قصص القرآن-منتخب از تفسير نمونه

قصص القرآن-منتخب از تفسير نمونه   8%

قصص القرآن-منتخب از تفسير نمونه   مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 667

قصص القرآن-منتخب از تفسير نمونه
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 667 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 335261 / ڈاؤنلوڈ: 6151
سائز سائز سائز
قصص القرآن-منتخب از تفسير نمونه

قصص القرآن-منتخب از تفسير نمونه

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

سياست

زمانہ جاہليت كے عرب سياسى اعتبار سے كسى خاص طاقت كے مطيع اور فرمانبردار اور قانوں كے تابع نہ تھے_ وہ صرف اپنے ہى قبيلے كى طاقت كے بارے ميں سوچتے تھے دوسروں كے ساتھ ان كا وہى سلوك تھا جو افراطى قوم پرست ور نسل پرست روا ركھتے ہيں_

جغرافيائي اور سياسى اعتبار سے جزيرہ نمائے عرب ايسى جگہ واقع ہے كہ جنوبى علاقے كے علاوہ اس كا باقى حصہ اس قابل نہ تھا كہ ايران اور روم (موجودہ اٹلى) جيسے جنگجو اور كشور كشا ممالك اس كى جانب رخ كرتے _ چنانچہ اس زمانے ميں ان فاتحين نے اس كى طرف كم توجہ دى كيونكہ اس كے خشك بے آب و گياہ اور تپتے ہوئے ريگستان ان كے لئے قطعى بے مصرف تھے اس كے علاوہ عہد جاہليت كے عربوں كو قابو ميں لانا اور ان كے زندگى كو كسى نظام كے تحت منظم و مرتب كرنا انتہائي سخت اور دشوار كام تھا_

۲۱

قبيلہ

عرب ، انفرادى زندگى كو اپنے استبدادى اور خود خواہ مزاج كے مطابق پاتے تھے چنانچہ انہوں نے جب بيابانوں ميں زندگى كى مشكلات كا مقابلہ كيا تو يہ اندازہ لگايا كہ وہ تنہا رہ كر زندگى بسر نہيں كرسكتے اس بنا پر انہوں نے فيصلہ كيا كہ جن افراد كے ساتھ ان كا خونى اورنسلى يا سسرالى رشتہ دارى تھي_ ان كے ساتھ مل كر اپنے گروہ كو تشكيل ديں جس كا نام انہوں نے ''قبيلہ'' ركھا _ قبيلہ ايسى مستقل اكائي تھى جس كے ذريعے عہد جاہليت ميں عرب قوميت كى اساس و بنياد شكل پذير ہوتى تھى اور وہ ہر اعتبار سے وہ خود كفيل ہوتى تھي_

دور جاہليت ميں عربوں كے اقدار كامعيار قبائلى اقدارميں منحصر تھا ہر فرد كى قدر ومنزلت كا اندازہ اس بات سے لگايا جاتا تھا كہ قبيلے ميں اس كا كيا مقام و مرتبہ اور اہل قبيلہ ميں اس كا كس حد تك اثر و رسوخ ہے يہى وجہ تھى كہ قدر و منزلت كے اعتبار سے سرداران قبائل كو بالاترين مقام و مرتبہ حاصل تھا جبكہ اس كے مقابلے ميں كنيزوں اور غلاموں كا شمار قبائل كے ادنى ترين و انتہائي پست ترين افراد ميں ہوتا تھا_

ديگر قبائل كے مقابلے ميں جس قبيلے كے افراد كى تعداد جتنى زيادہ ہوتى اس كى اتنى ہى زيادہ عزت اور احترام ہوتاتھا اور وہ قبيلہ اتنا ہى زيادہ فخر محسوس كرتا اس لئے ہر قبيلہ اپنى قدر و منزلت بڑھانے اور افراد كى تعداد كو زيادہ كھانے كى غرض سے اپنے قبيلے كے مردوں كى قبروں كو بھى شامل اور شمار كرنے سے بھى دريغ نہ كرتا چنانچہ اس امر كى جانب قرآن نے اشارہ كرتے ہوئے بيان كيا ہے:

( أَلهَاكُم التَّكَاثُرُ، حَتَّى زُرتُم المَقَابرَ ) (۲)

''ايك دوسرے پر (كثرت افراد كى بنياد پر )فخر جتانے كى فكر نے تمہيں قبروں (كے ديدار )تك پہنچاديا ''(۳) _

معاشرتى نظام

جزيزہ نما ئے عرب كے اكثر و بيشتر لوگ اپنے مشاغل كے تقاضوں كے باعث صحرانشينى كى زندگى اختيار كئے ہوئے تھے _ كل آبادى كاصرف چھٹا حصہ ايسا تھا جو شہروں ميں آباد تھا ، شہروں ميں ان كے جمع ہونے كى وجہ يا تو اُن شہروںكا تقدس تھا يا يہ كہ ان ميں تجارت ہوتى تھى چنانچہ مكہ كو دونوں ہى اعتبار سے اہميت حاصل تھى اس كے علاوہ شہروں

۲۲

ميں آباد ہونے كى وجہ يہ بھى تھى كہ وہاں كى زمينين سرسبزو شاداب تھيں اور ان كى ضروريات پورى كرنے كيلئے ان ميں پانى كے علاوہ عمدہ چراگاہيں بھى موجود تھيں _ يثرب ' طائف' يمن ' حيرہ ' حضرموت اور غسان كا شمار ايسے ہى شہروں ميں ہوتا تھا_

عرب كے باديہ نشين (ديہاتى جنہيں بدو كہا جاتا ہے)اپنے خالص لب ولہجہ اور قومى عادت و خصلت كے اعتبار سے شہر نشين عربوں كے مقابل اچھے سمجھے جاتے تھے اسى لئے عرب كے شہرى اپنے بچوں كو چند سال كے لئے صحرائوں ميں بھيجتے تھے تاكہ وہاں ان كى پرورش اسى ماحول اور اسى تہذيب و تمدن كے گہوارے ميں ہوسكے_

ليكن اس كے مقابلے ميں شہروںميں آباد لوگوں كى سطح فكر زيادہ سيع اور بلند تھى اور ايسے مسائل كے بارے ميں ان كى واقفيت بھى زيادہ تھى جن كا تعلق قبيلے كے مسائل سے جدا اور ہٹ كر ہوتا تھا_

جبكہ صحرا نشين لوگوں كو شہرى لوگوں كے مقابل زيادہ آزادى حاصل تھي_ اپنے قبيلے كے مفادات كى خاطر ہر شخص كو يہ حق حاصل تھا كہ عملى طور پر وہ جو چاہے كرے اس معاملے ميں اہل قبيلہ بھى اس كى مدد كرتے تھے اسى لئے دوسروں سے جنگ و جدال اور ان كے مال ودولت كى لوٹ مار ان كے درميان ايك معمولى چيز بن گئي تھى _ چنانچہ عربوں ميں جنہوں نے شجاعت و بہادرى كے كارنامے سر انجام ديئے ہيں ان ميں سے اكثر وبيشتر صحرا نشين ہى تھے_

دين اور دينداري

زمانہ جاہليت ميںملك عرب ميں بت پرستى كا رواج عام تھا اور لوگ مختلف شكلوں ميں

۲۳

اپنے بتوں كى پوجا كرتے تھے اس دور ميں كعبہ مكمل طور پر بت خانہ ميں بدل چكا تھا جس ميں انواع و اقسام اور مختلف شكل و صورت كے تين سو ساٹھ سے زيادہ بت ركھے ہوئے تھے اور كوئي قبيلہ ايسا نہ تھا جس كا بت وہاں موجود نہ ہو_ حج كے زمانے ميں ہر قبيلے كے لوگ اپنے بت كے سامنے كھڑے ہوتے اس كى پوجا كرتے اور اس كو اچھے ناموںسے پكارتے نيز تلبيہ بھى كہتے تھے_(۴)

ظہور اسلام سے قبل يہود ى اور عيسائي مذہب كے لوگ بھى جو اقليت ميں تھے جزيرہ نمائے عرب ميں آباد تھے_ يہودى اكثر وبيشتر خطہ عرب كے شمالى علاقوں مثلاً يثرب' وادى القري' تيمائ' خيبراور فدك جيسے مقامات پر رہا كرتے تھے جبكہ عيسائي جنوبى علاقوں يعنى يمن اور نجران جيسى جگہوں پر بسے ہوئے تھے_

انہى ميں گنتى كے چند لوگ ايسے بھى تھے جو وحدانيت كے قائل اور خدا پرست تھے اور وہ خود كو حضرت ابراہيم عليہ السلام كے دين كے پيروكار سمجھتے تھے_ مورخين نے ان لوگوں كو حُنَفاء كے عنوان سے ياد كيا ہے_(۵)

بعثت رسول (ص) كے وقت عربوںكى مذہبى كيفيت كو حضرت على عليہ السلام نے اس طرح بيان كيا ہے :

(... وَاَهلُ الاَرض يَومَئذ: ملَلٌ مُتَفَرّقَة ٌوَاَهوَائٌ مُنتَشرَة ٌوطَرَائقُ مُتَشَتّتَةٌ بَينَ مُشَبّه للّه بخَلقه اَو مُلَحد: في اسمه اَو مُشير: الى غَيره فَهَدَاهُم به منَ الضَّلَالَة وَاَنَقَذَهُم بمَكَانه منَ الجَهَالَة) (۶)

اس زمانے ميں لوگ مختلف مذاہب كے ماننے والے تھے ان كے افكارپريشان اور

۲۴

ايك دوسرے كى ضد اور طريقے مختلف تھے بعض لوگ خدا كو مخلوق سے تشبيہ ديتے تھے (ان كا خيال تھاكہ خدا كے بھى ہاتھ پير ہيں اس كے رہنے كى بھى جگہ ہے اور اس كے بچے بھى ہيں) وہ خدا كے نام ميں تصرف بھى كرتے (اپنے بتوں كا نام خدا كے مختلف ناموں سے اخذ كركے ركھتے تھے مثلاً لات كو اللہ' عزّى كو عزيز اور منات كو منان كے ناموں سے اخذ كركے ركھا تھا)(۷) بعض ملحد لوگ خدا كے علاوہ دوسرى اشيا يعنى ماديات پر يقين ركھتے تھے (جس طرح دہريے تھے جو صرف طبيعت ، زمانہ ،حركات فلكيہ اورمرورمان ہى كو امور ہستى پر مؤثر سمجھتے تھے) _(۸) خداوند متعال نے پيغمبر (ص) كے ذريعے انہيں گمراہى سے نجات دلائي اور آپ (ص) كے وجود كى بركت سے انہيں جہالت كے اندھيرے سے باہر نكالا_

جب ہم بت پرستوں كے مختلف عقائد كا مطالعہ كرتے ہيں اور ان كا جائزہ ليتے ہيں تو اس نتيجے پر پہنچتے ہيں كہ انہيں اپنے بتوں سے ايسى زبردست عقيدت تھى كہ وہ ان كى ذراسى بھى توہين برداشت نہيں كرسكتے تھے اسى لئے وہ حضرت ابوطالب (ع) كے پاس جاتے اور پيغمبر (ص) كى شكايت كرتے ہوئے كہتے كہ وہ ہمارے خدائوں كو برا كہہ رہے ہيں اور ہمارے دين ومذہب كى عيب جوئي كر رہے ہيں(۹) _ وہ خدائے مطلق كے وجود كے معتقد اور قائل تو تھے اور اللہ كے نام سے اسے يادبھى كرتے تھے مگر اس كے ساتھ ہى وہ بتوں كو تقدس و پاكيزگى كا مظہر اور انہيں قابل پرستش سمجھتے تھے وہ يہ بات بھى اچھى طرح جانتے تھے كہ يہ بت ان كے معبود تو ہيں مگر ان كے خالق نہيں چنانچہ يہى وجہ تھى كہ جب رسول خدا (ص) ان سے گفتگو فرماتے تو يہ ثابت نہيں كرتے تھے كہ خداوند تعالى ان كا خالق ہے بلكہ ثبوت ودلائل كے ساتھ يہ فرماتے كہ خدائے مطلق ، واحد ہے اور ان لوگوںكے بنائے ہوئے معبودوں كى حيثيت و حقيقت كچھ بھى نہيں_

۲۵

قرآن مجيد نے مختلف آيات ميں اس حقيقت كى جانب اشارہ كيا ہے _يہاں اس كے چند نمونے پيش كئے جاتے ہيں:

( وَلَئن سَأَلتَهُم مَن خَلَقَ السَّمَاوَات وَالأَرضَ لَيَقُولُنَّ الله ُ ) (۱۰)

''ان لوگوں سے اگر تم پوچھو كہ زمين اور آسمان كو كس نے پيدا كيا ہے ؟ تو يہ خود ہى كہيں گے كہ اللہ نے''_

اس كے علاوہ وہ بت پرستى كى يہ بھى توجيہ پيش كرتے تھے كہ :

( مَا نَعبُدُهُم إلاَّ ليُقَرّبُونَا إلَى الله زُلفَي ) (۱۰)

''ہم تو ان كى عبادت صرف اس لئے كرتے ہيں كہ وہ اللہ تك ہمارى رسائي كراديںگے_

دوسرے لفظوں ميں وہ يہ كہا كرتے تھے كہ:

( هَؤُلَائ شُفَعَاؤُنَا عندَ الله ) (۱۲)

''يہ اللہ كے ہاں ہمارے سفارشى ہيں''

تہذيب و ثقافت

زمانہ جاہليت كے عرب ناخواندہ اور علم كى روشنى سے قطعى بے بہرہ تھے _ ان كے اس جہل و ناخواندگى كے باعث ان كے پورے معاشرے پرجہالت اور خرافات سے اٹى بے ثقافتى حاكم تھى (وہ بے تہذيب لوگ تھے)_ ان كى كثير آبادى ميں گنتى كے چندلوگ ہى ايسے تھے جو لكھنا اور پڑھنا جانتے تھے(۱۳)

دور جاہليت ميں عرب تہذيب و تمدن كے نماياں ترين مظہر حسب ونسب كى پہچان،

۲۶

شعر گوئي اور تقارير ميں خوش بيانى جيسے اوصاف تھے_ چنانچہ عيش وعشرت كى محفل ہو ، ميدان كارزارہو يا قبائلى فخر فروشى كا ميدان غرض وہ ہرجگہ پرشعر گوئي يا جادو بيان تقارير كا سہارا ليتے تھے_

اس ميں شك نہيں كہ اسلام سے قبل عربوں ميں شجاعت، شيرين بياني، فصاحت و بلاغت مہمان نوازي، لوگوں كى مدد اور آزادى پسندى جيسى عمدہ خصوصيات و صفات بھى موجود تھيں مگر ان كے رگ و پے ميں سرايت كر جانے والى قابل مذمت عادات و اطوار كے مقابلے ميں ان كى يہ تمام خوبياں بے حقيقت بن كر رہ گئي تھيں_ اس كے علاوہ ان تمام خوبيوں اور ذاتى اوصاف كا اصل محرك، انسانى اقدار اور قابل تحسين باتيں نہ تھيں _

زمانہ جاہليت كے عرب طمع پرورى اور مادى چيزوں پر فريفتگى كا كامل نمونہ تھے_ وہ ہر چيز كو مادى مفاد كے زاويے سے ديكھتے تھے_ ان كى معاشرتى تہذيب بے راہروى ، بد كردارى اور قتل و غارتگرى جيسے برے افعال و اعمال پر مبنى تھى اور يہى پست حيوانى صفات ان كى سرشت اور عادت و جبلت كا جز بن گئي تھيں_

دور جاہليت ميں عربوں كى ثقافت ميں اخلاقيات كى توجيہ و تعبير دوسرے انداز ميں كى جاتى تھى _ مثال كے طور پر غيرت، مروت اور شجاعت كى تعريف تو كرتے تھے مگر شجاعت سے ان كى مراد سفاكى اور دوسروں كے قتل و خونريزى كى زيادہ سے زيادہ طاقت ہوتى تھي_ غيرت كا مفہوم ان كے تمدن ميں لڑكيوں كو زندہ دفن كردينا تھا_ اور اپنے اس طريقہ عمل سے اپنى غيرت كى نماياں ترين مثال پيش كرتے تھے _ ايفائے عہد كا مطلب وہ يہ سمجھتے تھے كہ حليف يا اپنے قبيلے كے افراد كى ہر صورت ميں حمايت كريں چاہے وہ حق پر ہويا باطل پر_

۲۷

توہم پرستى اور خرافات كى پيروي

طلوع اسلام كے وقت دنيا كى تمام اقوام كے عقائد ميں كم وبيش خرافات ، توہمات اور افسانے و غيرہ شامل تھے _ اس زمانے ميں يونانى اور ساسانى اقوام كا شمار دنيا كى سب سے زيادہ ترقى يافتہ اقوام ميں ہوتا تھا _ چنانچہ ان لوگوں كے اذہان اور افكار پر انہى كے قصوں اور كہانيوں كا غلبہ تھا _يہ بھى ايك حقيقت ہے كہ تہذيب وتمدن اور علم كے اعتبار سے جو بھى معاشرہ جس قدر پسماندہ ہوگا اس ميں توہمات و خرافات كا اتنا ہى زيادہ رواج ہوگا _ جزيرہ نما ئے عرب ميں توہمات اور خرافات كا رواج عام تھا ان كے بہت سے واقعات تاريخ نے اپنے سينے ميں محفوظ كرركھے ہيں _ يہاں بطور مثال چند نمونے پيش كئے جاتے ہيں:

۱_ايسى آنتوں اور ڈوريوں و غيرہ كو جنہيں كمانوں كى تانت بنانے كے كام ميں لاياجاتا تھا لوگ اپنے اونٹوں اور گھوڑوں كى گردنوں نيز سروں پر لٹكادياكرتے تھے _ ان كا عقيدہ تھا كہ ايسے ٹوٹكوں سے ان كے جانور بھوت پريت كے آسيب سے بچے رہتے ہيں اور انہيں كسى كى برى نظر بھى نہيں لگتى _ نيز جنگ اور لوٹ ماركے موقع پر بلكہ ہر موقع پر انہيں دشمنوں كى گزند سے محفوظ ركھنے ميں بھى يہ ٹوٹكے مؤثر ہيں_(۱۴)

۲_خشك سالى كے زمانے ميں بارش لانے كى غرض سے جزيرہ نما ئے عرب كے بوڑھے اور كاہن لوگ ''سَلَع'' نامى درخت (جس كا پھل كڑوا ہوتا ہے) اور ''عُشَر'' نامى پيڑ(جس كى لكڑى جلدى جل جاتى ہے) كى لكڑيوں كوگائے كى دُموں اور پيروں ميں باندھ ديتے اور انہيں پہاڑوں كى چوٹيوں تك ہانك كر لے جاتے_ اس كے بعد وہ ان لكڑيوں كو آگ لگاديتے _ آگ كے شعلوں كى تاب نہ لاكر ان كى گائے

۲۸

ادھر ادھر بھاگنے لگتى اور سرمار مار كر ڈكرانا شروع كرديتي_ ان كے خيال ميں ان گائيوں كے ڈكرانے اور بے قرارى كرسے پانى برسنے لگے گا _ شايد اس گمان سے كہ جب بارش بھيجنے والا مؤكل يا خدا (ورشا ديوى يا جل ديوتا) ان گائيوں كو تڑپتا ہوا ديكھيں گے تو ان كى پاكيزگى اورتقدس كى خاطر جلد ہى بادلوں كو برسنے كيلئے بھيج ديں گے_(۱۵)

۳_وہ مردوں كى قبروں كے پاس اونٹ نحر كركے اسے گڑھے ميں ڈال ديتے _ ان كا يہ عقيدہ تھا كہ ان كے اس كا م سے صاحب قبر عزت واحترام كے ساتھ اونٹ پر سوارمحشر ميں واردہوگا_(۱۶)

عہد جاہليت ميں عورتوں كا مقام

دورجاہليت كے عرب عورتوں كى قدر ومنزلت كے ذرہ برابر بھى قائل نہ تھے_ وہ ہر قسم كے انفرادى و اجتماعى حقوق سے محروم تھيں_ اس عہد جاہليت كے معاشرتى نظام ميں عورت صرف ورثے سے ہى محروم نہيں ركھى جاتى تھى بلكہ خود اس كا شمار بھى اپنے باپ' شوہر يا بيٹے كى جائداد ميں ہوتا تھا _ چنانچہ مال و جائداد كى طرح اسے بھى ورثے اور تركے ميں تقسيم كردياجاتا تھا _

عرب قحط سالى كے خوف يا اس خيال سے كہ لڑكيوں كا وجود ان كى ذات كےلئے باعث ننگ و عيب ہے انہيں پيدا ہوتے ہى زمين ميں زندہ گاڑديتے تھے_

اپنى معصوم لڑكيوں سے انہوں نے جو غير انسانى و ناروا سلوك اختيار كر ركھا تھا اس كى مذمت كرتے ہوئے قرآن مجيد فرماتا ہے:

۲۹

( وَإذَا بُشّرَ أَحَدُهُم بالأُنثَى ظَلَّ وَجهُهُ مُسوَدًّا وَهُوَ كَظيمٌ _ يَتَوَارَى من القَوم من سُوئ مَا بُشّرَ به أَيُمسكُهُ عَلَى هُون: أَم يَدُسُّهُ فى التُّرَاب أَلاَسَائَ مَا يَحكُمُونَ ) (۱۷)

''جب ان ميں سے كسى كو بيٹى كے پيدا ہونے كى خبر دى جاتى ہے تويہ سنتے ہى اس كا چہرہ سياہ پڑ جاتا ہے اور وہ بس خون كا گھونٹ سا پى كر رہ جاتا ہے_ لوگوں سے منھ چھپاتا پھرتا ہے كہ برى خبر كے بعد كيا كسى كو منہ دكھائے _ سوچتا ہے كہ ذلت كے ساتھ بيٹى كو لئے رہے يا مٹى ميں دبا دے بے شك وہ لوگ بہت برا كرتے ہيں''_

دوسرى آيت ميں بھى قرآن مجيد انہيں اس برى اور انسانيت سوز حركت كے بد-لے خداوند تعالى كى بارگاہ ميں جوابدہ قرار ديتا ہے _ چنانچہ ارشاد فرماتا ہے:

( وَإذَا المَوئُودَةُ سُئلَت بأَيّ ذَنب: قُتلَت ) _(۱۸)

''او رجب زندہ گاڑى ہوئي لڑكى سے پوچھا جائے گا كہ وہ كس قصور ميں مارى گئي''_

سب سے زيادہ افسوس ناك بات يہ تھى كہ ان كے درميان شادى بياہ كى ايسى رسومات رائج تھيں كہ ان كى كوئي خاص بنياد نہ تھى وہ اپنى شادى كے لئے كسى معين حد كے قائل نہ تھے(جتنى بھى دل كرتا بيوياں اپنے پاس ركھتے تھے)_ مہر كى رقم ادا كرنے كى ذمہ دارى سے سبكدوش ہونے كيلئے وہ انہيں تكليف اور اذيت ديتے تھے _ كبھى وہ اپنى زوجہ پر بے عصمت ہونے كا نارواالزام لگاتے تاكہ اس بہانے سے وہ مہر كى رقم ادا كرنے سے بچ جائيں _ ان كا باپ اگر كسى بيوى كو طلاق دے ديتا ' يا خود مرجاتا تو اس كى بيويوں سے شادى كرلينا ان كيلئے كوئي مشكل نہ تھانہ ہى قابل اعتراض تھا_

۳۰

حرمت كے مہينے

دور جاہليت كے تہذيب و تمدن ميں ذى القعدہ ' ذى الحجة ' محرم اور رجب چار مہينے ايسے تھے جنہيں ماہ حرام سے تعبير كياجاتا تھا _ ان چار ماہ كے دوران ہر قسم كى جنگ و خونريزى ممنوع تھي_ البتہ اس كے بدلے تجارت ' ميل ملاقات' مقامات مقدسہ كى زيارت اوردينى رسومات كى ادائيگى اپنے عرو ج پر ہوتى تھيں_

اور چونكہ قمرى مہينے سال كے موسموں كے لحاظ سے آہستہ آہستہ بدلتے رہتے تھے اوربسا اوقات يہ موسم ان كى تجارت و غيرہ كےلئے سازگار اور مناسب نہ ہوتے اسى لئے وہ قابل احترام مہينوں ميں تبديلى كرليا كرتے تھے_ قرآن مجيد نے انہيں ''النسيئ'' كے عنوان سے ياد كيا ہے_(۱۹) چنانچہ فرماتاہے:

( إنَّمَا النَّسيئُ زيَادَةٌ فى الكُفر )

''حرام ہينوں ميں تبديلى اور تاخير تو ان كے كفر ميں ايك اضافہ ہے''_(۲۰)

۳۱

سوالات

۱_ جزيرہ نمائے عرب كا محل وقوع بتايئے؟

۲_ فاتحين كس وجہ سے جزيرہ نمائے عرب كى طرف توجہ نہيں ديتے تھے؟

۳_ جزيرہ نمائے عرب كى اسلام سے قبل معاشرتى حالت كيا تھي؟ صراحت سے

بيان كيجئے؟

۴_ دور جاہليت كے عربوںميں كس قسم كا مسلك زيادہ رائج تھا؟

۵_ كيا عربوں كا خدا پراعتقاد تھا؟ قرآن مجيد سے كوئي ايك دليل پيش كيجئے؟

۶_ عربوں ميں كس قسم كے توہمات و خرافات كا رواج تھا اس كى ايك مثال پيش كيجئے؟

۷_ عہد جاہليت ميں عورت كا كيا مقام تھا؟

۳۲

حوالہ جات

۱_ معجم البلدان ج ۲ ' ۶۳ و ۲۱۹

۲_ سورہ التكاثر آيت ۱و ۲

۳_ اصل كتاب ميں اسى طرح ترجمہ ہوا ہے _ مترجم

۴_تاريخ يعقوبى ، ج ۱، ص ۲۵۵ ، تلبيہ '' لَبَّيْكَ اللّہُمَ لَبَّيْكَ'' كہنے كا نام ہے _ مترجم _ہر قبيلے كا لبيك كہنے كا ايك مخصوص طريقہ تھا مزيد معلومات كے لئے مذكور ماخ كا مطالعہ فرمائيں_

۵_ تاريخ پيا مبر اسلام (ص) ، ص ۱۳ ، علامہ آيتى مرحوم نے اس عنوان كے تحت چودہ ايسے افراد كے نام بھى بيان كئے ہيں جن كا شمار حنفا ميں ہوتا تھا_

۶_نہج البلاغہ خطبہ ۱ ص ۴۴ ، مرتبہ صبحى صالح

۷_ملاحظہ ہو : تفسير مجمع البيان ج ۴، ص ۵۰۳ سورہ اعراف آيت ۱۸۰ كے ذيل ميں

۸_زمانہ جاہليت كے عربوں كے عقائد سے مزيد واقفيت كے لئے ملاحظہ ہو: شرح ابن ابى الحديد ج ۱ صفحہ ۱۱۷

۹_السيرہ النبويہ ، ج۱ ، ص ۲۸۳_ ۲۸۴

۱۰_سورہ زمر آيت ۳۸

۱۱_سورہ زمر آيت ۳

۱۲_ سورہ يونس آيت ۱۷

۱۲_بلاذرى لكھتا ہے كہ ظہور اسلام كے وقت قريش ميں سے صرف سترہ افراد ايسے تھے جو لكھنا پڑھنا جانتے تھے (ملاحظہ ہو فتوح البلدان صفحہ ۴۵۷)

۱۴_اسلام و عقائد وآراء بشرى ص ۴۹۱

۱۵_لسان العرب، ج ۹ ، ص ۱۶۱، ملاحظہ ہو : لفظ ''سَلَعَ'' نيز اسلام و عقائد و آراء بشرى ، صفحہ ۵۰۱

۳۳

۱۶_اسلام و عقائد و آراء بشرى صفحہ ۵۰۹

۱۷_ سورہ نحل آيت ۵۸_ ۵۹

۱۸_سورہ تكوير آيت ۸، ۹

۱۹_''نسيء ''لفظ ''نساء '' سے مشتق ہے ' جس كے معنى ' تاخير ميں ڈالنا ہے_ عہد جاہليت كے عرب كبھى كبھى قابل احترام مہينوں ميں تاخير كرديا كرتے تھے _ مثال كے طور پر وہ ماہ محرم كى جگہ ماہ صفر كو قابل احترام مہينہ بناليتے تھے_

۲۰_سورہ توبہ آيت ۳۷_

۳۴

سبق ۳:

پيغمبر اكرم (ص) كا نسب اور آپ(ص) كى ولادت با سعادت

۳۵

رسول خدا (ص) كا تعلق خاندان بنى ہاشم اور قبيلہ قريش سے ہے _ جزيرہ نما ئے عرب ميں تين سو ساٹھ(۳۶۰) قبيلے آباد تھے ان ميں قريش شريف ترين اور معروف ترين قبيلہ تھا نسب شناس ماہرين كى اصطلاح ميں قريش انہيں كہا جاتا ہے جو آنحضرت (ص) كے بار ہويں جدا مجد حضرت نضر بن كنانہ كى نسل سے ہوں _(۱)

آپ كے چوتھے جد اعلى حضرت قصى بن كلاب كا شمار قبيلہ قريش كے معروف اور سركردہ افراد ميں ہوتا تھا _ انہوں نے ہى كعبہ كى توليت اور كنجى ، قبيلہ ''خزاعہ'' كے چنگل سے نكالى تھي_ اور حرم كے مختلف حصوں ميں اپنے قبيلے كے افراد كو آبادكركے كعبہ كى توليت سنبھالى تھى _(۲)

معروف مورخ يعقوبى لكھتا ہے كہ ''قصى بن كلاب'' وہ پہلے شخص تھے جنہوں نے قبيلہ قريش كو عزت و آبرو بخشى اور اس كى عظمت كو اجاگر كيا(۳)

قبيلہ قريش ميں بھى خاندان بنى ہاشم سب سے زيادہ نجيب و شريف شمار ہوتا تھا _

رسول خدا (ص) كے آباء و اجداد

مورخين نے آنحضرت (ص) كے آباء و اجداد ميں حضرت عدنان تك اكيس پشتوںكے نام بيان كئے ہيں درج ذيل ترتيب وار اسماء پر سب متفق الرائے ہيں:

۳۶

حضرت عبداللہ (ع) ، حضرت عبدالمطلب(ع) ، حضرت ہاشم(ع) ، حضرت عبدمناف (ع) ، حضرت قصي(ع) ، حضرت كلاب(ع) ، حضرت مرہ(ع) ، حضرت كعب(ع) ، حضرت لوي(ع) ، حضرت غالب(ع) ، حضرت فہر(ع) ، حضرت مالك(ع) ، حضرت نضر(ع) ، حضرت كنانہ(ع) ، حضرت خزيمہ(ع) ، حضرت مدركہ(ع) ، حضرت الياس(ع) ، حضرت مضر (ع) ، حضرت نزار(ع) ، حضرت معد (ع) اور حضرت عدنان(ع) _(۴)

حضرت عدنان سے اوپر حضرت ابراہيم (ع) تك اور حضرت ابراہيم خليل (ع) سے حضرت آدم صفى اللہ (ع) تك كى ترتيب كے بارے ميں اختلاف ہے _ اس سلسلے ميں پيغمبر اكرم (ص) كى ايك روايت بھى بيان كى گئي ہے_

(اذَا بَلَغَ نَسَبَيُ الى عَدُنَانَ فَامسُكُوا) (۵)

''جب ميرے نسب كے بارے ميں حضرت عدنان تك پہنچو تو توقف كرو (اور آگے مت بڑھو) ''_

ہم يہاں مختصر طور پر آپ (ص) كے چند قريبى آباء و اجداد كا حال بيان كريں گے_

حضرت عبدمناف (ع)

حضرت قصى كے عبدالدار، عبدمناف ، عبدالعزى اور عبد قصى نامى چار فرزند تھے_ جن ميں حضرت عبدمناف سب سے زيادہ شريف، محترم اور بزرگ سمجھے جاتے تھے(۶) حضرت عبدمناف كا اصل نام ''مغيرہ'' تھا _ انہيں اپنے والد محترم كے ہاں نيز لوگوں كے درميان خاص مرتبہ ا ور مقام حاصل تھا_ وہ بہت زيادہ سخى اور وجيہہ انسان تھے اسى وجہ سے انہيں ''فياض(۷) '' اور'' قمرالبطحاء(۸) '' كے القاب سے نوازا گيا ہے پرہيزگارى ،خوش اخلاقي' نيك چلن اور صلہ رحمى جيسے اوصاف كى طرف دعوت ان كى زندگى كا شعار تھا_(۹)

۳۷

ان كى نظر ميں دنيوى مقامات و مراتب ہيچ تھے_ وہ اہل منصب لوگوں سے حسد بھى نہيں كرتے تھے_ اگر چہ كعبہ كے تمام عہدے اور مناصب ان كے بڑے بھائي عبدالدار كے پاس تھے مگر ان كى اپنے بھائي سے كوئي شكر رنجى نہيں تھي_

حضرت ہاشم (ع)

حضرت قصى (ع) كے فرزند، مكہ سے متعلق معاملات اور كعبہ كى توليت اور انتظام جيسے امور كو كسى اختلاف و قضيے كے بغير انجام ديتے رہے_ مگر ان كى وفات كے بعد عبدالدار اور عبدمناف كى اولاد كے درميان كعبہ كے عہدوں كے بارے ميں اختلاف ہوگيا _ بالآخر اتفاق اس بات پر ہوا كہ كعبہ كى توليت اور دارالندوہ(۱۰) كى صدارت عبدالدار كے فرزندوں كے پاس ہى رہے اور حاجيوں كو پانى پلانے نيز ان كى پذيرائي كا معاملہ حضرت عبدالمناف كے لڑكوں كى تحويل ميں دے ديا جائے _(۱۱) حضرت عبدمناف كے فرزندوں ميں يہ عہدہ حضرت ہاشم كے سپرد كيا گيا _(۱۲)

حضرت ہاشم اور ان كے بھائي عبدالشمس جڑواں پيدا ہوئے تھے پيدائشے كے وقت دونوں كے بدن ايك دوسرے سے جڑے ہوئے تھے _ جس وقت انہيں ايك دوسرے سے جدا كيا گيا تو بہت سا خون زمين پر بہہ گيا اور عربوں نے اس واقعہ كو سخت بدشگونى سے تعبير كيا_

اتفاق سے يہ بدشگونى اپنا كام كر گئي اور حضرت ہاشم اور عبدالشمس كے لڑكوں ميں ہميشہ كشمكش اور لڑائي رہي_

عبدالشمس كا لڑكا اميہ پہلا شخص تھا جس نے حضرت ہاشم كى مخالفت شروع كى _ اس نے جب فرزندان عبدمناف ميں سے حضرت ہاشم ميں عزت و شرف اور بزرگوارى جيسے

۳۸

اوصاف پائے تو ان سے حسد كرنے لگا اور اپنے چچا كے ساتھ مخاصمت اور مخالفت پر اتر آيا چنانچہ يہيں سے بنى ہاشم اور بنى اميہ كے درميان اختلاف اوردشمنى شروع ہوئي جو ظہور اسلام كے بعد بھى جارى رہي_(۱۳)

حضرت ہاشم اپنى ذمہ دارى نبھانے ميں كوئي دقيقہ فرو گذاشت نہيں كرتے تھے چنانچہ جيسے ہى حج كا زمانہ شروع ہوتا تھا وہ قبيلہ قريش كى پورى طاقت و قوت اور تمام وسائل اور امكانات حجاج بيت اللہ كى خدمت كيلئے بروئے كار لاتے اور زمانہ حج كے دوران جس قدر پانى اور خوراك كى انہيں ضرورت ہوتى وہ اسے فراہم كرتے_

لوگوں كى خاطر دارى 'مہمان نوازى اور حاجتمندوں كى مدد كرنے ميں وہ بے مثال و يكتائے روزگار تھے_ اسى وجہ سے انہيں ''سيدالبطحائ(۱۴) '' كے لقب سے ياد كياجاتا تھا_

حضرت ہاشم (ع) كے پاس اونٹ كافى تعداد ميں تھے _ چنانچہ جس سال اہل مكہ قحط اورخشك سالى كا شكار ہوئے تو انہوں نے اپنے بہت سے اونٹ قربان كرديئے اور اس طرح لوگوں كےلئے كھانے كا سامان فراہم كيا _(۱۵)

حضرت ہاشم (ع) كے انحصارى اور نماياں كارناموں ميں سے ايك ان كايہ كارنامہ بھى تھا كہ انہوں نے قريش كى محدود كاروبارى منڈيوں كو جاڑوں اور گرميوں كے موسم ميں لمبے تجارتى سفروں كے ذريعے وسيع كيا (دوسرے لفظوں ميں لوكل بزنس كو امپورٹ ايكسپورٹ بزنس ميں ترقى دى _ مترجم)اور اس علاقے كى اقتصادى زندگى ميں حركت پيدا كى(۱۶)

حضرت ہاشم (ع) كا انتقام بيس يا پچيس سال كى عمر ميں ايك تجارتى سفر كے دوران ''غزہ''(۱۷) ميں ہوا_

۳۹

حضرت عبدالمطلب(ع)

حضرت ہاشم (ع) كى وفات كے بعد ان كے بھائي ''مطلب'' كو قبيلہ قريش كا سردار مقرر كيا گيا اور جب ان كى وفات ہوگئي تو حضرت ہاشم (ع) كے فرزند حضرت ''شيبہ(ع) '' كو ، جنہيں لوگ عبدالمطلب(ع) كہتے تھے قريش كى سردارى سپرد كى گئي_

حضرت عبدالمطلب(ع) كو اپنى قوم ميں خاص مقام و مرتبہ حاصل تھا اور لوگوں ميں وہ بہت مقبول اور ہر د ل عزيز تھے جس كا سبب وہ مختلف اچھے اوصاف اور فضائل تھے جو ان كى ذات ميں جمع ہوگئے تھے _ وہ عاجز و مجبور لوگوں كے حامى اور ان كے پشت پناہ تھے ، ان كى جود وبخشش كا يہ عالم تھا كہ ان كے دسترخوان سے صرف انسان ہى نہيں بلكہ پرندے اور حيوانات تك بھى فيضياب ہوتے اسى وجہ سے انہيں''فياض'' كا لقب ديا گيا تھا_(۱۸)

رسول خدا (ص) كے دادا بہت ہى دانشمند و بردبار شخص تھے _ وہ اپنى قوم كو اخلاق حسنہ ، جورو ستم سے كنارہ كشى ' برائيوں سے بچنے اور پست باتوںسے دور رہنے كى تعليم ديتے _ ان كا موقف يہ تھا كہ ''ظالم آدمى اپنے كئے كى سزا اسى دنيا ميں ہى پاتا ہے او ر اگر اسے اپنے كئے كا بدلہ اس دنيا ميں نہيںملتاتو آخرت ميں يہ سزا اسے ضرور ملے گي''_(۱۹)

اپنے اس عقيدے كى بناپر انہوں نے اپنى زندگى ميں نہ توكبھى شراب كو ہاتھ لگايا' نہ كسى بے گناہ كو قتل كيا اور نہ ہى كسى برے كام كى طرف رغبت كى بلكہ اس كے برعكس انہوں نے بعض ايسے نيك كاموں كى بنياد ركھى جن كى دين اسلام نے بھى تائيد كى ، ان كى قائم كردہ بعض روايات درج ذيل ہيں :

۱_باپ كى كسى زوجہ كو بيٹے كيلئے حرام كرنا

۲_مال و دولت كا پانچواں حصہ (خمس) راہ خدا ميں خرچ كرنا_

۴۰

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

ہوگيا كہ مسلمانوں كى جمعيت يہى ہے جسے وہ ديكھ رہے ہيں _

دوسرى طرف جيسا كہ ہم نے كہا ہے مسلمانوں كاايك گروہ وحشت وخوف ميں غرق تھا اس كا اصرار تھا كہ اتنى بڑى فوج جس سے مسلمانوں كا كوئي موازنہ نہيں ، خلاف مصلحت ہے، ليكن پيغمبر اسلام (ص) نے خدا كے وعدہ سے انہيں جوش دلايا اور انہيں جنگ پر اُبھارا، آپ نے فرمايا :كہ خدا نے مجھ سے وعدہ كيا ہے كہ دوگرو ہوں ميں سے ايك پر تمہيں كا ميابى حاصل ہوگى قريش كے قافلہ پر يا لشكر قريش پراور خداكے وعدہ كے خلاف نہيں ہوسكتا _

خدا كى قسم ابوجہل اور كئي سرداران قريش كے لوگوں كى قتل گاہ كو گويا ميں اپنى آنكھوں سے ديكھ رہا ہوں _

اس كے بعد آپ نے مسلمانوں كو حكم ديا كہ وہ بدر كے كنوئيں كے قريب پڑا ئو ڈاليں _

رسول اللہ (ص) نے پہلے سے خواب ميں اس جنگ كا منظر ديكھا تھا، آپ نے د يكھا كہ دشمن كى ايك قليل سى تعداد مسلمانوں كے مقابلہ ميں آئي ہے، يہ در اصل كاميابى كى ايك بشارت تھى آپ نے بعينہ يہ خواب مسلمانوں كے سامنے بيان كرديا، يہ بات مسلمانوں كے ميدان بدر كى طرف پيش روى كے لئے ان كے جذبہ اور عزم كى تقويت كا باعث بني_

البتہ پيغمبر اكرم (ص) نے يہ خواب صحيح ديكھا تھا كيونكہ دشمن كى قوت اور تعداد اگرچہ ظاہراً بہت زيادہ تھى ليكن باطناً كم، ضعيف اور ناتواں تھي، ہم جانتے ہيں كہ خواب عام طور پر اشارے اور تعبير كا پہلو ركھتے ہيں ، اور ايك صحيح خواب ميں كسى مسئلے كا باطنى چہرہ آشكار ہوتا ہے_

قريش كا ايك ہزار كا لشكر

اس ہنگامے ميں ابوسفيان اپنا قافلہ خطرے كے علاقے سے نكال لے گيا _اصل راستے سے ہٹ كردريائے احمر كے ساحل كى طرف سے وہ تيزى سے مكہ پہنچ گيا _ اس كے ايك قاصدكے ذريعے لشكر كو پيغام

۵۲۱

بھيجا:

خدانے تمہارا قافلہ بچاليا ہے ميرا خيال ہے كہ ان حالات ميں محمد كامقابلہ كرنا ضرورى نہيں كيونكہ اس كے اتنے دشمن ہيں جو اس كا حساب چكاليں گے _

لشكر كے كمانڈرابوجہل نے اس تجويز كو قبول نہ كيا ، اس نے اپنے بتوں لات اور عزى كى قسم كھائي كہ نہ صرف ان كا مقابلہ كريں گے بلكہ مدينہ كے اندر تك ان كا تعاقب كريں گے يا انہيں قيدكرليں گے اور مكہ ميں لے آئيں گے تاكہ اس كاميابى كا شہرہ تمام قبائل عرب كے كانوں تك پہنچ جائے _ آخر كارلشكر قريش بھى مقام بدر تك آپہنچا، انہوں نے اپنے غلام كوپانى لانے كے لئے كنويں كى طرف بھيجے ،اصحاب پيغمبر نے انہيں پكڑليا اور ان سے حالات معلوم كرنے كے لئے انہيں خدمت پيغمبر (ص) ميں لے آئے حضرت نے ان سے پوچھا تم كون ہو ؟ انہوں نے كہا : ہم قريش كے غلام ہيں ، فرمايا: لشكر كى تعداد كيا ہے ؟ انہوں نے كہا : ہميں اس كا پتہ نہيں ، فرمايا : ہرروز كتنے اونٹ كھانے كے لئے نحركرتے ہيں ؟ انہوں نے كہا : نو سے دس تك، فرمايا: ان كى تعداد ۹/ سوسے لے كر ايك ہزار تك ہے (ايك اونٹ ايك سو فوجى جوانوں كى خواراك ہے ) _

ماحول پُر ہيبت اور وحشت ناك تھا لشكر قريش كے پاس فراواں جنگى سازوسامان تھا _ يہاں تك كہ حوصلہ بڑھانے كے لئے وہ گانے بجانے والى عورتوں كو بھى ساتھ لائے تھے _ اپنے سامنے ايسے حريف كو ديكھ رہے تھے كہ انہيں يقين نہيں آتا تھا كہ ان حالات ميں وہ ميدان جنگ ميں قدم ركھے گا_

مسلمانو! فرشتے تمہارى مدد كريں گے

پيغمبر اكرم (ص) ديكھ رہے تھے كہ ممكن ہے آپ كے اصحاب خوف ووحشت كى وجہ سے رات ميں آرام سے سونہ سكيں اور پھر كل دن كو تھكے ہوئے جسم اور روح كے ساتھ دشمن كے مقابل ہوں لہذا خدا كے وعدے كے مطابق ان سے فرمايا:

تمہارى تعداد كم ہوتو اس كا غم نہ كر، آسمانى فرشتوں كى ايك عظيم جماعت تمہارى مدد كے لئے آئے گي، آپ نے انہيں خدائي وعدے كے مطابق اگلے روز فتح كى پورى تسلى دے كر مطمئن كرديا اور وہ رات

۵۲۲

آرام سے سوگئے_

دوسرى مشكل جس سے مجاہدين كو پريشانى تھى وہ ميدان بدر كى كيفيت تھى ،ان كى طرف زمين نرم تھى اور اس ميں پائوں دھنس جاتے تھے اسى رات يہ ہوا كہ خوب بارش ہوئي ،اس كے پانى سے مجاہدين نے وضو كيا ، غسل كيا اور تازہ دم ہوگئے ان كے نيچے كى زمين بھى اس سے سخت ہوگئي ،تعجب كى بات يہ ہے كہ دشمن كى طرف اتنى زيادہ بارش ہوئي كہ وہ پريشان ہوگئے _

دشمن كے لشكر گاہ سے مسلمان جاسوسوں كى طرف سے ايك نئي خبر موصول ہوئي اور جلد ہى مسلمانوں ميں پھيل گئي ، خبريہ تھى كہ فوج قريش اپنے ان تمام وسائل كے باوجود خو فزدہ ہے گويا وحشت كا ايك لشكر خدا نے ان كے دلوں كى سرزمين پر اتار ديا تھا ،اگلے روز چھوٹا سا اسلامى لشكر بڑے ولولے كے ساتھ دشمن كے سامنے صف آراء ہوا، پيغمبر اكرم (ص) نے پہلے انہيں صلح كى تجويز پيش كى تاكہ عذر اور بہانہ باقى نہ رہے، آپ نے ايك نمائندے كے ہاتھ پيغام بھيجا كہ ميں نہيں چاہتا كہ تم وہ پہلا گروہ بن جائو كہ جس پر ہم حملہ آور ہوں ، بعض سردار ان قريش چاہتے تھے يہ صلح كا ہاتھ جوان كى طرف بڑھايا گيا ہے اسے تھام ليں اور صلح كرليں ، ليكن پھر ابوجہل مانع ہوا_

ستر قتل ستر اسير

آخركار جنگ شروع ہوئي ،اس زمانے كے طريقے كے مطابق پہلے ايك كے مقابلے ميں ايك نكلا ،ادھر لشكر اسلام ميں رسول اللہ (ص) كے چچا حمزہ اور حضرت على عليہ السلام جوجو ان ترين افراد تھے ميدان ميں نكلے، مجاہدين اسلام ميں سے چند اور بہادر بھى اس جنگ ميں شريك ہوئے ،ان جوانوں نے اپنے حريفوں كے پيكر پر سخت ضربيں لگائيں اور كارى وار كئے اور ان كے قدم اكھاڑديئے ،دشمن كا جذبہ اور كمزور پڑگيا ،يہ ديكھا تو ابوجہل نے عمومى حملے كا حكم دے ديا _

ابوجہل پہلے ہى حكم دے چكا تھا كہ اصحاب پيغمبر (ص) ميں سے جو اہل مدينہ ميں سے ہيں انہيں قتل

۵۲۳

كردو ، مہاجرين مكہ كو اسير كرلو مقصديہ تھا كہ ايك طرح كے پر وپيگنڈا كے لئے انہيں مكہ لے جائيں _

يہ لمحات بڑے حساس تھے، رسول اللہ (ص) نے مسلمانوں كو حكم ديا كہ جمعيت كى كثرت پر نظر نہ كريں اور صرف اپنے مد مقابل پر نگاہ ركھيں دانتوں كو ايك دوسرے پرركھ كر پيسيں ، باتيں كم كريں ، خدا سے مدد طلب كريں ، حكم پيغمبر سے كہيں رتى بھر سرتابى نہ كريں اور مكمل كاميابى كى اميد ركھيں ، رسول اللہ (ص) نے دست دعا آسمان كى طرف بلند كئے اور عرض كيا : ''پالنے والے اگر يہ لوگ قتل ہوگئے تو پھر تيرى عبادت كوئي نہيں كرے گا''_

دشمن كے لشكر كى سمت ميں سخت ہوا چل رہى تھى اور مسلمان ہوا كى طرف پشت كركے ان پر حملے كررہے تھے _ ان كى استقامت ، پامردى اور دلاورى نے قريش كا ناطقہ بندكرديا ابوجہل سميت دشمن كے ستر آدمى قتل ہوگئے ان كى لاشيں خاك وخون ميں غلطاں پڑى تھيں سترا فراد مسلمانوں كے ہاتھوں قيد ہوگئے مسلمانوں كے بہت كم افراد شہيد ہوئے_

اس طرح مسلمانوں كى پہلى مسلح جنگ طاقتور دشمن كے خلاف غير متوقع كاميابى كے ساتھ اختتام پذيزر ہوئي _

جنگ بدر ميں مسلمانوں كى تعداد تين سو تيرہ تھي، ان ميں ۷۷/ مہاجر تھے اور دوسو چھتيس (۲۳۶) انصار، مہاجرين كا پرچم حضرت على عليہ السلام كے ہاتھ ميں تھا، اور انصار كا پرچم بردار'' سعد بن عبادہ'' تھے، اس عظيم معركہ كے لئے ان كے پاس صرف ۷۰ /اونٹ دو گھوڑے، ۶/زرہيں اور آٹھ تلواريں تھيں ، دوسرى طرف دشمن كى فوج ہزار افراد سے متجاوز تھي، اس كے پاس كافى ووافى اسلحہ تھا اور ايك سو گھوڑے تھے، اس جنگ۲۲/ مسلمان شہيد ہوئے ان ميں چودہ مہاجر او ر۸/ انصار تھے، دشمن كے ستر(۷۰) افراد مارے گئے اور ستر ہى قيدى ہوئے، اس طرح مسلمانوں كو فتح نصيب ہوئي اور يوں مكمل كامرانى كے ساتھ وہ مدينہ كى طرف پلٹ گئے_

واقعاً يہ عجيب و غريب بات تھى كہ تواريخ كے مطابق مسلمانوں كے چھوٹے سے لشكر كے مقابلہ ميں

۵۲۴

قريش كى طاقتور فوج نفسياتى طور پر اس قدر شكست خودرہ ہوچكى تھى كہ ان ميں سے ايك گروہ مسلمانوں سے جنگ كرنے سے ڈرتا تھا، بعض اوقات وہ دل ميں سوچتے كہ يہ عام انسان نہيں ہيں ، بعض كہتے ہيں كہ يہ موت كو اپنے اونٹوں پر لادكر مدينہ سے تمہارے لئے سوغات لائے ہيں _

''سعدبن معاذانصارى ''نمائندہ كے طور پر خدمت پيغمبر ميں حاضر ہوئے اور عرض كرنے لگے :

ميرے ماں پاپ آپ پر قربان اے اللہ كے رسول ہم آپ پر ايمان لائے ہيں اور ہم نے آپ كى نبوت كى گواہى دى ہے كہ جو كچھ آپ كہتے ہيں خدا كى طرف سے ہے، آپ جو بھى حكم دينا چاہيں ديجئے اور ہمارے مال ميں سے جو كچھ آپ چاہيں لے ليں ، خدا كى قسم اگر آپ ہميں حكم ديں كہ اس دريا ( دريائے احمر كى طرف اشارہ كرتے ہوئے ،جووہاں سے قريب تھا ) ميں كود پڑو تو ہم كو د پڑيں گے ہمارى يہ آرزو ہے كہ خدا ہميں توفيق دے كہ ايسى خدمت كريں جو آپ كى آنكھ كى روشنى كا باعث ہو_

روز بدر رسول اللہ (ص) نے حضرت على عليہ السلام سے فرمايا:

زمين سے مٹى اور سنگريزوں كى ايك مٹھى بھر كے مجھے ديدو_

حضرت على عليہ السلام نے ايسا ہى كيا اور رسول خدا (ص) نے اسے مشركين كى طرف پھينك ديا اور فرمايا:

''شاہت الوجوہ''(تمہارے منھ قبيح اور سياہ ہوجائيں )

لكھا ہے كہ معجزانہ طور پر گرد و غبار اور سنگريزے دشمن كى آنكھوں ميں جا پڑے اور سب وحشت زدہ ہوگئے_

مجاہدين كى تشويق

ابن عباس سے منقول ہے كہ رسول اللہ (ص) نے جنگ بدر كے روز مجاہدين اسلام كى تشويق كے لئے كچھ انعامات مقرركيے مثلاً فرمايا كہ جو فلاں دشمن كو قيد كر كے ميرے پاس لائے گا اُسے يہ انعام دوں گا ان

۵۲۵

ميں پہلے ہى روح ايمان وجہاد موجود تھى اوپر سے يہ تشويق بھي، نتيجہ يہ ہو اكہ جوان سپاہى بڑے افتخار سے مقابلہ كے لئے آگے بڑھے اور اپنے مقصد كى طرف لپكے بوڑھے سن رسيدہ افراد جھنڈوں تلے موجودرہے جب جنگ ختم ہوئي تو نوجوان اپنے پر افتخار انعامات كے لئے بارگاہ پيغمبر اكرم (ص) كى طرف بڑھے، بوڑھے ان سے كہنے لگے كہ اس ميں ہمارا بھى حصہ ہے كيونكہ ہم تمہارے لئے پناہ اور سہارے كاكام كررہے تھے اور تمہارے لئے جوش وخروش كا باعث تھے اگر تمہارا معاملہ سخت ہوجاتاہے تو تمہيں پيچھے ہٹنا پڑتا تو يقيناً تم ہمارى طرف آتے اس موقع پر دو انصاريوں ميں تو تو ميں ميں بھى ہوگئي اور انہوں نے جنگى غنائم كے بارے ميں بحث كى _

اس اثناء ميں سورہ انفال كى پہلى آيت نازل ہوئي جس ميں صراحت كے ساتھ بتايا گيا كہ غنائم كا تعلق پيغمبر (ص) سے ہے وہ جيسے چاہيں انہيں تقسيم فرمائيں ، پيغمبر اكرم (ص) نے بھى مساوى طور پر سب سپاہيوں ميں غنائم تقسيم كرديئے اور برادران دينى ميں صلح ومصالحت كا حكم ديا _

جنگ كا خاتمہ اور اسيروں كا واقعہ

جنگ بدر كے خاتمہ پر جب جنگى قيدى بنالئے گئے اور پيغمبر اكرم (ص) نے يہ حكم دياكہ قيديوں ميں سے دو خطر ناك افراد عقبہ اور نضر كو قتل كردياجائے تو اس پر انصار گھبراگئے كہ كہيں ايسا نہ ہو كہ يہ حكم تمام قيديوں كے متعلق جارى ہوجائے اور وہ فديہ لينے سے محروم ہوجائيں ) لہذا انہوں نے رسول اللہ كى خدمت ميں عرض كيا : ہم نے سترآدميوں كو قتل كيا ہے اور سترہى كو قيدى بنايا ہے اور يہ آپ كے قبيلے ميں سے آپ ہى كے قيدى ہيں ،يہ ہميں بخش ديجئے تاكہ ہم ان كى آزادى كے بدلے فديہ لے سكيں _

(رسول اللہ اس كے لئے وحى آسمانى كے منتظر تھے ) اس موقع پروحى الہى نازل ہوئي اورقيديوں كى آزادى كے بدلے فديہ لينے كى اجازت ديدى گئي _

اسيروں كى ازادى كے لئے زيادہ سے زيادہ چار ہزار درہم اور كم سے كم ايك ہزار درہم معين كى گئي، يہ بات قريش كے كانوں تك پہونچى تو انھوں نے ايك ايك كے بدلے معين شدہ رقم بھيج كرا سيروں كو ازاد

۵۲۶

كراليا_

تعجب كى بات يہ ہے كہ رسول اللہ (ص) كا داماد ابوالعاص بھى ان قيديوں ميں تھا ،رسول (ص) كى بيٹى يعنى زينب جو ابولعاص كى بيوى تھى نے وہ گلو بند جو جناب خديجہ نے ان كى شاد ى كے وقت انہيں ديا تھا فديہ كے طور پررسول اللہ (ص) كے پاس بھيجا،جب پيغمبر اكرم (ص) كى نگاہ گلو بند پر پڑى تو جناب خديجہ جيسى فداكار اور مجاہدہ خاتون كى ياد يں ان كى آنكھوں كے سامنے مجسم ہوگئيں ،آپ(ص) نے فرمايا:خدا كى رحمت ہو خديجہ پر ،يہ وہ گلو بند ہے جو اس نے ميرى بيٹى زينب كو جہيز ميں ديا تھا(اور بعض دوسرى روايات كے مطابق جناب خديجہ كے احترام ميں آپ (ص) نے گلو بند قبول كرنے سے احرازكيا اور حقوق مسلمين كو پيش نظر كرتے ہوئے اس ميں ان كى موافقت حاصل كي)_

اس كے بعد پيغمبر اكرم (ص) نے ابوالعاص كو اس شرط پر آزاد كرديا كہ وہ زينب كو (جو اسلام سے پہلے ابوالعاص كى زوجيت ميں تھيں )مدينہ پيغمبر (ص) كے پاس بھيج دے ، اس نے بھى اس شرط كو قبول كرليا او ربعد ميں اسے پورا بھى كيا_

آنحضرت(ص) كے چچا عباس كا اسلام قبول كرنا

انصار كے كچھ آدميوں نے رسول اللہ (ص) سے اجازت چاہى كہ آپ كے چچا عباس جو قيديوں ميں تھے ان سے آپ(ص) كے احترام ميں فديہ نہ ليا جائے ليكن پيغمبر (ص) نے فرمايا:

''خداكى قسم اس كے ايك درھم سے بھى صرف نظر نہ كرو''( اگر فديہ لينا خدائي قانون ہے تو اسے سب پر جارى ہونا چاہئے ،يہاں تك كہ ميرے چچا پر بھى اس كے اور دوسروں كے درميان كوئي فرق نہيں ہے_)

پيغمبر اكرم (ص) عباس كى طرف متوجہ ہوئے اور فرمايا: اپنى طرف سے او راپنے بھتيجے ( عقيل بن ابى طالب) كى طرف سے آپ(ص) كو فديہ ادا كرنا چاہئے_

۵۲۷

عباس ( جو مال سے بڑا لگائو ركھتے تھے ) كہنے لگے: اے محمد(ص) كيا تم چاہتے ہو كہ مجھے ايسا فقير او رمحتاج كردو كہ ميں اہل قريش كے سامنے اپنا ہاتھ پھيلائوں _

رسول اللہ (ص) نے فرمايا: اس مال ميں سے فديہ ادا كريں جو آپ(ص) نے اپنى بيوى ام الفضل كے پاس ركھا تھا اور اس سے كہا تھا كہ اگر ميں ميدان جنگ ميں مارا جائوں تو اس مال كو اپنے اور اپنى اولاد كے مصارف كے لئے سمجھنا_

عباس يہ بات سن كر بہت متعجب ہوئے اور كہنے لگے: آپ(ص) كو يہ بات كس نے بتائي ( حالانكہ يہ تو بالكل محرمانہ تھى )؟

رسول اللہ (ص) نے فرمايا : جبرئيل نے، خدا كى طرف سے_

عباس بولے : اس كى قسم كہ جس كى محمد (ص) قسم كھاتا ہے كہ ميرے اور ميرى بيوى كے علاوہ اس راز سے كوئي آگاہ نہ تھا_

اس كے بعد وہ پكار اٹھے: ''اشھد انك رسول اللہ''

( يعنى ميں گواہى ديتا ہوں كہ آپ(ص) اللہ كے رسول ہيں )

اور يوں وہ مسلمان ہوگئے_

آزادى كے بعد بدر كے تمام قيدى مكہ لوٹ گئے ليكن عباس، عقيل اور نوفل مدينہ ہى ميں رہ گئے كيونكہ انہوں نے اسلام قبول كرليا تھا_

عباس كے اسلام لانے كے بارے ميں بعض تواريخ ميں ہے كہ اسلام قبول كرلينے كے بعد وہ مكہ كى طرف پلٹ گئے تھے اور خط كے ذريعہ رسول اللہ (ص) كو سازش سے باخبر كيا كرتے تھے ، پھر ۸ سے پہلے فتح مكہ كے سال مدينہ كى طرف ہجرت كر آئے_

۵۲۸

جنگ احد(۱)

جنگ احد كا پيش خيمہ جب كفار مكہ جنگ بدر ميں شكست خوردہ ہوئے اور ستر(۷۰) قيدى چھوڑكر مكہ كى طرف پلٹ گئے تو ابو سفيان نے لوگوں كو خبر دار كيا كہ وہ اپنى عورتوں كو مقتولين بدر پر گريہ وزارى نہ كرنے ديں كيونكہ آنسو غم واندوہ كو دور كرديتے ہيں اور اس طرح محمد كى دشمنى اور عداوت ا۶ن كے دلوں سے ختم ہوجائے گى ، ابو سفيان نے خود يہ عہد كرركھا تھا كہ جب تك جنگ بدر كے قاتلوں سے انتقام نہ لے لے اس وقت تك وہ اپنى بيوى سے ہمبسترى نہيں كرے گا ،بہر حال قريش ہر ممكن طريقہ سے لوگوں كوپيغمبر اسلام (ص) كے خلاف اكساتے تھے اور انتقام كى صدا شہر مكہ ميں بلند ہورہى تھى _

ہجرت كے تيسرے سال قريش ہزار سوار اور دوہزار پيدل كے ساتھ بہت سامان جنگ لے كر آپ سے جنگ كرنے كے لئے مكہ سے نكلے اور ميدان جنگ ميں ثابت قدمى سے لڑنے كے لئے اپنے بڑے بڑے بت اور اپنى عورتوں كو بھى ہمراہ لے آئے _

____________________

()جنگ احد كا واقعہ سورہ آل عمران آيت ۱۲۰ كے ذيل ميں بيان ہوا ہے

۵۲۹

جناب عباس كى بر وقت اطلاع

حضرت رسول خدا (ص) كے چچاحضرت عباس جو ابھى مسلمان نہيں ہوئے تھے اور قريش كے درميان ان كے ہم مشرب و ہم مذہب تھے ليكن اپنے بھتيجے سے فطرى محبت كى بنا پر جب انھوں نے ديكھا كہ قريش كا ايك طاقتور لشكر پيغمبر (ص) سے جنگ كرنے كے لئے مكہ سے نكلا ہے تو فوراً ايك خط لكھا اور قبيلہ بنى غفار كے ايك آدمى كے ہاتھ مدينہ بھيجا ،عباس كا قاصد بڑى تيزى سے مدينہ كى طرف روانہ ہوا ،جب آپ كو اس كى اطلاع ملى تو آپ نے سعد بن اُبَ كو عباس كا پيغام پہنچايا اور حتى الامكان اس واقعہ كو پردہ راز ميں ركھنے كى كوشش كى _

پيغمبر كا مسلمانوں سے مشورہ

جس دن عباس كا قاصد آپ كو موصول ہوا آپ نے چند مسلمانوں كو حكم ديا كہ وہ مكہ ومدينہ كے راستہ پر جائيں اور لشكر كفار كے كوائف معلوم كريں ، آپ كے دو نمائندے ان كے حالات معلوم كركے بہت جلدى واپس آئے اور قريش كى قوت وطاقت سے آنحضرت (ص) كو مطلع كيا اور يہ بھى اطلاع دى كہ طاقتور لشكر خود ابوسفيان كى كمان ميں ہے _

پيغمبراكرم (ص) نے چند روز كے بعد تمام اصحاب اور اہل مدينہ كو بلايا اور ان در پيش حالات كا مقابلہ كرنے كے لئے ميٹنگ كي، اس ميں عباس كے خط كو بھى پيش كيا گيا اور اس كے بعد مقام جنگ كے بارے ميں رائے لى گئي اس ميٹنگ ميں ايك گروہ نے رائے دى كہ جنگ دشمن سے مدينہ كى تنگ گليوں ميں كى جائے كيونكہ اس صورت ميں كمزور مرد ،عورتيں بلكہ كنيزيں بھى مدد گار ثابت ہوسكيں گي_

عبد اللہ بن ابى نے تائيد ا ًكہا يا رسول اللہ (ص) آج تك ايسا نہيں ہوا كہ ہم اپنے قلعوں اور گھروں ميں ہوں اور دشمن ہم پر كامياب ہوگيا ہو _

اس رائے كو آپ بھى اس وقت كى مدينہ كى پوزيشن كے مطابق بنظر تحسين ديكھتے تھے كيونكہ آپ بھى

۵۳۰

مدينہ ہى ميں ٹھہرنا چاہتے تھے ليكن نوجوانوں اورجنگجو و ں كا ايك گروہ اس كا مخالف تھا چنانچہ سعد بن معاذ اور قبيلہ اوس كے چند افراد نے كھڑے ہو كر كہا اے رسول خدا (ص) گذشتہ زمانے ميں عربوں ميں سے كسى كو يہ جرا ت نہ تھى كہ ہمارى طرف نظر كرے جبكہ ہم مشرك اور بت پرست تھے اب جبكہ ہمارے درميان آپ كى ذات والا صفات موجود ہے كس طرح وہ ہميں دبا سكتے ہيں اس لئے شہرسے باہر جنگ كرنى چاہئے اگر ہم ميں سے كوئي مارا گيا تو وہ جام شہادت نوش كرے گا اور اگر كوئي بچ گيا تو اسے جہاد كا اعزازوافتخار نصيب ہوگا اس قسم كى باتوں اور جوش شجاعت نے مدينہ سے باہر جنگ كے حاميوں كى تعدا دكو بڑھا ديا يہاں تك كہ عبد اللہ بن اُبَ كى پيش كش سرد خانہ ميں جاپڑى خود پيغمبر (ص) نے بھى اس مشورے كا احترام كيااور مدينہ سے باہر نكل كر جنگ كے طرف داروں كى رائے كو قبول فرماليا اور ايك صحابى كے ساتھ مقام جنگ كا انتخاب كرنے كے لئے شہر سے باہر تشريف لے گئے آپ نے كوہ احد كا دامن لشكر گاہ كے لئے منتخب كيا كيونكہ جنگى نقطہ نظر سے يہ مقام زيادہ مناسب تھا_

مسلمانوں كى دفاعى تيارياں

جمعہ كے دن آپ نے يہ مشورہ ليا اور نماز جمعہ كا خطبہ ديتے ہوئے آپ نے حمدو ثناء كے بعد مسلمانوں كو لشكر قريش كى آمد كى اطلاع دى اور فرمايا:

'' تہہ دل سے جنگ كے لئے آمادہ ہوجائو اور پورے جذبہ سے دشمن سے لڑو تو خدا وند قددس تمہيں كاميابى وكامرانى سے ہمكنار كرے گا اور اسى دن آپ ايك ہزار افراد كے ساتھ لشكر گاہ كى طرف روانہ ہوئے آپ خود لشكر كى كمان كررہے تھے مدينہ سے نكلنے سے قبل آپ نے حكم ديا كہ لشكر كے تين علم بنائے جائيں جن ميں ايك مہاجرين اور دو انصار كے ہوں ''_

پيغمبر اكرم (ص) نے مدينہ اور احد كے درميانى فاصلے كو پاپيادہ طے كيا اور سارے راستے لشكر كى ديكھ بھال كرتے رہے خود لشكر كى صفوں كو منظم ومرتب ركھا تاكہ وہ ايك ہى سيدھى صف ميں حركت كريں _

۵۳۱

ان ميں سے كچھ ايسے افراد كو ديكھا جو پہلى وفعہ آپ كو نظر پڑے پوچھا كہ يہ لوگ كون ہيں ؟ بتايا گيا كہ يہ عبداللہ بن ابى كے ساتھى كچھ يہودى ہيں اور اس مناسبت سے مسلمانوں كى مدد كے لئے آئے ہيں آپ نے فرمايا كہ مشركين سے جنگ كرنے ميں مشركين سے مدد نہيں لى جاسكتى مگريہ كہ يہ لوگ اسلام قبول كرليں يہوديوں نے اس شرط كو قبول نہ كيا اور سب مدينہ كى طرف پلٹ آئے يوں ايك ہزار ميں سے تين سو افراد كم ہوگئے _

ليكن مفسرين نے لكھا ہے كہ چونكہ عبداللہ بن اُبَ كى رائے كو رد كيا گيا تھا اس لئے وہ اثنائے راہ ميں تين سوسے زيادہ افراد كو لے كر مدينہ كى طرف پلٹ آيا بہر صورت پيغمبر اكرم (ص) لشكر كى ضرورى چھان بين (يہوديوں يا ابن ابى ابى كے ساتھيوں كے نكالنے) كے بعد سات سو افراد كو ہمراہ لے كر كوہ احد كے دامن ميں پہنچ گئے، اور نماز فجر كے بعد مسلمانوں كى صفوں كو آراستہ كيا_

عبد اللہ بن جبير كو پچاس ماہر تير اندازوں كے ساتھ پہاڑ كے درہ پر تعينات كيا اور انھيں تاكيد كى كہ وہ كسى صورت ميں اپنى جگہ نہ چھوڑيں اور فوج كے پچھلے حصے كى حفاظت كريں اور اس حد تك تاكيد كى كہ اگر ہم دشمن كا مكہ تك پيچھا كريں يا ہم شكست كھاجائيں اور دشمن ہميں مدينہ تك جانے پر مجبور كردے پھر بھى تم اپنا مورچہ نہ چھوڑنا، دوسرى طرف سے ابو سفيان نے خالد بن وليد كو منتخب سپاہيوں كے ساتھ اس درہ كى نگرانى پر مقرر كيا اور انھيں ہر حالت ميں وہيں رہنے كا حكم د يا اور كہا كہ جب اسلامى لشكر اس درہ سے ہٹ جائے تو فوراً لشكر اسلام پر پيچھے سے حملہ كردو_

آغاز جنگ

دونوں لشكر ايك دوسرے كے امنے سامنے جنگ گے لئے آمادہ ہوگئے اور يہ دونوں لشكر اپنے نوجوانوں كو ايك خاص انداز سے اكسا رہے تھے، ابوسفيان كعبہ كے بتوں كے نام لے كر اور خوبصورت عورتوں كے ذريعے اپنے جنگى جوانوں كى توجہ مبذول كراكے ان كو ذوق وشوق دلاتا تھا_

جب كہ پيغمبر اسلام (ص) خدا كے اسم مبارك اور انعامات اعلى كے حوالے سے مسلمانوں كو جنگ

۵۳۲

كى ترغيب ديتے تھے اچانك مسلمانوں كى صدائے اللہ اكبراللہ اكبر سے ميدان اور دامن كوہ كى فضا گونج اٹھى جب كہ ميدان كى دوسرى طرف قريش كى لڑكيوں نے دف اور سارنگى پر اشعار گا گا كر قريش كے جنگ جو افراد كے احساسات كو ابھارتى تھيں _

جنگ كے شروع ہوتے ہى مسلمانوں نے ايك شديد حملہ سے لشكر قريش كے پرخچے اڑاديئےور وہ حواس باختہ ہوكر بھاگ كھڑے ہوئے اور لشكر اسلام نے ان كا پيچھا كرنا شروع كرديا خالدبن وليد نے جب قريش كى يقينى شكت ديكھى تو اس نے چاہا كہ درہ كے راستے نكل كر مسلمانوں پر پيچھے سے حملہ كرے ليكن تيراندازوں نے اسے پيچھے ہٹنے پر مجبور كرديا قريش كے قدم اكھڑتے ديكھ كر تازہ مسلمانوں كے ايك گروہ نے دشمن كو شكت خوردہ سمجھ كرمال غنيمت جمع كرنے كے لئے اچانك اپنى پوزيشن چھوڑدى ، ان كى ديكھا ديكھى درہ پر تعينات تيراندازوں نے بھى اپنا مورچہ چھوڑديا، ان كے كمانڈرعبد اللہ بن جبيرنے انہيں آ نحضرت(ص) كا حكم ياددلايا مگرسوائے چند (تقريبا ًدس افراد) كے كوئي اس اہم جگہ پر نہ ٹھہرا_

پيغمبراكرم (ص) كى مخالفت كا نتيجہ يہ ہوا كہ خالدبن وليد نے درہ خالى ديكھ كر بڑى تيزى سے عبد اللہ بن جبير پر حملہ كيا اور اسے اس كے ساتھيوں سميت قتل كرديا، اس كے بعد انہوں نے پيچھے سے مسلمانوں پر حملہ كرديا اچانك مسلمانوں نے ہر طرف چمك دار تلواروں كى تيزدھاروں كو اپنے سروں پر ديكھا تو حواس باختہ ہوگئے اور اپنے آپ كو منظم نہ ركھ سكے قريش كے بھگوڑوں نے جب يہ صورتحال ديكھى تو وہ بھى پلٹ آئے اور مسلمانوں كو چاروں طرف سے گھيرليا_

اسى موقع پر لشكر اسلام كے بہادر افسر سيد الشہداء حضرت حمزہ نے دوسرے مسلمانوں كے ساتھ جام شہادت نوش كيا ،سوائے چند شمع رسالت كے پروانوں كے اور بقيہ مسلمانوں نے وحشت زدہ ہوكر ميدان كو دشمن كے حوالے كرديا_

اس خطرناك جنگ ميں جس نے سب سے زيادہ فداكارى كا مظاہرہ كيا اور پيغمبر اكرم (ص) پر ہونے والے دشمن كے ہر حملے كا دفاع كيا وہ حضرت على بن ابى طالب عليہ السلام تھے _

۵۳۳

حضرت على عليہ السلام بڑى جرا ت اور بڑے حوصلہ سے جنگ كررہے تھے يہاں تك كہ آپ كى تلوار ٹوٹ گئي، اور پيغمبر اكرم (ص) (ص) نے اپنى تلوار آپ كو عنايت فرمائي جو ذوالفقار كے نام سے مشہور ہے بالآخر آپ ايك مورچہ ميں ٹھہرگئے اور حضرت على عليہ السلام مسلسل آپ كا دفاع كرتے رہے يہاں تك كہ بعض مورخين كى تحقيق كے مطابق حضرت على عليہ السلام كے جسم پر ساٹھ كارى زخم آئے، اور اسى موقع پر قاصد وحى نے پيغمبراكرم (ص) سے عرض كيا :اے محمد يہ ہے مواسات ومعاونت كا حق ،آپ (ص) نے فرمايا ( ايسا كيوں نہ ہو كہ ) على مجھ سے ہے اور ميں على سے ہوں ،تو جبرئيل نے اضافہ كيا : ميں تم دونوں سے ہوں _

امام صادق ارشاد فرماتے ہيں كہ پيغمبر اكرم (ص) نے قاصد وحى كو آسمان ميں يہ كہتے ہوئے ديكھا كہ: ''لاسيف الاذوالفقار ولا فتى الا على '' (ذوالفقار كے علاوہ كوئي تلوار نہيں اور على كے سوا كوئي جوانمرد نہيں )

اس اثناء ميں يہ آواز بلند ہوئي كہ محمد قتل ہوگئے _

يہ آواز فضائے عالم ميں گونج اٹھى اس آواز سے جتنابت پرستوں كے جذبات پر مثبت اثر پيدا ہوا اتناہى مسلمانوں ميں عجيب اضطراب پيدا ہوگيا چنانچہ ايك گروہ كے ہاتھ پائوں جواب دے گئے اور وہ بڑى تيزى سے ميدان جنگ سے نكل گئے يہاں تك كہ ان ميں سے بعض نے سوچا كہ پيغمبر شہيدہو گئے ہيں لہذا اسلام ہى كو خيرباد كہہ ديا جائے اور بت برستوں كے سرداروں سے امان طلب كرلى جائے ليكن ان كے مقابلہ ميں فداكاروں اور جانثاروں كى بھى ايك قليل جماعت تھى جن ميں حضرت على ابود جانہ اور طلحہ جيسے بہادر لوگ موجود تھے جوباقى لوگوں كوپامردى اور استقامت كى دعوت دے رہے تھے ان ميں سے انس بن نضر لوگوں كے درميان آيا اور كہنے لگا :اے لوگو اگر محمد شہيد ہوگئے ہيں تو محمد كا خدا تو قتل نہيں ہوا چلو اور جنگ كرو ،اسى نيك اور مقدس ہدف كے حصول كے لئے درجہ شہادت پر فائز ہو جائو ،يہ گفتگو تمام كرتے ہى انھوں نے دشمن پر حملہ كرديا يہاں تك كہ شہيد ہوگئے ،تاہم جلد معلوم ہوگيا كہ پيغمبر اكرم (ص) سلامت ہيں اور اطلاع ايك شايعہ تھى _

۵۳۴

كون پكارا كہ محمد (ص) قتل ہوگئے ؟

''ابن قمعہ'' نے اسلامى سپاہى مصعب كو پيغمبر سمجھ كر اس پر كارى ضرب لگائي اور باآواز بلند كہا :لات وعزى كى قسم محمد قتل ہوگئے _

اس ميں كوئي شك نہيں ہے كہ يہ افواہ چاہے مسلمانوں نے اڑائي يا دشمن نے ليكن مسلمانوں كے لئے فائدہ مند ثابت ہوئي اس لئے كہ جب آواز بلند ہوئي تو دشمن ميدان چھوڑ كر مكہ كى طرف چل پڑے ورنہ قريش كا فاتح لشكر جو حضور (ص) كے لئے دلوں ميں كينہ ركھتا تھا اور انتقام لينے كى نيت سے آيا تھا كبھى ميدان نہ چھوڑتا، قريش كے پانچ ہزار افراد پر مشتمل لشكر نے ميدان جنگ ميں مسلمانوں كى كاميابى كے بعد ايك رات بھى صبح تك وہاں نہ گذارى اور اسى وقت مكہ كى طرف چل پڑے_

پيغمبر (ص) كى شہادت كى خبر نے بعض مسلمانوں ميں اضطراب وپريشانى پيدا كردى ،جو مسلمان اب تك ميدان كارزار ميں موجود تھے ، انھوں نے اس خيال سے كہ دوسرے مسلمان پراكندہ نہ ہوں آنحضرت (ص) كو پہاڑ كے اوپر لے گئے تاكہ مسلمانوں كو پتہ چل جائے كہ آپ بقيد حيات ہيں ، يہ ديكھ كر بھگوڑے واپس آگئے اور آنحضرت كے گرد پروانوں كى طرح جمع ہوگئے ،آپ نے ان كو ملامت وسرزنش كى كہ تم نے ان خطرناك حالات ميں كيوں فرار كيا ،مسلمان شرمندہ تھے انہوں نے معذرت كرتے ہوئے كہا : يا رسول خدا ہم نے آپ كى شہادت كى خبر سنى تو خوف كى شدت سے بھاگ كھڑے ہوے_

مفسر عظيم مرحوم طبرسي، ابو القاسم بلخى سے نقل كرتے ہيں كہ جنگ احد كے دن( پيغمبر اكرم (ص) كے علاوہ)سوائے تيرہ افرادكے تمام بھاگ گئے تھے، اور ان تيرہ ميں سے آٹھ انصار اور پانچ مہاجرتھے، جن ميں سے حضرت على عليہ السلام اور طلحہ كے علاوہ باقى ناموں ميں اختلاف ہے، البتہ دونوں كے بارے ميں تمام مو رخين كا اتفاق ہے كہ انھوں نے فرار نہيں كيا_

يوں مسلمانوں كو جنگ احد ميں بہت زيادہ جانى اورمالى نقصان كا سامنا كرنا،پڑا مسلمانوں كے ستر

۵۳۵

افراد شہيد ہوئے اور بہت سے زخمى ہوگئے ليكن مسلمانوں كو اس شكست سے بڑا درس ملا جو بعد كى جنگوں ميں ان كى كاميابى و كامرانى كا باعث بنا _

جنگ كا خطرناك مرحلہ

جنگ احد كے اختتام پر مشركين كا فتحياب لشكر بڑى تيزى كے ساتھ مكہ پلٹ گيا ليكن راستے ميں انہيں يہ فكر دامن گير ہوئي كہ انہوں نے اپنى كاميابى كو ناقص كيوں چھوڑديا _كيا ہى اچھا ہو كہ مدينہ كى طرف پلٹ جائيں اور اسے غارت و تاراج كرديں اور اگر محمد زندہ ہوں تو انہيں ختم كرديں تاكہ ہميشہ كے لئے اسلام اور مسلمانوں كى فكر ختم ہوجائے ، اور اسى بنا پر انہيں واپس لوٹنے كا حكم ديا گيا اور درحقيقت جنگ احد كا يہ وہ خطر ناك مرحلہ تھا كيونكہ كافى مسلمان شہيد اور زخمى ہوچكے تھے اور فطرى طور پر وہ ازسر نو جنگ كرنے كے لئے آمادہ نہيں تھے _جبكہ اس كے برعكس اس مرتبہ دشمن پورے جذبہ كے ساتھ جنگ كرسكتا تھا_

يہ اطلاع پيغمبر اكرم (ص) كو پہنچى تو آپ نے فوراً حكم ديا كہ جنگ احد ميں شريك ہونے والا لشكر دوسرى جنگ كے لئے تيار ہوجائے ،آپ نے يہ حكم خصوصيت سے ديا كہ جنگ احد كے زخمى بھى لشكر ميں شامل ہوں ،(حضرت على عليہ السلام نے جن كے بدن پر دشمنوں نے ۶۰/زخم لگائے تھے،ليكن اپ پھر دوبارہ دشمنوں كے مقابلہ ميں اگئے) ايك صحابى كہتے ہيں :

ميں بھى زخميوں ميں سے تھا ليكن ميرے بھائي كے زخم مجھ سے زيادہ شديد تھے ، ہم نے ارادہ كرليا كہ جو بھى حالت ہو ہم پيغمبر اسلام كى خدمت ميں پہونچے گے، ميرى حالت چونكہ ميرے بھائي سے كچھ بہتر تھى ، جہاں ميرا بھائي نہ چل پاتا ميں اسے اپنے كندھے پر اٹھاليتا، بڑى تكليف سے ہم لشكر تك جا پہنچے، پيغمبر اكرم (ص) اور لشكر اسلام ''حمراء الاسد'' كے مقام پر پہنچ گئے اور وہاں پر پڑائو ڈالا يہ جگہ مدينہ سے آٹھ ميل كے فاصلے پر تھي_

يہ خبر جب لشكر قريش تك پہنچى خصوصاً جب انھوں نے مقابلہ كے لئے ايسى آمادگى ديكھى كہ زخمى بھى ميدان جنگ ميں پہنچ گئے ہيں تو وہ پريشان ہوگئے اور ساتھ ہى انھيں يہ فكر بھى لاجق ہوئي كہ مدينہ سے تازہ دم

۵۳۶

فوج ان سے آملى ہے_

اس موقع پر ايسا واقعہ پيش آيا جس نے ان كے دلوں كو اور كمزور كرديا اور ان ميں مقابلہ كى ہمت نہ رہى ، واقعہ يہ ہوا كہ ايك مشرك جس كا نام ''معبد خزاعي'' تھا مدينہ سے مكہ كى طرف جارہا تھا اس نے پيغمبر اكرم اور ان كے اصحاب كى كيفيت ديكھى تو انتہائي متاثر ہوا، اس كے انسانى جذبات ميں حركت پيدا ہوئي، اس نے پيغمبر اكرم (ص) سے عرض كيا: آپ كى يہ حالت و كيفيت ہمارے لئے بہت ہى ناگوار ہے آپ آرام كرتے تو ہمارے لئے بہتر ہوتا، يہ كہہ كر وہ وہاں سے چل پڑااور'' روحاء'' كے مقام پر ابو سفيان كے لشكر سے ملا، ابو سفيان نے اس سے پيغمبر اسلام (ص) كے بارے ميں سوال كيا تو اس نے جواب ميں كہا: ميں نے محمد (ص) كو ديكھا ہے كہ وہ ايسا عظيم لشكر لئے ہوئے تمہارا تعاقب كرہے ہيں ايسا لشكر ميں نے كبھى نہيں ديكھا او رتيزى سے آگے بڑھ رہے ہيں _

ابوسفيان نے اضطراب اور پريشانى كے عالم ميں كہا : تم كيا كہہ رہے ہو؟ہم نے انہيں قتل كيا زخمى كيا اور منتشر كر كے ر كھ ديا تھا ،معبد خزاعى نے كہا: ميں نہيں جانتا كہ تم نے پايا كيا ہے ،ميں تو صرف يہ جانتا ہوں كہ ايك عظيم اور كثير لشكر اس وقت تمہارا تعاقب كر رہا ہے _

ابو سفيان اور اسكے سا تھيوں نے قطعى فيصلہ كر ليا كہ وہ تيزى سے پيچھے كى طرف ہٹ جا ئيں اور مكہ كى طرف پلٹ جا ئيں اور اس مقصد كے لئے كہ مسلمان ان كا تعاقب نہ كريں اور انہيں پيچھے ہٹ جا نے كا كا فى مو قع مل جا ئے ، انہوں نے قبيلہ عبد القيس كى ايك جما عت سے خواہش كى كہ وہ پيغمبر اسلا م (ص) اور مسلما نوں تك يہ خبر پہنجا ديں كہ ابو سفيان اور قريش كے بت پر ست با قى ماندہ اصحا ب پيغمبر (ص) كے ختم كرنے كے لئے ايك عظيم لشكر كے ساتھ تيزى سے مدينہ كى طرف آ رہے ہيں ، يہ جما عت گندم خريد نے كے لئے مدينہ جا رہى تھى جب يہ اطلاع پيغمبر اسلام (ص) اور مسلما نوں تك پہنچى تو انہوں نے كہا :''حسبنا اللہ و نعم الو كيل'' (خدا ہمارے لئے كافى ہے اور وہ ہمارا بہترين حامى اور مدافع ہے )_

انہوں نے بہت انتظار كيا ليكن دشمن كے لشكر كى كو ئي خبر نہ ہو ئي ، لہذا تين روز توقف كے بعد ،وہ

۵۳۷

مدينہ كى طرف لوٹ گئے_

كھوكھلى باتيں

جنگ بدر ميں بعض مسلمانوں كى پر افتخا ر شہادت كے بعد بعض مسلمان جب باہم مل بيٹھتے تو ہميشہ شہادت كى آرزو كرتے اور كہتے كاش يہ اعزاز ميدان بدر ميں ہميں بھى نصيب ہوجا تا ،يقينا ان ميں كچھ لوگ سچے بھى تھے ليكن ان ميں ايك جھوٹا گروہ بھى تھا جس نے اپنے آپ كو سمجھنے ميں غلطى كى ،بہر حال زيادہ وقت نہيں گزرا تھا كہ جنگ احد كا وحشتناك معركہ در پيش ہوا تو ان سچے مجا ہدين نے بہادرى سے جنگ كى اور جام شہادت نوش كيا اور اپنى آرزوكو پا ليا ليكن جھوٹوں كے گروہ نے جب لشكر اسلام ميں شكست كے آثار ديكھے تو وہ قتل ہونے كے ڈر سے بھاگ كھڑے ہوئے تو يہ قران انہيں سرزنش كرتے ہوئے كہتا ہے كہ'' تم ايسے لوگ تھے كہ جو دلوں ميں آرزو اور تمنائے شہادت كے دعويدار تھے، پھرجب تم نے اپنے محبوب كو اپنى آنكھوں كے سامنے ديكھا تو كيوں بھاگ كھڑے ہوئے''_(۱)

حضرت على عليہ السلام كے زخم

امام باقر عليہ السلام سے اس طرح منقول ہے:حضرت على عليہ السلام كو احد كے دن اكسٹھ زخم لگے تھے اور پيغمبر (ص) نے ''ام سليم'' اور ''ام عطيہ'' كو حكم ديا كہ ہ دونوں حضرت على عليہ السلام كے زخموں كا علاج كريں ،تھوڑى ہى دير گذرى تھى كہ وہ حالت پريشانى ميں آنحضرت(ص) كى خدمت ميں عرض كرنے لگے: كہ حضرت على عليہ السلام كے بدن كى كيفيت يہ ہے كہ ہم جب ايك زخم باندھتے ہيں تو دوسرا كھل جا تاہے اور ان كے بدن كے زخم اس قدرزيادہ اور خطرناك ہيں كہ ہم ان كى زندگى كے بارے ميں پريشان ہيں تو حضرت رسول خدا (ص) اور كچھ ديگر مسلمان حضرت على عليہ السلام كى عيادت كے لئے ان كے گھرآئے جب كہ ان

____________________

(۱)سورہ ال عمران ايت ۱۶۳

۵۳۸

كے بدن پر زخم ہى زخم تھے پيغمبراكرم (ص) اپنے دست مبارك ان كے جسم سے مس كرتے تھے اور فرماتے تھے كہ جو شخص راہ خدا ميں اس حالت كو ديكھ لے وہ اپنى ہى ذمہ دارى كے آخرى درجہ كو پہنچ چكا ہے اور جن جن زخموں پرآپ(ص) ہاتھ ركھتے تھے وہ فوراًمل جاتے تھے تواس وقت حضرت على عليہ السلام نے فرمايا: الحمدا للہ كہ ان حالات ميں جنگ سے نہيں بھا گا اوردشمن كو پشت نہيں دكھائي خدا نے ان كى كو شش كى قدر دانى كي_

ہم نے شكست كيوں كھائي ؟

كا فى شہيد دےكر اور بہت نقصان اٹھا كر جب مسلمان مدينہ كى طرف پلٹ آئے تو ايك دوسرے سے كہتے تھے كہ كيا خدانے ہم سے فتح و كاميابى كا وعدہ نہيں كيا تھا،پھر اس جنگ ميں ہميں كيوں شكست ہوئي ؟اسى سے قران ميں انہيں جواب ديا گيا اور شكست كے اسباب كى نشاندہى كى گئي_(۱)

قرآن كہتا ہے كہ كاميابى كہ بارے ميں خدا كا وعدہ درست تھا اور اس كى وجہ ہى سے تم ابتداء جنگ ميں كامياب ہوئے اور حكم خدا سے تم نے دشمن كو تتر بتر كر ديا كاميا بى كا يہ وعدہ اس وقت تك تھا جب تك تم استقامت اور پائيدارى اور فرمان پيغمبرى (ص) كى پيروى سے دست بردار نہيں ہو ئے اور شكست كا دروازہ اس وقت كھلا جب سستى اور نا فرمائي نے تمہيں آگھيرا ،يعنى اگر تم نے يہ سمجھ ركھا ہے كہ كا ميابى كا وعدہ بلا شرط تھا تو تمہارى بڑ ى غلط فہمى ہے بلكہ كاميابى كے تمام وعدے فرمان خدا كى پيروى كے ساتھ مشروط ہيں _

عمومى معافى كا حكم

جو لوگ واقعہ احد كے دوران جنگ سے فرار ہوگئے تھے وہ پيغمبر اكرم (ص) كے گرد جمع ہوگئے اور انہوں نے ندامت وپشيمانى كے عالم ميں معافى كى درخواست كى تو خدا ئے تعالى نے پيغمبر اكرم (ص) سے انہيں عام معافى دينے كے لئے فرمايا لہذا حكم الہى نازل ہوتے ہى آپ نے فراخ دلى سے توبہ كرنے والے خطا كاروں كو معاف كرديا _

____________________

(۱)ال عمران ايت ۱۵۲

۵۳۹

قرآن ميں پيغمبر اكرم(ص) (ص) كى ايك بہت بڑى اخلاقى خوبى كى طرف اشارہ كيا گيا ہے كہ تم پروردگار كے لطف وكرم كے سبب ان پر مہربان ہوگئے اور اگر تم ان كے لئے سنگدل،سخت مزاج اور تند خو ہوتے اور عملا ًان پر لطف وعنايت نہ كرتے تو وہ تمہارے پاس سے بكھر جاتے _ اس كے بعد حكم ديا گيا كہ'' ان كى كوتاہيوں سے درگزر فرمايئےور انہيں اپنے دامن عفو ميں جگہ ديجئے''_(۱)

يعنى اس جنگ ميں انہوں نے جو بے وفائياں آپ سے كى ہيں اور جو تكا ليف اس جنگ ميں آپ كو پہنچائي ہيں ، ان كے لئے ان كى مغفرت طلب كيجئے اور ميں خود ان كے لئے تم سے سفارش كرتا ہوں كہ انہوں نے ميرى جو مخالفتيں كى ہيں ،مجھ سے ان كى مغفرت طلب كرو دوسرے لفظوں ميں جو تم سے مربوط ہے اسے تم معاف كردو اورجو مجھ سے ربط ركھتا ہے اسے ميں بخش ديتا ہوں ، آنحضرت (ص) نے فرمان خدا پر عمل كرتے ہوئے ان تمام خطا كاروں كو عام معافى دےدى _(۲)

پيغمبر اكرم (ص) شہداء سے مخاطب

ابن مسعود پيغمبر اكرم (ص) سے روايت كرتے ہيں : خدا نے شہداء بدرواحد كى ارواح كو خطاب كرتے ہوئے ان سے پوچھا كہ تمہارى كيا آرزو ہے تو انہوں نے كہا : پروردگارا ہم اس سے زيادہ كيا آرزو كرسكتے ہيں كہ ہم ہميشہ كى نعمتوں ميں غرق ہيں اور تيرے عرش كے سائے ميں رہتے ہيں ، ہمارا تقاضا صرف يہ ہے كہ ہم دوبارہ دنيا كى طرف پلٹ جائيں اور پھر سے تيرى راہ ميں شہيد ہوں ، اس پر خدا نے فرمايا : ميرااٹل فيصلہ ہے كہ كوئي شخص دوبارہ دنيا كى طرف نہيں پلٹے گا _

____________________

(۱) سورہ آل عمران آيت۱۵۹

(۲)واضح رہے كہ عفو ودر گزر كرنے كے لئے يہ ايك اہم اور بہت مناسب موقع تھا اور اگر آپ ايسانہ كرتے تو لوگوں كے بكھرجانے كےلئے فضا ہموار تھى وہ لوگ جو اتنى برى شكست كا سامناكر چكے تھے اور بہت سے مقتول ومجروح پيش گرچكے تھے (اگرچہ يہ سب كچھ ان كى اپنى غلطى سے ہواتا ہم ) ايسے لوگوں كو محبت ، دلجوئي اور تسلى كى ضرورت تھى تاكہ ان كے دل اور جسم كے زخم پر مرہم لگ سكے اور وہ ان سے جانبرہوكر آئندہ كے معركوں كےلئے تيار ہوسكيں

۵۴۰

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667