قصص القرآن-منتخب از تفسير نمونه

قصص القرآن-منتخب از تفسير نمونه   5%

قصص القرآن-منتخب از تفسير نمونه   مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 667

قصص القرآن-منتخب از تفسير نمونه
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 667 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 334362 / ڈاؤنلوڈ: 6144
سائز سائز سائز
قصص القرآن-منتخب از تفسير نمونه

قصص القرآن-منتخب از تفسير نمونه

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

۴۶۱

۴۶۲

۴۶۳

۸ حضرت رسول اكرم (ص)

حضرت رسول اكرم (ص)

۴۶۴

نبوت سے پہلے آنحضرت (ص) كس دين پر تھے؟

اس بات ميں تو شك كى گنجائش ہى نہيں كہ بعثت سے پہلے آنحضرت(ص) نے نہ تو كسى بت كو سجدہ كيا اور نہ ہى تو حيد كى راہ سے سر موانحراف كيا،ليكن سوال يہ پيدا ہوتا ہے كہ وہ كس دين پر پابندتھے؟ تو اس بارے ميں علماء كى آراء مختلف ہيں _

بعض كہتے ہيں كہ آپ(ص) دين مسيح(ع) پر تھے،كيونكہ آنحضرت(ص) كى بعثت سے پہلے جو مستقل،قانونى اور غير منسوخ دين تھا وہ حضرت عيسى (ع) كا دين ہى تھا_

بعض علماء آپ(ص) كو دين ابراہيمى پرپا بند سمجھتے ہيں _ كيونكہ جناب ابراہيم(ع) شيخ الانبياء اور ابوالانبياء تھے اور قرآن كى بعض آيات ميں بھى دين اسلام كا دين ابراہيم(ع) كے نام سے تعارف كروايا گيا ہے_(۱)

بعض علماء نے اس بارے ميں اپنى لا علمى كا اظہار كيا ہے اور دليل يہ دى ہے كہ يقينا آپ(ص) كسى دين پر تو پا بند تھے ليكن يہ نہيں معلوم كہ وہ كونسا دين تھا؟

____________________

(۱)''ملة ابيكم ابراھيم'' (سورہ حج ايت ۷۸)

۴۶۵

اگر چہ ان احتمالات ميں سے ہر ايك كى اپنى جگہ پر دليل تو ہے ليكن مسلم كوئي بھى نہيں _ البتہ ان تينوں اقوال سے ہٹ كر ايك چوتھااحتمال زيادہ مناسب معلوم ہوتا ہے اور وہ يہ كہ''آنحضرت(ص) خداوند عالم كى طرف سے اپنے لئے ايك خاص پروگرام ركھتے تھے،اور اسى پر عمل پيرا تھے اور درحقيقت يہ آپ(ص) كى ذات كے ليے مخصوص ايك دين تھا،جب تك كہ اسلام نازل نہيں ہوگيا''_

اس قول پر وہ حديث شاہد ہے جو نہج البلاغہ ميں موجود ہے :

''جس وقت سے پيغمبر(ص) كى دودھ بڑھائي ہوئي،اللہ نے اپنے فرشتوں ميں سے ايك عظيم فرشتے كو آپ(ص) كے ساتھ ملاديا،جوشب وروز مكارم الاخلاق اور نيك راستوں پر آپ(ص) كو اپنے ساتھ ركھتا''_

اس قول كا ايك اور گواہ يہ ہے كہ كسى بھى تاريخ ميں نہيں ملتاكہ پيغمبر اسلام(ص) يہوديا نصارى ياكسى اور مذہب كے عبادت خانوں ميں عبادت كے ليے تشريف لے گئے ہوں ،نہ تو كفار كے ساتھ مل كر كبھى كسى بت خانے ميں گئے اور نہ ہى اہل كتاب كے ساتھ كسى عبادت خانے ميں بلكہ ہميشہ راہ توحيد پر گامزن رہے اور آپ(ص) اخلاقى اصولوں اور عبادت الہى كے سخت پابند تھے_

بحار الانوار ميں علامہ مجلسي كے مطابق ،بہت سى اسلامى روايات اس بات كا پتہ ديتى ہيں كہ پيغمبر اسلام(ص) اپنى عمر كے آغاز ہى سے روح القدس كے ساتھ مو يد تھے اور اس تائيد كے ساتھ يقيناوہ روح القدس كى راہنمائي كے مطابق عمل كيا كرتے تھے_

علامہ مجلسي ذاتى طور پر اس بات كے معتقد ہيں كہ پيغمبر اسلام(ص) رسالت كے مرتبے پر فائز ہونے سے پہلے مقام نبوت پر فائز تھے،اور كبھى آپ(ص) ان كى آواز سنا كرتے تھے اور كبھى سچے خواب كى صورت ميں آپ(ص) پر خدائي الہام ہوا كرتاتھا_ چاليس سال كے بعد اعلان رسالت كا حكم ہوا اور اسلام و قرآن با قاعدہ طور پر آپ(ص) پر نازل ہوئے_

علامہ مجلسي نے اپنے اس مدعا پر چھ دلائل ذكر كئے ہيں جن ميں سے كچھ ان دلائل كے ساتھ ملتے جلتے اور ہم آہنگ ہيں جو ہم اوپر بيان كرچكے ہيں _

۴۶۶

آغاز وحي

پيغمبر اكرم (ص) كوہ حرا پر گئے ہوئے تھے كہ جبرئيل آئے اور كہا : اے محمد پڑھ:پيغمبر (ص) نے فرمايا ميں پڑھا ہوانہيں ہوں _ جبرئيل نے انہيں آغوش ميں لے كردبايا اور پھر دوبارہ كہا : پڑھ، پيغمبر (ص) نے پھر اسى جواب كو دہرايا_ اس كے بعد جبرئيل نے پھر وہى كام كيا اور وہى جواب سنا ، اور تيسرى باركہا: ( اقراباسم ربك الذى خلق)(۱)

جبرئيل (ع) يہ بات كہہ كر پيغمبر (ص) كى نظروں سے غائب ہوگئے رسول خدا (ص) جو وحى كى پہلى شعاع كو حاصل كرنے كے بعد بہت تھكے ہوئے تھے خديجہ كے پاس آئے اور فرمايا : '' زملونى ودثرونى '' مجھے اڑھادو اور كوئي كپڑا ميرے اوپر ڈال دوتاكہ ميں آرام كروں _

''علامہ طبرسي'' بھى مجمع البيان ميں يہ نقل كرتے ہيں كہ رسو لخدا (ص) نے خديجہ سے فرمايا :

''جب ميں تنہا ہوتا ہوں تو ايك آواز سن كر پريشان ہوجاتاہوں '' _ حضرت خديجہ(ع) نے عرض كيا : خداآپ كے بارے ميں خير اور بھلائي كے سواكچھ نہيں كرے گا كيونكہ خدا كى قسم آپ امانت كو ادا كرتے ہيں اور صلہ رحم بجالاتے ہيں 'اور جوبات كرتے ہيں اس ميں سچ بولتے ہيں _

____________________

(۱) سورہ علق آيت ۱

۴۶۷

''خديجہ''(ع) كہتى ہيں : اس واقعہ كے بعد ہم ورقہ بن نوفل كے پاس گئے (نوفل خديجہ كا زاد بھائي اور عرب كے علماء ميں سے تھا )رسول اللہ (ص) نے جو كچھ ديكھا تھا وہ'' ورقہ'' سے بيان كيا '' ورقہ '' نے كہا : جس وقت وہ پكارنے والا آپ كے پاس آئے تو غور سے سنو كہ وہ كيا كہتا ہے ؟ اس كے بعد مجھ سے بيان كرنا_

پيغمبر (ص) نے اپنى خلوت گاہ ميں سنا كہ وہ كہہ رہاہے :

اے محمد كہو :

''بسم اللّه الرحمن الرحيم الحمد للّه رب العالمين الرحمن الرحيم مالك يوم الدين اياك نعبدواياك نستعين اهدنا الصراط المستقيم صراط الذين انعمت عليهم غيرالمغضوب عليهم ولاالضالين'' _

اور كہو '' لاالہ الاالله '' اس كے بعد آپ ورقہ كے پاس آئے اور اس ماجرے كو بيان كيا _

'' ورقہ '' نے كہا : آپ كو بشارت ہو ' پھر بھى آپ كو بشارت ہو _ميں گواہى ديتا ہوں كہ آپ وہى ہيں جن كى عيسى بن مريم نے بشارت دى ہے' آپ موسى عليہ السلام كى طرح صاحب شريعت ہيں اور پيغمبر مرسل ہيں _ آج كے بعد بہت جلدہى جہاد كے ليے مامور ہوں گے اور اگر ميں اس دن تك زندہ رہا تو آپ كے ساتھ مل كر جہاد كروں گا '' جب '' ور قہ دنيا سے رخصت ہو گيا تو رسول خدا (ص) نے فرمايا:

''ميں نے اس روحانى شخص كو بہشت (برزخى جنت ) ميں ديكھا ہے كہ وہ جسم پر ريشمى لباس پہنے ہوئے تھا' كيونكہ وہ مجھ پر ايمان لايا تھا اور ميرى تصديق كى تھي_ ''(۱)

____________________

(۱)يقينى طورپر مفسرين كے بعض كلمات يا تاريخ كى كتابوں ميں پيغمبر اكرم (ص) كى زندگى كى اس فصل كے بارے ميں ايسے ناموزوں مطالب نظرآتے ہيں جو مسلمہ طور پر جعلي' وضعى ' گھڑى ہوئي روايات اور اسرائيليات سے ہيں ' مثلاًيہ كہ پيغمبر (ص) نزول وحى كے پہلے واقعہ كے بعد بہت ہى ناراحت ہوئے اور ڈرگئے كہ كہيں يہ شيطانى القاآت نہ ہوں ' يا آپ نے كئي مرتبہ

۴۶۸

پہلا مسلمان(۱)

اس سوال كے جواب ميں سب نے متفقہ طور پر كہا ہے كہ عورتوں ميں سے جو خاتون سب سے پہلے مسلمان ہوئيں وہ جناب خديجہ(ع) تھيں جو پيغمبر اكرم (ص) كى وفاداراور فدا كار زوجہ تھيں باقى رہا مردوں ميں سے تو تمام شيعہ علماء ومفسرين اور اہل سنت علماء كے ايك بہت بڑے گروہ نے كہا ہے كہ حضرت على (ع) وہ پہلے شخض تھے جنہوں نے مردوں ميں سے دعوت پيغمبر (ص) پر لبيك كہى علماء اہل سنت ميں اس امركى اتنى شہرت ہے كہ ا ن ميں سے ايك جماعت نے اس پر اجماع واتفاق كا دعوى كيا ہے ان ميں سے حاكم نيشاپورى(۲) نے كہا ہے :

مورخين ميں اس امر پر كوئي اختلاف نہيں كہ على ابن ابى طالب اسلام لانے والے پہلے شخص ہيں _ اختلاف اسلام قبول كرتے وقت انكے بلوغ كے بارے ميں ہے _

جناب ابن عبدالبر(۳) لكھتے ہيں : اس مسئلہ پر اتفاق ہے كہ خديجہ(ع) وہ پہلى خاتون ہيں جو خدا اور

____________________

اس بات كا پختہ ارادہ كرليا كہ خود كو پہاڑ سے گراديں ' اور اسى قسم كے فضول اور بے ہودہ باتيں جو نہ تو نبوت كے بلند مقام كے ساتھ سازگار ہيں اور نہ ہى پيغمبر (ص) كى اس عقل اور حد سے زيادہ دانش مندى ' مدبريت ' صبر وتحمل وشكيبائي ' نفس پر تسلط اور اس اعتماد كو ظاہر كرتى ہيں جو تاريخوں ميں ثبت ہے _

ايسا دكھائي ديتا ہے كہ اس قسم كى ضعيف وركيك روايات دشمنان اسلام كى ساختہ وپرداختہ ہيں جن كا مقصد يہ تھا كہ اسلام كو بھى مورد اعتراض قراردے ديں اور پيغمبر اسلام (ص) كى ذات گرامى كو بھى _

(۱)اس سوال كو اكثر مفسرين نے سورہ توبہ ايت۱۰۰''السابقون الاولون''كے ضمن ميں بيان كيا ہے

(۲)مستدرك على صحيحين كتاب معرفت ص۲۲

(۳)استيعاب ،ج ۲ ص۴۵۷

۴۶۹

اس كے رسول پر ايمان لائيں اور جو كچھ وہ لائے تھے اسى كى تصديق كى _ پھر حضرت على نے ان كے بعد يہى كام انجام ديا _ (۱)

ابوجعفر الكافى معتزلى لكھتا ہے : تمام لوگوں نے يہى نقل كيا ہے كہ سبقت اسلام كا افتخار على سے مخصوص ہے _(۲) قطع نظر اس كے كہ پيغمبر اكرم (ص) سے،خود حضرت على (ع) سے اور صحابہ سے اس بارے ميں بہت سى روايات نقل ہوئي ہيں جو حد تواتر تك پہنچى ہوئي ہيں ،ذيل ميں چند روايات ہم نمونے كے طور پر نقل كرتے ہيں : پيغمبر اكر م(ص) نے فرمايا :

۱_پہلا شخص جو حوض كوثر كے كنارے ميرے پاس پہنچے گا وہ شخص ہے جو سب سے پہلے اسلام لايا اور وہ على بن ابى طالب ہے_(۳)

۲_ علماء اہل سنت كے ايك گروہ نے پيغمبر اكرم (ص) سے نقل كيا ہے كہ آنحضرت(ص) نے حضرت على (ع) كا ہاتھ پكڑكر فرمايا :

يہ پہلا شخص ہے جو مجھ پر ايمان لايا اور پہلا شخص ہے جو قيامت ميں مجھ سے مصافحہ كرے گا اور يہ ''صديق اكبر'' ہے _(۴)

۳_ابو سعيد خدرى رسول اكرم (ص) سے نقل كرتے ہيں كہ آنحضرت (ص) نے حضرت على عليہ السلام كے دونوں شانوں كے درميان ہاتھ ماركر فرمايا :''اے على (ع) : تم سات ممتاز صفات كے حامل ہو كہ جن كے بارے ميں روز قيامت كوئي تم سے حجت بازى نہيں كرسكتا _ تم وہ پہلے شخص ہو جو خدا پر ايمان لائے اور خدائي پيمانوں كے زيادہ وفادار ہو اور فرمان خداكى اطاعت ميں تم زيادہ قيام كرنيوالے ہو ''(۵)

____________________

(۱)الغدير ج ،۳ص۲۳۷

(۲)الغدير ج ،۳ص۲۳۷

(۳)الغديرميں يہ حديث مستدرك حاكم ج۲ص۶ ۱۳ ،استيعاب ج۲ ص ۴۵۷ اور شرح ابن ابى الحديد ج ۳ ص ۲۵۸ سے نقل كى گئي ہے

(۴) الغدير ہى ميں يہ حديث طبرانى اور بيہقى سے نقل كى گئي ہے نيز بيہقى نے مجمع ميں ، حافظ گنجى نے كفايہ اكمال ميں اور كنز العمال ميں نقل كى ہے

(۵) الغدير ميں يہ حديث حليتہ الاولياء ج اص ۶۶ كے حوالے سے نقل كى گئي ہے

۴۷۰

تحريف تاريخ

يہ امر لائق توجہ ہے كہ بعض لوگ ايسے بھى جوايمان اوراسلام ميں حضرت على كى سبقت كا سيدھے طريقے سے تو انكار نہيں كرسكے ليكن كچھ واضح البطلان علل كى بنياد پر ايك اور طريقے سے انكار كى كوشش كى ہے يا اسے كم اہم بنا كر پيش كيا ہے بعض نے كو شش كى ہے ان كى جگہ حضرت ابوبكر كو پہلا مسلمان قرار ديں يہ لوگ كبھى كہتے ہيں كہ على اس وقت دس سال كے تھے لہذا طبعاًنا با لغ تھے اس بناء پر ان كا اسلام ايك بچے كے اسلام كى حيثيت سے دشمن كے مقابلے ميں مسلمانوں كے محاذ كے ليے كوئي اہميت نہيں ركھتا تھا_(۱)

يہ بات واقعاً عجيب ہے اور حقيقت ميں خود پيغمبر خدا پر اعتراض ہے كيونكہ ہميں معلوم ہے كہ يوم الدار(دعوت ذى العشيرہ كے موقع پر )رسول اللہ (ص) نے اسلام اپنے قبيلے كے سامنے پيش كيا اور كسى نے حضرت علي(ع) كے سوا اسے قبول نہ كيا اس وقت حضرت على كھڑے ہوگئے اور اسلام كا اعلان كيا تو آپ نے ان كے اسلام كو قبول كيا بلكہ يہاں تك اعلان كيا كہ تو ميرے بھائي ،ميرا وصى اور ميرا خليفہ ہے _

يہ وہ حديث ہے جو شيعہ سنى حافظان حديث نے كتب صحاح اور مسانيد ميں نقل كى ہے، اسى طرح كئي مورخين اسلام نے اسے نقل كيا ہے يہ نشاندہى كرتى ہے كہ رسول اللہ (ص) نے حضرت على (ع) كى اس كم سنى ميں نہ صرف ان كا اسلام قبول كيا ہے بلكہ ان كا اپنے بھائي ، وصى اور جانشين كى حيثيت سے تعارف بھى كروايا ہے _(۲)

كبھى كہتے ہيں كہ عورتوں ميں پہلى مسلمان خديجہ تھيں ، مردوں ميں پہلے مسلمان ابوبكر تھے اور بچوں

____________________

(۱)يہ بات فخرالدين رازى نے اپنى تفسير ميں سورہ توبہ آيت ۱۰۰ كے ذيل ميں ذكر كى ہے

(۲)يہ حديث مختلف عبارات ميں نقل ہوئي ہے اور جو كچھ ہم نے بيان كيا ہے اسے ابو جعفر اسكافى نے كتاب ''نہج العثمانيہ'' ميں ،برہان الدين نے'' نجبا الانبا'' ميں ،ابن اثير نے كامل ميں اور بعض ديگر علماء نے نقل كيا ہے (مزيد وضاحت كے لئے الغدير،عربى كى جلد دوم ص۲۷۸ تا۲۸۶كى طرف رجوع كريں )

۴۷۱

ميں پہلے مسلمان على تھے يوں دراصل وہ اس امر كى اہميت كم كرنا چاہتے ہيں(۱)

حالانكہ اول تو جيسا كہ ہم كہہ چكے ہيں حضرت على عليہ السلام كى اہميت اس وقت كى سن سے اس امر كى اہميت كم نہيں ہوسكتى خصوصاً جب كہ قرآن حضرت يحيي(ع) كے بارے ميں كہتا ہے : ''ہم نے اسے بچپن كے عالم ميں حكم ديا''_(۲)

حضرت عيسى عليہ السلام كے بارے ميں بھى ہے كہ وہ بچپن كے عالم ميں بھى بول اٹھے اور افراد ان كے بارے ميں شك كرتے تھے ان سے كہا : ''ميں اللہ كا بندہ ہوں مجھے اس نے آسمانى كتاب دى اور مجھے نبى بنايا ہے ''_(۳)

ايسى آيات كو اگر ہم مذكورہ حديث سے ملاكرديكھيں كہ جس ميں آپ نے حضرت على (ع) كو اپنا وصي، خليفہ اور جانشين قرار ديا ہے توواضح ہوجاتاہے كہ صاحب المنار كى متعصبانہ گفتگو كچھ حيثيت نہيں ركھتى _

دوسرى بات يہ ہے كہ يہ امرتاريخى لحاظ سے مسلم نہيں ہے كہ حضرت ابوبكر اسلام لانے والے تيسرے شخص تھے بلكہ تاريخ وحديث كى بہت سى كتب ميں ان سے پہلے بہت سے افراد كے اسلام قبول كرنے ذكر ہے _ يہ بحث ہم اس نكتے پر ختم كرتے ہيں كہ حضرت على (ع) نے خود اپنے ارشادات ميں اس امر كى طرف اشارہ كيا ہے كہ ميں پہلا مومن ، پہلا مسلمان اور سول اللہ (ص) كے ساتھ پہلا نماز گذارہوں اور اس سے آپ نے اپنے مقام وحيثيت كو واضح كيا ہے يہ بات آپ سے بہت سى كتب ميں منقول ہے_

علاوہ ازيں ابن ابى الحديد مشہور عالم ابو جعفر اسكافى معتزلى سے نقل كرتے ہيں كہ يہ جو بعض لوگ كہتے ہيں كہ ابوبكر اسلام ميں سبقت ركھتے تھے اگر يہ امر صحيح ہے تو پھر خود انھوں نے اس سے كسى مقام پر اپنى فضيلت كے ليے استدلال كيوں نہيں كيا اور نہ ہى ان كے حامى كسى صحابى نے ايسا دعوى كيا ہے_(۴)

____________________

(۱)يہ تعبير مشہور اور متعصب مفسر مو لف المنارنے بھى سورہ توبہ آيت ۱۰۰كے ذيل ميں ذكر ہے

(۲)سورہ مريم آيت۱۲

(۳)سورہ مريم آيت ۳۰

(۴)الغدير ج۲ ص ۲۴۰

۴۷۲

دعوت ذوالعشيرة

تاريخ اسلام كى رو سے آنحضرت (ص) كو بعثت كے تيسرے سال اس دعوت كا حكم ہوا كيونكہ اب تك آپ كى دعوت مخفى طورپرجارى تھى اور اس مدت ميں بہت كم لوگوں نے اسلام قبول كيا تھا ،ليكن جب يہ آيت نازل ہوئي '' وانذر عشيرتك الا قربين ''(۱)

اور يہ آيت بھى '' فاصدع بما تومرواعرض عن المشركين ''(۲) تو آپ كھلم كھلا دعوت دينے پر مامور ہوگئے اس كى ابتداء اپنے قريبى رشتہ داروں سے كرنے كا حكم ہوا _

اس دعوت اور تبليغ كى اجمالى كيفيت كچھ اس طرح سے ہے : آنحضرت (ص) نے اپنے قريبى رشتہ داروں كو جناب ابوطالب كے گھر ميں دعوت دى اس ميں تقريباً چاليس افراد شريك ہوئے آپ كے چچائوں ميں سے ابوطالب، حمزہ اور ابولہب نے بھى شركت كى _

كھانا كھالينے كے بعد جب آنحضرت (ص) نے اپنا فريضہ ادا كرنے كا ارادہ فرمايا تو ابولہب نے بڑھ كر كچھ ايسى باتيں كيں جس سے سارا مجمع منتشر ہوگيالہذا آپ نے انھيں كل كے كھانے كى دعوت دے دى _

دوسرے دن كھانا كھانے كے بعد آپ نے ان سے فرمايا : '' اے عبد المطلب كے بيٹو: پورے عرب ميں مجھے كوئي ايسا شخص دكھائي نہيں ديتا جو اپنى قوم كے ليے مجھ سے بہتر چيز لايا ہو ، ميں تمہارے ليے دنيا اور آخرت كى بھلائي لے كر آيا ہوں اور خدا نے مجھے حكم ديا ہے كہ تمھيں اس دين كى دعوت دوں ، تم ميں سے كون

____________________

(۱) سورہ شعراء آيت ۲۱۴

(۲)سورہ حجرات آيہ ۹۴

۴۷۳

ہے جو اس كام ميں ميرا ہاتھ بٹائے تاكہ وہ ميرا بھائي ، ميرا وصى اور ميرا جانشين ہو'' ؟ سب لوگ خاموش رہے سوائے على بن ابى طالب كے جو سب سے كم سن تھے، على اٹھے اور عرض كى : ''اے اللہ كے رسول اس راہ ميں ميں آپ(ص) كا ياروومددگار ہوں گا'' آنحضرت (ص) نے اپنا ہاتھ على (ع) كى گردن پر ركھا اور فرمايا : ''ان ھذا اخى ووصى وخليفتى فيكم فاسمعوالہ واطيعوہ ''_ يہ (على (ع) ) تمہارے درميان ميرا بھائي ، ميرا وصى اور ميرا جانشين ہے اس كى باتوں كو سنو اور اس كے فرمان كى اطاعت كرو _ يہ سن كر سب لوگ اٹھ كھڑے ہوئے اور تمسخر آميز مسكراہٹ ان كے لبوں پر تھى ، ابوطالب (ع) سے سے كہنے لگے، ''اب تم اپنے بيٹے كى باتوں كو سنا كرو اور اس كے فرمان پر عمل كيا كرنا''_(۱)

اس روايت سے معلوم ہوتا ہے كہ آنحضرت (ص) ان دنوں كس حدتك تنہا تھے اور لوگ آپ كى دعوت كے جواب ميں كيسے كيسے تمسخرآميزجملے كہا كرتے تھے اور على عليہ السلام ان ابتدائي ايام ميں جب كہ آپ بالكل تنہا تھے كيونكر آنحضرت (ص) كے مدافع بن كر آپ كے شانہ بشانہ چل رہے تھے_

ايك اور روايت ميں ہے كہ پيغمبراكرم (ص) نے اس وقت قريش كے ہر قبيلے كا نام لے لے كر انھيں بلايا اور انھيں جہنم كے عذاب سے ڈرايا، كبھى فرماتے:'' يابنى كعب انقذواانفسكم من النار ''_

اے بنى كعب : خود كو جہنم سے بچائو، كبھى فرماتے : ''يا بنى عبد الشمس'' __ كبھى فرماتے :'' يابنى عبدمناف'' _كبھى فرماتے : ''يابنى ہاشم ''_كبھى فرماتے : ''يابنى عبد المطلب انقذ وانفسكم النار ''_ تم خودہى اپنے آپ كو جہنم سے بچائو ، ورنہ كفر كى صورت ميں ميں تمہارا دفاع نہيں كرسكوں گا _

____________________

(۱)اس روايت كو بہت سے اہل سنت علماء نے نقل كيا ہے جن ميں سے چند ايك كے نام يہ ہيں :

ابن ابى جرير، ابن ابى حاتم ، ابن مردويہ ، ابونعيم ، بيہقى ، ثعلبى اور طبرى مورخ ابن اثير نے يہ واقعہ اپنى كتاب '' كامل '' ميں اور '' ابوالفداء '' نے اپنى تاريخ ميں اور دوسرے بہت سے مورخين نے اپنى اپنى كتابوں ميں اسے درج كيا ہے مزيد اگاہى كے لئے كتاب'' المرجعات ''ص۱۳۰ كے بعد سے اور كتاب ''احقاق الحق''ج۲،ص۶۲ ملاحظہ فرمائيں

۴۷۴

ايمان ابوطالب

تمام علمائے شيعہ اور اہل سنت كے بعض بزرگ علماء مثلاً ''ابن ابى الحديد''شارح نہج البلاغہ نے اور''قسطلاني'' نے ارشاد السارى ميں اور'' زينى دحلان'' نے سيرةحلبى كے حاشيہ ميں حضرت ابوطالب كو مومنين اہل اسلام ميں سے بيان كيا ہے_اسلام كى بنيادى كتابوں كے منابع ميں بھى ہميں اس موضوع كے بہت سے شواہد ملتے ہيں كہ جن كے مطالعہ كے بعد ہم گہرے تعجب اور حيرت ميں پڑجاتے ہيں كہ حضرت ابوطالب پرايك گروہ كى طرف سے اس قسم كى بے جا تہميں كيوں لگائي گئيں ؟

جو شخص اپنے تمام وجود كے ساتھ پيغمبر اسلام كا دفاع كيا كرتا تھا اور بار ہا خوداپنے فرزند كو پيغمبراسلام كے وجود مقدس كو بچانے كے لئے خطرات كے مواقع پر ڈھال بناديا كرتا تھايہ كيسے ہوسكتا ہے كہ اس پر ايسى تہمت لگائي جائے_

يہى سبب ہے كہ دقت نظر كے ساتھ تحقيق كرنے والوں نے يہ سمجھا ہے كہ حضرت ابوطالب كے خلاف، مخالفت كى لہر ايك سياسى ضرورت كى وجہ سے ہے جو '' شجرہ خبيثہ بنى اميّہ'' كى حضرت على عليہ السلام كے مقام ومرتبہ كى مخالفت سے پيداہوئي ہے_

كيونكہ يہ صرف حضرت ابوطالب كى ذات ہى نہيں تھى كہ جو حضرت على عليہ السلام كے قرب كى وجہ سے ايسے حملے كى زد ميں آئي ہو ،بلكہ ہم ديكھتے ہيں كہ ہر وہ شخص جو تاريخ اسلام ميں كسى طرح سے بھى اميرالمومنين حضرت على عليہ السلام سے قربت ركھتا ہے ايسے ناجو انمردانہ حملوں سے نہيں بچ سكا، حقيقت ميں

۴۷۵

حضرت ابوطالب كا كوئي گناہ نہيں تھا سوائے اس كے وہ حضرت على عليہ السلام جيسے عظيم پيشوائے اسلام كے باپ تھے_

ايمان ابو طالب پر سات دليل

ہم يہاں پر ان بہت سے دلائل ميں سے جو واضح طور پر ايمان ابوطالب كى گواہى ديتے ہيں كچھ دلائل مختصر طور پر فہرست وار بيان كرتے ہيں تفصيلات كے لئے ان كتابوں كى طرف رجوع كريں جو اسى موضوع پر لكھى گئي ہيں _

۱_ حضرت ابوطالب پيغمبر اكرم (ص) كى بعثت سے پہلے خوب اچھى طرح سے جانتے تھے كہ ان كا بھتيجا مقام نبوت تك پہنچے گا كيونكہ مورخين نے لكھا ہے كہ جس سفر ميں حضرت ابوطالب قريش كے قافلے كے ساتھ شام گئے تھے تو اپنے بارہ سالہ بھتجے محمد (ص) كو بھى اپنے ساتھ لے گئے تھے _ اس سفر ميں انہوں نے آپ سے بہت سى كرامات مشاہدہ كيں _

ان ميں ايك واقعہ يہ ہے كہ جو نہيں قافلہ ''بحيرا''نامى راہب كے قريب سے گزرا جو قديم عرصے سے ايك گرجے ميں مشغول عبادت تھا اور كتب عہدين كا عالم تھا ،تجارتى قافلے اپنے سفر كے دوران اس كى زيارت كے لئے جاتے تھے، توراہب كى نظريں قافلہ والوں ميں سے حضرت محمد (ص) پر جم كررہ گئيں ، جن كى عمراس وقت بارہ سال سے زيادہ نہ تھى _

بحيرانے تھوڑى دير كے لئے حيران وششدر رہنے اور گہرى اور پُرمعنى نظروں سے ديكھنے كے بعد كہا:يہ بچہ تم ميں سے كس سے تعلق ركھتا ہے؟لوگوں نے ابوطالب كى طرف اشارہ كيا، انہوں نے بتايا كہ يہ ميرا بھتيجا ہے_

'' بحيرا'' نے كہا : اس بچہ كا مستقبل بہت درخشاں ہے، يہ وہى پيغمبر ہے كہ جس كى نبوت ورسالت كى آسمانى كتابوں نے خبردى ہے اور ميں نے اسكى تمام خصوصيات كتابوں ميں پڑھى ہيں _

ابوطالب اس واقعہ اور اس جيسے دوسرے واقعات سے پہلے دوسرے قرائن سے بھى پيغمبر اكرم (ص) كى

۴۷۶

نبوت اور معنويت كو سمجھ چكے تھے _

اہل سنت كے عالم شہرستانى (صاحب ملل ونحل) اور دوسرے علماء كى نقل كے مطابق: ''ايك سال آسمان مكہ نے اپنى بركت اہل مكہ سے روك لى اور سخت قسم كى قحط سالى نے لوگوں كوگھير لياتو ابوطالب نے حكم ديا كہ ان كے بھتيجے محمد كو جو ابھى شير خوارہى تھے لاياجائے، جب بچے كو اس حال ميں كہ وہ ابھى كپڑے ميں لپيٹا ہوا تھا انہيں ديا گيا تو وہ اسے لينے كے بعد خانہ كعبہ كے سامنے كھڑے ہوگئے اور تضرع وزارى كے ساتھ اس طفل شير خوار كو تين مرتبہ اوپر كى طرف بلند كيا اور ہر مرتبہ كہتے تھے، پروردگارا، اس بچہ كے حق كا واسطہ ہم پر بركت والى بارش نازل فرما _

كچھ زيادہ دير نہ گزرى تھى كہ افق كے كنارے سے بادل كا ايك ٹكڑا نمودار ہوا اور مكہ كے آسمان پر چھا گيا اور بارش سے ايسا سيلاب آيا كہ يہ خوف پيدا ہونے لگا كہ كہيں مسجد الحرام ہى ويران نہ ہوجائے ''_

اس كے بعد شہرستانى لكھتا ہے كہ يہى واقعہ جوابوطالب كى اپنے بھتيجے كے بچپن سے اس كى نبوت ورسالت سے آگاہ ہونے پر دلالت كرتا ہے ان كے پيغمبر پر ايمان ركھنے كا ثبوت بھى ہے اور ابوطالب نے بعد ميں اشعار ذيل اسى واقعہ كى مناسبت سے كہے تھے :

و ابيض يستسقى الغمام بوجهه

ثمال اليتامى عصمة الارامل

'' وہ ايسا روشن چہرے والا ہے كہ بادل اس كى خاطر سے بارش برساتے ہيں وہ يتيموں كى پناہ گاہ اور بيوائوں كے محافظ ہيں ''

يلوذ به الهلاك من آل هاشم

فهم عنده فى نعمة و فواضل

'' بنى ہاشم ميں سے جوچل بسے ہيں وہ اسى سے پناہ ليتے ہيں اور اسى كے صدقے ميں نعمتوں اور احسانات سے بہرہ مند ہوتے ہيں ،،

۴۷۷

وميزان عدلہ يخيس شعيرة

ووزان صدق وزنہ غير ہائل

'' وہ ايك ايسى ميزان عدالت ہے كہ جو ايك جَوبرابر بھى ادھرادھر نہيں كرتا اور درست كاموں كا ايسا وزن كرنے والا ہے كہ جس كے وزن كرنے ميں كسى شك وشبہ كا خوف نہيں ہے ''

قحط سالى كے وقت قريش كا ابوطالب كى طرف متوجہ ہونا اور ابوطالب كا خدا كو آنحضرت كے حق كا واسطہ دينا شہرستانى كے علاوہ اور دوسرے بہت سے عظيم مورخين نے بھى نقل كيا ہے _''(۱)

اشعار ابوطالب زندہ گواہ

۲_اس كے علاوہ مشہور اسلامى كتابوں ميں ابوطالب كے بہت سے اشعار ايسے ہيں جو ہمارى دسترس ميں ہيں ان ميں سے كچھ اشعار ہم ذيل ميں پيش كررہے ہيں :

والله ان يصلواليك بجمعهم

حتى اوسدفى التراب دفينا

''اے ميرے بھتيجے خدا كى قسم جب تك ابوطالب مٹى ميں نہ سوجائے اور لحد كو اپنا بستر نہ بنالے دشمن ہرگز ہرگز تجھ تك نہيں پہنچ سكيں گے''

فاصدع بامرك ماعليك غضاضته

وابشربذاك وقرمنك عيونا

''لہذا كسى چيز سے نہ ڈراور اپنى ذمہ دارى اور ماموريت كا ابلاع كر، بشارت دے اور آنكھوں كو ٹھنڈا كر''_

____________________

(۱) علامہ امينى نے اسے اپنى كتاب''الغدير'' ميں '' شرح بخاري'' ،''المواہب اللدنيہ'' ،'' الخصائص الكبرى '' ،'' شرح بہجتہ المحافل'' ،''سيرہ حلبي''، '' سيرہ نبوي'' اور '' طلبتہ الطالب'' سے نقل كيا ہے

۴۷۸

ودعوتنى وعلمت انك ناصحي

ولقد دعوت وكنت ثم امينا

''تونے مجھے اپنے مكتب كى دعوت دى اور مجھے اچھى طرح معلوم ہے كہ تيرا ہدف ومقصد صرف پندو نصيحت كرنا اور بيدار كرنا ہے، تو اپنى دعوت ميں امين اور صحيح ہے''

ولقد علمت ان دين محمد(ص)

من خير اديان البرية ديناً

'' ميں يہ بھى جانتا ہوں كہ محمد كا دين ومكتب تمام دينوں اور مكتبوں ميں سب سے بہتردين ہے''_

اور يہ اشعار بھى انہوں نے ہى ارشاد فرمائے ہيں :

الم تعلمواانا وجدنا محمد اً

رسولا كموسى خط فى اول الكتب

'' اے قريش كيا تمہيں معلوم نہيں ہے كہ محمد( (ص) )موسى (عليہ السلام) كى مثل ہيں اور موسى عليہ السلام كے مانند خدا كے پيغمبر اور رسول ہيں جن كے آنے كى پيشين گوئي پہلى آسمانى كتابوں ميں لكھى ہوئي ہے اور ہم نے اسے پالياہے''_

وان عليه فى العباد محبة

ولاحيف فى من خصه الله فى الحب

'' خدا كے بندے اس سے خاص لگائو ركھتے ہيں اور جسے خدا وندمتعال نے اپنى محبت كے لئے مخصوص كرليا ہو اس شخص سے يہ لگائوبے موقع نہيں ہے_''

ابن ابى الحديد نے جناب ابوطالب كے كافى اشعار نقل كرنے كے بعد (كہ جن كے مجموعہ كو ابن شہر آشوب نے '' متشابہات القرآن'' ميں تين ہزار اشعار كہا ہے) كہتا ہے : ''ان تمام اشعار كے مطالعہ سے ہمارے لئے كسى قسم كے شك وشبہ كى كوئي گنجائش باقى نہيں رہ جاتى كہ ابوطالب اپنے بھتيجے كے دين پر ايمان

۴۷۹

ركھتے تھے''_

۳_ پيغمبر اكرم (ص) سے بہت سى ايسى احاديث بھى نقل ہوئي ہيں جو آنحضرت (ص) كى ان كے فدا كار چچا ابوطالب كے ايمان پر گواہى ديتى ہيں منجملہ ان كے كتاب '' ابوطالب مومن قريش'' كے مولف كى نقل كے مطابق ايك يہ ہے كہ جب ابوطالب كى وفات ہوگئي تو پيغمبر اكرم (ص) نے ان كى تشيع جنازہ كے بعد اس سوگوارى كے ضمن ميں جو اپنے چچا كى وفات كى مصيبت ميں آپ كررہے تھے آپ يہ بھى كہتے تھے:

''ہائے ميرے بابا ہائے ابوطالب ميں آپ كى وفات سے كس قدر غمگين ہوں كس طرح آپ كى مصيبت كو ميں بھول جائوں ، اے وہ شخص جس نے بچپن ميں ميرى پرورش اور تربيت كى اور بڑے ہونے پر ميرى دعوت پر لبيك كہى ، ميں آپ كے نزديك اس طرح تھا جيسے آنكھ خانہ چشم ميں اور روح بدن ميں ''_

نيز آپ ہميشہ يہ كيا كرتے تھے :''مانالت منى قريش شيئًااكرهه حتى مات ابوطالب ''

''اہل قريش اس وقت تك كبھى ميرے خلاف ناپسنديدہ اقدام نہ كرسكے جب تك ابوطالب كى وفات نہ ہوگئي''_

۴_ ايك طرف سے يہ بات مسلم ہے كہ پيغمبر اكرم (ص) كو ابوطالب كى وفات سے كئي سال پہلے يہ حكم مل چكا تھا كہ وہ مشركين كے ساتھ كسى قسم كا دوستانہ رابطہ نہ ركھيں ،اس كے باوجود ابوطالب كے ساتھ اس قسم كے تعلق اور مہرو محبت كا اظہار اس بات كى نشاندہى كرتا ہے كہ پيغمبر اكرم (ص) انھيں مكتب توحيد كا معتقد جانتے تھے، ورنہ يہ بات كس طرح ممكن ہوسكتى تھى كہ دوسروں كو تو مشركين كى دوستى سے منع كريں اور خود ابوطالب سے عشق كى حدتك مہرومحبت ركھيں _

۵_ان احاديث ميں بھى كہ جو اہل بيت پيغمبر كے ذريعہ سے ہم تك پہنچى ہيں حضرت ابوطالب كے ايمان واخلاص كے بڑى كثرت سے مدارك نظر آتے ہيں ، جن كا يہاں نقل كرنا طول كا باعث ہوگا، يہ احاديث منطقى استدلالات كى حامل ہيں ان ميں سے ايك حديث چوتھے امام عليہ السلام سے نقل ہوئي ہے اس ميں امام عليہ السلام نے اس سوال كے جواب ميں كہ كيا ابوطالب مومن تھے؟ جواب دينے كے بعد ارشاد فرمايا:

۴۸۰

''ان ھنا قوماً يزعمون انہ كافر'' ، اس كے بعد فرماياكہ: '' تعجب كى بات ہے كہ بعض لوگ يہ كيوں خيال كرتے ہيں كہ ابوطالب كا فرتھے_ كيا وہ نہيں جانتے كہ وہ اس عقيدہ كے ساتھ پيغمبر(ص) اور ابوطالب پر طعن كرتے ہيں كيا ايسا نہيں ہے كہ قرآن كى كئي آيات ميں اس بات سے منع كيا گيا ہے (اور يہ حكم ديا گيا ہے كہ ) مومن عورت ايمان لانے كے بعد كافر كے ساتھ نہيں رہ سكتى اور يہ بات مسلم ہے كہ فاطمہ بنت اسدرضى اللہ عنہا سابق ايمان لانے والوں ميں سے ہيں اور وہ ابوطالب كى زوجيت ميں ابوطالب كى وفات تك رہيں _''

ابوطالب تين سال تك شعب ميں

۶_ان تمام باتوں كو چھوڑتے ہوئے اگرانسان ہر چيز ميں ہى شك كريں تو كم از كم اس حقيقت ميں تو كوئي شك نہيں كرسكتا كہ ابوطالب اسلام اور پيغمبر اكرم (ص) كے درجہ اول كے حامى ومددگار تھے ، ان كى اسلام اور پيغمبر كى حمايت اس درجہ تك پہنچى ہوئي تھى كہ جسے كسى طرح بھى رشتہ دارى اور قبائلى تعصبات سے منسلك نہيں كيا جاسكتا _

اس كا زندہ نمونہ شعب ابوطالب كى داستان ہے_ تمام مورخين نے لكھا ہے كہ جب قريش نے پيغمبر اكرم (ص) اور مسلمانوں كا ايك شديد اقتصادي، سماجى اور سياسى بائيكاٹ كرليا اور اپنے ہر قسم كے روابط ان سے منقطع كرلئے تو آنحضرت (ص) كے واحد حامى اور مدافع، ابوطالب نے اپنے تمام كاموں سے ہاتھ كھينچ ليا اور برابر تين سال تك ہاتھ كھينچے ركھا اور بنى ہاشم كو ايك درہ كى طرف لے گئے جو مكہ كے پہاڑوں كے درميان تھا اور ''شعب ابوطالب'' كے نام سے مشہور تھا اور وہاں پر سكونت اختيار كر لي_

ان كى فدا كارى اس مقام تك جا پہنچى كہ قريش كے حملوں سے بچانے كےلئے كئي ايك مخصوص قسم كے برج تعميركرنے كے علاوہ ہر رات پيغمبر اكرم (ص) كو ان كے بستر سے اٹھاتے اور دوسرى جگہ ان كے آرام كے لئے مہيا كرتے اور اپنے فرزند دلبند على كو ان كى جگہ پر سلاديتے اور جب حضرت على كہتے: ''بابا جان ميں تو اسى حالت ميں قتل ہوجائوں گا '' تو ابوطالب جواب ميں كہتے :ميرے پيارے بچے بردبارى اور صبر ہاتھ

۴۸۱

سے نہ چھوڑو، ہر زندہ موت كى طرف رواں دواں ہے، ميں نے تجھے فرزند عبد اللہ كا فديہ قرار ديا ہے _

يہ بات اور بھى طالب توجہ ہے كہ جو حضرت على عليہ السلام باپ كے جواب ميں كہتے ہيں كہ بابا جان ميرا يہ كلام اس بناپر نہيں تھا كہ ميں راہ محمد ميں قتل ہونے سے ڈرتاہوں ، بلكہ ميرا يہ كلام اس بنا پر تھا كہ ميں يہ چاہتا تھا كہ آپ كو معلوم ہوجائے كہ ميں كس طرح سے آپ كا اطاعت گزار اور احمد مجتبى كى نصرت ومدد كے لئے آمادہ و تيار ہوں _

قارئين كرام ہمارا عقيدہ يہ ہے كہ جو شخص بھى تعصب كو ايك طرف ركھ كر غير جانبدارى كے ساتھ ابوطالب كے بارے ميں تاريخ كى سنہرى سطروں كو پڑھے گا تو وہ ابن ابى الحديد شارح نہج البلاغہ كا ہمصدا ہوكر كہے گا :

ولولا ابوطالب وابنه لما مثل الدين شخصا وقاما

فذاك بمكة آوى وحامي وهذا بيثرب جس الحماما

'' اگر ابوطالب اور ان كا بيٹا نہ ہوتے تو ہرگزمكتب اسلام باقى نہ رہتا اور اپنا قدسيدھا نہ كرتا ،ابوطالب تو مكہ ميں پيغمبر كى مدد كےلئے آگے بڑھے اور على يثرب (مدينہ) ميں حمايت اسلام كى راہ ميں گرداب موت ميں ڈوب گئے''

ابوطالب كا سال وفات ''عام الحزن

'' ۷_''ابوطالب كى تايخ زندگي، جناب رسالت مآب (ص) كے لئے ان كى عظيم قربانياں اور رسول اللہ اور مسلمانوں كى ان سے شديد محبت كو بھى ملحوظ ركھنا چاہئے ہم يہاں تك ديكھتے ہيں كہ حضرت ابوطالب كى موت كے سال كا نام ''عام الحزن'' ركھا يہ سب باتيں اس امر كى دليل ہيں كہ حضرت ابوطالب كو اسلام سے عشق تھا اور وہ جو پيغمبر اسلام كى اس قدر مدافعت كرتے تھے وہ محض رشتہ دارى كى وجہ سے نہ تھى بلكہ اس دفاع ميں آپ كى حيثيت ايك مخلص، ايك جاں نثار اور ايسے فدا كار كى تھى جو اپنے رہبر اور پيشوا كا تحفظ كررہا ہو_''

۴۸۲

ابولہب كى دشمني

اس كانام '' عبدالعزي'' (عزى بت كا بندہ ) اور اس كى كنيت ''ابولہب'' تھي_ اس كے ليے اس كنيت كا انتخاب شايد اس وجہ سے تھا كہ اس كا چہرہ سرخ اور بھڑكتا ہوا تھا، چونكہ لغت ميں لہب آگ كے شعلہ كے معنى ميں ہے _

وہ اور اس كى بيوى ''ام جميل''جو ابوسفيان كى بہن تھى ، پيغمبر اكرم (ص) كے نہايت بدزبان اور سخت ترين دشمنوں ميں سے تھے _

''طارق محارق '' نامى ايك شخص كہتاہے : ميں '' ذى المجاز '' كے بازار ميں تھا _(۱)

اچانك ميں نے ايك جوان كو ديكھا جو پكار پكار كر كہہ رہا تھا: اے لوگو: لاالہ الا اللہ كا اقرار كر لو تو نجات پاجائوگے _ اور اس كے پيچھے پيچھے ميں نے ايك شخص كو ديكھا جو اس كے پائوں كے پچھلے حصہ پرپتھر مارتاجاتاہے جس كى وجہ سے اس كے پائوں سے خون جارى تھا اوروہ چلا چلا كر كہہ رہاتھا _اے لوگو يہ جھوٹاہے اس كى بات نہ ماننا ''_

ميں نے پوچھا كہ يہ جوان كون ہے ؟ تو لوگوں نے بتايا :'' يہ محمد، ، (ص) ہے جس كا گمان يہ ہے كہ وہ پيغمبر ہے اور يہ بوڑھا اس كا چچا ابولہب ہے جو جو اس كو جھوٹا سمجھتا ہے _

____________________

(۱)ذى المجار عرفات كے نزديك مكہ سے تھوڑے سے فاصلہ پر ہے

۴۸۳

''ربيع بن عباد'' كہتا ہے : ميں اپنے باپ كے ساتھ تھا، ميں نے رسول اللہ (ص) كو ديكھاكہ وہ قبائل عرب كے پاس جاتے اور ہر ايك كو پكار كر كہتے : ميں تمہارى طرف خدا كا بھيجا ہوا رسول ہوں : تم خدائے يگانہ كے سوا اور كسى كى عبادت نہ كرو اور كسى كو اس كا شريك نہ بنائو _

جب وہ اپنى بات سے فارغ ہوجاتاتو ايك خوبرو بھينگا آدمى جو ان كے پيچھے پيچھے تھا، پكاركركہتا : اے فلاں قبيلے : يہ شخص يہ چاہتاہے كہ تم لات وعزى بت اور اپنے ہم پيمان جنوں كو چھوڑدو اور اس كى بدعت وضلالت كى پيروى كرنے لگ جائواس كى نہ سننا، اور اس كى پيروى نہ كرنا ''_

ميں نے پوچھا كہ يہ كون ہے ؟ تو انہوں نے بتايا كہ يہ '' اس كا چچا ابولہب ہے ''_

ابولہب پيغمبر كا پيچھا كرتارہا

جب مكہ سے باہر كے لوگوں كا كوئي گروہ اس شہر ميں داخل ہوتا تھا تو وہ پيغمبر (ص) سے اس كى رشتہ دارى اور سن وسال كے لحاظ سے بڑاہونے كى بناپر ابولہب كے پاس جاتاتھا اور رسول اللہ (ص) كے بارے ميں تحقيق كرتا تھا وہ جواب ديتا تھا: محمد ايك جادوگر ہے ،وہ بھى پيغمبر سے ملاقات كئے بغير ہى لوٹ جاتے اسى اثناء ميں ايك ايسا گروہ آيا جنہوں نے يہ كہا كہ ہم تو اسے ديكھے بغير واپس نہيں جائيں گے ابولہب نے كہا : ''ہم مسلسل اس كے جنون كا علاج كررہے ہيں : وہ ہلاك ہوجائے ''_

وہ اكثر مواقع پر سايہ كى طرح پيغمبر كے پيچھے لگارہتا تھا اور كسى خرابى سے فروگذاشت نہ كرتا تھا خصوصاً اس كى زبان بہت ہى گندى اور آلودہ ہوتى تھى اور وہ ركيك اورچبھنے والى باتيں كيا كرتا تھا اور شايد اسى وجہ سے پيغمبر اسلام (ص) كے سب دشمنوں كا سرغنہ شمار ہوتا تھا اسى بناء پر قرآن كريم اس پر اور اس كى بيوى ام جميل پر ايسى صراحت اور سختى كے ساتھ تنقيد كررہاہے وہى ايك اكيلا ايسا شخص تھا جس نے پيغمبر اكرم (ص) سے بنى ہاشم كى حمايت كے عہد وپيمان پر دستخط نہيں كئے تھے اور اس نے آپ كے دشمنوں كى صف ميں رہتے ہوئے دشمنوں كے عہد وپيمان ميں شركت كى تھي_

۴۸۴

ابو لہب كے ہاتھ كٹ جائيں

''ابن عباس ''سے نقل ہوا ہے كہ جس وقت آيہ ''ونذر عشيرتك الاقربين'' _نازل ہوئي اور پيغمبر (ص) اپنے قريبى رشتہ داروں كو انذار كرنے اور اسلام كى دعوت دينے پر مامور ہوئے،تو پيغمبر(ص) كوہ صفا پرآئے اور پكار كر كہا''يا صباحاہ''(يہ جملہ عرب اس وقت كہتے تھے جب ان پر دشمن كى طرف سے غفلت كى حالت ميں حملہ ہو جاتا تھاتا كہ سب كو با خبر كرديں اور وہ مقابلہ كے ليے كھڑے ہو جائيں ،لہذا كوئي شخص''يا صباحاہ''كہہ كر آواز ديتا تھا''صباح''كے لفظ كا انتخاب اس وجہ سے كيا جاتا تھا كہ عام طور پر غفلت كى حالت ميں حملے صبح كے دقت كيے جاتے تھے_

مكہ كے لوگوں نے جب يہ صدا سنى تو انہوں نے كہا كہ يہ كون ہے جو فرياد كررہا ہے_

كہا گيا كہ يہ''محمد'' (ص) ہيں _ كچھ لوگ آپ(ص) كے پاس پہنچے تو آپ(ص) نے قبائل عرب كو ان كے نام كے ساتھ پكارا_ آپ(ص) كى آواز پر سب كے سب جمع ہوگئے تو آپ(ص) نے ان سے فرما يا:

''مجھے بتلائو اگر ميں تمہيں يہ خبر دوں كہ دشمن كے سوار اس پہاڑ كے پيچھے سے حملہ كرنے والے ہيں ،تو كيا تم ميرى بات كى تصديق كروگے''_

انہوں نے جواب ديا:''ہم نے آپ(ص) سے كبھى بھى جھوٹ نہيں سنا''_

آپ (ص) نے فرمايا:

''انى نذير لكم بين يدى عذاب شديد'' _

''ميں تمہيں خدا كے شديد عذاب سے ڈراتا ہوں ''_

(''ميں تمہيں توحيدكا اقرار كرنے او ربتوں كو ترك كرنے كى دعوت ديتا ہوں '')جب ابو لہب نے يہ بات سنى تو اس نے كہا:

''تبالكا ما جمعتنا الا لهذا؟ ''_

۴۸۵

تو ہلاك ہو جائے كيا تو نے ہميں صرف اس بات كے ليے جمع كيا ہے''؟

اس مو قع پر يہ سورہ نازل ہوا :

(تبت يداا بى لهب وتب )(۱)

اے ابو لہب تو ہى ہلاك ہو اور تيرے ہاتھ ٹوٹيں ،تو ہى زياں كار اور ہلاك ہونے والاہے،اس كے مال وثروت نے اور جو كچھ اس نے كمايا ہے اس نے، اسے ہر گز كوئي فائدہ نہيں ديا اور وہ اسے عذاب الہى سے نہيں بچائے گا''_

اس تعبير سے معلوم ہوتا ہے كہ وہ ايك دولت مند مغرور شخص تھا جواپنى اسلام دشمن كوششوں كے لئے اپنے مال ودولت پر بھروسہ كرتاتھا_

بعدميں قرآن مزيے كہتا ہے،''وہ جلدى ہى اس آگ ميں داخل ہوگا جس كے شعلے بھڑكنے والے ہيں ''_(۲)

اگر اس كا نام ''ابو لہب''ہے تو اس كے لئے عذاب بھي''بو لہب''ہے يعنى اس كے لئے بھڑگتے ہوئے اگ كے شعلہ ہيں _

ايندھن اٹھائے ہوئے

قرآن كريم نے اس كے بعد اس كى بيوى ''ام جميل '' كى كيفيت بيان كرتے ہوئے فرماياہے :''اس كى بيوى بھى جہنم كى بھڑكتى ہوئي آگ ميں داخل ہوگى ، جو اپنے د وش پر ايندھن اٹھاتى ہے''_(۳)

''اور اس كى گردن ميں خرماكى چھال كى رسى يا گردن بند ہے ''_(۴) ''فى جيدھا حبل من مسد''

____________________

(۱)سورہ مسد آيت۱ تا ۲

(۲)سورہ مسدآيت۳

(۳)سورہ مسد آيت ۴

(۴)سورہ مسد آيت ۴

۴۸۶

''مسد'' (بروزن حسد) اس رسى كے معنى ميں ہے جو كھجور كے پتوں سے بنائي جاتى ہے _ بعض نے يہ كہا ہے كہ ''مسد'' وہ رسى ہے جو جہنم ميں اس كى گردن ميں ڈاليں گے جس ميں كھجور كے پتوں جيسى سختى ہوگى اور اس ميں آگ كى حرارت اور لوہے كى سنگينى ہوگى _

بعض نے يہ بھى كہا ہے كہ چونكہ بڑے لوگوں كى عورتيں اپنى شخصيت كو آلات وزيورات خصوصا ًگردن كے قيمتى زيورات سے زينت دينے ميں خاص بات سمجھتى ہيں ،لہذا خدا قيامت ميں اس مضراوروخود پسند عورت كى تحقير كے ليے ليف خرما كا ايك گردن بند اس كى گردن ميں ڈال دے گايا يہ اصلا اس كى تحقير سے كنايہ ہے _

بعض نے يہ بھى كہا ہے كہ اس تعبير كے بيان كرنے كا سبب يہ ہے كہ '' ام جميل '' كے پاس جواہرات كا ايك بہت ہى قيمتى گردن بند تھااور اس نے يہ قسم كھائي تھى كہ وہ اسے پيغمبراكرم (ص) كى دشمنى ميں خرچ كرے گى لہذا اس كے اس كام كے بدلے ميں خدا نے بھى اس كے لئے ايسا عذاب مقرر كرديا ہے _

ابولہب كاعبرت ناك انجام

روايات ميں ايا ہے كہ جنگ''بدر''اور سخت شكست كے بعد ،جو مشركين قريش كو اٹھانى پڑى تھى ، ابولہب نے جوخود ميدان جنگ ميں شريك نہيں ہوا تھا ،ابوسفيان كے واپس آنے پر اس ماجرے كے بارے ميں سوال كيا،ابو سفيان كے قريش كے لشكر كى شكست اور سركوبى كى كيفيت بيان كي، اس كے بعد اس نے مزيد كہا :خدا كى قسم ہم نے اس جنگ ميں آسمان وزمين كے درميان ايسے سوار ديكھے ہيں جو محمد كى مدد كے ليے آئے تھے _

اس موقع پر'' عباس '' كے ايك غلام ''ابورافع ''نے كہا :ميں وہاں بيٹھاہوا تھا ،ميں نے اپنے ہاتھ بلند كيے اور كہا كہ وہ آسمانى فرشتے تھے _

اس سے ابولہب بھڑك اٹھا اور اس نے ايك زوردار تھپڑميرے منہ پر دے مارا ، مجھے اٹھاكر زمين پر

۴۸۷

پٹخ ديا اور اپنے دل كى بھڑاس نكالنے كے ليے مجھے پيٹے چلے جارہا تھا وہاں عباس كى بيوي''ام الفضل'' بھى موجود تھى اس نے ايك چھڑى اٹھائي اور ابولہب كے سرپر دے مارى اور كہا :''كيا تونے اس كمزور آدمى كو اكيلاسمجھا ہے ؟ ''

ابولہب كا سرپھٹ گيا اور اس سے خون بہنے لگا سات دن كے بعد اس كے بدن ميں بدبو پيدا ہوگئي ، اس كى جلد ميں طاعون كى شكل كے دانے نكل آئے اور وہ اسى بيمارى سے واصل جہنم ہوگيا _

اس كے بدن سے اتنى بدبو آرہى تھى كہ لوگ اس كے نزديك جانے كى جرات نہيں كرتے تھے وہ اسے مكہ سے باہر لے گئے اور دور سے اس پر پانى ڈالا اور اس كے بعد اس كے اوپر پتھر پھينكے يہاں تك كہ اس كا بدن پتھروں اور مٹى كے نيچے چھپ گيا _

۴۸۸

ابوسفيان وابوجہل چھپ كر قرآن سنتے ہيں

ايك شب ابوسفيان ،ابوجہل اور مشركين كے بہت سے دوسرے سردارجدا گانہ طور پر اور ايك دوسرے سے چھپ كر آنحضرت (ص) سے قرآن سننے كے لئے آگئے آپ اس وقت نماز پڑھنے ميں مشغول تھے اور ہر ايك ، ايك دوسرے سے بالكل بے خبر عليحدہ عليحدہ مقامات پر چھپ كر بيٹھ گئے چنانچہ وہ رات گئے تك قرآن سنتے رہے اور جب واپس پلٹنے لگے تو اس وقت صبح كى سفيدى نمودار ہوچكى تھى _اتفاق سے سب نے واپسى كے ليے ايك ہى راستے كا انتخاب كيا اور ان كى اچانك ايك دوسرے سے ملاقات ہوگئي اور ان كا بھانڈا وہيں پر پھوٹ گيا انھوں نے ايك دوسرے كوملامت كى اور اس بات پر زورديا كہ آئندہ ايسا كام نہيں كريں گے ، اگر نا سمجھ لوگوں كو پتہ چل گيا تو وہ شك وشبہ ميں پڑجائيں گے _

دوسرى اور تيسرى رات بھى ايسا ہى اتفاق ہوا اور پھروہى باتيں دہرائي گئيں اور آخرى رات تو انھوں نے كہا جب تك اس بات پر پختہ عہد نہ كرليں اپنى جگہ سے ہليں نہيں چنانچہ ايسا ہى كيا گيا اور پھر ہر ايك نے اپنى راہ لى _اسى رات كى صبح اخنس بن شريق نامى ايك مشرك اپنا عصالے كر سيدھا ابوسفيان كے گھر پہنچا اور اسے كہا : تم نے جو كچھ محمدسے سناہے اس كے بارے ميں تمہارى كيا رائے ہے ؟

اس نے كہا:خدا قسم : كچھ مطالب ايسے سنے ہيں جن كا معنى بخوبى سمجھ سكاہوں اور كچھ مسائل كى مراد اور معنى كو نہيں سمجھ سكا _ اخنس وہاں سے سيدھا ابوجہل كے پاس پہنچا اس سے بھى وہى سوال كيا : تم نے جو كچھ محمد سے سنا ہے اس كے بارے ميں كيا كہتے ہو ؟

ابوجہل نے كہا :سناكياہے، حقيقت يہ ہے كہ ہمارى اور اولاد عبدمناف كى قديم زمانے سے رقابت

۴۸۹

چلى آرہى ہے انھوں نے بھوكوں كو كھانا كھلايا، ہم نے بھى كھلايا ، انھوں نے پيدل لوگوں كو سوارياں ديں ہم نے بھى ديں ، انھوں نے لوگوں پر خرچ كيا، سوہم نے بھى كيا گويا ہم دوش بدوش آگے بڑھتے رہے_جب انھوں نے دعوى كيا ہے كہ ان كے پاس وحى آسمانى بھى آتى ہے تو اس بارے ميں ہم ان كے ساتھ كس طرح برابرى كرسكتے ہيں ؟ اب جب كہ صورت حال يہ ہے تو خداكى قسم ہم نہ تو كبھى اس پر ايمان لائيں گے اور نہ ہى اس كى تصديق كريں گے _اخنس نے جب يہ بات سنى تو وہاں سے اٹھ كر چلاگيا(۱)

جى ہاں : قرآن كى كشش نے ان پر اس قدرا ثركرديا كہ وہ سپيدہ صبح تك اس الہى كشش ميں گم رہے ليكن خود خواہى ، تعصب اور مادى فوائدان پر اس قدر غالب آچكے تھے كہ انھوں نے حق قبول كرنے سے انكار كرديا _اس ميں شك نہيں كہ اس نورالہى ميں اس قدر طاقت ہے كہ ہر آمادہ دل كو وہ جہاں بھى ہو، اپنى طرف جذب كرليتا ہے يہى وجہ ہے كہ اس (قرآن)كا ان آيات ميں ''جہاد كبير'' كہہ كر تعارف كروايا گيا ہے_(۲)

ايك اور روايت ميں ہے كہ ايك دن ''اخنس بن شريق'' كا ابوجہل سے آمناسامنا ہوگيا جب كہ وہاں پر اور كوئي دوسرا آدمى موجود نہيں تھا_تو اخنس نے اس سے كہا :سچ بتائو محمد سچاہے ،ياجھوٹا ؟قريش ميں سے كوئي شخص سواميرے اور تيرے يہاں موجود نہيں ہے جو ہمارى باتوں كو سنے _

ابوجہل نے كہا: وائے ہو تجھ پر خداكى قسم وہ ميرے عقيدے ميں سچ كہتا ہے اور اس نے كبھى جھوٹ نہيں بولا ليكن اگر يہ اس بات كى بناہو جائے كہ محمد كا خاندان سب چيزوں كو اپنے قبضہ ميں كرلے، حج كا پرچم ، حاجيوں كو پانى پلانا،كعبہ كى پردہ دارى اور مقام نبوت تو باقى قريش كے لئے كيا باقى رہ جائےگا_(۳)

____________________

(۱)سيرت ابن ہشام جلداول ص۳۳۷ ، اور تفسير فى ظلال القر،آن جلد۶ ص ۱۷۳

(۲)تفسير نمونہ ج ۸ ص ۱۴۴

(۳)مندرجہ بالاروايات تفسير المنار اور مجمع البيان سے سورہ انعام ايت ۳۳/ كے ذيل ميں بيان كردہ تفسير سے لى گئي ہيں

۴۹۰

اسلام كے پہلے مہاجرين

پيغمبر اكرم (ص) كى بعثت اور عمومى دعوت كے ابتدائي سالوں ميں مسلمان بہت ہى كم تعداد ميں تھے قريش نے قبائل عرب كو يہ نصيحت كرركھى تھى كہ ہر قبيلہ اپنے قبيلہ كے ان لوگوں پر كہ جو پيغمبر اكرم (ص) پر ايمان لاچكے ہيں انتہائي سخت دبائوڈاليں اور اس طرح مسلمانوں ميں سے ہر كوئي اپنى قوم وقبيلہ كى طرف سے انتہائي سختى اور دبائوميں مبتلا تھا اس وقت مسلمانوں كى تعداد جہادآزادى شروع كرنے كے لئے كافى نہيں تھى _پيغمبراكرم (ص) نے اس چھوٹے سے گروہ كى حفاظت اور مسلمانوں كے لئے حجاز سے باہر قيام گاہ مہياكرنے كے لئے انہيں ہجرت كا حكم دے ديا اور اس مقصد كےلئے حبشہ كو منتخب فرمايا اور كہا كہ وہاں ايك نيك دل بادشاہ ہے جو ظلم وستم كرنے سے اجتناب كرتا ہے _ تم وہاں چلے جائو يہاں تك كہ خداوند تعالى كوئي مناسب موقع ہميں عطافرمائے_پيغمبر اكرم (ص) كى مراد نجاشى سے تھى (نجاشى ايك عام نام تھا جيسے ''كسرى '' جو حبشہ كے تمام بادشاہوں كا خاص لقب تھا ليكن اس نجاشى كا اصل نام جو پيغمبر اكرم (ص) كا ہم عصر تھا اصحمہ تھا جو كہ حبشہ كى زبان ميں عطيہ وبخشش كے معنى ميں ہے )_

مسلمانوں ميں سے گيارہ مرداور چار عورتيں حبشہ جانے كے لئے تيار ہوئے اور ايك چھوٹى سى كشتى كرايہ پر لے كر بحرى راستے سے حبشہ جانے كے لئے روانہ ہوگئے _يہ بعثت كے پانچويں سال ماہ رجب كا واقعہ ہے _كچھ زيادہ عرصہ نہيں گزراتھا كہ جناب جعفر بن ابوطالب بھى مسلمانوں كے ايك دوسرے گروہ كے ساتھ حبشہ چلے گئے _ اب اس اسلامى جمعيت ميں ۸۲/مردوں علاوہ كافى تعداد ميں عورتيں اور بچے بھى تھے _

۴۹۱

مشركين ،مہاجرين كى تعقيب ميں

اس ہجرت كى بنيادبت پرستوں كے لئے سخت تكليف دہ تھى كيونكہ دہ اچھى طرح سے ديكھ رہے تھے كہ كچھ زيادہ عرصہ نہيں گزرے گا كہ وہ لوگ جو تدريجاً اسلام كو قبول كرچكے ہيں اور حبشہ كى سرزمين امن وامان كى طرف چلے گئے ہيں ، مسلمانوں كى ايك طاقتور جماعت كى صورت اختيار كرليں گے يہ حيثيت ختم كرنے كے لئے انہوں نے كام كرنا شروع كرديا اس مقصد كے لئے انہوں نے جوانوں ميں سے دوہوشيار، فعال، حيلہ باز اور عيار جوانوں يعنى عمروبن عاص اور عمارہ بن وليد كا انتخاب كيا بہت سے ہديے دے كر ان كو حبشہ كى طرف روانہ كيا گيا ،ان دونوں نے كشتى ميں بيٹھ كر شراب پى اور ايك دوسرے سے لڑپڑے ليكن آخركار وہ اپنى سازش كو روبہ عمل لانے كے لئے سرزمين حبشہ ميں داخل ہوگئے _ ابتدائي مراحل طے كرنے كے بعد وہ نجاشى كے دربار ميں پہنچ گئے ،دربار ميں بارياب ہونے سے پہلے انہوں نے نجاشى كے درباريوں كو بہت قيمتى ہديے دے كران كو اپنا موافق بنايا تھا اور ان سے اپنى طرفدارى اور تائيد كرنے كا وعدہ لے ليا تھا _

'' عمروعاص '' نے اپنى گفتگو شروع كى اور نجاشى سے اس طرح ہمكلام ہوا:

ہم سرداران مكہ كے بھيجے ہوئے ہيں ہمارے درميان كچھ كم عقل جوانوں نے مخالفت كا علم بلند كيا ہے اور وہ اپنے بزرگوں كے دين سے پھر گئے ہيں ،اور ہمارے خدائوں كو برابھلا كہتے ہيں ،انہوں نے فتنہ وفساد برپا كرديا ہے لوگوں ميں نفاق كا بيچ بوديا ہے ،آپ كى سرزمين كى آزادى سے انہوں نے غلط فائدہ اٹھايا ہے اور انہوں نے يہاں آكر پناہ لے لى ہے ، ہميں اس بات كا خوف ہے كہ وہ يہاں بھى خلل اندازى نہ كريں بہتريہ ہے كہ آپ انہيں ہمارے سپرد كرديں تاكہ ہم انہيں اپنى جگہ واپس لے جائيں _

يہ كہہ كر ان لوگوں نے وہ ہديئےو وہ اپنے ساتھ لائے تھے پيش كيے _

نجاشى نے كہا : جب تك ميں اپنى حكومت ميں پناہ لينے والوں كے نمائندوں سے نہ مل لوں اس سلسلے ميں كوئي بات نہيں كرسكتا اور چونكہ يہ ايك مذہبى بحث ہے لہذا ضرورى ہے كہ تمہارى موجودگى ميں مذہبى نمائندوں كوبھى ايك جلسہ ميں دعوت دى جائے _

۴۹۲

جعفربن ابى طالب مہاجرين كے بہترين خطيب

چنانچہ دوسرے دن ايك اہم جلسہ منعقد ہوا، اس ميں نجاشى كے مصاحبين اور عيسائي علماء كى ايك جماعت شريك تھى جعفر بن ابى طالب مسلمانوں كے نمائندہ كى حيثيت سے موجود تھے اور قريش كے نمائندے بھى حاضر ہوئے نجاشى نے قريش كے نمائندوں كى باتيں سننے كے بعد جناب جعفر كى طرف رخ كيا اور ان سے خواہش كى كہ وہ اس سلسلے ميں اپنا نقطہ نظربيان كريں جناب جعفرا دائے احترام كے بعد اس طرح گويا ہوئے : پہلے ان سے پوچھيے كہ كيا ہم ان كے بھاگے ہوئے غلاموں ميں سے ہيں ؟

عمرو نے كہا :نہيں بلكہ آپ آزاد ہيں _

جعفر: ان سے يہ بھى پوچھئے كہ كيا ان كا كوئي قرض ہمارے ذمہ ہے كہ جس كا وہ ہم سے مطالبہ كرتے ہيں ؟

عمرو : نہيں ہمارا آپ سے ايسا كوئي مطالبہ نہيں ہے _

جعفر: كيا ہم نے تمہارا كوئي خون بہايا ہے كہ جس كا ہم سے بدلہ لينا چاہتے ہو ؟

عمرو:نہيں ايسا كچھ نہيں ہے؟

جعفر: تو پھر تم ہم سے كيا چاہتے ہو ؟تم نے ہم پر اتنى سختياں كيں اور اتنى تكليفيں پہنچائيں اور ہم تمہارى سرزمين سے جو سراسر مركز ظلم وجور تھى باہر نكل آئے ہيں _

اس كے بعد جناب جعفر نے نجاشى كى طرف رخ كيا اور كہا : ہم جاہل اور نادان تھے، بت پرستى كرتے تھے ،مردار كا گوشت كھاتے تھے ، طرح طرح كے برے اور شرمناك كام انجام ديتے تھے، قطع رحمى كرتے تھے ، اپنے ہمسايوں سے براسلوك كرتے تھے اور ہمارے طاقتور كمزوروں كے حقوق ہڑپ كرجاتے تھے _ ليكن خدا وند تعالى نے ہمارے درميان ايك پيغمبر كو معبوث فرمايا، جس نے ہميں حكم ديا كہ ہم خدا كا كوئي مثل اورشريك نہ بنائيں اور فحشاء ومنكر، ظلم وستم اور قماربازى ترك كرديں ہميں حكم ديا كہ ہم نماز پڑھيں ،

۴۹۳

زكوة ادا كريں ، عدل واحسان سے كام ليں اور اپنے وابستگان كى مدد كريں _

نجاشى نے كہا : عيسى مسيح عليہ السلام بھى انہى چيزوں كے لئے مبعوث ہوئے تھے _

اس كے بعد اس نے جناب جعفر سے پوچھا: ان آيات ميں سے جو تمہارے پيغمبر پر نازل ہوئي ہيں كچھ تہميں ياد ہيں _جعفرنے كہا : جى ہاں : اور پھر انہوں نے سورہ مريم كى تلاوت شروع كردى ،اس سورہ كى ايسى ہلادينے والى آيات كے ذريعہ جو مسيح عليہ السلام اور ان كى ماں كو ہر قسم كى نارو اتہمتوں سے پاك قرارديتى ہيں ، جناب جعفر كے حسن انتخاب نے عجيب وغريب اثر كيا يہاں تك كہ مسيحى علماء كى آنكھوں سے فرط شوق ميں آنسو بہنے لگے اور نجاشى نے پكار كر كہا : خدا كى قسم : ان آيات ميں حقيقت كى نشانياں نماياں ہيں _

جب عمرنے چاہا كہ اب يہاں كوئي بات كرے اور مسلمانوں كو اس كے سپرد كرنے كى درخواست كرے ، نجاشى نے ہاتھ بلند كيا اور زور سے عمرو كے منہ پر مارا اور كہا: خاموش رہو، خدا كى قسم اگر ان لوگوں كى مذمت ميں اس سے زيادہ كوئي بات كى تو ميں تجھے سزادوں گا ،يہ كہہ كر مامورين حكومت كى طرف رخ كيا اور پكار كر كہا : ان كے ہديے ان كو واپس كردو اور انہيں حبشہ كى سرزمين سے باہر نكال دو جناب جعفر اور ان كے ساتھيوں سے كہا : تم آرام سے ميرے ملك ميں زندگى بسر كرو _

اس واقعہ نے جہاں جعفر اور ان كے ساتھيوں سے كہا تم آرام سے ميرے ملك ميں زندگى بسركرو_(۱)

اس واقعہ نے جہاں حبشہ كے كچھ لوگوں پر اسلام شناسى كے سلسلے ميں گہرا تبليغى اثر كيا وہاں يہ واقعہ اس بات كا بھى سبب بنا كہ مكے كے مسلمان اس كو ايك اطمينان بخش جائے پناہ شماركريں اور نئے مسلمان ہونے والوں كو اس دن كے انتظارميں كہ جب وہ كافى قدرت و طاقت حاصل كريں ،وہاں پر بھيجتے رہيں _

____________________

(۱)بہت سے مفسرين نے نقل كيا ہے كہ سورہ مائدہ ايات ۸۲تا۸۶ نجاشى اور اس كے ساتھيوں كے بارے ميں نازل ہوئي ہيں

۴۹۴

فتح خيبركى زيادہ خوشى ہے يا جعفركے پلٹنے كي

كئي سال گزر گئے پيغمبر (ص) بھى ہجرت فرماگئے اور اسلام روزبروز ترقى كى منزليں طے كرنے لگا،عہدنامہ حديبيہ لكھا گيا اور پيغمبر اكرم (ص) فتح خيبركى طرف متوجہ ہوئے اس وقت جب كہ مسلمان يہوديوں كے سب سے بڑے اور خطر ناك مركز كے لوٹنے كى وجہ سے اتنے خوش تھے كہ پھولے نہيں سماتے تھے، دور سے انہوں نے ايك مجمع كو لشكر اسلام كى طرف آتے ہوئے ديكھا ،تھوڑى ہى دير گزرى تھى كہ معلوم ہواكہ يہ وہى مہاجرين حبشہ ہيں ، جو آغوش وطن ميں پلٹ كر آرہے ہيں ،جب كہ دشمنوں كى بڑى بڑى طاقتيں د م توڑچكى ہيں اور اسلام كا پودا اپنى جڑيں كافى پھيلا چكا ہے _

پيغمبر اكرم (ص) نے جناب جعفراور مہا جرين حبشہ كو ديكھ كر يہ تاريخى جملہ ارشاد فرمايا:

''ميں نہيں جانتا كہ مجھے خيبر كے فتح ہونے كى زيادہ خوشى ہے يا جعفر كے پلٹ آنے كى ''

كہتے ہيں كہ مسلمانوں كے علاوہ شاميوں ميں سے آٹھ افراد كہ جن ميں ايك مسيحى راہب بھى تھا اور ان كا اسلام كى طرف شديد ميلان پيدا ہوگيا تھاپيغمبر (ص) كى خدمت ميں حاضرہو ئے اور انہوں نے سورہ ى سين كى كچھ آيات سننے كے بعد رونا شروع كرديا اور مسلمان ہوگئے اور كہنے لگے كہ يہ آيات مسيح عليہ السلام كى سچى تعليمات سے كس قدر مشابہت ركھتى ہيں _

اس روايت كے مطابق جو تفسير المنار، ميں سعيد بن جبير سے منقول ہے نجاشى نے اپنے يارو انصار ميں سے تيس بہترين افراد كوپيغمبر اكرم (ص) اور دين اسلام كے ساتھ اظہار عقيدت كے لئے مدينہ بھيجا تھا اور يہ وہى تھے جو سورہ ى سين كى ايات سن كر روپڑے تھے اور اسلام قبول كرليا تھا_

۴۹۵

معراج رسول (ص)

علماء اسلام كے درميان مشہور يہ ہے كہ رسول اكرم (ص) جس وقت مكہ ميں تھے تو ايك ہى رات ميں آپ قدرت الہى سے مسجد الحرام سے اقصى پہنچے كہ جو بہت المقدس ميں ہے ، وہاں سے آپ آسمانوں كى طرف گئے ، آسمانى دسعتوں ميں عظمت الہى كے آثار مشاہدہ كئے اور اسى رات مكہ واپس آگئے _

نيزيہ بھى مشہور ہے كہ يہ زمينى اور آسمانى سير جسم اور روح كے ساتھ تھى البتہ يہ سير چونكہ بہت عجيب غريب اور بے نظير تھى لہذا بعض حضرات نے اس كى توجيہ كى اور اسے معراج روحانى قرار ديا اور كہا كہ يہ ايك طرح كا خواب تھايا مكا شفہ روحى تھا ليكن جيسا كہ ہم كہہ چكے ہيں يہ بات قرآن كے ظاہرى مفہوم كے بالكل خلاف ہے كيونكہ ظاہرقر آن اس معراج كے جسمانى ہونے كى گواہى ديتا ہے _

معراج كى كيفيت قرآن و حديث كى نظر سے

قرآن حكيم كى دوسورتوں ميں اس مسئلے كى طرف اشارہ كيا گيا ہے پہلى سورت بنى اسرائيل ہے اس ميں اس سفر كے ابتدائي حصے كا تذكرہ ہے _ (يعنى مكہ كى مسجد الحرام سے بيت المقدس كى مسجد الاقصى تك كا سفر) اس سلسلے كى دوسرى سورت _ سورہ نجم ہے اس كى آيت ۱۳ تا ۱۸ ميں معراج كا دوسرا حصہ بيان كيا گيا ہے اور يہ آسمانى سير كے متعلق ہے ارشاد ہوتا ہے :

ان چھ آيات كا مفہوم يہ ہے : رسول اللہ نے فرشتہ وحى جبرئيل كو اس كو اصلى صورت ميں دوسرى مرتبہ

۴۹۶

ديكھا (پہلے آپ اسے نزول وحى كے آغاز ميں كوہ حرا ميں ديكھ چكے تھے) يہ ملاقات بہشت جاوداں كے پاس ہوئي ، يہ منظر ديكھتے ہوئے رسول اللہ (ص) كسى اشتباہ كا شكار نہ تھے آپ نے عظمت الہى كى عظيم نشانياں مشاہدہ كيں _

يہ آيات كہ جو اكثر مفسرين كے بقول واقعہ معراج سے متعلق ہيں يہ بھى نشاندہى كرتى ہيں كہ يہ واقعہ عالم بيدارى ميں پيش آيا خصوصا ''مازاغ البصروماطغي'' اس امر كا شاہد ہے كہ رسول اللہ (ص) كى آنكھ كسى خطا واشتباہ اور انحراف سے دوچار نہيں ہوئي _

اس واقعے كے سلسلے ميں مشہور اسلامى كتابوں ميں بہت زيادہ روايات نقل ہوئي ہيں _

علماء اسلام نے ان روايات كے تو اتر اور شہرت كى گواہى دى ہے _(۱)

معراج كى تاريخ

واقعہ معراج كى تاريخ كے سلسلے ميں اسلامى مو رخين كے درميان اختلاف ہے بعض كا خيال ہے كہ يہ واقعہ بعثت كے دسويں سال ۲۷ /رجب كى شب پيش آيا، بعض كہتے ہيں كہ يہ بعثت كے بارہويں سال ۱۷/رمضان المبارك كى رات وقوع پذير ہوا جب كہ بعض اسے اوائل بعثت ميں ذكر كرتے ہيں ليكن اس كے وقوع پذير ہونے كى تاريخ ميں اختلاف،اصل واقعہ پر اختلاف ميں حائل نہيں ہوتا _

اس نكتے كا ذكر بھى ضرورى ہے كہ صر ف مسلمان ہى معراج كا عقيدہ نہيں كھتے بلكہ ديگراديان كے پيروكار وں ميں بھى كم و بيش يہ عقيدہ پايا جاتا ہے ان ميں حضرت عيسى عليہ السلام كے بارے ميں يہ عقيدہ عجيب تر صورت ميں نظر آتا ہے جيسا كہ انجيل مرقس كے باب ۶/ لوقاكے باب ۲۴/ اور يوحنا كے باب ا۲/ ميں ہے:

عيسى عليہ السلام مصلوب ہونے كے بعد دفن ہوگئے تو مردوں ميں سے اٹھ كھڑے ہوئے ،اور چاليس روز تك لوگوں ميں موجود رہے پھر آسمان كى طرف چڑھ گئے ( اور ہميشہ كے لئے معراج پر چلے گئے )

____________________

(۱)رجوع كريں تفسير نمونہ ج

۴۹۷

ضمناً يہ وضاحت بھى ہوجائے كہ بعض اسلامى روايات سے بھى معلوم ہوتا ہے كہ بعض گزشتہ انبياء كو بھى معراج نصيب ہوئي تھى _

پيغمبرگرامى (ص) نے يہ آسمانى سفر چند مرحلوں ميں طے كيا_

پہلا مرحلہ،مسجدالحرام اور مسجد اقصى كے درميانى فاصلہ كا مرحلہ تھا، جس كى طرف سورہ اسراء كى پہلى آيت ميں اشارہ ہوا ہے: ''منزہ ہے وہ خدا جو ايك رات ميں اپنے بندہ كو مسجد الحرام سے مسجد اقصى تك لے گيا''_ بعض معتبر روايات كے مطابق آپ(ص) نے اثناء راہ ميں جبرئيل(ع) كى معيت ميں سر زمين مدينہ ميں نزول فرمايا او روہاں نماز پڑھى _

او رمسجد الاقصى ميں بھى ابراہيم و موسى و عيسى عليہم السلام انبياء كى ارواح كى موجود گى ميں نماز پڑھى اور امام جماعت پيغمبر (ص) تھے، اس كے بعد وہاں سے پيغمبر (ص) كا آسمانى سفر شروع ہوا، اور آپ(ص) نے ساتوں آسمانوں كو يكے بعد ديگرے عبور كيا او رہر اسمان ميں ايك نياہى منظر ديكھا ، بعض آسمانوں ميں پيغمبروں اور فرشتوں سے، بعض آسمانوں ميں دوزخ او ردوزخيوں سے اور بعض ميں جنت اور جنتيوں سے ملاقات كى ،او رپيغمبر (ص) نے ان ميں سے ہر ايك سے بہت سى تربيتى اور اصلاحى قيمتى باتيں اپنى روح پاك ميں ذخيرہ كيں اور بہت سے عجائبات كا مشاہدہ كيا جن ميں سے ہر ايك عالم ہستى كے اسرار ميں سے ايك راز تھا، اور واپس آنے كے بعد ان كو صراحت كے ساتھ اور بعض اوقا ت كنايہ اور مثال كى زبان ميں امت كى آگاہى كے لئے مناسب فرصتوں ميں بيان فرماتے تھے، اور تعليم وتربيت كے لئے اس سے بہت زيادہ فائدہ اٹھاتے تھے_

يہ امر اس بات كى نشاندہى كرتا ہے كہ اس آسمانى سفر كا ايك اہم مقصد،ان قيمتى مشاہدات كے تربيتى و عرفانى نتائج سے استفادہ كرنا تھا،اور قرآن كى يہ پر معنى تعبير''لقد راى من آيات ربہ الكبرى ''(۱)

____________________

(۱)سورہ نجم ايت۱۸

۴۹۸

ان تمام امور كى طرف ايك اجمالى اور سربستہ اشارہ ہو سكتى ہ۶ے_

البتہ جيسا كہ ہم بيان كرچكے ہيں كہ وہ بہشت اور دوزخ جس كو پيغمبر (ص) نے سفر معراج ميں مشاہدہ كيا اور كچھ لوگوں كو وہاں عيش ميں اور عذاب ميں ديكھا ، وہ قيامت والى جنت اور دوزخ نہيں تھيں ، بلكہ وہ برزخ والى جنت ودوزخ تھيں ، كيونكہ قرآن مجيدكے مطابق جيسا كہ كہتا ہے كہ قيامت والى جنت ودوزخ قيام قيامت اور حساب وكتاب سے فراغت كے بعد نيكو كاروں اور بدكاروں كو نصيب ہوگى _

آخر كار آپ ساتويں آسمان پر پہنچ گئے ، وہاں نور كے بہت سے حجابوں كا مشاہدہ كيا ، وہى جگہ جہاں پر ''سدرة المنتہى '' اور'' جنة الما وى '' واقع تھي، اور پيغمبر (ص) اس جہان سراسر نوروروشنى ميں ، شہود باطنى كى اوج، اور قرب الى اللہ اور مقام '' قاب قوسين اوادني''پر فائز ہوئے اور خدا نے اس سفر ميں آپ كو مخالب كرتے ہوئے بہت سے اہم احكام ديئے اور بہت سے ارشادات فرمائے جن كا ايك مجموعہ اس وقت اسلامى روايات ميں '' احاديث قدسى '' كى صورت ميں ہمارے لئے يادگار رہ گيا ہے _

قابل توجہ بات يہ ہے كہ بہت سى روايات كى تصريح كے مطابق پيغمبر (ص) نے اس عظيم سفر كے مختلف حصوں ميں اچانك على عليہ السلام كو اپنے پہلو ميں ديكھا، اور ان روايات ميں كچھ ايسى تعبيريں نظر آتى ہيں ، جو پيغمبر اكرم (ص) كے بعد على عليہ السلام كے مقام كى حد سے زيادہ عظمت كى گواہ ہيں _

معراج كى ان سب روايات كے باوجود كچھ ايسے پيچيدہ اور اسرار آميز جملے ہيں جن كے مطالب كو كشف كرنا آسان نہيں ہے، اور اصطلاح كے مطابق روايات متشابہ كا حصہ ہيں يعنى ايسى روايات جن كى تشريح كوخود معصومين عليہم السلام كے سپرد كردينا چاہئے _(۱)

ضمنى طورپر، معراج كى روايات اہل سنت كى كتابوں ميں بھى تفصيل سے آئي ہيں ،اور ان كے راويوں ميں سے تقريباً ۳۰/افراد نے حديث معراج كو نقل كيا ہے_

____________________

(۱)روايات معراج كے سلسلہ ميں مزيد اطلاع كے لئے بحارالانوار كى جلد ۱۸ از ص ۲۸۲ تاص ۱۰ ۴ رجوع فرمائيں

۴۹۹

يہاں يہ سوال سامنے آتاہے : يہ اتنا لمبا سفر طے كرنا اور يہ سب عجيب اور قسم قسم كے حادثات، اور يہ سارى لمبى چوڑى گفتگو ، اور يہ سب كے سب مشاہدات ايك ہى رات ميں ياايك رات سے بھى كم وقت ميں كس طرح سے انجام پاگئے ؟

ليكن ايك نكتہ كى طرف توجہ كرنے سے اس سوال كا جواب واضح ہوجاتاہے ، سفر معراج ہرگز ايك عام سفر نہيں تھا ، كہ اسے عام معياروں سے پركھاجائے نہ تو اصل سفر معمولى تھا اور نہ ہى آپ كى سوارى معمولى اور عام تھي،نہ آپ كے مشاہدات عام اور معمولى تھے اور نہ ہى آپ كى گفتگو ، اور نہ ہى وہ پيمانے جواس ميں استعمال ہوئے، ہمارے كرہ خاكى كے محدود اور چھوٹے پيمانوں كے مانند تھے، اور نہ ہى وہ تشبيہات جواس ميں بيان ہوئي ہيں ان مناظر كى عظمت كو بيان كرسكتى ہيں جو پيغمبر (ص) نے مشاہدہ كيے ، تمام چيزيں خارق العادت صورت ميں ، اور اس مكان وزمان سے خارج ہونے كے پيمانوں ميں ، جن سے ہم آشنا نہيں ، واقع ہوئيں _

اس بناپر كوئي تعجب كى بات نہيں ہے كہ يہ امور ہمارے كرہ زمين كے زمانى پيمانوں كے ساتھ ايك رات يا ايك رات سے بھى كم وقت ميں واقع ہوئے ہوں _(۱)

معراج جسمانى تھى ياروحانى ؟

شيعہ اور سنى علمائے اسلام كے درميان مشہور ہے كہ يہ واقعہ عالم بيدارى ميں صورت پذير ہوا، سورہ بنى اسرائيل كى پہلى آيت اور سورہ نجم كى مذكورہ آيات كا ظاہرى مفہوم بھى اس امر كا شاہد ہے كہ يہ واقعہ بيدارى كى حالت ميں پيش آيا _

تواريخ اسلامى بھى اس امرپر شاہد وصادق ہيں ،تاريخ كہتى ہے : جس وقت رسول اللہ (ص) نے واقعہ معراج كا ذكر كيا تو مشركين نے شدت سے اس كا انكار كرديا اور اسے آپ كے خلاف ايك بہانہ بناليا_

____________________

(۱)تفسير نمونہ ج ۱۳ ص۹۷ تا ۹۹

۵۰۰

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667