قصص القرآن-منتخب از تفسير نمونه

قصص القرآن-منتخب از تفسير نمونه   8%

قصص القرآن-منتخب از تفسير نمونه   مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 667

قصص القرآن-منتخب از تفسير نمونه
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 667 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 335791 / ڈاؤنلوڈ: 6152
سائز سائز سائز
قصص القرآن-منتخب از تفسير نمونه

قصص القرآن-منتخب از تفسير نمونه

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

حضرت امام جعفر صادق سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا :

'' لا جبرولا تفو یض ولکن أمر بین أمر ین، قال قُلتُ: و ما أمر بین أمر ین؟ قال مثل ذلک رجل رأ یته علیٰ معصية ٍ فنهیتهُ فلم ینته فتر کته ففعل تلک المعصية، فلیس حیثُ لم یقبل منک فتر کته کنت أنت الذّی أمر ته بالمعصية'' ( ۱ )

نہ جبرہے اور نہ تفو یض ، بلکہ ان دونوں کے درمیا ن ایک چیز ہے، راوی کہتا ہے : میں نے کہا : ان دونوں کے درمیا ن ایک چیز کیا ہے؟ فر مایا: اس کی مثال اس شخص کی سی ہے کہ جو گنا ہ کی حا لت میں ہو اور تم اسے منع کرو اور وہ قبول نہ کر ے اس کے بعد تم اسے اس کی حالت پر چھو ڑ دو اور وہ اس گناہ کو انجام دے ، پس چونکہ اس نے تمہا ری بات نہیں مانی اور تم نے اسے اس کے حال پر چھوڑ دیا ، لہٰذا ایسا نہیں ہے کہ تم ہی نے اسے گناہ کی دعوت دی ہے۔

۲'' ما استطعت أن تلو م العبد علیه فهو منه و ما لم تستطع أن تلو م العبد علیه فهو من فعل ﷲ، یقول ﷲ للعبد: لم عصیت؟ لم فسقت؟لم شربت الخمر؟ لم ز نیت؟ فهذا فعل العبد ولا یقول له لم مر ضت؟ لم قصرت؟ لم ابیضضتَ؟ لم اسو ددت؟ لأنه من فعل ﷲ تعا لیٰ'' ( ۲ )

جس کام پر بندہ کو ملا مت و سر زنش کر سکو وہ اس کی طرف سے ہے اور جس کام پرملا مت وسر زنش نہ کرسکو وہ خدا کی طرف سے ہے، خدا اپنے بندوں سے فرما تا ہے : تم نے کیوں سر کشی کی ؟ کیوں نافرمانی کی ؟کیوں شراب پی؟ کیوں زنا کیا؟ کیو نکہ یہ بندے کا کام ہے ، خدا اپنے بندوں سے یہ نہیں پو چھتا : کیو ں مر یض ہوگئے ؟ کیوں تمہا را قد چھوٹاہے؟ کیوں سفید رنگ ہو؟ کیوں سیا ہ رو ہو؟ کیو نکہ یہ سارے امور خدا کے ہیں ۔

روایات کی تشریح

جبر وتفویض کے دوپہلو ہیں :

۱۔ ایک پہلو وہ ہے جو خدا اوراس کے صفا ت سے متعلق ہے۔

۲۔ دوسرا پہلووہ ہے جس کی انسان اوراس کے صفا ت کی طر ف بازگشت ہو تی ہے۔

'' جبر و تفویض'' میں سے جو کچھ خدا اوراس کے صفات سے مر بوط اور متعلق ہے ، اس بات کا سزا وار

____________________

(۱) کافی،ج، ۱، ص ۱۶۰ اور توحید صدو ق، ص ۳۶۲.(۲)بحار ج۵،ص۵۹ح۱۰۹

۱۸۱

ہے کہ اس کو خدا،اس کے انبیا ء اور ان کے اوصیا ء سے اخذ کر یں اور جو چیز انسا ن اوراس کے صفات اور افعال سے متعلق ہو تی ہے ، اسی حد کافی ہے کہ ہم کہیں : میں یہ کام کر وں گا ، میں وہ کام نہیں کرو ں گا تا کہ جانیں جو کچھ ہم انجام دیتے ہیں اپنے اختیا ر سے انجام دیتے ہیں ، گزشتہ بحثو ں میں بھی ہم نے یہ بھی جانا کہ انسا ن کی زندگی کی رفتا ر ذ رہ ، ایٹم، سیارات اور کہکشا نو ں نیز خدا کے حکم سے دیگر مسخرات کی رفتار سے حرکات اور نتا ئج میں یکساں نہیں ہے ،یہ ایک طرف ، دو سری طرف خدا وند سبحا ن نے انسا ن کوا س کے حال پر نہیں چھو ڑا اوراسے خود اس کے حوالے نہیں کیا تا کہ جو چا ہے ، جس طرح چاہے اور نفسیا نی خو اہشا ت جس کاحکم دیںاسی کو انجام دے ، بلکہ خدا وند عالم نے اپنے انبیا ء کے ذریعہ اس کی راہنما ئی کی ہے : اسے قلبی ایمان کی راہ بھی حق کے ساتھ دکھا ئی نیزاعمال شائستہ جو اس کے لئے جسمانی اعتبار سے مفید ہیں ان کی طرف بھی راہنمائی کی اور نقصا ن دہ اعمال سے بھی آگا ہ کیا ہے، اگر وہ خدا کی ہدا یت کا اتبا ع کرے اور ﷲ کی سیدھی را ہ پر ایک قد م آگے بڑھ جا ئے تو خدا وند عا لم اسے اس کا ہا تھ پکڑ کر اسے دس قد م آگے بڑھا دیتا ہے پھر دنیا و آخرت میں آثار عمل کی بناء پر اس کوسات سو گنازیادہ جزا دیتا ہے اور خدا وند عالم اپنی حکمت کے اقتضاء اور اپنی سنت کے مطابق جس کے لئے چا ہتا ہے اضا فہ کرتاہے۔

ہم نے اس سے قبل مثا ل دی اور کہا: خدا وند عا لم نے اس دنیا کو'' سلف سروس''والے ہوٹل کے مانندمو من اور کا فر دو نوں کے لئے آما دہ کیا ہے، جیسا کہ سورۂ اسرا ء کی بیسویں آیت میں فرماتا ہے:

( کلاًّ نمدّ هٰؤلا ء و هٰؤٰلآء من عطا ئِ ربّک و ما کان عطائُ ربِّک محظورا )

ہم دو نو ں گروہوںکوخواہ یہ خواہ وہ تمہا رے رب کی عطا سے امداد کر تے ہیں ، کیو نکہ تمہا رے ربّ کی عطاکسی پربند نہیں ہے۔

یقینا اگر خدا کی امداد نہ ہو تی اور خدا کے بند ے جسمی اور فکر ی توا نائی اور اس عا لم کے آمادہ و مسخر اسباب و وسا ئل خدا کی طرف سے نہ رکھتے تو نہ راہ یا فتہ مو من عمل صا لح اور نیک و شا ئستہ عمل انجام دے سکتا تھا اور نہ ہی گمرا ہ کا فر نقصا ن دہ اور فا سد اقدامات کی صلا حیت رکھتا، سچ یہ ہے کہ اگر خدا ایک آن کے لئے اپنی عطا انسا ن سے سلب کر لے چا ہے اس عطا کا ایک معمو لی اور ادنیٰ جز ہی کیوں نہ ہوجیسے بینائی، سلا متی، عقل اور خرد وغیرہ... تویہ انسان کیا کر سکتا ہے ؟ اس لحا ظ سے انسا ن جو بھی کر تا ہے اپنے اختیا رسے اور ان وسا ئل و اسباب کے ذریعہ کرتاہے جو خدا نے اسے بخشے ہیں لہٰذا انسا ن انتخاب اور اکتسا ب میں مختار ہے۔

۱۸۲

جی ہاں ،انسا ن اس عالم میں مختارکل بھی نہیں ہے جس طرح سے وہ صرف مجبور بھی نہیں ہے، نہ اس عالم کے تمام اموراس کے حوالے اور سپرد کر دئے گئے ہیں اور نہ ہی اپنے انتخا ب کر دہ امور میں مجبور ہے، بلکہ ان دو نوں کے درمیا ن ایک امر ہے اور وہ ہے( امر بین امرین) اوریہ وہی خدا کی مشیت اور بند وں کے افعال کے سلسلے میں اس کا قا نو ن اور سنت ہے، '' ولن تجد لسنة ﷲ تبد یلا ً'' ہر گز سنت الٰہی میں تغیر و تبد یلی نہیں پا ؤ گے!

چند سوال ا و ر جو اب

اس حصّہ میں د ر ج ذیل چا ر سوا ل پیش کئے جا رہے ہیں:

۱۔ انسا ن جو کچھ کر تا ہے ا س میں مختار کیسے ہے، با وجو د یکہ شیطا ن اس پر تسلط اور غلبہ رکھتا ہے جب کہ وہ دکھا ئی بھی نہیں دیتا آد می کو اغوا( گمراہ) کرنے کے چکر میں لگا رہتا ہے اوراس کے دل میں و سو سہ ڈالتا رہتاہے اور اپنے شر آمیز کاموں کی دعوت دیتا ہے؟

۲۔انسان فا سد ماحول اور برے کلچرمیں بھی ایسا ہی ہے، وہ فسا د اور شر کے علا وہ کو ئی چیز نہیں دیکھتا پھر کس طرح وہ اپنے اختیا ر سے عمل کر تاہے ؟

۳۔ایسا انسا ن جس تک پیغمبروں کی دعو ت نہیں پہنچی ہے اوردور درازافتادہ علا قہ میں زند گی گزا رتا ہے وہ کیا کرے ؟

۴۔'' زنا زا دہ'' کا گنا ہ کیا ہے ؟( یعنی نا جا ئز بچہ کاکیا گنا ہ ہے) کیوں وہ دو سر وں کی رفتا ر کی بنا ء پر شر پسند ہوتا ہے اور شرار ت و برائی کر تا ہے؟

پہلے اور دوسرے سوال کا جو اب:

ان دو سو الوں کا جواب ابتدا ئے کتاب میں جو ہم نے میثا ق کی بحث کی ہے ا س میں تلا ش کیجئے۔( ۱ )

وہاں پر ہم نے کہا کہ خدا نے انسا ن پر اپنی حجت تمام کردی ہے ا ور تمام موجودات کے سبب سب کے متعلق جستجواور تلاش کے غریزہ کو ودیعت کرکے اس کی بہانہ بازی کا دروازہ بند کردیا ہے، لہٰذااسے چاہیئے کہ اس غریزہ کی مدد سے اس اصلی سبب سازتک پہنچے ، اسی لئے سورۂ اعرا ف کی ۱۷۲ ویں آ یت میں میثا ق خدا وند ی سے متعلق ارشاد فرما یا:

____________________

(۱)اسی کتاب کی پہلی جلد، بحث میثاق .ملاحظہ ہو.

۱۸۳

( أن تقولوا یو م القیامة اِنّا کُناعن هذا غا فلین )

تا کہ قیا مت کے دن یہ نہ کہہ سکو کہ ہم اس (پیمان ) سے غا فل تھے ہمیں ۔

انسا ن جس طر ح ہر حا لت میں بھو ک کے غر یزہ سے غا فل نہیں ہو تا ہے جب تک کہ اپنی شکم کو غذا سے سیر نہ کرلے ، اسی طرح معر فت طلبی کے غر یزہ سے بھی غا فل نہیں ہو تا یہاں تک کہ حقیقی مسب الاسباب کی شناخت حا صل کرلے۔

تیسر ے سوال کا جو اب:

ہم اس سوال کے جواب میں کہیںگے : خداو ند سبحا ن نے سورہ بقرہ کی ۲۸۶ ویں آیت میں ارشا د فرما یا:

( لایکلف ﷲ نفساًاِلاّوسعها )

خدا کسی کو بھی اس کی طا قت سے زیا دہ تکلیف نہیں دیتا۔

چو تھے سوا ل کا جو اب:

نا جا ئز اولا د بھی بُرے کا م انجام دینے پر مجبو ر نہیں ہے ، جو کچھ ہے وہ یہ ہے کہ بد کار مرد اور عو رت کی روحی حالت اور کیفیت ارتکاب گناہ کے وقت اس طرح ہوتی ہے کہ خو د کو سما جی قوا نین کا مجرم اور خا ئن تصور کرتے ہیں اور یہ بھی جا نتے ہیں کہ معا شرہ ان کے کام کو برااور گناجا نتا ہے اور اگر ان کی رفتا ر سے آگا ہ ہو جائے اورایسی گند گی اور پستی کے ارتکاب کے وقت دیکھ لے تو ان سے دشمنی کر تے ہو ئے انھیں اپنے سے دور کر دیگا اور یہ بھی جانتے ہیں کہ تمام نیکو کار ، پا کیز ہ کر دار اور اخلاق کر یمہ کے ما لک ایسے کا م سے بیزاری کرتے ہیں یہ رو حی حا لت اور اندرونی کیفیت نطفہ پر اثر اندا ز ہو تی ہے اور میرا ث کے ذریعہ اس نو مو لو د تک منتقل ہو تی ہے اورنوزاد پر اثر انداز ہوتی ہے جواسے شر دوست اور نیکیوں کا دشمن بنا تی ہے اور سما ج کے نیک افراد اور مشہو ر و معروف لو گوں سے جنگ پر آمادہ کرتی ہے اس سیرت کا بارز نمو نہ'' زیا د ابن ابیہ'' اور اس کا بیٹا ابن زیاد ہے کہ انھوں نے عرا ق میں اپنی حکومت کے دوران جو نہیں کر نا چا ہئے تھا وہ کیا ،با لخصوص'' ابن زیاد'' کہ اسکے حکم سے امام حسین کی شہا دت کے بعد آپ اور آپ کے پا کیزہ اصحاب کے جسم اطہر کو مثلہ کیاگیا اور سروں کو شہروں میں پھرایا گیا اور رسول ﷲصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے حرم کو اسیر کر کے کو فہ و شام پہنچا یا گیا اور دیگر امور جو اس کے حکم سے انجام پا ئے اور یہ ایسے حا ل میں ہو اکہ حضرت امام حسین کی شہا دت کے بعد کو ئی فرد ایسی نہیں بچی تھی جو ان لوگوںکی حکو مت کا مقا بلہ کر ے

۱۸۴

اور کسی قسم کی تو جیہ اس کے ان افعا ل کیلئے نہیں تھی، بجز اس کے کہ وہ شر و برا ئی کا خو گر تھا اس کی خو اہش یہ تھی کہ عرب اور اسلام کے شریف ترین گھرا نے کی شا ن و شو کت، عظمت و سطو ت ختم کرکے انھیں بے اعتبار بنا دے، ہاں وہ ذا تی طور پر برا ئی کا دوست اور نیکیوں کا دشمن تھا اور سماج و معا شرہ کے کریم و شر یف افراد سے بر سر پیکا ر تھا۔( ۱ )

اس بنا پر ( صحیح ہے اور ہم قبو ل کر تے ہیں کہ) شر سے دوستی، نیکی سے دشمنی، نیکو کاروں کو آزار و اذیت دنیا اور سماج کے پا کیز ہ لو گوں کو تکلیف پہنچا نا زنا زادہ میں حلال زادہ کے بر خلاف تقریباًاس کی ذات اور فطرت کا حصہ ہے، لیکن ان تمام باتوں کے با وجو د ان دو میں سے کو ئی بھی خواہ امور خیر ہوں یا شر جو وہ انجام دیتے ہیں یا نہیں دیتے مجبو ر ،ان پر نہیں ہیں، ان دو نوں کی مثال ایک تندرست و صحت مند ، با لغ و قوی جوان اور کمر خمیدہ بوڑھے مر د کی سی ہے: پہلا جسما نی شہو ت میں غرق اور نفسانی خوا ہشا ت تک پہنچنے کا خواہاں ہے اور دوسرا وہ ہے جس کے یہا ں جو انی کی قوت ختم ہو چکی ہے اور جسمانی شہو ت کا تارک ہے! ایسے حال میں واضح ہے کہ کمر خمیدہ مرد '' زنا ''نہیں کر سکتا اور وہ جوان جس کی جنسی تو انا ٰئی اوج پر ہے وہ زنا کرنے پر مجبو ر بھی نہیں کہ مجبوری کی حالت میں وہ ایسے نا پسندیدہ فعل کا مر تکب ہو تومعذور کہلا ئے، بلکہ اگر زنا کا مو قع اور ما حو ل فر اہم ہو اور وہ ''خا ف مقا م ربہ'' اپنے رب کے حضور سے خو فز دہ ہو، ( ونھیٰ النفس عن الھوی) اور اپنے نفس کو بیجا خو اہشوں سے رو ک رکھے تو( فاِنّ الجنة ھی المأویٰ) یقینا اس کا ٹھکا نہ بہشت ہے۔( ۲ )

اس طرح ہم اگر انسان کی زندگی کے پہلؤوں کی تحقیق کر یں اور ان کے بارے میں غور و فکر کر یں، تو اسے اپنے امور میں صا حب اختیا ر پا ئیں گے، جز ان امور کے جو غفلت اور عدم آگا ہی کی بنیا د پر صا در ہوتے ہیں اور اخروی آثا ر نہیںرکھتے ہیں ۔

یہاں تک مباحث کی بنیاد قرآن کر یم کی آیات کی روشنی میں '' عقائد اسلام '' کے بیان پر تھی آئندہ بحثوں میں انشاء ﷲ خدا کے اذ ن سے مبلغین الٰہی کی سیرت کی قرآ ن کریم کی رو سے تحقیق و بررسی کر یں گے اور جس قدر توریت ،انجیل اور سیرت کی کتابوں سے قرآن کریم کی آیات کی تشریح و تبیین میں مفید پا ئیں گے ذکر کر یں گے۔

''الحمد لله ربّ العا لمین''

____________________

(۱)زیادکے الحاق ( معاویہ کا اسے اپنا پدری بھائی بنانے ) کی بحث آپ کتاب عبدﷲ بن سبا کی جلد اول میں ، اور شہادت امام حسین کی بحث معالم المدر ستین کی جلد ۳ میں ملاحظہ کریں. (۲)سورۂ ناز عا ت کی چا لیسویں آیت ''و امّا من خاف...'' سے اقتبا س ہے.

۱۸۵

(۹)

ملحقات

اسلا می عقا ئد میں بحث و تحقیق کے راستے اور راہ اہل بیت کی فوقیت و بر تری( ۱ )

اسلا می عقا ئد ہمیشہ مسلما نوں اور اسلامی محققین کی بحث و تحقیق کا موضوع رہے ہیں اور تمام مسلما نو ں کا نظر یہ یہ ہے کہ اسلا می عقا ئد کا مر جع قرآ ن اور حدیث ہی ہے ، وہ اس بات پر اتفاق نظر رکھتے ہیں لیکن اس کے باوجود گز شتہ زمانے میں صدیو ں سے، مختلف وجوہ اور متعدد اسباب( ۲ ) کی بنا پر مختلف خیا لات اور نظریات اسلا می عقائد کے سلسلہ میں پیدا ہوئے کہ ان میں بعض اسباب کی جانب اشارہ کر رہے ہیں۔

۱۔ بحث وتحقیق اور استنبا ط کے طریقے اور روش میں اختلا ف.

۲۔ علما ئے یہو د و نصا ریٰ (احبار و رہبا ن)کا مسلما نو ں کی صفو ں میں نفو ذ اور رخنہ انداز ی اور اسلا می رو ایا ت کا ''اسرا ئیلیا ت''اور جعلی داستانوں سے مخلوط ہونا۔

۳۔ بد عتیں اور اسلا می نصو ص کی غلط اور نا درست تا ویلیں اور تفسیر یں۔

۴۔سیا سی رجحا نا ت اور قبا ئلی جھگڑے۔

۵۔ اسلا می نصوص سے ناواقفیت اور بے اعتنا ئی ۔

ہم اس مقا لہ میں سب سے پہلے سبب '' راہ اور روش میں اختلا ف ''کی تحقیق وبر رسی کر یں گے اور اسلامی عقائد کی تحقیق و بر رسی میں جو مو جو دہ طریقے اور را ہیں ہیں ان کا اہل بیت کی راہ و روش سے موازنہ کر کے قا رئین کے حو الے کر یں گے ، نیز آخری روش کی فو قیت وضا حت کے ساتھ بیان کر یں گے ۔

____________________

(۱) مجمع جہانی اہل البیت ، تہران کے نشریہ رسالة الثقلین نامی مجلہ میں آقا شیخ عباس علی براتی کے مقالہ کا ترجمہ ملاحظہ ہونمبر ۱۰، سال سوم ۱۴۱۵ ھ، ق.(۲) مقدمہ کتاب '' فی علم الکتاب '' : ڈاکٹر احمد محمود صبحی ج۱، ص ۴۶پانچواں ایڈیشن، بیروت، ۱۴۰۵ھ، ۱۹۸۵ ئ.

۱۸۶

عقید تی اختلا فا ت اور اس کی بنیاد اور تا ریخ

مسلما نوں کے درمیا ن فکر ی اور عقید تی اختلا ف پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے زمانے سے ہی ظا ہر ہو چکا تھا ،لیکن اس حد تک نہیں تھا کہ، کلامی اور فکر ی مکا تب و مذاہب کے وجو د کا سبب قرار پائے، کیو نکہ رسو لصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا بنفس نفیس اس کا تدارک کرتے تھے اور اس کے پھیلنے کی گنجا ئش با قی نہیں ر کھتے تھے ، بالخصوص روح صدا قت وبرا دری، اخوت و محبت اس طرح سے اسلامی معاشرہ پر حا کم تھی کہ تا ریخ میں بے مثا ل یا کم نظیر ہے۔

نمو نہ کے طور پر اورانسا نو ں کی سر نو شت '' قدر'' کا مو ضو ع تھا جس نے پیغمبر کے اصحا ب اور انصا ر کے ذہن و فکر کو مکمل طور پر اپنے میں حصار میں لے لیا تھا اور انھیں اس کے متعلق بحث کر نے پر مجبور کردیا تھا ، یہاں تک کہ آخر میں بات جنگ و جدا ل اور جھگڑے تک پہنچ گئی جھگڑے کی آ واز پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے کان سے ٹکر ائی توآنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے (جیسا کہ حدیث کی کتا بو ں میں ذ کر ہوا ہے) اس طرح سے ان لو گو ں کو اس مو ضو ع کے آگے بڑھانے کے عواقب و انجام سے ڈرایا:

احمد ابن حنبل نے عمر و بن شعیب سے اس نے اپنے با پ سے اور اس نے اپنے جد سے رو ایت کی ہے کہ انھو ں نے کہا : ایک دن رسو ل خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنے گھر سے باہر نکلے تو لو گو ں کو قدر کے مو ضو ع پر گفتگو کرتے دیکھا،راو ی کہتا ہے : پیغمبر اکر م کے چہر ہ کا رنگ غیظ و غضب کی شدت سے اس طرح سر خ ہو گیا تھا، گو یا انار کے دانے ان کے رخسا ر مبارک پربکھرے ہوئے ہو ں! فر مایا: تمہیں کیا ہو گیا ہے کہ کتاب خدا کی جر ح وتعدیل اور تجزیہ و تحلیل کر رہے ہو اسکے بعض حصّہ کا بعض سے مو از نہ کر رہے ہو( اس کی نفی و اثبات کرر ہے ہو )؟ تم سے پہلے وا لے افراد انہی کا موں کی و جہ سے نا بو د ہو گئے ہیں۔( ۱ )

قرآن کر یم اور پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی سنت میں اسلامی عقا ئد کے اصو ل اور اس کے بنیادی مبا نی بطو ر کلی امت اسلام کے لئے بیا ن کیے گئے ہیںبعد میں بعض سو الات اس لئے پیش آئے کہ ( ظا ہر اً)قرآن و سنت میں ان کا صریح اور واضح جو اب ان لوگوںکے پاس نہیں تھا اورمسلمان اجتہا د و استنبا ط کے محتا ج ہو ئے تو یہ ذ مہ داری عقا ئد و احکام میں فقہا ء و مجتہد ین کے کا ند ھوں پر آئی، اس لئے اصحا ب پیغمبر بھی کبھی کبھی اعتقا دی مسا ئل میں ایک دوسرے سے اختلا ف رائے ر کھتے تھے ، اگر چہ پیغمبر کی حیات میں ان کے اختلاف کے آثا ر و نتائج، بعد کے

____________________

(۱)مسند احمد ج۳،ص۱۷۸تا ۱۹۶.

۱۸۷

زمانوں میں ان کے اختلاف کے آثار و نتائج سے مختلف تھے ،کیو نکہ ، پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنی حیات میں خو د ہی ان کے درمیا ن قضا وت کر تے تھے اور اپنی را ہنما ئی سے اختلا ف کی بنیا د کواکھاڑ دیتے تھے !( ۱ )

لیکن پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رحلت کے بعد لو گ مجبو ر ہو ئے کہ کسی صحا بی یا ان کے ایک گروہ سے( جوکہ خلفا ء و حکا م کے بر گز یدہ تھے) اجتہا د کا سہا را لیں اور ان سے قضا وت طلب کر یں جب کہ دو سرے اصحا ب اپنے آرا ء ونظریات کو محفو ظ ر کھتے تھے ( اور یہ خو د ہی اختلا ف میں اضا فہ کا سبب بنا ) اس اختلا ف کے واضح نمونے مند ر جہ ذ یل باتیں ہیں۔

۱۔ پیغمبر اکر مصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی وفا ت کے بعد امت کا خلا فت اور اما مت کے بارے میں اختلاف۔( ۲ )

۲۔ زکو ة نہ دینے وا لو ں کا قتل اور یہ کہ آیا زکو ة نہ دینا ارتد اد اور دین سے خا رج ہو نے کا با عث ہے یا نہیں؟اس طرح سے ہر اختلا ف،خاص آراء و خیا لا ت ، گروہ اور کلا می اور اعتقا دی مکا تب کی پید ائش کا سر چشمہ بن گیاجس کے نتیجہ میں ہر ایک اس رو ش کے ساتھ جو اس نے استد لا ل و استنبا ط میں اختیا ر کی تھی اپنے آ را ء و عقا ئد کی تر ویج و تد وین میں مشغول ہوگیا ، ہما ری تحقیق کے مطا بق ان مکا تب میں اہم تر ین مکاتب مند ر جہ ذیل ہیں :

۱۔خالص نقلی مکتب۔

۲۔ خالص عقلی مکتب

۳۔ ذو قی و اشراقی مکتب

۴۔ حسّی و تجر بی مکتب

۵۔ فطر ی مکتب

الف ۔ خالص نقلی مکتب:

'' احمد ابن حنبل'' حبنلی مذ ہب کے امام ( متو فی ۲۴۱ ھ) اپنے زمانے میں اس مکتب کے پیشوا اور پیشر و شما ر کئے جاتے تھے، یہ مکتب ،اہل حد یث ( اخبار یین عا مہ) کے مکتب کے مانند ہے: ان لو گو ں کارو ایات

____________________

(۱)سیرہ ٔ ابن ہشام ، ص ۳۴۱،۳۴۲ ،اورڈاکٹرمحمد حمیدﷲ مجموعة الوثائق السیاسةج۱،ص۷.(۲)اشعری '' مقا لات الاسلامیین و اختلاف المصلین '' ج ۱، ص ۳۴، ۳۹ اور ابن حزم '' الفصل فی الملل والاہواء والنحل '' ج ۲، ص ۱۱۱ اور احمد امین '' فجر الاسلام ''.

۱۸۸

کی حفا ظت وپا سدا ری نیز ان کے نقل کر نے کے علا وہ کوئی کام نہ تھااوران کے مطا لب میں تد بر اور غور خوض کرنے نیزصحیح کو غلط سے جدا کرنے سے انھیںکوئی تعلق نہ تھا ،اس طرح کی جہت گیر ی کو آخری زمانوں میں ''سلفیہ'' کہتے ہیں، اور فقہ میں اہل سنت کے حنبلی مذہب والے میں اس روش کی پیر وی کرتے ہیں، وہ لوگ دینی مسا ئل میں رائے و نظر کو حرام( سبب و علت کے بارے میں ) سوال کو بدعت اور تحقیق اور استد لال کو بدعت پرستی اورہوا پر ستوں کے مقا بلے میں عقب نشینی جانتے ہیں، اس گروہ نے اپنی سا ری طاقت سنت کے تعقل وتفکرسے خالی درس و بحث پر وقف کر دی اوراس کو سنت کی پیر وی کرنااوراس کے علاوہ کو ''بد عت پرستی'' کہتے ہیں۔

ان کی سب سے زیادہ اور عظیم تر ین کو شش و تلا ش یہ ہے کہ اعتقا دی مسا ئل سے مر بو ط احا دیث کی تدوین اور جمع بندی کرکے اس کے الفا ظ و کلما ت اور اسنا د کی شر ح کریں جیسا کہ بخا ر ی ، احمد ابن حنبل ، ابن خز یمہ، بیہقی اور ابن بطّہ نے کیا ہے، وہ یہاںتک آگے بڑھ گئے کہ عقید تی مسا ئل میں علم کلا م اور عقلی نظر یا ت کو حرا م قراردے دیا،ان میں سے بعض نے اس سلسلہ میں مخصوص رسا لہ بھی تد وین کیا ، جیسے ابن قدامہ نے''تحریم النظر فی علم الکلا م''نا می رسا لہ تحریر کیا ہے۔

احمد ابن حنبل نے کہا ہے: اہل کلام کبھی کا میاب نہیں ہو ں گے ، ممکن نہیں کہ کوئی کلام یا کلامی نظر یہ کا حامل ہو اور اس کے دل میں مکر و حیلہ نہ ہو،اس نے متکلمین کی اس درجہ بد گو ئی کی کہ حا رث محا سبی جیسے (زا ہد و پرہیز گا ر) انسا ن سے بھی دور ہو گیا اور اس سے کنا رہ کشی اختیا ر کر لی، کیو نکہ اس نے بد عت پرست افراد کی رد میں کتا ب تصنیف کی تھی احمد نے اس سے کہا : تم پر وا ئے ہو! کیا تم پہلے ان کی بد عتوں کا ذکر نہیں کروگے تاکہ بعد میں اس کی رد کر و؟ کیا تم اس نوشتہ سے لوگوں کو بد عتوں کا مطا لعہ اور شبہو ں میں غو ر و فکر کرنے پر مجبور نہیں کروگے یہ بذات خود ان لو گو ں کو تلا ش و جستجو اورفکرونظر کی دعوت دینا ہے۔

احمد بن حنبل نے یہ بھی کہا ہے: علما ئے کلا م ز ند یق اور تخریب کا ر ہیں۔

زعفرا نی کہتا ہے :شا فعی نے کہا : اہل کلام کے بارے میں میرا حکم یہ ہے کہ انھیں کھجور کی شاخ سے زدو کوب کرکے عشا ئر اور قبا ئل کے درمیا ن گھما ئیں اور کہیں: یہ سزا اس شخص کی ہے جو کتاب و سنت کو چھوڑ کر علم کلام سے وابستہ ہوگیا ہے!

تمام اہل حدیث سلفیو ں(اخبار یین عا مہ) کا اس سلسلہ میں متفقہ فیصلہ ہے اور متکلمین کے مقا بل ان کے عمل کی شد ت اس سے کہیں زیادہ ہے جتنا لوگوں نے نقل کیا ہے، یہ لو گ کہتے ہیں : پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اصحا ب باوجو د یکہ حقائق کے سب سے زیا دہ عا لم اور گفتا ر میں دوسرو ں سے زیا دہ محکم تھے، انہوں نے عقائد سے متعلق با ت کر نے میں اجتنا ب نہیں کیا مگر صرف اس لئے کہ وہ جا نتے تھے کہ کلام سے شر و فسا د پیدا ہوگا۔ یہی و جہ ہے کہ پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ایک ہی جملے کی تین با ر تکرا ر کی اور فر مایا :

۱۸۹

(هلک المتعمقون، هلک المتعمقون ،هلک المتعمقون )

غو ر وخو ض کر نے وا لے ہلا ک ہو گئے، غو ر وخو ض کر نے وا لے ہلا ک ہو گئے، غو ر وخو ض کر نے والے ہلا ک ہو گئے، یعنی (دینی) مسا ئل گہرائی کے ساتھ غور و فکر کر نے والے ہلا ک ہوگئے!

یہ گروہ(اخبا ریین عا مہ) عقیدہ میں تجسیم اور تشبیہ(یعنی خدا کے جسم اور شبا ہت) کا قائل ہے ، '' ْقدر'' اور سر نوشت کے ناقابل تغییر ہونے اور انسا ن کے مسلو ب الا را دہ ہونے کا معتقدہے۔( ۱ )

یہ لو گ عقا ئد میں تقلید کو جا ئز جا نتے ہیں اور اس کے سلسلہ میں را ئے و نظر کو جیسا کہ گز ر چکا ہے حرام سمجھتے ہیں۔

ڈاکٹر احمد محمود صبحی فر ماتے ہیں:

'' با وجو د یکہ عقا ئد میں تقلید- عبد ﷲ بن حسن عنبری، حشویہ اور تعلیمیہ( ۲ ) کے نظریہ کے بر خلا ف نہ ممکن ہے اور نہ جائز ہے،یہی نظریہ ''محصل '' میں فخر رازی کا ہے( ۳ )

اورجمہو ر کا نظریہ یہ ہے کہ عقائد میں تقلیدجائز نہیں ہے اور استاد ابو اسحا ق نے ''شرح التر تیب'' میں اس کی نسبت اجماع اہل حق اور اس کے علاوہ کی طرف دی ہے اور امام الحرمین نے کتاب''الشامل'' میں کہا ہے کہ حنبلیوں کے علا وہ کو ئی بھی عقائد میں تقلید کا قائل نہیں ہے ، اس کے با وجود ، امام شو کا نی نے لو گو ں پر عقائد میں غور و فکر کو واجب جاننے کو''تکلیف مالایطاق'' (ایسی تکلیف جو قدرت و توانائی سے باہر ہو) سے تعبیر کیا ہے، وہ بزرگان دین کے نظریات اور اقوال پیش کرنے کے بعد کہتے ہیں: خدا کی پناہ !یہ کتنی عجیب و غریب باتیں ہیں یقیناً یہ ، لوگوں کے حق میں بہت بڑا ظلم ہے کہ امت مرحومہ کو ایسی چیز کا مکلف بنایا جائے جس کی ان میں قدرت نہیں ہے،(کیا ا یسا نہیں ہے ) وہی صحا بہ کا حملی اور تقلیدی ایمان جو اجتہا د و نظر کی منزل تک نہیں پہنچے تھے، بلکہ اس سے نزدیک بھی نہیں ہوئے تھے ، ان کے لئے کافی ہو ؟۔

____________________

(۱)صابونی ؛ ابو عثمان اسماعیل ؛رسالة عقیدةالسلف و اصحاب الحدیث(فی الرسائل المنیرة).

(۲)آمری؛ ''الاحکام فی اصول الاحکام'' ،ج۴ ، ص ۳۰۰.

(۳)شوکانی: '' ارشاد الفحول '' ص۲۶۶-۲۶۷.

۱۹۰

انھوں نے اس سلسلے میں نظر دینے کو بہت سارے لو گو ں پر حرا م اور اس کو گمرا ہی اور نا دانی میں شما ر کیا ہے ۔( ۱ )

اس لحا ظ سے ان کے نز دیک علم منطق بھی حرا م ہے اور ان کے نزدیک منطق انسانی شنا خت اور معرفت تک رسا ئی کی رو ش بھی شما ر نہیں ہو تی ہے، با وجودیکہ علم منطق ایک مشہو ر ترین اور قدیم تر ین مقیاس و معیا ر ہے یہ ایک ایسا علم ہے جس کو ارسطو نے'' ار غنو ن'' نامی کتاب میں تد وین کیا ہے اور اس کا نام علم سنجش و میز ان رکھا ہے۔

اس روش کو اپنا نے والوں کی نظر میں تنہا علم منطق ذہن کو خطا و غلط فہمی سے محفو ظ رکھنے کے لئے کا فی نہیں ہے ،یہ لوگ کہتے ہیں بہت سارے اسلامی مفکرین جیسے کندی .فا رابی، ابن سینا ، امام غزالی ، ابن ماجہ ، ابن طفیل اور ابن رشد علم منطق میں ممتا ز حیثیت کے مالک ہیں، لیکن آرا ء وافکا ر اور نظریاتمیں آپس میں شد ید اور بنیا دی اختلا فات کا شکا ر ہو گئے ہیں،لہٰذا منطق حق و با طل کی میزان نہیں ہے ۔

البتہ آخری دورمیں اس گروہ کا موقف علم منطق اور علم کلا م کے مقابلہ میں بہت نرم ہو گیا تھا جیسے ابن تیمیہ کے موقف کو علم کلام کے مقا بل مضطرب دیکھتے ہیں ،وہ علم کلام کو کلی طور پر حرا م نہیں کرتا بلکہ اگر ضرو رت اقتضا ء کرے اور کلا م عقلی اور شرعی دلائل پر مستند ہو اور تخریب کا روں، زند یقوں اور ملحدوں کے شبہو ں کو جدا کرنے کا سبب ہو توا سے جائز سمجھتا ہے۔( ۲ )

اس کے با وجود اس نے منطق کو حرا م کیا اور اس کی ردّ میں '' رسا لة الر د علیٰ المنطقین'' نا می رسا لہ لکھا ہے: اور اس کے پیرو کہتے ہیں:'' ڈیکا رٹ فر انسیسی''(۱۵۹۶۔۱۶۵۰ئ) نے خطا وصوا ب کی تشخیص کے لئے ارسطا طا لیس کی منطق کے بجا ئے ایک نئی میزا ن اور معیا ر اخترا ع کیا اور تا کید کی کہ اگر انسا ن اپنے تفکر میں قدم بہ قدم اس کے اختر اعی مقیا س کو اپنا ئے تو صواب کے علا وہ کو ئی اور راہ نہیں پا ئے گا'' ڈکا رٹ'' کی رو ش کا استعمال کر نا یقین آور نتیجہ دیتا ہے، لیکن ایسا نہیں ہوا اور دورمعاصرمیں ڈکا رٹ کی روش سے جو امیدیں جاگیں تھیں ان کا حال بھی منطق ارسطو سے پائی جانے والی امیدوںکی طرح رہا اور میلاد مسیح سے لے کر اب تک کے موضوع بحث مسائل ویسے کے ویسے پڑے رہ گئے۔( ۳ )

____________________

(۱) امام جوینی: '' الار شاد الی قواطع الادلة '' ص۲۵، غزالی '' الجام العوام عن العلم الکلام '' ص ۶۶، ۶۷.ڈاکٹر احمد محمود صبحی : '' فی علم الکلام'' مقدمہ ٔ جلد اول

(۲)ابن تیمیہ :''مجموع الفتاوی ''ج۳ ،ص ۳۰۶ ، ۳۰۷.(۳)ڈاکٹر عبد الحلیم محمود : '' التوحید الخالص'' ، ص ۵تا ۲۰.

۱۹۱

یہ و ہی چیز ہے جس کے باعث بہت سارے پہلے کے مسلما ن مفکر ین منجملہ امام غزا لی(۴۵۰۔۵۰۵ھ) روش عقلی کے ترک کر نے اور اسے مطر ود قرار دینے کے قا ئل ہوئے ، غز الی اپنی کتا ب ( تھا فة الفلاسفہ) میں عقلی دلا ئل سے فلسفیوں کے آراء و خیا لا ت کو باطل اور رد کرتا ہے ، غزالی کی اس کتاب میں دقت ا س بات کی گواہ ہے کہ وہ عقل جو کہ دلا ئل کا مبنیٰ ہے، وہی عقل ہے جو ان سب کو برباد کر دیتی ہے۔

غزالی ثابت کرتاہے کہ عالم الٰہیات اور اخلا ق میں انسا نی عقل سے ظن و گمان کے علاوہ کچھ حا صل ہونے والا نہیں ہے۔

اسلامی فلسفی ابن رشد اند لسی(متوفی ۔۵۹۵ھ) نے اپنی کتاب ( تھا فةالتہافت) میں غزا لی کے آراء و خیا لات کی رد کی ہے ، ابن رشد وہ شخص ہے جو اثبا ت کرتا ہے کہ عقل صریح اور نقل صحیح کے درمیا ن کسی قسم کا کوئی تعا رض نہیں ہے ، اوریہ بات ا س کی کتاب (فصل المقال بین الحکمة و الشر یعة من الا تصا ل) سے واضح ہو تی ہے ، حیرت انگیز یہ ہے کہ وہ اس موقف میں '' ابن تیمیہ'' کے ساتھ اپنی کتاب ( عقل صریح کی نقل صحیح سے مو افقت) میں ایک نتیجہ پر پہنچے ہیں۔

پھر ابن تیمیہ کے دو نوں موقف: '' عقلی روش سے مخالفت اور عقل صریح کے حکم سے موافقت''کے درمیان جمع کی کیا صورت ہوسکتی ہے ؟ نہیں معلوم ۔

مکتب خلفا ء کے اہل حدیث اور مکتب اہل بیت کے اخباریوں کی روش ؛ نصوص شر عی،آیات وروا یات کے ظواہر کی پیروی کرنا اوررائے و قیا س سے حتی الامکان اجتناب کرنا ہے۔( ۱ ) ( سلفی مکتب) یا اہل حدیث کا مر کز اس وقت جز یرة العر ب (نجد کا علا قہ) ہے نیز ان کے کچھ گروہ عرا ق، شام اور مصر میں بھی پا ئے جاتے ہیں۔( ۲ )

ب: خالص عقلی مکتب

اس مکتب کے ماننے وا لے عقل انسا نی کی عظمت و شان پر تکیہ کر تے ہو ئے، شنا خت و معر فت کے اسباب و وسا ئل کے مانند، دوسروں سے ممتاز اور الگ ہیں ، یہ لوگ اسلامی نقطہ نظر سے ''مکتب رائے''کے ماننے والے اور عقیدہ میں ''معتز لہ '' کہلاتے ہیں ۔

____________________

(۱) شیخ مفید ، '' اوائل المقالات ''؛سیوطی'' صون المنطق والکلام عن علمی المنطق والکلام'' ص ۲۵۲.شوکانی : ارشاد الفحول ؛ ص ۲۰۲ ؛ علی سامی النشار : ''مناھج البحث عند مفکری الاسلام''ص ۱۹۴ تا ۱۹۵،علی حسین الجابری ،الفکرالسلفی عند الاثنی عشر یہ ،ص ۱۵۴، ۱۶۷، ۲۰۴ ، ۲۴۰ ، ۴۲۴، ۴۳۹ .(۲)قاسمی '' تاریخ الجہمیہ والمعتزلة ''ص ۵۶۔ ۵۷.

۱۹۲

اس مکتب کی پیدائش تاریخ اسلام کے ابتدا ئی دور میں ہوئی ہے ، سب سے پہلے مکتب اعتزال کی بنیاد'' واصل ابن عطا( ۸۰ھ، ۱۳۱ ھ) اور اس کے ہم کلا س '' عمر و بن عبید''( ۸۰ ھ۔ ۱۴۴ھ) منصور دوا نقی کے معاصر نے ڈالی ، اس کے بعد مامون عباسی کے وزیر'' ابی داؤد''اور قاضی عبد الجبا ر بن احمدہمدا نی،متوفی ۴۱۵''جیسے کچھ پیشوا اس مکتب نے پیدا کئے اس گروہ کے بزرگوں میں '' نظّا م''''ابو ہذ یل علاّف''''جا حظ'' اور جبا ئیان کا نام لیا جا سکتا ہے۔

اس نظر یہ نے انسا نی عقل کو بہت اہمیت دی ،خدا وند سبحا ن اور اس کے صفات کی شناخت اور معرفت میں اسے اہم ترین اور قوی ترین شما ر کرتا ہے، شریعت اسلامی کا ادراک اور اس کی تطبیق و موا زنہ اس گروہ کی نگاہ میں ، عقل انسا نی کے بغیر انجام نہیں پا سکتا۔

یہ مکتب ( معتز لہ) ہمارے زمانے میں اس نام سے اپنے پیرو اور یار ویاور نہیں رکھتا صرف ا ن کے بعض افکار'' زید یہ'' اور ابا ضیہ فرقے میں دا خل ہو گئے ہیں اور یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ لوگ'' معتزلہ'' کے ساتھ بعض افکار ونظریات میں شر یک ہیں اسی طرح '' معتز لہ'' شیعہ اثنا عشری اور اسما علیہ کے ساتھ بعض جو انب کے لحاظ سے ایک ہیں ،اہل حدیث( اخباریین عا مہ) نے'' معتزلہ'' کواس لحا ظ سے کہ ارادہ اور انتخاب میں انسان کی آزا دی کے قا ئل ہیں'' قدر یہ'' کالقب دیا ہے۔

عقائد میں ان کی سب سے اہم کتاب'' شر ح الاصول الخمسة'' قا ضی عبد الجبا ر معتزلی کی تا لیف اور ''رسائل العدل والتو حید'' ہے جو کہ معتز لہ کے رہبروں کے ایک گروہ جیسے حسن بصری ، قاسم رسی اور عبد الجبا ر بن احمد کی تالیف کردہ کتاب ہے۔

معتزلہ ایسے تھے کہ جب بھی ایسی قرا نی آیات نیز مروی سنت سے رو برو ہو تے تھے جو ان کے عقائد کے بر خلا ف ہو تی تھی اس کی تا ویل کرتے تھے اسی لئے انھیں '' مکتب تاویل'' کے ماننے والوں میں شما ر کیا جاتاہے، اس کے با وجود ان لوگوں نے اسلام کیلئے عظیم خد متیں انجام دی ہیں اور عباسی دور کے آغا ز میں جب کہ اسلام کے خلاف زبردست فکری اور ثقا فتی یلغا ر تھی اس کے مقا بلہ کے لئے اٹھ کھڑ ے ہوئے ، بعض خلفاء جیسے'' مامون'' اور'' معتصم ''ان سے منسلک ہو گئے ، لیکن کچھ دنوں بعد ہی'' متو کل'' کے زمانے میں قضیہ برعکس ہو گیا اور ان کے نقصا ن پر تمام ہو ا اور کفر و گمرا ہی اور فسق کے احکا م یکے بعد دیگرے ان کے خلا ف صادر ہوئے، بالکل اسی طرح جس طرح خود یہ لوگ درباروں پر اپنے غلبہ و اقتدار کے زمانے میں اپنے مخالفین کے ساتھ کرتے تھے اور جو ان کے آراء و نظریات کوقبول نہیں کرتے تھے انھیں اذیت و آزار دیتے تھے۔

۱۹۳

اس کی مزید وضاحت معتزلہ کے متعلق جد ید اور قدیم تا لیفا ت میں ملا حظہ کیجئے ۔( ۱ )

فرقۂ معتز لہ حسب ذیل پانچ اصول سے معروف و مشہور ہے :

۱۔توحید، اس معنی میں کہ خدا وند عالم مخلو قین کے صفات سے منزہ ہے اور نگا ہوں سے خدا کو دیکھنا بطور مطلق ممکن نہیں ہے ۔

۲۔ عدل، یعنی خدا وند سبحا ن نے اپنے بندوں پر ظلم نہیں کیا ہے اور اپنی مخلو قات کو گناہ کر نے پر مجبور نہیں کرتا ہے

۳۔ ''المنز لة بین المنز لتین''

یعنی جو گناہ کبیرہ انجام دیتا ہے نہ مو من ہے نہ کافر بلکہ فا سق ہے۔

۴۔ وعدو وعید، یعنی خدا پر واجب ہے کہ جو وعدہ ( بہشت کی خو شخبری) اور وعید ( جہنم سے ڈرا نا) مومنین اور کا فرین سے کیا ہے اسے وفا کرے۔

۵۔ امر با لمعروف اور نہی عن المنکر، یعنی ظالم حکام جو اپنے ظلم سے باز نہیں آ تے ،ان کی مخا لفت وا جب ہے۔( ۲ )

مکتب اشعر ی :ما تر یدی یا اہل سنت میں متوسط راہ

'' مکتب اشعر ی'' کہ آج زیا دہ تر اہل سنت اسی مکتب کے ہم خیال ہیں،'' معتزلہ مکتب'' اور اہل حدیث کے درمیان کا راستہ ہے ، اس کے بانی شیخ ابو الحسن اشعر ی(متوفی ۳۲۴ ھ ) خودابتدا میں ( چا لیس سال تک) معتز لی مذ ہب رکھتے تھے ،لیکن تقریبا ۳۰۰ ھ کے آس پاس جا مع بصرہ کے منبر پر جا کر مذ ہب اعتزا ل سے بیزا ری اور مذہب سنت وجما عت کی طر ف لوٹنے کا اعلان کیا اور اس بات کی کوشش کی کہ ایک میا نہ اور معتدل روش جو کہ معتزلہ کی عقلی روش اور اہل حد یث کی نقلی روش سے مرکب ہو ، لوگوں کے درمیان عام

____________________

(۱)زھدی حسن جار ﷲ:( المعتز لة) طبع بیروت، دار الا ھلےة للنشر و التو زیع، ۱۹۷۴ ئ.

(۲) قاسم رسی،'' رسا ئل العدل و التو حید و نفی التشبیہ عن ﷲ الوا حد الصمد'' ج،۱،ص ۱۰۵۔

۱۹۴

کریں، وہ اسی تگ ودو میں لگ گئے، تا کہ مکتب اہل حدیث کو تقو یت پہنچائیں اور اس کی تائید و نصرت کریں، لیکن یہ کام معتزلہ کی اسی بروش یعنی : عقلی اور بر ہا نی استد لا ل سے انجام دیاکرتے تھے اس وجہ سے معتز لہ اور اہل حدیث کے نز دیک مردود و مطرود ہو گئے اور دونو ں گر وہوں میں سے ہر ایک اب تک اہم اور اساسی اعترا ضا ت وارد کر کے ا ن کی روش کو انحرا فی اور گمراہ کن جانتا ہے، یہا ں تک کہ ان کے بعض شد ت پسند وں نے ان کے کفر کا فتویٰ د ے دیا ۔

ایک دوسرا عالم جو کہ اشعری کا معاصر تھا ، بغیر اس کے کہ اس سے کو ئی را بطہ اورتعلق ہو،اس بات کی کوشش کی کہ اسی راہ وروش کو انتخاب کر کے اسے با قی رکھے اور آگے بڑھائے ، وہ ابو منصور ما تر ید ی سمرقندی(متوفی ۳۳۳ھ) ہے وہ بھی اہل سنت کے ایک گروہ کا عقید تی پیشوا ہے، یہ دو نو ں رہبرمجمو عی طور پر آپس میں آراء و نظریات میں اختلا ف بھی رکھتے ہیں بعض لوگو ں نے ان میں سے اہم ترین اختلاف کو گیا رہ تک ذکرکیا ہے ۔( ۱ )

اشعر ی مکتب کی سب سے اہم خصو صیت یہ ہے کہ ایک طرف آیات و روایات کے ظا ہری معنی کی تاویل سے شدت کے ساتھ اجتناب کرتا ہے، دوسری طرف کوشش کرتا ہے کہ''بلا کیف'' کے قول کے ذریعہ یعنی یہ کہ با ری تعا لیٰ کے صفا ت میں کیفیت کا گزر نہیں ہے '' تشبیہ و تجسیم'' کے ہلا کت بار گڈ ھے میں سے فرار کرتا ہے اور'' با لکسب'' کے قول سے یعنی یہ کہ انسان اپنے کردار میں جو کچھ انجام دیتا ہے کسب کے ذریعہ ہے نہ اقدا م کے ذریعہ ''جبر'' کی دلدل میں پھنسنے سے دوری اختیار کر تا ہے، اگر چہ علماء کے ایک گروہ کی نظر میں یہ روش بھی فکری واعتقا دی مسا ئل کے حل کے لئے نا کافی اور ضعیف و ناتواں شمار کی گئی ہے ،'' اشعری مکتب'' نے تدریجا ً اپنے استقلا ل اور ثبات قدم میں اضا فہ کیا ہے اور اہل حدیث ( اخبا ریین عا مہ) کے بالمقابل استقا مت کا مظا ہر ہ کیا اور عا لم اسلام میں پھیل گیا۔( ۲ )

____________________

(۱)دیکھئے: محمد ابو زہر ہ؛ '' تاریخ المذ اھب الاسلا مےة'' قسم الا شا عرہ و الما تر یدےة، آےة ﷲ شیخ جعفر سبحانی ، ا لملل والنحل، ج، ۱،۲، ۴، الفر د بل : ( الفرق الا سلا مےة فی الشما ل الا فر یقی) ص ۱۱۸۔ ۱۳۰، احمد محمود صبحی: ( فی علم الکلا م)

(۲)سبکی : ''الطبقات الشافعیة ج ۳، ص ۳۹۱ الیافعی '' مرآة الجنان '' ج ۳، ص۳۴۳. ابن کثیر ؛ '' البدایة والنہایة '' ج ۱۴، ص ۷۶.

۱۹۵

ج:۔ ذو قی و اشر اقی مکتب

بات کا رخ دوسری طرف موڑتے ہیں اور ایک علیحدہ اور جدا گانہ روش کہ جس میں کلامی مسائل جن کا اپنے

محور بحث اور منا قشہ ہے ان سے آزاد ہو کر صو فیوں کے رمزی اور عشقی مسلک کی پیروی کرتے ہیں، یہ مسلک تمام پہلؤوں میں فلسفیو ں اور متکلمین کی روش کا جوکہ عقل و نقل پر استوار ہے، مخا لف رہا ہے.'' منصور حلاج'' (متوفی ۳۰۹ھ) کوبغدا د میں اس مذ ہب کا با نی اور '' امام غزا لی'' کو اس کا عظیم رہبر شمار کیا ہے، غزالی اپنی کتاب''الجام العوا م عن علم الکلا م'' میں کہتا ہے ! یہ راہ '' خواص'' اوربر گز یدہ افراد کی راہ ہے اور اس راہ کے علاوہ( کلام و فلسفہ وغیرہ)''عوام'' اور کمتر در جے وا لوں نیزان لوگو ں کی راہ ہے جن کے اور عوام کے درمیان فرق صرف ادلہ کے جاننے میں ہے اور صرف ادلہّ سے آگا ہی استد لال نہیں ہے۔( ۱ )

بعض محققین نے عقائد اسلامی کے دریا فت کرنے میں امام غزالی اور صو فیوں کی روش کے بارے میں مخصوص کتا ب تا لیف کی ہے ۔( ۲ ) ڈاکٹر صبحی، غزا لی کی راہ و روش کو صحیح درک کر نے کے بعد کہتے ہیں:

اگر چہ غزالی ذا ت خدا وندی کی حقیقت کے بارے میں غو ر و خوض کرنے کو عوام پر حرا م جانتے ہیں اور یہ ایک ایسی بات ہے جس کا ان کے متعلق کوئی انکار نہیں کرتا ، لیکن انھوں نے اد بائ، نحو یوں، محد ثین ،فقہاء اور متکلمین کو عوام کی صف میں قرار دیا ہے اور تاویل کو راسخون فی العلم میں محدود و منحصر جا نا ہے اور وہ لوگ ان کی نظر میں اولیا ء ہیں جو معرفت کے دریا میں غر ق اور نفسانی خواہشات سے منزہ ہیں اور یہ عبارت بعض محققین کے اس دعویٰ کی صحت پر خود ہی قر ینہ ہے کہ'' غزا لی'' حکمت اشرا قی و ذوقی وغیرہ... میں ایک مخصوص اور مرموز عقیدہ رکھتے ہیں جو کہ ان کے عام اور آشکار اعتقاد کے مغائر ہے کہ جس کی بنا ء پروہ لوگو ں کے نز دیک حجةالاسلام کی منزل پر فا ئز ہوئے ۔

ڈ اکٹر صبحی سوال کرتے ہیں:

کیا حقیقت میں را سخون فی العلم صرف صو فی حضرا ت ہیں اور فقہا ئ، مفسر ین اور متکلمین حضرات ان سے خارج ہیں؟!

اگر ایسا ہے کہ فن کلام کی پیدا ئش اور اس کے ظاہر ہو نے سے برائیوں میں اضافہ ہوا ہے توکیا یہ استثنائ(صرف صو فیوںکو را سخون فی العلم جاننا ) ان کے لئے ایک خاص مو قع فراہم نہیں کرتا ہے کہ وہ اس خاص موقع سے فائدہ اٹھائیں اور نا روا دعوے اور نازیباگستا خیا ں کریں؟

____________________

(۱)''الجام العوام عن علم الکلام '' ص ۶۶تا ۶۷.

(۲) ڈاکٹر سلیمان دنیا ؛ '' الحقیقة فی نظر الغزالی ''

۱۹۶

تصوف فلسفی کے نظر یات جیسے فیض، اشرا ق اوراس کے ( شرع سے) بیگا نہ اصول بہت زیا دہ واضح ہیں،اور ان کا اسلا می عقائد کے سلسلے میں شر و نقصا ن متکلمین کے شرور سے کسی صورت میں کم نہیں ہے۔( ۱ )

لیکن بہر صورت ، اس گروہ نے اسلامی عقائد میں صو فیا نہ طر ز کے کثرت سے آثا ر چھو ڑے ہیں کہ ان کے نمو نوں میں سے ایک نمو نہ'' فتو حات مکیہ'' نامی کتاب ہے۔( ۲ )

د: حسی و تجر بی مکتب( آج کی اصطلا ح میں علمی مکتب)

یہ روش اسلامی فکر میں ایک نئی روش ہے کہ بعض مسلما ن دا نشو روں نے آخری صدی میں ، یو رپ کے معا صرفکر ی رہبر وںکی پیر وی میں اس کو بنایاہے ، اس روش کا اتباع کر نے والے جد ید مصر، ہند، عرا ق اور ان دیگر اسلا می مما لک میں نظر آتے ہیںجو غرب کے استعما ری تمد ن اور عا لم اسلا م پر وارد ہو نے والی فکری امواج سے متاثر ہوگئے ہیں۔

وہ لوگ انسا نی معرفت و شنا خت کے وسا ئل کے بارے میں مخصوص نظر یات رکھتے ہیں، حسی اور تجر بی رو شوں پر مکمل اعتماد کر نا اور پر انی عقلی راہ وروش اور ارسطو ئی منطق کو با لکل چھو ڑ دینا ان کے اہم خصو صیات میں سے ہے. یہ لوگ کو شش کرتے ہیں کہ'' معا رف الٰہی'' کی بحث اور ما وراء الطبیعت مسا ئل کو'' علوم تجربی''کی رو شوں سے اور میدان حس وعمل میں پیشکریں۔( ۳ )

اس جدید کلامی مکتب کے منجملہ آثار میں سے معجز ات کی تفسیر اس دنیا کی ما دی علتوں کے ذریعہ کرنا ہے ، اور نبو ت کی تفسیر انسا نی نبوغ اورخصو صیا ت سے کرنا ہے، بعض محققین نے ان نظر یات کی تحقیق و بر رسی کے لئے مستقل کتا ب تا لیف کی ہے۔( ۴ )

اس نظریہ کے کچھ نمو نے ہمیں '' سرسید احمد خان ہندی'' کے نو شتوں میں ملتے ہیں اگرانھیں اس مکتب کا پیرو نہ ما نیں ، تب بھی وہ ان لو گوں میں سے ضرور ہیں جو اس نظر یہ سے ہمسوئی اور نزدیکی رکھتے ہیں، اس نزدیکی کا

____________________

(۱) ڈاکٹر احمد محمود صبحی ؛ '' فی علم الکلام '' ج ۲، ص۰۴ ۶تا۶۰۶. (۲) شعرانی عبد الوہاب بن احمد ؛ '' الیواقیت والجواہر فی بیان عقاید الاکابر '' سمیع عاطف الزین ؛ '' الصوفیة فی نظر الاسلام '' تیسرا ایڈیشن ، دار الکتاب اللبنانی ، ۱۴۰۵ ھ ، ۱۹۸۵ ئ. (۳)ڈاکٹر عبد الحلیم محمود: '' التو حید الخا لص اوا لا سلا م و العقل'' ، مقدمہ.

(۴)ڈا کٹر عبد الر زّ اق نو فل؛ '' المسلمو ن و العلم الحدیث''. فر ید وجدی؛'' الا سلام فی عصر العلم''.

۱۹۷

سبب بھی یہ ہے کہ انھوں نے غرب کے جد ید دا نشو روں کے آراء و نظریات کو قرآن کی تفسیر میں پیش کرکے اوراپنی تفسیر کو ان نظر یات سے پُر کر کے یہ کو شش کی ہے کہ یہ ثا بت کر یں کہ قرآ ن تمام جد ید انکشا فات سے مو ا فق اور ہماہنگ ہے،سر سیداحمد خا ن ہندی بغیر اس کے کہ اپنے نظریئے کے لئے کوئی حد ومر ز مشخص کریں، اوردینی مسا ئل اور جد ید علمی مبا حث میں اپنا ہد ف، روش اور مو ضو ع واضح کریں، ایک جملہ میں کہتے ہیں:'' پو را قرآ ن علوم تجر بی انکشافات سے مو افق اور ہم آہنگ ہے''۔( ۱)

ھ:اہل بیت کا مکتب راہ فطرت

اس مکتب یعنی راہ فطرت کاخمیر، اہل بیت کی تعلیمات میں مو جو د ہے، ان حضرات نے لوگو ں کے لئے بیا ن کیا ہے :'' اسلامی عقائد کا صحیح طریقہ سے سمجھنا انسانی فطرت سے ہم آہنگی اور مطا بقت کے بغیر ممکن نہیں ہے'' اس بیان کی اصل قرآن و سنت میں مو جود ہے ، کیو نکہ قرآ ن کریم جہا ں با طل کا کسی صورت سے گزر نہیں ہے اس میں ذکر ہوا ہے:

(( فطرة ﷲ التی فطر الناس علیها لا تبدیل لخلق ﷲ ذلک الدین القیم و لکن اکثر الناس لایعلمون ) سورہ روم :۳۰.

ﷲ کی وہ فطرت جس پر اس نے انسا نوں کو خلق کیا ہے ، ﷲ کی آفر ینش میں کوئی تغیر اور تبد یلی نہیں ہے ، یہ ہے محکم آئین لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے!

پروردگا ر عا لم نے اس آیت میں اشارہ فرمایا: دینی معارف تک پہنچنے کی سب سے اچھی راہ انسان کی فطر ت سلیم ہے، ایسی فطرت کہ جسے غلط اور فا سد معاشرہ نیز بری تربیت کاما حول بھی بد ل نہیں سکتا اوراسے خواہشات ، جنگ و جدا ل محوا ورنابود نہیں کر سکتے اور اس بات کی علت کہ اکثر لوگ حق و حقیقت کو صحیح طر یقے سے درک نہیں کر سکتے یہ ہے کہ خود خواہی ( خود پسند ی) اور بے جا تعصب نے ان کے نور فطرت کو خا موش کر دیا ہے، اور ان کے اور ﷲ کے واقعی علوم و حقائق کے اور ان کی فطری درک و ہدایت کے درمیا ن طغیا نی اور سرکشی حا ئل ہو گئی ہے اور دونو ں کے درمیا ن فا صلہ ہو گیا ہے۔

____________________

(۱)۔محمود شلو ت '' تفسیر القرآن الکریم'' الا جزاء العشر ة الا ولی'' ص ۱۱ ۔ ۱۴، اقبال لاہو ری: ( احیا ئے تفکر دینی در اسلا م) احمد آرام کا تر جمہ ص ۱۴۷۔۱۵۱ ، سید جمال الدین اسد آبادی: ( العر وة الو ثقیٰ) شمار ہ ۷ ،ص ۳۸۳ ، روم، اٹلی ملا حظہ ہو.

۱۹۸

اس معنی کی سنت نبویصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم میں بھی تا کید ہو ئی ہے اور رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے ایک روایت میں مذ کور ہے :

''کل مولودٍ یو لد علی الفطر ةِ فا بوٰ اه یهو دٰ ا نه او ینصرٰا نه او يُمجسانه' '( ۱ )

ہر بچہ ﷲ کی پا کیزہ فطرت پرپیداہوتاہے یہ تو اس کے ماں باپ ہیں جواسے ( اپنی تربیت سے) یہودی، نصرا نی یا مجو سی بنا دیتے ہیں۔

راہ فطرت کسی صورت عقل و نقل، شہود و اشرا ق ، علمی وتجر بی روش سے استفادہ کے مخا لف نہیں ہے، اہم بات یہ ہے کہ یہ راہ شنا خت کے اسباب و وسا ئل میں سے کسی ایک سبب اور وسیلہ میں محدود و منحصر نہیں ہے بلکہ ہر ایک کو اپنی جگہ پر خداوند عا لم کی ہدایت کے مطابق میں استعمال کرتی ہے ، وہ ہدا یت جس کے بارے میں قرآن کریم خبر دیتے ہوئے فرماتا ہے:

( یمنو ن علیک أن أسلموا قل لاتمنوا علیّ اِسلا مکم بل ﷲ یمن علیکم أن هدا کم للاِیمان اِن کنتم صا دقینَ ) ( ۲ )

(اے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم )وہ لوگ تم پر اسلا م لانے کا احسان جتا تے ہیں ، تو ان سے کہہ دو! اپنے اسلام لا نے کا مجھ پر احسان نہ جتا ؤ ، بلکہ خدا تم پر احسان جتا تا ہے کہ اس نے تمھیں ایما ن کی طر ف ہدا یت کی ہے، اگر ایمان کے دعوے میں سچے ہو !

دوسری جگہ فرماتا ہے :( و لولا فضل ﷲ علیکم و رحمته ما زکیٰ منکم من أحدٍ أبدا ) () ( ۳ )

اگر خدا کا فضل اور اس کی رحمت تم پر نہ ہو تی تو تم میں سے کو ئی بھی کبھی پاک نہ ہو تا ۔

اس راہ کا ایک امتیاز اور خصو صیت یہ ہے کہ اس کے ما ننے وا لے کلا می منا ظر ے اور پیچیدہ شکو ک و شبہات میں نہیں الجھتے اور اس سے دور ی اختیا ر کرتے ہیںاور اس سلسلے میں اہل بیت کی ان احا دیث سے استنا د کرتے ہیں جو دشمنی اور جنگ و جدا ل سے رو کتی ہیں، ان کی نظر میں وہ متکلمین جنھیں اس راہ کی تو فیق نہیں ہو ئی ہے ان کے اختلا ف کی تعداد ایک مذ ہب کے اعتقادی مسا ئل میں کبھی کبھی ( تقریبا)سینکڑوں مسائل تک پہنچ جاتی ہے۔( ۴ )

____________________

(۱) صحیح بخاری: کتاب جنائز و کتاب تفسیر ؛ صحیح مسلم : کتاب قدر ، حدیث ۲۲تا ۲۴.مسند احمد : ج ۲، ص ۲۳۳، ۲۷۵، ۲۹۳، ۴۱۰، ۴۸۱، ج۳،ص ۳۵۳؛ صراط الحق: آصف محسنی (۲)سورہ حجرات ۱۷

(۳)سورہ ٔ نور ۲۱.

(۴) علی ابن طاؤوس ، ''کشف المحجة لثمرة الحجة '' ص ۱۱اور ص ۲۰، پریس داروی قم

۱۹۹

یہ پا کیزہ '' فطرت'' جس پر خدا نے انسان کو پیدا کیا ہے ، اہل بیت کی روایات میں کبھی ''طینت اور سرشت'' اور کبھی'' عقل طبیعی'' سے تعبیر ہو تی ہے، اس مو ضو ع کی مز ید معلو مات کے لئے اہل بیت کی گرانبہا میرا ث کے محا فظ اور ان کے شیعوں کی حد یث کی کتا بوں کی طرف رجو ع کر سکتے ہیں۔( ۱ )

اسلامی عقا ئد کے بیان میں مکتب اہل بیت کے اصول و مبا نی

عقائد میں ایک مہم ترین بحث اس کے ماخذ و مدارک کی بحث ہے ، اسلامی عقائد کے مدا رک جیسا کہ ہم نے پہلے بھی بیان کیا ہے،صرف کتاب خدا وندی اور سنت نبویصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہیں، لیکن مکتب اہل بیت اور دیگرمکاتب میں بنیا دی فرق یہ ہے کہ مکتب اہل بیت پوری طرح سے اپنے آپ کو ان مدا رک کا تا بع جانتا ہے اور کسی قسم بھی کی خو اہشات ، ہوائے نفس اوردلی جذ با ت اور تعصب کو ان پر مقدم نہیںکرتا اور ان دونوں مر جع سے عقائد حاصل کرنے میں صرف قرآ ن کریم اور روایات رسول اسلام میں اجتہاد کے اصول عامہ کو ملحوظ رکھتا ہے ، ا ن میں سے بعض اصول یہ ہیں:

۱۔ان نصوص و تصر یحا ت کے مقا بلے میں ، جو معا رض سے خالی ہوں یا معارض ہو لیکن نص کے مقا بل استقا مت کی صلا حیت نہ رکھتا ہو، کبھی اجتہا د کو نص پر مقد م نہیں رکھتے اس حال میں کہ بعض ہوا پر ستوں اور نت نئے مکتب بنا نے وا لوں کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ لغو اور بیہودہ تا ویلا ت کے ذریعہ اپنے آپ کو نصوص کی قید سے آزا د کر لیں ،عنقریب اس کے ہم چند نمو نوںکی نشان دہی کریں گے۔

حضرت امام امیر المو منین ـ ''حارث بن حوط'' کے جو اب میں فرما تے ہیں :

''انک لم تعرف الحقّ فتعرف من اتاه و لم تعرف البا طل فتعرف مَن أتا ه ''( ۲ )

تم نے حق ہی کو نہیں پہچا ناکہ اس پر عمل کرنے والوں کو پہچا نو اور تم نے باطل ہی کو نہیں پہچا نا کہ اس پر عمل کر نے والوں کو پہچا نو۔

۲۔ دوسرے لفظوںمیں ہم یہ کہہ سکتے ہیں: مکتب اہل بیت کے ما ننے وا لے کسی چیز کو نص اوراس روایت پر جو قطعی اور متو اتر ہو مقدم نہیں کرتے اور یہ اسلام کے عقیدہ میں نہایت اہم اصلی ہے ، کیو نکہ عقائد میں ظن و گما ن اور اوہام کا گزر نہیں ہے ، اس پر ان لوگوں کو توجہ دینی چاہیئے جو کہ ''سلفی'' نقطۂ نظر رکھتے ہیں ، نیز

____________________

(۱)کافی کلینی: ترجمہ ، ج۳، ص ۲، باب طینة المؤمن والکافر ، چوتھا ایڈیشن ، اسلامیہ تہران ، ۱۳۹۲ ھ.(۲)نہج البلا غہ، حکمت:۲۶۲:

۲۰۰

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

''ان ھنا قوماً يزعمون انہ كافر'' ، اس كے بعد فرماياكہ: '' تعجب كى بات ہے كہ بعض لوگ يہ كيوں خيال كرتے ہيں كہ ابوطالب كا فرتھے_ كيا وہ نہيں جانتے كہ وہ اس عقيدہ كے ساتھ پيغمبر(ص) اور ابوطالب پر طعن كرتے ہيں كيا ايسا نہيں ہے كہ قرآن كى كئي آيات ميں اس بات سے منع كيا گيا ہے (اور يہ حكم ديا گيا ہے كہ ) مومن عورت ايمان لانے كے بعد كافر كے ساتھ نہيں رہ سكتى اور يہ بات مسلم ہے كہ فاطمہ بنت اسدرضى اللہ عنہا سابق ايمان لانے والوں ميں سے ہيں اور وہ ابوطالب كى زوجيت ميں ابوطالب كى وفات تك رہيں _''

ابوطالب تين سال تك شعب ميں

۶_ان تمام باتوں كو چھوڑتے ہوئے اگرانسان ہر چيز ميں ہى شك كريں تو كم از كم اس حقيقت ميں تو كوئي شك نہيں كرسكتا كہ ابوطالب اسلام اور پيغمبر اكرم (ص) كے درجہ اول كے حامى ومددگار تھے ، ان كى اسلام اور پيغمبر كى حمايت اس درجہ تك پہنچى ہوئي تھى كہ جسے كسى طرح بھى رشتہ دارى اور قبائلى تعصبات سے منسلك نہيں كيا جاسكتا _

اس كا زندہ نمونہ شعب ابوطالب كى داستان ہے_ تمام مورخين نے لكھا ہے كہ جب قريش نے پيغمبر اكرم (ص) اور مسلمانوں كا ايك شديد اقتصادي، سماجى اور سياسى بائيكاٹ كرليا اور اپنے ہر قسم كے روابط ان سے منقطع كرلئے تو آنحضرت (ص) كے واحد حامى اور مدافع، ابوطالب نے اپنے تمام كاموں سے ہاتھ كھينچ ليا اور برابر تين سال تك ہاتھ كھينچے ركھا اور بنى ہاشم كو ايك درہ كى طرف لے گئے جو مكہ كے پہاڑوں كے درميان تھا اور ''شعب ابوطالب'' كے نام سے مشہور تھا اور وہاں پر سكونت اختيار كر لي_

ان كى فدا كارى اس مقام تك جا پہنچى كہ قريش كے حملوں سے بچانے كےلئے كئي ايك مخصوص قسم كے برج تعميركرنے كے علاوہ ہر رات پيغمبر اكرم (ص) كو ان كے بستر سے اٹھاتے اور دوسرى جگہ ان كے آرام كے لئے مہيا كرتے اور اپنے فرزند دلبند على كو ان كى جگہ پر سلاديتے اور جب حضرت على كہتے: ''بابا جان ميں تو اسى حالت ميں قتل ہوجائوں گا '' تو ابوطالب جواب ميں كہتے :ميرے پيارے بچے بردبارى اور صبر ہاتھ

۴۸۱

سے نہ چھوڑو، ہر زندہ موت كى طرف رواں دواں ہے، ميں نے تجھے فرزند عبد اللہ كا فديہ قرار ديا ہے _

يہ بات اور بھى طالب توجہ ہے كہ جو حضرت على عليہ السلام باپ كے جواب ميں كہتے ہيں كہ بابا جان ميرا يہ كلام اس بناپر نہيں تھا كہ ميں راہ محمد ميں قتل ہونے سے ڈرتاہوں ، بلكہ ميرا يہ كلام اس بنا پر تھا كہ ميں يہ چاہتا تھا كہ آپ كو معلوم ہوجائے كہ ميں كس طرح سے آپ كا اطاعت گزار اور احمد مجتبى كى نصرت ومدد كے لئے آمادہ و تيار ہوں _

قارئين كرام ہمارا عقيدہ يہ ہے كہ جو شخص بھى تعصب كو ايك طرف ركھ كر غير جانبدارى كے ساتھ ابوطالب كے بارے ميں تاريخ كى سنہرى سطروں كو پڑھے گا تو وہ ابن ابى الحديد شارح نہج البلاغہ كا ہمصدا ہوكر كہے گا :

ولولا ابوطالب وابنه لما مثل الدين شخصا وقاما

فذاك بمكة آوى وحامي وهذا بيثرب جس الحماما

'' اگر ابوطالب اور ان كا بيٹا نہ ہوتے تو ہرگزمكتب اسلام باقى نہ رہتا اور اپنا قدسيدھا نہ كرتا ،ابوطالب تو مكہ ميں پيغمبر كى مدد كےلئے آگے بڑھے اور على يثرب (مدينہ) ميں حمايت اسلام كى راہ ميں گرداب موت ميں ڈوب گئے''

ابوطالب كا سال وفات ''عام الحزن

'' ۷_''ابوطالب كى تايخ زندگي، جناب رسالت مآب (ص) كے لئے ان كى عظيم قربانياں اور رسول اللہ اور مسلمانوں كى ان سے شديد محبت كو بھى ملحوظ ركھنا چاہئے ہم يہاں تك ديكھتے ہيں كہ حضرت ابوطالب كى موت كے سال كا نام ''عام الحزن'' ركھا يہ سب باتيں اس امر كى دليل ہيں كہ حضرت ابوطالب كو اسلام سے عشق تھا اور وہ جو پيغمبر اسلام كى اس قدر مدافعت كرتے تھے وہ محض رشتہ دارى كى وجہ سے نہ تھى بلكہ اس دفاع ميں آپ كى حيثيت ايك مخلص، ايك جاں نثار اور ايسے فدا كار كى تھى جو اپنے رہبر اور پيشوا كا تحفظ كررہا ہو_''

۴۸۲

ابولہب كى دشمني

اس كانام '' عبدالعزي'' (عزى بت كا بندہ ) اور اس كى كنيت ''ابولہب'' تھي_ اس كے ليے اس كنيت كا انتخاب شايد اس وجہ سے تھا كہ اس كا چہرہ سرخ اور بھڑكتا ہوا تھا، چونكہ لغت ميں لہب آگ كے شعلہ كے معنى ميں ہے _

وہ اور اس كى بيوى ''ام جميل''جو ابوسفيان كى بہن تھى ، پيغمبر اكرم (ص) كے نہايت بدزبان اور سخت ترين دشمنوں ميں سے تھے _

''طارق محارق '' نامى ايك شخص كہتاہے : ميں '' ذى المجاز '' كے بازار ميں تھا _(۱)

اچانك ميں نے ايك جوان كو ديكھا جو پكار پكار كر كہہ رہا تھا: اے لوگو: لاالہ الا اللہ كا اقرار كر لو تو نجات پاجائوگے _ اور اس كے پيچھے پيچھے ميں نے ايك شخص كو ديكھا جو اس كے پائوں كے پچھلے حصہ پرپتھر مارتاجاتاہے جس كى وجہ سے اس كے پائوں سے خون جارى تھا اوروہ چلا چلا كر كہہ رہاتھا _اے لوگو يہ جھوٹاہے اس كى بات نہ ماننا ''_

ميں نے پوچھا كہ يہ جوان كون ہے ؟ تو لوگوں نے بتايا :'' يہ محمد، ، (ص) ہے جس كا گمان يہ ہے كہ وہ پيغمبر ہے اور يہ بوڑھا اس كا چچا ابولہب ہے جو جو اس كو جھوٹا سمجھتا ہے _

____________________

(۱)ذى المجار عرفات كے نزديك مكہ سے تھوڑے سے فاصلہ پر ہے

۴۸۳

''ربيع بن عباد'' كہتا ہے : ميں اپنے باپ كے ساتھ تھا، ميں نے رسول اللہ (ص) كو ديكھاكہ وہ قبائل عرب كے پاس جاتے اور ہر ايك كو پكار كر كہتے : ميں تمہارى طرف خدا كا بھيجا ہوا رسول ہوں : تم خدائے يگانہ كے سوا اور كسى كى عبادت نہ كرو اور كسى كو اس كا شريك نہ بنائو _

جب وہ اپنى بات سے فارغ ہوجاتاتو ايك خوبرو بھينگا آدمى جو ان كے پيچھے پيچھے تھا، پكاركركہتا : اے فلاں قبيلے : يہ شخص يہ چاہتاہے كہ تم لات وعزى بت اور اپنے ہم پيمان جنوں كو چھوڑدو اور اس كى بدعت وضلالت كى پيروى كرنے لگ جائواس كى نہ سننا، اور اس كى پيروى نہ كرنا ''_

ميں نے پوچھا كہ يہ كون ہے ؟ تو انہوں نے بتايا كہ يہ '' اس كا چچا ابولہب ہے ''_

ابولہب پيغمبر كا پيچھا كرتارہا

جب مكہ سے باہر كے لوگوں كا كوئي گروہ اس شہر ميں داخل ہوتا تھا تو وہ پيغمبر (ص) سے اس كى رشتہ دارى اور سن وسال كے لحاظ سے بڑاہونے كى بناپر ابولہب كے پاس جاتاتھا اور رسول اللہ (ص) كے بارے ميں تحقيق كرتا تھا وہ جواب ديتا تھا: محمد ايك جادوگر ہے ،وہ بھى پيغمبر سے ملاقات كئے بغير ہى لوٹ جاتے اسى اثناء ميں ايك ايسا گروہ آيا جنہوں نے يہ كہا كہ ہم تو اسے ديكھے بغير واپس نہيں جائيں گے ابولہب نے كہا : ''ہم مسلسل اس كے جنون كا علاج كررہے ہيں : وہ ہلاك ہوجائے ''_

وہ اكثر مواقع پر سايہ كى طرح پيغمبر كے پيچھے لگارہتا تھا اور كسى خرابى سے فروگذاشت نہ كرتا تھا خصوصاً اس كى زبان بہت ہى گندى اور آلودہ ہوتى تھى اور وہ ركيك اورچبھنے والى باتيں كيا كرتا تھا اور شايد اسى وجہ سے پيغمبر اسلام (ص) كے سب دشمنوں كا سرغنہ شمار ہوتا تھا اسى بناء پر قرآن كريم اس پر اور اس كى بيوى ام جميل پر ايسى صراحت اور سختى كے ساتھ تنقيد كررہاہے وہى ايك اكيلا ايسا شخص تھا جس نے پيغمبر اكرم (ص) سے بنى ہاشم كى حمايت كے عہد وپيمان پر دستخط نہيں كئے تھے اور اس نے آپ كے دشمنوں كى صف ميں رہتے ہوئے دشمنوں كے عہد وپيمان ميں شركت كى تھي_

۴۸۴

ابو لہب كے ہاتھ كٹ جائيں

''ابن عباس ''سے نقل ہوا ہے كہ جس وقت آيہ ''ونذر عشيرتك الاقربين'' _نازل ہوئي اور پيغمبر (ص) اپنے قريبى رشتہ داروں كو انذار كرنے اور اسلام كى دعوت دينے پر مامور ہوئے،تو پيغمبر(ص) كوہ صفا پرآئے اور پكار كر كہا''يا صباحاہ''(يہ جملہ عرب اس وقت كہتے تھے جب ان پر دشمن كى طرف سے غفلت كى حالت ميں حملہ ہو جاتا تھاتا كہ سب كو با خبر كرديں اور وہ مقابلہ كے ليے كھڑے ہو جائيں ،لہذا كوئي شخص''يا صباحاہ''كہہ كر آواز ديتا تھا''صباح''كے لفظ كا انتخاب اس وجہ سے كيا جاتا تھا كہ عام طور پر غفلت كى حالت ميں حملے صبح كے دقت كيے جاتے تھے_

مكہ كے لوگوں نے جب يہ صدا سنى تو انہوں نے كہا كہ يہ كون ہے جو فرياد كررہا ہے_

كہا گيا كہ يہ''محمد'' (ص) ہيں _ كچھ لوگ آپ(ص) كے پاس پہنچے تو آپ(ص) نے قبائل عرب كو ان كے نام كے ساتھ پكارا_ آپ(ص) كى آواز پر سب كے سب جمع ہوگئے تو آپ(ص) نے ان سے فرما يا:

''مجھے بتلائو اگر ميں تمہيں يہ خبر دوں كہ دشمن كے سوار اس پہاڑ كے پيچھے سے حملہ كرنے والے ہيں ،تو كيا تم ميرى بات كى تصديق كروگے''_

انہوں نے جواب ديا:''ہم نے آپ(ص) سے كبھى بھى جھوٹ نہيں سنا''_

آپ (ص) نے فرمايا:

''انى نذير لكم بين يدى عذاب شديد'' _

''ميں تمہيں خدا كے شديد عذاب سے ڈراتا ہوں ''_

(''ميں تمہيں توحيدكا اقرار كرنے او ربتوں كو ترك كرنے كى دعوت ديتا ہوں '')جب ابو لہب نے يہ بات سنى تو اس نے كہا:

''تبالكا ما جمعتنا الا لهذا؟ ''_

۴۸۵

تو ہلاك ہو جائے كيا تو نے ہميں صرف اس بات كے ليے جمع كيا ہے''؟

اس مو قع پر يہ سورہ نازل ہوا :

(تبت يداا بى لهب وتب )(۱)

اے ابو لہب تو ہى ہلاك ہو اور تيرے ہاتھ ٹوٹيں ،تو ہى زياں كار اور ہلاك ہونے والاہے،اس كے مال وثروت نے اور جو كچھ اس نے كمايا ہے اس نے، اسے ہر گز كوئي فائدہ نہيں ديا اور وہ اسے عذاب الہى سے نہيں بچائے گا''_

اس تعبير سے معلوم ہوتا ہے كہ وہ ايك دولت مند مغرور شخص تھا جواپنى اسلام دشمن كوششوں كے لئے اپنے مال ودولت پر بھروسہ كرتاتھا_

بعدميں قرآن مزيے كہتا ہے،''وہ جلدى ہى اس آگ ميں داخل ہوگا جس كے شعلے بھڑكنے والے ہيں ''_(۲)

اگر اس كا نام ''ابو لہب''ہے تو اس كے لئے عذاب بھي''بو لہب''ہے يعنى اس كے لئے بھڑگتے ہوئے اگ كے شعلہ ہيں _

ايندھن اٹھائے ہوئے

قرآن كريم نے اس كے بعد اس كى بيوى ''ام جميل '' كى كيفيت بيان كرتے ہوئے فرماياہے :''اس كى بيوى بھى جہنم كى بھڑكتى ہوئي آگ ميں داخل ہوگى ، جو اپنے د وش پر ايندھن اٹھاتى ہے''_(۳)

''اور اس كى گردن ميں خرماكى چھال كى رسى يا گردن بند ہے ''_(۴) ''فى جيدھا حبل من مسد''

____________________

(۱)سورہ مسد آيت۱ تا ۲

(۲)سورہ مسدآيت۳

(۳)سورہ مسد آيت ۴

(۴)سورہ مسد آيت ۴

۴۸۶

''مسد'' (بروزن حسد) اس رسى كے معنى ميں ہے جو كھجور كے پتوں سے بنائي جاتى ہے _ بعض نے يہ كہا ہے كہ ''مسد'' وہ رسى ہے جو جہنم ميں اس كى گردن ميں ڈاليں گے جس ميں كھجور كے پتوں جيسى سختى ہوگى اور اس ميں آگ كى حرارت اور لوہے كى سنگينى ہوگى _

بعض نے يہ بھى كہا ہے كہ چونكہ بڑے لوگوں كى عورتيں اپنى شخصيت كو آلات وزيورات خصوصا ًگردن كے قيمتى زيورات سے زينت دينے ميں خاص بات سمجھتى ہيں ،لہذا خدا قيامت ميں اس مضراوروخود پسند عورت كى تحقير كے ليے ليف خرما كا ايك گردن بند اس كى گردن ميں ڈال دے گايا يہ اصلا اس كى تحقير سے كنايہ ہے _

بعض نے يہ بھى كہا ہے كہ اس تعبير كے بيان كرنے كا سبب يہ ہے كہ '' ام جميل '' كے پاس جواہرات كا ايك بہت ہى قيمتى گردن بند تھااور اس نے يہ قسم كھائي تھى كہ وہ اسے پيغمبراكرم (ص) كى دشمنى ميں خرچ كرے گى لہذا اس كے اس كام كے بدلے ميں خدا نے بھى اس كے لئے ايسا عذاب مقرر كرديا ہے _

ابولہب كاعبرت ناك انجام

روايات ميں ايا ہے كہ جنگ''بدر''اور سخت شكست كے بعد ،جو مشركين قريش كو اٹھانى پڑى تھى ، ابولہب نے جوخود ميدان جنگ ميں شريك نہيں ہوا تھا ،ابوسفيان كے واپس آنے پر اس ماجرے كے بارے ميں سوال كيا،ابو سفيان كے قريش كے لشكر كى شكست اور سركوبى كى كيفيت بيان كي، اس كے بعد اس نے مزيد كہا :خدا كى قسم ہم نے اس جنگ ميں آسمان وزمين كے درميان ايسے سوار ديكھے ہيں جو محمد كى مدد كے ليے آئے تھے _

اس موقع پر'' عباس '' كے ايك غلام ''ابورافع ''نے كہا :ميں وہاں بيٹھاہوا تھا ،ميں نے اپنے ہاتھ بلند كيے اور كہا كہ وہ آسمانى فرشتے تھے _

اس سے ابولہب بھڑك اٹھا اور اس نے ايك زوردار تھپڑميرے منہ پر دے مارا ، مجھے اٹھاكر زمين پر

۴۸۷

پٹخ ديا اور اپنے دل كى بھڑاس نكالنے كے ليے مجھے پيٹے چلے جارہا تھا وہاں عباس كى بيوي''ام الفضل'' بھى موجود تھى اس نے ايك چھڑى اٹھائي اور ابولہب كے سرپر دے مارى اور كہا :''كيا تونے اس كمزور آدمى كو اكيلاسمجھا ہے ؟ ''

ابولہب كا سرپھٹ گيا اور اس سے خون بہنے لگا سات دن كے بعد اس كے بدن ميں بدبو پيدا ہوگئي ، اس كى جلد ميں طاعون كى شكل كے دانے نكل آئے اور وہ اسى بيمارى سے واصل جہنم ہوگيا _

اس كے بدن سے اتنى بدبو آرہى تھى كہ لوگ اس كے نزديك جانے كى جرات نہيں كرتے تھے وہ اسے مكہ سے باہر لے گئے اور دور سے اس پر پانى ڈالا اور اس كے بعد اس كے اوپر پتھر پھينكے يہاں تك كہ اس كا بدن پتھروں اور مٹى كے نيچے چھپ گيا _

۴۸۸

ابوسفيان وابوجہل چھپ كر قرآن سنتے ہيں

ايك شب ابوسفيان ،ابوجہل اور مشركين كے بہت سے دوسرے سردارجدا گانہ طور پر اور ايك دوسرے سے چھپ كر آنحضرت (ص) سے قرآن سننے كے لئے آگئے آپ اس وقت نماز پڑھنے ميں مشغول تھے اور ہر ايك ، ايك دوسرے سے بالكل بے خبر عليحدہ عليحدہ مقامات پر چھپ كر بيٹھ گئے چنانچہ وہ رات گئے تك قرآن سنتے رہے اور جب واپس پلٹنے لگے تو اس وقت صبح كى سفيدى نمودار ہوچكى تھى _اتفاق سے سب نے واپسى كے ليے ايك ہى راستے كا انتخاب كيا اور ان كى اچانك ايك دوسرے سے ملاقات ہوگئي اور ان كا بھانڈا وہيں پر پھوٹ گيا انھوں نے ايك دوسرے كوملامت كى اور اس بات پر زورديا كہ آئندہ ايسا كام نہيں كريں گے ، اگر نا سمجھ لوگوں كو پتہ چل گيا تو وہ شك وشبہ ميں پڑجائيں گے _

دوسرى اور تيسرى رات بھى ايسا ہى اتفاق ہوا اور پھروہى باتيں دہرائي گئيں اور آخرى رات تو انھوں نے كہا جب تك اس بات پر پختہ عہد نہ كرليں اپنى جگہ سے ہليں نہيں چنانچہ ايسا ہى كيا گيا اور پھر ہر ايك نے اپنى راہ لى _اسى رات كى صبح اخنس بن شريق نامى ايك مشرك اپنا عصالے كر سيدھا ابوسفيان كے گھر پہنچا اور اسے كہا : تم نے جو كچھ محمدسے سناہے اس كے بارے ميں تمہارى كيا رائے ہے ؟

اس نے كہا:خدا قسم : كچھ مطالب ايسے سنے ہيں جن كا معنى بخوبى سمجھ سكاہوں اور كچھ مسائل كى مراد اور معنى كو نہيں سمجھ سكا _ اخنس وہاں سے سيدھا ابوجہل كے پاس پہنچا اس سے بھى وہى سوال كيا : تم نے جو كچھ محمد سے سنا ہے اس كے بارے ميں كيا كہتے ہو ؟

ابوجہل نے كہا :سناكياہے، حقيقت يہ ہے كہ ہمارى اور اولاد عبدمناف كى قديم زمانے سے رقابت

۴۸۹

چلى آرہى ہے انھوں نے بھوكوں كو كھانا كھلايا، ہم نے بھى كھلايا ، انھوں نے پيدل لوگوں كو سوارياں ديں ہم نے بھى ديں ، انھوں نے لوگوں پر خرچ كيا، سوہم نے بھى كيا گويا ہم دوش بدوش آگے بڑھتے رہے_جب انھوں نے دعوى كيا ہے كہ ان كے پاس وحى آسمانى بھى آتى ہے تو اس بارے ميں ہم ان كے ساتھ كس طرح برابرى كرسكتے ہيں ؟ اب جب كہ صورت حال يہ ہے تو خداكى قسم ہم نہ تو كبھى اس پر ايمان لائيں گے اور نہ ہى اس كى تصديق كريں گے _اخنس نے جب يہ بات سنى تو وہاں سے اٹھ كر چلاگيا(۱)

جى ہاں : قرآن كى كشش نے ان پر اس قدرا ثركرديا كہ وہ سپيدہ صبح تك اس الہى كشش ميں گم رہے ليكن خود خواہى ، تعصب اور مادى فوائدان پر اس قدر غالب آچكے تھے كہ انھوں نے حق قبول كرنے سے انكار كرديا _اس ميں شك نہيں كہ اس نورالہى ميں اس قدر طاقت ہے كہ ہر آمادہ دل كو وہ جہاں بھى ہو، اپنى طرف جذب كرليتا ہے يہى وجہ ہے كہ اس (قرآن)كا ان آيات ميں ''جہاد كبير'' كہہ كر تعارف كروايا گيا ہے_(۲)

ايك اور روايت ميں ہے كہ ايك دن ''اخنس بن شريق'' كا ابوجہل سے آمناسامنا ہوگيا جب كہ وہاں پر اور كوئي دوسرا آدمى موجود نہيں تھا_تو اخنس نے اس سے كہا :سچ بتائو محمد سچاہے ،ياجھوٹا ؟قريش ميں سے كوئي شخص سواميرے اور تيرے يہاں موجود نہيں ہے جو ہمارى باتوں كو سنے _

ابوجہل نے كہا: وائے ہو تجھ پر خداكى قسم وہ ميرے عقيدے ميں سچ كہتا ہے اور اس نے كبھى جھوٹ نہيں بولا ليكن اگر يہ اس بات كى بناہو جائے كہ محمد كا خاندان سب چيزوں كو اپنے قبضہ ميں كرلے، حج كا پرچم ، حاجيوں كو پانى پلانا،كعبہ كى پردہ دارى اور مقام نبوت تو باقى قريش كے لئے كيا باقى رہ جائےگا_(۳)

____________________

(۱)سيرت ابن ہشام جلداول ص۳۳۷ ، اور تفسير فى ظلال القر،آن جلد۶ ص ۱۷۳

(۲)تفسير نمونہ ج ۸ ص ۱۴۴

(۳)مندرجہ بالاروايات تفسير المنار اور مجمع البيان سے سورہ انعام ايت ۳۳/ كے ذيل ميں بيان كردہ تفسير سے لى گئي ہيں

۴۹۰

اسلام كے پہلے مہاجرين

پيغمبر اكرم (ص) كى بعثت اور عمومى دعوت كے ابتدائي سالوں ميں مسلمان بہت ہى كم تعداد ميں تھے قريش نے قبائل عرب كو يہ نصيحت كرركھى تھى كہ ہر قبيلہ اپنے قبيلہ كے ان لوگوں پر كہ جو پيغمبر اكرم (ص) پر ايمان لاچكے ہيں انتہائي سخت دبائوڈاليں اور اس طرح مسلمانوں ميں سے ہر كوئي اپنى قوم وقبيلہ كى طرف سے انتہائي سختى اور دبائوميں مبتلا تھا اس وقت مسلمانوں كى تعداد جہادآزادى شروع كرنے كے لئے كافى نہيں تھى _پيغمبراكرم (ص) نے اس چھوٹے سے گروہ كى حفاظت اور مسلمانوں كے لئے حجاز سے باہر قيام گاہ مہياكرنے كے لئے انہيں ہجرت كا حكم دے ديا اور اس مقصد كےلئے حبشہ كو منتخب فرمايا اور كہا كہ وہاں ايك نيك دل بادشاہ ہے جو ظلم وستم كرنے سے اجتناب كرتا ہے _ تم وہاں چلے جائو يہاں تك كہ خداوند تعالى كوئي مناسب موقع ہميں عطافرمائے_پيغمبر اكرم (ص) كى مراد نجاشى سے تھى (نجاشى ايك عام نام تھا جيسے ''كسرى '' جو حبشہ كے تمام بادشاہوں كا خاص لقب تھا ليكن اس نجاشى كا اصل نام جو پيغمبر اكرم (ص) كا ہم عصر تھا اصحمہ تھا جو كہ حبشہ كى زبان ميں عطيہ وبخشش كے معنى ميں ہے )_

مسلمانوں ميں سے گيارہ مرداور چار عورتيں حبشہ جانے كے لئے تيار ہوئے اور ايك چھوٹى سى كشتى كرايہ پر لے كر بحرى راستے سے حبشہ جانے كے لئے روانہ ہوگئے _يہ بعثت كے پانچويں سال ماہ رجب كا واقعہ ہے _كچھ زيادہ عرصہ نہيں گزراتھا كہ جناب جعفر بن ابوطالب بھى مسلمانوں كے ايك دوسرے گروہ كے ساتھ حبشہ چلے گئے _ اب اس اسلامى جمعيت ميں ۸۲/مردوں علاوہ كافى تعداد ميں عورتيں اور بچے بھى تھے _

۴۹۱

مشركين ،مہاجرين كى تعقيب ميں

اس ہجرت كى بنيادبت پرستوں كے لئے سخت تكليف دہ تھى كيونكہ دہ اچھى طرح سے ديكھ رہے تھے كہ كچھ زيادہ عرصہ نہيں گزرے گا كہ وہ لوگ جو تدريجاً اسلام كو قبول كرچكے ہيں اور حبشہ كى سرزمين امن وامان كى طرف چلے گئے ہيں ، مسلمانوں كى ايك طاقتور جماعت كى صورت اختيار كرليں گے يہ حيثيت ختم كرنے كے لئے انہوں نے كام كرنا شروع كرديا اس مقصد كے لئے انہوں نے جوانوں ميں سے دوہوشيار، فعال، حيلہ باز اور عيار جوانوں يعنى عمروبن عاص اور عمارہ بن وليد كا انتخاب كيا بہت سے ہديے دے كر ان كو حبشہ كى طرف روانہ كيا گيا ،ان دونوں نے كشتى ميں بيٹھ كر شراب پى اور ايك دوسرے سے لڑپڑے ليكن آخركار وہ اپنى سازش كو روبہ عمل لانے كے لئے سرزمين حبشہ ميں داخل ہوگئے _ ابتدائي مراحل طے كرنے كے بعد وہ نجاشى كے دربار ميں پہنچ گئے ،دربار ميں بارياب ہونے سے پہلے انہوں نے نجاشى كے درباريوں كو بہت قيمتى ہديے دے كران كو اپنا موافق بنايا تھا اور ان سے اپنى طرفدارى اور تائيد كرنے كا وعدہ لے ليا تھا _

'' عمروعاص '' نے اپنى گفتگو شروع كى اور نجاشى سے اس طرح ہمكلام ہوا:

ہم سرداران مكہ كے بھيجے ہوئے ہيں ہمارے درميان كچھ كم عقل جوانوں نے مخالفت كا علم بلند كيا ہے اور وہ اپنے بزرگوں كے دين سے پھر گئے ہيں ،اور ہمارے خدائوں كو برابھلا كہتے ہيں ،انہوں نے فتنہ وفساد برپا كرديا ہے لوگوں ميں نفاق كا بيچ بوديا ہے ،آپ كى سرزمين كى آزادى سے انہوں نے غلط فائدہ اٹھايا ہے اور انہوں نے يہاں آكر پناہ لے لى ہے ، ہميں اس بات كا خوف ہے كہ وہ يہاں بھى خلل اندازى نہ كريں بہتريہ ہے كہ آپ انہيں ہمارے سپرد كرديں تاكہ ہم انہيں اپنى جگہ واپس لے جائيں _

يہ كہہ كر ان لوگوں نے وہ ہديئےو وہ اپنے ساتھ لائے تھے پيش كيے _

نجاشى نے كہا : جب تك ميں اپنى حكومت ميں پناہ لينے والوں كے نمائندوں سے نہ مل لوں اس سلسلے ميں كوئي بات نہيں كرسكتا اور چونكہ يہ ايك مذہبى بحث ہے لہذا ضرورى ہے كہ تمہارى موجودگى ميں مذہبى نمائندوں كوبھى ايك جلسہ ميں دعوت دى جائے _

۴۹۲

جعفربن ابى طالب مہاجرين كے بہترين خطيب

چنانچہ دوسرے دن ايك اہم جلسہ منعقد ہوا، اس ميں نجاشى كے مصاحبين اور عيسائي علماء كى ايك جماعت شريك تھى جعفر بن ابى طالب مسلمانوں كے نمائندہ كى حيثيت سے موجود تھے اور قريش كے نمائندے بھى حاضر ہوئے نجاشى نے قريش كے نمائندوں كى باتيں سننے كے بعد جناب جعفر كى طرف رخ كيا اور ان سے خواہش كى كہ وہ اس سلسلے ميں اپنا نقطہ نظربيان كريں جناب جعفرا دائے احترام كے بعد اس طرح گويا ہوئے : پہلے ان سے پوچھيے كہ كيا ہم ان كے بھاگے ہوئے غلاموں ميں سے ہيں ؟

عمرو نے كہا :نہيں بلكہ آپ آزاد ہيں _

جعفر: ان سے يہ بھى پوچھئے كہ كيا ان كا كوئي قرض ہمارے ذمہ ہے كہ جس كا وہ ہم سے مطالبہ كرتے ہيں ؟

عمرو : نہيں ہمارا آپ سے ايسا كوئي مطالبہ نہيں ہے _

جعفر: كيا ہم نے تمہارا كوئي خون بہايا ہے كہ جس كا ہم سے بدلہ لينا چاہتے ہو ؟

عمرو:نہيں ايسا كچھ نہيں ہے؟

جعفر: تو پھر تم ہم سے كيا چاہتے ہو ؟تم نے ہم پر اتنى سختياں كيں اور اتنى تكليفيں پہنچائيں اور ہم تمہارى سرزمين سے جو سراسر مركز ظلم وجور تھى باہر نكل آئے ہيں _

اس كے بعد جناب جعفر نے نجاشى كى طرف رخ كيا اور كہا : ہم جاہل اور نادان تھے، بت پرستى كرتے تھے ،مردار كا گوشت كھاتے تھے ، طرح طرح كے برے اور شرمناك كام انجام ديتے تھے، قطع رحمى كرتے تھے ، اپنے ہمسايوں سے براسلوك كرتے تھے اور ہمارے طاقتور كمزوروں كے حقوق ہڑپ كرجاتے تھے _ ليكن خدا وند تعالى نے ہمارے درميان ايك پيغمبر كو معبوث فرمايا، جس نے ہميں حكم ديا كہ ہم خدا كا كوئي مثل اورشريك نہ بنائيں اور فحشاء ومنكر، ظلم وستم اور قماربازى ترك كرديں ہميں حكم ديا كہ ہم نماز پڑھيں ،

۴۹۳

زكوة ادا كريں ، عدل واحسان سے كام ليں اور اپنے وابستگان كى مدد كريں _

نجاشى نے كہا : عيسى مسيح عليہ السلام بھى انہى چيزوں كے لئے مبعوث ہوئے تھے _

اس كے بعد اس نے جناب جعفر سے پوچھا: ان آيات ميں سے جو تمہارے پيغمبر پر نازل ہوئي ہيں كچھ تہميں ياد ہيں _جعفرنے كہا : جى ہاں : اور پھر انہوں نے سورہ مريم كى تلاوت شروع كردى ،اس سورہ كى ايسى ہلادينے والى آيات كے ذريعہ جو مسيح عليہ السلام اور ان كى ماں كو ہر قسم كى نارو اتہمتوں سے پاك قرارديتى ہيں ، جناب جعفر كے حسن انتخاب نے عجيب وغريب اثر كيا يہاں تك كہ مسيحى علماء كى آنكھوں سے فرط شوق ميں آنسو بہنے لگے اور نجاشى نے پكار كر كہا : خدا كى قسم : ان آيات ميں حقيقت كى نشانياں نماياں ہيں _

جب عمرنے چاہا كہ اب يہاں كوئي بات كرے اور مسلمانوں كو اس كے سپرد كرنے كى درخواست كرے ، نجاشى نے ہاتھ بلند كيا اور زور سے عمرو كے منہ پر مارا اور كہا: خاموش رہو، خدا كى قسم اگر ان لوگوں كى مذمت ميں اس سے زيادہ كوئي بات كى تو ميں تجھے سزادوں گا ،يہ كہہ كر مامورين حكومت كى طرف رخ كيا اور پكار كر كہا : ان كے ہديے ان كو واپس كردو اور انہيں حبشہ كى سرزمين سے باہر نكال دو جناب جعفر اور ان كے ساتھيوں سے كہا : تم آرام سے ميرے ملك ميں زندگى بسر كرو _

اس واقعہ نے جہاں جعفر اور ان كے ساتھيوں سے كہا تم آرام سے ميرے ملك ميں زندگى بسركرو_(۱)

اس واقعہ نے جہاں حبشہ كے كچھ لوگوں پر اسلام شناسى كے سلسلے ميں گہرا تبليغى اثر كيا وہاں يہ واقعہ اس بات كا بھى سبب بنا كہ مكے كے مسلمان اس كو ايك اطمينان بخش جائے پناہ شماركريں اور نئے مسلمان ہونے والوں كو اس دن كے انتظارميں كہ جب وہ كافى قدرت و طاقت حاصل كريں ،وہاں پر بھيجتے رہيں _

____________________

(۱)بہت سے مفسرين نے نقل كيا ہے كہ سورہ مائدہ ايات ۸۲تا۸۶ نجاشى اور اس كے ساتھيوں كے بارے ميں نازل ہوئي ہيں

۴۹۴

فتح خيبركى زيادہ خوشى ہے يا جعفركے پلٹنے كي

كئي سال گزر گئے پيغمبر (ص) بھى ہجرت فرماگئے اور اسلام روزبروز ترقى كى منزليں طے كرنے لگا،عہدنامہ حديبيہ لكھا گيا اور پيغمبر اكرم (ص) فتح خيبركى طرف متوجہ ہوئے اس وقت جب كہ مسلمان يہوديوں كے سب سے بڑے اور خطر ناك مركز كے لوٹنے كى وجہ سے اتنے خوش تھے كہ پھولے نہيں سماتے تھے، دور سے انہوں نے ايك مجمع كو لشكر اسلام كى طرف آتے ہوئے ديكھا ،تھوڑى ہى دير گزرى تھى كہ معلوم ہواكہ يہ وہى مہاجرين حبشہ ہيں ، جو آغوش وطن ميں پلٹ كر آرہے ہيں ،جب كہ دشمنوں كى بڑى بڑى طاقتيں د م توڑچكى ہيں اور اسلام كا پودا اپنى جڑيں كافى پھيلا چكا ہے _

پيغمبر اكرم (ص) نے جناب جعفراور مہا جرين حبشہ كو ديكھ كر يہ تاريخى جملہ ارشاد فرمايا:

''ميں نہيں جانتا كہ مجھے خيبر كے فتح ہونے كى زيادہ خوشى ہے يا جعفر كے پلٹ آنے كى ''

كہتے ہيں كہ مسلمانوں كے علاوہ شاميوں ميں سے آٹھ افراد كہ جن ميں ايك مسيحى راہب بھى تھا اور ان كا اسلام كى طرف شديد ميلان پيدا ہوگيا تھاپيغمبر (ص) كى خدمت ميں حاضرہو ئے اور انہوں نے سورہ ى سين كى كچھ آيات سننے كے بعد رونا شروع كرديا اور مسلمان ہوگئے اور كہنے لگے كہ يہ آيات مسيح عليہ السلام كى سچى تعليمات سے كس قدر مشابہت ركھتى ہيں _

اس روايت كے مطابق جو تفسير المنار، ميں سعيد بن جبير سے منقول ہے نجاشى نے اپنے يارو انصار ميں سے تيس بہترين افراد كوپيغمبر اكرم (ص) اور دين اسلام كے ساتھ اظہار عقيدت كے لئے مدينہ بھيجا تھا اور يہ وہى تھے جو سورہ ى سين كى ايات سن كر روپڑے تھے اور اسلام قبول كرليا تھا_

۴۹۵

معراج رسول (ص)

علماء اسلام كے درميان مشہور يہ ہے كہ رسول اكرم (ص) جس وقت مكہ ميں تھے تو ايك ہى رات ميں آپ قدرت الہى سے مسجد الحرام سے اقصى پہنچے كہ جو بہت المقدس ميں ہے ، وہاں سے آپ آسمانوں كى طرف گئے ، آسمانى دسعتوں ميں عظمت الہى كے آثار مشاہدہ كئے اور اسى رات مكہ واپس آگئے _

نيزيہ بھى مشہور ہے كہ يہ زمينى اور آسمانى سير جسم اور روح كے ساتھ تھى البتہ يہ سير چونكہ بہت عجيب غريب اور بے نظير تھى لہذا بعض حضرات نے اس كى توجيہ كى اور اسے معراج روحانى قرار ديا اور كہا كہ يہ ايك طرح كا خواب تھايا مكا شفہ روحى تھا ليكن جيسا كہ ہم كہہ چكے ہيں يہ بات قرآن كے ظاہرى مفہوم كے بالكل خلاف ہے كيونكہ ظاہرقر آن اس معراج كے جسمانى ہونے كى گواہى ديتا ہے _

معراج كى كيفيت قرآن و حديث كى نظر سے

قرآن حكيم كى دوسورتوں ميں اس مسئلے كى طرف اشارہ كيا گيا ہے پہلى سورت بنى اسرائيل ہے اس ميں اس سفر كے ابتدائي حصے كا تذكرہ ہے _ (يعنى مكہ كى مسجد الحرام سے بيت المقدس كى مسجد الاقصى تك كا سفر) اس سلسلے كى دوسرى سورت _ سورہ نجم ہے اس كى آيت ۱۳ تا ۱۸ ميں معراج كا دوسرا حصہ بيان كيا گيا ہے اور يہ آسمانى سير كے متعلق ہے ارشاد ہوتا ہے :

ان چھ آيات كا مفہوم يہ ہے : رسول اللہ نے فرشتہ وحى جبرئيل كو اس كو اصلى صورت ميں دوسرى مرتبہ

۴۹۶

ديكھا (پہلے آپ اسے نزول وحى كے آغاز ميں كوہ حرا ميں ديكھ چكے تھے) يہ ملاقات بہشت جاوداں كے پاس ہوئي ، يہ منظر ديكھتے ہوئے رسول اللہ (ص) كسى اشتباہ كا شكار نہ تھے آپ نے عظمت الہى كى عظيم نشانياں مشاہدہ كيں _

يہ آيات كہ جو اكثر مفسرين كے بقول واقعہ معراج سے متعلق ہيں يہ بھى نشاندہى كرتى ہيں كہ يہ واقعہ عالم بيدارى ميں پيش آيا خصوصا ''مازاغ البصروماطغي'' اس امر كا شاہد ہے كہ رسول اللہ (ص) كى آنكھ كسى خطا واشتباہ اور انحراف سے دوچار نہيں ہوئي _

اس واقعے كے سلسلے ميں مشہور اسلامى كتابوں ميں بہت زيادہ روايات نقل ہوئي ہيں _

علماء اسلام نے ان روايات كے تو اتر اور شہرت كى گواہى دى ہے _(۱)

معراج كى تاريخ

واقعہ معراج كى تاريخ كے سلسلے ميں اسلامى مو رخين كے درميان اختلاف ہے بعض كا خيال ہے كہ يہ واقعہ بعثت كے دسويں سال ۲۷ /رجب كى شب پيش آيا، بعض كہتے ہيں كہ يہ بعثت كے بارہويں سال ۱۷/رمضان المبارك كى رات وقوع پذير ہوا جب كہ بعض اسے اوائل بعثت ميں ذكر كرتے ہيں ليكن اس كے وقوع پذير ہونے كى تاريخ ميں اختلاف،اصل واقعہ پر اختلاف ميں حائل نہيں ہوتا _

اس نكتے كا ذكر بھى ضرورى ہے كہ صر ف مسلمان ہى معراج كا عقيدہ نہيں كھتے بلكہ ديگراديان كے پيروكار وں ميں بھى كم و بيش يہ عقيدہ پايا جاتا ہے ان ميں حضرت عيسى عليہ السلام كے بارے ميں يہ عقيدہ عجيب تر صورت ميں نظر آتا ہے جيسا كہ انجيل مرقس كے باب ۶/ لوقاكے باب ۲۴/ اور يوحنا كے باب ا۲/ ميں ہے:

عيسى عليہ السلام مصلوب ہونے كے بعد دفن ہوگئے تو مردوں ميں سے اٹھ كھڑے ہوئے ،اور چاليس روز تك لوگوں ميں موجود رہے پھر آسمان كى طرف چڑھ گئے ( اور ہميشہ كے لئے معراج پر چلے گئے )

____________________

(۱)رجوع كريں تفسير نمونہ ج

۴۹۷

ضمناً يہ وضاحت بھى ہوجائے كہ بعض اسلامى روايات سے بھى معلوم ہوتا ہے كہ بعض گزشتہ انبياء كو بھى معراج نصيب ہوئي تھى _

پيغمبرگرامى (ص) نے يہ آسمانى سفر چند مرحلوں ميں طے كيا_

پہلا مرحلہ،مسجدالحرام اور مسجد اقصى كے درميانى فاصلہ كا مرحلہ تھا، جس كى طرف سورہ اسراء كى پہلى آيت ميں اشارہ ہوا ہے: ''منزہ ہے وہ خدا جو ايك رات ميں اپنے بندہ كو مسجد الحرام سے مسجد اقصى تك لے گيا''_ بعض معتبر روايات كے مطابق آپ(ص) نے اثناء راہ ميں جبرئيل(ع) كى معيت ميں سر زمين مدينہ ميں نزول فرمايا او روہاں نماز پڑھى _

او رمسجد الاقصى ميں بھى ابراہيم و موسى و عيسى عليہم السلام انبياء كى ارواح كى موجود گى ميں نماز پڑھى اور امام جماعت پيغمبر (ص) تھے، اس كے بعد وہاں سے پيغمبر (ص) كا آسمانى سفر شروع ہوا، اور آپ(ص) نے ساتوں آسمانوں كو يكے بعد ديگرے عبور كيا او رہر اسمان ميں ايك نياہى منظر ديكھا ، بعض آسمانوں ميں پيغمبروں اور فرشتوں سے، بعض آسمانوں ميں دوزخ او ردوزخيوں سے اور بعض ميں جنت اور جنتيوں سے ملاقات كى ،او رپيغمبر (ص) نے ان ميں سے ہر ايك سے بہت سى تربيتى اور اصلاحى قيمتى باتيں اپنى روح پاك ميں ذخيرہ كيں اور بہت سے عجائبات كا مشاہدہ كيا جن ميں سے ہر ايك عالم ہستى كے اسرار ميں سے ايك راز تھا، اور واپس آنے كے بعد ان كو صراحت كے ساتھ اور بعض اوقا ت كنايہ اور مثال كى زبان ميں امت كى آگاہى كے لئے مناسب فرصتوں ميں بيان فرماتے تھے، اور تعليم وتربيت كے لئے اس سے بہت زيادہ فائدہ اٹھاتے تھے_

يہ امر اس بات كى نشاندہى كرتا ہے كہ اس آسمانى سفر كا ايك اہم مقصد،ان قيمتى مشاہدات كے تربيتى و عرفانى نتائج سے استفادہ كرنا تھا،اور قرآن كى يہ پر معنى تعبير''لقد راى من آيات ربہ الكبرى ''(۱)

____________________

(۱)سورہ نجم ايت۱۸

۴۹۸

ان تمام امور كى طرف ايك اجمالى اور سربستہ اشارہ ہو سكتى ہ۶ے_

البتہ جيسا كہ ہم بيان كرچكے ہيں كہ وہ بہشت اور دوزخ جس كو پيغمبر (ص) نے سفر معراج ميں مشاہدہ كيا اور كچھ لوگوں كو وہاں عيش ميں اور عذاب ميں ديكھا ، وہ قيامت والى جنت اور دوزخ نہيں تھيں ، بلكہ وہ برزخ والى جنت ودوزخ تھيں ، كيونكہ قرآن مجيدكے مطابق جيسا كہ كہتا ہے كہ قيامت والى جنت ودوزخ قيام قيامت اور حساب وكتاب سے فراغت كے بعد نيكو كاروں اور بدكاروں كو نصيب ہوگى _

آخر كار آپ ساتويں آسمان پر پہنچ گئے ، وہاں نور كے بہت سے حجابوں كا مشاہدہ كيا ، وہى جگہ جہاں پر ''سدرة المنتہى '' اور'' جنة الما وى '' واقع تھي، اور پيغمبر (ص) اس جہان سراسر نوروروشنى ميں ، شہود باطنى كى اوج، اور قرب الى اللہ اور مقام '' قاب قوسين اوادني''پر فائز ہوئے اور خدا نے اس سفر ميں آپ كو مخالب كرتے ہوئے بہت سے اہم احكام ديئے اور بہت سے ارشادات فرمائے جن كا ايك مجموعہ اس وقت اسلامى روايات ميں '' احاديث قدسى '' كى صورت ميں ہمارے لئے يادگار رہ گيا ہے _

قابل توجہ بات يہ ہے كہ بہت سى روايات كى تصريح كے مطابق پيغمبر (ص) نے اس عظيم سفر كے مختلف حصوں ميں اچانك على عليہ السلام كو اپنے پہلو ميں ديكھا، اور ان روايات ميں كچھ ايسى تعبيريں نظر آتى ہيں ، جو پيغمبر اكرم (ص) كے بعد على عليہ السلام كے مقام كى حد سے زيادہ عظمت كى گواہ ہيں _

معراج كى ان سب روايات كے باوجود كچھ ايسے پيچيدہ اور اسرار آميز جملے ہيں جن كے مطالب كو كشف كرنا آسان نہيں ہے، اور اصطلاح كے مطابق روايات متشابہ كا حصہ ہيں يعنى ايسى روايات جن كى تشريح كوخود معصومين عليہم السلام كے سپرد كردينا چاہئے _(۱)

ضمنى طورپر، معراج كى روايات اہل سنت كى كتابوں ميں بھى تفصيل سے آئي ہيں ،اور ان كے راويوں ميں سے تقريباً ۳۰/افراد نے حديث معراج كو نقل كيا ہے_

____________________

(۱)روايات معراج كے سلسلہ ميں مزيد اطلاع كے لئے بحارالانوار كى جلد ۱۸ از ص ۲۸۲ تاص ۱۰ ۴ رجوع فرمائيں

۴۹۹

يہاں يہ سوال سامنے آتاہے : يہ اتنا لمبا سفر طے كرنا اور يہ سب عجيب اور قسم قسم كے حادثات، اور يہ سارى لمبى چوڑى گفتگو ، اور يہ سب كے سب مشاہدات ايك ہى رات ميں ياايك رات سے بھى كم وقت ميں كس طرح سے انجام پاگئے ؟

ليكن ايك نكتہ كى طرف توجہ كرنے سے اس سوال كا جواب واضح ہوجاتاہے ، سفر معراج ہرگز ايك عام سفر نہيں تھا ، كہ اسے عام معياروں سے پركھاجائے نہ تو اصل سفر معمولى تھا اور نہ ہى آپ كى سوارى معمولى اور عام تھي،نہ آپ كے مشاہدات عام اور معمولى تھے اور نہ ہى آپ كى گفتگو ، اور نہ ہى وہ پيمانے جواس ميں استعمال ہوئے، ہمارے كرہ خاكى كے محدود اور چھوٹے پيمانوں كے مانند تھے، اور نہ ہى وہ تشبيہات جواس ميں بيان ہوئي ہيں ان مناظر كى عظمت كو بيان كرسكتى ہيں جو پيغمبر (ص) نے مشاہدہ كيے ، تمام چيزيں خارق العادت صورت ميں ، اور اس مكان وزمان سے خارج ہونے كے پيمانوں ميں ، جن سے ہم آشنا نہيں ، واقع ہوئيں _

اس بناپر كوئي تعجب كى بات نہيں ہے كہ يہ امور ہمارے كرہ زمين كے زمانى پيمانوں كے ساتھ ايك رات يا ايك رات سے بھى كم وقت ميں واقع ہوئے ہوں _(۱)

معراج جسمانى تھى ياروحانى ؟

شيعہ اور سنى علمائے اسلام كے درميان مشہور ہے كہ يہ واقعہ عالم بيدارى ميں صورت پذير ہوا، سورہ بنى اسرائيل كى پہلى آيت اور سورہ نجم كى مذكورہ آيات كا ظاہرى مفہوم بھى اس امر كا شاہد ہے كہ يہ واقعہ بيدارى كى حالت ميں پيش آيا _

تواريخ اسلامى بھى اس امرپر شاہد وصادق ہيں ،تاريخ كہتى ہے : جس وقت رسول اللہ (ص) نے واقعہ معراج كا ذكر كيا تو مشركين نے شدت سے اس كا انكار كرديا اور اسے آپ كے خلاف ايك بہانہ بناليا_

____________________

(۱)تفسير نمونہ ج ۱۳ ص۹۷ تا ۹۹

۵۰۰

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667