قصص القرآن-منتخب از تفسير نمونه

قصص القرآن-منتخب از تفسير نمونه   5%

قصص القرآن-منتخب از تفسير نمونه   مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 667

قصص القرآن-منتخب از تفسير نمونه
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 667 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 331834 / ڈاؤنلوڈ: 6109
سائز سائز سائز
قصص القرآن-منتخب از تفسير نمونه

قصص القرآن-منتخب از تفسير نمونه

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

''ان ھنا قوماً يزعمون انہ كافر'' ، اس كے بعد فرماياكہ: '' تعجب كى بات ہے كہ بعض لوگ يہ كيوں خيال كرتے ہيں كہ ابوطالب كا فرتھے_ كيا وہ نہيں جانتے كہ وہ اس عقيدہ كے ساتھ پيغمبر(ص) اور ابوطالب پر طعن كرتے ہيں كيا ايسا نہيں ہے كہ قرآن كى كئي آيات ميں اس بات سے منع كيا گيا ہے (اور يہ حكم ديا گيا ہے كہ ) مومن عورت ايمان لانے كے بعد كافر كے ساتھ نہيں رہ سكتى اور يہ بات مسلم ہے كہ فاطمہ بنت اسدرضى اللہ عنہا سابق ايمان لانے والوں ميں سے ہيں اور وہ ابوطالب كى زوجيت ميں ابوطالب كى وفات تك رہيں _''

ابوطالب تين سال تك شعب ميں

۶_ان تمام باتوں كو چھوڑتے ہوئے اگرانسان ہر چيز ميں ہى شك كريں تو كم از كم اس حقيقت ميں تو كوئي شك نہيں كرسكتا كہ ابوطالب اسلام اور پيغمبر اكرم (ص) كے درجہ اول كے حامى ومددگار تھے ، ان كى اسلام اور پيغمبر كى حمايت اس درجہ تك پہنچى ہوئي تھى كہ جسے كسى طرح بھى رشتہ دارى اور قبائلى تعصبات سے منسلك نہيں كيا جاسكتا _

اس كا زندہ نمونہ شعب ابوطالب كى داستان ہے_ تمام مورخين نے لكھا ہے كہ جب قريش نے پيغمبر اكرم (ص) اور مسلمانوں كا ايك شديد اقتصادي، سماجى اور سياسى بائيكاٹ كرليا اور اپنے ہر قسم كے روابط ان سے منقطع كرلئے تو آنحضرت (ص) كے واحد حامى اور مدافع، ابوطالب نے اپنے تمام كاموں سے ہاتھ كھينچ ليا اور برابر تين سال تك ہاتھ كھينچے ركھا اور بنى ہاشم كو ايك درہ كى طرف لے گئے جو مكہ كے پہاڑوں كے درميان تھا اور ''شعب ابوطالب'' كے نام سے مشہور تھا اور وہاں پر سكونت اختيار كر لي_

ان كى فدا كارى اس مقام تك جا پہنچى كہ قريش كے حملوں سے بچانے كےلئے كئي ايك مخصوص قسم كے برج تعميركرنے كے علاوہ ہر رات پيغمبر اكرم (ص) كو ان كے بستر سے اٹھاتے اور دوسرى جگہ ان كے آرام كے لئے مہيا كرتے اور اپنے فرزند دلبند على كو ان كى جگہ پر سلاديتے اور جب حضرت على كہتے: ''بابا جان ميں تو اسى حالت ميں قتل ہوجائوں گا '' تو ابوطالب جواب ميں كہتے :ميرے پيارے بچے بردبارى اور صبر ہاتھ

۴۸۱

سے نہ چھوڑو، ہر زندہ موت كى طرف رواں دواں ہے، ميں نے تجھے فرزند عبد اللہ كا فديہ قرار ديا ہے _

يہ بات اور بھى طالب توجہ ہے كہ جو حضرت على عليہ السلام باپ كے جواب ميں كہتے ہيں كہ بابا جان ميرا يہ كلام اس بناپر نہيں تھا كہ ميں راہ محمد ميں قتل ہونے سے ڈرتاہوں ، بلكہ ميرا يہ كلام اس بنا پر تھا كہ ميں يہ چاہتا تھا كہ آپ كو معلوم ہوجائے كہ ميں كس طرح سے آپ كا اطاعت گزار اور احمد مجتبى كى نصرت ومدد كے لئے آمادہ و تيار ہوں _

قارئين كرام ہمارا عقيدہ يہ ہے كہ جو شخص بھى تعصب كو ايك طرف ركھ كر غير جانبدارى كے ساتھ ابوطالب كے بارے ميں تاريخ كى سنہرى سطروں كو پڑھے گا تو وہ ابن ابى الحديد شارح نہج البلاغہ كا ہمصدا ہوكر كہے گا :

ولولا ابوطالب وابنه لما مثل الدين شخصا وقاما

فذاك بمكة آوى وحامي وهذا بيثرب جس الحماما

'' اگر ابوطالب اور ان كا بيٹا نہ ہوتے تو ہرگزمكتب اسلام باقى نہ رہتا اور اپنا قدسيدھا نہ كرتا ،ابوطالب تو مكہ ميں پيغمبر كى مدد كےلئے آگے بڑھے اور على يثرب (مدينہ) ميں حمايت اسلام كى راہ ميں گرداب موت ميں ڈوب گئے''

ابوطالب كا سال وفات ''عام الحزن

'' ۷_''ابوطالب كى تايخ زندگي، جناب رسالت مآب (ص) كے لئے ان كى عظيم قربانياں اور رسول اللہ اور مسلمانوں كى ان سے شديد محبت كو بھى ملحوظ ركھنا چاہئے ہم يہاں تك ديكھتے ہيں كہ حضرت ابوطالب كى موت كے سال كا نام ''عام الحزن'' ركھا يہ سب باتيں اس امر كى دليل ہيں كہ حضرت ابوطالب كو اسلام سے عشق تھا اور وہ جو پيغمبر اسلام كى اس قدر مدافعت كرتے تھے وہ محض رشتہ دارى كى وجہ سے نہ تھى بلكہ اس دفاع ميں آپ كى حيثيت ايك مخلص، ايك جاں نثار اور ايسے فدا كار كى تھى جو اپنے رہبر اور پيشوا كا تحفظ كررہا ہو_''

۴۸۲

ابولہب كى دشمني

اس كانام '' عبدالعزي'' (عزى بت كا بندہ ) اور اس كى كنيت ''ابولہب'' تھي_ اس كے ليے اس كنيت كا انتخاب شايد اس وجہ سے تھا كہ اس كا چہرہ سرخ اور بھڑكتا ہوا تھا، چونكہ لغت ميں لہب آگ كے شعلہ كے معنى ميں ہے _

وہ اور اس كى بيوى ''ام جميل''جو ابوسفيان كى بہن تھى ، پيغمبر اكرم (ص) كے نہايت بدزبان اور سخت ترين دشمنوں ميں سے تھے _

''طارق محارق '' نامى ايك شخص كہتاہے : ميں '' ذى المجاز '' كے بازار ميں تھا _(۱)

اچانك ميں نے ايك جوان كو ديكھا جو پكار پكار كر كہہ رہا تھا: اے لوگو: لاالہ الا اللہ كا اقرار كر لو تو نجات پاجائوگے _ اور اس كے پيچھے پيچھے ميں نے ايك شخص كو ديكھا جو اس كے پائوں كے پچھلے حصہ پرپتھر مارتاجاتاہے جس كى وجہ سے اس كے پائوں سے خون جارى تھا اوروہ چلا چلا كر كہہ رہاتھا _اے لوگو يہ جھوٹاہے اس كى بات نہ ماننا ''_

ميں نے پوچھا كہ يہ جوان كون ہے ؟ تو لوگوں نے بتايا :'' يہ محمد، ، (ص) ہے جس كا گمان يہ ہے كہ وہ پيغمبر ہے اور يہ بوڑھا اس كا چچا ابولہب ہے جو جو اس كو جھوٹا سمجھتا ہے _

____________________

(۱)ذى المجار عرفات كے نزديك مكہ سے تھوڑے سے فاصلہ پر ہے

۴۸۳

''ربيع بن عباد'' كہتا ہے : ميں اپنے باپ كے ساتھ تھا، ميں نے رسول اللہ (ص) كو ديكھاكہ وہ قبائل عرب كے پاس جاتے اور ہر ايك كو پكار كر كہتے : ميں تمہارى طرف خدا كا بھيجا ہوا رسول ہوں : تم خدائے يگانہ كے سوا اور كسى كى عبادت نہ كرو اور كسى كو اس كا شريك نہ بنائو _

جب وہ اپنى بات سے فارغ ہوجاتاتو ايك خوبرو بھينگا آدمى جو ان كے پيچھے پيچھے تھا، پكاركركہتا : اے فلاں قبيلے : يہ شخص يہ چاہتاہے كہ تم لات وعزى بت اور اپنے ہم پيمان جنوں كو چھوڑدو اور اس كى بدعت وضلالت كى پيروى كرنے لگ جائواس كى نہ سننا، اور اس كى پيروى نہ كرنا ''_

ميں نے پوچھا كہ يہ كون ہے ؟ تو انہوں نے بتايا كہ يہ '' اس كا چچا ابولہب ہے ''_

ابولہب پيغمبر كا پيچھا كرتارہا

جب مكہ سے باہر كے لوگوں كا كوئي گروہ اس شہر ميں داخل ہوتا تھا تو وہ پيغمبر (ص) سے اس كى رشتہ دارى اور سن وسال كے لحاظ سے بڑاہونے كى بناپر ابولہب كے پاس جاتاتھا اور رسول اللہ (ص) كے بارے ميں تحقيق كرتا تھا وہ جواب ديتا تھا: محمد ايك جادوگر ہے ،وہ بھى پيغمبر سے ملاقات كئے بغير ہى لوٹ جاتے اسى اثناء ميں ايك ايسا گروہ آيا جنہوں نے يہ كہا كہ ہم تو اسے ديكھے بغير واپس نہيں جائيں گے ابولہب نے كہا : ''ہم مسلسل اس كے جنون كا علاج كررہے ہيں : وہ ہلاك ہوجائے ''_

وہ اكثر مواقع پر سايہ كى طرح پيغمبر كے پيچھے لگارہتا تھا اور كسى خرابى سے فروگذاشت نہ كرتا تھا خصوصاً اس كى زبان بہت ہى گندى اور آلودہ ہوتى تھى اور وہ ركيك اورچبھنے والى باتيں كيا كرتا تھا اور شايد اسى وجہ سے پيغمبر اسلام (ص) كے سب دشمنوں كا سرغنہ شمار ہوتا تھا اسى بناء پر قرآن كريم اس پر اور اس كى بيوى ام جميل پر ايسى صراحت اور سختى كے ساتھ تنقيد كررہاہے وہى ايك اكيلا ايسا شخص تھا جس نے پيغمبر اكرم (ص) سے بنى ہاشم كى حمايت كے عہد وپيمان پر دستخط نہيں كئے تھے اور اس نے آپ كے دشمنوں كى صف ميں رہتے ہوئے دشمنوں كے عہد وپيمان ميں شركت كى تھي_

۴۸۴

ابو لہب كے ہاتھ كٹ جائيں

''ابن عباس ''سے نقل ہوا ہے كہ جس وقت آيہ ''ونذر عشيرتك الاقربين'' _نازل ہوئي اور پيغمبر (ص) اپنے قريبى رشتہ داروں كو انذار كرنے اور اسلام كى دعوت دينے پر مامور ہوئے،تو پيغمبر(ص) كوہ صفا پرآئے اور پكار كر كہا''يا صباحاہ''(يہ جملہ عرب اس وقت كہتے تھے جب ان پر دشمن كى طرف سے غفلت كى حالت ميں حملہ ہو جاتا تھاتا كہ سب كو با خبر كرديں اور وہ مقابلہ كے ليے كھڑے ہو جائيں ،لہذا كوئي شخص''يا صباحاہ''كہہ كر آواز ديتا تھا''صباح''كے لفظ كا انتخاب اس وجہ سے كيا جاتا تھا كہ عام طور پر غفلت كى حالت ميں حملے صبح كے دقت كيے جاتے تھے_

مكہ كے لوگوں نے جب يہ صدا سنى تو انہوں نے كہا كہ يہ كون ہے جو فرياد كررہا ہے_

كہا گيا كہ يہ''محمد'' (ص) ہيں _ كچھ لوگ آپ(ص) كے پاس پہنچے تو آپ(ص) نے قبائل عرب كو ان كے نام كے ساتھ پكارا_ آپ(ص) كى آواز پر سب كے سب جمع ہوگئے تو آپ(ص) نے ان سے فرما يا:

''مجھے بتلائو اگر ميں تمہيں يہ خبر دوں كہ دشمن كے سوار اس پہاڑ كے پيچھے سے حملہ كرنے والے ہيں ،تو كيا تم ميرى بات كى تصديق كروگے''_

انہوں نے جواب ديا:''ہم نے آپ(ص) سے كبھى بھى جھوٹ نہيں سنا''_

آپ (ص) نے فرمايا:

''انى نذير لكم بين يدى عذاب شديد'' _

''ميں تمہيں خدا كے شديد عذاب سے ڈراتا ہوں ''_

(''ميں تمہيں توحيدكا اقرار كرنے او ربتوں كو ترك كرنے كى دعوت ديتا ہوں '')جب ابو لہب نے يہ بات سنى تو اس نے كہا:

''تبالكا ما جمعتنا الا لهذا؟ ''_

۴۸۵

تو ہلاك ہو جائے كيا تو نے ہميں صرف اس بات كے ليے جمع كيا ہے''؟

اس مو قع پر يہ سورہ نازل ہوا :

(تبت يداا بى لهب وتب )(۱)

اے ابو لہب تو ہى ہلاك ہو اور تيرے ہاتھ ٹوٹيں ،تو ہى زياں كار اور ہلاك ہونے والاہے،اس كے مال وثروت نے اور جو كچھ اس نے كمايا ہے اس نے، اسے ہر گز كوئي فائدہ نہيں ديا اور وہ اسے عذاب الہى سے نہيں بچائے گا''_

اس تعبير سے معلوم ہوتا ہے كہ وہ ايك دولت مند مغرور شخص تھا جواپنى اسلام دشمن كوششوں كے لئے اپنے مال ودولت پر بھروسہ كرتاتھا_

بعدميں قرآن مزيے كہتا ہے،''وہ جلدى ہى اس آگ ميں داخل ہوگا جس كے شعلے بھڑكنے والے ہيں ''_(۲)

اگر اس كا نام ''ابو لہب''ہے تو اس كے لئے عذاب بھي''بو لہب''ہے يعنى اس كے لئے بھڑگتے ہوئے اگ كے شعلہ ہيں _

ايندھن اٹھائے ہوئے

قرآن كريم نے اس كے بعد اس كى بيوى ''ام جميل '' كى كيفيت بيان كرتے ہوئے فرماياہے :''اس كى بيوى بھى جہنم كى بھڑكتى ہوئي آگ ميں داخل ہوگى ، جو اپنے د وش پر ايندھن اٹھاتى ہے''_(۳)

''اور اس كى گردن ميں خرماكى چھال كى رسى يا گردن بند ہے ''_(۴) ''فى جيدھا حبل من مسد''

____________________

(۱)سورہ مسد آيت۱ تا ۲

(۲)سورہ مسدآيت۳

(۳)سورہ مسد آيت ۴

(۴)سورہ مسد آيت ۴

۴۸۶

''مسد'' (بروزن حسد) اس رسى كے معنى ميں ہے جو كھجور كے پتوں سے بنائي جاتى ہے _ بعض نے يہ كہا ہے كہ ''مسد'' وہ رسى ہے جو جہنم ميں اس كى گردن ميں ڈاليں گے جس ميں كھجور كے پتوں جيسى سختى ہوگى اور اس ميں آگ كى حرارت اور لوہے كى سنگينى ہوگى _

بعض نے يہ بھى كہا ہے كہ چونكہ بڑے لوگوں كى عورتيں اپنى شخصيت كو آلات وزيورات خصوصا ًگردن كے قيمتى زيورات سے زينت دينے ميں خاص بات سمجھتى ہيں ،لہذا خدا قيامت ميں اس مضراوروخود پسند عورت كى تحقير كے ليے ليف خرما كا ايك گردن بند اس كى گردن ميں ڈال دے گايا يہ اصلا اس كى تحقير سے كنايہ ہے _

بعض نے يہ بھى كہا ہے كہ اس تعبير كے بيان كرنے كا سبب يہ ہے كہ '' ام جميل '' كے پاس جواہرات كا ايك بہت ہى قيمتى گردن بند تھااور اس نے يہ قسم كھائي تھى كہ وہ اسے پيغمبراكرم (ص) كى دشمنى ميں خرچ كرے گى لہذا اس كے اس كام كے بدلے ميں خدا نے بھى اس كے لئے ايسا عذاب مقرر كرديا ہے _

ابولہب كاعبرت ناك انجام

روايات ميں ايا ہے كہ جنگ''بدر''اور سخت شكست كے بعد ،جو مشركين قريش كو اٹھانى پڑى تھى ، ابولہب نے جوخود ميدان جنگ ميں شريك نہيں ہوا تھا ،ابوسفيان كے واپس آنے پر اس ماجرے كے بارے ميں سوال كيا،ابو سفيان كے قريش كے لشكر كى شكست اور سركوبى كى كيفيت بيان كي، اس كے بعد اس نے مزيد كہا :خدا كى قسم ہم نے اس جنگ ميں آسمان وزمين كے درميان ايسے سوار ديكھے ہيں جو محمد كى مدد كے ليے آئے تھے _

اس موقع پر'' عباس '' كے ايك غلام ''ابورافع ''نے كہا :ميں وہاں بيٹھاہوا تھا ،ميں نے اپنے ہاتھ بلند كيے اور كہا كہ وہ آسمانى فرشتے تھے _

اس سے ابولہب بھڑك اٹھا اور اس نے ايك زوردار تھپڑميرے منہ پر دے مارا ، مجھے اٹھاكر زمين پر

۴۸۷

پٹخ ديا اور اپنے دل كى بھڑاس نكالنے كے ليے مجھے پيٹے چلے جارہا تھا وہاں عباس كى بيوي''ام الفضل'' بھى موجود تھى اس نے ايك چھڑى اٹھائي اور ابولہب كے سرپر دے مارى اور كہا :''كيا تونے اس كمزور آدمى كو اكيلاسمجھا ہے ؟ ''

ابولہب كا سرپھٹ گيا اور اس سے خون بہنے لگا سات دن كے بعد اس كے بدن ميں بدبو پيدا ہوگئي ، اس كى جلد ميں طاعون كى شكل كے دانے نكل آئے اور وہ اسى بيمارى سے واصل جہنم ہوگيا _

اس كے بدن سے اتنى بدبو آرہى تھى كہ لوگ اس كے نزديك جانے كى جرات نہيں كرتے تھے وہ اسے مكہ سے باہر لے گئے اور دور سے اس پر پانى ڈالا اور اس كے بعد اس كے اوپر پتھر پھينكے يہاں تك كہ اس كا بدن پتھروں اور مٹى كے نيچے چھپ گيا _

۴۸۸

ابوسفيان وابوجہل چھپ كر قرآن سنتے ہيں

ايك شب ابوسفيان ،ابوجہل اور مشركين كے بہت سے دوسرے سردارجدا گانہ طور پر اور ايك دوسرے سے چھپ كر آنحضرت (ص) سے قرآن سننے كے لئے آگئے آپ اس وقت نماز پڑھنے ميں مشغول تھے اور ہر ايك ، ايك دوسرے سے بالكل بے خبر عليحدہ عليحدہ مقامات پر چھپ كر بيٹھ گئے چنانچہ وہ رات گئے تك قرآن سنتے رہے اور جب واپس پلٹنے لگے تو اس وقت صبح كى سفيدى نمودار ہوچكى تھى _اتفاق سے سب نے واپسى كے ليے ايك ہى راستے كا انتخاب كيا اور ان كى اچانك ايك دوسرے سے ملاقات ہوگئي اور ان كا بھانڈا وہيں پر پھوٹ گيا انھوں نے ايك دوسرے كوملامت كى اور اس بات پر زورديا كہ آئندہ ايسا كام نہيں كريں گے ، اگر نا سمجھ لوگوں كو پتہ چل گيا تو وہ شك وشبہ ميں پڑجائيں گے _

دوسرى اور تيسرى رات بھى ايسا ہى اتفاق ہوا اور پھروہى باتيں دہرائي گئيں اور آخرى رات تو انھوں نے كہا جب تك اس بات پر پختہ عہد نہ كرليں اپنى جگہ سے ہليں نہيں چنانچہ ايسا ہى كيا گيا اور پھر ہر ايك نے اپنى راہ لى _اسى رات كى صبح اخنس بن شريق نامى ايك مشرك اپنا عصالے كر سيدھا ابوسفيان كے گھر پہنچا اور اسے كہا : تم نے جو كچھ محمدسے سناہے اس كے بارے ميں تمہارى كيا رائے ہے ؟

اس نے كہا:خدا قسم : كچھ مطالب ايسے سنے ہيں جن كا معنى بخوبى سمجھ سكاہوں اور كچھ مسائل كى مراد اور معنى كو نہيں سمجھ سكا _ اخنس وہاں سے سيدھا ابوجہل كے پاس پہنچا اس سے بھى وہى سوال كيا : تم نے جو كچھ محمد سے سنا ہے اس كے بارے ميں كيا كہتے ہو ؟

ابوجہل نے كہا :سناكياہے، حقيقت يہ ہے كہ ہمارى اور اولاد عبدمناف كى قديم زمانے سے رقابت

۴۸۹

چلى آرہى ہے انھوں نے بھوكوں كو كھانا كھلايا، ہم نے بھى كھلايا ، انھوں نے پيدل لوگوں كو سوارياں ديں ہم نے بھى ديں ، انھوں نے لوگوں پر خرچ كيا، سوہم نے بھى كيا گويا ہم دوش بدوش آگے بڑھتے رہے_جب انھوں نے دعوى كيا ہے كہ ان كے پاس وحى آسمانى بھى آتى ہے تو اس بارے ميں ہم ان كے ساتھ كس طرح برابرى كرسكتے ہيں ؟ اب جب كہ صورت حال يہ ہے تو خداكى قسم ہم نہ تو كبھى اس پر ايمان لائيں گے اور نہ ہى اس كى تصديق كريں گے _اخنس نے جب يہ بات سنى تو وہاں سے اٹھ كر چلاگيا(۱)

جى ہاں : قرآن كى كشش نے ان پر اس قدرا ثركرديا كہ وہ سپيدہ صبح تك اس الہى كشش ميں گم رہے ليكن خود خواہى ، تعصب اور مادى فوائدان پر اس قدر غالب آچكے تھے كہ انھوں نے حق قبول كرنے سے انكار كرديا _اس ميں شك نہيں كہ اس نورالہى ميں اس قدر طاقت ہے كہ ہر آمادہ دل كو وہ جہاں بھى ہو، اپنى طرف جذب كرليتا ہے يہى وجہ ہے كہ اس (قرآن)كا ان آيات ميں ''جہاد كبير'' كہہ كر تعارف كروايا گيا ہے_(۲)

ايك اور روايت ميں ہے كہ ايك دن ''اخنس بن شريق'' كا ابوجہل سے آمناسامنا ہوگيا جب كہ وہاں پر اور كوئي دوسرا آدمى موجود نہيں تھا_تو اخنس نے اس سے كہا :سچ بتائو محمد سچاہے ،ياجھوٹا ؟قريش ميں سے كوئي شخص سواميرے اور تيرے يہاں موجود نہيں ہے جو ہمارى باتوں كو سنے _

ابوجہل نے كہا: وائے ہو تجھ پر خداكى قسم وہ ميرے عقيدے ميں سچ كہتا ہے اور اس نے كبھى جھوٹ نہيں بولا ليكن اگر يہ اس بات كى بناہو جائے كہ محمد كا خاندان سب چيزوں كو اپنے قبضہ ميں كرلے، حج كا پرچم ، حاجيوں كو پانى پلانا،كعبہ كى پردہ دارى اور مقام نبوت تو باقى قريش كے لئے كيا باقى رہ جائےگا_(۳)

____________________

(۱)سيرت ابن ہشام جلداول ص۳۳۷ ، اور تفسير فى ظلال القر،آن جلد۶ ص ۱۷۳

(۲)تفسير نمونہ ج ۸ ص ۱۴۴

(۳)مندرجہ بالاروايات تفسير المنار اور مجمع البيان سے سورہ انعام ايت ۳۳/ كے ذيل ميں بيان كردہ تفسير سے لى گئي ہيں

۴۹۰

اسلام كے پہلے مہاجرين

پيغمبر اكرم (ص) كى بعثت اور عمومى دعوت كے ابتدائي سالوں ميں مسلمان بہت ہى كم تعداد ميں تھے قريش نے قبائل عرب كو يہ نصيحت كرركھى تھى كہ ہر قبيلہ اپنے قبيلہ كے ان لوگوں پر كہ جو پيغمبر اكرم (ص) پر ايمان لاچكے ہيں انتہائي سخت دبائوڈاليں اور اس طرح مسلمانوں ميں سے ہر كوئي اپنى قوم وقبيلہ كى طرف سے انتہائي سختى اور دبائوميں مبتلا تھا اس وقت مسلمانوں كى تعداد جہادآزادى شروع كرنے كے لئے كافى نہيں تھى _پيغمبراكرم (ص) نے اس چھوٹے سے گروہ كى حفاظت اور مسلمانوں كے لئے حجاز سے باہر قيام گاہ مہياكرنے كے لئے انہيں ہجرت كا حكم دے ديا اور اس مقصد كےلئے حبشہ كو منتخب فرمايا اور كہا كہ وہاں ايك نيك دل بادشاہ ہے جو ظلم وستم كرنے سے اجتناب كرتا ہے _ تم وہاں چلے جائو يہاں تك كہ خداوند تعالى كوئي مناسب موقع ہميں عطافرمائے_پيغمبر اكرم (ص) كى مراد نجاشى سے تھى (نجاشى ايك عام نام تھا جيسے ''كسرى '' جو حبشہ كے تمام بادشاہوں كا خاص لقب تھا ليكن اس نجاشى كا اصل نام جو پيغمبر اكرم (ص) كا ہم عصر تھا اصحمہ تھا جو كہ حبشہ كى زبان ميں عطيہ وبخشش كے معنى ميں ہے )_

مسلمانوں ميں سے گيارہ مرداور چار عورتيں حبشہ جانے كے لئے تيار ہوئے اور ايك چھوٹى سى كشتى كرايہ پر لے كر بحرى راستے سے حبشہ جانے كے لئے روانہ ہوگئے _يہ بعثت كے پانچويں سال ماہ رجب كا واقعہ ہے _كچھ زيادہ عرصہ نہيں گزراتھا كہ جناب جعفر بن ابوطالب بھى مسلمانوں كے ايك دوسرے گروہ كے ساتھ حبشہ چلے گئے _ اب اس اسلامى جمعيت ميں ۸۲/مردوں علاوہ كافى تعداد ميں عورتيں اور بچے بھى تھے _

۴۹۱

مشركين ،مہاجرين كى تعقيب ميں

اس ہجرت كى بنيادبت پرستوں كے لئے سخت تكليف دہ تھى كيونكہ دہ اچھى طرح سے ديكھ رہے تھے كہ كچھ زيادہ عرصہ نہيں گزرے گا كہ وہ لوگ جو تدريجاً اسلام كو قبول كرچكے ہيں اور حبشہ كى سرزمين امن وامان كى طرف چلے گئے ہيں ، مسلمانوں كى ايك طاقتور جماعت كى صورت اختيار كرليں گے يہ حيثيت ختم كرنے كے لئے انہوں نے كام كرنا شروع كرديا اس مقصد كے لئے انہوں نے جوانوں ميں سے دوہوشيار، فعال، حيلہ باز اور عيار جوانوں يعنى عمروبن عاص اور عمارہ بن وليد كا انتخاب كيا بہت سے ہديے دے كر ان كو حبشہ كى طرف روانہ كيا گيا ،ان دونوں نے كشتى ميں بيٹھ كر شراب پى اور ايك دوسرے سے لڑپڑے ليكن آخركار وہ اپنى سازش كو روبہ عمل لانے كے لئے سرزمين حبشہ ميں داخل ہوگئے _ ابتدائي مراحل طے كرنے كے بعد وہ نجاشى كے دربار ميں پہنچ گئے ،دربار ميں بارياب ہونے سے پہلے انہوں نے نجاشى كے درباريوں كو بہت قيمتى ہديے دے كران كو اپنا موافق بنايا تھا اور ان سے اپنى طرفدارى اور تائيد كرنے كا وعدہ لے ليا تھا _

'' عمروعاص '' نے اپنى گفتگو شروع كى اور نجاشى سے اس طرح ہمكلام ہوا:

ہم سرداران مكہ كے بھيجے ہوئے ہيں ہمارے درميان كچھ كم عقل جوانوں نے مخالفت كا علم بلند كيا ہے اور وہ اپنے بزرگوں كے دين سے پھر گئے ہيں ،اور ہمارے خدائوں كو برابھلا كہتے ہيں ،انہوں نے فتنہ وفساد برپا كرديا ہے لوگوں ميں نفاق كا بيچ بوديا ہے ،آپ كى سرزمين كى آزادى سے انہوں نے غلط فائدہ اٹھايا ہے اور انہوں نے يہاں آكر پناہ لے لى ہے ، ہميں اس بات كا خوف ہے كہ وہ يہاں بھى خلل اندازى نہ كريں بہتريہ ہے كہ آپ انہيں ہمارے سپرد كرديں تاكہ ہم انہيں اپنى جگہ واپس لے جائيں _

يہ كہہ كر ان لوگوں نے وہ ہديئےو وہ اپنے ساتھ لائے تھے پيش كيے _

نجاشى نے كہا : جب تك ميں اپنى حكومت ميں پناہ لينے والوں كے نمائندوں سے نہ مل لوں اس سلسلے ميں كوئي بات نہيں كرسكتا اور چونكہ يہ ايك مذہبى بحث ہے لہذا ضرورى ہے كہ تمہارى موجودگى ميں مذہبى نمائندوں كوبھى ايك جلسہ ميں دعوت دى جائے _

۴۹۲

جعفربن ابى طالب مہاجرين كے بہترين خطيب

چنانچہ دوسرے دن ايك اہم جلسہ منعقد ہوا، اس ميں نجاشى كے مصاحبين اور عيسائي علماء كى ايك جماعت شريك تھى جعفر بن ابى طالب مسلمانوں كے نمائندہ كى حيثيت سے موجود تھے اور قريش كے نمائندے بھى حاضر ہوئے نجاشى نے قريش كے نمائندوں كى باتيں سننے كے بعد جناب جعفر كى طرف رخ كيا اور ان سے خواہش كى كہ وہ اس سلسلے ميں اپنا نقطہ نظربيان كريں جناب جعفرا دائے احترام كے بعد اس طرح گويا ہوئے : پہلے ان سے پوچھيے كہ كيا ہم ان كے بھاگے ہوئے غلاموں ميں سے ہيں ؟

عمرو نے كہا :نہيں بلكہ آپ آزاد ہيں _

جعفر: ان سے يہ بھى پوچھئے كہ كيا ان كا كوئي قرض ہمارے ذمہ ہے كہ جس كا وہ ہم سے مطالبہ كرتے ہيں ؟

عمرو : نہيں ہمارا آپ سے ايسا كوئي مطالبہ نہيں ہے _

جعفر: كيا ہم نے تمہارا كوئي خون بہايا ہے كہ جس كا ہم سے بدلہ لينا چاہتے ہو ؟

عمرو:نہيں ايسا كچھ نہيں ہے؟

جعفر: تو پھر تم ہم سے كيا چاہتے ہو ؟تم نے ہم پر اتنى سختياں كيں اور اتنى تكليفيں پہنچائيں اور ہم تمہارى سرزمين سے جو سراسر مركز ظلم وجور تھى باہر نكل آئے ہيں _

اس كے بعد جناب جعفر نے نجاشى كى طرف رخ كيا اور كہا : ہم جاہل اور نادان تھے، بت پرستى كرتے تھے ،مردار كا گوشت كھاتے تھے ، طرح طرح كے برے اور شرمناك كام انجام ديتے تھے، قطع رحمى كرتے تھے ، اپنے ہمسايوں سے براسلوك كرتے تھے اور ہمارے طاقتور كمزوروں كے حقوق ہڑپ كرجاتے تھے _ ليكن خدا وند تعالى نے ہمارے درميان ايك پيغمبر كو معبوث فرمايا، جس نے ہميں حكم ديا كہ ہم خدا كا كوئي مثل اورشريك نہ بنائيں اور فحشاء ومنكر، ظلم وستم اور قماربازى ترك كرديں ہميں حكم ديا كہ ہم نماز پڑھيں ،

۴۹۳

زكوة ادا كريں ، عدل واحسان سے كام ليں اور اپنے وابستگان كى مدد كريں _

نجاشى نے كہا : عيسى مسيح عليہ السلام بھى انہى چيزوں كے لئے مبعوث ہوئے تھے _

اس كے بعد اس نے جناب جعفر سے پوچھا: ان آيات ميں سے جو تمہارے پيغمبر پر نازل ہوئي ہيں كچھ تہميں ياد ہيں _جعفرنے كہا : جى ہاں : اور پھر انہوں نے سورہ مريم كى تلاوت شروع كردى ،اس سورہ كى ايسى ہلادينے والى آيات كے ذريعہ جو مسيح عليہ السلام اور ان كى ماں كو ہر قسم كى نارو اتہمتوں سے پاك قرارديتى ہيں ، جناب جعفر كے حسن انتخاب نے عجيب وغريب اثر كيا يہاں تك كہ مسيحى علماء كى آنكھوں سے فرط شوق ميں آنسو بہنے لگے اور نجاشى نے پكار كر كہا : خدا كى قسم : ان آيات ميں حقيقت كى نشانياں نماياں ہيں _

جب عمرنے چاہا كہ اب يہاں كوئي بات كرے اور مسلمانوں كو اس كے سپرد كرنے كى درخواست كرے ، نجاشى نے ہاتھ بلند كيا اور زور سے عمرو كے منہ پر مارا اور كہا: خاموش رہو، خدا كى قسم اگر ان لوگوں كى مذمت ميں اس سے زيادہ كوئي بات كى تو ميں تجھے سزادوں گا ،يہ كہہ كر مامورين حكومت كى طرف رخ كيا اور پكار كر كہا : ان كے ہديے ان كو واپس كردو اور انہيں حبشہ كى سرزمين سے باہر نكال دو جناب جعفر اور ان كے ساتھيوں سے كہا : تم آرام سے ميرے ملك ميں زندگى بسر كرو _

اس واقعہ نے جہاں جعفر اور ان كے ساتھيوں سے كہا تم آرام سے ميرے ملك ميں زندگى بسركرو_(۱)

اس واقعہ نے جہاں حبشہ كے كچھ لوگوں پر اسلام شناسى كے سلسلے ميں گہرا تبليغى اثر كيا وہاں يہ واقعہ اس بات كا بھى سبب بنا كہ مكے كے مسلمان اس كو ايك اطمينان بخش جائے پناہ شماركريں اور نئے مسلمان ہونے والوں كو اس دن كے انتظارميں كہ جب وہ كافى قدرت و طاقت حاصل كريں ،وہاں پر بھيجتے رہيں _

____________________

(۱)بہت سے مفسرين نے نقل كيا ہے كہ سورہ مائدہ ايات ۸۲تا۸۶ نجاشى اور اس كے ساتھيوں كے بارے ميں نازل ہوئي ہيں

۴۹۴

فتح خيبركى زيادہ خوشى ہے يا جعفركے پلٹنے كي

كئي سال گزر گئے پيغمبر (ص) بھى ہجرت فرماگئے اور اسلام روزبروز ترقى كى منزليں طے كرنے لگا،عہدنامہ حديبيہ لكھا گيا اور پيغمبر اكرم (ص) فتح خيبركى طرف متوجہ ہوئے اس وقت جب كہ مسلمان يہوديوں كے سب سے بڑے اور خطر ناك مركز كے لوٹنے كى وجہ سے اتنے خوش تھے كہ پھولے نہيں سماتے تھے، دور سے انہوں نے ايك مجمع كو لشكر اسلام كى طرف آتے ہوئے ديكھا ،تھوڑى ہى دير گزرى تھى كہ معلوم ہواكہ يہ وہى مہاجرين حبشہ ہيں ، جو آغوش وطن ميں پلٹ كر آرہے ہيں ،جب كہ دشمنوں كى بڑى بڑى طاقتيں د م توڑچكى ہيں اور اسلام كا پودا اپنى جڑيں كافى پھيلا چكا ہے _

پيغمبر اكرم (ص) نے جناب جعفراور مہا جرين حبشہ كو ديكھ كر يہ تاريخى جملہ ارشاد فرمايا:

''ميں نہيں جانتا كہ مجھے خيبر كے فتح ہونے كى زيادہ خوشى ہے يا جعفر كے پلٹ آنے كى ''

كہتے ہيں كہ مسلمانوں كے علاوہ شاميوں ميں سے آٹھ افراد كہ جن ميں ايك مسيحى راہب بھى تھا اور ان كا اسلام كى طرف شديد ميلان پيدا ہوگيا تھاپيغمبر (ص) كى خدمت ميں حاضرہو ئے اور انہوں نے سورہ ى سين كى كچھ آيات سننے كے بعد رونا شروع كرديا اور مسلمان ہوگئے اور كہنے لگے كہ يہ آيات مسيح عليہ السلام كى سچى تعليمات سے كس قدر مشابہت ركھتى ہيں _

اس روايت كے مطابق جو تفسير المنار، ميں سعيد بن جبير سے منقول ہے نجاشى نے اپنے يارو انصار ميں سے تيس بہترين افراد كوپيغمبر اكرم (ص) اور دين اسلام كے ساتھ اظہار عقيدت كے لئے مدينہ بھيجا تھا اور يہ وہى تھے جو سورہ ى سين كى ايات سن كر روپڑے تھے اور اسلام قبول كرليا تھا_

۴۹۵

معراج رسول (ص)

علماء اسلام كے درميان مشہور يہ ہے كہ رسول اكرم (ص) جس وقت مكہ ميں تھے تو ايك ہى رات ميں آپ قدرت الہى سے مسجد الحرام سے اقصى پہنچے كہ جو بہت المقدس ميں ہے ، وہاں سے آپ آسمانوں كى طرف گئے ، آسمانى دسعتوں ميں عظمت الہى كے آثار مشاہدہ كئے اور اسى رات مكہ واپس آگئے _

نيزيہ بھى مشہور ہے كہ يہ زمينى اور آسمانى سير جسم اور روح كے ساتھ تھى البتہ يہ سير چونكہ بہت عجيب غريب اور بے نظير تھى لہذا بعض حضرات نے اس كى توجيہ كى اور اسے معراج روحانى قرار ديا اور كہا كہ يہ ايك طرح كا خواب تھايا مكا شفہ روحى تھا ليكن جيسا كہ ہم كہہ چكے ہيں يہ بات قرآن كے ظاہرى مفہوم كے بالكل خلاف ہے كيونكہ ظاہرقر آن اس معراج كے جسمانى ہونے كى گواہى ديتا ہے _

معراج كى كيفيت قرآن و حديث كى نظر سے

قرآن حكيم كى دوسورتوں ميں اس مسئلے كى طرف اشارہ كيا گيا ہے پہلى سورت بنى اسرائيل ہے اس ميں اس سفر كے ابتدائي حصے كا تذكرہ ہے _ (يعنى مكہ كى مسجد الحرام سے بيت المقدس كى مسجد الاقصى تك كا سفر) اس سلسلے كى دوسرى سورت _ سورہ نجم ہے اس كى آيت ۱۳ تا ۱۸ ميں معراج كا دوسرا حصہ بيان كيا گيا ہے اور يہ آسمانى سير كے متعلق ہے ارشاد ہوتا ہے :

ان چھ آيات كا مفہوم يہ ہے : رسول اللہ نے فرشتہ وحى جبرئيل كو اس كو اصلى صورت ميں دوسرى مرتبہ

۴۹۶

ديكھا (پہلے آپ اسے نزول وحى كے آغاز ميں كوہ حرا ميں ديكھ چكے تھے) يہ ملاقات بہشت جاوداں كے پاس ہوئي ، يہ منظر ديكھتے ہوئے رسول اللہ (ص) كسى اشتباہ كا شكار نہ تھے آپ نے عظمت الہى كى عظيم نشانياں مشاہدہ كيں _

يہ آيات كہ جو اكثر مفسرين كے بقول واقعہ معراج سے متعلق ہيں يہ بھى نشاندہى كرتى ہيں كہ يہ واقعہ عالم بيدارى ميں پيش آيا خصوصا ''مازاغ البصروماطغي'' اس امر كا شاہد ہے كہ رسول اللہ (ص) كى آنكھ كسى خطا واشتباہ اور انحراف سے دوچار نہيں ہوئي _

اس واقعے كے سلسلے ميں مشہور اسلامى كتابوں ميں بہت زيادہ روايات نقل ہوئي ہيں _

علماء اسلام نے ان روايات كے تو اتر اور شہرت كى گواہى دى ہے _(۱)

معراج كى تاريخ

واقعہ معراج كى تاريخ كے سلسلے ميں اسلامى مو رخين كے درميان اختلاف ہے بعض كا خيال ہے كہ يہ واقعہ بعثت كے دسويں سال ۲۷ /رجب كى شب پيش آيا، بعض كہتے ہيں كہ يہ بعثت كے بارہويں سال ۱۷/رمضان المبارك كى رات وقوع پذير ہوا جب كہ بعض اسے اوائل بعثت ميں ذكر كرتے ہيں ليكن اس كے وقوع پذير ہونے كى تاريخ ميں اختلاف،اصل واقعہ پر اختلاف ميں حائل نہيں ہوتا _

اس نكتے كا ذكر بھى ضرورى ہے كہ صر ف مسلمان ہى معراج كا عقيدہ نہيں كھتے بلكہ ديگراديان كے پيروكار وں ميں بھى كم و بيش يہ عقيدہ پايا جاتا ہے ان ميں حضرت عيسى عليہ السلام كے بارے ميں يہ عقيدہ عجيب تر صورت ميں نظر آتا ہے جيسا كہ انجيل مرقس كے باب ۶/ لوقاكے باب ۲۴/ اور يوحنا كے باب ا۲/ ميں ہے:

عيسى عليہ السلام مصلوب ہونے كے بعد دفن ہوگئے تو مردوں ميں سے اٹھ كھڑے ہوئے ،اور چاليس روز تك لوگوں ميں موجود رہے پھر آسمان كى طرف چڑھ گئے ( اور ہميشہ كے لئے معراج پر چلے گئے )

____________________

(۱)رجوع كريں تفسير نمونہ ج

۴۹۷

ضمناً يہ وضاحت بھى ہوجائے كہ بعض اسلامى روايات سے بھى معلوم ہوتا ہے كہ بعض گزشتہ انبياء كو بھى معراج نصيب ہوئي تھى _

پيغمبرگرامى (ص) نے يہ آسمانى سفر چند مرحلوں ميں طے كيا_

پہلا مرحلہ،مسجدالحرام اور مسجد اقصى كے درميانى فاصلہ كا مرحلہ تھا، جس كى طرف سورہ اسراء كى پہلى آيت ميں اشارہ ہوا ہے: ''منزہ ہے وہ خدا جو ايك رات ميں اپنے بندہ كو مسجد الحرام سے مسجد اقصى تك لے گيا''_ بعض معتبر روايات كے مطابق آپ(ص) نے اثناء راہ ميں جبرئيل(ع) كى معيت ميں سر زمين مدينہ ميں نزول فرمايا او روہاں نماز پڑھى _

او رمسجد الاقصى ميں بھى ابراہيم و موسى و عيسى عليہم السلام انبياء كى ارواح كى موجود گى ميں نماز پڑھى اور امام جماعت پيغمبر (ص) تھے، اس كے بعد وہاں سے پيغمبر (ص) كا آسمانى سفر شروع ہوا، اور آپ(ص) نے ساتوں آسمانوں كو يكے بعد ديگرے عبور كيا او رہر اسمان ميں ايك نياہى منظر ديكھا ، بعض آسمانوں ميں پيغمبروں اور فرشتوں سے، بعض آسمانوں ميں دوزخ او ردوزخيوں سے اور بعض ميں جنت اور جنتيوں سے ملاقات كى ،او رپيغمبر (ص) نے ان ميں سے ہر ايك سے بہت سى تربيتى اور اصلاحى قيمتى باتيں اپنى روح پاك ميں ذخيرہ كيں اور بہت سے عجائبات كا مشاہدہ كيا جن ميں سے ہر ايك عالم ہستى كے اسرار ميں سے ايك راز تھا، اور واپس آنے كے بعد ان كو صراحت كے ساتھ اور بعض اوقا ت كنايہ اور مثال كى زبان ميں امت كى آگاہى كے لئے مناسب فرصتوں ميں بيان فرماتے تھے، اور تعليم وتربيت كے لئے اس سے بہت زيادہ فائدہ اٹھاتے تھے_

يہ امر اس بات كى نشاندہى كرتا ہے كہ اس آسمانى سفر كا ايك اہم مقصد،ان قيمتى مشاہدات كے تربيتى و عرفانى نتائج سے استفادہ كرنا تھا،اور قرآن كى يہ پر معنى تعبير''لقد راى من آيات ربہ الكبرى ''(۱)

____________________

(۱)سورہ نجم ايت۱۸

۴۹۸

ان تمام امور كى طرف ايك اجمالى اور سربستہ اشارہ ہو سكتى ہ۶ے_

البتہ جيسا كہ ہم بيان كرچكے ہيں كہ وہ بہشت اور دوزخ جس كو پيغمبر (ص) نے سفر معراج ميں مشاہدہ كيا اور كچھ لوگوں كو وہاں عيش ميں اور عذاب ميں ديكھا ، وہ قيامت والى جنت اور دوزخ نہيں تھيں ، بلكہ وہ برزخ والى جنت ودوزخ تھيں ، كيونكہ قرآن مجيدكے مطابق جيسا كہ كہتا ہے كہ قيامت والى جنت ودوزخ قيام قيامت اور حساب وكتاب سے فراغت كے بعد نيكو كاروں اور بدكاروں كو نصيب ہوگى _

آخر كار آپ ساتويں آسمان پر پہنچ گئے ، وہاں نور كے بہت سے حجابوں كا مشاہدہ كيا ، وہى جگہ جہاں پر ''سدرة المنتہى '' اور'' جنة الما وى '' واقع تھي، اور پيغمبر (ص) اس جہان سراسر نوروروشنى ميں ، شہود باطنى كى اوج، اور قرب الى اللہ اور مقام '' قاب قوسين اوادني''پر فائز ہوئے اور خدا نے اس سفر ميں آپ كو مخالب كرتے ہوئے بہت سے اہم احكام ديئے اور بہت سے ارشادات فرمائے جن كا ايك مجموعہ اس وقت اسلامى روايات ميں '' احاديث قدسى '' كى صورت ميں ہمارے لئے يادگار رہ گيا ہے _

قابل توجہ بات يہ ہے كہ بہت سى روايات كى تصريح كے مطابق پيغمبر (ص) نے اس عظيم سفر كے مختلف حصوں ميں اچانك على عليہ السلام كو اپنے پہلو ميں ديكھا، اور ان روايات ميں كچھ ايسى تعبيريں نظر آتى ہيں ، جو پيغمبر اكرم (ص) كے بعد على عليہ السلام كے مقام كى حد سے زيادہ عظمت كى گواہ ہيں _

معراج كى ان سب روايات كے باوجود كچھ ايسے پيچيدہ اور اسرار آميز جملے ہيں جن كے مطالب كو كشف كرنا آسان نہيں ہے، اور اصطلاح كے مطابق روايات متشابہ كا حصہ ہيں يعنى ايسى روايات جن كى تشريح كوخود معصومين عليہم السلام كے سپرد كردينا چاہئے _(۱)

ضمنى طورپر، معراج كى روايات اہل سنت كى كتابوں ميں بھى تفصيل سے آئي ہيں ،اور ان كے راويوں ميں سے تقريباً ۳۰/افراد نے حديث معراج كو نقل كيا ہے_

____________________

(۱)روايات معراج كے سلسلہ ميں مزيد اطلاع كے لئے بحارالانوار كى جلد ۱۸ از ص ۲۸۲ تاص ۱۰ ۴ رجوع فرمائيں

۴۹۹

يہاں يہ سوال سامنے آتاہے : يہ اتنا لمبا سفر طے كرنا اور يہ سب عجيب اور قسم قسم كے حادثات، اور يہ سارى لمبى چوڑى گفتگو ، اور يہ سب كے سب مشاہدات ايك ہى رات ميں ياايك رات سے بھى كم وقت ميں كس طرح سے انجام پاگئے ؟

ليكن ايك نكتہ كى طرف توجہ كرنے سے اس سوال كا جواب واضح ہوجاتاہے ، سفر معراج ہرگز ايك عام سفر نہيں تھا ، كہ اسے عام معياروں سے پركھاجائے نہ تو اصل سفر معمولى تھا اور نہ ہى آپ كى سوارى معمولى اور عام تھي،نہ آپ كے مشاہدات عام اور معمولى تھے اور نہ ہى آپ كى گفتگو ، اور نہ ہى وہ پيمانے جواس ميں استعمال ہوئے، ہمارے كرہ خاكى كے محدود اور چھوٹے پيمانوں كے مانند تھے، اور نہ ہى وہ تشبيہات جواس ميں بيان ہوئي ہيں ان مناظر كى عظمت كو بيان كرسكتى ہيں جو پيغمبر (ص) نے مشاہدہ كيے ، تمام چيزيں خارق العادت صورت ميں ، اور اس مكان وزمان سے خارج ہونے كے پيمانوں ميں ، جن سے ہم آشنا نہيں ، واقع ہوئيں _

اس بناپر كوئي تعجب كى بات نہيں ہے كہ يہ امور ہمارے كرہ زمين كے زمانى پيمانوں كے ساتھ ايك رات يا ايك رات سے بھى كم وقت ميں واقع ہوئے ہوں _(۱)

معراج جسمانى تھى ياروحانى ؟

شيعہ اور سنى علمائے اسلام كے درميان مشہور ہے كہ يہ واقعہ عالم بيدارى ميں صورت پذير ہوا، سورہ بنى اسرائيل كى پہلى آيت اور سورہ نجم كى مذكورہ آيات كا ظاہرى مفہوم بھى اس امر كا شاہد ہے كہ يہ واقعہ بيدارى كى حالت ميں پيش آيا _

تواريخ اسلامى بھى اس امرپر شاہد وصادق ہيں ،تاريخ كہتى ہے : جس وقت رسول اللہ (ص) نے واقعہ معراج كا ذكر كيا تو مشركين نے شدت سے اس كا انكار كرديا اور اسے آپ كے خلاف ايك بہانہ بناليا_

____________________

(۱)تفسير نمونہ ج ۱۳ ص۹۷ تا ۹۹

۵۰۰

يہ بات گواہى ديتى ہے كہ رسول اللہ (ص) ہرگز خواب يا مكا شفہ روحانى كے مدعى نہ تھے ورنہ مخالفين اس قدر شور وغوغا نہ كرتے _

يہ جو حسن بصرى سے روايت ہے كہ : ''يہ واقعہ خواب ميں پيش آيا ''_

اور اسى طرح جو حضرت عائشہ سے روايت ہے كہ : ''خداكى قسم بدن رسول اللہ (ص) ہم سے جدا نہيں ہوا صرف آپ كى روح آسمان پر گئي'' ايسى روايات ظاہر ًاسياسى پہلو ركھتى ہيں _

معراج كا مقصد

گزشتہ مباحث پر غور كرنے سے يہ بات واضح ہوجاتى ہے كہ معراج كا مقصد يہ نہيں كہ رسول اكرم (ص) ديدار خدا كے لئے آسمانوں پر جائيں ، جيسا كہ سادہ لوح افرادخيال كرتے ہيں ، افسوس سے كہنا پڑتا ہے كہ بعض مغربى دانشور بھى ناآگاہى كى بناء پر دوسروں كے سامنے اسلام كا چہرہ بگاڑكر پيش كرنے كے لئے ايسى باتيں كرتے ہيں ان ميں سے ايك مسڑ'' گيور گيو'' بھى ہيں وہ بھى كتاب ''محمد وہ پيغمبر ہيں جنہيں پھرسے پہچاننا چاہئے''(۱) ميں كہتے ہيں :

''محمد اپنے سفر معراج ميں ايسى جگہ پہنچے كہ انہيں خدا كے قلم كى آواز سنائي دي، انہوں نے سمجھا كہ اللہ اپنے بندوں كے حساب كتاب ميں مشغول ہے البتہ وہ اللہ كے قلم كى آواز تو سننے تھے مگر انہيں اللہ دكھائي نہ ديتا تھا كيونكہ كوئي شخص خدا كو نہيں ديكھ سكتا خواہ پيغمبر ہى كيوں نہ ہوں ''يہ عبارت نشاندھى كرتى ہے كہ قلم لكڑى كا تھا، ايسا كہ كاغذ پر لكھتے وقت لرزتاتھا اور اواز پيدا كرتا تھا، اسى طرح كى اور بہت سارے خرافات اس ميں موجود ہيں ''_ جب كہ مقصد معراج يہ تھا كہ اللہ كے عظيم پيغمبر كائنات ميں بالخصوص عالم بالا ميں موجود عظمت الہى كى نشانيوں كا مشاہدہ كريں اور انسانوں كى ہدايت ورہبرى كے لئے ايك نيا ادراك اور ايك نئي بصيرت حاصل كريں _

____________________

(۱)مذكورہ كتاب كے فارسى ترجمے كا نام ہے '' محمد پيغمبرى كہ از نوبايد شناخت '' ص ۱۲۵ ديكھئے

۵۰۱

يہ ھدف واضح طورپر سورہ بنى اسرائيل كى پہلى ايت اور سورہ نجم كى ايت ۱۸ ميں بيان ہوا ہے_

امام صادق عليہ السلام سے مقصد معراج پوچھاگيا تو آپ نے فرمايا :

''خدا ہرگز كوئي مكان نہيں ركھتا اور نہ اس پر كوئي زمانہ گزرتاہے ليكن وہ چاہتا تھا كہ فرشتوں اور آسمان كے باسيوں كو اپنے پيغمبر كى تشريف آورى سے عزت بخشے اور انہيں آپ كى زيارت كا شرف عطاكرے نيزآپ كو اپنى عظمت كے عجائبات دكھائے تاكہ واپس آكر آپ انہيں لوگوں سے بيان كريں ''_

معراج اور سائنس

گزشتہ زمانے ميں بعض فلاسفہ بطليموس كى طرح يہ نظريہ ركھتے تھے كہ نو آسمان پياز كے چھلكے كى طرح تہہ بہ تہہ ايك دوسرے كے اوپر ہيں واقعہ معراج كو قبول كرنے ميں ان كے لئے سب سے بڑى ركاوٹ ان كا يہى نظريہ تھا ان كے خيال ميں اس طرح تويہ ماننا پڑتا ہے كہ آسمان شگافتہ ہوگئے اور پھر آپس ميں مل گئے_(۱)

ليكن'' بطليموسى ''نظريہ ختم ہو گيا تو اسمانوں كے شگافتہ ہونے كا مسئلہ ختم ہوگيا البتہ علم ہئيت ميں جو ترقى ہوئي ہے اس سے معراج كے سلسلے ميں نئے سوالات ابھر ے ہيں مثلاً;

۱)ايسے فضائي سفر ميں پہلى بار ركاوٹ كشش ثقل ہے كہ جس پر كنٹرول حاصل كرنے كے لے غير معمولى وسائل و ذرائع كى ضرورت ہے كيونكہ زمين كے مداراور مركز ثقل سے نكلنے كے لئے كم از كم چاليس ہزار كلو ميٹر فى گھنٹہ رفتار كى ضرورت ہے _

۲)دوسرى ركاوٹ يہ ہے كہ زمين كے باہر خلا ميں ہوا نہيں ہے جبكہ ہوا كے بغير انسان زندہ نہيں رہ سكتا _

____________________

(۱)بعض قديم فلاسفہ كا نظريہ يہ تھا كہ اسمانوں ميں ايسا ہونا ممكن نہيں ہے _اصطلاح ميں وہ كہتے تھے كہ افلاك ميں --''خرق ''(پھٹنا)اور ''التيام''(ملنا)ممكن نہيں

۵۰۲

۳)تيسرى ركاوٹ ايسے سفر ميں اس حصہ ميں سورج كى جلادينے والى تپش ہے جبكہ جس حصہ پر سورج كى مستقيماً روشنى پڑرہى ہے اور اسى طرح اس حصے ميں جان ليوا سردى ہے جس ميں سورج كى روشنى نہيں پڑرہى ہے_

۴) اس سفر ميں چوتھى ركاوٹ وہ خطرناك شعاعيں ہيں كہ جو فضا ئے زمين كے اوپر موجود ہيں مثلا كا سمك ريز cosmic ravs الٹرا وائلٹ ريز ultra violet ravs اور ايكس ريز x ravs يہ شعاعيں اگر تھوڑى مقدار ميں انسانى بدن پر پڑيں تو بدن كے آرگانزم otganism كے لئے نقصان دہ نہيں ہيں ليكن فضائے زمين كے باہر يہ شعاعيں بہت تباہ كن ہوتى ہيں (زمين پر رہنے والوں كے لئے زمين كے اوپر موجود فضاكى وجہ سے ان كى تپش ختم ہوجاتى ہے )

۵) ايك اور مشكل اس سلسلہ ميں يہ ہے كہ خلاميں انسان بے وزنى كى كيفيت سے دوچار ہوجاتا ہے اگرچہ تدريجاًبے وزنى كى عادت پيدا كى جاسكتى ہے ليكن اگر زمين كے باسى بغير كسى تيارى اور تمہيد كے خلا ميں جا پہنچيں تو بےوزنى سے نمٹنا بہت ہى مشكل ہے _

۶) آخرى مشكل اس سلسلے ميں زمانے كى مشكل ہے اور يہ نہايت اہم ركاوٹ ہے كيونكہ دورحاضر كے سان سى علوم كے مطابق روشنى كى رفتار ہر چيز سے زيادہ ہے اور اگر كوئي آسمانوں كى سير كرنا چاہے تو ضرورى ہو گاكہ اس كى رفتار سے زيادہ ہو _

ان سوالات كے پيش نظر چندچيزوں پر توجہ

ان امور كے جواب ميں ان نكات كى طرف توجہ ضرورى ہے _

۱_ہم جانتے ہيں كہ فضائي سفر كى تمام تر مشكلات كے باوجود آخر كار انسان علم كى قوت سے اس پر دسترس حاصل كرچكا ہے اور سوائے زمانے كى مشكل كے باقى تمام مشكلات حل ہوچكى ہيں اور زمانے والى مشكل بھى بہت دور كے سفر سے مربوط ہے _

۵۰۳

۲_اس ميں شك نہيں كہ مسئلہ معراج عمومى اور معمولى پہلو نہيں ركھتا بلكہ يہ اللہ كى لامتناہى قدرت و طاقت كے ذريعے صورت پذير ہوا اور انبياء كے تمام معجزات اسى قسم كے تھے زيادہ واضح الفاظ ميں يہ كہا جاسكتا ہے كہ معجزہ عقلاً محال نہيں ہونا چاہئے اور جب معجزہ بھى عقلاً ممكن ہے ، توباقى معاملات اللہ كى قدرت سے حل ہوجاتے ہيں _

جب انسان يہ طاقت ركھتا ہے كہ سائنسى ترقى كى بنياد پر ايسى چيزيں بنالے جو زمينى مركز ثقل سے باہر نكل سكتى ہيں ، ايسى چيزيں تيار كرلے كہ فضائے زمين سے باہر كى ہولناك شعاعيں ان پر اثر نہ كرسكيں اور ايسے لباس تيار كرلے كہ جو اسے انتہائي زيادہ گرمى اور سردى سے محفوظ ركھ سكيں اور مشق كے ذريعے بے وزنى كى كيفيت ميں رہنے كى عادت پيدا كرلے ،يعنى جب انسان اپنى محدود قوت كے ذريعے يہ كام كرسكتا ہے تو پھر كيا اللہ اپنى لا محدود طاقت كے ذريعہ يہ كام نہيں كرسكتا ؟

ہميں يقين ہے كہ اللہ نے اپنے رسول كو اس سفر كے لئے انتہائي تيز رفتار سوارى دى تھى اور اس سفرميں در پيش خطرات سے محفوظ رہنے كے لئے انہيں اپنى مدد كا لباس پہنايا تھا ،ہاں يہ سوارى كس قسم كى تھى اور اس كا نام كيا تھا براق ؟ رفرف ؟ يا كوئي اور ؟يہ مسئلہ قدرت كاراز ہے، ہميں اس كا علم نہيں _

ان تمام چيزوں سے قطع نظر تيز تريں رفتار كے بارے ميں مذكورہ نظريہ آج كے سائنسدانوں كے درميان متزلزل ہوچكا ہے اگر چہ آ ئن سٹائن اپنے مشہور نظريہ پر پختہ يقين ركھتا ہے _

آج كے سائنسداں كہتے ہيں كہ امواج جاذمہ rdvs of at f fion زمانے كى احتياج كے بغير آن واحد ميں دنيا كى ايك طرف سے دوسرى طرف منتقل ہوجاتى ہيں اور اپنا اثر چھوڑتى ہيں يہاں تك كہ يہ احتمال بھى ہے كہ عالم كے پھيلائو سے مربوط حركات ميں ايسے منظومے موجودہيں كہ جوروشنى كى رفتارسے زيادہ تيزى سے مركز جہان سے دور ہوجاتے ہيں (ہم جانتے ہيں كہ كائنات پھيل رہى ہے اور ستارے اور نظام ہائے شمسى تيزى كے ساتھ ايك دوسرے سے دور ہورہے ہيں )(غور كيجئے گا)مختصر يہ كہ اس سفر كے لئے جو بھى مشكلات بيان كى گئي ہيں ان ميں سے كوئي بھى عقلى طور پر اس راہ ميں حائل نہيں ہے اور ايسى كوئي بنياد نہيں كہ

۵۰۴

واقعہ معراج كو محال عقلى سمجھا جائے اس راستے ميں درپيش مسائل كو حل كرنے كے لئے جو وسائل دركار ہيں وہ موجود ہوں تو ايسا ہوسكتا ہے _

بہرحال واقعہ معراج نہ تو عقلى دلائل كے حوالے سے ناممكن ہے اور نہ دور حاضر كے سائنسى معياروں كے لحاظ سے ، البتہ اس كے غير معمولى اور معجزہ ہونے كو سب قبول كرتے ہيں لہذا جب قطعى اور يقينى نقلى دليل سے ثابت ہوجائے تو اسے قبول كرلينا چاہئے_

شب معراج پيغمبر (ص) سے خداكى باتيں

پيغمبر نے شب معراج پروردگار سبحان سے اس طرح سوال كيا :

پروردگار ا: كونساعمل افضل ہے ؟

خدا وند تعالى نے فرمايا :

'' كوئي چيز ميرے نزيك مجھ پر توكل كرنے ، اور جو كچھ ميں نے تقسيم كركے ديا ہے اس پر راضى ہونے سے بہتر نہيں ہے ،اے محمد جولوگ ميرى خاطر ايك دوسرے كو دوست ركھتے ہيں ميرى محبت ان كے شامل حال ہوگى اور جو لوگ ميرى خاطر ايك دوسرے پر مہربان ہيں اور ميرى خاطر دوستى كے تعلقات ركھتے ہيں انھيں دوست ركھتا ہوں علاوہ بر ايں ميرى محبت ان لوكوں كے لئے جو مجھ پر توكل كريں فرض اور لازم ہے اور ميرى محبت كے لئے كوئي حد او ركنارہ اوراس كى انتہا نہيں ہے ''_

اس طرح سے محبت كى باتيں شروع ہوتى ہيں ايسى محبت جس كى كوئي انتہا نہيں ،جو كشادہ اور اصولى طور پر عالم ہستى ميں اسى محور محبت پر گردش كررہا ہے _

ايك اور ددسرے حصہ ميں يہ آيا ہے _

''اے احمد بچوں كى طرح نہ ہونا جو سبز وزرد اور زرق وبرق كو دوست ركھتے ہيں اور جب انہيں كوئي عمدہ اور شيريں غذا ديدى جاتى ہے تو وہ مغرور ہوجاتے ہيں اور ہر چيز كو بھول جاتے ہيں ''_

۵۰۵

پيغمبرنے اس موقع پر عرض كيا :

پروردگارا :مجھے كسى ايسے عمل كى ہدايت فرماجو تيرى بارگاہ ميں قرب كا باعث ہو _

فرمايا : رات كو دن اور دن كو رات قرار دے _

عرض كيا : كس طرح ؟

فرمايا : اس طرح كے تيرا سونا نماز ہو اور ہرگز اپنے شكم كو مكمل طور پر سير نہ كرنا _

ايك اور حصہ ميں آيا ہے :

''اے احمد ميرى محبت فقيروں اور محروموں سے محبت ہے ،ان كے قريب ہوجاو اور ان كى مجلس كے قريب بيٹھو كہ ميں تيرے نزديك ہوں اور دنيا پرست اور ثروت مندوں كو اپنے سے دور ركھو اور ان كى مجالس سے بچتے رہو ''_

اہل دنيا و آخرت

ايك اور حصہ ميں آياہے:

''اے احمد دنيا كے زرق برق اور دنيا پرستوں كو مبغوض شمار كر اور آخرت كو محبوب ركھ'' عرض كرتے ہيں :

پروردگارا :اہل دنيا اور اہل آخرت كون ہيں ؟

فرمايا :''اہل دنيا تو وہ لوگ ہيں جو زيادہ كھاتے ہيں زيادہ ہنستے ہيں زيادہ سوتے ہيں اور غصہ كرتے ہيں اور تھوڑا خوش ہوتے ہيں نہ ہى تو برائيوں كے مقابلہ ميں كسى سے عذر چاہتے ہيں _اور نہ ہى كسى عذر چاہنے والے سے اس كا عذر قبول كرتے ہيں اطاعت خدا ميں سست ہيں اور گناہ كرنے ميں دلير ہيں ، لمبى چوڑى آرزوئيں ركھتے ہيں حالانكہ ان كى اجل قريب آپہنچى ہے مگر وہ ہر گز اپنے اعمال كا حساب نہيں كرتے ان سے لوگوں كو بہت كم نفع ہوتا ہے، باتيں زيادہ كرتے ہيں احساس ذمہ دارى نہيں ركھتے اور كھانے پينے سے ہى غرض ركھتے ہيں _

۵۰۶

اہل دنيا نہ تو نعمت ميں خدا كا شكريہ ادا كرتے ہيں اورنہ ہى مصائب ميں صبر كرتے ہيں _ زيادہ خدمات بھى ان كى نظر ميں تھوڑى ہيں (اور خود ان كى اپنى خدمات تھوڑى بھى زيادہ ہيں ) اپنے اس كام كے انجام پانے پر جو انہوں نے انجام نہيں ديا ہے تعريف كرتے ہيں اور ايسى چيز كا مطالبہ كرتے ہيں جو ان كا حق نہيں ہے _ ہميشہ اپنى آرزوئوں اور تمنا وں كى بات كرتے ہيں اور لوگوں كے عيوب تو بيان كرتے رہتے ہيں ليكن ان كى نيكيوں كو چھپاتے ہيں _

'' عرض كيا :پروردگارا :كيا دنيا پرست اس كے علاوہ بھى كوئي عيب ركھتے ہيں ؟

''فرمايا : اے احمد ان كا عيب يہ ہے كہ جہل اور حماقت ان ميں بہت زيادہ ہے جس استاد سے انہوں علم سيكھا ہے وہ اس سے تواضع نہيں كرتے اور اپنے آپ كو عاقل كل سمجھتے ہيں حالانكہ وہ صاحبان علم كے نزديك نادان اور احمق ہيں '' _

اہل بہشت كے صفات

خدا وند عالم اس كے بعد اہل آخرت اور بہشتيوں كے اوصاف كو يوں بيان كرتا ہے : ''وہ ايسے لوگ ہيں جو با حيا ہيں ان كى جہالت كم ہے ، ان كے منافع زيادہ ہيں ،لوگ ان سے راحت و آرام ميں ہوتے ہيں اور وہ خود اپنے ہاتھوں تكليف ميں ہوتے ہيں اور ان كى باتيں سنجيدہ ہوتى ہيں ''_

وہ ہميشہ اپنے اعمال كا حساب كرتے رہتے ہيں اور اسى وجہ سے وہ خود كو زحمت ميں ڈالتے رہتے ہيں ان كى آنكھيں سوئي ہوئي ہوتى ہيں ليكن ان كے دل بيدار ہوتے ہيں ان كى آنكھ گرياں ہوتى ہے اور ان كا دل ہميشہ ياد خدا ميں مصروف رہتا ہے جس وقت لوگ غافلوں كے زمرہ ميں لكھے جارہے ہوں وہ اس وقت ذكر كرنے والوں ميں لكھے جاتے ہيں _

نعمتوں كے آغاز ميں حمد خدا بجالاتے ہيں اور ختم ہونے پر اس كا شكر ادا كرتے ہيں ، ان كى دعائيں بارگاہ خدا ميں قبول ہوتى ہيں اور ان كى حاجتيں پورى كى جاتى ہيں اور فرشتے ان كے وجود سے مسرور اور خوش

۵۰۷

رہتے ہيں (غافل )لوگ ان كے نزديك مردہ ہيں اور خدا اُن كے نزديك حى و قيوم اور كريم ہے (ان كى ہمت اتنى بلند ہے كہ وہ اس كے سوا كسى كے اوپر نظر نہيں ركھتے )

لوگ تو اپنى عمر ميں صرف ايك ہى دفعہ مرتے ہيں ليكن وہ جہاد باالنفس اور ہواوہوس كى مخالفت كى وجہ سے ہر روز ستر مرتبہ مرتے ہيں (اور نئي زندگى پاتے ہيں )

جس وقت عبادت كے ليئےيرے سامنے كھڑے ہوتے ہيں تو ايك فولادى باندھ اور بنيان مرصوص كے مانند ہوتے ہيں اور ان كے دل ميں مخلوقات كى طرف كوئي توجہ نہيں ہوتى مجھے اپنى عزت و جلال كى قسم ہے كہ ميں انہيں ايك پاكيزہ زندگى بخشونگا اور عمر كے اختتام پر ميں خود ان كى روح كو قبض كروں گا اور ان كى پرواز كے لئے آسمان كے دروازوں كو كھول دوں گاتمام حجابوں كو ان كے سامنے سے ہٹا دوں گا اور حكم دوں گا كہ بہشت خود اپنے ان كے لئے آراستہ كرے ''اے احمد عبادت كے دس حصہ ہيں جن ميں سے نو حصے طلب رزق حلال ميں ہيں جب تيرا كھانا اور پينا حلال ہوگا تو تيرى حفظ و حمايت ميں ہوگا''

بہترين اور جاويدانى زندگي

ايك اور حصہ ميں آيا ہے:

''اے احمد كيا تو جانتا ہے كہ كونسى زندگى زيادہ گوارا اور زيادہ دوام ركھتى ہے''؟

عرض كيا : خداوندا: نہيں _

فرمايا: گوارا زندگى وہ ہوتى ہے جس كا صاحب ايك لمحہ كے لئے بھى ميرى ياد سے غافل نہ رہے، ميرى نعمت كو فراموش نہ كرے ، ميرے حق سے بے خبر نہ رہے اور رات دن ميرى رضا كو طلب كرے_

ليكن باقى رہنے والى زندگى وہ ہے جس ميں اپنى نجات كے لئے عمل كرے ، دنيا اس كى نظر ميں حقير ہو اور آخرت بڑى اور بزرگ ہو، ميرى رضا كو اپنى رضا پر مقدم كرے، اور ہميشہ ميرى خوشنودى كو طلب كرے، ميرے حق كو بڑا سمجھے اور اپنى نسبت ميرى آگاہى كى طرف توجہ ركھے_

ہرگناہ اور معصيت پر مجھے ياد كرليا كرے ، اور اپنے دل كو اس چيز سے جو مجھے پسند نہيں ہے پاك

۵۰۸

ركھے، شيطانى وسو سوں كو مبغوض ركھے ،اور ابليس كو اپنے دل پر مسلط نہ كرے _

جب وہ ايسا كرے گا تو ميں ايك خاص قسم كى محبت كو اس كے دل ميں ڈال دوں گا اس طرح سے كہ اس كا دل ميرے اختيار ميں ہوگا ، اس كى فرصت اور مشغوليت اس كا ہم وغم اور اس كى بات ان نعمتوں كے بارے ميں ہوگى جو ميں اہل محبت كو بخشتا ہوں _ ميں اس كى آنكھ اور دل كے كان كھول ديتا ہوں تاكہ وہ اپنے دل كے كان سے غيب كے حقائق كو سننے اور اپنے دل سے ميرے جلال وعظمت كو ديكھے'' :

اور آخر ميں يہ نورانى حديث ان بيدار كرنے والے جملوں پر ختم ہوجاتى ہے :

'' اے احمد اگر كوئي بندہ تمام اہل آسمان اور تمام اہل زمين كے برابر نماز ادا كرے ،اور تمام اہل آسمان وزمين كے برابر روزہ ركھے، فرشتوں كى طرح كھانانہ كھائے اور كوئي فاخرہ لباس بدن پر نہ پہنے (اور انتہائي زہد اور پارسائي كى زندگى بسر كرے) ليكن اس كے دل ميں ذرہ برابر بھى دنيا پرستى يا رياست طلبى يازينت دنيا كا عشق ہو تو وہ ميرے جاودانى گھر ميں ميرے جوار ميں نہيں ہوگا اور ميں اپنى محبت كو اس كے دل سے نكال دوں گا ،ميرا سلام ورحمت تجھ پر ہو ،والحمد للہ رب العالمين ''

يہ عرشى باتيں __جو انسانى روح كو آسمانوں كى طرف بلند كرتى ہيں ، اور آستان ہ عشق وشہود كى طرف كھينچتى ہيں _حديث قدسى كا صرف ايك حصہ ہے _

مزيد براں ہميں اطمينان ہے كہ پيغمبر نے اپنے ارشادات ميں جو كچھ بيان فرمايا ہے ان كے علاوہ بھي، اس شب عشق وشوق اور جذبہ ووصال كى شب ميں ، ايسى باتيں ، اسرارورموز اور اشارے آپ كے اور اپ كے محبوب كے درميان ہوتے ہيں جن كو نہ تو كان سننے كى طاقت ركھتے ہيں اور نہ عام افكار ميں ان كے درك كى صلاحيت ہے، اور اسى بناپر وہ ہميشہ پيغمبر كے دل وجان كے اندر ہى مكتوم اور پوشيدہ رہے ، اور آپ كے خواص كے علاوہ كوئي بھى ان سے آگاہ نہيں ہوا _

۵۰۹

ہجرت پيامبر اكرم (ص)(۱)

مختلف قبائل قريش اور اشراف مكہ كا ايك گروہ جمع ہوا تاكہ وہ'' دار الند وہ'' ميں ميٹنگ كريں اور انہيں رسول اللہ كى طرف سے درپيش خطرے پر غور وفكر كريں _

(كہتے ہيں ) اثنائے راہ ميں انہيں ايك خوش ظاہر بوڑھا شخص ملا جو در اصل شيطان تھا (يا كوئي انسان جو شيطانى روح وفكر كا حامل تھا)_

انہوں نے اس سے پوچھا : تم كون ہو؟

كہنے لگا : اہل نجد كا ايك بڑا بوڑھا ہوں ، مجھے تمہارے اراداے كى اطلاع ملى تو ميں نے چاہا كہ تمہارى ميٹنگ ميں شركت كروں اور اپنا نظريہ اور خير خواہى كى رائے پيش كرنے ميں دريغ نہ كروں _

كہنے لگے : بہت اچھا اندر آجايئے _

اس طرح وہ بھي'' دارالندوة''ميں داخل ہوگيا _

حاضرين ميں سے ايك نے ان كى طرف رخ كيا اور ( پيغمبر اسلام (ص) كى طرف اشارہ كرتے ہوئے ) كہا : اس شخص كے بارے ميں كوئي سوچ بچار كرو ، كيونكہ بخدا ڈر ہے كہ وہ تم پر كامياب ہوجائے ( اور تمہارے دين اور تمہارى عظمت كو خاك ميں ملادے گا )

____________________

(۱)سورہ انفال ايت ۳۰ كے ذيل ميں واقعہ ہجرت بيان ہوا ہے

۵۱۰

ايك نے تجويز پيش كى : اسے قيد كردو يہاں تك كے زندان ہى ميں مرجائے _

بوڑھے نجدى نے اس تجويز پراعتراض كيا اور كہا : اس ميں خطرہ يہ ہے كہ اس كے طرف دار ٹوٹ پڑيں اور كسى مناسب وقت اسے قيد خانے سے چھڑا كر اس سرزمين سے باہر لے جائيں لہذا كوئي اور بنيادى بات كرو _

ايك اورشخص نے كہا: اسے اپنے شہرسے نكال دو تاكہ تمہيں اس سے چھٹكارامل جائے كيونكہ جب وہ تمہارے درميان سے چلا جائے گا تو پھر جو كچھ بھى كرتا پھرے تمہيں كوئي نقصان نہيں پہنچا سكتا اور پھر وہ دوسروں ہى سے سروكار ركھے گا _

اس بوڑھے نجدى نے كہا : واللہ يہ نظريہ بھى صحيح نہيں ہے ، كہا تم اس كى شيريں بيانى ،قدرت زبان اور لوگوں كے دلوں ميں اس كے نفوذ نہيں ديكھتے؟ اگر ايسا كروگے تو وہ تمام دنيائے عرب كے پاس جائے گا اور وہ اس كے گرد جمع ہوجائيں گے اور پھر وہ ايك انبوہ كثير كے ساتھ تمہارى طرف پلٹے گا اور تمہيں تمہارے شہروں سے نكال باہر كرے گا اور بڑوں كو قتل كردےگا _

مجمع نے كہا بخدا يہ سچ كہہ رہاہے كوئي اور تجويزسو چو_

ابوجہل كى رائے

ابوجہل ابھى تك خاموش بيٹھا تھا ، اس نے گفتگو شروع كى اور كہا : ميرا ايك نظريہ ہے اور اس كے علاوہ ميں كسى رائے كو صحيح نہيں سمجھتا _

حاضرين كہنے لگے :وہ كيا ہے ؟

كہنے لگا : ہم ہر قبيلے سے ايك بہادر شمشير زن كا انتخاب كريں اور ان ميں سے ہر ايك ہاتھ ميں ايك تيز تلوار دے ديديں اور پھر وہ سب مل كر موقع پاتے ہى اس پر حملہ كريں جب وہ اس صورت ميں قتل ہوگا تو اس كا خون تمام قبائل ميں بٹ جائے گا اور ميں نہيں سمجھتا كہ بنى ہاشم تمام قبائل قريش سے لڑسكيں گے لہذا مجبورا اس

۵۱۱

صورت ميں خون بہا پر راضى ہوجائيں گے اور يوں ہم بھى اس كے آزار سے نجات پاليں گے_

بوڑھے نجدى نے (خوش ہوكر ) كہا: بخدا : صحيح رائے يہى ہے جو اس جواں مرد نے پيش كى ہے ميرا بھى اس كے علاوہ كوئي نظريہ نہيں _

اس طرح يہ تجويز اتفاق رائے سے پاس ہوگئي اور وہ يہى مصمم ارادہ لے كروہاں سے اٹھے _

حضرت على عليہ السلام نے اپنى جان كو بيچ ڈالي

جبرئيل نازل ہوئے اور پيغمبر اسلام (ص) كو حكم ملا كہ وہ رات كو اپنے بستر پر نہ سوئيں ،پيغمبر اكرم (ص) رات كو غار ثور كى طرف روانہ ہوگئے اور حكم دے گئے كہ على آپ كے بستر پر سوجائيں (تاكہ جو لوگ دروازے كى درازسے بستر پيغمبر (ص) پر نظر ركھے ہوئے ہيں انہيں بستر پر سويا ہوا سمجھيں اور آپ كو خطرے كے علاقہ سے دور نكل جانے كى مہلت مل جائے )_

اہل سنت كے مشہور مفسر ثعلبى كہتے ہيں كہ جب پيغمبراسلام (ص) نے ہجرت كرنے كا پختہ ارادہ كرليا تو اپنے قرضوں كى ادائيگى اور موجود امانتوں كى واپسى كے لئے حضرت على عليہ السلام كو اپنى جگہ مقرر كيا اور جس رات آپ غار ثور كى طرف جانا چاہتے تھے اس رات مشركين آپ پر حملہ كرنے كے لئے آپ كے گھر كا چاروں طرف سے محاصرہ كئے ہوے تھے، آپ نے حضرت على عليہ السلام كو حكم ديا كہ وہ آپ كے بستر پر ليٹ جائيں ، اپنى مخصوص سبز رنگ كى چادر انہيں اوڑھنے كو دى ، اس وقت خدا وند عالم نے جبرائيل اور ميكائيل پر وحى كى كہ ميں نے تم دونوں كے درميان بھائي چارہ اور اخوت قائم كى ہے اور تم ميں سے ايك كى عمر كو زيادہ مقرر كيا ہے تم ميں سے كون ہے جو ايثار كرتے ہوئے دوسرے كى زندگى كو اپنى حيات پر ترجيح دے ان ميں سے كوئي بھى اس كے لئے تيار نہ ہوا تو ان پروحى ہوئي كہ اس وقت على ميرے پيغمبر كے بستر پر سويا ہوا ہے اور وہ تيار ہے كہ اپنى جان ان پر قربان كردے، زمين پرجائو اور اس كے محافظ ونگہبان بن جائو ،جب جبرئيل ،حضرت على عليہ السلام كے سرہانے آئے اور ميكائيل پائوں كى طرف بيٹھے تو جبرئيل كہہ رہے تھے: سبحان اللہ، صدآفرين آپ پر اے على عليہ السلام كہ خدا آپ كے ذريعے فرشتوں پر فخر ومباہات كررہاہے ،اس موقع پر آيت نازل

۵۱۲

ہوئي ''كچھ لوگ اپنى جان خدا كى خوشنودى كے بدلے بيچ ديتے ہيں اور خدا اپنے بندوں پر مہربان ہے'' اور اسى بناء پروہ تاريخى رات '' ليلة المبيت''(شب ہجرت) كے نام سے مشہور ہوگئي _

ابن عباس كہتے ہيں :جب پيغمبر (ص) مشركين سے چھپ كر ابوبكر كے ساتھ غار كى طرف جارہے تھے يہ ايت على عليہ السلام كے بارے ميں نازل ہوئي جو اس وقت بستر رسول (ص) پر سوئے ہوئے تھے _

ابوجعفر اسكافى كہتے ہيں :جيسے ابن ابى الحديد نے شرح نہج البلاغہ، جلد ۳ ص ۲۷۰ پر لكھا ہے :

پيغمبر (ص) كے بستر پر حضرت على عليہ السلام كے سونے كا واقعہ تو اتر سے ثابت ہے اور اس كا انكار غير مسلموں اور كم ذہن لوگوں كے علاوہ كوئي نہيں كرتا(۱)

جب صبح ہوئي تومشركين گھر ميں گھس آئے _ انہوں نے جستجو كى تو حضرت على عليہ السلام كو پيغمبر(ص) كى جگہ پر ديكھا _ اس طرح سے خدا نے ان كى سازش كو نقش برآب كرديا _

وہ پكارے: محمد كہاں ہے ؟

آپ نے جواب ديا : ميں نہيں جانتا _

وہ آپ كے پائوں كے نشانوں پر چل پڑے يہاں تك كہ غار كے پاس پہنچ گئے ليكن (انہوں نے تعجب سے ديكھا كہ مكڑى نے غار كے سامنے جالاتن ركھاہے ايك نے دوسرے سے كہا كہ اگر وہ اس غار ميں ہوتے تو غاركے دہانے پر مكڑى كا جالا نہ ہوتا ، اس طرح وہ واپس چلے گئے )

پيغمبر (ص) تين دن تك غار كے اندر رہے ( اور جب دشمن مكہ كے تمام بيابانوں ميں آپ كو تلاش كرچكے اور تھك ہار كرمايوس پلٹ گئے تو آپ مدينہ كى طرف چل پڑے )_

____________________

(۱)الغدير، جلد ۲ ص۴۵ پر ہے كہ غزالى نے احياء العلوم ج۳ ص ۲۳۸ پر، صفورى نے نزہتہ المجالس ج۲ ،ص ۲۰۹ پر، ابن صباغ مالكى نے فصول المہمہ، ميں سبط ابن جوزى نے تذكرہ الخواص ص ۲۱ پر ، امام احمد نے مسندج ا ص ۳۴۸ پر، تاريخ طبرى جلد ۲ ص۹۹ پر، سيرة ابن ہشام ج ۲، ص ۲۹۱ پر، سيرة حلبى ج ۱ ص ۲۹ پر، تاريخى يعقوبى ج۲ ص ۲۹ پرليلة المبيت كے واقعہ كو نقل كيا ہے

۵۱۳

قبلہ كى تبديلي

بعثت كے بعد تيرہ سال تك مكہ ميں اور چند ماہ تك مدينہ ميں پيغمبر اسلام (ص) حكم خدا سے بيت المقدس كى طرف رخ كركے نماز پڑھتے رہے ليكن اس كے بعد قبلہ بدل گيا اور مسلمانوں كو حكم ديا گيا كہ وہ مكہ كى طرف رخ كركے نماز پڑھيں _

مدينہ ميں كتنے ماہ بيت المقدس كى طرف رخ كركے نماز پڑھى جاتى رہي؟ اس سلسلے ميں مفسرين ميں اختلاف ہے، يہ مدت سات ماہ سے لے كر سترہ ماہ تك بيان كى گئي ہے ليكن يہ جتنا عرصہ بھى تھا اس دوران يہودى مسلمانوں كو طعنہ زنى كرتے رہے كيونكہ بيت المقدس دراصل يہوديوں كا قبلہ تھا وہ مسلمانوں سے كہتے تھے كہ ان كا اپنا كوئي قبلہ نہيں بلكہ ہمارے قبلہ كى طرف رخ كركے نماز پڑھتے ہيں اور يہ اس امر كى دليل ہے كہ ہم حق پر ہيں _

يہ باتيں پيغمبر اكرم (ص) اور مسلمانوں كے لئے ناگوار تھيں ايك طرف وہ فرمان الہى كے مطيع تھے اور دوسرى طرف يہوديوں كے طعنے ختم نہ ہوتے تھے، اسى لئے پيغمبر اكرم (ص) آسمان كى طرف ديكھتے تھے گويا وحى الہى كے منتظر تھے_

پيغمبر اكرم (ص) كا خانہ كعبہ سے خاص لگائو

پيغمبر اكرم (ص) خصوصيت سے چاہتے تھے كہ قبلہ، كعبہ كى طرف تبديل ہوجائے اور آپ انتظار

۵۱۴

ميں رہتے تھے كہ خدا كى طرف سے اس سلسلہ ميں كوئي حكم نازل ہو، اس كى وجہ شايد يہ تھى كہ آنحضرت (ص) كو حضرت ابراہيم عليہ السلام اور ان كے آثار سے عشق تھا، علاوہ از ايں كعبہ توحيد كا قديم ترين مركز تھا، آپ(ص) جانتے تھے كہ بيت المقدس تو وقتى قبلہ ہے ليكن آپ كى خواہش تھى كہ حقيقى و آخرى قبلہ جلد معين ہوجائے_

آپ چونكہ حكم خدا كے سامنے سر تسليم خم تھے،پس اپ يہ تقاضا زبان تك نہ لاتے صرف منتظر نگاہيں آسمان كى طرف لگائے ہوئے تھے، جس سے ظاہر ہوتا ہے كہ آپ كو كعبہ سے كس قدر عشق اور لگائو تھا_

اس انتظار ميں ايك عرصہ گذرگيا يہاں تك كہ قبلہ كى تبديلى كا حكم صادر ہوا ايك روز مسجد ''بنى سالم'' ميں پيغمبر نماز ظہر پڑھارہے تھے دوركعتيں پڑھ چكے تھے كہ جبرئيل كو حكم ہوا كہ پيغمبر كا بازو تھام كر ان كارخ انور كعبہ كى طرف پھيرديں _

مسلمانوں نے بھى فوراً اپنى صفوں كا رخ بدل ليا،يہاں تك كہ ايك روايت ميں منقول ہے كہ عورتوں نے اپنى جگہ مردوں كو دى اور مردوں نے اپنے جگہ عورتوں كو ديدى ،(توجہ رہے كہ بيت المقدس شمالى سمت ميں تھا ،اور خانہ كعبہ جنوبى سمت ميں تھا_)

اس واقعے سے يہودى بہت پريشان ہوئے اور اپنے پرانے طريقہ كے مطابق ،ڈھٹائي، بہانہ سازى اور طعنہ بازى كا مظاہرہ كرنے لگے پہلے تو كہتے تھے كہ ہم مسلمانوں سے بہتر ہيں كيونكہ ان كا كوئي اپنا قبلہ نہيں ، يہ ہمارے پيروكار ہيں ليكن جب خدا كى طرف سے قبلہ كى تبديلى كا حكم نازل ہوا تو انہوں نے پھر زبان اعتراض درازكى چنانچہ قرآن كہتا ہے_

''بہت جلد كم عقل لوك كہيں گے ان (مسلمانوں ) كو كس چيز نے اس قبلہ سے پھيرديا جس پر وہ پہلے تھے''_(۱)

مسلمانوں نے اس سے كيوں اعراض كيا ہے جو گذشتہ زمانہ ميں انبيائے ماسلف كا قبلہ رہا ہے، اگر

____________________

(۱) سورہ بقرہ آيت ۱۴۲

۵۱۵

پہلا قبلہ صحيح تھا تو اس تبديلى كا كيا مقصد،اور اگر دوسرا صحيح ہے تو پھرتير ہ سال اور پندرہ ماہ بيت المقدس كى طرف رخ كركے كيوں نماز پڑھتے رہے ہيں _؟

چنانچہ خدا وند عالم نے اپنے پيغمبر كو حكم ديا:

''ان سے كہہ دو عالم كے مشرق ومغرب اللہ كے لئے ہيں وہ جسے چاہتا ہے سيدھے راستے كى ہدايت كرتا ہے''_(۱)

تبديلى قبلہ كا راز

بيت المقدس سے خانہ كعبہ كى طرف قبلہ كى تبديلى ان سب كے لئے اعتراض كا موجب بنى جن كا گمان تھا كہ ہر حكم كو مستقل رہنا چاہئے تھااگر ہمارے لئے ضرورى تھا كہ كعبہ كى طرف نماز پڑھيں تو پہلے دن يہ حكم كيوں نہ ديا گيا اور اگر بيت المقدس مقدم ہے جو گذشتہ انبياء كا بھى قبلہ شمار ہوتا ہے توپھراسے كيوں بدلاگيا_؟

دشمنوں كے ہاتھ بھى طعنہ زنى كا موقع آگيا، شايد وہ كہتے تھے كہ پہلے تو انبياء ماسبق كے قبلہ كى طرف نماز پڑھتا تھا ليكن كاميابيوں كے بعد اس پر قبيلہ پرستى نے غلبہ كرليا ہے لہذا اپنى قوم اور قبيلے كے قبلہ كى طرف پلٹ گيا ہے ياكہتے تھے كہ اس نے دھوكا دينے اور يہودو نصارى كى توجہ اپنى طرف مبذول كرنے كے لئے پہلے بيت المقدس كو قبول كرليا اور جب يہ بات كار گرنہ ہوسكى تو اب كعبہ كى طرف رخ كرليا ہے _

واضح ہے كہ ايسے وسوسے اور وہ بھى ايسے معاشرے ميں جہاں ابھى نور علم نہ پھيلا ہو اور جہاں شرك وبت پرستى كى رسميں موجود ہوں كيسا تذبذب واضطراب پيدا كرديتے ہيں اسى لئے قرآن صراحت سے كہتا ہے كہ'' يہ مومنين اورمشركين ميں امتياز پيدا كرنے والى ايك عظيم آزمائش تھي''_(۲)

ممكن ہے كہ قبلہ كى تبديلى كے اہم اسباب ميں سے درج ذيل مسئلہ بھى ہو خانہ كعبہ اس وقت

____________________

(۱)سورہ بقرہ آيت۱۴۲

(۲)سورہ بقرہ ايت ۱۴۳

۵۱۶

مشركين كے بتوں كامركز بنا ہوا تھا لہذا حكم ديا گيا كہ مسلمان وقتى طور پر بيت المقدس كى طرف رخ كركے نمازپڑھ ليا كريں تاكہ اس طرح مشركين سے اپنى صفيں الگ كرسكيں _

ليكن جب مدينہ كى طرف ہجرت كے بعد اسلامى حكومت وملت كى تشكيل ہوگئي اور مسلمانوں كى صفيں دوسروں سے مكمل طور پر ممتاز ہوگئيں تو اب يہ كيفيت برقرار ركھنا ضرورى نہ رہا ،لہذا اس وقت كعبہ كى طرف رخ كرليا گيا جو قديم ترين مركز توحيد اور انبياء كا بہت پرانا مركز تھا _

ايسے ميں ظاہر ہے كہ جو كعبہ كو اپنا خاندانى معنوى اور روحانى سرمايہ سمجھتے تھے بيت المقدس كى طرف نماز پڑھنا ان كے لئے مشكل تھا اور اسى طرح بيت المقدس كے بعد كعبہ كى طرف پلٹنا، لہذا اس ميں مسلمانوں كى سخت آزمائش تھى تاكہ شرك كے جتنے آثار ان ميں باقى رہ گئے تھے اس كٹھالى ميں پڑكر جل جائيں اور ان كے گذشتہ شرك آلود رشتے ناتے ٹوٹ جائيں _

جيسا كہ ہم پہلے كہہ چكے ہيں اصولى طور پر تو خدا كے لئے مكان نہيں ہے قبلہ تو صرف وحدت اور صفوں ميں اتحاد كا ايك رمزہے اور اس كى تبديلى كسى چيز كود گرگوں نہيں كرسكتى ، اہم ترين امر تو خدا كے حكم كے سامنے سر تسليم خم كرنا ہے اور تعصب اورہٹ دھرمى كے بتوں كو توڑناہے _

۵۱۷

جنگ بدر(۱)

جنگ بدركى ابتداء يہاں سے ہوئي كہ مكہ والوں كا ايك اہم تجارتى قافلہ شام سے مكہ كى طرف واپس جارہا تھا اس قافلے كو مدينہ كى طرف سے گزرنا تھا اہل مكہ كا سردار ابوسفيان قافلہ كا سالار تھا اس كے پاس ہزار دينار كا مال تجارت تھا پيغمبر اسلام نے اپنے اصحاب كو اس عظيم قافلے كى طرف تيزى سے كوچ كا حكم ديا كہ جس كے پاس دشمن كا ايك بڑا سرمايہ تھا تاكہ اس سرمائے كو ضبط كركے دشمن كى اقتصادى قوت كو سخت ضرب لگائي جائے تاكہ اس كا نقصان دشمن كى فوج كو پہنچے _(۲)

____________________

(۱)واقعہ جنگ بدر سورہ انفال آيات ۵ تا ۱۸كے ذيل ميں بيان ہوئي ہے _

(۲)پيغمبراور ان كے اصحاب ايسا كرنے كا حق ركھتے تھے كيونكہ مسلمان مكہ سے مدينہ كى طرف ہجرت كركے آئے تو اہل مكہ نے ان كے بہت سے اموال پر قبضہ كرليا تھا جس سے مسلمانوں كو سخت نقصان اٹھانا پڑا لہذا وہ حق ركھتے تھے كہ اس نقصان كى تلافى كريں _اس سے قطع نظر بھى اہل مكہ نے گذشتہ تيرہ برس ميں پيغمبر اسلام (ص) اور مسلمانوں سے جو سلوك رواركھا اس سے بات ثابت ہوچكى تھى وہ مسلمانوں كو ضرب لگانے اور نقصان پہنچانے كے لئے كوئي موقع ہاتھ سے نہيں گنوائيں گے يہاں تك كہ وہ خودپيغمبر اكرم (ص) كو قتل كرنے پر تل گئے تھے ايسا دشمن پيغمبر اكرم (ص) كے ہجرت مدينہ كى وجہ سے بے كار نہيں بيٹھ سكتا تھا واضح تھا كہ وہ قاطع ترين ضرب لگانے كے لئے اپنى قوت مجتمع كرتا پس عقل ومنطق كا تقاضا تھا كہ پيش بندى كے طورپر ان كے تجارتى قافلے كو گھير كر اس كے اتنے بڑے سرمائے كو ضبط كرليا جاتا تاكہ اس پر ضرب پڑے اور اپنى فوجى اور اقتصادى بنياد مضبوط كى جاتى ايسے اقدامات آج بھى اور گذشتہ ادوار ميں بھى عام دنيا ميں فوجى طريق كار كا حصہ رہے ہيں ،جولوگ ان پہلوئوں كو نظر اندازكركے قافلے كى طرف پيغمبر كى پيش قدمى كو ايك طرح كى غارت گرى كے طور پر پيش كرنا چاہتے ہيں ياتو وہ حالات سے آگاہ نہيں اور اسلام كے تاريخى مسائل كى بنيادوں سے بے خبر ہيں اور يا ان كے كچھ مخصوص مقاصد ہيں جن كے تحت وہ واقعات وحقائق كو توڑمروڑكر پيش كرتے ہيں

۵۱۸

بہرحال ايك طرف ابوسفيان كو مدينہ ميں اس كے ذريعے اس امر كى اطلاع مل گئي اور دوسرى طرف اس نے اہل مكہ كو صورت حال كى اطلاع كے لئے ايك تيز رفتار قاصد روانہ كرديا كيونكہ شام كى طرف جاتے ہوئے بھى اسے اس تجارتى قافلہ كى راہ ميں ركاوٹ كا انديشہ تھا _

قاصد ،ابوسفيان كى نصيحت كے مطابق اس حالت ميں مكہ ميں داخل ہوا كہ اس نے اپنے اونٹ كى ناك كوچير ديا تھا اس كے كان كاٹ ديئے تھے ، خون ہيجان انگيز طريقہ سے اونٹ سے بہہ رہا تھا ،قاصد نے اپنى قميض كو دونوں طرف سے پھاڑديا تھا اونٹ كى پشت كى طرف منہ كركے بيٹھا ہوا تھا تاكہ لوگوں كو اپنى طرف متوجہ كرسكے ، مكہ ميں داخل ہوتے ہى اس نے چيخنا چلانا شروع كرديا :

اے كا مياب وكامران لوگو اپنے قافلے كى خبر لو، اپنے كارواں كى مدد كرو _ ليكن مجھے اميد نہيں كہ تم وقت پر پہنچ سكو ، محمد اور تمہارے دين سے نكل جانے والے افراد قافلے پر حملے كے لئے نكل چكے ہيں _

اس موقع پر پيغمبر (ص) كى پھوپھى عاتكہ بنت عبدالمطلب كا ايك عجيب وغريب خواب تھا مكہ ميں زبان زد خاص وعام تھا اور لوگوں كے ہيجان ميں اضافہ كرہا تھا _ خواب كا ماجرايہ تھا كہ عاتكہ نے تين روزقبل خواب ميں ديكھاكہ :

ايك شخص پكاررہا ہے كہ لوگو اپنى قتل گاہ كى طرف جلدى چلو، اس كے بعد وہ منادى كوہ ابوقيس كى چوٹى پر چڑھ گيا اس نے پتھر كى ايك بڑى چٹان كو حركت دى تو وہ چٹان ريزہ ريزہ ہوگئي اور اس كا ايك ايك ٹكڑا قريش كے ايك ايك گھرميں جاپڑا اور مكہ كے درے سے خون كا سيلاب جارى ہوگيا _

عاتكہ وحشت زدہ ہوكر خواب سے بيدار ہوئي اور اپنے بھائي عباس كو سنايا _ اس طرح خواب لوگوں تك پہنچاتو وہ وحشت وپريشانى ميں ڈوب گئے _ ابوجہل نے خواب سنا تو بولا : يہ عورت دوسرا پيغمبر ہے جو اولادعبدالمطلب ميں ظاہر ہوا ہے لات وعزى كى قسم ہم تين دن كى مہلت ديتے ہيں اگر اتنے عرصے ميں اس خواب كى تعبير ظاہر نہ ہوئي تو ہم آپس ميں ايك تحرير لكھ كر اس پر دستخط كريں گے كہ بنى ہاشم قبائل عرب ميں سے سب سے زيادہ جھوٹے ہيں تيسرا دن ہوا تو ابوسفيان كا قاصد آپہنچا ، اس كى پكار نے تمام اہل مكہ كو ہلاكو ركھ ديا_

۵۱۹

اور چونكہ تمام اہل مكہ كا اس قافلے ميں حصہ تھا سب فوراً جمع ہوگئے ابوجہل كى كمان ميں ايك لشكر تيار ہوا ، اس ميں ۵۰ ۹/ جنگجو تھے جن ميں سے بعض انكے بڑے اور مشہور سردار اور بہادر تھے ۷۰۰/ اونٹ تھے اور ۱۰۰/ گھوڑے تھے لشكر مدينہ كى طرف روانہ ہوگيا _

دوسرى طرف چونكہ ابو سفيان مسلمانوں سے بچ كر نكلنا چاہتاتھا ،لہذا اس نے راستہ بدل ديا اور مكہ كى طرف روانہ ہو گيا_

۳۱۳/ وفادار ساتھي

پيغمبر اسلام (ص) ۳۱۳ /افراد كے ساتھ جن ميں تقريباً تمام مجاہدين اسلام تھے سرزمين بدركے پاس پہنچ گئے تھے يہ مقام مكہ اور مدينہ كے راستے ميں ہے يہاں آپ كو قريش كے لشكر كى روانگى كى خبر ملى اس وقت آپ نے اپنے اصحاب سے مشورہ كيا كہ كيا ابوسفيان كے قافلہ كا تعاقب كيا جائے اور قافلہ كے مال پر قبضہ كيا جائے يا لشكر كے مقابلے كے لئے تيار ہواجائے؟ ايك گروہ نے دشمن كے لشكر كامقابلہ كرنے كو ترجيح دى جب كہ دوسرے گروہ نے اس تجويز كو ناپسند كيا اور قافلہ كے تعاقب كو ترجيح دى ،ان كى دليل يہ تھى كہ ہم مدينہ سے مكہ كى فوج كا مقابلہ كرنے كے ارادہ سے نہيں نكلے تھے اور ہم نے اس لشكر كے مقابلے كے لئے جنگى تيارى نہيں كى تھى جب كہ وہ ہمارى طرف پورى تيارى سے آرہا ہے _

اس اختلاف رائے اور تردد ميں اس وقت اضافہ ہوگيا جب انہيں معلوم تھاكہ دشمن كى تعداد مسلمانوں سے تقريبا تين گنا ہے اور ان كا سازوسامان بھى مسلمانوں سے كئي گنا زيادہ ہے، ان تمام باتوں كے باوجود پيغمبر اسلام (ص) نے پہلے گروہ كے نظريے كو پسند فرمايا اور حكم ديا كہ دشمن كى فوج پر حملہ كى تيارى كى جائے _

جب دونوں لشكر آمنے سامنے ہوئے تودشمن كو يقين نہ آيا كہ مسلمان اس قدر كم تعداد اور سازو سامان كے ساتھ ميدان ميں آئے ہوں گے ،ان كا خيال تھا كہ سپاہ اسلام كا اہم حصہ كسى مقام پر چھپاہوا ہے تاكہ وہ غفلت ميں كسى وقت ان پر حملہ كردے لہذا انہوں نے ايك شخص كو تحقيقات كے لئے بھيجا، انہيں جلدى معلوم

۵۲۰

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667