مرتبہ سے متصف ہے تو آیہء کریمہ کی تعبیر ”کو نوا من الصا دقین“ہونی چا ہئے تھی اوراسصورت میں اس آیت کے معنی یہ ہو تے کہ ہرمسلمان پر ضروری ہے کہ وہ سچ بو لنے والوں سے ہو اورجھوٹ سے پرہیزکرے۔

یہ جو”مع الصادقین“تعبیرہے،یہ خوداس بات کی دلیل ہے کہ”صدق“سے مراد ایک خاص مرتبہ و مقام ہے اور”صادقین“سے مرادایک مخصوص اور ممتازگروہ)اورصادقین کے ساتھ ہونے کا معنی ان کی پیروی کرنا)ہے۔

صفت صد ق کا کا مل اور نہائی مرتبہ وہی عصمت وطہارت ہے جس کی وجہ سے گفتار وکردار میں سچائی مکمل طورپرمحقق ہوتی ہے۔

____________________

۱-”مصباح الہدایة“ص۹۳۔۹۲،مطبع سلمان فارسی قم

۲۔سے دس تک کی احادیث پر”حدیث مستفیض“اطلاق ہوتا ہے

۱۶۸

(اس مطلب کاقطعی ثبوت یہ ہے کہ)اگر”صادقین“سے مرادائمہ معصومین(ع)کے علاوہ کوئی اورہوں تواس فرض کی بنیادپرکہ آیہء تطہیرکی نص مو جود ہے اورتمام مسلمانوں کا اہل بیت کے معصوم ہو نے پر اتفاق ہے ،اس کالازمہ یہ ہوتا کہ تمام انسان حتی کہ ائمہ معصو مین بھی غیرمعصوم کی اطاعت وپیروی کریں اوریہ عقلاًقبیح ہے۔لہذایہ مرتبہ)عصمت وطہارت)پیغمبر (ص)کے خاندان کے علاوہ کہیں اورنہیں پایا جاسکتاہے۔

دوسراثبوت یہ ہے کہ خدا وند متعال نے آیت کی ابتداء میں تمام مؤمنین کو تقویٰ اورگناہوں سے اجتبا ب کر نے کاحکم دیاہے اوراس کے بعد انہیں”صادقین“ کے ساتھ ہونے کا فرمان جاری کیا ہے،اوران کے ساتھ ہونے کا مطلب ان کی اطاعت کرنے اوران کی نافرمانی نہ کرنے کے علاوہ کچھ نہیں ہے اور امامت کے معنی بھی اس کے علاوہ کچھ نہیں ہےں کہ ماموم پر امام کی اطاعت واجب ہے۔

اگرہم امامت واطاعت کی صحیح تعبیر کرناچاہیں توبہترین تعبیریہ ہے کہ امام کے ساتھ ہونا اوراس کی پیروی و اطا عت سے جدانہ ہو ناہے۔

فخررازی کا قول

دوسراقول اہل سنت کے مشہورومعرو ف علا مہ فخررازی کاہے۔وہ آیہء شریفہ کی تفسیر میں کہتے ہیں:

”و فی الآیة مسائل: المساٴلة الاٴولی: اٴنّه تعالی اٴمرالمؤمنین بالکون مع الصادقین! و متی وجب الکون مع الصادقین فلا بدّمن وجود الصادقین فی کلّ وقت، و ذلک یمنع من إطباق الکلّ علی الباطل، و متی إمتنع إطباق الکلّ علی الباطل وجب إذا اٴطبقوا علی شیء اٴن یکونوا محقّین فهذا یدل علی اٴنّ إجماع الاٴمّة حجّة

فإن قیل: لمَ لا یجوز اٴن یقال: المراد بقوله:( کونوا مع الصادقین ) اٴی کونوا علی طریقة الصادقین، کما اٴنّ الرجل إذا قال لولده: ”کن مع الصالحین“ لا یفید إلاّ ذلک؟

سلّمنا ذلک، لکن نقول: إن ّ هذا الاٴمر کان موجوداً فی زمان الرسول فقط، فکان هذا اٴمراً بالکون مع الرسول، فلا یدّل علی وجود صادق فی سائر الاٴز منة

۱۶۹

سلّمنا ذلک لکن لم لا یجوز اٴن یکون الصادق هو المعصوم الذی یمتنع خلوّ زمان التکلیف عنه کما تقو له الشیعة؟

و الجواب عن الاول: اٴنّ قوله:( کونوا مع الصادقین ) اٴمر بموافقة الصادقین، و نهی عن مفارقتهم، و ذلک مشروط بوجود الصادقین وما لا یتمّ الواجب إلاّ به فهو واجب فدّلت هذه الآیة علی وجود الصادقین و قوله: ” إنّه عدول عن الظاهر من غیر دلیل

قوله: ” هذا الاٴمر مختصّ بزمان الرسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اٴنّ التکالیف المذکورة فی القرآن متوجهة إلی المکلّفین إلی قیام القیامة، فکان الاٴمر فی هذا التکلیف کذلک

الثانی : اٴنّ الصیغة تتناولال اٴوقات کلّها بدلیل صحة الاستثناء الثالث: لمّا لم یکن الوقت المعین مذکوراً فی لفظ الآیة لم یکن حمل الآیة علی البعض اٴولی من حمله علی الباقی فإماّ اٴن لا یحمل علی شیء من الاٴوقات فیفضی إلی التعطیل و هو باطل ! اٴو علی الکلّ فهو المطلوبو الرابع: و هو اٴنّ قوله:( یا اٴیّها الّذین آمنوا اتّقوا اللّٰه ) اٴمر لهم بالتقوی و هذا الاٴمر إنّما یتناول من یصحّ منه اٴن لا یکون متّقیاً، و إنّما یکون کذلک لو کان جائز الخطاٴ فکانت الآیة دالّة علی اٴنّ من کان جائز الخطاٴ وجب کونه مقتدیاً بمن کان واجب المعصمة، و هم الّذین حکم اللّٰه تعالی بکونهم صادقین فهذ ایدّل علی اٴنّه واجب علی جائز الخطاٴ کونه مع المعصوم عن الخطاٴ حتی یکون المعصوم عن الخطاٴ مانعا لجائز الخطاٴ عن الخطاٴ! و هذا المعنی قائم فی جمیع الاٴزمان، فوجب حصوله فی کل الازمان

قوله:”لم لا یجوزاٴن یکون المراد هو کون المؤمن مع المعصوم الموجود فی کلّ زمان“

قلنا:نحن نعترف باٴنّه لابدّ من معصوم فی کلّ زمان،إلا اٴناّ نقول: ذلک المعصوم هو مجموع الاٴمّة و اٴنتم تقولون ذلک المعصوم واحد منهم فنقول: هذا الثانی باطل، لاٴنّه تعالی اٴوجب علی کلّ واحدمن المؤمنین اٴن یکون مع الصادقین،وإنّما یمکنه ذلک لو کان عالماً بان ذلک الصادق من هو ،لاالجاهلباٴنّه من هو

فلو کان ماٴموراً بالکون معه کان ذلک تکلیف مالا یطاق، واٴنّه لا یجوز، لکنّا لا نعلم إنساناً معیّناً موصوفاً بوصف العصمة، و العلم

۱۷۰

باٴنّا لانعلم هذا الانسان حاصل بالضرورة، فثبت اٴنّ قوله: وکونوا مع الصادقین لیس اٴمراً بالکون مع شخص معیّن

و لمّا بطل هذا بقی اٴنّ المراد منه الکون مع مجموع الاُمّة، وذلک یدل علی اٴنّ قول مجموع الاُمّة حقّ و صواب ، و لا معنی لقولنا،”الإجماع حجة“إلاّ ذلک“(۱)

ترجمہ:

”خداوند متعال نے مو منین کو صادقین کے ساتھ ہو نے کا حکم دیا ہے۔اس مطلب کا لازمہ یہ ہے کہ ہرزمانہ میں صادقین کاوجودہو اور یہ اس بات کے لئے ما نع ہے کہ پوری امت کسی باطل امر پر ا تفاق کر ے ۔اس لئے اگر پوری امت کسی چیز پر اتفاق کرتی ہے تو ان کا یہ اتفاق صحیح و بر حق ہو گا اوریہ،اجماع امت کے حجت ہونے کی دلیل ہے۔

اگر کہا جائے:صادقین کے ساتھ ہو نے کا مقصد یہ کیوں نہیں ہے کہ صادقین کے طریقہ کار کی پیروی کرے ،چنانچہ اگر ایک باپ اپنے بیٹے سے کہے:”صالحین کے ساتھ ہو جاؤ“یعنی صالحین کی روش پر چلو )اور یہ امر اس بات پر دلالت نہیں کرتا ہے کہ ہرزمانہ میں صادقین کا وجود ہو)

جواب یہ ہے کہ:یہ خلاف ظاہر ہے،کیونکہ وکون امع الصادقین یہ ہے کہ پہلے ان صادقین کا و جود ہو جن کے ساتھ ہو نے کا حکم دیا گیا ہے۔

مزید اگریہ کہا جائے کہ:یہ جملہ صرف رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے زمانہ میں موضوعیت رکھتا تھا،کیونکہ اس زمانہ میں صرف آنحضرت (ص)کی ذات صادق کے عنوان سے مو جود تھی اور یہ اس بات پردلالت نہیں کرتاہے کہ ہرزمانہ میں صادقین موجود ہوں۔ اس کا جواب یہ ہے کہ:یہ خطاب قرآن مجید کے دوسرے خطابوں کے مانندقیامت تک

____________________

۱۔التفسیر الکبیر ،فخررازی ،ص۲۲۱۔۲۲۰،دار احیاء التراث العربی ،بیروت

۱۷۱

کے لئے تمام مکلفین سے متعلق و مر بوط ہے اوراس میں ہر زمانہ کے مکلفین سے مخطاب ہے اور یہ خطاب رسول اللہ (ص)کے زمانہ سے مخصوص نہیں ہے۔اس کی دلیل یہ ہے کہ یہ استثناء صحیح ہے)اوراستثناء کے صحیح ہو نے کی دلیل ہمیشہ مستثنی منہ میں عمومیت کا پا یا جا تا ہے ) ۔

اس کے علاوہ خدا وند متعال نے پہلے مرحلہ میں مؤ منین کو تقویٰ کا حکم دیا ہے،اور یہ انھیں تمام افراد کے لئے تقویٰ کا حکم ہے کہ جن کے لئے امکان ہے کہ متقی نہ ہوں اوراس خطاب کے مخاطبین وہ لوگ ہیں جو جائزالخطاء ہیں۔لہذاآیہء شریفہ اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ جائز الخطاء افراد کو ہمیشہ ایسے لوگوں کے ساتھ ہونا چاہئے کہ جو خطا سے معصوم ہوں تاکہ وہ معصوم لوگ انھیں خطا سے بچا سکیں۔اور اس طرح کاامکان ہرزمانہ میں ہے۔اس لئے آیہء شریفہ تمام زمانوں سے متعلق ہے اورصرف پیغمبر (ص)کے زمانہ سے مخصوص نہیں ہے۔

یہاں تک فخررازی کے بیان سے یہ بات واضح ہو جا تی ہے کہ صادقین سے مراد خطا سے معصوم افراد ہیں اور یہ افراد ہر زمانہ میں موجود ہیں اوریہ مطلب صحیح اور نا قابل اشکال ہے۔ لیکن فخررازی کاکہنا ہے:

”معصوم”صادقین“ امت کے مجموعی افراد ہیں اور یہ امت کے خاص اورمشخص افراد نہیں ہو سکتے ہیں کیونکہ اس صورت میں ہر ایک پر لازم ہے کہ ان معین مشخص افراد کو پہچانے ان کی معرفت حاصل کرے تا کہ ان کے ساتھ ہو جائے جبکہ یہ معرفت اورآگا ہی ممکن نہیں ہے اورہم ایسے خاص افراد کو نہیں پہچانتے ہیں کہ جو خطا و غلطی سے پاک اورمعصوم ہوں۔ لہذااس بات کے پیش نظر معصوم صادقین سے مراد مجموعہ امت ہے کہ جس کا نتیجہ اجماع کی حجیّت ہے۔“

۱۷۲

فخررازی کے قول کا جواب

فخررازی کے بیان میں دونمایاں نکتے ہیں:

پہلانکتہ:یہ ہے کہ معصوم صادقین سے مراد مشخص و معیّن افراد نہیں ہو سکتے ہیں کیونکہ ہمیں ان کے بارے میں علم وآگاہی نہیں ہے۔

اس قول کا صحیح نہ ہو نا واضح و روشن ہے،کیونکہ شیعہ اما موں کی عصمت کی دلیلوں کی طرف رجوع کرنا ہرایک کے لئے ممکن ہے،جن احادیث میں ان معصوم اما موں کاصراحتاًنام لیا گیا ہے،وہ تواتر کی مقدار سے زیادہ ہیں نیزیہ حدیثیں بعض سنی منابع اور بے شما ر شیعہ منابع میں ذکر ہوئی ہیں۔

دوسرا نکتہ:یہ کہ” معصوم صادقین سے مراد تمام امت ہے“اس پر بہت سا رے اعتراضات ہیں ذیل کے عبا رت میں ملا حظہ ہو:

۱ ۔چودہ معصومین(ع)کی عصمت کے علاوہ کسی اور کی عصمت کا قول تمام مسلمانوں کے قطعی اجماع کے خلاف ہے

۲ ۔آیہ شریفہ میں صادقین کے عنوان )جو ایک عام عنوان ہے )سے جو چیز ظاہر ہے وہ اس کااستغراقی اورشمولی ہو نا ہے نہ کہ مجموعی ہونا اور فخررازی کے کلام سے جو بات ظاہر اور واضح ہے کہ عصمت مجموعہ امت کی صورت میں ہے نہ جمیع امت کی صورت میں اور”مجموعہ“ایک اعتباری عنوان ہے جووحدت افراد کو ایک دوسرے سے منسلک کر دیتا ہے۔عنوان عام میں اصل”استغراقی ہو نا“ہے،کیونکہ عام مجموعی مجازہے اور اسے قرینہ کی ضرورت ہے جبکہ اصالةالحقیقة کا تقاضا یہ ہے کہ عام،جس کا حقیقی عنوان استغراقی ہو نا ہے اس پر حمل ہو۔

۳ ۔عصمت ایک حقیقی عنوان ہے اوراسے ایک حقیقی موضوع کی ضرورت ہے،اور عام مجموعی ایک اعتباری موضوع ہے اورحقیقی موجود کا اعتباری موضوع پر قائم ہو نا محال ہے۔

۱۷۳

۴ ۔فخررازی کا قول”( یاایهاالذین آمنوا ) “اور صا دقینکے درمیان ایک دوسرے مقابل ہو نے کا جو قرینہ پا یا جا تا ہے اس کے خلاف ہے اور ان دو عناوین کے درمیان مقا بلہ کا تقاضا ہے کہ وہ مومنین کہ جن کو خطاب کیا جا رہا ہے وہ دوسرے ہوں اور وہ صادقین جوان کے مقا بل میں قرار دیئے گئے ہیں اور جن کے ساتھ ہو نے کا حکم دیا گیا ہے وہ دوسرے ہوں۔

۵ ۔صادقین سے مراد مجموعہ امت )عام مجموعی) ہونا خود فخررازی کے بیان سے متناقص ہے،کیونکہ اس نے اس مطلب کی توجیہ میں کہ صادقین کا اطلاق فقط پیغمبر (ص)کی ذات میں منحصر نہیں ہے ،کہاہے:

”آیہء شریفہ اس پہلو کو بیان کر نے والی ہے کہ ہرزمانے میں ایسے مؤ منین کا وجود رہا ہے کہ جو جائزالخطا ہوں اور ایسے صادقین بھی پائے جاتے رہے ہیں کہ جوخطا سے محفوظ اورمعصوم ہوں اور ان مؤمنین کو چاہئیے کہ ہمیشہ ان صادقین کے ساتھ ہوں۔“

لہذا فخر رازی نے ان مؤمنین کو کہ جن کوخطاب کیا گیا ہے جائز الخطا اور صادقین کو خطا سے معصوم فرض کیا ہے۔

اس آیت کے بارے میں شیعہ اورسنّی احادیث

حاکم حسکانی(۱) نے تفسیر”شواہد التنزیل(۲) “ میں چند ایسی حدیثیں ذکرکی ہیں،جن سے ثابت ہو تا ہے کہ آیہ شریفہ میں ”صادقین“ سے مراد (ص)اورحضرت علی بن ابیطالب علیہ السلام یاپیغمبراکرم (ص)کے اھل بیت(ع)ہیں۔یہاں پرہم ان احادیث میں سے صرف

____________________

۱۔اہل سنت کے بڑے مشہور معروف عالم دین، ذہبی نے حسکانی کے بارے میں کہاہے:”شیخ متقن ذوعنایة تامة بعلم الحدیث،وکان معمّراً عالی الاسناد۔تذکرة الحفاظ،ج۳،ص۱۲۰۰،دارالکتب العلمیة بیروت۔یعنی:متقن اورمحکم اسناد میں علم حدیث کے بارے میں خاص اہمیت و توجہ کے کامل رکھتے ہیں۔انہوں نے ایک طولانی عمر گذاری ہے اور)حدیث میں )عالی اسنادکے مالک تھے ۔

۲۔شواہد التنزیل،ج۱،ص۳۴۱

۱۷۴

ایک کی جا نب اشارہ کرتے ہیں:

”حدثنایعقوب بن سفیان البسوی قال:حدثناابن قعنب،عن مالک بن اٴنس،عن نافع،عن عبداللّٰه بن عمرفی قوله تعالی:

( اتقوااللّٰه ) قال:اٴمراللّٰه اصحاب محمد( ص) باٴجمعهم اٴن یخافوا للّٰه،ثمّ قال لهم :( کونوامع الصادقین ) یعنی محمداً واهل بیته“(۱)

”یعقوب بن سفیان بسوی نے ابن قنعب سے،اس نے مالک بن انس سے،اس نے نافع سے اس نے عبداللہ بن عمر سے روایت کی ہے کہ خداوندمتعال کے اس قول:”اتقوااللّٰہ“کے بارے میں کہا:خداوندمتعال نے پیغمبراکرم (ص)کے تمام اصحاب کوحکم دیاکہ خداسے ڈریں۔اس کے بعدان سے کہا’:’صادقین“یعنی پیغمبر (ص)اور ان کے اہل بیت علیہم السلام کے ساتھ ہوجائیں۔“

اسی حدیث کوشیعوں کے عظیم محدث اوربزرگ عالم دین ابن شہر آشوب(۲) نے تفسیر یعقوب بن سفیان سے،مالک بن انس سے،نافع بن عمرسے روایت کی ہے۔

شیعوں کے ایک بہت بڑے محدث کلینی نے اس سلسلہ میں اصول کافی میں یوں روایت کی ہے:

”عن ابن اُذینه،عن برید بن معاویةالعجلی قال: اٴباجعفر-علیه السلام-عن قول اللّٰه عزّوجلّ: ( اتقوااللّٰه وکونوامع الصادقین ) قال: إیاّ نا عنی“ ۔(۳)

___________________

۱۔شواہد التنزیل،ج۱،ص۳۴۵،ح۳۵۷

۲۔ذہبی نے تاریخ اسلام میں ۵۸۱ئھ سے ۵۹۰ئھ کے حوادث کے بارے میں بعض بزرگ علماء )ابن ابی طی)کی زبانی اس کی تمجیدکی ہے اور اسے اپنے زمانہ کے امام اورمختلف علوم میں بے مثال شمار کیا ہے اورعلم حدیث میں اسے خطیب بغدادی کے ہم پلہ اورعلم رجال میں یحیی بن معین کے مانند قراردیاہے اور اس کی سچائی وسیع معلو مات نیز،کثرت خشوع وعبادت اورتہجدکا پابند ہو نے سے متصف کیاہے۔مناقب،ابن شہرآشوب،ج۳،ص۱۱۱،ذوی القربیٰ

۳۔اصول کافی ،ج۱،ص۲۰۸،مکتبةالصدق

۱۷۵

”ابن اذینہ نے برید بن معاویہ عجلی سے روایت کی ہے انھوں نے کہا:میں نےخداوندمتعال کے قول( اتقوااللّٰه وکونوامع الصادقین ) کے بارے میں امام باقر(علیہ السلام)سے سوال کیا،حضرت(ع)نے فرمایا:خداوندمتعال نے اس سے صرف ہمارے)اہل بیت پیغمبرعلیہم السلام کے)بارے میں قصدکیاہے۔“

اہل سنّت کے ایک بہت بڑے محدث جوینی نے ایک روایت میں یوں نقل کیا ہے:

”ثمّ قال علیّ( علیه السلام) :اٴنشدکم اللّٰه اٴتعلمون اٴنّ اللّٰه اٴنزل( یااٴیّهاالّذین آمنوااتّقوااللّٰه وکونوامع الصادقین ) فقال سلمان:

یارسول اللّٰه،عامّة هذااٴم خاصّة؟قال:اٴماّ المؤمنون فعامّة المؤمنین اٴمروابذلک،واٴمّاالصادقون فخاصّة لاٴخی علیّ واٴوصیائی من بعد إلی یوم القیامة قالوا:اللّهمّ نعم“(۱)

”اس کے بعد علی(علیہ السلام) نے فرمایا:تمھیں خداکا واسطہ دے کر کہتا ہوں۔کیاتم جانتے ہو،جب یہ آیہء یا ایّہاالذین آمنوا اتقوااللّٰہ وکونوامع الصادقین نازل ہوئی،توسلمان نے آنحضرت سے کہا :یارسول اللہ! (ص)کیا یہ آیت اس قدرعمومیت رکھتی ہے تمام مؤمنین اس میں شامل ہو جا ئیںیا اس سے کچھ خاص افراد مراد ہیں؟پیغمبر (ص)نے فرمایا:جنہیںیہ حکم دیا گیا ہے اس سے مرادعام مؤمنین ہیں،لیکن صادقین سے مرادمیرے بھائی علی(علیہ السلام)اوراس کے بعدقیامت تک آنے والے میرے دوسرے اوصیاء ہیں؟انہوں نے جواب میں کہا:خداشاہدہے،جی ہاں۔“

البتہ اہل سنت کی حدیث وتفسیرکی بعض کتا بوں میں چند دوسری ایسی روایتیں بھی نقل

___________________

۱۔فرائدالسبطین ،ج۱،ص،۳۱۷،مؤسسہ المحمودی للطبا عة والنشر ،بیروت،کماالدین ،ص۲۶۴۔بحار الا نور ،ج۳۳ص۱۴۹۔مصباح الہدایة،ص۹۱طبع سلمان الفارسی۔قابل ذکر ہے کہ مؤخر الذکر مد رک میں بجائے ”انشدکم اللّٰہ“’اسالکم باللّٰہ“آیا ہے۔

۱۷۶

ہوئی ہیں،جن میں ”صادقین“سے مرادکے بارے میں ابوبکروعمریا پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے دوسرے اصحاب کو لیا گیا ہے۔البتہ یہ روایتیں سندکے لحاظ سے قابل اعتماد نہیں ہیں۔ہم ان میں سے بعض کی طرف اشارہ کرتے ہیں:

۱ ۔ابن عساکرنے ضحاک سے روایت کی ہے کہ:( یاایّهاالذین آمنوااتقوااللّٰه وکونوامع الصادقین ) قال:مع ابی بکروعمراصحابهما (۱)

آیہء شریفہ میں ”صادقین“سے ابوبکر،عمراوران کے اصحاب کا قصد کیا گیا ہے ۲ ۔طبری نے سعیدبن جبیرسے ایک اورروایت نقل کی ہے کہ”صادقین“سے مراد ابوبکروعمرہیں۔(۲)

ان احادیث کاجواب:

پہلی حدیث کی سندمیں جویبربن سعیدازدی ہے کہ ابن حجرنے تہذیب التہذیب(۳) میں علم رجال کے بہت سارے علما،جیسے ابن معین،ابن داؤد،ابن عدی اورنسائی کے قول سے اسے ضعیف بتا یاہے،اورطبری(۴) نے اسی روایت کوضحاک سے نقل کیاہے کہ اس کی سندمیں بھی جویبرہے۔

دوسری روایت کی سندمیں اسحاق بن بشرکاہلی ہے کہ ذہبی نے میزان الاعتدال میں(۵) ابن ابی شیبہ،موسی بن ہارون،ابوذرعہ اوردارقطنی کی روایت سے اسے جھوٹا اور حدیث روایت سے اسے جھوٹااورحدیث جعل کرنے والابتایاہے۔

دوسرے یہ کہ:اس کے بعدکہ ہم نے خود آیہء شریفہ اوراس کے شواہد سے جان لیاکہ آیت میں ”صادقین“ سے مرادوہ معصوم ہیں جن کے ساتھ ہونے کا ہمیں حکم دیا گیاہے،اور یہ بات ہم جانتے ہیں کہ جو بھی مسلمانوں کے اتفاق نظر سے معصوم نہ ہووہ اس آیت)صادقین کے دائرے) سے خارج ہے۔

____________________

۱۔تاریخ مدینةدمشق،ج۳۰،ص۳۱۰دارالفکر

۲۔جامع البیان،ج ۱۱،ص۴۶

۳۔تہذیب التہذیب، ج۲ص۱۰۶دارالفکر۔

۴۔جامع البیان،ج۱۱،ص۴۶

۵۔میزان الاعتدال،ج۱،ص۱۸۶،دارالفکر

۱۷۷

چھٹاباب :

امامت آیہء تطہیرکی روشنی میں

( إنّمایریداللّٰه لیذهب عنکم الرجس اٴهل البیت ویطهّرکم تطهرا ) (سورہرئہ احزاب/ ۳۳)

”بس اللہ کاارادہ یہ ہے اے اہل بیت!تم سے ہرقسم کی برائی کودوررکھے اوراس طرح پاک وپاکیزہ رکھے جوپاک وپاکیزہ رکھنے کاحق ہے۔“

ایک اورآیت جوشیعوں کے ائمہء معصومین(ع)کی عصمت پر دلالت کرتی ہے وہ آیہ تطہیرہے۔یہ آیہء کریمہ پیغمبراکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپکے اہل بیت علیہم السلام،یعنی حضرت فاطمہ زہراسلام اللہ علیہااورشیعہ امامیہ کے بارہ معصوم اماموں کی عصمت پردلالت کرتی ہے۔

آیہء کریمہ کی دلالت کو بیان کرنے کے لئے اس کے چند پہلوقابل بحث ہیں:

۱ ۔آیہء کریمہ میں لفظ”إنّما“فقط اورانحصارپردلالت کرتاہے۔

۲ ۔آیہء کریمہ میں ارادہ سے مرادارادہ،تکو ینی ہے نہ ارادہ تشریعی۔

۳ ۔آیہء کریمہ میں ”اہل بیت“سے مرادصرف حضرت علی،فاطمہ،وحسن وحسین )علیہم السلام)اوران کے علاوہ شیعوں کے دوسرے ائمہ معصو مین علیہم السلام ہیں اورپیغمبراسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی بیویاں اس سے خارج ہیں۔

۴ ۔آیہء کریمہ کے بارے میں چندسوالات اوران کے جوابات

۱۷۸

”إنّما“حصرکا فائدئہ دیتا ہے

جیساکہ ہم نے آیہء ولایت کی تفسیرمیں اشارہ کیاکہ علمائے لغت وادبیات نے صراحتاًبیان کیاہے لفظ”إنّما“حصرپردلالت کرتاہے۔لہذااس سلسلہ میں جوکچھ ہم نے وہاں بیان کیااس کی طرف رجوع کیاجائے۔اس سلسلہ میں فخررازی کے اعتراض کاجواب بھی آیہ ولایت کے اعتراضات کے جوابات میں دے دیاگیاہے۔

آیہء تطہیرمیں ارادے سے مرادارادہ تکوینی ہے نہ تشریعی

آیہء شریفہ کے بارے میں بحث کادوسراپہلویہ ہے کہ:آیہء شریفہ میں جوارادہ ذکر کیاگیاہے،اس سے مرادارادہ تکوینی ہے نہ ارادہ تشریعی۔خداوندمتعال کے ارادے دوقسم کے ہیں:

۱ ۔ارادہ تکوینی:اس ارادہ میں ارادہ کامتعلق اس کے ساتھ ہی واقع ہوتاہے،جیسے، خداوندمتعال نے ارادہ کیاکہ حضرت ابراھیم علیہ السلام پرآگ ٹھنڈی اورسالم)بے ضرر)ہو جائے توایساہی ہوا۔

۲ ۔ارادہ تشریعی:یہ ارادہ انسانوں کی تکالیف سے متعلق ہے۔واضح ر ہے کہ اس قسم کے ارادہ میں ارادہ اپنے مراداورمقصودکے لئے لازم وملزوم نہیں ہے۔خداوندمتعال نے چاہاہے کہ تمام انسان نماز پڑھیں، لیکن بہت سے لوگ نماز نہیں پڑھتے ہیں۔تشریعی ارادہ میں مقصود اور مراد کی خلات ورزی ممکن ہے، اس کے برعکس تکوینی ارادہ میں ارادے کی اپنے مراد اور مقصود سے خلاف ورزی ممکن نہیں ہے۔

اس آیہ شریفہ میں ارادے سے مراد ارادہ تکوینی ہے نہ تشریعی اور اس کے معنی یہ ہے کہ:خداوند متعال نے ارادہ کیاہے کہ اہل بیت)علیہم اسلام)کو ہرقسم کی ناپاکی من جملہ گناہ و معصیت سے محفوظ رکھے اورانھیں پاک و پاکیزہ قراردے۔

۱۷۹

خداوندمتعال کے اس ارادہ کے ساتھ ہی اہل بیت اطہارسے ناپاکیاں دور نیزمعنوی طہارت اور پاکیزہ گی محقق ہوگئی ،خداوندمتعال نے یہ ارادہ نہیں کیاہے کہ وہ خود اپنے آپ کو گناہ کی پلیدی اور ناپاکی سے محفوظ رکھیں اورخداوندمتعال کے حکم اور فرائض پر عمل کرکے اپنے آپ کوپاک وپاکیزہ بنائیں۔

آیہ تطہیر میں ارادہ کے تکوینی ہونے کے دلائل:

۱ ۔ارادہ تشریعی فریضہ شرعی کے مانند،دوسروں کے امورسے متعلق ہوتا ہے، جبکہ آیہ شریفہ میں ارادہ کا تعلق ناپاکی اور پلیدی کودورکرنے سے ہے جو ایک الہی فعل ہے جو اس بات کی دلیل ہے کہ اس آیہ شریفہ میں ارا دے سے مرادارادہ،تشریعی نہیں ہے۔

۲ ۔ انسانوں کوپلیدی اور ناپاکیوں سے دور رہنے اورپاک وپاکیزہ ہونے کے بارے میں خداوند متعال کا تشریعی ارادہ پیغمبر اکر (ص)کے اہل بیت (ع)سے مخصوص نہیں ہے بلکہ خدا وند متعال کا یہ ارادہ ہے کہ تمام انسان ناپاکیوں سے محفوظ رہیں اورطہارت وپاکیزگی کے مالک بن جائیں۔جبکہ آیہ تطہیرسے استفادہ ہوتاہے کہ یہ ارادہ صرف پیغمبراکرم (ص)کے اہل بیت علیہم السلام سے مخصوص ہے اور یہ اس کلمہ حصر کی وجہ سے ہے کہ جو آیہ شریفہ کی شروع میں آیا ہے۔ اس سے بالکل واضح ہو جا تا ہے کہ ارادہ کامتعلق)جوناپا کیوں سے دوری اورخداکی جا نب سے خاص طہا رت ہے )خارج میں متحقق ہے۔

۳ ۔آیہ شریفہ شیعوں اورسنیوں کے تفسیرواحادیث کی کتا بوں میں مذکوربے شمار احادیث اورروایتوں کے مطابق اہل بیت پیغمبر (ص)کی فضیلت وستائش کی ضامن ہے۔ اگرآیہ شریفہ میں ارادہ الہی سے مراد،ارادہ تشریعی ہوتاتویہ آیت فضیلت وستائش کی حامل نہیں ہوتی۔اس بناپر،جوکچھ ہمیں اس آیہ شریفہ سے معلوم ہوتاہے،وہ اہل بیت پیغمبر (ص)سے مخصوص طہارت و پاکیزگی اوران کاپلیدی اورناپاکیوں سے دور ہو ناارادہ الٰہی کے تحقق سے مر بوط ہے۔اوریہ ان منتخب انسانوں کے بارے میں خداکی جانب سے عصمت ہے۔ اس ارادہ الٰہی کے تکوینی ہونے کا ایک اورثبوت وہ احادیث ہیں جو خاص طور سے خدا وند متعال کی طرف سے اہل بیت علیہم السلام کی طہارت پر دلالت کرتی ہیں۔ہم یہاں پر ان احادیث میں سے دوحدیثوں کونمونہ کے طورپرذکرکرتے ہیں:

۱۸۰

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

حضرت ايوب عليہ السلام كى بيوى كا نام ايك روايت كے مطابق ''ليا'' بنت يعقوب تھا ،اس بارے ميں كہ اس سے كون سى غلطى ہوئي تھى مفسرين كے درميان بحث ہے _

مشہورترين مفسر ،ابن عباس سے نقل ہوا ہے كہ شيطان يا (كوئي شيطان صفت )ايك طبيب كى صورت ميں ايوب عليہ السلام كى بيوى كے پاس ايا اس نے كہا :ميں تيرے شوہر كا علاج كرتا ہوں صرف اس شرط پر كہ جس وقت وہ ٹھيك ہو جائے تو وہ مجھ سے يہ كہہ دے كہ صرف ميں نے اسے شفا ياب كيا ہے،اس كے علاوہ ميں اور كوئي اجرت نہيں چاہتا _ان كى بيوى نے جو ان كى مسلسل بيمارى كى وجہ سے سخت پريشان تھى اس شرط كو قبول كر ليا اور حضرت ايوب عليہ السلام كے سامنے يہ تجويز پيش كي،حضرت ايوب عليہ السلام جو شيطان كے جال كو سمجھتے تھے ،بہت ناراض ہوئے اور قسم كھائي كہ وہ اپنى بيوى كو سزا ديں گے_

بعض نے كہا ہے كہ جناب ايوب عليہ السلام نے اسے كسى كام كے لئے بھيجا تھا تو اس نے دير كردي، حضرت ايوب عليہ السلام چونكہ بيمارى سے تكليف ميں تھے ،بہت پريشان ہوئے اور اس طرح كى قسم كھائي_ بہر حال اگر وہ ايك طرف سے اس قسم كى سزا كى مستحق تھى تو دوسرى طرف اس طويل بيمارى ميں اس كى وفاداري، خدمت اور تيماردارى اس قسم كے عفو و در گذر كا استحقاق بھى ركھتى تھى _

يہ ٹھيك ہے كہ گندم كى شاخوں كے ايك دستہ يا خوشہ خرما كى لكڑيوں سے مارنا ان كى قسم كا واقعى مصداق نہيں تھا ليكن خدا كے نام كے احترام كى حفاظت اور قانون شكنى پھيلنے سے روكنے كے لئے انھوں نے يہ كام كيا اور يہ بات صرف اس صورت ميں ہے كہ كوئي مستحق عفو و در گذر ہو،اور انسان چاہے كہ عفو و درگذر كے باجود قانون كے ظاہر كو بھى محفوظ ركھے ورنہ ايسے مواقع پر جہاں استحقاق عفو و بخشش نہ ہو وہاں ہر گز اس كام كى اجازت نہيں ہے_قران ميں اس واقعہ كے اخرى جملے ميں جو اس داستان كى ابتداء و انتہاكا نچوڑ ہے ،فرمايا گيا ہے:''ہم نے اسے صابر و شكيبا پايا ،ايوب كتنا اچھا بندہ تھا جو ہمارى طر ف بہت زيادہ باز گشت كرنے والا تھا''_(۱)

____________________

(۱)سورہ ص ايت ۴۴

۴۴۱

يہ بات كہے بغير ہى ظاہر ہے كہ ان كا خدا كى بارگاہ ميں دعاكرنا اور شيطان كو وسوسوں اور درد ،تكليف اور بيمارى كے درو ہونے كا تقاضا كرنا،مقام صبر و شكيبائي كے منافى نہيں اور وہ بھى سات سال اور ايك روايت كے مطابق اٹھارہ سال تك بيمارى اور فقر و نادارى كے ساتھ نبھا نے اور شاكر رہنے كے بعد_

قابل توجہ بات يہ ہے كہ اس جملے ميں حضرت ايوب عليہ السلام كى تين اہم صفات كے ساتھ تو صيف كى گئي ہے كہ جو جس كسى ميں بھى پائي جائيں وہ ايك انسان كا مل ہوتا ہے _

۱_مقام عبوديت۲_صبر و استقامت۳_پے در پے خدا كى طرف باز گشت_

حضرت ايوب عليہ السلام قرآن اور توريت ميں

اس عظيم پيغمبر كا پاك چہرہ ،جو صبر و شكيبائي كا مظہر ہے ،يہاں تك كہ صبر ايوب عليہ السلام سب كے لئے ضرب المثل ہو گيا ہے ،قران مجيد ميں ہم نے ديكھ ليا ہے كہ خدا نے كس طرح سے اس داستان كى ابتدااور انتہا ميں ان كى تعريف كى ہے_

ليكن افسوس كے ساتھ كہنا پڑتا ہے كہ اس عظيم پيغمبر كى سر گزشت بھى جاہلوں يا دانا دشمنوں كى دستبرد سے محفوظ نہ رہى اور ايسے ايسے خرافات ان پر باندھے گئے جن سے ان كى مقدس و پاك شخصيت منزہ ہے ،ان ميں سے ايك يہ ہے كہ بيمارى كے وقت حضرت ايوب عليہ السلام كے بدن ميں كيڑے پڑگئے تھے اور ان ميں بدبو پيدا ہو گئي تھى كہ بستى والوں نے انھيں ابادى سے باہر نكال ديا _

بلا شك و شبہ اس قسم كى روايت جعلى اور من گھڑت ہے ،چاہے وہ حديث كى كتابوں كے اندر ہى كيوں نہ ذكر ہوئي ہوں ،كيونكہ پيغمبر وں كى رسالت كا تقاضا يہ ہے كہ لوگ ہر وقت اور ہر زمانے ميں ميل و رغبت كے ساتھ ان سے مل سكيں اور جو بات لوگوں كے تنفر و بے زارى اور افراد كے ان سے دور رہنے كا موجب بنے ،چاہے وہ تنفر بيمارياں ہوں يا عيوب جسمانى يا اخلاقى خشونت و سختى ،ان ميں نہيں ہوں گي،كيونكہ يہ چيزيں ان كے فلسفہ رسالت سے تضاد ركھتى ہيں _

۴۴۲

ليكن توريت ميں ايك مفصل قصہ ''ايوب''كے بارے ميں نظر اتا ہے جو ''مزامير داو د ''سے پہلے موجود ہے ،يہ كتاب ۴۲/فصل پر مشتمل ہے اور ہر فصل ميں تفصيلى بحث موجود ہے ،بعض فصول ميں تو انتہائي تكليف دہ مطالب نظر اتے ہيں ،ان ميں سے تيسرى فصل ميں ہے كہ :

ايوب عليہ السلام نے شكايت كے لئے زبان كھولى اور بہت زيادہ شكوہ كيا،جب كہ قران نے ان كى صبر وشكيبائي كى تعريف كى ہے _

۴۴۳

حضرت يونس عليہ السلام

''يونس ''''متي''كے فرزند ہيں ''ذوالنون''(مچھلى والا)اپ كا لقب ہے اور يہ لقب اس بناپر ہے كہ چونكہ ان كى سر گذشت ،جيسا كہ ہم بيان كريں گے،ايك مچھلى كے ساتھ تعلق ركھتى ہے ،اپ ان مشہور پيغمبروں ميں سے ہيں جو حضرت موسى عليہ السلام اور حضرت ہارون عليہ السلام كے بعد اس دنيا ميں ائے _

بعض نے انھيں حضرت ہود عليہ السلام كى اولاد ميں سے قرار دياہے اور ان كى ماموريت قوم ثمود كے باقى ماندہ لوگوں كى ہدايت قرار ديا ہے _

ان كے ظہور كا مقام عراق كا ايك علاقہ ہے جس كانام نينوا تھا_

بعض نے ان كا ظہور ۸۲۵ قبل مسيح لكھا ہے اور اب بھى كوفہ كے نزديك شط فرات كے كنارے ''يونس''كے نام كى معروف قبر موجود ہے_

بعض كتابوں نے لكھا ہے كہ اپ بنى اسرائيل كے ايك پيغمبر تھے جو حضرت سليمان عليہ السلام كے بعد اہل نينوا كى طرف مبعوث ہوئے_(۱)

____________________

(۱)كتاب ''يوناہ '' ميں جو عہد عتيق (توريت ) كى كتابوں ميں سے ہے _''يونس''كے بارے ميں تفصيلى ذكر''يوناہ بن متي''كے نام سے كيا گيا ہے _

اس كے مطابق وہ اس كے لئے مامور ہوئے تھے كہ عظيم شہر نينوا جائيں اور لوگوں كى شرارت كے خلاف قيام كريں ،

۴۴۴

يونس عليہ السلام امتحان كى بھٹى ميں

يونس(ع) نے بھى ديگر انبياء كى طرح اپنى دعوت كى ابتداء توحيد اور بت پرستى كے خلاف قيام سے شروع كي_اس كے بعد ان برائيوں كے خلاف نبرد آزمائي كى جو اس ماحول ميں رائج تھے_

ليكن وہ متعصب قوم،جو آنكھيں اور كان بند كركے،اپنے بوڑھوں كى تقليد كررہى تھي_ان كى دعوت كو تسليم كرنے پر آمادہ نہ ہوئي_

۴۴۵

۴۴۶

۴۴۷

۴۴۸

۴۴۹

۴۵۰

۴۵۱

قرآن ميں حضرت مريم(ع) سے فرشتوں كى گفتگو كى تفصيل بيان كى گئي ہے_ انہو ں نے حضرت مريم(ع) كو خدا كى طرف سے برگزيدہ ہونے كى بشارت دينے كے بعد كہا:''اب پروردگار كے حضور خضوع كرو اور سجدہ و قيام بجالائو''_(۱)

يہ درحقيقت اس عظيم نعمت پر شكرانہ تھا_

حضرت عيسى عليہ السلام كى ولادت كا سراغاز

قرآن حضرت عيسى عليہ السلام كى ولادت كے واقعہ كو اس طرح بيان كرتا ہے:

''آسمانى كتاب قرآن ميں مريم(ع) كى بات كرو كہ جس وقت اس نے اپنے گھروالوں سے جدا ہوكر مشرقى حصہ ميں قيام كيا''_(۲)

درحقيقت وہ ايك ايسى خالى اور فارغ جگہ چاہتى تھى جہاں پر كسى قسم كا كوئي شور و غل نہ ہوتا كہ وہ اپنے خدا سے راز و نياز ميں مشغول رہ سكے،اور كوئي چيز اسے ياد محبوب سے غافل نہ كرے،اسى مقصد كے لئے ا س نے عظيم عبادت گاہ بيت المقدس كى مشرقى سمت كو جو شايد زيادہ آرام و سكون كى جگہ تھى يا سورج كى روشنى كے لحاظ سے زيادہ پاك و صاف اور زيادہ مناسب تھي،انتخاب كيا_

اس وقت مريم(ع) نے''اپنے اور دوسروں كے درميان ايك پردہ ڈال ليا''_(۳)

تاكہ اس كى خلوت گاہ ہر لحاظ سے كامل ہوجائے_

____________________

۴۵۲

۷ ديگر قرآنى واقعات

ديگر قرآنى واقعات

۴۵۳

حضرت لقمان

حضرت لقمان كا نام سورہ لقمان كى دوايا ت ميں ايا ہے ،ايا وہ پيغمبر تھے يا صرف ايك دانا اور صاحب حكمت انسان تھے ؟قران ميں اس كى كوئي وضاحت نہيں ملتى ،ليكن ان كے بارے ميں قران كالب ولہجہ نشان دہى كرتا ہے كہ وہ پيغمبر نہيں تھے كيونكہ عام طور پر پيغمبروں كے بارے ميں جو گفتگو ہوتى ہے اس ميں رسالت; توحيد كى طرف دعوت ،شرك اور ماحول ميں موجود بے راہ روى سے نبر دازمائي ،رسالت كى ادائيگى كے سلسلہ ميں كسى قسم كى اجرت كا طلب نہ كرنا نيز امتوں كو بشارت و انذار كے مسائل وغيرہ ديكھنے ميں اتے ہيں ،جب كہ لقمان كے بارے ميں ان مسائل ميں سے كوئي بھى بيان نہيں ہوا، صرف انكے پند نصائح بيان ہوئے ہيں جو اگر چہ خصوصى طورپر تو ان كے اپنے بيٹے كے لئے ہيں ليكن ان كا مفہوم عمومى حيثيت كا حامل ہے اور يہى چيز اس بات پر گواہ ہے كہ وہ صرف ايك مرد حكيم و دانا تھے _

جو حديث پيغمبر گرامى اسلام (ص) سے نقل ہوئي ہے اس طرح درج ہے :

'' سچى بات يہ ہے كہ لقمان پيغمبر نہيں تھے بلكہ وہ اللہ كے ايسے بندے تھے جو زيادہ غور وفكر كيا كرتے ، ان كا ايمان و يقين اعلى درجے پر تھا، خدا كو دوست ركھتے تھے اور خدا بھى انھيں دوست ركھتا تھا اور اللہ نے انھيں اپنى نعمتوں سے مالا مال كرديا تھا ''_

بعض تواريخ ميں ہے لقمان مصر اور سوڈان كے لوگوں ميں سے سياہ رنگ كے غلام تھے باوجود يكہ ان كا چہرہ خوبصورت نہيں تھا ليكن روشن دل اور مصفا روح كے مالك تھے وہ ابتدائے زندگى سے سچ بولتے اورا

۴۵۴

مانت كو خيانت سے الودہ نہ كرتے اور جو امور ان سے تعلق نہيں ركھتے تھے ان ميں دخل اندازى نہيں كرتے تھے _

بعض مفسرين نے ان كى نبوت كا احتما ل ديا ہے ليكن جيسا كہ ہم كہہ چكے ہيں اس پر كوئي دليل موجود نہيں ہے بلكہ واضح شواہد اس كے خلاف موجود ہيں _

يہ تمام حكمت كہاں سے

بعض روايات ميں ايا ہے كہ ايك شخص نے لقمان سے كہا كيا ايسا نہيں ہے كہ اپ ہمارے ساتھ مل كر جانور چراياكرتے تھے ؟

اپ نے جواب ميں كہا ايسا ہى ہے اس نے كہا تو پھر اپ كو يہ سب علم و حكمت كہاں سے نصيب ہوئے ؟

لقمان نے فرمايا:اللہ كى قدر ت،امانت كى ادائيگى ،بات كى سچائي اور جو چيز مجھ سے تعلق نہيں ركھتى اس كے بارے ميں خاموشى اختيار كرنے سے

حديث بالا كے ذيل ميں انحضرت سے ايك روايت يوں بھى نقل ہوئي ہے كہ :

''ايك دن حضرت لقمان دوپہر كے وقت ارام فرمارہے تھے كہ اچانك انھوں نے ايك اواز سنى كہ اے لقمان كيا اپ چاہتے ہيں كہ خداوند عالم اپ كو زمين ميں خليفہ قرار دے تاكہ لوگوں كے درميان حق كے ساتھ فيصلہ كريں ؟

لقمان نے اس كے جواب ميں كہا كہ اگر ميرا پروردگار مجھے اختيار دےدے تو ميں عافيت كى راہ قبول كروں گا كيونكہ ميں جانتا ہوں كہ اگر اس قسم كى ذمہ دارى ميرے كندھے پر ڈال دے گا تو يقينا ميرى مدد بھى كرے گا اور مجھے لغزشوں سے بھى محفوظ ركھے گا _

فرشتوں نے اس حالت ميں كہ لقمان انھيں ديكھ رہے تھے كہا اے لقمان كيوں (ايسا نہيں كرتے؟)

تو انھوں نے كہا اس لئے كيونكہ لوگوں كے درميان فيصلہ كرنا سخت ترين منزل اور اہم ترين مرحلہ ہے

۴۵۵

اور ہر طرف سے ظلم و ستم كى موجيں اس كى طرف متوجہ ہيں اگر خدا انسان كى حفاظت كرے تو وہ نجات پاجائے گا ليكن اگر خطا كى راہ پر چلے تو يقينا جنت كى راہ سے منحرف ہوجائے گا اور جس شخص كا سر دنيا ميں جھكا ہوا اور اخرت ميں بلند ہو اس سے بہتر ہے كہ جس كا سر دنياميں بلند اور اخرت ميں جھكا ہو اہو اور جو شخص دنيا كو اخرت پر ترجيح دے تو نہ تو وہ دنيا كو پاسكے گا اور نہ ہى اخرت كو حاصل كر سكے گا _

فرشتے لقمان كى اس دلچسپ گفتگو اور منطقى باتوں سے متعجب ہوئے ،لقمان نے يہ بات كہى اور سوگئے اور خدانے نور حكمت ان كے دل ميں ڈال ديا جس وقت بيدار ہوئے تو ان كى زبان پر حكمت كى باتيں تھيں ''_

۴۵۶

اصحاب كہف

چند بيدار فكر اور باايمان نوجوان تھے ،وہ نازو نعمت كى زندگى بسر كر رہے تھے ،انھوں نے اپنے عقيدے كى حفاظت اور اپنے زمانے كے طاغوت سے مقابلے كے لئے ان سب نعمتوں كو ٹھوكر ماردى پہاڑ كے ايك ميں جا پناہ لى ،وہ جس ميں كچھ بھى نہ تھا ،يہ اقدام كر كے انھوں نے راہ ايمان ميں اپنى استقامت اور پا مردى ثابت كردى _

يہ بات لائق توجہ ہے كہ اس مقام پر قران فن فصاحت و بلاغت كے ايك اصول سے كام ليتے ہوئے پہلے ان افراد كى سر گزشت كو اجمالى طورپر بيان كرتا ہے تاكہ سننے والوں كا ذہن مائل ہو جائے ،اس سلسلے ميں چار ايات ميں واقعہ بيان كيا گيا ہے اور اس كے بعد ميں تفصيل بيان كى گئي ہے _

اصحاب كہف كى زندگى كا اجمالى جائزہ

پہلے فرمايا گيا ہے :''كيا تم سمجھتے ہو كہ اصحاب كہف و رقيم ہمارى عجيب ايات ميں سے تھے ''_(۱)

زمين و اسمان ميں ہمارى بہت سى عجيب ايا ت ہيں كہ جن ميں سے ہر ايك عظمت تخليق كا ايك نمونہ ہے ،خود تمہارى زندگى ميں عجيب اسرار موجود ہيں كہ جن ميں سے ہر ايك تمہارى دعوت كى حقانيت كى نشانى ہے اور اصحاب كہف كى داستان مسلما ً ان سے عجيب تر نہيں ہے _

____________________

(۱)سورہ كہف ايت ۹

۴۵۷

''اصحاب كہف''(اصحاب )كو يہ نام اس لئے ديا گيا ہے كيونكہ انھوں نے اپنے جان بچانے كے لئے ميں پناہ لى تھى جس كى تفصيل انكى زندگى كے حالات بيان كرتے ہوئے ائے گى _

ليكن ''رقيم ''دراصل ''رقم ''كے مادہ سے'' لكھنے ''كے معنى ميں ہے ،زيادہ تر مفسرين كا نظريہ ہے كہ يہ اصحاب كہف كا دوسرا نام ہے كيونكہ اخر كا ر اس كا نام ايك تختى پر لكھا گيا اور اسے كے دروزاے پر نصب كيا گيا _

بعض اسے اس پہاڑ كا نام سمجھتے ہيں كہ جس ميں يہ تھى اور بعض اس زمين كانام سمجھتے ہيں كہ جس ميں وہ پہاڑ تھا بعض كا خيال ہے كہ يہ اس شہر كانام ہے جس سے اصحاب كہف نكلے تھے ليكن پہلا معنى زيادہ صحيح معلوم ہوتا ہے _(۱)

اس كے بعد فرمايا گيا ہے :

''اس وقت كا سوچو جب چند جوانوں نے ايك ميں جاپناہ لي''_(۲)(۳)

____________________

(۱)رہا بعض كا يہ احتمال كہ اصحاب كہف اور تھے اور اصحاب رقيم اور تھے بعض روايت ميں ان كے بارے ميں ايك داستان بھى نقل كى گئي ہے ،يہ ظاہر ايت سے ہم اہنگ نہيں ہے كيونكہ زير قران كا ظاہرى مفہوم يہ ہے كہ اصحاب كہف و رقيم ايك ہى گروہ كا نام ہے يہى وجہ ہے كہ ان دو الفاظ كے استعمال كے بعد صرف ''اصحاب كہف ''كہہ كر داستان شروع كى گئي ہے اور انكے علاوہ ہر گز كسى دوسرے گروہ كا ذكر نہيں كيا گيا ،يہ صورت حال خود ايك ہى گروہ ہونے كى دليل ہے

(۲)سورہ كہف آيت۱۰

(۳)جيسا كہ قرآن ميں موجود ہے: ''اذا وى الفتية الى الكهف''

(فتية) فتى كى جمع ہے_در اصل يہ نوخيز و سرشار جوان كے معنى ميں ہے البتہ كبھى كبھار بڑى عمر والے ان افراد كے لئے بھى بولاجاتا ہے كہ جن كے جذبے جوان اور سرشار ہوں _اس لفظ ميں عام طورپر جوانمردى حق كے لئے ڈٹ جانے اور حق كے حضور سر تسليم خم كرنے كا مفہوم بھى ہوتا ہے_

اس امر كى شاہد وہ حديث ہے جو امام صادق عليہ السلام سے نقل ہوئي ہے_

امام(ع) نے اپنے ايك صحابى سے پوچھا:''فتى ''كس شخص كو كہتے ہيں ؟

۴۵۸

جب وہ ہر طرف سے مايوس تھے،انہوں نے بارگاہ خدا كا رخ كيا اور عرض كي:''پروردگاراہميں اپنى رحمت سے بہرہ ور كر''_(۱)

اور ہمارے لئے راہ نجات پيدا كردے_

ايسى راہ كہ جس سے ہميں اس تاريك مقام سے چھٹكارا مل جائے اور تيرى رضا كے قريب كردے_ ايسى راہ كہ جس ميں خير و سعادت ہو اور ذمہ دارى ادا ہوجائے_

ہم نے ان كى دعا قبو ل كي''ان كے كانوں پر خواب كے پردے ڈال ديئے اور وہ سالہا سال تك ميں سوئے رہے''_

''پھر ہم نے انہيں اٹھايا اور بيدار كيا تا كہ ہم ديكھيں كا ان ميں سے كون لوگ اپنى نيند كى مدت كا بہتر حساب لگاتے ہيں ''_(۲)

داستان اصحاب كہف كى تفصيل

جيسا كہ ہم نے كہا ہے اجمالى طور پر واقعہ بيا ن كرنے كے بعد ميں اس كى تفصيل بيان كى گئي ہے_ گفتگو كا آغازيوں كيا گياہے: ''ان كى داستان،جيسا كہ ہے،ہم تجھ سے بيان كرتے ہيں ''_(۳)

ہم اس طرح سے واقعہ بيان كرتے ہيں كہ وہ ہر قسم كى فضول بات بے بنياد چيزوں اور غلط باتو ں سے پاك ہوگا_

____________________

۴۵۹

۴۶۰

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667