قصص القرآن-منتخب از تفسير نمونه

قصص القرآن-منتخب از تفسير نمونه   5%

قصص القرآن-منتخب از تفسير نمونه   مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 667

قصص القرآن-منتخب از تفسير نمونه
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 667 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 334601 / ڈاؤنلوڈ: 6149
سائز سائز سائز
قصص القرآن-منتخب از تفسير نمونه

قصص القرآن-منتخب از تفسير نمونه

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

يہ بات گواہى ديتى ہے كہ رسول اللہ (ص) ہرگز خواب يا مكا شفہ روحانى كے مدعى نہ تھے ورنہ مخالفين اس قدر شور وغوغا نہ كرتے _

يہ جو حسن بصرى سے روايت ہے كہ : ''يہ واقعہ خواب ميں پيش آيا ''_

اور اسى طرح جو حضرت عائشہ سے روايت ہے كہ : ''خداكى قسم بدن رسول اللہ (ص) ہم سے جدا نہيں ہوا صرف آپ كى روح آسمان پر گئي'' ايسى روايات ظاہر ًاسياسى پہلو ركھتى ہيں _

معراج كا مقصد

گزشتہ مباحث پر غور كرنے سے يہ بات واضح ہوجاتى ہے كہ معراج كا مقصد يہ نہيں كہ رسول اكرم (ص) ديدار خدا كے لئے آسمانوں پر جائيں ، جيسا كہ سادہ لوح افرادخيال كرتے ہيں ، افسوس سے كہنا پڑتا ہے كہ بعض مغربى دانشور بھى ناآگاہى كى بناء پر دوسروں كے سامنے اسلام كا چہرہ بگاڑكر پيش كرنے كے لئے ايسى باتيں كرتے ہيں ان ميں سے ايك مسڑ'' گيور گيو'' بھى ہيں وہ بھى كتاب ''محمد وہ پيغمبر ہيں جنہيں پھرسے پہچاننا چاہئے''(۱) ميں كہتے ہيں :

''محمد اپنے سفر معراج ميں ايسى جگہ پہنچے كہ انہيں خدا كے قلم كى آواز سنائي دي، انہوں نے سمجھا كہ اللہ اپنے بندوں كے حساب كتاب ميں مشغول ہے البتہ وہ اللہ كے قلم كى آواز تو سننے تھے مگر انہيں اللہ دكھائي نہ ديتا تھا كيونكہ كوئي شخص خدا كو نہيں ديكھ سكتا خواہ پيغمبر ہى كيوں نہ ہوں ''يہ عبارت نشاندھى كرتى ہے كہ قلم لكڑى كا تھا، ايسا كہ كاغذ پر لكھتے وقت لرزتاتھا اور اواز پيدا كرتا تھا، اسى طرح كى اور بہت سارے خرافات اس ميں موجود ہيں ''_ جب كہ مقصد معراج يہ تھا كہ اللہ كے عظيم پيغمبر كائنات ميں بالخصوص عالم بالا ميں موجود عظمت الہى كى نشانيوں كا مشاہدہ كريں اور انسانوں كى ہدايت ورہبرى كے لئے ايك نيا ادراك اور ايك نئي بصيرت حاصل كريں _

____________________

(۱)مذكورہ كتاب كے فارسى ترجمے كا نام ہے '' محمد پيغمبرى كہ از نوبايد شناخت '' ص ۱۲۵ ديكھئے

۵۰۱

يہ ھدف واضح طورپر سورہ بنى اسرائيل كى پہلى ايت اور سورہ نجم كى ايت ۱۸ ميں بيان ہوا ہے_

امام صادق عليہ السلام سے مقصد معراج پوچھاگيا تو آپ نے فرمايا :

''خدا ہرگز كوئي مكان نہيں ركھتا اور نہ اس پر كوئي زمانہ گزرتاہے ليكن وہ چاہتا تھا كہ فرشتوں اور آسمان كے باسيوں كو اپنے پيغمبر كى تشريف آورى سے عزت بخشے اور انہيں آپ كى زيارت كا شرف عطاكرے نيزآپ كو اپنى عظمت كے عجائبات دكھائے تاكہ واپس آكر آپ انہيں لوگوں سے بيان كريں ''_

معراج اور سائنس

گزشتہ زمانے ميں بعض فلاسفہ بطليموس كى طرح يہ نظريہ ركھتے تھے كہ نو آسمان پياز كے چھلكے كى طرح تہہ بہ تہہ ايك دوسرے كے اوپر ہيں واقعہ معراج كو قبول كرنے ميں ان كے لئے سب سے بڑى ركاوٹ ان كا يہى نظريہ تھا ان كے خيال ميں اس طرح تويہ ماننا پڑتا ہے كہ آسمان شگافتہ ہوگئے اور پھر آپس ميں مل گئے_(۱)

ليكن'' بطليموسى ''نظريہ ختم ہو گيا تو اسمانوں كے شگافتہ ہونے كا مسئلہ ختم ہوگيا البتہ علم ہئيت ميں جو ترقى ہوئي ہے اس سے معراج كے سلسلے ميں نئے سوالات ابھر ے ہيں مثلاً;

۱)ايسے فضائي سفر ميں پہلى بار ركاوٹ كشش ثقل ہے كہ جس پر كنٹرول حاصل كرنے كے لے غير معمولى وسائل و ذرائع كى ضرورت ہے كيونكہ زمين كے مداراور مركز ثقل سے نكلنے كے لئے كم از كم چاليس ہزار كلو ميٹر فى گھنٹہ رفتار كى ضرورت ہے _

۲)دوسرى ركاوٹ يہ ہے كہ زمين كے باہر خلا ميں ہوا نہيں ہے جبكہ ہوا كے بغير انسان زندہ نہيں رہ سكتا _

____________________

(۱)بعض قديم فلاسفہ كا نظريہ يہ تھا كہ اسمانوں ميں ايسا ہونا ممكن نہيں ہے _اصطلاح ميں وہ كہتے تھے كہ افلاك ميں --''خرق ''(پھٹنا)اور ''التيام''(ملنا)ممكن نہيں

۵۰۲

۳)تيسرى ركاوٹ ايسے سفر ميں اس حصہ ميں سورج كى جلادينے والى تپش ہے جبكہ جس حصہ پر سورج كى مستقيماً روشنى پڑرہى ہے اور اسى طرح اس حصے ميں جان ليوا سردى ہے جس ميں سورج كى روشنى نہيں پڑرہى ہے_

۴) اس سفر ميں چوتھى ركاوٹ وہ خطرناك شعاعيں ہيں كہ جو فضا ئے زمين كے اوپر موجود ہيں مثلا كا سمك ريز cosmic ravs الٹرا وائلٹ ريز ultra violet ravs اور ايكس ريز x ravs يہ شعاعيں اگر تھوڑى مقدار ميں انسانى بدن پر پڑيں تو بدن كے آرگانزم otganism كے لئے نقصان دہ نہيں ہيں ليكن فضائے زمين كے باہر يہ شعاعيں بہت تباہ كن ہوتى ہيں (زمين پر رہنے والوں كے لئے زمين كے اوپر موجود فضاكى وجہ سے ان كى تپش ختم ہوجاتى ہے )

۵) ايك اور مشكل اس سلسلہ ميں يہ ہے كہ خلاميں انسان بے وزنى كى كيفيت سے دوچار ہوجاتا ہے اگرچہ تدريجاًبے وزنى كى عادت پيدا كى جاسكتى ہے ليكن اگر زمين كے باسى بغير كسى تيارى اور تمہيد كے خلا ميں جا پہنچيں تو بےوزنى سے نمٹنا بہت ہى مشكل ہے _

۶) آخرى مشكل اس سلسلے ميں زمانے كى مشكل ہے اور يہ نہايت اہم ركاوٹ ہے كيونكہ دورحاضر كے سان سى علوم كے مطابق روشنى كى رفتار ہر چيز سے زيادہ ہے اور اگر كوئي آسمانوں كى سير كرنا چاہے تو ضرورى ہو گاكہ اس كى رفتار سے زيادہ ہو _

ان سوالات كے پيش نظر چندچيزوں پر توجہ

ان امور كے جواب ميں ان نكات كى طرف توجہ ضرورى ہے _

۱_ہم جانتے ہيں كہ فضائي سفر كى تمام تر مشكلات كے باوجود آخر كار انسان علم كى قوت سے اس پر دسترس حاصل كرچكا ہے اور سوائے زمانے كى مشكل كے باقى تمام مشكلات حل ہوچكى ہيں اور زمانے والى مشكل بھى بہت دور كے سفر سے مربوط ہے _

۵۰۳

۲_اس ميں شك نہيں كہ مسئلہ معراج عمومى اور معمولى پہلو نہيں ركھتا بلكہ يہ اللہ كى لامتناہى قدرت و طاقت كے ذريعے صورت پذير ہوا اور انبياء كے تمام معجزات اسى قسم كے تھے زيادہ واضح الفاظ ميں يہ كہا جاسكتا ہے كہ معجزہ عقلاً محال نہيں ہونا چاہئے اور جب معجزہ بھى عقلاً ممكن ہے ، توباقى معاملات اللہ كى قدرت سے حل ہوجاتے ہيں _

جب انسان يہ طاقت ركھتا ہے كہ سائنسى ترقى كى بنياد پر ايسى چيزيں بنالے جو زمينى مركز ثقل سے باہر نكل سكتى ہيں ، ايسى چيزيں تيار كرلے كہ فضائے زمين سے باہر كى ہولناك شعاعيں ان پر اثر نہ كرسكيں اور ايسے لباس تيار كرلے كہ جو اسے انتہائي زيادہ گرمى اور سردى سے محفوظ ركھ سكيں اور مشق كے ذريعے بے وزنى كى كيفيت ميں رہنے كى عادت پيدا كرلے ،يعنى جب انسان اپنى محدود قوت كے ذريعے يہ كام كرسكتا ہے تو پھر كيا اللہ اپنى لا محدود طاقت كے ذريعہ يہ كام نہيں كرسكتا ؟

ہميں يقين ہے كہ اللہ نے اپنے رسول كو اس سفر كے لئے انتہائي تيز رفتار سوارى دى تھى اور اس سفرميں در پيش خطرات سے محفوظ رہنے كے لئے انہيں اپنى مدد كا لباس پہنايا تھا ،ہاں يہ سوارى كس قسم كى تھى اور اس كا نام كيا تھا براق ؟ رفرف ؟ يا كوئي اور ؟يہ مسئلہ قدرت كاراز ہے، ہميں اس كا علم نہيں _

ان تمام چيزوں سے قطع نظر تيز تريں رفتار كے بارے ميں مذكورہ نظريہ آج كے سائنسدانوں كے درميان متزلزل ہوچكا ہے اگر چہ آ ئن سٹائن اپنے مشہور نظريہ پر پختہ يقين ركھتا ہے _

آج كے سائنسداں كہتے ہيں كہ امواج جاذمہ rdvs of at f fion زمانے كى احتياج كے بغير آن واحد ميں دنيا كى ايك طرف سے دوسرى طرف منتقل ہوجاتى ہيں اور اپنا اثر چھوڑتى ہيں يہاں تك كہ يہ احتمال بھى ہے كہ عالم كے پھيلائو سے مربوط حركات ميں ايسے منظومے موجودہيں كہ جوروشنى كى رفتارسے زيادہ تيزى سے مركز جہان سے دور ہوجاتے ہيں (ہم جانتے ہيں كہ كائنات پھيل رہى ہے اور ستارے اور نظام ہائے شمسى تيزى كے ساتھ ايك دوسرے سے دور ہورہے ہيں )(غور كيجئے گا)مختصر يہ كہ اس سفر كے لئے جو بھى مشكلات بيان كى گئي ہيں ان ميں سے كوئي بھى عقلى طور پر اس راہ ميں حائل نہيں ہے اور ايسى كوئي بنياد نہيں كہ

۵۰۴

واقعہ معراج كو محال عقلى سمجھا جائے اس راستے ميں درپيش مسائل كو حل كرنے كے لئے جو وسائل دركار ہيں وہ موجود ہوں تو ايسا ہوسكتا ہے _

بہرحال واقعہ معراج نہ تو عقلى دلائل كے حوالے سے ناممكن ہے اور نہ دور حاضر كے سائنسى معياروں كے لحاظ سے ، البتہ اس كے غير معمولى اور معجزہ ہونے كو سب قبول كرتے ہيں لہذا جب قطعى اور يقينى نقلى دليل سے ثابت ہوجائے تو اسے قبول كرلينا چاہئے_

شب معراج پيغمبر (ص) سے خداكى باتيں

پيغمبر نے شب معراج پروردگار سبحان سے اس طرح سوال كيا :

پروردگار ا: كونساعمل افضل ہے ؟

خدا وند تعالى نے فرمايا :

'' كوئي چيز ميرے نزيك مجھ پر توكل كرنے ، اور جو كچھ ميں نے تقسيم كركے ديا ہے اس پر راضى ہونے سے بہتر نہيں ہے ،اے محمد جولوگ ميرى خاطر ايك دوسرے كو دوست ركھتے ہيں ميرى محبت ان كے شامل حال ہوگى اور جو لوگ ميرى خاطر ايك دوسرے پر مہربان ہيں اور ميرى خاطر دوستى كے تعلقات ركھتے ہيں انھيں دوست ركھتا ہوں علاوہ بر ايں ميرى محبت ان لوكوں كے لئے جو مجھ پر توكل كريں فرض اور لازم ہے اور ميرى محبت كے لئے كوئي حد او ركنارہ اوراس كى انتہا نہيں ہے ''_

اس طرح سے محبت كى باتيں شروع ہوتى ہيں ايسى محبت جس كى كوئي انتہا نہيں ،جو كشادہ اور اصولى طور پر عالم ہستى ميں اسى محور محبت پر گردش كررہا ہے _

ايك اور ددسرے حصہ ميں يہ آيا ہے _

''اے احمد بچوں كى طرح نہ ہونا جو سبز وزرد اور زرق وبرق كو دوست ركھتے ہيں اور جب انہيں كوئي عمدہ اور شيريں غذا ديدى جاتى ہے تو وہ مغرور ہوجاتے ہيں اور ہر چيز كو بھول جاتے ہيں ''_

۵۰۵

پيغمبرنے اس موقع پر عرض كيا :

پروردگارا :مجھے كسى ايسے عمل كى ہدايت فرماجو تيرى بارگاہ ميں قرب كا باعث ہو _

فرمايا : رات كو دن اور دن كو رات قرار دے _

عرض كيا : كس طرح ؟

فرمايا : اس طرح كے تيرا سونا نماز ہو اور ہرگز اپنے شكم كو مكمل طور پر سير نہ كرنا _

ايك اور حصہ ميں آيا ہے :

''اے احمد ميرى محبت فقيروں اور محروموں سے محبت ہے ،ان كے قريب ہوجاو اور ان كى مجلس كے قريب بيٹھو كہ ميں تيرے نزديك ہوں اور دنيا پرست اور ثروت مندوں كو اپنے سے دور ركھو اور ان كى مجالس سے بچتے رہو ''_

اہل دنيا و آخرت

ايك اور حصہ ميں آياہے:

''اے احمد دنيا كے زرق برق اور دنيا پرستوں كو مبغوض شمار كر اور آخرت كو محبوب ركھ'' عرض كرتے ہيں :

پروردگارا :اہل دنيا اور اہل آخرت كون ہيں ؟

فرمايا :''اہل دنيا تو وہ لوگ ہيں جو زيادہ كھاتے ہيں زيادہ ہنستے ہيں زيادہ سوتے ہيں اور غصہ كرتے ہيں اور تھوڑا خوش ہوتے ہيں نہ ہى تو برائيوں كے مقابلہ ميں كسى سے عذر چاہتے ہيں _اور نہ ہى كسى عذر چاہنے والے سے اس كا عذر قبول كرتے ہيں اطاعت خدا ميں سست ہيں اور گناہ كرنے ميں دلير ہيں ، لمبى چوڑى آرزوئيں ركھتے ہيں حالانكہ ان كى اجل قريب آپہنچى ہے مگر وہ ہر گز اپنے اعمال كا حساب نہيں كرتے ان سے لوگوں كو بہت كم نفع ہوتا ہے، باتيں زيادہ كرتے ہيں احساس ذمہ دارى نہيں ركھتے اور كھانے پينے سے ہى غرض ركھتے ہيں _

۵۰۶

اہل دنيا نہ تو نعمت ميں خدا كا شكريہ ادا كرتے ہيں اورنہ ہى مصائب ميں صبر كرتے ہيں _ زيادہ خدمات بھى ان كى نظر ميں تھوڑى ہيں (اور خود ان كى اپنى خدمات تھوڑى بھى زيادہ ہيں ) اپنے اس كام كے انجام پانے پر جو انہوں نے انجام نہيں ديا ہے تعريف كرتے ہيں اور ايسى چيز كا مطالبہ كرتے ہيں جو ان كا حق نہيں ہے _ ہميشہ اپنى آرزوئوں اور تمنا وں كى بات كرتے ہيں اور لوگوں كے عيوب تو بيان كرتے رہتے ہيں ليكن ان كى نيكيوں كو چھپاتے ہيں _

'' عرض كيا :پروردگارا :كيا دنيا پرست اس كے علاوہ بھى كوئي عيب ركھتے ہيں ؟

''فرمايا : اے احمد ان كا عيب يہ ہے كہ جہل اور حماقت ان ميں بہت زيادہ ہے جس استاد سے انہوں علم سيكھا ہے وہ اس سے تواضع نہيں كرتے اور اپنے آپ كو عاقل كل سمجھتے ہيں حالانكہ وہ صاحبان علم كے نزديك نادان اور احمق ہيں '' _

اہل بہشت كے صفات

خدا وند عالم اس كے بعد اہل آخرت اور بہشتيوں كے اوصاف كو يوں بيان كرتا ہے : ''وہ ايسے لوگ ہيں جو با حيا ہيں ان كى جہالت كم ہے ، ان كے منافع زيادہ ہيں ،لوگ ان سے راحت و آرام ميں ہوتے ہيں اور وہ خود اپنے ہاتھوں تكليف ميں ہوتے ہيں اور ان كى باتيں سنجيدہ ہوتى ہيں ''_

وہ ہميشہ اپنے اعمال كا حساب كرتے رہتے ہيں اور اسى وجہ سے وہ خود كو زحمت ميں ڈالتے رہتے ہيں ان كى آنكھيں سوئي ہوئي ہوتى ہيں ليكن ان كے دل بيدار ہوتے ہيں ان كى آنكھ گرياں ہوتى ہے اور ان كا دل ہميشہ ياد خدا ميں مصروف رہتا ہے جس وقت لوگ غافلوں كے زمرہ ميں لكھے جارہے ہوں وہ اس وقت ذكر كرنے والوں ميں لكھے جاتے ہيں _

نعمتوں كے آغاز ميں حمد خدا بجالاتے ہيں اور ختم ہونے پر اس كا شكر ادا كرتے ہيں ، ان كى دعائيں بارگاہ خدا ميں قبول ہوتى ہيں اور ان كى حاجتيں پورى كى جاتى ہيں اور فرشتے ان كے وجود سے مسرور اور خوش

۵۰۷

رہتے ہيں (غافل )لوگ ان كے نزديك مردہ ہيں اور خدا اُن كے نزديك حى و قيوم اور كريم ہے (ان كى ہمت اتنى بلند ہے كہ وہ اس كے سوا كسى كے اوپر نظر نہيں ركھتے )

لوگ تو اپنى عمر ميں صرف ايك ہى دفعہ مرتے ہيں ليكن وہ جہاد باالنفس اور ہواوہوس كى مخالفت كى وجہ سے ہر روز ستر مرتبہ مرتے ہيں (اور نئي زندگى پاتے ہيں )

جس وقت عبادت كے ليئےيرے سامنے كھڑے ہوتے ہيں تو ايك فولادى باندھ اور بنيان مرصوص كے مانند ہوتے ہيں اور ان كے دل ميں مخلوقات كى طرف كوئي توجہ نہيں ہوتى مجھے اپنى عزت و جلال كى قسم ہے كہ ميں انہيں ايك پاكيزہ زندگى بخشونگا اور عمر كے اختتام پر ميں خود ان كى روح كو قبض كروں گا اور ان كى پرواز كے لئے آسمان كے دروازوں كو كھول دوں گاتمام حجابوں كو ان كے سامنے سے ہٹا دوں گا اور حكم دوں گا كہ بہشت خود اپنے ان كے لئے آراستہ كرے ''اے احمد عبادت كے دس حصہ ہيں جن ميں سے نو حصے طلب رزق حلال ميں ہيں جب تيرا كھانا اور پينا حلال ہوگا تو تيرى حفظ و حمايت ميں ہوگا''

بہترين اور جاويدانى زندگي

ايك اور حصہ ميں آيا ہے:

''اے احمد كيا تو جانتا ہے كہ كونسى زندگى زيادہ گوارا اور زيادہ دوام ركھتى ہے''؟

عرض كيا : خداوندا: نہيں _

فرمايا: گوارا زندگى وہ ہوتى ہے جس كا صاحب ايك لمحہ كے لئے بھى ميرى ياد سے غافل نہ رہے، ميرى نعمت كو فراموش نہ كرے ، ميرے حق سے بے خبر نہ رہے اور رات دن ميرى رضا كو طلب كرے_

ليكن باقى رہنے والى زندگى وہ ہے جس ميں اپنى نجات كے لئے عمل كرے ، دنيا اس كى نظر ميں حقير ہو اور آخرت بڑى اور بزرگ ہو، ميرى رضا كو اپنى رضا پر مقدم كرے، اور ہميشہ ميرى خوشنودى كو طلب كرے، ميرے حق كو بڑا سمجھے اور اپنى نسبت ميرى آگاہى كى طرف توجہ ركھے_

ہرگناہ اور معصيت پر مجھے ياد كرليا كرے ، اور اپنے دل كو اس چيز سے جو مجھے پسند نہيں ہے پاك

۵۰۸

ركھے، شيطانى وسو سوں كو مبغوض ركھے ،اور ابليس كو اپنے دل پر مسلط نہ كرے _

جب وہ ايسا كرے گا تو ميں ايك خاص قسم كى محبت كو اس كے دل ميں ڈال دوں گا اس طرح سے كہ اس كا دل ميرے اختيار ميں ہوگا ، اس كى فرصت اور مشغوليت اس كا ہم وغم اور اس كى بات ان نعمتوں كے بارے ميں ہوگى جو ميں اہل محبت كو بخشتا ہوں _ ميں اس كى آنكھ اور دل كے كان كھول ديتا ہوں تاكہ وہ اپنے دل كے كان سے غيب كے حقائق كو سننے اور اپنے دل سے ميرے جلال وعظمت كو ديكھے'' :

اور آخر ميں يہ نورانى حديث ان بيدار كرنے والے جملوں پر ختم ہوجاتى ہے :

'' اے احمد اگر كوئي بندہ تمام اہل آسمان اور تمام اہل زمين كے برابر نماز ادا كرے ،اور تمام اہل آسمان وزمين كے برابر روزہ ركھے، فرشتوں كى طرح كھانانہ كھائے اور كوئي فاخرہ لباس بدن پر نہ پہنے (اور انتہائي زہد اور پارسائي كى زندگى بسر كرے) ليكن اس كے دل ميں ذرہ برابر بھى دنيا پرستى يا رياست طلبى يازينت دنيا كا عشق ہو تو وہ ميرے جاودانى گھر ميں ميرے جوار ميں نہيں ہوگا اور ميں اپنى محبت كو اس كے دل سے نكال دوں گا ،ميرا سلام ورحمت تجھ پر ہو ،والحمد للہ رب العالمين ''

يہ عرشى باتيں __جو انسانى روح كو آسمانوں كى طرف بلند كرتى ہيں ، اور آستان ہ عشق وشہود كى طرف كھينچتى ہيں _حديث قدسى كا صرف ايك حصہ ہے _

مزيد براں ہميں اطمينان ہے كہ پيغمبر نے اپنے ارشادات ميں جو كچھ بيان فرمايا ہے ان كے علاوہ بھي، اس شب عشق وشوق اور جذبہ ووصال كى شب ميں ، ايسى باتيں ، اسرارورموز اور اشارے آپ كے اور اپ كے محبوب كے درميان ہوتے ہيں جن كو نہ تو كان سننے كى طاقت ركھتے ہيں اور نہ عام افكار ميں ان كے درك كى صلاحيت ہے، اور اسى بناپر وہ ہميشہ پيغمبر كے دل وجان كے اندر ہى مكتوم اور پوشيدہ رہے ، اور آپ كے خواص كے علاوہ كوئي بھى ان سے آگاہ نہيں ہوا _

۵۰۹

ہجرت پيامبر اكرم (ص)(۱)

مختلف قبائل قريش اور اشراف مكہ كا ايك گروہ جمع ہوا تاكہ وہ'' دار الند وہ'' ميں ميٹنگ كريں اور انہيں رسول اللہ كى طرف سے درپيش خطرے پر غور وفكر كريں _

(كہتے ہيں ) اثنائے راہ ميں انہيں ايك خوش ظاہر بوڑھا شخص ملا جو در اصل شيطان تھا (يا كوئي انسان جو شيطانى روح وفكر كا حامل تھا)_

انہوں نے اس سے پوچھا : تم كون ہو؟

كہنے لگا : اہل نجد كا ايك بڑا بوڑھا ہوں ، مجھے تمہارے اراداے كى اطلاع ملى تو ميں نے چاہا كہ تمہارى ميٹنگ ميں شركت كروں اور اپنا نظريہ اور خير خواہى كى رائے پيش كرنے ميں دريغ نہ كروں _

كہنے لگے : بہت اچھا اندر آجايئے _

اس طرح وہ بھي'' دارالندوة''ميں داخل ہوگيا _

حاضرين ميں سے ايك نے ان كى طرف رخ كيا اور ( پيغمبر اسلام (ص) كى طرف اشارہ كرتے ہوئے ) كہا : اس شخص كے بارے ميں كوئي سوچ بچار كرو ، كيونكہ بخدا ڈر ہے كہ وہ تم پر كامياب ہوجائے ( اور تمہارے دين اور تمہارى عظمت كو خاك ميں ملادے گا )

____________________

(۱)سورہ انفال ايت ۳۰ كے ذيل ميں واقعہ ہجرت بيان ہوا ہے

۵۱۰

ايك نے تجويز پيش كى : اسے قيد كردو يہاں تك كے زندان ہى ميں مرجائے _

بوڑھے نجدى نے اس تجويز پراعتراض كيا اور كہا : اس ميں خطرہ يہ ہے كہ اس كے طرف دار ٹوٹ پڑيں اور كسى مناسب وقت اسے قيد خانے سے چھڑا كر اس سرزمين سے باہر لے جائيں لہذا كوئي اور بنيادى بات كرو _

ايك اورشخص نے كہا: اسے اپنے شہرسے نكال دو تاكہ تمہيں اس سے چھٹكارامل جائے كيونكہ جب وہ تمہارے درميان سے چلا جائے گا تو پھر جو كچھ بھى كرتا پھرے تمہيں كوئي نقصان نہيں پہنچا سكتا اور پھر وہ دوسروں ہى سے سروكار ركھے گا _

اس بوڑھے نجدى نے كہا : واللہ يہ نظريہ بھى صحيح نہيں ہے ، كہا تم اس كى شيريں بيانى ،قدرت زبان اور لوگوں كے دلوں ميں اس كے نفوذ نہيں ديكھتے؟ اگر ايسا كروگے تو وہ تمام دنيائے عرب كے پاس جائے گا اور وہ اس كے گرد جمع ہوجائيں گے اور پھر وہ ايك انبوہ كثير كے ساتھ تمہارى طرف پلٹے گا اور تمہيں تمہارے شہروں سے نكال باہر كرے گا اور بڑوں كو قتل كردےگا _

مجمع نے كہا بخدا يہ سچ كہہ رہاہے كوئي اور تجويزسو چو_

ابوجہل كى رائے

ابوجہل ابھى تك خاموش بيٹھا تھا ، اس نے گفتگو شروع كى اور كہا : ميرا ايك نظريہ ہے اور اس كے علاوہ ميں كسى رائے كو صحيح نہيں سمجھتا _

حاضرين كہنے لگے :وہ كيا ہے ؟

كہنے لگا : ہم ہر قبيلے سے ايك بہادر شمشير زن كا انتخاب كريں اور ان ميں سے ہر ايك ہاتھ ميں ايك تيز تلوار دے ديديں اور پھر وہ سب مل كر موقع پاتے ہى اس پر حملہ كريں جب وہ اس صورت ميں قتل ہوگا تو اس كا خون تمام قبائل ميں بٹ جائے گا اور ميں نہيں سمجھتا كہ بنى ہاشم تمام قبائل قريش سے لڑسكيں گے لہذا مجبورا اس

۵۱۱

صورت ميں خون بہا پر راضى ہوجائيں گے اور يوں ہم بھى اس كے آزار سے نجات پاليں گے_

بوڑھے نجدى نے (خوش ہوكر ) كہا: بخدا : صحيح رائے يہى ہے جو اس جواں مرد نے پيش كى ہے ميرا بھى اس كے علاوہ كوئي نظريہ نہيں _

اس طرح يہ تجويز اتفاق رائے سے پاس ہوگئي اور وہ يہى مصمم ارادہ لے كروہاں سے اٹھے _

حضرت على عليہ السلام نے اپنى جان كو بيچ ڈالي

جبرئيل نازل ہوئے اور پيغمبر اسلام (ص) كو حكم ملا كہ وہ رات كو اپنے بستر پر نہ سوئيں ،پيغمبر اكرم (ص) رات كو غار ثور كى طرف روانہ ہوگئے اور حكم دے گئے كہ على آپ كے بستر پر سوجائيں (تاكہ جو لوگ دروازے كى درازسے بستر پيغمبر (ص) پر نظر ركھے ہوئے ہيں انہيں بستر پر سويا ہوا سمجھيں اور آپ كو خطرے كے علاقہ سے دور نكل جانے كى مہلت مل جائے )_

اہل سنت كے مشہور مفسر ثعلبى كہتے ہيں كہ جب پيغمبراسلام (ص) نے ہجرت كرنے كا پختہ ارادہ كرليا تو اپنے قرضوں كى ادائيگى اور موجود امانتوں كى واپسى كے لئے حضرت على عليہ السلام كو اپنى جگہ مقرر كيا اور جس رات آپ غار ثور كى طرف جانا چاہتے تھے اس رات مشركين آپ پر حملہ كرنے كے لئے آپ كے گھر كا چاروں طرف سے محاصرہ كئے ہوے تھے، آپ نے حضرت على عليہ السلام كو حكم ديا كہ وہ آپ كے بستر پر ليٹ جائيں ، اپنى مخصوص سبز رنگ كى چادر انہيں اوڑھنے كو دى ، اس وقت خدا وند عالم نے جبرائيل اور ميكائيل پر وحى كى كہ ميں نے تم دونوں كے درميان بھائي چارہ اور اخوت قائم كى ہے اور تم ميں سے ايك كى عمر كو زيادہ مقرر كيا ہے تم ميں سے كون ہے جو ايثار كرتے ہوئے دوسرے كى زندگى كو اپنى حيات پر ترجيح دے ان ميں سے كوئي بھى اس كے لئے تيار نہ ہوا تو ان پروحى ہوئي كہ اس وقت على ميرے پيغمبر كے بستر پر سويا ہوا ہے اور وہ تيار ہے كہ اپنى جان ان پر قربان كردے، زمين پرجائو اور اس كے محافظ ونگہبان بن جائو ،جب جبرئيل ،حضرت على عليہ السلام كے سرہانے آئے اور ميكائيل پائوں كى طرف بيٹھے تو جبرئيل كہہ رہے تھے: سبحان اللہ، صدآفرين آپ پر اے على عليہ السلام كہ خدا آپ كے ذريعے فرشتوں پر فخر ومباہات كررہاہے ،اس موقع پر آيت نازل

۵۱۲

ہوئي ''كچھ لوگ اپنى جان خدا كى خوشنودى كے بدلے بيچ ديتے ہيں اور خدا اپنے بندوں پر مہربان ہے'' اور اسى بناء پروہ تاريخى رات '' ليلة المبيت''(شب ہجرت) كے نام سے مشہور ہوگئي _

ابن عباس كہتے ہيں :جب پيغمبر (ص) مشركين سے چھپ كر ابوبكر كے ساتھ غار كى طرف جارہے تھے يہ ايت على عليہ السلام كے بارے ميں نازل ہوئي جو اس وقت بستر رسول (ص) پر سوئے ہوئے تھے _

ابوجعفر اسكافى كہتے ہيں :جيسے ابن ابى الحديد نے شرح نہج البلاغہ، جلد ۳ ص ۲۷۰ پر لكھا ہے :

پيغمبر (ص) كے بستر پر حضرت على عليہ السلام كے سونے كا واقعہ تو اتر سے ثابت ہے اور اس كا انكار غير مسلموں اور كم ذہن لوگوں كے علاوہ كوئي نہيں كرتا(۱)

جب صبح ہوئي تومشركين گھر ميں گھس آئے _ انہوں نے جستجو كى تو حضرت على عليہ السلام كو پيغمبر(ص) كى جگہ پر ديكھا _ اس طرح سے خدا نے ان كى سازش كو نقش برآب كرديا _

وہ پكارے: محمد كہاں ہے ؟

آپ نے جواب ديا : ميں نہيں جانتا _

وہ آپ كے پائوں كے نشانوں پر چل پڑے يہاں تك كہ غار كے پاس پہنچ گئے ليكن (انہوں نے تعجب سے ديكھا كہ مكڑى نے غار كے سامنے جالاتن ركھاہے ايك نے دوسرے سے كہا كہ اگر وہ اس غار ميں ہوتے تو غاركے دہانے پر مكڑى كا جالا نہ ہوتا ، اس طرح وہ واپس چلے گئے )

پيغمبر (ص) تين دن تك غار كے اندر رہے ( اور جب دشمن مكہ كے تمام بيابانوں ميں آپ كو تلاش كرچكے اور تھك ہار كرمايوس پلٹ گئے تو آپ مدينہ كى طرف چل پڑے )_

____________________

(۱)الغدير، جلد ۲ ص۴۵ پر ہے كہ غزالى نے احياء العلوم ج۳ ص ۲۳۸ پر، صفورى نے نزہتہ المجالس ج۲ ،ص ۲۰۹ پر، ابن صباغ مالكى نے فصول المہمہ، ميں سبط ابن جوزى نے تذكرہ الخواص ص ۲۱ پر ، امام احمد نے مسندج ا ص ۳۴۸ پر، تاريخ طبرى جلد ۲ ص۹۹ پر، سيرة ابن ہشام ج ۲، ص ۲۹۱ پر، سيرة حلبى ج ۱ ص ۲۹ پر، تاريخى يعقوبى ج۲ ص ۲۹ پرليلة المبيت كے واقعہ كو نقل كيا ہے

۵۱۳

قبلہ كى تبديلي

بعثت كے بعد تيرہ سال تك مكہ ميں اور چند ماہ تك مدينہ ميں پيغمبر اسلام (ص) حكم خدا سے بيت المقدس كى طرف رخ كركے نماز پڑھتے رہے ليكن اس كے بعد قبلہ بدل گيا اور مسلمانوں كو حكم ديا گيا كہ وہ مكہ كى طرف رخ كركے نماز پڑھيں _

مدينہ ميں كتنے ماہ بيت المقدس كى طرف رخ كركے نماز پڑھى جاتى رہي؟ اس سلسلے ميں مفسرين ميں اختلاف ہے، يہ مدت سات ماہ سے لے كر سترہ ماہ تك بيان كى گئي ہے ليكن يہ جتنا عرصہ بھى تھا اس دوران يہودى مسلمانوں كو طعنہ زنى كرتے رہے كيونكہ بيت المقدس دراصل يہوديوں كا قبلہ تھا وہ مسلمانوں سے كہتے تھے كہ ان كا اپنا كوئي قبلہ نہيں بلكہ ہمارے قبلہ كى طرف رخ كركے نماز پڑھتے ہيں اور يہ اس امر كى دليل ہے كہ ہم حق پر ہيں _

يہ باتيں پيغمبر اكرم (ص) اور مسلمانوں كے لئے ناگوار تھيں ايك طرف وہ فرمان الہى كے مطيع تھے اور دوسرى طرف يہوديوں كے طعنے ختم نہ ہوتے تھے، اسى لئے پيغمبر اكرم (ص) آسمان كى طرف ديكھتے تھے گويا وحى الہى كے منتظر تھے_

پيغمبر اكرم (ص) كا خانہ كعبہ سے خاص لگائو

پيغمبر اكرم (ص) خصوصيت سے چاہتے تھے كہ قبلہ، كعبہ كى طرف تبديل ہوجائے اور آپ انتظار

۵۱۴

ميں رہتے تھے كہ خدا كى طرف سے اس سلسلہ ميں كوئي حكم نازل ہو، اس كى وجہ شايد يہ تھى كہ آنحضرت (ص) كو حضرت ابراہيم عليہ السلام اور ان كے آثار سے عشق تھا، علاوہ از ايں كعبہ توحيد كا قديم ترين مركز تھا، آپ(ص) جانتے تھے كہ بيت المقدس تو وقتى قبلہ ہے ليكن آپ كى خواہش تھى كہ حقيقى و آخرى قبلہ جلد معين ہوجائے_

آپ چونكہ حكم خدا كے سامنے سر تسليم خم تھے،پس اپ يہ تقاضا زبان تك نہ لاتے صرف منتظر نگاہيں آسمان كى طرف لگائے ہوئے تھے، جس سے ظاہر ہوتا ہے كہ آپ كو كعبہ سے كس قدر عشق اور لگائو تھا_

اس انتظار ميں ايك عرصہ گذرگيا يہاں تك كہ قبلہ كى تبديلى كا حكم صادر ہوا ايك روز مسجد ''بنى سالم'' ميں پيغمبر نماز ظہر پڑھارہے تھے دوركعتيں پڑھ چكے تھے كہ جبرئيل كو حكم ہوا كہ پيغمبر كا بازو تھام كر ان كارخ انور كعبہ كى طرف پھيرديں _

مسلمانوں نے بھى فوراً اپنى صفوں كا رخ بدل ليا،يہاں تك كہ ايك روايت ميں منقول ہے كہ عورتوں نے اپنى جگہ مردوں كو دى اور مردوں نے اپنے جگہ عورتوں كو ديدى ،(توجہ رہے كہ بيت المقدس شمالى سمت ميں تھا ،اور خانہ كعبہ جنوبى سمت ميں تھا_)

اس واقعے سے يہودى بہت پريشان ہوئے اور اپنے پرانے طريقہ كے مطابق ،ڈھٹائي، بہانہ سازى اور طعنہ بازى كا مظاہرہ كرنے لگے پہلے تو كہتے تھے كہ ہم مسلمانوں سے بہتر ہيں كيونكہ ان كا كوئي اپنا قبلہ نہيں ، يہ ہمارے پيروكار ہيں ليكن جب خدا كى طرف سے قبلہ كى تبديلى كا حكم نازل ہوا تو انہوں نے پھر زبان اعتراض درازكى چنانچہ قرآن كہتا ہے_

''بہت جلد كم عقل لوك كہيں گے ان (مسلمانوں ) كو كس چيز نے اس قبلہ سے پھيرديا جس پر وہ پہلے تھے''_(۱)

مسلمانوں نے اس سے كيوں اعراض كيا ہے جو گذشتہ زمانہ ميں انبيائے ماسلف كا قبلہ رہا ہے، اگر

____________________

(۱) سورہ بقرہ آيت ۱۴۲

۵۱۵

پہلا قبلہ صحيح تھا تو اس تبديلى كا كيا مقصد،اور اگر دوسرا صحيح ہے تو پھرتير ہ سال اور پندرہ ماہ بيت المقدس كى طرف رخ كركے كيوں نماز پڑھتے رہے ہيں _؟

چنانچہ خدا وند عالم نے اپنے پيغمبر كو حكم ديا:

''ان سے كہہ دو عالم كے مشرق ومغرب اللہ كے لئے ہيں وہ جسے چاہتا ہے سيدھے راستے كى ہدايت كرتا ہے''_(۱)

تبديلى قبلہ كا راز

بيت المقدس سے خانہ كعبہ كى طرف قبلہ كى تبديلى ان سب كے لئے اعتراض كا موجب بنى جن كا گمان تھا كہ ہر حكم كو مستقل رہنا چاہئے تھااگر ہمارے لئے ضرورى تھا كہ كعبہ كى طرف نماز پڑھيں تو پہلے دن يہ حكم كيوں نہ ديا گيا اور اگر بيت المقدس مقدم ہے جو گذشتہ انبياء كا بھى قبلہ شمار ہوتا ہے توپھراسے كيوں بدلاگيا_؟

دشمنوں كے ہاتھ بھى طعنہ زنى كا موقع آگيا، شايد وہ كہتے تھے كہ پہلے تو انبياء ماسبق كے قبلہ كى طرف نماز پڑھتا تھا ليكن كاميابيوں كے بعد اس پر قبيلہ پرستى نے غلبہ كرليا ہے لہذا اپنى قوم اور قبيلے كے قبلہ كى طرف پلٹ گيا ہے ياكہتے تھے كہ اس نے دھوكا دينے اور يہودو نصارى كى توجہ اپنى طرف مبذول كرنے كے لئے پہلے بيت المقدس كو قبول كرليا اور جب يہ بات كار گرنہ ہوسكى تو اب كعبہ كى طرف رخ كرليا ہے _

واضح ہے كہ ايسے وسوسے اور وہ بھى ايسے معاشرے ميں جہاں ابھى نور علم نہ پھيلا ہو اور جہاں شرك وبت پرستى كى رسميں موجود ہوں كيسا تذبذب واضطراب پيدا كرديتے ہيں اسى لئے قرآن صراحت سے كہتا ہے كہ'' يہ مومنين اورمشركين ميں امتياز پيدا كرنے والى ايك عظيم آزمائش تھي''_(۲)

ممكن ہے كہ قبلہ كى تبديلى كے اہم اسباب ميں سے درج ذيل مسئلہ بھى ہو خانہ كعبہ اس وقت

____________________

(۱)سورہ بقرہ آيت۱۴۲

(۲)سورہ بقرہ ايت ۱۴۳

۵۱۶

مشركين كے بتوں كامركز بنا ہوا تھا لہذا حكم ديا گيا كہ مسلمان وقتى طور پر بيت المقدس كى طرف رخ كركے نمازپڑھ ليا كريں تاكہ اس طرح مشركين سے اپنى صفيں الگ كرسكيں _

ليكن جب مدينہ كى طرف ہجرت كے بعد اسلامى حكومت وملت كى تشكيل ہوگئي اور مسلمانوں كى صفيں دوسروں سے مكمل طور پر ممتاز ہوگئيں تو اب يہ كيفيت برقرار ركھنا ضرورى نہ رہا ،لہذا اس وقت كعبہ كى طرف رخ كرليا گيا جو قديم ترين مركز توحيد اور انبياء كا بہت پرانا مركز تھا _

ايسے ميں ظاہر ہے كہ جو كعبہ كو اپنا خاندانى معنوى اور روحانى سرمايہ سمجھتے تھے بيت المقدس كى طرف نماز پڑھنا ان كے لئے مشكل تھا اور اسى طرح بيت المقدس كے بعد كعبہ كى طرف پلٹنا، لہذا اس ميں مسلمانوں كى سخت آزمائش تھى تاكہ شرك كے جتنے آثار ان ميں باقى رہ گئے تھے اس كٹھالى ميں پڑكر جل جائيں اور ان كے گذشتہ شرك آلود رشتے ناتے ٹوٹ جائيں _

جيسا كہ ہم پہلے كہہ چكے ہيں اصولى طور پر تو خدا كے لئے مكان نہيں ہے قبلہ تو صرف وحدت اور صفوں ميں اتحاد كا ايك رمزہے اور اس كى تبديلى كسى چيز كود گرگوں نہيں كرسكتى ، اہم ترين امر تو خدا كے حكم كے سامنے سر تسليم خم كرنا ہے اور تعصب اورہٹ دھرمى كے بتوں كو توڑناہے _

۵۱۷

جنگ بدر(۱)

جنگ بدركى ابتداء يہاں سے ہوئي كہ مكہ والوں كا ايك اہم تجارتى قافلہ شام سے مكہ كى طرف واپس جارہا تھا اس قافلے كو مدينہ كى طرف سے گزرنا تھا اہل مكہ كا سردار ابوسفيان قافلہ كا سالار تھا اس كے پاس ہزار دينار كا مال تجارت تھا پيغمبر اسلام نے اپنے اصحاب كو اس عظيم قافلے كى طرف تيزى سے كوچ كا حكم ديا كہ جس كے پاس دشمن كا ايك بڑا سرمايہ تھا تاكہ اس سرمائے كو ضبط كركے دشمن كى اقتصادى قوت كو سخت ضرب لگائي جائے تاكہ اس كا نقصان دشمن كى فوج كو پہنچے _(۲)

____________________

(۱)واقعہ جنگ بدر سورہ انفال آيات ۵ تا ۱۸كے ذيل ميں بيان ہوئي ہے _

(۲)پيغمبراور ان كے اصحاب ايسا كرنے كا حق ركھتے تھے كيونكہ مسلمان مكہ سے مدينہ كى طرف ہجرت كركے آئے تو اہل مكہ نے ان كے بہت سے اموال پر قبضہ كرليا تھا جس سے مسلمانوں كو سخت نقصان اٹھانا پڑا لہذا وہ حق ركھتے تھے كہ اس نقصان كى تلافى كريں _اس سے قطع نظر بھى اہل مكہ نے گذشتہ تيرہ برس ميں پيغمبر اسلام (ص) اور مسلمانوں سے جو سلوك رواركھا اس سے بات ثابت ہوچكى تھى وہ مسلمانوں كو ضرب لگانے اور نقصان پہنچانے كے لئے كوئي موقع ہاتھ سے نہيں گنوائيں گے يہاں تك كہ وہ خودپيغمبر اكرم (ص) كو قتل كرنے پر تل گئے تھے ايسا دشمن پيغمبر اكرم (ص) كے ہجرت مدينہ كى وجہ سے بے كار نہيں بيٹھ سكتا تھا واضح تھا كہ وہ قاطع ترين ضرب لگانے كے لئے اپنى قوت مجتمع كرتا پس عقل ومنطق كا تقاضا تھا كہ پيش بندى كے طورپر ان كے تجارتى قافلے كو گھير كر اس كے اتنے بڑے سرمائے كو ضبط كرليا جاتا تاكہ اس پر ضرب پڑے اور اپنى فوجى اور اقتصادى بنياد مضبوط كى جاتى ايسے اقدامات آج بھى اور گذشتہ ادوار ميں بھى عام دنيا ميں فوجى طريق كار كا حصہ رہے ہيں ،جولوگ ان پہلوئوں كو نظر اندازكركے قافلے كى طرف پيغمبر كى پيش قدمى كو ايك طرح كى غارت گرى كے طور پر پيش كرنا چاہتے ہيں ياتو وہ حالات سے آگاہ نہيں اور اسلام كے تاريخى مسائل كى بنيادوں سے بے خبر ہيں اور يا ان كے كچھ مخصوص مقاصد ہيں جن كے تحت وہ واقعات وحقائق كو توڑمروڑكر پيش كرتے ہيں

۵۱۸

بہرحال ايك طرف ابوسفيان كو مدينہ ميں اس كے ذريعے اس امر كى اطلاع مل گئي اور دوسرى طرف اس نے اہل مكہ كو صورت حال كى اطلاع كے لئے ايك تيز رفتار قاصد روانہ كرديا كيونكہ شام كى طرف جاتے ہوئے بھى اسے اس تجارتى قافلہ كى راہ ميں ركاوٹ كا انديشہ تھا _

قاصد ،ابوسفيان كى نصيحت كے مطابق اس حالت ميں مكہ ميں داخل ہوا كہ اس نے اپنے اونٹ كى ناك كوچير ديا تھا اس كے كان كاٹ ديئے تھے ، خون ہيجان انگيز طريقہ سے اونٹ سے بہہ رہا تھا ،قاصد نے اپنى قميض كو دونوں طرف سے پھاڑديا تھا اونٹ كى پشت كى طرف منہ كركے بيٹھا ہوا تھا تاكہ لوگوں كو اپنى طرف متوجہ كرسكے ، مكہ ميں داخل ہوتے ہى اس نے چيخنا چلانا شروع كرديا :

اے كا مياب وكامران لوگو اپنے قافلے كى خبر لو، اپنے كارواں كى مدد كرو _ ليكن مجھے اميد نہيں كہ تم وقت پر پہنچ سكو ، محمد اور تمہارے دين سے نكل جانے والے افراد قافلے پر حملے كے لئے نكل چكے ہيں _

اس موقع پر پيغمبر (ص) كى پھوپھى عاتكہ بنت عبدالمطلب كا ايك عجيب وغريب خواب تھا مكہ ميں زبان زد خاص وعام تھا اور لوگوں كے ہيجان ميں اضافہ كرہا تھا _ خواب كا ماجرايہ تھا كہ عاتكہ نے تين روزقبل خواب ميں ديكھاكہ :

ايك شخص پكاررہا ہے كہ لوگو اپنى قتل گاہ كى طرف جلدى چلو، اس كے بعد وہ منادى كوہ ابوقيس كى چوٹى پر چڑھ گيا اس نے پتھر كى ايك بڑى چٹان كو حركت دى تو وہ چٹان ريزہ ريزہ ہوگئي اور اس كا ايك ايك ٹكڑا قريش كے ايك ايك گھرميں جاپڑا اور مكہ كے درے سے خون كا سيلاب جارى ہوگيا _

عاتكہ وحشت زدہ ہوكر خواب سے بيدار ہوئي اور اپنے بھائي عباس كو سنايا _ اس طرح خواب لوگوں تك پہنچاتو وہ وحشت وپريشانى ميں ڈوب گئے _ ابوجہل نے خواب سنا تو بولا : يہ عورت دوسرا پيغمبر ہے جو اولادعبدالمطلب ميں ظاہر ہوا ہے لات وعزى كى قسم ہم تين دن كى مہلت ديتے ہيں اگر اتنے عرصے ميں اس خواب كى تعبير ظاہر نہ ہوئي تو ہم آپس ميں ايك تحرير لكھ كر اس پر دستخط كريں گے كہ بنى ہاشم قبائل عرب ميں سے سب سے زيادہ جھوٹے ہيں تيسرا دن ہوا تو ابوسفيان كا قاصد آپہنچا ، اس كى پكار نے تمام اہل مكہ كو ہلاكو ركھ ديا_

۵۱۹

اور چونكہ تمام اہل مكہ كا اس قافلے ميں حصہ تھا سب فوراً جمع ہوگئے ابوجہل كى كمان ميں ايك لشكر تيار ہوا ، اس ميں ۵۰ ۹/ جنگجو تھے جن ميں سے بعض انكے بڑے اور مشہور سردار اور بہادر تھے ۷۰۰/ اونٹ تھے اور ۱۰۰/ گھوڑے تھے لشكر مدينہ كى طرف روانہ ہوگيا _

دوسرى طرف چونكہ ابو سفيان مسلمانوں سے بچ كر نكلنا چاہتاتھا ،لہذا اس نے راستہ بدل ديا اور مكہ كى طرف روانہ ہو گيا_

۳۱۳/ وفادار ساتھي

پيغمبر اسلام (ص) ۳۱۳ /افراد كے ساتھ جن ميں تقريباً تمام مجاہدين اسلام تھے سرزمين بدركے پاس پہنچ گئے تھے يہ مقام مكہ اور مدينہ كے راستے ميں ہے يہاں آپ كو قريش كے لشكر كى روانگى كى خبر ملى اس وقت آپ نے اپنے اصحاب سے مشورہ كيا كہ كيا ابوسفيان كے قافلہ كا تعاقب كيا جائے اور قافلہ كے مال پر قبضہ كيا جائے يا لشكر كے مقابلے كے لئے تيار ہواجائے؟ ايك گروہ نے دشمن كے لشكر كامقابلہ كرنے كو ترجيح دى جب كہ دوسرے گروہ نے اس تجويز كو ناپسند كيا اور قافلہ كے تعاقب كو ترجيح دى ،ان كى دليل يہ تھى كہ ہم مدينہ سے مكہ كى فوج كا مقابلہ كرنے كے ارادہ سے نہيں نكلے تھے اور ہم نے اس لشكر كے مقابلے كے لئے جنگى تيارى نہيں كى تھى جب كہ وہ ہمارى طرف پورى تيارى سے آرہا ہے _

اس اختلاف رائے اور تردد ميں اس وقت اضافہ ہوگيا جب انہيں معلوم تھاكہ دشمن كى تعداد مسلمانوں سے تقريبا تين گنا ہے اور ان كا سازوسامان بھى مسلمانوں سے كئي گنا زيادہ ہے، ان تمام باتوں كے باوجود پيغمبر اسلام (ص) نے پہلے گروہ كے نظريے كو پسند فرمايا اور حكم ديا كہ دشمن كى فوج پر حملہ كى تيارى كى جائے _

جب دونوں لشكر آمنے سامنے ہوئے تودشمن كو يقين نہ آيا كہ مسلمان اس قدر كم تعداد اور سازو سامان كے ساتھ ميدان ميں آئے ہوں گے ،ان كا خيال تھا كہ سپاہ اسلام كا اہم حصہ كسى مقام پر چھپاہوا ہے تاكہ وہ غفلت ميں كسى وقت ان پر حملہ كردے لہذا انہوں نے ايك شخص كو تحقيقات كے لئے بھيجا، انہيں جلدى معلوم

۵۲۰

ہوگيا كہ مسلمانوں كى جمعيت يہى ہے جسے وہ ديكھ رہے ہيں _

دوسرى طرف جيسا كہ ہم نے كہا ہے مسلمانوں كاايك گروہ وحشت وخوف ميں غرق تھا اس كا اصرار تھا كہ اتنى بڑى فوج جس سے مسلمانوں كا كوئي موازنہ نہيں ، خلاف مصلحت ہے، ليكن پيغمبر اسلام (ص) نے خدا كے وعدہ سے انہيں جوش دلايا اور انہيں جنگ پر اُبھارا، آپ نے فرمايا :كہ خدا نے مجھ سے وعدہ كيا ہے كہ دوگرو ہوں ميں سے ايك پر تمہيں كا ميابى حاصل ہوگى قريش كے قافلہ پر يا لشكر قريش پراور خداكے وعدہ كے خلاف نہيں ہوسكتا _

خدا كى قسم ابوجہل اور كئي سرداران قريش كے لوگوں كى قتل گاہ كو گويا ميں اپنى آنكھوں سے ديكھ رہا ہوں _

اس كے بعد آپ نے مسلمانوں كو حكم ديا كہ وہ بدر كے كنوئيں كے قريب پڑا ئو ڈاليں _

رسول اللہ (ص) نے پہلے سے خواب ميں اس جنگ كا منظر ديكھا تھا، آپ نے د يكھا كہ دشمن كى ايك قليل سى تعداد مسلمانوں كے مقابلہ ميں آئي ہے، يہ در اصل كاميابى كى ايك بشارت تھى آپ نے بعينہ يہ خواب مسلمانوں كے سامنے بيان كرديا، يہ بات مسلمانوں كے ميدان بدر كى طرف پيش روى كے لئے ان كے جذبہ اور عزم كى تقويت كا باعث بني_

البتہ پيغمبر اكرم (ص) نے يہ خواب صحيح ديكھا تھا كيونكہ دشمن كى قوت اور تعداد اگرچہ ظاہراً بہت زيادہ تھى ليكن باطناً كم، ضعيف اور ناتواں تھي، ہم جانتے ہيں كہ خواب عام طور پر اشارے اور تعبير كا پہلو ركھتے ہيں ، اور ايك صحيح خواب ميں كسى مسئلے كا باطنى چہرہ آشكار ہوتا ہے_

قريش كا ايك ہزار كا لشكر

اس ہنگامے ميں ابوسفيان اپنا قافلہ خطرے كے علاقے سے نكال لے گيا _اصل راستے سے ہٹ كردريائے احمر كے ساحل كى طرف سے وہ تيزى سے مكہ پہنچ گيا _ اس كے ايك قاصدكے ذريعے لشكر كو پيغام

۵۲۱

بھيجا:

خدانے تمہارا قافلہ بچاليا ہے ميرا خيال ہے كہ ان حالات ميں محمد كامقابلہ كرنا ضرورى نہيں كيونكہ اس كے اتنے دشمن ہيں جو اس كا حساب چكاليں گے _

لشكر كے كمانڈرابوجہل نے اس تجويز كو قبول نہ كيا ، اس نے اپنے بتوں لات اور عزى كى قسم كھائي كہ نہ صرف ان كا مقابلہ كريں گے بلكہ مدينہ كے اندر تك ان كا تعاقب كريں گے يا انہيں قيدكرليں گے اور مكہ ميں لے آئيں گے تاكہ اس كاميابى كا شہرہ تمام قبائل عرب كے كانوں تك پہنچ جائے _ آخر كارلشكر قريش بھى مقام بدر تك آپہنچا، انہوں نے اپنے غلام كوپانى لانے كے لئے كنويں كى طرف بھيجے ،اصحاب پيغمبر نے انہيں پكڑليا اور ان سے حالات معلوم كرنے كے لئے انہيں خدمت پيغمبر (ص) ميں لے آئے حضرت نے ان سے پوچھا تم كون ہو ؟ انہوں نے كہا : ہم قريش كے غلام ہيں ، فرمايا: لشكر كى تعداد كيا ہے ؟ انہوں نے كہا : ہميں اس كا پتہ نہيں ، فرمايا : ہرروز كتنے اونٹ كھانے كے لئے نحركرتے ہيں ؟ انہوں نے كہا : نو سے دس تك، فرمايا: ان كى تعداد ۹/ سوسے لے كر ايك ہزار تك ہے (ايك اونٹ ايك سو فوجى جوانوں كى خواراك ہے ) _

ماحول پُر ہيبت اور وحشت ناك تھا لشكر قريش كے پاس فراواں جنگى سازوسامان تھا _ يہاں تك كہ حوصلہ بڑھانے كے لئے وہ گانے بجانے والى عورتوں كو بھى ساتھ لائے تھے _ اپنے سامنے ايسے حريف كو ديكھ رہے تھے كہ انہيں يقين نہيں آتا تھا كہ ان حالات ميں وہ ميدان جنگ ميں قدم ركھے گا_

مسلمانو! فرشتے تمہارى مدد كريں گے

پيغمبر اكرم (ص) ديكھ رہے تھے كہ ممكن ہے آپ كے اصحاب خوف ووحشت كى وجہ سے رات ميں آرام سے سونہ سكيں اور پھر كل دن كو تھكے ہوئے جسم اور روح كے ساتھ دشمن كے مقابل ہوں لہذا خدا كے وعدے كے مطابق ان سے فرمايا:

تمہارى تعداد كم ہوتو اس كا غم نہ كر، آسمانى فرشتوں كى ايك عظيم جماعت تمہارى مدد كے لئے آئے گي، آپ نے انہيں خدائي وعدے كے مطابق اگلے روز فتح كى پورى تسلى دے كر مطمئن كرديا اور وہ رات

۵۲۲

آرام سے سوگئے_

دوسرى مشكل جس سے مجاہدين كو پريشانى تھى وہ ميدان بدر كى كيفيت تھى ،ان كى طرف زمين نرم تھى اور اس ميں پائوں دھنس جاتے تھے اسى رات يہ ہوا كہ خوب بارش ہوئي ،اس كے پانى سے مجاہدين نے وضو كيا ، غسل كيا اور تازہ دم ہوگئے ان كے نيچے كى زمين بھى اس سے سخت ہوگئي ،تعجب كى بات يہ ہے كہ دشمن كى طرف اتنى زيادہ بارش ہوئي كہ وہ پريشان ہوگئے _

دشمن كے لشكر گاہ سے مسلمان جاسوسوں كى طرف سے ايك نئي خبر موصول ہوئي اور جلد ہى مسلمانوں ميں پھيل گئي ، خبريہ تھى كہ فوج قريش اپنے ان تمام وسائل كے باوجود خو فزدہ ہے گويا وحشت كا ايك لشكر خدا نے ان كے دلوں كى سرزمين پر اتار ديا تھا ،اگلے روز چھوٹا سا اسلامى لشكر بڑے ولولے كے ساتھ دشمن كے سامنے صف آراء ہوا، پيغمبر اكرم (ص) نے پہلے انہيں صلح كى تجويز پيش كى تاكہ عذر اور بہانہ باقى نہ رہے، آپ نے ايك نمائندے كے ہاتھ پيغام بھيجا كہ ميں نہيں چاہتا كہ تم وہ پہلا گروہ بن جائو كہ جس پر ہم حملہ آور ہوں ، بعض سردار ان قريش چاہتے تھے يہ صلح كا ہاتھ جوان كى طرف بڑھايا گيا ہے اسے تھام ليں اور صلح كرليں ، ليكن پھر ابوجہل مانع ہوا_

ستر قتل ستر اسير

آخركار جنگ شروع ہوئي ،اس زمانے كے طريقے كے مطابق پہلے ايك كے مقابلے ميں ايك نكلا ،ادھر لشكر اسلام ميں رسول اللہ (ص) كے چچا حمزہ اور حضرت على عليہ السلام جوجو ان ترين افراد تھے ميدان ميں نكلے، مجاہدين اسلام ميں سے چند اور بہادر بھى اس جنگ ميں شريك ہوئے ،ان جوانوں نے اپنے حريفوں كے پيكر پر سخت ضربيں لگائيں اور كارى وار كئے اور ان كے قدم اكھاڑديئے ،دشمن كا جذبہ اور كمزور پڑگيا ،يہ ديكھا تو ابوجہل نے عمومى حملے كا حكم دے ديا _

ابوجہل پہلے ہى حكم دے چكا تھا كہ اصحاب پيغمبر (ص) ميں سے جو اہل مدينہ ميں سے ہيں انہيں قتل

۵۲۳

كردو ، مہاجرين مكہ كو اسير كرلو مقصديہ تھا كہ ايك طرح كے پر وپيگنڈا كے لئے انہيں مكہ لے جائيں _

يہ لمحات بڑے حساس تھے، رسول اللہ (ص) نے مسلمانوں كو حكم ديا كہ جمعيت كى كثرت پر نظر نہ كريں اور صرف اپنے مد مقابل پر نگاہ ركھيں دانتوں كو ايك دوسرے پرركھ كر پيسيں ، باتيں كم كريں ، خدا سے مدد طلب كريں ، حكم پيغمبر سے كہيں رتى بھر سرتابى نہ كريں اور مكمل كاميابى كى اميد ركھيں ، رسول اللہ (ص) نے دست دعا آسمان كى طرف بلند كئے اور عرض كيا : ''پالنے والے اگر يہ لوگ قتل ہوگئے تو پھر تيرى عبادت كوئي نہيں كرے گا''_

دشمن كے لشكر كى سمت ميں سخت ہوا چل رہى تھى اور مسلمان ہوا كى طرف پشت كركے ان پر حملے كررہے تھے _ ان كى استقامت ، پامردى اور دلاورى نے قريش كا ناطقہ بندكرديا ابوجہل سميت دشمن كے ستر آدمى قتل ہوگئے ان كى لاشيں خاك وخون ميں غلطاں پڑى تھيں سترا فراد مسلمانوں كے ہاتھوں قيد ہوگئے مسلمانوں كے بہت كم افراد شہيد ہوئے_

اس طرح مسلمانوں كى پہلى مسلح جنگ طاقتور دشمن كے خلاف غير متوقع كاميابى كے ساتھ اختتام پذيزر ہوئي _

جنگ بدر ميں مسلمانوں كى تعداد تين سو تيرہ تھي، ان ميں ۷۷/ مہاجر تھے اور دوسو چھتيس (۲۳۶) انصار، مہاجرين كا پرچم حضرت على عليہ السلام كے ہاتھ ميں تھا، اور انصار كا پرچم بردار'' سعد بن عبادہ'' تھے، اس عظيم معركہ كے لئے ان كے پاس صرف ۷۰ /اونٹ دو گھوڑے، ۶/زرہيں اور آٹھ تلواريں تھيں ، دوسرى طرف دشمن كى فوج ہزار افراد سے متجاوز تھي، اس كے پاس كافى ووافى اسلحہ تھا اور ايك سو گھوڑے تھے، اس جنگ۲۲/ مسلمان شہيد ہوئے ان ميں چودہ مہاجر او ر۸/ انصار تھے، دشمن كے ستر(۷۰) افراد مارے گئے اور ستر ہى قيدى ہوئے، اس طرح مسلمانوں كو فتح نصيب ہوئي اور يوں مكمل كامرانى كے ساتھ وہ مدينہ كى طرف پلٹ گئے_

واقعاً يہ عجيب و غريب بات تھى كہ تواريخ كے مطابق مسلمانوں كے چھوٹے سے لشكر كے مقابلہ ميں

۵۲۴

قريش كى طاقتور فوج نفسياتى طور پر اس قدر شكست خودرہ ہوچكى تھى كہ ان ميں سے ايك گروہ مسلمانوں سے جنگ كرنے سے ڈرتا تھا، بعض اوقات وہ دل ميں سوچتے كہ يہ عام انسان نہيں ہيں ، بعض كہتے ہيں كہ يہ موت كو اپنے اونٹوں پر لادكر مدينہ سے تمہارے لئے سوغات لائے ہيں _

''سعدبن معاذانصارى ''نمائندہ كے طور پر خدمت پيغمبر ميں حاضر ہوئے اور عرض كرنے لگے :

ميرے ماں پاپ آپ پر قربان اے اللہ كے رسول ہم آپ پر ايمان لائے ہيں اور ہم نے آپ كى نبوت كى گواہى دى ہے كہ جو كچھ آپ كہتے ہيں خدا كى طرف سے ہے، آپ جو بھى حكم دينا چاہيں ديجئے اور ہمارے مال ميں سے جو كچھ آپ چاہيں لے ليں ، خدا كى قسم اگر آپ ہميں حكم ديں كہ اس دريا ( دريائے احمر كى طرف اشارہ كرتے ہوئے ،جووہاں سے قريب تھا ) ميں كود پڑو تو ہم كو د پڑيں گے ہمارى يہ آرزو ہے كہ خدا ہميں توفيق دے كہ ايسى خدمت كريں جو آپ كى آنكھ كى روشنى كا باعث ہو_

روز بدر رسول اللہ (ص) نے حضرت على عليہ السلام سے فرمايا:

زمين سے مٹى اور سنگريزوں كى ايك مٹھى بھر كے مجھے ديدو_

حضرت على عليہ السلام نے ايسا ہى كيا اور رسول خدا (ص) نے اسے مشركين كى طرف پھينك ديا اور فرمايا:

''شاہت الوجوہ''(تمہارے منھ قبيح اور سياہ ہوجائيں )

لكھا ہے كہ معجزانہ طور پر گرد و غبار اور سنگريزے دشمن كى آنكھوں ميں جا پڑے اور سب وحشت زدہ ہوگئے_

مجاہدين كى تشويق

ابن عباس سے منقول ہے كہ رسول اللہ (ص) نے جنگ بدر كے روز مجاہدين اسلام كى تشويق كے لئے كچھ انعامات مقرركيے مثلاً فرمايا كہ جو فلاں دشمن كو قيد كر كے ميرے پاس لائے گا اُسے يہ انعام دوں گا ان

۵۲۵

ميں پہلے ہى روح ايمان وجہاد موجود تھى اوپر سے يہ تشويق بھي، نتيجہ يہ ہو اكہ جوان سپاہى بڑے افتخار سے مقابلہ كے لئے آگے بڑھے اور اپنے مقصد كى طرف لپكے بوڑھے سن رسيدہ افراد جھنڈوں تلے موجودرہے جب جنگ ختم ہوئي تو نوجوان اپنے پر افتخار انعامات كے لئے بارگاہ پيغمبر اكرم (ص) كى طرف بڑھے، بوڑھے ان سے كہنے لگے كہ اس ميں ہمارا بھى حصہ ہے كيونكہ ہم تمہارے لئے پناہ اور سہارے كاكام كررہے تھے اور تمہارے لئے جوش وخروش كا باعث تھے اگر تمہارا معاملہ سخت ہوجاتاہے تو تمہيں پيچھے ہٹنا پڑتا تو يقيناً تم ہمارى طرف آتے اس موقع پر دو انصاريوں ميں تو تو ميں ميں بھى ہوگئي اور انہوں نے جنگى غنائم كے بارے ميں بحث كى _

اس اثناء ميں سورہ انفال كى پہلى آيت نازل ہوئي جس ميں صراحت كے ساتھ بتايا گيا كہ غنائم كا تعلق پيغمبر (ص) سے ہے وہ جيسے چاہيں انہيں تقسيم فرمائيں ، پيغمبر اكرم (ص) نے بھى مساوى طور پر سب سپاہيوں ميں غنائم تقسيم كرديئے اور برادران دينى ميں صلح ومصالحت كا حكم ديا _

جنگ كا خاتمہ اور اسيروں كا واقعہ

جنگ بدر كے خاتمہ پر جب جنگى قيدى بنالئے گئے اور پيغمبر اكرم (ص) نے يہ حكم دياكہ قيديوں ميں سے دو خطر ناك افراد عقبہ اور نضر كو قتل كردياجائے تو اس پر انصار گھبراگئے كہ كہيں ايسا نہ ہو كہ يہ حكم تمام قيديوں كے متعلق جارى ہوجائے اور وہ فديہ لينے سے محروم ہوجائيں ) لہذا انہوں نے رسول اللہ كى خدمت ميں عرض كيا : ہم نے سترآدميوں كو قتل كيا ہے اور سترہى كو قيدى بنايا ہے اور يہ آپ كے قبيلے ميں سے آپ ہى كے قيدى ہيں ،يہ ہميں بخش ديجئے تاكہ ہم ان كى آزادى كے بدلے فديہ لے سكيں _

(رسول اللہ اس كے لئے وحى آسمانى كے منتظر تھے ) اس موقع پروحى الہى نازل ہوئي اورقيديوں كى آزادى كے بدلے فديہ لينے كى اجازت ديدى گئي _

اسيروں كى ازادى كے لئے زيادہ سے زيادہ چار ہزار درہم اور كم سے كم ايك ہزار درہم معين كى گئي، يہ بات قريش كے كانوں تك پہونچى تو انھوں نے ايك ايك كے بدلے معين شدہ رقم بھيج كرا سيروں كو ازاد

۵۲۶

كراليا_

تعجب كى بات يہ ہے كہ رسول اللہ (ص) كا داماد ابوالعاص بھى ان قيديوں ميں تھا ،رسول (ص) كى بيٹى يعنى زينب جو ابولعاص كى بيوى تھى نے وہ گلو بند جو جناب خديجہ نے ان كى شاد ى كے وقت انہيں ديا تھا فديہ كے طور پررسول اللہ (ص) كے پاس بھيجا،جب پيغمبر اكرم (ص) كى نگاہ گلو بند پر پڑى تو جناب خديجہ جيسى فداكار اور مجاہدہ خاتون كى ياد يں ان كى آنكھوں كے سامنے مجسم ہوگئيں ،آپ(ص) نے فرمايا:خدا كى رحمت ہو خديجہ پر ،يہ وہ گلو بند ہے جو اس نے ميرى بيٹى زينب كو جہيز ميں ديا تھا(اور بعض دوسرى روايات كے مطابق جناب خديجہ كے احترام ميں آپ (ص) نے گلو بند قبول كرنے سے احرازكيا اور حقوق مسلمين كو پيش نظر كرتے ہوئے اس ميں ان كى موافقت حاصل كي)_

اس كے بعد پيغمبر اكرم (ص) نے ابوالعاص كو اس شرط پر آزاد كرديا كہ وہ زينب كو (جو اسلام سے پہلے ابوالعاص كى زوجيت ميں تھيں )مدينہ پيغمبر (ص) كے پاس بھيج دے ، اس نے بھى اس شرط كو قبول كرليا او ربعد ميں اسے پورا بھى كيا_

آنحضرت(ص) كے چچا عباس كا اسلام قبول كرنا

انصار كے كچھ آدميوں نے رسول اللہ (ص) سے اجازت چاہى كہ آپ كے چچا عباس جو قيديوں ميں تھے ان سے آپ(ص) كے احترام ميں فديہ نہ ليا جائے ليكن پيغمبر (ص) نے فرمايا:

''خداكى قسم اس كے ايك درھم سے بھى صرف نظر نہ كرو''( اگر فديہ لينا خدائي قانون ہے تو اسے سب پر جارى ہونا چاہئے ،يہاں تك كہ ميرے چچا پر بھى اس كے اور دوسروں كے درميان كوئي فرق نہيں ہے_)

پيغمبر اكرم (ص) عباس كى طرف متوجہ ہوئے اور فرمايا: اپنى طرف سے او راپنے بھتيجے ( عقيل بن ابى طالب) كى طرف سے آپ(ص) كو فديہ ادا كرنا چاہئے_

۵۲۷

عباس ( جو مال سے بڑا لگائو ركھتے تھے ) كہنے لگے: اے محمد(ص) كيا تم چاہتے ہو كہ مجھے ايسا فقير او رمحتاج كردو كہ ميں اہل قريش كے سامنے اپنا ہاتھ پھيلائوں _

رسول اللہ (ص) نے فرمايا: اس مال ميں سے فديہ ادا كريں جو آپ(ص) نے اپنى بيوى ام الفضل كے پاس ركھا تھا اور اس سے كہا تھا كہ اگر ميں ميدان جنگ ميں مارا جائوں تو اس مال كو اپنے اور اپنى اولاد كے مصارف كے لئے سمجھنا_

عباس يہ بات سن كر بہت متعجب ہوئے اور كہنے لگے: آپ(ص) كو يہ بات كس نے بتائي ( حالانكہ يہ تو بالكل محرمانہ تھى )؟

رسول اللہ (ص) نے فرمايا : جبرئيل نے، خدا كى طرف سے_

عباس بولے : اس كى قسم كہ جس كى محمد (ص) قسم كھاتا ہے كہ ميرے اور ميرى بيوى كے علاوہ اس راز سے كوئي آگاہ نہ تھا_

اس كے بعد وہ پكار اٹھے: ''اشھد انك رسول اللہ''

( يعنى ميں گواہى ديتا ہوں كہ آپ(ص) اللہ كے رسول ہيں )

اور يوں وہ مسلمان ہوگئے_

آزادى كے بعد بدر كے تمام قيدى مكہ لوٹ گئے ليكن عباس، عقيل اور نوفل مدينہ ہى ميں رہ گئے كيونكہ انہوں نے اسلام قبول كرليا تھا_

عباس كے اسلام لانے كے بارے ميں بعض تواريخ ميں ہے كہ اسلام قبول كرلينے كے بعد وہ مكہ كى طرف پلٹ گئے تھے اور خط كے ذريعہ رسول اللہ (ص) كو سازش سے باخبر كيا كرتے تھے ، پھر ۸ سے پہلے فتح مكہ كے سال مدينہ كى طرف ہجرت كر آئے_

۵۲۸

جنگ احد(۱)

جنگ احد كا پيش خيمہ جب كفار مكہ جنگ بدر ميں شكست خوردہ ہوئے اور ستر(۷۰) قيدى چھوڑكر مكہ كى طرف پلٹ گئے تو ابو سفيان نے لوگوں كو خبر دار كيا كہ وہ اپنى عورتوں كو مقتولين بدر پر گريہ وزارى نہ كرنے ديں كيونكہ آنسو غم واندوہ كو دور كرديتے ہيں اور اس طرح محمد كى دشمنى اور عداوت ا۶ن كے دلوں سے ختم ہوجائے گى ، ابو سفيان نے خود يہ عہد كرركھا تھا كہ جب تك جنگ بدر كے قاتلوں سے انتقام نہ لے لے اس وقت تك وہ اپنى بيوى سے ہمبسترى نہيں كرے گا ،بہر حال قريش ہر ممكن طريقہ سے لوگوں كوپيغمبر اسلام (ص) كے خلاف اكساتے تھے اور انتقام كى صدا شہر مكہ ميں بلند ہورہى تھى _

ہجرت كے تيسرے سال قريش ہزار سوار اور دوہزار پيدل كے ساتھ بہت سامان جنگ لے كر آپ سے جنگ كرنے كے لئے مكہ سے نكلے اور ميدان جنگ ميں ثابت قدمى سے لڑنے كے لئے اپنے بڑے بڑے بت اور اپنى عورتوں كو بھى ہمراہ لے آئے _

____________________

()جنگ احد كا واقعہ سورہ آل عمران آيت ۱۲۰ كے ذيل ميں بيان ہوا ہے

۵۲۹

جناب عباس كى بر وقت اطلاع

حضرت رسول خدا (ص) كے چچاحضرت عباس جو ابھى مسلمان نہيں ہوئے تھے اور قريش كے درميان ان كے ہم مشرب و ہم مذہب تھے ليكن اپنے بھتيجے سے فطرى محبت كى بنا پر جب انھوں نے ديكھا كہ قريش كا ايك طاقتور لشكر پيغمبر (ص) سے جنگ كرنے كے لئے مكہ سے نكلا ہے تو فوراً ايك خط لكھا اور قبيلہ بنى غفار كے ايك آدمى كے ہاتھ مدينہ بھيجا ،عباس كا قاصد بڑى تيزى سے مدينہ كى طرف روانہ ہوا ،جب آپ كو اس كى اطلاع ملى تو آپ نے سعد بن اُبَ كو عباس كا پيغام پہنچايا اور حتى الامكان اس واقعہ كو پردہ راز ميں ركھنے كى كوشش كى _

پيغمبر كا مسلمانوں سے مشورہ

جس دن عباس كا قاصد آپ كو موصول ہوا آپ نے چند مسلمانوں كو حكم ديا كہ وہ مكہ ومدينہ كے راستہ پر جائيں اور لشكر كفار كے كوائف معلوم كريں ، آپ كے دو نمائندے ان كے حالات معلوم كركے بہت جلدى واپس آئے اور قريش كى قوت وطاقت سے آنحضرت (ص) كو مطلع كيا اور يہ بھى اطلاع دى كہ طاقتور لشكر خود ابوسفيان كى كمان ميں ہے _

پيغمبراكرم (ص) نے چند روز كے بعد تمام اصحاب اور اہل مدينہ كو بلايا اور ان در پيش حالات كا مقابلہ كرنے كے لئے ميٹنگ كي، اس ميں عباس كے خط كو بھى پيش كيا گيا اور اس كے بعد مقام جنگ كے بارے ميں رائے لى گئي اس ميٹنگ ميں ايك گروہ نے رائے دى كہ جنگ دشمن سے مدينہ كى تنگ گليوں ميں كى جائے كيونكہ اس صورت ميں كمزور مرد ،عورتيں بلكہ كنيزيں بھى مدد گار ثابت ہوسكيں گي_

عبد اللہ بن ابى نے تائيد ا ًكہا يا رسول اللہ (ص) آج تك ايسا نہيں ہوا كہ ہم اپنے قلعوں اور گھروں ميں ہوں اور دشمن ہم پر كامياب ہوگيا ہو _

اس رائے كو آپ بھى اس وقت كى مدينہ كى پوزيشن كے مطابق بنظر تحسين ديكھتے تھے كيونكہ آپ بھى

۵۳۰

مدينہ ہى ميں ٹھہرنا چاہتے تھے ليكن نوجوانوں اورجنگجو و ں كا ايك گروہ اس كا مخالف تھا چنانچہ سعد بن معاذ اور قبيلہ اوس كے چند افراد نے كھڑے ہو كر كہا اے رسول خدا (ص) گذشتہ زمانے ميں عربوں ميں سے كسى كو يہ جرا ت نہ تھى كہ ہمارى طرف نظر كرے جبكہ ہم مشرك اور بت پرست تھے اب جبكہ ہمارے درميان آپ كى ذات والا صفات موجود ہے كس طرح وہ ہميں دبا سكتے ہيں اس لئے شہرسے باہر جنگ كرنى چاہئے اگر ہم ميں سے كوئي مارا گيا تو وہ جام شہادت نوش كرے گا اور اگر كوئي بچ گيا تو اسے جہاد كا اعزازوافتخار نصيب ہوگا اس قسم كى باتوں اور جوش شجاعت نے مدينہ سے باہر جنگ كے حاميوں كى تعدا دكو بڑھا ديا يہاں تك كہ عبد اللہ بن اُبَ كى پيش كش سرد خانہ ميں جاپڑى خود پيغمبر (ص) نے بھى اس مشورے كا احترام كيااور مدينہ سے باہر نكل كر جنگ كے طرف داروں كى رائے كو قبول فرماليا اور ايك صحابى كے ساتھ مقام جنگ كا انتخاب كرنے كے لئے شہر سے باہر تشريف لے گئے آپ نے كوہ احد كا دامن لشكر گاہ كے لئے منتخب كيا كيونكہ جنگى نقطہ نظر سے يہ مقام زيادہ مناسب تھا_

مسلمانوں كى دفاعى تيارياں

جمعہ كے دن آپ نے يہ مشورہ ليا اور نماز جمعہ كا خطبہ ديتے ہوئے آپ نے حمدو ثناء كے بعد مسلمانوں كو لشكر قريش كى آمد كى اطلاع دى اور فرمايا:

'' تہہ دل سے جنگ كے لئے آمادہ ہوجائو اور پورے جذبہ سے دشمن سے لڑو تو خدا وند قددس تمہيں كاميابى وكامرانى سے ہمكنار كرے گا اور اسى دن آپ ايك ہزار افراد كے ساتھ لشكر گاہ كى طرف روانہ ہوئے آپ خود لشكر كى كمان كررہے تھے مدينہ سے نكلنے سے قبل آپ نے حكم ديا كہ لشكر كے تين علم بنائے جائيں جن ميں ايك مہاجرين اور دو انصار كے ہوں ''_

پيغمبر اكرم (ص) نے مدينہ اور احد كے درميانى فاصلے كو پاپيادہ طے كيا اور سارے راستے لشكر كى ديكھ بھال كرتے رہے خود لشكر كى صفوں كو منظم ومرتب ركھا تاكہ وہ ايك ہى سيدھى صف ميں حركت كريں _

۵۳۱

ان ميں سے كچھ ايسے افراد كو ديكھا جو پہلى وفعہ آپ كو نظر پڑے پوچھا كہ يہ لوگ كون ہيں ؟ بتايا گيا كہ يہ عبداللہ بن ابى كے ساتھى كچھ يہودى ہيں اور اس مناسبت سے مسلمانوں كى مدد كے لئے آئے ہيں آپ نے فرمايا كہ مشركين سے جنگ كرنے ميں مشركين سے مدد نہيں لى جاسكتى مگريہ كہ يہ لوگ اسلام قبول كرليں يہوديوں نے اس شرط كو قبول نہ كيا اور سب مدينہ كى طرف پلٹ آئے يوں ايك ہزار ميں سے تين سو افراد كم ہوگئے _

ليكن مفسرين نے لكھا ہے كہ چونكہ عبداللہ بن اُبَ كى رائے كو رد كيا گيا تھا اس لئے وہ اثنائے راہ ميں تين سوسے زيادہ افراد كو لے كر مدينہ كى طرف پلٹ آيا بہر صورت پيغمبر اكرم (ص) لشكر كى ضرورى چھان بين (يہوديوں يا ابن ابى ابى كے ساتھيوں كے نكالنے) كے بعد سات سو افراد كو ہمراہ لے كر كوہ احد كے دامن ميں پہنچ گئے، اور نماز فجر كے بعد مسلمانوں كى صفوں كو آراستہ كيا_

عبد اللہ بن جبير كو پچاس ماہر تير اندازوں كے ساتھ پہاڑ كے درہ پر تعينات كيا اور انھيں تاكيد كى كہ وہ كسى صورت ميں اپنى جگہ نہ چھوڑيں اور فوج كے پچھلے حصے كى حفاظت كريں اور اس حد تك تاكيد كى كہ اگر ہم دشمن كا مكہ تك پيچھا كريں يا ہم شكست كھاجائيں اور دشمن ہميں مدينہ تك جانے پر مجبور كردے پھر بھى تم اپنا مورچہ نہ چھوڑنا، دوسرى طرف سے ابو سفيان نے خالد بن وليد كو منتخب سپاہيوں كے ساتھ اس درہ كى نگرانى پر مقرر كيا اور انھيں ہر حالت ميں وہيں رہنے كا حكم د يا اور كہا كہ جب اسلامى لشكر اس درہ سے ہٹ جائے تو فوراً لشكر اسلام پر پيچھے سے حملہ كردو_

آغاز جنگ

دونوں لشكر ايك دوسرے كے امنے سامنے جنگ گے لئے آمادہ ہوگئے اور يہ دونوں لشكر اپنے نوجوانوں كو ايك خاص انداز سے اكسا رہے تھے، ابوسفيان كعبہ كے بتوں كے نام لے كر اور خوبصورت عورتوں كے ذريعے اپنے جنگى جوانوں كى توجہ مبذول كراكے ان كو ذوق وشوق دلاتا تھا_

جب كہ پيغمبر اسلام (ص) خدا كے اسم مبارك اور انعامات اعلى كے حوالے سے مسلمانوں كو جنگ

۵۳۲

كى ترغيب ديتے تھے اچانك مسلمانوں كى صدائے اللہ اكبراللہ اكبر سے ميدان اور دامن كوہ كى فضا گونج اٹھى جب كہ ميدان كى دوسرى طرف قريش كى لڑكيوں نے دف اور سارنگى پر اشعار گا گا كر قريش كے جنگ جو افراد كے احساسات كو ابھارتى تھيں _

جنگ كے شروع ہوتے ہى مسلمانوں نے ايك شديد حملہ سے لشكر قريش كے پرخچے اڑاديئےور وہ حواس باختہ ہوكر بھاگ كھڑے ہوئے اور لشكر اسلام نے ان كا پيچھا كرنا شروع كرديا خالدبن وليد نے جب قريش كى يقينى شكت ديكھى تو اس نے چاہا كہ درہ كے راستے نكل كر مسلمانوں پر پيچھے سے حملہ كرے ليكن تيراندازوں نے اسے پيچھے ہٹنے پر مجبور كرديا قريش كے قدم اكھڑتے ديكھ كر تازہ مسلمانوں كے ايك گروہ نے دشمن كو شكت خوردہ سمجھ كرمال غنيمت جمع كرنے كے لئے اچانك اپنى پوزيشن چھوڑدى ، ان كى ديكھا ديكھى درہ پر تعينات تيراندازوں نے بھى اپنا مورچہ چھوڑديا، ان كے كمانڈرعبد اللہ بن جبيرنے انہيں آ نحضرت(ص) كا حكم ياددلايا مگرسوائے چند (تقريبا ًدس افراد) كے كوئي اس اہم جگہ پر نہ ٹھہرا_

پيغمبراكرم (ص) كى مخالفت كا نتيجہ يہ ہوا كہ خالدبن وليد نے درہ خالى ديكھ كر بڑى تيزى سے عبد اللہ بن جبير پر حملہ كيا اور اسے اس كے ساتھيوں سميت قتل كرديا، اس كے بعد انہوں نے پيچھے سے مسلمانوں پر حملہ كرديا اچانك مسلمانوں نے ہر طرف چمك دار تلواروں كى تيزدھاروں كو اپنے سروں پر ديكھا تو حواس باختہ ہوگئے اور اپنے آپ كو منظم نہ ركھ سكے قريش كے بھگوڑوں نے جب يہ صورتحال ديكھى تو وہ بھى پلٹ آئے اور مسلمانوں كو چاروں طرف سے گھيرليا_

اسى موقع پر لشكر اسلام كے بہادر افسر سيد الشہداء حضرت حمزہ نے دوسرے مسلمانوں كے ساتھ جام شہادت نوش كيا ،سوائے چند شمع رسالت كے پروانوں كے اور بقيہ مسلمانوں نے وحشت زدہ ہوكر ميدان كو دشمن كے حوالے كرديا_

اس خطرناك جنگ ميں جس نے سب سے زيادہ فداكارى كا مظاہرہ كيا اور پيغمبر اكرم (ص) پر ہونے والے دشمن كے ہر حملے كا دفاع كيا وہ حضرت على بن ابى طالب عليہ السلام تھے _

۵۳۳

حضرت على عليہ السلام بڑى جرا ت اور بڑے حوصلہ سے جنگ كررہے تھے يہاں تك كہ آپ كى تلوار ٹوٹ گئي، اور پيغمبر اكرم (ص) (ص) نے اپنى تلوار آپ كو عنايت فرمائي جو ذوالفقار كے نام سے مشہور ہے بالآخر آپ ايك مورچہ ميں ٹھہرگئے اور حضرت على عليہ السلام مسلسل آپ كا دفاع كرتے رہے يہاں تك كہ بعض مورخين كى تحقيق كے مطابق حضرت على عليہ السلام كے جسم پر ساٹھ كارى زخم آئے، اور اسى موقع پر قاصد وحى نے پيغمبراكرم (ص) سے عرض كيا :اے محمد يہ ہے مواسات ومعاونت كا حق ،آپ (ص) نے فرمايا ( ايسا كيوں نہ ہو كہ ) على مجھ سے ہے اور ميں على سے ہوں ،تو جبرئيل نے اضافہ كيا : ميں تم دونوں سے ہوں _

امام صادق ارشاد فرماتے ہيں كہ پيغمبر اكرم (ص) نے قاصد وحى كو آسمان ميں يہ كہتے ہوئے ديكھا كہ: ''لاسيف الاذوالفقار ولا فتى الا على '' (ذوالفقار كے علاوہ كوئي تلوار نہيں اور على كے سوا كوئي جوانمرد نہيں )

اس اثناء ميں يہ آواز بلند ہوئي كہ محمد قتل ہوگئے _

يہ آواز فضائے عالم ميں گونج اٹھى اس آواز سے جتنابت پرستوں كے جذبات پر مثبت اثر پيدا ہوا اتناہى مسلمانوں ميں عجيب اضطراب پيدا ہوگيا چنانچہ ايك گروہ كے ہاتھ پائوں جواب دے گئے اور وہ بڑى تيزى سے ميدان جنگ سے نكل گئے يہاں تك كہ ان ميں سے بعض نے سوچا كہ پيغمبر شہيدہو گئے ہيں لہذا اسلام ہى كو خيرباد كہہ ديا جائے اور بت برستوں كے سرداروں سے امان طلب كرلى جائے ليكن ان كے مقابلہ ميں فداكاروں اور جانثاروں كى بھى ايك قليل جماعت تھى جن ميں حضرت على ابود جانہ اور طلحہ جيسے بہادر لوگ موجود تھے جوباقى لوگوں كوپامردى اور استقامت كى دعوت دے رہے تھے ان ميں سے انس بن نضر لوگوں كے درميان آيا اور كہنے لگا :اے لوگو اگر محمد شہيد ہوگئے ہيں تو محمد كا خدا تو قتل نہيں ہوا چلو اور جنگ كرو ،اسى نيك اور مقدس ہدف كے حصول كے لئے درجہ شہادت پر فائز ہو جائو ،يہ گفتگو تمام كرتے ہى انھوں نے دشمن پر حملہ كرديا يہاں تك كہ شہيد ہوگئے ،تاہم جلد معلوم ہوگيا كہ پيغمبر اكرم (ص) سلامت ہيں اور اطلاع ايك شايعہ تھى _

۵۳۴

كون پكارا كہ محمد (ص) قتل ہوگئے ؟

''ابن قمعہ'' نے اسلامى سپاہى مصعب كو پيغمبر سمجھ كر اس پر كارى ضرب لگائي اور باآواز بلند كہا :لات وعزى كى قسم محمد قتل ہوگئے _

اس ميں كوئي شك نہيں ہے كہ يہ افواہ چاہے مسلمانوں نے اڑائي يا دشمن نے ليكن مسلمانوں كے لئے فائدہ مند ثابت ہوئي اس لئے كہ جب آواز بلند ہوئي تو دشمن ميدان چھوڑ كر مكہ كى طرف چل پڑے ورنہ قريش كا فاتح لشكر جو حضور (ص) كے لئے دلوں ميں كينہ ركھتا تھا اور انتقام لينے كى نيت سے آيا تھا كبھى ميدان نہ چھوڑتا، قريش كے پانچ ہزار افراد پر مشتمل لشكر نے ميدان جنگ ميں مسلمانوں كى كاميابى كے بعد ايك رات بھى صبح تك وہاں نہ گذارى اور اسى وقت مكہ كى طرف چل پڑے_

پيغمبر (ص) كى شہادت كى خبر نے بعض مسلمانوں ميں اضطراب وپريشانى پيدا كردى ،جو مسلمان اب تك ميدان كارزار ميں موجود تھے ، انھوں نے اس خيال سے كہ دوسرے مسلمان پراكندہ نہ ہوں آنحضرت (ص) كو پہاڑ كے اوپر لے گئے تاكہ مسلمانوں كو پتہ چل جائے كہ آپ بقيد حيات ہيں ، يہ ديكھ كر بھگوڑے واپس آگئے اور آنحضرت كے گرد پروانوں كى طرح جمع ہوگئے ،آپ نے ان كو ملامت وسرزنش كى كہ تم نے ان خطرناك حالات ميں كيوں فرار كيا ،مسلمان شرمندہ تھے انہوں نے معذرت كرتے ہوئے كہا : يا رسول خدا ہم نے آپ كى شہادت كى خبر سنى تو خوف كى شدت سے بھاگ كھڑے ہوے_

مفسر عظيم مرحوم طبرسي، ابو القاسم بلخى سے نقل كرتے ہيں كہ جنگ احد كے دن( پيغمبر اكرم (ص) كے علاوہ)سوائے تيرہ افرادكے تمام بھاگ گئے تھے، اور ان تيرہ ميں سے آٹھ انصار اور پانچ مہاجرتھے، جن ميں سے حضرت على عليہ السلام اور طلحہ كے علاوہ باقى ناموں ميں اختلاف ہے، البتہ دونوں كے بارے ميں تمام مو رخين كا اتفاق ہے كہ انھوں نے فرار نہيں كيا_

يوں مسلمانوں كو جنگ احد ميں بہت زيادہ جانى اورمالى نقصان كا سامنا كرنا،پڑا مسلمانوں كے ستر

۵۳۵

افراد شہيد ہوئے اور بہت سے زخمى ہوگئے ليكن مسلمانوں كو اس شكست سے بڑا درس ملا جو بعد كى جنگوں ميں ان كى كاميابى و كامرانى كا باعث بنا _

جنگ كا خطرناك مرحلہ

جنگ احد كے اختتام پر مشركين كا فتحياب لشكر بڑى تيزى كے ساتھ مكہ پلٹ گيا ليكن راستے ميں انہيں يہ فكر دامن گير ہوئي كہ انہوں نے اپنى كاميابى كو ناقص كيوں چھوڑديا _كيا ہى اچھا ہو كہ مدينہ كى طرف پلٹ جائيں اور اسے غارت و تاراج كرديں اور اگر محمد زندہ ہوں تو انہيں ختم كرديں تاكہ ہميشہ كے لئے اسلام اور مسلمانوں كى فكر ختم ہوجائے ، اور اسى بنا پر انہيں واپس لوٹنے كا حكم ديا گيا اور درحقيقت جنگ احد كا يہ وہ خطر ناك مرحلہ تھا كيونكہ كافى مسلمان شہيد اور زخمى ہوچكے تھے اور فطرى طور پر وہ ازسر نو جنگ كرنے كے لئے آمادہ نہيں تھے _جبكہ اس كے برعكس اس مرتبہ دشمن پورے جذبہ كے ساتھ جنگ كرسكتا تھا_

يہ اطلاع پيغمبر اكرم (ص) كو پہنچى تو آپ نے فوراً حكم ديا كہ جنگ احد ميں شريك ہونے والا لشكر دوسرى جنگ كے لئے تيار ہوجائے ،آپ نے يہ حكم خصوصيت سے ديا كہ جنگ احد كے زخمى بھى لشكر ميں شامل ہوں ،(حضرت على عليہ السلام نے جن كے بدن پر دشمنوں نے ۶۰/زخم لگائے تھے،ليكن اپ پھر دوبارہ دشمنوں كے مقابلہ ميں اگئے) ايك صحابى كہتے ہيں :

ميں بھى زخميوں ميں سے تھا ليكن ميرے بھائي كے زخم مجھ سے زيادہ شديد تھے ، ہم نے ارادہ كرليا كہ جو بھى حالت ہو ہم پيغمبر اسلام كى خدمت ميں پہونچے گے، ميرى حالت چونكہ ميرے بھائي سے كچھ بہتر تھى ، جہاں ميرا بھائي نہ چل پاتا ميں اسے اپنے كندھے پر اٹھاليتا، بڑى تكليف سے ہم لشكر تك جا پہنچے، پيغمبر اكرم (ص) اور لشكر اسلام ''حمراء الاسد'' كے مقام پر پہنچ گئے اور وہاں پر پڑائو ڈالا يہ جگہ مدينہ سے آٹھ ميل كے فاصلے پر تھي_

يہ خبر جب لشكر قريش تك پہنچى خصوصاً جب انھوں نے مقابلہ كے لئے ايسى آمادگى ديكھى كہ زخمى بھى ميدان جنگ ميں پہنچ گئے ہيں تو وہ پريشان ہوگئے اور ساتھ ہى انھيں يہ فكر بھى لاجق ہوئي كہ مدينہ سے تازہ دم

۵۳۶

فوج ان سے آملى ہے_

اس موقع پر ايسا واقعہ پيش آيا جس نے ان كے دلوں كو اور كمزور كرديا اور ان ميں مقابلہ كى ہمت نہ رہى ، واقعہ يہ ہوا كہ ايك مشرك جس كا نام ''معبد خزاعي'' تھا مدينہ سے مكہ كى طرف جارہا تھا اس نے پيغمبر اكرم اور ان كے اصحاب كى كيفيت ديكھى تو انتہائي متاثر ہوا، اس كے انسانى جذبات ميں حركت پيدا ہوئي، اس نے پيغمبر اكرم (ص) سے عرض كيا: آپ كى يہ حالت و كيفيت ہمارے لئے بہت ہى ناگوار ہے آپ آرام كرتے تو ہمارے لئے بہتر ہوتا، يہ كہہ كر وہ وہاں سے چل پڑااور'' روحاء'' كے مقام پر ابو سفيان كے لشكر سے ملا، ابو سفيان نے اس سے پيغمبر اسلام (ص) كے بارے ميں سوال كيا تو اس نے جواب ميں كہا: ميں نے محمد (ص) كو ديكھا ہے كہ وہ ايسا عظيم لشكر لئے ہوئے تمہارا تعاقب كرہے ہيں ايسا لشكر ميں نے كبھى نہيں ديكھا او رتيزى سے آگے بڑھ رہے ہيں _

ابوسفيان نے اضطراب اور پريشانى كے عالم ميں كہا : تم كيا كہہ رہے ہو؟ہم نے انہيں قتل كيا زخمى كيا اور منتشر كر كے ر كھ ديا تھا ،معبد خزاعى نے كہا: ميں نہيں جانتا كہ تم نے پايا كيا ہے ،ميں تو صرف يہ جانتا ہوں كہ ايك عظيم اور كثير لشكر اس وقت تمہارا تعاقب كر رہا ہے _

ابو سفيان اور اسكے سا تھيوں نے قطعى فيصلہ كر ليا كہ وہ تيزى سے پيچھے كى طرف ہٹ جا ئيں اور مكہ كى طرف پلٹ جا ئيں اور اس مقصد كے لئے كہ مسلمان ان كا تعاقب نہ كريں اور انہيں پيچھے ہٹ جا نے كا كا فى مو قع مل جا ئے ، انہوں نے قبيلہ عبد القيس كى ايك جما عت سے خواہش كى كہ وہ پيغمبر اسلا م (ص) اور مسلما نوں تك يہ خبر پہنجا ديں كہ ابو سفيان اور قريش كے بت پر ست با قى ماندہ اصحا ب پيغمبر (ص) كے ختم كرنے كے لئے ايك عظيم لشكر كے ساتھ تيزى سے مدينہ كى طرف آ رہے ہيں ، يہ جما عت گندم خريد نے كے لئے مدينہ جا رہى تھى جب يہ اطلاع پيغمبر اسلام (ص) اور مسلما نوں تك پہنچى تو انہوں نے كہا :''حسبنا اللہ و نعم الو كيل'' (خدا ہمارے لئے كافى ہے اور وہ ہمارا بہترين حامى اور مدافع ہے )_

انہوں نے بہت انتظار كيا ليكن دشمن كے لشكر كى كو ئي خبر نہ ہو ئي ، لہذا تين روز توقف كے بعد ،وہ

۵۳۷

مدينہ كى طرف لوٹ گئے_

كھوكھلى باتيں

جنگ بدر ميں بعض مسلمانوں كى پر افتخا ر شہادت كے بعد بعض مسلمان جب باہم مل بيٹھتے تو ہميشہ شہادت كى آرزو كرتے اور كہتے كاش يہ اعزاز ميدان بدر ميں ہميں بھى نصيب ہوجا تا ،يقينا ان ميں كچھ لوگ سچے بھى تھے ليكن ان ميں ايك جھوٹا گروہ بھى تھا جس نے اپنے آپ كو سمجھنے ميں غلطى كى ،بہر حال زيادہ وقت نہيں گزرا تھا كہ جنگ احد كا وحشتناك معركہ در پيش ہوا تو ان سچے مجا ہدين نے بہادرى سے جنگ كى اور جام شہادت نوش كيا اور اپنى آرزوكو پا ليا ليكن جھوٹوں كے گروہ نے جب لشكر اسلام ميں شكست كے آثار ديكھے تو وہ قتل ہونے كے ڈر سے بھاگ كھڑے ہوئے تو يہ قران انہيں سرزنش كرتے ہوئے كہتا ہے كہ'' تم ايسے لوگ تھے كہ جو دلوں ميں آرزو اور تمنائے شہادت كے دعويدار تھے، پھرجب تم نے اپنے محبوب كو اپنى آنكھوں كے سامنے ديكھا تو كيوں بھاگ كھڑے ہوئے''_(۱)

حضرت على عليہ السلام كے زخم

امام باقر عليہ السلام سے اس طرح منقول ہے:حضرت على عليہ السلام كو احد كے دن اكسٹھ زخم لگے تھے اور پيغمبر (ص) نے ''ام سليم'' اور ''ام عطيہ'' كو حكم ديا كہ ہ دونوں حضرت على عليہ السلام كے زخموں كا علاج كريں ،تھوڑى ہى دير گذرى تھى كہ وہ حالت پريشانى ميں آنحضرت(ص) كى خدمت ميں عرض كرنے لگے: كہ حضرت على عليہ السلام كے بدن كى كيفيت يہ ہے كہ ہم جب ايك زخم باندھتے ہيں تو دوسرا كھل جا تاہے اور ان كے بدن كے زخم اس قدرزيادہ اور خطرناك ہيں كہ ہم ان كى زندگى كے بارے ميں پريشان ہيں تو حضرت رسول خدا (ص) اور كچھ ديگر مسلمان حضرت على عليہ السلام كى عيادت كے لئے ان كے گھرآئے جب كہ ان

____________________

(۱)سورہ ال عمران ايت ۱۶۳

۵۳۸

كے بدن پر زخم ہى زخم تھے پيغمبراكرم (ص) اپنے دست مبارك ان كے جسم سے مس كرتے تھے اور فرماتے تھے كہ جو شخص راہ خدا ميں اس حالت كو ديكھ لے وہ اپنى ہى ذمہ دارى كے آخرى درجہ كو پہنچ چكا ہے اور جن جن زخموں پرآپ(ص) ہاتھ ركھتے تھے وہ فوراًمل جاتے تھے تواس وقت حضرت على عليہ السلام نے فرمايا: الحمدا للہ كہ ان حالات ميں جنگ سے نہيں بھا گا اوردشمن كو پشت نہيں دكھائي خدا نے ان كى كو شش كى قدر دانى كي_

ہم نے شكست كيوں كھائي ؟

كا فى شہيد دےكر اور بہت نقصان اٹھا كر جب مسلمان مدينہ كى طرف پلٹ آئے تو ايك دوسرے سے كہتے تھے كہ كيا خدانے ہم سے فتح و كاميابى كا وعدہ نہيں كيا تھا،پھر اس جنگ ميں ہميں كيوں شكست ہوئي ؟اسى سے قران ميں انہيں جواب ديا گيا اور شكست كے اسباب كى نشاندہى كى گئي_(۱)

قرآن كہتا ہے كہ كاميابى كہ بارے ميں خدا كا وعدہ درست تھا اور اس كى وجہ ہى سے تم ابتداء جنگ ميں كامياب ہوئے اور حكم خدا سے تم نے دشمن كو تتر بتر كر ديا كاميا بى كا يہ وعدہ اس وقت تك تھا جب تك تم استقامت اور پائيدارى اور فرمان پيغمبرى (ص) كى پيروى سے دست بردار نہيں ہو ئے اور شكست كا دروازہ اس وقت كھلا جب سستى اور نا فرمائي نے تمہيں آگھيرا ،يعنى اگر تم نے يہ سمجھ ركھا ہے كہ كا ميابى كا وعدہ بلا شرط تھا تو تمہارى بڑ ى غلط فہمى ہے بلكہ كاميابى كے تمام وعدے فرمان خدا كى پيروى كے ساتھ مشروط ہيں _

عمومى معافى كا حكم

جو لوگ واقعہ احد كے دوران جنگ سے فرار ہوگئے تھے وہ پيغمبر اكرم (ص) كے گرد جمع ہوگئے اور انہوں نے ندامت وپشيمانى كے عالم ميں معافى كى درخواست كى تو خدا ئے تعالى نے پيغمبر اكرم (ص) سے انہيں عام معافى دينے كے لئے فرمايا لہذا حكم الہى نازل ہوتے ہى آپ نے فراخ دلى سے توبہ كرنے والے خطا كاروں كو معاف كرديا _

____________________

(۱)ال عمران ايت ۱۵۲

۵۳۹

قرآن ميں پيغمبر اكرم(ص) (ص) كى ايك بہت بڑى اخلاقى خوبى كى طرف اشارہ كيا گيا ہے كہ تم پروردگار كے لطف وكرم كے سبب ان پر مہربان ہوگئے اور اگر تم ان كے لئے سنگدل،سخت مزاج اور تند خو ہوتے اور عملا ًان پر لطف وعنايت نہ كرتے تو وہ تمہارے پاس سے بكھر جاتے _ اس كے بعد حكم ديا گيا كہ'' ان كى كوتاہيوں سے درگزر فرمايئےور انہيں اپنے دامن عفو ميں جگہ ديجئے''_(۱)

يعنى اس جنگ ميں انہوں نے جو بے وفائياں آپ سے كى ہيں اور جو تكا ليف اس جنگ ميں آپ كو پہنچائي ہيں ، ان كے لئے ان كى مغفرت طلب كيجئے اور ميں خود ان كے لئے تم سے سفارش كرتا ہوں كہ انہوں نے ميرى جو مخالفتيں كى ہيں ،مجھ سے ان كى مغفرت طلب كرو دوسرے لفظوں ميں جو تم سے مربوط ہے اسے تم معاف كردو اورجو مجھ سے ربط ركھتا ہے اسے ميں بخش ديتا ہوں ، آنحضرت (ص) نے فرمان خدا پر عمل كرتے ہوئے ان تمام خطا كاروں كو عام معافى دےدى _(۲)

پيغمبر اكرم (ص) شہداء سے مخاطب

ابن مسعود پيغمبر اكرم (ص) سے روايت كرتے ہيں : خدا نے شہداء بدرواحد كى ارواح كو خطاب كرتے ہوئے ان سے پوچھا كہ تمہارى كيا آرزو ہے تو انہوں نے كہا : پروردگارا ہم اس سے زيادہ كيا آرزو كرسكتے ہيں كہ ہم ہميشہ كى نعمتوں ميں غرق ہيں اور تيرے عرش كے سائے ميں رہتے ہيں ، ہمارا تقاضا صرف يہ ہے كہ ہم دوبارہ دنيا كى طرف پلٹ جائيں اور پھر سے تيرى راہ ميں شہيد ہوں ، اس پر خدا نے فرمايا : ميرااٹل فيصلہ ہے كہ كوئي شخص دوبارہ دنيا كى طرف نہيں پلٹے گا _

____________________

(۱) سورہ آل عمران آيت۱۵۹

(۲)واضح رہے كہ عفو ودر گزر كرنے كے لئے يہ ايك اہم اور بہت مناسب موقع تھا اور اگر آپ ايسانہ كرتے تو لوگوں كے بكھرجانے كےلئے فضا ہموار تھى وہ لوگ جو اتنى برى شكست كا سامناكر چكے تھے اور بہت سے مقتول ومجروح پيش گرچكے تھے (اگرچہ يہ سب كچھ ان كى اپنى غلطى سے ہواتا ہم ) ايسے لوگوں كو محبت ، دلجوئي اور تسلى كى ضرورت تھى تاكہ ان كے دل اور جسم كے زخم پر مرہم لگ سكے اور وہ ان سے جانبرہوكر آئندہ كے معركوں كےلئے تيار ہوسكيں

۵۴۰

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667